تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ النَّمل

(سورۃ النمل ۔ سورہ نمبر ۲۷ ۔ تعداد آیات ۹۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔      طس، یہ آیتیں ہیں اس عظیم الشان قرآن کی یعنی کھول کر بیان کر دینے والی

۲۔۔۔     ایک ایسی کتاب کی جو سراسر ہدایت اور عظیم الشان خوشخبری ہے ان ایمان والوں کے لیے

۳۔۔۔     جو نماز قائم کرتے زکوٰۃ دیتے اور آخرت پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں ۔

۴۔۔۔     اس کے برعکس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بلاشبہ ان کے لیے ہم نے ان کے اعمال کو ایسا خوشنما بنا دیا ہے کہ وہ بھٹکتے ہی چلے جا رہے ہیں ،

۵۔۔۔     یہی ہیں وہ لوگ جن کے لیے قیامت سے پہلے بھی برا عذاب ہے اور آخرت میں بھی یہی لوگ سب سے زیادہ خسارے والے ہوں گے

۶۔۔۔     اور گو یہ منکر لوگ نہ مانیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو یہ قرآن ایک ایسی ذات کی طرف سے دیا جا رہا ہے جو بڑی ہی حکمت والی سب کچھ جانتی ہے

۷۔۔۔     اور وہ عبرتوں بھرا قصہ بھی یاد کرو کہ جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے ایک آگ سی نظر آ رہی ہے میں ابھی وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تاکہ تم گرمی حاصل کر سکو،

۸۔۔۔     پھر جب موسیٰ وہاں پہنچے تو انہیں ایک آواز آئی کہ برکت ہو ان پر بھی جو اس آگ کے اندر ہیں اور اس پر بھی جو اس کے آس پاس ہے اور یہ نور ذات خداوندی نہیں کہ اﷲ  جو پروردگار ہے سب جہانوں کا پاک ہے ہر حد بندی سے

۹۔۔۔     اے موسیٰ بات یہ ہے کہ میں جو کہ یہ کلام بے کیف تم سے کر رہا ہوں اللہ ہی ہوں سب پر غالب بڑا ہی حکمت والا

۱۰۔۔۔     اور پھینک دو اپنی لاٹھی کو پھر جونہی موسیٰ نے اس کو دیکھا تو وہ اس طرح بل کھا رہی تھی جیسے کوئی سانپ ہو تو بھاگ کھڑے ہوئے موسیٰ خوف کے مارے پیٹھ پھیر کر اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ارشاد ہوا اے موسیٰ ڈرو مت کہ میرے حضور پیغمبر ڈرا نہیں کرتے

۱۱۔۔۔     مگر جس نے ظلم کیا ہو پھر اس کے بارے میں بھی قانون یہ ہے کہ اگر اس نے برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا تو میں اس کو بھی معاف کر دوں گا کیونکہ میں یقینی طور پر بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہوں

۱۲۔۔۔     اور ڈال دو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں پھیر دیکھو کہ کس طرح وہ چمکتا ہوا نکلتا ہے بغیر کسی عیب اور بیماری کے یہ دو نشانیاں ان نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف لے جانے کے لیے بلاشبہ وہ بڑے ہی بدکردار لوگ ہیں ۔

۱۳۔۔۔      پھر جب پہنچ گئیں ان کے پاس ہماری نشانیاں آنکھیں کھول دینے والی تو ان لوگوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ یہ تو جادو ہے کھلا ہوا،

۱۴۔۔۔     اور انہوں نے ان کا انکار کر دیا ظلم اور تکبر کی بناء پر حالانکہ انکے دل ان کا یقین کر چکے تھے ، سو دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام فساد مچانے والوں کا

۱۵۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو بھی ایک عظیم الشان علم بخشا اور ان دونوں نے اس پر شکر کے لیے کہا کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں فضیلت و بزرگی بخشی اپنے بہت سے ایمانداروں پر،

۱۶۔۔۔     اور وارث بنے سلیمان داؤد کے ، اور انہوں نے اظہار تشکر اور تحدیث نعمت کے طور پر کہا اے لوگوں ہمیں سکھائی گئی ہے بولی پرندوں کی اور ہمیں عطا فرمائی گئی ہے ضرورت کی ہر چیز بے شک یہ کھلا ہوا فضل اور مہربانی ہے

۱۷۔۔۔     ہمارے خالق و مالک کی طرف سے اور سلیمان کی عظمت و شان کا یہ عالم تھا کہ ان کے لیے جمع کیے جاتے لشکر جنوں انساں اور پرندوں کے

۱۸۔۔۔     پھر نظم و ترتیب کے لیے ان کو روکا جاتا یہاں تک کہ ایک مرتبہ چلتے چلتے جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے آواز دی کہ اے چیونٹیو! گھس جاؤ تم اپنے اپنے بلوں میں کہیں ایسا نہ ہو کہ روند ڈالیں تم کو سلیمان اور ان کے لشکر درآنحالیکہ انکو اس کی خبر بھی نہ ہو

۱۹۔۔۔     تو اس پر سلیمان مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اس اس ننھی منی چیونٹی کی اس بات کی بناء پر اور فوراً اپنے مالک کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں شکر ادا کر سکوں تیری ان عظیم الشان نعمتوں کا جن سے تو نے طرح طرح سے اور محض اپنی رحمت و عنایت سے نوازا ہے مجھے بھی اور میرے ماں باپ کو بھی اور یہ کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تجھے پسند ہوں اور داخل فرما دے مجھے اے میرے مالک! اپنی رحمت سے اپنے ان خاص بندوں میں جو سزاوار ہیں (تیرے قرب خاص کے )

۲۰۔۔۔     اور ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ سلیمان نے جائزہ لیا پرندوں کے لشکر کا تو ہدہد کو نہ پا کر کہا کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا کیا میری نگاہ چوک رہی ہے یا وہ کہیں غیر حاضر ہے ۔

۲۱۔۔۔     اگر ایسا ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ پیش کرے میرے سامنے کوئی کھلی سند اور معقول عذر

۲۲۔۔۔     پھر کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہدہد نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں وہ معلومات لایا ہوں جو جناب کے علم میں بھی نہیں ہیں ، میں جناب کے پاس سبا کے بارے میں ایک اہم یقینی خبر لایا ہوں ،

۲۳۔۔۔     تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میں نے وہاں ایک عورت کو پایا جو ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے اسے ہر قسم کا ساز و سامان حاصل ہے اور اس کے پاس ایک عظیم الشان تخت بھی ہے

۲۴۔۔۔     میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم سب سجدہ کرتے ہیں سورج کو اللہ وحدہٗ لاشریک کو چھوڑ کر اور خوشنما بنا دیا ہے شیطان نے ان کے لیے ان کے کاموں کو سو اس نے روک رکھا انکو راہ حق و صواب سے پس وہ نہیں پاتے سیدھی راہ

۲۵۔۔۔     آخر وہ اس اللہ ہی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو نکالتا ہے چھپی چیزوں کو آسمانوں اور زمین کی اور وہ ایک برابر جانتا ہے تمہاری ان باتوں کو بھی جو تم لوگ چھپاتے ہو اور ان کو بھی جن کو تم ظاہر کرتے ہو

۲۶۔۔۔     اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں اور وہ مالک ہے عرش عظیم کا۔

۲۷۔۔۔     سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا یا تو ان لوگوں میں سے ہے جو جھوٹ بولتے ہیں

۲۸۔۔۔     یہ میرا خط لے جا کر ان لوگوں کی طرف ڈال دے پھر ان سے ذرہ ہٹ کر دیکھا کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ،

۲۹۔۔۔     چنانچہ ہدہد نے ایسے ہی کیا اور اس پر اس عورت نے اپنے درباریوں سے کہا اے دربار والو میری طرف ایک بڑا اہم خط ڈالا گیا ہے ۔

۳۰۔۔۔     یہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اسے اللہ رحمان رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے

۳۱۔۔۔      اور مضمون اس کا یہ ہے کہ میرے مقابلے میں تم لوگ سرکشی نہیں کرنا اور حاضر ہو جاؤ تم سب میرے پاس فرمانبردار ہو کر،

۳۲۔۔۔     کہنے لگی اے دربار والو مجھے مشورہ دو میرے اس اہم معاملے میں کہ میں کسی بھی اہم معاملے کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس حاضر نہ ہوؤ اور اپنی رائے پیش نہ کر دو

۳۳۔۔۔     انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو بڑے طاقتور سخت لڑنے والے لوگ ہیں اس لیے خوف کی تو کوئی بات نہیں آگے آپ کی مرضی آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے ۔

۳۴۔۔۔     کہنے لگی کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھس آتے ہیں تو ان کا وطیرہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اسے بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس کے باشندوں میں سے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں ، اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے ۔

۳۵۔۔۔     اس لیے سر دست تو میں ان کے لیے کچھ ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میرے ایلچی کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں ،

۳۶۔۔۔     چنانچہ جب وہ قاصد سامان لے کر سلیمان کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ تو سن لو کہ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تمہارا یہ ہدیہ تم ہی لوگوں کو مبارک ہو؟

۳۷۔۔۔     تم ان کے پاس واپس چلے جاؤ ہم خود ہی ان پر ایسے لشکر لے کر پہنچ رہے ہیں جن کا وہ کسی طرح کوئی مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہم ان کو وہاں سے ایسا ذلیل کر کے نکالیں گے کہ وہ پست ہو کر رہ جائیں گے ۔

