دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الکهف

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۹ میں اصحابِ کہف کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "الکہف" ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

واقعات کی روشنی میں دوسری زندگی کا یقین پیدا کرنا ہے۔ پچھلی سورہ میں خصوصیت کے ساتھ یہود کو تنبیہ تھی۔ اس سورہ میں خصوصیت کے ساتھ نصاریٰ کو تنبیہ ہے اور اس پہلو سے ہے کہ انہوں نے اللہ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ گھڑ لیا جس کی وجہ سے وہ شرک کے بھی مرتکب ہوئے اور عقیدۂ آخرت بھی معطل ہو کر رہ گیا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا۸ تمہیدی آیات ہیں جن میں نزول قرآن کا مقصد واضح کیا گیا ہے۔ آیت ۹ تا۲۶ میں اصحابِ کہف کا قصہ بیان ہوا ہے جو دوسری زندگی کے لیے ایک واقعاتی مثال بھی ہے اور جس میں راہِ خدا میں ہجرت کے تعلق سے رہنمائی کا سامان بھی۔ آیت ۲۷ تا ۳۱ میں اہل ایمان کی قدر افزائی کی گئی ہے اور ان لوگوں کو جو دنیا پرستی میں مگن ہیں ان کے حال پر چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آیت۳۲ تا ۴۴ میں دو اشخاص کا قصہ بیان کیا گیا ہے جن میں سے ایک دنیا کی کامیابی ہی کو اصل کامیابی سمجھتا تھا اور دوسرا شخص یقین رکھتا تھا کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ پھر دنیا کی کامیابی کو اصل کامیابی سمجھنے والے کو کس طرح کف افسوس ملنا پڑ ا۔ آیت ۴۵ تا ۴۹ میں دنیا کی چند روزہ زندگی کی بہار کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتے ہوئے قیامت کے دن کی پیشی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور نیک اعمال کو نتیجہ خیز اور باعث اجر قرار دیا گیا ہے۔ آیت ۵۰ تا ۵۹ میں آدم و ابلیس کا قصہ مختصراً بیان کرتے ہوئے مشرکین کی ذہنیت اور قرآن کے تعلق سے ان کے رویہ پر گرفت کی گئی ہے۔ آیت ۶۰ تا ۸۲ میں حضرت موسیٰ کے سفر کے واقعات پیش کئے گئے ہیں جن میں حکمتِ الٰہی کے بعض اسرار بے نقاب کئے گئے جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ دنیا میں جو بے شمار واقعات پیش آتے ہیں ان کے صرف ظاہری پہلو کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کن رائے قائم کرنا صحیح نہیں۔ ان واقعات کے پیچھے اللہ کی حکمتیں اور مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں جن کا علم انسان کو نہیں ہوتا اور وہ اپنے ناقص علم اور جلد بازی کی بنا پر ان کی غلط توجہ کر بیٹھتا ہے۔ واقعات کا یہ پہلو کہ اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں آخرت کے تعلق سے بڑ ا اہم ہے۔ آیت ۸۳ تا۱۰۱ میں ایک سوال کے جواب میں ذو القرنین کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصہ میں اس کے کردار کا یہ پہلو خاص طور سے نمایاں کیا گیا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے اقتدار کو خدا سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جوابدہی کے احساس کے تحت استعمال کیا آیت ۱۰۲ تا ۱۱۰ خاتمہ کی آیات ہیں جن میں شرک اور انکار آخرت پر تنبیہ ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی کجی (ٹیڑھ) نہیں رکھی۔ ۱*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راست کتاب۲* تاکہ وہ ( لوگوں کو) سخت عذاب سے آگاہ کر دے جو اس کی جانب سے پہنچے گا۔ اور ایمان لانے والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوش خبری دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے ۳*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان لوگوں کو خبردار کر دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد بنا لی ہے۔ ۴*

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بارے میں نہ ان کو کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ ۵* بڑ ی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ ۶* محض جھوٹ ہے جو وہ بک رہے ہیں۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) شاید تم ان کے پیچھے اپنی جان مارے افسوس کے ہلاک کر دو اگر وہ اس کلام پر ایمان نہیں لائے۔ ۷*

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ در حقیقت روئے پر جو کچھ ہے اس کو ہم نے اس کی آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ ۸*

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کچھ اس پر ہے اس کو ہم چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ ۹*

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب چیز تھے ؟۱۰*

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی ۱۱* اور دعا کی اے ہمارے رب اپنے حضور سے ہم پر رحمت فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کا سامان کر دے۔ ۱۲*

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم نے غار میں ان کے کان کئی سال کے لیے تھپک دئے۔ ۱۳*

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون ان کے قیام کی مدت کا صحیح شمار کرتا ہے۔ ۱۴*

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان کا واقعہ تم کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ ۱۵* وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں افزونی عطا کی تھی۔ ۱۶*

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے دلوں کو ہم نے مضبوط کیا جبکہ وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی دوسرے معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو نہایت غلط بات کہیں گے۔ ۱۷*

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہماری قوم ہے جو اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا بیٹھی ہے۔ ۱۸* یہ لوگ اس کی تائید میں کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔ ۱۹* پھر اس سے بڑ ھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ ۲۰*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں الگ ہو گئے ہو تو غار میں پناہ لو۔ ۲۱* تمہارا رب اپنی رحمت کا تم پر فیضان کرے گا اور تمہارے اس کام کے لیے سیر و سامان مہیا کرے گا۔ ۲۲*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم سورج کو دیکھتے ہو کہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان کے بائیں جانب کترا کر نکل جاتا ہے اور وہ اس کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پڑ ے ہیں۔ ۲۳* یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ ۲۴* جس کو اللہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو تم کسی کو اس کا مدد گار رہنمائی کرنے والا نہ پاؤ گے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم (ان کو دیکھ لیتے تو) خیال کرتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم ان کو دائیں بائیں کروٹیں دلواتے رہتے تھے اور ان کا کتّا (غار کے) دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑ ے ہوتے اور تم پر ان (کے منظر) سے دہشت طاری ہوتی۔ ۲۵*

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا۲۶* تاکہ وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ۲۷* ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کتنی دیر رہے ؟انہوں نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم رہے ہوں گے۔ پھر وہ بولے تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر رہے۔ ۲۸* اب ایک آدمی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو۔ وہ دیکھے کہ کس کے ہاں پاکیزہ کھانا ملتا ہے۔ ۲۹* وہاں سے وہ تمہارے لیے کچھ کھانا لائے۔ اور چپکے سے یہ کام کرے۔ کسی کو ہماری خبر نہ ہونے دے۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ان کو خبر ہوئی تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں واپس لے جائیں گے۔ ۳۰* اگر ایسا ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے لوگوں کو ان (کے حال) سے واقف کر دیا۳۱* تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچاہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ ۳۲* جب لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے ۳۳* انہوں نے کہا ان پر یک دیوار کھڑ ی کر دو۔ ان کا رب ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ ۳۴* جو لوگ ان کے معاملہ پر غالب تھے انہوں نے کہا ہم ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور یہ بھی کہیں گے کہ پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔ ۳۵* کچھ اور لوگ کہیں گے سات تھے اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہو میرا رب ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ کم ہی لوگ ان کی تعداد سے واقف ہیں۔ لہٰذا تم ان کے معاملہ میں لوگوں سے بحث نہ کرو بجز سرسری بحث کے اور نہ ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھو۔ ۳۶*

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی چیز کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں کل اسے کروں گا۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ۳۷* اگر تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو۔ ۳۸* اور کہو امید ہے میرا رب اس سے بھی زیادہ رشد کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔ ۳۹*

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور مزید نو سال۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ ۴۰* آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم اسی کو ہے۔ کس شان کا ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا! اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور وہ اپنے کم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ۴۱*

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب کی جو کتاب تم پر وحی کی گئی ہے اسے سناؤ۔ ۴۲* اس کے فرمانوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۴۳* اور اس کے سوا تم کو کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی رفاقت پر قناعت کولو جو اپنے رب کو اس کی رضا جوئی میں صبح و شام پکارتے ہیں۔ تمہاری نگاہیں دنیوی زندگی کی آرائش کی خاطر ان کی طرف سے پھرنے نہ پائیں۔ ۴۴* اور ایسے شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا ہے اور جس کا معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ ۴۵*

1

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہو یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو جس کا جی چاہے کفر کرے۔ ۴۶* ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتوں نے انہیں گھیر لیا ہے۔ ۴۷* اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہو گا۔ اور ان کا منہ بھون ڈالے گا۔ کیا ہی بری ہے پینے کی چیز اور کیا ہی بری ہے آرام گاہ!

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے تو ہم نیک عمل کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغ ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز کپڑے پہنیں گے ۴۸ * اور تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا صلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرامگاہ!

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو دو شخصوں کا حال سناؤ۔ ۴۹* ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیئے اور ان کے گرد کھجور کے درخت لگائے اور ان کے درمیان میں کھیتی لگائی۔ ۵۰*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں باغ خوب پھلے اور اس میں کوئی کسر نہ چھوڑ ی۔ ہم نے ان کے اندر نہر بھی جاری کر دی تھی۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ( ان باغوں میں) اس کے لیے خوب پھل لگے تب اس نے اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہا میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور میرا جتھا بھی زیادہ طاقتور ہے۔ ۵۱*

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا تھا۔ اس نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی تباہ ہو جائے گا۔ ۵۲*

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ میں یہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت قائم ہو گی۔ اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا ہی گیا تو میں اس سے بہتر جگہ پاؤں گا۔ ۵۳*

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کیا تو کفر کرتا ہے اس سے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر تجھے ٹھیک ٹھیک آدمی بنا دیا۔ ۵۴*

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں کہتا ہوں اللہ ہی میرا رب ہے۔ اور میں اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ ۵۵*

11

(۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا ماشاء اللہ لاقوۃ  الا باللہ ( ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر کسی کا کوئی زور نہیں۔) ۵۶* اگر تو دیکھ رہا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کمتر ہوں۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا عجب کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرمائے ۵۷* اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی آفت نازل کرے کہ وہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے۔ ۵۸*

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تو اسے اصل نہ کر سکے۔ ۵۹*

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے پھل گھیرے میں آ گئے اور وہ اپنے اس مال پر جو اس نے خرچ کیا تھا ہاتھ ملتا رہ گیا جبکہ باغ ٹٹیوں پر گرا پڑ ا تھا۔ کہنے لگا کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا!۶۰*

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (تو دیکھو) کوئی جتھا ایسا نہ ہوا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ وہ خود (اس آفت کا) مقابلہ کر سکا۔ ۶۱*

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت یہ بات کھل گئی کہ سارا اختیار اللہ بر حق ہی کے لیے ہے۔ وہ جزا دینے کے لحاظ سے بھی بہتر ہے اور عاقبت کے لحاظ سے بھی بہتر۔ ۶۲*

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں دنیا کی زندگی کی مثال سناؤ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ پانی جو ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات خوب گھنی ہو گئیں۔ پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ گئیں جس کو ہوائیں اڑائے لئے پھرتی۶۳* ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ۶۴*

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ اور باقی رہنے والے نیک عمل تمہارے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی۔ ۶۵*

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم دیکھو گے کہ زمین بالکل بے نقاب ہو گئی ہے ۶۶* اور لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے۔ کسی ایک کو بھی چھوڑیں گے نہیں۔ ۶۷*

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں گے۔ ۶۸* آ گئے تم ہمارے پاس اسی طرح جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہاری پیشی کے لیے کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔ ۶۹*

 

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ اور نامۂ عمل (سامنے) رکھ دیا جائے گا تو تم دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں درج ہو گا اس سے مجرم ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہماری شامت! یہ کیسا نوشتہ ہے کہ کوئی چھوٹی بڑ ی بات ایسی نہیں جو اس نے درج کر لی ہو۔ ۷۰* اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب حاضر پائیں گے۔ اور تمہارے رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ ۷۱*

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ ۷۲* وہ جنوں میں سے تھا۔ ۷۳* تو اس نے اپنے رب کے حکم کی نا فرمانی کی۔ پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی نس کو۷۴* اپنا کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں کیا ہی برا بدل ہے ظالموں کے لیے !۷۵*

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان کو آسمان اور زمین کے پیدا کرتے وقت نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرتے وقت بلایا تھا۔ اور میرا یہ کام نہیں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناؤں۔ ۷۶*

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن وہ فرمائے گا کہ بلاؤ ان کو جن کو تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے تو وہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہلاکت کا گڑھا حائل کر دیں گے۔ ۷۷*

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجرم آگ کو دیکھ لیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے۔ وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کر دیں۔ ۷۸* مگر انسان بڑ ا جھگڑ الو واقع ہوا ہے۔ ۷۹*

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو اس پر ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی چاہنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوئی۔ مگر یہ بات کہ گزری ہوئی قوموں کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا تھا وہ ان کے ساتھ بھی پیش آ جائے یا عذاب ان کے سامنے نمودار ہو۔ ۸۰*

 

۵۶َََ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور خبردار کریں۔ ۸۱* مگر کافر باطل کے سہارے جھگڑ نے لگتے ہیں تاکہ حق کو شکست دیں۔ ۸۲* انہوں نے میری آیتوں کو اور اس بات کو جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے ۸۳* مذاق بنا لیا ہے۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو گا جس کو اس کے رب کی آیتوں کے ذریعہ یاد دہانی کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیر لے اور اپنے کرتوتوں کو بھول جائے ؟ ایسے لوگوں کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے۔ ۸۴* تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ وہ کبھی ہدایت پانے والے نہیں ہیں۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب بڑ ا بخشنے والا رحمت والا ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑ تا تو فوراً عذاب نازل کرتا لیکن ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس سے بچ کر پناہ لینے کی کوئی جگہ وہ نہ پائیں گے۔ ۸۵*

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بستیاں ہیں ۸۶* جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا جبکہ انہوں نے ظلم کیا۔ اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے وقت مقرر کر رکھا تھا۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ میں چلتا رہوں گا یہاں تک کہ دو سمندروں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں خواہ مجھے کتنا ہی عرصہ گزارنا پڑ ے۔ ۸۷*

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب وہ دونوں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ گئے تو انہیں اپنی مچھلی کا خیال نہ رہا اور اس نے سمندر میں جانے کے لیے سرنگ کی طرح راہ بنا لی۔ ۸۸*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا کھانا۔ اس سفر سے تو ہمیں بڑ ی تکان ہو گئی۔ ۸۹*

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا آپ نے دیکھا نہیں جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور یہ شیطان ہی ہے جس نے مجھے ایسا بھلاوے میں ڈال دیا کہ میں اس کا ذکر نہ کر سکا۔ اس نے سمندر میں جانے کی راہ عجیب طریقہ سے نکال لی۔ ۹۰*

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے (موسیٰ نے) کہا یہی تو ہم چاہتے تھے۔ ۹۱* پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے۔ ۹۲*

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے خاص علم عطا کیا تھا۔ ۹۳*

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ رشد (معاملہ فہمی) کی جو تعلیم آپ کو دی گئی ہے اس میں سے آپ کچھ مجھے بھی سکھائیں۔ ۹۴*

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے۔

1

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ ان باتوں پر کس طرح صبر کر سکیں گے جو آپ کے دائرہ علم سے باہر ہیں۔ ۹۵*

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے (موسیٰ نے) کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں بھی آپ کی نا فرمانی نہیں کروں گا۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ کروں۔ ۹۶*

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس نے اس میں شگاف کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے اس میں شگاف کر دیا تاکہ کشتی والوں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے عجیب حرکت کی۔ ۹۷*

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے ؟

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا بھول چوک پر گرفت نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں سختی سے کام نہ لیجئے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑ کا ملا اس نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے ایک بے گناہ کو قتل کر دیا حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی۔ آپ نے یہ بڑ ی ہی ناروا حرکت کی۹۸*

