تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الکهف

۱۔۔۔  یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ تعریف اور شکر کا مستحق وہ ہی خدا ہو سکتا ہے جس نے اپنے مخصوص و مقرب ترین بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سب سے اعلیٰ و اکمل کتاب اتاری اور اس طرح زمین والوں کو سب سے بڑی نعمت سے مشرف و ممتاز فرمایا۔ بیشک اس کتاب میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ عبارت انتہائی سلیس و فصیح، اسلوب بیان نہایت موثر و شگفتہ، تعلیم نہایت متوسط و معتدل جو ہر زمانہ اور ہر طبیعت کے مناسب اور عقل سلیم کے بالکل مطابق ہے۔ کسی قسم کی افراط و تفریط کا اس میں شائبہ نہیں۔

۲۔۔۔  یعنی تکذیب کرنے والوں پر جو سخت آفت دنیا یا آخرت میں خداوند قہار کی طرف سے آنے والی ہے اس سے یہ کتاب آگاہ کرتی ہے۔

(تنبیہ) قَیِّمًا کو بعض نے بمعنی مستقیم لے کر محض مضمون سابق کی تاکید قرار دی ہے یعنی کتنا ہی غور کرو ایک بال برابر کجی نہیں پاؤ گے مگر فراء نے اس لفظ کے معنی کیے ہیں" قیماً علیٰ سائر الکتب السماویہ" یعنی تمام کتب سماویہ کی صحت و تصدیق پر مہر کرنے والی اور ان کی اصولی تعلیمات کو دنیا میں قائم رکھنے والی۔ ابو مسلم نے کہا" قیمًا بمصالح العباد" بندوں کی تمام مصالح کی متکفل اور ان کی معاش و معاد کو درست کرنے والی۔ بہرحال جو معنی بھی لیے جائیں اس کی صداقت میں شبہ نہیں۔

۳۔۔۔  بظاہر اس سے مراد آخرت کا بدلہ یعنی جنت ہے جہاں مومنین قانتین کو دائمی خوشی اور ابدی راحت ملے گی۔

۴۔۔۔  خدا کے لیے اولاد تجویز کرنے میں سب سے زیادہ مشہور اور پیش پیش تو نصاریٰ ہیں اور جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان ہی سے حاملین قرآن کو قیامت تک زیادہ سابقہ پڑنا ہے۔ تاہم عموم الفاظ میں بعض فِرق یہود جو عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا، یا بعض مشرکین جو ملائکۃ اللّٰہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے وہ بھی داخل ہو گئے۔ گویا اس جگہ اولاد تجویز کرنے والے کافروں کو بالخصوص اور نصاریٰ کو اخص خصوص کے طور پر متنبہ کیا گیا ہے۔

 ۵۔۔۔  یعنی کوئی تحقیق اور علمی اصول ان کے ہاتھ میں نہیں نہ ان کے باپ دادوں کے ہاتھ میں تھا۔ جن کی اندھی تقلید میں ایسی بھاری بات زبان سے نکال رہے ہیں۔ گویا خداوند تعالیٰ کی شان قدوسیت و سبوحیت کی ان لوگوں کو کچھ خبر نہیں جو اس کی جناب میں ایسی گستاخیاں کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ دلائل و براہین کی جگہ ان کے ذخیرہ میں یہ ہی باقی رہ گیا ہے کہ زبان سے ایک جھوٹی اور بدیہ البطلان بات کہتے چلے جائیں اور جب ثبوت مانگو تو کہہ دیں کہ یہ مذہب کا ایک راز ہے جس کے ادراک تک عقل انسانی کی رسائی نہیں۔

۶۔۔۔   یعنی اگر یہ کافر قرآن کی باتوں کو نہ مانیں تو آپ ان کے غم میں اپنے کو بالکل گھلائیے نہیں۔ آپ تبلیغ و دعوت کا فرض ادا کر چکے اور کر رہے ہیں، کوئی نہ مانے تو آپ کو اس قدر دل میں گھٹنے اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ پچھتانا مناسب ہے، کہ ہم نے ایسی کوشش کیوں کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ آپ تو بہرحال کامیاب ہیں۔ دعوت و تبلیغ اور شفقت و ہمدردی خلائق کے جو کام کرتے ہیں وہ آپ کے رفع مراتب اور ترقی مدارج کا ذریعہ ہیں۔ اشقیاء اگر قبول نہ کریں تو ان ہی کا نقصان ہے۔

۷۔۔۔  یعنی اس کی رونق پر دوڑتا ہے یا اسے چھوڑ کر آخرت کو پکڑتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابن عمر نے سوال کیا یا رسول اللہ "اَحْسَنُ عَمَلاً" کون لوگ ہیں؟ فرمایا "اَحْسَنُکُمْ عَقْلاً وَّاَوْرَعُکُمْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ وَاَسْرَعُکُمْ فِیْ طَاعَتِہٖ سُبْحَانَہٗ " (جس کی سمجھ اچھی ہو، حرام سے زیادہ پرہیز کرے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف زیادہ جھپٹے)

۸۔۔۔  یعنی ایک روز سب گھاس پھونس درخت وغیرہ چھانٹ کر زمین کو چٹیل میدان بنا دیا جائے گا۔ جو لوگ اس کے بناؤ سنگار پر ریجھ رہے ہیں وہ خوب سمجھ لیں کہ یہ زرق برق کوئی باقی رہنے والی چیز نہیں۔ دنیا کے زمینی سامان خواہ کتنے ہی جمع کر لو اور مادی ترقیات سے ساری زمین کو لالہ و گلزار بنا دو، جب تک آسمانی اور روحانی دولت سے تہی دست رہو گے، حقیقی سرور و طمانیت اور ابدی نجات و فلاح سے ہم آغوش نہیں ہو سکتے۔ آخری اور دائمی کامیابی انہی کے لیے ہے جو مولائے حقیقی کی خوشنودی پر دنیا کی ہر ایک زائل و فانی خوشی کو قربان کر سکتے ہیں اور راہ حق کی جادہ پیمائی میں کسی صعوبت سے نہیں گھبراتے نہ دنیا کے بڑے بڑے طاقتور جباروں کی تخویف و ترہیب سے ان کا قدم ڈگمگاتا ہے۔ اسی سلسلہ میں آگے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تسلی بھی کر دی کہ آپ ان بدبختوں کے غم میں اپنے کو نہ گھلائیے۔ جس دنیا کی زندگی اور عیش و بہار پر مغرور ہو کر یہ حق کو ٹھکراتے ہیں وہ سب کاٹ چھانٹ کر برابر کر دی جائے گی اور آخرکار سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہو گا۔ اس وقت سارے جھگڑے چکا دیئے جائیں گے۔

۹۔۔۔  یعنی حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کے لحاظ سے اصحاب کہف کا قصہ جو آگے مذکور ہے کوئی اچنبھا نہیں جسے حد سے زیادہ عجیب سمجھا جائے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج وغیرہ کا پیدا کرنا، ان کا محکم نظام قائم رکھنا، انسان ضعیف البنیان کو سب پر فضیلت دینا، انسانوں میں انبیاء کا بھیجنا، ان کی قلیل و بے سر و سامان جماعتوں کو بڑے بڑے متکبرین کے مقابلہ میں کامیاب بنانا، خاتم الانبیاء اور رفیق غار حضرت ابوبکر صدیق کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر "غار ثور" میں تین روز ٹھہرانا، کفار کا غار کے منہ تک تعاقب کرنا پھر انکو بے نیل و  مرام واپس لوٹانا آخر گھر بار چھوڑنے والے مٹھی بھر بے سر و سامانوں کو تمام جزیرۃ العرب بلکہ مشرق و مغرب میں اس قدر قلیل مدت کے اندر غالب و منصور کرنا، کیا یہ اور اس قسم کی بیشمار چیزیں "اصحاب کہف کے قصہ سے کم عجیب ہیں؟ اصل یہ ہے کہ یہود نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے آزمائش کے لیے تین سوال کریں۔ روح کیا ہے؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا تھا؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا تھی؟ اصحاب کہف کے قصہ کو عجیب ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خاص اہمیت دی تھی۔ اسی لیے اس آیت میں بتلایا گیا کہ وہ اتنا عجیب نہیں جیسے تم سمجھتے ہو، اس سے کہیں بڑھ کر عجیب و غریب نشاناتِ قدرت موجود ہیں۔ آگے "اصحاب کہف" کا قصہ اول مجملاً پھر مفصلاً بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ چند نوجوان روم کے کسی ظالم و جابر بادشاہ کے عہد میں تھے، جس کا نام بعض نے "دقیانوس" بتلایا ہے۔ بادشاہ سخت غالی بت پرست تھا اور جبر و اکراہ سے بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا۔ عام لوگ سختی اور تکلیف کے خوف اور چند روزہ دنیاوی منافع کی طمع سے اپنے مذاہب کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرنے لگے اور اس وقت چند نوجوانوں کے دلوں میں جن کا تعلق عمائدین سلطنت سے تھا، خیال آیا کہ ایک مخلوق کی خاطر خالق کو ناراض کرنا ٹھیک نہیں۔ ان کے دل خشیت الٰہی اور نور تقویٰ سے بھرپور تھے۔ حق تعالیٰ نے انہیں صبر و استقلال اور توکل و تبتل کی دولت سے انہیں مالامال کیا تھا۔ بادشاہ کے روبرو جا کر بھی انہوں نے "لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلٰہًا لَّقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا" کا نعرہ مستانہ لگایا اور ایمانی جرأت و استقلال کا مظاہرہ کر کے دیکھنے والوں کو مبہوت و حیرت زدہ کر دیا۔ بادشاہ کو کچھ ان کی نوجوانی پر رحم آیا اور کچھ دوسرے مشاغل و مصالح مانع ہوئے کہ انہیں فوراً قتل کر دے۔ چند روز کی مہلت دی کہ وہ اپنے معاملہ میں غور و نظر ثانی کر لیں۔ انہوں نے مشورہ کر کے طے کیا کہ ایسے فتنہ کے وقت جب کہ جبرو تشدد سے عاجز ہو کر قدم ڈگمگا جانے کا بہرحال خطرہ ہے مناسب ہو گا کہ شہر کے قریب کسی پہاڑ میں رو پوش ہو جائیں (اور واپسی کے لیے مناسب موقع کا انتظار کریں) دعا کی کہ خداوندا تو اپنی خصوصی رحمت سے ہمارا کام بنا دے اور رشد و ہدایت کی جادہ پیمائی میں ہمارا سب انتظام درست کر دے۔ آخر شہر سے نکل کر کسی قریبی پہاڑ میں پناہ لی اور اپنے میں سے ایک کو مامور کیا کہ بھیس بدل کر کسی وقت شہر میں جایا کرے تاکہ ضروریات خرید کر لا سکے اور شہر کے احوال و اخبار سے سب کو مطلع کرتا رہے۔ جو شخص اس کام پر مامور تھا اس نے ایک روز اطلاع دی کہ آج شہر میں سرکاری طور پر ہماری تلاش ہے اور ہمارے اقارب و اعزہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہمارا پتہ بتلائیں۔ یہ مذاکرہ ہو رہا تھا کہ حق تعالیٰ نے ان سب پر دفعۃً نیند طاری کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری آدمیوں نے بہت تلاش کیا پتہ نہ لگا۔ تھک کر بیٹھ رہے اور بادشاہ کی رائے سے ایک سیسہ کی تختی پر ان نوجوانوں کے نام اور مناسب حالات لکھ کر خزانہ میں ڈال دیئے گئے تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ ایک جماعت حیرت انگیز طریقہ سے لا پتہ ہو گئی ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اس کا کچھ سراغ نکلے۔ اور بعض عجیب واقعات کا انکشاف ہو۔ یہ نوجوان کس مذہب پر تھے؟ اس میں اختلاف ہوا ہے بعض نے کہا کہ نصرانی یعنی اصل دین مسیحی کے پیرو تھے۔ لیکن ابن کثیر نے قرائن سے اس کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کا ہے واللہ اعلم (تنبیہ) "رقیم" پہاڑی کی کھوہ کو کہتے ہیں اور بمعنی "مرقوم" بھی آتا ہے یعنی لکھی ہوئی چیز۔ مسند عبد بن حُمَید کی ایک روایت میں جسے حافظ نے علیٰ شرط البخاری کہا ہے، ابن عباس سے "رقیم" کے دوسرے معنی منقول ہیں۔ یعنی "اصحاب کہف" اور "اصحاب رقیم" ایک ہی جماعت کے دو لقب ہیں۔ غار میں رہنے کی وجہ سے "اصحاب کہف" کہلاتے ہیں اور چونکہ ان کے نام و صفت وغیرہ کی تختی لکھ کر رکھ دی گئی تھی، اس لیے "اصحاب رقیم" کہلائے۔ مگر مترجم محقق رحمہ اللہ نے پہلے معنی لیے ہیں اور بہر صورت "اصحاب کہف" و "اصحاب رقیم" کو ایک ہی قرار دیا ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ "اصحاب رقیم" کا قصہ قرآن میں مذکور نہیں ہوا، محض عجیب ہونے کے لحاظ سے اصحاب کہف کے تذکرہ میں اس کا حوالہ دے دیا گیا۔ اور فی الحقیقت اصحاب رقیم (کھوہ والے) وہ تین شخص ہیں جو بارش سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اوپر سے ایک بڑا پتھر آ پڑا، جس نے غار کا منہ بند کر دیا اس وقت ان میں سے ہر شخص نے اپنی عمر کے مقبول ترین عمل کا حوالہ دے کر حق تعالیٰ سے فریاد کی اور بتدریج غار کا منہ کھل گیا۔ امام بخاری نے اصحاب کہف کا ترجمہ منعقد کرنے کے بعد حدیث الغار کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس میں ان تین شخصوں کا قصہ مفصل درج کر کے شاید اسی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ "اصحاب رقیم" یہ لوگ ہیں۔ طبرانی اور بزار نے باسنادِ حسن نعمان بن بشیر سے مرفوعاً روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم "رقیم" کا ذکر فرماتے تھے اور یہ قصہ تین شخصوں کا بیان کیا۔ واللہ اعلم۔

