خزائن العرفان

سورة فَاطِر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ فاطر مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، پینتالیس آیتیں، نو سو ستّر ۹۷۰ کلمے، تین ہزار ایک سو تیس حروف ہیں۔

(۱) سب خوبیاں اللہ کو جو آسمانوں اور زمین کا  بنانے   والا فرشتوں کو رسول کرنے  والا (ف ۲) جن کے  دو  دو  تین تین چار  چار  پر ہیں، بڑھاتا ہے  آفرینش (پیدائش) میں جو چاہے  (ف ۳) بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۲                 اپنے انبیاء کی طرف۔

۳                 فرشتوں میں اور ان کے سوا اور مخلوق میں۔

(۲) اللہ جو رحمت لوگوں کے  لیے  کھولے  (ف ۴) اس کا کوئی روکنے  والا نہیں، اور جو کچھ روک لے  تو اس کی روک کے  بعد اس کا کوئی چھوڑنے  والا نہیں، اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔

۴                 مثل بارش و رزق و صحت وغیرہ کے۔

(۳) اے  لوگو! اپنے  اوپر اللہ کا احسان یاد کرو (ف ۵) کیا  اللہ کے  سوا اور بھی کوئی خالق ہے  کہ آسمان اور زمین سے  (ف ۶) تمہیں روزی دے، اس کے  سوا کوئی معبود نہیں، تو تم کہاں اوندھے  جاتے  ہو (ف ۷)

۵                 کہ اس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، آسمان کو بغیر کسی ستون کے قائم کیا، اپنی راہ بتانے اور حق کی دعوت دینے کے لئے رسولوں کو بھیجا، رزق کے دروازے کھولے۔

۶                 مینہ برسا کر اور طرح طرح کے نباتات پیدا کر کے۔

۷                 اور یہ جانتے ہوئے کہ وہی خالِق و رازّق ہے ایمان و توحید سے کیوں پھرتے ہو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی کے لئے فرمایا جاتا ہے۔

(۴) اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں (ف ۸) تو بیشک تم سے  پہلے  کتنے  ہی رسول جھٹلائے  گئے  (ف ۹) اور سب کام اللہ ہی کی طرف سے  پھرتے  ہیں (ف ۱۰)

۸                 اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور تمہاری نبوّت و رسالت کو نہ مانیں اور توحید و بَعث و حساب اور عذاب کا انکار کریں۔

۹                 انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر فرمائیے،کُفّار کا انبیاء کے ساتھ قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے۔

۱۰               وہ جھٹلانے والوں کو سزا دے گا اور رسولوں کی مدد فرمائے گا۔

(۵) اے  لوگو! بیشک اللہ کا وعدہ سچ ہے  (ف ۱۱) تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے  دنیا کی زندگی، (ف ۱۲) اور ہرگز تمہیں اللہ کے  حکم پر فریب نہ دے  وہ بڑا فریبی (ف ۱۳)

۱۱               قیامت ضرور آنی ہے مرنے کے بعد ضرور اٹھنا ہے، اعمال کا حساب یقیناً ہو گا، ہر ایک کو اس کے کئے کی جزاء بے شک ملے گی۔

۱۲               کہ اس کی لذّتوں میں مشغول ہو کر آخرت کو بھول جاؤ۔

۱۳               یعنی شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال کر کہ گناہوں سے مزہ اٹھا لو اللہ تعالیٰ حلم فرمانے والا ہے وہ درگذر کرے گا، اللہ تعالیٰ بے شک حلم والا ہے لیکن شیطان کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ بندوں کو اس طرح توبہ و عملِ صالح سے روکتا ہے اور گناہ و معصیت پر جری کرتا ہے اس کے فریب سے ہوشیار رہو۔

(۶) بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے  تو تم بھی اسے  دشمن سمجھو (ف ۱۴)  وہ تو اپنے  گروہ کو (ف ۱۵) اسی لیے  بلاتا ہے  کہ دوزخیوں میں ہوں (ف ۱۶)

۱۴               اور اس کی اطاعت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی طاعت میں مشغول رہو۔

۱۵               یعنی اپنے متّبعین کو کُفر کی طرف۔

۱۶               اب شیطان کے متّبِعین اور اس کے مخالفین کا حال تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۷) کافروں کے  لیے  (ف ۱۷) سخت عذاب ہے، اور جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  (ف ۱۸) ان کے  لیے  بخشش  اور بڑا ثواب ہے۔

