خزائن العرفان

سُوۡرَةُ النَّمل

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ نمل مکیّہ ہے اس میں سات رکوع اور ترانو ے آیتیں اور ایک ہزار تین سو ستّرہ ۱۳۱۷ کلمے اور چار ہزار سات سو ننانوے ۴۷۹۹ حرف ہیں۔

(۱) یہ آیتیں ہیں قرآن اور روشن کتاب کی (ف ۲)

۲                 جو حق و باطل میں امتیاز کرتی ہے اور جس میں علوم و حِکَم ودیعت رکھے گئے ہیں۔

(۲)  ہدایت اور خوشخبری  ایمان والوں کو۔

(۳) وہ جو نماز برپا رکھتے  ہیں (ف ۳) اور زکوٰۃ دیتے  ہیں (ف ۴) اور وہ آخرت پر یقین رکھتے  ہیں۔

۳                 اور اس پر مداومت کرتے ہیں اور اس کے شرائط و آداب و جملہ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔

۴                 خوش دلی سے۔

(۴) وہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے  ہم نے  ان کے  کوتک (برے  اعمال) ان کی نگاہ میں بھلے  کر دکھائے  ہیں (ف ۵)

۵                 کہ وہ اپنی برائیوں کو شہوات کے سبب سے بھلائی جانتے ہیں۔

(۵) تو وہ بھٹک رہے  ہیں یہ وہ ہیں جن کے  لیے  برا عذاب ہے  (ف ۶) اور یہی آخرت میں سب سے  بڑھ کر نقصان میں (ف ۷)

۶                 دنیا میں قتل اور گرفتاری۔

۷                 کہ ان کا انجام دائمی عذاب ہے۔ اس کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خطاب ہوتا ہے۔

(۶) اور بیشک تم قرآن سکھائے  جاتے  اور حکمت والے  علم والے  کی طرف سے  (ف ۸)

۸                 اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جاتا ہے جو دقائقِ علم و لطائفِ حکمت پر مشتمل ہے۔

(۷) جب کہ موسیٰ نے  اپنی گھر وا لی سے  کہا (ف ۹) مجھے  ایک آگ نظر پڑی ہے  عنقریب میں تمہارے  پاس اس کی کوئی خبر لاتا ہوں یا اس میں سے  کوئی چمکتی چن گاری لاؤں گا کہ تم تاپو (ف ۱۰)

۹                 مَدیَن سے مِصر کو سفر کرتے ہوئے تاریک رات میں جبکہ برف باری سے نہایت سردی ہو رہی تھی اور راستہ گم ہو گیا تھا اور بی بی صاحبہ کو دردِ  زِہ شروع ہو گیا تھا۔

۱۰               اور سردی کی تکلیف سے امن پاؤ۔

(۸) پھر جب آگ کے  پاس آیا ندا کی گئی کہ برکت دیا گیا وہ جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے  یعنی موسیٰ اور جو اس کے  آس پاس میں یعنی فرشتے  (ف ۱۱) اور پاکی ہے  اللہ کو جو  رب ہے  سارے  جہان کا۔

۱۱               یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تحیّت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت کے ساتھ۔

(۹) اے  موسیٰ بات یہ ہے  کہ میں ہی ہوں اللہ عزت والا حکمت والا۔

(۱۰) اور  اپنا عصا ڈال دے  (ف ۱۲) پھر موسیٰ نے  اسے  دیکھا لہراتا ہوا گویا سانپ ہے  پیٹھ پھیر کر چلا اور مڑ کر نہ دیکھا، ہم نے  فرمایا اے  موسیٰ ڈر نہیں، بیشک میرے  حضور رسولوں کو خوف نہیں ہوتا (ف ۱۳)

۱۲               چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحکمِ الٰہی عصا ڈال دیا اور وہ سانپ ہو گیا۔

۱۳               نہ سانپ کا نہ کسی اور چیز کا یعنی جب میں انہیں امن دوں تو پھر کیا اندیشہ۔

(۱۱) ہاں  جو  کوئی ز یادتی کرے   (ف ۱۴)  پھر برائی کے  بعد بھلائی سے  بدلے  تو بیشک میں بخشنے  والا مہربان ہوں (ف ۱۵)

۱۴               اس کو ڈر ہو گا اور وہ بھی جب توبہ کرے۔

۱۵               توبہ قبول فرماتا ہوں اور بخش دیتا ہوں، اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو دوسری نشانی دکھائی گئی اور فرمایا گیا۔

(۱۲) اور اپنا ہاتھ اپنے  گریبان میں ڈال نکلے  گا سفید چمکتا بے  عیب (ف ۱۶) نو نشانیوں میں (ف ۱۷) فرعون اور اس کی قوم کی طرف، بیشک وہ بے  حکم لوگ ہیں۔

۱۶               یہ نشانی ہے ان۔

۱۷               جن کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گئے ہو۔

(۱۳) پھر جب ہماری نشانیاں آنکھیں کھولتی ان کے  پاس آئیں (ف ۱۸) بولے  یہ تو صریح جادو ہے۔

۱۸               یعنی انہیں معجزے دکھائے گئے۔

(۱۴) اور ان کے  منکر ہوئے  اور ان کے  دلوں میں ان کا یقین تھا (ف ۱۹) ظلم اور تکبر سے  تو دیکھو کیسا انجام ہوا فسادیوں کا (ف ۲۰)

۱۹               اور وہ جانتے تھے کہ بے شک یہ نشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن باوجود اس کے اپنی زبانوں سے انکار کرتے رہے۔

۲۰               کہ غرق کر کے ہلاک کئے گئے۔

(۱۵) اور بیشک ہم نے  داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا (ف ۲۱) اور دونوں نے  کہا سب خوبیاں اللہ کو جس نے  ہمیں اپنے  بہت سے  ایمان والے   بندوں پر فضیلت بخشی (ف ۲۲)

۲۱               یعنی علمِ قضا و سیاست اور حضرت داؤد کو پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا علم دیا اور حضرت سلیمان کو چوپایوں اور پرندوں کی بولی کا۔ (خازن)۔

۲۲               نبوّت و مُلک عطا فرما کر اور جِن و انس اور شیاطین کو مسخَّر کر کے۔

(۱۶) اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا (ف ۲۳) اور کہا اے  لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے  ہم کو عطا ہوا (ف ۲۴) بیشک یہی ظاہر فضل ہے  (ف ۲۵)

۲۳               نبوّت و علم و مُلک میں۔

۲۴               یعنی بکثرت نعمتیں دنیا و آخرت کی ہم کو عطا فرمائی گئیں۔

۲۵               مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو اللہ تعالیٰ نے مشارق و مغاربِ ارض کا مُلک عطا فرمایا چالیس سال آپ اس کے مالکر ہے پھر تمام دنیا کی مملکت عطا فرمائی جِن، انس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ کو عطا فرمائی اور عجیب و غریب صنعتیں آپ کے زمانہ میں برروئے کار آئیں۔