۱۱۔۔۔  یعنی ایسی تھپکی دی کہ برسوں غار میں پڑے سوتے رہے۔ ادھر ادھر کی کوئی خبر ان کے کانوں میں نہیں پڑتی تھی۔

۱۲۔۔۔  سالہا سال کے بعد حق تعالیٰ نے ان کو جگا دیا۔ تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اختلاف کرنے والوں میں سے کسی نے ان کی مدتِ نوم کا زیادہ صحیح اندازہ رکھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی نوم طویل کے بعد جب بیدار ہوئے تو قدرتی طور پر خود سونے والوں میں اور دوسرے دیکھنے والوں میں بھی اختلافات اور چہ میگوئیاں ہوں گی کوئی کم مدت بتلائے گا کوئی زیادہ۔ کوئی اقرار کرے گا۔ کوئی مستبعد سمجھ کر انکار کر دے گا تو انہیں جگا کر یہ دیکھنا تھا کہ کون سی جماعت ٹھیک حقیقت پر پہنچتی ہے اور اس حقیقت پر پہنچ کر "بعث بعد الموت" کا عقدہ حل کرتی ہے جس میں اس وقت لوگ جھگڑ رہے تھے۔

۱۳۔۔۔  یعنی ایمان سے زیادہ درجہ دیا اولیاء کا۔

۱۴۔۔۔  ۱: یعنی مضبوط و ثابت قدم رکھا کہ اپنی بات صاف کہہ دی۔

۲:  یعنی جب "رب" وہ ہی ہے تو معبود کسی اور کو ٹھہرانا حماقت ہے۔ "ربوبیت" و "الوہیت" دونوں اسی کے لیے مخصوص ہیں۔

۱ ۵۔۔۔   جیسے موحدین توحید پر صاف صاف دلیلیں پیش کرتے ہیں، اگر مشرکین اپنے دعوے میں سچے ہیں تو کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔ لائیں کہاں سے؟ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ خدا کے شریک ٹھہرائے جائیں۔

۱۶۔۔۔  یعنی جب مشرکین کے دین سے ہم علیحدہ ہیں تو ظاہری طور پر بھی ان سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ اور جب ان کے باطل معبودوں سے کنارہ کیا تو ہر طرف سے ٹوٹ کر تنہا اپنے معبود کی طرف جھکنا اور اسی سے رحمت و تلطف کا امیدوار رہنا چاہیے۔ آپس میں یہ مشورہ کر کے پہاڑی کی کھوہ میں جا بیٹھے۔

۱۷۔۔۔  ۱: یعنی خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ایسے ٹھکانے کی طرف راہنمائی کی جہاں مامون و مطمئن ہو کر آرام کرتے رہیں نہ جگہ کی تنگی سے جی گھٹے، نہ کسی وقت دھوپ ستائے۔ غار اندر سے کشادہ اور ہوا دار تھا اور جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا شمال رویہ ہونے کی وجہ سے ایسی وضع و ہئیت پر واقع تھا جس میں دھوپ بقدر ضرورت پہنچتی اور بدون ایذاء دئیے نکل جاتی تھی۔

۲:  یعنی ظاہری و باطنی راہنمائی سب اسی کے قبضہ میں ہے۔ دیکھ لو جب دنیا بچل رہی تھی کس طرح اصحاب کہف کو راہِ ہدایت پر ثابت قدم رکھا اور ظاہری طور پر بھی کیسے عجیب غار کی راہ بتلائی۔

۱۸۔۔۔  کہتے ہیں سوتے میں ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں اور اس قدر طویل نیند کا اثر ان کے ابدان پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس سے کوئی دیکھے تو سمجھے جاگتے ہیں اور حق تعالیٰ نے ان لوگوں میں شان ہیبت و جلال اور اس مکان میں دہشت رکھی تاکہ لوگ تماشہ نہ بنائیں کہ وہ بے آرام ہوں۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی لگ گیا تھا۔ اس پر بھی صحبت کا کچھ اثر پہنچا اور صدیوں تک زندہ رہ گیا۔ اگرچہ کتا رکھنا برا ہے لیکن لاکھ بروں میں ایک بھلا بھی ہے۔ وللہ دَرُّ السعدی الشیرازی

پسرِ نوح بابداں بنشست خاندانِ نبوتش گم شد

سگِ اصحاب کہف روزے چند پئے نیکاں گرفت مردم شد

۲۰۔۔۔  جس طرح اپنی قدرت سے اتنی لمبی نیند سلایا تھا، اسی طرح بروقت جگا دیا۔ اٹھے تو آپس میں مذاکرہ کرنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ بعض نے کہا "ایک آدھ دن۔" یعنی بہت کم۔ دوسرے بولے کہ (اس بے فائدہ بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ؟) یہ تو خدا ہی کے علم میں ہے کہ ہم کتنی مدت سوئے۔ اب تم اپنا کام کرو۔ ایک آدمی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو کہ وہ کسی دکان سے حلال اور ستھرا کھانا دیکھ کر خرید لائے۔ یہ ضروری ہے کہ اسے نہایت ہوشیاری سے جانا آنا اور نرمی و تدبیر سے معاملہ کرنا چاہیے کہ کسی شہر والے کو ہمارا پتہ نہ لگے، ورنہ بڑی سخت خرابی ہو گی۔ اگر ظالم بادشاہ کو پتہ چل گیا تو ہم کو یا سنگسار کیا جائے گا یا بجبر و اکراہ دین حق سے ہٹایا جائے گا۔ العیاذ باللہ ایسا ہوا تو جو اعلیٰ کامیابی و فلاح ہم چاہتے ہیں، وہ کبھی حاصل نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ دین حق سے پھر جانا گو بجبر و اکراہ ہو اولو العزم مومنین کا کام نہیں ہو سکتا

(تنبیہ) میرے نزدیک "یَوْماً اَوْبَعْضَ یَوْمٍ" محض تقلیل مدت سے کنایہ ہے۔ نیند سے اٹھ کر اتنی طویل مدت بھی ان کو قلیل محسوس ہوئی۔ سچ ہے "مردہ اور سوتا برابر ہے" "یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ" کا حرف "اَوْ" کے ساتھ استعمال ایسا سمجھو جیسے سورہ مؤمنون میں ہے "کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَسِنِیْنَ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَآدِّیْنَ" (مؤمنون، رکوع۶، آیت:۱۱۲،۱۱۳)

۲۱۔۔۔  ۱: ایک ان میں سے روپیہ لے کر شہر میں داخل ہوا۔ وہاں سب چیز اوپری دیکھی۔ اس مدت میں کئی قرن بدل چکے تھے۔ شہر کے لوگ اس روپیہ کا سکہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس بادشاہ کا نام ہے اور کس عہد کا ہے۔ سمجھے کہ اس شخص نے کہیں سے پرانا گڑا ہوا مال پا لیا ہے۔ شدہ شدہ معاملہ بادشاہ تک پہنچا۔ اس نے وہ پرانی تختی طلب کی جس پر چند نام اور پتے لکھے تھے کہ یہ لوگ دفعۃً نامعلوم طریقے سے فلاں سنہ میں غائب ہو گئے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ یہ وہی مفقود الخبر جماعت ہے۔ اس وقت شہر میں "بعث بعد الموت" کے متعلق بڑا جھگڑا ہو رہا تھا کوئی کہتا تھا کہ مرنے کے بعد جینا نہیں کوئی کہتا تھا کہ محض روحانی بعث ہے جسمانی نہیں۔ کوئی معاد روحانی و جسمانی دونوں کا قائل تھا۔ بادشاہ وقت حق پرست اور منصف تھا، چاہتا تھا کہ ایک طرف کی کوئی ایسی نظیر ہاتھ لگے جس سے سمجھانے میں آسانی رہے اور استبعادِ عقلی کم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظیر بھیج دی۔ آخر منکرین آخرت بھی یہ حیرت انگیز ماجرا دیکھنے سننے کے بعد آخرت پر یقین لائے۔ یہ نظارہ خاص طور پر ان کی طبائع پر اثر انداز ہوا سمجھے کہ حق تعالیٰ نے ہم کو تنبیہ کی ہے کہ یہ قصہ بھی دوسری بار جینے سے کم نہیں۔

(تنبیہ) بعض نے "اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَہُمْ اَمْرَہُمْ" کا مطلب یہ لیا ہے کہ حق تعالیٰ نے اصحاب کہف کے حال سے لوگوں کو اس وقت آگاہ کیا جب کہ اصحاب کہف کے متعلق چرچے اور جھگڑے ہو رہے تھے کہ وہ چند نوجوان جنہیں مدت دراز سے سنتے آئے ہیں کہ یک بیک غائب ہو گئے تھے پھر کچھ پتہ نہ چلا کہاں گئے ہوں گے؟ کہاں ان کی نسل پھیلی ہو گی؟ اب تک زندہ تو کیا ہوتے۔ سب مر گل کر برابر ہو گئے ہوں گے؟ اس مسئلہ میں کوئی کچھ کہتا تھا دوسرا کچھ خیال ظاہر کرتا تھا کہ دفعۃً حق تعالیٰ نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ اور سب اختلافات ختم کر دیے۔

