تفسیر عثمانی

سورة فَاطِر

۱ ۔۔۔     ۱: یعنی آسمان و زمین کو ابتداء عدم سے نکال کر وجود میں لایا، پہلے سے کوئی نمونہ اور تخلیق کا قانون موجود نہ تھا۔

۲: یعنی بعض فرشتے انبیاء کے پاس اللہ کا پیغام لاتے ہیں اور بعض دوسرے جسمانی و روحانی نظام کی تدبیر و تشکیل پر مامور ہیں۔ فالمدبرات امرا۔

۲: یعنی بعض فرشتوں کے دو بازو (یا دو پر) بعض کے تین بعض کے چار ہیں۔ ان بازوؤں اور پروں کی کیفیت کو اللہ ہی جانتا ہے یا جس نے دیکھے ہوں وہ کچھ بتلا سکیں۔

۳: یعنی اللہ تعالیٰ جس مخلوق میں جو عضو اور جو صفت چاہے اپنی حکمت کے موافق بڑھا دے۔ فرشتوں کے دو، تین، چار بازو (یا پر) اسی نے بنائے چاہے تو بعض فرشتوں کے چار سے زیادہ بنا دے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل کے چھ سو بازو (یا پر) ہیں۔ اور جاعل الملائکۃ رسلا سے یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کچھ ان وسائط کا محتاج ہے۔ ہرگز نہیں۔ وہ بذات خود ہر چیز پر قادر ہے۔ محض حکمت کی بناء پر یہ اسباب و وسائط کا سلسلہ قائم کیا ہے۔

۲ ۔۔۔       ۱: رحمت جسمانی ہو مثلاً بارش، روزی وغیرہ یا روحانی جیسے انزال کتب و ارسال رسل۔ غرض اللہ جب لوگوں پر اپنی رحمت کا دروازہ کھولے، کون ہے جو بند کر سکے۔

۲:  یعنی اپنی حکمت بالغہ کے موافق جو کچھ کرنا چاہے فورا کر گزرے ایسا زبردست ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔

۳ ۔۔۔   یعنی مانتے ہو کہ پیدا کرنا اور روزی کے سامان بہم پہنچا کر زندہ رکھنا سب اللہ کے قبضہ اور اختیار میں ہے۔ پھر معبودیت کا استحقاق کسی دوسرے کو کدھر سے ہو گیا جو خالق و رزاق حقیقی ہے وہ ہی معبود ہونا چاہیے۔

۴ ۔۔۔     یعنی اس قدر سمجھانے اور حجت تمام کرنے کے بعد یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلائیں تو غم نہ کیجئے۔ انبیاء سابقین کے ساتھ بھی یہ ہی برتاؤ ہوا ہے۔ کوئی انوکھی بات نہیں۔ متعصب اور ضدی لوگ کبھی اپنی ہٹ سے باز نہیں آئے۔ ایسوں کا معاملہ خدا کے حوالہ کیجئے۔ وہیں پہنچ کر سب باتوں کا فیصلہ ہو جائے گا۔

۶ ۔۔۔      یعنی قیامت آنی ہے اور یقیناً سب کو اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور فانی عیش و بہار پر نہ پھولو اور اس مشہور دغا باز شیطان کے دھوکہ میں مت آؤ۔ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے۔ کبھی اچھا مشورہ نہ دے گا۔ یہ ہی کوشش کرے گا کہ اپنے ساتھ تم کو بھی دوزخ میں پہنچا کر چھوڑے طرح طرح کی باتیں بنا کر خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرتا رہے گا۔ چاہیے کہ تم دشمن کو دشمن سمجھو اس کی بات نہ مانو۔ اس پر ثابت کر دو کہ ہم تیری مکاری کے جال میں پھنسنے والے نہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ تو دوستی کے لباس میں بھی دشمنی کرتا ہے۔

