تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الکهف

(سورۃ الكہف ۔ سورہ نمبر ۱۸ ۔ تعداد آیات ۱۱۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     سب تعریفیں اس اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اتارا اپنے بندہ خاص پر اس (عظیم الشان) کتاب کو، اور اس میں اس نے کسی طرح کی کوئی کجی (اور ٹیڑھ) نہیں رکھی،

۲۔۔۔      ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی تاکہ وہ خبردار کرے (لوگوں کو) اپنی طرف سے ہونے والے ایک بڑے ہی سخت عذاب سے ، اور تاکہ خوشخبری دے ان ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں کہ ان کے لئے ایک بہت بڑا اجر ہے ،

۳۔۔۔     جس میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا

۴۔۔۔      اور تاکہ (خاص طور پر) وہ خبردار کرے ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ اللہ کی کوئی اولاد ہے ،

۵۔۔۔      (حالانکہ) ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں ، اور نہ ہی ان کے باپ دادا کے پاس تھا، بڑی ہی بھاری بات ہے یہ جو ان لوگوں کے مونہوں سے نکلتی ہے ، یہ لوگ بالکل ہی نرا جھوٹ بک رہے ہیں ،

۶۔۔۔     تو کیا آپ (اے پیغمبر!) ان لوگوں کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ہلاک کر دیں گے ؟ اگر یہ لوگ اس کلام (معجز نظام) پر ایمان نہیں لائے ؟

۷۔۔۔      بے شک ہم نے اس سب کچھ کو جو کہ اس زمین پر موجود ہے اس کے لئے اس کی زینت کا سامان بنایا ہے ، تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ،

۸۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے وہ سب کچھ جو کہ اس (زمین) پر ہے (ایک دن بالکل مٹا کر) اسے ایک چٹیل میدان بنا دینا ہے ،

۹۔۔۔     کیا تم نے (اے مخاطب) یہ سمجھ رکھا ہے کہ غار اور رقیم والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے کچھ زیادہ تعجب کی چیز تھے ؟

۱۰۔۔۔      جب کہ ان چند نوجوانوں نے اس غار میں جا کر پناہ لی، اور انہوں نے دعاء کی کہ اے ہمارے رب، ہمیں نواز دے اپنی خاص رحمت سے ، اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں درستی کا سامان مہیا فرما دے ،

۱۱۔۔۔      سو ہم نے ان کے کانوں پر تھپکی دے کر ان کو اسی غار میں سلا دیا برسہا برس کے لئے ،

۱۲۔۔۔      پھر ہم نے انھیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھیں کہ ان کے دونوں گروہوں میں سے کون اس مدت کو زیادہ ٹھیک بتاتا ہے جو انہوں نے وہاں گزاری تھی،

۱۳۔۔۔      (اس اجمال تذکرے کے بعد اب) ہم آپ کو ان کا قصہ ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے ، اور ہم نے ان کو ہدایت میں اور ترقی بخش دی تھی،

۱۴۔۔۔      اور ہم نے اس وقت ان کے دل مضبوط کر دئیے جب کہ انہوں نے (آپس میں یا بادشاہ وقت کے سامنے ) کھڑے ہو کر اعلان کر دیا، کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم اس کے سوا اور کسی بھی معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے ، ورنہ ہم یقیناً ایک بڑی ہی بے جا بات کا ارتکاب کریں گے ،

۱۵۔۔۔      یہ جو ہماری قوم ہے انہوں نے اس (وحدہٗ لا شریک) کے سوا طرح طرح کے معبود بنا رکھے ہیں ، یہ لوگ کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی واضح دلیل، سو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے ؟

۱۶۔۔۔      اور اب جب کہ تم الگ ہو گئے ہو ان سے بھی، اور ان کے ان (باطل) معبودوں سے بھی، جن کو یہ لوگ پوجتے (اور پکارتے ) ہیں اللہ کے سوا، تو اب تم (سیدھے ) چل کر پناہ لے لو فلاں غار میں ، تمہارا رب پھیلا دے گا تم پر اپنی رحمت (کی چادر) اور مہیا فرما دے گا تمہارے معاملے میں آسانی (اور کامیابی) کا سامان،

۱۷۔۔۔      اور تم (اگر انہیں غار میں دیکھتے تو) سورج کو دیکھتے کہ جب وہ نکلتا ہے تو کنی کترا جاتا ہے ان کے غار سے داہنی طرف کو اور جب ڈوبتا ہے تو ان کے بائیں جانب سے کنی کتراتا ہوا گزر جاتا ہے ، جب کہ وہ اس غار کے اندر ایک کھلی جگہ میں پڑے تھے ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، جسے اللہ ہدایت دے وہی ہے ہدایت پانے والا، اور جسے وہ گمراہ کر دے ، تو تم اس کے لئے نہیں پا سکو گے کوئی حمایتی راہ دکھانے والا،

۱۸۔۔۔      اور تم (اگر دیکھتے تو) ان کو جاگتا ہوا خیال کرتے ، حالانکہ وہ سوئے پڑے تھے ، ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے ، اور ان کا کتا غار کے دھانے پر اپنے بازو پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے ، اور تم پر ان کی ایک دہشت چھا جاتی،

۱۹۔۔۔      اور (جس عجیب طریقے سے ہم نے انہیں سلا دیا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا، تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں ، (چنانچہ) ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تم کتنی دیر اس حال میں رہے ہو؟ تو دوسروں نے جواب دیا دن بھر، یا اس سے بھی کچھ کم ہی رہے ہوں گے ، پھر انہوں نے کہا (اس بحث سے کیا فائدہ؟) تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنا عرصہ رہے ہو۔ پس اب تم اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو تاکہ وہ (وہاں جا کر سب سے پہلے تو یہ) دیکھے کہ سب سے پاکیزہ (اور ستھرا) کھانا کہاں ملتا ہے ، پھر وہ وہاں سے تمہارے کھانے کو کچھ لے آئے ، اور وہ بڑی خوش اسلوبی سے کام لے کہ تمہارے بارے میں کسی کو خبر تک نہ ہونے پائے ،

۲۰۔۔۔      کیونکہ اگر کہیں ان لوگوں نے تم پر قابو پا لیا وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے ، یا پھر وہ تم کو اپنے دین میں لوٹا لیں گے ، اور اس صورت میں تم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکو گے ،

۲۱۔۔۔      اور (جس عجیب طریقے سے ہم نے انہیں سلایا، جگایا) اسی طرح ہم نے ان لوگوں کو ان کے حال پر مطلع کر دیا، تاکہ وہ یقین جان لیں کہ اللہ کا وعدہ واقعی سچا ہے ، اور یہ کہ قیامت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ، (اور وہ بھی ان کو سناؤ کہ) جب وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے ان کے معاملے میں ، سو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر کوئی عمارت بنوا دو، ان کا رب ان (کے معاملے ) کو خوب جانتا ہے ، (بالآخر) ان لوگوں نے جو ان کے معاملے پر غالب تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان پر ایک مسجد بنائیں گے ،

۲۲۔۔۔     اب کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے ، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ دوسرے کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب بن دیکھے تیر پھینک رہے ہیں ، اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے آٹھواں ان کا کتا تھا، (ان سے ) کہو کہ میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے ، (لوگوں میں سے ) ان کا صحیح حال کوئی نہیں جانتا مگر بہت تھوڑے ، پس تم ان کے بارے میں ان (اہل کتاب وغیرہ) میں سے کسی سے بھی کوئی بحث مت کرو مگر سرسری طور پر، اور ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے بھی کچھ مت پوچھو،

۲۳۔۔۔     اور کسی بھی چیز کے بارے میں یوں مت کہو کہ میں اسے کل کر دوں گا

۲۴۔۔۔      مگر یہ کہ اللہ چاہے ، اور جب بھول جاؤ تو (یاد آنے پر) اپنے رب کا ذکر کر لیا کرو، اور یوں کہو کہ امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ رشد کے قریب تر بات کی راہنمائی سے نوازے گا،

۲۵۔۔۔      اور وہ لوگ اپنی غار میں رہے تین سو برس، اور نو برس مزید برآں ،

۲۶۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے ، اسی کے لئے ہے غیب آسمانوں اور زمین کا کیا ہی خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے وہ (اپنی مخلوق کے احوال کو) ان کے لئے اس کے سوا نہ کوئی حمایتی (و کارساز) ہے اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں شریک کرتا ہے کسی کو،

۲۷۔۔۔      اور پڑھتے (اور سناتے ) جاؤ (اے پیغمبر!) اس وحی کو جو بھیجی گئی ہے آپ کی طرف، آپ کے رب کی جانب سے ، کوئی نہیں جو بدل سکے اس کے فرمودات کو، اور (اگر آپ نے کسی کی خاطر اس میں کوئی کمی و بیشی کر دی تو) آپ اس کے سوا ہرگز کوئی پناہ گاہ نہیں پا سکو گے ،

۲۸۔۔۔      اور روکے رکھو اپنے آپ کو ان (بندگان صدق و صفا) کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام، اس کی رضا چاہتے ہوئے اور ہٹنے نہ پائیں آپ کی نگاہیں ان سے دنیاوی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے ، اور کبھی کان نہ دھرنا کسی ایسے شخص کی (چکنی چپڑی) باتوں پر جس کے دل کو ہم نے غافل کر دیا ہو اپنی یادِ (دلشاد) سے ، (اس کے سواء اختیارات بد کی بناء پر)، اور وہ پیچھے لگ گیا ہو اپنی خواہشات کے ، اور اس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہو،

۲۹۔۔۔      اور (ان سے صاف) کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے ہے ، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے (ہمارا نہ کوئی نفع نہ نقصان، پر یہ واضح رہے کہ) ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ، اور اگر یہ (پیاس کے مارے ) پانی مانگیں گے تو ان کی تواضع ایک ایسے پانی سے کی جائے گی جو (بد شکل میں تو) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو گا (مگر کھولتا ہوا گرم اس قدر ہو گا کہ) بھون کر رکھ دے گا ان کے چہروں کو، کیسا برا پانی ہو گا وہ، اور کیسی بری رہائش گاہ ہو گی وہ،

۳۰۔۔۔      (اس کے برعکس) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے (ان کے لئے بڑا ہی عمدہ اجر ہے کہ) بے شک ہم کسی بھی ایسے شخص کا اجر ضائع نہیں کرتے جس نے اچھی طرح کام کیا ہو گا،

۳۱۔۔۔      ایسے (خوش نصیب) لوگوں کیلئے سدا بہار جنتیں ہوں گی ان کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں ، ان کو وہاں پر پہنائے جائیں گے کنگن سونے کے ، اور سبز رنگ کے لباس باریک اور دبیز ریشم کے ، (نہایت سکون و اطمینان سے ) تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ، یہ وہاں پر اونچی (اور عالی شان) مسندوں پر، کیا ہی خوب بدلہ ہو گا وہ، اور کیسی ہی عمدہ آرام گاہ ہو گی وہ،

۳۲۔۔۔      اور بیان کرو ان (کی عبرت پذیری) کے لئے ایک مثال، کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ دئیے تھے انگوروں کے ، اور گھیر دیا تھا ہم نے ان دونوں کو کھجور کی ایک عمدہ باڑ سے ، اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیتی (کے قابل زمین) بھی رکھ دی تھی، یہ دونوں باغ خوب پھلے پھولے ،

۳۳۔۔۔      اور پھل لانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور ہم نے ان دونوں کے درمیان ایک نہر بھی جاری کر دی تھی،

۳۴۔۔۔      اور اس کا کچھ اور بھی مال تھا تو (ایک مرتبہ ترنگ میں آ کر) وہ اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں تجھ سے مال میں بھی بہت زیادہ ہوں ، اور جتھے کے اعتبار سے بھی تجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہوں ،

۳۵۔۔۔      اور (ایک مرتبہ اسی نشے میں چور) وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اس حال میں کہ وہ (کبر و غرور سے ) خود اپنے ہی اوپر ظلم کر رہا تھا، اور اس نے (تکبر بھرے انداز میں ) کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ بھی کبھی برباد ہو جائے گا

۳۶۔۔۔      اور نہ ہی یہ ماننے کو تیار ہوں کہ قیامت قائم ہونے والی ہے ، اور اگر (بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میں (وہاں پر) اس سے بھی کہیں بڑھ کر اچھی جگہ پاؤں گا،

۳۷۔۔۔      اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے (فہمائش اور تنبیہ کے طور پر) اس سے کہا کہ کیا تو اسی ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے پیدا فرمایا مٹی سے ، پھر نطفہ سے ، پھر تجھے بنا کھڑا کیا ایک صحیح و سالم انسان کے طور پر؟

۳۸۔۔۔      (تو پھر بھی اگر کفر ہی کرتا ہے تو کیا کر باقی) رہا میں ، تو میرا رب تو بہر حال وہی اللہ ہے ، اور میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہراتا (کسی بھی حال میں )،