۲:  یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد اصحاب کہف زندہ رہے یا انتقال کر گئے؟ انتقال ہوا تو کب ہوا، زندہ رہے تو کب تک رہے یا کب تک رہیں گے۔ بہرحال اہل شہر نے ان کے عجیب و غریب احوال پر مطلع ہو کر فرط عقیدت سے چاہا کہ اس غار کے پاس کوئی مکان بطور یادگار تعمیر کر دیں جس سے زائرین کو سہولت ہو۔ اس میں اختلاف رائے ہوا ہو گا کہ کس قسم کا مکان بنایا جائے۔ اس اختلاف کی تفاصیل تو خدا ہی کو معلوم ہیں اور یہ بھی اس کے علم میں ہے کہ یہ تجویز ان کی موت کے بعد ہوئی یا اس سے قبل دوبارہ نیند طاری ہونے کی حالت میں اور لوگوں کو غار تک پہنچ کر ان کی ملاقات میسر ہو سکی یا نہیں۔ تاہم جو با رسوخ اور ذی اقتدار لوگ تھے ان کی رائے یہ قرار پائی کہ غار کے پاس عبادت گاہ تعمیر کر دی جائے۔ اصحاب کہف کی نسبت بجز اس کے پکے موحد اور متقی تھے، یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کس نبی کی شریعت کے پیرو تھے۔ لیکن جن لوگوں نے معتقد ہو کر وہاں مکان بنایا وہ نصاریٰ تھے۔ ابو حیان نے "بحر محیط" میں اصحاب کہف کا مقام متعین کرنے کے لیے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ من شاء فلیراجعہ۔

۲۲۔۔۔  ۱: یعنی سامعین "اصحاب کہف" کا قصہ سن کر جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، اٹکل کے تیر چلائیں گے، کوئی کہے گا کہ وہ تین تھے چوتھا کتا تھا، کوئی پانچ بتلا کر چھٹا کتے کو شمار کرے گا۔ لیکن یہ سب اقوال ایسے ہیں جیسے کوئی بے نشانہ دیکھے پتھر چلاتا رہے۔ ممکن ہے مختلف باتیں کہنے سے جہل کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان کرنا بھی مقصود ہو کہ دیکھیں یہ اس معاملہ میں کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ احتمال ہے کہ یہود نے ان کو صحیح تعداد سات کی بتلائی ہو جس کی طرف آگے قرآن نے اشارہ کیا ہے۔

۲:  یعنی اس قسم کی غیر معتدبہ باتوں میں زیادہ جھگڑنا لاحاصل ہے۔ عدد کے معلوم ہونے سے کوئی اہم مقصد متعلق نہیں۔ جتنی بات خدا نے بتلا دی اس سے زیادہ تحقیق کے درپے ہونا یا جس قدر تردید خدا تعالیٰ کر چکا اس سے زیادہ جھگڑنا اور تردید کرنا فضول ہے۔ ابن عباس نے فرمایا میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں (جنہوں نے سیاق قرآنی سے معلوم کر لیا کہ) اصحاب کہف سات ہی تھے۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے پہلے دو قول کو "رجماً بالغیب" فرمایا، تیسرے قول کے ساتھ نہیں فرمایا۔ اس کے علاوہ وہ اسلوب بیان بھی بدلا ہوا ہے پہلے دونوں جملوں میں "واو عطف" نہ تھا، تیسرے میں وَثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ عطف کے ساتھ لانے سے گویا اس پر زور دینا ہے کہ اس قول کا قائل پوری بصیرت و وثوق کے ساتھ واقعہ کی تفصیل سے واقف ہے۔ بعض نے اس کی تائید میں یہ بھی کہا ہے کہ پہلے قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ سے ایک قائل کا ہونا اور قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا الخ سے اس کے سوا کم از کم تین قائلین کا پھر دوسرے قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ الخ سے ان کی علاوہ تین اور قائلین کا ثبوت ملتا ہے۔ اس طرح کم از کم سات آدمی ہونے چاہیں۔ کتا ان کے علاوہ رہا۔

۲۴۔۔۔  اصحاب کہف کا قصہ تاریخی کتابوں میں نادرات میں لکھا تھا، ہر کسی کو کہاں خبر ہو سکتی۔ مشرکین نے یہود کے سکھانے سے حضرت سے پوچھا۔ مقصود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آزمائش تھی، حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ کیا کہ کل بتاؤں گا۔ اس بھروسہ پر کہ جبرائیل آئیں گے تو دریافت کر دوں گا۔ جبرائیل پندرہ دن تک نہ آئے حضرت نہایت غمگین ہوئے۔ مشرکین نے ہنسنا شروع کیا۔ آخر یہ قصہ لے کر آئے اور پیچھے نصیحت کی کہ آئندہ کی بات کے متعلق بغیر "انشاء اللہ" کے وعدہ نہ کرنا چاہیے۔ اگر ایک وقت بھول جائے تو پھر یاد کر کے کہہ لے۔ اور فرمایا کہ امید رکھ کہ تیرا درجہ اللہ اس سے زیادہ کرے یعنی کبھی نہ بھولے (موضح القرآن) یا اصحاب کہف کے واقعہ سے زیادہ عجیب طور پر آپ کی حفاظت فرمائے اور کامیاب کرے جیسا کہ غار ثور کے قصہ میں ہوا۔ یا واقعہ کہف سے زیادہ عجیب واقعات و شواہد آپ کی زبان سے بیان کرائے۔

۲ ۵۔۔۔  یعنی شمسی حساب سے پورے تین سو سال کھوہ میں سوتے رہے اور قمری حساب سے نو سال زیادہ ہوئے (مہینوں اور دنوں کی کسور محسوب نہیں کی گئیں) یا تین سو سال کے بعد ممکن ہے قدرے نیند سے چونکے ہوں پھر سو گئے اور نو سال تک سوتے رہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ تین سو نو سال جاگنے کے بعد سے عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم تک کی مدت بیان فرمائی۔ یعنی لوگوں سے مل ملا کر پھر سو رہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک اتنا عرصہ گزرا واللہ اعلم۔

(لطیفہ) ہمارے زمانہ میں صوبہ زیشوان میں ایک شخص دو سو باون سال کی عمر رکھتا ہے۔ چوبیسویں شادی ابھی حال میں کی ہے۔

۲۶۔۔۔   ۱: جتنی مدت سو کر وہ جاگے تھے، تاریخ والے کئی طرح بتاتے تھے۔ سب سے ٹھیک وہ ہی ہے جو اللہ بتائے۔ آسمان و زمین کے تمام پوشیدہ راز اس کے علم میں ہیں۔ کوئی چیز اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔

۲:  یعنی جس طرح اس کا علم محیط ہے، اس کی قدرت و اختیار بھی سب پر حاوی ہے۔ جیسے غیوب سمٰوات و ارض کے علم میں اس کا کوئی شریک نہیں، اختیارات و قدرت میں بھی کوئی سہیم و شریک نہیں ہو سکتا۔

۲۷۔۔۔  پہلے اصحاب کہف کے قصہ پر فرمایا تھا "فَلَا تُمَارِ فِیْہِمْ اِلَّامِرَآء ظَاہِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا" مطلب یہ ہے کہ بیکار چیزوں میں زیادہ الجھنے اور کاوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے فرض منصبی کی انجام دہی میں مشغول رہیے۔ یعنی جو جامع و مانع اور کافی وشافی کتاب تیرے رب نے مرحمت فرمائی اسے پڑھ کر سناتے رہیے۔ خدا نے جو باتیں اس میں سنائیں اور جو وعدے کیے کوئی طاقت نہیں جو انہیں بدل یا ٹال سکے یا غلط ثابت کر سکے۔ اگر کوئی ان باتوں کو بدلنے کے درپے ہو گا یا اس کتاب کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا وہ خوب سمجھ لے کہ خدا کے مجرم کے لیے کہیں پناہ نہیں۔ ہاں وفاداروں کو پناہ دینے کے لیے اس کی رحمت وسیع ہے۔ دیکھ لو "اصحاب کہف" کو جو خدا کی باتوں پر جمے رہے کیسی اچھی جگہ اپنے فضل سے عنایت فرمائی۔

۲۸۔۔۔  ۱: یعنی اس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائماً عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں، حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں، خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں گو دنیاوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار، صہیب، بلال، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالست سے مستفید کرتے رہیے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے۔

۲:  یعنی ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیا داروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔ اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی اور سایہ کی طرح دھلنے والی ہے، حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے، نہ زوال، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں خدا کو یاد کرنے والوں اور دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔

۳:  یعنی جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر خدا کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں، خدا کی اطاعت میں پیچھے اور ہوا پرستی میں آگے رہنا ان کا شیوہ ہے، ایسے بدمست غافلوں کی بات پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کان نہ دھریں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی دولت مند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔ روایات میں ہے کہ بعض صنادید قریش نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیجئے تاکہ سردار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ سکیں۔ رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولت مند کافروں کو۔ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک میں یہ خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر علیحدہ کر دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ وہ تو پکے مسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ آپ ہرگز ان متکبرین کا کہنا نہ مانیے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ ان میں حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں۔ پھر محض موہوم فائدہ کی خاطر مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے۔ نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کے قلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ اللہ نفرت اور بدگمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زائد ہو گا جو ان چند متکبرین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا ہے۔

۲۹۔۔۔  ۱: یعنی خدا کی طرف سے سچی باتیں سنا دی گئیں، کسی کے ماننے نہ ماننے کی اسے کچھ پروا نہیں۔ جو کچھ نفع نقصان ہو گا تمہارا ہو گا۔ ماننے اور نہ ماننے والے دونوں اپنا اپنا انجام سوچ لیں جو آگے بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا کی چہل پہل محض ہیچ اور فانی ہے۔ اس کا لطف جب ہی ہے کہ فلاح آخرت کا ذریعہ بنے۔ وہاں محض دنیا کا تمول کام نہ دے گا۔ بلکہ جو یہاں شکستہ حال تھے بہت سے وہاں عیش و آرام میں ہوں گے۔

۲:  وہ قناتیں بھی آگ کی ہوں گی۔

۳:  یعنی گرمی کی شدت سے پیاس لگے گی تو العطش پکاریں گے۔ تب تیل کی تلچھٹ یا پیپ کی طرح کا پانی دیا جائے گا۔ جو سخت حرارت اور تیزی کی وجہ سے منہ کو بھون ڈالے گا۔

۴:  یعنی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی کم نہ ہو گی۔ پورا بدلہ دیا جائے گا۔

۳۱۔۔۔  ۱: تاکہ دکھلا دیا جائے کہ اصلی اور دائمی دولت مند کون لوگ ہیں۔ کنگن یا ریشمی کپڑوں اور اسی طرح جنت کی تمام نعمتوں کی خاص کیفیت کو ہم دنیا میں نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ ہماری محسوسات میں اس موطن کی کوئی پوری مثال موجود نہیں۔

۲:  شاید ابرا باریک ریشم کا اور استر دبیز ریشم کا ہو۔ کما یفہم من قولہ تعالیٰ بَطَآئِنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ (رحمن، رکوع۳، آیت:۵۴) یا دونوں قسمیں الگ الگ استعمال کی جائیں۔ واللہ اعلم۔ موضح القرآن میں ہے۔ "حضرت نے فرمایا سونا اور ریشمی کپڑا مردوں کو ملنا ہے بہشت میں۔ جو کوئی یہاں یہ چیزیں پہنے وہاں نہ پہنے گا۔"

۳:  یعنی مسہریوں پر تکیہ لگائے نہایت عزت و آرام سے بیٹھے ہوں گے۔

۳۲۔۔۔  ۱: یہ کافر غنی اور مومن فقیر کی مثال بیان فرمائی، جس کے ضمن میں دنیا کی بے ثباتی، کفر و تکبر کی بد انجامی اور ایمان و تقویٰ کی مقبولیت پر متنبہ کرنا ہے۔ یہ دو شخص جن کی مثال بیان ہوئی واقعی موجود تھے؟ یا محض تفہیم کے لیے مثال فرض کر لی گئی؟ علماء کے اس میں دونوں قول ہیں اور تمثیل کا فائدہ بہرحال حاصل ہے۔

۲:  یعنی باغوں کے گرد باڑھ کھجور کی لگائی اور دونوں باغوں کے درمیان میں زمین چھوڑی جس میں زراعت ہوتی تھی تاکہ غلے اور پھل (قوت اور فواکہ) سب تیار ملیں۔

۳۳۔۔۔  ۱: یعنی یہ نہیں کہ ایک باغ پھلا دوسرا نہ پھلا۔ یا ایک درخت زیادہ آیا دوسرا کم۔