۱۷               جو شیطان کے گروہ میں سے ہیں۔

۱۸               اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اور اس کی راہ پر نہ چلے۔

(۸) تو کیا وہ جس کی نگاہ میں اس کا برا کام آراستہ کیا گیا کہ اس نے  اسے  بھلا سمجھا ہدایت والے  کی طرح ہو جائے  گا (ف ۱۹) اس لیے  اللہ گمراہ  کرتا ہے  جسے  چاہے  اور راہ دیتا ہے  جسے  چاہے، تو تمہاری جان ان پر  حسرتوں میں نہ جائے  (ف ۲۰) اللہ خوب جانتا ہے  جو کچھ وہ کرتے  ہیں۔

۱۹               ہر گز نہیں بُرے کام کو اچھا سمجھنے والا راہ یاب کی طرح کیا ہو سکتا ہے ؟ وہ اس بدکار سے بدرجہا بدتر ہے جو اپنے خراب عمل کو بُرا جانتا ہو اور حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہو۔ شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل وغیرہ مشرکینِ مکّہ کے حق میں نازل ہوئی جو اپنے شرک و کُفر جیسے قبیح افعال کو شیطان کے بہکانے اور بَھلا سمجھانے سے اچھا سمجھتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت اصحابِ بدعت و ہَوا کے حق میں نازل ہوئی جن میں روافض و خوارج وغیرہ داخل ہیں جو اپنی بد مذہبیوں کو اچھا جانتے ہیں اور انہیں کے زُمرہ میں داخل ہیں، تمام بد مذہب خواہ وہابی ہوں یا غیرِ مقلِد یا مرزائی یا چکڑالی اور کبیرہ گناہ والے جو اپنے گناہوں کو بُرا جانتے ہیں اور حلال نہیں سمجھتے اس میں داخل نہیں۔

۲۰               کہ افسوس وہ ایمان نہ لائے اور حق کو قبول کرنے سے محروم رہے۔ مراد یہ کہ آپ ان کے کُفر و ہلاکت کا غم نہ فرمائیں۔

(۹) اور اللہ ہے  جس نے   بھیجیں ہوائیں کہ بادل ابھارتی ہیں، پھر ہم اسے  کسی مردہ شہر کی طرف رواں کرتے  ہیں (ف ۲۱) تو اس کے  سبب ہم زمین کو زندہ فرماتے  ہیں اس کے  مرے  پیچھے  (ف ۲۲) یونہی حشر میں اٹھنا ہے  (ف ۲۳)

۲۱               جس میں سبزہ اور کھیتی نہیں اور خشک سالی سے وہاں کی زمین بے جان ہو گئی ہے۔

۲۲               اور اس کو سرسبز و شاداب کر دیتے ہیں اس سے ہماری قدرت ظاہر ہے۔

(۱۰) جسے  عزت کی چاہ ہو تو عزت تو سب اللہ کے  ہاتھ ہے  (ف ۲۴) اسی کی طرف چڑھتا ہے  پاکیزہ کلام (ف ۲۵) اور جو نیک کام سے  وہ اسے  بلند کرتا ہے  (ف ۲۶) اور وہ جو  برے  داؤں (ف ریب) کرتے  ہیں ان کے  لیے  سخت عذاب ہے  (ف ۲۷) اور انہیں کا مکر برباد ہو گا (ف ۲۸)

۲۳               سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ مُردے کس طرح زندہ فرمائے گا ؟ خَلق میں اس کی کوئی نشانی ہو تو ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ کیا تیرا کسی ایسے جنگل میں گذر ہوا ہے جو خشک سالی سے بے جان ہو گیا ہو اور وہاں سبزہ کا نام و نشان نہ رہا ہو پھر کبھی اسی جنگل میں گزر ہوا ہو اور اس کو ہرا بھرا لہلہاتا پایا ہو ؟ ان صحابہ نے عرض کیا بے شک ایسا دیکھا ہے حضور نے فرمایا ایسے ہی اللہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور خَلق میں یہ اس کی یہ نشانی ہے۔

۲۴               دنیا و آخرت میں وہی عزّت کا مالک ہے جسے چاہے عزّت دے تو جو عزّت کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ سے عزّت طلب کرے کیو نکہ ہر چیز اس کے مالک ہی سے طلب کی جاتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ربّ تبارک و تعالیٰ ہر روز فرماتا ہے جسے عزّتِ دارَین کی خواہش ہو چاہئے کہ وہ حضرت عزیز جَلَّتۡ عِزّ تُہ کی اطاعت کرے اور ذریعہ طلبِ عزّت کا ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں۔