۸ ۔۔۔     یعنی شیطان نے جس کی نگاہ میں برے کام کو بھلا کر دکھایا۔ کیا وہ شخص اس کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے فضل سے بھلے برے کی تمیز رکھتا ہے۔ نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی سمجھتا ہے۔ جب دونوں برابر نہیں ہو سکتے تو انجام دونوں کا یکساں کیونکر ہو سکتا ہے۔ اور یہ خیال نہ کرو کہ کوئی آدمی دیکھتی آنکھوں برائی کو بھلائی کیونکر سمجھ لے گا۔ اللہ جس کو سوء استعداد اور سوء اختیار کی بناء پر بھٹکانا چاہے اس کی عقل اسی طرح اوندھی ہو جاتی ہے اور جس کو حسن استعداد اور حسن اختیار کی وجہ سے ہدایت پر لانا چاہے تب کسی شیطان کی طاقت نہیں جو اسے غلط راستے پر ڈال سکے یا الٹی بات سمجھا دے۔ بہرحال جو شخص شیطانی اغواء سے برائی کو بھلائی، بدی کو نیکی اور زہر کو تریاق سمجھ لے کیا اس کے سیدھے راستہ پر آنے کی کچھ توقع ہو سکتی ہے؟ جب نہیں ہو سکتی اور سلسلہ ہدایت و ضلالت کا سبب اللہ کی مشیت و حکمت کا تابع ہے۔ تو آپ ان معاندین کے غم میں اپنے کو کیوں گھلاتے ہیں، اس حسرت میں کہ یہ بدبخت اپنے فائدہ کی بات کو کیوں قبول نہیں کرتے۔ کیا آپ اپنی جان دے بیٹھیں گے۔ آپ ان کا قصہ ایک طرف کیجئے۔ اللہ ان کی سب کرتوت جانتا ہے۔ وہ خود ان کا بھگتان کر دے گا۔ آپ دلگیر و غمگین نہ ہوں۔

۹ ۔۔۔     اللہ کے حکم سے ہوائیں بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں اور جس ملک کا رقبہ مردہ پڑا تھا۔ یعنی کھیتی و سبزہ کچھ نہ تھا، چاروں طرف خاک اڑ رہی تھی، بارش کے پانی سے اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی مرے پیچھے جلا کر کھڑا کر دے گا۔ روایات میں ہے کہ جب اللہ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا۔ عرش کے نیچے سے ایک (خاص قسم کی) بارش ہو گی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے جیسے ظاہری بارش ہونے پر دانہ زمین سے اگ آتا ہے۔ مزید تفصیل روایات میں دیکھنی چاہیے۔

۱۰ ۔۔۔     کفار نے دوسرے معبود اس لیے ٹھہرائے تھے کہ اللہ کے ہاں ان کی عزت ہو گی۔ "واتخذو امن دون اللہ الہۃً لیکونوالہم عزا" (مریم، رکوع۵) اور بہت لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستانہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی عزت بنی رہے گی۔ "الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المومنین ایبتغون عندہم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعاً۔" (نساء، رکوع۲۰) اس قسم کے لوگوں کو بتلایا کہ جو شخص دنیا و آخرت کی عزت چاہے، چاہیے کہ اللہ سے طلب کرے کہ عزیز مطلق تو وہ ہے، اسی کی فرمانبرداری اور یادگاری سے اصلی عزت میسر آتی ہے۔ تمام عزتوں کا مالک وہی اکیلا ہے جس کسی کو عزت ملی یا ملے گی اسی کے خزانہ سے ملی ہے یا ملے گی۔ ف ۲    ستھرا کلام ہے ذکر اللہ، دعاء تلاوت القرآن، علم و نصیحت کی باتیں، یہ سب چیزیں بارگاہ رب العزت کی طرف چڑھتی ہیں اور قبول و اعتناء کی عزت حاصل کرتی ہیں۔ ف۳    ستھرے کلام (ذکر اللہ وغیرہ) کا ذاتی اقتضاء ہے اوپر چڑھنا۔ اس کے ساتھ دوسرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ اس کو سہارا دے کر اور زیادہ ابھارتے اور بلند کرتے رہتے ہیں۔ اچھے کلام کو بدون اچھے کاموں کے پوری رفعت شان حاصل نہیں ہوتی۔ بعض مفسرین نے "والعمل الصالح یرفعہ" کی ضمیروں کا مرجع بدل کر یہ معنی لیے ہیں کہ ستھرا کلام اچھے کام کو اونچا اور بلند کرتا ہے۔ یہ بھی درست ہے اور بعض نے رفع کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہے یعنی اللہ عمل صالح کو بلند کرتا اور معراج قبول پر پہنچاتا ہے۔ بہرحال غرض یہ ہے کہ بھلے کلام اور اچھلے کلام دونوں علو و رفعت کو چاہتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ سے عزت کا طالب ہو وہ ان چیزوں کے ذریعہ سے حاصل کرے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تمہارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں۔ جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر (پورا) غلبہ (حاصل) کریں گے۔ کفر دفع ہو گا، اسلام کو عزت ہو گی۔" مکاروں کے سبب داؤ گھات باطل اور بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔ ف۴    یعنی جو لوگ بری تدبیریں سوچتے اور حق کے خلاف داؤ گھات میں رہتے ہیں آخر ناکام ہو کر خسارہ اٹھائیں گے۔ دیکھو قریش نے "دارالندوہ" میں بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو قید کرنے یا وطن سے نکالنے کے مشورے کیے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ "جنگ بدر" کے مواقع پر وہ ہی لوگ وطن سے نکلے، مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے اور قلیب بدر میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیے گئے۔