۳۹۔۔۔      اور ایسے کیوں نہ ہوا کہ جب تو داخل ہوا تھا اپنے باغ میں تو تو (دل و جان سے ) سے پکار اٹھتا  ماشاء اللّٰہ لا قوۃ الا باللہ اور اگر تو مجھے اپنے سے کمتر دیکھتا ہے مال اور اولاد کے اعتبار سے ،

۴۰۔۔۔      تو (یاد رکھ کہ) بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بھی کہیں بڑھ کر اچھا باغ دے دے ، اور تیرے اس باغ پر آسمان سے کوئی ایسی آفت بھیج دے کہ یہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے ،

۴۱۔۔۔      یا اس کا پانی ہی زمین میں ایسا اتر جائے کہ تو اسے کسی بھی طرح تلاش کر کے نہ لا سکے ،

۴۲۔۔۔      آخرکار گھیر لیا گیا اس کے سارے پھل کو (ایک ناگہانی آفت سے ) جس سے وہ اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا، اپنے اس خرچ پر جو اس نے اس باغ پر کیا تھا، جب کہ وہ گرا پڑتا تھا اپنی چھتریوں پر، اور وہ (مارے حسرت کے ) کہہ رہا تھا کہ اے کاش میں نے شریک نہ ٹھہرایا ہوتا اپنے رب کے ساتھ کسی کو،

۴۳۔۔۔      اور نہ کوئی جماعت ایسی تھی جو اس کی مدد کرتی اللہ کے سوا، اور نہ وہ خود بدلہ لینے کے قابل تھا،

۴۴۔۔۔     یہاں (سے واضح ہو گیا کہ کار سازی کا) سب اختیار خدائے برحق ہی کے لئے ہے ، اسی کا بخشا ہوا انعام بھی سب سے اچھا ہے ، اور اسی کا دکھایا ہوا انجام بھی سب سے بہتر،

۴۵۔۔۔      اور ان (کی عبرت) کے لئے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کر دو کہ جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا، جس سے خوب گھنی ہو کر نکلی اس کی انگوری، پھر (چندے بعد) وہ اس طرح چورا بن کر رہ گئی کہ اڑائے پھریں اس کو ہوائیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قابو رکھنے والا ہے ،

۴۶۔۔۔      مال و اولاد تو دراصل زیب و زینت ہیں اس (چند روزہ) دنیاوی زندگی کی، (اور بس) اور (سدا) باقی رہنے والی نیکیاں ہی ہیں جو تمہارے رب کے یہاں ثواب کے لحاظ سے بھی سب سے اچھی ہیں ، اور امیدیں وابستہ کرنے کے اعتبار سے بھی سب سے عمدہ،

۴۷۔۔۔      اور (یاد کرو اے لوگو، اس دن کو کہ) جس دن چلا دیں گے ہم ان (بھاری بھرکم اور فلک بوس) پہاڑوں کو، اور تم بالکل کھلا (اور برہنہ) دیکھو گے اس زمین کو، (ایک چٹیل میدان کی شکل میں ) اور اکٹھا کر لائیں گے ہم ان سب کو اس طور پر کہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ،

۴۸۔۔۔      اور پیش کر دیا جائے گا ان سب کو آپ کے رب کے حضور صف در صف (اور ان سے کہا جائے گا کہ) آخر آ گئے ناں تم لوگ ہمارے پاس، جیسا کہ ہم نے تم کو پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، مگر تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم تمہارے (لوٹنے کے ) لئے کوئی وقت ہی مقرر نہ کریں گے ،

۴۹۔۔۔      اور (ان کے سامنے ) رکھ دیا جائے گا نامہ اعمال کو، تب تم دیکھو گے مجرموں کو کہ وہ ڈر (کے مارے کانپ) رہے ہوں گے ، ان مندرجات سے جو اس کے اندر موجود ہوں گے ، اور (مارے افسوس کے ) وہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے کسی چھوٹی بات کو چھوڑا اور نہ کسی بڑی بات کو، جس کو درج نہ کیا ہو، اور وہ حاضر (و موجود) پائیں گے وہ سب کچھ جو انہوں نے (زندگی بھر) کیا ہو گا، اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا،

۵۰۔۔۔      (اور وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سجدہ کرو آدم کو، تو وہ سب کے سب (فوراً) سجدے میں گر پڑے ، بجز ابلیس کے ، وہ جنوں میں سے تھا، اس لئے اس نے سر تابی کی اپنے رب کے حکم سے ، تو کیا تم لوگ پھر بھی دوست بناتے ہو اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر؟ حالانکہ وہ تمہارے (اصلی اور پکے ) دشمن بھی ہیں ، کیا ہی برا بدل ملا ظالموں کو،

۵۱۔۔۔      میں نے تو ان کو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا، اور نہ ہی خود ان کو پیدا کرتے وقت، اور نہ ہی یہ میری شان ہے کہ میں گمراہ کرنے والوں کو دست و باز و (اور مددگار) بناؤں ،

۵۲۔۔۔      اور (کیا حال ہو گا مشرکوں کا اس دن) جس دن کہ حق تعالیٰ (ان سے فرمائے گا کہ پکارو تم لوگ میرے ان شریکوں کو جن کا تم گھمنڈ رکھتے تھے ، پھر وہ ان کو پکاریں گے ، مگر وہ ان کو اس کا کوئی جواب نہ دیں گے ، اور ہم ان کے درمیان ہلاکت (و تباہی) کا ایک ہولناک گڑھا حائل کر دیں گے ،

۵۳۔۔۔      اور مجرم لوگ آگ کو دیکھتے ہی یقین کر لیں گے کہ انہیں قطعی طور پر اس میں گرنا ہے ، اور وہ اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ،

۵۴۔۔۔      اور ہم نے لوگوں (کو سمجھانے ) کے لئے اس قرآن میں ہر عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیا ہے ، مگر انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو واقع ہوا ہے ،

۵۵۔۔۔      اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آ چکی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی چاہنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو اگلوں کے ساتھ ہو چکا ہے ، یا نمودار ہو جائے عذابِ الٰہی ان کے سامنے ،

۵۶۔۔۔      اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشخبری دینے والے ، اور خبرداری کرنے والے بنا کر، اور کافر لوگ لڑتے ہیں باطل کے (ہتھیاروں کے ) ساتھ، تاکہ وہ نیچا دکھا سکیں اس کے ذریعے حق کو، اور انہوں نے ٹھہرا رکھا ہے میری آیتوں اور ان تنبیہات کو جو ان کو کی گئیں (ٹھٹھا اور) مذاق،

۵۷۔۔۔      اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس کو نصیحت کی جائے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے ، بے شک ہم نے ایسے لوگوں کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں اس سے کہ وہ سمجھیں اس (پیغام و صداقت) کو، اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دئیے ہیں (اس سے کہ وہ اس کو سنیں )، اور اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو ایسی صورت میں وہ کبھی بھی ہدایت نہیں پا سکیں گے ،

۵۸۔۔۔      اور (تاخیر عذاب سے کہیں دھوکہ میں نہیں پڑنا کہ) تمہارا رب بڑا ہی درگزر کرنے والا، انتہائی مہربان ہے ، (ورنہ) وہ اگر ان کو ان کے کئے کرائے پر فوراً پکڑنے لگتا، تو ان کو کبھی کا عذاب دے چکا ہوتا مگر ان کے لئے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے جس سے ورے (بچنے کے لیے ) یہ کوئی پناہ گاہ نہیں پا سکیں گے ،

۵۹۔۔۔      اور یہ بستیاں جن (کے باشندوں ) کو ہم نے ہلاک کیا جب کہ انہوں نے ظلم ہی کو روا رکھا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا تھا،

۶۰۔۔۔      اور (ان کو وہ بھی سنا دو کہ) جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ میں اپنا سفر ختم نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں پہنچ جاؤں دونوں دریاؤں کے سنگم پر، یا چلتا رہوں گا برسہا برس تک،

۶۱۔۔۔      پھر جب وہ دونوں پہنچ گئے ان دونوں دریاؤں کے سنگم پر، تو وہ بھول گئے اپنی مچھلی کو، اور اس نے دریا میں ایک سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا،

۶۲۔۔۔     پھر جب وہ دونوں وہاں سے آگے چلے گئے ، تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ لاؤ ہمارا ناشتہ، ہم تو اس سفر میں بری طرح تھک گئے ہیں ،

۶۳۔۔۔      خادم نے عرض کیا (اوہو!) دیکھا آپ نے (حضرت، یہ کیا ہوا) کہ جب ہم ٹھہرے تھے اس چٹان کے پاس تو میں بھول گیا مچھلی (کے معاملہ) کو، اور شیطان نے مجھے ایسا بھلا دیا کہ میں (آپ سے ) اس کا ذکر بھی نہ کر سکا، اور (قصہ اس کا یہ ہوا کہ) وہ (زندہ ہو کر) دریا میں چلی گئی ایک عجیب سا (سرنگ نما) راستہ بناتی ہوئی،

۶۴۔۔۔      موسیٰ نے فرمایا کہ یہی تو وہ جگہ تھی جس کی ہم تلاش میں تھے ، چنانچہ وہ دونوں واپس لوٹے اپنے نقش قدم دیکھتے ہوئے

۶۵۔۔۔      آخرکار انہوں نے (وہاں پہنچ کر) ہمارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پا لیا، جس کو ہم نے اپنی ایک خاص رحمت سے نوازا تھا، اور اسے اپنے یہاں سے ایک خاص علم سے سرفراز فرمایا تھا،

۶۶۔۔۔      موسیٰ نے (وہاں پہنچ کر ان سے ) عرض کیا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس بناء پر کہ آپ مجھے بھی سکھا دیں کچھ (تکوینی) راہنمائی کے اس علم میں سے جو کہ آپ کو دیا گیا ہے ،

۶۷۔۔۔      اس نے جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکیں گے ،

۶۸۔۔۔      اور اس چیز پر بھلا آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جس کی آپ کو پوری واقفیت نہ ہو،

۶۹۔۔۔      موسیٰ نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ، اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا،

۷۰۔۔۔      اس نے کہا اچھا تو اگر آپ نے میرے ساتھ چلنا ہے تو پھر کسی بھی چیز کے بارے میں مجھ سے اس وقت تک کچھ پوچھنا نہیں ، یہاں تک کہ میں خود ہی اس کے بارے میں آپ سے کوئی ذکر نہ کروں ،

۷۱۔۔۔      چنانچہ (اس قرار داد کے بعد) وہ دونوں چل پڑے ، یہاں تک کہ وہ دونوں سوار ہو گئے ایک کشتی میں ، پھر (اس سے اترتے وقت) اس شخص نے اس میں شگاف ڈال دیا، اس پر موسیٰ نے اس سے کہا کیا آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ آپ اس کے لوگوں کو غرق کر دیں ، بلاشبہ آپ نے ایک بڑی ہی عجیب حرکت کا ارتکاب کیا ہے ،

۷۲۔۔۔     اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے ؟

۷۳۔۔۔      موسیٰ نے کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر آپ میری گرفت نہ کریں ، اور میرے معاملے میں سختی سے کام نہ لیں ،

۷۴۔۔۔      پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا، تو اس شخص نے اس کو قتل کر دیا، تو اس پر موسیٰ (غضبناک اور مشتعل ہو کر) بول اٹھے کہ کیا آپ نے ایک بے گناہ جان کو بغیر کسی جان کے بدلے کے (یونہی ناحق) قتل کر دیا؟ بلاشبہ آپ نے ایک بہت ہی برا کام کر دیا۔

۷۵۔۔۔     اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ؟

۷۶۔۔۔      موسیٰ نے کہا اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کچھ پوچھا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا کہ بلاشبہ آپ میری طرف سے معذوری تک پہنچ گئے ،

۷۷۔۔۔      پھر وہ دونوں چل دئیے یہاں تک کہ جب وہ دونوں پہنچے ایک بستی والوں کے پاس، تو ان سے کھانا مانگا، مگر انہوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا ۔ اسی اثنا میں انہوں نے اس بستی میں ایک دیوار دیکھی جو کہ گرا چاہتی تھی، تو اس (بندہ خدا) نے اس دیوار کو سیدھا کر دیا، اس پر موسیٰ پھر بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے ،

۷۸۔۔۔     اس پر اس شخص نے کہا کہ یہ جدائی کا وقت ہے میرے اور آپ کے درمیان اب میں آپ کو حقیقت بتائے دیتا ہوں ان سب چیزوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا ۔

۷۹۔۔۔      سو وہ کشتی جو تھی، اس کا معاملہ یہ تھا کہ وہ کچھ غریب لوگوں کی تھی جو (اس کے ذریعے ) اس سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ میں اسے عیب دار کر دوں ، کیونکہ ان کے آگے ایک ایسا (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا ۔

۸۰۔۔۔      رہا وہ لڑکا تو اس کا قصہ یہ تھا کہ اس کے والدین ایماندار تھے تو ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ بڑا ہو کر ان کو بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کر دے ،

