خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الکهف

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 اس سورت کا نام سورۂ کہف ہے، یہ سورت مکّیہ ہے اس میں ایک سو گیارہ ۱۱۱ آیتیں اور ایک ہزار پانچ سو ستتّر ۱۵۷۷کلمے اور چھ ہزار تین سو ساٹھ۶۳۶۰ حرف ہیں۔

(۱) سب خوبیاں اللہ کو جس نے  اپنے  بندے  (ف ۲) پر کتاب اتاری (ف ۳) اور اس میں اصلاً (بالکل، ذرا بھی) کجی نہ رکھی، (ف ۴)

۲                 محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳                 یعنی قرآنِ پاک جو اس کی بہترین نعمت اور بندوں کے لئے نجات و فلاح کا سبب ہے۔

۴                 نہ لفظی، نہ معنوی، نہ اس میں اختلاف، نہ تناقض۔

(۲ )  عدل وا لی کتاب کہ (ف ۵) اللہ کے  سخت عذاب سے  ڈرائے  اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے  کہ ان کے  لیے  اچھا ثواب ہے۔

۵                 کُفّار کو۔

(۳ )  جس میں ہمیشہ رہیں گے۔

(۴ )  اور ان (ف ۶) کو ڈرائے  جو کہتے  ہیں کہ اللہ نے  اپنا کوئی بچہ بنایا۔

۶                 کُفّار۔

(۵ )  اس بارے  میں نہ وہ کچھ علم رکھتے  ہیں نہ ان کے  باپ دادا (ف ۷) کتنا بڑا بول ہے  کہ ان کے  منہ سے  نکلتا ہے، نِرا جھوٹ کہہ رہے  ہیں۔

۷                 خالص جہالت سے یہ بہتان اٹھاتے اور ایسی باطل بات بکتے ہیں۔

(۶ )  تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے  ان کے  پیچھے  اگر وہ اس بات پر (ف ۸) ایمان نہ لائیں غم سے  (ف ۹)

۸                 یعنی قرآن شریف پر۔

۹                 اس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّیِ قلب فرمائی گئی کہ آپ ان بے ایمانوں کے ایمان سے محروم رہنے پر اس قدر رنج و غم نہ کیجئے اور اپنی جانِ پاک کو اس غم سے ہلاکت میں نہ ڈالئے۔

(۷ )  بیشک ہم نے  زمین کا سنگھار کیا جو کچھ اس پر ہے  (ف ۱۰) کہ انہیں آزمائیں ان میں کس کے  کام بہتر ہیں (ف ۱۱)

۱۰               وہ خواہ حیوان ہو یا نبات یا معادن یا انہار۔

۱۱               اور کون زہد اختیار کرتا اور محرّمات و ممنوعات سے بچتا ہے۔

(۸ )  اور بیشک جو کچھ اس پر ہے  ایک دن ہم اسے  پٹ پر میدان (سفید زمین) کو چھوڑیں گے  (ف ۱۲)

۱۲               اور آباد ہونے کے بعد ویران کر دیں گے اور نبات و اشجار وغیرہ جو چیزیں زینت کی تھیں ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا تو دنیا کی نا پائیدار زینت پر شیفتہ نہ ہو۔

(۹ )  کیا  تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے  کنارے  والے  (ف ۱۳) ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔

۱۳               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں اصحابِ کہف ہیں، آیت میں ان اصحاب کی نسبت فرمایا کہ وہ۔

(۱۰ )  جب ان نوجوانوں نے  (ف ۱۴) غار میں پناہ لی پھر بولے  اے  ہمارے  رب ہمیں اپنے  پاس سے  رحمت دے  (ف ۱۵) اور ہمارے  کام میں ہمارے  لیے  راہ یابی کے  سامان کر۔

۱۴               اپنی کافِر قوم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے۔

۱۵               اور ہدایت و نصرت اور رزق و مغفرت اور دشمنوں سے امن عطا فرما۔ اصحابِ کہف : قوی ترین اقوال یہ ہے کہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت پر جو خازن میں ہے ان کے نام یہ ہیں (۱) مکسلمینا(۲) یملیخا (۳) مرطونس (۴) بینونس (۵) سارینونس (۶) ذونوانس (۷) کشفیط طنونس اور ان کے کتّے کا نام قطمیر ہے۔ خوّاص : یہ اسماء لکھ کر دروازے پر لگا دیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں جاتا، کَشتی یا جہاز ان کی برکت سے غرق نہیں ہوتا، بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آ جاتا ہے، کہیں آگ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں لکھ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے، بچّے کے رونے، باری کے بخار، دردِ سر، امّ الصبیان، خشکی و تری کے سفر میں جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی، قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کر بطریقِ تعویذ بازو میں باندھے جائیں۔ (جمل) واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اہلِ انجیل کی حالت ابتر ہو گئی وہ بُت پرستی میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مجبور کرنے لگے ان میں دقیانوس بادشاہ بڑا جابر تھا جو بُت پرستی پر راضی نہ ہوتا اس کو قتل کر ڈالتا، اصحابِ کہف شہرِ اُفْسُوسْ کے شرفاء و معزّزین میں سے ایماندار لوگ تھے، دقیانوس کے جبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں سو گئے تین سو برس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے، بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کر دیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہو جائے یہی ان کی سزا ہے، عمّالِ حکومت میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد، پورا واقعہ رانگ کی تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کر دیا، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا، زمانے گزرے، سلطنتیں بدلیں تا آنکہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا اس کا نام بیدروس تھا جس نے اڑسٹھ سال حکومت کی پھر مُلک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکِر ہو گئے، بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہو گیا اور اس نے گریہ و زاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی یاربّ کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے خَلق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو، اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور دیوار گرا دی، دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے، اصحابِ کہف بحکمِ الٰہی فرحاں و شاداں اٹھے، چہرے شگفتہ، طبیعتیں خوش، زندگی کی ترو تازگی موجود، ایک نے دوسرے کو سلام کیا، نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، فارغ ہو کر یملیخا سے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس کا ہم لوگوں کی نسبت کیا ارادہ ہے ؟ وہ بازار گئے اور شہرِ پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی، نئے نئے لوگ پائے، انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام کی قَسم کھاتے سنا، تعجّب ہوا یہ کیا معاملہ ہے کل تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کر سکتا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لینے سے قتل کر دیا جاتا تھا آج اسلامی علامتیں شہرِ پناہ پر ظاہر ہیں، لوگ بے خوف و خطر حضرت عیسیٰ کے نام قَسمیں کھاتے ہیں پھر آپ نان پز کی دوکان پر گئے کھانے خریدنے کے لئے اس کو دقیانوسی سکّہ کا روپیہ دیا جس کا چلن صدیوں سے موقوف ہو گیا تھا اور اس کا دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا، بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کی ہاتھ آ گیا ہے انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے، حاکم نے کہا یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں اس میں جو سَنہ موجود ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ہم لوگ بوڑھے ہیں، ہم نے تو کبھی یہ سکّہ دیکھا ہی نہیں، آپ نے فرمایا میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہو جائے گا، یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال و خیال میں ہے ؟ حاکم نے کہا آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں، سینکڑوں برس ہوئے جب ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے، آپ نے فرمایا کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں، چلو میں تمہیں ان سے ملا دوں، حاکم اور شہر کے عمائد اور ایک خَلقِ کثیر ان کے ہمراہ سرِ غار پہنچے، اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز اور کھٹکے سن کر سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آ رہی ہے اللہ کی حمد اور شکر بجا لانے لگے اتنے میں یہ لوگ پہنچے، یملیخا نے تمام قصّہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم بحکمِ الٰہی اتنا طویل زمانہ سوئے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے بعدِ موت زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی ہوں، حاکم سرِ غار پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا اس کو کھولا تو تختی برآمد ہوئی اس تختی میں ان اصحاب کے اسماء اور ان کے کتّے کا نام لکھا تھا، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کر دینے کا حکم دیا، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں جب کبھی یہ غار کھُلے تو لوگ حال پر مطّلع ہو جائیں، یہ لوح پڑھ کر سب کو تعجّب ہوا اور لوگ اللہ کی حمد و ثناء بجا لائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرما دی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے، حاکم نے اپنے بادشاہ بیدروس کو واقعہ کی اطلاع دی اور امراء و عمائد کو لے کر حاضر ہوا اور سجدۂ شکرِ الٰہی بجا لایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی، اصحابِ کہف نے بادشاہ سے معانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں والسلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اللہ تیری اور تیرے مُلک کی حفاظت فرمائے اور جنّ و انس کے شر سے بچائے۔ بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اجساد کو محفوظ کیا اور اللہ تعالیٰ نے رعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے، بادشاہ نے سرِ غار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک سرور کا دن معیّن کیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں۔ (خازن وغیرہ )

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں عرس کا معمول قدیم سے ہے۔

(۱۱ ) تو ہم نے  اس غار میں ان کے  کے  کانوں پر گنتی کے  کئی برس تھپکا (ف ۱۶)

۱۶               یعنی انہیں ایسی نیند سلا دیا کہ کوئی آواز بیدار نہ کر سکے۔

(۱۲ )  پھر ہم نے  انھیں جگایا  کہ دیکھیں (ف ۱۷) دو گروہوں میں کون ان کے  ٹھہرنے  کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے۔

۱۷               کہ اصحابِ کہف کے۔

(۱۳ )  ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں، وہ کچھ جوان تھے  کہ اپنے  رب پر ایمان لائے  اور ہم نے  ان کو ہدایت بڑھائی۔

(۱۴ )  اور ہم نے  ان کی ڈھارس بندھائی جب (ف ۱۸) کھڑے  ہو کر بولے  کہ ہمارا  رب وہ ہے  جو آسمان اور زمین کا رب ہے  ہم اس کے  سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے  ایسا ہو تو ہم نے  ضرور حد سے  گزری ہوئی بات کہی۔