۳۸۔۔۔     پھر سلیمان نے کہا کہ دربار والو تم میں سے کون ہے جو لے آئے میرے پاس اس کے تخت کو قبل اس سے کہ وہ لوگ میرے پاس آ پہنچیں فرمانبردار ہو کر؟

۳۹۔۔۔     تو اس پر ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا کہ میں اس کو آپ کی خدمت میں لا کر حاضر کروں گا قبل اس سے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور بلاشبہ مجھے اس پر پوری قوت بھی ہے اور میں امانتدار بھی ہوں

۴۰۔۔۔     اس کے برعکس اس شخص نے جس کے پاس علم تھا کتاب الٰہی کا اس نے کہا کہ میں تو اسے آپ کے پاس آپ کی پلک جھپکنے سے بھی پہلے لائے دیتا ہوں ، چنانچہ جب سلیم نے پل بھر میں اس کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو وہ خوشی و مسرت میں جھوم کر شکر نعمت کے طور پر پکار اٹھے کہ یہ سب کچھ فضل و کرم ہے میرے رب کا، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ میرا رب تو قطعی طور پر اور ہر طرح سے بے نیاز اور بڑا ہی کرم والا ہے

۴۱۔۔۔     اس کے بعد سلیمان نے حکم دیا کہ کچھ تبدیلی کر دو اس کی آزمائش کے لیے اس کے تخت میں تاکہ ہم دیکھیں کہ اسے پتہ لگتا ہے یا اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں پتہ نہیں لگتا،

۴۲۔۔۔     چنانچہ ایسا ہی کیا گیا پھر جب وہ پہنچ گئی تو اس سے کہا گیا کہ کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو گویا وہی ہے اور یہ معجزہ دکھانے کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ ہمیں تو اس سے پہلے ہی اس سب کا علم ہو گیا تھا اور ہم نے سر اطاعت و تسلیم جھکا دیا تھا

۴۳۔۔۔     مگر اس قدر عقل مند عورت ہونے کے باوجود اس کو روک رکھا تھا راہ حق و صواب سے اس کے ان خود ساختہ معبودوں نے جن کی وہ پوجا پاٹ کرتی تھی اللہ کےسوا، کہ تھی تو وہ بہر حال ایک کافر قوم ہی میں سے ،

۴۴۔۔۔     اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ تم اس محل میں سو اس نے جو اس کے صحن کو دیکھا تو اسے پانی کا ایک حوض سمجھ کر اپنے پائنچے اٹھا لیے ، اس پر سلیمان نے فرمایا کہ پائنچے اٹھانے کی ضرورت نہیں کہ یہ پانی نہیں بلکہ یہ تو ایک محل ہے جس کے صحن میں بھی شیشے جڑے ہوئے ہیں تب وہ بے ساختہ پکار اٹھی کے اے میرے رب بے شک میں نے اب تک نور حق و ہدایت سے دور رہ کر بڑا ظلم ڈھایا اپنی جان پر اور اب میں نے سر تسلیم خم کر لیا۔ سلیمان کے ساتھ اللہ کے لیے جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا

۴۵۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے ثمود کی طرف بھی ان کے بھائی صالح کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم سب لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو تو وہ لوگ یکایک دو گروہ بن کر آپس میں جھگڑنے لگے ،

۴۶۔۔۔     صالح نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! تم کیوں جلدی مچاتے ہو برائی کے لیے بھلائی سے پہلے ، تم لوگ اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے ؟

۴۷۔۔۔     ان لوگوں نے کہا ہم تو نحوست کا شکار ہو گئے تمہاری وجہ سے اور ان لوگوں کی وجہ سے جو تمہارے ساتھ ہیں ، صالح نے فرمایا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے کفر کی بدولت اﷲ کی طرف سے ہے اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے

۴۸۔۔۔     اور اس شہر میں تو ایسے سرغنے رہتے تھے جو فساد مچاتے تھے  اﷲ کی زمین میں اور وہ اصلاح نہیں کرتے تھے

۴۹۔۔۔     انہوں نے آپس میں اﷲ کی قسمیں کھا کر کہا کہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے پھر اگر تحقیق کی نوبت آئی تو ہم اس کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم تو اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہیں تھے اور ہم بالکل سچے ہیں ۔

۵۰۔۔۔     تو انہوں نے ایک سازش کی اور ہم نے ان کی سازش کا توڑ اس طرح پیش کیا کہ انہیں پتہ تک نہ چلا،

۵۱۔۔۔     سو دیکھو کیسا ہوا انجام ان کی سازش کا، کہ ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ان کو بھی اور ان کی پوری قوم کو بھی سب کو،

۵۲۔۔۔     سو یہ ہیں ان کے گھر ویران پڑے ہوئے اس ظلم کی پاداش میں جو کہ وہ لوگ کرتے رہے تھے ، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

۵۳۔۔۔     اور ہم نے نجات دے دی اپنی رحمت و عنایت سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور وہ بچتے رہے تھے اپنے رب کی نافرمانی سے

۵۴۔۔۔     اور لوط کو بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا سو یاد کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ کیا تم لوگ دیدہ دانستہ اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو؟

۵۵۔۔۔     کیا تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے آتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو۔

۵۶۔۔۔     ان کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ نکال دو لوط کے ساتھیوں کو اپنی بستی سے یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں ،

۵۷۔۔۔     آخرکار اس قوم پر عذاب نازل ہوا اور ہم نے بچا لیا لوط کو بھی اور ان کے تمام متعلقین کو بھی سوائے ان کی بیوی کے کہ اس لیے ہم نے مقدر کر دیا تھا اس کے کفر و انکار کی بناء پر کہ اس کو بھی رہنا ہے ان لوگوں کے ساتھ جن کو پیچھے رہنا تھا،

۵۸۔۔۔     اور برسا دی ہم نے ان پر ایک بڑی ہولناک بارش، سو بڑی ہی بری بارش تھی ان لوگوں کی جن کو خبردار کیا جا چکا تھا

۵۹۔۔۔      کہو سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے چن لیا اپنی نبوت و رسالت کے لیے ، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ معبودان باطلہ جنہیں یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ؟

۶۰۔۔۔     بھلا کون ہے وہ جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کی اس حکمتوں بھری کائنات کو اور اتارا اس نے تمہارے لئے آسمانوں سے پانی پھر اگائے ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کے با رونق باغات تمہارے بس میں تو یہ بھی نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو ہی اگا سکو تو کیا ایسی ایسی قدرتوں والے اللہ کے ساتھ دوسرا کوئی معبود و شریک ہو سکتا ہے ؟ کوئی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ سیدھے راستے سے ہٹ کر چل رہے ہیں (۱)

۶۱۔۔۔     اس کی قدرت کے دلائل مزید سنو بھلا کون ہے وہ جس نے اس زمین کو جائے قرار بنایا اس کے اندر دریا رواں کر دیے اس کیلئے پہاڑوں کے عظیم الشان لنگر بنا دئیے اور (میٹھے و کھاری) پانی کے ان دونوں عظیم الشان ذخیروں کے درمیان آڑ بنا دی (۲) کیا ایسی عظیم و بے مثال قدرتوں والے اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود شریک ہو سکتا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے (حق اور حقیقت کا)

۶۲۔۔۔     بھلا کون ہے وہ جو دعا و پکار سنتا ہے مجبور و لاچار شخص کی جب کہ وہ پکارتا ہے اس وحدہٗ لا شریک کو اور کون اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور وہ کون ہے جو تمہیں زمین میں نائب بناتا ہے ؟ (۳) کیا ایسے قادر مطلق اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود شریک ہونے کے لائق ہو سکتا ہے ؟ بہت ہی کم سبق لیتے اور نصیحت حاصل کرتے ہو تم لوگ

۶۳۔۔۔     اور سنو بھلا کون ہے وہ جو تم کو راستہ دکھاتا ہے خشکی اور تری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ؟ اور کون ہے وہ جو چلاتا ہے ہواؤں کو اپنی باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے کو؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ایسا ہو سکتا ہے بہت بلند و بالا ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

۶۴۔۔۔     بھلا کون ہے وہ جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے ؟ پھر وہ اس کو دوبارہ پیدا کر دے گا اور کون ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ایسا ہو سکتا ہے ؟ ان سے کہو کہ لاؤ تم لوگ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو

۶۵۔۔۔     اپنی شرکیات میں کہو کوئی بھی غیب نہیں جانتا آسمانوں اور زمین میں سوائے ایک اللہ کے اور انہیں تو اس کی بھی خبر نہیں کہ یہ خود کب اٹھائے جائیں گے (۱)

۶۶۔۔۔     بلکہ نیست ہو گیا ان کا علم آخرت کی حقیقت اور عظمت شان کے بارے میں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ اس کے بارہ میں اندھے ہیں

۶۷۔۔۔     اور کہتے ہیں وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر کہ کیا ہم جب مر کر مٹی ہو جائیں گے ہم بھی اور ہمارے باپ دادا بھی تو کیا واقعی ہمیں پھر زندہ کر کے قبروں سے نکالا جائے گا؟

