دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ النَّمل

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت۱۸ میں حضرت سلیمان کے وادیِ نمل (چونٹیوں کی وادی) سے گزرنے اور چونٹیوں کی بات سننے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام النمل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ شعراء کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن کو کتاب الٰہی تسلیم کرنے اور شرک سے باز آنے میں ب سے بڑی رکاوٹ انکارِ حقیقت ہے۔ جو لوگ دنیا کے عیش و عشرت میں مگن رہنا چاہتے ہیں ان پر نہ قرآن کی نصیحت کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ انبیائی تاریخ سے وہ کوئی سبق لیتے ہیں۔

 

نظم کلام

 

آیت۱  تا ۶ میں آفتابِ ہدایت (قرآن) کو ابدی کامیابی کی بشارت دے رہا ہے مگر وہ لوگ اس کی فیض رسانی سے محروم ہیں جو اس دنیا کے خول میں بند ہیں اور نہیں چاہتے کہ ایک ایسے عالم آخرت کی بات سنیں جہاں جزائے عمل کا معاملہ پیش آنے والا ہے۔

 

آیت ۷ تا۱۴ میں حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا کچھ حصہ بیان ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اس کی قوم کی طرف کس شان کا رسول بھیجا تھا اور انہوں نے اپنی حکمرانی کے گھمنڈ میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا اور بالآخر کس انجام کو پہنچ گئے۔

 

آیت۱۵ تا ۴۴ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی عظیم الشان سلطنت کا ذکر کر کے ان کی سیرت کے اس پہلو کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ اتنی بڑی نعمت پا کر کس طرح الہ کے شکر گزار بندے بنے رہے اور حضرت سلیمان نے کس طرح اپنے اقتدار کو اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنایا اور اس کے نتیجہ میں کس طرح ملکۂ سبا نے اسلام قبول کیا۔

 

آیت ۴۵ تا ۵۸ میں حضرت صالح اور حضرت لوط کی سرگذشتوں کا ایک حصہ پیش کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی قوموں نے ان کی دعوت کو رد کر کے زمین میں فساد پھیلانے کا جو کام کیا اس کی کیسی عبرت ناک سزا ان کو مل گئی۔ آیت ۵۹ تا ۷۵ میں توحید کے دلائل اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی باتیں پیش کی گئی ہیں

 

آیت ۷۶ تا ۹۶ میں اعلان کیا گیا ہے کہ قرآن نے ہدایت کی راہ کھولی ہے اور ا سکی صداقت کی نشانیاں مستقبل میں بھی ظاہر ہوتی رہیں گی۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔۔۔۔۔۔۔طا۔ سین۔  ۱* یہ آیتیں ہیں قرآن اور روشن کتاب کی ۲*۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔یہ ہدایت و بشارت ہے مومنوں کے لئے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔جو نماز  (صلوۃ) قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور یہی ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ۳*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ آخرت پر  ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے کام ان کے لیے خوشنما بنا دیئے ہیں ۴*لہذا وہ بھٹکتے پھر تے ہیں ۵*۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ایسے لوگوں کے لیے دینا میں بھی برا عذاب ہے ۶*۔ اور آخرت میں بھی وہ بری طرح تباہ ہوں گے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔اور بلا شبہ یہ قرآن تم خدائے ) علیم و حکیم کے حضور سے پار ہے ہو ۷*۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔جب موسی نے اپنے گھر والوں سے کہا میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ میں وہاں سے کوئی خبر لیکر آتا ہوں یا آگ کا شعلہ لا تا ہوں تاکہ تم لوگ گرمی حاصل کر سکو۔ ۸*۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔جب وہ اس کے پاس پہونچا تو ندا آئی مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں۔ اور پاک ہے اللہ رب العالمین ۹*۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔اے موسی میں ہو اللہ غلبہ والا حکمت والا۔

 

 ۱۰۔۔۔۔۔۔۔اور تم اپنا عصا ڈال دو۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح حرکت کر رہا ہے تو وہ پیٹھ پھر کر بھاگا اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا  ۱۰*۔ اے موسی ! ڈرو نہیں۔ میرے حضور پیغمبر ڈرا نہیں کر تے  ۱۱*۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔مگر جو گناہ کا مرتکب ہوا ہو۔ پھر (اگر اس نے) برائی کو نیکی سے بدل دیا ہو تو میں بخشنے والا رحم کرنے والا ہوں  ۱۲*۔

 

 ۱۲۔۔۔۔۔۔۔اور تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ کسی عیب کے بغیر روشن ہو کر نکلے گا  ۱۳*۔  یہ نو نشانیوں میں سے  ہیں  ۱۴*۔ جن کے ساتھ تم اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ وہ بڑے فاسق لوگ ہیں  ۱۵*۔

 

 ۱۳۔۔۔۔۔۔۔مگر جب ان کے سامنے ہماری کھلی نشانیاں آئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ ۱۶*

 

 ۱۴۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ظلم اور غرور کی وجہ سے ان کا انکار کیا حالانکہ ان کو اپنے دل میں یقین ہو چکا تھا۔ تو دیکھو مفسدوں کا انجام کیسا ہوا ۱۷*۔

 

 ۱۵۔۔۔۔۔۔۔ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم  ۱۸*عطا کیا۔ اور انہوں نے کہا شکر ہے اللہ کا  ۱۹*جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ۲۰*۔

 

 ۱۶۔۔۔۔۔۔۔اور داؤد کا وارث سلیمان ہوا ۲ ۱*۔ اس نے کہا لوگو! ہمیں پرندوں کو بولی سکھائی گئی ہے ۲۲*اور ہمیں سب کچھ عطا کیا گیا ہے ۲۳*۔ بے شک یہ نمایاں فضل ہے ۲۴*۔

 

 ۱۷۔۔۔۔۔۔۔اور سلیمان کے لئے اس کے لشکر جو جنوں ، انسانوں اور پرندوں میں سے ۲۵*تھے جمع کئے گئے تھے اور ان کی صف بندی کی جاتی تھی ۲۶*۔

 

 ۱۸۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ جب وہ چونٹیوں کی وادی میں پہونچے ۲۷* تو ایک چیونٹی نے کہا اے چونٹیوں ! اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر ہمیں کچل ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۲۸*۔

 

 ۱۹۔۔۔۔۔۔۔سلیمان اس بات پر ہنس پڑا۲۹* اور دعا کی اے میرے مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیرے اس احسان کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور نیک عمل کروں جس سے تو خوش ہو ۳۰*۔ اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما ۳۱*۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔اور اس نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ غائب ہو ا ہے ۳۲*؟

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔میں اسے سخت سزادوں گا ۳۳* یا ذبح کر ڈالوں گا یا پھر وہ میرے سامنے واضح حجت پیش کرے۔ ۳۴*۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ اس نے آ کر کہا میں نے وہ باتیں معلوم کی ہیں جس سے آپ پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔ میں سبا سے یقینی خبر لے کر آیا ہوں ۳۵*۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا ایک عورت ان پر حکو مت کر رہی ہے ۳۶*۔ اس کو سب کچھ بخشا گیا ہے ۳۷* اور اس کا تخت عظیم الشان ہے ۳۸*۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔میں دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کر تی ہے ۳۹*۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیئے ہیں اور ان کو راہ راست سے روک دیا ہے اس لئے وہ راہ یاب نہیں ہو رہے ہیں ۴۰*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں وہ اللہ کو سجدہ کرتے ۴۱*۔ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے ۴۲* اور وہ جانتا ہے جو تم چھپا تے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو ۴۳*۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔اللہ کہ اس کے سوا کوئی لائق پرستش نہیں عرش عظیم کا مالک ۴۴* ہے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔اس نے (سلیمان نے) کہا ہم دیکھ لیتے ہیں تو نے سچ کہا ہے یا جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے ۴۵*۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔یہ میرا خط لے جا اور ان کے پاس ڈال دے ۴۶*۔ پھر ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۴۷*۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔اس (ملکہ) نے کہا اے اہل دربار ! میری پاس ایک نامۂ گرامی ڈال دیا گیا ہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ رحمن و رحیم کے نام سے ۴۸*۔

 

۳ ۱۔۔۔۔۔۔۔میرے مقابلہ میں سر کشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ ۴۹*۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا اے اہل دربار !اس معاملہ میں مجھے رائے دو۔  میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیہں کرتی جب تک کہ تم لوگ موجود نہ ہوں۔ ۵۰*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا ہم طاقت ۵۱*ور سخت جنگ آور ہیں۔ ۵۲*مگر فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے ۵۳*۔ دیکھے آپ کیا حکم دینا چاہتی ہیں ۵۴*۔

۳

۳۴۔۔۔۔۔۔۔اس (ملکہ) نے کہا بادشاہ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو درہم برہم کر دیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں ۵۵*۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔میں ان کے پاس ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لے کر آتے ہیں ۵۶*۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔جب وہ (سفیر) سلیمان کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو ؟ مجھے اللہ نے جو کچھ دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تم لوگوں کی دیا ہے مگر تم لوگ ہو کہ اپنے ہدیہ پر نازاں ہو ۵۷*۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔واپس جاؤ ان کے پاس۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے کہ وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ہم ان کو وہاں سے اس طرح ذلت کے ساتھ نکالیں گے کہ وہ پست ہو کر رہ جائیں گے ۵۸*۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔سیلمان نے کہا اے اہل دربار! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پا س لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ میرے پاس مسلم ہو کر حاضر ہوں ۵۹*۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔جنوں میں سے ایک عفریت ۶۰* نے کہا میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کر دو ں گا۔ میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں ۶۱*۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کئے دیتا ہوں۔ ۶۲* جب سلیمان  نے دیکھا کہ وہ اس کے سامنے رکھا  ہوا ۶۳*تو پکار اٹھا یہ میرے رب کا فضل ہے ۶۴* تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اس کا شکر کرنا اسی کیلے مفید ہے اور جو  ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور کریم ہے۔ ۶۵*

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔سلیمان نے حکم دیا ملکہ کے لیے اس کے تخت کی شکل بدل دو دیکھیں کہ ہدایت پاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو ہدایت نہیں پا تے۔ ۶۶*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔جب وہ حاضر ہوئی تو اس کہا گیا کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے ؟ اس نے کہا گویا کہ وہی ہے۔ اور ہم  کو اس پہلے ہی علم حاصل ہو گیا تھا اور ہم مسلم تھے ۶۷*

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔اور اس کو روک رکھا تھا غیر اللہ کی پرستش نے جو وہ کیا کرتی تھی۔ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی ۶۸*۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔اس سے کہا گیا محل میں داخل ہو جاؤ۔ اس نے جب دیکھا تو سمجھی کہ گہرا پانی ہے اور اپنی  پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمان نے کہا یہ محل شیشوں سے جڑا ہوا۔ وہ پکار اٹھی اے میرے رب ! میں اپنے نفس پر ظلم کر تی رہی اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اپنے کو اللہ رب العالمین کے حوالہ کر دیا۶۹*۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے ثمود ۷۰*کی طرف ان کے بھائی صالح کو یہ  پیغام دے کرّ بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو یکایک وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے ۷۱*۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! بھلائی سے پہلے برائی کے لئے کیوں جلدی مچاتے ہو؟ اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے کہ تم پر رحم کیا جائے ۷۲*۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو باعث نحوست خیال کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تمہارا شگون اللہ کے پاس ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تمہاری آزمائش  ہو رہی ہے ۷۳*

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔اور شہر میں بوجھتے تھے جو زمین میں فساد بر پا کرتے اور اصلاح کا کوئی کام نہ کرتے ۷۴*۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے (آپس میں) کہا اللہ کی قسم کھا کر عہد کر لو کہ ہم اس پر (صالح پر) اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور  ہم (اپنے بیان میں) بالکل سچے  ہیں ۷۵*۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی ایسی کہا انہیں خبر بھی نہ ہوئی ۷۶*۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔تو دیکھو ان کی چال کا کیا انجام ہوا۔ ہم نے ان کو اور ان کو پوری قوم کو تباہ کر دیا ۷۷*۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔یہ ان کے گھر ہیں جو ویران پڑے ہیں ۷۸* اس ظلم کی ۷۹* پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔ اس میں بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۸۰*۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے تھے اور (اللہ  سے) ڈرتے تھے ۸۱*۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے لوط۸۲* کو رسول بنا کر بھیجا۔ جب اس نے اپنی قوم سے کہا۔ کیا تم آنکھوں دیکھے بد کاری کرتے ہو ۸۳*۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔کیا تم عورتوں کی چھوڑ کر مردوں کے  پاس شہوت رانی کے لئے جاتے ہو؟ ۸۴* حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بڑے جاہل ہو ۸۵*۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے لوط کے گھر والوں  کو اپنی بستی سے نکال دو۸۶* یہ لوگ بڑے پار سا بنتے ہیں ۸۷*۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔۔بالآخر ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو نجات  دی بجز اس کی بیوی کے کہ ہم نے طے کر دیا تھا کہ وہ پچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۸۸*۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے ان پر ایک خاص طرح کی بارش برسائی ۸۹*۔ تو کیا ہی بری بارش ہوئی ان لوگوں پر جنہیں خبردار کیا جا چکا تھا۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔کہو حمد ہے اللہ کے لیےاور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے چن لیا ۹۰*۔ (ان سے پوچھو) اللہ بہتر ہے زیادہ جن کو یہ اللہ شریک ٹھرا تے ہیں ۹۱*۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔(معبود یہ ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لئے آسمان سے پانی برسا یا اور اس کے ذریعہ پر رونق باغ اگا ئے جن کے درختوں کو اگا نہ  تمہارے لئے ممکن نہ تھا کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ۹۲*؟ نہیں بلکہ لوگ (حق سے) انحراف کر رہے ہیں۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔۔وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ۹۳*اور اس کے درمیان دریا جاری کئے اور اس میں پہاڑ کھڑے کر دئے اور دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کر دیا ۹۴*۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ؟ نہیں بلکہ ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۹۵*۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔۔وہ جو بے قرار کی فریاد کرتا ہے ۹۶* اور تمھیں زمین میں با اختیار بنا تا ہے ۹۷*۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ؟ تم لوگ کم ہی یا دہانی حاصل کرتے ہو۹۸*۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔۔وہ جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے ۹۹*۔ اور جو اپنی رحمت  ۱۰۰*کے آگے ہواؤں کو خوش خبری لیے ہوئے بھیجتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ؟ بہت بر تر ہے اللہ اس شریک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں  ۱۰۱*۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔۔وہ جو پیدائش کی ابتدا کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرے گا اور جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ؟ کہو اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔  ۱۰۲*

 

۶۵۔۔۔۔۔۔۔(ان سے) کہو آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی ایسا نہیں جو غیب کا علم رکھتا ہو۔ سوائے اللہ کے  ۱۰۳*۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں  ۱۰۴*۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔۔بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گڈ مڈ ہو گیا بلکہ یہ لوگ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں  ۱۰۵*۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کافر کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں گے تو کیا ہمیں (قبروں سے) نکالا جائے گا ؟

 