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا کیا میں نے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے۔ ؟

1

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا اگر اس کے بعد میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھے میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا۔ ۹۹* وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ اس نے اس دیوار کو کھڑ ا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے لیتے۔ ۱۰۰*

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی کی بات ہوئی۔ ۱۰۱* اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں کیوں کہ آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ ۱۰۲*

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑ کے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے والدین مؤمن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں کہیں تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کی جگہ ان کو ایسی اولاد دے جو اس کے مقابلہ میں پاکیزگی کے لحاظ سے بھی بہتر ہو اور ہمدردی میں بھی بڑ ھ کر ہو۔ ۱۰۳*

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ ۱۰۴* یہ آپ کے رب کی رحمت سے ہوا۔ میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا۔ ۱۰۵* یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جس پر آپ صبر نہ کر سکے۔ ۱۰۶*

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ تم سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ۱۰۷* کہو اس کا کچھ حال تمہیں سناتا ہوں۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کے اسباب و وسائل عطا کئے تھے۔ ۱۰۸*

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس نے ایک مہم کے لیے سرو سامان کیا۔

 

۸۶َََ1َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام تک پہنچ گیا۔ وہاں اس نے سورج کو سیاہ چشمہ میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۱۰۹* اور اس کے پاس اس کو ایک قوم ملی۔ ۱۱۰* ہم نے کہا اے ذو القرنین!چاہو انہیں سزا دو چاہو ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ۱۱۱*

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا جو ان میں سے ظلم کرے گا اس کو ہم سزا دیں گے۔ ۱۱۲* پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت عذاب دے گا۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لیے اچھا بدلہ ہے اور ہم اس کو ایسی باتوں کا حکم دیں گے جو آسان ہوں۔ ۱۱۳*

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ( ایک اور مہم کے لیے) سر و سامان کیا۔ ۱۱۴*

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک پہنچ گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہے جس کے بالمقابل ہم نے کوئی آڑ نہیں رکھی ہے۔ ۱۱۵*

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے (اس کو اس قوم پر بھی غلبہ عطا) کیا اور اس کے پاس جو کچھ تھا اس سے ہم پوری طرح با خبر تھے۔ ۱۱۶*

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے (تیسری مہم کا) سر و سامان کیا۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب وہ دو ( پہاڑوں کی) دیواروں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے اِس طرف ایک ایسی قوم ملی جو کوئی بات سمجھ نہیں پاتی تھی۔ ۱۱۷*

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے کہا اے ذو القرنین! یاجوج و ماجوج اس ملک میں فساد مچاتے ، میں تو کیا ہم آپ کے لیے خراج مقرر کر دیں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں۔ ۱۱۸*

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میرے رب نے جو کچھ میرے قبضہ میں دے رکھا ہے وہ بہتر ہے۔ تم قوت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار بنا دیتا ہوں۔ ۱۱۹*

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس لوہے کے ٹکڑ ے لاؤ یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو بھر دیا تو حکم دیا کہ اس کو دھونکو یہاں تک کہ جب اس کو بالکل آگ ( کی طرح سرخ) کر دیا تو اس نے کہا لاؤ اب اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔ ۱۲۰*

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( اور جب دیوار بن گئی) تو یاجوج و ماجوج نہ اس پر چڑ ھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے۔ ۱۲۱*

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا یہ میرے رب کی مہربانی ہے۔ پھر جب میرے رب کا وعدہ ظہور میں آئے گا تو اسے خاک میں ملا دے گا اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچاہے۔ ۱۲۲*

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس دن ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرائیں ۱۲۳* اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب کو جمع کریں گے۔ ۱۲۴*

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن ہم کافروں کے سامنے جہنم پیش کریں گے ۱۲۵*

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جن کی آنکھوں پر پردہ پڑ ا رہا اور وہ کوئی بات سن نہیں سکتے تھے۔ ۱۲۶*

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا۱۲۷* ان کافروں نے یہ خیال کر رکھا کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے۔ ہم نے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ ۱۲۸*

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ تباہ حال لوگ کون ہیں ؟

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جن کی کوششیں اس دنیا کی زندگی میں کھوئی گئیں اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ بڑ ا اچھا کام کر رہے ہیں۔ ۱۲۹*

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ لہٰذا ان کے اعمال اکارت گئے اور قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ ۱۳۰*

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کی جزا ہو گی جہنم۔ اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا تھا اور میری آیتوں اور رسولوں کو مذاق بنا لیا تھا۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (البتہ) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کی ضیافت کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے۔ ۱۳۱*

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی جانا نہ چاہیں گے۔ ۱۳۲*

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے گا قبل اس کے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اس جیسے اور سمندر کا اضافہ کریں۔ ۱۳۳*

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میں تو تم ہی جیسا ایک بشر ہوں۔ مجھ پر وحی آتی ہے ۱۳۴* کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے تو جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ ۱۳۵*

تفسیر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کجی (ٹیڑھ) نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جو عقل و فطرت اور عدل و صداقت سے ہٹی ہوئی ہو۔ یہ فلسفیانہ ایچ پیچ، تضاد بیانی اور دور از کار باتوں سے بالکل پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم الطبع اور خیر پسند لوگوں کے دلوں میں قرآن بہ آسانی اتر جاتا ہے۔ اس شان کی کتاب اتارے جانے پر اس کا مصنف (خدا) تعریف و ستائش کا مستحق ہے۔ اس کتاب کا جمال اس کے مصنف کے جمال پر اور اس کا کمال اس کے مصنف کے کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اپنے ایک ایسے بندہ پر اس کا نزول جو رسمی تعلیم سے بالکل نا آشنا تھا اس کے کمالِ حکمت کی روشن نشانی ہے۔

 

قرآن کی اس امتیازی خصوصیت کا اندازہ آدمی کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کو دیکھتا ہے اور یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ان میں خدا اور مذہب کے تعلق سے کیسی الجھی ہوئی متضاد اور فلسفیانہ ایچ پیچ والی باتیں پیش کی گئی ہیں جب کہ قرآن کی تعلیمات نہایت سادہ اور دل میں اترنے والی ہیں۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سیدھی راہ دکھانے والی اور صحیح اور محکم تعلیمات پر مشتمل۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں قرآن کو نازل کرنے کے دو اہم ترین مقاصد بیان کئے  گئے ہیں۔ ایک یہ کہ غفلت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو عذابِ الہٰی سے آگاہ کرنا اور دوسرے ایمان اور نیک عملی کی زندگی اختیار کرنے والوں کو اچھے اجر کی خوشخبری سنانا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دو گونہ فرائض انجام دیئے۔ اب آپ کی نیابت میں اس امت پر بھی ان دونوں کاموں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قرآن کی فہمائش جہاں مسلمانوں کو کرنا ہے وہاں پوری انسانیت کو قرآن کی تنبیہات سے آگاہ کرنا ہے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ متنبہ کر دے جو اللہ کے لیے اولاد ہونے کے قائل ہیں اشارہ خصوصیت کے ساتھ نصاریٰ کی طرف ہے جو حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ ویسے یہ تنبیہ عمومیت کے ساتھ ان سب کے لیے ہے جو کسی نہ کسی شکل میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے مثال کے طور پر مشرکین مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ خدا کے لیے بیٹا یا اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے پاس اس دعویٰ کے پیچھے کوئی علمی دلیل نہیں ہے۔ خدا کے بارے میں انسان کو علم یا تو اس شعور کی بنا پر ہوتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہوا ہے۔ یا ان نشانیوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس میں رکھی ہیں یا پھر وحی کے ذریعہ جو وہ انبیاء علیہم السلام پر بھیجتا ہے اور جس کی نمایاں ترین شکل کتاب الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے بارے میں جاننے کا ذریعہ انسان کے پاس کوئی نہیں۔ ان تینوں ذریعوں میں سے کوئی ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہو کہ خدا اولاد رکھتا ہے بلکہ ہر ذریعہ اس کی نفی کرتا ہے۔ پھر کس بنیاد پر لوگ خدا کے لیے اولاد یا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ؟ رہی ان کی یہ بات کہ یہ عقیدہ باپ دادا سے چلا آ رہا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا کے اولاد ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے باپ دادا بھی ویسے ہی جہالت کی باتیں کرتے تھے جیسے یہ کرتے ہیں۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کے بارے میں اولاد کی بات کہنا لوگ آسان خیال کرتے ہیں اور کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالانکہ کسی بھی عیب اور کمزوری کو اللہ کی طرف منسوب کرنا سنگین گناہ ہے۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کے لیے بڑ ے خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان نہ لانے کا آپ کو کس قدر صدمہ تھا۔ آپ ایک درد مند انسان تھے اس لیے یہ کس طرح گوارہ کر سکتے تھے کہ آپؐ کی قوم عذاب سے دوچار ہو جائے مگر تنبیہ اور نصیحت کے بعد بھی لوگ اپنے کو نذر آتش کرنا چاہتے ہوں تو ان پر افسوس کرنے سے کیا حاصل۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے سلسلہ میں تم اپنا فرض ادا کر چکے ہو اب اگر یہ نہیں ماننے تو ان کے ایمان نہ لانے کے غم میں تم نہ گھلو۔ اس میں جہاں رسول کی اپنی قوم سے درد مندی کا اظہار ہے وہاں ایمان نہ لانے والوں پر عتاب بھی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہے کہ انہیں سمجھایا جائے۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا ہے تو پُر بہار مگر وہ سدا بہار نہیں ہے۔ اور اس کو پُر کشش اس لیے بنا دیا گیا ہے کہ نوع انسانی کی آزمائش ہو کہ کون اس کی دلفریبیوں میں آ کر دنیا کا پرستار بنتا ہے اور کون عقل و فکر اور صبر و ضبط سے کام لیکر اور خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اپنے کو بہترین اوصاف کا انسان ثابت کر دکھاتا ہے۔ اور اس دوسری قسم کے انسانوں ہی کو سدا بہار جنت میں بسایا جائے گا۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اس زمین کی ساری بہار ختم ہو کر رہ جائے گی۔ انسان جو کچھ اس پر تعمیر کرتا اور بناتا رہا ہے وہ سب مٹی میں مل جانے والا ہے۔ قیامت کا دھماکہ انسان کی ساری مادی اور تمدنی ترقیوں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دے گا۔ پھر ایسی چیز کو مقصود بنانے سے کیا فائدہ؟

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحابِ کہف کا قصہ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں سے تعلق رکھتا تھا لیکن یہ اس قدر مشہور ہو گیا تھا کہ اہل مکہ بھی جاننے لگے تھے اور اس کو ایک عجیب و غریب واقعہ خیال کرتے تھے۔ چونکہ یہ واقعہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کی ایک نمایاں مثال ہے اس لیے قرآن نے اس کے ضروری پہلو اجاگر کئے۔

 

اس ہی عربوں سے خطاب کر کے قرآن نے سوال قائم کیا کہ کیا تم اصحاب کہف کے واقعہ کو عجیب خیال کرتے ہو حالانکہ یہ واقعہ قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی کا ظہور تھا جو انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے پر دلالت کرتا ہے۔ تم واقعہ کے ظاہری پہلو کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے مگر اس کے اندر دوسری زندگی کے وقوع پر دلالت کرنے والی جو رہنمائی تھی اس سے تم نے آنکھیں بند کر لیں۔

 

کہف کے معنیٰ عربی میں وسیع غار کے ہیں اور رقیم کے معنیٰ تحریر کے ہیں اس مناسبت سے الرقیم سے مراد مفسرین کے ایک گروہ کے نزدیک کتبہ ہے جو ان کے بقول اصحاب کہف کی یادگار کے طور پر غار پر لگایا گیا تھا۔ اور جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام اِفِسس (Ephesus) بتلایا جاتا ہے جو رومیوں کا ایک بڑ ا شہر تھا اور موجودہ ٹرکی میں واقع تھا۔ جس ظالم حکمراں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اصحاب کہف نے پناہ لی تھی اس کا نام دقیانوس بتلایا جاتا ہے جس کا زمانہ تیسری صدی عیسوی تھا۔ موجودہ دور کے ایک مفسر نے الرقیم سے نبطیوں کا مشہور تاریخی شہر پٹیرا (بطرا) مراد لیا ہے لیکن یہ تمام تفصیلات عیسائیوں کی روایات سے ماخوذ ہیں جن میں قصہ گوئی اور قیاس آرائی کا بہت زیادہ دخل ہے۔ اسی لیے قرآن نے آیت۴۲ میں یہ واضح حکم دیا تھا کہ اصحابِ کہف کے بارے میں ان لوگوں سے (خواہ مشرک ہوں یا نصاریٰ) کچھ نہ پوچھا جائے۔ البتہ ایک جدید تحقیق جو استاد محمد تیسیر ظبیان نے اردن کے دائرۃ الآثار العامۃ کے تعاون سے پیش کی ہے وہ بڑ ی حد تک اس غار پر منطبق ہوتی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔ فاضل محقق نے اپنی کتاب " اہل الکہف" میں اس پر محققانہ بحث کی ہے اور یہ کتاب جو عربی میں ہے دارالاعتصام مصر سے شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی رو سے یہ غار (اردن کے دارالحکومت) سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر الرجیب میں واقع ہے اور یہ الرجیب ہی الرقیم کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ حکومت اردن کے دائر آثار عامہ نے کھدائی وغیرہ کا جو کام کیا اس کے بعد حقائق بالکل ابھر کر سامنے آ گئے ہیں جو مختصراً درج ذیل ہیں :

 

۱) یہ غار جنوب شمال جہت واقع ہے اور سورج مشرق اور مغرب کی سمت میں غار سے کترا کر نکل جاتا ہے۔

 

۲) غار اندر سے کشادہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہم فی فجوۃ منہ۔

 

۳) غار کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔

 

۴) غار کے اوپر مسجد کے کھنڈر ہیں مسجد کا ذکر آیت ۲۱ میں ہوا ہے۔ اس مسجد کے سات ستون ہیں جو غالباً اصحاب کہف کی تعداد کی مناسبت سے قائم کئے گئے تھے۔

 

۵) شمالی دیوار پر ایک جانور کی تصویر بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں ماہرین آثار کا کہنا ہے کہ یہ کتے کی تصویر ہے علاوہ ازیں دیوار پر فینقی اور قدیم یونانی خط میں کچھ باتیں کندہ ہیں۔

 

۶) اصحاب کہف کے غار میں پناہ لینے کا واقعہ دقیانوس کے زمانہ کا نہیں بلکہ تراجان کے زمانہ کا ہے جس نے ۹۸ء تا ۱۱۷ء میں حکومت کی اور ۱۰۹ء میں اس نے شرق اردن فتح کر لیا تھا۔ یہ حکمراں بڑ ا ظالم تھا اور جو شخص بھی بت پرستی سے اور بتوں کے آگے قربانیاں پیش کرنے سے انکار کرتا اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا اس کے زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت مظالم ڈھائے  گئے۔ اس کے عہد کے بیزنطینی سکے بھی اس غار میں ملے ہیں۔

 

۷) مسلم مورخین کے اقوال سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ غار عمان کے قریب واقع ہے چنانچہ مقدسی کی کتاب احسن التقاسیم میں ہے " الرقیم شرقِ اردن میں عمان سے قریب ایک شہر ہے " اور یاقوت حموی معجم البلدان میں لکھتے ہیں " عمان شام کے اطراف میں ایک شہر ہے اور یہ سر زمین بلقاء کا بڑ ا شہر رہا ہے اس کے قریب ہی کہف اور الرقیم واقع ہیں۔ " ( ان تمام تفصیلات کے لیے دیکھئے محمد تیسیرظبیان کی کتاب اہل الکہف) ۔

 