۶۸۔۔۔     اس کا وعدہ تو ہم سے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی ہوتا چلا آیا ہے یہ تو محض کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی

۶۹۔۔۔     ان سے کہو کہ تم لوگ چلو پھرو اللہ کی عبرتوں بھری اس زمین میں پھر دیکھو کہ کیسا ہوا انجام مجرموں کا؟

۷۰۔۔۔     اور نہ غم کھاؤ آپ ان لوگوں پر اور نہ کسی تنگی اور گھٹن میں پڑو ان کی ان چال بازیوں کی بناء پر جو یہ لوگ حق اور اہل حق کے خلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں

۷۱۔۔۔     کہ کب پوری ہو گی تمہاری یہ دھمکی اگر تم سچے ہو؟

۷۲۔۔۔     کہو ہو سکتا ہے کہ قریب ہی آ لگا کچھ حصہ اس ہولناک انجام و عذاب کا جس کے لئے تم لوگ جلدی مچاتے ہو اور جس کے تم مستحق ہو

۷۳۔۔۔     اور بے شک تمہارا رب بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے لوگوں پر لیکن لوگوں کی اکثریت ہے کہ وہ پھر بھی اس کا شکر نہیں ادا کرتے

۷۴۔۔۔     اور بلاشبہ تمہارا رب پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے ان سب باتوں کو جن کو یہ لوگ چھپائے رکھتے ہیں اپنے سینوں میں اور جن کو یہ ظاہر کرتے ہیں

۷۵۔۔۔     اور کوئی چھپی بات ایسی نہیں آسمان اور زمین میں جو ثبت اور مندرج نہ ہو ایک عظیم الشان کھلی کتاب میں

۷۶۔۔۔     بے شک یہ قرآن حقیقت بتاتا ہے بنی اسرائیل کو اکثر ان باتوں کی جن کے بارے میں یہ لوگ خود اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں ۔

۷۷۔۔۔     اور بلاشبہ یہ قرآن قطعی طور پر عین ہدایت اور سراسر رحمت ہے دولت ایمان رکھنے والوں کیلئے

۷۸۔۔۔     یقیناً تمہارا رب عملی طور پر فیصلہ فرما دے گا ان کے درمیان اپنے حکم سے اور وہی ہے سب پر غالب سب کچھ جانتا

۷۹۔۔۔     بس آپ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں کہ بلاشبہ آپ قطعی طور پر صریح حق پر ہیں

۸۰۔۔۔     آپ نہ تو مردوں کو کسی قیمت پر سنا سکتے ہیں اور نہ ہی ان بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو پھر جائیں حق سے پیٹھ دے کر

۸۱۔۔۔     اور نہ ہی آپ اندھوں کو راہ حق و ہدایت پر پھر لا سکتے ہیں ان کو گمراہی کی دلدل سے نکال کر آپ تو صرف ان ہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ایمان رکھتے ہوں ہماری آیتوں پر وہی فرمانبردار ہوں گے ، اپنے ایمان و یقین کی برکت سے

۸۲۔۔۔     اور جب پوری ہو جائے گی ان پر ہماری بات تو ہم نکال کھڑا کریں گے ان کے لئے ایک عجیب و غریب قسم کا جانور زمین سے جو ان سے باتیں کرے گا اور ان کو بتائے کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے

۸۳۔۔۔     یاد کرو اس دن کو جس دن ہم گھیر لائیں گے ایک فوج کی فوج ان لوگوں میں سے جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو پھر ان کو روکا جائے گا

۸۴۔۔۔     یہاں تک کہ جب وہ سب موقف میں آ پہنچیں گے تو ان کا رب ان سے پوچھے گا کہ یا تم نے جھٹلایا تھا میری آیتوں کو حالانکہ تم ان کا کسی طور پر علمی احاطہ بھی نہیں کر سکے تھے ؟ یا پھر تم خود ہی بتاؤ کہ اور کیا تھے وہ کام جو تم لوگ کرتے رہے تھے ؟

۸۵۔۔۔     اور وعدہ عذاب کے بارے میں ہماری بات ان پر اس طرح ثابت ہو کر رہے گی ان کی ظلم کے بنا پر کہ وہ کچھ بول بھی نہ سکیں گے

۸۶۔۔۔     کیا یہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے کس طرح ان کے لئے رات کو اندھیری بنایا تاکہ یہ اس میں سکون حاصل کر سکیں اور دن کو روشن اور آنکھیں کھولنے والا تاکہ اس میں یہ کام کر سکیں بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں

۸۷۔۔۔     اور کیا گزرے گی اس دن جس دن کہ پھونک دیا جائے گا صور میں جسے سے دھل کر رہ جائیں گے وہ سب جو کہ آسمانوں میں ہیں اور وہ سب بھی جو کہ زمین میں ہیں مگر جسے اللہ چاہے اور سب حاضر ہوں گے اس کے حضور بے جھکے

۸۸۔۔۔     اور تم دیکھتے ہو ان عظیم الشان پہاڑوں کو اور ان کو خوب جما ہوا سمجھتے ہو حالانکہ یہ رواں دواں ہیں یا رواں دواں ہوں گے اس روز بادلوں کی طرح کارستانی ہے اس اللہ جل جلالہ کی جس نے استوار کیا ہر چیز کو نہایت حکمت اور مضبوطی کے ساتھ بے شک وہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۸۹۔۔۔     جو کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے کہیں بڑھ کر اچھا بدلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے امن میں ہوں گے

۹۰۔۔۔     اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگوں کو اوندھے منہ ڈال دیا جائے گا آگ میں اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں تو انہی کاموں کا بدلہ دیا جا رہا ہے جو تم خود کرتے رہے تھے

۹۱۔۔۔     مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں بندگی کرتا رہوں اس شہر مکہ کے رب کی جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اسی کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے اس بات کا کہ میں ہو رہوں فرمانبرداروں میں سے

۹۲۔۔۔     اور یہ کہ میں پڑھ کر سناتا رہوں یہ قرآن پھر جو کوئی راہ پر آگیا تو وہ اپنے ہی بھلے کے لئے راہ پر آئے گا اور جو کوئی گمراہ ہوا تو یقیناً اس میں میرا کوئی نقصان نہیں کہ میں تو صرف خبردار کرنے والوں میں سے ہوں اور بس

۹۳۔۔۔     اور کہو ان سے کہ تعریف اللہ ہی کے لئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں اس طرح دکھا دے گا کہ تم انہیں خود پہچان لو گے اور تمہارا رب کچھ بے خبر نہیں ہے ان کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو

تفسیر

 

۳۔۔۔    ان آیات کریمات سے قرآن حکیم کی عظمت شان کو بھی واضح فرما دیا گیا اور اس سے مستفید و فیضیاب ہونے والوں کی صفات و خصوصیات کو بھی، سو یہ کتاب حکیم سراسر ہدایت و راہنمائی ہے ایمان والوں کے لئے اور عظیم الشان بشارت ہے ان سب کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی، یعنی ان ایمان والوں کے لئے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، سو ایمان بالآخرت اصل اور اساس ہے تمام فوز و فلاح کی، کہ اسی سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتا اور فروغ پاتا ہے، اور اسی بناء پر وہ اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا اہتمام کرتا ہے۔ پس ایمان باللہ اس کتاب حکیم کی ہدایت و راہنمائی، اور اس کے علوم و معارف سے استفادہ کی اولین اساس و بنیاد ہے، ورنہ محرومی ہی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ، اور پھر ایمان بھی وہی مطلوب و مفید ہے جس کا ثبوت بندے کے عمل و کردار سے ملے، نہ کہ صرف زبانی کلامی دعوے ہوں اور بس، اور عمل کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز پابندی نماز اور ادائیگی زکوٰۃ ہے، کیونکہ نماز بدنی عبادات میں سب سے بڑی اور سب سے اہم عبادت ہے، اور زکوٰۃ مالی عبادات میں سب سے بڑی اور سب سے اہم عبادت ہے۔

۸۔۔۔    اس موقع پر حضرت موسیٰ کے لئے مبارکی کا یہ پیغام، بیان حقیقت کے علاوہ اور اصل میں آنجناب کو مانوس کرنے کے لئے تھا، اس لئے کہ یہ موقع حضرت موسیٰ کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ آپ رات کے اندھیرے میں اس مقام پر آگ لینے گئے تھے، آگے وہاں پر خلاف توقع صورت حال پیش آنے پر جو کچھ آنجناب پر گزری ہو گی اس کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے اور اگر اس آواز کا پہلا ہی لفظ برکت و بشارت کا نہ ہوتا تو خدا ہی جانے آپ پر کیا گزرتی، سو اس آواز اور اس کلمہ خیر و برکت سے آنجناب کی ڈھارس بندھائی گئی کہ یہ آواز جو آپ کو سنائی دے رہی ہے یہ عظیم الشان منبع خیر و برکت سے آ رہی ہے اس کے پیچھے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں، اور اللہ جو پروردگار ہے سب جہانوں کا وہ پاک اور منزہ ہے ہر نقص و عیب سے پس یہ تجلی جو آپ کو نظر آتی ہے اس پر بھروسہ رکھو۔ اور اس سے کسی خوف و خدشہ اور نقصان کا کوئی اندیشہ نہ کرنا، وہ پروردگار عالم تم سے وہی معاملہ فرمائے گا جو اس کی شان رحمت و ربوبیت کے لائق ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۰۔۔۔    اللہ تعالیٰ کے نیک اور سلیم الفطرت بندوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کسی اندیشے سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کا ذہن اپنی کسی غلطی اور کوتاہی ہی کی طرف جاتا ہے کہ مبادا یہ اسی کا نتیجہ و خمیازہ ہو، ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا ذہن بھی اس موقع پر قبطی کے قتل کے واقعے کی طرف منتقل ہو گیا ہو، اگرچہ حضرت موسیٰ نے بعد میں اس سے توبہ بھی کر لی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ کو قبول بھی فرما لیا تھا لیکن انبیاء و صالحین اپنے محاسبے کے سلسلے میں بڑے حساس اور محتاط ہوتے ہیں اس لئے آپ کے تسلی و تسکین کے لئے اس موقع پر آپ سے فرمایا گیا اِنِّیَ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ یعنی میرے یہاں میرے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ پس آپ کو کوئی خوف و اندیشہ نہ کرو۔