۶۸۔۔۔۔۔۔۔اس کی دھمکی ہم کو بھی دی گئی ہے اور ہمارے باپ دادا کو بھی دی جاتی رہی ہے مگر یہ محض اگلے لوگوں کے افسانے ہیں  ۱۰۶*۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔۔کہو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ۱۰۷*۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔۔(اے پیغمبر) تم ان (کے حال) پر غم نہ کرو اور نہ ان کی چالوں پر جو وہ چل رہے ہیں دل تنگ ہو۔  ۱۰۸*

 

۷۱۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں یہ دھمکی کب وقوع میں آئے گی اگر تم سچے ہو ۱۰۹*۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔۔کہو کیا عجب کہ جس چیز کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے پیچھے ہی لگا ہوا ہو  ۱۱۰*۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔۔در حقیقت تمہارا رب لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ۱۱۱*۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔۔بلا شبہ تمہارا رب خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں  ۱۱۲*

 

۷۵۔۔۔۔۔۔۔اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیز نہیں جو ایک واضح کتاب میں درج نہ ہو۱۱۳*۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ یہ قرآن اسرائیل پر ان بہت سی باتوں کی حقیقت واضح کر رہا ہے جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۱۱۴*۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔۔اور یہ ہدایت و رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے۔  ۱۱۵*

 

۷۸۔۔۔۔۔۔۔یقیناً تمہارا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا  ۱۱۶*۔

 

وہ غالب اور علم والا ہے  ۱۱۷*۔

 

۷۹۔۔۔۔۔۔۔تو(اے پیغمبر) اللہ پر  بھروسہ ر کھو۔ یقیناً تم صریح حق پر  ہو۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔۔تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔  ۱۱۸* اور نہ بہروں کو  اپنی پکار  سنا سکتے ہو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔۔اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر راہ پر لا سکتے ہو۔

 

تم تو ان ہی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور فرمانبردار  بن جاتے ہیں  ۱۱۹*۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان پر ہمارا فرمان لاگو ہو گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکال کھڑا  کریں گے جو  ان سے بات کرے گا کہ  لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے  ۱۲۰*۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔۔اور وہ دن کہ ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکٹھا کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلا یا کر تے تھے پھر  ان کی درجہ بندی کی جائے گی ۱۲۱*۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ جب وہ سب حاضر ہو جائیں گے تو (اللہ) پوچھے گا کہ کیا تم نے میری آیتوں کا جھٹلا یا تھا اور ان کو اپنے دائرہ عمل میں نہیں لایا  ۱۲۲*۔ یا پھر تم کیا کرتے رہے ؟

 

۸۵۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے ظلم کی وجہ سے ہمارا فرمان ان پر لاگو ہو گا  ۱۲۳*اور وہ کچھ بول سکیں گے۔  ۱۲۴*

 

۸۶۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے  جو ایمان لاتے ہیں  ۱۲۵*۔

 

۸۷۔۔۔۔۔۔۔اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ (اس سے محفوظ رکھنا) چاہے گا  ۱۲۶*۔ اور سب اس کے حضور عاجز ین کر حاضر ہوں گے  ۱۲۷*۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔۔تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں مگر وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے  ۱۲۸*۔ یہ اللہ کی کاریگری ہو گی جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا  ۱۲۹*۔ تم جو کچھ کر رہے ہو اس وہ باخبر ہے  ۱۳۰*۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔۔جو شخص نیکی  ۱۳۱* لے کر آئے گا اس کو سے بہتر اجر  ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے  ۱۳۲*۔

 

۹۰۔۔۔۔۔۔۔اور جو برائی لے کر آئے  ۱۳۳*گا تو ایسے لوگ اوندھے منہ جہنم میں جھونک دئے جائیں گے۔ تم کو بدلہ میں وہی کچھ دیا جا رہا ہے  جو تم کر تے رہے ہو  ۱۳۴*۔

 

۹۱۔۔۔۔۔۔۔(کہو) مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنا یا  ۱۳۵*ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مسلم بن کر رہوں  ۱۳۶*۔

 

۹۲۔۔۔۔۔۔۔اور کہ قرآن پڑھ کر سناؤں  ۱۳۷*۔ جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے اختیار کرے گا اور  جو گمراہ ہو تو کھ دو میں تو بس خبردار کرنے والا ہوں۔

 

۹۳۔۔۔۔۔۔۔کہو تعریف اللہ کے لئے ہے  ۱۳۸*۔ وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور تم ا نہیں پہچان  ۱۳۹* لو گے تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو اس سے تمہارا رب بے خبر نہیں ہے۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حروف مقطعات (الگ الگ پڑھے جانے والے حروف) ہیں اور ان کا اشارہ جیا کہ ہم اس سے پہلے وضاحت کر چکے ہیں سورہ کے مخصوص مضامین کی طرف ہوتا ہے۔

 

"ط" کا اشارہ طیر (پرندے) کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۱۶ میں اس طور سے ہوا ہے کہ ان کی بولی حضرت سلیمان کو سکھائی گئی تھی۔

 

"س" کا اشارہ سلیمان کی طرف ہے اور سبا کی طرف بھی جن کا ذکر بالترتیب آیت ۱۶ اور ۲۲ میں ہوا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کیا ہے ایک روشن کتاب اور یہ اسی کی آیتیں ہیں۔

 

قرآن کی دعوت اور اس کی تعلیم اتنی واضح ہے کہ ہر وہ شخص جو صاف ذہن سے اس کو پڑھے گا یا سنے گا اس کے مدعا کو پا سکتا ہے۔

 

غیر عربی داں یہ فائدہ ترجمہ کی مدد سے بھی حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ ترجمہ صحیح ہو۔ رہیں تفسیریں تو ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ تفسیر کے بغیر قرآن کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ کتنے غیر مسلم ہیں جنہوں نے قرآن کے ترجمہ کو پڑھا اور انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی!

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کیلئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۷ اور ۱۰۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدمی جب آخرت کا انکار کرتا ہے تو دنیا اس کا نصب العین بن جاتی ہے اور ا سکے نتیجہ میں اس کا طرز عمل غلط ہو کر رہ جاتا ہے مگر چونکہ مقصود دنیا ہوتی ہے اس لیے برے کام بھی اس کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج فیشن، جدت پسندی اور ترقی کے نام پر نہایت گھناؤنے اخلاق اور بدترین اعمال کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ جب طرز فکر غلط ہے تو طرز عمل بھی غلط ہو گا اور پسند اور ناپسند کا معیار بھی غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ نفسیات اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون ضلالت کے مطابق بن جاتی ہے اس لیے اس کو اس طرح تعبیر کیا گیا کہ ہم نے ان کے کام ان کے لیے خوشنما بنا دیئے ہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ انکار آخرت کے نتیجہ میں آدمی راہ راست سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور یقین کی دولت سے بھی۔ پھر اس کیلئے ادھر ادھر بھٹکنا ہی مقدر ہے۔ آج انانیت کو دیکھئے کس طرح بھٹ رہی ہے۔ کوئی کمیونزم کی طرف دوڑ رہا ہے تو کوئی نیشنلزم کو اپنی منزل قرار دے رہا ہے کوئی بھید بھاؤ مٹانے کے لیے وحدت ادیان کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی اپنے کلچر کو اتحاد کی بنیاد بنا رہا ہے کوئی فرقہ پرستی کو فروغ دینا چاہتا ہے تو کوئی سیاست کو خدا اور مذہب سے بے تعلق دیکھنا چاہتا ہے کسی کو تخریبی کاروائیوں سے فرصت نہیں تو کوئی دہشت گردی کا بدترین نمونہ پیش کر رہا ہے غرضیکہ آخرت کا انکار کرنے کے بعد انان کو کوششوں کا کوئی ایک محور نہیں رہا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ جس قوم کو رسول اللہ کا پیغام براہِ راست پہنچا دیتا ہے اور پھر وہ انکار کرتی ہے اس پر تو ایسا عذاب آتا ہے کہ پوری قوم صفحۂ ہستی سے ایک قلم مٹا دی جاتی ہے لیکن جن کو بالواسطہ طور پر پیغام پہنچ جاتا ہے اور وہ اس کو قبول نہیں کرتے اور انکار آخرت پر جمے رہتے ہیں ان کو انکے مناسب حال دنیا میں سزا ملتی رہتی ہے۔ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں آفتوں کا نزول اس کثرت سے ہو رہا ہے کہ اس سے پہلے شاید کبھی نہیں ہوا ہو گا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ قرآن کے مضامین اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ انسانی تصنیف نہیں ہے بلکہ خدائے علیم و حکیم کا کلام ہے کیونکہ اس میں علمو معرفت اور دانائی و حکمت کے بے مثال خزانے پوشیدہ ہیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طہ نوٹ ۹۔

 

۹۔۔۔۔۔۔حضرت موسیٰ کو جو آگ دکھائی دی تھی وہ جلنے والی آگ نہیں تھی ورنہ وہ اس سے انگارے لے لیتے بلکہ وہ ایک غیر معمولی آگ تھی جس کے پردہ میں الہ کی بابرکت ذات ان سے ہم کلام ہو رہی تھی اور اس آگ کے ارد گرد فرشتے موجود رہے ہوں گے جیسا کہ انداز بیان سے ظاہر ہوتا ہے اور جن کی موجودگی باعثِ خیر و برکت تھی۔

 

حضرت موسیٰ سفر میں تھے ، رات تاریک اور سرد تھی اور راستہ کا بھی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اس حالت میں ندائے غیب کا آ جانا ایک ایسی صورتِ حال تھی جس میں حوصلہ برقرار رکھنا اور ذہن کو یکسو کر لینا آسان نہ تھا اس لیے ندائے غیب نے سب سے پہلے انہیں یہ اطمینان لایا کہ یہ ندا اس بابرکت ہستی کی ہے جو کائنات کا رب ہے اور اس بقعہ مبارکہ میں فرشتوں کا نزول ہوا ہے جو خیر ہی خیر ہے۔ شیطان اور اس کے شر سے اس پورے ماحول کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔

 

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ نبوت ایسی چیز نہیں ہے کہ آدمی اپنی کوششوں سے حاصل کر سکے بلکہ وہ منصب ہے جس سے اللہ جس کو چاہتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے سرفراز فرماتا ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ کو بے خبری کی حالت میں نبوت عطا ہوئی تھی اس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں بالکل بے خبری کی حالت میں نبوت عطا ہوئی۔ نبوت کا اچانک عطا کیا جانا انبیاء علیہم السلام کی صداقت کی دلیل ہے ورنہ جو آدمی جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ پہلے ہی سے اس کے لیے ذہنی ، و علمی و عملی تیار کرتا ہے۔

 

رہا یہ سوال کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی آواز کو کس طرح پہچانا تو اولاً مخلوق اپنے خالق کی آواز سے نا آشنا نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کا رب جب اس کو پکارے گا وہ ضرور اس کی آواز کو پہچان لے گی۔ ثانیاً نبی کا وجدان جو ایک پاک طینت نفس کا وجدان ہوتا ہے دل میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ یہ میرے رب کی آواز ہے یا یہ اس کی طرف سے وحی ہے جو نازل ہو رہی ہے۔ ثالثاً وحی کے نزول کے موقعہ پر ماحول ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ شیطانی وساوس ذہن میں نہیں آتے اور قلب اطمینان محسوس کرتا ہے اور رابعاً جو وحی نازل ہوتی ہے وہ اپنے مضمون اور معانی کے لحاظ سے اپنے وحی الٰہی ہونے کا بین ثبوت ہوتی ہے۔

 

اور جو یہ فرمایا "پاک ہے اللہ رب العالمین" تو یہ اس بات کا طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی ندا اگرچہ آگ کے اندر سے آ رہی ہے لیکن اللہ کا وجود اس بات سے پاک ہے کہ وہ کسی چیز کے اندر محدود ہو کر رہ جائے یا کسی چیز میں حلول (سرایت) کرے۔ وہ عرش پر جلوہ فرما ہے اور ہر بندہ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ پھر وہ آسمانوں اور زمین میں بھی ہے جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے :

 

وھوا اللہ فی السموات وفی الارض

 

اور اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی

 

اور جس طرح اس کے آسمان اور زمین میں ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ (نعوذ باللہ) عرش کو چھوڑ کر آسمان و زمین میں سرایت کر گیا ہے اسی طرح حضرت موسیٰ سے اس کا یہ ارشاد کہ "مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے " کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی جسمانی وجود ہے جو آگ کے اندر ہے۔ اس کی صفت ہی یہ ہے کہ اس کے جیسی کوئی چیز نہیں۔ لیس کمثلہ شی اس لیے اس کو مخلوق پر قیاس کرنا ہر گز صحیح نہیں بلکہ کھلی گمراہی ہے۔ مادی دنیا میں یہ مشاہدہ تو ہم کرتے ہی ہیں کہ آئینہ میں آدمی کی تصویر دکھائی دیتی ہے جبکہ وہ اس کے اندر موجود نہیں ہوتا اور آج ٹی وی کے ا سکرین پر بولنے والا بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کی آواز بھی سنائی دیتی ہے جب کہ وہ ٹی وی کے اندر موجودہ نہیں ہوتا۔ جب مادی دنیا کا یہ حال ہے تو خدا کے بے مثال، بے کیف اور لامکان ہونے سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے ؟

 

 ۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ بشریت کا غلبہ تھا۔ سانپ کو لہراتا ہو دیکھ وہ خوف زدہ ہو گئے۔

 

 ۱ ۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کسی کو رسالت کے لیے منتخب کر کے اپنے حضور بلاتا ہے تو ا س کے لیے اندیشہ کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ وہ ہر قسم کے شر اور آفتوں سے اس کے حضور محفوظ اور مامون ہوتا ہے لہذا یہ سانپ جو تم دیکھ رہے ہو وہ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

 

 ۱۲۔۔۔۔۔۔ رہا وہ خوف جو اپنے کسی قصور کی بنا پر ہو تو اس کے بارے میں بھی یہ اطمینان دلایا گیا کہ اگر ماضی میں تم سے جو قصور ہوا ہے اس پر اللہ گرفت کرنے والا نہیں جب کہ تم نے ا کے بعد نیک روی اختیار کی ہے۔ یہ اشارہ تھا قتل خطا کے قصور کی معافی کی طرف جو حضرت موسیٰ سے سرزد ہوا تھا اور جس کی تفصیل سورۂ قصص میں بیان ہوئی ہے۔

 

 ۱۳۔۔۔۔۔۔ یہ دوسرا معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ کو عطا کیا گیا۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طہ نوٹ ۲۳

 

 ۱۴۔۔۔۔۔۔ نو نشانیوں کی تفصیل کیلئے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۳۲

 

