تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء

(سورۃ الأنبیاء ۔ سورہ نمبر ۲۱ ۔ تعداد آیات ۱۱۲)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔      قریب آ لگا ہے لوگوں سے ان کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے منہ موڑے بیٹھے ہیں ،

۲۔۔۔      جو بھی کوئی نئی نصیحت ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے آتی ہے یہ اسے گرانی ہی سے سنتے ہیں ، اور وہ بھی کھیلتے ہوئے ان کی حالت یہ ہوتی ہے

۳۔۔۔      کہ ان کے دل کہیں اور ہی لگے ہوتے ہیں ، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کی روش کو ہی اپنایا، چپکے چپکے آپس میں سرگوشی کرتے ہیں ، کہ یہ شخص تو ہم ہی جیسا ایک بشر (اور انسان) ہے ، تو کیا تم لوگ پھر بھی دیدہ دانستہ اس جادو (کے پھندے میں پھنسنے ) کو آ رہے ہو؟

۴۔۔۔      پیغمبر نے فرمایا کہ (تم لوگ خواہ چپکے چپکے باتیں کرو یا زور سے کہو) میرا رب بہر حال جانتا ہے ہر بات کو خواہ وہ آسمان کی بلندیوں میں ہو یا زمین کی پستیوں میں اور وہی ہے سب کچھ سننے جاننے والا،

۵۔۔۔     اور ان ظالموں نے صرف جادو کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قرآن تو بس مجموعہ ہے پراگندہ خیالات کا بلکہ اس کو یہ شخص خود ہی گھڑ کے لے آیا ہے بلکہ یہ تو ایک شاعر ہے جس کا کام ہی فرضی اور خیالی باتیں بنانا ہوتا ہے پس اسے چاہیے کہ لے آئے ہمارے پاس ویسی ہی کوئی نشانی جیسی نشانیوں کے ساتھ پہلے کے پیغمبر بھیجے گئے ۔

۶۔۔۔     حالانکہ ان سے پہلے کوئی بھی ایسی بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہو ایمان نہ لائی تھی تو کیا اب یہ لوگ ایمان لے آئیں گے ؟

۷۔۔۔     اور ان کا یہ شبہ کہ رسول انسان نہ ہونا چاہیے اس لئے بھی باطل ہے کہ ہم نے آپ سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم اسی طرح وحی بھیجتے رہے سو تم لوگ پوچھ لو اہل علم سے اگر تم خود نہیں جانتے

۸۔۔۔     (اور ان کا دوسرا شبہ کہ رسول کوئی ایسی نوری مخلوق ہونا چاہیے جو نہ کچھ کھائے نہ پیئے بھی باطل ہے کیونکہ) ہم نے ان رسولوں کے کوئی ایسے مافوق الفطرت اور نوری بدن نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا ہی نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے

۹۔۔۔     پھر یہ بھی دیکھ لو کہ ہم نے ان سے کئے ہوئے اپنے وعدے پورے کر دکھائے سو ہم نے بچا دیا ان کو بھی اور ان سب کو بھی جنہیں ہم نے بچانا چاہا اور ہلاک کر دیا ہم نے حد سے بڑھنے والوں کو

۱۰۔۔۔     بلاشبہ ہم ہی نے اتاری تمہاری طرف اے لوگو! ایک ایسی عظیم الشان کتاب جس میں خود تمہاری نصیحت اور ہدایت کا سامان ہے تو کیا تم لوگ پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۱۱۔۔۔     اور کتنی ہی ظالم بستیاں ایسی تھیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا ان کے ظلم و عدوان کی بناء پر اور اٹھا کھڑا کیا ہم نے ان کے بعد کسی اور قوم کو

۱۲۔۔۔     پھر جب ان لوگوں نے آتا محسوس کیا ہمارے عذاب کو تو وہ فوراً وہاں سے بھاگنے لگے

۱۳۔۔۔      تب ان سے کہا گیا کہ بھاگو مت اور لوٹ جاؤ تم اپنے اس سامان عیش و عشرت کی طرف، جس میں تم لوگ مست و مگن تھے اور اپنے انہی گھروں کی طرف جن کی پختگی و عمدگی پر تم کو بڑا غرور اور ناز تھا شاید تم سے کوئی پوچھ پاچھ ہو

۱۴۔۔۔     تب وہ کہنے لگے ہائے ہماری کم بختی بے شک ہم لوگ ظالم تھے

۱۵۔۔۔     پھر ان کی یہی چیخ و پکار رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایسا نیست و نابود کر کے رکھ دیا جیسے کوئی کٹی ہوئی کھیتی ہو یا بجھے ہوئے انگاروں کا ڈھیر

۱۶۔۔۔     اور ہم نے اس بلند و بالا (عبرتوں بھرے ) آسمان کو اور اس خزانوں اور درسوں بھری زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی اس پوری کائنات کو کچھ کھیل تماشا کے طور پر تو نہیں بنایا

۱۷۔۔۔     اگر ہم کوئی کھیل تماشا بنانا چاہتے بھی تو اپنے یہاں کی کسی اور چیز سے بنا لیتے اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا

۱۸۔۔۔     بلکہ ہم تو حق کی ضرب سے باطل پر ایسی چوٹ لگاتے ہیں کہ وہ اس کا سر کچل کر رکھ دیتی ہے جس سے وہ دفعتاً نابود ہو جاتا ہے اور تمہارے لئے بڑی خرابی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم لوگ حق اور اہل حق کے خلاف از خود بناتے ہو

۱۹۔۔۔      اور اسی کی ہے وہ سب مخلوق جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ سب بھی جو اس کے پاس ہیں یعنی فرشتے ان کا حال یہ ہے کہ وہ نہ تو کبھی اپنی بڑائی کا گھمنڈ کر کے اس کی عبادت سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ہی وہ تھکتے ہیں ،

۲۰۔۔۔     بلکہ وہ شب و روز اس طرح تسبیح کرتے رہتے ہیں کہ دم بھی نہیں لیتے

۲۱۔۔۔     کیا ان لوگوں نے زمین کی مخلوقات میں سے کچھ ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو زندہ کر کے اٹھا سکتے ہوں ؟

۲۲۔۔۔     تو سنو! کہ اگر آسماں و زمین میں اللہ جل جلالہ کے سوا کچھ اور خدا بھی ہوتے جس طرح کہ ان مشرکوں کا کہنا ہے تو ان دونوں یعنی زمین و آسمان کا نظام کبھی کا درہم برہم ہو گیا ہوتا پس اللہ جو کہ مالک ہے عرش کا وہ پاک ہے ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں

۲۳۔۔۔     وہ ایسی بے مثال عظمت والا ہے کہ وہ جو بھی کچھ کرے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا اور باقی سب کی باز پرس کی جا سکتی ہے

۲۴۔۔۔     کیا (باین ہمہ) انہوں نے اس کے سوا اور کوئی معبود بنا رکھے ہیں ؟ اچھا تو ان سے کہو کہ لاؤ تم لوگ اپنی دلیل یہ رہی وہ کتاب جس میں میرے دور کے لوگوں کی نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لئے نصیحت تھی۔ مگر حق کے خلاف کوئی دلیل ملے تو کہاں سے اور کیونکر اس لئے بات یہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت چونکہ حق اور حقیقت کو جانتی نہیں اس لئے وہ اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

۲۵۔۔۔     اور ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر! جو بھی کوئی رسول بھیجا اس کو یہی وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم سب لوگ میری ہی بندگی کرو

۲۶۔۔۔     اور ان کا کہنا ہے کہ خدائے رحمان نے اولاد بنا رکھی ہے وہ پاک ہے اور جن کو یہ خدا کی اولاد کہتے ہیں وہ اولاد نہیں بلکہ وہ تو اس کے ایسے بندے ہیں جن کو عزت بخشی گئی

۲۷۔۔۔     وہ تو اس کے حضور آگے بڑھ کر بات بھی نہیں کر سکتے اور وہ کام بھی اسی کے حکم پر کرتے ہیں

۲۸۔۔۔     اللہ ایک برابر جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ ان کے سامنے ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ ان کے پیچھے ہے اور وہ سفارش بھی نہیں کرتے مگر اسی کے لئے جس کے لئے اللہ پسند فرمائے اور وہ ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں

۲۹۔۔۔     اور جو کوئی ان میں سے بالفرض یہ کہہ دے کہ میں بھی معبود ہوں اس وحدہٗ لا شریک کے سوا تو اس کو ہم جہنم کی سزا دیں گے اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ظالموں کو

۳۰۔۔۔     کیا ان لوگوں نے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے پھر ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا تو کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے

۳۱۔۔۔     اور ہم نے گاڑ دئیے زمین میں طرح طرح کے پہاڑوں کے عظیم الشان لنگر کہ کہیں یہ ڈولنے نہ لگے اپنے اوپر رہنے والے ان لوگوں کو لیکر اور رکھ دئیے ہم نے اس کے اندر طرح طرح کے کشادہ راستے تاکہ یہ لوگ راہ پا سکیں

۳۲۔۔۔     اور ہم نے زمین کے اس عظیم الشان فرش کے لئے آسمان کو ایک عظیم الشان محفوظ چھت بنا دیا مگر یہ لوگ ہیں کہ اس کی ان تمام عظیم الشان نشانیوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں

۳۳۔۔۔     اور وہ اللہ وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا رات و دن اور سورج و چاند کے اس عظیم الشان نظام کو اور اس قدر عمدہ تقدیر اور بہترین انداز کے ساتھ کہ سب اپنے اپنے فلک میں تیرتے جا رہے ہیں

۳۴۔۔۔     اور ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر! کسی بھی انسان کے لئے ہمیشگی نہیں رکھی تو کیا آپ اگر اپنے وقت پر مر گئے تو یہ ہمیشہ رہیں گے

۳۵۔۔۔     موت کا مزہ تو ہر جاندار کو بہر حال چکھنا ہے اور ہم نے دنیا کی یہ چند روزہ زندگی بھی تمہیں اے لوگو! اس لئے دی کہ ہم تمہاری آزمائش کرتے رہیں جانچنے کیلئے برے حالات سے بھی اور اچھے حالات سے بھی اور آخرکار تم نے لوٹ کر بہر حال ہمارے ہی پاس آنا ہے

۳۶۔۔۔     اور جب دیکھتے ہیں آپ کو وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر تو مذاق اڑانے کے سوا ان کا کوئی کام ہی نہیں رہ جاتا کہتے ہیں کہ کیا یہی ہیں وہ صاحب جو تمہارے معبودوں کا نام لینے کی جسارت کرتے ہیں ؟ اور خود ان کا اپنا حال یہ ہے کہ یہ خدائے رحمان کے ذکر کے منکر ہیں

۳۷۔۔۔      انسان کی جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ گویا اس کا خمیر ہی جلد بازی سے بنایا گیا ہے تو اے جلد باز منکرو! میں عنقریب ہی وقت آنے پر تم کو دکھا دوں گا اپنی نشانیاں ، پس تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ۔

۳۸۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ آخر کب پوری ہو گی تمہاری یہ دھمکی اگر تم سچے ہو!