۱۴۔۔۔     سو اس سے مجرموں کے جرم، اس کے سبب اور اس کے نتیجہ و انجام تینوں کو واضح فرما دیا گیا، ان کا جرم تھا حجود و انکار، وہ حجود و انکار جو کہ ان کے عناد و استکبار پر مبنی تھا، سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان کے پاس ہماری نشانیاں پہنچ گئیں۔ اور نشانیاں بھی ایسی جو آنکھیں کھولنے والی، اور حق اور حقیقت کو پوری طرح واضح کر دینے والی تھیں۔ مگر انہوں نے پھر بھی انکار ہی کیا، اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کے دلوں میں یہ یقین موجود تھا کہ یہ سب نشانیاں سچی ہیں، اور پیغمبر کی دعوت سراسر حق و صدق ہے، اور ان کے اس انکار کا سبب اور باعث ان کا علو و استکبار تھا۔ یہ لوگ اپنے خالق و مالک اور اس کے بندوں کے حقوق تلف کرنے کے ایسے خوگر اور عادی ہو گئے تھے کہ کسی قیمت پر اپنی اس روش سے دست بردار نہیں ہونا چاہتے تھے، اور اپنے اسی کبر و غرور اور عناد و استکبار کے باعث یہ لوگ اپنی اہوا و اغراض اور خواہشات نفس کے خلاف کسی بڑے سے بڑے اور صاف و صریح حق کے آگے بھی جھکنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ سو ایسوں کا آخری نتیجہ و انجام یہ ہوا کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت و تباہی میں جا گرے، والعیاذُ باللہ، پس بندے کی شان کے لائق اور اس کے مآل و انجام کے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے قلب و باطن، اور دل و دماغ کو سماع حق اور قبول حق کے لئے کھلا اور تیار رکھے، تاکہ وہ اس سے مستفید و فیضیاب ہو سکے اور اس کی بگڑی بن سکے۔ کہ اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا مدار و انحصار اسی چیز پر ہے کہ وہ حق کے آگے دل و جان سے جھک جائے اور اس کو صدق دل سے قبول کر لے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۱۵۔۔۔   ۱:  یعنی تنوین یہاں پر تعظیم و تفخیم کے لئے ہے، سو اس علم سے مراد حکمت و معرفت کا وہ علم ہے جس سے حضرت داؤد اور سلیمان کو بطور خاص نوازا گیا تھا جس میں حکمرانی کے علاوہ سائنس کا وہ علم بھی شامل ہے جس سے انہوں نے اپنی وہ عظیم الشان سلطنت قائم کی تھی، جو بحری اور بری، قوت کے اعتبار سے اپنے دور کی سب سے زیادہ طاقتور سلطنت تھی، بلکہ وہ ایسی عظیم الشان اور بے مثال سلطنت تھی کہ اس کی نظیر بعد کے ادوار میں بھی کہیں نظر نہیں آ سکتی۔

۲:سو اس سے ان دونوں حضرات کی یہ امتیازی شان بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اتنی بڑی اور اس قدر عظیم الشان سلطنت سے سرفراز ہونے کے باوجود ان میں کبر و غرور کا کوئی شائبہ نہیں، بلکہ وہ دونوں اس پر سراپا شکر و سپاس بن کر کہتے ہیں کہ سب تعریف اس اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں اس فضیلت و بزرگی اور عزت و عظمت سے نوازا۔ اور اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر ہم کو فضیلت بخشی کہ فضیلت و بزرگی حقیقت میں وہی ہے جو ایمان و یقین کی دولت کے ساتھ ہو، جس کو یہ حاصل نہیں اس کے لئے کسی عزت و عظمت کا کوئی سوال ہی نہیں۔

۱۸۔۔۔    سو اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ تم سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں روند ڈالیں جبکہ ان کو اس چیز کی خبر بھی نہ ہو۔ یعنی جان بوجھ کر تو وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کہ یہ ظلم ہے، اور وہ لوگ ظلم کرنے والے نہیں۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ انکی بے خبری اور لاشعوری میں تم ان کے قدموں تلے روند ڈالی جاؤ۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب فطرت سلامت ہو تو ننھی منی چیونٹی بھی کیسی صحیح اور صاف بات کہتی ہے اور وہ بھی اس حقیقت کو جانتی مانتی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل یہاں تک کہ حضرت سلیمان جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر اور ان کے عظیم المرتبت ساتھی اور لشکر بھی عالم غیب نہیں ہوتے کہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے لیکن جب مزاج بگڑ جائے اور فطرت کی صحت و سلامتی برقرار نہ رہے، والعیاذُ باللہ، تو پھر ڈھائی ڈھائی من کے ان بڑے بڑے چیونٹوں کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی جو بڑے بڑے جبوں، قبوں، میں ملبوس و مستور ہوتے ہیں، سو وہ دھڑے سے کہتے ہیں کہ پیغمبر مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ کے عالم ہوتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ اپنے پیروں فقیروں اور ننگ دھڑنگ ملنگوں کو بھی غیب داں مانتے ہیں، چنانچہ ہمارے ملک کے ایک مشہور گویہ اور مشرک کلمہ گو پیشہ ور واعظ ہوتے تھے، جو ابھی کچھ ہی سال قبل آنجہانی ہو گئے، وہ عوام کالانعام کے عام جلسوں میں کہا کرتے تھے، اور گا گا کر کہا کرتے تھے کہ قبروں میں پڑے ہوئے بزرگ جانتے ہیں کہ انکی قبر پر چڑیا بیٹھی ہوتی ہے یا چڑا۔ سو شرک و بدعت کی نحوست کے نتیجے میں جب کسی کی مت مار دی جاتی ہے تو اس کا حال ایسے ہی ہو جاتا ہے والعیاذ باللہ جَلَّ وَعَلَا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، بہرکیف حضرت سلیمان نے جب اس ننھی منی چیونٹی کی اس بات کو سنا تو آپ اس پر خوشی سے مسکرا دیئے، اور فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی حمد و ثنا اور اس سے دعا و درخواست میں مشغول ہو گئے، سو آپ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر فرمائی ہیں اور میرے والدین پر بھی، اور یہ کہ میں نے نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہوں، اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما دے۔

۲۰۔۔۔     سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے، ان کو غیب کی وہی باتیں اور خبریں معلوم ہوتی ہیں، جو حضرت عَلَّام الغیوب جل وعلا کی طرف سے بتائی جاتی ہیں اور جن کا جاننا ان کے منصب نبوت و رسالت کے لئے ضروری ہوتا ہے، اور جن کو قرآن حکیم میں مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ یعنی غیب کی کچھ خبروں سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ تمام غیبوں کا علم نہ ان کو حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا جاننا ان کے لئے ضروری ہوتا ہے پس سب غیبوں کو جاننے والی اور عالم غیب ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک کی ذات اقدس و اعلیٰ، اس کی اس صفت میں دوسری کوئی بھی ہستی نہ اس کی شریک ہے، نہ ہو سکتی ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۲۔۔۔    سو ہُد ہُد کے اس جواب سے بھی اسی حقیقت کا اعادہ فرما دیا گیا جس کا ذکر و بیان اوپر چیونٹی کے قول کی صورت میں فرمایا گیا ہے، کہ عالم غیب اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کوئی نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، سو ہدہد نے حضرت سلیمان کی خدمت میں اور ان کو خطاب کر کے صاف طور پر کہا کہ میں جناب کی خدمت میں وہ معلومات لایا ہوں جو جناب کے علم میں نہیں ہیں کہ میں قوم سبا کی طرف سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ آگے حضرت سلیمان نے بھی اس پر نہ تو ہدہد کو روکا، نہ ٹوکا، اور نہ اس کو ڈانٹا کہ تو میرے منہ پر اور مجھے مخاطب کر کے مجھ سے یہ کیسی بات کہہ رہا ہے کہ تو میرے پاس وہ معلومات لایا ہے جو میرے پاس بھی نہیں، سو حضرت سلیمان نے ہدہد کے اس قول پر اس طرح کی کوئی تنبیہ و تذکیر نہیں فرمائی، بلکہ اس کی بات کی تائید و تاکید کے طور پر اس سے کہا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا، یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے، سو اس سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے کبھی اس طرح کا کوئی دعوی کیا۔ قرآن و سنت کی صریح نصوص کے اندر اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، مگر اہل بدعت ہیں کہ پھر بھی اس واضح اور صریح حقیقت ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ اپنے شرکیہ عقیدے کی حمایت میں وہ قرآن و سنت کی اسی صریح نصوص میں طرح طرح کی تاویلات اور تحریفات سے کام لیتے ہیں فالی اللہ المشتکیٰ، وہو المستعان، فی کل حینٍ واٰن،

