تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء

۱۔۔۔  یعنی حساب و کتاب اور مجازات کی گھڑی سر پر کھڑی ہے لیکن یہ لوگ (مشرکین وغیرہ) سخت غفلت و جہالت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی تیاری قیامت کی جوابدہی کے لیے نہیں کرتے۔ اور جب آیات اللہ سنا کر خواب غفلت سے چونکائے جاتے ہیں تو نصیحت سن کر نہایت لاپرواہی کے ساتھ ٹلا دیتے ہیں۔ گویا کبھی ان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور حساب دینا ہی نہیں۔ سچ ہے "اَلنَّاسُ فِیْ غَفَلَاتِہِمْ وَرَحَی الْمَنِیَّۃِ تَطْحَنُ

۳۔۔۔  ۱: یعنی قرآن کی بڑی بیش قیمت نصیحتوں کو محض ایک کھیل تماشہ کی حیثیت سے سنتے ہیں جن میں اگر اخلاص کے ساتھ غور کرتے تو سب دین و دنیا درست ہو جاتی۔ لیکن جب دل ہی ادھر سے غافل ہیں اور کھیل تماشہ میں پڑے ہیں تو غور کرنے کی نوبت کہاں سے آئے۔

۲:  جب نصیحت سنتے سنتے تنگ آ گئے تو چند بے انصافوں نے خفیہ میٹنگ کر کے قرآن اور پیغمبر کے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ پیغمبر تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں، نہ فرشتہ ہیں نہ ہم سے زیادہ کوئی ظاہری امتیاز رکھتے ہیں۔ البتہ ان کو جادو آتا ہے۔ جو کلام پڑھ کر سناتے ہیں وہ ہو نہ ہو جادو کا کلام ہے۔ پھر تم کو کیا مصیبت نے گھیرا کہ آنکھوں دیکھتے ان کے جادو میں پھنستے ہو۔ لازم ہے کہ ان کے قریب نہ جاؤ۔ قرآن کو جادو شاید اس کی قوت تاثیر اور حیرت انگیز تصرف کو دیکھ کر کہا۔ اور خفیہ میٹنگ اس لیے کی کہ آئندہ حق کے خلاف جو تدابیر کرنے والے تھے یہ اس کی تمہید تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ہوشیار دشمن اپنی معاندانہ کارروائیوں کو قبل از وقت طشت ازبام کرنا پسند نہیں کرتا اندر ہی اندر آپس میں پروپیگنڈا کیا کرتا ہے۔

۴۔۔۔  پیغمبر نے فرما دیا کہ تم کتنے ہی چھپا کر مشورے کرو، اللہ کو سب خبر ہے وہ تو آسمان و زمین کی ہر بات کو جانتا ہے پھر تمہارے راز اور سازشیں اس سے کہاں پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔

 ۵۔۔۔  ۱: قرآن سن کر ضد اور ہٹ دھرمی سے ایسے بدحواس ہو جاتے تھے کہ کسی ایک رائے پر قرار نہ تھا، کبھی اسے جادو بتاتے، کبھی پریشان خوابیں کہتے، کبھی دعویٰ کرتے کہ آپ اپنے جی سے کچھ باتیں جھوٹ گھڑ لائے ہیں۔ جن کا نام قرآن رکھ دیا ہے۔ نہ صرف یہ ہی بلکہ آپ ایک عمدہ شاعر ہیں اور شاعروں کی طرح تخیل کی بلند پروازی سے کچھ مضامین موثر اور مسجع عبارت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اگر واقع میں ایسا نہیں تو چاہیے کہ آپ کوئی ایسا کھلا معجزہ دکھلائیں جیسے معجزات پہلے پیغمبروں نے دکھلائے تھے۔ یہ کہنا بھی محض عناد سے دق کرنے کے لیے تھا۔ کیونکہ اول تو مکہ کے یہ جاہل مشرک پہلے پیغمبروں اور ان کے معجزات کو کیا جانتے تھے، دوسرے آپ کے بیسیوں کھلے کھلے نشان دیکھ چکے تھے جو انبیائے سابقین کے نشانات سے کسی طرح کم نہ تھے جن میں سب سے بڑھ کر یہ ہی قرآن کا معجزہ تھا۔ وہ دل میں سمجھتے تھے کہ نہ یہ جادو کی مہمل عبارتیں ہیں، نہ بیہودہ خواب ہیں، نہ شاعری ہے۔ اسی لیے جب کوئی ایک بات چسپاں نہ ہوتی تو اسے چھوڑ کر دوسری بات کہنے لگتے تھے۔ "اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً" (فرقان، رکوع۱، آیت:۹)

۲:  یعنی پہلی قوموں کو فرمائشی نشان دکھلائے گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر بھی نہ مانے آخر سنت اللہ کے موافق ہلاک کیے گئے۔ اگر ان مشرکین مکہ کی فرمائشیں پوری کی جائیں تو ظاہر ہے یہ ماننے والے تو ہیں نہیں۔ لامحالہ حق تعالیٰ کی عام عادت کے موافق تباہ کیے جائیں گے اور ان کی بالکلیہ تباہی مقصود نہیں۔ بلکہ حکمت الٰہیہ فی الجملہ ان کے باقی رکھنے کو مقتضی ہے۔

۷۔۔۔  یہ ان کے قول "ہَلْ ہٰذَآ اِلَّابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ" کا جواب ہوا۔ یعنی پہلے بھی جو پیغمبر آئے جن کی مانند نشانیاں دکھلانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مطالبہ کرتے ہو، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح بشر تھے فرشتے نہ تھے۔ اگر اتنی مشہور و مستفیض بات کی بھی اپنی جہالت کی وجہ سے تم کو خبر نہیں، تو خبر رکھنے والوں سے دریافت کر لو۔ آخر یہود و نصاریٰ اہل کتاب سے تمہارے تعلقات ہیں، اتنی موٹی بات ان سے ہی پوچھ لینا کہ پہلے زمانوں میں جو انبیاء و رسل تشریف لائے وہ بشر تھے یا آسمان کے فرشتے۔

۸۔۔۔  یعنی بشری خصائص ان میں موجود تھیں، نہ فرشتوں کی طرح ان کا بدن ایسا تھا کہ کبھی کھانا نہ کھا سکتے نہ وہ خدا تھے کہ کبھی موت اور فنا نہ آئے ہمیشہ زندہ رہا کریں۔

۹۔۔۔  ان کا امتیاز دوسرے بندوں سے یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کی ہدایت و اصلاح کے لیے کھڑے کیے گئے تھے خدا ان کی طرف وحی بھیجتا اور باوجود بے سر و سامانی کے مخالفین کے مقابلہ میں ان کی حمایت و نصرت کے وعدے کرتا تھا چنانچہ اللہ نے اپنے وعدے سچے کر دکھائے۔ ان کو مع رفقاء کے محفوظ رکھا اور بڑے بڑے متکبر دشمن جو ان سے ٹکرائے تباہ و غارت کر دیئے گئے۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی بشر ہیں۔ لیکن اسی نوع کے بشر ہیں جن کی اعانت و حمایت ساری دنیا کے مقابلہ میں کی جاتی ہے ان کے مخالفین کو چاہیے کہ اپنا انجام سوچ رکھیں اور پہلی قوموں کی مثالوں سے عبرت حاصل کریں۔ کہیں آخرت کے حساب سے پہلے دنیا ہی میں حساب شروع نہ کر دیا جائے۔

۱۰۔۔۔  یعنی قرآن کے ذریعہ سے تم کو ہر قسم کی نصیحت و فہمائش کر دی گئی اور سب برا بھلا انجام سمجھا دیا گیا۔ اگر کچھ بھی عقل ہو گی تو عذاب الٰہی سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو گے اور قرآن کی قدر پہچانو گے جو فی الحقیقت تمہارے مجدو شرف کی ایک بڑی دستاویز ہے۔ کیونکہ تمہاری زبان میں اور تمہاری قوم کے ایک فرد کامل پر اترا اور دنیا میں تم کو شہرت دائمی عطا کی۔ اگر اپنے ایسے محسن کو نہ مانو گے تو دنیا میں ذلیل ہو گے اور آخرت کا عذاب الگ رہا آگے ان قوموں کا دنیاوی انجام بیان فرماتے ہیں جنہوں نے انبیاء سے دشمنی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیے تھے۔

۱۱۔۔۔  یعنی یہ نہیں کہ ان کے نیست و نابود کر دینے سے اللہ کی زمین اجڑ گئی وہ گئے دوسروں کو انکی جگہ بسا دیا گیا۔

۱۳۔۔۔  یعنی جب عذاب الٰہی سامنے آگیا تو چاہا کہ وہاں سے نکل بھاگیں اور بھاگ کر جان بچا لیں۔ اس وقت تکوینی طور پر کہا گیا کہ بھاگتے کہاں ہو، ٹھہرو، اور ادھر ہی واپس چلو جہاں عیش کیے تھے اور جہاں بہت سے سامانِ تنعم جمع کر رکھے تھے۔ شاید وہاں کوئی تم سے پوچھے کہ حضرت! وہ مال و دولت اور زور و قوت کا نشہ کیا ہوا؟ وہ سامان کدھر گئے؟ اور جو نعمتیں خدا نے دے رکھی تھیں ان کا شکر کہاں تک ادا کیا تھا؟ یا یہ کہ آپ بڑے آدمی تھے جن کی ہر موقع پر پوچھ ہوتی تھی، اب بھی وہیں چلیے۔ بھاگنے کی ضرورت نہیں تاکہ لوگ اپنے مہمات میں آپ سے مشورے کر سکیں اور آپ کی رائیں دریافت کر سکیں؟ (یہ سب باتیں تحکمًا کہی گئی ہیں)