 ۱۵ ۔۔۔۔۔۔ فرعون اور اس کی قوم کو فاسق کہا گیا حالانکہ حضرت موسیٰ نے ابھی انہیں دعوت پہنچائی نہیں تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ انبیائی تعلیم سے بالکل ناآشنا نہ تھے کیونکہ مصر میں حضرت یوسف نے گہرے نقوش چھوڑے تھے اور بنی اسرائیل خواہ کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں بہر حال مسلمان تھے اس لیے ان کے ذریعہ خدا اور آخرت کی باتیں کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پہنچتی رہی ہوں گی اور بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی فطرت کھلی ہوئی برائیوں اور معصیتوں کو جانتی ہے۔ مثلاً ظلم و زیادتی، بد اخلاقی تکبر اور گھمنڈ اور اپنے رب کے خلاف سرکشی وغیرہ مگر فرعون اور اس کی قوم نے اپنی فطرت کی آواز کو دبا کر ظلم اور معصیت کا رویہ اختیار کا تھا اس لیے وہ فاسق کہلانے ہی کے مستحق تھے۔

 

اس سے یہ اصولی بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اپنے کو عملاً فاسق (اللہ کی معصیت) کی راہ پر ڈال دیا ہو ان کو فاسق ہی کہا جائے گا خواہ دعوت دین کا کام ان پر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

 

 ۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ حضرت موسیٰ جو نشانیاں دکھا رہے تھے وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہیں اور وہ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس یقین کے باوجود ان کے ایمان لانے میں جو چیز رکاوٹ بنی وہ ان کا ظلم اور گھمنڈ تھا۔ ظلم انسان کو حق پسندی سے دور رکھتا ہے اور گھمنڈ اس کو اس بات پر آمادہ نہیں ہونے دیتا کہ وہ اپنے مقام سے نیچے اتر کر حق کو قبول کرے۔

 

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اصل چیز دل کا اقرار ہے اور ایمان دل کے اقرار کے بغیر معتبر نہیں۔

 

 ۱۷۔۔۔۔۔۔ اس انجام کی تفصیل سورہ یونس، سورہ طہ اور سورہ شعراء میں بیان ہوئی ہے۔

 

 ۱۸۔۔۔۔۔۔ مراد عمل خاص ہے جو ایک عظیم الشان اور بے مثال سلطنت کو عدل و انصاف اور اسلامی آئیڈیالوجی کے مطابق چلانے کے لیے ضروری تھا۔ بائبل میں ہے :

 

"اور خدا نے سلیمان کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے اور سلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت اور مصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی۔ " (۱۔ سلاطین ۴:۲۹،۳۰)

 

 ۱۹۔۔۔۔۔۔ اوپر فرعون کی مثال گزر چکی جس کو اقتدار ملا تو گھمنڈ کرنے لگا اور ظلم پر اتر آتا دوسری طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی مثالیں ہیں جنہیں اقتدار ملا تو انہوں نے اللہ کا فضل سمجھ کر ا س کا صحیح استعمال کیا اور اس کے شکر گزار بن کر رہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔فضیلت اس اعتبار سے کہ نبیؐ بنایا اور اس اعتبار سے کہ علم و حکمت سے نواز اور اس اعتبار سے بھی کہ خلافت و حکومت سے سرفراز فرمایا اور اپنے فضل خاص سے ایسی چیزیں عطا کیں جو طرۂ امتیاز قرار پائیں۔

 

۲۱ ۔۔۔۔۔۔ وارث کا مطلب مال کا وارث ہونا نہیں بلکہ علمِ نبوت اور منصبِ خلافت کا وارث ہونا ہے۔ اگر مال کی وراثت مراد ہوتی تو صرف حضرت سلیمان کا ذکر نہ کیا جاتا کیونکہ حضرت داؤد کی اور بھی اولاد تھی۔ علاوہ ازیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے انبیاء علیہم السلام کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا (ملاحظہ ہو سورۂ مریم نوٹ ۸) اور محل کلام بھی دلیل ہے کہ یہاں مالی وراثت زیر بحث نہیں ہے۔ بائبل میں ہے۔

 

"اور سلیمان اپنے باپ داؤد کے تخت پر بیٹھا اور اس کی سلطنت نہایت مستحکم ہوئی"(۱۔ سلاطین ۲: ۱۲)

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پرندے کسی نہ کسے درجے میں شعور رکھتے ہیں اور اپنی ضرورتوں کا اظہار مختلف آوازوں کی صورت میں کرتے ہیں عام مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے اور تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ طوطے کو جو کلمات سکھائے جائیں وہ ان کو ادا کرتا ہے اسی طرح شکاری پرندوں کو سِدھایا جاتا ہے پھر پرندوں کے نغمے ہر گز بے معنی نہیں کہے جا سکتے تاہم ان کی بولی کو سمجھنا ہمارے لیے ایسا ہی مشکل ہے جیسے ٹیلیگراف کی زبان نہ جاننے والے شخص کے لیے کھٹ کھٹ کی آواز سن کر اس کا مفہوم متعین کرنا۔ مگر حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی کا علم بخشا تھا جو معجزانہ نوعیت کا تھا اس لیے وہ اپنی حکومت کے سلسلے میں ان سے بھی خدمت لیتے تھے۔

 

واضح رہے کہ پرندوں کی بولی حضرت سلیمان کو سکھائی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ جو فرمایا کہ "لوگوں ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے " تو یہ شاہی انداز بیان ہے جس میں بولنے والا جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام ضروری ساز و سامان جو ایک مستحکم حکومت چلانے کے لیے ضروری ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بے مثال سلطنت اللہ کا ایسا فضل ہے جس کو کوئی شخص بھی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا اس لیے ہمیں اس فضل کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کی سیرت کس قدر بلند تھی۔ مگر یہود کی مکاری دیکھئے کہ انہوں نے بعد میں حضرت سلیمان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے یہ عظیم الشان سلطنت جادو کے بل پر حاصل کی تھی اور وہ کفر کے مرتکب ہوئے تھے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۰۲ اور نوٹ۱۲۰

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کی حکومت امتیازی شان کی تھی۔ ان کے لیے انسانوں کے ساتھ جنوں اور پرندوں کے لشکر بھی مہیا کر دیئے گئے تھے۔ وہ جنوں اور پرندوں سے جو خدمت لیتے تھے اس کا ذکر آگے ہوا ہے اور اس سلسلہ کی کچھ باتیں سورہ انبیاء میں گزر چکیں۔ (ملاحظہ ہو سورۂ انبیاء نوٹ۔۱۰۱)

 

ہر نبی کی ایک شان ہوتی ہے۔ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے حکومت و دولت اور شان و شوکت والا نبی بنایا تھا تاکہ دنیا والوں پر اسلام کی صداقت و عظمت کا یہ پہلو بھی روشن ہو کہ ایک نبی جاہ و حشمت کے ساتھ جب تخت پر بیٹھتا ہے تو اللہ کو یاد کرا ہ اور محل میں رہ کر بھی صالحیت کی زندگی جب گزارتا ہے لہذا جن لوگوں کو اقتدار حاصل ہو وہ اس کے نشہ میں مدہوش نہ ہوں بلکہ اسوہ سلیمانی کو سامنے رکھتے ہوئے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیں۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ یعنی ان لشکروں کو فوجی نظم و ضبط کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ ان کی صف بندی بھی کی جاتی تھی اور درجہ بندی بھی تاکہ جس کام کے لیے جو موزوں ہوں ان سے وہ کام لیا جائے مثلاً پرندوں سے پیغام رسانی کا کام وغیرہ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی سلیمان کا لشکر جب مارچ کرتے ہوئے ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چونٹیوں کی کثرت تھی۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ چونٹیوں میں اجتماعیت بھی ہوتی ہے اور نظم بھی چنانچہ ان کی لمبی قطاریں اور ان کامل جل کر کام کرنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ ان کی حرکات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک چونٹی دوسری چونٹی کو بلا کر لاتی ہے جس سے ان کی باہم گفتگو کا بھی اندازہ ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ ہم ان کی آواز سن نہیں پاتے مگر ہم جانوروں کو انسان پر قیاس نہیں کر سکتے جس کی واضح مثال کتے کی قوتِ شامہ ہے جو اس قدر تیز ہوتی ہے کہ وہ انسان کے جسم کی بو کو محسوس کر کے اسے شناخت کر لیتا ہے چنانچہ جب پولس کسی تربیت یافتہ کتے کو موقع واردات پر لاتی ہے تو وہ اس بُو کے پیچھے جو راہ کی نشاندہی کرتی ہے مجرم تک پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اگر چونٹیوں کی گفتگو باہم اتنی خفی (ہلکی) ہو کہ ہم سن نہ سکیں تو یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ آج ہم دقیق چیزیں خوردبین کے ذریعہ دیکھ لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے ہمیں ان کے وجود کی خبر بھی نہیں تھی۔ اور اگر ابھی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہوا ہے جس کے ذریعہ ہم صوتِ خفی کو سن سکیں تو اس کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہیں جب کہ اس کی خبر ہمیں کلام الٰہی کے ذریعہ مل رہی ہے بلکہ یہ تو قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کی دلیل ہے کہ وہ کائنات کے بعض ایسے اسرار سے ہمیں آشنا کر رہا ہے جن کو جاننے کا ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ انسانی علم میں زبردست اضافہ ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان آیات کی الٹی سیدھی تاول کر کے علم کے ان دروازوں کو بند کر لیں جو ہم پر کھل رہے ہیں اور قرآن میں تحریف کے مرتکب ہو جائیں۔ ایسی آیتوں کو پڑھ کر ہماری دعا یہی ہونی چاہئے کہ :

 

رب زدنی علماً (طہ۰ ۱۱۴) "اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما"

 

 رہا یہ سوال کہ چونٹیوں کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ سلیمان کا لشکر ہے جو اس وادی سے گزر رہا تھا تو یہ بات الہامی ہے چونٹی پر اللہ کی طرف سے اس کا الہام ہونا (اس کے دل میں ڈالا جانا) کچھ بھی عجیب نہیں۔ ابرہہ پر سنگ باری کے لیے پرندوں کے جو جھنڈ کے جھنڈ پہنچے تھے وہ خدا کی طرف سے الہام ہی کا تو نتیجہ تھا (دیکھئے سورہ فیل)

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان نے چونٹی کی یہ بات اس علم کے ذریعہ سنی جو انہیں پرندوں کی بولی سمجھنے کے لیے معجزانہ طور پر حاصل تھا۔ چونٹی کی بات سن کر انہیں خوشی ہوئی ہو گی کہ ان کے لاؤ لشکر کی خبر چونٹیوں کو بھی ہو رہی ہے اور ان کا نام چونٹی کی زبان پر بھی ہے۔ بہر کیف ننھی منی چونٹی کی باتیں انہیں اتنی عجیب لگیں کہ وہ ہنس پڑے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کی ہنسی بھی سنجیدگی لیے ہوئے تھی اس لیے مسرت کے ساتھ ان کے دل میں شکر کے جذبات امڈ آئے اور اپنے رب سے دعا کی کہ مجھے شکر گزار اور صالح بننے کی توفیق عطا فرما یعنی تیری طرف سے نعمتوں کی تو مجھ پر بارش ہوئی ہے اور اس فضل میں سے بھی میں نے حصہ پایا ہے جو تو نے میرے والدین پر کیا۔ اب مجھے توفیق عطا فرما کہ میں ان احسانات کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کروں۔

 

۳۱۱۔۔۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام کے درجات بہت بلند ہوتے ہیں لیکن درجات کی بلندی کے لیے عمل صالح بمنزلہ اساس ہوتا ہے اس لیے انبیاء علیہم السلام صالح بننے کی توفیق طلب کرتے ہیں اور چونکہ جنت کے مستحق صالح لوگ ہوں گے اس لیے وہ اس زمرہ میں شامل کئے جانے کی دعا کرتے ہیں۔

 

ایک طرف حضرت سلیمان کی یہ دعا ہے جو ان کے پاکیزہ جذبات کی ترجمان اور ان کی نیک نفسی کی آئینہ دار ہے اور دوسری طرف وہ لغو باتیں اور جھوٹے قصے ہیں جو بائبل میں ان کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان نے جب پرندوں کے لشکر کا جائزہ لیا تو ہدہد کو غائب پایا۔ ہدہد (Hoopoe) کبوتر کی طرح ایک پرندہ ہے جس کے سرپر کلغی (Crest) ہوتی ہے اس لیے اسے شاہی پرندہ (Royal Bird) کہتے ہیں۔ یہ فلسطین اور شام کے علاقہ میں بہ کثرت پایا جاتا ہے اور کبوتر ہی کی طرح نامہ بری کا کام کرتا ہے۔ مگر حضرت سلیمان کے جس ہدہد کا ذکر یہاں ہو رہا ہے وہ ایک خاص اور خداداد صلاحیت رکھنے والا ہدہد تھا اور اس نے جو غیر معمولی خدمت انجام دی اس کے پیش نظر اسے عام ہدہد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگوں نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ ہدہد ایک شخص کا نام تھا جو پرندوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔ مگر قرآن کا سیاق و سباق اس سے انکار کرتا ہے اور گزر چکا کہ سلیمان کے لیے انسانوں اور جنوں کے علاوہ پرندوں کا لشکر بھی جمع کر دیا گیا تھا اور اس آیت میں طیر (پرندوں) کے جائزہ لینے کا ذکر ہوا ہے نیز آگے حضرت سلیمان کا یہ بیان بھی نقل ہوا ہے کہ اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کا معقول عذر پیش نہیں کیا تو میں اسے ذبح کر دوں گا۔

 

یہ سب باتیں ہدہد کے پرندہ ہونے پر واضح سے دلالت کرتی ہیں اس لیے اس سے ہدہد نام کا آدمی مراد لینا ایک ایسی تاول ہے جو سراسر باطل ہے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ سخت سزا سے مراد ممکن ہے پر نوچنے کی سزا ہوتا کہ وہ اڑ نہ سکے۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ واضح حجت سے مراد معقول عذر ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ سبا ایک قوم کا نام ہے جو یمن میں صنعا سے قریب آباد تھی اور جس کا دارالسلطنت مآرب تھا۔ ہدہد نے اس قوم کا حال معلوم کر کے اس کی رپورٹ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دی جس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ وہ سراغ رسانی کے کام میں مشغول رہا۔ اس لیے وقت پر حاضر نہ ہو سکا۔

 

حضرت سلیمان سبا کی حکومت سے بے خبر تو نہیں ہو سکتے تھے لیکن اس قوم کے حالات تفصیلی طور پر معلوم نہیں تھے۔ جیسا کہ ہدہد کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے اس لیے ہدہد نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ عورت کی حکمرانی پر ہدہد کو بھی تعجب ہوا مگر موجودہ دور میں جمہوریت کا راگ الاپنے والی "بلبلیں " اس سے خوش ہوں گی۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی وافر سر و سامان۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے ملکۂ سبا کا تخت سونے اور جواہرات سے مرصع تھا اس لیے ہدہد نے اس کو عظیم الشان تخت کہا۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔ ملکہ سبا اور اس کی قوم آفتاب پرست تھی اور غیر اللہ کی پرستش ہدہد کی نظر میں بھی ایک نامعقول بات تھی۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ جب جانور کو قوت گویائی عطا کرتا ہے تو وہ شرک کی مذمت کے بغیر نہیں رہتا مگر انسان ہے کہ شرک کی باتیں کرتا ہے۔

 