۲۵               یعنی اس کے محلِّ قبول و رضا تک پہنچتا ہے اور پاکیزہ کلام سے مراد کلمۂ توحید و تسبیح و تحمید و تکبیر وغیرہ ہیں جیسا کہ حاکم و بیہقی نے روایت کیا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کلمۂ طیّب کی تفسیر ذکر سے فرمائی اور بعض مفسِّرین نے قرآن اور دعا بھی مراد لی ہے۔

۲۶               نیک کام سے مراد وہ عمل و عبادت ہے جو اخلاص سے ہو اور معنیٰ یہ ہیں کہ کلمۂ طیّبہ عمل کو بلند کرتا ہے کیونکہ عمل بے توحید و ایمان مقبول نہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ عملِ صالح کو اللہ تعالیٰ رفعتِ قبول عطا فرماتا ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ عملِ نیک عمل کرنے والے کا مرتبہ بلند کرتے ہیں تو جو عزّت چاہے اس کو لازم ہے کہ نیک عمل کرے۔

۲۷               مراد ان مَکَر کرنے والوں سے وہ قریش ہیں جنہوں نے دار النَّدوہ میں جمع ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت قید کرنے اور قتل کرنے اور جِلا وطن کرنے کے مشورہ کئے تھے جس کا تفصیلی بیان سورۂ انفال میں ہو چکا ہے۔

۲۸               اور وہ اپنے داؤں و فریب میں کامیاب نہ ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان کے شر سے محفوظ رہے اور انہوں نے اپنی مکّاریوں کی سزائیں پائیں کہ بدر میں قید بھی ہوئے، قتل بھی کئے گئے اور مکّہ مکرّمہ سے نکالے بھی گئے۔

(۱۱) اور اللہ نے  تمہیں بنایا  (ف ۲۹) مٹی سے  پھر (ف ۳۰) پانی کی بوند سے  پھر تمہیں کیا جوڑے  جوڑے  (ف ۳۱) اور کسی مادہ کو پیٹ نہیں رہتا  اور نہ وہ جتنی ہے  مگر اس کے  علم سے، اور جس بڑی عمر والے  کو عمر دی جائے  یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے  یہ سب ایک کتاب میں ہے  (ف ۳۲) بیشک یہ اللہ کو آسان ہے  (ف ۳۳)

۲۹               یعنی تمہاری اصل حضرت آدم علیہ السلام کو۔

۳۰               ان کی نسل کو۔

۲۱               مرد و عورت۔

۳۲               یعنی لوحِ محفوظ میں۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ معمّر وہ ہے جس کی عمر ساٹھ سال پہنچے اور کم عمر والا وہ جو اس سے قبل مر جائے۔

۳۳               یعنی عمل و اَجل کا مکتوب فرمانا۔

(۱۲)  اور دونوں سمندر  ایک سے  نہیں (ف ۳۴) یہ میٹھا ہے  خوب میٹھا پانی خوشگوار اور یہ کھاری ہے  تلخ اور ہر ایک میں سے  تم کھاتے  ہو تازہ گوشت (ف ۳۵) اور نکالتے  ہو پہننے  کا ایک گہنا (زیور)  (ف ۳۶) اور تو کشتیوں کو اس میں دیکھے  کہ پانی چیرتی ہیں (ف ۳۷) تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو (ف ۳۸) اور کسی طرح حق مانو (ف ۳۹)

۳۴               بلکہ دونوں میں فرق ہے۔

۳۵               یعنی مچھلی۔

۳۶               گوہر و مرجان۔

دریا میں چلتے ہوئے اور ایک ہی ہوا میں آتی بھی ہیں جاتی بھی ہیں۔

۳۸               تجارتوں میں نفع حاصل کر کے۔

۳۹               اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرو۔

(۱۳) رات لاتا ہے  دن کے  حصہ میں (ف ۴۰) اور دن لاتا ہے  رات کے  حصہ میں (ف ۴۱) اور اس نے  کام میں لگائے  سورج  اور چاند ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے  (ف ۴۲) یہ ہے  اللہ تمہارا رب اسی کی بادشاہی ہے، اور اس کے  سوا  جنہیں تم پوجتے  ہو (ف ۴۳)  دانہ خُرما کے  چھلکے  تک کے  مالک نہیں۔