۸۱۔۔۔      تو ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے میں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں بھی اس سے بہتر ہو اور محبت میں بھی اس سے کہیں بڑھ کر ہو، 

۸۲۔۔۔      رہی وہ دیوار تو اس کا معاملہ بھی یہ تھا کہ وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ مدفون تھا، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے محض اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں جوان ہو کر اپنی قوتوں کو پہنچ جائیں اور اپنا دفینہ خود نکال لیں اور یہ سب کچھ میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا، سو یہ ہے حقیقت ان سب باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا

۸۳۔۔۔      اور پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر) ذوالقرنین کے بارے میں تو ان سے کہو کہ میں تم کو سنائے دیتا ہوں اس کا کچھ حال،

۸۴۔۔۔     بلاشبہ ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور اس کو ضرورت کے مطابق ہر قسم کے ساز و سامان سے نوازا تھا

۸۵۔۔۔      تو اس نے (پہلے مغرب کی طرف) ایک مہم کا سامان کیا،

۸۶۔۔۔      یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کے مقام تک پہنچ گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ڈوب رہا ہے ایک سیاہ چشمے میں اور وہاں اسے ایک قوم ملی تو اس کے بارے میں ہم نے اس سے کہا اے ذوالقرنین، تم یہ بھی کر سکتے ہو کہ ان کو سزا دو اور یہ بھی کہ ان سے نیک سلوک کرو،

۸۷۔۔۔      اس نے عرض کیا کہ ان میں سے جس نے ظلم کیا تو اسے تو ہم ضرور سزا دیں گے پھر اس کو لوٹایا جائے گا اس کے رب کی طرف تب تو وہ ان کو اور بھی سخت سزا دے گا،

۸۸۔۔۔     اور جو کوئی ایمان لا کر نیک عمل کرے گا تو اسے بہر حال اچھا بدلہ ملے گا اور ہم بھی اس سے اپنے معاملے میں آسان اور نرم بات کہیں گے

۸۹۔۔۔     پھر اس نے ایک دوسری مہم کے لیے اور سامان کیا

۹۰۔۔۔      یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کے مقام کو پہنچ گیا تو وہاں اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے پایا جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی،

۹۱۔۔۔     یہ قصہ اسی طرح ہے کہ اس کے پاس جو کچھ بھی تھا ہمیں اس کی پوری خبر ہے

۹۲۔۔۔     پھر اس نے ایک اور مہم کا سامان کیا ۔

۹۳۔۔۔     یہاں تک کہ جب وہ پہنچ گیا دو پہاڑوں کے درمیان تو اسے کچھ ایسے لوگ ملے جو کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہ لگتے تھے

۹۴۔۔۔     (پھر شاید کسی ترجمان وغیرہ کے واسطے سے ) انہوں نے کہا اے ذوالقرنین واقعہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج اس ملک میں بڑا فساد مچاتے ہیں ۔ تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں ؟

۹۵۔۔۔      اس نے کہا مجھے میرے رب نے جو قدرت دے رکھی ہے وہ بہت ہے ، اس لیے مجھے تمہارے چندے وغیرہ کی تو ضرورت نہیں البتہ تم لوگ محنت سے میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں

۹۶۔۔۔      تم مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو، یہاں تک کہ جب اس نے پاٹ دیا ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کو، تو کہا کہ اب تم آگ دہکاؤ، یہاں تک کہ جب اسے لال انگارا کر دیا تو اس نے کہا لاؤ اب میں اس پر انڈیلتا ہوں پگھلا ہوا تانبا،

۹۷۔۔۔     سواس طرح یہ ایسی عظیم الشان دیوار تیار ہو گئی کہ یاجوج ماجوج نہ تو اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں نقب لگانا ان کے بس میں تھا ۔

۹۸۔۔۔      ذوالقرنین نے کہا یہ ایک خاص رحمت ہے میرے رب کی جانب سے ، پھر جب آ جائے گا میرے رب کے وعدے کا وقت تو وہ اس سب کو پاش پاش کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ بہر حال برحق ہے

۹۹۔۔۔      اور اس روز ہم ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ وہ سمندر کی موجوں کی طرح ایک دوسرے میں موجیں مار رہے ہوں گے اور پھونک مار دی جائے گی صور میں ، پھر اکٹھا کر لائیں گے ہم ان سب کو چن چن کر

۱۰۰۔۔۔     اور پیش کر دیں گے ہم اس روز دوزخ کو ان کافروں کے روبرو

۱۰۱۔۔۔      جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا میری یادِ دلشاد سے ، اور وہ سننے کے لیے تیار نہ تھے میری نصیحت کو ۔

۱۰۲۔۔۔     تو کیا کافر لوگ پھر بھی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز و حاجت روا بنا لیں گے ؟ بلاشبہ ہم نے تیار کر رکھا ہے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کے لیے

۱۰۳۔۔۔     ان سے کہو کہ کیا ہم تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتا دیں جو سب سے زیادہ خسارے میں ہیں اعمال کے لحاظ سے ؟

۱۰۴۔۔۔     وہ جن کی ساری کوشش اکارت چلی گئی دنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں

۱۰۵۔۔۔      یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کر دیا اپنے رب کی آیتوں کا اور اس کے حضور پیشی کا جس کے نتیجے میں اکارت چلے گئے ان کے سب عمل، پس ان کے لیے ہم قیامت کے روز قائم نہ کریں گے کسی طرح کا کوئی وزن ۔

۱۰۶۔۔۔      یہ ہے ان کی جزا جہنم، اس کفر کے سبب جو وہ کرتے رہے تھے اور اس مذاق کے عوض جو وہ میری آیتوں اور میرے رسولوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھے

۱۰۷۔۔۔     اس کے برعکس بے شک جو لوگ ایمان لائے اور وہ کام بھی نیک کرتے رہے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے وہ باغ ہوں گے

۱۰۸۔۔۔     جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے نکل کر کہیں جانے کو ان کا جی بھی نہیں چاہے گا

۱۰۹۔۔۔      کہو ان ابنائے دنیا سے کہ میرے رب کی شان یہ ہے کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر سیاہی بن جائے تو یقیناً وہ ختم ہو جائے قبل اس سے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہونے کو آئیں ، اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی ایک اور سمندر لے آئیں۔

۱۱۰۔۔۔     اور کج فہموں سے یہ بھی کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں ایک بشر اور انسان ہوں تم ہی جیسا فرق صرف یہ ہے کہ میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اس مرکزی مضمون کی کہ معبود تم سب لوگوں کا بہر حال ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی امید و آرزو رکھتا ہو اپنے رب سے ملنے کی تو اس کو چاہیے کہ وہ نیک کام کرتا رہے اور کسی بھی طور پر وہ شریک نہ ٹھہرائے اپنے رب کی عبادت و بندگی میں کسی کو ۔

تفسیر

۱.      سو اس کتاب حکیم میں کسی طرح کی کوئی کجی نہیں۔ نہ اس کی زبان و بیان کے اعتبار سے کہ اس کی زبان عربی مبین ہے۔ اور نہ اس کی ہدایت و راہنمائی کے اعتبار سے، کہ اس کی ہدایت و راہنمائی اس صراط مستقیم کی طرف سے جس کے مستقیم ہونے کے دلائل عقل و فطرت اور آفاق وانفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔ اور پھر قرآن حکیم نے ان کو اتنے گوناگوں طریقوں سے بیان کیا ہے کہ عقل سلیم رکھنے والا کوئی شخص ان کے فہم و ادراک سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ ان سے محروم صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو عقل سے صحیح طور پر کام نہیں لیتے۔ اور قرآنِ حکیم کی اس صفت و شان کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے اِنَّ ہٰذَا الْقُرانَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ الایۃ یعنی بلاشبہ یہ قرآن اس راستے کی راہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھا اور درست ہے سو اس نعمت عظمیٰ کا حق یہ تھا اور یہ ہے کہ دل وجان سے اس کی قدر کی جائے۔ اور اپنی زندگی کو اس کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق ڈھالا جائے، اور یہی طریقہ ہے سعادت دارین سے سرفرازی کا و باللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّن الاحوال، وفی کل موطنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ۔

۲.      سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کے نازل فرمائے جانے کے مقصد کی وضاحت فرما دی گئی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب حکیم کو اس لئے نازل فرمایا کہ اس کے ذریعے وہ عذاب سے خبردار کر دے، تاکہ لوگ اس سے بچنے کی فکر اور اس کا سامان کر سکیں، قبل اس سے کہ عمر رواں کی فرصت محدود ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور ان کو ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذُباللہ العظیم اور دوسری طرف وہ اس سے ان اہل ایمان کو جو اس کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق نیک عمل کریں گے اس بات کو خوشخبری سے نوازے کہ ان کے لئے ایک بڑا ہی عمدہ اجر ہے، یعنی جنت اور اس کی سدا بہار نعمتیں، جن میں ان خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ سو اجر حسن سے یہاں پر جنت کو مراد لیا گیا ہے اور کسی شیٔ کو بول کر اس سے اس کے اس کے نتیجہ و مرہ کو مراد لینا عربیت کا ایک مشہور و عروف اسلوب ہے، جس کی مثالیں قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات پر بھی موجود ہیں۔

۵.      سو اس سے عام کے بعد خاص کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو اس لئے نازل فرمایا ہے کہ وہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار فرمائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اولاد ٹھہرائی ہے حالانکہ ان کے پاس اس کے لئے کوئی علم نہیں۔ نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی، اور ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہ ہے نہ ہو سکتی ہے، کہ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور ان سے اعلیٰ و الا ہے، کہ اس کی صفت وشان لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ کی صفت و ان ہے کہ نہ اس کی کوئی اولاد، اور نہ وہ خود کسی کی اولاد تو پھر اس کے لئے کسی دلیل وسند، اور علم و رہان کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ مگر ظالموں نے اس جرم کا ارتکاب بہر حال کیا۔ چنانچہ یہود نے حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا مانا، اور نصاریٰ نے حضرت مسیح کو اور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا۔ سو یہ بڑی ہی سنگین بات ہے جو ان لوگوں کے مونہوں سے نکل رہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت و بہتان اور اس کی غیرت کو چیلنج ہے، سبحانہ و عالیٰ، سو یہ نرا جھوٹ ہے۔ اور اس کا بھگتان ان کو بہر حال بھگتنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۷.      سو اس سے منکرین و مکذبین کے اعراض و انکار کے اصل باعث کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ اور اس اعراض و انکار کے نتیجے و انجام کو بھی، چنانچہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اور اس امتحان و ابتلاء کے تقاضوں کی بناء پر اس دنیائے دُوں کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پر فریب غازہ ڈال دیا گیا ہے، سو اس وجہ سے اس کے مال و اولاد میں، اس کے کھیتوں کھلیانوں میں، اس کے باغوں اور سبزہ زاروں میں، اس کی کاروں اور کوٹھیوں میں، اس کے محلوں اور ایوانوں میں اور اس کی صدارتوں اور وزارتوں میں بڑی کشش اور دلفریبی ہے اس کی لذتیں نقد اور عاجل ہیں اور اس کی تلخیاں غیب میں اور پس پردہ ہیں، جبکہ آخرت کی تمام کامرانیاں غیب میں ہیں۔ اور اس کے طالبوں کے لئے اس دنیا میں طرح طرح کی مشکلیں اور مصیبتیں ہیں۔ سو ایسے میں یہ امتحان اور آزمائش ہے کہ کون دنیا کی اس فتنہ سامانی سے بچ کر آخرت کو ترجیح دیتا ہے، اور کون اسی میں الجھ اور پھنس کر اپنی آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ والعیاذُ باللہ، اور اس کے ساتھ ہی اس کے انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم اس زیب وزینت کو ختم کر کے اس کو ایک بے آب وگیاہ چٹیل میدان بنا کر چھوڑیں گے۔ تب اس اس کی اصل حقیقت سب کے سامنے پوری طرح واضح ہو جائیگی۔ اس وقت ابناء دنیا رہ رہ کر پچھتائیں گے، مگر اس وقت ان کا وہ پچھتانا بےسود ولاحاصل ہو گا، والعیاذ باللہ جل وعلا،

۱۲.    یعنی غار میں پناہ دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر کئی سالوں کے لئے نہایت آرام وسکون کی نیند طاری کر دی۔ ضرب علی الآذان کے الفاظ کانوں پر تھکپنے اور پیار کے ساتھ سلا دینے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں، اور یہ اس مفہوم کے لئے نہایت بلیغ استعارہ ہے سو ان کا اس غار کے اندر اس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ سو جانا، اور اس طور پر محفوظ رہنا، سب اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت ہی کی بناء پر تھا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس طرح ایک مدت تک ان کو سلائے رکھنے کے بعد پھر ہم نے ان کو اٹھایا، تاکہ اس طرح ہم دیکھ سکیں کہ ان کے بارے میں جھگڑنے والے دونوں گروں میں سے کس نے اس مدت کو صحیح طور پر یاد رکھا جو انہوں نے وہاں گزاری۔ اور اس طرح اس سے واضح ہو جائے کہ وہ دونوں اس میں ناکام رہے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس مدت کے بارے میں صحیح علم نہیں تھا، اور اسی سے ان کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اسی طرح برزخی زندگی کی مدت کے بارے میں بھی کسی کو احساس نہیں ہو گا۔ بلکہ ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ وہ ابھی سویا تھا اور ابھی اٹھ گیا ہے۔