۱ ۵۔۔۔   یعنی جب عذاب آنکھوں سے دیکھ لیا تب اپنے جرموں کا اعتراف کیا اور برابر یہ ہی چلاتے رہے کہ بیشک ہم ظالم اور مجرم ہیں۔ لیکن " اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت " یہ وقت قبول توبہ کا نہ تھا۔ اعتراف و ندامت اس وقت سب بیکار چیزیں تھیں آخر اس طرح ختم کر دیئے گئے جیسے کھیتی ایک دم میں کاٹ کر ڈھیر کر دی جاتی ہے یا آگ میں جلتی ہوئی لکڑی بجھ کر راکھ رہ جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔

۱۶۔۔۔  یعنی جس میں کوئی معتدبہ حکمت اور غرض صحیح نہ ہو۔ اس لیے عقلمند کو چاہیے کہ آفرینش عالم کی غرض کو سمجھے اور دنیا کو محض کھیل تماشا سمجھ کر انجام سے غافل نہ ہو، بلکہ خوب سمجھ لے کہ دنیا آخرت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر نیک و بد کی جزا ملنا اور ذرہ ذرہ کا حساب ہونا ہے۔

۱۸۔۔۔  یعنی اگر ایسے لہو و لعب کے کام بالفرض ہماری شان کے لائق ہوتے اور ہم ارادہ بھی کرتے کہ یوں ہی کوئی مشغلہ اور کھیل تماشا بنا کر کھڑا کر دیں تو یہ چیز ہم بذات خود اپنی قدرت سے کر گزرتے۔ تمہاری داروگیر اور پکڑ دھکڑ سے اس کو کچھ سروکار نہ ہوتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دنیا محض کھیل تماشا نہیں بلکہ میدانِ کارزار ہے۔ جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے۔ حق حملہ آور ہو کر باطل کا سر کچل ڈالتا ہے۔ اسی سے تم اپنی مشرکانہ اور سفیہانہ باتوں کا انجام سمجھ لو کہ حق و صداقت کا گولا جب پوری قوت سے تم پر گرے گا اس وقت کیسی خرابی اور بربادی تمہارے لیے ہو گی۔ اور کون سی طاقت بچانے آئے گی (تنبیہ) لَوْاَرَدْنَآ اَن نَّتَّخِذَلَہْوًا" الیٰ آخرہ کی تقریر کئی طرح کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک سباق و لحاق کے اعتبار سے جو معنی زیادہ قریب اور صاف تھے وہ اختیار کیے ہیں۔ اور مِن لَّدُنَّا اور اِنْ کُنَّا فَاعِلِیْنَ کی قیود کے فوائد کی طرف لطیف اشارے کر دیے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۱۹۔۔۔  پھر وہ تباہ کرنا چاہے تو کون بچا سکتا ہے اور کہاں پناہ مل سکتی ہے۔

۲۰۔۔۔  یعنی فرشتے باوجود مقربین بارگاہ ہونے کے ذرا شیخی نہیں کرتے۔ اپنے پروردگار کی بندگی اور غلامی کو فخر سمجھتے ہیں، وظائف عبودیت کے ادا کرنے میں کبھی سستی یا کاہلی کو راہ نہیں دیتے۔ شب و روز اس کی تسبیح اور یاد میں لگے رہتے ہیں۔ نہ جھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں۔ بلکہ تسبیح و ذکر ہی ان کی غذا ہے۔ جس طرح ہم ہر وقت سانس لیتے ہیں اور دوسرے کام بھی کرتے رہتے ہیں، یہی کیفیت ان کی تسبیح و ذکر کی سمجھو۔ وہ کسی کام پر مامور ہوں، کسی خدمت کو بجا لا رہے ہوں ایک منٹ ادھر سے غافل نہیں ہوتے جب معصوم و مقرب فرشتوں کا یہ حال ہے تو خطاکار انسان کو کہیں زیادہ اپنے رب کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔

۲۱۔۔۔  یعنی آسمان والے فرشتے تو اس کی بندگی سے کتراتے نہیں بلکہ ہمہ وقت اس کی یاد اور بندگی میں مشتغل رہتے ہیں، پھر کیا زمین میں کچھ ایسی ہستیاں ہیں جن کو خدا کے بالمقابل معبود ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اور جب خدا ان کے پجاریوں کو اپنے عذاب سے مار ڈالے تو وہ ان کو پھر جلا اٹھائیں یا ہلاکت سے بچا لیں؟ ہرگز نہیں۔

۲۲۔۔۔  ۱: تعددِ آلہہ کے ابطال پر یہ نہایت پختہ اور واضح دلیل ہے جو قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کی۔ اس کو یوں سمجھو کہ عبادت نام ہے کامل تذلل کا۔ اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جا سکتا ہے جو اپنی ذات و صفات میں ہر طرح کامل ہو، اسی کو ہم "اللہ" یا "خدا" کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خدا کی ذات ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، نہ وہ کسی حیثیت سے ناقص ہو نہ بیکار، نہ عاجز ہو نہ مغلوب، نہ کسی دوسرے سے دبے نہ کوئی اس کے کام میں روک ٹوک کر سکے۔ اب اگر فرض کیجئے آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو دونوں اسی شان کے ہوں گے، اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور علویات و سفلیات کی تدبیر دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتی ہے یا گاہ بگاہ باہم اختلاف بھی ہو جاتا ہے اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں۔ یا تو اکیلے ایک سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لیے دونوں نے مل کر انتظام کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں اور اگر تنہا ایک سارے عالم کا کامل طور پر انجام کر سکتا تھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا حالانکہ خدا کا وجود اسی لیے ماننا پڑا ہے کہ اس کے مانے بدون چارہ ہی نہیں ہو سکتا اور اگر اختلاف کی صورت فرض کریں تو لامحالہ مقابلہ میں ایک مغلوب ہو کر اپنے ارادہ اور تجویز کو چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ خدا نہ رہا۔ اور یا دونوں بالکل مساوی و متوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادہ اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے۔ اول تو (معاذ اللہ) خداؤں کی اس رسہ کشی میں سرے سے کوئی چیز موجود ہی نہ ہو سکے گی اور موجود چیز پر زور آزمائی ہونے لگی تو اس کشمکش میں ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہو جائے گی۔ یہاں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوتے تو آسمان و زمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہو جاتا۔ ورنہ ایک خدا کا بیکار یا ناقص و عاجز ہونا لازم آتا ہے جو خلافِ مفروض ہے۔

۲: جو عرش (تخت شاہی) کا اکیلا مالک ہے، اس کے ملک میں شرکت کی گنجائش ہی نہیں۔ دو خود مختار بادشاہ جب ایک اقلیم میں نہیں سما سکتے جن کی خود مختاری بھی محض مجازی ہے تو دو مختارِ کل اور قادرِ مطلق خدا ایک قلمرو میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔

۲۳۔۔۔  یعنی "خدا" تو اس ہستی کا نام ہے جو قادر مطلق ہے۔ جو قادر مطلق اور مختارِ کل ہو اس کی قدرت و مشیت کو روکنا تو کجا کوئی پوچھ پاچھ بھی نہیں کر سکتا کہ آپ نے فلاں کام اس طرح کیوں کیا۔ ہاں اس کو حق ہے کہ وہ ہر شخص سے مواخذہ اور باز پرس کر سکتا ہے۔

۲۴۔۔۔  ۱: پہلے توحید پر دلیل عقلی قائم کی گئی تھی۔ اب مشرکین سے ان کے دعوے پر دلیل صحیح کا مطالبہ ہے یعنی خدا کے سوا جو معبود تم نے تجویز کیے ہیں ان کا اثبات کس دلیل عقلی یا نقلی سے ہوا۔ اگر موجود ہو تو پیش کرو۔ ظاہر ہے ان کے پاس بجز اوہام وظنون اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید کے کیا رکھا تھا۔ شرک کی تائید میں نہ کوئی دلیل عقلی مل سکتی ہے، نہ نقلی جسے پیش کر سکتے۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ پہلے ان معبودوں کو فرمایا تھا کہ جن کو خدا کے برابر کوئی سمجھے کہ ایسے وہ حاکم ہوتے تو جہاں خراب ہو جاتا۔ اب ان کا ذکر فرماتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نیچے چھوٹے چھوٹے خدا بطور نائبین اور ماتحت حکام کے ٹھہراتے ہیں۔ سو ان کو مالک کی سند چاہیے۔ سند بغیر نائب کیونکر بن سکتے ہیں۔ اگر سند ہے تو پیش کرو۔

۲:  یعنی میری امت اور پہلی خدا پرست امتوں کی یہ ہی ایک بات ہے کہ اس رب العرش کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں جس کی عقلی دلیل پہلے بیان ہو چکی۔ تم اگر ملل سماویہ کے اس اجماعی عقیدہ کے خلاف کوئی دلیل رکھتے ہو تو پیش کرو۔ میرا دعویٰ یہ ہے کہ یہ امت اور پہلی امتیں اس امت کی کتاب (قرآن کریم) اور پہلی امتوں کی آسمانی کتابیں تورات، انجیل وغیرہ) سب اس میں دعوائے توحید پر متفق رہی ہیں۔ چنانچہ آج بھی باوجود بیشمار تحریفات کے پہلی کتابوں کی ورق گردانی کرو توحید کا اعلان اور شرک کا رد صاف صاف پاؤ گے مگر یہ جاہل اس بات کو کیا سمجھیں، اگر سمجھ ہوتی تو حق بات کو سن کر ہرگز نہ ٹلاتے۔