ہماری رائے میں یہ تحقیق نہایت وقیع اور مسیحی روایتوں اور کمزور اقوال کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے۔ کہف اور الرقیم کے سلسلہ میں چونکہ یہ نیا انکشاف ہے اس لیے ہمیں اس کی تشریح میں کسی قدر طوالت سے کام لینا پڑ ا۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تعداد کی تفصیلات میں گئے بغیر یہ جان لینا کافی ہے کہ وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے غار میں پناہ لی تھی۔ ایک ظالم بستی میں سے چند نوجوانوں کا پوری قوتِ ایمانی کے ساتھ اٹھ کھڑ ے ہونا ان کی حمیتِ حق اور بلند حوصلگی کی علامت ہے اور یہ چیز نوجوانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دین کے تحفظ اور اپنے دعوتی کام کے لیے اللہ سے مدد اور رہنمائی کے طالب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جس طرح مدد اور رہنمائی کی وہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہے۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو کئی سال تک غار میں سلائے رکھا۔ کانوں کو تھپکنا سلانے کے لیے استعارہ ہے چنانچہ بعد کی آیت میں ان کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر نیند طاری کر دی گئی تھی نیز آیت۱۸ میں بھی یہ صراحت ہے کہ وہ سو رہے تھے۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو گروہ سے مراد ایک تو اصحاب کہف کا گروہ ہے اور دوسرا ان لوگوں کا جن سے ان کو اٹھنے کے بعد واسطہ پڑ ا۔ جہاں تک اصحاب کہف کا تعلق ہے وہ اپنی مدت قیام کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے بلکہ جیسا کہ آیت۱۹ سے واضح ہے انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ہم نے چند گھنٹے ہی سو کر گزارے ہیں۔ رہے شہر کے لوگ جن سے ان کو اٹھنے کے بعد واسطہ پڑ ا تو وہ سکہ وغیرہ دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ غار میں طویل مدت تک سوتے رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ طویل مدت تک ان کا پڑ ے رہنا ایک واقعہ تھا مگر اس کا احساس خود پڑ ے رہنے والوں کو نہ ہو سکا۔ گویا یہ برزخ کی زندگی کی مثال تھی جہاں انسان طویل عرصہ تک پڑ ا رہے گا لیکن قیامت کے دن جب اسے اٹھایا جائے گا تو ایسا محسوس ہو گا کہ اس نے چند گھنٹے ہی عالم برزخ میں گزارے ہیں۔ وقت کی طوالت کا احساس نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کی موت ہو گئی اس کی گویا قیامت قائم ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ سے اسی حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیتوں میں اس سر گزشت کا لب لباب پیش کیا گیا تھا اب اس کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

 

اس سر گزشت کو ٹھیک ٹھیک سنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے سلسلہ میں جو اٹل پچو باتیں کہی جا رہی ہیں ان کے مقابلہ میں قرآن کا بیان خالصۃً حقیقت واقعہ کا بیان ہے اور اس کا ایک ایک لفظ سچائی کا آئینہ دار ہے نیز اپنے پہلو میں مقصدیت لئے ہوئے ہے۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ ہدایت میں افزونی اور ترقی بھی ہوتی ہے اور یہ افزونی اور ترقی اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحابِ کہف کا یہ اعلان توحید تھا اور چونکہ انہوں نے نہایت پُر خطر حالات میں اس کا اعلان کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا اور ان کے حوصلے بلند کر دئے چنانچہ انہوں نے بت پرستی سے ڈر کر بت پرستی کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں کی اور غیر اللہ کو معبود ماننے سے صاف صاف انکار کر دیا۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کی قوم مشرک تھی۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اور برت پرستی بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر اس کی کوئی دلیل ہے تو پھر بتوں کے پرستار اسے پیش کیوں نہیں کرتے۔ اور اے بے دلیل بات وہ دوسروں سے کیوں منوانا چاہتے ہیں۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ عقیدہ کہ خدا نے اپنی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہرایا ہے یا خدائی کے اختیارات ان میں تقسیم کر دیئے ہیں یا ان کو لائق پرستش قرار دیا ہے سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان ہے کیونکہ اللہ نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی پھر جو جھوٹ اللہ پر بولا جائے وہ کتنی سنگین نوعیت کا ہو گا اور اس کا مرتکب کتنا بڑ ا مجرم ہو گا۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غار میں پناہ لینے کا فیصلہ انہوں نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر کیا تھا جبکہ آیت ۲۰ سے واضح ہے۔ ان کی قوم بت پرست بھی اور عقیدہ و مذہب کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتی تھی اور حکومت ایسی ظالم تھی کہ ایک خدا کو ماننے اور بت پرستی سے انکار کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتارتی تھی۔ ان حالات میں اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو بچانے کے لیے غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اصل چیز اپنے ایمان اور دین کا تحفظ ہے اور اگر حالات اتنے سنگین ہوں کہ یہ متاع عزیز ہی خطرہ میں پڑ جائے تو ایک مؤمن اس کے تحفظ کے لیے ہجرت کی راہ اختیار کر سکتا ہے یا کسی غار وغیرہ میں بھی پناہ لے سکتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے حدیث میں آیا ہے : " قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال اس کی بھیڑیں ہوں جن کو لیکر وہ پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی ایسے گوشہ میں جہاں خوب بارش ہوتی ہو چلا جائے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔ " (بخاری کتاب الایمان)

 

واضح رہے کہ اس کا کوئی تعلق نہ رہبانیت سے ہے اور نہ صوفیوں کی عزلت نشینی سے بلکہ یہ ایسے پُر فتن حالات کے لیے ہے جبکہ اپنے ایمان اور دین کو بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی کا اسلوب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے افراد آپس میں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں تو تم اور تمہارا کی ضمیریں استعمال کرتے ہیں جبکہ اردو میں ایسے موقع پر ہم اور ہمارا کی ضمیریں استعمال کی جاتی ہیں۔ عربی کے اس اسلوب کو اگر سامنے نہ رکھا جائے تو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ خطاب کرنے والا آپس کا آدمی نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

 

اصحاب کہف نے اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی کہ جب ہم نے خدائے واحد ہی کو معبود مانا ہے اور شرک اور مشرکین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ضرور نوازے گا اور جس کام کو لیکر ہم اٹھے ہیں اس میں وہ ہماری ضرور مدد کرے گا۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ جس غار میں پناہ گزیں ہوئے وہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ سورج کی روشنی اندر کی کشادہ جگہ میں جس میں وہ پڑ ے سو رہے تھے نہیں پہنچتی۔ مطلب یہ کہ غار جنوب شمال جہت کو ہے۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی اس بات کی کہ جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ اصحاب کہف کی ایک ایسے غار کی طرف رہنمائی جو ان نازک حالات میں ان کے تحفظ کے لیے ہر طرح موزوں تھا اور جس میں ان کو سکون میسر آیا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی نازک مواقع پر مدد کرتا اور رہنمائی فرماتا ہے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اس طرح سو رہے تھے اور ساتھ ہی کروٹیں بدلتے جاتے تھے کہ اگر اتفاق سے کوئی شخص انہیں دیکھ لیتا تو یہی خیال کرتا کہ یہ بس لیٹے ہوئے ہیں اور جاگ رہے ہیں اور ان کا کتا بھی غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر اس تاریک غار میں کوئی شخص جھانک کر دیکھ لیتا تو یہ منظر ایسا دہشتناک تھا کہ دیکھنے والا الٹے پاؤں بھاگ جاتا۔ وہ اندیشہ محسوس کرتا کہ معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اس تاریک غار میں چھپ گئے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ نے یہ دہشتناک صورت اس لیے پیدا کر دی تھی کہ کوئی شخص ان کے قریب آنے کی جرأت نہ کرے اور وہ بالکل محفوظ رہیں۔ ان کی حفاظت کا یہ غیر معمولی سامان تھا جو کیا گیا۔

 

کتا انہوں نے اس ویرانے میں اپنی حفاظت کے لیے ساتھ رکھا تھا جو ایک جائز غرض تھی اس لیے شرعاً اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس غیر معمولی حالت میں سلانے کی بعد انہیں اٹھایا۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ ایک دوسرے سے یہ معلوم کریں کہ وہ کتنی دیر سوتے رہے۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی آپس کی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ وہ اپنے نیند کی حالت میں پڑ ے رہنے کا صحیح اندازہ نہ کر سکے۔ ایک نے اندازہ لگایا تو ایک دن یا اس سے کم کا اور جب وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو انہوں نے اس معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیا کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے عرصہ تک اس حال میں پڑ ے رہے۔

 

در حقیقت وہ ایک طویل عرصہ تک پڑ ے رہے مگر جب جاگ اٹھے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا ایک دن یا اس سے بھی کم وقت انہوں نے سونے میں گزارا ہے۔ ان کا یہ واقعہ عالم برزخ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک نشانی ہے۔ انسان مرنے کے بعد طویل عرصہ تک عالم برزخ میں پڑ ا رہے گا اور جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اسے ایسا محسوس ہو گا کہ ایک دن یا چند گھنٹے ہی وہ اس حالت میں پڑ ا رہا۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاگنے کے بعد انہیں کھانے کی اشتہاء ہوئی اس لیے انہوں نے اپنے ایک آدمی کو سکہ دے کر جو چاندی کا تھا شہر میں بھیجنا چاہا اور اسے یہ ہدایت کی کہ تحقیق کر کے پاکیزہ کھانا لے آئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شہر کا ماحول وہی مشرکانہ ہے جس کو چھوڑ کر وہ آئے تھے اور ایک مشرکانہ سوسائٹی میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ بتوں کے نام کا ذبیحہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے انہوں نے پاکیزہ یعنی حلال کھانے کی تاکید کی۔ اس سے ان کی پاکیزگی نفس کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس قوم کو وہ چھوڑ آئے تھے وہ کیسی ظالم تھی۔ ان کے نزدیک ان کے مشرکانہ مذہب کو ترک کر دینے کی سزا موت تھی نیز یہ کہ وہ اپنے مذہب میں واپس لانے کے لیے جبر کرتے تھے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ شخص جب پرانے زمانہ کا سکہ لیکر کھانا خریدنے کے لیے گیا تو راز کھل گیا کہ یہ لوگ طویل مدت تک غار میں پڑ ے سوتے رہے ہیں اور اب جاگ اٹھے ہیں۔ یہ وہ اسباب تھے جو اللہ نے لوگوں کو ان کے حال سے واقف کرانے کے لیے کئے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بے نقاب کرنے کا سامان اس لیے کیا تاکہ قیامت کے بارے میں لوگوں کے شبہات دور ہوں اور انہیں یقین ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ اگر اللہ کے کرشمۂ قدرت سے انسان لمبی مدت تک سوتے رہنے کے بعد اٹھ سکتا ہے تو اس کے کرشمۂ قدرت سے وہ مرنے کے بعد کیوں نہیں اٹھ سکتا؟ اگر اس دنیا میں خلافِ معمول ( خارق عادت) واقعہ ظہور میں آ سکتا ہے تو اس دنیا کے خاتمہ پر دوبارہ اٹھائے جانے کا خلافِ معمول واقعہ کیوں نہیں پیش آ سکتا؟

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فحوائے کلام ( انداز بیان) سے واضح ہے کہ اس کے بعد اصحابِ کہف کا انتقال ہو گیا اور ان کے انتقال پر یہ غیر ضروری بحث چھڑ گئی کہ ان کو کس طرح دفن کیا جائے اور ان کی یادگار کس طرح قائم کی جائے۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت حکومت بھی بدل چکی تھی اور عوام کا دین بھی۔ عوام اور حکومت دونوں نے نصرانیت قبول کر لی تھی اس لیے اصحاب کہف سے دونوں کو عقیدت ہو گئی تھی کہاں تو وہ ماحول کہ عوام اور حکومت دونوں ان کو سنگسار کرنے کے درپے تھے اور کہاں یہ ماحول کہ دونوں ان کے عقیدت مند ہو گئے۔ اور جب عقیدت مند ہو گئے تو اعتدال باقی نہ رہا۔ ان کو مرجع بنانے کے لیے ان کی قبروں کے اوپر مسجد ( عبادت گاہ) کی تعمیر ضروری سمجھی گئی۔

 

اگرچہ ان لوگوں میں ایک گروہ ایسا موجود تھا جس کا اندازِ فکر صحیح تھا اور اس نے یہ مناسب تجویز پیش کی تھی کہ ان کی لاشوں کو غار ہی میں رہنے دیا جائے اور غار کے دہانے پر دیوار کھڑ ی کر دی جائے تاکہ وہ اس میں مدفون ہوں اور ان کے معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے جو ان کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ ہم فرطِ عقیدت میں کوئی ناروا کام نہ کر بیٹھیں مگر موحدین کی یہ تجویز ان لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوئی جن کے ہاتھ میں کلیسا کا اقتدار اور حکومت کی باگ ڈور تھی۔ انہوں نے اپنی بگڑ ی ہوئی ذہنیت اور بدعت پرستانہ طبیعت کے پیش نظر اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان کی قبروں پر یعنی غار کے اوپر ایک عبادت گاہ تعمیر کی جائے تاکہ ان سے عقیدت کا اظہار ہو۔

 

قبروں سے یہی وہ عقیدت ہے جو قبر پرستی اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے اور مسجدیں بنانے کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔

 

لَعَنَ اللّٰہ الیہود و النصاریٰ اِتخذُوْاقُبُوْرَ اَنْبِیَاءِ ہِمْ مَسْجِداً۔ (بخاری کتاب الجنائز) " اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ " اُولٰئِکَ اِذَا مَاتَ مِنھُمْ الرَّجْلُ الصالِحُ بَنَوا عَلٰی قبرہٖ مسجدًا وصَوَّرُوْافیہ تِلْکَ الصُّوَرَاُوْلئِکَ شرارُ اَلْخَلْقِ عندَ اللّٰہِ۔ (بخاری کتابُ الجنائز) " ان لوگوں میں جب کوئی نیک شخص مر جاتا تو اس کی قبر پر وہ عبادت گاہ ( مسجد) بناتے اور اس میں اس کی تصویریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔ "

 

نَہٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم اَنْ یُّجصَّصَ الْقَبْرُ و انیٍّ قعَدَ عَلیْہِ وَ اَنْ یُبْنٰی عَلَیْہِ۔ (مسلم کتاب الجنائز) " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کو چونے سے پختہ کرنے ، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔ "

 

ان حدیثوں کے پیش نظر بزرگوں کی قبروں پر شاندار مقبروں اور درگاہوں کی تعمیر اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف اور قبر پرستی اور گمراہی کا باعث ہے۔

 

بعض حضرات نے اس آیت کا غلط مفہوم لیا ہے اور وہ اس آیت کو بزرگوں کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنے کے جواز میں پیش کرتے ہیں لیکن حدیث نبوی کی صراحت کے بعد ان کا یہ استدلال بالکل باطل ہے چنانچہ علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان پر سخت گرفت کی ہے اور ان کی الٹی منطق کا خوب جائزہ لیا ہے اور واضح طور پر صلحاء کی قبروں پر عمارت بنانے کے جواز کو باطل اور فاسد قول قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی ج۵ ص ۲۳۷) ۔

 

آیت کو اگر پوری طرح ملفوظ رکھا جائے تو اس کا یہ منشا واضح ہو گا کہ اصحابِ کہف کو طویل مدت کے بعد اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر ایک نشانی لوگوں کے لیے فراہم کر دی تھی اس لیے چاہیے تھا کہ وہ اپنی نگاہوں کو اس پر مرتکز کرتے اور اصحاب کہف کے تعلق سے جب گفتگو کرتے تو اسی نقطہ کو اصل موضوع کو چھوڑ کر ان کی یادگار قائم کرنے کو موضوع بنا لیا۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو اصل مقصد سے لگاؤ نہیں تھا اور جو اس واقعہ سے کوئی سبق حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے انہوں نے اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے بارے میں غیر ضروری بحث چھیڑ دی تھیں۔ قرآن نے ان کی ان بحثوں کا جواب دیئے بغیر جچے تلے انداز میں سر گزشت سنائی اور سبق آموز پہلوؤں کو نمایاں کیا ساتھ ہی اہل ایمان کو ہدایت کی کہ ان بحثوں سے سرسری طور سے گزریں اور ان میں الجھیں نہیں۔