۴۰ ۔۔۔۔۔۔ یہاں ہدہد کا بیان ختم ہوا۔ اس موقع پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہدہد کوئی عام پرندہ نہیں تھا بلکہ حضرت سلیمان کا خاص تربیت یافتہ پرندہ تھا اور اس کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر انسانی شعور بخشا تھا اس لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ سبا کے حالات کو سمجھے اور اس سے حضرت سلیمان کو مطلع کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا جس سے واضح ہوا کہ ایک ہدہد انسانی شعور پا کر ہدایت و گمراہی میں تمیز کرتا ہے اور شرک کو باطل اور شیطان کا فریب قرار دیتا ہے مگرانسان ہے کہ با شعور ہو کر بے شعور بنتا ہے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ ہدہد کے بیان پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہے جیسا کہ اندازِ کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر سجدہ کرنے کا حکم ہے جو اللہ کے اپنے بیان ہی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ مقصود قوم سبا کے نقش قدم پر چلنے والے مشرکوں کو متوجہ کرنا ہے کہ وہ خدائے واحد کو اپنا مسجود کیوں نہیں بناتے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔

 

واضح رہے کہ متن میں لفظ الااستعمال ہوا ہے جس کے معنی کیوں نہیں کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ لسان العرب ج ۰۱۵ ص ۴۳۴ میں بیان ہوئے ہیں اس لیے ہم نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ آسمانوں کی پوشیدہ چیزوں کی واضح مثال تو بارش ہے جو بادلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے اسی طرح بجلی اور دن کی روشنی اوور موجودہ سائنس نے تو آسمان کی کئی پوشیدہ چیزوں کا انکشاف کیا ہے۔ مثلاً پلوٹو جیسے سیارے ، نوری سال Light Years کی دوری پر واقع ستارے ، کائناتی شعاعیں (Cosmic Rays) وغیرہ۔ رہی زمین کی پوشیدہ چیزیں تو ان کی واضح مثال نباتات ہیں۔ نیز ہر قسم کی معدنیات اور موجودہ دور میں تو زمین نے کالا سونا (تیل کی دولت) بھی اگل دیا ہے اور پلیٹنیم اور یورینیم جیسی قیمتی دھاتیں بھی۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جو خدا آسمان اور زمین کی چھپی چیزوں کو جانتا ہے باہر لاتا ہے وہ تم لوگوں کے ظاہر و باطن کو بھی جانتا ہے پھر جو خدا غیب کا علم رکھتا ہے اور غیب کی چیزوں میں تصرف بھی کرتا ہے وہ تمہارے سجدوں اور تمہاری پرستش کا مستحق ہے یا سورج اور پتھر کے بت جو نہ کچھ جانتے ہیں اور نہ کچھ کر سکتے ہیں ؟

 

۴۴۔۔۔۔۔۔ یہ آیت سجدہ ہے تلاوت کرنے والے اور سننے والے کو چاہئے کہ وہ فوراً سجدہ کرے جو درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ وہ عرشِ عظیم کے رب ہی کو اپنا مسجود و معبود بنائے ہوئے ہے۔

 

اس موقع پر سجدہ اس لحاظ سے بھی بر محل ہے کہ حضرت سلیمان کے قصہ میں متعدد واقعات ایسے بیان ہوئے ہیں کہ اگر عقل پر ایمان کی گرفت مضبوط نہ ہو تو وہ کیوں اور کسیے اور ممکن اور ناممکن کی بحث ہی میں الجھ کر رہ جائے گی۔ قرآن نے بعض مقامات پر عقل کا امتحان لینا چاہا ہے جو سچے مومن ہوتے ہیں ان کی عقل ایسے نازک موقع پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے اور یہ صفت اس کو عقل پرستی سے ممتاز کرتی ہے۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان کا ہدہد کو یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ہدہد سچ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمان کے لیے معجزہ کا ظہور تھا۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ یہ ہدہد نامہ بری کی خدمت بھی انجام دیتا تھا۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی خط ڈال کر فوراً واپس نہ آ بلکہ کسی گوشہ سے دیکھتا رہ کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ ملکہ سبا نے اس خط کو قابل احترام سمجھا جس کی ایک وجہ تو یہ رہی ہو گی کہ کسی سفیر کے بغیر پرندہ کی نامہ بری کے ذریعہ مل گیا تا، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ خط شام و فلسطین کی عظیم الشان سلطنت کے مشہور اور جلیل القدر بادشاہ حضرت سلیمان کی طرف سے تھا اور سب سے بڑی وجہ خط کا نفس مضمون اس کے وقیع ہونے کی شہادت دے رہا تھا چنانچہ اس کا آغاز ہی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوا تھا۔ جو ایک ایسابابرکت کلمہ ہے کہ معرفت الٰہی کے دروازے اسی کنجی سے کھلتے ہیں اور یہ اسی کلمہ کی برکت ہے کہ ملکہ سبا پر راہ حق کھل گئی جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔

 

حضرت سلیمان کے قلم سے نکلا ہوا یہ کلمہ درحقیقت وحیِ الٰہی ہے جس کو قرآن نے اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ اس کا آغاز ہی بسم اللہ الرحمن سے ہوتا ہے پھر ہر سورہ کے لیے یہ تاج مکمل ہے بجز سورہ توبہ کے جو ایک بے تاج بادشاہ ہے شمشیر عریاں لیے ہوئے۔

 

حضرت سلیمان کے خط سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ دعوتی اور تبلیغی خطوط کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی جانی چاہئے۔

 

۴۹ ۔۔۔۔۔۔ ایک طرف حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت ہوئی تھی کہ فرعون کے پاس جاؤ تو اس سے نرمی سے بولو اور دوسری طرف حضرت سلیمان کا یہ اسوہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے ملکہ سبا کو دعوتی خط لکھا تو چیلنج کا انداز اختیار کیا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی نہ دکھاؤ اور سیدھے مسلم بن کر میرے پاس آ جاؤ۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان فرمانروا ہونے کی حیثیت سے حکومتی سطح پر دعوت پیش کر رہے تھے جب کہ حضرت موسیٰ کو اقتدار حاصل نہیں تھا۔

 

معلوم ہوا کہ ایک طاقت ور اسلامی حکومت کسی مشرک حکومت کو چیلنج کے انداز میں اسلام کی دعوت پیش کر سکتی ہے۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو ممالک فتح ہوئے ان کو چیلنج کے انداز ہی میں دعوت پیش کی گئی تھی یعنی یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ دیکر اسلامی حکومت کی ماتحتی قبول کرو یا پھر تلوار فیصلہ کر دے گی۔

 

یہ بات کہ "مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ" دو ٹوک الفاظ میں قبول اسلام کی دعوت تھی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت سلیمان کے پیش نظر نہ ملک گیر تھی اور نہ شان و شوکت کی فضول نمائش بلکہ ایک عظیم مقصد تھا اور وہ تھا اسلام کی اشاعت اور اس کا استحکام حکومتی سطح پر۔

 

اس سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو چاہئے کہ اس کو مقصد کی حیثیت سے سامنے رکھے اور اس کے لیے اپنے وسائل استعمال کرے۔ اسلام کا بے لاگ نظریہ یہی ہے کہ کسی بھی ملک میں شرکت کو اقتدار حاصل نہ ہوا کیونکہ جب حکومت کی مشینری شرک کو پھیلانے میں لگ جاتی ہے تو عوام بری طرح گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی بہبود کے لیے ان کو شرک کے تسلط سے آزاد کرنا یا کم از کم اسلامی حکومت کے زیر اثر لانا بہت ضروری ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ توبہ نوٹ ۵۷)

 

۵۰ ۔۔۔۔۔۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ملکہ سبا کی حکومت جمہوری حکومت تھی کیونکہ بادشاہ بھی اپنے وزیروں سے یا اہل دربار سے مشورہ کرتے رہے ہیں۔ فرعون نے بھی اپنے دربار والوں سے مشورہ کیا تھا۔ (سورہ شعراء : ۲۵) اس لیے سبا کی حکومت شخصی حکومت ہی تھی۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ مراد فوجی طاقت ہے۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ سے گھبرانے والے نہیں بلکہ اس کے لیے مستعد رہنے والے لوگ ہیں۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کا اختیار ملکہ ہی کو تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سبا کی حکومت شخصی حکومت تھی۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے اپنا رجحان ظاہر کر دیا اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے لہذا آپ ہی غور فرمائیں کہ کیا کرنا مناسب ہو گا۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ ایک بادشاہ سے جنگ کرنے کی صورت میں اندیشہ ہے کہ ہماری شکست ہوئی تو پھر قوم کو تباہی کا اور ہم کو سخت ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے جنگ کو ٹالنا ہی بہتر ہے۔

 

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملکہ عورت ہونے کے باوجود مردوں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتی تھی۔ عورتیں اقتدار کو سنبھالنے اور عدالتی فیصلے کرنے کی نسبتاً کم صلاحیت رکھتی ہیں کیونکہ ان پر جذبات کا غلبہ ہوتا ہے لیکن یہ کوئی ایسا قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ کوئی عورت بھی اس سے مستثنیٰ نہ ہو بلکہ واقعہ یہ ہے بعض عورتیں مردوں سے بھی زیادہ سوجھ بوجھ والی ہوتی ہیں اور بعض مرد عورتوں سے بھی کم فہم ہوتے ہیں۔ ملکہ سبا کی معاملہ فہمی اور دوربینی یقیناً اس کے دربار والوں سے بڑھ کر تھی اور یہ ایک استثنائی صورت ہے۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔ ملکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت قاصدوں کا ایک وفد ہدیہ لے کر سلیمان کی خدمت میں پہنچ جائے اور دیکھیں کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے دوستانہ تعلقات کی کوئی صورت نکل آئے۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔ ملکہ سبا نے بیش بہا ہدیہ کے ساتھ ایک سفارتی وفد حضرت سلیمان کے پاس بھیجا تھا لیکن حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا کیونکہ یہ ہدیہ اس غرض سے پیش کیا گیا تھا کہ سبا کے اصحابِ اقتدار کو آپ نے قبول اسلام کی جو دعوت دی تھی اس سے آپ دستبردار ہو جائیں اور خیرسگالی کے تعلقات پر اکتفا کریں جب کہ حضرت سلیمان اس پوزیشن میں تھے کہ طاقت کے ذریعہ مشرکانہ اقتدار کو ختم کر کے قوم سباکو شرک کی گرفت سے آزاد کریں۔

 

سبا والوں کو اپنی دولت اور اپنی شان و شوکت پر بڑا ناز تھا اس لیے حضرت سلیمان نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سے کہیں زیادہ اور بہتر نعمتوں سے نوازا ہے اس لیے مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے لالچ میں ایک مشرکانہ ریاست کے وجود کو برداشت کروں۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان ایک مشرکانہ حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ اس زمانہ میں رعایا بالعموم بادشاہ کے مذہب پر ہوا کرتی تھی اس لیے کسی قوم کو گمراہی سے نکالنے کے لیے ضروری تھا کہ فاسد اور باطل اقتدار سے اس کو آزاد کر دیا جائے اور حضرت سلیمان تو زبردست طاقت کے مالک تھے اس لیے انہوں نے اپنے مقام سے بات کی اور اس طرح بات کی کہ ان کا غضب ایک مشرکانہ اور طاغوتی حکومت پر ٹوٹ رہا تھا۔ ان کا یہ غضب طاقت کے گھمنڈ میں نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ شرک کا زور ٹوٹے اور لوگوں کو ہدایت نصیب ہو اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اسلامی حکومت کے پیش نظر ایک اعلیٰ مقصد ہوتا ہے اور وہ اس کی مناسبت سے ضروری اقدام کرتی ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ اس کی جنگیں مدافعت کی حد تک ہی ہوتی ہیں۔ اگر اسلام میں صرف مدافعانہ جنگ کی اجازت ہوتی تو حضرت سلیمان سبا کی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر نہ فرماتے۔

 

۵۹ ۔۔۔۔۔۔ بین السطور سے یہ بات واضح ہے کہ وفد واپس چلا گیا اور اس نے جب ملکہ کو حضرت سلیمان اور ان کی امتیازی شان رکھنے والی حکومت کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ بنفسِ نفیس حضرت سلیمان کی ملاقات کے لیے روانہ ہو گئی اور جب حضرت سلیمان کو اس کی روانگی کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس کا تخت اس کی آمد سے پہلے منگوانا چاہا تاکہ اس کے سامنے ایک معجزہ کا ظہور ہو جو ان کی نبوت کی دلیل بنے۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔ عفریت یعنی ایک زبردست طاقت رکھنے والا ۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔ جن زمین سے آسمان تک پرواز کرتے ہیں اس لیے ان کی رفتار کو ہم انسان کی رفتار پر اور ان کی طاقت کو انسان کی طاقت پر قیاس نہیں کر سکتے۔ عفریت نے دربار برخواست ہونے سے پہلے ملکہ سبا کے تحت کو حاضر کرنے کی پیشکش تو کی اور یہ بھی کہا کہ میں اس امانت میں کوئی خیانت نہیں کروں گا یعنی قیمتی تخت کو جوں کا توں لے آؤں گا۔ لیکن حضرت سلیمان نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ یہ کام ایک جن سے لیا جائے۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔ کتاب سے کتاب الٰہی یعنی تورات مراد ہے کیونکہ کوئی اور معنی لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے اور "جس کے پا س کتاب کا علم تھا" سے مراد حضرت سلیمان کے دربار کا وہ شخص ہے جو تورات کا برا عالم اور اس میں گہری بصیرت رکھنے والا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ حضرت سلیمان معجزہ کے ذریعہ ملکہ کا تخت منگوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ایک انسان کو واسطہ بنانا چاہتے ہیں اس لیے اس نے اس خدمت کے لیے اپنے کو پیش کیا اور چونکہ وہ جانتا تھاک ہ معجزہ اللہ کے اذن سے ظہور میں آتا ہے اور اس کے ظہور کے لیے زماں اور مکاں کے فاصلے کوئی معنی ہیں رکھتے اس لیے اس نے کہا میں اسے آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر سکتا ہوں مطلب یہ تھا کہ جب آپ کے ہاتھوں ایک معجزہ صادر ہونے جا رہا ہے تو وہ ایک لمحہ میں صادر ہو سکتا ہے اور اس خدمت کا انجام دینے کے لیے بالکل مستعد ہوں۔

 

حضرت سلیمان یہ معجزہ کسی آدمی کے ذریعہ بنائے بغیر دکھا سکتے تھے لیکن انہوں نے تورات کے سب سے بڑے عالم کو یہ شرف بخشا کہ اس معجزہ کے ظہور کے لیے وہ واسطہ بن جائیں با الفاظ دیگر یہ درحقیقت حضرت سلیمان ہی کا کارنامہ تھا جو اللہ کے اذن سے اسی طرح ظہور میں آیا جس طرح دوسرے انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں مختلف معجزے صادر ہوئے ، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں ں ے معجزانہ طریقہ پر تخت منگوانے کی خدمت تورات کے ایک جید اور ممتاز عالم سے لی جو ان کے دربار میں موجود تھا۔

 