۲ ۵۔۔۔  یعنی تمام انبیاء و مرسلین کا اجماع عقیدہ توحید پر رہا ہے کسی پیغمبر نے کبھی ایک حرف اس کے خلاف نہیں کہا۔ ہمیشہ یہ ہی تلقین کرتے آئے کہ ایک خدا کے سوا کسی کی بندگی نہیں تو جس طرح عقلی اور فطری دلائل سے توحید کا ثبوت ملتا ہے اور شرک کا رد ہوتا ہے۔ ایسے ہی نقلی حیثیت سے انبیاء علیہم السلام کا اجماع دعوائے توحید کی حقیقت پر قطعی دلیل ہے۔

۲۶۔۔۔ ۱ عرب کے بعض قبائل ملائکۃ اللہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، سو بتلا دیا کہ یہ خدا کی شانِ رفیع کے لائق نہیں کہ بیٹے بیٹیاں بنائے۔ اسی میں نصاریٰ کا رد بھی ہو گیا جو حضرت مسیح علیہ السلام کو "ابن اللہ" کہتے ہیں نیز یہود کے اس فرقہ کا بھی جو حضرت عزیز کو خدا کا بیٹا کہتا تھا۔

۲۷۔۔۔  یعنی جن برگزیدہ ہستیوں کو تم خدا کی اولاد بتلاتے ہو وہ اولاد نہیں۔ ہاں اس کے معزز بندے ہیں اور باوجود انتہائی معزز و مقرب ہونے کے ان کے ادب و اطاعت کا حال یہ ہے کہ جب تک اللہ کی مرضی اور اجازت نہ پائیں اس کے سامنے خود آگے بڑھ کر لب نہیں ہلا سکتے اور نہ کوئی کام اس کے حکم کے بدون کر سکتے ہیں۔ گویا کمال عبودیت و بندگی ہی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔

۲۸۔۔۔  ۱: حق تعالیٰ کا علم ان کے تمام ظاہری و باطنی احوال کو محیط ہے۔ ان کی کوئی حرکت اور کوئی قول و فعل اس سے پوشیدہ نہیں، چنانچہ وہ مقرب بندے اسی حقیقت کو سمجھ کر ہمہ وقت اپنے احوال کا مراقبہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی حالت اس کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔

          ۲: یعنی اس کی مرضی معلوم کیے بدون کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے چونکہ مومنین موحدین سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اس لیے ان کے حق میں دنیا و آخرت میں استغفار کرنا ان کا وظیفہ ہے۔

۳:  پھر ان کو خدا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جب خدا نہیں تو خدا کے بیٹے یا بیٹیاں بھی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ صحیح اولاد جنس والدین سے ہونی چاہیے۔

۲۹۔۔۔  یعنی جن کو تم خدا کی اولاد یا خدا بنا رہے ہو اگر بفرض محال ان میں سے کوئی اپنی نسبت (معاذ اللہ) ایسی بات کہہ گزرے تو وہ ہی دوزخ کی سزا جو حد سے گزرنے والے ظالموں کو ملتی ہے ہم ان کو بھی دیں گے۔ ہمارے لا محدود اقتدار و جبروت سے وہ بھی باہر نہیں جا سکتے، پھر بھلا خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔

۳۰۔۔۔  ۱: "رتق" کے اصل معنے ملنے اور ایک دوسرے میں گھسنے کے ہیں۔ ابتداءاً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے غیر متمیز پڑے تھے پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں دونوں خلط ملط رہے، بعدہٗ قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا۔ اس تمیز کے بعد ہر ایک کے طبقات الگ الگ بنے، اس پر بھی منہ بند تھے، نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے روئیدگی، آ کر خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے دونوں کے منہ کھول دیے، اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے۔ اسی زمین میں سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے، آسمان کو کتنے بے شمار ستاروں سے مزین کر دیا جن میں سے ہر ایک کا گھر جدا اور چال جدی رکھی۔

۲:  یعنی عموماً جاندار چیزیں جو تم کو نظر آتی ہیں بالواسطہ پانی سے بنائی گئیں۔ پانی ہی ان کا مادہ ہے الاّ کوئی ایسی مخلوق جس کی نسبت ثابت ہو جائے کہ اس کی پیدائش میں پانی کو دخل نہیں وہ مستثنیٰ ہو گی۔ تاہم للا کثر حکم الکل کے اعتبار سے یہ کلیہ صادق رہے گا۔

۳:  یعنی قدرت کے ایسے کھلے نشان اور محکم انتظامات کو دیکھ کر بھی کیا لوگوں کو خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت پر یقین نہیں آتا۔

۳۱۔۔۔  ۱: اس کی تقریر سورہ نحل میں گزر چکی۔

۲: یعنی ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک والوں سے مل سکیں۔ اگر پہاڑ ایسے ڈھب پر پڑتے کہ راہیں بند ہو جاتیں تو یہ بات کہاں ہوتی (کذا فی الموضح) ان ہی کشادہ راہوں کو دیکھ کر انسان حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور توحید کی طرف راہ پا سکتا ہے۔

۳۲۔۔۔  ۱: یعنی نہ گرے نہ ٹوٹے پھوٹے نہ بدلی جائے اور شیاطین کے استراق سمع سے بھی محفوظ ہے۔ اور چھت اس لیے کہا کہ دیکھنے میں چھت کی طرح معلوم ہوتی ہے۔

۲: کہ کیسی مضبوط و محکم اور وسیع و بلند چھت اتنی مدت سے بدون ستون اور کھمبے کے کھڑی ہے۔ ذرا سا رنگ و روغن اور پلاسٹر بھی نہیں جھڑتا۔

۳۳۔۔۔ ۱: یہ ان ہی آسمانی نشانیوں کی قدرے تفصیل ہوئی۔

۲:  یعنی سورج چاند بلکہ ہر سیارہ اپنے مدار پر پڑا چکر کھا رہا ہے۔ "یَسْبَحُوْنَ" کے لفظ سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیارات اللہ کے حکم سے بذات خود چلتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۳ ۵۔۔۔  ۱: یعنی جس طرح مذکورہ بالا مخلوقات کا وجود حق تعالیٰ کی ایجاد سے ہوا۔ تمام انسانوں کی زندگی بھی اسی کی عطا کردہ ہے جس وقت چاہے گا چھین لے گا۔ موت ہر ایک پر ثابت کر دے گی کہ تمہاری ہستی تمہارے قبضہ میں نہیں۔ چند روز کی چہل پہل تھی جو ختم ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "کافر حضور کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں" اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب دیا۔ "وَمَاجَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ" یعنی انبیاء و مرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے۔ اور اگر محض آپ کی موت کے تصور سے اپنا دل ٹھنڈا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کا جواب "اَفَاِن مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ" میں دے دیا۔ یعنی خوشی کا ہے کی؟ کیا آپ کا انتقال ہو جائے تو تم کبھی نہیں مرو گے قیامت کے بوریے سمیٹو گے؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے۔ اس راستہ سے تو سب کو گزرنا ہے کون ہے جس کو کبھی موت کا مزہ چکھنا نہیں پڑے گا گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔

۲:  یعنی دنیا میں سختی، نرمی، تندرستی، بیماری، تنگی، فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہو جائے اور اعلانیہ ظاہر ہو جائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔

۳:  جہاں تمہارے صبر و شکر اور ہر نیک و بد عمل کا پھل دیا جائے گا۔

۳۶۔۔۔  یعنی انجام سے بالکل بے فکر ہو کر یہ لوگ پیغمبر علیہ السلام کی ہنسی اڑاتے ہیں اور ان سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ چنانچہ استہزاء و تحقیر سے کہتے ہیں "اَہٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِہَتَکُمْ" کیا یہ ہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرتا ہے۔ انہیں شرم نہیں آتی کہ خود حقیقی معبود کے ذکر اور "رحمن" کے نام تک سے چڑتے ہیں، اس کی سچی کتاب کے منکرین، اور جھوٹے معبودوں کی برائی سن کر چیں بجبیں ہوتے ہیں۔ اندریں صورت ہنسی کے قابل ان کی حالت ہوئی یا فریق مقابل کی؟

۳۷۔۔۔  شاید کفار کے سفیہانہ استہزاء و تمسخر کو سن کر بعضوں کا جی چاہا ہو گا کہ ان بے حیاؤں پر فوراً عذاب آ جائے تو اچھا ہو، اور خود کفار بھی بطور استہزاء جلدی مچایا کرتے تھے کہ اگر واقعی ہم تمہارے نزدیک مستحق عذاب ہیں تو وہ عذاب فوراً کیوں نہیں لے آتے۔ دونوں کو بتلایا کہ انسان بڑا جلد باز ہے گویا اس کے خمیر میں جلدی پڑی ہے، چاہیے کہ تھوڑا سا صبر کرو عنقریب میں اپنے قہر و انتقام کی نشانیاں تم کو دکھلا دوں گا۔

۳۸۔۔۔  یعنی کہتے رہتے ہو کہ قیامت آئے گی اور سب کافر ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جلیں گے۔ آخر یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر سچے ہو تو قیامت اور جہنم کو ابھی کیوں نہیں بلا لیتے۔

۴۰۔۔۔  یعنی اگر ان پر حقیقت منکشف ہو جائے اور اس ہولناک گھڑی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں تو کبھی ایسی درخواست نہ کریں۔ یہ باتیں اس وقت بے فکری میں سوجھ رہی ہیں، جب وہ وقت سامنے آ جائے گا کہ آگے پیچھے ہر طرف سے آگ گھیرے ہو گی تو نہ کسی طرف سے اس کو دفع کر سکیں گے، نہ کہیں سے مدد پہنچے گی، نہ مہلت ملے گی، نہ پہلے سے اس کا کامل اندازہ ہو گا۔ اس کے اچانک سامنے آ جانے سے ہوش باختہ ہو جائیں گے تب پتہ چلے گا کہ جس چیز کی ہنسی کرتے تھے وہ حقیقت ثابتہ تھی۔