۱۳.    سو اس سے اجمال کے بعد ان کے قصے کی تفصیل بیان فرمائی جا رہی ہے، اور ساتھ ہی بالحق کی قید سے اس کی تصریح فرما دی گئی کہ یہ کوئی ایسی داستان سرائی نہیں۔ جو محض قصہ گوئی کے طور پر سنائی جا رہی ہو اور عام قصوں کی طرح رطب ویابس سب پر محیط و مشتمل ہو، سو ایسے نہیں، بلکہ ان کے قصے کو اس طور پر سنایا جا رہا ہے کہ یہ ان تمام خود ساختہ اور من گھڑت روایات سے خالی اور پاک ہے جو ان حضرات کے عقیدت مندوں اور نام لیواؤں نے ان کے بارے میں مشہور کر رکھی تھیں۔ اور اس کو سنانا بھی محض قصہ گوئی اور داستان سرائی کے طور پر نہیں۔ بلکہ اس سے لوگوں کو اس حکمت اور نصیحت سے آگاہ کرنا مقصود ہے جو اس قصے کے اندر مضمر ہے، سو اس میں فِتْیَۃٌ کے لفظ سے نوجوانوں کے لئے ایک عمدہ اور قابل تقلید نمونہ پیش فرمایا گیا ہے، خاص کر ان نوجوانوں کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے تھے۔ کہ ایسے تمام نوجوان اصحاب کہف کے ان بندگان صدق و صفا سے درس عبرت لیں، اور ان کا نمونہ اپنے سامنے رکھیں، اور وہ اس بات کو یاد رکھیں کہ جو لوگ اس طرح صدق و صفا کے ساتھ راہ حق پر چل نکلتے ہیں اور وہ دعوت حق کی خاطر اپنی قوم کی دشمنی کی پرواہ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ان کی اسی طرح نصرت و امداد فرماتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۱۶.    یعنی ان سچے اہل ایمان نے جب دیکھا کہ ان کی قوم انکی دشمن ہو گئی ہے۔ اور وہ ان کی دعوت حق کو سننے ماننے کے لئے تیار نہیں، تو انہوں نے آپس میں کہا کہ جب تم ان مشرک لوگوں اور ان کے ان خود ساختہ معبودوں سے الگ ہو گئے ہو، تو اب ان کے اس مشرکانہ ماحول سے بھی علیحدہ اور کنارہ کش ہو جاؤ، سو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی وحی کے ذریعے یہ بشارت دی کہ جب تم نے اللہ کے لئے اور اس کی رضاء و خوشنودی کی خاطر ان مشرکوں اور ان کے ان خود ساختہ معبودوں سے علیحدگی اور کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا تو اب تم اپنی منتخب کردہ فلاں غار میں پناہ لے لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کی چادر پھیلا دے گا۔ اور تمہاری ضروریات کا سامان مہیا فرما دے گا سو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی سنت ودستوریہ ہے کہ جو لوگ ہمت کر کے اس کی راہ پر چلنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو وہ ان کو انکی منازل سے ہمکنار کرنے کے لئے زادِ راہ خود مہیا فرما دیتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ۔ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہ، مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ الایۃ (الطلاق۔۲۔۳) اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین

۱۷.    سو اوپر کی آیات کریمہ میں ان لوگوں کے لئے ان کی منتخب کردہ غار کے اندر جن ضروریات اور مرافق کے مہیا کرنے کا وعدہ فرمایا گیا تھا۔ یہاں پر اس آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے سو جب سورج ان پر طلوع کرتا تو اس غار سے دائیں طرف کو بچتا ہوا نکلتا اور جب ڈوبتا تو ان کے بائیں کو کترانا ہوا گزرتا۔ اور وہ اس غار کے درمیان آرام کر رہے ہوتے۔ سو اس غار کا دھانا اس طرح واقع ہوا تھا کہ اس کے اندر ہوا روشنی اور حرارت جو زندگی کی ضروریات میں سے ہیں وہ تو ان کو باآسانی پہنچتی تھیں، لیکن سورج کی تمازت اور گرمی جو کہ نقصان پہنچانے والی تھی، وہ ان تک راہ نہیں پاتی تھی، سو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عنایت اور اس کی حکمت کی نشانیوں میں سے ہے مگر ایسی نشانیوں سے ہدایت کی دولت انہی کو ملتی ہے جن کے لئے توفیق و عنایت خداوندی شامل حال ہوتی ہے ان کے صدقِ باطن اور اخلاصِ نیت کی بناء پر، لیکن جو لوگ اپنے خبث باطن اور فسادِ نیت کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے محروم ہوتے ہیں ان کے لئے کوئی کار ساز و راہنما نہیں ہو سکتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۰.    یعنی جس طرح ان کی نیند کے بارے میں ہم نے اپنی کار سازی کی خاص شان دکھائی اسی طرح ہم نے ان کی بیداری کے بارے میں بھی اپنی کار سازی کی یہ خاص شان دکھائی کہ ان کو نیند سے بیدار کیا، تاکہ وہ آپس میں اس بارہ سوال جواب کریں کہ وہ کتنا عرصہ اس حال میں رہے اور بالآخر ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اس کا اندازہ کرنے سے وہ بالکل قاصر ہیں، اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم کتنے دن اس حالت میں رہے ہو؟ تو اس کے جواب میں اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ ہم ایک دن یا اس کا بھی کچھ حصہ اس طرح رہے ہونگے۔ پھر ان سب نے کہا کہ تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنا عرصہ اس حال میں رہے ہو، پس اس بےسود بحث میں پڑنے کے بجائے اب تم اپنے میں سے ایک شخص کو یہ رقم دے کر شہر بھیجو، تاکہ وہ دیکھے کہ وہاں پر پاکیزہ کھانا کہاں ملتا ہے؟ تو اس سے وہ تمہارے لئے کھانا لے آئے۔ اور وہ پوری احتیاط اور خوش اسلوبی سے کام لے تاکہ تمہارے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ ہونے پائے۔ کیونکہ ان لوگوں کو اگر تمہارے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ تم کو سنگسار کر دیں گے۔ یا تم کو دوبارہ اپنے دین میں لوٹا دیں گے۔ اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مُردوں کو دنیا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ یہ حضرات جو مردہ بھی نہیں تھے، بلکہ محض ایک طویل نیند میں رہے تھے، ان کو دنیا کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ بلکہ خود اپنے بارے میں بھی کچھ خبر نہیں تھی کہ ان کو اس حالت میں پڑے تین سو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف ایک دن یا اس کا بھی کچھ حصہ اس حال میں رہے ہیں ادھر وہاں کی اس ظالم حکومت کو ختم ہوئے بھی زمانہ گزر گیا تھا جس کے خوف سے انہوں نے جا کر اس غار میں پناہ لی تھی، اور یہ اپنے اسی سابقہ خوف کی بناء پر کہتے ہیں کہ اگر ان کو تمہارا پتہ چل گیا تو وہ تم کو سنگسار کر دیں گے، یا تم کو اپنے دین میں لوٹا دیں گے۔ اور اگر ایسے ہو گیا تو پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر گمراہ ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مردے ان کو پکارنے والوں کی دعاء و پکار کو سننے اور انکی حاجت روائی کرتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۲۱.    اس آیت کریمہ میں کَذَالِکَ کا جو لفظ آیا ہے اس کا عطف اوپر والے کذالک پر ہے، یعنی جس طرح ہم نے ان لوگوں کے بارہ میں اپنی وہ شان دکھائی اسی طرح ہم نے عام لوگوں کو بھی ان کے حال سے باخبر و آگاہ کر دیا۔ تاکہ اس سے وہ جان سکیں کہ اللہ کا وعدہ قطعی طور پر سچا ہے۔ اور قیامت کے بارے میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور یہ اس لئے کہ قیامت کے بارے میں منکرین کو سب سے بڑا شبہ یہی تھا کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کو بہت بعید سمجھتے تھے۔ سو اصحاب کہف کے اس واقعے سے ان کو ایک تازہ شہادت مل گئی کہ وہ اپنے رب کے حکم سے ایک طویل مدت کی نیند کے بعد اٹھ بیٹھے۔ اور اسی بناء پر ان کی زندگی لوگوں کی نگاہوں میں ایک اعجوبہ بن گئی۔ اور وہ لوگوں کے لئے مرکز عقیدت اور مرجع خلائق بن گئے۔

 سو اس ارشادِ رّبانی سے اس انقلاب احوال کی طرف اشارہ فرمایا گیا جو ان بندگان صدق و صفا کی قربانیوں کے نتیجے میں ان کے اس ملک میں واقع ہوا تھا کہ کہاں ایک وقت وہ تھا کہ جب ان کو اعلان حق کے نتیجے میں سنگسار کر دیئے جانے کا ڈر اور خوف لاحق تھا۔ اور کہاں اب یہ صورت تھی کہ ان کی وفات کے بعد لوگوں کے مختلف گروہ ان کے بارے میں باہم جھگڑ رہے تھے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جن لوگوں کو اس وقت اس ملک میں غلبہ اور کنٹرول حاصل تھا، وہ بڑے شوق و رغبت، اور زور و شور اور تاکید کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ہم ضرور بالضرور ان پر ایک مسجد تعمیر کریں گے، اور اس ظالم دنیا نے اہل حق کے ساتھ ہمیشہ یہی معاملہ کیا کہ ان کی زندگیوں میں تو ان پر پتھر برسائے، مگر ان کی موت کے بعد ان کے نام کے بتوں، اور ان کے آثار و نشانات تک کی پوجا کی۔ سو ان حضرات کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کی یادگار کے طور پر ان کے غار پر ایک عمارت بنائی جائے۔ لیکن دوسرے لوگوں نے جن کی اکثریت بھی تھی، اور ان کو زور و غلبہ بھی حاصل تھا انہوں نے کہا کہ نہیں ہم انکی یادگار میں ایک مسجد بنائیں گے۔ اور اسی گروہ کی بات غالب رہی۔ سو اس سے اس انقلاب حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جو ان حضرات کی قربانیوں کی برکت، اور انہی کے صلے میں اس ملک میں بپا ہوا تھا، کہ ایک وقت تو وہ تھا کہ جب ان کو اعلان توحید کے نتیجے اور اس کی پاداش میں ملک بدر ہو کر جا کر غار میں پناہ لینی پڑی تھی۔ اور کہاں آج یہ وقت تھا کہ توحید کے ان علمبرداروں اور خدا پرستوں کو اس ملک میں اکثریت اور غلبہ حاصل تھا۔ اور جو لوگ موحد اور خدا پرست نہیں تھے ان کے اندر بھی اتنی تبدیلی آ گئی تھی اور ان میں اتنی روا داری پیدا ہو گئی تھی، کہ وہ بھی اصحاب کہف کے ان بندگان صدق و صفا، اور توحید خداوندی کے ان علمبرداروں کی یادگار قائم کرنے کی سعادت کے حصول کے متمنی وخواہشمند تھے سو جن لوگوں نے ان کی یادگار میں مسجد بنانے کی رائے پیش کی تھی انہی کی رائے غالب رہی۔ یہاں پر یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہود و نصاریٰ کے معابد اصل میں مسجد ہی تھی۔ ان میں خرابی تو بعد میں اس وقت پیدا ہوئی جبکہ ان لوگوں نے مشرکانہ عقائد اختیار کئے۔ اور اپنے معابد کو شرک کی نجاست سے آلودہ کیا۔ چنانچہ خود قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر یہود و نصاریٰ کے صوامع و بیع کو مساجد ہی کے ذیل میں اور انہی کے زمرے میں ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جیسا کہ سورہ حج کی آیت نمبر۴٠ میں ذکر فرمایا گیا ہے والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال،