بعض مفسرین کے نزدیک "جس کے پاس کتاب کا علم تھا " سے مراد اللہ کے اسم اعظم کا علم ہے۔ یعنی وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اسمِ اعظم کو جانتا تھا اس لیے اس نے اس کے ذریعہ تخت کو حاضر کیا اور پھر اس بحث میں پڑ گئے کہ اللہ کا اسمِ اعظم کیا ہے۔ اس طرح اسم اعظم کو ایک معمہ بنا دیا گیا حالانکہ خدا کا اسم اعظم کوئی راز نہیں ہے بلکہ ایک واضح حقیقت ہے اور وہ ہے اسم "اللہ"۔ یہ اسم ذات ہے اور قرآن میں اس کثرت سے اس کا ذکر ہوا ہے کہ اس کو چھوڑ کر کسی اسم اعظم کی تلاش کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ قرآن اسم اعظم سے خالی ہے اور بسم اللہ سورہ فاتحہ، آیت الکرسی اور سورہ اخلاص جن میں ذات واضح کی معرفت بخشی گئی ہے اور اس بنا پر ان کی خاص فضیلت بھی ہے اس اعظم سے خالی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی کس طرح تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اذکار مسنونہ میں رب کی حمد و ثنا کے بہترین کمالات تو موجود ہیں لیکن اسم اعظم غائب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ عملیات کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے ہیں انہوں نے "اسم اعظم" ہی کا سہارا لیا ہے۔ اور علامہ سید سلیمان ندوی نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ "اسم اعظم" کا تخیل ایک جاہلانہ اور غیر شرعی تخیل ہے۔ " (ارض القرآن، ج۔ ۱۔ ص ۲۷۰)۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔ یعنی تخت اسی لمحہ وہاں آ موجود ہوا۔ یمن اور بیت المقدس کے درمیان تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ ہے اس لیے بظاہر یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ اتنے دور کے فاصلے ملکہ کا تخت ایک لمحہ کے اندر سلیمان کے دربار میں پہنچ گیا لیکن جو لوگ اللہ کے قادر مطلق ہونے پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی معجزہ اپنے نبی کے ہاتھ پر دکھانا چاہتا ہے تو عام قوانین طبعی اس میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ حضرت موسیٰ کی لاٹھی زمین پر ڈالتے ہی سانپ بن جایا کرتی تھی۔ حضرت صالح کے لیے غیر معمولی اونٹنی کا ظہور یکایک ہوا تھا ور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ سے بیت المقدس کا طویل سفر ایک رات میں طے کیا تھا۔ پھر اس طبعی دنیا میں بھی بعض چیزیں بہت تیز رتار ہیں مثلاً روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر طے کرتی ہے اور مقناطیس (Magnet) کے بل پر آواز ہزاروں میل کی دوری پر آناً فاناً پہنچ جاتی ہے جو خدا اپنی قدرت کے یہ کرشمے دکھاتا ہو اس کے لیے اپنے بنی کے ہاتھ پر یہ نشان ظاہر کر دینا کیا مشکل ہے کہ ایک تخت ایک لمحہ کے اندر طویل فاصلہ طے کر کے سلیمان کے درمیان میں کھینچ آئے ؟

 

۶۴۔۔۔۔۔۔ تخت کے غیر معمولی طریقہ سے دربار میں پہنچ جانے پر سلیمان نے یہ نہیں کہا کہ یہ میرا کارنامہ ہے بلکہ اس کو اللہ کا فضل قرار دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کی بادشاہت عام بادشاہوں سے کتنی مختلف تھی۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا رب کسی کے شُکریہ کا محتاج نہیں ہے اس کی شان بڑی کریمانہ ہے لہذا جو ناشکری کرتا ہے وہ اپنے ہی حق میں برا کرتا ہے۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔ تخت کی شکل کو بدلنے کا حکم ایک خاص مقصد کے پیش نظر دیا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ملکہ کو دعوتِ فکر دی جائے۔ اگر وہ شناخت کر لیتی ہے کہ ظاہری تبدیلی کے باوجود یہ تخت اسی کا ہے تو ا کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہو جانا چاہئے کہ میرا تخت یہاں آکیسے گیا۔ اس سوال پر جب وہ غور کرے گی تو اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ حضرت سلیمان کا معجزہ ہے جو ان کے نبی ہونے کی دلیل ہے ا طرح وہ ہدایت پا سکتی ہے اور اگر اس نے اپنے تخت کو نہیں پہنچانا تو واضح ہو گا کہ وہ غور و فکر نہیں کرتی اور جو غور و فکر نہیں کرتا وہ ہدایت سے محروم رہتا ہے ۔

 

یہاں یہ فقہی بحث فضول ہے کہ ملکہ کی ملکیت میں تصرف کرنا حضرت سلیمان کے لیے کس طرح جائز ہوا؟ یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ معجزہ اللہ تعالیٰ کے اذن ہی سے ظہور میں آتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ بندوں کی ملکیت میں بھی تصرف فرماتا ہے حضرت صالح کی اونٹنی کے لیے پانی کی باری ایسی مقرر کر دی کہ ایک دن پانی کے تمام کنویں اور چشمے اس کے لیے مخصوص ہوں گے اور قوم کو اپنے کنوؤں اور چشموں سے پانی لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح ملکہ سبا کا تخت اپنے پاس منگوانے اور اس میں تغیر کرنے کا اختیار حضرت سلیمان کو حاصل تھا تاکہ ایک معجزہ ظہور میں آئے اور یہ کام ملکہ کی ہدایت کی غرض سے کیا گیا تھا نہ کہ تخت کے ہیرے جواہرات حاصل کرنے کی غرض سے۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔ ملکہ نے اپنے تخت کو پہچان لیا مگر اس کی شکل قدرے تبدیل کر دی گئی تھی اس لیے کہا گویا وہی ہے اور ساتھ ہی اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت سلیمان کے معجزانہ کارناموں کا ہمیں پہلے ہی سے علم ہو گیا تھا اور ہم دین اسلام کو قبول کر کے مسلم ہو گئے تھے۔

 

ملکہ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی وفد کی رپورٹ سن کر ہی اسلام کے معترف ہو گئے تھے لیکن ابھی قوم کے سامنے کھل کر اپنے مسلم ہونے کا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ابھی ایمان کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔

 

حضرت سلیمان نے جو خط اس کو بھیجا تھا اس میں یہی کہا گیا تھا کہ وہ مسلم ہو کر ان کے پاس حاضر ہو جائے اس لیے ملکہ نے یہ سفر قبول اسلام کا فیصلہ کرنے کے بعد ہی کیا ہو گا۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی ملکہ اسلام کی معترف تو ہو گئی تھی لیکن اس نے کھل کر اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ایک مشرکانہ مذہب سے تعلق رکھتی تھی اور ایک کافر قوم کی سربراہ تھی۔ اس مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہونا اس کے لیے آسان نہ تھا لیکن جب وہ اس ماحول سے نکل آئی اور حضرت سلیمان کے پاس پہنچ گئی تو وہاں اسے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کا موقع مل گیا۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان نے ملکہ کو اس کی فکری غلطی اور اعتقادی گمراہی کا احساس دلانے کے لیے ایک شیش محل تعمیر کرایا تھا جس کا فرش شفاف کانچ کا تھا اور اس کے نیچے پانی بہہ رہا تھا۔ دیکھنے سے دھوکا ہوتا تھا کہ یہ پانی ہی پانی ہے اس لیے ملکہ نے اس میں سے گزرنے کے لیے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑے ہٹا دیئے تاکہ وہ پانی میں بھیگ نہ جائیں۔ حضرت سلیمان نے کہا یہ شیشوں سے جڑا ہوا محل ہے۔ اس پر وہ فوراً چونک پڑی اور اس کا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوا کہ انسان اگر غور نہ کرے تو ظاہری چیز کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ کائنات کے یہ مظاہر سورج چاند وغیرہ بھی خدا نہیں ہیں بلکہ خدا وہ ہے جس کا نور پوری کائنات میں جلوہ گر ہے جب یہ حقیقت اس پر کھل گئی تو ایس اپنی اس گمراہی کا احساس ہوا کہ وہ شرک میں مبتلا رہی ہے اس لیے اس نے اپنے رب کے حضور اس گناہ کا اعتراف کیا۔

 

اب اسلام اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا اس لیے اس نے پورے شعور اور پورے یقین کے ساتھ اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا۔ اس طرح حضرت سلیمان کی حکمت عملی اس کی ہدایت کا سبب بنی۔

 

رہا یہ سوال کہ حضرت سلیمان نبی تھے اور انبیاء علیہم السلام پر تکلف زندگی نہیں گزارتے پھر حضرت سلیمان نے محل کس طرح تعمیر کر دیا؟تو واقعہ یہ ہے کہ اولاً یہ سب کچھ دعوتی اغراض کے لیے اور اسلام کے سیاسی مصالح کے پیش نظر کیا گیا تھا نہ کہ داد عیش دینے کے لیے یا فخر و نمائش کے لیے ثانیاً حضرت سلیمان کو غیر معمولی وسائل حاصل ہو گئے تھے یہاں تکہ کہ جنوں سے خدمت لینا بھی ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے ان وسائل کو بیت المقدس کی شاندار تعمیر اور پر شکوہ سرکاری محل بنوانے کے لیے استعمال کیا جس کا کوئی بار غریبوں پر نہ پڑتا تھا۔ انہوں نے یہ تعمیرات غریبوں کی حق تلفی کر کے نہیں بنائی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دولت کے جو خزانے عطا کئے تھے ان کو انہوں نے دین کے اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ثالثاً ایک نبی کی سیرت کا یہ نمونہ سامنے آیا کہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر رہتے ہوئے ایک شاندار حکومت بھی چلائی جا سکتی ہے اور کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کسی بھی نبی کے لیے وسائل کی فراوانی نہیں ہوئی اور نہ کوئی نبی تختِ سلطنت پر بیٹھ کر صلاح و تقویٰ کا نمونہ پیش کر سکا۔

 

اسلام قبول کرنے کے بعد ملکہ اپنے ملک کو لوٹ گئی یا نہیں اس کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اس کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ شکر کی تردید میں ایک اہم تاریخی واقعہ کو پیش کرنا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تخت و تاج پانے والی ایک خاتون بھی جب کھلے ذہن سے خدا کی نشانیوں پر غور کرتی ہے تو اس پر شرک کا باطل ہونا اور توحید کا حق ہونا واضح ہو جاتا ہے اور وہ پورے یقین کے ساتھ اسلام میں داخل ہو جاتی ہے اور کوئی یہ خیال نہ کر کے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت سے مفلوک الحال لوگ ہی متاثر ہوتے رہے ہیں بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ اصحابِ اقتدار دعوت کو قبول کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں۔ بائبل میں البتہ یہ صراحت ہے کہ ملکہ سبا اپنے ملک کو واپس لوٹ گئی تھی۔

 

"اور وہ لوٹ کر اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لی گئی " (۲ تواریخ ۹: ۱۲)۔

 

بہر حال ملکۂ سبا سے حضرت سلیمان کے نکاح کا ذکر نہ قرآن میں ہوا ہے اور نہ حدیث میں اور نہ ہی بائبل میں اور قرین قیاس یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کو واپس لوٹ گئی ہو گی تاکہ وہ اپنی قوم کو خدا پرستی کی دعوت دے اور حضرت سلیمان نے سبا کے خلاف لشکر کشی کا جو ارادہ کیا تھا اسے اسی صورت میں ترک کیا ہو گا جب کہ سبا کی حکومت ان کے ماتحت آ گئی ہو گی۔

 

بعض لوگ ملکہ سبا کے واقعہ کو عورت کے سبراہی کے جواز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے ملکہ کو قبول اسلام کے بعد اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ اول تو اس بات کی تائید میں کوئی نص قرآنی نہیں ہے کہ ملکہ اپنے ملکہ کو واپس لوٹ گئی اور بدستور ملکہ رہی کہ وہ بنائے استدلال بن سکے۔ دوسرے یہ کہ حضرت سلمان نے اس کو سربراہی کا مقام عطا نہیں کیا تھا بلکہ اس کی قوم نے اس کو سربراہ بنایا تھا۔ تیسرے یہ کہ اس کی قوم کا فر اور مشرک تھی اور ملکہ کے ہدایت پانے کے بعد اس کو اپنی قوم کی ہدایت کا ذریعہ بنایا جا سکتا تھا اس لیے اس عظیم دعوتی و اصلاحی مصلحت کے پیش نظر ایک ایسی خاتون کو جس نے پورے شعور کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اپنے منصب پر برقرار رکھا گیا ہو تو یہ ایک استثنائی صورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کو شریعت کا عام حکم سمجھنا صحیح نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تو تکمیل شریعت ہے جس میں پردے وغیرہ کے احکام بھی دیئے گئے ہیں اس لیے ان کی پابندی کرتے ہوئے عورت کا سربراہِ مملکت بننا کوئی قابل (Feasible) بات نہیں ہے۔

 

۷۰ ۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ اعراف نوٹ ۱۱۵  تا ۱۲۶ اور سورہ فجر نوٹ ۱۲ ، ۱۳۔

 

۷۱ ۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت صالح کی دعوت توحید خالص اور خدائے واحد کی عبادت کی دعوت تھی یہ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایسی تھی کہ نزاع کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا لیکن جب انہوں نے دعوت پیش کی تو قوم دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک نے دعوت کو قبول کیا اور دوسرے نے انکار کیا۔ اس طرح توحید اور شرک اور ایمان اور کفر کے درمیان کشمکش برپا ہو گئی۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر دعوت کو حکیمانہ طریقہ پر پیش کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے مگر جب انہوں نے شرک اور بت پرستی پر ضرب لگائی ہے اور خدائے واحد ہی کو لائق پرستش قرار دیا ہے تو ان کو مخالفت میں ایک طوفان اٹھتا رہا ہے مگر ساتھ ہی ایک گروہ ایسا بھی نکلتا رہا ہے جس نے ان کی دعوت پر لبیک کہا ہے۔ یہ گروہ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے قلیل رہا ہے لیکن اوصاف کے لحاظ سے سوسائٹی کا مکھن ثابت ہوا ہے۔ اور یہی وہ مثبت نتیجہ ہے جو دعوت کا اصل مقصود ہے اور ایسے ہی لوگوں سے جنت کی سوسائٹی تشکیل پانے والی ہے۔

 

موجودہ دور میں دعوتِ اسلامی کو پیش کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو شرک اور بت پرستی پر ضرب کاری لگانے سے کتراتی ہے اور اس کشمکش کو مول لینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی جو توحید کی بے لاگ دعوت کو پیش کرنے کے نتیجہ میں برپا ہوتی ہے اسی لیے ان کی دعوت زیادہ موثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جلد بازی سے کام لے کر تم حق کو جھٹلا رہے ہو اور اپنے برے انجام کو دعوت دے رہے ہو لیکن اگر سنجیدگی سے غور کرو تو تم پر حق واضح ہو سکتا ہے اور تمہیں اپنے گناہ کا احساس ہو سکتا ہے پھر تم اللہ سے معافی کے خواستگار اوراس کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہو۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔ حضرت صالح کی بعثت کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفتیں نازل ہونے لگیں تاکہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگ بیدار ہوں اور رسول کی دعوت پر کان دھریں تو اس آزمائش کی توجیہ انہوں نے یہ کی کہ یہ صالح اور ان کے ساتھیوں کی نحوست ہے۔ حضرت صالح نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہاری قسمت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جو کچھ پیش آ رہا ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور مقصود تمہاری آزمائش ہے۔ اس کو دیوی دیوتا کی ناراضگی کا نتیجہ قرار دینا اور توحید کی دعوت دینے والوں کو نحوست خیال کرنا حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا ہے۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی سوسائٹی میں بگاڑ ہی بگاڑ پیدا کر رہے تھے۔ اصلاح کے کسی کام سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔

 

۷۵۔۔۔۔۔۔ شہر کے ان مفسد عناصر نے مل کر یہ منصوبہ بنایا کہ سب مل کر صالح اور ان کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے اور ان کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے وارث سے کہ دیں گے کہ ہم موقع واردات پر موجود نہ تھے اس طرح ہم سے قصاص نہیں لیا جا سکے گا۔

 

واضح رہے کہ قبائلی نظام میں قصاص کا قاعدہ بڑی اہمیت رکھتا تھا اگر کسی فرد کو قتل کر دیا گیا ہو تو اس کا وارث قاتل سے خون کا مطالبہ کرتا تھا یا تو اسے خون بہا ادا کرنا پڑتا تھا یا پھر اسے قصاص میں قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس قاعدہ کی زد سے بچنے کے لیے ان مفسد عناصر نے یہ ترکیب لڑائی کہ سب مل کر قتل کریں گے اور پھر جھوٹ بولیں گے تاکہ خون کا دعویٰ کسی پر نہ کیا جا سکے۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آگے جا کر ایسے ہی حالات سے سابقہ پیش آیا۔ مکہ کے مختلف قبیلوں نے مل کر یہ سازش کی کہ تمام قبیلوں کے سردار مل کر آپ کو قتل کریں گے تاکہ بنی ہاشم کے لیے خون کا مطالبہ کرنا آسان نہ رہے مگر اللہ تعالیٰ نے عین موقع پر آپ کی رہنمائی اس طرح فرمائی کہ آپ خاموشی کے ساتھ مکہ سے نکل گئے اور دشمنوں کی سازش ناکام رہی۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی سازش کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ناکام بنایا کہ انہوں نے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو وقت مقرر کیا تھا اس سے پہلے ہی ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔ ثمود پر جو عذاب آیا اس کی تشریح سورہ ہود نوٹ ۱۲۳، ۱۲۴ میں گزر چکی ہے۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی حضر کے علاقہ میں ان کے کھنڈر رہ گئے ہیں جو دیکھنے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہیں۔

 

۷۹ ۔۔۔۔۔۔ قوم ثمود کے مشرکانہ عمل اور مفسدانہ رویہ کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم کا لفظ قرآن کن معنی میں استعمال کرتا ہے۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ جاہل بن کر نہیں رہتے بلکہ حالات و واقعات کا مطالعہ کر کے ان کے حقیقی اسباب کا علم حاصل کر لیتے ہیں ان کے لیے ثمود کے اس واقعہ میں عبرت کی بڑی نشانی ہے۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب فیصلہ کن عذاب آیا جو رسول کی صداقت کی دلیل تھا تو اس کی گرفت میں کافر، مشرک اور مفسد لوگ ہی آ گئے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر تقویٰ (خدا خوفی) کی روش اختیار کی تھی وہ اس سے بچا لئے گئے۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔ حضرت لوط کی سرگزشت متعدد سورتوں میں گزر چکی۔ مثلاً سورۂ اعراف ہود وغیرہ۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک ایسا فحش کام جس کو کوئی بھی سوجھ بوجھ (Common sense) رکھنے والا آدمی برائی اور بد اخلاقی قرار دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر تم دیدہ و دانستہ یہ گھناؤنا کام کس طرح کر رہے ہو؟

 

۸۴۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہم جنسی (لواطت) کے مرض میں مبتلا تھے۔ عورتوں کو انہوں نے چھوڑ رکھا تھا اور مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے تھے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود نوٹ ۰۱۲۹

 

۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تم لوگ بڑے بے عقل ہو کہ صریح حماقت کے کام کرتے ہو۔ جہل کا لفظ کبھی علم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی عقل کے مقابلہ میں۔ یہاں اس دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی بستی میں ایک ایسے شخص کو برداشت کرنے کے ہی تیار نہیں ہوئے جو ان کا سچا خیر خواہ تھا اور ان کی اصلاح کے لیے کوشاں تھا۔ اس سے ان کی مفسدانہ ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

۸۷۔۔۔۔۔۔ یہ طنز تھا لوگ اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں پر جو پاکیزگی اختیار کرنے پر زور دے ہے تھے۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ۱۱۷ ۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی پتھروں کی بارش۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۱۱۹۔

 

۹۰۔۔۔۔۔۔ اوپر جو سرگزشتیں بیان ہوئیں ان کا اختتام اللہ کی حمد اور برگزیدہ بندوں کے لیے سلام پر ہوا ہے ، ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کے عدل، حکمت اور رحمت کی صفات کا ظہور ہوا ہے۔ اس لیے وہ اس پر حمد و ستائش کا مستحق ہے اور اس کے منتخب بندوں۔ پیغمبروں۔ نے اپنی ذمہ داریوں کو جس حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیا اس پر وہ اللہ  کے ہاں اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان پر سلامتی ہی سلامتی ہو۔ اہل ایمان کے دل سے ان کے لیے سلامتی ہی کی دعائیں نکلتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نبی کے نام کے ساتھ "علیہ السلام "کہا اور لکھا جاتا ہے۔

 

۹۱۔۔۔۔۔۔ سوال مشرکین سے ہے کہ بتاؤ جو خدا اس حکمت کے ساتھ بندوں پر حکومت کر رہا ہے وہ بہتر ہے یا اینٹ پتھر کے وہ بت جن کو تم نے خدا کا درجہ دے رکھا ہے ؟

 

۹۲۔۔۔۔۔۔ اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر قرآن کا استدلال فطری، عام فہم اور دلوں میں یقین پیدا کرنے والا ہے۔ وہ منطق اور فلسفہ کی زبان میں بات نہیں کرتا اور نہ نظریاتی بحثیں کھڑی کتا ہے کیونکہ اس کا خطاب عام انسانوں سے ہے نہ کہ کسی مخصوص طبقہ سے نیز اس لیے بھی کہ جو باتیں فلسفیانہ انداز اور نظریاتی اسلوبمیں پیش کی جاتی ہیں وہ ذہن کو متاثر کر سکتی ہیں لیکن ان کا دل میں اترنا مشکل ہے۔ مگر قرآن کے دلائل سادہ ہونے کے باوجود اتنے مضبوط اور ایسے مؤثر ہوتے ہیں کہ دل و دماغ میں نفوذ کر جاتے ہیں اور ایمان و یقین کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی قرآن سے اللہ کے الہ واحد ہونے پر اسی طرح استدلال کیا گیا ہے۔

 

انسان اگر صاف ذہن سے آسمان و زمین کے وجود پر اور ان کے ذریعہ حاصل ہونے والے رزق پر غور کرے جس پر انسانی زندگی کا دارو مدار ہے تو اس کا دل پکار اٹھے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ ان سب کا پیدا کرنے والا ہے اور یہ کائنات ایک مکمل نظام ہے جس کے مختلف اجزاء ایک دوسرے سے موافقت کر کے ان مقاصد کو پورا کرتے ہیں جن کے لیے ان کی تخلیق ہوئی ہے چنانچہ آسمان و زمین کی موافقت ہی سے پانی برستا ہے جس کے ذریعہ انسا ن کے رزق کا سامان ہوتا ہے اگر آسمان کی قوتیں مثلاً سورج کی حرارت ، ہوا میں وغیرہ زمین کے ساتھ موافقت نہ کرتیں تو نہ بارش ہو سکتی تھی اور نہ رزق رسانی کا سامان ہو سکتا تھا۔ مشاہدہ میں آنے والی یہ چیزیں اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ایک سے زائد خداؤں کا وجود ہے اگر کائنات بے خدا ہوتی تو نہ اس میں باقاعدگی ہوتی اور نہ مقصدیت اور اگر ایک سے زائد خدا ہوتے تو اس کے مختلف اجزاء میں موافقت نہیں ہو سکتی تھی۔ توحید کے یہ دلائل سادہ ہیں لیکن اتنے گہرے مضبوط اور قطعی ہیں کہ ان سے الحاد اور دہریت کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے اور ایک سے زائد خداؤں کے وجود کی بھی۔ غرضیکہ خدا کا وجود اور اس کی وحدانیت کو ئی قیاسی بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فلسفیانہ تصور ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا علم انسان کو براہ راست ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور پنی فطرت کو مسخ نہ کرے۔

 

نہاں تک آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا تعلق ہے قرآن صاف کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے درمیان  کی تمام چیزوں کو عدم ہے وجود میں لایا ہے اور مشرکین عرب کا بھی یہی عقیدہ تھا لیکن مشرکین ہند کا عقیدہ بڑا الجھا ہوا اور حد درجہ گمراہ کن ہے۔ مثال کے طور پر رگ وید میں ہے کہ آسمان و زمین خدا کی ذات کے اندر سے وجود میں آئے ہیں۔

 

“ Out of himself came the invisible world, out of himself came the Sky and this earth”

 

(The Spiritual Heritage of India by Swami Prabhavanan da P 32 with reference to Rg-Veda X121: 1-2)

 

رگ وید کا انگریزی ترجمہ وید پر تسٹھان نئی دہلی سے شائع ہوا ہے اس کے دیباچہ میں مترجم نے صراحت کی ہے کہ خدا تنہا کائنات کا خالق ضرور ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اس کو عدم سے وجود میں لایا ہے بلکہ ویدک فلسفہ کے مطابق خدا جو خالق ہے اور مادہ یا پر کرتی جو ازلی ہے دونوں کا وجود ہمیشہ سے ہے۔

 

 “The Vedic Philosophy is a concept of co-existence of the two eternals, God the Creator and the Primordial matter or Prakrti”

 

              (Rg-Veda Samhita Vol.1. P.6)

 

کتنا گھٹیا تصور ہے یہ خدا کا کہ اس کو خالق مانا بھی تو مخلوق کی سطح پر رکھ کر۔ گویا خدا کسی چیز کو عدم سے (جو سرے سے موجود ہی  نہ ہو) وجود میں لانے پر قادر نہیں ہے جب کی قرآن اللہ کو حقیقی معنی میں خالق اور قادر مطلق ماننے کی دعوت دیتا ہے۔

 

۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین کو اس طرح بنایا کہ اس پر رہنا اور زندگی بسر کرنا انسان کے لیے ممکن ہوا۔ مثال کے طور پر اگر کرہ ہوا نہ ہوتا تو زمین پر زندگی بسر کرنا اسی طرح نا ممکن ہوتا جس طرح چاند پر ناممکن ہے۔ اسی طرح زمین سورج سے جس فاصلہ پر رکھی گئی ہے۔ اس میں اگر کوئی کمی بیشی ہوتی تو اس پر زندگی کا وجود نہ ہوتا چنانچہ جو سیارے سورج سے بہت قریب یا بہت دور ہیں ان میں زندگی کے آثار کا پتا نہیں چل سکا ہے لیکن زمین اپنے وقوع کے لحاظ سے ایسے نقطہ اعتدال پر ہے کہ زندگی کے لیے پوری طرح ساز گار بن گئی کیا یہ سب کچھ آپ سے آپ ہوا یا ایک قادر مطلق کی تخلیق کا نتیجہ ہے ؟

 

۹۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فرقان نوٹ ۷۱۔

 

۹۵۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ خدا نا شناس ہیں اور نہیں چاہتے کہ خدا کی صحیح پہچان انہیں حاصل ہو جائے۔

 

۹۶۔۔۔۔۔۔ یہ تجربہ تو ہر شخص کو ہوتا ہے کہ جب وہ انتہائی کرب (تکلیف) میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اسے خدا یاد آ جاتا ہے اور اسے فریاد رسی کے لیے پکارتا ہے۔ پھر اس کی تکلیف کو بھی وہی دور فرماتا ہے۔ یہ انسان کے اپنے اندروں کی شہادت ہے کہ اللہ ہی فریاد رس ہے مگر اس اندرونی شہادت کے باوجود کتنے ہی لوگ غیر اللہ کو فریاد رس اور مشکل کشا ٹھہرانے لگتے ہیں۔

 

۹۷۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو زمیں پر با اختیار بنایا ہے کہ اس کی تمام چیزوں میں تصرف کرتا ہے اور سب پر اس کا تسلط قائم ہے۔ اگر کسیکا یہ دعویٰ ہو کہ یہ اختیارات کسی اور نے بخشے ہیں تو وہ اس کی دلیل پیش کرے مگر مشرکین بھی اس کے قائل نہیں کہ انسان کو خدا کے سوا کسی اور نے با اختیار بنایا ہے۔ رہے منکرینِ خدا تو ان کے پاس اس سوال کا سرے سے کوئی جواب  موجود ہی نہیں ہے کہ انسان کو یہ اختیارات کہاں سے حاصل ہو گئے ؟

 

۹۸۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا کی یہ مہربانیاں ایسی ہیں کہ انسانکو بارہا اس کی طرف متوجہ کر رہی ہیں لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو۔

 

۹۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی علامتیں اس نے قائم کر دی ہیں کہ آدمی راہ پا سکے اور سمت سفر معلوم کر سکے مثلاً پہاڑ ، دریا ، جو خشکی کے سفر میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں اسی طرح ستارے جو جہاز رانی میں علامت کا کام دیتے ہیں۔

 

 ۱۰۰۔۔۔۔۔۔ مراد باران رحمت ہے۔

 

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو مانتے تو مشرکین بھی ہیں لیکن ان کا تصور خدا بہت گھٹیا ہوتا ہے۔ مشرکین عرب خدا کی قدرت و عظمت کا صحیح تصور قائم کرنے سے قاصر رہے اور مشرکین ہند نے تو خدا کو انسان سے بھی فرو تر قرار دیا۔

 

 ۱۰۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی ہے جو پہلی مرتبہ بھی پیدا کر سکتی ہے اور رزق بھی پہنچا رہی ہے تو اسے پیش کرو لیکن جو لوگ متعدد خداؤں کے قائل ہیں ان کے پاس نہ پہلے کوئی دلیل تھی اور نہ آج ہے۔ مشرکین عرب کا کہنا تو یہ تھا کہ باپ دادا سے یہی عقیدہ چلا آ رہا ہے اور مشرکین ہند شرک کو فلسفیانہ رنگ میں پیش کرتے ہیں مگر ہوتی ہیں بالکل اٹکل پچو باتیں اور دوسرے سے متضاد (Contradictory) بھی۔ ایک طرف خدا کے واحد ہونے کا دعویٰ بھی:

 (Rg–Veda Samhita – “God alone is one” introduction Vol.10 P. 73)  

 

اور دوسری طرف تین خداؤں (Trinity) کا عقیدہ بھی۔

 

“Ours is a Holy Trinity, the family of three eternals; the infinite Supreme self (the Father) (ii) the eternal Primal matter, the Prakriti (the Mother) and (iii) the numberless infinitesimal self (the sons) ” (Rg-veda Samhita – Introduction Vol.1, P16)

 

اور ساتھ ہی بے شمار خداؤں کا تصور بھی :

 

“There are as many Devas or Spiritual Entities as there are qualities in the World”.