۱۱ ۔۔۔       ۱: یعنی آدم کو مٹی سے پھر اس کی اولاد کو پانی کی بوند سے پیدا کیا۔ پھر مرد عورت کے جوڑے بنا دیے جس سے نسل پھیلی۔ اس درمیان میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک جو ادوار و اطوار گزرے سب کی خبر خدا ہی کو ہے۔ ماں باپ بھی نہیں جانتے کہ اندر کیا صورتیں پیش آئیں۔

۲: یعنی جس کی جتنی عمر ہے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور جو اسباب عمر کے گھٹنے بڑھنے کے ہیں یا یہ کہ کون عمر طبعی کو پہنچے گا کون نہیں، سب اللہ کے علم میں ہے اور اللہ کو ان جزئیات پر احاطہ رکھنا بندوں کی طرح کچھ مشکل نہیں۔ اس کو تو تمام مالکان و مایکون، جزئی، کلی، اور غیب و شہادت کا علم ازل سے حاصل ہے۔ اس کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ہر کام سہج سہج ہوتا ہے جیسے آدمی کا بننا" اور اپنی عمر مقدر کو پہنچنا۔ اس طرح سمجھ لو اسلام بتدریج بڑھے گا اور آخرکار کفر کو مغلوب و مقہور کر کے چھوڑے گا۔

۱۲ ۔۔۔     ۱: اوپر سے دلائل توحید اور شواہد قدرت بیان ہوتے آرہے ہیں۔ اسی کے ضمن میں لطیف اشارے اسلام کے غلبہ کی طرف بھی ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی کفر اور اسلام برابر نہیں۔ خدا کفر کو مغلوب ہی کرے گا اگرچہ تم کو دونوں سے فائدہ ملے گا۔ مسلمانوں سے قوت دین اور کافروں سے جزیہ خراج اور گوشت میٹھے کھاری دونوں دریاؤں سے نکلتا ہے یعنی مچھلی۔ اور گہنا (زیور) یعنی موتی، مونگا اور جواہر اکثر کھاری سے نکلتے ہیں۔"

۲:  اکثر بڑی بڑی تجارتیں جہازوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ان سے جو منافع حاصل ہو یہ ہی اللہ کا فضل ہے۔ ان تمام انعامات پر انسان کو چاہیے مالک کا شکر ادا کرے۔