 

تعداد کے بارے میں قرآن نے تیسرے قول کو (کہ ان کی تعداد سات تھی) پہلے دو اقوال کی طرح رد نہیں کیا اور نہ اس کے صحیح ہونے کی صراحت کی بلکہ فرمایا کہو میرا رب ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی کاوش کے بغیر اسی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔

 

معلوم ہوتا ہے اصحاب کہف کے قصہ نے اس زمانہ میں ہی افسانہ کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ قرآن نے اس کی اصل حقیقت کو جو افسانوں میں دب گئی تھی منظر عام پر لانے کے بعد اہل ایمان کو ہدایت کی کہ اب اس قصہ کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا کسی سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ مگر افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود تفسیروں میں عیسائیوں کی افسانوی باتوں کو جگہ مل گئی یہاں تک کہ اصحاب کہف کے نام نیز ان کے کُتّے کا نام بھی بیان کر دیا گیا۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وثوق کے ساتھ یہ بات نہ کہو کہ میں فلاں کام میں کر دوں گا۔ تمہیں کیا معلوم کہ کل کیا صورت پیش آئے گی اور تمہارے لیے اس کا م کو انجام دینا ممکن ہو گا یا نہیں اس لیے تمہیں ایسے موقع پر اِنْ شَاء اللّٰہ کہہ دینا چاہیے جس کے معنی ہیں اگر اللہ نے چاہا۔ یہ استثناء اس بات کا اظہار ہے کہ اصل چیز اللہ کی مشیت ہے نہ کہ میرا اپنا فیصلہ اگر اس کی مشیت ہوئی تو میں فلاں کام کر سکوں گا ورنہ نہیں اسی لیے ایک مومن کا شعار یہ ہے کہ جب وہ کوئی وعدہ کرتا ہے یا کسی کام کے آئندہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو ان شاء اللہ ضرور کہتا ہے۔

 

یہ تو ہوا آیت کا عمومی پہلو رہا سلسلۂ بیان کے لحاظ سے خاص پہلو تو یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہے کہ اگر لوگ کوئی سوال کریں جس کا جواب وحی الٰہی پر موقوف ہو تو یہ نہ کہو کہ کل میں اس کا جواب دوں گا اِلاّ یہ کہ ساتھ ہی یہ کہو اللہ نے چاہا تو۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو جب تمہیں یہ بات یاد آ جائے اس وقت اپنے رب کو یاد کرو تاکہ جو بھول ہو گئی تھی اس کی تلافی ہو جائے۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اصحاب کہف پر جس طرح اس نے رشد کی راہیں کھولیں امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ رشد کی راہیں وہ مجھ پر کھولے گا۔ یہ جواب ہے مشرکین مکہ کو کہ تم نے ظلم و جبر کا طریقہ اختیار کر کے وہی حالات پیدا کر دئے ہیں جو اصحاب کہف کے لیے ان کی قوم نے پیدا کر دئے تھے لیکن میرا رب اس مرحلہ میں میرے لیے ان سے بھی زیادہ کامیابی کی راہیں کھولے گا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ عنقریب ہجرت کا معاملہ پیش آنے والا ہے ، چنانچہ کچھ ہی دنوں بعد یہ مرحلہ سامنے آگیا اور آپ غار ثور میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہو گئے مگر غار میں آپ کو صرف تین دن گزارنا پڑ ے۔ اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچتے ہیں تو کامیابی کی راہیں آپ پر کھلتی چلی گئیں۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فقرہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اوپر تین سو نو سال کی مدت کا جو ذکر ہوا وہ لوگوں کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے۔ اوپر آیت ۲۲ میں تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کا ذکر ہوا تھا درمیان میں جملہ معترضہ  آیا اب پھر اسی سلسلہ بیان میں اصحاب کہف کے غار میں پڑ ے رہنے کی مدت کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا گیا کہ وہ تین سو نو سال بتاتے ہیں مگر اس بحث میں پڑ نے کی ضرورت نہیں ہے جتنی مدت بھی رہے اللہ بہتر جانتا ہے۔

 

اس قصہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما چکا ہے کہ وہ غار میں سالہا سال تک رہے (آیت ۱۱) یعنی وہ ایک طویل مدت تک غار میں سوتے پڑ ے رہے اور اتنی بات سبق آموزی کے لیے کافی ہے۔

 

اصحاب کہف کے متعلق سے بعض مفسرین نے کرامت کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے ذریعہ کسی غیر معمولی (خارق عادت) واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے ایک حقیقت ہے جس کی مثال اصحاب کہف کا واقعہ بھی ہے اور حضرت مریم کا واقعہ بھی۔ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کی دلیل ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ کائنات پر اسی کی حکومت ہے اور وہ جب چاہے قوانین طبعی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ رہیں وہ شخصیتیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کسی غیر معمولی واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے تو یہ واقعات ان کے نیک ہونے کی علامت ضرور ہیں جن کی بنا پر ان کو یہ کرامت یعنی اعزاز بخشا گیا لیکن ان واقعات کو ظہور میں لانے میں ان کا اپنا دخل نہیں ہے۔ یعنی وہ اس معاملہ میں بالکل بے اختیار ہیں۔ کوئی کرامت وہ دعوے کے ساتھ دکھا نہیں سکتے جبکہ ایک رسول اللہ کے اذن سے دعوے کے ساتھ معجزہ دکھاتا ہے اسی لیے معجزہ اللہ کی کھلی حجت ہے۔ غرضیکہ کرامت کے بارے میں لوگوں کا یہ تصور کہ اولیاء اور بزرگان دین کرامتیں دکھاتے ہیں سراسر غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کسی خاص مصلحت سے کسی نیک شخص کے ذریعہ کسی غیر معمولی واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے۔ اور ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس شخصیت کو اس بات کی حبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کے ذریعہ کوئی کرامت ظاہر ہو رہی ہے چنانچہ اصحاب کہف ایک طویل مدت تک سوتے رہے مگر ان کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کے ذریعہ کرامت ظہور میں آ رہی ہے اور جب وہ جاگے ہیں تو اپنے سونے کی مدت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کر سکے۔ پھر انہوں نے کرامت کیا دکھائی؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانی تھی جو ان کے ذریعہ ظاہر ہوئی۔ یہی ان کے لیے شرف اور کرامت ہے۔

 

واضح رہے کہ مسلمانوں میں اولیاء اور پیروں کی جو کرامتیں مشہور ہیں وہ زیادہ تر ان شخصیتوں سے غیر معمولی عقیدت پیدا کرنے کے لیے غلو پسند طبیعتوں نے گھڑ ی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ ان بے سر و پا  قصوں نے مسلمانوں میں اولیاء پرستی کا ذہن پیدا کر دیا ہے۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین میں لفظ " حُکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی فیصلہ کے بھی ہیں اور ان اختیارات کے بھی جن کے تحت فیصلے اور احکام صادر کئے جاتے ہیں۔ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اختیارات میں اس نے کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہے۔ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ خدائی کے اختیارات ایک اللہ ہی کے لیے ہیں جبکہ شرک کا فلسفہ یہ ہے کہ خدائی کے اختیارات میں دوسرے بھی شریک ہیں اور جو شرک مسلمانوں میں اولیاء پرستی کی راہ سے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی اپنے کچھ اختیارات اولیاء کو عطا کئے ہیں۔ اس شرک پر چونکہ اولیاء کی عقیدت کا لیبل لگا ہوا ہے اس لیے مسلمان آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔

 

اس عقیدہ کے باطل ہونے کے لیے یہ ایک آیت ہی کافی ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ اللہ اپنے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن سنانے کا یہ حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا ہے یعنی مقصود صرف مسلمانوں کو سنانا نہیں بلکہ عام انسانوں کو سنانا ہے جو بھی قرآن سننے کے لیے آمادہ ہو۔

 

عربوں کی زبان عربی تھی اور قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے ان کو قرآن سنانا اللہ کے پیغام کو ان کی زبان میں ان تک پہنچانے کے ہم معنی تھا۔ اب جبکہ امت مسلمہ کو غیر عربی داں قوموں سے واسطہ ہے قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ ان کی زبان میں پہنچانا ہو گا۔ اسی صورت میں ان پر قرآن کی حجت قائم ہو سکے گی اور اللہ نے چاہا تو کتنوں ہی کو ہدایت بھی نصیب ہو گی۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کوئی ایسی طاقت نہیں جو اللہ کے فرمانوں کو بدل سکتی ہو۔ اس کا ہر حکم اٹل" ہر فیصلہ نافذ العمل اور ہر وعدہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ لہٰذا تم لوگوں کی خیریت اسی میں ہے کہ اس کے کلام میں کسی تبدیلی کی خواہش کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل دو اور اس سانچہ میں ڈھال لو جس سانچے میں کہ وہ تمہیں ڈھالنا چاہتا ہے۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ایمان لا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت اختیار کر لی تھی ان میں بیشتر ایسے تھے جو نہ مالی وسائل رکھتے تھے اور نہ اثر و رسوخ مگر نہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت ایمان سے نوازا تھا اس لیے ان کی زندگیاں رضائے  الٰہی کی طلب میں بسر ہو رہی تھیں۔ دنیا پرست لوگ ان کو حقیر خیال کرتے تھے مگر وہ تھے قیمتی ہیرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان کی پوری پوری قدردانی کی جائے اور ان کی رفاقت کو اپنے لیے کافی خیال کر لیا جائے۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان لوگوں کو اہمیت دینے لگو جو مال و دولت اور دنیوی شان و شوکت کے مالک ہیں مگر اپنے رب سے غافل ہیں۔

 

اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر مقصود منکرین پر یہ واضح کرنا ہے کہ تمہیں اپنی شان و شوکت پر فخر ہے اور تم مخلص اہل ایمان کو حقیر خیال کرتے ہو مگر اللہ کی نظر میں قدر کے حقیقی مستحق تم نہیں بلکہ اس کے یہ مخلص بندے ہیں۔

 

اسلام نے نماز با جماعت کا جو طریقہ رائج کیا ہے اس کی ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی رفاقت میسر آئے اور ان کا یہ اجتماع عبادت الٰہی کا اجتماع ہو اور ان کی یہ مجلس ذکر الٰہی کی مجلس ہو۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب آدمی خدا کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اس کی یاد سے غافل کر دیتا ہے اور جب خدا کی یاد سے آدمی غافل ہو جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا غلام بنکر رہ جاتا ہے اور جب خواہشات اس پر مسلط ہو جاتی ہیں تو معاملات میں بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اس طرح وہ عقل و فطرت کی رہنمائی سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور شریعت کی رہنمائی سے بھی۔

 

ایسے لوگوں کی اطاعت نہ کرے ( ان کے کہنے پر نہ چلنے) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رہنمائی کے مقابلہ میں ان کی رہنمائی کو اور اس کے احکام کے مقابلہ میں ان کے کسی حکم کو قبول نہ کیا جائے۔

 

اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ذکر الٰہی کا تعلق اصلاً دل سے ہے اور دل کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اور اس قسم کی دوسری آیتیں اس باب میں صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کے معاملہ میں انسان پر جبر نہیں کیا ہے بلکہ اسے اختیار دیکر اس کی فہمائش کا سامان کیا ہے۔ اب وہ جس راہ کو چاہے اختیار کرے اپنے بھلے برے کا وہ خود ذمہ دار ہے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظالم سے مراد وہی خدا سے غافل لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اور آگ کی قناتوں سے مراد جہنم کی لپیٹیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم کی زد میں آ چکے ہیں اور اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے۔

 

سورج زمین سے کروڑ ہا میل کے فاصلہ پر ہے مگر اس کی حرارت زمین پر برابر پہنچتی ہے اور اگر اس کی کشش زمین کو اپنی طرف کھینچ لے تو زمین آگ کا گولہ بن جائے۔ جب مادی دنیا کا یہ حال ہے تو جو دنیا ہماری نظروں سے اوجھل ہے اس کی آگ کا یہ حال ہرگز قابل تعجب نہیں ہے کہ اس کی تپش اس دنیا میں منکرین تک پہنچ رہی ہے اور یہی وہ تپش ہے جو ان کے اخلاق و کردار کو خاکستر بنا رہی ہے۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنت کے ماحول کو دنیا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کی زندگی شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی ہو گی اس لیے مردوں کو سونے کے کنگن بھی پہنائے جائیں گے اور ریشم کے کپڑے بھی۔

 

سبز رنگ خوشنما بھی ہوتا ہے اور آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا باعث بھی اس لیے اس رنگ کا انتخاب نہایت موزوں انتخاب ہے اور ان باتوں کے اسرار تو جنت ہی میں کھلیں گے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوئی فرضی مثال نہیں بلکہ سچا واقعہ ہے جو عبرت کے لیے بیان کر دیا گیا ہے۔ آگے آیت ۳۴ اور ۳۷ میں صراحت ہے کہ دو اشخاص کے درمیان گفتگو ہوئی تھی جو اس مثال کے واقعاتی مثال ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی نوازش اس طرح ہوئی تھی کہ اس نے ایک چھوڑ دو باغ عطا کئے تھے اور یہ باغ اعلیٰ قسم کے تھے۔ عربوں کے ہاں اعلیٰ قسم کا باغ انگوروں کا ہوتا تھا جس کے گرد کھجور کے درخت ہوتے تاکہ تیز و تند ہوا سے انگور کی بیلیں محفوظ رہ سکیں۔ اور درمیانی حصہ میں کھیتی ہوتی جس سے غلہ حاصل ہوتا۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کی فخریہ باتیں تھے جو غرور اس کے دل میں تھا وہ دوران گفتگو ظاہر ہو گیا۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وسائل کی فراوانی کسی کو حاصل ہوتی ہے تو وہ دولت کے نشہ میں یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ کم از کم میری زندگی میں اس پر زوال آنے والا نہیں ہے۔ مالداروں کی یہی نفسیات ہوتی ہے اور یہ اطمینان انہیں خدا سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اول تو قیامت قائم ہو گی نہیں اور اگر ہوئی تو جس طرح دنیا میں نوازا گیا ہوں اسی طرح آخرت میں بھی نوازا جاؤں گا۔ یہ دولت مندوں کی ذہنیت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کو جو دولت ملی ہے وہ آزمائش کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے ملی کہ وہ اسی کے مستحق تھے اور جب وہ دنیا میں اس کے مستحق ہوئے تو آخرت میں کس طرح مستحق نہیں ہوں گے۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھی نے جو مؤمن تھا اس کو فہمائش کی۔ اس کی فخریہ اور متکبرانہ باتوں کو صریح کفر قرار دیا اور اسے دعوت فکر دی کہ جس ہستی نے اپنی کرشمۂ قدرت سے مٹی سے انسان پیدا کیا پھر پانی کی حقیر بوند سے اس کی نسل کا سلسلہ چلایا اور پھر تجھے مکمل انسان بنا کر کھڑ ا کیا اس کا تو ناشکرا بنتا ہے ؟۔

 

اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ایک مؤمن دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تذکیر کے معاملہ میں موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کی گفتگو اس سے خالی نہیں ہوتی۔ اسے اپنے ساتھی کی اصلاح کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور وہ بات بات میں بڑ ے پتہ کی بات کہہ جاتا ہے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کا اعلان اور شرک کی نفی تھی۔

 ۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی باغ کو دیکھ کر تجھے اپنی بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ اللہ کے فضل کا اعتراف کرنا چاہیے تھا نیز اس بات کا اقرار و اظہار کہ اس کی کسی نعمت سے فائدہ اٹھانا اسی کی مدد پر موقوف ہے۔ نہ میرا اپنا بل بوتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا سکوں اور نہ کوئی اور طاقت ایسی ہے جو مجھے فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