۱۸               دقیانوس بادشاہ کے سامنے۔

(۱۵ )  یہ جو ہماری قوم ہے  اس نے  اللہ کے  سوا خدا بنا رکھے  ہیں، کیوں نہیں لاتے  ان پر کوئی روشن سند، تو اس سے  بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے  (ف ۱۹)

۱۹               اور اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہرائے پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔

(۱۶ )  اور جب تم ان سے  اور جو کچھ وہ اللہ سوا پوجتے  ہیں سب سے  الگ ہو جاؤ تو غار میں پناہ لو تمہارا  رب تمہارے  لیے  اپنی رحمت پھیلا دے  گا اور تمہارے  کام میں آسانی کے  سامان بنا دے  گا۔

(۱۷ )  اور  اے  محبوب! تم سورج کو دیکھو گے  کہ جب نکلتا ہے  تو ان کے  غار سے  داہنی طرف بچ جاتا ہے  اور جب ڈوبتا ہے  تو ان سے  بائیں طرف کترا جاتا ہے  (ف ۲۰) حالانکہ وہ اس غار کے  کھلے  میدان میں میں ہیں (ف ۲۱) یہ اللہ کی نشانیوں میں سے  ہے  جسے  اللہ راہ دے  تو وہی راہ پر ہے، اور جسے  گمراہ کرے  تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی راہ دکھانے  والا نہ پاؤ گے۔

۲۰               یعنی ان پر تمام دن سایہ رہتا ہے اور طلوع سے غروب تک کسی وقت بھی دھوپ کی گرمی انہیں نہیں پہنچتی۔

۲۱               اور تازہ ہوائیں ان کو پہنچتی ہیں۔

(۱۸ )  اور تم انھیں جاگتا سمجھو (ف ۲۲) اور وہ سوتے  ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے  ہیں (ف ۲۳) اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے  ہوئے  ہے  غار کی چوکھٹ پر (ف ۲۴) اے  سننے ! والے  اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے  تو ان سے  پیٹھ پھیر کر بھاگے  اور ان سے  ہیبت میں بھر جائے  (ف ۲۵)

۲۲               کیونکہ ان کی آنکھیں کھُلی ہیں۔

۲۳               سال میں ایک مرتبہ دسویں محرّم کو۔

۲۴               جب وہ کروٹ لیتے ہیں وہ بھی کروٹ بدلتا ہے۔

فائدہ : تفسیرِ ثعلبی میں ہے کہ جو کوئی ان کلمات  وَکَلْبھُمْ بَاسِط ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے کتّے کے ضرر سے امن میں رہے۔

۲۵               اللہ تعالیٰ نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا۔ حضرت معاویہ جنگِ روم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوں نے اصحابِ کہف پر داخل ہونا چاہا، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیرِ معاویہ کے حکم سے داخل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے۔

(۱۹ )  اور یوں ہی ہم نے  ان کو جگایا (ف ۲۶) کہ آپس میں ایک دوسرے  سے  احوال پوچھیں (ف ۲۷) ان میں ایک کہنے  والا بولا (ف ۲۸) تم یہاں کتنی دیر رہے، کچھ بولے  کہ ایک دن رہے  یا دن سے  کم (ف ۲۹) دوسرے  بولے  تمہارا  رب خوب جانتا ہے  جتنا  تم ٹھہرے  (ف ۳۰) تو اپنے  میں ایک کو یہ چاندی لے  کر (ف ۳۱) شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے  کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے  (ف ۳۲) کہ تمہارے  لیے  اس میں سے  کھانے  کو لائے  اور چاہیے  کہ نرمی کرے  اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔

۲۶               ایک مدّتِ دراز کے بعد۔

۲۷               اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ دیکھ کر ان کا یقین زیادہ ہوا اور وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔

۲۸               یعنی مکسلمینا جو ان میں سب سے بڑے اور ان کے سردار ہیں۔

۲۹               کیونکہ وہ غار میں طلوعِ آفتاب کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب اٹھے تو آفتاب قریبِ غروب تھا اس سے انہوں نے گمان کیا کہ یہ وہی دن ہے۔

مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ اجتہاد جائز اور ظنِ غالب کی بنا پر قول کرنا درست ہے۔

۳۰               انہیں یا تو الہام سے معلوم ہوا کہ مدّت دراز گزر چکی یا انہیں کچھ ایسے دلائل و قرائن ملے جیسے کہ بالوں اور ناخنوں کا بڑھ جانا جس سے انہوں نے یہ خیال کیا کہ عرصہ بہت گزر چکا۔

۳۱               یعنی دقیانوسی سکّہ کے روپے جو گھر سے لے کر آئے تھے اور سوتے وقت اپنے سرہانے رکھ لئے تھے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کو خرچ ساتھ میں رکھنا طریقۂ توکل کے خلاف نہیں ہے چاہئے کہ بھروسہ اللہ پر رکھے۔

۳۲               اور اس میں کوئی شبہِ حرمت نہیں۔

(۲۰ )  بیشک اگر وہ تمہیں جان لیں گے  تو تمہیں پتھراؤ کریں گے  (ف ۳۳) یا اپنے  دین (ف ۳۴) میں پھیر لیں گے  اور ایسا ہوا تو تمہارا کبھی بھلا نہ ہو گا۔

۳۳               اور بُری طرح قتل کریں گے۔

۳۴               یعنی جبر و ستم سے کُفری ملّت۔

(۲۱ )  اور اسی طرح ہم نے  ان کی اطلاع کر دی (ف ۳۵) کہ لوگ جان لیں (ف ۳۶) کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے  اور قیامت میں  کچھ شبہ نہیں، جب وہ لوگ ان کے  معاملہ میں باہم جھگڑنے  لگے  (ف ۳۷) تو بولے  ان کے  غار پر کوئی عمارت بناؤ، ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، وہ بولے  جو اس کام میں غالب رہے  تھے  (ف ۳۸) قسم ہے  کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے  (ف ۳۹)

۳۵               لوگوں کو دقیانوس کے مرنے اور مدّت گزر جانے کے بعد۔

۳۶               اور بیدروس کی قوم میں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں انہیں معلوم ہو جائے۔

۳۷               یعنی ان کی وفات کے بعد ان کے گرد عمارت بنانے میں۔

۳۸               یعنی بیدروس بادشاہ اور اس کے ساتھی۔

۳۹               جس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں۔ (مدارک)

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے۔

مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے جوار میں برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں اور اسی لئے قبروں کی زیارت سنّت اور موجبِ ثواب ہے۔

(۲۲ )  اب کہیں گے  (ف ۴۰) کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے  پانچ ہیں، چھٹا ان کا کتا بے  دیکھے  الاؤ تکا (تیر تکا) بات (ف ۴۱) اور کچھ کہیں گے  سات ہیں (ف ۴۲) اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے  (ف ۴۳) انہیں نہیں جانتے  مگر تھوڑے  (ف ۴۴) تو ان کے  بارے  میں (ف ۴۵) بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہو چکی (ف ۴۶)

۴۰               نصرانی۔ جیسا کہ ان میں سے سید اور عاقب نے کہا۔

۴۱               جو بے جانے کہہ دی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی۔

۴۲               اور یہ کہنے والے مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ثابت رکھا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے علم حاصل کر کے کہا۔

۴۳               کیونکہ جہانوں کی تفاصیل اور کائناتِ ماضیہ و مستقبلہ کا علم اللہ ہی کو ہے یا جس کو وہ عطا فرمائے۔

۴۴               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ میں انہیں قلیل میں سے ہوں جن کا آیت میں استثناء فرمایا۔

۴۵               اہلِ کتاب سے۔

۴۶               اور قرآن میں نازِل فرما دی گئی آپ اتنے ہی پر اکتفا کریں اور اس معاملہ میں یہود کے جہل کا اظہار کرنے کے درپے نہ ہوں۔

(۲۳ ) اور ان کے  (ف  ۴۷) بارے  میں کسی کتابی سے  کچھ نہ پوچھو۔

۴۷               یعنی اصحابِ کہف کے۔

(۲۳ )  اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا میں کل یہ کر دوں گا۔

(۲۴ )  مگر یہ کہ اللہ چاہے  (ف ۴۸) اور اپنے  رب کی یاد کر جب تو بھول جائے  (ف ۴۹) اور یوں کہو کہ قریب ہے  میرا رب مجھے  اس (ف ۵۰) سے  نزدیک تو راستی کی راہ دکھائے، (ف ۵۱)

۴۸               یعنی جب کسی کام کا ارادہ ہو تو یہ کہنا چاہئے کہ ان شاء اللہ ایسا کروں گا بغیر ان شاء اللہ کے نہ کہے۔

شانِ نُزول : اہلِ مکّہ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے جب اصحابِ کہف کا حال دریافت کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کل بتاؤں گا اور ان شاء اللہ نہیں فرمایا تھا، کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازِل فرمائی۔

۴۹               یعنی ان شاء اللہ تعالیٰ کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لے۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب تک اس مجلس میں رہے۔ اس آیت کی تفسیروں میں کئی قول ہیں بعض مفسِّرین نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ اگر کسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرے۔ (بخاری و مسلم) بعض عارفین نے فرمایا معنیٰ یہ ہیں کہ اپنے ربّ کو یاد کر جب تو اپنے آپ کو بھول جائے کیونکہ ذکر کا کمال یہی ہے کہ ذاکر مذکور میں فنا ہو جائے۔ ذکر و ذاکر محو گردد  بالتمام جملگی مذکور ماند والسلام۔