۱۳ ۔۔۔     ۱: یہ مضمون پہلے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی رات دن کی طرح کبھی کفر غالب ہے کبھی اسلام۔ اور سورج چاند کی طرح ہر چیز کی مدت بندھی ہے۔ دیر سویر نہیں ہوتی۔" حق کا نمایاں غلبہ اپنے وقت پر ہو گا۔

۲:   یعنی جس کی صفات و شؤن اوپر بیان ہوئی حقیقت میں یہ ہے تمہارا سچا پروردگار اور کل زمین و آسمان کا بادشاہ۔ باقی جنہیں تم خدا قرار دے کر پکارتے ہو۔ وہ مسکین بادشاہ تو کیا ہوتے کھجور کی گٹھلی پر جو باریک جھلی سی ہوتی ہے اس کے بھی مالک نہیں۔

۱۴ ۔۔۔      ۱: یعنی جن معبودوں کا سہارا ڈھونڈتے ہو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور توجہ کرتے بھی تو کچھ کام نہ آ سکتے۔ بلکہ قیامت کے دن تمہاری مشرکانہ حرکات سے اعلانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے اور بجائے مددگار بننے کے دشمن ثابت ہوں گے۔

۲:   یعنی اللہ سے زیادہ احوال کو نجانے وہ ہی فرماتا ہے کہ یہ شریک غلط ہیں جو کچھ کام نہیں آ سکتے ایسے ٹھیک اور پکی باتیں اور کون بتلائے گا۔

۱۵ ۔۔۔     یعنی سب لوگ اسی اللہ کے محتاج ہیں جسے کسی کی احتیاج نہیں کیونکہ تمام خوبیاں اور کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ پس وہ ہی مستحق عبادات و استعانت کا ہوا۔

۱۷ ۔۔۔       یعنی تم نہ مانو تو وہ قادر ہے کہ تم کو ہٹا کر دوسری خلقت باد کر دے جو بہمہ وجوہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزار ہو، جیسے آسمانوں پر فرشتے اور ایسا کرنا اللہ کو کچھ مشکل نہیں، اور آخر میں ہر ایک اپنے نیک و بعد عمل کا بدلہ پائے تاکہ اس طرح اس کی تمامی صفات کا ظہور ہو۔

۱۸ ۔۔۔       ۱: یعنی نہ کوئی از خود دوسرے کا بوجھ اپنے سر رکھے گا کہ اس کے گناہ اپنے اوپر لے لے اور نہ دوسرے کے پکارنے پر اس کا کچھ ہاتھ بٹا سکے گا خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ سب کو نفسی نفسی پڑی ہو گی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت ہی سے بیڑا پار ہو گا۔

۲: یعنی آپ کے ڈرانے سے وہ ہی اپنا رویہ درست کر کے نفع اٹھائے گا جو خدا سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور ڈر کر اس کی بندگی میں لگا رہتا ہے جس کے دل میں خدا کا خوف ہی نہ ہو وہ ان دھمکیوں سے کیا متاثر ہو گا۔

۳:   یعنی آپ کی نصیحت سن کر جو شخص مان لے اور اپنا حال درست کر لے تو کچھ آپ پر یا خدا پر احسان نہیں بلکہ اسی کا فائدہ ہے اور یہ فائدہ پوری طرح اس وقت ظاہر ہو گا جب سب اللہ کے ہاں لوٹ کر جائیں گے۔

۲۲ ۔۔۔     یعنی مومن جس کو اللہ نے دل کی آنکھیں دی ہیں، حق کے اجالے اور وحی الٰہی کی روشنی میں بے کھٹکے راستہ قطع کرتا ہوا جنت کے باغوں اور رحمت الٰہی کے سایہ میں جا پہنچا ہے۔ کیا اس کی برابری وہ کافر کر سکے گا جو دل کا اندھا اوہام و ہواء کی اندھیریوں میں بھٹکتا ہوا جہنم کی آگ اور اس کی جھلس دینے والی لوؤں کی طرف بے تحاشا چلا جا رہا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسا ہو تو یوں سمجھو کہ مردہ اور زندہ برابر ہو گیا۔ فی الحقیقت مومن و کافر میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہے جو ایک زندہ تندرست آدمی اور مردہ لاش میں ہوتا ہے، اصل اور دائمی زندگی صرف روح ایمان سے ملتی ہے۔ بدون اس کے انسان کو ہزار مردوں سے بدتر مردہ سمجھنا چاہیے۔