۲۶.    سو اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جس طرح اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں ان لوگوں کی باتیں بالکل اٹکل پچو اور بے بنیاد ہیں، اسی طرح غار میں ان کے قیام کی مدت کے بارے میں بھی ان کے اندازے بالکل غلط اور بے بنیاد ہیں۔ سو ارشاد سے فرمایا گیا کہ ان کو بتا دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ لوگ کتنی مدت اس غار میں رہے، آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کے جملہ غیبوں اور اس کے تمام رازوں کا علم اسی وحدہٗ لاشریک کے پاس ہے۔ دوسروں کو صرف اتنا ہی علم حاصل ہو سکتا ہے جو وہ بتائے اور بس، اس کے سوا باقی سب کچھ رطب و یابس کا مجموعہ ہے، اَبْصِرْبِہٖ وَاَسْمِعْ کے صیغے مبالغہ اور غایت درجہ تعریف کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی کیا کہنے اس کے دیکھنے، اور اس کے سننے کے وہ نہایت ہی خوب دیکھنے اور سننے والا ہے، آسمان اور زمین کی اس پوری کائنات کی کوئی بھی چیز اس کے احاطہ سمع و بصر سے باہر نہیں ہو سکتی۔ سو جب اس علیم و خبیر نے ایک سوال کا جواب دے دیا تو اب اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کون ایسا ہو سکتا ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے؟ اور جب بات اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم تک پہنچ گئی، تو اس سے اس کے شرکاء وشفعاء کی نفی کی راہ ہموار ہو گئی، سو ارشاد فرمایا گیا کہ لوگوں کے لئے اس کے سوا نہ کوئی حمایتی وکار ساز ہے اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسے تمام شوائب سے منزہ وپاک اور اس طرح کے جملہ تصورات سے اعلیٰ وبالا ہے۔ وہ شرک کے ہر شائبے سے پاک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۷.    مشرکین مکہ اپنے تمرد وعناد اور اپنے کبر وغرور کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ آپ ہماری خاطر فقراء صحابہ کو اپنی مجلس سے دور کر دیں، کیونکہ ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بے مثال شفقت اور رحمت ورافت کی بناء پر چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ بدبخت ایمان لے آئیں تاکہ اس طرح خود ان کا بھلا ہو، اور یہ دوزخ کی آگ سے بچ سکیں۔ اور دوسری طرف ان کے ایمان سے دوسروں کے ایمان کی راہ کھلے، تو اس بناء پر آپ ان کی ناز برادری میں بعض اوقات اپنے جاں نثار ساتھیوں کے بارے میں اس طرح کا انداز اختیار فرماتے کہ یہ تو ہیں ہی اپنے اگر ان سے ذرا صرف نظر کیا جائے اور اس طرح ان متکبروں کے لئے ایمان کی راہ کھل جائے تو اس میں کیا حرج ہے، جیسا کہ حضرت ابن اُمّ مکتوم کے قصے میں ہوا تھا، تو اس بناء پر اس ارشاد سے آپ کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنے ان مخلص اور جانثار ساتھیوں ہی پر توجہ مرکوز رکھیں، جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے۔ اور اسی کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں، اور آپ ان متکبروں اور سرکشوں کی پرواہ نہ کریں جن کے دل ہماری یاد سے غافل و محروم ہیں اور وہ اپنی خواہشات ہی کی پیروی کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص ہی کی ہے، اور وہ انہی فقراء و مساکین کے پاس ہے جو آپ پر سچا پکا ایمان رکھتے ہیں، اس ارشاد ربانی کے لب و لہجہ میں جو تندی و تیزی ہے اس کا رُخ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف نہیں، بلکہ اس کا اصل رُخ ان منکرین و مکذبین کی طرف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کو حقیر سمجھتے تھے والعیاذُ باللہ العظیم

۳۰.    منکرین و مکذبین کے انجام کے بعد اس سے اہل ایمان کی فائز المرامی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ سو اس ضمن میں سب سے پہلے اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ آخرت کی اس حقیقی اور سدا بہار کامیابی و فائز المرامی سے سرفرازی کا دار و مدار انسان کے اپنے ایمان و عمل پر اور اس کے تقویٰ وپرہیزگاری پر ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو، اور کہیں کا بھی ہو۔ نہ کہ کسی خاندان و قبیلہ اور حسب ونسب جیسے کسی غیر اختیاری امر پر جیسا کہ بہت سے زائغین نے سمجھا ہے، پہلے بھی اور اب بھی۔ البتہ ایمان صحیح اور عمل صالح ہونا چاہیے نہ کہ محض زبانی کلامی، اور نمود و نمائش کی نوعیت کا اور جن کا عمل احسان پر مبنی ہو گا وہ کبھی ضائع نہیں ہو گا۔ اور عمل کا احسان دو اہم بنیادوں پر قائم ہے۔ اول اخلاص اور دوسری اتباع۔ پس وہ عمل خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو ریا و نمود کے شوائب سے خالی اور پاک ہو، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق اور اتباع سنت پر مبنی ہو۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۳۱.    سو اہل ایمان ویقین کو ملنے والا آخرت کا وہ اجر و ثواب اس قدر عظیم الشان ہو گا، اور ان کو ملنے والی وہ آرام گاہ بھی اس قدر عظیم الشان ہو گی کہ اس دنیا میں اس عظمت شان کا تصور کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق اس عالم غیب سے ہے جس تک انسانی عقل و فکر کی رسائی ممکن نہیں، قرآن و حدیث میں اس جہان نادیدہ سے متعلق جن تمثیلات و تشبیہات کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان سے اصل مقصود و مراد تقریب الی الاذہان ہے یعنی یہ کہ ان کے ذریعے ان حقائق کو ممکنہ حد تک انسانی ذہنوں کے قریب کیا جائے اس لئے اس ضمن میں وہی الفاظ و کلمات اور استعارات و کنایات استعمال کئے جاتے ہیں جن سے ہم لوگ مانوس ہیں ان کی اصل حقیقت تو اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ سو دوزخ کے مہل یا جنت کے کنگنوں اور وہاں کے سندس واستبرق کی اصل حقیقت کو یہاں پر جاننا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ بلکہ یہ تمام الفاظ وکلمات جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، مَاہِیَ اِلاَّ الْاَسْمَاءُ صرف الفاظ وکلمات ہیں ان کی اصل حقیقت وہیں معلوم ہو سکے گی۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت کی ان عظیم الشان اور سدا بہار ابدی نعمتوں سے سرفراز فرمائے یہ دعا رمضان المبارک میں اور روزے کی حالت میں کر رہا ہوں جبکہ رمضان المبارک ۱۴۲۵ہجری کی پندرہویں تاریخ ہے اور دن بھی جمعے کا دن ہے جبکہ دن کا ڈیڑھ بج رہا ہے اور جمعہ پڑھ کر ابھی واپس پہنچا ہوں سو یہ وقت برکتوں پر برکتوں کا وقت ہے اور روزے دار کی دعا کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ سَائِلُ اللّٰہِ فِیْہِ لَا یُخِیْبُ، یعنی اس میں اللہ سے مانگنے والا ناکام نہیں ہوتا۔ پس اے مالک الملک! تو محض اپنے فضل و کرم سے اور امیدوں کے اس موقع پر میری اس دعا کو قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین، اَللّٰہُمَّ مَغْفِرُنَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذَنُوْبِیْ وَرَحْمتَکَ اَرْجیٰ عِنْدِیْ مِنْ عَمَلِیْ یَامَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ۔

۳۶.    سو اس تمثیل کے ذریعے مومن اور کافر دونوں کی ذہنیت کو واضح فرما دیا گیا کہ مومن اس دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اور کافر کس نظر سے سو کافر اس دنیا اور اس کے وقتی مفاد ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اسی کے لئے جیتا اور اسی کے لئے مرتا ہے، اور دنیا میں سے اس کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کو اپنی محنت اور قابلیت ہی کا نتیجہ سمجھتا ہے، اور اسی بناء پر وہ اس مغالطے اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے وہی ٹھیک ہے، ورنہ اس کو یہ سب کچھ کیوں ملتا؟ اور پھر اسی سے وہ بناء الفاسد علی الفاسد کے طور پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو وہاں بھی کامیابی میری ہی ہو گی، اور وہاں کا اچھا ٹھکانا بھی مجھے ہی ملے گا۔ سو اس طرح وہ دائمی ہلاکت کے راستے پر چلتا جاتا ہے۔ اور وہ حق بات پر کان دھرنے اور اس کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ دائمی ہلاکت اور ابدی خسارے میں مبتلا ہو کر رہتا ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، جبکہ مومن صادق کا نقطہ نظر اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے اس کے نزدیک یہ دنیا دارالانعام اور دارالجزاء نہیں، بلکہ دارالعمل اور دارالابتلا ہے اور اس میں انسان کو جو بھی کچھ ملتا ہے وہ امتحان کے لئے اور ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کے مطابق ہی ملتا ہے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت و مرضی کے مطابق اور اسی کی عطاء و بخشش سے ملتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۳۷.    سو اس سے اس بندہ مومن نے اس منکر و متکبر انسان کے دل پر دستک دیتے ہوئے اس سے کہا کہ کیا تم اپنے اسی خالق و مالک کا انکار کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا فرمایا، پھر نطفہ سے، اور پھر تم کو ایک صحیح وسالم اور بھلا چنگا انسان بنا کھڑا کیا؟ یعنی تمہارا وجود خود اس خالق و مالک کی وحدانیت و یکتائی، اور اس کے جود و عطا کا کھلا مظہر اور اس کا عظیم الشان نمونہ اور ثبوت ہے، اور تمہارے اس وجود ہی کا تقاضا ہے کہ قیامت کا یوم حساب قائم ہو، تاکہ اس کے فرمانبرداروں اور شکر گزاروں کو ان کی اطاعت و شکر گزاری کا صلہ اور بدلہ ملے۔ اور نافرمان و ناشکرے لوگوں کو ان کے کئے کرائے کی سزا ملے، تاکہ اسطرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں۔ اور پھر اس بندہ مومن نے اپنے ایمان و عقیدہ کے اظہار و بیان کے طور پر کہا کہ میرا رب تو بہر حال وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

۳۹.    سو اس سے اس بندہ مومن نے اس منکر ومستکبر شخص کے قلب و ضمیر پر ایک اور دستک دیتے ہوئے اس سے کہا کہ تو جب اپنے اس ہرے بھرے باغ میں داخل ہوا تھا تو تکبر و انکار کرنے کے بجائے شکر نعمت کے طور پر تجھے سراسر حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَا لُہ، کے حضور جھک جانا چاہیے تھا، اور تو ما شاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہ کہتے ہوئے اس حقیقت کا اقرار و اعتراف کرتا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا دیا بخشا اور اسی کا عطا فرمودہ ہے، تاکہ اس طرح اس کی عطاء فرمودہ یہ نعمت تیرے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ووسیلہ بن جاتی۔ اور اپنے اس باغ کو دیکھ کر کبر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اور مجھے مال و اولاد کے اعتبار سے اپنے سے کمزور اور کمتر دیکھ کر اکڑنے کے بجائے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہو سکتا ہے کہ اللہ مجھے تجھ سے بھی کہیں زیادہ دے دے، اور تیرے اس باغ وغیرہ کا کوئی ناگہانی آفت بھیج کر صفایا کر دے، سو آخرکار بالفعل ایسے ہی ہوا، العیاذ باللہ جل وعلا،

۴۳.    سو اس کے جھوٹے اور بے بنیاد گھمنڈ سب ہوا ہو گئے کوئی بھی اس کے کچھ کام نہ آ سکا اس کی وہ پارٹی اور اس کا وہ مال جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا (میں تجھ سے مال کے اعتبار بھی بہت زیادہ ہوں، اور میری جماعت بھی بہت زبردست ہے) سو عذاب کے اس موقع پر وہ اس کے کچھ بھی کام نہ آ سکے، اور نہ خود اس میں اتنا دم خم تھا کہ وہ کوئی مقابلہ کر سکتا، یا انتقام لے سکتا، سو اس وقت اس کی مایوسی وافسوس اور اس کی بے بسی کی کوئی حدود انتہا نہ تھی۔ لیکن بے وقت کے اس پچھتاوے کا اس کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں تھا، سوائے اس کی آتش یاس وحسرت میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔

۴۵.    سو اس تمثیل سے دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کو واضح فرما دیا گیا چنانچہ اس کے ذریعے ان فریفتگانِ دنیا کو جو اس کی عارضی اور فانی لذتوں پر ریجھے ہوئے ہیں۔ اور اسی کو اپنا منتہائے مقصود بنائے بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس بہار پر کبھی خزاں نہیں آئے گی۔ ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو بتا دو کہ اس کی یہ بہار چند روزہ ہے، اس کی مثال تو اس کھیتی کی سی ہے جو آسمان سے اترنے والی بارش کے نتیجے میں خوب گھنی ہو کر ابھرتی ہے۔ لیکن زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ وہ اپنے انجام اور خاتمے کو پہنچ جاتی ہے اس کی دلوں کو لبھانے والی وہ رونق چلی جاتی ہے، وہ چورہ چورہ ہو جاتی ہے اور ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جس طرح وہ بہار دکھاتا ہے، اسی طرح وہ خزاں بھی دکھانے پر قادر ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۴۶.    سو مال و اولاد وغیرہ کی وہ نعمتیں اور رونقیں جو ابناء دنیا کی آنکھوں میں کھبی ہوئی اور ان کے دلوں میں اٹکی ہوئی ہیں، اور جن کو یہ لوگ آج اپنا نصب العین اور منتہائے مقصود بنائے بیٹھے ہیں، یہ سب عارضی فانی اور بے حقیقت ہیں خداوند قدوس کے یہاں اجر و ثواب اور امید و رجاء کے اعتبار سے بہتر وہ اعمال صالحہ ہی ہیں جو ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں، پس اصل مقصود اور حقیقی نصب العین انہی کو بنانا چاہیئے، ابدی برکات اور حقیقی اور دائمی کامیابی انہی کے ذریعے نصیب ہو سکتی ہے وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید

۴۷.    سو اس سے منکرین و مکذبین کو خطاب کر کے قیامت کے یوم حساب کی تذکیر ویاد دہانی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس روز تمہارے بنائے ہوئے عالی شان محلوں اور ایوانوں اور تمہارے آراستہ وپیراستہ ان خوبصورت اور خوشنما باغوں اور چمنوں کا کہنا ہی کیا، اس روز تو ان دیو ہیکل اور فلک بوس پہاڑوں کو بھی اپنی جگہوں سے ہلا اور چلا لیا جائے گا۔ اور اس زمین کو ایک چٹیل میدان بنا کر رکھ دیا جائے گا۔ اس روز ہم سب لوگوں کو اکٹھا کر لائیں گے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے، نہ کسی امیر کو اور نہ غریب کو، نہ شاہ کو نہ گدا کو، نہ آقا کو نہ غلام کو۔ اور نہ عابد اور اس کے من گھڑت معبودوں کو، سو اس روز تم سب اس کے حضور دست بستہ حاضر ہوؤ گے۔ تمہاری امارت وریاست اور دولت و عظمت کا سب گھمنڈ تمہارے اندر سے نکل چکا ہو گا۔ اور تم عاجز اور بے بس غلاموں کی طرح حاضر ہوؤ گے، اور تم سے کہا جائے گا کہ تم ہمارے پاس اسی طرح خالی ہاتھ چلے آئے ہو جس طرح ہم نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، تمہارے ساتھ اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں۔ تب ان کی ذلت ورسوائی، اور حسرت و ندامت، کی کوئی حد و انتہا نہ ہو گی۔ مگر بے وقت کے اس پچھتاوے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۹.    سو اس روز مجرم لوگ اپنے اعمال ناموں کے مندرجات سے خائف اور لرزاں وترساں ہونگے اور وہ بصد یاس وحسرت پکار اٹھیں گے کہ ہائے ہماری شامت اور کم بختی یہ کیسی عجیب کتاب ہے جس نے نہ کسی چھوٹی بات کو درج کرنے سے چھوڑا، اور نہ کسی بڑی بات کو اور وہ اپنی زندگی بھر کا کیا کرایا سب کا سب وہاں پر موجود اور حاضر پائیں گے۔ اور یہ سب اہتمام اس بناء پر ہو گا کہ تمہارا رب کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتا اس لئے اس نے سب کچھ محفوظ کر دیا تاکہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ وبدلہ ملے۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوں، اور کسی کی کسی بھی طرح کی کوئی حق تلفی نہ ہو،

۵۰.    سو اس سے قصہ آدم وابلیس کی تذکیر و یاد دہانی کے ذریعے منکرین و مکذبین کے دلوں پر یہ دستک دی گئی ہے کہ تم لوگ حق کا انکار کر کے ابلیس کی سنت اور اس کے طریقے پر چل رہے ہو حالانکہ وہ رب کا نافرمان اور آدم و اولاد آدم کا کھلا دشمن ہے، مگر تم لوگ ہو کہ اس کے باوجود اللہ کو چھوڑ کر اس عدو مبین ابلیس لعین اور اس کی اولاد کو اپنا دوست اور کارساز بنائے ہو، یہ کیسا برا بدل ہے جس کو ایسے ظالموں نے اپنایا ہے ابلیس کو معروف معنوں میں اگرچہ کوئی اپنا دوست اور کار ساز نہیں بناتا۔ لیکن اس کی تحریک وتلبیس پر اللہ پاک کے سوا دوسری مخلوق کو اپنا حاجت روا و کار ساز ماننا دراصل ابلیس ہی کو اپنا دوست اور کار ساز بنانا ہے، اور مشرکین نے تو ابلیس کی تحریک وتلبیس کی بناء پر جنوں تک کی پوجا کی،چنانچہ وہ مختلف شکلوں میں ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے۔ انہوں نے ہر وادی اور ہر پہاڑ کے الگ الگ جن مان رکھے تھے، اور اپنے زعم کے مطابق ان کی آفتوں سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لئے وہ طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے تھے۔ وہ ان کے نام کی جے پکارتے، ان کے لئے نذرانے پیش کرتے،چڑھاوے چڑھاتے نیازیں دیتے۔ اور یہاں تک کہ وہ ان کو خوش کرنے کے لئے اپنی اولاد کی قربانی دیتے، جیسا کہ خود قرآن پاک میں دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے، قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَاَدُہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ الایٰۃ (الانعام۔۱۴۱) یعنی یقیناً بڑے خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے قتل کیا اپنی اولاد کو حماقت کی بناء پر، بغیر کسی علم کے، افسوس کہ آج کتنے ہی جاہل مسلمان ایسے ہیں جن کے اندر اسی طرح کی مختلف شرکیات رواج پذیر ہیں۔ جس کے طرح طرح کے نمونے اور قسما قسم کے مظاہر جگہ جگہ ملتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۵۲.    موبق کے معنی تباہی کے گڑھے، اور ہلاکت کے کھڈے کے ہیں، سو اس سے مشرکین کو ان کی اس محرومی کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے جس سے ان کو قیامت کے اس یوم حساب میں سابقہ پیش آئے گا چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز اللہ ان سے فرمائے گا کہ آج پکارو تم لوگ اپنے ان کو جن کو تم نے میرا شریک ٹھہرا رکھا تھا۔ تاکہ وہ اس مشکل وقت میں تمہاری مدد کریں چنانچہ وہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے۔ اس لئے کہ ان کو خود اپنی پڑی ہو گی اور ان کے درمیان ہلاکت و تباہی کا ایک ہولناک کھڈا حائل ہو گا۔ جس کی وجہ سے یہ نہ ان کے پاس جا سکیں گے اور نہ وہ ان کے پاس پہنچ سکیں گے، سو اس سے ان کو جس ذلت و محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا اس اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر قسم کی رسوائی سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۵۴.    اس ارشاد سے ایک طرف تو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کے ایک عظیم الشان انعام کو بیان فرمایا گیا ہے، اور اس کے بالمقابل دوسری طرف انسان کی ناشکری اور بے قدری کے ایک نمونے کو بھی، مَثَل سے یہاں پر مراد عالم غیب کے وہ مخفی حقائق ہیں جن کو تمثیل کی شکل میں پیش فرمایا گیا ہے سو عالم غیب کے ان مخفی حقائق کو جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن نہیں قدرت نے اپنی عظیم الشان اور بے پایاں رحمت و عنایت سے ان کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش فرما دیا۔ اور تقریب الی الاذہان کے لئے ان کو پیش بھی تمثیل و تشبیہ کے انداز میں فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کا سمجھنا آسان ہو جائے اور پھر مزید کرم یہ کہ ان کو پیش بھی مختلف اسالیب و انداز میں فرمایا تاکہ وہ ان کو سمجھ کر صدق دل سے اپنا سکیں۔ مگر دوسری طرف انسان کی ناشکری اور بے قدری کا عالم یہ ہے کہ یہ بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے اور اپنے اسی جھگڑالو پن کی بناء پر یہ حق کو مانتے اور قبول کرنے کے بجائے الٹا ان پر کسی نہ کسی اعتراض ہی کے درپے رہتا ہے تو پھر ایسے ہٹ دھرم اور ناشکرے اور بے انصاف لوگوں کو حق و ہدایت کی دولت آخر کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟ سو انسان کی محرومی، اور اس کے فساد و بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۵۵.    سو اس سے منکرین کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کے ایک نمونے کو پیش فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے پاس حق و ہدایت کا نور پہنچ گیا جس کے بعد ان کے لئے موقع اس امر کا تھا کہ یہ اس پر ایمان لا کر اپنے رب سے مغفرت و بخشش کی دعا ودرخواست کرتے تاکہ اس طرح یہ دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفراز و مالا مال ہوتے مگر یہ الٹا یہ کہتے ہیں کہ ان پر اسی طرح کی ہلاکت اور تباہی آ جائے جیسی کہ پہلی قوموں پر آ چکی ہے اور جس سے قرآن ان کو ڈرا رہا ہے۔ یا ان کے سامنے کوئی اور عذاب آ جائے جس کو یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اس کے بغیر یہ ایمان لانے اور اپنے رب سے استغفار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے سو یہ ان کی بدبختی اور مت ماری نہیں تو اور کیا ہے کہ قرآن تو ان کے آگے مائدہ سماوی بچھا رہا ہے تاکہ یہ اس کی عظیم الشان اور پاکیزہ نعمتوں سے مستفید و فیضیاب ہوں مگر یہ ہیں کہ اس کے بجائے قہر آسمانی کے طلب گار بنتے ہیں بھلا عذاب آ جانے کے بعد ان کے لئے بچنے اور سبق لینے کا کونسا موقع ہو گا؟

۵۶.    سو اس ارشاد سے ایسے لوگوں کے مطالبہ عذاب کا جواب دیا گیا ہے کہ ہم رسولوں کو عذاب لانے کے لئے نہیں بھیجا کرتے، بلکہ ان کے بھیجنے کا اصل مقصد انذار و تبشیر ہوتا ہے یعنی یہ کہ وہ لوگوں کو ان کے انجام اور ان کے مصیر و مآل سے خبردار کریں اور جو ان کی دعوت پر صدق دل سے ایمان لے آئیں ان کو دارین کی سعادت وسرخروئی اور جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی کی خوشخبری سنائیں اور بس۔ سو رسولوں کی بعثت و تشریف آوری لوگوں کو خطاب سے دو چار کرنے کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس لئے ہوتی ہے کہ ان کو عذاب الٰہی سے بچا کر رحمت الٰہی سے سرفراز کیا جائے، آگے یہ لوگوں کی اپنی بدبختی اور محرومی ہوتی ہے کہ وہ کفر و انکار اور تکذیب حق کے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق بناتے ہیں، العیاذ باللہ العظیم

۵۷.    مَوْئل کے معنی پناہ گاہ کے ہوتے ہیں۔ سو اس سے اس سبب کی وضاحت فرما دی گئی کہ آخر ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں پر عذاب آتا کیوں نہیں جو حق کو ماننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے؟ ان کا معاملہ چکا کیوں نہیں دیا جاتا؟ آخر ان کو اللہ کی دھرتی پر بار بنائے رکھنے کا فائدہ کیا؟ سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ ایسا اس لئے نہیں کیا جاتا کہ تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی رحمت والا ہے، اس لئے وہ ایسے مجرموں کو بھی آخری حد تک مہلت دیتا ہے، تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے اور اپنے رونے کی اصلاح کر لے، تاکہ وہ دائمی ہلاکت و تباہی سے بچ جائے، ورنہ وہ اگر ان کو فوراً پکڑنا چاہے تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ بلکہ اس نے ایسوں کی گرفت کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جب وہ وقت مقرر آ جائے گا تو ایسے لوگ نہ اس کی گرفت و پکڑ سے بھاگ سکیں گے، اور نہ ہی ان کو اپنے بچاؤ کے لئے کوئی پناہ گاہ مل سکے گی،

۵۹.    سو اس سے اوپر والی بات کی تاریخی شہادت کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تباہ شدہ بستیاں جن کے باشندے اپنے ظلم پر اڑے ہوئے تھے ان کے لئے بھی ڈھیل اور مہلت کا ایک وقت مقرر تھا۔ اس تک ان کو ڈھیل ملی۔ لیکن جب انہوں نے اپنی روش نہ بدلی اور وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو آخرکار وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو منکرین کو ان کے انجام سے سبق لینا چاہیئے۔

۶۰.    فَتیٰ کے معنی جوان اور لڑکے کے آتے ہیں یہاں اس سے مراد خادم ہے۔ سو اس سے حضرت موسیٰ اور خضر کا قصہ ذکر فرمایا جا رہا ہے جس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، سو سب سے پہلے حضرت موسیٰ نے اپنے خادم اور شاگرد سے اپنے اس سفر کے بارے میں اپنے عزم و جزم، اور ذوق و شوق کا اظہار فرمایا۔ تاکہ ان کے یہ خادم اور رفیق سفر بھی اسی عزم و ہمت سے ان کے ساتھ نکلیں، سو آپ نے ان سے فرمایا کہ میں اس سفر پر چلتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ میں مجمع البحرین کے اس مقام تک پہنچ جاؤں، جہاں پہنچنے کے لئے مجھے میرے رب کی طرف سے ہدایت فرمائی گئی ہے، یا پھر میں سالہا سال تک اس راہ میں چلتا رہوں۔ بس راہ حق میں سفر کے لئے ایسے ہی عزم و جزم ہونا چاہیئے، کہ اس سے انسان سفر کی صعوبتوں اور مشکلات کو برداشت کر سکتا ہے۔