۵۰               واقعۂ اصحابِ کہف کے بیان اور اس کی خبر دینے۔

۵۱               یعنی ایسے معجزات عطا فرمائے جو میری نبوّت پر اس سے بھی زیادہ ظاہر دلالت کریں جیسے کہ انبیائے سابقین کے احوال کا بیان اور غیوب کا علم اور قیامت تک پیش آنے والے حوادث و وقایع کا بیان اور شقّ القمر اور حیوانات سے اپنی شہادتیں دلوانا وغیرہا۔ (خازن و جمل)۔

(۲۵ )  اور وہ اپنے  غار میں تین سو برس ٹھہرے  نو اوپر،(ف ۵۲)

۵۲               اور اگر وہ اس مدّت میں جھگڑا کریں تو۔

(۲۶ )  تم فرماؤ اللہ خوب جانتا ہے  وہ جتنا ٹھہرے  (ف ۵۳) اسی کے  لیے  ہیں آسمانوں اور زمینوں کے  سب غیب، وہ کیا ہی دیکھتا اور کیا ہی سنتا ہے  (ف ۵۴) اس کے  سوا ان کا (ف ۵۵) کوئی وا لی نہیں، اور وہ اپنے  حکم میں کسی کو  شریک نہیں کرتا۔

۵۳               اسی کا فرمانا حق ہے۔ شانِ نُزول : نجران کے نصرانیوں نے کہا تھا تین سو برس تک ٹھیک ہیں اور نو کی زیادتی کیسی ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

۵۴               کوئی ظاہر اور کوئی باطن اس سے چھُپا نہیں۔

۵۵               آسمان اور زمین والوں کا۔

(۲۷ )  اور تلاوت کرو جو تمہارے  رب کی کتاب (ف ۵۶) تمہیں وحی ہوئی اس کی باتوں کا کوئی بدلنے  والا نہیں (ف ۵۷) اور ہرگز تم اس کے  سوا پناہ نہ پاؤ گے۔

۵۶               یعنی قرآن شریف۔

۵۷               اور کسی کو اس کے تبدیل و تغییر کی قدرت نہیں۔

(۲۸ )  اور اپنی جان ان سے  مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے  رب کو پکارتے  ہیں اس کی رضا چاہتے  ہیں (ف ۵۸) اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگانی کا سنگھار چاہو گے، اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے  اپنی یاد سے  غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے  پیچھے  چلا اور اس کا کام حد سے  گزر گیا۔

۵۸               یعنی اخلاص کے ساتھ ہر وقت اللہ کی طاعت میں مشغول رہتے ہیں۔

 شانِ نُزول : سردارانِ کُفّار کی ایک جماعت نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ ہمیں غُرباء اور شکستہ حالوں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے اگر آپ ہمیں انھیں صحبت سے جدا کر دیں تو ہم اسلام لے آئیں اور ہمارے اسلام لے آ نے سے خَلقِ کثیر اسلام لے آئے گی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

(۲۹ )  اور فرما دو کہ حق تمہارے  رب کی طرف سے  ہے  (ف ۵۹) تو جو چاہے  ایمان لائے  اور جو چاہے  کفر کرے  (ف ۶۰) بیشک ہم نے  ظالموں (ف ۶۱) کے  لیے  وہ آگ تیار کر رکھی ہے  جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر (ف ۶۲) پانی کے  لیے  فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہو گی اس پانی سے  کہ چرخ دے  (کھولتے  ہوئے ) دھات کی طرح ہے  کہ ان کے  منہ بھون دے  گا کیا ہی برا پینا ہے  (ف ۶۳) اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے  کی جگہ۔

۵۹               یعنی اس کی توفیق سے اور حق و باطل ظاہر ہو چکا میں تو مسلمانوں کو ان کی غربت کے باعث تمہاری دل جوئی کے لئے اپنی مجلسِ مبارک سے جدا نہیں کروں گا۔

۶۰               اپنے انجام و مآل کو سوچ لے اور سمجھ لے کہ۔

۶۱               یعنی کافِروں۔

۶۲               پیاس کی شدّت سے۔

۶۳               اللہ کی پناہ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ غلیظ پانی ہے روغنِ زیتون کی تلچھٹ کی طرح۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب وہ منہ کے قریب کیا جائے گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ وہ پگھلایا ہوا رانگ اور پیتل ہے۔

(۳۰ )  بیشک جو ایمان لائے  اور نیک کام کیے  ہم ان کے  نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتے  جن کے  کام اچھے  ہوں، (ف ۶۴)

۶۴               بلکہ ا نہیں ان کی نیکیوں کی جزا دیتے ہیں۔

(۳۱ )  ان کے  لیے  بسنے  کے  باغ ہیں ان کے  نیچے  ندیاں بہیں وہ اس میں سونے  کے  کنگن پہنائے  جائیں گے  (ف ۶۵) اور سبز کپڑے  کریب اور قناویز کے  پہنیں گے  وہاں تختوں پر تکیہ لگائے  (ف ۶۶) کیا ہی اچھا ثواب اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ۔

۶۵               ہر جنّتی کو تین تین کنگن پہنائے جائیں گے سونے اور چاندی اور موتیوں کے۔ حدیثِ صحیح میں ہے کہ وضو کا پانی جہاں جہاں پہنچتا ہے وہ تمام اعضا بہشتی زیوروں سے آراستہ کئے جائیں گے۔

۶۶               شاہانہ شان و شکوہ کے ساتھ ہوں گے۔

(۳۲ )  اور ان کے  سامنے  دو مردوں کا حال بیان کرو (ف ۶۷) کہ ان میں ایک کو (ف ۶۸) ہم نے  انگوروں کے  دو باغ دیے  اور ان کو کھجوروں سے  ڈھانپ لیا اور ان کے  بیچ میں کھیتی رکھی (ف ۶۹)

۶۷               کہ کافِر و مومن اس میں غور کر کے اپنا اپنا انجام و مآل سمجھیں اور ان دو مَردوں کا حال یہ ہے۔

۶۸               یعنی کافِر کو۔

۶۹               یعنی انہیں نہایت بہترین ترتیب کے ساتھ مرتّب کیا۔

(۳۳ )  دونوں باغ اپنے  پھل لائے  اور اس میں کچھ کمی نہ دی (ف ۷۰) اور دونوں کے  بیچ میں ہم نے  نہر بہائی۔

۷۰               بہار خوب آئی۔

 (۳۴ )  اور وہ (ف ۷۱) پھل رکھتا تھا  (ف ۷۲) تو اپنے  ساتھی (ف ۷۳) سے  بولا اور وہ اس سے  رد و بدل کرتا تھا (ف ۷۴) میں تجھ سے  مال میں زیادہ ہوں اور آدمیوں کا زیادہ زور رکھتا ہوں (ف ۷۵)

۷۱               باغ والا اس کے علاوہ اور بھی۔

۷۲               یعنی اموالِ کثیرہ سونا، چاندی وغیرہ ہر قِسم کی چیزیں۔

۷۳               ایماندار۔

۷۴               اور اِترا کر اور اپنے مال پر فخر کر کے کہنے لگا کہ۔

۷۵               میرا کنبہ قبیلہ بڑا ہے، ملازم، خدمت گار، نوکر چاکر بہت ہیں۔

(۳۵ )  اپنے  باغ میں گیا (ف ۷۶) اور اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا (ف ۷۷) بولا مجھے  گمان نہیں کہ یہ کبھی فنا ہو۔

۷۶               اور مسلمان کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ساتھ لے گیا وہاں اس کو افتخاراً ہر طرف لے پھرا اور ہر ہر چیز دکھائی۔

۷۷               کُفر کے ساتھ اور باغ کی زینت و زیبائش اور رونق و بہار دیکھ کر مغرور ہو گیا اور۔

(۳۶ )  اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو اور اگر میں (ف ۷۸) اپنے  رب کی طرف پھر گیا بھی تو ضرور اس باغ سے  بہتر پلٹنے  کی جگہ پاؤں گا (ف ۷۹)

۷۸               جیسا کہ تیرا گمان ہے بالفرض۔

۷۹               کیونکہ دنیا میں بھی میں نے بہترین جگہ پائی ہے۔

(۳۷ )  اس کے  ساتھی (ف ۸۰) نے  اس سے  اُلٹ پھیر کرتے  ہوئے  جواب دیا کیا تو اس کے  ساتھ کفر کرتا ہے  جس نے  تجھے  مٹی سے  بنایا پھر نطفہ سے  پھر تجھے  ٹھیک مرد کیا (ف ۸۱)

۸۰               مسلمان۔

۸۱               عقل و بلوغ، قوّت و طاقت عطا کی اور تو سب کچھ پا کر کافِر ہو گیا۔

(۳۸ )  لیکن میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ ہی میرا رب ہے  او ر میں کسی کو اپنے  رب کا شریک نہیں کرتا ہوں۔

(۳۹ )  اور کیوں نہ ہوا کہ جب تو اپنے  باغ میں گیا تو کہا ہوتا جو چاہے  اللہ، ہمیں کچھ زور نہیں مگر اللہ کی مدد کا (ف ۸۲) اگر تو مجھے  اپنے  سے  مال و اولاد میں کم دیکھتا تھا (ف ۸۳)

۸۲               اگر تو باغ دیکھ کر ماشاء اللہ کہتا اور اعتراف کرتا کہ یہ باغ اور اس کے تمام محاصل و منافع اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور اس کے فضل و کرم سے ہیں اور سب کچھ اس کے اختیار میں ہے چاہے اس کو آباد رکھے، چاہے ویران کرے ایسا کہتا تو یہ تیرے حق میں بہتر ہوتا تو نے ایسا کیوں نہیں کہا۔

۸۳               اس وجہ سے تکبُّر میں مبتلا تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا۔

(۴۰ ) تو قریب ہے  کہ میرا رب مجھے  تیرے  باغ سے  اچھا دے  (ف ۸۴) اور تیرے  باغ پر آسمان سے   بجلیاں اتارے  تو  وہ پٹ پر میدان (سفید زمین) ہو کر رہ جائے  (ف ۸۵)