۳۹۔۔۔     اگر کسی طرح جان لیتے کافر لوگ اس ہولناک وقت کو کہ جب یہ دوزخ کی لپکیں مارتی ہوئی اس آگ کو نہ روک سکیں گے نہ اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ہی ان کی کہیں سے کوئی مدد کی جائے گی تو ان کا حال کچھ اور ہی ہوتا

۴۰۔۔۔     اور معاملہ کچھ ان کی فرمائش اور جلد بازی پر موقوف نہیں بلکہ وہ گھڑی تو ان پر اس طرح اچانک آ پہنچے گی کہ ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گی پھر ان کو نہ تو اس کے لوٹا دینے کا یارا ہو گا اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت ہی مل سکے گی

۴۱۔۔۔     اور اے پیغمبر! آپ ان کی ٹھٹھا بازی سے دلگیر نہ ہوں کیونکہ یقینی طور پر آپ سے پہلے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا مگر انجام کار ان میں سے ان لوگوں کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے گھیر لیا اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے

۴۲۔۔۔     اور ان بے انصافوں سے یہ تو پوچھو کہ بھلا کون ہے وہ جو رات اور دن تمہاری حفاظت کرتا ہے خدائے رحمان سے سوائے اسی کی رحمت و عنایت کے ؟ مگر یہ ہیں کہ اس کی احسان مندی و شکر گزاری کے بجائے اپنے رب کی یاد سے منہ موڑے ہوئے ہیں

۴۳۔۔۔     کیا ان لوگوں کے اور کچھ ایسے معبود ہیں ہمارے سوا جو ان کو بچائیں گے ہماری گرفت پکڑ سے ؟ اور بے چارے ان کو کیا بچائیں گے وہ تو خود اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کو ہماری طرف سے کوئی تائید مل سکتی ہے

۴۴۔۔۔     ان میں سے کوئی وجہ بھی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم زندگی کا سازو سامان دیتے رہے ان لوگوں کو بھی اور ان کے باپ دادا کو بھی اپنی رحمت و عنایت سے یہاں تک کہ ان پر ایک زمانہ گزر گیا اور یہ مست ہو گئے مگر کیا انہیں یہ نظر نہیں آ رہا کہ ہم کم کرتے چلے رہے زمین کو اس کی مختلف سمتوں سے تو کیا یہ لوگ پھر بھی غالب آ جائیں گے حق کے مقابلے میں ؟

۴۵۔۔۔     ان سے صاف کہہ دو کہ میرا کام تو بس یہ ہے کہ میں تم کو خبردار کر دوں تمہارے انجام سے وحی کی روشنی کے ساتھ مگر بہرے پکار کو نہیں سنا کرتے جب کہ ان کو خبردار کیا جائے مخالفت و خطرات سے

۴۶۔۔۔     ان کی بڑکیں تو یہ ہیں مگر ان کی بلند ہمتی کا حال یہ ہے کہ اگر ان کو تیرے رب کے عذاب کا ایک جھونکا بھی چھو جائے تو یہ چیخ اٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی بے شک ہم لوگ ظالم تھے

۴۷۔۔۔     اور ہم قیامت کے روز انصاف کے ایسے ترازو رکھیں گے کہ کسی بھی جان پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں ہونے پائے گا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا کوئی عمل ہو گا تو ہم اس کو بھی لا حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب لگانے والے ۔

۴۸۔۔۔     اور بلاشبہ ہم اس سے پہلے موسیٰ اور ہارون کو بھی حق اور باطل کے درمیان فیصلے کا وہ سامان دے چکے ہیں اور ایک عظیم الشان روشنی اور نصیحت بھی ان پرہیزگار لوگوں کے لئے

۴۹۔۔۔     جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے اور ان کو کھٹکا لگا رہتا ہے قیامت کی اس ہولناک گھڑی کا

۵۰۔۔۔     اور یہ قرآن برکتوں بھرا ایک عظیم الشان ذکر ہے جسے ہم نے ہی اتارا ہے کیا پھر بھی تم لوگ اس کا انکار ہی کرتے ہو؟

۵۱۔۔۔     اور اس زمانہ موسوی سے پہلے ابراہیم کو بھی اس کی شان کے مطابق ہوش مندری عطا کر چکے تھے اور ہم اس کو خوب جانتے تھے

۵۲۔۔۔     ان کا وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب انہوں نے کفر و شرک کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اپنے مشرک باپ اور اس کی مشرک قوم سے کہا کہ کیا ہیں یہ بے جان مورتیاں جن کی پوچا و پرستش پر تم جمے بیٹھے ہو؟

۵۳۔۔۔     تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوچا کرتے پایا تو ہم بھی اس میں لگ گئے

۵۴۔۔۔     فرمایا کہ یقیناً تم لوگ ایک کھلی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہو تم بھی اور تمہارے یہ باپ دادا بھی

۵۵۔۔۔     (اس اعلان حق پر وہ لوگ تعجب میں ڈوب کر بولے ) ابراہیم کیا تم سچ مچ یہ بات کہہ رہے ہو یا یوں ہی دل لگی کرنا مقصود ہے ؟

۵۶۔۔۔     فرمایا دل لگی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم سب کا رب وہی ہے جو کہ رب ہے آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا جس نے پیدا فرمایا ہے ان سب کو اور میں ڈنکے کی چوٹ پر تمہارے سامنے اس بات کی گواہی دیتا ہوں

۵۷۔۔۔     اور اللہ کی قسم میں ضرور بالضرور خبر لے کر رہوں گا تمہارے ان بتوں کی اس کے بعد تم لوگ ان سے جا چکے ہو گے پیٹھ پھیر کر

۵۸۔۔۔     چنانچہ موقع ملتے ہی ابراہیم نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ان سب کو سوائے ان کے ایک بڑے کے کہ اسے چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں

۵۹۔۔۔     میلے سے واپسی پر جب انہوں نے اپنے ان ٹھاکروں کی یہ درگت دیکھی تو انہوں نے کہا ہائے ہمارے ان خداؤں کا یہ حشر کس نے کیا ہے ؟ واقعی وہ بڑا ہی کوئی ظالم شخص ہے

۶۰۔۔۔      ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کے بارے میں جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے ، یہ سنا ہے کہ وہ ان کی برائی کرتا رہتا ہے

۶۱۔۔۔     کہنے لگے فوراً پکڑ لاؤ اسے ان سب لوگوں کے سامنے تاکہ یہ سب دیکھ لیں اس کے اس حشر اور انجام کو

۶۲۔۔۔     لانے کے بعد انہوں نے پوچھا ابراہیم کیا تم نے ہی ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی؟

۶۳۔۔۔     فرمایا تم یہ کیوں نہیں فرض کرتے کہ میں نے نہیں بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے گرو نے کی ہو تم خود ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ؟

۶۴۔۔۔     اس پر وہ پلٹے اپنے ضمیروں کی طرف اور اپنے دلوں میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ خود ہی ظالم ہو

۶۵۔۔۔     پھر مارے ندامت کے وہ اوندھے ہو گئے اپنے سروں کو جھکا کر اور کھسیانے ہو کر ابراہیم سے کہنے لگے کہ تم خود اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بول نہیں سکتے

۶۶۔۔۔     ابراہیم علیہ السلام نے کہا تو کیا تم لوگ اللہ کے سوا ان چیزوں کی پوجا کرتے ہو جو نہ تو تمہیں کچھ نفع دے سکیں اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں ؟

۶۷۔۔۔     تف ہے تم پر بھی اور تمہارے ان معبودوں پر بھی جن کی پوجا تم لوگ کرتے ہو اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا کیا تم لوگ کام نہیں لیتے اپنی عقلوں سے ؟

۶۸۔۔۔     انہوں نے کہا جلا ڈالو اس شخص کو اور مدد کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے

۶۹۔۔۔     تب ہم نے حکم کر دیا (چیخا میں جلتی اس آگ کو) کہ اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بن جا ابراہیم پر۔

۷۰۔۔۔     ان لوگوں نے تو ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک بڑی برائی کرنا چاہی تھی مگر ہم نے خود انہی کو سب سے بڑا ناکام بنا دیا

۷۱۔۔۔     اور بچا کر نکال لائے ہم اس کو بھی اور لوط کو بھی اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے طرح طرح کی برکتیں رکھی ہیں دنیا والوں کے لئے

۷۲۔۔۔     اور ہم نے اسے اسحاق علیہ السلام جیسا بیٹا بھی بخشا اور یعقوب جیسا پوتا بھی انعام مزید کے طور پر اور ان سب کو ہم نے اعلیٰ درجے کا نیک بخت بنایا تھا

۷۳۔۔۔     اور ہم نے ان کو ایسا امام بنایا تھا جو لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے ہمارے حکم سے اور ہم نے ان کو وحی کے ذریعے ہدایت کی تھی نیک کام کرنے کی اور خاص کر نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی اور وہ سب ہماری ہی عبادت کیا کرتے تھے

۷۴۔۔۔     اور لوط کو بھی ہم نے نوازا تھا حکم اور علم کی دولت سے اور ہم نے ان کو بچا نکالا تھا اس بستی سے جو گندے کام کرتی تھی بلاشبہ وہ بڑے برے اور بد کردار لوگ تھے

۷۵۔۔۔     اور ان کو بھی داخل کر دیا تھا ہم نے اپنی خاص رحمت و عنایت کے دائرہ میں کہ وہ بھی یقینی طور پر اعلیٰ درجے کے نیکوکار لوگوں میں سے تھے

۷۶۔۔۔     اور نوح کو بھی ہم نے اسی نعمت سے نوازا اور ان کے سلسلہ میں وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب انہوں نے بھی اس سے پہلے ہم ہی کو پکارا اپنی حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے تو ہم نے سن لیا ان کی پکار کو اور نجات دے دی ہم نے ان کو بھی اور ان کو ماننے والوں کو بھی اس بری گھبراہٹ سے

۷۷۔۔۔     اور ہم نے ان کی مدد کی اس ناہنجار قوم کے مقابلے میں جو جھٹلاتی تھی ہماری آیتوں کو بے شک وہ بڑے ہی برے لوگ تھے سو ہم نے غرق کر دیا ان سب کو اکٹھا اور یکجا طور پر