۲۶۔۔۔    سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کی تصریح بھی فرما دی گئی، کہ معبود برحق اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، اور ہر قسم کے سجدے اور عبادت کا مستحق وہی اور صرف وہی ہے، اور اس کے لئے تین اہم اور عظیم الشان دلیلیں بھی پیش فرما دی گئیں، اول یہ کہ وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کی مخفی اور پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے، آسمانوں کی پوشیدہ چیزوں کے عموم میں سورج چاند، ستارے، سیارے، زہرہ، و مشتری، اور بارش وغیرہ سب ہی داخل ہیں، اور زمین کی پوشیدہ چیزوں میں تمام نباتات، درخت دریا، اور چشمے، وغیرہ سب آ جاتے ہیں، اور دوسری دلیل اس دعوے کے لئے یہ پیش فرمائی گئی کہ وہ ان باتوں اور کاموں کو جانتا اور ایک برابر جانتا ہے جن کو تم لوگ چھپاتے ہو اور جن کو تم ظاہر کرتے ہو۔ اور تیسری دلیل اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ وہی مالک ہے عرش عظیم کا جو کہ حاوی اور محیط ہے اس تمام کائنات پر۔ اور اس کے اس عرش عظیم کے سامنے کسی کے عرش کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں۔ خواہ وہ کتنا ہی بڑا عرش کیوں نہ ہو۔ اور جب ان تینوں باتوں میں سے کسی ایک میں بھی اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس وہی اور صرف وہی معبود برحق ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی کا حقدار صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۳۴۔۔۔    سو ملکہ نے درباریوں کی رائے کے برعکس جنگ کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے، اور ان کو اس کے عواقب و نتائج سے ڈراتے ہوئے ان سے کہا کہ  بادشاہ لوگ جب کسی شہر یا ملک کو فتح کر کے اس میں داخل ہوتے ہیں، تو اس کے نظام کو تہ و بالا کر دیتے ہیں، اور وہ وہاں کے با عزت لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں، اس لئے اگر سلیمان اور ان کے لشکر کو ہم پر غلبہ مل گیا تو وہ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے۔ اس لئے جنگ کرنے کے بجائے اس سے بچنے ہی میں ہماری بہتری ہے سو اس طرح ملکہ نے جنگ کے بجائے صلح و صفائی کی پالیسی کو ترجیح دی۔

۳۶۔۔۔    سو ملکہ نے جب جنگ کے بجائے صلح صفائی اور باہمی مصالحت کی رائے پیش کی تو اس کے بعد اس نے کہا کہ میں جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر پہلے سلیمان کے پاس کچھ تحفے تحائف بھیجتی ہوں۔ اور دیکھتی ہوں کہ اس کا ان پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ہمارے سفیران کی طرف سے کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں، سو اس کے مطابق ملکہ نے بڑے تحفے تحائف دیکر ایک بڑا وفد حضرت سلیمان کے پاس بھیجا، جب وہ وفد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا تو حضرت سلیمان نے ان سے وہ تحفے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور آپ نے ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ کیا تم لوگ دنیاوی مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ ہم اس کے محتاج نہیں، ہمیں اللہ نے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، فَمَا اٰتَنِیَ اللّٰہُ کے عموم و اجمال میں وہ سب ہی کچھ شامل ہے جس سے قدرت نے حضرت سلیمان کو نوازا تھا، یعنی مال و جاہ علم و حکمت اور سطوت و سلطنت وغیرہ، سو آپ نے ملکہ بلقیس کے وفد سے کہا کہ ان تحفوں تحائفوں سے تم ہی لوگ خوش ہوتے رہو۔ ہمیں نہ ان کی ضرورت ہے اور نہ کوئی تمنا، یعنی میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ اس طرح کی مادی چیزوں سے خوش ہو جاؤں۔ اور اپنی اصولی دعوت کو چھوڑ دوں۔ انکی میرے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں تم لوگوں کے یہاں تو اس طرح کی چیزوں کی بڑی قدر و قیمت ہے، لیکن میرے سامنے تو اصل مقصد اعلاءِ کلمۃ اللہ کا ہے میرے لئے یہ جائز نہیں کہ میں اس طرح کی چیزوں سے خوش ہو کر اللہ کی زمین میں کفر و شرک کیے اقتدار کو جائز تسلیم کرلوں پس میں جس چیز کا خواہش مند ہوں وہ یہ ہے کہ تمہاری حکومت اور تمہاری ملکہ حق کے آگے جھک جائے، اور میری اطاعت کرے۔ سو اسطرح حضرت سلیمان نے ان کے سامنے واضح فرما دیا کہ میرا مطالبہ تو دین و اطاعت کا ہے، میں صرف دوستی اور باہمی تعلقات کا خواہشمند نہیں ہوں کہ اس طرح کے تحفوں اور تحائف سے خوش ہو جاؤں، اور باہمی دوستی اور راہ و رسم پر قناعت کر لوں ، یہ سب کچھ تم ہی لوگوں کو مبارک ہوں، اب ہم ان پر ایسے لشکر لے کر پہنچتے ہیں جن کا مقابلہ ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ اور ان کو ہم ذلیل کر کے وہاں سے نکال کر رہیں گے۔ تورات کی کتاب سلاطین سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں ان کے گرد و بیش کی تمام ریاستیں اور حکومتیں یا تو از خود ان کی باجگزار اور ماتحت بن گئی تھیں، یا حضرت سلیمان نے طاقت کے زور سے ان کو اپنے زیر نگیں کر لیا تھا، اور یہ اس لئے کہ کفر و شرک کا اقتدار خدا کی سرزمین میں سب سے بڑا فساد ہے، جس کو مغلوب کرنا اہل حق کے فرائض میں سے ہے، اسی لئے حضرت سلیمان نے اہل سبا سے اپنی ماتحتی میں آنے کا یہ مطالبہ کیا تھا۔

۳۸۔۔۔     سو حضرت سلیمان کے پاس اس ملکہ کے سفیروں کے آنے اور ٹکہ سا جواب لے کر ان کے واپس چلے جانے سے، حضرت سلیمان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ جنگ کا خطرہ مول لینے کا دم خم اپنے اندر نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ بہت جلد آنجناب کے آگے سر تسلیم خم کر دیں گے۔ تو ان کو مزید و مرعوب کرنے کے لئے آنجناب نے چاہا کہ ملکہ کے اس تخت کو اپنے دربار میں منگوا لیں۔ جس کی شان و شوکت کے بارے میں آپ اس سے پہلے بہت کچھ سن چکے تھے۔ تو آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو ملکہ کے اس تخت کو میرے پاس لا حاضر کرے قبل اس سے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیں؟

۴۰۔۔۔    علم کتاب سے بظاہر یہاں پر مراد خداوند قدوس کی کتاب و شریعت یعنی تورات کا علم ہے، کہ اپنے دور میں علم اور ہدایت و نور کا سرچشمہ وہی کتاب الٰہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم کتاب کو اسماء الٰہی اور خواص کلمات کے اس علم کا بھی کوئی حصہ حاصل تھا جو سحر اور شعبدہ وغیرہ جیسے سفلی علوم کے مقابلے کے لئے بنی اسرائیل کو بابل کی اسیری کے دور میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کے ذریعے قدرت کی طرف سے عطاء فرمایا گیا تھا، یہ علم تورات وغیرہ آسمانی صحیفوں میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، بلکہ یہ ان سے الگ ایک خاص علم تھا جو ایک خاص دور میں اور خاص ضرورت و مصلحت کے لئے بنی اسرائیل کو سکھایا گیا تھا جس طرح کہ اس کا ذکر سورہ بقرہ میں ہاروت و ماروت کے قصے کے ضمن میں فرمایا گیا ہے، سو علم کتاب و شریعت رکھنے والے اس شخص نے اپنے اسی علم تاثیر و تسخیر کے ذریعے ملکہ بلقیس کے اس تخت کو اس قدر جلد حضرت سلیمان کے پاس حاضر کر دیا۔ رہ گئی یہ بات کہ اتنا بڑا تخت شاہی کم و بیش ڈیڑھ ہزار میل کی اس طویل مسافت سے پل جھپکنے کی دیر میں کس طرح حضرت سلیمان کے پاس پہنچ گیا؟ تو یہ بات ہم جسے کوتاہ فہم اور قاصر الادراک لوگوں کے لئے اگرچہ بہت بڑی بات ہے، لیکن جس قادر مطلق اور خالق و مالک کل کی طرف سے بخشے گئے ایک خاص علم کی بناء پر اس شخص نے اس کو لا حاضر کیا گیا اس کی قدرت مطلقہ کے اعتبار سے یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ اس کی شان عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر کی شان ہے، بھلا جس کی قدرت کے یہ عظیم الشان مظاہر اس دنیا میں موجود ہیں کہ اس کے ایک حکم و ارشاد سے حکمتوں اور عجائب بھری یہ کائنات وجود میں آ گئی اور سورج و چاند اور ان سے بھی کہیں بڑے سیارے آن کی آن میں لاکھوں میل کا سفر طے کرتے ہیں اور جس کی قدرت کے ایک اور انوکھے مظہر کے طور پر حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے عالم بالا میں تشریف لے گئے اور راتوں رات ہی وہاں سے واپس بھی تشریف لے آئے، آخر اس کے لئے تخت بلقیس کو پل بھر میں یمن سے بیت المقدس پہنچا دینا کیوں اور کیا مشکل ہو سکتا ہے؟ پھر جب حضرت سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس موجود پایا تو آپ نہ کسی طرح کے کبر و غرور میں مبتلا ہوئے، اور نہ اترائے، بلکہ فورًا اللہ کے ذکر و شکر سے رطب اللسان ہو گئے۔ کہ یہ سب کچھ اسی کے فضل و کرم سے ہوا۔ اور اس نے مجھ پر یہ فضل و کرم اس لئے فرمایا کہ تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں، یا ناشکرا بنتا ہوں؟