 

اس آیت میں یہ تعلیم مضمر ہے کہ آدمی جب اپنے باغ، کھیت، کارخانہ وغیرہ میں داخل ہو تو پیداوار کے پر کشش منظر کو دیکھ کر اپنے رب کا شکر ادا کرے اور اس پر توکل کا اظہار کرے۔ اس مقصد کے لیے ماشاء اللہ لا قوۃ  الا باللہ کے کلمات نہایت موزوں ہیں۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بہتر نعمت عطا فرمائے گا اس میں اشارہ ہے آخرت کی جنت کی طرف جس کے مقابلہ میں دنیوی باغ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے باغ پر اتنا ناز نہ کر۔ خدا سے ڈر کر کہ وہ کوئی آسمانی آفت نازل کر کے تیرے باغ کو تہس نہس کر سکتا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس بات کا بھی تو امکا ن ہے کہ نہر کا پانی زمین میں اندر چلا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ ایسا پیش آ سکتا ہے جو باغ کی ویرانی کا سبب بن جائے۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بندۂ مومن کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا چنانچہ باغ پر ایسی آفت آئی کہ وہ ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ جب اس کافر نے تباہی کے اس منظر کو دیکھا تو کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اس وقت اسے اپنی غلط ذہنیت کا احساس ہوا اور یہ بات اس پر کھل گئی کہ توحید کا عقیدہ ہی صحیح عقیدہ ہے اس لیے وہ اس شرک پر پچھتایا جس میں وہ مبتلا تھا۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ نے اس کے باغ کو تباہ کرنا چاہا تو نہ وہ جتھا اس کافر کے کام آیا جس پر وہ فخر کرتا تھا اور نہ اس کے ٹھہرائے ہوئے شریک اس کی مدد کو پہنچ سکے اور نہ ہی اس کے اندر یہ بل بوتا تھا کہ وہ خود اس آفت کا مقابلہ کرتا۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس واقعہ سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سارے اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں جو حقیقی رب ہے اور اس کے اختیارات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ نفع و نقصان کا پہنچنا سب اسی کے چاہنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا انعام اور اجر اسی سے طلب کیا جائے اور امیدیں بھی اسی سے وابستہ کی جائیں۔

 

اس رہنمائی کے علاوہ اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی دعوت دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ ہو سکتا ہے مادی وسائل کے لحاظ سے کوئی مقام نہ رکھتے ہوں لیکن انجام ان ہی کا بخیر ہونے والا ہے اور کفر کرنے اور اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے والوں کو بالآخر پچھتا نا ہی پڑ ے گا۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں حیات دنیا کی بہار کو زمین کی بہار سے تشبیہ دی گئی ہے بارش ہونے پر زمین کی روئیدگی ابھر آتی ہے اور وہ سر سبز ہو جاتی ہے مگر اس کی یہ رونق عارضی ہوتی ہے۔ چند دنوں کے بعد اس کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔

 

اور وہ چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے پھر ہوا کے جھونکے اس کو اڑ دیتے ہیں۔ اس طرح زمین کی یہ رونق خاک میں مل جاتی ہے۔ دنیوی زندگی کا بھی یہی حال ہے۔ اس کی بہار چند روزہ ہے اس کے بعد اس پر خزاں آنے والی ہے جو اس کی ساری دلفریبیوں کو ختم کر کے رکھ دے گی۔ لہٰذا جو لوگ دنیوی زندگی کو مقصود بناتے ہیں ان کے حصہ میں خزاں ہی آنے والی ہے۔

 

واضح رہے کہ دنیا کو مقصد بنا کر زندگی بسر کرنے اور آخرت کو مقصد بنا کر زندگی بسر کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں جس کو مذموم قرار دیا گیا ہے وہ پہلی چیز ہے۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جس طرح بہار لانے پر قادر ہے اسی طرح خزاں لانے پر بھی قادر ہے اور وہ زمین پر ایسی خزاں لا سکتا ہے کہ اس کی موجودہ رونق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال اور اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ہیں لیکن آدمی جب ان کی ظاہری کشش سے اتنا متاثر ہو جائے کہ ان ہی کا ہو کر رہ جائے اور آخرت کو پس پشت ڈال دے تو یہ مقصد زندگی ہی سے انحراف ہے اس لیے قرآن اس ذہنیت پر ضرب لگاتا ہے اور جب بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز مرنے کے بعد اور دنیا کے درہم برہم ہو جانے کے بعد بھی باقی رہنے والی ہے وہ نیک اعمال ہی ہیں۔ ان ہی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ہاں بندہ اجر کا مستحق قرار پائے گا اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنے رب سے اس کے فضل و کرم کی امید وابستہ کر سکتا ہے لہٰذا آدمی کی سعی و جہد کا رخ یہ ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی نیک عملی کی زندگی ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے۔  مال اور اولاد کے معاملہ میں انسان کو وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو اس کی نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہو۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کی گھڑ ی جب آئے گی تو زمین کی ہیئت اور اس کے موجودہ نظام میں عظیم تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ کوئی پہاڑ خواہ وہ ہمالیہ ہی کیوں نہ ہو اپنی جگہ پر رہ نہیں سکے گا بلکہ سب پہاڑ ہوا میں اڑ نے لگیں گے اور پھر جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ صراحت ہے ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے۔ اور جب پہاڑوں کا یہ حال ہو گا تو انسانوں کے بنائے ہوئے مکان، اونچی عمارتیں اور محل کہاں باقی رہ سکیں گے۔ سب ختم ہو جائیں گے اور زمین ایک کھلے میدان کی شکل میں ظاہر ہو گی۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نوع انسانی کے تمام افراد جو آدم سے لیکر قیامت تک پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے ان سب کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں اکٹھا کیا جائے گا۔ شاہ ہو یا گدا، امیر ہو یا غریب اور مؤمن ہو یا کافر کسی استثناء کے بغیر سب کو حاضر کر دیا جائے گا۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت خدا کے حضور ان کی پیشی ہو گی تاکہ وہ دنیا میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کی جوابدہی کریں۔ یہ پیشی نظم و انضباط کے ساتھ ہو گی چنانچہ انہیں صف در صف کھڑ ا کر دیا جائے گا کہ وہ فرمانروائے کائنات کی عدالت میں حاضر ہو رہے ہیں _____اور نماز کی صفیں اسی صف بندی کی مثال ہیں۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگ خدا کے حضور صف بہ صف پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنے کی جو خبر ہم نے تمہیں دی تھی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہو گئی۔ مگر تم لوگوں نے ___منکرین آخرت نے ____یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہمارے حضور پیشی ہونا ہی نہیں ہے۔ ہم نے نہ اس کا وعدہ کیا ہے اور نہ اس کے لیے وقت مقرر کیا۔ آج تمہیں معلوم ہو گیا کہ تمہارا یہ خیال خام تھا اور حق وہی تھا جس کی خبر ہم نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے دی تھی۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر شخص کے عمل کا ایسا ریکارڈ پیش کیا جائے گا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی درج ہونے سے رہ نہیں گیا ہو گا۔ اپنی عملی زندگی کا اتنا صحیح اور مکمل ریکارڈ دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جائے گا کیونکہ وہ آخرت کا انکار کرتا رہا ہے لہٰذا یہ ریکارڈ اس کے لیے غیر متوقع ہو گا۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ کسی کی حق تلفی ہو گی اور نہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی۔ عدل و انصاف کے سارے تقاضے ہر ہر شخص کے حق میں پورے کئے جائیں گے۔

 

ان آیات میں عدالت خداوندی کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے اس کی مثال نہ بائبل میں موجود ہے اور نہ کہیں اور۔ یہ قرآن ہی کی خصوصیت ہے کہ وہ قیامت اور آخرت کے احوال اتنی تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یقین و اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ ان آیتوں میں خدا کے حضور پیشی کا جو مضمون بیان ہوا ہے وہ ایک شہ پارہ ہے جو دل و دماغ کو بدلنے کے لیے بالکل کافی ہے۔

 

یہ بھی واضح رہے کہ آخرت کا یہ عقیدہ مشرکین ہند کے آواگوان (Transmigration) کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ اس نظریہ کی رو سے نہ قیامت برپا ہونا ہے ، نہ خدا کے حضور حاضری کا کوئی سوال ہے اور نہ جوابدہی کا کوئی تصور۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷ ، ۴۸ میں گزر چکی۔ یہاں آدم و ابلیس کے قصہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ابلیس انسان کا ازلی دشمن ہے اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ انسان دنیا کے امتحان میں کامیاب ہو کر جنت کا مستحق بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انسان کو شرک میں مبتلا کرتا ہے تاکہ آخرت کو وہ کسی طرح مقصدِ حیات نہ بنائے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے وہ روایت قابل رد ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا۔ ابن کثیر نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ اس بارے میں اکثر روایتیں اسرائیلیات میں سے ہیں اور بعض روایتیں تو بالکل جھوٹی ہیں۔ (ملاحظہ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۸۹)

 

قرآن نے فرشتوں کا وصف یہ بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی کبھی نافرمانی نہیں کرتے۔ ابلیس چونکہ جنوں میں سے تھا جو انسان کی طرح مکلف مخلوق ہیں اس لیے وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ ابلیس کی نسل بھی ہے اور اس کا پورا قبیلہ ہے۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین حقیقی خدا کو خدا کی حیثیت سے ماننے کے بجائے شیطان کو خدا کا مقام دینے لگتے ہیں۔ اس طرح خدا کو چھوڑ کر وہ شیطان کو خدا بنا لیتے ہیں۔ خدا کا یہ کتنا برا بدل ہے جو ظالموں نے اپنے لیے تجویز کیا ہے۔

 

جہاں تک شیطان کے وجود کا تعلق ہے قرآن اس کو شخصی وجود رکھنے والے اور جان بوجھ کر گمراہ کرنے اور شر پھیلانے والے کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اس لیے اس کی یہ تاویل کرنا کہ یہ محض شر کا نام ہے۔ اس کا کوئی شخصی وجود نہیں قرآن کے بیان کے سراسر خلاف ہے۔ شیطان سے آدم اور حوا دونوں کو واسطہ پڑ ا تھا اس لیے نسلاً بعد نسل اس کا تصور انسانوں میں منتقل ہوتا رہا اور انبیاء علیہم السلام بھی شیطان کے شر سے بچنے کی تعلیم دیتے رہے ہیں اس لیے اس کا وجود لوگوں کے نزدیک مسلم رہا ہے اور مشرکین عرب کو بھی اس کے وجود سے انکار نہیں تھا اور اس کے وجود کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ انسانوں کی بہت بڑ ی اکثریت شر میں ہمیشہ مبتلا رہی ہے جیسا کہ تاریخ سے واضح ہے اور جس کا مشاہدہ آج بھی ہم کر رہے ہیں۔ اتنی بڑ ی تعداد کا ہر دور میں بگاڑ میں مبتلا ہونا اور شر پر آمادہ ہونا صاف ظاہر کرتا ہے کہ خارج سے انسان کو ورغلانے کا کام ہو رہا ہے اور یہ ورغلانے والی قوت انسان کی دشمن ہے اور یہ قوت کوئی اندھی قوت نہیں بلکہ مکر و فریب اور سازشوں کے ذریعہ انسان کو پھانسنے والی سرکش قوت ہے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین عرب شیاطین کو اپنا دوست اور کار ساز ایک تو اس معنی میں بناتے ہیں کہ اپنے نفس کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں اور دوسرے اس معنی میں کہ ان کو خدائی نظام میں دخیل سمجھ کر ان کے ضر ر سے بچنے کے لیے ان کی پرستش کرتے ہیں تاکہ وہ ان سے خوش رہیں اور بلائیں ٹلتی رہیں۔ اس طرح انہوں نے شیطانوں کو بھی خدا کا شریک ٹھہرایا تھا۔ اسی پر گرفت کرتے ہوئے یہاں فرمایا گیا ہے کہ خدائے کے حق اطاعت و پرستش میں شیطانوں کو شریک کرنے کا کیا سوال جبکہ ان کا خدائی نظام میں کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کا نہ آسمان و زمین کی تخلیق میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان کی اپنی تخلیق میں۔ اللہ نے ان کو اپنی مدد کے لیے کبھی نہیں بلایا۔ اول تو یہ خیال ہی حماقت ہے کہ اللہ نے کسی کو اپنا مدد گار بنایا ہے اور مزید حماقت یہ سمجھنا کہ شیطانوں کو اس نے اپنا مددگار بنایا ہے۔ گویا خدا نے اپنے خدائی نظام کو چلانے کے لیے مدد گار منتخب بھی کئے تو گمراہ کرنے والے شیاطین! نعوذ باللہ من ذالک۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ان مشرکین سے کہا جائے گا کہ جن کو تم نے خدا کا شریک سمجھ کر اپنا دوست اور کارساز بنا لیا تھا ان کو اب اپنی مدد کے لیے بلا لو وہ ان کو بلائیں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے اور دونوں کے درمیان تباہی کا گڑھا حائل کر دیا جائے گا کہ نہ یہ پرستار اپنے معبودوں کے پاس پہنچ سکیں گے اور نہ ان کے معبود اپنے پرستاروں کے پاس پہنچ سکیں گے۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل ۱۲۲۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ نصیحت پر دھیان دیتا بحث و جدال پر اتر آتا ہے اور یہ انسان کی عام کمزوری ہے۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی واضح ہدایت کے آ جانے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس پر ایمان نہ لائیں اور جس شرک میں وہ مبتلا رہے اس سے وہ اللہ کے حضور معافی نہ مانگیں۔ اگر وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں بھی ہلاکت کا وہی معاملہ پیش آ جائے جو سابقہ امتوں کو پیش آیا تھا یا پھر وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ عذاب کو ہم اپنے سامنے دیکھ لیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن اس وقت ایمان لانا بے سود ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حجت ان پر قائم ہو گئی ہے اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو عذاب ہی ان کی آنکھیں کھول سکتا ہے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسولوں کا کام عذاب لانا نہیں بلکہ ایمان لانے والوں کو ابدی کامیابی سے خوش خبری سنانا اور کفر کرنے والوں کو ابدی ہلاکت سے خبردار کرنا ہے۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لوگوں کو رسول کی بات ماننے سے انکار ہے وہ غلط اور نا معقول باتوں کا سہارا لیکر بحث کرنے لگتے ہیں اور منصوبہ یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح حق کی شکست ہو اور وہ دب جائے۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کو جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۴۴۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان منکرین کے کرتوت تو ایسے ہیں کہ اللہ کا عذاب ان پر فوراً نازل ہو جائے مگر اللہ بخشنے والا اور رحمت والا ہے اس لیے وہ انہیں سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے تاکہ وہ توبہ کر کے اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔ مگر یہ مہلت ایک مقررہ وقت تک ہی کے لیے ہے۔ جب عذاب آ جائے گا تو پھر انہیں کہیں پناہ نہیں مل سکے گی۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان بستیوں کی طرف جن کی ہلاکتوں کا ذکر قرآن میں بار بار ہوا ہے۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فحوائے کلام ( آیت کے مضمون) سے ظاہر ہے کہ موسیٰ  علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اشارہ پا کر ایک خاص مہم پر روانہ ہو رہے تھے۔ اور وہ مہم یہ تھی کہ ایک مخصوص مقام پر اللہ کے ایک خاص بندہ سے ملاقات کر کے اس علم سے استفادہ کریں جو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے اسرار و رموز سے متعلق اللہ نے اسے بخشا ہے۔ اس سفر میں انہوں نے اپنے خادم کو ساتھ لیا تھا اور چلتے وقت ان پر اپنے اس مصمم ارادہ کا اظہار کیا تھا کہ اس سفر میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے بہر حال مجھے جاری رکھنا ہے یہاں تک کہ میں مقررہ منزل تک پہنچ جاؤں اور وہ منزل مجمع البحرین دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ہے۔