۷۸۔۔۔     اور داؤد و سلیمان علیہما السلام کو بھی ہم نے اسی نعمت سے سرفراز فرما دیا تھا ان کے بارے میں بھی وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے کہ جب وہ دونوں فیصلہ کر رہے تھے ایک کھیت کے بارے میں جب کہ رات کے وقت اس میں جا پڑی تھیں کچھ لوگوں کی بکریاں اور ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے

۷۹۔۔۔     پھر ہم نے اس سے متعلق بہتر فیصلہ سجھا دیا سلیمان کو اور یوں حکمت اور علم کی دولت بے مثال سے ہم نے ان دونوں ہی کو نواز رکھا تھا اور داؤد علیہ السلام کے ساتھ ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے

۸۰۔۔۔     اور ہم نے ان کو تمہارے لئے ایک خاص لباس زرہ کی صنعت بھی سکھا دی تھی تاکہ وہ تمہیں لڑائی میں ایک دوسرے کی زد سے بچا سکے تو کیا تم لوگ شکر گزار بنتے ہو؟

۸۱۔۔۔     اور سلیمان کے لئے ہم نے زور کی ہوا کو بھی مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم کے مطابق چلتی تھی اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے طرح طرح کی برکتیں رکھی تھیں اور ہم ہر چیز کو پوری طرح جاننے والے ہیں اس لئے ہم نے جس کو جو دیا ٹھیک ہی دیا

۸۲۔۔۔     اور شیطانوں یعنی جنوں میں سے بھی ہم نے بہت سے ایسوں کو ان کے تابع کر دیا تھا جو ان کے لئے غوطے لگاتے اور وہ اس کے علاوہ اور بھی کئی کام کرتے تھے اور ان کے سنبھالنے والے بھی ہم ہی تھے

۸۳۔۔۔      اور ایوب کو بھی یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے روگ لگ گیا ہے اور تو ہی اے میرے مالک! سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے ،

۸۴۔۔۔     ہم نے سن لیا اس کی پکار کو اور دور کر دیا ان سے اس تکلیف کو جو ان کو لاحق تھی اور مزید کرم یہ کیا کہ ہم نے ان کو ان کے گھر والے بھی دے دئیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی محض اپنی رحمت سے اور عبادت گزاروں کے لئے ایک عظیم الشان نصیحت کے طور پر

۸۵۔۔۔      اور اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد کرو کہ یہ سب بھی صبر و استقامت والے لوگ تھے

۸۶۔۔۔     اور ہم نے ان کو بھی داخل فرمایا تھا اپنی خاص رحمت و عنایت میں یہ سب بھی یقینی طور پر کمال صلاحیت والوں میں سے تھے

۸۷۔۔۔      اور مچھلی والے یعنی حضرت یونس کو بھی جب کہ وہ اپنی قوم سے خفا ہو کر چلے گئے تھے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم ان پر کوئی دارو گیر نہ کریں گے پھر انہوں نے تہ در تہ اندھیروں میں پکارا کہ اے میرے رب تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ہر نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک سے بے شک میں ہی ہوں قصور واروں میں سے

۸۸۔۔۔     تب ہم نے قبول کر لیا ان کی دعا کو اور نجات دے دی ہم نے ان کو اس غم سے اور ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں ایمان والوں کو

۸۹۔۔۔     اور زکریا کو بھی یاد کرو کہ جب انہوں نے پکارا اپنے رب کو کہ اے میرے پروردگار مجھے لا وارث نہ رکھیو اور یوں سب سے اچھے اور حقیقی وارث تو آپ ہی ہیں

۹۰۔۔۔     سو ہم نے ان کی دعاء بھی قبول کر لی اور ان کو یحیی جیسا بیٹا بھی عطا کیا اور ان کی خاطر ان کی بیوی کو بھی ہم نے اولاد کے قابل بنا دیا بلاشبہ یہ مذکورہ بالا سب حضرات لپک لپک کر نیک کام کرتے تھے اور یہ سب ہم ہی کو پکارا کرتے تھے رغبت اور خوف کے ساتھ اور یہ سب ہمارے حضور ہی جھکے رہتے تھے صدق و اخلاص کے ساتھ۔

۹۱۔۔۔     اور انفرادی شان رکھنے والی اس پاک دامن خاتون کو بھی یاد کرو جس نے محفوظ رکھا تھا اپنی عصمت و ناموس کو پھر ہم نے اس کے اندر بواسطہ جبرائیل پھونک مار دی اپنی روح سے اور ہم نے بنا دیا اس کو اور اس کے بیٹے کو ایک عظیم الشان نشانی سب دنیا والوں کے لئے

۹۲۔۔۔     بے شک یہ امت ہے تم سب کی ایک ہی امت اور میں رب ہوں تم سب کا پس تم سب لوگ میری ہی بندگی کرو

۹۳۔۔۔     مگر اس ٹھوس حقیقت کے برعکس لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا آپس میں اپنے دین کو اور وہ اپنے کئے کا بدلہ پا کر رہیں گے کیونکہ سب نے بہر حال لوٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے

۹۴۔۔۔     پس جو کوئی نیک کام کرتا رہے گا جب کہ وہ مومن بھی ہو گا تو اس کی محنت کی کوئی ناقدری نہ ہو گی اور ہم یقینی طور پر اس کے لئے لکھتے جا رہے ہیں

۹۵۔۔۔     اور جس کسی بستی والوں کو بھی ہم فنا کے گھاٹ اتار دیں ان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئیں

۹۶۔۔۔     یہاں تک کہ جب وہ وقت موعود آ پہنچے جس کا ابتدائی سامان یہ ہو گا کہ یاجوج ماجوج کھول دئیے جائیں گے اور وہ اپنی خوفناک کثرت کے سبب ہر بلندی سے امڈے چلے آ رہے ہوں گے

۹۷۔۔۔     اور اپنے رب کی طرف لوٹنے کا وہ سچا وعدہ نزدیک آن پہنچے گا جس کا ذکر ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے پھر یکایک یہ حالت ہو جائے گی کہ ان لوگوں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی جو اڑے ہوئے تھے اپنے کفر و باطل پر اور وہ یوں پکار رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہم تو اس ہولناک دن سے بالکل غفلت میں رہے بلکہ ہم تو خود ہی اپنی جانوں پر ستم ڈھانے والے تھے

۹۸۔۔۔     بلاشبہ تم بھی اور تمہارے وہ سب معبود بھی جن کی پوجا تم لوگ کرتے ہو اللہ کے سوا سب کے سب ایندھن ہوں گے جہنم کی دہکتی بھڑکتی آگ کے تم سب کو بہر حال اس میں داخل ہونا ہو گا۔

۹۹۔۔۔     اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں کبھی نہ جاتے اور بات صرف داخل ہونے ہی کی نہیں بلکہ ان سب کو اس میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا

۱۰۰۔۔۔     ان کی وہاں چیخیں ہی چیخیں ہوں گی اور وہاں یہ لوگ کچھ سننے بھی نہ پائیں گے

۱۰۱۔۔۔     رہے وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہو گا تو وہ یقینی طور پر اس سے دور رکھے جائیں گے

۱۰۲۔۔۔     اور اتنے دور کہ وہ اس کی سرسراہٹ تک کو بھی نہ سنیں گے اور وہ لوگ ہمیشہ اپنی من بھائی نعمتوں میں سدا خوش و خرم رہیں گے

۱۰۳۔۔۔     ان کو قیام کی اس بری گھبراہٹ سے بھی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی فرشتے جنت کے دروازوں پر آگے بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کر رہے ہوں گے اور ان سے کہہ رہے ہوں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا

۱۰۴۔۔۔     اور وہ دن بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ کر رکھ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضامین کا کاغذ لپیٹ دیا جاتا ہے جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کرنے کی ابتداء کی تھی اس طرح بغیر کسی دقت و دشواری کے ہم اس کو دوبارہ بھی پیدا کر دیں گے یہ ہمارے ذمے ایک وعدہ ہے جسے ہم نے بہر حال پورا کرنا ہے

۱۰۵۔۔۔     اور یقیناً ہم نے لکھ دیا زبور میں ذکر کے بعد کہ بلاشبہ اس زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے

۱۰۶۔۔۔     بلاشبہ اس میں ایک بڑا پیغام ہے عبادت گزاروں کے لئے

۱۰۷۔۔۔     اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو اے پیغمبر مگر ایک عظیم الشان رحمت کے طور پر سب جہانوں کے لئے

۱۰۸۔۔۔     کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے اے لوگو! تو کیا تم لوگ اس کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہو؟

۱۰۹۔۔۔     پھر بھی اگر یہ لوگ اے پیغمبر! راہ حق و صداقت سے منہ موڑے ہی رہے تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تو تم کو علی الاعلان اور ایک برابر خبردار کر دیا ہے اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ چیز دور ہے یا قریب جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے

۱۱۰۔۔۔     وہ خوب جانتا ہے اس بات کو بھی جو تم پکار کر کہتے ہو اور اسے وہ بھی پوری طرح معلوم ہے جس کو تم لوگ چھپا کر رکھتے ہو

۱۱۱۔۔۔     اور میں نہیں جانتا کہ یہ تاخیر عذاب تمہارے لئے ایک آزمائش ہے یا چند روزہ زندگی کا سامان ہے ایک وقت مقرر تک

۱۱۲۔۔۔     آخر کار! پیغمبر نے کہا اے میرے رب فیصلہ فرما دے حق کے ساتھ ہمارا رب جو بڑا ہی مہربان ہے اسی سے مدد مانگی جاتی ہے ان باتوں کے مقابلے میں جو تم لوگ بناتے ہو۔

تفسیر

 