۸۴               دنیا میں یا عقبیٰ میں۔

۸۵               کہ اس میں سبزہ کا نام و نشان باقی نہ رہے۔

(۴۱ )  یا اس کا پانی زمین میں دھنس جائے  (ف ۸۶) پھر تو اسے  ہرگز تلاش نہ کر سکے  (ف ۸۷)

۸۶               نیچے چلا جائے کہ کسی طرح نکالا نہ جا سکے۔

۸۷               چنانچہ ایسا ہی ہوا عذاب آیا۔

(۴۲ ) اور اس کے  پھل گھیر لیے  گئے  (ف ۸۸) تو اپنے  ہاتھ ملتا رہ گیا (ف ۸۹) اس لاگت پر جو اس باغ میں خرچ کی تھی اور وہ اپنی ٹیٹوں پر (اوندھے  منہ) گرا ہوا تھا (ف ۹۰) اور کہہ رہا ہے، اے  کاش! میں نے  اپنے  رب کا کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔

۸۸               اور باغ بالکل ویران ہو گیا۔

۸۹               پشیمانی اور حسرت سے۔

۹۰               اس حال کو پہنچ کر اس کو مو من کی نصیحت یاد آتی ہے اور اب وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے کُفر و سرکشی کا نتیجہ ہے۔

(۴۳ )  اور اس کے  پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ کے  سامنے  اس کی مدد کرتی نہ وہ بدلہ لینے  کے  قابل تھا (ف ۹۱)

۹۱               کہ ضائع شدہ چیز کو واپس کر سکتا۔

(۴۴ ) یہاں کھلتا ہے  (ف ۹۲) کہ اختیار سچے  اللہ کا ہے، اس کا ثواب سب سے  بہتر اور اسے  ماننے  کا انجام سب سے  بھلا۔

۹۲               اور ایسے حالات میں معلوم ہوتا ہے۔

 (۴۵ )  اور ان کے  سامنے  (ف ۹۳) زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو (ف ۹۴) جیسے  ایک پانی ہم نے  آسمان اتارا  تو اس کے  سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا (ف ۹۵) کہ سوکھی گھاس ہو گیا جسے  ہوائیں اڑائیں (ف ۹۶) اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے  (ف ۹۷)

۹۳               اے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۹۴               کہ اس کی حالت ایسی ہے۔

۹۵               زمین ترو تازہ ہوئی پھر قریب ہی ایسا ہوا۔

۹۶               اور پراگندہ کر دیں۔

۹۷               پیدا کرنے پر بھی اور فنا کرنے پر بھی اس آیت میں دنیا کی تری و تازگی اور بہجت و شادمانی اور اس کے فنا و ہلاک ہونے کی سبز ہ سے تمثیل فرمائی گئی کہ جس طرح سبزہ و شاداب ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا یہی حالت دنیا کی حیاتِ بے اعتبار کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل کا کام نہیں۔

(۴۶ ) مال اور بیٹے  یہ جیتی دنیا کا سنگھار ہے  (ف ۹۸) اور  باقی رہنے  وا لی اچھی باتیں (ف ۹۹) ان کا ثواب تمہارے  رب کے  یہاں بہتر اور وہ امید  میں  سب سے  بھلی۔

۹۸               راہِ قبر و آخرت کے لئے توشہ نہیں۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مال و اولاد دنیا کی کھیتی ہیں اور اعمالِ صالحہ آخرت کی اور اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے بندوں کو یہ سب عطا فرماتا ہے۔

۹۹               باقیاتِ صالحات سے اعمالِ خیر مراد ہیں جن کے ثمرے انسان کے لئے باقی رہتے ہیں جیسے کہ پنج گانہ نمازیں اور تسبیح و تحمید۔ حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے باقیاتِ صالحات کی کثرت کا حکم فرمایا صحابہ نے عرض کیا وہ کیا ہیں فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھنا۔

(۴۷ )  اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے  (ف ۱۰۰) اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے  (ف ۱۰۱) اور ہم انہیں اٹھائیں گے  (ف ۱۰۲) تو ان میں سے  کسی کو نہ چھوڑیں گے۔

۱۰۰             کہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اَبر کی طرح روانہ ہوں گے۔

۱۰۱             نہ اس پر کوئی پہاڑ ہو گا نہ عمارت نہ درخت۔

۱۰۲             قبروں سے اور موقفِ حساب میں حاضر کریں گے۔

(۴۸ )  اور سب تمہارے  رب کے  حضور پرا باندھے  پیش ہوں گے  (ف ۱۰۳) بیشک تم ہمارے  پاس ویسے  ہی آئے جیسا ہم نے  تمہیں پہلی بار بنایا تھا (ف ۱۰۴) بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے  لیے  کوئی وعدہ کا وقت نہ رکھیں گے، (ف ۱۰۵)

۱۰۳             ہر ہر امّت کی جماعت کی قطاریں علیٰحدہ علیٰحدہ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا۔

۱۰۴             زندہ برہنہ تن و برہنہ پا بے زر و مال۔

۱۰۵             جو وعدہ کہ ہم نے زبانِ انبیاء پر فرمایا تھا یہ ان سے فرمایا جائے گا جو لوگ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اور قیامت قائم ہونے کے منکِر تھے۔

(۴۹ )  اور نامۂ اعمال رکھا جائے  گا (ف ۱۰۶) تو تم مجرموں کو دیکھو گے  کہ اس کے  لکھے  سے  ڈرتے  ہوں گے  اور (ف ۱۰۷) کہیں گے  ہائے  خرابی ہماری اس نوشتہ کو کیا ہوا نہ اس نے  کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا نہ بڑا جسے  گھیر لیا ہو اور اپنا سب کیا انہوں نے  سامنے  پایا، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا (ف ۱۰۸)

۱۰۶             ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں، مومن کا داہنے میں کافر کا بائیں میں۔

۱۰۷             اس میں اپنی بدیاں لکھی دیکھ کر۔

۱۰۸             نہ کسی پر بے جُرم عذاب کرے، نہ کسی کی نیکیاں گھٹائے۔

(۵۰ ) اور یاد کرو جب ہم نے  فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (ف ۱۰۹) تو سب نے  سجدہ کیا سوا  ابلیس کے،  قومِ جن سے  تھا تو اپنے  رب کے  حکم سے  نکل گیا (ف ۱۱۰) بھلا کیا اسے  اور اس کی اولاد  و میرے  سوا دوست بناتے  ہو (ف ۱۱۱) اور وہ ہمارے  دشمن ہیں ظالموں کو کیا ہی برا بدل (بدلہ) ملا، (ف ۱۱۲)

۱۰۹             تحیّت کا۔

۱۱۰             اور باوجود مامور ہونے کے اس نے سجدہ نہ کیا تو اے بنی آدم۔

۱۱۱             اور ان کی اطاعت اختیار کرتے ہو۔

۱۱۲             کہ بجائے طاعتِ الٰہی بجا لانے کے طاعتِ شیطان میں مبتلا ہوئے۔

(۵۱ )  نہ میں نے  آسمانوں اور زمین کو بناتے  وقت انہیں سامنے  بٹھا لیا تھا، نہ خود ان کے  بناتے  وقت  اور نہ میری شان، کہ گمراہ کرنے  والوں کو بازوں بناؤں (ف ۱۱۳)

۱۱۳             معنیٰ یہ ہیں کہ اشیاء کے پیدا کرنے میں منفرد اور یگانہ ہوں نہ میرا کوئی شریکِ عمل نہ کوئی مشیر کار پھر میرے سوا اور کسی کی عبادت کس طرح درست ہو سکتی ہے۔

(۵۲ )  اور جس دن فرمائے  گا (ف ۱۱۴) کہ پکارو میرے  شریکوں کو جو تم گمان کرتے  تھے  تو انہیں پکاریں گے  وہ انہیں جواب نہ دیں گے  اور ہم ان کے  (ف ۱۱۵) درمیان ایک ہلاکت کا میدان کر دیں گے (ف ۱۱۶)

۱۱۴             اللہ تعالیٰ کفّار سے۔

۱۱۵             یعنی بتوں اور بت پرستوں کے یا اہلِ ہدیٰ اور اہلِ ضلال کے۔

۱۱۶             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ موبقِ جہنّم کی ایک وادی کا نام ہے۔

(۵۳ ) اور مجرم دوزخ کو دیکھیں گے  تو یقین کریں گا کہ انہیں اس میں گرنا ہے  اور اس سے  پھرنے  کی کوئی جگہ نہ پائیں گے۔

(۵۴ )  اور بیشک ہم نے  لوگوں کے  لیے  اس قرآن میں ہر قسم کی مثل طرح طرح بیان فرمائی (ف ۱۱۷) اور آدمی ہر چیز سے  بڑھ کر جھگڑالو ہے  (ف ۱۱۸)

۱۱۷             تاکہ سمجھیں اور پند پذیر ہوں۔

۱۱۸             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہاں آدمی سے مراد نضر بن حارث ہے اور جھگڑے سے اس کا قرآنِ پاک میں جھگڑا کرنا بعض نے کہا ابی بن خلف مراد ہے۔ بعض مفسّرین کا قو ل ہے کہ تمام کفّار مراد ہیں بعض کے نزدیک آیت عموم پر ہے اور یہی اصح ہے۔

(۵۵ )  اور آدمیوں کو کسی چیز نے  اس سے  روکا کہ ایمان لاتے  جب ہدایت (ف ۱۱۹) ان کے  پاس آئی اور اپنے  رب سے  معافی مانگتے  (ف ۱۱۳) مگر یہ کہ ان پر اگلوں کا دستور آئے  (ف ۱۲۱) یا ان پر قسم قسم کا عذاب آئے۔

۱۱۹             یعنی قرآنِ کریم یا رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ مبارک۔