(۱۷)  اور جمع کیے  گئے  سلیمان کے  لیے  اس کے  لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے  تو وہ روکے  جاتے  تھے  (ف ۲۶)

۲۶               آگے بڑھنے سے تاکہ سب مجتمع ہو جائیں پھر چَلائے جاتے تھے۔

(۱۸) یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے  نالے  پر آئے  (ف ۲۷) ایک چیونٹی بولی (ف ۲۸) اے  چیونٹیو! اپنے  گھروں میں چلی  جاؤ تمہیں کچل نہ ڈا لیں سلیمان اور ان کے  لشکر بے  خبری میں (ف ۲۹)

۲۷               یعنی طائف یا شام میں اس وادی پر گزرے جہاں چیونٹیاں بکثرت تھیں۔

۲۸               جو چیونٹیوں کی ملکہ تھی وہ لنگڑی تھی۔ لطیفہ : جب حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ میں داخل ہوئے اور وہاں کی خَلق آپ کی گرویدہ ہوئی تو آپ نے لوگوں سے کہا جو چاہو دریافت کرو ؟ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نوجوان تھےآپ نے دریافت فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی مادہ تھی یا نر ؟ حضرت قتادہ ساکت ہو گئے تو امام صاحب نے فرمایا کہ وہ مادہ تھی آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا ؟ آپ نے فرمایا قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا  قَالَت نَملَۃ اگر نر ہوتی تو قرآن شریف میں قَالَ نَمْلَۃ  وارد ہوتا۔ (سبحان اللہ اس سے حضرت امام کی شانِ علم معلوم ہوتی ہے) غرض جب اس چیونٹی کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے لشکر کو دیکھا توکہنے لگی۔

۲۹               یہ اس نے اس لئے کہا کہ وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی ہیں صاحبِ عدل ہیں جبر اور زیادتی آپ کی شان نہیں ہے اس لئے اگر آپ کے لشکر سے چیونٹیاں کچل جائیں گی تو بے خبری ہی میں کچل جائیں گی کہ وہ گزرتے ہوں اور اس طرف التفات نہ کریں چیونٹی کی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین میل سے سُن لی اور ہوا ہر شخص کا کلام آپ کے سمعِ مبارک تک پہنچاتی تھی جب آپ چیونٹیوں کی وادی پر پہنچے تو آپ نے اپنے لشکروں کو ٹھہرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے گھروں میں داخل ہو گئیں سیر حضرت سلیمان علیہ السلام کی اگرچہ ہوا پر تھی مگر بعید نہیں ہے کہ یہ مقام آپ کا جائے نُزول ہو۔

(۱۹) تو اس کی بات مسکرا کر ہنسا (ف ۳۰) اور عرض کی اے  میرے  رب! مجھے  توفیق دے  کہ میں شکر کروں تیرے  احسان کا جو تو نے  (ف ۳۱) مجھ پر اور میرے  ماں باپ پر کیے  اور یہ کہ میں  وہ بھلا کام کرو ں جو تجھے  پسند آئے  اور مجھے  اپنی رحمت سے  اپنے  ان بندوں میں شامل کر جو تیرے  قرب خاص کے  سزاوار ہیں (ف ۳۲)

۳۰               انبیاء کا ہنسنا تبسّم ہی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ حضرات قہقہہ مار کر نہیں ہنستے۔

۳۱               نبوّت و مُلک و علم عطا فرما کر۔

۳۲               حضراتِ ا نبیاء و اولیاء۔

(۲۰) اور پرندوں کا جائزہ لیا تو  بولا مجھے  کیا ہوا کہ میں ہد  ہد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں۔

(۲۱) ضرور میں اسے  سخت عذاب کرو ں گا (ف ۳۳) یا ذبح کر دوں گا یا کوئی روشن سند میرے  پاس لائے  (ف ۳۴)

۳۳               اس کے پر اُکھاڑ کر یا اس کو اس کے پیاروں سے جدا کر کے یا اس کو اس کے اقران کا خادم بنا کر یا اس کو غیر جانوروں کے ساتھ قید کر کے اور ہُدہُد کو حسبِ مصلحت عذاب کرنا آپ کے لئے حلال تھا اور جب پرند آپ کے لئے مسخَّر کئے گئے تھے تو تادیب و سیاست مقتضائے تسخیر ہے۔

۳۴               جس سے اس کی معذوری ظاہر ہو۔

(۲۲) تو ہد ہد کچھ زیادہ  دیر نہ ٹھہرا اور آ کر (ف ۳۵) عرض کی کہ میں وہ بات دیکھ کر آیا ہوں جو حضور نے  نہ دیکھی اور میں شہر سبا سے  حضور کے  پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں۔

۳۵               نہایت عجز و انکسار اور ادب و تواضُع کے ساتھ معافی چاہ کر۔

(۲۳) میں نے  ایک عورت دیکھی (ف ۳۶) کہ ان پر بادشاہی کر رہی ہے  اور اسے  ہر چیز میں سے  ملا ہے  (ف ۳۷) اور اس کا بڑا تخت ہے  (ف ۳۸)

۳۶               جس کا نام بلقیس ہے۔

۳۷               جو بادشاہوں کے لئے شایان ہوتا ہے۔

۳۸               جس کا طول اسّی گز عرض چالیس گز سونے چاندی کا جواہرات کے ساتھ مُرصّع۔

(۲۴) میں نے  اسے  اور اس کی قوم کو پایا کہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے  ہیں (ف ۳۹) اور شیطان نے  ان کے  اعمال ان کی نگاہ میں سنوار کر ان کو سیدھی راہ سے  روک دیا (ف ۴۰) تو وہ راہ نہیں پاتے۔

۳۹               کیونکہ وہ لوگ آفتاب پرست مجوسی تھے۔

۴۰               سیدھی راہ سے مراد طریقِ حق و دینِ اسلام ہے۔

(۲۵) کیوں نہیں سجدہ کرتے  اللہ کو جو نکالتا ہے  آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں (ف ۴۱) اور جانتا ہے  جو کچھ تم چھپاتے  ہو اور ظاہر کرتے  ہو (ف ۴۲)

۴۱               آسمان کی چھُپی چیزوں سے مِینہ اور زمین کی چھُپی چیزوں سے نباتات مراد ہیں۔

۴۲               اس میں آفتاب پرستوں بلکہ تمام باطل پرستوں کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی پوجیں، مقصود یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صر ف وہی ہے جو کائناتِ ارضی و سماوی پر قدرت رکھتا ہو اور جمیع معلومات کا عالِم ہو جو ایسا نہیں وہ کسی طرح مستحقِ عبادت نہیں۔

(۲۶) اللہ ہے  کہ اس کے  سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ بڑے  عرش کا مالک ہے،(السجد ۃ۔۸)

(۲۷) سلیمان نے  فرمایا اب ہم دیکھیں گے  کہ تو نے  سچ کہا یا تو جھوٹوں میں ہے  (ف ۴۳)