۱.      سو اس میں آخرت اور قیامت کے بارے میں غفلت و لاپرواہی برتنے والوں کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے کہ قیامت کا وہ یوم حساب لوگوں کے قریب آ گیا ہے مگر یہ ہیں کہ اس سے غفلت و لاپرواہی برت رہے ہیں۔ اور اس کے لئے تیاری نہیں کرتے، جبکہ فرصت عمل ان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے اور یہ ایسا خسارہ ہے کہ پھر اس کی تلافی و تدارک کی بھی کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی۔ سو خدائے رحمان کی ان رحمتوں بھری تنبیہات کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اس یوم حساب کو اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۳.      سو اعجوبہ پرست لوگوں کی یہ غلط فہمی ہمیشہ رہی کہ ایسے لوگوں کے نزدیک نبوت اور بشریت کے درمیان منافات ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ دونوں وصف یکجا نہیں ہو سکتے۔ پس ان کے نزدیک ایسے نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص بشر بھی ہو، اور رسول بھی، اسی لئے کل کے ان منکروں نے حضرات انبیاء کرام کی بشریت طاہرہ کو دیکھتے ہوئے ان کی نبوت و رسالت کا انکار کیا، جبکہ آج کے اعجوبہ پرستوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم ان کو نبی و رسول مانتے ہیں لہٰذا وہ بشر نہیں، غلط فہمی دونوں کی ایک ہی ہے، کہ ایسے لوگوں کے نزدیک ایک شخص بیک وقت نبی اور بشر نہیں ہو سکتا۔ کہ ان دونوں وصفوں کے درمیان انکے نزدیک تضاد اور منافات ہے، حالانکہ حقیقت نفس الامری اور امر واقع یہ ہے کہ پیغمبر بیک وقت نبی و رسول بھی ہوتے ہیں، اور بشر اور انسان بھی۔ اور یہی تقاضا ہے عقل اور نقل دونوں کا اور اسی کا اعلان و اقرار ہر مسلمان اپنے کلمہ شہادت میں عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، کے الفاظ سے کرتا ہے۔ بہر کیف اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ ظالم اور منکر لوگوں نے آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص تو تم ہی لوگوں جیسا ایک بشر اور انسان ہے، تو کیا پھر بھی تم لوگ دیدہ و دانستہ اور دیکھتے سنتے اس جادو کے جال میں پھنسنے کو آ رہے ہو؟ والعیاذُ باللہ العظیم، یعنی تم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے اور ان کو رسول نہیں ماننا چاہیے۔

۴.      یعنی رسول نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق ان لوگوں سے کہا کہ تمہاری سرگوشیوں اور کانا پھوسیوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری سب باتوں کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے، اس سے تمہاری کوئی بھی بات اور کوئی بھی حالت اور کیفیت کسی بھی طرح مخفی اور مستور نہیں رہ سکتی، کہ اس کے کمال علم کی شان یہ ہے کہ وہ ہر بات کو ایک برابر جانتا ہے خواہ وہ آسمان کی بلندیوں میں ہو، یا زمین کی پستیوں میں، اور وہی وحدہٗ لاشریک ہے جو ہر کسی کی سنتا اور ہر بات کو پوری طرح جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔ اور وہی معبود برحق ہر قسم کی عبادت وبندگی کا حقدار ہے

۶.      استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان لوگوں نے بہر حال ایمان نہیں لانا۔ کہ یہ ضدی اور عنادی ہیں، اور ضد و عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ ان کو خواہ کتنی اور کیسی ہی نشانیاں دکھا دی جائیں، انہوں نے بہر حال ایمان نہیں لانا۔ جس کا تاریخی ثبوت اور کھلا مظہر یہ ہے کہ ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ایسی گزری ہیں جن کے پاس ان کے رسول طرح طرح کے عظیم الشان معجزات لے کر آئے، مگر ان لوگوں نے نہ مانا، اور وہ نور حق و ہدایت سے محروم ہی رہے۔ سو بات معجزات اور نشانیوں کی نہیں، بلکہ صدق نیت اور طلب صادق کی ہے، جس سے ایسے ہٹ دھرم لوگ محروم ہوتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، پس انسان کے صلاح و فساد اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید،

۷.      سو اس سے منکرین اور اعجوبہ پرست لوگوں کے شبہے کا جواب دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس قول کا ذکر اس طرح فرمایا گیا وَقَالُوْا مَالِہٰذَا الرَّسُوْلَ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاق الایۃ۔ سو اس سے ایسے لوگوں کے اسطرح کے سوال واعتراض کا جواب دیا گیا کہ ہمارا دستور، اور ہمارا طریقہ ہمیشہ یہی رہا کہ ہم نے رسولوں کو کوئی ایسے جسم نہیں بنایا تھا جو کھاتے پیتے نہ ہوں اور وہ بشری عوارض اور تقاضوں سے مبرّا ہوں، بلکہ وہ سب ہی بشر، اور بشری تقاضوں والے تھے، نہ وہ کسی طرح کے مافوق البشر ہستیاں تھے، اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی خدائی صفت ان کے اندر موجود تھی۔ اور بشر کی ہدایت کے لئے ایسوں ہی کو رسول بنا کر بھیجنا تقاضائے عقل و نقل، اور مقتضائے دین و فطرت ہے، تاکہ وہ دنیا کے سامنے عملی طور پر اپنا اسوہ اور نمونہ پیش کر سکیں، اور دنیا والے زندگی کے ہر دائرے میں انکی اتباع اور پیروی کر سکیں۔ نیز یہ کہ وہ ہمیشہ رہنے والے نہیں تھے۔ بلکہ موت ان پر بھی آتی ہے، اور ان پر موت کا طاری ہونا بھی تقاضائے فطرت ہے، پس منکرین کے لئے پیغمبر کی موت میں نہ کوئی خوشی کا مقام ہے اور نہ اس میں کسی طرح کے اچنبھے کی کوئی گنجائش، کہ موت ہر کسی پر آنی ہے، اور بہر حال اور بہر کیف آنی ہے۔ خلود و دوام تو اس دنیا میں کسی کے لئے بھی نہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ (الانبیاء۔ ۳۴) یعنی ہم نے آپ سے پہلے (اے پیغمبر!) کسی بھی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں رکھی۔ تو کیا اگر آپ پر موت آ گئی، تو انہوں نے کوئی ہمیشہ کے لئے رہنا ہے؟ جب نہیں، اور یقیناً نہیں تو پھر ان کے لئے آپ کی موت میں کسی خوشی کا آخر کیا مقام ہو سکتا ہے؟

۱۰.    یعنی یہ کتاب ہدایت جس سے ہم نے تم لوگوں کو نوازا ہے یہ تمہارے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ یہ تم لوگوں کو دین و دنیا اور معاش و معاد کی صلاح و فلاح کی راہیں بتاتی ہے، نیز یہ تم لوگوں کے لئے بڑی ہی عزت اور شرف کا ذریعہ و وسیلہ ہے، سو ایسی عظیم الشان اور بے مثال نعمت کی بے قدری و ناشکری کتنا ظلم اور کس قدر بڑی محرومی ہے؟ کیا تمہیں اس کا بھگتان نہیں بھگتنا ہو گا؟ اور کیا تم لوگ اس کی پاداش سے دو چار نہیں ہو گے؟ کیا تم لوگ اتنی بھی عقل نہیں رکھتے؟ اور اتنی واضح حقیقت کو بھی نہیں سمجھتے؟ کہ خود اپنے ہی نفع و نقصان کو سمجھ سکو؟ یعنی تم کو عقل و فکر سے کام لینا چاہیئے، اور اپنے نفع و نقصان کے تقاضوں سے تو آگاہ ہونا چاہیئے۔

۱۵.    سو کفر و انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، ایسوں کو جتنی بھی ڈھیل ملے، وہ بہر حال ڈھیل ہی ہوتی ہے، جس نے آخرکار اپنے وقت پر بہر حال ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے۔ پس بڑے ہی خسارے اور محرومی میں ہیں وہ لوگ جو اس ڈھیل کو کھلی چھٹی سمجھ کر غفلت کی چادر تان لیتے ہیں، اور نچنت اور بے فکر ہو جاتے ہیں، ایسے لوگ اپنے انجام سے دوچار ہونے کے بعد چیخ چیخ کر اپنے قصور کا اعتراف کرتے، اور ایمان لانے کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن بے وقت کے اس ایمان کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہوتا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، کیونکہ ان کا وہ ایمان ایمان بالمشاہدہ ہوتا ہے، جو کہ نہ مطلوب ہوتا ہے اور نہ مفید، مطلوب و مفید ایمان وہ ہوتا ہے جو بن دیکھے اور ایمان بالغیب کے طور پر لایا جائے۔

۱۷.    کہ تمہاری یہ باتیں جو تم لوگ از خود اپنے طور پر بناتے ہو۔ تمہاری اس ہولناک محرومی کا باعث ہیں، اور حق سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور باعث ہلاکت و تباہی ہے، اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ یہی اور صرف یہی ہے کہ انسان صدق و اخلاص سے حق کو قبول کرے اور اس کے آگے جھک جائے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۲۰.    سو ان دونوں آیات کریمات سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، کہ اس سب کا خالق و مالک بھی وہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے پس معبود برحق بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے اور دوسری اہم حقیقت ان دونوں آیتوں سے یہ واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں خاص مرتبہ اور قرب رکھنے والے فرشتے ہمیشہ اس کی عبادت و بندگی میں مشغول و منہمک رہتے ہیں نہ وہ کبھی تھکتے ہیں اور نہ دم لیتے ہیں۔ اور وہ استکبار کے جملہ شوائب سے پاک اور محفوظ ہیں، جس سے ایک طرف تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں اشتغال و انہماک اور کبر و غرور اور اعراض و استکبار سے بعد و اجتناب ملائکہ کی صفت و شان ہے، اس لئے بندوں کو بھی ان عمدہ خصال کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے، اور دوسری طرف اس سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی عبادت و بندگی کی کوئی حاجت و ضرورت نہیں، کہ اس کے فرشتے ہر وقت اس کی عبادت و بندگی میں مشغول و منہمک رہتے ہیں پس وہ اپنے بندوں کو جو عبادت و بندگی کا حکم و ارشاد فرماتا ہے تو وہ خود ان ہی کے بھلے اور فائدے فرماتا ہوتا ہے، کہ اس سے انکی دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح وابستہ ہوتی ہے، اور یہی تقاضا ہوتا ہے ان کی عبدیت اور بندگی کا۔ اللہ نصیب فرمائے، اور ایسا اور اس حد تک نصیب فرمائے کہ وہ ہم سے راضی ہو جائے، ہمیشہ راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۲۲.    سو آسمان و زمین کی اس کائنات کا یہ پُر حکمت اور مستحکم نظام اپنی زبان حال سے اپنے خالق و مالک کی عظمت شان، اور اس کی وحدانیت و یکتائی، کا اعلان کر رہا ہے۔ کیونکہ اگر اس میں دو خداؤں کی کار فرمائی ہوتی تو زمین و آسمان کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہو گیا ہوتا۔ اور جب ایسا نہیں، بلکہ ان دونوں کا یہ عظیم الشان اور پر حکمت نظام نہایت نظم و ضبط اور پوری پابندی واستحکام کے ساتھ چل رہا ہے، تو یہ اس کا کھلا ثبوت اور واضح برہاں ہے کہ زمین و آسمان کی اس پوری کائنات میں ایک ہی ارادہ کار فرما ہے، اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک کا ارادہ جو کہ معبود برحق ہے، اس کے اس ارادہ میں کوئی بھی اس کا شریک وسہیم نہیں نہ اس کائنات کی تخلیق و تکوین میں اور نہ اس کے حکم و تصرف میں، وہ ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے۔ پس وہی وحدہٗ لاشریک ہر قسم کی عبادت و بندگی کا حقدار ہے۔ اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے سبحانہ و تعالیٰ، اس میں کسی بھی اور ہستی کو کسی بھی طرح اور کسی بھی اعتبار سے اس کا شریک ماننا ظلم عظیم ہے، والعیاذ باللہ العظیم،