 

یہ کون سے دو سمندر ہیں اور وہ کہاں آ کر ملتے ہیں اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی کیونکہ اس واقعہ کو بیان کرنے کا جو مقصد قرآن کے پیش نظر ہے اس کے لحاظ سے یہ تفصیلات غیر ضروری تھیں۔ جہاں تک قرائن کا تعلق ہے موسیٰ علیہ السلام نے یہ سفر اس وقت کیا ہو گا جبکہ وہ سینا میں قیام پذیر تھے اور بنی اسرائیل کو جہاد سے جی چرانے کے نتیجہ میں یہ سزا ملی تھی کہ وہ چالیس سال تک صحرائے سینا میں بادیہ پیمائی کرتے رہیں۔ اس سے پہلے ان کو چھوڑ کر ان کا ایک طویل سفر پر جانا قرینِ قیاس نہیں اور نہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ مصر میں قیام کے دوران انہوں نے یہ سفر کیا ہو گا کیونکہ اس وقت وہ فرعون کو دعوت حق دینے ، اس پر حج قائم کرنے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے آزاد کرانے جیسے اہم ترین فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ لہٰذا قرائن اسی کی تائید میں ہیں کہ سفر کا یہ واقعہ سینا میں قیام کے دوران پیش آیا ہو گا۔ اور اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع البحرین سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بحر قلزم اور خلیج عقبہ ملتے ہیں۔ یہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے جنوب میں شرم الشیخ کے پاس ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے جزیرے بنے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے یعنی خلیج عقبہ کے دوسرے کنارے پر مدین کا علاقہ پڑ تا ہے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سفر کے سلسلہ میں موسیٰ علیہ السلام کو یہ ہدایت ہوئی تھی کہ وہ مچھلی ساتھ لے لیں اور جہاں مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام ان کی اصل منزل ہو گا۔ یہ مچھلی ان کے خادم نے توشہ دان میں رکھ لی تھی اور چونکہ اس کے ذریعہ منزل کی نشاندہی ہونے والی تھی اس لیے اس معاملہ میں چوکنا رہنے کی ضرورت تھی مگر دونوں کو اس کا خیال نہیں رہا۔ موسیٰ علیہ السلام تو آرام کر رہے تھے اور ان کے خادم نے مچھلی کو نیچے سے راہ نکال کر سمندر میں جاتے ہوئے دیکھا لیکن بعد میں موسیٰ علیہ السلام سے اس کا ذکر کرنا بھول گئے اور خود موسیٰ علیہ السلام کو بھی بیدار ہو جانے پر مچھلی کے بارے میں کچھ پوچھنے کا خیال نہیں رہا۔ مچھلی زندہ ہو کر توشہ دان سے سمندر میں چلی گئی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ قدرت تھا اور اس لیے ظہور میں آیا تھا کہ اپنے رسول کو منزل کا پتہ بتا دیا جائے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ کے لیے کسی بھی مردہ چیز کو زندہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب اس مقام کو چھوڑ کر وہ آگے بڑھے تو کچھ دور جانے کے بعد حضرت موسیٰ کو تکان کا احساس ہوا چونکہ وہ منزل سے آگے بڑ ھ چکے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر تکان کی کیفیت طاری کر دی۔ اس وقت انہوں نے اپنے خادم سے کھانا طلب کیا۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خادم نے اپنی بھول کا اعتراف کرتے ہوئے مچھلی کے عجیب طریقہ سے سمندر میں چلے جانے کا واقعہ موسیٰ علیہ السلام کو سنا دیا اور اس کا اصل محرک شیطان کو قرار دین جو انسان کو بھلاوے میں ڈال کر اس کی توجہ اہم کاموں کی طرف سے ہٹاتا رہتا ہے۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہی تو وہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ مچھلی کا زندہ ہو کر عجیب طریقہ سے سمندر میں چلا جانا منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دونوں اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس ہوئے اور اس چٹان کے پاس پہنچ گئے جہاں وہ اپنی مچھلی بھول گئے تھے۔

 

قدموں کے نشانات صحرا میں نمایاں ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چٹان صحرا میں ساحل سے قریب تھی۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹان کے پاس ان کی ملاقات اللہ کے ایک خاص بندے سے ہوئی جس کا نام حدیث میں خضر آیا ہے۔ " جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا" کا اشارہ نبوت کی طرف ہے کہ ہم نے اس بندۂ خاص کو نبوت سے سرفراز کیا تھا اور " اپنے پاس سے خاص علم عطا کیا تھا" سے مراد تکوینی (غیر اختیاری) معاملات میں اللہ کے فیصلوں کے اسرار و رموز کا علم ہے۔ آگے آیت ۸۲ میں اس بندۂ خدا کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ " میں نے یہ کام اپنی رائے سے نہیں کیا" جو اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کا حکم بذریعہ وحی اس کو پہنچتا تھا اور وہ اس کی تعمیل کرتا تھا۔ وحی کا اس طرح نزول ایک نبی ہی پر ہوتا ہے اور اسی بنا پر اس کی بات لوگوں کے لیے حجت ہوتی ہے۔

 

جہاں تک جمہور مفسرین کا تعلق ہے وہ اس بندۂ خدا کے نبی ہونے ہی کے قائل ہیں البتہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ فرشتہ تھا۔ ان کے اس خیال کی تائید آیت کے ان الفاظ سے نہیں ہوتی کہ "جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا" کیونکہ قرآن میں کسی مقام پر بھی کسی فرشتہ کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کہی گئی ہے کہ اسے رحمت سے نوازا گیا تھا۔ اور فرشتے تو تکوینی احکام کے نافذ کرنے پر مامور ہوتے ہیں اس لیے رحمت سے نوازے جانے کی بات فرشتہ کے بارے میں موزوں نہیں ہو سکتی بلکہ یہ بات نبی ہی کے لیے موزوں قرار پائی ہے۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو الگ الگ امتیازات بخشے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم کلامی کا شرف بخشا تھا تو عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا تھا۔ یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم بخشا تھا تو سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان سمجھنے کی صلاحیت بخشی تھی۔ اسی طرح خضر علیہ السلام کو ظاہری حالات و واقعات کے پیچھے جو اسرار پوشیدہ ہوئے ہیں انکا علم بخشا گیا تھا جس نے ان کے اندر معاملہ فہمی کی غیر معمولی صلاحیت پیدا کر دی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر نبی اور رسول تھے جو خضر علیہ السلام کے اسی امتیازی علم سے استفادہ کرنا چاہتے تھے اور اسی غرض سے انہوں نے یہ سفر کیا تھا۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت خضر پر اللہ تعالیٰ جن تکوینی امور کے اسرار کھول دیتا تھا ان کے سلسلہ میں وہ مناسب عملی تدابیر اختیار کرتے تھے مگر چونکہ حضرت موسیٰ کے دائرہ علم میں یہ باتیں نہیں تھیں اس لیے وہ ان تدابیر کو غلط باور کرنے میں حق بہ جانب تھے اور انسان ظاہری حالات کو دیکھ کر ہی حکم لگاتا ہے اس لیے حضرت خضر کا اندازہ صحیح تھا کہ جو غیر معمولی کام وہ انجام دیں گے ان کو وہ برداشت نہ کر سکیں گے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علم کی راہ میں موسیٰ علیہ السلام کے صبر کا امتحان تھا۔ سوال  کرنے کی کڑی شرط حضرت خضر نے اس لیے عائد کی تھی تاکہ حضرت موسیٰ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے کہ ان کے علم اور ان کے کام کی نوعیت کیا ہے۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ اعتراض ظاہر کے لحاظ سے تھا اور بجا تھا جبکہ حضرت خضر نے یہ کام ایک مصلحت سے کیا تھا جو اپنی جگہ صحیح تھی مگر مخفی تھی جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے

 

۰حضرت خضر کی رہنمائی میں جس سفر کا آغاز ہوا اس میں حضرت موسیٰ کے خادم کے ساتھ چلنے کا ذکر نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے ان کو چٹان کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا تھا کہ واپسی میں حضرت موسیٰ ان کو اپنے ساتھ لے لیں گے۔ (واللہ اعلم)

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بظاہر لڑ کا کسی ایسے جرم کا یا کسی کے قتل کا مرتکب نہیں ہوا تھا کہ اسے قتل کر دیا جاتا اس لیے حضرت موسیٰ سے رہا نہ گیا اور انہوں نیاس فعل کو منکر قرار دیا جبکہ حضرت خضر نے ایک مخفی مصلحت سے یہ خدمت انجام دی تھی جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے۔

 

۹۹َََ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسافر کو کھانا کھلانا اخلاق کا تقاضا ہے اور اس زمانہ میں مسافروں کے لیے کھانے پینے کی وہ سہولتیں نہیں تھیں جو موجودہ دور میں پائی جاتی ہیں اس لیے معروف طریقہ یہی تھا کہ کوئی مسافر کسی بستی میں آ جائے تو اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ مگر اس بستی والوں نے ان معزز مہمانوں کی ایسی نا قدری کی کہ ایک وقت کا کھانا فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

 

۱۰۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے یہ بات اس لیے کہی کہ بستی کے لوگ اس بات کے مستحق نہیں تھے کہ ان کی خدمت انجام دی جائے جبکہ انہوں نے بھوکے مسافروں کو ایک وقت کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مگر حضرت خضر کے پیش نظر دوسری مصلحت تھی جس پر ابھی پردہ پڑ ا ہوا تھا۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ اعتراض تیسری مرتبہ تھا اس لیے مزید عذر کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی اور جدائی کی نوبت آ گئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان خواہ وہ ایک پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ظاہر پر حکم لگاتا ہے اور جب تک باطنی مصلحتیں وحی کے ذریعہ اس پر واضح نہ کی جائیں وہ ظاہر پر حکم لگانے کے لیے مجبور ہے۔ شریعت کا مطالبہ بھی اس سے اس کے علم کی حد تک ہی ہے۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کشتی کو عیب دار بنانا خالی از مصلحت نہ تھا۔ دراصل اس سے مقصود غریبوں کی کشتی کو ظالم بادشاہ کے غاصبانہ قبضہ سے بچانا تھا۔ یہ بادشاہ اپنے علاقہ سے گزرنے والی ہر اس کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا تھا جو درست حالت میں پائی جاتی۔ حضرت خضر نے یہ تدبیر کی کہ کشتی کا ایک تختہ نکال دیا تاکہ بادشاہ کے کارکنان اسے ٹوٹی ہوئی کشتی خیال کر کے نظر انداز کریں۔ انہوں نے یہ تدبیر اس مخصوص علم کی بنا پر کی تھی جو انہیں عطا ہوا تھا اور چونکہ وہ نبی تھے اس لیے ظاہر ہے انہیں بادشاہ کی ظالمانہ کار روائی سے بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا ہو گا۔

 

حضرت موسیٰ کا اعتراض ظاہر کے لحاظ سے تھا اور صحیح تھا اور حضرت خضر کی تدبیر اس مخصوص علم کی بنا پر تھی جو انہیں عطا ہوا تھا اور اس لحاظ سے یہ تدبیر بالکل صحیح اور مفید تھی اگرچہ اس کی مصلحت موسیٰ پر واضح نہیں تھی۔

 

رہا یہ سوال کہ دوسرے کی کشتی میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کس طرح کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ تصور اللہ کے حکم سے کیا گیا تھا اس لیے یہ تصرف بالکل جائز تھا۔ دوسرے یہ کہ بعض حا ات میں کسی کو نقصان سے بچانے کے لیے اس کی مِلک میں تصرف کرنا پڑ تا ہے مثلاً اگر ایک گھر کو آگ لگ گئی ہے اور اس کا دروازہ بند ہے اور اس کتو ڑ ے بغیر آگ کو بجھایا نہیں جا سکتا تو مالک کی اجازت کا انتظار کئے بغیر دروازہ کو توڑ دیا جائے گا۔ کسی فرد یا سوسائٹی کو ضر ر سے بچانے کے لیے اس قسم کے تصرف کی بہت سے مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ " غلام" استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق نابالغ لڑ کے پر بھی ہوتا ہے اور بالغ لڑ کے پر بھی۔ سورۂ یوسف میں گزر چکا ہے کہ جب قافلہ والوں میں سے ایک شخص نے کنویں میں ڈول ڈالنے پر یوسف کو پایا تھا تو وہ پکار اٹھا تھا یا بشریٰ  ہٰذا غلام (خوشخبری ہو یہ تو لڑ کا ہے) حالانکہ اس وقت یوسف کی عمر ۱۷ سال تھی۔ اس لیے ہے لڑ کا جس کو حضرت خضر نے قتل کیا بالغ رہا ہو گا اور کافر بھی۔ اس کے والدین مؤمن تھے اس لیے لڑ کے کا کافر ہونا اس کے مرتد ہونے کے ہم معنیٰ تھا اور مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ پھر یہ لڑ کا سرکش بھی تھا۔ یہ صورت حال جب حضرت خضر پر وحی کے ذریعہ واضح ہوئی تو انہوں نے اندیشہ محسوس کیا کہ یہ لڑ کا اپنے والدین کو سخت تکلیف پہنچائے گا اس اندیشہ کے پیش نظر انہوں نے دعا کی کہ اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے۔ ایسا بدل جو عقیدہ و اخلاق کے لحاظ سے بھی خوب پاکیزہ ہو اور بہت زیادہ رحم دل بھی تاکہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرے۔ اس کے بعد حکم الٰہی سے انہوں نے اس لڑ کے کو قتل کر دیا۔ یہ قتل یا تو ایک مرتد کا قتل تھا جو شرعاً جائز ہے یا اگر لڑ کا نا بالغ تھا تو یہ ایک طرح سے اللہ کے تکوینی حکم کا نفاذ تھا جو غیر معمولی طور پر ایک نبی کے ہاتھوں انجام پایا ایسی صورت میں اس کو قتل کے عام احکام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک استثنائی صورت تھی جو حضرت خضر کے ساتھ مخصوص تھی اور جس کو صاحبِ شریعت موسیٰ علیہ السلام پر بھی واضح کر دیا گیا۔ یہ ایسا ہی استثنائی حکم تھا جیسا کہ حکم حضرت ابراہیم کو ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے کا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ حضرت ابراہیم کے نبی ہونے کی حیثیت میں ایک مخصوص حکم تھا اسی طرح حضرت خضر کو ایک کافر لڑکے کے قتل کرنے کا حکم ان کے نبی ہونے کی حیثیت میں مخصوص طور پر دیا گیا تھا اس لیے نہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے یہ وجہ جواز بن سکتا ہے۔

 