۴۳               پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مکتوب لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ از جانب بندۂ خدا سلیمان بن داؤد بسوئے بلقیس ملکۂ شہرِ سبا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پر سلام جو ہدایت قبول کرے اس کے بعد مدعا یہ کہ تم مجھ پر بلندی نہ چاہو اور میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہو اس پر آپ نے اپنی مُہر لگائی اور ہُدہُد سے فرمایا۔

(۲۸) میرا یہ فرمان لے  جان کر ان پر ڈال پھر ان سے  الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے  ہیں (ف ۴۴)

۴۴               چنانچہ ہُدہُد وہ مکتوب گرامی لے کر بلقیس کے پاس پہنچا اس وقت بلقیس کے گرد اس کے اَعیان و وزراء کا مجمع تھا ہُدہُد نے وہ مکتوب بلقیس کی گود میں ڈال دیا اور وہ اس کو دیکھ کر خوف سے لرز گئی اور پھر اس پر مُہر دیکھ کر۔

۴۵               اس نے اس خط کو عزّت والا یا اس لئے کہا کہ اس پر مُہر لگی ہوئی تھی اس سے اس نے جانا کہ کتاب کا بھیجنے والا جلیل المنزلت بادشاہ ہے یا اس لئے کہ اس مکتوب کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے نامِ پاک سے تھی پھر اس نے بتایا کہ وہ مکتوب کس کی طرف سے آیا ہے چنانچہ کہا۔

(۳۰) بیشک وہ سلیمان کی طرف سے  ہے  اور بیشک وہ اللہ کے  نام سے  ہے  نہایت مہربان رحم والا۔

(۳۱) یہ کہ مجھ پر بلندی نہ چاہو (ف ۴۶) اور گردن رکھتے  میرے  حضور حاضر ہو (ف ۴۷)

۴۶               یعنی میری تعمیلِ ارشاد کرو اور تکبُّر نہ کرو جیسا کہ بعض بادشاہ کیا کرتے ہیں۔

۴۷               فرمانبردارانہ شان سے مکتوب کا یہ مضمون سنا کر بلقیس اپنی اعیانِ دولت کی طرف متوجّہ ہوئی۔

(۳۲) بولی اے  سردارو! میرے  اس معاملے  میں مجھے  رائے  دو میں کسی معاملے  میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے  پاس حاضر نہ ہو۔

(۳۳) وہ بولے  ہم زور والے  اور بڑی سخت لڑائی والے  ہیں (ف ۴۸) اور اختیار تیرا ہے  تو نظر کر کہ کیا حکم دیتی ہے  (ف ۴۹)

۴۸               اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اگر تیری رائے جنگ کی ہو تو ہم لوگ اس کے لئے تیار ہیں، بہادر اور شجاع ہیں، صاحبِ قوّت و توانائی ہیں، کثیر فوجیں رکھتے ہیں، جنگ آزما ہیں۔

۴۹               اے ملکہ ہم تیری اطاعت کریں گے تیرے حکم کے منتظر ہیں اس جواب میں انہوں نے یہ اشارہ کیا کہ ان کی رائے جنگ کی ہے یا ان کا مدعا یہ ہو کہ ہم جنگی لوگ ہیں رائے اور مشورہ ہمارا کام نہیں تو خود صاحبِ عقل و تدبیر ہے ہم بہرحال تیرا اِتّباع کریں گے جب بلقیس نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کی طرف مائل ہیں تو اس نے انہیں ان کی رائے کی خطا پر آگاہ کیا اور جنگ کے نتائج سامنے کئے۔

(۳۴) بولی بیشک بادشاہ جب کسی بستی میں (ف ۵۰) داخل ہوتے  ہیں اسے  تباہ کر دیتے  ہیں اور اس کے  عزت والوں کو (ف ۵۱) ذلیل اور ایسا ہی کرتے  ہیں  (ف ۵۲)

۵۰               اپنے زور و قوّت سے۔

۵۱               قتل اور قید اور اہانت کے ساتھ۔

۵۲               یہی بادشاہوں کا طریقہ ہے بادشاہوں کی عادت کا جو اس کو علم تھا اس کی بنا پر اس نے یہ کہا اور مراد اس کی یہ تھی کہ جنگ مناسب نہیں ہے اس میں مُلک اور اہلِ مُلک کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا۔

(۳۵) اور میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے  وا لی ہوں پھر دیکھوں گی کہ ایلچی کیا جواب لے  کر پلٹے  (ف ۵۳)

۵۳               اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بادشاہ ہیں یا نبی کیونکہ بادشاہ عزّت و احترام کے ساتھ ہدیہ قبول کرتے ہیں اگر وہ بادشاہ ہیں تو ہدیہ قبول کر لیں گے اور اگر نبی ہیں تو ہدیہ قبول نہ کریں گے اور سوا اس کے کہ ہم ان کے دین کا اِتّباع کریں وہ اور کسی بات سے راضی نہ ہوں گے تو اس نے پانچ سو غلام ا ور پانچ سو باندیاں بہترین لباس اور زیوروں کے ساتھ آراستہ کر کے زرنگار زینوں پر سوار کر کے بھیجے اور پانچ سو اینٹیں سونے کی اور جواہر سے مرصّع تاج اور مشک و عنبر وغیرہ مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ روانہ کئے، ہُدہُد یہ دیکھ کر چل دیا اور اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سب خبر پہنچائی آپ نے حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر نوفرسنگ کے میدان میں بچھا دی جائیں اور اس کے گرد سونے چاندی سے احاطہ کی بلند دیوار بنا دی جائے اور بر وبحر کے خوبصورت جانور اور جنّات کے بچّے میدان کے دائیں بائیں حاضر کئے جائیں۔

۵۴               یعنی بلقیس کا پیامی مع اپنی جماعت کے ہدیہ لے کر۔

(۳۶) پھر جب وہ (ف ۵۴) سلیمان کے  پاس آیا فرمایا کیا مال سے  میری مدد کرتے  ہو تو جو مجھے  اللہ نے  دیا (ف ۵۵) وہ بہتر ہے  اس سے  جو تمہیں دیا (ف ۵۶) بلکہ تمہیں اپنے  تحفہ پر خوش ہوتے  ہو (ف ۵۷)

۵۵               یعنی دین اور نبوّت اور حکمت و مُلک۔

۵۶               مال و اسبابِ دنیا۔

۵۷               یعنی تم اہلِ مفاخرت ہو، زخارفِ دنیا پر فخر کرتے ہو اور ایک دوسرے کے ہدیہ پر خوش ہوتے ہو، مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت، اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا کثیر عطا فرمایا کہ اوروں کو نہ دیا باوجود اس کے دین اور نبوّت سے مجھ کو مشرف کیا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے وفد کے امیر منضر بن عمرو سے فرمایا کہ یہ ہدیئے لے کر۔