۱۲۰             معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے لئے جائے عذر نہیں ہے کیونکہ انہیں ایمان و استغفار سے کوئی مانع نہیں۔

۱۲۱             یعنی وہ ہلاک جو مقدر ہے اس کے بعد۔

(۵۶ )  اور  ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے  مگر (ف ۱۲۲) خوشی (ف ۱۲۳) ڈر سنانے  والے  اور جو کافر ہیں وہ باطل کے  ساتھ جھگڑتے  ہیں (ف ۱۲۴) کہ اس سے  حق کو ہٹا دیں اور انہوں نے  میری آیتوں کی اور جو ڈر انہیں سناتے  گئے  تھے، (ف ۱۲۵)

۱۲۲             ایمانداروں اطاعت شعاروں کے لئے ثواب کی۔

۱۲۳             بے ایمانوں، نافرمانوں کے لئے عذاب کا۔

۱۲۴             اور رسولوں کو اپنی مثل بشر کہتے ہیں۔

۱۲۵             عذاب کے۔

(۵۷ )  ان کی ہنسی بنا لی اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جسے  اس کے  رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو وہ ان سے  منہ پھیر لے  (ف ۱۲۶) اور اس کے  ہاتھ جو آگے  بھیج چکے  (ف ۱۲۷) اسے  بھول جائے  ہم نے  ان کے  دلوں پر غلاف کر دیے  ہیں کہ قرآن نہ سمجھیں اور ان کے  کانوں میں گرانی (ف ۱۲۸) اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی ہرگز کبھی راہ نہ پائیں گے  (ف ۱۲۹)

۱۲۶             اور پند پذیر نہ ہو اور ان پر ایمان نہ لائے۔

۱۲۷             یعنی معصیّت اور گناہ اور نافرمانی جو کچھ اس نے کیا۔

۱۲۸             کہ حق بات نہیں سنتے۔

۱۲۹             یہ ان کے حق میں ہے جو علمِ الٰہی میں ایمان سے محروم ہیں۔

(۵۸ )  اور تمہارا  رب بخشنے  والا مہر  وا  لا ہے، اگر وہ انہیں (ف ۱۳۰) ان کے  کیے  پر پکڑتا  تو جلد ان پر عذاب بھیجتا (ف ۱۳۱) بلکہ ان کے  لیے  ایک وعدہ کا وقت ہے  (ف ۱۳۲) جس کے  سامنے  کوئی پناہ نہ پائیں گے۔

۱۳۰             دنیا ہی میں۔

۱۳۱             لیکن اس کی رحمت ہے کہ اس نے مہلت دی اور عذاب میں جلدی نہ فرمائی۔

۱۳۲             یعنی روزِ قیامت بعث و حساب کا دن۔

(۵۹ )  اور یہ بستیاں ہم نے  تباہ کر دیں (ف ۱۳۳) جب انہوں نے  ظلم کیا (ف ۱۳۴) اور ہم نے  ان کی بربادی کا ایک وعدہ رکھا تھا۔

۱۳۳             وہاں کے رہنے والوں کو ہلاک کر دیا اور وہ بستیاں ویران ہو گئیں، ان بستیوں سے قومِ لوط و عاد و ثمود وغیرہ کی بستیاں مراد ہیں۔

۱۳۴             حق کو نہ مانا اور کُفر اختیار کیا۔

(۶۰ )  اور یاد کرو جب موسیٰ (ف ۱۳۵) نے  اپنے  خادم سے  کہا (ف ۱۳۶) میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے  ہیں (ف ۱۳۷) یا قرنوں (مدتوں تک) چلا جاؤں  (ف ۱۳۸)

۱۳۵             ابنِ عمر ان نبیِ محترم صاحبِ توریت و معجزاتِ ظاہرہ۔

۱۳۶             جن کا نام یوشع ابنِ نون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت و صحبت میں رہتے تھے اور آپ سے علم اخذ کرتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے ولی عہد ہیں۔

۱۳۷             بحرِ فارس و بحرِ روم جانبِ مشرق میں اور مجمع البحرین وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کا وعدہ دیا گیا تھا اس لئے آپ نے وہاں پہنچنے کا عزمِ مصمّم کیا اور فرمایا کہ میں اپنی سعی جاری رکھوں گا جب تک کہ وہاں پہنچوں۔

۱۳۸             اگر وہ جگہ دور ہو پھر یہ حضرات روٹی اور نمکین بھُنی مچھلی زنبیل میں توشہ کے طور پر لے کر روانہ ہوئے۔

(۶۱ )  پھر جب وہ  دونوں ان دریاؤں کے  ملنے  کی جگہ پہنچے  (ف ۱۳۹) اپنی مچھلی بھول گئے  اور اس نے  سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی۔

۱۳۹             جہاں ایک پتّھر کی چٹان تھی اور چشمۂ حیات تھا تو وہاں دونوں حضرات نے استراحت کی اور مصروفِ خواب ہو گئے، بھُنی ہوئی مچھلی زنبیل میں زندہ ہو گئی اور تڑپ کر دریا میں گری اور اس پر سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی، حضرت یوشع کو بیدار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

(۶۲ )  پھر جب وہاں سے  گزر گئے  (ف ۱۴۰) موسیٰ نے  خادم سے  کہا ہمارا صبح کا کھانا  لاؤ  بیشک ہمیں اپنے  اس سفر میں بڑی مشقت کا سامنا ہوا، (ف ۱۴۱)

۱۴۰             اور چلتے رہے یہاں تک کہ دوسرے روز کھانے کا وقت آیا تو حضرت۔

۱۴۱             تھکان بھی ہے بھوک کی شدّت بھی ہے اور یہ بات جب تک مجمع البحرین پہنچے تھے پیش نہ آئی تھی، منزلِ مقصود سے آگے بڑھ کر تکان اور بھوک معلوم ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ مچھلی یاد کریں اور اس کی طلب میں منزلِ مقصود کی طرف واپس ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ فرمانے پر خادم نے معذرت کی اور۔

(۶۳ )  بولا بھلا دیکھئے  تو جب ہم نے  اس چٹان کے  پاس جگہ لی تھی تو بیشک میں مچھلی کو بھول گیا، اور مجھے  شیطان ہی نے  بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور کروں اور اس نے  (ف ۱۴۲) تو سمندر میں اپنی راہ لی، اچنبھا ہے۔

۱۴۲             یعنی مچھلی نے۔

(۶۴ )  موسیٰ نے  کہا یہی تو ہم چاہتے  تھے  (ف ۱۴۳) تو پیچھے  پلٹے  اپنے  قدموں کے  نشان دیکھتے۔

۱۴۳             مچھلی کا جانا ہی تو ہمارے حصولِ مقصد کی علامت ہے اور جن کی طلب میں ہم چلے ہیں ان کی ملاقات وہیں ہو گی۔

(۶۵ ) تو ہمارے  بندوں میں سے  ایک بندہ پایا (ف ۱۴۴) جسے  ہم نے  اپنے  پاس سے  رحمت دی (ف ۱۴۵) اور اسے  اپنا علم لدنی عطا کیا (ف ۱۴۶)

۱۴۴             جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا یہ حضرت خضر تھے علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام۔ لفظِ خضر لغت میں تین طرح آیا ہے بکسرِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا  و کسرِ ضاد۔ یہ لقب ہے اور وجہ اس لقب کی یہ ہے کہ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہو جاتی ہے، نام آپ کا بلیا بن ملکان اور کنیّت ابوالعباس ہے، ایک قول یہ ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ آپ شہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیار فرمایا۔

۱۴۵             اس رحمت سے یا نبوّت مراد ہے یا ولایت یا علم یا طولِ حیات، آپ ولی تو بالیقین ہیں آپ کی نبوّت میں اختلاف ہے۔

۱۴۶             یعنی غیوب کا علم۔ مفسِّرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندہ کو بطریقِ الہام حاصل ہو۔ حدیث شریف میں ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیٰ نبینا و علیہ السلام کو دیکھا کہ سفید چادر میں لپٹے ہوئے ہیں تو آپ نے انہیں سلام کیا انہوں نے دریافت کیا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں پھر۔

(۶۶ )  اس سے  موسیٰ نے  کہا کیا میں تمہارے  ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے  سکھا دو گے  نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی (ف ۱۴۷)

۱۴۷             مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو علم کی طلب میں رہنا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی بڑا عالِم ہو۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ جس سے علم سیکھے اس کے ساتھ بتواضع و ادب پیش آئے۔ (مدارک) خضر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں۔

(۶۷ )  کہا آپ میرے  ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے  (ف ۱۴۸)

۱۴۸             حضرت خضر نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام امورِ منکَرہ و ممنوعہ دیکھیں گے اور انبیاء علیہم السلام سے ممکن ہی نہیں کہ وہ منکَرات دیکھ کر صبر کر سکیں پھر حضرت خضر علیہ السلام نے اس ترکِ صبر کا عذر بھی خود ہی بیان فرما دیا اور فرمایا۔

(۶۸ )  اور اس بات پر کیونکر صبر کریں گے  جسے  آپ کا علم محیط نہیں (ف ۱۴۹)

۱۴۹             اور ظاہر میں وہ منکر ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک علم اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جو میں نہیں جانتا۔ مفسِّرین و محدِّثین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے لئے خاص فرمایا وہ علمِ باطن و مکاشفہ ہے اور اہلِ کمال کے لئے یہ باعثِ فضل ہے چنانچہ وارد ہوا ہے کہ صدیق کو نماز وغیرہ اعمال کی بنا پر صحابہ پر فضیلت نہیں بلکہ ان کی فضیلت اس چیز سے ہے جو ان کے سینہ میں ہے یعنی علمِ باطن و علمِ اسرار کیونکہ جو افعال صادر ہوں گے وہ حکمت سے ہوں گے اگرچہ بظاہر خلاف معلوم ہوں۔