۲:  یعنی باغوں کے درمیان نہر کا پانی قرینہ سے پھر رہا تھا کہ منظر فرحت بخش رہے اور بارش نہ ہو تب بھی باغ وغیرہ خشکی سے خراب نہ ہونے پائے۔

۳۴۔۔۔  ۱: یعنی جو خرچ کیا یا کمائی کی اس کا پھل خوب ملا۔ اور ہر قسم کے سامان عیش و رفاہیت جمع ہو گئے نکاح کیا تو اس کا پھل بھی اچھا پایا اولاد کثرت سے ہوئی۔

۲: یعنی مال و دولت اور جتھا میرے پاس تجھ سے کہیں زائد ہے۔ اگر میں مشرکانہ اطوار اختیار کرنے میں باطل پر ہوتا تو اس قدر آسائش اور فراخی کیوں ملتی۔ اس کے مشرک ہونے کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ آفت آنے کے بعد پچتا کر کہتا تھا "یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْ اَحَدًا" معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غریب ساتھی جو پکا موحد تھا شرک کے باطل ہونے کا اظہار اور شرک سے تائب ہونے کی نصیحت کر رہا ہو گا۔ جس کے جواب میں یہ کہا کہ میں تجھ سے مال میں، جتھے میں،  ہر چیز میں زیادہ ہوں کس طرح یقین کر لوں کہ میں باطل پر ہوں اور تجھ جیسا مفلس قلاش حق پر ہو۔

۳ ۵۔۔۔  یعنی شرک میں مبتلا تھا۔ کبر و غرور کا نشہ دماغ میں بھرا ہوا تھا، دوسروں کو حقیر جانتا تھا، اور خدا کی قدرت و جبروت پر نظر نہ تھی۔ نہ یہ سمجھتا تھا کہ آگے کیا انجام ہونے والا ہے۔ بس یہ ہی باغ اس کی جنت تھی جس کو آپ خیر سے ابدی سمجھتے ہیں۔

۳۶۔۔۔  یعنی اب تو آرام سے گزرتی ہے۔ اور میں نے اب انتظامات ایسے مکمل کر لیے ہیں کہ میری زندگی تک ان باغوں کے تباہ ہونے کا بظاہر کوئی کھٹکا نہیں۔ رہا بعد الموت کا قصہ، سو اول تو مجھے یقین نہیں کہ مرنے کے بعد ہڈیوں کے ریزوں کو دوبارہ زندگی ملے گی؟ اور ہم خدا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یقیناً مجھے یہاں سے بہتر سامان وہاں ملنا چاہیے۔ اگر ہماری حرکات خدا کو ناپسند ہوتیں تو دنیا میں اتنی کشائش کیوں دیتا۔ گویا یہاں کی فراخی علامت ہے کہ وہاں بھی ہم عیش اڑائیں گے۔

۳۸۔۔۔  یعنی جس خدا نے تیری اصل (آدم علیہ السلام) کو بے جان مٹی سے پھر تجھ کو زمینی پیداوار کے خلاصہ اور ایک قطرہ ناچیز سے پیدا کر کے زندگی بخشی اور جسمانی و روحانی قوتیں دے کر ہٹا کٹا مرد بنایا، کیا تجھے انکار ہے کہ وہ تیرے مرے پیچھے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ یا دی ہوئی نعمت چھین نہیں سکتا؟ میرا تو یہ عقیدہ نہیں۔ بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ تنہا ہمارا رب ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی حصہ دار نہیں۔ پھر بھلا اس کے حکم و اختیار کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔

۳۹۔۔۔  یعنی مال تو اللہ کی نعمت ہے۔ پر اترانے اور کفر بکنے سے آفت آتی ہے۔ چاہیے تھا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت "مَااَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ہٰذِہٖ اَبَدًا" کی جگہ "مَاشَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ" کہتا۔ یعنی خدا جو چاہے عطا فرمائے، ہم میں جو کچھ زور و قوت ہے اسی کی امداد و اعانت سے ہے۔ وہ چاہے تو ایک دم میں سلب کر لے۔ روایات میں ہے کہ جب آدمی کو اپنے گھر بار میں آسودگی نظر آئے تو یہ ہی لفظ کہے۔ "مَاشَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

۴۰۔۔۔  دنیا میں یا آخرت میں۔

۴۱۔۔۔  یعنی ایک گرم بگولا اٹھے یا اور کوئی آفت سماوی نازل ہو جو تیرے تکبر و تجبر کی سزا میں باغ کو تہس نہس کر کے صاف چٹیل میدان بنا دے۔ یا نہر کا پانی خشک ہو کر رہ جائے۔ پھر باوجود کوشش کے جاری نہ ہو۔

۴۲۔۔۔   ۱: یعنی کفِ افسوس ملتا رہ گیا۔

۲:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں آخر اس کے باغ پر وہ ہی ہوا جو اس مرد نیک کی زبان سے نکلا تھا۔ رات کو آفت سماوی آگ کی صورت میں آئی۔ سب جل کر ڈھیر ہو گیا۔ مال خرچ کیا تھا پونجی بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔

۳: مگر۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اور یہ افسوس و ندامت بھی خدا سے ڈر کر نہیں، محض دنیاوی ضرر پہنچنے کی بنا پر تھی۔

۴۳۔۔۔  یعنی نہ جتھا کام آیا، نہ اولاد، نہ فرضی معبود جنہیں خدائی کا شریک ٹھہرا رکھا تھا۔ اور نہ خود اپنی ذات میں اتنی طاقت تھی کہ خدا کے عذاب کو روک دیتا یا بدلہ لے سکتا۔

۴۴۔۔۔  یعنی جس عمل کا جو بدلہ کسی کو دے وہ ہی ٹھیک ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ اختیار اسی کا چلتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ میں دخل دے سکے۔

۴ ۵۔۔۔  ۱: یعنی دنیا کی عارضی بہار اور فانی و سریع الزوال تر و تازگی کی مثال ایسی سمجھو کہ خشک اور مردہ زمین پر بارش کا پانی پڑا، وہ یک بیک جی اٹھی، گنجان درخت اور مختلف اجزاء سے رلا ملا سبزہ نکل آیا۔ لہلہاتی کھیتی آنکھوں کو بھلی معلوم ہونے لگی۔ مگر چند روز ہی گزرے کہ زرد ہو کر سوکھنا شروع ہو گئی۔ آخر ایک وقت آیا کہ کاٹ چھانٹ کر برابر کر دی گئی۔ پھر ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑائی گئی۔ یہ ہی حال دنیا کے دیدہ زیب و ابلہ فریب بناؤ سنگار کا سمجھو۔ چند روز کے لیے خوب ہری بھری نظر آتی ہے، آخر میں چورہ ہو کر ہوا میں اڑ جائے گی۔ اور کٹ چھٹ کر سب میدان صاف ہو جائے گا جیسا کہ آگے "وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً" میں اشارہ کیا ہے۔

۲:  یعنی جب چاہے پھر جلا دے (موضح القرآن) یا یہ کہ اگانا اور چورا کر کے اڑا دینا سب اسی کے دست قدرت میں ہے۔

۴۶۔۔۔  یعنی مرنے کے بعد مال و اولاد وغیرہ کام نہیں آتے صرف وہ نیکیاں کام آتی ہیں جن کا اثر یا ثواب آئندہ باقی رہنے والا ہو۔ حدیث میں "سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ" ان کلمات کو باقیات صالحات فرمایا۔ یہ محض مثال کے طور پر ہے۔ ورنہ تمامی اعمال حسنہ اس میں داخل ہیں۔ موضح القرآن میں ہے۔ "رہنے والی نیکیاں یہ کہ علم سیکھا جائے جو جاری رہے یا کوئی نیک رسم چلا جائے یا مسجد، کنواں، سرائے، کھیت وقف کر جائے یا اولاد کو تربیت کر کے صالح چھوڑ جائے، اسی قسم کے کام ہیں جن پر خدا کے ہاں بہترین بدلہ مل سکتا ہے اور انسان عمدہ توقعات قائم کر سکتا ہے۔ دنیا کی فانی و زائل خوشحالی پر لمبی چوڑی امیدیں باندھنا عقلمندی نہیں۔

۴۷۔۔۔  ۱: یعنی جب قیامت آئے گی پہاڑ جیسی سخت مخلوق بھی اپنی جگہ سے چلائی جائے گی۔ بلکہ اس کی بھاری بھاری چٹانیں دھنی ہوئی اون کی طرح فضا میں اڑتی پھریں گی۔ غرض زمین کے سارے ابھار مٹا کر سطح ہموار اور کھلی ہوئی رہ جائے گی۔

۲:  یعنی کوئی شخص خدائی عدالت سے غیر حاضر نہ ہو سکے گا۔

۴۸۔۔۔  منکرین بعث کو تقریع و توبیخ کے طور پر یہ کہا جائے گا کہ تم تو قیامت وغیرہ کو محض ڈھکوسلہ سمجھتے تھے۔ آج سب جتھا اور اثاثہ چھوڑ کر ننگ دھڑنگ کہاں آ پہنچے۔ اور "جیسا بنایا تھا پہلی بار" میں یہ بھی داخل ہے کہ بدن میں کچھ زخم و نقصان وغیرہ نہ رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ محشر میں کل ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اسی امت محمدیہ کی ہیں۔

۴۹۔۔۔   ۱: یعنی اعمالنامہ ہر ایک کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس میں اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر مجرم خوف کھائیں گے کہ دیکھیئے آج کیسی سزا ملتی ہے۔

۲: یعنی ذرہ ذرہ عمل آنکھوں کے سامنے ہو گا اور ہر ایک چھوٹی بڑی بدی یا نیکی اعمالنامہ میں مندرج پائیں گے۔

 ۵۰۔۔۔  حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ظلم کا بایں معنی تو امکان ہی نہیں کہ وہ غیر کی ملک میں تصرف کرے، کیونکہ تمام مخلوق اسی کی ملک ہے۔ لیکن ظاہر میں جو ظلم نظر آئے اور بے موقع کام سمجھا جائے، وہ بھی نہیں کرتا، نہ کسی کو بے قصور پکڑتا ہے نہ کسی کی ادنیٰ نیکی کو ضائع ہونے دیتا ہے۔ بلکہ اپنی حکمت بالغہ سے نیکی و بدی کے ہر ایک درخت پر وہ ہی پھل لگاتا ہے جو اس کی طبیعت نوعیہ کا اقتضاء ہو

گندم از گندم بروید جَو از جو

از مکافاتِ عمل غافل مشو

 کفر و ایمان اور طاعت و معصیت میں خالق الکل نے اسی طرح کے علیحدہ علیحدہ خواص و تاثیرات رکھ دی ہیں جیسے زہر اور تریاق میں۔ آخرت میں خیر و شر کے یہ تمام خواص و آثار اعلانیہ ظاہر ہو جائیں گے۔

 راجح یہ ہی ہے کہ ابلیس نوع جن سے تھا، عبادت میں ترقی کر کے گروہ ملائکہ میں شامل ہو گیا۔ اسی لیے فرشتوں کو جو حکم سجود ہوا اس کو بھی ہوا۔ اس وقت اس کی اصل طبیعت رنگ لائی۔ تکبر کر کے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے بھاگ نکلا، آدم کے سامنے سر جھکانے میں کسر شان سمجھی۔ تعجب ہے کہ آج آدم کی اولاد اپنے رب کی جگہ اسی دشمن ازلی اور اس کی اولاد و اتباع کو اپنا رفیق و خیر خواہ اور مددگار بنانا چاہتی ہے اس سے بڑھ کر بے انصافی اور ظلم کیا ہو گا۔ یہ قصہ پہلے کئی جگہ مفصل گزر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کرنے کے لیے لائے ہیں کہ دنیائے فانی کی ٹیپ ٹاپ پر مغرور ہو کر آخرت سے غافل ہو جانا شیطان کی تحریک و تسویل سے ہے۔ چاہتا ہے کہ ہم اپنے اصلی و آبائی وطن (جنت) میں واپس نہ جائیں۔ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ دوست بن کر ہم سے پرانی دشمنی نکالے۔ آدمی کو لازم ہے کہ ایسے چالاک دشمن سے ہوشیار رہے۔ جو لوگ دنیاوی متاع پر مغرور ہو کر ضعفاء کو حقیر سمجھتے اور اپنے کو بہت لمبا کھینچتے ہیں، وہ تکبر و تفاخر میں شیطان لعین کی راہ پر چل رہے ہیں۔