۵۸               یعنی اگر وہ میرے پاس مسلمان ہو کر حاضر نہ ہوئے تو یہ انجام ہو گا، جب قاصد ہدیئے لے کر بلقیس کے پاس واپس گئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا بے شک وہ نبی ہیں اور ہمیں ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں اور اس نے اپنا تخت اپنے سات محلوں میں سے سب سے پچھلے محل میں محفوظ کر کے تمام دروازے مقفّل کر دیئے اور ان پر پہرہ دار مقرر کر دیئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کیا تاکہ دیکھے کہ آپ اس کو کیا حکم فرماتے ہیں اور وہ ایک لشکرِ گراں لے کر آپ کی طرف روانہ ہوئی جس میں بارہ ہزار نواب تھے اور ہر نواب کے ساتھ ہزاروں لشکری جب اتنے قریب پہنچ گئی کہ حضرت سے صرف ایک فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا۔

(۳۸)  سلیمان نے  فرمایا، اے  درباریو! تم میں کون ہے  کہ وہ اس کا تخت میرے  پاس لے  آئے  قبل اس کے  کہ وہ میرے  حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں (ف ۵۹)

۵۹               اس سے آپ کا مدّعا یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کر کے اس کو اللہ تعالیٰ کے قدرت اور اپنی نبوّت پر دلالت کرنے والا معجِزہ دکھاویں۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے چاہا کہ اس کے آنے سے قبل اس کی وضع بدل دیں اور اس سے اس کی عقل کا امتحان فرمائیں کہ پہچان سکتی ہے یا نہیں۔

(۳۹) ایک بڑا خبیث جن بولا  کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا قبل اس کے  کہ حضور اجلاس برخاست کریں (ف ۶۰) اور میں بیشک اس پر قوت والا امانتدار ہوں (ف ۶۱)

۶۰               اور آپ کا اجلاس صبح سے دوپہر تک ہوتا تھا۔

۶۱               حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے جلد چاہتا ہوں۔

(۴۰) اس نے  عرض کی جس کے  پاس کتاب کا علم تھا (ف ۶۲) کہ میں اسے  حضور میں حاضر کر دوں گا ایک پل مارنے  سے  پہلے  (ف ۶۳) پھر جب سلیمان نے  تخت کو اپنے  پاس رکھا دیکھا کہ یہ میرے  رب کے  فضل سے  ہے، تاکہ مجھے  آزمائے  کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شکر کرے  وہ اپنے  بھلے  کو شکر کرتا ہے  (ف ۶۴) اور جو ناشکری کرے  تو میرا رب بے  پرواہ ہے  سب خوبیوں والا۔

۶۲               یعنی آپ کے وزیر آصف بن برخیا جو اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم جانتے تھے۔

۶۳               حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا لاؤ حاضر کرو آصف نے عرض کیا آپ نبی ابنِ نبی ہیں اور جو رتبہ بارگاہِ الٰہی میں آپ کو حاصل ہے یہاں کس کو میسّر ہے آپ دعا کریں تو وہ آپ کے پاس ہی ہو گا آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو اور دعا کی، اسی وقت تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہوا۔

۶۴               کہ اس شکر کا نفع خود اس شکر گزار کی طرف عائد ہوتا ہے۔

(۴۱) سلیمان نے  حکم دیا عورت کا تخت اس کے  سامنے  وضع بدل کر بیگانہ کر دو کہ ہم دیکھیں کہ وہ راہ پاتی ہے  یا ان میں ہوتی ہے  جو ناواقف رہے۔

(۴۲) پھر جب وہ آئی اس سے  کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے، بولی گویا یہ وہی ہے  (ف ۶۵) اور ہم کو اس واقعہ سے  پہلے  خبر مل چکی (ف ۶۶) اور ہم فرمانبردار ہوئے  (ف ۶۷)

۶۵               اس جواب سے اس کا کمالِ عقل معلوم ہوا اب اس سے کہا گیا کہ یہ تیرا ہی تخت ہے دروازہ بند کرنے، قفل لگانے، پہرہ دار مقرر کرنے سے کیا فائدہ ہوا، اس پر اس نے کہا۔

۶۶               اللہ تعالیٰ کی قدرت اور آپ کی صحتِ نبوّت کی ہُدہُد کے واقعہ سے اور امیرِ وفد سے۔

۶۷               ہم نے آپ کی اطاعت اور آپ کی فرمانبرداری اختیار کی۔

(۴۳)  اور اسے  روکا (ف ۶۸) اس چیز نے  جسے  وہ اللہ کے  سوا  پوجتی تھی، بیشک وہ کافر لوگوں میں سے  تھی۔

۶۸               اللہ کی عبادت و توحید سے یا اسلام کی طرف تقدم سے۔

(۴۴) اس سے  کہا گیا صحن میں آ (ف ۶۹) پھر جب اس نے  اسے  دیکھا گہرا پانی سمجھی اور اپنی ساقیں کھولیں (ف ۷۰) سلیمان نے  فرمایا یہ تو ایک چکنا صحن ہے  شیشوں جڑا (ف ۷۱) عورت نے  عرض کی اے  میرے  رب! میں نے  اپنی جان پر ظلم کیا (ف ۷۲) اور اب سلیمان  کے  ساتھ اللہ کے  حضور گردن رکھتی ہوں جو رب سارے  جہان کا (ف ۷۳)

۶۹               وہ صحن شفاف آبگینہ کا تھا اس کے نیچے آب جاری تھا، اس میں مچھلیاں تھیں اور اس کے وسط میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا جس پر آپ جلوہ افروز تھے۔

۷۰               تاکہ پانی میں چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو۔

۷۱               یہ پانی نہیں ہے۔ یہ سن کر بلقیس نے اپنی ساقیں چھُپا لیں اور اس سے اس کو بہت تعجّب ہوا اور اس نے یقین کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مُلک و حکومت اللہ کی طرف سے ہے اور ان عجائبات سے اس نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی نبوّت پر استدلال کیا، اب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔

۷۲               کہ تیرے غیر کو پوجا آفتاب کی پرستش کی۔

۷۳               چنانچہ اس نے اخلاص کے ساتھ توحید و اسلام کو قبول کیا اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کی۔

(۴۵) اور بیشک ہم نے  ثمود کی طرف ان کے  ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کو پوجو (ف ۷۴) تو جبھی وہ دو گروہ ہو گئے  (ف ۷۵) جھگڑا کرتے  (ف ۷۶)

۷۴               اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو۔

۷۵               ایک مومن اور ایک کافِر۔

۷۶               ہر فریق اپنے ہی کو حق پر کہتا اور دونوں باہم جھگڑتے کافِر گروہ نے کہا اے صالح جس عذاب کا تم وعدہ دیتے ہو اس کو لاؤ اگر رسولوں میں سے ہو۔

(۴۶) صالح نے  فرمایا  اے  میری قوم! کیوں برائی کی جلدی کرتے  ہو (ف ۷۷) بھلائی سے  پہلے  (ف ۷۸) اللہ سے  بخشش کیوں نہیں مانگتے  (ف ۷۹) شاید تم پر رحم ہو (ف ۸۰)