(۶۹ ) کہا عنقریب اللہ چاہے  تو تم مجھے  صابر پاؤ گے  اور میں تمہارے  کسی حکم کے  خلاف نہ کروں گا۔

(۷۰ )  کہا تو اگر آپ میرے  ساتھ رہنے  ہیں تو مجھ سے  کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں (ف ۱۵۰)

۱۵۰             مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ شاگرد اور مسترشِد کے آداب میں سے ہے کہ وہ شیخ و استاد کے افعال پر زبانِ اعتراض نہ کھولے اور منتظر رہے کہ وہ خود ہی اس کی حکمت ظاہر فرماویں۔ ( مدارک و ابوالسعود)۔

(۷۱ ) اب دونوں چلے  یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے  (۱۵۱) اس بندہ نے  اسے  چیر ڈالا (ف ۱۵۲) موسیٰ نے  کہا کیا تم نے  اسے  اس لیے  چیرا کہ اس کے  سواروں کو ڈبا دو بیشک یہ تم نے  بری بات کی، (ف ۱۵۳)

۱۵۱             اور کَشتی والوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان کر بغیر معاوضہ کے سوار کر لیا۔

۱۵۲             اور بسولے یا کلہاڑی سے اس کا ایک تختہ یا دو تختے اکھاڑ ڈالے لیکن باوجود اس کے پانی کَشتی میں نہ آیا۔

۱۵۳             حضرت خضر نے۔

(۷۲ )  کہا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے  ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے  (ف ۱۵۴)

۱۵۴             حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔

(۷۳ )  کہا مجھ سے  میری بھول پر گرفت نہ کرو (ف ۱۵۵) اور  مجھ پر میرے  کام میں مشکل نہ ڈالو۔

۱۵۵             کیونکہ بھول پر شریعت میں گرفت نہیں۔

(۷۴ )  پھر دونوں چلے  (ف ۱۵۶) یہاں تک کہ جب ایک لڑکا ملا (ف ۱۵۷) اس بندہ نے  اسے  قتل کر دیا، موسیٰ نے  کہا کیا تم نے  ایک ستھری جان (ف ۱۵۸) بے  کسی جان کے  بدلے  قتل کر دی، بیشک تم نے  بہت بری بات کی۔

۱۵۶             یعنی کَشتی سے اتر کر ایک مقام پر گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے۔

۱۵۷             جو ان میں خوبصورت تھا اور حدِّ بلوغ کو نہ پہنچا تھا۔ بعض مفسِّرین نے کہا جوان تھا اور رہزنی کیا کرتا تھا۔

۱۵۸             جس کا کوئی گناہ ثابت نہ تھا۔

(۷۵)  کہا (ف ۱۵۹) میں نے  آپ سے  نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے  ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے  (ف ۱۶۰)

۱۵۹             حضرت خضر نے کہ اے موسیٰ۔

۱۶۰             اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔

(۷۶) کہا اس کے  بعد میں تم سے  کچھ پوچھوں تو پھر میرے  ساتھ نہ رہنا، بیشک میری طرف سے  تمہارا عذر پورا ہو چکا۔

(۷۷) پھر دونوں چلے  یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں کے  پاس آئے  (ف ۱۶۱) ان دہقانوں سے  کھانا مانگا انہوں نے  انہیں دعوت دینی قبول نہ کی (ف ۱۶۲) پھر دونوں نے  اس گاؤں میں ایک  دیوار پا  ئی  کہ گرا چاہتی ہے  اس بندہ نے  (ف ۱۶۳) اسے  سیدھا کر دیا، موسیٰ نے  کہا تم چاہتے  تو اس پر کچھ مزدوری لے  لیتے  (ف ۱۶۴)

۱۶۱             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس گاؤں سے مراد انطاکیہ ہے وہاں ان حضرات نے۔

۱۶۲             اور میزبانی پر آمادہ نہ ہوئے۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ وہ بستی بہت بدتر ہے جہاں مہمانوں کی میزبانی نہ کی جائے۔

۱۶۳             یعنی حضرت خضر علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک لگا کر اپنی کرامت سے۔

۱۶۴             کیونکہ یہ ہماری تو حاجت کا وقت ہے اور بستی والوں نے ہماری کچھ مدارات نہیں کی ایسی حالت میں ان کا کام بنانے پر اجرت لینا مناسب تھا، اس پر حضرت خضر نے۔

(۷۸) کہا یہ (ف ۱۶۵) میری اور آپ کی جدائی ہے  اب میں آپ کو ان باتوں کا پھیر (بھید) بتاؤں گا جن پر آپ سے  صبر نہ ہو سکا  (ف ۱۶۶)

۱۶۵             وقت یا اس مرتبہ کا انکار۔

۱۶۶             اور ان کے اندر جو راز تھے ان کا اظہار کر دوں گا۔

(۷۹) وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی (ف ۱۶۷) کہ دریا میں کام کرتے  تھے، تو میں نے  چاہا کہ اسے  عیب دار کر دوں اور ان کے  پیچھے  ایک بادشاہ تھا (ف ۱۶۸) کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا (ف ۱۶۹)

۱۶۷             جو دس بھائی تھے ان میں پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں کر سکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو۔

۱۶۸             کہ انہیں واپسی میں اس کی طرف گزرنا ہوتا۔ اس بادشاہ کا نام جلندی تھا کَشتی والوں کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا۔

۱۶۹             اور اگر عیب دار ہوتی چھوڑ دیتا اس لئے میں نے اس کَشتی کو عیب دار کر دیا کہ وہ ان غریبوں کے لئے بچ رہے۔

(۸۰) اور وہ جو لڑکا تھا  اس کے  ماں باپ مسلمان تھے  تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے  (ف ۱۷۰)

۱۷۰             اور وہ اس کی مَحبت میں دین سے پھر جائیں اور گمراہ ہو جائیں اور حضرت خضر کا یہ اندیشہ اس سبب سے تھا کہ وہ باعلامِ الٰہی اس کے حالِ باطن کو جانتے تھے۔ حدیثِ مسلم میں ہے کہ یہ لڑکا کافِر ہی پیدا ہوا تھا۔ امام سبکی نے فرمایا کہ حالِ باطن جان کر بچّے کو قتل کر دینا حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے انہیں اس کی اجازت تھی، اگر کوئی ولی کسی بچّے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اس کو قتل جائز نہیں ہے۔ کتابِ عرائس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے فرمایا کہ تم نے ستھری جان کو قتل کر دیا تو یہ انہیں گراں گزرا اور انہوں نے اس لڑکے کا کندھا توڑ کر اس کا گوشت چیرا تو اس کے اندر لکھا ہوا تھا کافِر ہے کبھی اللہ پر ایمان نہ لائے گا۔ (جمل)۔

(۸۱) تو ہم نے  چاہا کہ ان دونوں کا رب اس سے  بہتر (ف ۱۷۱) ستھرا  اور اس سے  زیادہ مہربانی میں قریب عطا کرے  (ف ۱۷۲)

۱۷۱             بچّہ گناہوں اور نجاستوں سے پاک اور۔

۱۷۲             جو والدین کے ساتھ طریقِ ادب و حسنِ سلوک اور مودّت و مَحبت رکھتا ہو۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی کے نکاح میں آئی اور اس سے نبی پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے ایک اُمّت کو ہدایت دی، بندے کو چاہئے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے اسی میں بہتری ہوتی ہے۔

(۸۲)  رہی وہ دیوار وہ شہر کے  دو یتیم  لڑکوں کی تھی (ف ۱۷۳) اور اس کے  نیچے  ان کا خزانہ تھا (ف ۱۷۴) اور ان کا باپ نیک آدمی تھا  (ف ۱۷۵) تو آپ کے  رب نے  چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں (ف ۱۷۶) اور اپنا خزانہ نکالیں،  آپ کے  رب کی رحمت سے  اور یہ کچھ میں نے  اپنے  حکم سے  نہ کیا (ف ۱۷۷) یہ پھیر ہے  ان باتوں کا جس پر آپ سے  صبر نہ ہو سکا (ف ۱۷۸)

۱۷۳             جن کے نام اصرم اور صریم تھے۔

۱۷۴             ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا چاندی مدفون تھا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس میں سونے کی ایک تختی تھی اس پر ایک طرف لکھا تھا اس کا حال عجیب ہے جسے موت کا یقین ہو اس کو خوشی کس طرح ہوتی ہے، اس کا حال عجیب ہے جو قضا و قدر کا یقین رکھے اس کو غصّہ کیسے آتا ہے، اس کا حال عجیب ہے جسے رزق کا یقین ہو وہ کیوں تعب میں پڑتا ہے، اس کا حال عجیب ہے جسے حساب کا یقین ہو وہ کیسے غافل رہتا ہے، اس کا حال عجیب ہے جس کو دنیا کے زوال و تغیّر کا یقین ہو وہ کیسے مطمئن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لکھا تھا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور دوسری جانب اس لوح پر لکھا تھا میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں یکتا ہوں، میرا کوئی شریک نہیں، میں نے خیر و شر پیدا کی، اس کے لئے خوشی جسے میں نے خیر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر جاری کی، اس کے لئے تباہی جس کو شر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر جاری کی۔

۱۷۵             اس کا نام کاشح تھا اور یہ شخص پرہیزگار تھا۔ حضرت محمد ابنِ منکدر نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔ (سبحان اللہ)۔