۲۳ ۔۔۔     یعنی اللہ چاہے تو مردوں کو بھی سنا دے یہ قدرت اوروں کو نہیں۔ اسی طرح سمجھ لو کہ پیغمبر کا کام خبر پہنچانا اور بھلے برے سے آگاہ کر دینا ہے۔ کوئی مردہ دل کافر ان کی بات نہ سنے تو یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی سب خلق برابر نہیں جنہیں ایمان دینا ہے ان ہی کو ملے گا۔ تو بہتیری آرزو کرے تو کیا ہوتا ہے۔ اور یہ جو فرمایا۔ "نہ اندھیرا نہ اجالا" یعنی نہ اندھیرا برابر اجالے کے اور نہ اجالا برابر اندھیرے کے (یہ "لا" کی تکریر کا فائدہ بتلا دیا) اور فرمایا "تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو۔" حدیث میں آیا کہ مردوں سے سلام علیکم کرو۔ اور بہت جگہ مردوں کو خطاب کیا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ، وہ نہیں سنتا۔" یہ بحث پہلے سورہ "،نمل" کے آخر میں گزر چکی وہاں دیکھ لیا جائے۔

۲۴ ۔۔۔      ڈر سنانے والا خواہ نبی ہو یا نبی کا قائم مقام جو اس کی راہ کی طرف بلائے۔ اس کے متعلق سورہ "نمل" کے چوتھے رکوع میں کچھ لکھا جا چکا ہے۔

۲۵ ۔۔۔     یعنی روشن تعلیمات یا کھلے کھلے معجزات لے کر آئے۔ نیز ان میں سے بعض کو مختصر چھوٹے صحیفے دیے گئے بعض کو بڑی مفصل کتابیں۔

۲۶ ۔۔۔     یعنی جب تکذیب سے باز نہ آئے تو دیکھ لو انجام کیا ہوا وہ ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے۔

۲۷ ۔۔۔       ۱: یعنی قسم قسم کے میوے۔ پھر ایک قسم میں رنگ برنگ کے پھل پیدا کیے۔ ایک زمین، ایک پانی اور ایک ہوا سے اتنی مختلف چیزیں پیدا کرنا عجیب و غریب قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔

۲:    یعنی سفید بھی کئی درجے (کوئی بہت زیادہ سفید کوئی کم کوئی اس سے کم) اور سرخ بھی کئی درجے اور کالے بھجنگے یعنی بہت گہرے سیاہ کوے کے پر کی طرح۔

۲۸ ۔۔۔     ۱: یہ سب بیان ہے قدرت کی نیرنگیوں کا۔ پس جس طرح نباتات، جمادات، اور حیوانات میں رنگ برنگ کی مخلوق ہے، انسانوں میں بھی ہر ایک کی طرح جدا ہے۔ مومن اور کافر ایک دوسرا سا ہو جائے اور سب انسان ایک ہی رنگ اختیار کر لیں یہ کب ہو سکتا ہے۔ اس میں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دے دی کہ لوگوں کے اختلاف سے غمگین نہ ہوں۔

۲: یعنی بندوں میں نڈر بھی ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے بھی مگر ڈرتے وہ ہی ہیں جو اللہ کی عظمت و جلال، آخرت کے بقاء و دوام، اور دنیا کی بے ثباتی کو سمجھتے ہیں اور اپنے پروردگار کے احکام و ہدایات کا علم حاصل کر کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں۔ جس میں یہ سمجھ اور علم جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں وہ خدا سے ڈرے گا۔ جس میں خوف خدا نہیں وہ فی الحقیقت عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی سب آدمی ڈرانے والے نہیں۔ اللہ سے ڈرنا سمجھ والوں کی صفت ہے اور اللہ کا معاملہ بھی دو طرح ہے وہ زبردست بھی ہے کہ ہر خطا پر پکڑے، اور غفور بھی کہ گنہگار کو بخشے۔" پس دونوں حیثیت سے بندے کو ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ نفع و ضرر دونوں اسی کے قبضہ میں ہوئے تو جب چاہے نفع کو روک لے اور ضرر لاحق کر دے۔