۷۷               یعنی بَلا و عذاب کی۔

۷۸               بھلائی سے مراد عافیّت و رحمت ہے۔

۷۹               عذاب نازِل ہونے سے پہلے کُفر سے توبہ کر کے ایمان لا کر۔

۸۰               اور دنیا میں عذاب نہ کیا جائے۔

(۴۷) بولے  ہم نے  بُرا شگون کیا تم سے  اور تمہارے  ساتھیوں سے  (ف ۸۱) فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے  پاس ہے  (ف ۸۲) بلکہ تم لوگ فتنے  میں پڑے  ہو (ف ۸۳)

۸۱               حضرت صالح علیہ السلام جب مبعوث ہوئے اور قوم نے تکذیب کی اس کے باعث بارش رک گئی قحط ہو گیا، لوگ بھوکے مرنے لگے اس کو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی تشریف آوری کی طرف نسبت کیا اور آپ کی آمد کو بد شگونی سمجھا۔

۸۲               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بد شگونی جو تمہارے پاس آئی یہ تمہارے کُفر کے سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی۔

۸۳               آزمائش میں ڈالے گئے یا اپنے دین کے باعث عذاب میں مبتلا ہو۔

(۴۸) اور شہر میں نو شخص تھے  (ف ۸۴) کہ زمین میں فساد کرتے  اور سنوار نہ چاہتے۔

۸۴               یعنی ثمود کے شہر میں جس کا نام حجر ہے ان کے شریف زادوں میں سے نو شخص تھے جن کا سردار قدار بن سالف تھا یہی لوگ ہیں جنہوں نے ناقہ کی کونچیں کاٹنے میں سعی کی تھی۔

(۴۹)  آپس میں اللہ کی قسمیں کھا کر بولے  ہم ضرور رات کو چھاپا ماریں گے  صالح اور اس کے  گھر والوں پر (ف ۸۵) پھر  اس کے  وارث سے  (ف ۸۶)  کہیں گے  اس گھر والوں کے  قتل کے  وقت ہم حاضر نہ تھے   اور بیشک ہم سچے  ہیں، (۵۰) اور انہوں نے  اپنا سا مکر کیا اور ہم نے   اپنی خفیہ تدبیر فرمائی (ف ۸۷) اور وہ  غافل رہے۔

۸۵               یعنی رات کے وقت ان کو اور ان کی اولاد کو اور ان کے متّبِعین کو جو ان پر ایمان لائے ہیں قتل کر دیں گے۔

۸۶               جس کو ان کے خون کا بدلہ طلب کرنے کا حق ہو گا۔

۸۷               یعنی ان کے مَکر کی جزا یہ دی کہ ان کے عذاب میں جلدی فرمائی۔

(۵۱) تو دیکھو کیسا انجام ہوا ان کے  مکر کا  ہم نے  ہلاک  کر دیا انہیں (ف ۸۸) اور ان کی ساری قوم کو (ف ۸۹)

۸۸               یعنی ان نو شخصوں کو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب حضرت صالح علیہ السلام کے مکان کی حفاظت کے لئے فرشتے بھیجے تو وہ نو شخص ہتھیار باندھ کر تلواریں کھینچ کر حضرت صالح علیہ السلام کے دروازے پر آئے فرشتوں نے ان کے پتّھر مارے وہ پتّھر لگتے تھے اور مارنے والے نظر نہ آتے تھے اس طرح ان نو کو ہلاک کیا۔

۸۹               ہولناک آواز سے۔

(۵۲) تو یہ ہیں ان کے  گھر ڈھے  پڑے  بدلہ ان کے  ظلم کا، بیشک اس میں نشانی ہے  جاننے  والوں کے  لیے۔

(۵۳)  اور ہم نے  ان کو بچا لیا جو ایمان لائے  (ف ۹۰) اور ڈرتے  تھے  (ف ۹۱)

۹۰               حضرت صالح علیہ السلام پر۔

۹۱               ان کی نافرمانی سے۔ ان لوگوں کی تعداد چار ہزار تھی۔

(۵۴) اور  لوط کو جب اس نے  اپنی قوم سے  کہا کیا بے  حیائی پر آتے  ہو (ف ۹۲) اور تم سوجھ رہے  ہو (ف ۹۳)

۹۲               اس بے حیائی سے مراد ان کی بدکاری ہے۔

۹۳               یعنی اس فعل کی قباحت جانتے ہو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ بالاعلان بدفعلی کا ارتکاب کرتے ہو یا یہ کہ تم اپنے سے پہلے نافرمانی کرنے والوں کو تباہی اور ان کے عذاب کے آثار دیکھتے ہو پھر بھی اس بداعمالی میں مبتلا ہو۔

(۵۵) کیا تم مردوں کے  پاس مستی سے  جاتے  ہو عورتیں چھوڑ کر (ف ۹۴) بلکہ تم جاہل لوگ ہو (ف ۹۵)

۹۴               باوجودیکہ مَردوں کے لئے عورتیں بنائی گئی ہیں مَردوں کے لئے مرد اور عورتوں کے لئے عورتیں نہیں بنائی گئیں لہذا یہ فعل حکمتِ الٰہی کی مخالفت ہے۔

۹۵               جو ایسا فعل کرتے ہو۔

(۵۶) تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہ کہ بولے  لوط کے  گھرانے  کو اپنی بستی سے  نکال دو یہ لوگ  تو ستھرا پن چاہتے  ہیں (ف ۹۶)

۹۶               اور اس گندے کام کو منع کرتے ہیں۔

(۵۷)  تو ہم نے  اسے  اور اس کے  گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت کو ہم نے  ٹھہرا دیا تھا کہ وہ رہ جانے  والوں میں ہے  (ف ۹۷)

۹۷               عذاب میں۔

(۵۸)  اور ہم نے  ان پر  ایک برساؤ برسایا (ف ۹۸) تو کیا ہی برا برساؤ تھا ڈرائے   ہوؤں کا۔

۹۸               پتّھروں کا۔

(۵۹) تم کہو سب خوبیاں اللہ کو (ف ۹۹) اور سلام اس کے  چنے  ہوئے  بندے  پر (ف ۱۰۰) کیا اللہ بہتر (ف ۱۰۱) یا ان کے  ساختہ شریک (ف ۱۰۲)

۹۹               یہ خِطاب ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو کہ پچھلی امّتوں کے ہلاک پر اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائیں۔

۱۰۰             یعنی انبیاء و مرسلین پر۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ چُنے ہوئے بندوں سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب مراد ہیں۔

۱۰۱             خدا پرستوں کے لئے جو خاص اس کی عبادت کریں اور اس پر ایمان لائیں اور وہ انہیں عذاب و ہلاک سے بچائے۔

۱۰۲             یعنی بُت جو اپنے پرستاروں کے کچھ کام نہ آ سکیں تو جب ان میں کوئی بھلائی نہیں وہ کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے تو ان کو پوجنا اور معبود ماننا نہایت بے جا ہے اس کے بعد چند انواع ذکر فرمائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اس کے کمالِ قدرت پر دلالت کرتے ہیں۔