 

(Outlines of Vedanta P.131)

 

نیز یہ دعویٰ بھی کہ خدائے اعلیٰ نے دوسرے خداؤں کو جنم دیا ہے۔  

 

“From a Part of him was born the body of Universe and out of his body were born the gods, the earth and men”

 

(Spiritual Heritage of India P. 32 )

 

ان تمام الجھی ہوئی اور متضاد باتوں کے برخلاف قرآن اللہ کی توحید کو اتنے معقول انداز میں پیش کرتا ہے اور بات دل و دماغ میں اتر جاتی ہے۔

 

 ۱۰۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کے سوا کسی کو غیب کا علم ہی نہیں ہے تو کسی کے بارے میں یہ اعتقاد کہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی فریاد رسی اور حاجت روائی کرتا ہے سراسر غلط اور بے بنیاد ہے خواہ یہ اعتقاد فرشتوں کے بارے میں رکھا جائے یا جنوں کے بارے میں یا پیغمبروں بزرگوں اور اولیاء کے بارے میں۔

 

افسوس ہے کہ قرآن کی اس صراحت کے باوجود مسلمانوں کا ایک طبقہ اس گمراہی میں مبتلا ہے کہ فریاد رسی اور مشکل کشائی کے لیے بزرگوں کو جو قبر میں مدفون ہیں پکارنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ قبر میں رہتے ہوئے ہر ایک کے حالات کو جانتے ہیں ، اس کی پکار کو سنتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق ان میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ نہ ان کو غیب کا علم ہے کہ قبر میں رہتے ہوئے دنیا کے ایک ایک شخص کے حالات کو جانیں نہ وہ خدا ہیں کہ کوئی کہیں سے پکارے اور وہ اس کی پکار کو سن لیں اور نہ وہ علام برزخ میں رہتے ہوئے کسی کی مدد ہی کو پہنچ سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی علم غیب کے تعلق سے بڑا غلو آمیز تصور قائم کر لیا گیا ہے اور پھر اس پر  بحثیں اور مناظرے ہوتے ہیں۔ اگر صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو تمام گمراہیوں سے نجات مل جاتی ہے۔ علم غیب کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۸ ۱ اور سورہ اعراف نوٹ ۲۹ ۱۔

 

 ۱۰۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جو قبر میں مدفون ہیں انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کب قیامت قائم ہو گی اور انہیں اٹھا کھٹا کیا جائے گا اسی طرح فرشتوں اور جنوں کو بھی قیامت کی تاریخ معلوم نہیں ہے پھر وہ عالم الغیب کس طرح ہوئے کہ کسی کی بھی پکار کو سنیں ؟

 

 ۱۰۵۔۔۔۔۔۔ مشرکین عرب آخرت کے بارے میں جیسا کہ اوپر گزرا بالکل نابلد ہیں تھے۔ انبیائی ہدایت کے جو آثار ان کے پاس رہ گئے تھے ان میں آخرت کا اجمالی علم بھی شامل تھا لیکن اس کے ساتھ جب جاہلانہ اور مشرکانہ تصورات مل گئے تو ان کا یہ علم بھی الجھ کر رہ گیا مثلاً ان کا یہ تصور کہ انسان جب مر کر مٹی ہو گیا تو اسے جسم سمیت دوبارہ کس طرح پیدا کیا جائے گا اسی طرح ان کا یہ عقیدہ کہ ہمارے یہ معبود خدا کے حضور ہمارے سفارشی ہیں اور جب ہم ان کی پرستش کرتے ہیں تو آخرت کے حساب کتاب کا معاملہ اگر پیش آ ہی گیا تو وہ ہمیں عذاب سے کیسے نہیں بچائیں گے۔ اسی طرح جب ان کا علم گڈ مڈ ہو گیا تو آخرت کا انہیں یقین نہیں رہا بلکہ شک میں پڑ گئے کہ آخرت ہو گی یا نہیں۔ پھر یہ شک ان کی خواہش پرستی کے نتیجہ میں انکار آخرت ہو گی یا نہیں۔ پھر یہ شک ان کی خواہش پرسی کے نتیجہ میں انکار آخرت میں تبدیل ہو گیا اور ایسے اندھے ہو گئے کہ وہ آخرت کی رہنمائی کرنے والی کسی بھی نشانی کو دیکھ نہ سکے۔

 

اور جہاں تک مشرکین ہند کا تعلق ہے ان  کے ہاں بھی جزا سزا کا تصور ایک حد تک پایا جاتا ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے فطرت کی رہنمائی اور انبیائی ہدایت ہی کا نتیجہ ہے لین متعدد خداؤں کے تصور اور آواگون (تناسخ) کے نظریہ نے ان کو ایسا الجھا دیا ہے کہ آخرت کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ جزائے عمل کا تصور ان کے نزدیک یہ ہے کہ جو شخص برا (کرم) عمل کرتا ہے اس کی روح مرنے کے بعد مختلف روپ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کا روپ اختیار کر کے بھی دوبارہ جنم لے سکتی ہے اور ایک کیڑے کے روپ میں بھی۔

 

“Souls enter various forms of existence from man to worm”.

 

(Outlines of Hinduism by T.M. Mahadevan P. 63)

 

پھر یہ جنم در جنم کا چکر چلتا رہتا ہے جب تک کہ روح برہما(خدا) کی معرفت حاصل نہیں کر لیتی۔ اور جو کا کرم (عمل) اچھا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی خواہشات مر چکی ہوتی ہیں وہ دوبارہ جنم نہیں لیتا بلکہ برہما(خدا) کا جزء بن جاتا ہے۔

 

“But he in whom desire is Stilled suffers no rebirth after death, having attained to the highest desiring only the self, he goes to no other world. Realising Brahman, he becomes Brahman”.

 

(Spiritual Heritage of India P.(68 .

 

نعوذ باللہ کن ذالک۔ جزائے عمل کا یہ تصور کتنا مشرکانہ ہے کہ نیک عمل انسان خدا کا جزء بن جاتا ہے گویا خدا بھی کوئی سمندر ہے جس میں دریا جا کر گرتے ہیں۔ اسی طرح بد عمل آدمی کا دنیا میں بار بار اور مختلف روپ میں جنم لینا محض اٹکل پچو بات ہے جس کو فلسفہ کے سانچہ میں ڈھالا  گیا ہے۔ یہ نظریہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے خلاف ہونے کے علاوہ خلاف عقل بھی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔ انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم یہ ہے کہ جزائے عمل کے لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن مقرر کیا ہے جب وہ تمام انسانوں کو جسم سمیت دوبارہ زندہ کرے گا اور فرداً  فرداً ہر شخص کو اللہ کے حضور اپنے عقیدہ و عمل کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جن لوگوں  نے ایمان لا کر نیک علم کیا تھا وہ دائمی انعام کے مستحق ہوں گے اور ان کو ہمیشگی کی جنت ملے گی اور جن لوگوں نے شرک اور کفر کیا تھا وہ اپنے باطل عقیدہ اور باغیانہ طرز عمل کی بنا پر دائمی سزا کے مستحق ہوں گے اور ابدی جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ مگر آواگون کا نظریہ اس انبیائی تعلیم کے خلاف ہے اور کسی بھی آسمانی کتاب سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔

 

آواگون کو تصور خلاف عقل بھی ہے اور یہ ایک چکر ہے جس کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہا پہلے انسان وجود میں آیا یا حیوان۔ اگر حیوان وجود میں آیا ہو گا تو وہ پہلے جنم میں انسان رہا ہو گا اور انسان وجود میں آیا تو وہ پہلے جنم میں کیا رہا ہو گا پھر کسی کو بھی یہ نہیں  معلوم کی وہ اس سے پہلے کتنی مرتبہ جنم لیتا رہا ہے اور کس جرم کی پاداش میں اس نے موجودہ جنم لیا ہے۔

 

آواگون کا نظریہ خلاف واقعہ بھی ہے کیونکہ نوع انسانی کا آغاز تو ایک مرد و عورت سے ہوا تھا۔ اگر یہ نظریہ صحیح ہوتا تو یہ دو افراد ہی بار بار جنم لیتے رہتے مگر انسانی آبادی میں اس قدر اضافہ کہ وہ اربوں تک پہنچ ہے اس نظریہ کی تردید کرتا ہے۔

 

غرض یہ کہ آواگون کا عقیدہ ایک نا معقول اور باطل عقیدہ ہے اس کے بر خلاف آخرت کا عقیدہ معقول بھی ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت بھی۔

 

 ۱۰۶ ۔۔۔۔۔۔ اس انکار میں یہ اعتراف موجود ہے کہ قیامت کے دن اٹھائے جانے کی بات ایسی نہیں ہے جس کو پہلی مرتبہ انہوں نے پیغمبر کی زبان سے سنا ہو بلکہ یہ ایک جانی بوجھی بات ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے عقیدہ آخرت کی جو تعلیم دی تھی اس کے اثرات بنی اسمٰعیل میں موجود تھے۔

 

 ۱۰۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جن قوموں نے آخرت کا انکار کیا تھا ان کی زندگیاں مجرمانہ بن کر رہ گئیں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے میں ان کا کوئی باک نہیں رہا۔ اور اخلاقی بندشوں کو توڑ کر وہ بالکل آزاد ہو گئے ایسی قوموں کا جو حشر (انجام) دنیا میں ہوا اس کے کچھ آثار زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔ قرآن ان آثار کو دیکھنے اور ان سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس غرض سے سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

 

 ۱۰۸۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی ہے کہ اگر وہ تمہاری تمام کوششوں کے باوجود اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ان کے حال پر تم افسوس اور غم نہ کرو اور نہ ان کی ان چالوں سے جو وہ تمہارے خلاف چل رہے ہیں پریشان ہو جاؤ۔ وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

 

 ۱۰۹ ۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے ہو کب آئے گی۔

 

۱۱۰ ۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ قیامت اگر قائم ہونے ولی ہے تو ابھی کیوں نہیں قائم ہو جاتی تمہاری جلد بازی کو ظاہر کرتا ہے حالانکہ قیامت کا دن مجرموں کے لیے عذاب کا دن ہو گا اور اگر قیامت آنے میں ابھی کچھ دیر ہے تو وہ دن تو بالکل قریب آ لگا ہے جب کہ یہ دنیا میں ہی برے انجام سے دوچار ہوں گے۔ مراد وہ عذاب ہے جو رسول کو جھٹلانے والی قوم پر دنیا ہی میں آتا ہے چنانچہ ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ بدر و حنین کے معرکے پیش آئے اور پیغمبر کی زندگی ہی میں وہ لوگ ہلاک ہو کر رہے جن کا کفر کبھی ان سے جدا ہونے والا نہ تھا۔ اور وہ ہلاک ہوئے تو عالم برزخ میں ان کی روحوں پر عذاب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح جس عذاب کے لیے وہ جلدی مچا رہے تھے وہ بالآخر  اس کی گرفت میں آ گئے۔

 

 ۱ ۱ ۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر یہ بڑا فضل ہے کہ وہ ان کی سرکشی کے باوجود انہیں سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس پر لوگوں کو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے لیکن وہ اس کے اس فضل کی قدر نہیں کرتے اور اپنا رویہ درست نہیں کرتے۔

 

۱۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے بارے میں جو غیر ضروری بحثیں انہوں نے چھیڑ رکھی ہیں ان کو بھی اللہ جانتا ہے اور اس تعصب اور بغض و عناد کو بھی جو اس کا اصل محرک ہے اور جس کو یہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔

 

۱۱۳۔۔۔۔۔۔کتاب سے مراد وہ عالمی ریکارڈ ہے جس میں کائنات میں واقع ہونے والی ہر بات خواہ وہ کتنی ہی پوشیدہ کیوں نہ ہو صاف صاف درج ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تو ہر بات ہے ساتھ ہی اس نے کائناتی ریکارڈ رکھنے کا بھی انتظام کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کائنات منصوبہ بند طریقے پر چل رہی ہے۔

 

۱۱۴ ۔۔۔۔۔۔ مکہ کے ابتدائی دور میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بنی اسرائیل سے واسطہ نہیں پڑا تھا لیکن حضرت موسیٰ ، حضرت سلیمان اور دیگر انبیاء کے جو قصے قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان میں اور تورات وغیرہ کے  بیان کردہ قصّوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح کچھ دوسری باتوں میں بھی اختلاف نمایاں ہے۔ اسی اشکال کا یہاں جواب دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل نے تورات کو محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس میں آمیزش کی اور انبیاء علیہم السلام کی سیرت کو داغدار بنایا ، پھر عقائد وغیرہ کے بارے میں بھی وہ تاویلات کے چکر میں پڑ کر باہمی اختلافات کا شکار ہو گئے یہاں تک کہ وہ فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کے خلاف ضد پیدا ہو گئی اور زیادتی پر اتر آئے مگر قرآن نے انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور عقائد و احکام کو اس خوبی کے ساتھ بیان کیا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہ گیا۔ یہ عصائے موسیٰ تھا جو ان کی جھوٹی روایتوں کو نگل گیا۔

 

 ۱۱۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۳۰۸ اور سورہ یونس ۸۹, ۹۰۔

 

۱۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسا فیصلہ جو عدالتی ہو گا اور جس کے بعد کسی کے لیے کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی بلکہ فوراً اس کا نفاذ عمل میں آئے گا۔

 

۱۱۷۔۔۔۔۔۔ وہ غالب ہے اس لیے اس کا فیصلہ قطعی اور آخری ہو گا جس کو نافذ ہونے سے کوئی روک نہ سکے گا۔ اور وہ علم والا ہے اس لیے اس کے فیصلہ میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہے۔

 

 ۱۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں ان پر تمہاری نصیحت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات اگر چہ استعارہ کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے لیکن آیت کے الفاظ : اِنَّکَ لَا تْسْمِعُ الْمَوْتٰی  (تم مردوں کو نہیں سنا سکتے) سے ایک اہم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مردے سنتے ہیں اور اگر مردے سنتے ہوتے تو یہاں یہ تشبیہ موزوں نہیں ہو سکتی تھی۔ ہاں اللہ کسی شخص کو جو مر گیا ہو کچھ سنوانا چاہے تو اور بات ہے ایسی استثنائی صورتیں تو ممکن ہیں لیکن اصولی حقیقت یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں۔ رہا زیارت قبر کے موقع پر اہل قبور کو خطاب کر کے سلام و دعا کرنا تو یہ ایک مؤثر اسلوب ہے جس میں غائب کو حاضر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ زیارت کرنے والا یہ محسوس کرے کہ وہ مردوں کی دنیا میں پہنچ کر ان سے ملاقات کر رہا ہے اور یہ بات موت کو یاد دلانے والی اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی ہے چنانچہ زیارت قبر کی مسنون دعا کا آخری فقرہ : وَاِنَّا اِنْشَاءَاللہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ (اور ہم انشاء اللہ تم سے ملیں گے۔ ) یہی تاثر دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچہ ابراہیم کے انتقال پر فرمایا تھا : وَاِنَّا بِفِرَا قَکَ یَا ابراھیمُ لَمَحْزُنُون (اے ابراہیم  ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں) (بخاری کتاب الجنائز)۔ اس میں خطاب ایک مرنے والے بچہ سے ہے لیکن در حقیقت یہ اظہار غم کا ایک اسلوب ہے اور لوگوں پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اظہار غم کا جائز طریقہ کیا ہے تاکہ وہ نوحہ اور ماتم کے طریقے اختیار نہ کریں۔