۴۴۔۔۔   ۱: یعنی حضرت سلیمان کے خدام کی طرف سے جب ملکہ سے محل میں داخل ہونے کے لئے کہا گیا۔ اور وہ محل کے اندر داخل ہونے لگی تو اس کی نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اس نے جب فرش پر قدم رکھا تو اس کو یوں محسوس ہوا کہ وہ کسی گہرے پانی کے حوض میں داخل ہو رہی ہے جس سے اس نے بے ساختہ اور غیر اختیاری طور پر اپنے پائنچے چڑھا لئے، تو اس وقت حضرت سلیمان نے اس سے کہا کہ یہ پانی کا حوض نہیں بلکہ یہ تو ایک محل ہے، اور اس کا یہ صحن اور فرش شیشے سے بنایا گیا ہے سو معلوم ہوتا ہے کہ اس محل کا صحن اور اس کا فرش شیشے کی دبیز تختیوں سے بنایا گیا تھا جن کے نیچے سے پانی بہہ رہا تھا جس سے دیکھنے والے کو یوں لگتا تھا کہ وہ کسی حوض میں اتر رہا ہے، سو حضرت سلیمان کے تعمیری کمال کا عالم یہ تھا کہ ملکہ سبا جیسی صاحب تاج و تخت شخصیت بھی اس فرش کو حوض سمجھ بیٹھی۔ اور اس سے بے ساختہ طور پر ایسی حرکت صادر ہو گئی۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اس کو ایسا منظر دیکھنے کا اتفاق زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا تھا۔

۲:  یعنی ملکہ نے جب حضرت سلیمان کے علم و حکمت اور ان کی اس شان و شوکت کو دیکھا تو وہ اس سے بیحد متأثر ہوئی، اور یہ دونوں چیزیں متأثر کرنے کے لائق تھیں بھی آخر ان دونوں شانوں کا یہ حسین اجتماع حضرت سلیمان کے سوا اور کہیں مل بھی کہاں اور کیسے سکتا تھا؟ سو وہ اس سے اتنی متاثر ہوئی کہ وہ بے اختیار و بے ساختہ پکار اٹھی کہ اے میرے رب میں نے واقعی اپنی جان پر بڑا ظلم ڈھایا، جو میں اب تک کفر و شرک میں مبتلا رہی۔ اور اپنی قومی رسوم و روایات کے بندھنوں میں الجھی اور پھنسی رہی سو اب میں اپنے آپ کو حضرت سلیمان کے ساتھ پروردگار عالم کے حوالے کرتی ہوں۔ سو ملکہ نے اس اعلان کے ذریعے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کر دیا اور اپنی حکومت و سلطنت کو حضرت سلیمان کی ماتحتی میں دے دیا۔ سو اس سے یہ اہم حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ شیش محل بھی اللہ کی نشانی اور ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے جس کے ساتھ حضرت سلیمان کی عبدیت و انابت اور شکر گزاری و وفاداری کا جمال شامل ہو۔ اس سے خلق خدا کو راہنمائی ملتی ہے اور نور حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، وہ آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے دلوں کو بصیرت بخشتا ہے، اور جس محل کے اندر یہ چیز نہ ہو وہ کبر و غرور کا نشان اور ظلمت خانہ ہوتا ہے اگرچہ دنیا اس کو قصر ابیض (White House) ہی کیوں نہ کہتی ہو۔ سو ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی کے بعد انسان کی ہر حالت خیر ہی خیر بن جاتی ہے اس کو دنیا ملے تو بھی، اور نہ ملے تو بھی، کہ دنیا ملے تو وہ اس پر حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، وعم نوالہ کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے خیر بن جاتی ہے، اور اگر دنیا نہ ملے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے جس سے وہ بھی اس کے لئے خیر بن جاتی ہے، سو اس طرح اس کی ہر حالت خیر ہی خیر بن جاتی ہے، جیسا کہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ سو انسان کی صلاح و فلاح، اور اس کی عزت و عظمت کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں سے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وہو العزیز الوہاب،

۵۲۔۔۔    سو قوم ثمود کے اس انجام میں بڑی بھاری نشانی ہے عبرت و بصیرت کی کہ جو لوگ حق کا انکار اور اس کی تکذیب کرتے ہیں وہ بالآخر تباہ و برباد اور ہلاک ہو کر رہتے ہیں، اور جب وہ اپنے ہولناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں تو اس وقت انکی دنیاوی ترقی اور مال و دولت ان کے کچھ بھی ان کے کام نہیں آ سکتا۔ لیکن یہ عبرت پذیری اور درسہائے بصیرت ان ہی لوگوں کے لئے ہیں جو درس لینا، اور عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، رہے وہ لوگ جو درس عبرت لینا چاہتے ہی نہیں۔ بلکہ سنے کو آن سنا کر دیتے ہیں اور سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی وہ اندھے کے اندھے ہی بنے رہتے ہیں، ان کے لئے اسے قصوں میں نہ کوئی درس ہے نہ ہو سکتا ہے اور ان کا دیکھنا حیوانوں کا دیکھنا بلکہ اس سے بھی بدتر اور باعث محرومی ہو کر رہ جاتا ہے، اور ان کے لئے انکی غفلت ہی میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم

۵۳۔۔۔     سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ نجات دھندہ سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے وہی جس کو چاہے مہالک و مخاوف سے بچا نکالے، اور دوسری اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نجات کا ذریعہ و وسیلہ ایمان و تقوی ہے پس جو لوگ ایمان و تقوی سے سرفراز ہونگے وہی نجات پا سکیں گے خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید۔

۵۶۔۔۔    سو یہ اس قوم کی محرومی اور بدبختی کی انتہاء تھی کہ اللہ کے پیغمبر کی بات ماننے کے بجائے الٹا ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی بستی ہی سے نکال باہر کرنے کا اعلان کر دیا، اور اس طرح انہوں نے گویا اپنی ہلاکت و تباہی اور اپنے ہولناک انجام پر خود انگوٹھا لگا دیا، کہ جب اس بستی سے ایسے پاکیزہ عناصر نکل جائیں گے تو پیچھے غلاظت اور گندگی کے وہ کیڑے ہی باقی رہ جائیں گے جن کا صفایا کر دینا ضروری ہوتا ہے، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا،

۵۷۔۔۔     سو اس سے ایک تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نجات دھندہ سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، حضرت لوط جیسے پیغمبر اور ان کے ساتھی بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج و منتظر ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے پیغمبر بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں ہو سکتے۔ تو پھر اور کوئی کس طرح حاجت روا و مشکل کشا ہو سکتا ہے؟ دوسری اہم بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے، کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو حضرت لوط کی بیوی اپنے کفر پر اڑی نہ رہتی۔ اور بالآخر وہ اس ہولناک انجام سے دوچار نہ ہوتی۔ سو مختار کل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ اسی کی شان ہے یَفْعَلُ مَایَشَاءُ ویَخْتَارُ۔ اس کی اس صفت و شان میں دوسری کوئی بھی ہستی نہ اس کی شریک ہے نہ ہو سکتی ہے تیسری اہم بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی نجات و فلاح کا اصل مدار و انحصار اس کے اپنے ایمان و عقیدہ پر ہے اگر انسان ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہو تو اس کو دوسرے کسی کا رشتہ و تعلق کام نہیں آ سکتا، خواہ وہ پیغمبر جیسی کسی عظیم الشان اور جلیل القدر ہستی ہی کا رشتہ و تعلق کیوں نہ ہو؟ اور وہ بھی زوجیت پیغمبر جیسا رشتہ، جو کہ ایسا عظیم الشان رشتہ ہے کہ اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں ہو سکتی، پس اصل چیز اپنا ایمان و عقیدہ، اور اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ و تعلق ہے، اور بس، وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ۔