۱۷۶             اور ان کی عقل کا مل ہو جائے اور وہ قوی و توانا ہو جائیں۔

۱۷۷             بلکہ بامرِ الٰہی و الہامِ خداوندی کیا۔

۱۷۸             بعضے لوگ ولی کو نبی پر فضیلت دے کر گمراہ ہو گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ حضرت موسیٰ کو حضرت خضر سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا باوجود یکہ حضرت خضر ولی ہیں اور در حقیقت ولی کو نبی پر فضیلت دینا کفرِ جلی ہے اور حضرت خضر نبی ہیں اور اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ بعض کا گمان ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں ابتلاء ہے علاوہ بریں یہ کہ اہلِ کتاب اس کے قائل ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ پیغمبرِ بنی اسرائیل کا واقعہ ہی نہیں بلکہ موسیٰ بن ماثان کا واقعہ ہے اور ولی تو نبی پر ایمان لانے سے مرتبۂ ولایت پر پہنچتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ نبی سے بڑھ جائے۔ (مدارک) اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا واللہ تعالیٰ اعلم۔ (خازن)۔

(۸۳) اور تم سے  (ف ۱۷۹) ذوالقرنین کو پوچھتے  ہیں (ف ۱۸۰) تم فرماؤ میں تمہیں اس کا مذکور پڑھ کر سناتا ہوں۔

۱۷۹             ابوجہل وغیرہ کُفّارِ مکّہ یا یہود بہ طریقِ امتحان۔

۱۸۰             ذوالقرنین کا نام اسکندر ہے یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی ہیں انہوں نے اسکندریہ بنایا اور اس کا نام اپنے نام پر رکھا، حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر اور صاحبِ لواء تھے، دنیا میں ایسے چار بادشاہ ہوئے ہیں جو تمام دنیا پر حکمران تھے، دو مومن حضرت ذوالقرنین اور حضرت سلیمان علیٰ نبینا  وعلیہما السلام اور دو کافِر نمرود اور بُخْتِ نصر اور عنقریب ایک پانچویں بادشاہ اور اس اُمَت سے ہونے والے ہیں جن کا اسمِ مبارک حضرت امام مہدی ہے، ان کی حکومت تمام روئے زمین پر ہو گی۔ ذوالقرنین کی نبوّت میں اختلاف ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ نہ نبی تھے، نہ فرشتے، اللہ سے مَحبت کرنے والے بندے تھے، اللہ نے انہیں محبوب بنایا۔

(۸۴) بیشک ہم نے  اسے  زمین میں قابو دیا اور ہر چیز کا ایک سامان عطا فرمایا (ف ۱۸۱)

۱۸۱             جس چیز کی خَلق کو حاجت ہوتی ہے اور جو کچھ بادشاہوں کو دیار و اَمصار فتح کرنے اور دشمنوں کے محاربہ میں درکار ہوتا ہے وہ سب عنایت کیا۔

(۸۵) تو وہ ایک سامان کے  پیچھے  چلا (ف ۱۸۲)

۱۸۲             سبب وہ چیز ہے جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہو خواہ وہ علم ہو یا قدرت تو ذوالقرنین نے جس مقصد کا ارادہ کیا اسی کا سبب اختیار کیا۔

(۸۶) یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے  کی جگہ پہنچا اسے  ایک سیاہ کیچڑ کے  چشمے  میں ڈوبتا پایا (ف ۱۸۳) اور وہاں (ف ۱۸۴) ایک قوم ملی (ف ۱۸۵) ہم نے  فرمایا اے  ذوالقرنین یا تو  تُو انہیں عذاب دے  (ف ۱۸۶) یا ان کے  ساتھ بھلائی اختیار کرے  (ف ۱۸۷)

۱۸۳             ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی، یہ دیکھ کروہ چشمۂ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خضر بھی تھے وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا انہوں نے نہ پایا اس سفر میں جانبِ مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی ہے وہ سب منازل قطع کر ڈالے اور سمتِ مغرب میں وہاں پہنچے جہاں آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہا، وہاں انہیں آفتاب وقتِ غروب ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہے جیسا کہ دریائی سفر کرنے والے کو پانی میں ڈوبتا معلوم ہوتا ہے۔

۱۸۴             اس چشمہ کے پاس۔

۱۸۵             جو شکار کئے ہوئے جانوروں کے چمڑے پہنے تھے اس کے سوا ان کے بدن پر اور کوئی لباس نہ تھا اور دریائی مردہ جانور ان کی غذا تھے، یہ لوگ کافِر تھے۔

۱۸۶             اور ان میں سے جو اسلام میں داخل نہ ہو اس کو قتل کر دے۔

۱۸۷             اور انہیں احکامِ شرع کی تعلیم دے اگر وہ ایمان لائیں۔

(۸۷) عرض کی کہ وہ جس نے  ظلم کیا (ف ۱۸۸) اسے  تو ہم عنقریب سزا دیں گے  (ف ۱۸۹) پھر اپنے  رب کی طرف پھیرا جائے  گا (ف ۱۹۰) وہ اسے  بری مار دے  گا۔

۱۸۸             یعنی کُفر و شرک اختیار کیا ایمان نہ لایا۔

۱۸۹             قتل کریں گے یہ تو اس کی دنیوی سزا ہے۔

۱۹۰             قیامت میں۔

(۸۸) اور جو ایمان لایا اور نیک کام کیا تو اس کا بدلہ بھلائی ہے  (ف ۱۹۱) اور عنقریب ہم اسے  آسان کام کہیں گے  (ف ۱۹۲)

۱۹۱             یعنی جنّت۔

۱۹۲             اور اس کو ایسی چیزوں کا حکم دیں گے جو اس پر سہل ہوں دشوار نہ ہوں۔ اب ذوالقرنین کی نسبت ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ وہ۔

(۸۹) پھر ایک سامان کے  پیچھے  چلا (ف ۱۹۳)

۱۹۳             جانبِ مشرق میں۔

(۹۰) یہاں تک کہ جب سورج نکلنے  کی جگہ پہنچا،  اسے  ایسی قوم پر نکلتا پایا جن کے  لیے  ہم نے  سورج سے  کوئی آڑ نہیں رکھی (ف ۱۹۴)

۱۹۴             اس مقام پر جس کے اور آفتاب کے درمیان کوئی چیز پہاڑ درخت وغیرہ حائل نہ تھی، نہ وہاں کوئی عمارت قائم ہو سکتی تھی اور وہاں کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ طلوعِ آفتاب کے وقت غاروں میں گھس جاتے تھے اور زوال کے بعد نکل کر اپنا کام کاج کرتے تھے۔

(۹۱) بات یہی ہے، اور جو کچھ اس کے  پاس تھا (ف ۱۹۵) سب کو ہمارا علم محیط ہے  (ف ۱۹۶)

۱۹۵             فوج، لشکر، آلاتِ حرب، سامانِ سلطنت اور بعض مفسِّرین نے فرمایا سلطنت و مُلک داری کی قابلیت اور امورِ مملکت کے سر انجام کی لیاقت۔

۱۹۶             مفسِّرین نے کذالک کے معنی میں یہ بھی کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ذوالقرنین نے جیسا مغربی قوم کے ساتھ سلوک کیا تھا ایسا ہی اہلِ مشرق کے ساتھ بھی کیا کیونکہ یہ لوگ بھی ان کی طرح کافِر تھے تو جو ان میں سے ایمان لائے ان کے ساتھ احسان کیا اور جو کُفر پر مُصِر رہے ان کو تعذیب کی۔

(۹۲) پھر ایک سامان کے  پیچھے  چلا (ف ۱۹۷)

۱۹۷             جانبِ شمال میں۔ (خازن)۔

(۹۳) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے  بیچ پہنچا ان سے  ادھر کچھ ایسے  لوگ پائے  کہ کوئی بات سمجھتے  معلوم نہ ہوتے  تھے  (ف ۱۹۸)

۱۹۸             کیونکہ ان کی زبان عجیب و غریب تھی ان کے ساتھ اشارہ وغیرہ کی مدد سے بہ مشقّت بات کی جا سکتی تھی۔

(۹۴) انھوں نے  کہا، اے  ذوالقرنین! بیشک یاجوج  ماجوج (ف ۱۹۹) زمین میں فساد مچاتے  ہیں تو کیا ہم آپ کے  لیے  کچھ مال مقرر کر دیں اس پر کہ آپ ہم میں اور ان میں ایک دیوار بنا دیں (ف ۲۰۰)

۱۹۹             یہ یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد سے فسادی گروہ ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، زمین میں فساد کرتے تھے، ربیع کے زمانے میں نکلتے تھے تو کھیتیاں اور سبزے سب کھا جاتے تھے، کچھ نہ چھوڑتے تھے اور خشک چیزیں لاد کر لے جاتے تھے، آدمیوں کو کھا لیتے تھے درندوں، وحشی جانوروں، سانپوں، بچھوؤں تک کو کھا جاتے تھے، حضرت ذوالقرنین سے لوگوں نے ان کی شکایت کی کہ وہ۔

۲۰۰             تاکہ وہ ہم تک نہ پہنچ سکیں اور ہم ان کے شر و ایذا سے محفوظ رہیں۔

(۹۵) کہا وہ جس پر مجھے  میرے  رب نے  قابو دیا ہے  بہتر ہے  (ف ۲۰۱) تو میری مدد طاقت سے  کرو (ف ۲۰۲) میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط  آڑ بنا دوں (ف ۲۰۳)

۲۰۱             یعنی اللہ کے فضل سے میرے پاس مالِ کثیر اور ہر قِسم کا سامان موجود ہے تم سے کچھ لینے کی حاجت نہیں۔

۲۰۲             اور جو کام میں بتاؤں وہ انجام دو۔

۲۰۳             ان لوگوں نے عرض کیا پھر ہمارے متعلق کیا خدمت ہے ؟ فرمایا۔

(۹۶) میرے  پاس لوہے  کے  تختے  لاؤ (ف ۲۰۴) یہاں تک کہ وہ جب دیوار دونوں پہاڑوں کے  کناروں سے  برابر کر دی،  کہا دھونکو، یہاں تک کہ جب اُسے  آگ کر دیا  کہا لاؤ، میں اس پر گلا ہوا تانبہ اُنڈیل دوں۔