۶۴.    یہاں پر اس قصے کے بہت سے حصے کو حذف فرما دیا گیا۔ کیونکہ وہ قرینے کی بناء پر خود سمجھا جا سکتا ہے۔ جو اس طرح ہے کہ اس عزم وجزم کے ساتھ وہ دونوں اس سفر پر روانہ ہو گئے۔ اور اپنے ساتھ ایک بھونی ہوئی مچھلی بھی لے گئے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقام مقصود تک پہنچ گئے۔ اور وہاں پر روایات کے مطابق حضرت موسیٰ سستانے کے لئے رکے تو سو گئے اور اس دوران وہ مچھلی زندہ ہو کر پانی میں کود گئی۔ اور ایک سرنگ سی بناتی ہوئی پانی کے اندر چلی گئی۔ خادم نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ کو بیدار ہونے کے بعد اس کی خبر کر دوں گا۔ لیکن وہ بیداری کے بعد بتانا بھول گئے جس سے حضرت موسیٰ آگے روانہ ہو گئے تو اس دوران حضرت موسیٰ کو سخت تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہونے لگی تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ ہاں بھئی ہمارا ناشتہ لے آؤ تو اس پر خادم کو مچھلی کے بارے میں وہ قصہ یاد آیا تو اس نے حضرت موسیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مچھلی کا تو یہ قصہ ہوا۔ کہ وہ زندہ ہو کر ایک عجیب سا راستہ بناتے ہوئے سمندر میں چلی گئی تو اس پر حضرت موسیٰ نے افسوس کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ارے یہی تو وہ مقام تھا جو ہمارا مقصود ہے اس پر وہ دونوں اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے اسی مقام کی طرف واپس لوٹے، سو وہاں پہنچ کر وہ اس بندہ خدا سے ملے۔ جس سے ملنے کی ان کو ہدایت ہوئی تھی یعنی حضرت خضر، سو اس قصے سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں۔ نہ مختار کل اور نہ ہر جگہ حاضر وناظر، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ کیونکہ ایسے اگر ہوتا تو نہ حضرت موسیٰ کو اس طرح حضرت خضر سے ملنے کے لئے صحرا نوردی کرنا پڑتی؟ نہ بھونی ہوئی مچھلی اپنے ساتھ لے جانے کی ضرورت پیش آتی۔ نہ تلاش خضر کے لئے مچھلی کے زندہ ہونے کی علامت اور نشانی رکھنے کی ضرورت ہوتی۔ اور نہ مچھلی کے زندہ ہو جانے کی بات حضرت موسیٰ سے اوجھل رہتی۔ نہ آپ بھول کر آگے نکل جاتے نہ غلام کے بتانے کی ضرورت پڑتی۔ نہ آنجناب کو بھوک اور تھکاوٹ لاحق ہوتی اور نہ ہی آپ کو اپنے اس مقام مقصود تک واپسی کے لئے اپنے نشانِ قدم دیکھنے کی ضرورت پیش آتی۔ سو علم غیب کلی، اور اختیار کلی وغیرہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں، اس میں دوسری کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں، سبحانہ و تعالیٰ

۶۶.    بہر کیف حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے ملاقات کے بعد ان سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ تاکہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ سکھا دیں جو اسرار کائنات سے متعلق قدرت نے آپ کو بخشا ہے؟ تو اس کے جواب میں حضرت خضر نے ان سے فرمایا کہ اجازت دینے سے تو مجھے انکار نہیں لیکن آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے، کیونکہ میرے ہاتھوں کچھ ایسے کام صادر ہونگے، جن کے اسرار سے آپ واقف نہیں ہونگے۔ آپ کی نظر میں وہ عجیب اور ناگوار ہونگے جس کی بناء پر آپ ان پر اعتراض کریں گے۔ اس لئے آپ کا میرے ساتھ چلنا بہت مشکل ہو گا، تو ایسے میں آپ کا مجھ سے نباہ ہو سکے گا؟ کہ اس کے لئے تو طرفین کی موافقت اور ہم آہنگی بنیادی چیز ہے،

۷۰.    سو حضرت موسیٰ نے جب حضرت خضر سے وعدہ فرمایا کہ آپ انشاء اللہ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ تو حضرت خضر نے آپ کو اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی کہ آپ کسی بات کے بارے میں مجھ سے کوئی سوال نہیں کرنا اور مجھ سے اس سے متعلق کچھ نہ کہنا، یہاں تک کہ اس کی حقیقت کے بارے میں میں خود ہی آپ کو آگاہ نہ کر دوں۔

۷۱.    سو اس معاہدہ اور قرار داد کے بعد وہ دونوں ایک سفر پر روانہ ہو گئے، اور جب وہ دونوں آگے چلے تو دریا پار کرنے کے لئے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ تو کشتی والوں نے آپ کے اکرام میں آپ سے کرایہ نہیں لیا۔ مگر حضرت خضر نے کشتی سے اترنے کے بعد اس کا ایک پھٹہ نکال دیا تو اس پر حضرت موسیٰ بول پڑے کہ ان لوگوں نے تو ہمارا اکرام کیا، اور ہمیں مفت بٹھایا۔ مگر آپ نے اس کے عوض انکی کشتی کا پھٹہ نکال کر ان کی کشتی کو بیکار کر دیا، کہ اس کے نتیجے میں یہ غرق ہو جائیں، کیا نیکی کا صلہ اور بدلہ ایسے ہی دیا جاتا ہے، یقیناً آپ نے تو بڑی ہی عجیب حرکت کا ارتکاب کیا۔ تو اس پر حضرت خضر نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟ تو اس پر حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ اوہو! میں بھول گیا۔ پس آپ اس بارہ مجھ سے سختی نہ فرمائیں۔ اس کے بعد پھر آگے چلے تو حضرت خضر نے ایک کھیلتے کودتے بچے کو مار ڈالا تو اس پر حضرت موسیٰ سے پھر رہا نہ گیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا آپ نے ایک بے گناہ جان کو بغیر کسی جان کے یونہی قتل کر دیا۔ یقیناً آپ نے ایک بڑا ہی برا کام کیا، کیونکہ کسی جان کو ناحق قتل کرنا تو یوں بھی بڑا سخت گناہ ہے، لیکن ایک بے گناہ اور معصوم بچے کا قتل تو اور بھی زیادہ سنگین جرم ہے، تو پھر آپ نے خواہ مخواہ ایسے سنگین جرم کا ارتکاب آخر کیوں کیا؟

۷۵.    یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس اعتراض کے جواب میں حضرت خضر علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے آپ نے وعدہ بھی کیا تھا، مگر اس کے باوجود آپ پھر بول پڑے، اور مجھ پر اعتراض کر دیا،

۷۶.    سو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایسے میں ان کے ساتھ مزید چلنا مشکل ہے تو آپ نے ان سے کہہ دیا کہ اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو پھر آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا کہ ایسی صورت میں ہمارا راستہ الگ اور یقیناً آپ میری طرف سے معذور ہونگے۔

۷۷.    یعنی اس کے بعد وہ دونوں آگے چلے تو ان کا گزر ایک بستی والوں پر ہوا تو ان دونوں نے ان بستی والوں سے کھانا مانگا۔ مگر وہ بستی والے کوئی ایسے منحوس اور بدبخت لوگ تھے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام جیسی عظیم الشان ہستیوں کی مہمان نوازی سے بھی انکار کر دیا۔ اسی دوران ان دونوں کو اس بستی میں ایک ایسی دیوار ملی جو گرا چاہتی تھی۔ تو حضرت خضر نے ان لوگوں کی خست اور کمینگی کے باوجود ان کی اس دیوار کو یونہی بغیر کسی مزدوری اور معاوضہ کے درست کر دیا۔ تو حضرت موسیٰ سے اس موقع پر بھی نہ رہا گیا، تو آپ نے حضرت خضر علیہ السلام سے کہا کہ آپ کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانا دینے سے بھی انکار کر دیا۔ مگر آپ نے ان کی اتنی بڑی دیوار بغیر کسی اجرت و مزدوری کے یونہی درست کر دی۔ اگر ایسے کرنا ہی تھا تو پھر کم از کم اس کے لئے ان سے کوئی اجرت اور مزدوری ہی لے لیتے۔

۷۷.    سو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس بارے میں حضرت خضر علیہ السلام کو ٹوکا اور ان پر اعتراض کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس اب حجت تمام ہو گئی۔ اور اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آگیا ہے، اور حضرت خضر علیہ السلام کا یہ اعلان صرف اس بناء پر نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خود ان کے قول و اقرار کے مطابق حجت تمام ہو چکی تھی بلکہ یہ اعلان دراصل اس بناء پر تھا کہ حکمت کی وہ تعلیم بھی مکمل ہو چکی تھی جو قدرت کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دینا مطلوب و مقصود تھی،

۷۹.    سو اس سے خضر علیہ السلام نے کشتی کا پھٹہ اکھاڑنے کی اصل حقیقت کو واضح فرما دیا۔ کہ یہ کشتی کچھ مسکینوں کی تھی جو اس کے ذریعے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے، اور وہاں پر ایک ایسا بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ شاید اس کو کسی جنگی مہم یا کسی اور غرض کے لئے مطلوب ہونگی، تو میں نے اس کو عیب دار کر دیا۔ تاکہ یہ اس کی گرفت سے بچ سکے۔ اور یہ لوگ اپنے اس ذریعہ کمائی سے محروم نہ ہو جائیں۔ سو اس مثال سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نیک لوگوں اور غریبوں اور مسکینوں کو اگر کوئی مالی اور معاشی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے اندر انہی کا کوئی بھلا اور فائدہ مضمر ہوتا ہے پس ان کو چاہیے کہ وہ اس پر صبر کریں۔ اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں۔ اور اس بات کا یقین رکھیں کہ حضرت حق جل مجدہ، کا کوئی بھی فیصلہ حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن کوئی شخص اس کی حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا، پس اس کے ہر فیصلے پر مطمئن رہنا چاہیئے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویریدوعلی ما یُحِبُّ ویرید۔

۷۱.    سو اس سے اس لڑکے کے قتل کی اصل حقیقت کو واضح فرما دیا گیا جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا قتل کرنا ہی صحیح اور قرین مصلحت تھا۔ سو اس مثال سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کو اگر کوئی تکلیف اور مصیبت پہنچتی ہے تو اس میں بھی ان کے لئے خیر عظیم مضمر ہوتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی جان سکتا ہے۔ پس اہل ایمان کو اس پر صبر و برداشت ہی سے کام لینا چاہیئے، جس دن اس کی حکمت واضح ہو گی اس دن پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا تھا بہتری اور بھلائی اسی میں تھی، والحمدللہ بکل حالٍ من الاحوال،

۷۲.    سو اس سے گرتی دیوار کو ٹھیک کر دینے سے متعلق معاملے کی اصل حقیقت کو واضح فرما دیا۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کے بارے میں بتایا کہ یہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا۔ سو اگر وہ دیوار یونہی گر جاتی تو لوگ ان کا وہ خزانہ لے جاتے اور ان کا باپ چونکہ ایک نیک اور صالح انسان تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و عنایت سے یہ چاہا کہ یہ دیوار کھڑی رہے۔ اس کے نیچے ان کا یہ خزانہ محفوظ رہے۔ اور یہ بڑے ہو کر اپنا خزانہ خود نکالیں۔ اس لئے میں نے اس دیوار کو بغیر کسی عوض اور مزدوری کے یونہی سیدھا کر دیا۔ سو یہ تمہارے رب کی وہ رحمت و عنایت تھی جو اس نے ان یتیموں پر فرمائی تھی کہ ان کا والد ایک نیک اور صالح انسان تھا۔ بس ہم نے اس بستی کے باشندوں کی خست و کمینگی سے قطع نظر کرتے ہوئے اس دیوار کو یونہی ٹھیک کر دیا۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ باپ کی نیکی کا اجر و صلہ اس کی اولاد اور اس کی نسلوں کو بھی ملتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں لڑکے ساتویں پشت میں اس نیک اور صالح انسان کے بیٹے بنتے تھے، سو نیکی کا اجر و صلہ اتنی مدت کے بعد بھی ملتا ہے اور وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ اَمْرِیْ سے حضرت خضر علیہ السلام نے اس کی تصریح فرما دی کہ ان میں سے کوئی کام میں نے بھی اپنی رائے سے نہیں کیا، بلکہ ان میں سے ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد ہی سے کیا، سبحانہ و تعالیٰ،