۴۱۔۔۔  یعنی جس چیز سے ٹھٹھا کرتے تھے اس کی سزا نے گھیر لیا اور ان کی ہنسی ان پر ہی الٹ دی گئی۔

۴۲۔۔۔  ۱: یعنی رحمان کے غصہ اور عذاب سے تمہاری حفاظت کرنے والا دوسرا کون ہے، محض اس کی رحمت واسعہ ہے جو فوراً عذاب نازل نہیں کرتا لیکن ایسے رحمت والے حلیم و بردبار کے غصہ سے ڈرنا بھی بہت چاہیے نعوذباللہ من غضب الحلیم۔

۲:  یعنی رحمان کی حفاظت کا ان کو احساس و اعتراف نہیں۔ عیش و تنعم اور پر امن زندگی نے پروردگارِ حقیقی کی یاد سے غافل کر رکھا ہے۔ اسی لیے جب اس کی طرف سے کوئی نصیحت کی جاتی ہے تو منہ پھیر لیتے ہیں کہ یہ کہاں کی باتیں شروع کر دیں۔

۴۳۔۔۔  یعنی کیا اپنے فرضی معبودوں کی نسبت خیال ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرتے ہیں؟ اور موقع آنے پر خدا تعالیٰ کے غضب سے بچا لیں گے؟ سو وہ مسکین ان کی مدد اور حفاظت تو درکنار خود اپنے وجود کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے، اگر ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے یا کچھ چیز ان کے پاس سے چھین کر لے جائے تو اتنی قدرت نہیں کہ مدافعانہ تحفظ کے لیے خود ہاتھ پاؤں ہلا سکیں یا اپنے بچاؤ کی خاطر ہماری امداد و رفاقت حاصل کر لیں۔

۴۴۔۔۔  ۱: یعنی رحمان کی کلاءت و حفاظت اور بتوں کا عجز و بیچارگی ایسی چیز نہیں جس کو یہ لوگ سمجھ نہ سکیں۔ بات یہ ہے کہ پشت ہا پشت سے یہ لوگ بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی جھٹکا عذاب الٰہی کا نہیں لگا۔ اس پر مغرور ہو گئے اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر حق تعالیٰ کا پیغام اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا۔

۲:  یعنی عرب کے ملک میں اسلام پھیلنے لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہاں کی زمین کافروں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا۔ اور کیا ان مشاہدات کے باوجود وہ اسی کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں پر ہم غالب ہوں گے۔ اگر چشم عبرت ہے تو چاہیے کہ عقل سے کام لیں اور قرائن و احوال سے مستقبل کا اندازہ کریں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے گردو پیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں اور ہمیشہ آخرکار خدا کے وفاداروں کا مشن کامیاب رہا ہے۔ پھر سید المرسلین اور مومنین کاملین کے مقابلہ میں غالب آنے کی ان کو کیا توقع ہو سکتی ہے۔ وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَاحَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُریٰ وَصَرَّفْنَا الْایٰٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ (احقاف، رکوع۴، آیت:۲۷) (تنبیہ) اس مضمون کی آیت سورہ رعد کے آخر میں گزر چکی وہاں کے فوائد ملاحظہ کیے جائیں۔

۴ ۵۔۔۔  یعنی ہمارا کام وحی الٰہی کے موافق نصیحت سنا دینا اور انجام سے آگاہ کر دینا ہے۔ دل کے بہرے اگر اس پکار کو نہ سنیں تو ہمارا قصور نہیں۔ وہ خود اپنے بہرے پن کا خمیازہ بھگتیں گے۔

۴۶۔۔۔  یعنی یہ لوگ جو بہرے بنے ہوئے ہیں، صرف اس وقت تک ہے کہ ذرا زور سے کھٹکھٹائے نہ جائیں۔ اگر عذاب الٰہی کی ذرا سی بھنک کان میں پڑ گئی یا خدا کے قہر و انتقام کی ادنیٰ بھاپ بھی ان کو چھو گئی تو آنکھ کان سب کھل جائیں گے اس وقت بدحواس ہو کر چلائیں گے کہ بیشک ہم بڑے بھاری مجرم تھے جو ایسی کم بختی آئی۔

۴۷۔۔۔   ۱: یعنی رائی کے دانہ کے برابر کسی کا عمل ہو گا وہ بھی میزان میں تلے گا، ادھر ادھر ضائع نہ ہو گا نہ کسی پر ظلم و زیادتی کی جائے گی۔ رتی رتی کا حساب برابر کر دیا جائے گا (تنبیہ) "موازین" میزان کی جمع ہے شاید بہت سی ترازوئیں ہوں یا ایک ہی ہو مگر مختلف اعمال و عمال کے اعتبار سے کئی قرار دے دی گئیں واللہ اعلم۔ وزن اعمال اور میزان کے متعلق سورہ "اعراف" میں کلام کیا جا چکا ہے اسے دیکھ لیا جائے۔

۲:  یعنی ہمارا حساب آخری اور فیصلہ کن ہو گا جس کے بعد کوئی دوسرا حساب نہیں۔ نہ ہم کو ساری مخلوق کا حساب لینے میں کسی مددگار کی ضرورت ہے۔ آگے بتلایا کہ انذار و تخویف کا سلسلہ پہلے سے چلا آتا ہے۔ آج جن باتوں سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ڈراتے ہیں انبیائے سابقین بھی ان سے ڈراتے چلے آئے ہیں۔

۴۸۔۔۔  یعنی تورات شریف جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت اور حلال و حرام کے قضیے چکانے والی اور جہل و غفلت کی اندھیریوں میں روشنی پہنچانے والی اور خدا سے ڈرنے والوں کو نصیحت سنانے والی کتاب تھی۔

۴۹۔۔۔  قیامت کا خطرہ بھی اسی لیے رکھتے ہیں کہ ان کے دل میں خدا کا ڈر ہے۔ ہر وقت دل میں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ دیکھئے وہاں کیا صورت پیش آئے گی۔ کہیں العیاذ باللہ حق تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کے مورد نہ بن جائیں۔ ظاہر ہے ایسے ہی لوگ نصیحت سے منتفع ہوتے ہیں۔

 ۵۰۔۔۔  یعنی ایک نصیحت کی کتاب یہ قرآن تمہارے سامنے موجود ہے جس کا جلیل القدر عظیم النفع اور کثیر الخیر ہونا، تورات سے بھی زیادہ روشن ہے۔ کیا ایسی واضح اور روشن کتاب کے تم منکر ہوتے ہو جہاں انکار کی گنجائش ہی نہیں۔

 ۵۱۔۔۔  ۱: یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام سے پیشتر ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی اعلیٰ قابلیت و شان کے مناسب رشد و ہدایت دی تھی، بلکہ جوانی سے پہلے ہی بچپن میں اسے نیک راہ پر ڈال دیا تھا جو ایسے اولوالعزم انبیاء کے شایان شان ہو۔

۲:  یعنی اس کی استعداد و اہلیت اور کمالات علمیہ کی پوری خبر ہم ہی رکھتے ہیں۔ اسی لیے جو رشدو و ہدیٰ اس کے حسب حال تھی ہم نے عطا کر دی۔

 ۵۲۔۔۔  یعنی ذرا ان کی اصلیت اور حقیقت تو بیان کرو۔ آخر پتھر کی خود تراشیدہ مورتیاں خدا کسی طرح بن گئیں۔

 ۵۳۔۔۔  ۱: یعنی عقل و فطرت اور نقل معتدبہ کی کوئی شہادت ہماری تائید میں نہیں ہے نہ سہی لیکن بڑی بھاری دلیل بت پرستی کے حق و صواب ہونے کی یہ ہے کہ اوپر سے ہمارے باپ دادا ان ہی کی پوجا کرتے چلے آئے ہیں۔ پھر ہم اپنے بڑوں کا طریقہ کیسے چھوڑ دیں۔

۲:  یعنی اس دلیل سے تمہاری حقانیت اور عقلمندی ثابت نہ ہوئی۔ ہاں یہ ثابت ہوا کہ تمہارے باپ دادا بھی تمہاری طرح گمراہ اور بیوقوف تھے جن کی کورانہ تقلید میں تم تباہ ہو رہے ہو۔

 ۵ ۵۔۔۔  ۱: تمام قوم کے عقیدہ کے خلاف ابراہیم علیہ السلام کی ایسی سخت گفتگو سن کر ان میں اضطراب پیدا ہو گیا کہنے لگے کیا سچ مچ تیرا خیال اور عقیدہ یہ ہی ہے یا محض ہنسی اور دل لگی کرتا ہے۔

۲:  یعنی میرا عقیدہ ہی یہ ہے اور پورے یقین و بصیرت سے اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میرا تمہارا سب کا رب وہ ہی ایک خدا ہے جس نے آسمان زمین پیدا کیے اور ان کی دیکھ بھال رکھی۔ کوئی دوسری چیز اس کی خدائی میں شریک نہیں ہو سکتی۔

 ۵۷۔۔۔  یہ بات ذرا آہستہ کہی کہ بعض نے سنی، بہتوں نے نہ سنی، جنہوں نے سنی اس کی کچھ پروا نہ کی، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ تنہا ایک نوجوان ساری قوم کے معبودوں کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔

 ۵۸۔۔۔  جب وہ لوگ شہر سے باہر ایک میلہ میں گئے تب ابراہیم علیہ السلام نے بت خانہ میں جا کر بتوں کو توڑ ڈالا۔ صرف ایک بت کو باقی رہنے دیا جو باعتبار جثہ کے یا تعظیم و تکریم کے ان کے نزدیک سب سے بڑا تھا، اور جس کلہاڑی سے توڑا تھا وہ اس بڑے کے گلے میں لٹکا دی، تاکہ وہ لوگ جب واپس آ کر یہ صورت حال دیکھیں تو قدرتی طور پر ان کا خیال اس بڑے بت کی طرف ہو یا الزاماً اس کی طرف رجوع کرایا جا سکے۔

 ۵۹۔۔۔ ۱ یعنی یہ گستاخی اور بے ادبی کی حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے کی یقیناً جس نے یہ کام کیا بڑا ظالم اور شریر ہے (استغفراللہ) یہ شاید ان لوگوں نے کہا ہو گا جن کے کان تک "تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ" کی آواز نہ پہنچی تھی۔

۶۰۔۔۔  یہ کہنے والے وہ لوگ ہوں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جملے سن چکے تھے۔ یعنی وہ ہی ایک شخص ہے جو ہمارے معبودوں کا ذکر برائی سے کیا کرتا ہے، یقیناً یہ کام اسی نے کیا ہو گا۔

۶۱۔۔۔  یعنی اس کو بلا کر برملا مجمع عام میں بیان لیا جائے۔ تاکہ معاملہ کو سب لوگ دیکھ کر خود اس کی باتیں سن کر گواہ رہیں کہ جو سزا اس کو قوم کی طرف سے دی جائے گی بیشک وہ اس کا مستحق تھا۔ یہ تو ان کی غرض تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصود بھی یہ ہی ہو گا کہ مجمع عام میں ان کو موقع ملے کہ مشرکین کو عاجز و مبہوت کریں اور علیٰ رؤس الاشہاد غلبہ حق کا اظہار ہو۔

۶۳۔۔۔  یعنی مجھ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ فرض کر لیا جائے کہ اس بڑے گروگھنٹال نے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور توڑنے کا آلہ بھی اس کے پاس موجود ہے، یہ کام کیا ہو گا۔ لیجئے بحث و تحقیق کے وقت بطور الزام و تبکیت میں یہ دعویٰ کیے لیتا ہوں کہ بڑے بت نے سب چھوٹوں کو توڑ ڈالا۔ اب آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کیا دنیا میں ایسا ہوتا نہیں کہ بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے۔ اور بڑے بادشاہ چھوٹی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالتے ہیں، اس لیے بہترین صورت میرے تمہارے درمیان فیصلہ کی یہ ہے کہ تم خود اپنے ان معبودوں ہی سے دریافت کر لو کہ یہ ماجرا کس طرح ہوا، اگر یہ کچھ بول سکتے ہیں تو کیا ایسے اہم معاملہ میں بول کر میرے جھوٹ سچ کا فیصلہ نہ کر دیں گے؟ (تنبیہ) ہماری تقریر سے ظاہر ہو گیا کہ "بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا" کہنا خلاف واقعہ خبر دینے کے طور پر نہ تھا جسے حقیقتہً جھوٹ کہا جائے بلکہ ان کی تحمیق و تجہیل کے لیے ایک فرضی احتمال کو بصورت دعویٰ لے کر بطور تعریض و الزام کلام کیا گیا تھا جیسا کہ عموماً بحث و مناظرہ میں ہوتا ہے اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں بظاہر صورت جھوٹ کی معلوم ہوتی ہے اسی لیے بعض احادیث میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق صورۃً کیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس کی توجیہ میں اور بھی کئی محمل بیان کیے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک یہ ہی تقریر زیادہ صاف بے تکلف اور اقرب الی الروایات ہے۔ واللہ اعلم۔

۶۴۔۔۔  یعنی سمجھے کہ بیکار پتھر پوجنے سے کیا حاصل یا یہ مطلب ہو کہ تم نے خود اپنے اوپر ظلم کیا کہ باوجود ابراہیم علیہ السلام کی دھمکی سننے کے یوں ہی لاپروائی سے بت خانہ کھلا چھوڑ کر چلے گئے اپنے معبودوں کی حفاظت کا کوئی سامان کر کے نہ گئے کذا قال ابن کثیر۔

۶ ۵۔۔۔  ۱: یعنی شرمندگی سے آنکھ نہیں ملا سکے تھے۔

۲: یعنی جان بوجھ کر ہم سے ایسی ناممکن بات کا مطالبہ کیوں کرتا ہے کہیں پتھر بھی بولے ہیں؟

۶۷۔۔۔  یعنی پھر تم کو ڈوب مر جانا چاہیے کہ جو مورتی ایک لفظ نہ بول سکے، کسی آڑے وقت کام نہ آ سکے، ذرہ برابر نفع و نقصان اس کے اختیار میں نہ ہو، اسے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے، کیا اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔

۶۸۔۔۔   یعنی بحث و مناظرہ میں تو اس سے جیت نہیں سکتے۔ اب صرف ایک ہی صورت ہے کہ (جو معبود ہماری بلکہ خود اپنی مدد نہیں کر سکتے) ہم ان کی مدد کریں اور ان کے دشمن کو سخت ترین سزا دیں۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو ہم نے کچھ کام نہ کیا۔ چنانچہ اس مشورہ کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کی سزا تجویز ہوئی۔گویا جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑ کر ان کے دل جلائے تھے، یہ ان کو آگ میں جلا ڈالیں۔ آخر ظالموں نے جمع ہو کر نہایت اہتمام اور بے رحمی کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سخت بھڑکتی ہوئی آگ کی نذر کر دیا۔

۶۹۔۔۔  یعنی تکویناً آگ کو حکم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہو جا۔ لیکن اس قدر ٹھنڈی نہیں کہ برودت سے تکلیف پہنچنے لگے۔ ایسی معتدل ٹھنڈی ہو جو جسم وجان کو خوشگوار معلوم ہونے لگے (تنبیہ) آگ کا ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈا ہو جانا ان کا معجزہ تھا۔ معجزہ کی حقیقت یہ ہی ہے کہ حق تعالیٰ اپنی عام عادت کے خلاف سبب عادی کو مسبب سے یا مسبب کو سبب سے جدا کر دے، یہاں احراق کا سبب (آگ) موجود تھی، مگر مسبب اس پر مرتب نہ ہوا، معجزہ وغیرہ کے متعلق مفصل کلام ہم نے ایک مستقل تحریر میں کیا ہے جو رسالہ "الحمود" کے کئی نمبروں میں چھپ چکی۔ فلیراجع۔

۷۰۔۔۔  یعنی ابراہیم علیہ السلام کا برا چاہتے تھے، لیکن خود ناکامی، ذلت اور خسارہ میں پڑ گئے حق کی صداقت برملا ظاہر ہوئی اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا۔ قال فی البحر المحیط "قد اکثر الناس فی حکایتہ ماجریٰ لابراہیم علیہ السلام۔ والذی صح ہو ماذکرہ اللہ تعالیٰ من انہ علیہ السلام القی فی النار فجعلہا اللہ علیہ برداً و سلماً

۷۱۔۔۔  یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مع حضرت لوط علیہ السلام کے صحیح سالم ملک شام میں لے گئے جہاں بہت سی ظاہری و باطنی برکات ودیعت کی گئی ہیں۔

۷۲۔۔۔  ۱: یعنی بڑھاپے میں بیٹا مانگا تھا، ہم نے پوتا بھی دے دیا۔ یعنی یعقوب علیہ السلام۔

۲: یعنی ابراہیم، لوط، اسحاق، یعقوب علیھم السلام اعلیٰ درجہ کے نیک بندوں میں ہیں۔ کیونکہ سب نبی ہوئے اور انبیاء سے بڑھ کر نیکی کس میں ہو سکتی ہے۔

۷۳۔۔۔  ۱: یعنی ایسے کامل تھے کہ دوسروں کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

۲:  یعنی ان کی طرف وحی بھیجی جس میں ان امور کی تاکید تھی۔ یہ ان کا کمال علمی ہوا۔

۳:  یعنی شب و روز ہماری بندگی میں لگے رہتے تھے کسی دوسری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ یہ ہی انبیاء کی شان ہوتی ہے کہ ان کا ہر کام خدا کی بندگی کا پہلو لیے ہوتا ہے۔ یہ عملی کمال ہوا۔

۷۴۔۔۔  ۱: یعنی حکمت و حکومت اور علم و فہم جو انبیاء کی شان کے لائق ہو۔

۲:  بستی سے مراد "سدوم" اور اس کے ملحقات ہیں۔ وہاں کے لوگ خلافِ فطرت افعال کے مرتکب اور بہت سے گندے کاموں میں مبتلا تھے۔ ان کا قصہ پہلے کئی جگہ گزر چکا۔

۷ ۵۔۔۔  ۱: یعنی جب لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب بھیجا تو لوط علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو ہم نے اپنی مہربانی اور رحمت کی چادر میں ڈھانپ لیا۔ تاکہ نیکوں کا اور بدوں کا انجام الگ الگ ظاہر ہو جائے۔

۲:   یعنی ابراہیم علیہ السلام اور لوط سے پہلے۔

۷۷۔۔۔  نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک قوم کو سمجھاتے رہے اتنی طویل مدت میں سخت زہرہ گداز سختیاں اٹھائیں۔ آخر دعا کی "اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ" (قمر، رکوع۱، آیت:۱۰) اور "رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔"(نوح، رکوع۲، آیت:۲۶) حق تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔ کافروں کو طوفان سے غرق کر دیا اور نوح علیہ السلام کو مع ہمراہیوں کے طوفان کی گھبراہٹ اور کفار کی ایذا دہی سے بچا لیا۔ ان کا مفصل قصہ پہلے گزر چکا۔