۲۷.    مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ بیٹی چونکہ باپ کو پیاری اور لاڈلی ہوتی ہے۔ باپ اس کی بات کو رد نہیں کرتا۔ اس لئے وہ باپ سے جو چاہے منوا لے۔ لہٰذا ہم فرشتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں، اور انہی کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سفارش کر کے ہماری بخشش کرا دیں گے ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے یہ تمام باتیں چونکہ ان کے خود ساختہ مفروضوں پر مبنی تھیں۔ ان کی کوئی اساس نہ تھی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے قرآن حکیم نے انکی جا بجا اور طرح طرح سے تردید کی ہے۔ یہاں بھی ان کے اس مشرکانہ تصور کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمان نے اولاد ٹھہرائی ہے۔ لیکن وہ وحدہٗ لاشریک ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے فرشتے اس کی اولاد نہیں بلکہ اس کے معزز بندے ہیں اور اس وحدہٗ لاشریک کی خدائی میں شریک ہونا تو درکنار وہ اس کے حضور آگے بڑھ کر کوئی بات بھی نہیں کر سکتے۔ اور وہ اس کے حکم و ارشاد کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ تو پھر ان کے خدا کی خدائی میں شریک ہونے کا کیا سوال؟

۳۰.    رتق یعنی بند ہونے کے اندر دو مفہوم پائے جاتے ہیں، اور یہ لفظ ان دونوں پر حاوی و مشتمل ہے ایک یہ کہ زمین و آسمان دونوں باہم ملے ہوئے اور ایک ہی کُرے کی شکل میں تھے، پھر حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان کو الگ کر دیا۔ جیسا کہ آج کل کی سائنس کا کہنا ماننا ہے جبکہ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آسمان اور زمین دونوں ایسے بند تھے کہ نہ آسمان سے بارش برستی تھی، اور نہ زمین کے اندر پانی جاتا تھا۔ اس کے مسام بند تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ سے، اپنی مخلوق کے بھلے اور فائدے کے لئے ان دونوں کے مسام کھول دیئے، اور اس نے آسمان سے پانی برسایا۔ اور زمین کے مسام کھول دیئے تاکہ پانی اس کے اندر جذب ہو سکے۔ اور اس کے نتیجے میں اس سے طرح طرح کی پیداوریں نکلیں، بندوں کا بھلا ہو، اور عباد و بلاد کی آبادی و رونق کا سامان ہو۔ سو یہ سب کچھ اس نے محض اپنی رحمت و عنایت سے کیا اور اس میں اور کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ اور نہ ہو سکتا ہے، تو پھر اس کے حق عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ،

۳۱.    یعنی اس سے لوگوں کو ایک سے دوسرے مقام تک جانے اور پہنچنے کے راستے مل سکیں۔ اور وہ زندگی کی مختلف ضروریات اور حاجات کی تکمیل کا سامان کر سکیں۔ چنانچہ وہ قدرت کی ان عنایات سے دن رات مستفید و فیض یاب ہوتے ہیں، اور طرح طرح سے ہوتے ہیں، نیز اسی سے وہ اس حقیقت تک رسائی کا راستہ پا سکیں کہ یہ عظیم الشان اور پُر حکمت نظام آخر کس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے؟ اور اس کا ہم پر کیا حق عائد ہوتا ہے؟ نیز اسی سے وہ اس اہم اور بنیادی حقیقت تک رسائی اور اس کی راہنمائی حاصل کر سکیں کہ جس ذات اقدس واعلیٰ نے ان کی دنیاوی، اور مادی ضرورتوں کی تحصیل و تکمیل کے لئے اس قدر حکمتوں بھرا نظام قائم فرمایا ہے، کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ انکی روحانی اور معنوی ضرورتوں کی تحصیل و تکمیل کا سامان نہ کرے، جبکہ انسان کے اندر اصل چیز روح ہی ہے؟ سو اس رب رحمان نے اپنی رحمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے وحی کا سلسلہ قائم فرمایا جس کا نقطہ کمال اب قرآن حکیم کی صورت میں دنیا کو عطا فرمایا گیا ہے، اور جو اب قیامت تک تمام بنی نوع انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کرتا رہے گا۔ فالحمد للہ رب العالمین الذی منہ الصدق والصواب، والیہ المرجع والماب،

۳۴.    منکرین و مکذبین کا کہنا تھا نَتَرَبَّصُ بِہٖ رَیَبَ الْمَنُوْنِ۔ یعنی ہم اس پیغمبر کے بارہ میں حادثہ موت کا انتظار کرتے ہیں، کہ یہ مر جائیں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی، سو ایسے بدبختوں کے جواب میں اور ان کی تردید کے لئے اس حقیقت کو ذکر و بیان فرمایا گیا کہ موت تو بہر حال ایک ایسی قطعی حقیقت ہے جس سے کسی کے لئے بھی گریز و فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کیونکہ اس دنیا میں جو بھی آیا اس نے بہر حال یہاں سے جانا ہے۔ اللہ کے پیغمبر بھی اس ضابطہ اور کلیہ سے مستثنیٰ نہیں لیکن اس سے ان منکرین و مکذبین کے لئے خوشی کا آخر کیا مقام ہے؟ کیا انہوں نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے؟ اور یہاں سے کوچ نہیں کرنا؟ اور جب انہوں نے بھی مرنا، اور یہاں سے کوچ کرنا ہے، اور بہر حال اور یقیناً کرنا ہے، تو پھر پیغمبر کی موت میں ان کے لئے خوشی کا آخر کیا مقام ہو سکتا ہے؟ پس فکر و کوشش اس امر کی ہونی چاہیے کہ موت حق پر اور حق کے ساتھ ہو۔ تاکہ دنیا کے بعد اس ابدی جہاں کی کامیابی نصیب ہو سکے، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے اور جس کی زندگی حقیقی اور ابدی ہے کہ ایسی صورت میں موت بھی اس اَبَدی اور حقیقی کامیابی کا وسیلہ اور ابدی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ہے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال

۳۷.    سو عجلت وجلد بازی انسان کے ضمیر و خمیر میں داخل ہے اسی لئے وہ ہر کام کے بارے میں اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کے بارے میں بھی عجلت و جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ اور جس عذاب سے اس کو خبردار کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی یہ انسان کہتا ہے کہ بھلا وہ کب آئے گا؟ اور کیوں نہیں آتا؟ وغیرہ وغیرہ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پیمانے اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں اتنے اور اس قدر کہ انسان کے وہم و گمان کی بھی وہاں تک رسائی نہیں ہو سکتی، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس سے متعلق اس طرح تصریح فرمائی گئی وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ یعنی تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے سو ہزار برس کی مدت تمہارے یہاں تو بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے رب کے یہاں وہ صرف ایک دن کے برابر ہے، اور یہ بھی محض سمجھانے کے لئے اور تقریب الی الافہام کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے، ورنہ اصل حقیقت اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے عذاب کے لئے جلدی مچانے کے بجائے، اس سے ڈرنے اور بچنے کی فکر و کوشش کی جائے قبل اس سے کہ فرصت عمل ہاتھ سے نکل جائے والعیاذ باللہ، جَلَّ وَعَلَا

۴۰.    یعنی لَوْ شرطیہ کا جواب محذوف ہے جو اسی طرح کے کسی جملے سے مقدر مانا جا سکتا ہے سو اس سے عذاب الٰہی کی شدت و بے پناہی اور اس کے سامنے انسان کے عجز اور اس کی بے بسی کو واضح فرمایا گیا ہے، کہ وہ عذاب جب ایسے لوگوں پر آئے گا تو وہ ان کو چاروں طرف سے گھیر کر ایسا عاجز اور بے بس کر دے گا کہ یہ اس ہولناک آگ کو نہ اپنے مونہوں سے روک سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے، اور نہ ہی ان کی کہیں سے کوئی مدد کی جائے گی، اور وہ ہولناک عذاب ان پر اس طرح اچانک آئے گا کہ ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گا، اور ان کو کوئی مہلت بھی نہ مل سکے گی۔ سو ایسے ہولناک عذاب سے غفلت و لاپرواہی برتنا بڑی سخت محرومی اور اس کے لئے جلدی مچانا انتہائی حماقت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۴۱.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب و انکار، اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزاء و مذاق، کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے ایسے لوگوں کو جو ڈھیل ملتی ہے وہ بہر حال ایک ڈھیل ہی ہوتی ہے، جس نے بالآخر بہر حال ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے، اور آخرکار ایسے لوگ اسی عذاب میں گرفتار ہو کر رہتے ہیں جس کا وہ مذاق اڑاتے ہیں، عذاب کا کوڑا برسنے پر وہ حق کو چیخ چیخ کر مانتے ہیں اور زور دے دے کر کہتے ہیں اِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ کہ واقعی ہم قطعی طور پر ظالم تھے، مگر بے وقت کے اس ماننے اور اقرار کرنے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہوتا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۲.    سو اس سے ان منکرین و مکذبین اور غفلت کے ماروں کو جھنجوڑنے اور ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ان سے یہ سوال کرنے کی ہدایت فرمائی گئی کہ ان سے پوچھو کہ بھلا کون ہے وہ جو تم لوگوں کو رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں خدائے رحمان کی گرفت و پکڑ سے بچا سکے؟ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی بھی نہیں، اور نہ ایسا کوئی ہو سکتا ہے، بلکہ یہ خدائے رحمان ہی کی وہ رحمت و عنایت ہے جو ہر طرف پھیلی بکھری ہے، اور جو ہر طرف سے ان کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے اردا گرد پھیلی بکھری اس رحمت و عنایت کے ان مظاہر ہی میں صحیح طور پر غور کرلیں تو یہ صدق دل سے اس کے حضور جھک جھک جائیں، مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ یہ اپنے اس خدائے رحمان ہی کی رحمت و عنایت سے منہ موڑے ہوئے اور غفلت و لاپرواہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۵.    اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ یہ منکر اور مکذب لوگ اگر آپ کی بات کہ نہیں سنتے مانتے اور آپ کی دعوت پر کان نہیں دھرتے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ بلکہ قصور خود ان کا اپنا ہے کہ یہ عقل اور دل کے اندھے ہیں اور اندھوں کو جب کسی خطرے سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ داعی حق کی آواز کو نہیں سنا کرتے۔ یہاں تک کہ وہ اسی کھڈ میں گر کر رہتے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا جاتا ہے والعیاذُ باللہ۔ اور دوسری طرف اس میں ان منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تحذیر بھی ہے کہ یہ لوگ اپنی اس روش سے باز آ جائیں۔ قبل اس سے کہ اس کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اور ان کو ہمیشہ کے لئے ہلاکت و تباہی کے کھڈے میں گرنا پڑے کہ انکار و تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہر حال یہی ہے۔ والعیاذُ باللہ، اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، آمین