۲۰۴             اور بنیاد کھدوائی جب پانی تک پہنچی تو اس میں پتّھر پگھلائے ہوئے تانبے سے جمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر ان کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروا دیا اور آگ دے دی، اس طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کر دی گئی اور دونوں پہاڑوں کے درمیان کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی، اوپر سے پگھلایا ہوا تانبہ دیوار میں پلا دیا گیا، یہ سب مل کر ایک سخت جسم بن گیا۔

(۹۷) تو یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکے  اور نہ اس میں سوراخ کر سکے۔

(۹۸)  کہا (ف ۲۰۵) یہ میرے  رب کی رحمت ہے، پھر جب میرے  رب کا وعدہ آئے  گا (ف ۲۰۶) اسے  پاش پاش کر دے  گا اور میرے  رب کا وعدہ سچا ہے  (ف ۲۰۷)

۲۰۵             ذوالقرنین نے کہ۔

۲۰۶             اور یاجوج ماجوج کے خروج کا وقت آ پہنچے گا قریبِ قیامت۔

(۹۹) اور اس دن ہم انہیں چھوڑ دیں گے  کہ ان کا ایک گروہ دوسرے  پر ریلا (سیلاب کی طرح)  آوے  گا اور صُور پھونکا جائے  گا (ف ۲۰۸) تو ہم سب کو (ف ۲۰۹) اکٹھا کر لائیں گے

۲۰۷             حدیث شریف میں ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کو توڑتے ہیں اور دن بھر محنت کرتے کرتے جب اس کے توڑنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان میں کوئی کہتا ہے اب چلو باقی کل توڑ لیں گے دوسرے روز جب آتے ہیں تو وہ بحکمِ الٰہی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے، جب ان کے خروج کا وقت آئے گا تو ان میں کہنے والا کہے گا کہ اب چلو باقی دیوار کل توڑ لیں گے ان شاء اللہ، ان شاء اللہ کہنے کا یہ ثمرہ ہو گا کہ اس دن کی محنت رائیگاں نہ جائے گی اور اگلے دن انہیں دیوار اتنی ٹوٹی ملی گی جتنی پہلے روز توڑ گئے تھے، اب وہ نکل آئیں گے اور زمین میں فساد اٹھائیں گے، قتل و غارت کریں گے اور چشموں کا پانی پی جائیں گے، جانوروں درختوں کو اور جو آدمی ہاتھ آئیں گے ان کو کھا جائیں گے، مکّہ مکرّمہ، مدینہ طیّبہ اور بیت المقدِس میں داخل نہ ہو سکیں گے، اللہ تعالیٰ بدعائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام انہیں ہلاک کرے گا اس طرح کہ ان کی گردنوں میں کیڑے پیدا ہوں گے جو ان کی ہلاکت کا سبب ہوں گے۔

۲۰۸             اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یا جوج ماجوج کا نکلنا قربِ قیامت کے علامات میں سے ہے۔

۲۰۹             یعنی تمام خَلق کو عذاب و ثواب کے لئے روزِ قیامت۔

(۱۰۰) اور ہم اس دن جہنم کافروں کے  سامنے  لائیں گے  (ف ۲۱۰)

۲۱۰             کہ اس کو صاف دیکھیں۔

(۱۰۱) وہ جن کی آنکھوں پر میری یاد سے  پردہ پڑا تھا (ف ۲۱۱) اور حق بات سن نہ سکتے  تھے  (ف ۲۱۲)

۲۱۱             اور وہ آیاتِ الٰہیہ اور قرآن و ہدایت و بیان اور دلائلِ قدرت و ایمان سے اندھے بنے رہے اور ان میں سے کسی چیز کو وہ نہ دیکھ سکے۔

۲۱۲             اپنی بدبختی سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ عداوت رکھنے کے باعث۔

(۱۰۲) تو کیا کافر یہ سمجھتے  ہیں کہ میرے  بندوں کو (ف ۲۱۳) میرے  سوا حمایتی بنا لیں گے  (ف ۲۱۴) بیشک ہم نے  کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے۔

۲۱۳             مثل حضرت عیسیٰ و حضرت عزیر و ملائکہ کے۔

۲۱۴             اور اس سے کچھ نفع پائیں گے یہ گمان فاسد ہے بلکہ وہ بندے ان سے بیزار ہیں اور بے شک ہم ان کے اس شرک پر عذاب کریں گے۔

(۱۰۳) تم فرماؤ کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ سب سے  بڑھ کر ناقص عمل کن کے  ہیں (ف ۲۱۵)

۲۱۵             یعنی وہ کون لوگ ہیں جو عمل کر کے تھکے اور مشقّتیں اٹھائیں اور یہ امید کرتے رہے کہ ان اعمال پر فضل و نوال سے نوازے جائیں گے مگر بجائے اس کے ہلاکت و بربادی میں پڑے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ وہ راہب لوگ ہیں جو صوامع میں عُزلت گزین رہتے تھے۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اہلِ حروراء یعنی خوارج ہیں۔

(۱۰۴) ان کے  جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم گئی (ف ۲۱۶) اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے  ہیں۔

۲۱۶             اور عمل باطل ہو گئے۔

(۱۰۵)  یہ لوگ جنہوں نے  اپنے  رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ مانا (ف ۲۱۷) تو  ان کا کیا دھرا سب اکارت ہے  تو ہم ان کے  لیے  قیامت کے  دن کوئی تول نہ قائم کریں گے  (ف ۲۱۸)

۲۱۷             رسول و قرآن پر ایمان نہ لائے اور بعث و حساب و ثواب و عذاب کے منکِر رہے۔

۲۱۸             حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ روزِ قیامت بعضے لوگ ایسے اعمال لائیں گے جو ان کے خیالوں میں مکّہ مکرّمہ کے پہاڑوں سے زیادہ بڑے ہوں گے لیکن جب وہ تولے جائیں گے تو ان میں وزن کچھ نہ ہو گا۔

(۱۰۶) یہ ان کا بدلہ ہے  جہنم، اس پر کہ انہوں نے  کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے  رسولوں کی ہنسی بنائی۔

(۱۰۷) بیشک جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  فردوس  کے  باغ ان کی مہمانی ہے  (ف ۲۱۹)

۲۱۹             حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ جب اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنّتوں میں سب کے درمیان اور سب سے بلند ہے اور اس پر عرشِ رحمٰن ہے اور اسی سے جنّت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔ حضرت کعب نے فرمایا کہ فردوس جنّتوں میں سب سے اعلیٰ ہے، اس میں نیکیوں کا حکم کرنے والے اور بدیوں سے روکنے والے عیش کریں گے۔

(۱۰۸) وہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے  ان سے  جگہ بدلنا نہ چاہیں گے  (ف ۲۲۰)

۲۲۰             جس طرح دنیا میں انسان کیسی ہی بہتر جگہ ہو اس سے اور اعلیٰ و ارفع کی طلب رکھتا ہے یہ بات وہاں نہ ہو گی کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ فضلِ الٰہی سے انہیں بہت اعلیٰ و ارفع مکان و مکانت حاصل ہے۔

(۱۰۹) تم فرما دو اگر سمندر میرے  رب کی باتوں کے  لیے، سیاہی ہو تو ضرور سمندر ختم ہو جائے  گا اور میرے  رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگرچہ ہم ویسا ہی اور اس کی مدد کو لے  آئیں (ف ۲۲۱)

۲۲۱             یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور ان کے لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنا دیا جائے اور تمام خَلق لکھے تو وہ کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہو جائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہو جائے۔ مدعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی نہایت نہیں۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہود نے کہا اے محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) آپ کا خیال ہے کہ ہمیں حکمت دی گئی اور آپ کی کتاب میں ہے کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر دی گئی پھر آپ کیسے فرماتے ہیں کہ تمہیں نہیں دیا گیا مگر تھوڑا علم ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ جب آیۂ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً نازِل ہوئی تو یہود نے کہا کہ ہمیں توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی، مدعا یہ ہے کہ کل شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو۔

(۱۱۰) تو فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں (ف ۲۲۲) مجھے  وحی آتی ہے  کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے  (ف ۲۲۳) تو جسے  اپنے  رب سے  ملنے  کی امید ہو اسے  چاہیے  کہ نیک کام کرے  اور اپنے  رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے  (ف ۲۲۴)

۲۲۲             کہ مجھ پر بشری اعراض و امراض طاری ہوتے ہیں اور صورتِ خاصّہ میں کوئی بھی آپ کا مثل نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلیٰ و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء اوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں جیسا کہ شفائے قاضی عیاض میں ہے اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور ان کے ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملائے اعلیٰ سے متعلق ہیں۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ والضحیٰ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلاً نہ رہے اور غلبۂ انوارِ حق آپ پر علی الدوام حاصل ہو بہرحال آپ کی ذات و کمالات میں آ پ کا کوئی بھی مثل نہیں۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریہ کے بیان کا اظہار تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا، یہی فرمایا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے۔ (خازن)

مسئلہ : کسی کو جائز نہیں کہ حضور کو اپنے مثل بشر کہے کیونکہ جو کلمات اصحابِ عزّت و عظمت بہ طریقِ تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا، دوئم یہ کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ و مراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں اس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے وصفِ عام سے ذکر کرنا جو ہر کہ و مِہ میں پایا جائے ان کمالات کے نہ ماننے کا مُشعِر ہے، سویم یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کُفّار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاء کو اپنے مثل بشر کہتے تھے اور اسی سے گمراہی میں مبتلا ہوئے پھر اس کے بعد آیت یُوْحٰۤی اِلَیَّ میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مخصوص بالعلم اور مکرّم عند اللہ ہونے کا بیان ہے۔

۲۲۳             اس کا کوئی شریک نہیں۔

۲۲۴             شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرے اللہ تعالیٰ اس کو فتنۂ دجال سے محفوظ رکھے گا۔ یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کو پڑھے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا۔