۲۹ ۔۔۔     یعنی جو اللہ سے ڈر کر اس کی باتوں کو مانتے اور اس کی کتاب کو عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں نیز بدنی و مالی عبادات میں کوتاہی نہیں کرتے وہ حقیقت میں ایسے زبردست بیوپار کے امیدوار ہیں جس میں خسارے اور ٹوٹے کا کوئی احتمال نہیں۔ بلا شبہ جب خدا خود ان کے اعمال کا خریدار ہو تو اس امید میں یقیناً حق بجانب ہیں۔ نقصان کا اندیشہ کسی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ از سرتاپا نفع ہی نفع ہے۔

۳۰ ۔۔۔     یعنی بہت سے گناہ معاف فرماتا ہے اور تھوڑی سی طاعت کی قدر کرتا ہے اور ضابطہ سے جو ثواب ملنا چاہیے۔ بطور بخشش اس سے زیادہ دیتا ہے۔

۳۱ ۔۔۔      یعنی بندوں کے احوال کو خوب جانتا ہے۔ ٹھیک موقع پر یہ کتاب اتاری۔

۳۲ ۔۔۔     یعنی پیغمبر کے بعد اس کتاب کا وارث اس امت کو بنایا جو بحیثیت مجموعی تمام امتوں سے بہتر و برتر ہے۔ ہاں امت کے سب افراد یکساں نہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو باوجود ایمان صحیح کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں (یہ "ظالم لنفسہ" ہوئے) اور وہ بھی ہیں جو میانہ روی سے رہتے ہیں۔ نہ گناہوں میں منہمک، نہ بڑے بزرگ اور ولی۔ (انکو "مقتصدا" فرمایا) اور ایک وہ کامل بندے جو اللہ کے فضل و توفیق سے آگے بڑھ بڑھ کر نیکیاں سمیٹتے اور تحصیل کمال میں مقتصدین سے آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ مستحب چیزوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اور گناہ کے خوف سے مکروہ تنزیہی بلکہ بعض مباحات تک سے پرہیز کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی بزرگی اور فضیلت تو ان کو ہے۔ ویسے چنے ہوئے بندوں میں ایک حیثیت سے سب کو شمار کیا۔ کیونکہ درجہ بدرجہ بہشتی سب ہیں۔ گنہگار بھی اگر مومن ہے تو بہرحال کسی نہ کسی وقت ضرور جنت میں جائے گا۔ حدیث میں فرمایا کہ ہمارا گنہگار معاف ہے یعنی آخرکار معافی ملے گی۔ اور میانہ سلامت ہے اور آگے بڑھے۔ سو سب سے آگے بڑھے اللہ کریم ہے اس کے یہاں بخل نہیں۔

۳۳ ۔۔۔     سونا اور ریشم مسلمان مردوں کے لیے وہاں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کوئی (مرد) ریشمی (کپڑا) پہنے دنیا میں، نہ پہنے آخرت میں۔

۳۴ ۔۔۔       یعنی دنیا کا اور محشر کا غم دور کیا۔ گناہ بخشے اور از راہ قدر دانی طاقت قبول فرمائی۔

۳۵ ۔۔۔       حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "رہنے کا گھر اس سے پہلے کوئی نہ تھا ہر جگہ چل چلاؤ اور روزی کا غم، دشمنوں کا ڈر، اور رنج و مشقت، وہاں پہنچ کر سب کافور ہو گئے۔"

۳۶ ۔۔۔     نہ کفار کو جہنم میں موت آئے گی کہ اسی سے تکالیف کا خاتمہ ہو جائے اور نہ عذاب کی تکلیف کسی وقت ہلکی ہو گی۔ ایسے ناشکروں کی ہمارے یہاں یہ ہی سزا ہے۔