حضرت خضر نے اپنے لیے جمع کی جو ضمیر استعمال کی یعنی یہ جو فرمایا کہ " ہم نے یہ اندیشہ محسوس کیا" اور " ہم نے چاہا" تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل کا یہ کام اصلاً تکوینی نوعیت کا تھا جسے فرشتہ ہی انجام دے سکتے تھے اس لیے عجب نہیں کہ اس کام میں فرشتے حضرت خضر کے معاون رہے ہوں اور ان کی معاونت کے پیش نظر انہوں نے جمع کی ضمیر " استعمال کی ہو۔ قتل کا یہ کام ساحلِ سمندر پر جس خاموشی کے ساتھ انجام پایا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم کے اس نفاذ میں فرشتے حضرت خضر کے معاون رہے ہوں گے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بستی والوں کے نا روا سلوک کے باوجود دیوار بلا معاوضہ کھڑ ا کرنے کی خدمت حضرت خضر نے اس لیے انجام دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خبر دے دی تھی کہ اس دیوار کے نیچے یتیموں کا مال مدفون ہے۔ اگر دیوار گر جاتی تو کوئی شخص بھی مال نکال کر ہڑ پ کر سکتا تھا جبکہ بستی کے لوگ بد اخلاق تھے۔ حضرت خضر نے بستی والوں کے سلوک کو جو ان کے ساتھ کیا گیا تھا خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ہاتھ سے دیوار کی مرمت کر دی۔ یہ بڑ ے خیر کا کام تھا جو ان کے ہاتھوں انجام پایا۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ نبی تھے کیونکہ یہ کام انہوں نے اپنی رائے اور اپنے اختیار سے نہیں کئے تھے بلکہ حکم الٰہی سے کئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے حضرت خضر کو جو خاص علم بخشا گیا تھا اس کی بنا پر خاص طرح کی خدمت ان کے سپرد ہوئی تھی یعنی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس کی مصلحت واضح نہ ہو لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ کام خیر کا باعث اور لوگوں کی فلاح و بہبودی کا موجب ہو۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کے اس سفر کی سر گزشت جو ایک خاص علم کے حصول کے لیے تھا یہاں ختم ہو گئی۔ اس سر گزشت کو بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ تکوینی طور پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور ایسے حالات رونما ہوتے ہیں جن کے حقیقی مصالح پر پردہ پڑ ا رہتا ہے۔ ظاہر بیں نگاہیں ان کو دیکھ نہیں پاتیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک جھلک ان واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے جو حضرت موسیٰ کو خضر کے تعلق سے پیش آئے۔ لہٰذا کفر و اسلام کی کشمکش میں اہل ایمان کو جن ناسازگار حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے اس سے وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ عجب نہیں کہ اس کے اندر سے بہت بڑ ا خیر ابھر آئے اور اس کی رحمتوں کا جو بادلوں میں چھپی ہوئی ہیں ان پر نزول ہو۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے صبر سے کام لیں۔

 

دوسرا سبق جو اس سر گزشت سے دینا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا حادثات اور واقعات کی دنیا ہے اور اس کے پیچھے جو عظیم مصالح ہیں ان پر پردہ پڑ ا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جب حقیقت کو بے نقاب کیا جائے تاکہ لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ دنیا اندھیر نگری نہیں تھی بلکہ ایک علیم و حکیم ہستی کا منصوبہ تھا جس کی پشت پر عظیم مصلحتیں کار فرما تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اسی لیے مقرر کیا ہے تاکہ دنیا کے اسرار پر سے پردہ اٹھ جائے اور دنیا کے بارے میں صحیح اور غلط نقطہ نظر رکھنے والوں کو اپنے اپنے عمل کا بدلہ ملے۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال مشرکین مکہ نے یہود کے اشارہ پر کیا تھا اور مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینا تھا کہ اگر واقعی آپ پر وحی آتی ہے تو ذو القرنین کا حال بیان کریں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے نہ تاریخ کی معلومات کہیں سے حاصل کی ہے اور نہ مذہبی کتابیں پڑھی ہیں اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں گے لیکن وحی الٰہی نے ذو القرنین کے مسئلہ پر اس طرح روشنی ڈالی کہ آپ کی نبوت کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا۔

 

یہود کے اس سوال سے یہ بات آپ ہی واضح ہے کہ ان کے نزدیک ذو القرنین کی شخصیت معروف تھی اور اس کا یہ لقب پہلے سے چلا آ رہا تھا اس لیے قرآن نے اس عالمگیر فاتح کی عظیم الشان فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے اس کی سیرت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جن سے اس کی خدا خوفی، عدل پسندی اور خدا کے حضور جوابدہی کے شدید احساس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لقب سے اس کے مشہور ہونے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس کی سلطنت مغرب اور مشرق میں دور دور تک وسیع ہو گئی تھی اور غالباً یہ پہلا حکمران ہے جس کی حکومت انسانی آبادی کے بہت بڑ ے حصے پر قائم ہو گئی تھی۔

 

قرن کے معنی سینگ کے ہیں اور ذو القرنین کے معنی دو سینگوں والا۔ دو سینگوں سے مراد مشرق و مغرب کے وہ دو کنارے ہیں جہاں انسانی آبادی ختم ہوتی تھی۔ اس کے بعد جو انسانی آبادی تھی وہ یا تو دوسری جہتوں میں تھی یا سمندر اور پہاڑ کو عبور کرنے کے بعد تھی۔

 

ذو القرنین کی شخصیت نزولِ قرآن کے وقت معروف تھی لیکن بعد میں پردۂ خفا میں چلی گئی اور جب مفسرین نے اس کو متعین کرنے کی کوشش کی تو سکندر مقدونی کو جس کا دور۳۴۵ قبل مسیح تا ۳۲۳ قبل مسیح رہا ہے اور جو ارسطو کا شاگرد تھا مشہور عالمگیر فاتح ہونے کی بنا پر اس کا مصداق قرار دیا۔ حالانکہ سکند ر مقدونی کے بارے میں یقین کے ساتھ نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور نہ یہ کہ وہ عادل بادشاہ تھا اور نہ ہی اس کی مغرب میں کسی ایسی مہم کا تاریخی ثبوت ملتا ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے بلکہ اس کے بر خلاف تاریخ اس کو ایک بت پرست اور توسیع پسند حکمراں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اس لیے اس کو قرآن کا ذو القرنین نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 

چونکہ ذو القرنین کی شخصیت یہود میں معروف تھی اس لیے اس کی تحقیق کے لیے قدیم صحیفوں ہی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔

 

موجودہ دور میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ان صحیفوں اور دوسرے تاریخی شواہد کے حوالوں سے اپنی تحقیق تفسیر " ترجمان القرآن" میں پیش کی ہے۔ وہ اپنی تحقیق کی بنا پر خورس یعنی سائرس (Cyrus) کو جس کا دور ۵۵۹ قبل مسیح تا ۵۲۹ قبل مسیح تھا ذو القرنین قرار دیتے ہیں۔

 

 

خورس فارس ( ایران) کا حکمراں تھا اس نے فارس اور میڈیا ( شمالی ایران) کی متحدہ سلطنت بنانے کے بعد مغرب کا رخ کیا تھا اور اس کی فتوحات لیڈیا ( ٹرکی) تک پہنچ گئی تھیں اور مشرق میں بھی اس کا دائرہ سلطنت وسیع ہو گیا تھا۔ اس نے بابل کو فتح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو جب بخت نصر کے زمانہ سے غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے آزاد کر کے یروشلم جانے کی اجازت دیدی گویا بنی اسرائیل کے لیے خورس ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے ظاہر ہوا تھا اس لیے بائبل میں اس کا ذکر ایک اچھے حکمراں کی حیثیت سے ہوا ہے اور اس کو خدا کا چرواہا کہا گیا ہے (ایسعیاہ ۴۴:۴۸) اور عزرا کی کتاب سے اس کے خدا پرست ہونے کی شہادت ملتی ہے۔ (ملاحظہ ہو عزرا باب۔ ۱   اور باب۔ ۶) اس لیے اغلب ہے کہ خورس کی شخصیت ہی قرآن کا ذو القرنین ہو گی۔

 

قدیم مورخ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے سائرس کو فارس کی مقبول ترین شخصیت بتلایا ہے اور اس کی مہموں کا ذکر کیا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار اس کا تعارف اس طرح کراتا ہے۔

 

" سارس اخمینین شہنشاہیت کا بانی تھا۔ یہ شہنشاہیت پہلی عالمی ریاست (Word State) ہے جس میں بحر ایجین سے لے کر دریائے سندھ تک کا علاقہ شامل تھاَ۔ ۔ وہ ایک روادار اور مثالی حکمراں تھا جسے قدیم اہل فارس نے بابائے قوم کے نام سے پکارا اور بائبل میس جسے بابل کے یہودی اسیروں کے تعلق سے نجات دہندہ کہا گیا۔ "

)Ency. Britannica. Vol. VI .409(

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک بہت بڑ ی سلطنت کے لیے جن وسیع تر ذرائع و وسائل کی ضرورت تھی اللہ کے فضل سے اسے حاصل ہو گئے تھے۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مغربی سمت خشکی کے آخری کنارے پہنچ گیا۔ اس کے بعد سمندر تھا جس نے سیاہ جھیل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ وہاں اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج اس گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ سورج کا ڈوبنا عام محاورہ ہے اس کے لفظی معنی کوئی بھی مراد نہیں لیتا۔

 

مطلب یہ ہے کہ ذو القرنین مغربی مہم پر جب روانہ ہوا تو ملک پر ملک فتح کرتا ہوا ایک ایسے ملک میں پنچ گیا جو خشکی کی آخری حد تھی۔ اس کے آگے جھیل نما سمندر تھا اس لیے اس سے آگے بڑھنے کا سوال ہی نہیں تھا۔

 

سائرس کا دارالحکومت ہمدان ( ایران) تھا اور وہ جب مغربی مہم پر روانہ ہوا تو لیڈیا ( موجودہ ٹرکی) تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس کے مغرب میں بحر ایجین پڑ تا ہے اور ساحل کے پاس خلیج از میر نے ایک چشمہ یا جھیل کی سی شکل اختیار کر لی ہے جس میں نہر غدیس کا سرخ مٹی سے ملا ہوا گدلا پانی گرتا ہے۔ غالباً سائر س نے اسی کے کنارے کھڑ ے ہو کر دیکھا ہو گا تو اسے اس گدلے پانی میں سورج ڈوبتا ہوا دکھائی دیا ہو گا۔ ( یہ تفصیل ڈاکٹر عبد العلیم عبدالرحمن خضر کی کتاب مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی قصہ ذی القرنین سے ماخوذ ہے جو عربی میں ہے اور دار الشروق جدہ سے شائع ہوئی ہے۔)

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترک قوم ہو گی جیسا کہ سائرس کے واقعات سے ظاہر ہے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ذو القرنین کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک ایسی پوزیشن میں ہے کہ اگر وہ اس قوم کو سزا دینا چاہے تو پوری طرح اس پر قادر ہے اور اگر حسن سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی اس کے اختیار میں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مفتوح قوم پر چاہے ظلم کرے چاہے احسان کرے بلکہ مطلب اس کی اس پوزیشن کو واضح کرنا ہے جو عملاً اسے حاصل ہو گئی تھی۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم سزا صرف ان ہی کو دیں گے جو ظالمانہ حرکتیں کریں گے ورنہ زیادتی کسی پر بھی نہیں کی جائے گی۔ ذو القرنین کے اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ ایک مفتوح قوم کے ساتھ اس کا رویہ اور اس کی حکومت کی پالیسی عدل و انصاف کی ہو گی۔

 

واضح رہے کہ سائرس نے جس وقت اقتدار سنبھالا اس وقت اس کے اطراف میں ظالمانہ حکومتیں قائم تھیں اور انسانیت ظالم حکمرانوں سے تنگ آ گئی تھی۔ چنانچہ بابل کی حکومت ظلم و جور کا بدترین نمونہ تھی جس نے بنی اسرائیل کو قید و بند کی زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ ان ظالم حکمرانوں کے ظلم اور بربریت سے نجات دلانے کا کام اللہ تعالیٰ نے جس کے ہاتھ سے لیا وہ سائرس تھا۔

 

قرآن نے ذو القرنین کی جن فتوحات کا ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے انسانیت کو ظلم و فساد سے نجات دلانے کے لیے یہ اقدامات کئے تھے اور یہ انسانیت کی بہت بڑ ی خدمت ہے۔ اس کا مطلب گیری اور اپنی شان و شوکت بڑھانا ہرگز نہ تھا۔ دنیا میں جہاں ظلم کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں وہاں اللہ کے کرشمہ رحمت کا ظہور بھی ہوتا ہے اور انصاف کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ ذو القرنین کے پیش نظر صرف یہی مقصد نہیں تھا کہ مظلوم قوموں کو ظالم حکمرانوں کے پنجہ سے چھڑائیں بلکہ یہ اعلیٰ مقصد بھی پیش نظر تھا کہ لوگوں کو توحید کی راہ دکھا دی جائے اور آخرت کی جوابدہی کا شعور پیدا کر کے ایک صالح زندگی گزارنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔

 

ذو القرنین کے ان اقدامات سے جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے ایک بہت بڑ ی اصولی بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ اس پاکیزہ مقصد کے پیش نظر جنگی اقدامات کرنا جائز ہے۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسری مہم مشرق کی طرف تھی۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ مشرق میں آبادیوں کو عبور کرتا ہوا ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں لوگوں کے لیے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان نہیں تھا یعنی مکانات وغیرہ نہیں تھے بلکہ صحرا میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔

 

سائرس اپنی مشرقی مہم میں بلخ تک پنچا جو افغانستان میں ہے اور دوسری طرف مکران تک جو بلوچستان میں ہے اس کے آگے پہاڑ ی سلسلہ تھا۔ یہاں خانہ بدوش قبائل رہتے تھے جو تہذیب و تمدن سے بالکل نا آشنا تھے۔

 

 (ملاحظہ ہو مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی ص ۲۶۲۔ ۲۶۳) یہ وحشی قبائل ایران کی سرحد پر لوٹ مار کرتے اور فساد مچاتے رہے ہوں گے اس لیے سائرس نے ان کے علاقہ کی آخری حد تک پہنچ کر ان کی سرکوبی کی۔

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح اللہ نے ان وحشی قبائل پر بھی ذو القرنین کو غلبہ عطا کیا اور اس کی ان تدابیر اور ان وسائل سے اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر تھا جو اس نے اس مہم کو سر کرنے کے لیے اختیار کئے۔

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ذو القرنین کی تیسری مہم کا ذکر ہے قرینہ دلیل ہے کہ وہ شمال کی طرف تھی۔ وہ آگے بڑھا تو ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ تھا اور اس کے پاس ایک غیر متمدن قوم رہتی تھی جو مشکل سے کوئی بات سمجھ پاتی تھی۔ ممکن ہے غیر متمدن ہونے کے علاوہ اس کی زبان بھی مختلف رہی ہو۔

 

سائرس نے مغربی اور مشرقی ممالک کو فتح کرنے کے علاوہ اس وقت کی مشہور اور سب سے زیادہ مضبوط مملکت بابل کو بھی فتح کر لیا تھا اور اس کی سلطنت کا دائرہ بحر کیسپین (Caspian Sea) تک وسیع ہو گیا تھا اس لیے اس کی تیسری مہم شمال کی جانب رہی ہو گی تاریخ میں اگرچہ صراحت کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے لیکن " ہیروڈوٹس اور زینوفن دونوں یونانی مورخ تصریح کرتے ہیں کہ گورش نے فتح لیڈیا کے بعد ستھین قوم کے سرحدی حملوں کی روک تھام کے لیے خاص انتظامات کئے تھے (قصص القرآن مولانا حفظ الرحمن ج ۳ ص ۱۵۳) آذر بائیجان اور ارمینیہ کے درمیان ایک نہر بھی " نہر کورا" کے نام سے مشہور ہے جو معلوم ہوتا ہے گورش یعنی سائرس کی طرف منسوب ہے۔ شمال میں بحرکیسپین (Caspian Sea) اور بحر اسود (Black Sea) کے درمیان فوقاز (Caucasus) کا پہاڑ ی سلسلہ ہے جسے کوہ قاف کہتے ہیں۔ اس پہاڑ ی سلسلہ کے درمیان ایک درہ تھا۔ وہاں سائرس کو ایک قوم ملی جس کی بولی مختلف تھی۔

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قوم نے ذو القرنین پر کسی طرح واضح کر دیا کہ اس درے سے یاجوج و ماجوج نکل آتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں اس لیے آپ اس درہ کو دیوار سے پاٹ دیں تاکہ ان کی راہ مسدود ہو جائے۔ اس کام کے لیے ہم آپ کو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں۔

 

یاجوج و ماجوج (Gog & Magog) سے مراد وہ قومیں ہیں جو کوہ قاف (Caucasus) کے شمال میں آباد تھیں اور روس سے منگولیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے بارے میں ان روایات کی کوئی اصل نہیں جن میں ان کو ایک عجیب و غریب مخلوق کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ ایسی ہی قومیں تھیں جیسی دوسری انسانی قومیں البتہ وہ وحشی تھیں اور قریبی ممالک پر حملہ آور ہو کر لوٹ مار کرتی تھیں۔ قرآن نے ان کا ذکر اس طور سے کیا ہے کہ وہ زمین میں فساد مچاتے تھے۔ بائبل میں ماجو کو نوح کی نسل سے بتایا گیا ہے یعنی یافث بن نوح کی اولاد۔ ( پیدائش ۱۰:۱) اور کتاب حزقیل میں ہے :