 

۱۱۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارے آیات سنانے کا فائدہ ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جو قبول حق کے لیے آمادہ رہتے ہیں اور اللہ کی آیتوں کو سن کر ایمان لاتے اور اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ ایمان کا تعلق دل کی کیفیت اور زبان کے اقرار کرتے اور اس کے مطابق عملی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

 

 ۱۲۰۔۔۔۔۔۔ "دابۃُ الارض"(زمین سے نکلنے والا جانور جو لوگوں سے باتیں کرے گا) اللہ کی بہت بڑی نشانی ہو گی جس کا ظہور اس وقت ہو گا جب کہ قیامت کا وقت بہت ہی قریب آ لگا ہو گا " جب ان پر ہمارا فرمان لاگو ہو گا" کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کافروں کو عذاب کی نشانی دکھانا چاہے گا۔ اور کاروں سے مراد مطلق کافر ہیں نہ کہ نزول قرآن کے زمانہ کے کافر۔

 

یہ ایک بہت بڑی پیشین گوئی ہے جو قرآن میں کی گئی ہے اور حدیث میں  بھی اس کا ذکر قیامت کی نشانیوں میں ہوا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن)۔

 

یہ ایک نیا جانور ہو گا جو زمین سے نکلے گا اور اس کی خصوصیت یہ ہو گی کہ لوگوں سے باتیں کرے گا۔ ایسی باتیں جس سے واضح ہو گا کہ لوگوں کا اللہ کی نشانیوں پر یقین نہ کرنا بالکل غلط تھا۔ گویا یہ جانور اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کا ایسا نشان بن کر ظاہر ہو گا کہ آخرت کے وقوع پر حجت اور قرآن اور پیغمبر کی صداقت کا کھلا ثبوت ہو گا۔ اسی سورۃ میں اللہ کے اس معجزہ کا ذکر گزر چکا کہ ہُدہُد نے حضرت سلیمان سے کلام کیا مگر جو اللہ کے معجزوں کو نہیں مانتے یا سرے سے خدا ہی کے منکر ہیں وہ تو قرآن کے اس بیان پر یقین نہیں کرتے مگر جب قرب قیامت میں ایک ایسا جانور ان کے سامنے لا کھڑا کیا جائے گا جو ان سے ہم کلام ہو گا تو اس وقت وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے ؟۔

 

واضح رہے کہ دابۃ الارض کے بارے میں قرآن نے بہت مختصر بات کہی ہے اور حدیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے اس لیے یہ بات کہ یہ جانور کس ملک میں ظاہر ہو گا اور اس کی شکل و صورت کیا ہو گی اور اس قسم کے دیگر سوالات کا جواب مستقبل کے پردہ میں چھپا ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں قیاسی باتیں کرنا صحیح نہیں اور جن روایتوں میں دابۃ الارض کے بارے میں تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں اور ان میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں اس لیے ان کو قرآن کی اس آیت کی تفسیر قرار دینا صحیح نہیں۔ ترمذی کی بھی ایک حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ دابۃالارض کے ساتھ حضرت سلیمان کی انگوٹھی اور حضرت موسیٰ کا عصیٰ ہو گا۔ عصا سے وہ مومن کے چہرہ کو روشن کرے گا اور انگوٹھی سے کافر کے ناک پر مہر لگا دے گا  (ترمذی ابواب التفسیر سورۃ النمل) اس حدیث کو اگرچہ ترمذی نے حسن کہا ہے لیکن اس کا ایک راسی اوس بن خالد ہے جس کو متعدد محدثین نے ضعیف کہا ہے چنانچہ اسماء الرجال کی کتاب (راویوں کے حالات بتانے والی کتاب) تہذیب التہذیب میں ہے۔

 

قَالَ ازدی مُنکَر الحدیث و قالَ ابنُ القَطّا نِ اوس مجھول الحال لَہٗ ثلاثۃُ اَحادیث عَنْ اَبی حریرۃ مُنکَر وَذَکَرَہٗ ابنُ حبان فِی الثِقَاتِ۔ (تہذیب التہذیب۔ ابن حجر ج۔ ۱ ، ص۔ ۳۸۲)

 

"ازدی کہتے ہیں وہ منکر الحدیث (ضعیف) ہے اور ابن قطان کہتے ہیں اوس کا حال مجہول ہے۔ اس نے ابوہریرہ سے تین حدیثیں روایت کی ہیں جو منکر (ضعیف) ہیں اور ابن جان نے اس کا ذکر ثقہ راویوں میں کیا ہے۔ "

 

اور دوسرا راوی علی بن زید ہے اور وہ بھی ضعیف ہے چنانچہ امام احمد کہتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہے ، جو زجانی کہتے ہیں وہ ضعیف ہے۔ نسائی نے بھی اسے ضعیف کہا ہے اور ابن خُزَ یمہ کہتے ہیں اس کے سوئے حفظ کی وجہ سے میں اس کی حدیث سے استدلال نہیں کرتا (دیکھیے تہذیب التہذیب  ج۔ ۷ ، ص۔ ۳۲۲) اس لیے یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔

 

۱۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ہر اس گروہ میں سے جس کو رسول کی دعوت پہنچ گئی تھی ان لوگوں کو اکٹھا کریں گے جنہوں نے اللہ کی نشانیوں اور اس کی نازل کی ہوئی آیتوں کو جھٹلایا تھا یہ لوگ فوج در فوج جمع کیے جائیں گے اور پھر ان کے کرتوتوں کے لحاظ سے ان کو مختلف ٹکڑیوں (Divisions) میں بانٹ دیا جائے گا۔

 

 ۱۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نے میری آیتوں کو کس بنیاد پر جھٹلایا تھا۔ کیا تمہیں تحقیقی طور پر معلوم ہو گیا تھا کہ اس کائنات میں اور خود تمہارے اپنے وجود میں کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو اللہ کے وجود ، اس کی وحدت، اس کی قدرت و عظمت جزائے عمل اور آخرت کا یقین پیدا کرتی ہو۔ اور یہ کہ اللہ  کی جو آیتیں جس رسول نے بھی پیش کیں وہ واقعی اللہ کی آیتیں نہیں تھیں اگر تحقیق سے تمہیں یہ معلوم نہیں  ہو گیا تھا اور واقعہ یہی ہے کہ تمہارا یہ جھٹلانا کسی تحقیق کا نتیجہ نہیں تھا تو پھر کیا تم نے بلا تحقیق اور بلا علم ان کو جھٹلا دیا تھا ؟

 

آج بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ڈارون کے نظریہ ارتقا اور مارکس کی جدلی مادیت اور اس قسم کے دیگر  نظریات سے متاثر ہو کر خدا اور آخرت کے منکر ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ علم کے نام پر جہالت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اگر وہ کھلے ذہن سے آثار کائنات کا مشاہدہ کرتے اور اللہ کی ان آیتوں  پر جو قرآن کی شکل میں ان کے سامنے موجود ہیں غور  کرتے تو ان کو علم حق حاصل ہو سکتا تھا مگر تعصب اور تکبر نے ان کو اس سے دور رکھا۔

 

 ۱۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب کا فیصلہ ان پر لاگو ہو جائے گا۔

 

 ۱۲۴۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن مجرموں کو مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ایک مرحلہ وہ ہو گا جب کہ اللہ ان پر ان کے اس ظلم کو جو انہوں نے اپنے ہی اوپر کیا تھا اس طرح واضح فرمائے گا کہ وہ کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔

 

 ۱۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اگر اس بات پر ہی غور کرتے کہ رات ان کے لیے جو ذریعہ سکون اور دن ان کے لیے سرگرم عمل ہونے کا باعث ہے تو کیا یہ اللہ کی ربوبیت کی دلیل نہیں ہے اور کیا اس سے انسان کی زندگی کا با مقصد ہونا ظاہر نہیں ہوتا اور کیا یہ مشاہدہ اس بات کی یاد دہانی نہیں کرتا کہ مرنے کے بعد قیامت کی صبح نمودار ہونے والی ہے۔

 

 ۱۲۶۔۔۔۔۔۔ جب قیامت کا پہلا صور پھونکا جائے گا تو پوری کائنات میں ایسی ہولناک صورت پیدا ہو گی کہ زمین تو زمین آسمان کے رہنے والے بھی گھبرا اٹھیں گے۔ اس گھبراہٹ سے صرف وہی محفوظ رہیں گے جن کو اللہ محفوظ رکھنا چاہے گا۔

 

 ۱۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اللہ کے حضور اس طور سے پیش ہوں کہ عجز و نیاز میں جھکے ہوئے۔ کوئی اکڑ اور گھمنڈ نہ دکھا سکے گا۔ بڑے بڑے گھمنڈ کرنے والوں کا گھمنڈ خال میں مل چکا ہو گا۔

 

 ۱۲۸۔۔۔۔۔۔ یعنی پہاڑ آج اپنی جگہ جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن قیامت کے دن وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔

 

 ۱۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو ایسے مضبوط قوانین میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ یا اپنے دائرہ ہی میں رہتی ہے۔ مثال کے طور پر زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مقناطیسی قوت )  (Magnetic Force رکھی ہے کہ ہر چیز اس کی طرف کھنچ آتی ہے اور زمین کے حدود سے کوئی چیز بھی باہ نہیں جاتی الا یہ کہ کسی دوسرے قانون طبعی کے تحت کوئی چیز اس کے دائرہ کشش سے نکل جائے لیکن اگر زمین اپنی اس قوت کشش(Gravity Force) کو کھو دے تو پہاڑ بھی اسی طرح بے وزن ہو کر ہوا میں اڑ سکتے ہیں جس طرح خلاء میں چیزیں بے وزن ہو کر منتشر ہو جاتی ہیں .

 

 ۱۳۰۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے اس لیے جب قیامت قائم ہو گی تو وہ تمہارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ تمہیں دے گا۔

 

۱۳۱۔۔۔۔۔۔ مراد عقیدہ و عمل کی نیکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو نیکی کا وصف لے کر حاضر ہو گا۔

 

 ۱۳۲۔۔۔۔۔۔ جب قیامت کا دوسرا صور پھونکا جائے گا اور سب لوگ زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوں گے تو نیک لوگوں پر اس روز کی ہولناکی کے باوجود کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہو گی کیونکہ انہیں سچھے انجام کی امید ہو گی۔

 

 ۱۳۳۔۔۔۔۔۔ مراد عقیدہ و عمل کی برائی ہے۔

 

 ۱۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا جنس عمل سے ہو گی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ وہ اللہ کی آیتوں سے منہ پھیرتے تھے اس طرح جب انہوں نے عذاب ہی کی طرف اپنا رخ کر لیا تھا تو وہ بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیے جائیں۔

 

 ۱۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی شہر مکہ جس کو ابراہیم(علیہ السلام) کے وقت سے حرم قرار دیا ہے اور اس لحاظ سے یہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی تاریخی اہمیت اس کے مرکز توحید ہونے کی بنا پر ہے لہٰذا یہ بات کہ اللہ ہی اس شہر کا رب ہے ایک جانی بوجھی حقیقت ہے اور اس نے حکم یہی دیا ہے کہ میں اس کی عبادت کروں۔

 

 ۱۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے کو اللہ ہی کے حوالہ کروں اور اسی کا فرمانبردار  بن کر رہوں۔

 

 ۱۳۷۔۔۔۔۔۔ قرآن پڑھ کر سنانے کا حکم دعوتی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تذکیر و دعوت ہی کا حکم نہیں دیا گیا تھا بلکہ ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ لوگوں کو قرآن بڑھ کر سنائیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ کے کلام سے بڑھ کر انسان کو متاثر کرنے والی کوئی چیز نہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ کے کلام کے ذریعہ اس کی حجت اس کے بندوں پر بہ درجہ اتم (مکمل طور پر) قائم ہو جاتی ہے۔ یہ بات کہ قرآن عربی میں ہے اور اس کے مخاطب اول عرب تھے غیر عربوں کے سامنے قرآن پیش کرنے میں مانع (رکاوٹ) نہیں ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی جو دعوتی خط لکھا تھا اس میں قرآن کی آیات نقل کی تھیں اور قیصر نے ترجمان کے ذریعہ اس کا مطلب معلوم کر لیا تھا۔

 

موجودہ دور میں ہر زبان میں ترجمہ اور طباعت کی سہولتیں فراہم ہو گئی ہیں لہٰذا اس کو دعوت و تبلیغ کا ذریعہ کیوں نہ بنایا جائے؟ اور اس کے تراجم کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کیوں نہ عمل میں لائی جائے ؟

 

۱۳۸۔۔۔۔۔۔ سورہ کا خاتمہ اللہ کی تعریف پر ہو رہا ہے کہ وہ ذات یقیناً لائق ستائش ہے جس نے اس شان کا قرآن نازل کیا کہ علم کے دریا بہا دیے۔

 

واضح رہے کہ اس سورہ میں علم کا ذکر بار بار ہوا ہے جس سے اس کے مختلف گوشے روشن ہو گئے ہیں۔ یہ گویا اس سورہ کا امتیازی پہلو ہے۔

 

 ۱۳۹۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے قیامت کی نشانیوں کی طرف جو قیامت کے قریبی زمانہ میں ظاہر ہوں گی اور ان کو دیکھ کر اس زمانہ کے منکرین جان لیں گے کہ قیامت ایک حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہے۔ اور طرح دنیا ہی میں قرآن اور پیغمبر کی صداقت دنیا والوں پر واضح ہو کر رہے گی۔ مثال کے طور پر دابۃ الارض کا خروج جس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ یاجوج ماجوج کی یلغار (سورہ انبیاء : ۹۶) اسی طرح حدیث میں قیامت کی کچھ نشانیاں  بیان ہوئی ہیں مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور سورج کا مغرب سے نکلنا (بخاری کتاب الرقاق) وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے  ملاحظہ ہو سورہ انعام نوٹ ۲۹۳۔

 

قیصر روم کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ گرامی :

 

"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ محمد کی طرف سے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے یہ خط ہرقل سربراہ روم کے  نام ہے ، سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی رکے۔ میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، اسلام قبول کر لو گے سلامت رہو گے اور اللہ تم کو دگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تم نے انکار کیا تو ارسیوں (اہل ملک) کا گناہ تمہارے سر ہو گا۔ اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ  کے سوا رب بنائے۔ اگر یہ لوگ بات کو نہ مانیں تو صاف کہہ دو گواہ رہنا ہم مسلم ہیں "

 

****