۳۷ ۔۔۔     ۱: یعنی اس وقت تو اسی کو بھلا سمجھتے تھے پر اب وہ کام نہ کریں گے۔ ذرا دوزخ سے نکال دیجئے تو ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں اور فرمانبردار بن کر حاضر ہوں۔

۲:   یہ جواب دوزخیوں کو دیا جائے گا۔ یعنی ہم نے تم کو عقل دی تھی۔ جس سے سمجھتے اور کافی عمر دی جس میں سوچنا چاہتے تو سب نیک و بد سوچ کر سیدھا راستہ اختیار کر سکتے تھے۔ حتیٰ کہ تم میں بہت سے تو ساٹھ ستر برس دنیا میں زندہ رہ کر مرے۔ پھر اوپر سے ایسے اشخاص اور حالات بھیجے جو برے انجام سے ڈراتے اور خواب غفلت سے بیدار کرتے رہے۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی عذر باقی رہا۔ اب بڑے عذاب کا مزہ چکھتے رہو اور کسی طرف سے مدد کی توقع نہ رکھو۔

۳۸ ۔۔۔     یعنی اسے بندوں کے سب کھلے چھپے احوال و افعال اور دلوں کے بھید معلوم ہیں۔ کسی کی نیت اور استعداد اس سے پوشیدہ نہیں اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ اب چلا رہے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو، پھر ایسی خطا نہ کریں گے، وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ اگر ستر دفعہ لوٹائے جائیں تب بھی شرارت سے باز نہیں آ سکتے۔ ان کے مزاجوں کی افتاد ہی ایسی ہے "ولوردوالعادو المانہوا عنہ و انہم لکاذبون" (انعام، رکوع۳)

۳۹ ۔۔۔     ۱: یعنی اگلی امتوں کی جگہ تم کو زمین پر آباد کیا اور ان کے بعد ریاست دی۔ چاہیے اب اس کا حق ادا کرو۔

۲: یعنی کفر و ناشکری اور اللہ کی آیات کے انکار سے اس کا کچھ نقصان نہیں۔ وہ ہماری حمد و شکر سے مستغنی ہے۔ البتہ ناشکری کرنے والے پر اس کے فعل کا وبال پڑتا ہے۔ کفر کا انجام بجز اس کے کچھ نہیں کہ اللہ کی طرف سے برابر ناراضی اور بیزاری بڑھتی جائے اور کافر کے نقصان و خسران میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے۔

۴۰ ۔۔۔       ۱: یعنی اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کا کون سا حصہ انہوں نے بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں تو آخر خدا کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔

۲:   یعنی عقل نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔

۳:  یعنی عقلی یا نفلی دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو شیطان کے اغوا سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ ہولاءِ شفعآؤنا عند اللہ (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے) اور اس کا قرب عطا کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکہ اور فریب ہے یہ تو کیا شفیع بنتے، بڑے سے بڑا مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔

۴۱ ۔۔۔     ۱: یعنی اسی کی قدرت کا ہاتھ ہے جو اتنے بڑے بڑے کرات عظام کو اپنے مرکز سے ہٹنے اور اپنے مقام و نظام سے ادھر ادھر سرکنے کے نہیں دیتا اور اگر بالفرض یہ چیزیں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو پھر بجز خدا کے کسی کی طاقت ہے کہ ان کو قابو میں رکھ سکے۔ چنانچہ قیامت میں جب یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ درہم برہم کرے گا، کوئی قوت اسے روک نہ سکے گی۔

۲:  یعنی لوگوں کے کفر و عصیان کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام ایک دم میں تہ و بالا کر دیا جائے گا لیکن اس کے تحمل و بردباری سے تھما ہوا ہے۔ اس کی بخشش نہ ہو تو سب دنیا ویران ہو جائے۔