۴۶.    سو اس سے منکرین و مکذبین کی تنگ ظرفی اور ان کے تھڑدلے پن کو واضح فرما دیا گیا کہ آج تو یہ لوگ اس قدر ڈھٹائی اور بے باکی سے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ گویا کہ یہ اس کے مقابلے کے لئے پوری طرح لیس اور تیار ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تو بہت بڑی چیز ہے اگر ان کو اس کا ایک ادنی اور معمولی سا جھونکا بھی چھو جائے تو ان کا سارا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ اور ان کی ساری مشیخت پادر ہو جائیگی، اور یہ فوراً چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہم یقیناً خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے۔ کہ ہم رسول کی دعوت کو قبول کرنے اور حق کو اپنانے کے بجائے ان سے عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مگر بے وقت کے اس اعتراف و اقرار سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۴۷.    سو اس سے ظہور قیامت اور اس کی ضرورت کو واضح فرما دیا گیا۔ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ میں لام تعلیل کو ذکر فرما کر قیام قیامت کی غرض و غایت کو ظاہر فرما دیا گیا، کہ قیامت کا ظہور اور اس کا وقوع قیام عدل کے لئے ہو گا۔ یعنی قیامت بذات خود مقصود نہیں، بلکہ اصل مقصد قیام عدل ہے جو اسی یوم عظیم میں متحقق ہو سکے گا، پس وہ یوم عظیم خداوند قدوس کے ظہور عدل و انصاف کا لازمی تقاضا ہے، سو اسی اعتبار سے ارشاد فرمایا گیا کہ مقصد قیامت یعنی ظہور عدل و انصاف اور سزا و جزاء کو بروئے کار لانے کے لئے ہم عدل و انصاف کی میزانیں قائم کریں گے۔ تاکہ ہر کسی کو کاٹنے کے تول پر اپنے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل سکے۔ اور کسی پر کسی طرح کا کوئی ظلم اور زیادتی نہ ہو، اگر کسی کا رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل کیا ہو گا تو ہم اس کو بھی لاحاضر کریں گے۔ اور ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں، ہمیں اس کام کے لئے کسی کی مدد و معاونت کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہم تنہا اس کو سر انجام دیں گے ہمارا نہ کوئی شریک ہے، نہ ساجھی پس جن لوگوں نے از خود اس وحدہٗ لاشریک کے لئے شریک اور سفارشی فرض کر رکھے ہیں وہ سخت مغالطے اور نرے دھوکے کا شکار ہیں والعیاذ باللہ جل وعلا،

۵۰.    یعنی یہ ذکر ایک ایسا عظیم الشان ذکر ہے جو تم لوگوں کو تمہارے مقصد حیات کی تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے اور تمہیں بتاتا ہے کہ حیات دنیا کی اس فرصت محدود کے بعد آگے کیا ہونے والا ہے؟ اور اس اَبَدی اور سرمدی جہاں میں فوز و فلاح اور وہاں کی اصل اور حقیقی کامیابی سے کون لوگ سرفراز ہونگے؟ اور وہاں کیا چیز کام آئے گی؟ پھر اس کو اتارنے والے بھی ہم ہیں سو ایسے میں اس برکتوں بھرے ذکر عظیم سے منہ موڑنا کتنا بڑا خسارہ وظلم اور کس قدر بے انصافی اور محرومی ہے والعیاذُ باللہ العظیم

۵۶.    سو مشرکین کے سوال کے جواب میں حضرت ابراہیم نے اپنے اس قول و ارشاد سے حق کو اور بھی زیادہ نکھار کر واضح فرما دیا۔ اور ان کے سامنے اس بات کو پوری طرح واضح فرما دیا کہ تمہارے یہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود نہ تمہارے معبود ہیں، نہ ہو سکتے ہیں، تمہارا رب اور تمہارا معبود حقیقی تو حقیقت میں وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو پیدا کیا جو تمہارے سامنے موجود ہے، اور اپنی تمام تر عظمتوں اور حکمتوں کے ساتھ موجود ہے، اور جو اپنی زبان حال سے پکار پکار کر عقل و فکر رکھنے والوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے، اور حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کے وجود باجود، اور اس کی وحدانیت و یکتائی کی گواہی دے رہی ہے، سو اسی وحدہٗ لاشریک نے اس کائنات کو وجود بخشا، اور وہی اس کو قائم اور باقی رکھے ہوئے ہے، سبحانہ و تعالیٰ، جبکہ اس کے سوا جن کی پوجا پاٹ میں تم لوگ لگے ہوئے ہو۔ ان کا اس میں نہ کوئی حصہ اور اشتراک ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ اور خود تم بھی اس چیز کا دعوی نہیں کر سکتے۔ تو پھر ان کو رب اور معبود ماننے کی آخر کب تک ہو سکتی ہے؟ پس تمہارا رب اور تم سب کا خالق و مالک وہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، جو آسمانوں اور زمین کی اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، میں تم لوگوں کو اسی کی عبادت و بندگی کی دعوت دیتا ہوں۔ اور میں خود بھی اسی پر گواہ ہوں۔ کہ یہی حق ہے۔ اور اسی پر دارین کی سعادت و سرخروئی موقوف ہے۔ کیونکہ معبود برحق بہر حال وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے، اس میں کسی بھی دوسری ہستی کو کسی بھی درجے میں شریک ماننا ظلم عظیم ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۵۷.    یعنی تاکہ وہ اپنے اس من گھڑت گرو سے پوچھیں کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہ تم تو صحیح سلامت موجود ہو۔ مگر ہمارے دوسرے تمام ٹھاکروں کی یہ درگت بنی ہوئی ہے آخر ایسے کیوں اور کیسے ہوا؟ اور تم نے ان کو اس سے آخر بچایا کیوں نہیں؟ تم پھر کس مرض کی دوا ہو؟ اور تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی پھر کس کام کی؟ اور اس طرح یہ لوگ اپنے ضمیروں کی طرف رجوع کر سکیں۔ اور اس طرح یہ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو پا سکیں کہ ان کے یہ سب خود ساختہ معبود بے حقیقت اور بے جان بت ہیں اور ان کو معبود قرار دے کر ان کی پوجا پاٹ کرنا سراسر ظلم اور نری حماقت ہے، سو اسطرح شاید ان کو راہ حق و ہدایت کی طرف راہنمائی نصیب ہو سکے۔

۶۱.    یعنی حضرت ابراہیم پر بت شکنی کا الزام عائد ہو جانے کے بعد قوم کے سرداروں نے اپنے غیظ و غضب بھرے انداز میں حضرت ابراہیم کے بارے میں حکم دیا کہ ان کو سب لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ تاکہ پبلک کی موجودگی میں اور ان کے سامنے ان سے پوچھ پاچھ ہو اور سارا معاملہ لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے اور اس سنگین جرم کی سزا بھی سب کے سامنے آ جائے۔ تاکہ اس طرح جرم کی سنگینی اور شناعت بھی سب کے سامنے آ جائے۔ اور اس پر ان کو دی جانے والی سزا بھی سب کے لئے باعث عبرت ہو۔ اور اس کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے کہ جس نے ہمارے ٹھاکروں کی یہ درگت بنائی، اس کا ہم کیا حشر کرتے ہیں۔

۶۲.    یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو جھنجھوڑتے ہوئے اور ان کے قلوب و ضمائر پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے پوچھنے کے بجائے ان کے اس بڑے گرو سے کیوں نہیں پوچھتے، جو تمہارے سامنے موجود ہے۔ کہ ایسے کیوں ہوا؟ اور یہ کہ ہمارے ان ٹھاکروں کی یہ درگت کس نے بنائی، اور ان کا اسطرح کچومر کس نے نکالا؟ اور یہ بڑے گرو صحیح و سالم کیوں موجود ہیں؟ ان کا بال تک بیکا کیوں نہیں ہوا؟ کہیں یہ کارگزاری خود اسی کی تو نہیں؟ سو تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں اور اگر یہ نہیں بولتے تو پھر تف اور لعنت ہے تم سب پر جو ان بے حقیقت اور بے جان بتوں کو خدا مان کر ان کو پوجتے پکارتے ہو۔ جو بول بھی نہیں سکتے، سو اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بولتی بند کر کے رکھ دی۔ جس سے ان کی ذلت ورسوائی، اور ان کی مت ماری سب کے سامنے عیاں ہو گئی۔

۶۴.    سو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ضرب کاری سے وہ لوگ اپنے عقل و دل کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم لوگ تو اس نوجوان کو ظالم کہتے ہو۔ لیکن اس نے ثابت کر دیا کہ ظالم وہ نہیں بلکہ خود تم لوگ ہو۔ جو ایسی بے حقیقت چیزوں کو اپنا معبود قرار دے کر ان کو پوجتے پکارتے ہو۔ اور ان کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا مانتے ہو، حالانکہ ان کی بے بسی کا عالم یہ ہے یہ خود اپنے اوپر آئی ہوئی مصیبت کو بھی نہیں دفع کر سکتے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کے بس میں یہ بھی نہیں کہ یہ اپنے اوپر گزری ہوئی مصیبت کو کسی دوسرے سے بیان کر سکیں، تو پھر اس سے بڑھ کر ظلم اور حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسی بے حقیقت چیزوں کو اپنا معبود قرار دے کر پوجا پکار کی جائے؟ سو شرک بڑا ظلم، اور کھلی مت ماری ہے، اور یہ حضرت ابراہیم کے صدق و اخلاص اور آنجناب کی ضرب توحید کا معجزانہ اثر اور نتیجہ تھا کہ مشرکوں کو اپنے ظالم ہونے کا اقرار و اعتراف کرنا پڑا، مگر اپنی بدبختی اور خبث باطن کے نتیجے میں عقیدہ توحید سے سرفرازی سے وہ پھر بھی محروم ہی رہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۶۹.    سو اس سے اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اشیاء اپنی تاثیر میں خود مختار نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کی پابند اور اسی کی تابع فرمان ہیں، چنانچہ آگ جس کا کام اور اس کی طبیعت و فطرت ہی جلانا اور بھسم کر دینا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے پجاریوں کو بھی بھسم کر دیتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سراسر سلامتی اور گل و گلزار بن گئی۔ پس نفع و نقصان کا اصل منبع و سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اس لئے صحت و سلامتی کی راہ یہی ہے کہ انسان ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہے، اسی سے ہر قسم کے نفع کی امید رکھے، اور ہر قسم کے شر سے پناہ مانگے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید۔