(۶۰) ا وہ جس نے  آسمان و زمین بنائے  (ف ۱۰۳) اور تمہارے  لیے  آسمان سے  پانی اتارا تو ہم نے  اس سے  باغ اگائے  رونق والے  تمہاری طاقت نہ تھی کہ ان کے  پیڑ اگاتے  (ف ۱۰۴) کیا اللہ کے  ساتھ کوئی اور خدا ہے  (ف ۱۰۵) بلکہ وہ لوگ راہ سے  کتراتے  ہیں (ف ۱۰۶)

۱۰۳             عظیم ترین اشیاء جو مشاہدے میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ پر دلالت کرتی ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ معنی یہ ہیں کہ کیا بُت بہتر ہیں یا وہ جس نے آسمان اور زمین جیسی عظیم اور عجیب مخلوق بنائی۔

۱۰۴             یہ تمہاری قدرت میں نہ تھا۔

۱۰۵             کیا یہ دلائلِ قدرت دیکھ کر ایسا کہا جا سکتا ہے ہر گز نہیں وہ واحد ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۱۰۶             جو اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہیں۔

(۶۱) یا وہ جس نے  زمین بسنے  کو بنائی اور اس کے  بیچ میں نہریں نکالیں اور اس کے  لیے  لنگر بنائے  (ف ۱۰۷) اور دونوں سمندروں میں آڑ  رکھی (ف ۱۰۸) کیا اللہ کے  ساتھ اور خدا ہے، بلکہ ان میں اکثر جاہل ہیں (ف ۱۰۹)

۱۰۷             وزنی پہاڑ جو اسے جنبش سے روکتے ہیں۔

۱۰۸             کہ کھاری میٹھے ملنے نہ پائیں۔

۱۰۹             جو اپنے رب کی توحید اور اس کے قدرت و اختیار کو نہیں جانتے اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔

(۶۲) یا وہ جو لاچار کی سنتا ہے  (ف ۱۱۰) جب اسے  پکارے  اور دور کر دیتا ہے  برائی اور تمہیں زمین کا وارث کرتا ہے  (ف ۱۱۱) کیا اللہ کے  ساتھ اور خدا ہے، بہت ہی کم دھیان کرتے  ہو۔

۱۱۰             اور حاجت روائی فرماتا ہے۔

۱۱۱             کہ تم اس میں سکونت کرو اور قرناً بعد قرنٍ اس میں متصرّف رہو۔

(۶۳)  یا وہ جو تمہیں راہ دکھاتا ہے  (ف ۱۱۲) اندھیریوں میں خشکی اور تری کی (ف ۱۱۳) اور وہ کہ ہوائیں بھیجتا ہے،  اپنی رحمت کے  آگے  خوش خبری سناتی (ف ۱۱۴) کیا اللہ کے  ساتھ کوئی اور خدا ہے،  برتر ہے  اللہ ان کے  شرک سے۔

۱۱۲             تمہارے منازل و مقاصد کی۔

۱۱۳             ستاروں سے اور علامتوں سے۔

۱۱۴             رحمت سے مراد یہاں بارش ہے۔

(۶۴) یا وہ جو خلق کی ابتداء فرماتا ہے  پھر اسے  دوبارہ بنائے  گا (ف ۱۱۵) اور وہ جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے  روزی دیتا ہے  (ف ۱۱۶) کیا اللہ کے  ساتھ کوئی اور خدا ہے، تم فرماؤ کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے  ہو (ف ۱۱۷)

۱۱۵             اس کی موت کے بعد اگرچہ موت کے بعد زندہ کئے جانے کے کُفّار مقر و معترف نہ تھے لیکن جب کہ اس پر براہین قائم ہیں تو ان کا اقرار نہ کرنا کچھ قابلِ لحاظ نہیں بلکہ جب وہ ابتدائی پیدائش کے قائل ہیں تو انہیں اعادے کا قائل ہونا پڑے گا کیونکہ ابتداء اعادے پر دلالتِ قویہ کرتی ہے تو اب ان کے لئے کوئی جائے عذر و انکار باقی نہیں رہی۔

۱۱۶             آسمان سے بارش اور زمین سے نباتات۔

۱۱۷             اپنے اس دعویٰ میں کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں تو بتاؤ جو صفات و کمالات اُوپر ذکر کئے گئے وہ کس میں ہیں اور جب اللہ کے سوا ایسا کوئی نہیں تو پھر کسی دوسرے کو کس طرح معبود ٹھہراتے ہو یہاں ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ  فرما کر ان کے عجز و بطلان کا اظہار منظور ہے۔

(۶۵) تم فرماؤ غیب نہیں جانتے  جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللہ (ف ۱۱۸) اور  انہیں  خبر  نہیں  کہ  کب  اٹھا ے ٴ  جائیں  گے  ۔

۱۱۸             وہی جاننے والا ہے غیب کا اس کو اختیار ہے جسے چاہے بتائے چنانچہ اپنے پیارے انبیاء کو بتاتا ہے جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں ہے۔  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اﷲَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ یعنی اللہ کی شان نہیں کہ تمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے اور بکثرت آیات میں اپنے پیارے رسولوں کو غیبی علوم عطا فرمانے کا ذکر فرمایا گیا اور خود اسی پارے میں اس سے اگلے رکوع میں وارد ہے وَمَا مِنْ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآئے وَالْاَ رْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o یعنی جتنے غیب ہیں آسمان اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں۔ شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے حق میں نازِل ہوئی جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا تھا۔

(۶۶) کیا  ان کے   علم  کا  سلسلہ  آخرت کے   جانے   تک  پہنچ  گیا  (ف ۱۱۹)  کوئی  نہیں  وہ  اس  کی  طرف  سے   شک  میں  ہیں (ف ۱۲۰) بلکہ وہ اس سے  اندھے  ہیں۔

۱۱۹             اور انہیں قیامت قائم ہونے کا علم و یقین حاصل ہو گیا جو وہ اس کا وقت دریافت کرتے ہیں۔

۱۲۰             انہیں ابھی تک قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔

(۶۷) اور کافر بولے  کیا جب ہم اور ہمارے  باپ دادا مٹی ہو جائیں گے  کیا ہم پھر نکالے  جائیں گے  (ف ۱۲۱) (۶۸) بیشک اس کا وعدہ دیا گیا ہم کو اور ہم سے  پہلے  ہمارے  باپ داداؤں کو یہ تو نہیں مگر اگلوں کی کہانیاں، (ف ۱۲۲)

۱۲۱             اپنی قبروں سے زندہ۔

۱۲۲             یعنی (معاذ اﷲ) جھوٹی باتیں۔

(۶۹) تم فرماؤ زمین میں چل کر دیکھو، کیسا ہوا نجام مجرموں کا (ف ۱۲۳)

۱۲۳             کہ وہ انکار کے سبب عذاب سے ہلاک کئے گئے۔

(۷۰) اور تم ان پر غم نہ کھاؤ (ف ۱۲۴) اور ان کے  مکر سے  دل تنگ نہ ہو (ف ۱۲۵)