۷۹۔۔۔  ۱: حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے صاحبزادے ہیں، اور خود نبی ہیں دونوں کو اللہ تعالیٰ نے حکومت، قوتِ فیصلہ اور علم و حکمت عنایت فرمائے تھے۔ حضرت سلیمان بچپن ہی میں اس قدر غیر معمولی سمجھ کی باتیں کرتے تھے کہ سننے والے حیران رہ جائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک شخص کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں آ گھسیں کھیتی کا نقصان ہوا، حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ بکریوں کی قیمت اس مالیت کے برابر ہے جس کا کھیت والے نے نقصان اٹھایا تھا، یہ فیصلہ کیا کہ بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ میرے نزدیک کھیتی والا بکریاں اپنے پاس رکھے اور دودھ پئے اور بکریوں والے کھیت کی آبپاشی اور تردد کریں جب کھیتی جیسی تھی ویسی ہو جائے تو بکریاں لوٹا دیں اور کھیتی لے لیں اس میں دونوں کا نقصان نہ ہو گا۔ حضرت داؤد نے بھی یہ فیصلہ سن کر تحسین فرمائی اور اپنے اجتہاد سے رجوع کیا۔ گویا اصول فقہ کی اصطلاح میں سلیمان علیہ السلام کے استحسان کو اپنے قیاس کے مقابلہ میں قبول فرما لیا۔ باپ بیٹے دونوں نے جو فیصلہ شرکائے مقدمہ کے حق میں کیا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تھا اور دونوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے فیصلہ کرنے کی قوت اور سمجھ عنایت کی تھی۔ لیکن اصل گر کی بات اس نے سلیمان علیہ السلام کو سجھا دی وہ اس نتیجہ پر پہنچے جو اللہ کے نزدیک اصلح و اصوب تھا، اور جسے آخرکار داؤد علیہ السلام نے بھی قبول کیا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوا کہ انبیاء علیہم السلام بادشاہ ہو کر بھی مخلوق کے چھوٹے چھوٹے معاملات کی طرف اسی قدر توجہ فرماتے ہیں جیسے بڑے مہم کاموں کی طرف۔

۲:  حضرت داؤد علیہ السلام بے انتہا خوش آواز تھے اس پر پیغمبرانہ تاثیر، حالت یہ ہوتی تھی کہ جب جوش میں آ کر زبور پڑھتے یا خدا کی تسبیح و تحمید کرتے تو پہاڑ اور پرند جانور بھی ان کے ساتھ آواز سے تسبیح پڑھنے لگتے تھے۔

۳:  یعنی تعجب نہ کرو کہ پتھر اور جانور کیسے بولتے اور تسبیح پڑھتے ہوں گے یہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا تھا، بھلا ہماری لا محدود قوت کے لحاظ سے یہ باتیں کیا مستبعد سمجھی جا سکتی ہیں۔

۸۰۔۔۔ ۱ : حق تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہا موم کر دیا تھا۔ اسے موڑ کر نہایت ہلکی مضبوط، جدید قسم کی زرہیں تیار کرتے تھے جو لڑائی میں کام دیں۔

۲:  یعنی تمہارے فائدہ کے لیے ہم نے داؤد علیہ السلام کے ذریعہ سے ایسی عجیب صنعت نکال دی، سوچو کہ تم اس قسم کی نعمتوں کا کچھ شکر ادا کرتے ہو۔

۸۱۔۔۔  ۱: حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعاء کی تھی رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًالَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ(ص، رکوع۳، آیت:۳۵) اللہ تعالیٰ نے ہوا اور جن ان کے لیے مسخر کر دیے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک تخت تیار کرایا تھا جس پر مع اعیان دولت بیٹھ جاتے اور ضروری سامان بھی بار کر لیا جاتا، پھر ہوا آتی، زور سے اس کو زمین سے اٹھاتی، پھر اوپر جا کر نرم ہوا ان کی ضرورت کے مناسب چلتی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ "رُخَآءً حَیثُ اَصَابَ" (ص، رکوع۳، آیت: ۳۶) یمن سے شام کو اور شام سے یمن کو مہینہ کی راہ دوپہر میں پہنچا دیتی۔ تعجب ہے کہ آج عجیب و غریب ہوائی جہازوں کے زمانہ میں بہت سے زائغین اس قسم کے واقعات کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یورپ جو کام اسٹیم اور الیکٹرک سے کر سکتا ہے خدا تعالیٰ ایک پیغمبر کی خاطر اپنی قدرت سے نہیں کر سکتا۔

۲:  کہ کس کو کس قسم کا امتیاز دینا مناسب ہے، اور ہوا وغیرہ عناصر سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔

۸۲۔۔۔  ۱: شیاطین سے مراد سرکش جن ہیں، ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام دریا میں غوطہ لگواتے تاکہ موتی اور جواہر اس کی تہ میں سے نکالیں اور عمارات میں بھاری کام کرواتے اور حوض کے برابر تانبے کے لگن اور بڑی عظیم الشان دے گیں جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں بنوا کر اٹھواتے تھے اور سخت سخت کام ان سے لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قسم کے حیرت انگیز کام اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مادی قوتوں سے کرائے ہیں اس وقت مخفی اور روحی قوتوں سے کرائے جاتے تھے۔

۲:  یعنی ہم نے اپنے اقتدارِ کامل سے ان شیاطین کو سلیمان کی قید میں اس طرح تھام رکھا تھا کہ جو چاہتے ان سے بیگار لیتے تھے۔ اور وہ کوئی ضرر سلیمان علیہ السلام کو نہیں پہنچا سکتے تھے۔ ورنہ آدمی کی کیا بساط ہے کہ ایسی مخلوق کو اپنے قبضہ میں لے کر اور زنجیروں میں جکڑ کر رکھ چھوڑے "وَاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِیْ الْاَصْفَادِ" (ص، رکوع۳، آیت:۳۸)

۸۴۔۔۔  ۱: حضرت ایوب علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے دنیا میں سب طرح آسودہ رکھا تھا، کھیت، مواشی، لونڈی، غلام، اولاد صالح اور عورت مرضی کے موافق عطا کی تھی۔ حضرت ایوب علیہ السلام بڑے شکر گزار بندے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، کھیت جل گئے، مویشی مر گئے، اور اولاد اکٹھی دب مری، دوست آشنا الگ ہو گئے، بدن میں آبلے پڑ کر کیڑے پڑ گئے ایک بیوی رفیق رہی، آخر وہ بیچاری بھی اکتانے لگتی۔ مگر حضرت ایوب علیہ السلام جیسے نعمت میں شاکر تھے ویسے ہی بلا میں صابر رہے۔ جب تکلیف و اذیت اور دشمنوں کی شماتت حد سے گزر گئی۔ بلکہ دوست بھی کہنے لگے کہ یقیناً ایوب علیہ السلام نے کوئی ایسا سخت گناہ کیا ہے جس کی سزا ایسی ہی سخت ہو سکتی تھی تب دعا کی "رَبِّ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ" رب کو پکارنا تھا کہ دریائے رحمت امنڈ پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد سے دگنی اولاد دی، زمین سے چشمہ نکالا۔ اسی سے پانی پی کر اور نہا کر تندرست ہوئے۔ بدن کا سارا روگ جاتا رہا۔ اور جیسا کہ حدیث میں ہے سونے کی ٹڈیاں برسائیں، غرض سب طرح درست کر دیا۔

۲:   یعنی ایوب علیہ السلام پر یہ مہربانی ہوئی اور تمام بندگی کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت اور یادگار قائم ہو گئی کہ جب کسی بندے پر دنیا میں برا وقت آئے تو ایوب علیہ السلام کی طرح صبرو استقلال دکھلانا اور صرف اپنے پروردگار سے فریاد کرنا چاہیے۔ حق تعالیٰ اس پر نظر عنایت فرمائے گا۔ اور محض ایسے ابتلاء کو دیکھ کر کسی شخص کی نسبت یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اللہ کے یہاں مبغوض ہے۔