(تنبیہ) ابن کثیر نے بعض روایات نقل کر کے جن میں ابلیس کی اصل نوع ملائکہ میں سے بتلائی گئی ہے، لکھا ہے کہ ان روایات کا غالب حصہ اسرائیلیات میں سے ہے جنہیں بہت نظر و فکر کے بعد احتیاط کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور ان میں بعض چیزیں یقیناً جھوٹ ہیں کیونکہ قرآن ان کی صاف تکذیب کرتا ہے۔ آگے ابن کثیر نے بہت وزن دار الفاظ میں اسرائیلیات کے متعلق جو کچھ کلام کیا ہے، دیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔ یہاں بخوفِ تطویل ہم درج نہیں کر سکتے۔

 ۵۱۔۔۔  یعنی زمین و آسمان پیدا کرتے وقت ہم نے ان شیاطین کو بلایا نہ تھا کہ ذرا آ کر دیکھ جائیں، ٹھیک بنا ہے یا کچھ اونچ نیچ رہ گئی۔ غرض نہ ان سے تکوین و ایجاد عالم میں کچھ مشورہ لیا گیا نہ مدد طلب کی گئی بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت تو سرے سے یہ موجود ہی نہ تھے۔ خود ان کو پیدا کرتے وقت بھی نہیں پوچھا گیا کہ تمہیں کیسا بنایا جائے۔ یا تمہارے دوسرے ہم جنسوں کو کس طرح پیدا کروں ذرا آ کر میری مدد کرو۔ اور بفرض محال مدد بھی لیتا اور قوت بازو بھی بناتا تو کیا ان بدبخت اشقیاء کو؟ جنہیں جانتا ہوں کہ لوگوں کو میری راہ سے بہکانے والے ہیں۔ پھر خدا جانے آدمیوں نے ان کو خدائی کا درجہ کیسے دے دیا اور اپنے رب کو چھوڑ کر انہیں کیوں رفیق و مددگار بنانے لگے۔ "سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔

 ۵۲۔۔۔  ۱: یعنی جن کو میرا شریک بنا رکھا تھا، بلاؤ! تاکہ اس مصیبت کے وقت تمہاری مدد کریں۔

۲:  اس وقت رفاقت اور دوستی کی ساری قلعی کھل جائے گی۔ ایک دوسرے کے نزدیک بھی نہ جا سکیں گے۔ کام آنا تو درکنار دونوں کے بیچ میں عظیم و وسیع خندق آگ کی حائل ہو گی (اعاذنا اللہ منہا)

 ۵۳۔۔۔  یعنی شروع شروع میں شاید کچھ معافی کی امید ہو گی لیکن جہنم کو دیکھتے ہی یقین ہو جائے گا کہ اب اس میں گرنا ہے اور فرار کا کوئی راستہ نہیں۔

 ۵۴۔۔۔  یعنی قرآن کریم کس طرح مختلف عنوانات اور قسم قسم کے دلائل و امثلہ سے سچی باتیں سمجھاتا ہے مگر انسان کچھ ایسا جھگڑالو واقع ہوا ہے کہ صاف اور سیدھی باتوں میں بھی کٹ حجتی کیے بغیر نہیں رہتا۔ جب دلائل کا جواب بن نہیں پڑتا تو مہمل اور دور از کار فرمائشیں شروع کر دیتا ہے کہ فلاں چیز دکھاؤ تو مانوں گا۔

 ۵ ۵۔۔۔   یعنی ان کے ضد و عناد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ایسی عظیم الشان ہدایت پہنچ جانے کے بعد ایمان نہ لانے اور توبہ نہ کرنے کا کوئی معقول عذر انکے پاس باقی نہیں۔ آخر قبول حق میں اب کیا دیر ہے اور کا ہے کا انتظار ہے۔ بجز اس کے کہ پہلی قوموں کی طرح خدا تعالیٰ ان کو کلی تباہ کر ڈالے۔ یا اگر تباہ نہ کیے جائیں تو کم از کم مختلف صورتوں میں عذابِ الٰہی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہو۔ ہکذا یفہم من تفسیر ابن کثیر وغیرہ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی کچھ اور انتظار نہیں رہا مگر یہ ہی کہ پہلوں کی طرح ہلاک ہوویں یا قیامت کا عذاب آنکھوں سے دیکھیں۔

 ۵۶۔۔۔  ۱: ان کو یہ اختیار نہیں کہ جب تم مانگو یا جب وہ چاہیں عذاب لا کھڑا کریں۔

۲:  یعنی جھوٹے جھگڑے اٹھا کر اور کٹ حجتی کر کے چاہتے ہیں کہ حق کی آواز پست کر دیں اور جھوٹ کے زور سے سچائی کا قدم ڈگمگا دیں۔ ایسا کبھی نہ ہو گا۔

۳:  یعنی کلام اللہ سے ٹھٹھا کرتے ہیں اور جس عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اس کی ہنسی اڑاتے ہیں۔

 ۵۷۔۔۔  ۱: یعنی کبھی بھول کر بھی خیال نہ آیا کہ تکذیب حق اور استہزاء و تمسخر کا جو ذخیرہ آگے بھیج رہا ہے اس کی سزا کیا ہے۔

۲:  یعنی ان کے جدال بالباطل اور استہزاء بالحق کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے اور کانوں میں ڈاٹ ٹھونک دی۔ اب نہ حق کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بالکل مسخ ہو گئے۔ پھر حق کی طرف متوجہ ہوں تو کیسے ہوں اور انجام کا خیال کریں تو کیسے کریں۔ ایسے بدبختوں کے راہ پر آنے کی کبھی توقع نہیں۔

 ۵۸۔۔۔  ۱: یعنی کرتوت تو ان کے ایسے کہ عذاب پہنچنے میں ایک گھنٹہ کی تاخیر نہ ہو، مگر حق تعالیٰ کا حلم و کرم فوراً تباہ کر ڈالنے سے مانع ہے، اپنی رحمت عامہ سے خاص حد تک درگزر فرماتا ہے اور سخت سے سخت مجرم کو موقع دیتا ہے کہ چاہے تو اب بھی توبہ کر لے پچھلی خطائیں بخشوا لے۔ اور ایمان لا کر رحمت عظیمہ کا مستحق بن جائے۔

۲:  یعنی یہ تاخیر عذاب ایک وقت معین تک ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی مجرم سزا کا وعدہ آنے سے پیشتر کہیں ادھر ادھر کھسک جائے۔ جب وقت آئے گا سب بندھے چلے آئیں گے، مجال نہیں کوئی روپوش ہو سکے۔

 ۵۹۔۔۔  یعنی عاد و ثمود کی بستیاں جن کے واقعات مشہور و معروف ہیں دیکھ لو جب ظلم کیے کس طرح اپنے وقت معین پر تباہ و برباد کر دی گئیں۔ اسی طرح تم کو ڈرتے رہنا چاہیے کہ وقت آنے پر عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہ ملے گی۔

۶۰۔۔۔   اوپر ذکر ہوا تھا کہ مغرور کافر مفلس مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ان کو پاس نہ بٹھائیں تو ہم بیٹھیں۔ اسی پر دو شخصوں کی کہاوت سنائی، پھر دنیا کی مثال اور ابلیس کا کبر و غرور سے خراب ہونا بیان کیا۔ اب موسیٰ اور خضر کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ اللہ والے اگر سب سے افضل اور بہتر بھی ہوں تو اپنے آپ کو بہتر نہیں کہتے۔ اور کبھی بھول چوک سے کہہ گزریں تو حق تعالیٰ کی طرف سے تادیب و تنبیہ کی جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو نہایت موثر اور بیش بہا نصیحتیں فرما رہے تھے ایک شخص نے پوچھا۔ اے موسیٰ! کیا روئے زمین پر آپ اپنے سے بڑا عالم کسی کو پاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ جواب واقع میں صحیح تھا کیونکہ موسیٰ اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ میں اسرار شرعیہ کا علم ان سے زیادہ کس کو ہو سکتا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ کو ان کے الفاظ پسند نہ آئے، گو مراد صحیح تھی۔ تاہم عنوان جواب کے عموم سے ظاہر ہوتا تھا کہ روئے زمین پر من کل الوجوہ اپنے کو اعلم الناس خیال کرتے ہیں۔ خدا کی مرضی یہ تھی کہ جواب کو اس کے علم محیط پر محمول کرتے۔ مثلاً یہ کہتے کہ اللہ کے مقرب و مقبول بندے بہت سے ہیں، سب کی خبر اسی کو ہے۔ تب وحی آئی کہ جس جگہ دو دریا ملے ہیں اس کے پاس ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے (دو دریا سے کون سے دریا مراد ہیں؟ بعض نے کہا کہ بحر فارس اور بحر روم لیکن یہ دونوں ملتے نہیں۔ شاید ملاپ سے مراد قرب ہو گا یعنی جہاں دونوں کا فاصلہ کم سے کم رہ جائے۔ بعض افریقہ کے دو دریا مراد لیتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک "مجمع البحرین" وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر دجلہ اور فرات خلیج فارس میں گرتے ہیں۔ (واللہ اعلم) بہرحال موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ مجھے اس کا پورا پتہ نشان بتایا جائے تاکہ میں وہاں جا کر کچھ علمی استفادہ کروں۔ حکم ہوا کہ اس کی تلاش میں نکلو تو ایک مچھلی تل کر ساتھ رکھ لو، جہاں مچھلی گم ہو وہیں سمجھنا کہ وہ بندہ موجود ہے گویا "مجمع البحرین" سے جو ایک وسیع قطعہ مراد ہو سکتا تھا اس کی پوری تعیین کے لیے یہ علامت مقرر فرمائی دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسی ہدایت کے موافق اپنے خادم خاص حضرت یوشع کو ہمراہ لے کر سفر شروع کر دیا۔ اور یوشع کو کہہ دیا کہ مچھلی کا خیال رکھنا۔ میں برابر سفر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ منزل مقصود پر پہنچ جاؤں۔ اگر فرض کرو برس اور قرن بھی گزر جائیں گے بدون مقصد حاصل کیے سفر سے نہ ہٹوں گا۔

(تنبیہ) جوان سے مراد حضرت یوشع ہیں جو ابتداءً موسیٰ علیہ السلام کے خادم خاص تھے، پھر ان کے روبرو پیغمبر اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔

۶۱۔۔۔  ۱: وہاں پہنچ کر ایک بڑے پتھر کے قریب جس کے نیچے آب حیات کا چشمہ جاری تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام سو رہے۔ یوشع علیہ السلام نے دیکھا کہ بھنی ہوئی مچھلی باذن اللہ زندہ ہو کر زنبیل سے نکل پڑی اور عجیب طریقہ سے دریا میں سرنگ بناتی چلی گئی۔ وہاں پانی میں خدا کی قدرت سے ایک طاق سے کھلا رہ گیا۔ یوشع کو دیکھ کر تعجب آیا۔ چاہا کہ موسیٰ بیدار ہوں تو ان سے کہوں۔ وہ بیدار ہوئے تو دونوں آگے چل کھڑے ہوئے۔ یوشع نہ معلوم کن خیالات میں پڑ کر کہنا بھول گئے۔ روایات میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب ان کو مچھلی کی خبر گیری کے لیے کہا تھا تو ان کی زبان سے نکلا کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ لہٰذا متنبہ کیا گیا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی آدمی کو محض اپنے نفس پر بھروسہ نہیں چاہیے۔

۲:  حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے نہیں تھکے۔ جب مطلب چھوٹ رہا تھا اس وقت چلنے سے تکان محسوس کیا۔