۱۲۴             ان کے اعراض و تکذیب کرنے اور اسلام سے محروم رہنے کے سبب۔

۱۲۵             کیونکہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہے۔

(۷۱) اور کہتے  ہیں کب آئے  گا یہ وعدہ  (ف ۱۲۶) اگر تم سچے  ہو۔

۱۲۶             یعنی یہ وعدۂ عذاب کب پورا ہو گا۔

(۷۲) تم فرماؤ قریب ہے  کہ تمہارے  پیچھے  آ لگی ہو بعض وہ چیز جس کی تم جلدی مچا رہے  ہو (ف ۱۲۷)

۱۲۷             یعنی عذابِ الٰہی چنانچہ وہ عذاب روزِ بدر ان پر آ ہی گیا اور باقی کو وہ بعدِ موت پائیں گے۔

(۷۳) اور بیشک تیرا رب فضل والا ہے  آدمیوں پر (ف ۱۲۸) لیکن اکثر آدمی حق نہیں مانتے  (ف ۱۲۹)

۱۲۸             اسی لئے عذاب میں تاخیر فرماتا ہے۔

۱۲۹             اور شکر گزاری نہیں کرتے اور اپنی جہالت سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔

(۷۴) اور بیشک تمہارا رب جانتا ہے  جو ان کے  سینوں میں چھپی ہے  اور جو وہ ظاہر کرتے  ہیں (ف ۱۳۰)

۱۳۰             یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عداوت رکھنا اور آپ کی مخالفت میں مکاریاں کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے وہ اس کی سزا دے گا۔

(۷۵) اور جتنے  غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے  سب ایک بتانے  وا لی کتاب میں ہیں (ف ۱۳۱)

۱۳۱             یعنی لوحِ محفوظ میں ثبت ہیں اور جنہیں ان کا دیکھنا بفضلِ الٰہی میّسر ہے ان کے لئے ظاہر ہیں۔

(۷۶) بیشک یہ قرآن ذکر فرماتا ہے   بنی اسرائیل سے  اکثر وہ باتیں جس میں وہ اختلاف کرتے  ہیں (ف ۱۳۲)

۱۳۲             دینی امور میں اہلِ کتاب نے آپس میں اختلاف کیا ان کے بہت فِرقے ہو گئے اور آپس میں لعن طعن کرنے لگے تو قرآنِ کریم نے اس کا بیان فرمایا ایسا بیان کیا کہ اگر وہ انصاف کریں اور اس کو قبول کریں اور اسلام لائیں تو ان میں یہ باہمی اختلاف باقی نہ رہے۔           

(۷۷) اور بیشک وہ ہدایت اور رحمت ہے  مسلمانوں کے  لیے۔

(۷۸) بیشک تمہارا رب ان کے  آپس میں فیصلہ فرماتا ہے  اپنے  حکم سے  اور وہی ہے  عزت و الا علم والا۔

(۷۹) تو تم اللہ پر بھروسہ کرو، بیشک تم روشن حق پر ہو۔

(۸۰) بیشک تمہارے  سنائے  نہیں سنتے  مردے  (ف ۱۳۳) اور نہ تمہارے  سنائے  بہرے  پکار سنیں جب پھریں پیٹھ دے  کر (ف ۱۳۴)

۱۳۳             مُردوں سے مراد یہاں کُفّار ہیں جن کے دل مُردہ ہیں چنانچہ اسی آیت میں ان کے مقابل اہلِ ایمان کا ذکر فرمایا۔  اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِایٰٰتِنَا  جو لوگ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ان کا استدلال غلط ہے چونکہ یہاں مُردہ کُفّار کو فرمایا گیا اور ان سے بھی مطلقاً ہر کلام کے سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ پند و موعِظت اور کلامِ ہدایت کے بسمعِ قبول سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافِر مُردہ دل ہیں کہ نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے۔ اس آیت کے معنی یہ بتانا کہ مردے نہیں سنتے بالکل غلط ہے صحیح احادیث سے مُردوں کا سُننا ثابت ہے۔

۱۳۴             معنیٰ یہ ہیں کہ کُفّار غایت اعراض و روگردانی سے مُردے اور بہرے کے مثل ہو گئے ہیں کہ انہیں پکارنا اور حق کی دعوت دینا کسی طرح نافع نہیں ہوتا۔

 (۸۱) اور اندھوں کو (ف ۱۳۵) گمراہی سے  تم ہدایت کرنے  والے  نہیں، تمہارے  سنائے  تو وہی سنتے  ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے  ہیں (ف ۱۳۶) اور ہو مسلمان ہیں۔

۱۳۵             جن کی بصیرت جاتی رہی اور دل اندھے ہو گئے۔

۱۳۶             جن کے پاس سمجھنے والے دل ہیں اور جو علمِ الٰہی میں سعادتِ ایمان سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں۔(بیضاوی و کبیر و ابوالسعود و مدارک)۔

(۸۲) اور جب بات ان پر آ پڑے  گی (ف ۱۳۷) ہم زمین سے  ان کے  لیے  ایک چوپایہ نکالیں گے  (ف ۱۳۸) جو لوگوں سے  کلام کرے  گا  (ف ۱۳۹) اس لیے  کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے  تھے  (ف ۱۴۰)

۱۳۷             یعنی ان پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حُجّت پوری ہو چکے گی اس طرح کہ لوگ امر بالمعروف اور نہی منکر ترک کر دیں گے اور ان کی درستی کی کوئی امید باقی نہ رہے گی یعنی قیامت قریب ہو جائے گی اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی۔

۱۳۸             اس چوپایہ کو دابۃ الارض کہتے ہیں یہ عجب شکل کا جانور ہو گا جو کوہِ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا، ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا، ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسیٰ علیہ السلام سے نورانی خط کھینچے گا، کافِر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگُشتری سے سیاہ مُہر لگائے گا۔

۱۳۹             بزبانِ فصیح اور کہے گا ہذا مؤمن و ہذا کا فِر یہ مؤمن ہے اور یہ کافِر ہے۔

۱۴۰             یعنی قرآنِ پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں بَعث و حساب و عذاب و خروجِ دابۃ الارض کا بیان ہے اس کے بعد کی آیت میں قیامت کا بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۸۳) اور جس دن اٹھائیں گے  ہم ہر گروہ میں سے  ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے   (ف ۱۴۱) تو ان کے  اگلے  روکے  جائیں گے  کہ پچھلے  ان سے  آ ملیں۔

۱۴۱             جو کہ ہم نے اپنے انبیاء پر نازِل فرمائیں۔ فوج سے مراد جماعتِ کثیرہ ہے۔

(۸۴) یہاں تک کہ جب سب حاضر ہولیں گے  (ف ۱۴۲) فرمائے  گا کیا تم نے  میری آیتیں جھٹلائیں حالانکہ تمہارا علم ان تک نہ پہنچتا تھا (ف ۱۴۳) یا کیا کام کرتے  تھے  (ف ۱۴۴)

۱۴۲             روزِ قیامت موقَفِ حساب میں۔

۱۴۳             اور تم نے ان کی معرفت حاصل نہ کی تھی بغیر سوچے سمجھے ہی ان آیتوں کا انکار کر دیا۔