۷۱.    یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت لوط دونوں کا جب اپنے ملک میں ٹکنا ناممکن ہو گیا۔ تو ہم نے ان دونوں کو ان کے ملکوں سے نکال کر اس سر زمین تک پہنچا دیا جس کو ہم نے طرح طرح کی خیرات و برکات سے نواز رکھا تھا یعنی ارض کنعان وفلسطین جس کو دودھ اور شہد کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ سو اس سے کئی اہم اور بنیادی حقائق واضح ہو جاتے ہیں مثلاً یہ کہ جب کوئی قوم حضرات انبیاء کرام کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی، تو آخرکار ان کو انبیاء کرام کے وجود مسعود اور ان کی خیرات و برکات سے محروم کر دیا جاتا ہے اور انبیائے کرام کو ان کی بستی سے نکال دیا جاتا ہے اسی لئے حضرت ابراہیم اور لوط کو جو کہ ان کے بھتیجے تھے ان منکر لوگوں کے ملک سے نکال دیا گیا۔ ان کے بعد قوم ابراہیم کا حشر و انجام کیا ہوا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور اس کی خوشنودی کی خاطر کسی ملک اور مقام کو چھوڑا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر ملک اور مقام عطاء فرماتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم اور لوط کے اس قصے سے واضح ہوتا ہے، کہ ان کو اس ناہنجار قوم کے اس کفر و شرک بھرے ملک سے نکال کر ارض مقدس و مبارک میں پہنچا دیا گیا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد حضرت اسحاق واسماعیل جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر بیٹوں اور حضرت یعقوب جیسے عظیم الشان پوتے سے سرفراز فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ اور تیسری بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل کا معاملہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے اسی لئے ان دونوں حضرات کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ہم نے وہاں سے نکال کر ارض مقدس و مبارک تک پہنچایا۔ چوتھی بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل نہ حاضر و ناظر ہوتے ہیں اور نہ مختار کل ورنہ ان حضرات کو نہ ہجرت کرنا پڑتی، اور نہ ان کے حق ہجرت کا مفہوم ہی متحقق ہو سکتا۔ پانچویں بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حضرات انبیاء ورسل بھی اسی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج ہیں، اور جب حضرت ابراہیم اور حضرت لوط بھی اسی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج ہیں، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو ان کا حاجت روا و مشکل کشا ہو سکے؟ پس غلط کہتے۔ اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عاجز مخلوق میں سے کچھ کو از خود اور اپنے طور پر مافوق الاسباب حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر پوجتے پکارتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کی ہر شکل سے محفوظ، اور ہر لحاظ سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

۷۷.    سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تکذیب و انکار حق کا جرم جرموں کا جرم، اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ اور اس کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے، ایسے لوگوں کو مہلت اور ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہر حال مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہوتا ہے، سو قوم نوح جب تکذیب و انکار حق کے اپنے اس ہولناک جرم پر اڑی ہی رہی، اور دعوت حق و ہدایت کو قبول کرنے کے لئے کسی بھی طور پر تیار نہ ہوئی اور حضرت نوح کی طویل ترین دعوت، اور بے مثال اور پر تاثیر نداء و پکار کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا تو آخرکار وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہی، سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بڑے برے لوگ تھے، اس لئے آخرکار ہم نے ان سب کو غرقاب کر دیا، اور اسطرح بالآخر وہ لوگ اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ والعیاذ باللّٰہ جَلَّ وعلا بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال۔

۷۷.    یعنی اس خاندان کے لوگوں کو اپنی زمین میں حکومت دینے کے بعد ہم کہیں الگ تھلگ ہو کر نہیں بیٹھ گئے تھے، بلکہ ہم ان کو برابر دیکھتے رہے تھے کہ وہ حکمرانی کے حق کو کس طرح ادا کرتے ہیں، اپنی رعایا کے اندر عدل و انصاف کے قیام و اہتمام اور اپنی حکمرانی کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں وہ کس قدر حساس اور محتاط ہیں، سو باپ اور بیٹے دونوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے اس منصب کے پوری طرح اہل ہیں، چنانچہ اس خاص واقعے کے موقع پر جب بیٹے نے محسوس کیا کہ باپ سے قیام عدل کے سلسلہ میں لغزش ہو رہی ہے تو اس نے فوراً حق نصیحت ادا کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کر دی، اور باپ نے جب دیکھا کہ بیٹے کی رائے زیادہ قرین عدل و انصاف ہے تو بلا کسی چون و چرا کے فوراً اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا، اور اس کو صدق دل سے قبول کر لیا، اور یہی حکمرانی کا وہ اصل جوہر ہے جس میں عباد وبلاد سب کا بھلا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو اپنی زمین میں خلافت و حکمرانی کے شرف سے نوازتا ہے، وہ ان کے اسی جوہر کو پرکھنا چاہتا ہے۔ کہ اس کی کائنات کا سارا نظام عدل و قسط ہی پر قائم ہے۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی اپنی حدود حکم و اختیار میں عدل و انصاف ہی سے کام لیں۔

۷۳.    اوپر حضرت داؤد و سلیمان علیہا السلام کے ذکر سے شکر کی دو مثالیں ذکر فرمانے کے بعد اب حضرت ایوب علیہ السلام کے ذکر سے صبر کی مثال پیش فرمائی گئی ہے کہ صبر و شکر کے یہ دونوں ہی وصف بڑے اہم اور مطلوب و محمود وصف ہیں، حضرت ایوب علیہ السلام ایک نہایت ہی صابر اور راست باز انسان تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا خاندان بھی عطا فرمایا تھا اور بہت بڑی دولت سے بھی نوازا تھا۔ سفر ایوب میں اس کی تفصیلات مذکور و موجود ہیں، آنجناب کو قدرت نے اس قدر مال و دولت سے نوازا تھا کہ انکے دور میں اہل مشرق میں اس درجہ کا مالدار کوئی اور نہیں تھا۔ مگر اس سب کے باوجود آپ اللہ تعالیٰ کے نہایت شاکر اور فرمانبردار بندے تھے۔ کبھی کسی برائی سے آلودہ نہ ہوئے۔ مگر اس کے بعد ان کے لئے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کی دولت بھی چلی گئی خدم و حشم بھی غائب ہو گئے، اور خاندان بھی ختم ہو گیا، لیکن حضرت ایوب مایوس ہونے اور شکوہ و شکایت کرنے کے بجائے، اپنے خالق و مالک ہی کے حضور گر گئے۔ اور اس کے حضور عرض کیا کہ میرے مالک مجھے بیماری لگ گئی ہے۔ اور تو سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔ یعنی اتنا بھی نہیں عرض کیا کہ میری اس بیماری کو دور فرما دے، بلکہ اپنی عرض و گزارش پیش کرنے کے بعد معاملہ اسی کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا۔ کہ وہ جو بھی کرے گا وہی بہتر ہو گا۔

۷۴.    یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔ اور ان سے ان کی وہ تمام تکالیف دور فرما دیں جن میں وہ اس وقت مبتلا تھے اور ان کو ان کے اہل و عیال اور خدم و حشم بھی از سر نو عطا فرما دئیے، حضرت ایوب نے تو اپنی دعا میں صرف اپنی تکلیف اور بیماری کا ذکر فرمایا تھا کہ جن حالات سے وہ دوچار تھے ان کے اعتبار سے ان کے لئے یہی بڑی چیز تھی، کہ ان سے ان کی تکلیف اور دکھ کا ازالہ ہو جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو وہ بھی دیا جو انہوں نے مانگا۔ اور وہ کچھ بھی عطا فرمایا جس کا ذکر انہوں نے اپنی تواضع و عبدیت کی بناء پر اپنی دعا میں نہیں فرمایا۔ ان کے اہل و عیال اور عزاء و اقربا میں سے جو منتشر ہو گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان سب کو بھی دوبارہ یکجا فرما دیا اور جو وفات پا گئے تھے ان کو ان کے نعم البدل سے بھی نواز دیا۔ اور ان کے متعلقین کے دائرے کو بھی مزید وسیع فرما دیا جیسا کہ وَاٰتَیْنٰہُ اَہْلَہ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و عنایت، اور اس کے فضل و کرم کی بناء پر ہوا ورنہ نظر بظاہر حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ ان میں نہ حضرت ایوب اس کی توقع کر سکتے تھے، اور نہ ہی کوئی دوسرا جیسا کہ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا کے کلمات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور وَذِکْریٰ لِلْعَابِدِیْنَ کے ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا، کہ یہ سب کچھ ہم نے اس لئے بھی کیا کہ تاکہ یہ واقعہ ہمارے عبادت گزار بندوں کے لئے ایک یادگار ہو کہ ہمارے جو بندے نرم و گرم ہر قسم کے حالات میں ہم ہی سے وابستہ رہے ہیں ان پر ہم اسی طرح اپنا فضل و کرم کرتے ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّن الاحوال۔

۷۷.    یہاں پر حضرت یونس سے متعلق اس قصے کی تفصیل کو حذف کر دیا گیا جو ان کو کشتی میں پیش آیا، صرف آنجناب کی اس دعا کو ذکر فرمایا گیا جو آپ نے مچھلی کے پیٹ میں اور قعر سمندر کی تاریکیوں میں کی تھی، اور جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تھا کیونکہ یہ دعا ایک عظیم الشان دعا تھی اور اس میں بڑے عظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت پائے جاتے ہیں۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حق تعالیٰ تاریک سے تاریک حالات کے اندر بھی اپنے بندے کی دعا کو سنتا اور اس کو قبول فرماتا ہے۔ بشرطیکہ بندہ اپنے رب ہی کو اپنا ملجا و ماوی سمجھے، اور اسی سے دعا و فریاد کرے۔ حضرت یونس کی اس دعا میں طلب و تمنا کسی بھی چیز کی نہیں کی گئی۔ بلکہ آنجناب نے صرف اپنی تقصیر و کوتاہی کا اعتراف و اظہار فرمایا، سب سے پہلے تو آپ نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ ہی کے ملجا و ماوی اور معبود برحق ہونے کا اعلان و اظہار فرمایا، اس کے بعد اس کے ہر نقص وعیب، اور ہر شائبہ شرک سے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اقرار فرمایا۔ اور پھر اپنی تقصیر و کوتاہی کے اعتراف و اقرار کا ذکر و بیان فرمایا، کہ یہ سب کچھ جو ہوا سراسر میری اپنی ہی غلطی کا نتیجہ تھا، میں نے اپنی جان پر خود ہی ظلم ڈھایا۔ میرے رب نے مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا، اس کے بعد انہوں نے اپنا معاملہ اپنے رب کے رحم و کرم ہی پر چھوڑ دیا، کہ وہ میرے بارے میں جو بھی فیصلہ فرمائے گا وہی حق اور صدق ہے اور وہی اس کی رحمت و حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے سبحانہ و تعالیٰ، سو یہ ایمان و یقین کی قوت و پختگی اور تسلیم و رضا کے کمال کی عظیم الشان اور بے مثال نمونہ و مظہر تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس سے مشرف فرما دے، آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین، واکرم الاکرمین،