۶۰۔۔۔    یعنی یَعْدِلُوْنَ کا لفظ یہاں پر عدول سے ماخوذ و مشتق ہے جس کے معنی سیدھی راہ سے عدل و انحراف کے ہوتے ہیں یعنی توحید اور خداوند قدوس کی وحدانیت و یکتائی کے یہ دلائل ایسے واضح ہیں کہ ان کے انکار کی نہ کوئی گنجائش ہے نہ ہو سکتی ہے اور انکی حقانیت اور صحت و صداقت کے یہ لوگ بھی قائل اور معترف ہیں، لیکن یہ چونکہ کج روا اور حق ناشناس لوگ ہیں۔ اس لئے یہ ان کھلے اور واضح دلائل کے باوجود شرک کا ارتکاب کرتے ہیں، اور اللہ وحدہٗ لاشریک کو چھوڑ کر دوسرے فرضی اور خود ساختہ معبودوں کی پوجا کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۶۱۔۔۔   بَحْرَین سے یہاں پر مراد جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات ہیں تصریح فرمائی گئی ہے، میٹھے اور کھاری پانی کو دو ذخیرے ہیں۔ اور ان دونوں کا وجود اس کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کی زندگی، اور ان کی بقاء کے لئے نہایت ضروری ہے، اور انسان اور حیوانات وغیرہ تمام مخلوقات کی زندگی اور بقاء اور ان کی ضروریات کی تحصیل و تکمیل ان دونوں سے وابستہ ہے سو میٹھے اور کھاری پانی کے وجود اور دونوں ذخیروں کی بقاء کا یہ پر حکمت نظام جو اس کائنات میں پایا جاتا ہے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت بے پایاں اس کی حکمت بے نہایت اور رحمت بے غایت کا ایک عظیم الشان نمونہ و مظہر ہے اس لئے اس سوال و استفہام سے انسانی قلب و ضمیر پر دستک دی گئی ہے کہ بھلا سوچو اور بتاؤ کہ آخر یہ کس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے جس نے زمین کے اس عظیم الشان گہوارے کو تمہارے لئے جائے قرار و سکون بنا دیا، اس کے اندر طرح طرح کے عظیم الشان دریا بہا دیئے اور اس کے اندر میٹھے اور کھاری پانی کے یہ دو عظیم الشان ذخیرہ رکھ دیئے جو تمہاری زندگی بود و باش، اور تمہاری صحت و بقاء کے لئے نہایت ضروری ہیں؟ اور ان دونوں کے درمیان اس قادرِ مطلق رب ذوالجلال نے ایک ایسی عظیم الشان آڑ بنا دی۔ جس کے نتیجے میں یہ دونوں آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے ورنہ اس کرہ ارضی پر تمہاری زندگی اور بود و باش ناممکن ہو جائے، سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک خالق کل، اور مالک مطلق جو کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی ہے، اور اس میں حاکم و متصرف بھی، پس وہی اور صرف وہی ہے معبود برحق، سبحانہ و تعالی،

۶۲۔۔۔   سو یہ سب بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی قدرت مطلقہ اس کی حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کے مختلف مظاہر ہیں، سو وہی ہے جو اپنی حکمت اور مشیت کے مطابق مضطر کی فریاد رسی کرتا ہے کبھی فوری اور شکل میں خالق کل، اور مالک مطلق وہ اس سے سوال اور فریاد کرتا ہے، اور کبھی اس کو کسی دوسرے موزوں اور مناسب وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہے اور کبھی اس کو اس کی دعا و سوال سے مختلف اور بہتر شکل میں فرماتا ہے، اور کبھی اس کو اس کی آخرت کے لئے ذخیرہ بنا دیتا ہے جبکہ وہ اس کی عنایات کا کہیں زیادہ محتاج ہو گا۔ سو فریاد رسی کی یہ مختلف شکلیں اسی کی مشیت و حکمت اور رحمت و عنایت کے تابع اور اس کے مطابق ہوتی ہیں، اور وہی ہے جو تم لوگوں کو ایک دوسرے کا وارث و جانشین بناتا ہے۔ ایک قوم کو ہٹا کر اس کی جگہ کسی دوسری قوم کو اس کا وارث و جانشین بنانے کا یہ عمل پیہم و مسلسل جو تم لوگ اس کائنات میں ہمیشہ دیکھتے ہو، یہ کسی بخت و اتفاق کا نتیجہ نہیں۔ اور نہ ہی یہ کسی اور کی کارستانی ہو سکتی ہے، بلکہ یہ سب کچھ اسی کی قدرت و حکمت کا نتیجہ اور اسی کے حکم و تصرف کا ثمرہ و مظہر ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور جب ان میں سے کسی بھی صفت و شان میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم آخر کس طرح ہو سکتا ہے؟ سو معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۶۵۔۔۔    اس آیت کریمہ میں نفی اور اثبات کے اسلوب حصر و قصر کے ساتھ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو بھی نہیں سو جس طرح لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے کلمات حصر و قصر کے ساتھ واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا معبود اور کوئی بھی نہیں، اسی طرح یہاں پر اس آیت کریمہ میں بھی لا اور اِلاَّ کے کلمات حصر و قصر کے ساتھ اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ عالم غیب بھی ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کوئی نہیں اور جس طرح کلمہ طیبہ میں ذاتی اور عطائی کی اہل بدعت کی خود ساختہ اور من گھڑت منطق کی کوئی گنجائش نہیں، اسی طرح اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے اس بدعی اور خانہ ساز منطق کے ذریعے عطائی علم غیب کے ثابت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، کہ اس میں پیغمبر کو صاف اور صریح طور پر اس حقیقت کے اعلان و اظہار کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان سے کہو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے ایک اللہ کے، اسی بناء پر حضرات اہل علم نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ عالم غیب صرف اللہ ہے اس کی دوسری صفات کی طرح اس کی اس صفت میں بھی اس کا شریک وسہیم نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے اور جتنا چاہے غیب کی باتوں کا علم عطا فرما دے جس کو قرآن حکیم مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ یعنی غیب کی کچھ خبروں سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن سب غیبوں کا علم اس نے نہ کسی کو عطا فرمایا ہے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی تھی، اور نہ ہو سکتی ہے اس لئے عالم الغیب کی صفت و شان اللہ تعالیٰ ہی کی صفت و شان اور اسی کا خاصہ ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں اس کی کئی جگہ اور مختلف طریقوں سے تصریح فرمائی گئی ہے کہ غیب کے سب خزانے اور اس کی چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں ان کو اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا، چنانچہ سورہ انعام میں اس بارہ نفی اور اثبات کے اسلوب حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ اسی کے لئے ہیں غیب کے خزانے اور غیب کی چابیاں جن کو اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا، ارشاد ہوتا ہے وَعِنْدَہ، مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا اِلاَّ ہُوَ الایٰۃ (الانعام۔۵٩) اور مَفاتح کے لفظ کے بارے میں حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ مَفْتح (بفتح میم) کی جمع بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی خزانے کے آتے ہیں، اور یہ مفتاح کی جمع بھی ہو سکتا ہے، یعنی بکسر میم جس کے معنی چابی اور کنجی کے آتے ہیں، سو غیب کے خزانے بھی سب اسی کے پاس ہیں، اور اس کی چابیاں بھی، پس غیب کو اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا، اور مفاتح الغیب کے بارے میں حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد وہ پانچ چیزیں ہیں جن کا ذکر سورہ لقمان کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے، ملاحظہ ہو سورہ لقمان آیت نمبر۳۴، سو سورہ لقمان کی اس آیت کریمہ ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں کے اندر کیا ہے، کسی جی کو پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کرے گا، اور کسی کو پتہ نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں آئے گی بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا پورا باخبر اس کے علاوہ قرآن حکیم نے دوسرے مختلف مقامات پر تمام انبیاء و رسل اور خود امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اس کی تصریح فرمائی ہے کہ وہ عالم غیب نہیں تھے ان کو غیب کا بس اتنا ہی علم دیا گیا ہے جو ان کے منصب نبوت و رسالت کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے ضروری تھا ان تصریحات کے بارے میں ملاحظہ ہو سورہ انعام آیت نمبر۵٠ الاعراف آیت نمبر۱٨۷، التوبۃ آیت نمبر۱٠۱ سورہ ہود آیت نمبر۳۱، سورہ احزاب آیت نمبر۶۳، سورہ احقاف آیت نمبر٩، سورہ تحریم آیت نمبر۳، اور سورہ جن آیت نمبر۲۶ تا۲٨ وغیرہ سو ان تمام تصریحات سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام عالم غیب نہیں تھے ان کو غیب کا بس وہی علم دیا گیا تھا جو ان کے منصب نبوت و رسالت کے تقاضوں کے لئے ضروری تھا اور بس، عالم غیب اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ ایک ایسی قطعی اور واضح حقیقت ہے جس کے بارے میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہو سکتی، اسی لئے صحیحین یعنی صحیح بخاری ومسلم جامع ترمذی سنن نسائی اور مسند امام احمد وغیرہ میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مروی ہے کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑے جھوٹ کا الزام لگایا (فَقد اعظم علی اللہ الفریۃ) پھر آپ نے اس کی تائید و تصدیق میں سورہ نمل کی یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ کہو کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور بخاری ومسلم وغیرہ کی اس مشہور حدیث میں جو حدیث جبرائیل کے نام سے مشہور ہے اس میں وارد ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال کیا گیا کہ مَتَی السَّاعَۃَ؟ یعنی قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا ما ماالمسؤل عنہا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل  یعنی اس کے بارے میں جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ سو ان آیات واحادیث کی روشنی میں اور ان تصریحات کے بعد اس حقیقت سے متعلق کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے، اور یہ کہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے اس میں اس کا کوئی بھی شریک وسہیم نہیں ہو سکتا، تعجب اور حیرت ہے ان لوگوں پر جو اس سب کے باوجود غیر اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھتے ہیں، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