۸ ۵۔۔۔  یعنی ان سب نیک بندوں کو یاد کرو۔ اسماعیل اور ادریس علیہما السلام کا ذکر پہلے سورہ "مریم" میں گزر چکا۔ ذوالکفل کی نسبت اختلاف ہے کہ نبی تھے جیسا کہ انبیاء کے ذیل میں تذکرہ فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے یا محض ایک مرد صالح تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کے ضامن ہو کر کئی برس قید رہے اور لِلّٰہ یہ محنت اٹھائی۔ (تنبیہ) مسند امام احمد اور جامع ترمذی میں ایک شخص کا قصہ آتا ہے جو پہلے سخت بدکار اور فاسق و فاجر تھا، بعدہٗ تائب ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کی بشارت اسی دنیا میں لوگوں کو سنا دی، اس کا نام حدیث میں "کفل" آیا ہے۔ بظاہر یہ وہ "ذوالکفل" نہیں جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا۔ واللہ اعلم۔ ہمارے زمانے کے بعض مصنفین کا خیال ہے کہ "ذوالکفل" وہ ہی ہیں جن کو "حزقیل" کہا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۸۷۔۔۔  ۱: "مچھلی والا" فرمایا حضرت یونس علیہ السلام کو۔ ان کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینویٰ کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ یونس علیہ السلام نے ان کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ وہ ماننے والے کہاں تھے، روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ آخر بددعا کی اور قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصہ میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بددعا خالی نہیں جائے گی کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلے گئے اور ماؤں کو بچوں سے جدا کر دیا۔ میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا، بچے اور مائیں، آدمی اور جانور سب شور مچا رہے تھے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، تمام بستی والوں نے سچے دل سے توبہ کی، بت توڑ ڈالے۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے کہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کاربند ہوں۔ حق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا۔ "فَلَوْلَا کَاَنْت قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَا اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّا اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلیٰ حِیْنٍ۔" (یونس، رکوع۱۰، آیت:۹۸) ادھر یونس علیہ السلام بستی سے نکل کر ایک جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئے وہ کشتی غرق ہونے لگی۔ کشتی والوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نیچے پھینک دیا جائے (یا اپنے مفروضات کے موافق یہ سمجھے کہ کشتی میں کوئی غلام مولا سے بھاگا ہوا ہے) بہرحال اس آدمی کی تعیین کے لیے قرعہ ڈالا۔ وہ یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ دو تین مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر دفعہ یونس علیہ السلام کے نام پر نکلتا رہا۔ یہ دیکھ کر یونس علیہ السلام دریا میں کود پڑے۔ فوراً ایک مچھلی آ کر نگل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس علیہ السلام کو اپنے پیٹ میں رکھ، اس کا ایک بال بیکا نہ ہو۔ یہ تیری روزی نہیں بلکہ تیرا پیٹ ہم نے اس کا قید خانہ بنایا ہے۔ اس کو اپنے اندر حفاظت سے رکھنا۔ اس وقت یونس علیہ السلام نے اللہ کو پکارا۔ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔" اپنی خطا کا اعتراف کیا کہ بیشک میں نے جلدی کی کہ تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ گو یونس علیہ السلام کی یہ غلطی اجتہادی تھی جو امت کے حق میں معاف ہے، مگر انبیاء کی تربیت و تہذیب دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس معاملہ میں وحی آنے کی امید ہو، بدون انتظار کیے قوم کو چھوڑ کر چلا جانا ایک نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ اسی مناسب بات پر داروگیر شروع ہو گئی۔ آخر توبہ کے بعد نجات ملی مچھلی نے کنارہ پر آ کر اگل دیا۔ اور اس بستی کی طرف صحیح سالم واپس کیے گئے۔

۲:  یعنی یہ خیال کر لیا کہ ہم اس حرکت پر کوئی داروگیر نہ کریں گے، یا اسی طرح نکل کر بھاگا جیسے کوئی یوں سمجھ کر جائے کہ اب ہم اس کو پکڑ کر واپس نہیں لا سکیں گے۔ گویا بستی سے نکل کر ہماری قدرت سے ہی نکل گیا۔ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ یونس علیہ السلام فی الواقع ایسا سمجھتے تھے۔ ایسا خیال تو ایک ادنیٰ مومن بھی نہیں کر سکتا بلکہ غرض یہ ہے کہ صورت حال ایسی تھی جس سے یوں منتزع ہو سکتا تھا۔ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرایہ میں ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کئی جگہ لکھ چکے ہیں اور اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی۔ بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں۔

۳:  یعنی دریا کی گہرائی، مچھلی کے پیٹ اور شب تاریک کے اندھیروں میں۔

۴:  یعنی میری خطا کو معاف فرمائیے بیشک مجھ سے غلطی ہوئی۔

۸۸۔۔۔  یعنی یونس علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں، جو ایماندار لوگ ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو بلاؤں سے نجات دیں گے۔ احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے۔ اور امت نے شدائد و  نوائب میں ہمیشہ اس کو مجرب پایا ہے۔

۸۹۔۔۔  ۱: یعنی اولاد دے جو میرے بعد قوم کی خدمت کر سکے اور میری تعلیم کو پھیلائے جیسا کہ سورہ "مریم" کے فوائد میں لکھا جا چکا ہے۔

۲:  وارث طلب کر رہے تھے "یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ" (مریم، رکوع۱، آیت:۶) اسی کے مناسب نام سے اللہ کو یاد کیا۔

۹۰۔۔۔  ۱: یعنی بانجھ عورت کو ولادت کے قابل کر دیا۔

۲: بعض متصوفین کہا کرتے ہیں کہ جو کوئی اللہ کو پکارے توقع سے یا ڈر سے وہ اصلی محب نہیں۔ یہاں سے ان کی غلطی ظاہر ہوئی۔ انبیاء سے بڑھ کر خدا کا محب کون ہو سکتا ہے۔

۹۱۔۔۔   ۱: یعنی حلال و حرام دونوں طریقوں سے محفوظ تھی۔

۲:  یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو جو "روح اللہ" کے لقب سے ملقب ہیں اس کے پیٹ میں پرورش کیا۔

۳:  ان کا "نشانی" ہونا سورہ آل عمران اور سورہ مریم میں بیان ہو چکا ہے۔

۹۲۔۔۔  یعنی خدا بھی ایک اور تمہارا اصل دین بھی ایک ہے۔ تمام انبیاء اصول میں متحد ہوتے ہیں جو ایک کی تعلیم ہے وہ ہی دوسروں کی ہے۔ رہا فروع کا اختلاف وہ زمان و مکان کے اختلاف کی وجہ سے عین مصلحت و حکمت ہے۔ اختلاف مذموم وہ ہے جو اصول میں ہو، پس لازم ہے کہ سب مل کر خدا کی بندگی کریں اور جن اصول میں تمام انبیاء متفق رہے ہیں ان کو متحدہ طاقت سے پکڑیں۔

۹۳۔۔۔  ہم نے تو اصول کے اعتبار سے ایک دین دیا تھا۔ لوگوں نے خود اختلاف ڈال کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر لیے اور آپس میں پھوٹ ڈال دی۔

۹۴۔۔۔ ۱: یعنی ہمارے پاس آ کر تمام اختلافات کا فیصلہ ہو جائے گا جب ہر ایک کو اس کے کیے کی جزاء ملے گی۔ آگے اس جزاء کی تفصیل ہے۔

۲:  یعنی کسی کی محنت اکارت نہ جائے گی۔ نیکی کا میٹھا پھل مومن کو مل کر رہے گا۔ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہ ہو گی ہر چھوٹا بڑا عمل ہم اس کے اعمال نامہ میں ثبت کر دیتے ہیں جو قیامت کے دن کھول دیئے جائیں گے۔

۹ ۵۔۔۔  پہلے نجات پانے والے مومنین کا ذکر تھا اس کے بالمقابل اس آیت میں ہلاک ہونے والے کافروں کا مذکور ہے یعنی جن کے لیے ہلاک اور غارت ہونا مقدر ہو چکا وہ کبھی اپنے کفر و عصیان کو چھوڑ کر اور توبہ کر کے خدا کی طرف رجوع ہونے والے نہیں۔ نہ وہ کبھی دنیا میں اس غرض سے واپس کیے جا سکتے ہیں کہ دوبارہ یہاں آ کر گذشتہ زندگی کی تقصیرات کی تلافی کر لیں۔ پھر ان کو نجات و فلاح کی توقع کدھر سے ہو سکتی ہے۔ ان کے لیے تو صرف ایک ہی وقت ہے جب وہ دوبارہ زندہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کریں گے اور اپنی زیادتیوں کے معترف ہو کر پشیماں ہوں گے۔ مگر اس وقت پشیمانی کچھ کام نہ آئے گی وہ وقت قیامت کا ہے جس کے مبادی قریبہ میں سے ہے خروج "یاجوج و ماجوج" آگے اس کو بیان فرماتے ہیں۔

۹۶۔۔۔  یعنی قیامت کے قریب نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سدّ ذوالقرنین توڑ کر "یاجوج ماجوج" کا لشکر ٹوٹ پڑے گا۔ یہ لوگ اپنی کثرت و ازدحام کی وجہ سے تمام بلندی و پستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو ان ہی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز رفتار سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت روک نہ سکے گی۔ یہ معلوم ہو گا کہ ہر ایک ٹیلہ اور پہاڑ سے ان کی فوجیں پھسلتی اور لڑھکتی چلی آ رہی ہیں۔ سورہ "کہف" کے آخر میں اس قوم کے متعلق ہم جو کچھ لکھ چکے ہیں اس کا ایک مرتبہ مطالعہ کر لیا جائے۔

۹۷۔۔۔  ۱: یعنی جزاء و سزا کا وعدہ جب نزدیک آ لگے گا اس وقت منکروں کی آنکھیں مارے شدتِ ہول کے پھٹی رہ جائیں گی اور اپنی غفلت پر دست حسرت ملیں گے کہ افسوس آج کے دن ہم کیسے بے خبر رہے جو ایسی کم بختی آئی۔ کاش ہم دنیا میں اس آفت سے بچنے کی فکر کرتے۔

۲:  یعنی بے خبری بھی کیسے کہیں، آخر انبیاء علیہم السلام نے کھول کھول کر آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن ہم نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ ان کا کہا نہ مانا اور برابر شرارتوں اور گناہوں پر اصرار کرتے رہے۔