۷۴.    سبب کے اصل معنی ذریعہ و وسیلہ کے ہیں یہاں پر اس سے مراد وہ ذرائع و وسائل ہیں جن کی کسی انسان کو حکمرانی کے لئے ضرورت ہوتی ہے سو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس کو ہر قسم کے ذرائع و وسائل سے نوازا تھا کہ دینے اور بخشنے والے سب کو ہم ہی ہیں۔ شاہ و گدا سب اسی واہب مطلق جل جلالہ کی عطا و بخشش کے محتاج ہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۵.    اَتْبَعَ کے معنی پیچھے لگنے، درپے ہونے، اور تعاقب کرنے کے ہوتے ہیں پس اَتْبَعَ سَبَبًا کے معنی ہونگے کہ اس نے اپنے ذرائع و وسائل کا جائزہ لیا اس کی چھان بین کی اور اس بارہ اہتمام کیا۔ پھر یہیں سے توسع پیدا ہو کر یہ لفظ کسی مہم کی تیاری کے لئے استعمال ہونے لگا، یعنی وہ ایک مہم پر نکلا۔ اسی لئے ہم نے ان کا ترجمہ اس لفظ سے کیا۔ والحمد للہ، یہ شخص جس کا ذکر یہاں پر فرمایا گیا ہے، حضرات اہل علم کے نزدیک اس سے مراد کیخسرو ہے، جس کا اصل نام کورش تھا، اور جس سے متعلق تاریخی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں اپنے والد کمپوچیہ کی ایک چھوٹی سی ریاست انشان کا ولی مقرر ہوا۔ مگر یہ چونکہ مہم جو قسم کا انسان تھا، اس لئے اس نے اپنے قرب و جوار کی مختلف ریاستوں کو زیر نگین کرنے کی مہم شروع کی، یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے بلخ، اور مکران سے لیکر بحیرہ روم تک کے سب علاقوں پر قبضہ کر لیا، اور اتنی بڑی اور پر شکوہ سلطنت قائم کر لی کہ اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی،

۷۶.    یعنی وہ اپنی مغربی مہم کے دوران اس حد تک پہنچ گیا جہاں خشکی کی حدود کے خاتمے کے بعد سمندر شروع ہو جاتا تھا۔ اور وہاں پر غروب آفتاب کے وقت دیکھنے والے کو ایسے لگتا تھا کہ سورج پانی کے ایک سیاہ چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ سو اس ٹکڑے سے اس حقیقت کا اظہار فرمایا گیا کہ یہ ذوالقرنین نے مغرب کی جانب اپنی پیش قدمی کے دوران اس تمام دنیائے معلومہ کو اپنے زیر نگین کر لیا تھا جہاں تک اس وقت کسی انسان کے قدم پہنچ سکتے تھے، اس کے آگے سمندر تھا جس سے دیکھنے والے کو یہ معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا کی آخری حد تک ہی ہے اور سورج یہیں ڈوبتا ہے۔ سو اس سے اس کی سلطنت کی عظمت و وسعت کو واضح فرما دیا گیا، جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیے میں بھی گزرا ہے۔

۷۷.    سو ان آیات کریمات سے حضرت ذوالقرنین کے کمال اقتدار اور اس کے تقاضوں کو واضح فرما دیا گیا۔ چنانچہ اس کے کمال اقتدار کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اس فتح کے نتیجے میں جو رعایا ان کے زیر اختیار اور زیر قبضہ آئی تھی ان پر ہم نے ذوالقرنین کو ایسا کامل اقتدار دے دیا تھا، اور ان کو ان کے قدموں میں اس طرح ڈال دیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کر سکتے تھے۔ خواہ وہ ان کو عذاب دیں یا ان سے احسان اور خوبی کا معاملہ کریں کوئی ان سے مزاحمت کرنے والا، یا ان کے اقتدار میں دخل دینے والا نہیں تھا۔ سو اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو رعایا پر ظلم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اور ان کو یوں کہہ دیا گیا تھا کہ وہ خواہ عدل کریں یا ظلم، دونوں کا اختیار ہے۔ سو ایسا نہیں، کہ ظلم اور زیادتی بہر حال منع ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مطلوب تو ہر بادشاہ اور حکمران سے بہر حال عدل و انصاف ہی ہے لیکن وہ اگر ظلم اور نا انصافی کرنا چاہے تو اس کو اس کی بھی چھوٹ بہر حال ملی ہوتی ہے۔ پس وہ اگر عدل و انصاف سے کام لے گا تو اس کا صلہ و بدلہ پائے گا۔ اور اگر وہ ظلم و زیادتی کرے گا تو اس کی سزا بھی اس کو بھگتنا پڑے گی، اور اس کمالِ اقتدار کے نتیجے اور تقاضے کے بارے میں ذوالقرنین نے ان لوگوں سے کہا کہ جو کوئی ظلم اور زیادتی کرے گا تو اس کو ہم بہر حال سزا دیں گے۔ پھر اس کو اس کے رب کے یہاں بھی سزا ملے گی جو کہ بہت سخت ہو گی اور اس کے برعکس جو ایمان لا کر نیک عمل کرے گا۔ تو اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بھی اچھا انجام اور بڑا عمدہ بدلہ ہو گا، اور ہم بھی اس کے بارے میں نرمی کی پالیسی اپنائیں گے۔ سو اس سے ذوالقرنین نے اپنی حکمرانی کی پالیسی واضح کر دی کہ وہ عدل و انصاف ہی پر مبنی ہو گی۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا، کہ حکومت اور بادشاہی کی اصل اور اساس اور اس سے اصل مقصود عدل و انصاف ہی ہے، اور حکمرانی کی بقاء اسی پر موقوف ہے،

۹۵.    سو ذوالقرنین نے ان لوگوں سے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے مال وغیرہ کی تو کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ جو کچھ میرے رب نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ میرے لئے بہت بہتر ہے۔ البتہ آپ لوگ مجھے لیبر فراہم کرو۔ اور جسمانی قوت و طاقت سے میری مدد کرو۔ تاکہ میں تمہارے اور یاجوج ماجوج کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دوں۔ اہل بدعت کے بعض بڑوں نے اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ کے جملے سے غیر اللہ سے استمداد کے جواز پر استدلال کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ حالانکہ یہاں جس مدد واستمداد کا ذکر ہے وہ عام ظاہری اور تحت الاسباب مدد و امداد ہے۔ جس میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ ہو سکتا ہے۔ کہ یہ ایک عام چیز ہے جس کا مشاہدہ دن رات ہمیشہ جگہ جگہ اور طرح طرح سے ہوتا رہتا ہے، کہ یہ دنیا تو ہے ہی دارالاسباب، ممنوع و محذور وہ استمداد ہے جو مافوق الاسباب ہو، جیسے کسی غائب یا مرے ہوئے انسان سے مانگنا، اور سوال کرنا۔ کہ ایسی استمداد اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے جائز نہیں، سو ایسے اہل بدعت سے کوئی پوچھے کہ کیا ذوالقرنین نے وہ مدد کہیں مُردوں سے مانگی تھی؟ یا کسی سے غائبانہ مانگی تھی؟ جب ایسی کوئی بات نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر اس سے غیر اللہ سے استمداد کے جواز کے لئے استدلال کی آخر تک ہی کیا ہو سکتی ہے؟ سو عناد و ہٹ دھرمی، اور بدعت پرستی، کی نحوست کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے۔ جس سے وہ ایسی ہی ٹیڑھی اور بے تکی باتیں کرنے لگتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۹۷.    سو اس سے حضرت ذوالقرنین کی عاجزی، تواضع اور فروتنی، کا ایک نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے، کہ انہوں نے جب ایسی عظیم الشان آہنی اور سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار بنا دی۔ جس پر نہ یاجوج ماجوج کے لئے چڑھنا ممکن رہا۔ اور نہ ہی اس میں نقب لگانا۔ تو اس کو دیکھ کر ذوالقرنین نے تنگ ظرفوں کی طرح غرور کے نشے میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی کہ میں نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا، اور میں نے یہ اور وہ کر کے دکھا دیا، وغیرہ وغیرہ، بلکہ انہوں نے اس کے بالکل برعکس کمال عبدیت کے اظہار کے طور پر، اور پوری تواضع اور انکساری سے کہا کہ یہ خدمت جو میرے ہاتھوں انجام پائی ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت اور اسی کے فضل و کرم کا کرشمہ ہے۔ پس شکر و تعریف کا حقدار وہی ہے، اور یہ آج اگرچہ ناقابل تسخیر ہے۔ لیکن جب میرے رب کے وعدے کے ظہور کا وقت آ جائے گا، تو وہ اس کو پاش پاش کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ بہر حال سچا اور شدنی ہے۔ اور اس نے اپنے وقت پر بہر حال پورا ہو کر رہنا ہے۔

۱۰۰.  سو عقل اور دل کے جن اندھوں کو دنیا میں قیامت نظر نہیں آرہی تھی، اور وہ وحی کی ہدایت و تعلیم سے اس کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ اس روز اس کو ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ لو اب اس کو تجربہ کی آنکھوں سے دیکھ لو۔ سو یہ قرآن حکیم کا دنیا پر کس قدر عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے غیب کے ان حقائق کو جن کو جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں، اس نے ان کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے تاکہ جنہوں نے وہاں کے ہولناک نتائج اور خوفناک عذاب سے بچنا ہو بچ جائیں۔ قبل اس سے کہ فرصت عمران کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور ان کو ہمیشہ کے لئے پچھتانا اور کف افسوس ملنا پڑ جائے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۰۶.  سو اس سے ان ابنائے دنیا کے غرور و پندار پر ضرب لگائی گئی ہے جو اس دنیائے دوں کے عارضی اور فانی مفادات و ملذّات ہی پر ریجھے ہوئے ہیں۔ اور وہ اسی کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں پس اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آخرت میں سب سے زیادہ خسارے والے اور ناکام و نامراد وہی لوگ ہونگے جنہوں نے اسی دنیا کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور اسی بناء پر ایسے لوگ دنیا ہی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں۔ ان کی تمام ترمساعی کا مدار و محور دنیا اور اس کے مادی اور وقتی مفادات ہی ہوتے ہیں۔ اور اپنے اسی غرور و پندار میں ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیشی اور اس کی ملاقات کا انکار کرتے ہیں۔ اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ وہ سب ٹھیک کر رہے ہیں۔ اور اس بناء پر ایسے لوگ حق و ہدایت سے متعلق کسی دعوت و پکار کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ان پر شقاوت وبد بختی اور دائمی محرومی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ لیکن کل قیامت کے روز جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا روز ہو گا ان کے اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہو گی۔ اور ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ ان کے سب اعمال اکارت چلے گئے، اس بناء پر کہ انہوں نے کفر و انکاری ہی سے کام لیا۔ اور اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑایا، پس جو لوگ آخرت کا انکار کر کے صرف دنیا ہی کے لئے جی رہے ہیں وہ سب سے بڑے اور انتہائی ہولناک خسارے میں ہیں، اسی لئے قرآن حکیم نے دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کو اَخْسَرُوْنَ قرار دیا ہے یعنی سب سے بڑے خسارے والے (ہود۔۲۳ اور نمل۔۵) والعیاذ باللہ العظیم

۱۰۷.  سو اس سے کامیاب اور فائز المرام لوگوں کی نشاندہی بھی فرما دی گئی، اور ان کے صلہ و ثمرہ کو بھی واضح فرما دیا گیا۔ سو کامیاب اور فائز المرام لوگ وہ ہونگے جو ایمان صحیح اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز و مالا مال ہونگے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں، اور ان کے لئے صلہ و ثمرہ یہ ہو گا کہ ان کے لئے فردوس بریں کی ضیافت تیار ہو گی۔ اور اس میں ایسے خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ اور کیفیت وہاں کی یہ ہو گی کہ ان کو وہاں پر کبھی کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہو گی، کہ ان کو وہاں کی وہ نعمتیں بھی برابر ملتی رہیں گی کہ وہاں کی وہ نعمتیں جو لاَ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ کی شان ہونگی، یعنی وہ کبھی ختم نہیں ہونگی، اور وہ ان کو ان کی خواہش کے مطابق ملتی رہیں گی اور ان کے مراتب و درجات بھی وہاں پر ہمیشہ بلند ہوتے رہیں گے۔ اس لئے وہ وہاں پر ان نعمتوں اور ان درجات کو چھوڑ کر اور کہیں جانے کے خواہشمند کبھی نہیں ہونگے، اللہ نصیب فرمائے۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

۱۱۰.  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے رب سے ملاقات اور اس کے حضور پیشی و سرخروئی سے سرفرازی کا دار و مدار دو چیزوں پر ہے، ایک عمل صالح، یعنی وہ عمل جو رب کی رضا و خوشنودی کے لئے اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق ہو۔ یعنی اخلاص اور اتباع پر مبنی ہو۔ ریاء و بدعت کے شوائب سے پاک ہو، اور دوسرا امر یہ کہ اپنے رب کی عبادت و بندگی میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ کیونکہ شرک عمل کو تباہ کرنے والی چیز ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ، اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم و ثابت قدم رکھے۔ آمین ثم آمین۔ وبہٰذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الکہف، والحمد للہ جل وعلا