۴۳ ۔۔۔     ۱: عرب کے لوگ جب سنتے کہ یہود وغیرہ دوسری قوموں نے اپنے نبیوں کی یوں نافرمانی کی تو کہتے کہ کبھی ہم میں ایک نبی آئے تو ہم ان قوموں سے بہتر نبی کی اطاعت و رفاقت کر کے دکھلائیں۔ جب اللہ نے نبی بھیجا جو سب نبیوں سے عظمت شان میں بڑھ کر ہے تو حق سے اور زیادہ بدکنے لگے۔ ان کا غرور تکبر کہاں اجازت دیتا کہ نبی کے سامنے گردن جھکائیں۔ رفاقت اور اطاعت اختیار کرنے کے بجائے عداوت پر کمر بستہ ہو گئے اور طرح طرح کی مکر و تدبیریں اور داؤ گھات شروع کر دیے مگر یاد رہے کہ برا داؤ خود داؤ کرنے والوں پر الٹے گا۔ گو چند روز عارضی طور پر اپنے دل میں خوش ہو لیں کہ ہم نے تدبیریں کر کے یوں نقصان پہنچا دیا، لیکن انجام کار دیکھ لیں گے کہ واقع میں نقصان عظیم کس کو اٹھانا پڑا۔ فرض کرو دنیا میں ٹل بھی گیا تو آخرت میں تو یقیناً یہ مشاہدہ ہو کر رہے گا۔

۲:   یعنی یہ اسی کے منتظر ہیں کہ جو گزشتہ مجرموں کے ساتھ معاملہ ہوا ان کے ساتھ بھی ہو۔ سو باز نہ آئے تو وہ ہی ہو کر رہے گا۔ اللہ کا جو دستور مجرموں کی نسبت سزا دینے کا رہا نہ وہ بدلنے والا ہے کہ بجائے سزا کے ایسے مجرموں پر انعام و اکرام ہونے لگے اور نہ ٹلنے والا کہ مجرم سے سزا ٹل کر غیر مجرم کو دے دی جائے۔

۴۴ ۔۔۔       یعنی بڑے بڑے زور آور مدعی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکے مثلاً عاد و ثمود وغیرہ۔ یہ بیچارے تو چیز کیا ہیں۔ خوب سمجھ لو کہ آسمان و زمین کی کوئی طاقت اللہ کو عاجز نہیں کر سکتی علم اس کا محیط اور قدرت اس کی کامل۔ پھر معاذ اللہ عاجز ہو تو کدھر سے ہو۔

۴۵ ۔۔۔       ۱: یعنی لوگ جو گناہ کماتے ہیں اگر ان میں سے ہر ہر جزئی پر گرفت شروع کر دے تو کوئی جاندار زمین میں باقی نہ رہے، نافرمان تو اپنی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کر دیے جائیں۔ اور کامل فرمانبردار جو عادۃً بہت تھوڑے ہوتے ہیں قلت کی وجہ سے اٹھا لیے جائیں۔ کیونکہ نظام عالم کچھ ایسے انداز پر قائم کیا گیا ہے کہ محض معدودے چند انسانوں کا یہاں بستے رہنا خلاف حکمت ہے۔ پھر جب انسان آباد نہ رہے تو حیوانات کا ہے کے لیے رکھے جائیں گے۔ ان کا وجود بلکہ تمام عالم ہستی تو اس حضرت انسان کے لیے ہے۔

۲:   یعنی ایک مقرر میعاد اور حد معین تک اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے کہ ہر ایک جرم پر فورا گرفت نہیں کرتا۔ جب وقت موعود آ جائے گا تو یاد رکھو سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔ کسی کا ایک ذرہ بھر برا یا بھلا عمل اس کے علم سے باہر نہیں۔ پس ہر ایک کا اپنے علم محیط کے موافق ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرما دے گا۔ نہ مجرم کہیں چھپ سکے نہ مطیع کا حق مارا جائے۔ "اللہم اجعلنا ممن یطیعک واغفرلنا ذنوبنا انک انت الغفور الرحیم۔" تم سورۃ "فاطر" بفضل اللہ ورحمۃ۔