۶۳۔۔۔  یعنی مطلب کی بات بھول جانا اور عین موقع یادداشت پر ذہول ہونا، شیطان کی وسوسہ اندازی سے ہوا۔

۶۴۔۔۔  غالباً راستہ بنا ہوا نہ ہو گا۔ اس لیے اپنے نقش قدم دیکھتے ہوئے الٹے پاؤں پھرے۔

۶ ۵۔۔۔  وہ بندہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ جن کو حق تعالیٰ نے رحمت خصوصی سے نوازا اور اسرار کونیہ کے علم سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت خضر کو رسول مانا جائے یا نبی یا محض ولی کے درجہ میں رکھا جائے۔ ایسے مباحث کا فیصلہ یہاں نہیں ہو سکتا۔ تاہم احقر کا رجحان اسی طرف ہے کہ ان کو نبی تسلیم کیا جائے اور جیسا کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ جو انبیاء جدید شریعت لے کر نہیں آتے ان کو بھی اتنا تصرف و اختیار عطاء ہوتا ہے کہ مصالح خصوصیہ کی بناء پر شریعت مستقلہ کے کسی عام کی تخصیص یا مطلق کی تقیید یا عام ضابطہ سے بعض جزئیات کا استثناء کر سکیں۔ اسی طرح جزئی تصرفات حضرت خضر کو بھی حاصل تھے، واللہ اعلم۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام خضر سے ملے۔ علیک سلیک کے بعد خضر نے پوچھا۔ موسیٰ نے آنے کا سبب بتلایا۔ خضر نے کہا اے موسیٰ! بلاشبہ اللہ نے تمہاری تربیت فرمائی۔ پر بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک علم (جزئیات کونیہ کا) مجھ کو ملا ہے جو (اتنی مقدار میں) تم کو نہیں ملا۔ اور ایک علم (اسرار تشریع کا) تم کو دیا گیا ہے جو (اتنی بہتات سے) مجھ کو نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ایک چڑیا دکھا کر جو دریا میں سے پانی پی رہی تھی، کہا کہ میرا، تمہارا بلکہ کل مخلوقات کا سارا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہے جتنا دریا کے پانی میں سے وہ قطرہ جو چڑیا کے منہ کو لگ گیا ہے (یہ بھی محض تفہیم کے لیے تھا ورنہ متناہی کو غیر متناہی سے قطرہ اور دریا کی نسبت بھی نہیں)

۶۶۔۔۔  یعنی اجازت ہو تو چند روز آپ کے ہمراہ رہ کر اس مخصوص علم کا کچھ حصہ حاصل کروں۔

۶۸۔۔۔  حضرت خضر نے موسیٰ علیہ السلام کے مزاج وغیرہ کا اندازہ کر کے سمجھ لیا کہ میرے ساتھ ان کا نباہ نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ وہ مامور تھے کہ واقعات کونیہ کو جزئی علم پا کر اسی کے موافق عمل کریں اور موسیٰ علیہ السلام جن علوم کے حامل تھے ان کا تعلق تشریعی قوانین و کلیات سے تھا بنا بریں جن جزئیات میں عوارض و خصوصیات خاصہ کی وجہ سے بظاہر عام ضابطہ پر عمل نہ ہو گا حضرت موسیٰ اپنی معلومات کی بناء پر ضرور روک ٹوک کریں گے اور خاموشی کا مسلک دیر تک قائم نہ رکھ سکیں گے۔ آخری نتیجہ یہ ہو گا کہ جدا ہونا پڑے گا۔

۶۹۔۔۔  یہ وعدہ کرتے وقت غالباً موسیٰ علیہ السلام کو اس کا تصور بھی نہ ہو سکتا تھا کہ ایسے مقرب و مقبول بندہ سے کوئی ایسی حرکت دیکھنے میں آئے گی جو اعلانیہ ان کی شریعت بلکہ عام شرائع و اخلاق کے خلاف ہو۔ غنیمت ہوا کہ انہوں نے "انشاء اللہ" کہہ لیا تھا۔ ورنہ ایک قطعی وعدہ کی خلاف ورزی کرنا اولوا العزم پیغمبر کی شان کے لائق نہ ہوتا۔

۷۰۔۔۔   یعنی کوئی بات اگر بظاہر ناحق نظر آئے تو مجھ سے فوراً باز پرس نہ کرنا، جب تک میں خود اپنی طرف سے کہنا شروع نہ کروں۔

۷۱۔۔۔  ۱: جب اس کشتی پر چڑھنے لگے ناؤ والوں نے خضر کو پہچان کر مفت سوار کر لیا۔ اس احسان کے بدلہ یہ نقصان دیکھ کر موسیٰ کو اور زیادہ تعجب ہوا۔ لیکن کشتی پوری طرح کنارہ کے قریب پہنچ کر توڑی۔ لوگ ڈوبنے سے بچ گئے اور توڑنا یہ تھا کہ ایک تختہ نکال ڈالا۔ گویا عیب دار کر دی۔

۲:  یعنی اگر بھول چوک پر بھی گرفت کرو گے تو میرا تمہارے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ پہلا پوچھنا حضرت موسیٰ سے بھول کر ہوا۔ اور دوسرا اقرار کرنے کو اور تیسرا رخصت ہونے کو۔

۷۴۔۔۔  ۱: ایک گاؤں کے قریب چند لڑکے کھیل رہے تھے، ان میں سے ایک کو جو زیادہ خوبصورت اور سیانا تھا پکڑ کر مار ڈالا۔ اور چل کھڑے ہوئے بعض روایات میں اس کا نام جیسور آیا ہے۔ وہ لڑکا بالغ تھا یا نہیں؟ بعض کا قول ہے کہ بالغ تھا اور لفظ غلام عدم بلوغ پر دلالت نہیں کرتا۔ لیکن جمہور مفسرین اس کو نابالغ ہی بیان کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی بے گناہ۔ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ لفظ بظاہر اس کے نابالغ ہونے کی تائید کرتا ہے۔ اگرچہ دوسروں کے لیے تاویل کی گنجائش ہے۔

۳:  یعنی اول تو نابالغ قصاص میں بھی قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مزید یہ کہ یہاں قصاص کا بھی کوئی قصہ نہ تھا۔ پھر اس سے بڑھ کر معقول بات کون سی ہو گی۔

۷ ۵۔۔۔  کیونکہ ایسے حالات و واقعات دیکھنے میں آئیں گے جن پر تم خاموشی کے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ آخر وہی ہوا۔

۷۶۔۔۔  حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اندازہ ہو گیا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے تحیر خیز حالات و واقعات کا چپ چاپ مشاہدہ کرتے رہنا بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ اس لیے آخری بات کہہ دی کہ اس مرتبہ اگر سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں ایسا کرنے میں آپ معذور ہوں گے اور میری طرف سے کوئی الزام آپ پر عائد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ تین مرتبہ موقع دے کر آپ حجت تمام کر چکے۔

۷۷۔۔۔  ۱: یعنی ایک بستی میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں سے ملے اور چاہا کہ بستی والے مہمان سمجھ کر کھانا کھلائیں۔ مگر یہ سعادت ان کی قسمت میں نہ تھی، انہوں نے موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام جیسے مقربین کی مہمانی سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ دیکھ کر چاہیے تھا کہ ایسے تنگ دل اور بے مروت لوگوں پر غصہ آتا، مگر حضرت خضر علیہ السلام نے غصہ کے بجائے ان پر احسان کیا۔ بستی میں ایک بڑی بھاری دیوار جھکی ہوئی تھی قریب تھا کہ زمین پر آ رہے، لوگ اس کے نیچے گزرتے ہوئے خوف کھاتے تھے، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ لگا کر سیدھی کر دی اور منہدم ہونے سے بچا لیا۔ (تنبیہ) حتی اذآ اتیآ اہل قریۃٍ میں اہل کا لفظ شاید اس لیے لائے کہ بستی میں ان کا آنا محض مرور و عبور کے طور پر نہ تھا، نہ یہ صورت تھی کہ باشندگانِ شہر سے علیحدہ کسی سرائے وغیرہ میں جا اترے ہوں، بلکہ قصد کر کے شہر والوں سے ملے۔ اور اِسْتَطْعَمَآ اَہْلَہَا میں دوبارہ لفظ اہل کی تصریح ان کی مزید تقبیح کے لیے ہے یعنی جن سے مہمانی چاہی تھی وہ اہل قریہ تھے کوئی پردیسی مسافر نہ تھے جو یہ عذر کر سکیں کہ ہمارا گھر یہاں نہیں مہمانداری کیسے کریں۔

۲:  یعنی بستی والوں نے مسافر کا حق نہ سمجھا کہ مہمانی کریں ان کی دیوار مفت بنا دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر کچھ معاوضہ لے کر دیوار سیدھی کرتے تو ہمارے کھانے پینے کا کام چلتا اور ان تنگ دل بخیلوں کو ایک طرح کی تنبیہ ہو جاتی، شاید اپنی بد اخلاقی اور بے مروتی پر شرماتے۔

۷۸۔۔۔  یعنی حسب و عدہ اب مجھ سے علیحدہ ہو جائیے، آپ کا نباہ میرے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جدا ہونے سے پہلے چاہتا ہوں کہ ان واقعات کے پوشیدہ اسرار کھول دوں۔ جن کے چکر میں پڑ کر آپ صبر و ضبط کی شان قائم نہ رکھ سکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اس مرتبہ موسیٰ علیہ السلام نے جان کر پوچھا رخصت ہونے کو۔ سمجھ لیا کہ یہ علم میرے ڈھب کا نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم وہ تھا جس کی خلقت پیروی کرے تو ان کا بھلا ہو۔ حضرت خضر علیہ السلام کا علم وہ تھا کہ دوسروں سے اس کی پیروی بن نہ آوے۔

۷۹۔۔۔   ۱: یعنی دریا میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے تھے۔

۲:  یعنی جدھر کشتی جانے والی تھی اس طرف ایک ظالم بادشاہ جو اچھی کشتی دیکھتا چھین لیتا، یا بیگار میں پکڑ لیتا تھا میں نے چاہا کہ عیب دار کر دوں، تاکہ اس ظالم کی دستبرد سے محفوظ رہے اور ٹوٹی ہوئی خراب کشتی سمجھ کر کوئی تعرض نہ کرے۔ بعض آثار میں ہے کہ خطرہ کے مقام سے آگے نکل کر پھر حضرت خضر نے کشتی اپنے ہاتھ سے درست کر دی۔