۱۴۴             جب تم نے ان آیتوں کو بھی نہیں سوچا۔ تم بے کار تو نہیں پیدا کئے گئے تھے۔

(۸۵)  اور بات پڑ چکی ان پر (ف ۱۴۵) ان کے  ظلم کے  سبب تو وہ اب کچھ نہیں بولتے  (ف ۱۴۶)

۱۴۵             عذاب ثابت ہو چکا۔

۱۴۶             کہ ان کے لئے کوئی حُجّت اور کوئی گفتگو باقی نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عذاب ان پر اس طرح چھا جائے گا کہ وہ بول نہ سکیں گے۔

(۸۶) کیا انہوں نے  نہ دیکھا کہ ہم نے  رات بنائی کہ اس میں آرام کریں اور دن کو بنایا سوجھانے  والا،  بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے  لیے  کہ ایمان رکھتے  ہیں (ف ۱۴۷)

۱۴۷             اور آیت میں بَعث بعد الموت پر دلیل ہے اس لئے کہ جو دن کی روشنی کو شب کی تاریکی سے اور شب کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدلنے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے نیز انقلابِ لیل و نہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ان کی دنیوی زندگی کا انتظام ہے تو یہ عبث نہیں کیا گیا بلکہ اس زندگانی کے اعمال پر عذاب و ثواب کا ترتُّب مقتضائے حکمت ہے اور جب دنیا دارالعمل ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارِ آخرت بھی ہو وہاں کی زندگانی میں یہاں کے اعمال کی جزا ملے۔

(۸۷) اور جس دن پھونکا جائے  گا صُور (ف ۱۴۸) تو گھبرائے  جائیں گے  جتنے  آسمانوں میں ہیں اور جتنے  زمین میں ہیں (ف ۱۴۹)  مگر جسے  خدا چاہے  (ف ۱۵۰) اور سب اس کے  حضور حاضر ہوئے  عاجزی کرتے  (ف ۱۵۱)

۱۴۸             اور اس کے پھونکنے والے حضرت اسرافیل ہوں گے علیہ السلام۔

۱۴۹             ایسا گھبرانا جو سببِ موت ہو گا۔

۱۵۰             اور جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ سکون عطا فرمائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ شُہداء ہیں جو اپنی تلواریں گلوں میں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا وہ شہداء ہیں اس لئے کہ وہ اپنے ربّ کے نزدیک زندہ ہیں فَزَعْ ان کو نہ پہنچے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ نفخہ کے بعد حضرت جبریل و میکائل و اسرافیل و عزرائیل ہی باقی رہیں گے۔

۱۵۱             یعنی روزِ قیامت سب لوگ بعدِ موت زندہ کئے جائیں گے اور موقف میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں گے۔ صیغۂ ماضی سے تعبیر فرمانا تحققِ وقوع کے لئے ہے۔

(۸۸) اور تو دیکھے  گا پہاڑوں کو خیال کرے  گا کہ وہ جمے  ہوئے  ہیں اور وہ چلتے  ہوں گے  بادل کی چال (ف ۱۵۲) یہ کام ہے  اللہ کا جس نے  حکمت سے  بنائی ہر چیز،  بیشک اسے  خبر  ہے  تمہارے  کاموں کی۔

۱۵۲             معنیٰ یہ ہیں کہ نفخہ کے وقت پہاڑ دیکھنے میں تو اپنی جگہ ثابت و قائم معلوم ہوں گے اور حقیقت میں وہ مثل بادلوں کے نہایت تیز چلتے ہوں گے جیسے کہ بادل وغیرہ بڑے جسم چلتے ہیں متحرک نہیں معلوم ہوتے یہاں تک کہ وہ پہاڑ زمین پر گر کر اس کے برابر ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔

(۸۹) جو  نیکی لائے  (ف ۱۵۳) اس کے  لیے  اس سے  بہتر صلہ ہے  (ف ۱۵۴) اور ان کو اس دن کی گھبراہٹ سے  امان ہے  (ف ۱۵۵)

۱۵۳             نیکی سے مراد کلمۂ توحید کی شہادت ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اخلا صِ عمل اور بعض نے کہا کہ ہر طاعت جو اللہ کے لئے کی ہو۔

۱۵۴             جنّت اور ثواب۔

(۹۰) اور جو بدی لائے  (ف ۱۵۶) تو ان کے  منہ اوندھائے  گئے   آگ میں (ف ۱۵۷) تمہیں کیا بدلہ ملے  گا مگر اسی کا جو کرتے  تھے  (ف ۱۵۸)

۱۵۵             جو خوفِ عذاب سے ہو گی پہلی گھبراہٹ جس کا اوپر کی آیت میں ذکر ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔

۱۵۶             یعنی شرک۔

۱۵۷             یعنی وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے اور جہنّم کے خازن ان سے کہیں گے۔

(۹۱) مجھے  تو یہی حکم ہوا ہے  کہ پوجوں اس شہر کے  رب  کو (ف ۱۵۹) جس نے  اسے  حرمت والا کیا ہے  (ف ۱۶۰) اور سب کچھ اسی کا ہے، اور مجھے  حکم ہوا ہے  کہ فرمانبرداروں میں ہوں۔

۱۵یعنی شرک اور معاصی اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرمائے گا کہ آپ فرما دیجئے کہ۔

۱۵۹             یعنی مکّہ مکرّمہ کے اور اپنی عبادت اس ربّ کے ساتھ خاص کروں مکّۂ مکرّمہ کا ذکر اس لئے ہے کہ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وطن اور وحی کا جائے نُزول ہے۔

۱۶۰             کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے نہ کوئی شکار مارا جائے نہ وہاں کی گھانس کاٹی جائے۔

(۹۲)  اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کروں (ف ۱۶۱) تو جس نے  راہ پائی اس نے  اپنے  بھلے  کو راہ پائی (ف ۱۶۲) اور جو بہکے  (ف ۱۶۳) تو فرما دو کہ میں تو یہی ڈر سنانے  والا ہوں (ف ۱۶۴)

۱۶۱             مخلوقِ خدا کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے۔

۱۶۲             اس کا نفع و ثواب وہ پائے گا۔

۱۶۳             اور رسولِ خدا کی اطاعت نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔

۱۶۴             میرے ذمہ پہنچا دینا تھا وہ میں نے انجام دیا  ھَذِہ ایٰۃ نسختھا ایٰۃ القتال۔

(۹۳) اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اللہ کے  لیے  عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے  گا تو انہیں پہچان لو گے  (ف ۱۶۵) اور اے  محبوب! تمہارا رب غافل نہیں، اے  لوگو! تمہارے  اعمال سے۔

۱۶۵             ان نشانیوں سے مراد شقِ قمر وغیرہ معجزات ہیں اور وہ عقوبتیں جو دنیا میں آئیں جیسے کہ بدر میں کُفّار کا قتل ہونا، قید ہونا، ملائکہ کا انہیں مارنا۔