 

" پس اے آدم زاد تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ماجوج پر اور ان پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا اور وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں۔ " (حزقیل باب ۳۹)

 

غالباً روش سے مراد روس (رشیا) مسک سے مراد ما سکو اور توبل سے مراد تو بالسک ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اس زمانہ میں روس میں وحشی قومیں رہتی تھیں اور غارت گری کیا کرتی تھیں :

 

" اور مشرق کی جانب یاجوج کی آبادیاں ہیں اور ان کے درمیان کوہ قاف حد فاصل ہے۔ " (مقدمہ ابن خلدون ص ۷۹)

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے مجھے اتنے وافر وسائل عطا کئے ہیں کہ اس دیوار کی تعمیر کے لیے جس کا مقصد مفسدوں کی راہ روکنا ہے تم سے ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خدمت میں انجام دوں گا البتہ تم اس کام میں محنت اور قوت سے شریک ہو جاؤ۔

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ دیوار مٹی اور پتھر سے نہیں بلکہ لوہے اور تانبے سے بنائی گئی تھی۔ لوہے کے تختوں کو کھڑ ا کر کے خوب دھونکا گیا اور جب وہ آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو ان پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دیا گیا۔ اس طرح یہ آہنی دیوار تیار ہو گئی۔

 

جہاں تک لوہے اور تانبے کی فراہمی کا سوال ہے کوہ قاف کے قریبی علاقہ آذر بائیجان میں لوہے کی بہ کثرت کانیں پائی جاتی ہیں اور ارمینیہ میں لوہے کے علاوہ تانبے وغیرہ کی بھی۔

 

 (ملاحظہ ہو مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآن ۳۰۷) دیوار دو پہاڑوں کے درمیان تعمیر کی گئی تھی یہ درۂ  داریال تھا جو مسدود ہو گیا۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دیوار کی تعمیر سے یاجوج و ماجوج کی غارت گری کا سلسلہ رک گیا۔ دیوار بلند تھی اس لیے وہ اس کے اوپر سے چڑ ھ کر نہیں آ سکتے تھے اور آہنی تھی اس لیے وہ اس میں شگاف بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح یہ عظیم خدمت ذو القرنین کے ہاتھوں انجام پائی۔

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تاریخی دیوار کی تعمیر کو ذو القرنین نے اپنا کارنامہ نہیں قرار دیا بلکہ ایک بندۂ مومن کی طرح کہا کہ یہ اللہ کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور قیامت پر یقین رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دیوار کتنی ہی مضبوط ہو لیکن لا زوال نہیں ہے۔ قیامت کے دن تو بہر حال اسے ریزہ ریزہ ہونا ہے۔

 

اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی بلکہ مطلب یہ تھا کہ اگر یہ طویل مت تک قائم بھی رہی تو قیامت کے دن اسے فنا ہونا ہی ہے۔

 

یہ آہنی دیوار ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی چنانچہ عباسی خلیفہ واثق باللہ نے اپنے بعض عمال کو اس کی تحقیق کے لیے بھیجا تھا اور انہوں نے یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ یہ دیوار لوہے کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے جس میں پگھلا ہوا تانبا شامل کیا گیا ہے اور اس کا آہنی دروازہ مقفل ہے۔ " (تفسیر کبیر ج ۲۱ ص ۱۷۰)

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ذو القرنین کا بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ " میرے رب کا وعدہ بر حق ہے " اس وعدۂ بر حق کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔

 

قیامت کا جب آغاز ہو گا تو لوگ گھبراہٹ کی وجہ سے نکل پڑیں گے۔ انسانوں کا ایک سیلاب ہو گا جو امڈ پڑ ے گا۔ لوگ بے تحاشا بھاگ رہے ہوں گے اور اس بھاگ دوڑ میں ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرائیں گے۔

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانوں کے باہم ٹکرا جانے کا واقعہ پہلے صور کے موقع پر پیش آئے گا۔ اس حادثہ کے نتیجہ میں سب انسان مر جائیں گے۔ اس کے بعد جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب انسان خواہ وہ کسی زمانہ میں اور کسی جگہ مرے ہوں دوبارہ زندہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے حضور پیشی کے لیے جمع کرے گا اس طرح پوری نوع انسانی حشر میں جمع ہو گی۔

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ جہنم کا انکار کرتے رہے ہیں اور اس کا مذاق اڑ تے رہے ہیں قیامت کے دن ان کے سامنے جہنم پیش کر دی جائے گی کہ لو اب اپنے سر کی آنکھوں سے جہنم کو دیکھ لو۔

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو ہوش میں لانے کے لیے جو نصیحت نازل کی گئی تھی اس سے انہوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور اس کو سننے کے لیے بھی وہ آمادہ نہ تھے۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت کی قوتیں اس لیے عطا کی ہیں کہ وہ اس کی نشانیوں کو دیکھے اور اس کی نصیحت کو سنے مگر جب وہ اس مقصد کے لیے ان قوتوں کا استعمال نہیں کرتا تو وہ معطل ہو کر رہ جاتی ہیں پھر نہ اسے خدا پرستی کی کوئی شان دکھائی دیتی ہے اور نہ وہ نصیحت سننے کا روادار ہوتا ہے۔

 

کافروں کی اگر نفسیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ وہ کس طرح گمراہی پر اپنے کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں قوتِ فیصلہ عطا کی ہے وہاں اس کے اندر خواہشات بھی رکھی ہیں تاکہ اس کا امتحان ہو۔ جب انسان خواہشات کو قابو میں رکھنے کے بجائے ان سے مغلوب ہو جاتا ہے تو وہ غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے اور کفر کی راہ دراصل خواہشات کے غلبہ ہی کے نتیجہ میں اختیار کرتا ہے اور جب وہ خواہشات سے مغلوب ہو جاتا ہے تو ان کے پردے اس کی عقل پر پڑ جاتے ہیں اور جب عقل پر خواہشات کے پردے پڑ جاتے ہیں تو سماعت و بصارت کی قوتیں جو عقل کو صحیح علم عطا کرنے کا ذریعہ ہیں تاکہ عقل علم کی روشنی میں انسان کی رہنمائی کرے معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور خواہشات کے یہ پردے جو عقل پر پڑ جاتے ہیں در حقیقت جہالت کے پردے ہیں۔

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں شرک اور انکارِ آخرت کے تعلق سے تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تنبیہ ہے ان لوگوں کو جو اللہ کو اپنا واحد کارساز ماننے کے بجائے اس کے بندوں کو کارساز مانتے ہیں۔ ان کے بارے میں وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر قیامت برپا ہوہی گئی تو یہ فرشتے جن کو ہم " واسطہ اور وسیلہ" بنائے ہوئے ہیں اللہ کے حضور ہماری نجات کے لیے سفارش کر دیں گے۔ ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ تمہاری محض خام خیالی ہے۔ فرشتے یا ہمارے دوسرے نیک بندے تمہیں کیا بچا سکیں گے جبکہ ہم نے کافروں کی میزبانی کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔

 

واضح رہے کہ آدمی اگر آخرت کا قائل بھی ہو تو اللہ کے نیک بندوں کو کارساز ماننے کا عقیدہ وہ گمراہی ہے جو خدا کے حضور جوابدہی کے احساس کو ختم کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آدمی عمل کی جگہ فلاں اور فلاں کی کارسازی پر اعتماد کرنے لگتا ہے اس طرح آخرت کا عقیدہ بالکل معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا کار ساز بنا ا ہے چنانچہ " کفارہ" کا عقیدہ اس کا واضح ثبوت ہے اور اس عقیدہ کے نتیجہ میں آخرت کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو کر رہ گیا ہے۔

 

مسلمانوں میں بھی بگڑ ے ہوئے عقیدہ کے لوگ موجود ہیں۔ کوئی حضرت علی اور حضرت حسین کو کار ساز بنائے ہوئے ہے تو کوئی "پیران پیر" کو اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ فکرِ آخرت سے وہ بے پروا ہو گئی ہیں۔

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے جن کی ساری دوڑ دھوپ اپنی دنیوی زندگی کو " شاندار" بنانے کے لیے ہے۔ مقصد کا صحیح تعین نہ کر کے انہوں نے اپنی زندگیوں کو بالکل غلط رخ پر ڈال دیا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ وہ بڑ ے اچھے کام کر رہے ہیں۔

 

آج بھی انسانی سوسائٹی کا بہت بڑ ا حصہ دنیا ہی کو مقصد حیات بنائے ہوئے ہے۔ وہ اپنی انفرادی زندگی میں مفاد دنیا ہی کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اسی کو غایت بناتی ہیں۔ اگر وہ قوم کی خدمت کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان کی دنیا بنے " وہ تعلیمی سرگرمیاں دکھاتے ہیں تو اس لیے کہ قوم کو علوم دنیا سے مالا مال کر دیں " وہ کوئی معاشی پروگرام بناتے ہیں تو اس لیے کہ لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔ غرضیکہ ان کے سارے کام دنیوی اور مادی ترقی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس سے بلند کوئی مقصد ان کے سامنے نہیں ہوتا کہ وہ تعمیر انسانیت کا کام کریں۔ وہ اپنی ان خدمات کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کو اپنا نصب العین بنانے والے نہ خدا کی آیتوں کو مانتے ہیں اور نہ اس کے حضور پیشی کا یقین رکھتے ہیں اس لیے ان کے تمام اعمال اور ان کے تمام کارنامے اکارت جانے والے ہیں۔ آخرت کی میزان میں وہ بالکل بے وزن ہوں گے۔ جب انہوں نے دنیا ہی کے لیے سب کچھ کیا تھا اور اس کا پھل بھی انہیں دنیا ہی میں مل گیا تھا تو آخرت میں اس کا اجر انہیں کیوں ملے۔

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردوس جنت ہی کا دوسرا نام ہے اور باغوں کو اس کی طرف منسوب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فردوس کا لفظ یہاں اس وسیع جنت کے لیے استعمال ہوا ہے جس میں بہت سے باغ ہوں گے۔

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت میں رہ کر وہ اکتائیں گے نہیں کہ کسی اور جگہ منتقل ہونا چاہیں بلکہ وہ پورے سکون و اطمینان اور مسرت و شادمانی کے ساتھ جنت میں رہیں گے اور ہمیشہ وہیں رہنا چاہیں گے۔

 

قرآن و سنت کی تصریحات سے جنت کا جو تصور قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کی طرح ہے اور ان میں درجوں کی بلندی ایسی ہے جیسے تارے جو نہایت بلندی پر نظر آتے ہیں۔ گویا جنت بجائے خود ایک وسیع عالم ہے اور اہل ایمان کی کوئی آرزو اور طلب ایسی نہ ہو گی جو وہاں پوری نہ ہو۔ اس لیے وہاں سے کہیں اور جانے یا منتقل ہونے کی وہ کبھی خواہش نہ کریں گے۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس سورہ میں اللہ کی قدرت کے جن عجائبات اور اس کی حکمت کے جن کرشموں کا ذکر ہوا ہے وہ کلمات الٰہی میں سے چند ایک باتیں ہیں جو غور و فکر اور سبق آموزی کے لیے پیش کر دی گئی ہیں ورنہ اس کی باتیں اتنی ہیں کہ ضبط تحریر میں لانے کے لیے سمندروں کے بقدر روشنائی بھی کفایت نہ کرے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ اگر ایک ذرہ کی خصوصیات پر ایک مقالہ لکھا جا سکتا ہے تو اس کائنات پر لکھنے کے لیے کتنے دفتر درکار ہیں ؟ اس بات سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے وہ ہے اللہ کی عظمت، اس کے علم کی وسعت اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشموں کا بے انتہا ہونا۔

 

اللہ کی عظمت کے اس تصور سے توحید کی راہ بھی روشن ہوتی ہے اور آخرت کا یقین بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری طرح انسان ہی ہوں ، البتہ جو امتیاز مجھے حاصل ہے وہ وحی کا ہے۔ وحی الٰہی مجھ پر آتی ہے تم پر نہیں آتی اور وحی الٰہی ہی کی وجہ سے میں منصب رسالت پر مامور ہو گیا ہوں۔

 

قرآن کی اس صراحت کے باوجود مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بشر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ تاویلات اور بے اصل روایتوں کا سہارا لے کر آپ کو فوق البشر (انسان سے بڑ ھ کر) ثابت کر دکھانا چاہتا ہے۔ وہ اس بات میں عار محسوس کرتا ہے کہ آپ کو بشر کہا جائے حالانکہ اسی سے آپ کی ا سکا اظہار ہوتا ہے کہ ایک بشر کو نبوت و رسالت کا وہ اشرف مقام حاصل ہو گیا جو دوسرے انسانوں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔

 

نصاریٰ نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت میں غلو کیا تو انہیں نعوذ  باللہ خدا کا بیٹا بنا دیا۔ معلوم ہوا کہ رسول کی شخصیت میں غلو کرنے سے گمراہی کی راہیں کھلتی ہیں۔

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے الٰہ واحد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی اقتدار رکھنے والی ہستی (خدا) اللہ ہی ہے اور معبود حقیقی ( مستحق عبادت) بھی وہی ہے اس لیے عبادت اسی کا حق ہے اور جس طرح اللہ کے ساتھ اور خداؤں کا قائل ہونا شرک ہے اسی طرح اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرنا بھی شرک ہے۔ پہلا شرک عقیدہ کا ہے اور وسرا شرک عمل کا۔ اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنے عقیدہ کو بھی شرک سے پاک رکھے اور عمل کو بھی۔

 

عبادت میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں ان کی صراحت قرآن نے موقع موقع سے کر دی ہے مثلاً حاجت روائی کے لیے پکارنا، فریاد کرنا ، نام کی مالا جپنا، خشوع و خضوع کے ساتھ جھکنا، خائف و لرزاں ہونا، التجائیں کرنا، پناہ ڈھونڈنا، دعائیں کرنا، نذر ماننا، تقرب چاہنا، جانور کو ذبح کرتے وقت نام لینا، قربانی پیش کرنا، نعمتوں کے حاصل ہو جانے پر شکر گزار ہونا، عاجزی کرنا، امیدیں وابستہ کرنا، شدید محبت کرنا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، صدقہ و خیرات کرنا، طواف اور منا سک ادا کرنا غرضیکہ پرستش کی تمام شکلیں عبادت میں داخل ہیں اور عبادت اللہ کے لیے خاص ہے۔

 

واضح رہے کہ اللہ کی عبادت کے ساتھ اس کی اطاعت لازم و ملزوم ہے لیکن عبادت کو محض اطاعت قرار دینا عبادت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ عبادت یا پرستش کا تعلق اس مخصوص جذبہ سے ہے جو فطرت کے اندر ودیعت ہوا ہے اور اپنے ظہور کے لیے اس کا رخ رب حقیقی ہی کی طرف ہے جبکہ اطاعت ایک ذہنی فیصلہ اور اعضاء و جوارح کا عمل ہے۔ اوپر جو مثالیں پیش کی گئیں ان پر عرف عام میں بھی اور دینی اصطلاح میں بھی پرستش یا عبادت کا اطلاق ہوتا ہے نہ کہ اطاعت کا۔

 

دوسرا بڑ ا فرق عبادت و اطاعت میں یہ ہے کہ عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں جبکہ اطاعت شریعت کے دائرہ میں رہ کر انسانوں کی بھی کی جا سکتی ہے اور رسول کی اطاعت کا تو اللہ تعالیٰ نے صریح حکم دیا ہے جبکہ رسول کی عبادت نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ شرک ہے۔

***