۸۰۔۔۔  گو اصل فطرت سے ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے مگر آگے چل کر خارجی اثرات سے بچپن ہی میں بعض کی بنیاد بری پڑ جاتی ہے جس کا پورا یقینی علم تو خدا تعالیٰ کو ہوتا ہے تاہم کچھ آثار اہل بصیرت کو بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس لڑکے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کو آگاہ فرما دیا کہ اس کی بنیاد بری پڑی تھی۔ بڑا ہوتا تو موذی اور بدراہ ہوتا اور ماں باپ کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا۔ وہ اس کی محبت میں کافر بن جاتے، اس طرح لڑکے کا مارا جانا والدین کے حق میں رحمت اور ان کی حفاظت کا ذریعہ بن گیا۔ خدا کو منظور تھا کہ اس کے ماں باپ ایمان پر قائم رہیں، حکمت الٰہیہ ہوئی کہ آنے والی رکاوٹ ان کی راہ سے دور کر دی جائے۔ حضرت خضر علیہ السلام کو حکم دیا کہ لڑکے کو قتل کر دو۔ انہوں نے خدا کی وحی پا کر امتثالِ امر کیا۔ اب یہ سوال کرنا کہ لڑکے کو پیدا ہی نہ کرتے یا کرتے تو اس کو اس قدر شریر نہ ہونے دیتے یا جہاں لاکھوں کافر دنیا میں موجود ہیں اس کے والدین کو بھی کافر بن جانے دیتے یا جن بچوں کی بنیاد ایسی پڑے کم از کم پیغمبروں کو ان سب کی فہرست دے کر قتل کرا دیا کرتے۔ ان باتوں کا اجمالی جواب تو یہ ہے "لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْئَلُوْنَ" (انبیاء، رکوع۲، آیت:۲۳) اور تفصیلی جواب کے لیے مسئلہ "خلق خیر و شر" پر مبسوط کلام کرنے کی ضرورت ہے جو ان مختصر فوائد میں سما نہیں سکتا۔ ہاں اتنا یاد رہے کہ دنیا میں ہر شخص سے جو اللہ کو "خالق الکل" اور "علیم" و "خبیر" مانتا ہو۔ تکوینیات کے متعلق اسی قسم کے ہزاروں سوالات کیے جا سکتے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس بجز اعتراف عجز و قصور کے کچھ نہیں۔ یہاں خضر کے ذریعہ سے اسی کا ایک نمونہ دکھلانا تھا کہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں اور مصالح تکوینیہ کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ کبھی صورت واقعہ بظاہر دیکھنے میں خراب اور قبیح یا بے موقع معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جسے واقعہ کی اندرونی گہرائیوں کا علم ہو وہ سمجھتا ہے کہ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے مسکینوں کی کشتی کا تختہ توڑ دیا، حالانکہ انہوں نے احسان کیا تھا کہ بلا اجرت دونوں کو سوار کر لیا۔ ایک کھیلتے ہوئے بچہ کو مار ڈالا جو بظاہر نہایت قبیح حرکت نظر آتی تھی۔ دیوار سیدھی کر کے اس بستی والوں پر احسان کیا جو نہایت بے مروتی سے پیش آئے تھے۔ اگر حضرت خضر علیہ السلام آخر میں اپنے ان افعال کی توجیہات بیان نہ کرتے تو ساری دنیا آج تک ورطہ حیرت میں پڑی رہتی، یا خضر علیہ السلام کو ہدف طعن و تشنیع بنائے رکھتی۔ (العیاذ باللہ) ان ہی مثالوں سے حق تعالیٰ کے افعال اور ان کی حکمتوں کا اندازہ کر لو۔

۸۱۔۔۔  یعنی لڑکے کے مارے جانے سے اس کے والدین کا ایمان محفوظ ہو گیا اور جو صدمہ ان کو پہنچا، حق تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی تلافی ایسی اولاد سے کر دے جو اخلاق پاکیزگی میں مقتول لڑکے سے بہتر ہو، ماں باپ اس پر شفقت کریں۔ وہ ماں باپ کے ساتھ محبت و تعظیم اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ کہتے ہیں اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نیک لڑکی دی جو ایک نبی سے منسوب ہوئی اور ایک نبی اس سے پیدا ہوئے جس سے ایک امت چلی۔

۸۲۔۔۔  ۱: یعنی اگر دیوار گر پڑتی تو یتیم بچوں کا جو مال وہاں گڑا ہوا تھا ظاہر ہو جاتا اور بدنیت لوگ اٹھا لیتے۔ بچوں کا باپ مرد صالح تھا اس کی نیکی کی رعایت سے حق تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ بچوں کے مال کی حفاظت کی جائے میں نے اس کے حکم سے دیوار سیدھی کر دی کہ بچے جوان ہو کر باپ کا خزانہ پا سکیں۔ کہتے ہیں اس خزانہ میں دوسرے اموال کے علاوہ ایک سونے کی تختی تھی جس پر "محمد رسول اللہ" (صلی اللہ علیہ و سلم) لکھا ہوا تھا۔

۲:  یعنی جو کام خدا کے حکم سے کرنا ضروری ہوا اس پر مزدوری لینا مقربین کا کام نہیں (تنبیہ) اس قصہ کے شروع میں حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت و ولایت کے متعلق جو کچھ ہم لکھ چکے ہیں اس کو بیک نظر پھر مطالعہ کر لیا جائے۔ آگے ذوالقرنین کا قصہ آتا ہے۔ یہ بھی ان تین چیزوں میں سے تھا جن کی نسبت یہود کے مشورہ سے قریش نے سوالات کیے تھے۔ "روح" کے متعلق جواب سورہ "بنی اسرائیل" میں گزر چکا۔ اصحاب کہف کا قصہ اسی سورہ "کہف" میں آ چکا۔ تیسری چیز آگے مذکور ہے۔

۸۴۔۔۔  اس بادشاہ کو "ذوالقرنین" اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) پر پھر گیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لقب ا سکندر رومی کا ہے اور بعض کے نزدیک کوئی مقبول خدا پرست اور دیندار بادشاہ اس سے پہلے گزرا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں متعدد وجوہ دلائل سے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ مجموعہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاصر تھا اور ان کی دعا کی برکت سے حق تعالیٰ نے خارقِ عادت سامان و وسائل عطا فرمائے تھے۔ جن کے ذریعہ سے اس کو مشرق و مغرب کے سفر اور محیر العقول فتوحات پر قدرت حاصل ہوئی۔ حضرت خضر علیہ السلام اس کے وزیر تھے، شاید اسی لیے قرآن نے حضرت خضر علیہ السلام کے قصہ کے ساتھ اس کا قصہ بیان فرمایا۔ قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں "ذوالقرنین" کا نام بڑی عظمت سے لیا ہے اور اس کے عرب ہونے پر فخر کرتے رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین عہد تاریخی سے پہلے کا کوئی جلیل القدر عرب بادشاہ ہے۔ شاید ا سکندر کو بھی اسی کی ایک گونہ مشابہت سے ذوالقرنین کہنے لگے ہوں۔ حال میں یورپ کے ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم سامی عربوں کی متعدد عظیم الشان سلطنتوں کا سراغ لگایا ہے جن کا تاریخی اوراق میں کوئی مفصل تذکرہ موجود نہیں، بلکہ بعض ممتاز و مشہور سلاطین کا نام تک کتب تاریخ میں نہیں ملتا۔ مثلاً بادشاہ 'حمورابی" جو اغلبًا حضرت ابراہیم کے عہد میں ہوا ہے اور جس کو کہا گیا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا مقنّن تھا۔ اس کے قوانین منارہ بابل پر کندہ ملے ہیں۔ جن کا ترجمہ انگریزی میں شائع ہو گیا ہے۔ پرانے کتبات سے اس کی عجیب و غریب عظمت ثابت ہوتی ہے۔ بہرحال "ذوالقرنین' ان ہی میں کا کوئی بادشاہ ہو گا۔

۸ ۵۔۔۔  یعنی سرانجام کرنے لگا ایک سفر کا۔

۸۶۔۔۔  ۱: یعنی یوں نظر آیا جیسے سمندر میں سفر کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ سورج پانی میں سے نکل رہا ہے اور پانی ہی میں ڈوبتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ذوالقرنین" کو شوق ہوا کہ دیکھے دنیا کی آبادی کہاں تک بسی ہے۔ سو مغرب کی طرف اس جگہ پہنچا کہ دلدل تھی، نہ گزر آدمی کا نہ کشتی کا۔ اللہ کے ملک کی حد نہ پا سکا۔"

۲:   یعنی "ذوالقرنین" کو ان لوگوں پر ہم نے دونوں بات کی قدرت دی جیسا کہ ہر بادشاہ ہر حاکم کو نیک و بد کی قدرت ملتی ہے۔ چاہے خلق کو ستا کر بدنام ہو، چاہے عدل و انصاف اور نیکی اختیار کر کے اپنا ذکر خیر جاری رکھے یا یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ کافر تھے ہم نے ذوالقرنین کو اختیار دیا کہ چاہے ان کو قتل کر دے یا پہلے اسلام کی طرف دعوت دے۔ذوالقرنین نے دوسری شق اختیار کی۔

۸۸۔۔۔  یعنی آخرت میں بھلائی ملے گی اور دنیا میں ہم اس پر سختی نہ کریں گے۔ بلکہ اپنے کام کے لیے جب کوئی بات اس سے کہیں گے سہولت اور نرمی کی کہیں گے۔ فی الحقیقت جو بادشاہ عادل ہو اس کی یہ ہی راہ ہوتی ہے۔ بروں کو سزا دے اور بھلوں سے نرمی کرے۔ ذوالقرنین نے یہ ہی چال اختیار کی۔

۸۹۔۔۔  یعنی مغربی سفر سے فارغ ہو کر مشرقی سفر کا سامان درست کرنے لگا۔ قرآن و حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ ذوالقرنین کے یہ سب سفر فتوحات اور ملک گیری کے لیے تھے ممکن ہے محض سیر و سیاحت کے طور پر ہوں، اثنائے سفر میں ان اقوام پر بھی گزر ہوا ہو جو اس کے زیر حکومت آ چکی تھی اور بعض اقوام نے ایک طاقتور بادشاہ سمجھ کر ظالموں کے مقابلہ میں فریاد کی ہو جس کا ذوالقرنین نے اپنی غیر معمولی قوت سے سد باب کر دیا۔ جیسا کہ آگے "یاجوج ماجوج" کے قصہ میں آتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۹۰۔۔۔  یعنی انتہائے مشرق میں ایک ایسی قوم دیکھی جن کو آفتاب کی شعاعیں بے روک ٹوک پہنچتی تھیں یہ لوگ وحشی جانگلو ہوں گے گھر بنانے اور چھت ڈالنے کا ان میں دستور نہ ہو گا جیسے اب بھی بہت سی خانہ بدوش وحشی اقوام میں رواج نہیں ہے۔

۹۱۔۔۔  یعنی ذوالقرنین کے سفر مشرق و مغرب کی جو کیفیت بیان کی گئی واقعہ میں اسی طرح ہے جو وسائل اس کے پاس تھے اور جو حالات وہاں پیش آئے ان سب پر ہمارا علم محیط ہے۔ تاریخ والے شاید اس جگہ کچھ اور کہتے ہوں گے اور فی الحقیقت اتنا ہے جو فرما دیا بعض مفسرین نے "کذلک" کا مطلب یہ لیا ہے کہ ذوالقرنین نے مغربی قوم کے متعلق جو روش اختیار کی تھی ویسی ہی اس مشرقی قوم کے ساتھ اختیار کی۔ واللہ اعلم۔

۹۲۔۔۔ ۱ یہ تیسرا سفر مشرق و مغرب کے سوا کسی تیسری جہت میں تھا مفسرین عموماً اس کو شمالی سفر کہتے ہیں قرآن و حدیث میں یہ تصریح نہیں۔

۹۳۔۔۔  یعنی ذوالقرنین اور اس کے ساتھیوں کی بولی وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے۔ آگے جو گفتگو نقل کی گئی ہے غالباً کسی ترجمان کے ذریعہ سے ہوئی ہو گی۔ اور ترجمان کسی درمیانی قوم کا ہو گا جو دونوں کی زبان قدرے سمجھتا ہو (تنبیہ) اس قوم اور "یاجوج ماجوج" کے ملک میں یہ دو پہاڑ حائل تھے جن پر چڑھائی ممکن نہ تھی البتہ دونوں پہاڑوں کے بیچ میں ایک درہ کھلا ہوا تھا اسی سے "یاجوج ماجوج" آتے اور ان لوگوں کو لوٹ مار کر چلے جاتے تھے۔