۹۸۔۔۔  یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو بت پوجتے تھے، یعنی تم اور تمہارے یہ معبود سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے "وَقُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ" (بقرہ، رکوع۳، آیت:۲۴) اس کے معنی یہ نہیں کہ اصنام (بت) معذب ہوں گے۔ بلکہ غرص یہ ہے کہ بت پرستوں پر حجت زیادہ لازم ہو۔ جیسا کہ آگے فرمایا "لَوْکَانَ ہٰؤُلَآءِ اٰلِہَۃً مَّا وَرَدُوْہَا" اور ان کی حسرت بڑھے اور حماقت زیادہ واضح ہو کہ جن سے خیر کی توقع رکھتے تھے وہ آج خود اپنے کو نہ بچا سکے پھر ہماری حفاظت کیا کر سکتے ہیں۔ (تنبیہ) "وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ" سے مراد یہاں صرف اصنام ہیں۔ کیونکہ خطاب ان ہی کے پرستاروں سے ہے۔ لیکن اگر "ما" کو عام رکھا جائے تو "بشرطِ عدم المانع" کی قید معتبر ہو گی یعنی جن فرضی معبودوں میں کوئی مانع دخول نار سے نہ ہو وہ اپنے عابدین کے ساتھ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ مثلاً شیاطین و اصنام۔ باقی حضرت مسیح و عزیر اور ملائکۃ اللہ جن کو بہت لوگوں نے معبود ٹھہرا لیا۔ ان حضرات کی مقبولیت و وجاہت مانع ہے کہ (معاذ اللہ) اس عموم میں شامل رکھے جائیں۔ اسی لیے آگے تصریحاً فرما دیا "اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنیٰ اُوْلٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ

۹۹۔۔۔  یعنی سب عابد و معبود ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہیں گے۔

۱۰۰۔۔۔  ۱: یعنی شدتِ ہول اور عذاب کی سخت تکلیف اور اپنے چلانے کے شور سے کچھ سنائی نہ دے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ سے منقول ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہر دوزخی کو ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے اوپر میخیں ٹھونک دی جائیں گی۔ اور جہنم کی تہ میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔ شاید کچھ نہ سن سکنا اس وقت کا حال ہو۔

۲:   یعنی ایک بار پل صراط پر سے گزر کر پھر ہمیشہ دور رہیں گے اور اس پر سے گزرتے ہوئے کبھی دوزخ کی تکلیف والم سے قطعاً دوری ہو گی۔

۱۰۲۔۔۔  جنتیوں کو دوزخ سے اس قدر بُعد ہو گا کہ اس کی آہٹ تک محسوس نہ کریں گے اور نہایت عیش و آرام کے ساتھ ہمیشہ جنت کے مزے لوٹیں گے۔

۱۰۳۔۔۔  ۱: یعنی اس دن جب خلقت کو سخت گھبراہٹ ہو گی اللہ تعالیٰ ان کو رنج و غم سے محفوظ رکھے گا۔

۲:  یعنی قبروں سے اٹھنے یا جنت میں داخل ہونے کے وقت فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور کہیں گے کہ جس دائمی مسرت و راحت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا آج اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔

۱۰۴۔۔۔  ۱: یعنی جب قیامت آئے گی تو آسمانوں کی صفیں لپیٹ دی جائیں گی جس طرح دستاویز کا لکھا ہوا کاغذ لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے وَالسَّمٰوٰاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ بعض روایات میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک کاتب کا نام "سجل" بتلایا گیا ہے، اس کو حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے ضعیف بلکہ موضوع قرار دیا ہے کہ کماصرح ابن کثیر فلا یعتبر بتخریج ابی داؤد والنسائی فی سننہما۔"

۲: یعنی جیسی سہولت سے دنیا کو پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کر دی جائے گی۔ یہ حتمی وعدہ ہے جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔

۱۰ ۵۔۔۔  کامل وفادار بندوں سے حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو دنیا و آخرت کی کامیابی اور اس زمین اور جنت کی زمین کا وارث بنائے گا چنانچہ فرمایا۔ "اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمَتَّقِیْنَ" (اعراف، رکوع۱۵، آیت:۱۲۸) اور "اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ اٰمَنُوْا فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ" (مومن، رکوع۶، آیت:۵۱) اور "وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضیٰ لَہُمْ" (نور، رکوع۷، آیت:۵۵) یہ ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے جس کی خبر اس نے اپنی کتب شرعیہ اور کتب قدریہ میں دی۔ "لوحِ محفوظ' اور "ام الکتاب" میں یہ وعدہ درج کیا اور انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار اعلان کرایا۔ داؤد علیہ السلام کی کتاب "زبور" ۳۷ ۔  میں ہے کہ "'صادق زمین کے وارث ہوں گے۔" چنانچہ اس امت میں کے کامل وفادار اور صادق بندے مدت دراز تک زمین کے وارث رہے، شرق و غرب میں انہوں نے آسمانی بادشاہت قائم کی، عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ دین حق کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجا دیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشین گوئی ان کے ہاتھوں پر پوری ہوئی۔ "اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ زَویٰ لِیَ الْاَرْضَ فَرَأَ یْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُہَا مَازَویٰ لِیْ مِنْہَا"اور اسی قسم کی دوسری پیشین گوئی امام مہدی علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہو کر رہے گی۔

۱۰۶۔۔۔  یعنی اس قسم کی بشارات سن کر خدائے واحد کی بندگی کرنے والے اپنے مطلب کو پہنچتے ہیں، یا اس قرآن کریم میں جو ایسی عظیم بشارات و ہدایت پر مشتمل ہے بندگی کرنے والوں کے لیے کافی منفعت اور کامیابی ہے۔

۱۰۷۔۔۔  یعنی آپ تو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اگر کوئی بدبخت اس رحمت عامہ سے خود ہی منتفع نہ ہو تو یہ اس کا قصور ہے۔ آفتابِ عالمتاب سے روشنی اور گرمی کا فیض ہر طرف پہنچتا ہے لیکن کوئی شخص اگر اپنے اوپر تمام دروازے اور سوراخ بند کر لے تو یہ اس کی دیوانگی ہو گی۔ آفتاب کے عموم فیض میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا اور یہاں تو رحمۃً للعالمین کا حلقہ فیض اس قدر وسیع ہے کہ جو محروم القسمت مستفید ہونا نہ چاہے اس کو بھی کسی نہ کسی درجہ میں بے اختیار رحمت کا حصہ پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے اصول کی عام اشاعت سے ہر مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھاتا ہے۔ نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھانا ہے نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام و مستاصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عام اخلاق کے علاوہ جن کافروں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کرتے تھے وہ بھی مجموعہ عالم کے لیے سراسر رحمت تھا کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس رحمت کبریٰ کی حفاظت ہوتی تھی جس کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حامل بن کر آئے تھا اور بہت سے اندھے جو آنکھیں بنوانے سے بھاگتے تھے اس سلسلہ میں ان کی آنکھوں میں بھی خواہ مخواہ ایمان کی روشنی پہنچ جاتی تھی، ایک حدیث میں ہے "وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَاُ قَتِّلَنَّہُمْ وَلَاُ صَلِّبَنَّہُمْ وَلَاُ ہْدِیَنَّہُمْ وَہُمْ کَارِہُوْنَ اِنِّیْ رَحْمَۃٌ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ وَلَا یَتَوَفَّانِیْ حَتّیٰ یَظْھُرَ اللّٰہُ دِیْنَہٗ" (ابن کثیر) ان الفاظ سے آپ کے "رحمۃً للعالمین" ہونے کا مطلب زیادہ وسعت کے ساتھ سمجھ میں آ سکتا ہے۔

۱۰۸۔۔۔  یہ رسالت کے ساتھ توحید کا بیان ہوا۔ یعنی جو رحمت عظیمہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے ہیں اس کا لب لباب توحید کامل ہے اور یہ ایسا صاف و واضح مضمون ہے جس کے قبول کرنے میں آدمی کو کچھ پس و پیش نہ ہونا چاہیے۔ پس کیا تم حکم ماننے اور حق کے سامنے گردن ڈال دینے کے لیے تیار ہو؟ اگر ہو تو فبہا و نعمت، ورنہ میں تبلیغ کر کے بری الذمہ ہو چکا۔ تم اپنا انجام سوچ لو۔

۱۰۹۔۔۔  ۱: یعنی اس قدر اتمام حجت کے بعد بھی نہ مانو، تو میں تم کو خبر کر چکا کہ اب میں تم سے بیزار اور تم مجھ سے علیحدہ، تمہارا عمل تمہارے ساتھ اور میرا عمل میرے ساتھ۔ ہر ایک کا جو نتیجہ ہو گا سامنے آ جائے گا حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "دونوں طرف برابر یعنی ابھی تم دونوں بات کر سکتے ہو (قبول کرو یا رد کرو) ایک طرف کا زور نہیں آیا۔"

۲:   یعنی تمہارے نہ ماننے پر جو عذاب کا وعدہ ہے وقوع تو اس کا ضرور بالضرور ہو کر رہے گا۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ جلد ہو گا یا بدیر۔

۱۱۰۔۔۔  ۱: وہ ہی ہر ایک کھلی چھپی بات کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کس بات کی کیا جزاء ملنی چاہیے اور کب ملنی چاہیے۔

۲: یعنی تاخیر عذاب میں ممکن ہے تم کو جانچنا ہو کہ اس مدت میں کچھ سمجھ لو اور شرارتوں سے باز آ جاؤ۔ یا محض ڈھیل دینا ہو کہ ایک مدت تک دنیا میں پھنس کر شقاوت کا پیمانہ پوری طرح لبریز کر لو۔

۱۱۲۔۔۔  ۱: یعنی جیسے ہر معاملہ کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا آپ کی شان ہے، اسی کے موافق میرے اور میری قوم کے درمیان جلدی فیصلہ فرما دیجئے۔

۲:  یعنی اسی سے ہم فیصلہ چاہتے ہیں اور کافروں کی خرافات کے مقابلہ میں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ اسی طرح کی دعاء انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے "رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ" (اعراف، رکوع۱۱، آیت:۸۹) کیونکہ انہیں اپنی حقانیت و صداقت اور حق تعالیٰ کے عدل و انصاف پر پورا وثوق و اعتماد ہوتا تھا۔ تم سورۃ الانبیاء واللہ الحمد والمنۃ۔