۹۱.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت مریم اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ دونوں مل کر قدرت کی ایک عظیم الشان نشانی تھے سب دنیا والوں کیلئے، کیونکہ حضرت عیسیٰ کی ولادت عالم اسباب کے عام ضابطہ اور قاعدہ سے الگ بطور خاص حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے کلمہ کن سے ہوئی تھی جس کے ذریعے ان کے اندر ایک مولود کی روح ڈالی گئی تھی۔ جیسا کہ فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رُّوْحِنَا سے اس کی تصریح فرمائی گئی ہے سو اس خرق عادت اور یہ خلاف اسباب ولادت کی بناء حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ ماجدہ دونوں مل کر خداوند قدوس کی قدرت کی ایک عظیم الشان نشانی قرار پائے اور اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا سے اس کے لغوی معنی مراد نہیں۔ بلکہ عرف اور محاورے کے معنی مراد ہیں ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اس کے اظہار کی کوشش کی ہے والحمد للہ جل وعلا

۹۲.    سو مذکورہ بالا تمام انبیاء ورسل کے تذکرے کے بعد اس ارشاد سے خلاصہ بحث کو پیش فرما دیا گیا کہ ان سب حضرات کی دعوت اور ان کا دین ایک ہی دین تھا، اور یہ سب ایک ہی ملت اور ایک ہی امت تھے، اور ہیں جس کا مرکزی نقطہ اور بنیادی مضمون یہ ہے کہ معبود برحق اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے اس لئے ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ یعنی میں ہی رب ہوں تم سب کا پس تم سب لوگ میری ہی عبادت و بندگی کرو۔ پس تمام انبیاء ورسل کا دین ایک ہی رہا، یعنی یہ کہ عبادت و بندگی صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی کی جائے، اور یہی خلاصہ ہے اسلام کا، جو کہ دین حق ہے، پس جن لوگوں نے حضرات انبیاء ورسل کے درمیان تفریق کی۔ اور مختلف قسم کی بدعات ایجاد کیں، اور عقیدہ توحید میں شرک کی آمیزش کی، وہ سب انکی اپنی اختراعات تھیں، اور اس سب کے ذمہ دار ایسے لوگ خود ہیں، حضرات انبیاء ورسل کا دامن ایسی تمام چیزوں سے پاک ہے۔

۹۷.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کفار و مشرکین اگرچہ قیامت کے روز صاف و صریح طور پر کہیں گے اور چیخ چیخ کر کہیں گے کہ یقیناً ہم اس یوم حساب سے غفلت میں تھے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ سب صاف اور صریح طور پر کہیں گے کہ ہم لوگ ظالم تھے۔ کہ ہم نے حضرات انبیاء ورسل اور ان کے وارثین اور جانشینوں کی دعوت حق پر کان نہ دھرے، اور حق کو قبول نہ کیا، مگر اس وقت کے اس اعتراف و اقرار جرم سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ اور ان کی سزا میں اس سے کوئی تخفیف نہیں ہو گی، بلکہ اس وقت کے ان کے اس اقرار کے جواب میں ان سے کہا جائے گا کہ تم سب اور تمہارے یہ خود ساختہ اور من گھڑت معبود جن کی تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کرتے رہے تھے سب کے سب دوزخ کا ایندھن ہو۔ تم سب کو اب بہر حال اس میں داخل ہونا ہو گا۔ اور اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا، سو بے وقت کے اس اعتراف و اقرار سے ان کو کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، سو دولت ایمان و یقین کے حصول اور اس سے سرفرازی کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے جو آج ہم لوگوں کو حاصل و میسر ہے، اس میں ایمان و یقین سمیت آخرت کے لئے ہر قسم کی کمائی کے مواقع موجود ہیں اسی لئے اس کو بدرجہ آخرت، یعنی آخرت کی کھیتی قرار دیا گیا، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحہ کو اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں میں صرف کرنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۹۹.    سو اس سے اس اصل مقصد کو واضح فرما دیا گیا جس کے لئے مشرکین کے ان خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کو بھی جہنم کی اس دہکتی بھڑکتی آگ میں جھونکا جائے گا۔ یعنی یہ کہ اس سے اصل مقصد ان کے پجاریوں کو جلانا اور ان کے سامنے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ نہ معبود تھے اور نہ ہو سکتے تھے۔ کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو یہ کبھی اس طرح دوزخ میں نہ جلتے۔ اور ان کی یہ درگت بھی نہ بنتی۔ سو یہ مشرکوں کی تذلیل کی آخری حد ہو گی۔ کہ جو ان کی امیدوں کا مرجع اور ان کا سہارا تھے، اور جن پر یہ لوگ تکیہ کئے اور آس لگائے بیٹھے تھے آج وہ اس قدر بے بسی کے ساتھ ان کے سامنے اور ان کے ساتھ آتش دوزخ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں اس وقت یہ لوگ جس یاس و حسرت سے دوچار ہونگے، اس کا اندازہ کرنا ہی کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ مگر بے وقت کے اس افسوس سے ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے انکی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے سو اس سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کا یہ دنیا پر کتنا بڑا احسان ہے، کہ اس نے ان غیبی حقائق کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے جن کو جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن دنیا ہے کہ پھر بھی غفلت و لاپرواہی میں ڈوبی ہوئی ہے، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۱۰۴.  سِجِلِّ اصل میں اس طومار دفتر یا فائل کو کہا جاتا ہے جس میں لکھے ہوئے اوراق کو محفوظ کر لیا جاتا ہے، سو اس روز چہار سُو پھیلے ہوئے اس آسمان کی بساط کو اس طرح لپیٹ اور سمیٹ دیا جائے گا جس طرح کہ لکھے ہوئے اوراق کو طومار میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ آسمان اور زمین کی اس کائنات کو پیدا کیا اور اس کو وجود بخشا۔ اسی طرح اس روز ہم نئے قوانین ونوامیس کے تحت نئے آسمان و زمین کو پیدا کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے ایک حتمی وعدہ ہے جو ہم نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اوپر ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز فرشتے ان سے کہیں گے ہٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ یعنی یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ اور اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسا ہم نے یقیناً اور بہر حال کرنا ہے اور کر کے رہنا ہے، پس کوئی یہ نہ سمجھے اور اس طرح کے کسی خبط میں مبتلا نہ رہے کہ یہ محض کوئی ہوائی بات ہے جو ہم کر نہیں سکیں گے، یا نہیں کریں گے، بلکہ یہ بہر حال ایک قطعی حقیقت ہے جس نے اپنے مقرر وقت پر بہر حال ہو کر رہنا ہے۔

۱۰۵.  الارض یعنی زمین سے یہاں پر مراد اس جہان نو کی وہی زمین ہے جو وقوع قیامت کے بعد وجود میں آئے گی اور اس کے مالک و وارث بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ کے نیکوکار بندے ہی ہونگے۔ جَعَلْنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ۔ کہ یہ خداوند قدوس کا خاص انعام ہو گا جس سے وہ اپنے نیک اور صالح بندوں کو نوازے گا۔ رہ گئی دنیا کی یہ زمین جس پر آج ہم لوگ رہتے بستے ہیں تو یہ نیک و بد سب ہی کے لئے ہے، کہ اس کا ملنا انعام کے طور پر نہیں، بلکہ ابتلاء و آزمائش کے لئے ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ (الا عراف۔۱۲٨) یعنی یہ زمین اللہ ہی کے لئے ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور عمدہ انجام بہر حال پرہیزگاروں ہی کا ہے۔

۱۰۹.  یعنی اگر ایسی صاف و صریح اور فیصلہ کن تنبیہ و تذکیر کے بعد بھی یہ لوگ کان نہیں کھولتے اور حق کی طرف نہیں لپکتے، بلکہ اپنے اسی اعراض و استکبار اور روگردانی پر جمے رہتے ہیں، جس پر یہ پہلے جمے ہوئے تھے تو ان سے کہہ دو کہ میں نے تو تمہارے چھوٹے بڑے لیڈر و پیرو اور امیر و غریب سب کو بلا تفریق و تمیز آنے والے خطرات سے آگاہ کر دیا ہے اور حق و حقیقت کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ اور اس طور پر کہ اب کوئی یہ عذر نہیں کر سکتا کہ اس کو خبردار نہیں کیا گیا۔ پس اب ہر کوئی اپنے نتیجہ و انجام کا ذمہ دار خود ہے، رہی یہ بات کہ جس خطرے سے میں تم لوگوں کو آگاہ کر رہا ہوں اس کے ظہور و وقوع کا وقت قریب ہے یا بعید؟ تو اس کا علم مجھے بھی نہیں۔ اس کا صحیح علم تو اس خدائے واحد ہی کو ہے جس کے حکم و ارشاد سے میں تمہیں اس سے آگاہ کر رہا ہوں۔ پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ جب نتیجہ سامنے آئے گا تو سب کو معلوم ہو جائے گا، اور تم خود دیکھ لو گے، سو یہ ان معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے لئے آخری جواب ہے، جو حق بات کو سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، سو ایسوں کے لئے یہ ہدایت فرمائی گئی کہ ان کو ان کے انجام کے حوالے کر دیا جائے، کہ ان سے الجھنے اور ان کے درپے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔

۱۱۲.  سو یہ ارشاد پیغمبر کی دعا بھی ہے۔ اور مخالفین کو وداع بھی۔ یعنی پیغمبر نے اپنے رب کے حضور یہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب اب تو ہی حق و باطل کی اس کشمکش کا فیصلہ فرما دے حق کے ساتھ، اور دوسری طرف اس سے مخالفین کو اس طرح وداع فرما دیا گیا کہ جو کچھ تم لوگ کہتے اور کرتے ہو اس کے مقابلے میں میں رب رحمان ہی سے مدد کا طالب ہوں، کہ معین و مددگار حقیقت میں وہی وحدہٗ لاشریک ہے فَہُوَا الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْہِ التَّکَلَانُ، و بہذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الانبیاء والحمد للّٰہ جل وعلا بِکُلِّ حَالٍ مِّن