۹۴۔۔۔  ذوالقرنین کے غیر معمولی اسباب و وسائل اور قوت و حشمت کو دیکھ کر انہیں یہ خیال ہوا کہ ہماری تکالیف و مصائب کا سد باب اس سے ہو سکے گا۔ اس لیے گزارش کی کہ "یاجوج ماجوج" نے ہمارے ملک میں اودھم مچا رکھی ہے۔ یہاں آ کر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتے رہتے ہیں۔ آپ اگر ہمارے اور ان کے درمیان کوئی مضبوط روک تھام کر دیں جس سے ہماری حفاظت ہو جائے تو جو کچھ اس پر خرچ آئے ہم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ چاہے آپ ٹیکس لگا کر ہم سے وصول کر لیں۔ (تنبیہ) "یاجوج ماجوج" کون ہیں؟ کس ملک میں رہتے ہیں؟ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی سد (آہنی دیوار) کہاں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے متعلق مفسرین و مؤرخین کے اقوال مختلف رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یاجوج ماجوج کی قوم عام انسانوں اور جنات کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہے اور جیسا کہ کعب بن احبار نے فرمایا اور نووی نے فتاویٰ میں جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے مگر ماں کی طرف سے حواء تک نہیں پہنچتا گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہوئے کیا عجیب ہے کہ دجالِ اکبر جسے تمیم داری نے کسی جزیرہ میں مقید دیکھا تھا، اسی قوم میں کا ہو۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام جو محض ایک آدم زاد خاتون (مریم صدیقہ) کے بطن سے بتوسط نفخہ ملکیہ پیدا ہوئے، نزول من السماء کے بعد دجال کو ہلاک کر دیں گے، اس وقت یہ قوم یاجوج ماجوج دنیا پر خروج کرے گی اور آخرکار حضرت مسیح کی دعاء سے غیر معمولی موت مرے گی۔ اس وقت یہ قوم کہاں ہے اور ذوالقرنین کی دیوار آہنی کس جگہ واقعہ ہے؟ سو جو شخص ان سب اوصاف کو پیش نظر رکھے گا جن کا ثبوت اس قوم اور دیوار آہنی کے متعلق قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ملتا ہے، اس کو کہنا پڑے گا کہ جن قوموں، ملکوں اور دیواروں کا لوگوں نے رائے سے پتہ دیا ہے، یہ مجموعہ اوصاف ایک میں بھی پایا نہیں جاتا۔ لہٰذا وہ خیالات صحیح معلوم نہیں ہوتے۔ اور احادیث صحیحہ کا انکار یا نصوص کی تاویلاتِ بعیدہ دین کے خلاف ہے۔ رہا مخالفین کا یہ شبہ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا مگر کہیں اس کا پتہ نہیں ملا۔ اور اسی شبہ کے جواب کے لیے ہمارے مؤلفین نے پتہ بتلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا صحیح جواب وہی ہے جو علامہ آلوسی بغدادی نے دیا ہے کہ ہم کو اس کا موقع معلوم نہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے اور اس کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام خشکی و تری پر محیط ہو چکے ہیں، واجب التسلیم نہیں۔ عقلاً جائز ہے کہ جس طرح اب سے پانچ سو برس پہلے تک ہم کو چوتھے براعظم (امریکہ) کے وجود کا پتہ نہ چلا، اب بھی کوئی پانچواں براعظم ایسا موجود ہو جہاں تک ہم رسائی حاصل نہ کر سکے ہوں اور تھوڑے دنوں بعد ہم وہاں تک یا وہ لوگ ہم تک پہنچ سکیں۔ سمندر کی دیوار اعظم جو آسٹریلیا کے شمالی مشرقی ساحل پر واقع ہے آجکل برطانوی سائنس دان ڈاکٹر سی ایم ینگ کے زیر ہدایات اس کی تحقیقات جاری ہے۔ یہ دیوار ہزار میل سے زیادہ لمبی اور بعض بعض مقامات پر بارہ بارہ میل تک چوڑی اور ہزار فٹ اونچی ہے۔ جس پر بے شمار مخلوق بستی ہے۔ جو مہم اس کام کے لیے روانہ ہوئی تھی حال میں اس نے اپنی یک سالہ تحقیق ختم کی ہے جس سے سمندر کے عجیب و غریب اسرار منکشف ہوتے ہیں اور انسان کو حیرت و استعجاب کی ایک نئی دنیا معلوم ہو رہی ہے۔ پھر کیسے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کو خشکی و تری کی تمام مخلوق کے مکمل انکشافات حاصل ہو چکے ہیں۔ بہرحال مخبر صادق نے جس کا صدق دلائل قطعیہ سے ثابت ہے، جب اس دیوار کی مع اس کے اوصاف کے خبر دی تو ہم پر واجب ہے کہ تصدیق کریں اور ان واقعات کے منتظر رہیں جو مشککین و منکرین کے علی الرغم پیش آ کر رہیں گے سَتُبْدِیْ لَکَ الْاَیَّامُ مَاکُنْتَ جَاہِلاًوَیَاْتِیْکَ بِالْاَخْبَارِ مَالَمْ تُزَوَّدِ

۹ ۵۔۔۔  یعنی مال میرے پاس بہت ہے مگر ہاتھ پاؤں سے ہمارے ساتھ تم بھی محنت کرو۔

۹۶۔۔۔  اول لوہے کے بڑے بڑے تختوں کے اوپر نیچے تہیں جمائیں۔ جب ان کی بلندی دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ گئی، لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو۔ جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہو کر تپنے لگا اس وقت پگھلا ہوا تانبا اوپر سے ڈالا جو لوہے کی درزوں میں بالکل پیوست ہو کر جم گیا اور سب مل کر پہاڑ سا بن گیا۔ یہ سب کام اس زمانہ میں بظاہر خارقِ عادت طریقہ سے انجام پائے ہوں گے جسے ذوالقرنین کی کرامت سمجھنا چاہیے۔ یا ممکن ہے اس وقت اس قسم کے آلات و اسباب پائے جاتے ہوں جن کا ہمیں اب علم نہیں۔

۹۷۔۔۔  یعنی حق تعالیٰ نے یاجوج ماجوج کو فی الحال یہ قدرت نہیں دی کی دیوار پھاند کر یا توڑ کر ادھر نکل آئیں۔

۹۸۔۔۔   یعنی محض خدا کی مہربانی سے یہ روک قائم ہو گئی اور میعادِ معین تک قائم رہے گی۔ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول اور قتل دجال کے بعد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وعدہ ہے اس وقت یہ روک ہٹا دی جائے گی۔ دیوار توڑ کر اتنی کثیر تعداد میں نکل پڑیں گے جس کا شمار اللّٰہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ دنیا ان کے مقابلے میں عاجز ہو گی۔ حضرت مسیح کو حکم ہو گا کہ میرے خاص بندوں کو لے کر "طور" پر چلے جائیں۔ آنحضرت مسیح علیہ السلام بارگاہِ احدیت کی طرف دست دعا دراز کریں گے۔ اس کے بعد یاجوج ماجوج پر ایک غیبی وبا مسلط ہو گی۔ سب ایک دم مر جائیں گے۔ مزید تفصیل کتب حدیث باب "امارات الساعۃ" میں دیکھنی چاہیے۔

۱۰۰۔۔۔  ۱: یعنی یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بے شمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ شدت ہول و اضطراب سے ساری مخلوق رَل گڈھ ہو جائے گی۔ جن و انس ایک دوسرے میں گھسنے لگیں گے پھر قیامت کا بگل ہو گا یعنی صور پھونکا جائے گا۔ اس کے بعد سب خدا کے سامنے میدانِ حشر میں اکٹھے کیے جائیں گے اور دوزخ کافروں کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔ شاید کافروں کی تخصیص اس لیے کی کہ اصل میں دوزخ ان ہی کے لیے تیار کیا گیا ہے اور ان کی آنکھوں پر دنیا میں پردہ پڑا ہوا تھا۔ اب وہ پردہ اٹھ گیا۔

۲: یعنی خود اپنی عقل کی آنکھ برابر نہ تھی کہ قدرت کے نشان دیکھ کر یقین لاتے اور خدا کو یاد کرتے۔ اور ضد سے کسی کی بات نہ سنی جو دوسرے کے سمجھائے سمجھ لیتے۔

۱۰۲۔۔۔  ۱: یعنی کیا منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیح، عزیر، روح القدس، فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ "کَلاَّسَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا" (ہرگز نہیں! وہ خود تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہوں گے)

۲:  یعنی اس دھوکہ میں مت رہنا! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی کریں گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کے عذاب سے (اعاذنا اللّٰہ منہا)

۱۰۴۔۔۔  یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ خسارہ میں وہ لوگ ہوں گے جن کی ساری دوڑ دھوپ دنیا کے لیے تھی آخرت کا کبھی خیال نہ آیا، محض دنیا کی ترقیات اور مادی کامیابیوں کو بڑی معراج سمجھتے رہے (کذایفہم من الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ دنیاوی زندگی میں جو کام انہوں نے اپنے نزدیک اچھے سمجھ کر کئے تھے خواہ واقع میں اچھے تھے یا نہیں وہ سب کفر کی نحوست سے وہاں بیکار ثابت ہوئے اور تمام محنت برباد گئی۔

۱۰ ۵۔۔۔  ۱: یعنی نہ اللّٰہ تعالیٰ کی نشانیوں کو مانا، نہ خیال کیا کہ کبھی اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

۲:  کافر کی حسنات مردہ ہیں اس ابدی زندگی میں کسی کام کی نہیں۔ اب محض کفریات و سیأت رہ گئیں۔ سو ایک پلہ کیا تُلے تولنا تو موازنہ کیلئے تھا۔ موازنہ متقابل چیزوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سیأات کے بالمقابل حسنہ کا وجود ہی نہیں۔ پھر تولنے کا کیا مطلب۔

۳:  جو ٹھھا کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔

۱۰۸۔۔۔  یعنی ہمیشہ رہنے سے اکتائیں گے نہیں۔ ہر دم تازہ بتازہ نعمتیں ملی گی۔ کبھی خواہش نہ کریں گے کہ ہم کو یہاں سے منتقل کر دیا جائے۔

۱۰۹۔۔۔  قریش نے یہود کے اشارہ سے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا تھا۔ سورہ ہذا کی ابتداء میں "اصحاب کہف" کا اور آخر میں ذوالقرنین کا قصہ جہاں تک موضع قرآن سے متعلق تھا۔ بیان فرمایا۔ اور روح کے متعلق سورہ بنی اسرائیل میں فرما دیا۔ "وَمَااُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً" اب خاتمہ سورت پر بتلاتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی باتیں بے انتہا ہیں۔ جو باتیں تمہاری طرف و استعداد اور ضرورت کے لائق بتلائی گئیں۔ حق تعالیٰ کی معلومات میں سے اتنی بھی نہیں جتنا سمندر میں سے ایک قطرہ۔ فرض کرو اگر پورے سمندر کا پانی سیاہی بن جائے جس سے خدا کی باتیں لکھنی شروع کی جائیں۔ اس کے بعد دوسرا اور تیسرا ویسا ہی سمندر اس میں شامل کرتے رہو تو سمندر ختم ہو جائیں گے، پر خدا کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔ یہیں سے سمجھ لو کہ قرآن اور دوسری کتب سماویہ کے ذریعہ سے خواہ کتنا ہی وسیع علم بڑی سے بڑی مقدار میں کسی کو دے دیا جائے، علم الٰہی کے سامنے وہ بھی قلیل ہے۔ گویا فی حد ذاتہ اسے کثیر کہہ سکیں۔

۱۱۰۔۔۔  یعنی میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں، خدا نہیں، جو خودبخود ذاتی طور پر تمام علوم و کمالات حاصل ہوں، ہاں اللّٰہ تعالیٰ علوم حقہ اور معارف قدسیہ میری طرف وحی کرتا ہے جن میں اصل اصول علم توحید ہے۔ اسی کی طرف میں سب کو دعوت دیتا ہوں۔ جس کسی کو اللّٰہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق یا اس کے سامنے حاضر کیے جانے کا خوف ہو اسے چاہیے کہ کچھ بھلے کام شریعت کے موافق کر جائے اور اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی میں ظاہر اً و باطناً کسی کو کسی درجہ میں بھی شریک نہ کرے۔ یعنی شرک جلی کی طرح ریا وغیرہ شرکِ خفی سے بھی بچتا رہے۔ کیونکہ جس عبادت میں غیر اللّٰہ کی شرکت ہو وہ عابد کے منہ پر ماری جائے گی۔ "اَللّٰہُمَّ اَعِذْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا" اس آیت میں اشارہ کر دیا کہ نبی کا علم بھی متناہی اور عطائی ہے، علم خداوندی کی طرح ذاتی اور غیر متناہی نہیں۔ تم سورۃالکہف بفضل اللّٰہ تعالیٰ ومنہ وللہ الحمد ولاً و اٰخراً۔