۷۸۔۔۔    یعنی آج دنیا کے اس دارالامتحان میں جہاں کہ لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی ملی ہوئی ہے تمہارا رب ان کے اختلافات کا فیصلہ اپنی اس کتاب حکیم کے ذریعے کرنا چاہتا ہے جس کو اس نے ان کی ہدایت کے لئے اتارا ہے۔ اور جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق و تمیز کو پوری طرح واضح فرما دیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کو نہ مانا۔ اور یہ راہ حق و ہدایت کو اپنانے کے لئے تیار نہ ہوئے تو پھر کل آخرت کے یوم فصل کے آنے پر وہ ان کے درمیان اپنے حکم ناطق کے ذریعے ان کے بارے میں آخری اور عملی طور پر فیصلہ فرما دے گا۔ جس کے نتیجے میں ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتنا ہو گا، اور آخری کامل شکل میں بھگتنا ہو گا، سو اس وقت ایسے لوگ اپنے اس کفر و باطل پر افسوس کے مارے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے۔ مگر بے وقت کے اس پچھتاوے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، بجز ان کی آتش یاس وحسرت میں اضافے کے، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا،

۸۱۔۔۔    سو اس میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ آپ کی دعوت و تبلیغ کا کوئی قصور نہیں۔ بلکہ قصور سب کا سب خود ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اپنے آپ کو قوائے علم و ادراک سے محروم کر دیا ہے۔ اور دوسری طرف اس میں منکرین و معاندین کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے کہ یہ لوگ سنت خداوندی اور دستور الٰہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں کہ انہوں نے جب اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اللہ کے بخشے ہوئے قوائے علم و ادراک کو سماع اور قبول حق سے بند کر دیا۔ تو اس کے نتیجے میں اب ان کے یہ قوی ماؤف و معطل ہو گئے۔ اور تیسری طرف اس میں اس حقیقت سے بھی آگہی بخش دی گئی کہ حق و ہدایت کی دولت انہی لوگوں کو نصیب ہو سکتی ہے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان لاتا، اور حق کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہتے ہوں، ورنہ محرومی ہی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۸۶۔۔۔    سو شب و روز کی اس نہایت منظم و مربوط اور پُر حکمت آمدورفت میں بڑے عظیم الشان دلائل ہیں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت بے پایاں اس کی حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت و عنایت بے غایت کے، سبحانہ و تعالیٰ، اور ایسے عظیم الشان دلائل و عبر اور ایسی کھلی اور واضح نشانیاں جو انسان کے دل و دماغ کو روشن کر دینے والی ہیں، لیکن ان سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں، جو نور ایمان سے سرفراز و مالا مال ہوتے ہیں، یا جو ایمان لانا چاہتے ہیں سو ایسے لوگ شب و روز کی آمدورفت کے اس انتہائی پُر حکمت اور مربوط و منظم سلسلے میں غور و فکر سے کام لیکر اپنے خالق و مالک اور رب رحمان و رحیم کی معرفت سے سرشار و سرفراز ہوتے ہیں، اور اس طور پر کہ اس دنیا میں اور ان ابنائے دنیا کے درمیان رہتے ہوئے بھی وہ ایک ان دیکھی دنیا اور اس کی بے بہا نعمتوں اور لذتوں سے سرشار و سرفراز ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ ایمان سے محروم ان لوگوں کے لئے ان میں نہ کوئی درس ہے، نہ عبرت اور نہ کوئی نشانی ہے نہ دلیل جو نہ ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی ایمان لانا چاہتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ صرف بطن و فرج کی خواہشات ہی کے لئے جیتے، اور انہی کے لئے مرتے ہیں، اس لئے ان کا معاملہ تو حیوانوں جیسا بلکہ اس سے بھی کہیں بدتر ہے۔ سو غور و فکر سے کام لینے والے جب سلسلہ روز و شب میں دیکھتے ہیں تو ان کو اس میں اپنے خالق و مالک جَلَّ جَلَالُہ، کی قدرت و حکمت، اور اس کی رحمت و عنایت کے عظیم الشان نمونے اور مظہر نظر آتے ہیں کہ اس نے رات کو ایسا پُرسکون اور پُرکیف بنایا کہ اس کے بندے اس میں آرام و سکون کی گہری نیند سو سکیں۔ اور دن کو ایسا روشن بنایا کہ اس میں وہ اپنی معاش اور بود و باش کی ضروریات کا سامان کر سکیں، سبحانہ و تعالیٰ، فلہ الحمد ولہ الشکر

۸۸۔۔۔    سو اس سے قیامت کے اس یوم عظیم کے ہول شدید کی مزید تفصیل فرما دی گئی کہ اس دن دوسری چیزوں کے تو کہنے ہی کیا اس روز پہاڑوں جیسی عظیم الشان اور ٹھوس و مضبوط مخلوق کا حال بھی یہ ہو گا کہ وہ بظاہر ٹکے ہوئے اور جمے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن حقیقت میں وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہونگے، اور یہ اسی خدائے قادر و قیوم کی کاریگری کا نتیجہ اور اس کا نمونہ و مظہر ہو گا جس نے ہر چیز کو نہایت محکم و مضبوط پیدا کیا، سو جس نے ہر چیز کو نہایت محکم و مضبوط پیدا کیا وہی اپنی قدرت کا یہ کرشمہ بھی دکھائے گا کہ یہ دیو ہیکل پہاڑ جمے ہوئے بھی نظر آئیں گے مگر وہ فضاؤں میں اڑ رہے ہونگے، سو اس یوم عظیم میں اس کائنات کی اتھل پتھل، اور اس کی ہلچل کا حال یہ ہو گا۔ اور اللہ یقیناً اور پوری طرح تم لوگوں کے تمام کرتُوتوں سے واقف و آگاہ ہے، اس لئے اس یوم جزاء میں تم کو اپنے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا، پس ہر کوئی دیکھے اور اپنا محاسبہ خود کرے کہ وہ کل کے اس یوم حساب کے لئے کیا سامان کر رہا ہے وَلَتَنْظُرْ نَفّْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اللہ توفیق بخشے آمین۔

۹۰۔۔۔    سو اس سے اس یوم جزاء کے صلہ و بدلہ سے متعلق اصولی ضابطہ کی وضاحت فرما دی گئی کہ جو لوگ اس روز نیکی کی کمائی لے کر حاضر ہونگے، ان کے لئے بہترین صلہ و بدلہ بھی ہو گا، اور وہ اس کی ہولناک گھبراہٹ سے بھی امن و امان میں اور اس سے نچنت و بے فکر رہیں گے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ اس کے برعکس جو لوگ اس روز برائی کی کمائی لے کر حاضر ہونگے، والعیاذ باللہ، تو ان کو اوندھے منہ جہنم کی اس ہولناک آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ اور ان کی تذلیل و تحقیر مزید کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم لوگ خود دنیا میں کرتے رہے تھے، یعنی یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے تم پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں کیا گیا، پس اب تم اپنے کئے کرائے کا مزہ چکھو اور اس کا بھگتان خود بھگتو، والعیاذُ باللہ العظیم

۹۳۔۔۔    یعنی کہو کہ شکر و تعریف سب اس اللہ کے لئے ہے جس نے قرآن حکیم کی اس نعمت عظمیٰ کو مجھ پر نازل فرمایا اور میں اسے تم لوگوں کو سنا رہا ہوں۔ مگر تم اس کی ناقدری کرتے ہوئے مجھ سے نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہو سو عنقریب وہ وقت آ پہنچے گا جب وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھا دے گا۔ اور تم ان کو پہچان بھی لو گے اس وقت تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ میں نے تم کو کتنی سچی اور کس قدر حق باتیں بتائی تھیں۔ مگر تم نے ان کی قدر نہیں کی تھی اور اس وقت تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کسی نے تم کو اس ہولناک انجام سے آگاہ و خبردار کیا تھا، مگر تم نے اس کو جھٹلا کر اپنی یہ شامت بلائی۔ تب تم بڑے زور و شور سے اور چیخ چیخ کر اپنے ایمان و یقین کا اعلان کرو گے، مگر اس وقت کے اس ایمان کا تم لوگوں کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے تمہاری آتش یاس و حسرت میں اضافہ کے کیونکہ وہ وقت ایمان لانے کا نہیں ہو گا بلکہ اپنے کئے کرائے کا نتیجہ و ثمرہ اور اس کے بھگتان کے بھگتنے کا ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ وَقَالُوْا اٰمَنَّا بِہٖ وَاَنّیٰ لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ (فاطر۔ ۵۲) یعنی اس وقت تو ایسے لوگ چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے مگر اتنی دُور کی جگہ سے بھلا ایمان کی دولت کا ان کے ہاتھ لگنا کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا؟ اور اس حقیقت کو بھی تم لوگ یاد رکھو۔ اور اس کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھو کہ تمہارا رب ان کاموں سے غافل و بے خبر نہیں جو تم لوگ کرتے ہو سو ان کا بھگتان تم کو بہر حال بھگتنا ہو گا۔ وبہٰذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ النمل بعون اللہ تعالیٰ و توفیقہ جَلَّ وَعَلَا،