۴۰               تو دن بڑھ جاتا ہے۔

تو رات بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھنے والی دن یا رات کی مقدار پندرہ گھنٹہ تک پہنچتی ہے اور گَھٹنے والا نو گھنٹے کا رہ جاتا ہے۔

یعنی روزِ قیامت تک کہ جب قیامت آ جائے گی تو ان کا چلنا موقوف ہو جائے گا اور یہ نظام باقی نہ رہے گا۔

یعنی بُت۔

(۱۴) تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں، (ف ۴۴) اور بالفرض سن بھی لیں تو تمہاری حاجت روانہ کر سکیں (ف ۴۵) اور قیامت کے  دن وہ تمہارے  شرک سے  منکر ہوں گے  (ف ۴۶) اور تجھے  کوئی نہ بتائے  گا اس بتانے  والے  کی طرح  (ف ۴۷)

۴۴               کیونکہ جماد بے جان ہیں۔

۴۵               کیونکہ اصلاً قدرت و اختیار نہیں رکھتے۔

۴۶               اور بیزاری کا اظہار کریں گے اور کہیں گے تم ہمیں نہ پُوجتے تھے۔

۴۷               یعنی دارَین کے احوال اور بُت پرستی کے مآل کی جیسی خبر اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔

(۱۵) اے  لوگو! تم سب اللہ کے  محتاج (ف ۴۸) اور اللہ ہی بے  نیاز ہے  سب خوبیوں سراہا۔

۴۸               یعنی اس کے فضل و احسان کے حاجت مند ہو اور تمام خَلق اس کی محتاج ہے۔ حضرت ذوالنّون نے فرمایا کہ خَلق ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اور کیوں نہ ہو گی ان کی ہستی اور ان کی بقا سب اس کے کرم سے ہے۔

(۱۶) وہ چاہے  تو تمہیں لے  جائے  (ف ۴۹) اور نئی مخلوق لے  آئے  (ف ۵۰)

۴۹               یعنی تمہیں معدوم کر دے کیونکہ وہ بے نیاز اور غنی بالذّات ہے۔

۵۰               بجائے تمہارے جو مطیع اور فرمانبردار ہو۔

(۱۷)  اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں۔

(۱۸) اور کوئی بوجھ اٹھانے  وا لی جان دوسرے  کا بوجھ نہ اٹھائے  گی (ف ۵۱) اور اگر کوئی بوجھ وا لی اپنا بوجھ بٹانے  کو کسی کو بلائے  تو اس کے  بوجھ میں سے  کوئی کچھ نہ اٹھائے  گا اگرچہ قریب رشتہ دار ہو (ف ۵۲) اے  محبوب! تمہارا  ڈر سناتا  انہیں کو کام دیتا ہے  جو بے  دیکھے  اپنے  رب! سے  ڈرتے  ہیں اور نماز قائم رکھتے  ہیں، اور جو ستھرا ہوا (ف ۵۳) تو اپنے  ہی بھلے  کو ستھرا ہوا  (ف ۵۴) اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے۔

۵۱               معنیٰ یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بار ہو گا جو اس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی البتہ جو گمراہ کرنے والے ہیں ان کے گمراہ کرنے سے جو لوگ گمراہ ہوئے ان کی تمام گمراہیوں کا بار ان گمراہوں پر بھی ہو گا اور ان گمراہ کرنے والوں پر بھی جیسا کہ کلامِ کریم میں ارشاد ہوا وَ لَیَحْمِلُنَّ اَ ثْقَالَھُمْ وَ اَ ثْقَالاً مَّعَ اَ ثْقَالھِمْ  اور درحقیقت یہ ان کی اپنی کمائی ہے دوسرے کی نہیں۔

۵۲               باپ یا ماں، بیٹا یا بھائی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ماں باپ بیٹے کو لپٹیں گے اور کہیں گے اے ہمارے بیٹے ہمارے کچھ گناہ اٹھا لے، وہ کہے گا میرے امکان میں نہیں میرا اپنا بار کیا کم ہے۔

۵۳               یعنی بدیوں سے بچا اور نیک عمل کئے۔

۵۴               اس نیکی کا نفع وہی پائے گا۔

(۱۹) اور برابر نہیں اندھا اور انکھیارا  (ف ۵۵)

۵۵               یعنی جاہل اور عالِم یا کافِر اور مومن۔

(۲۰) اور نہ اندھیریاں (ف ۵۶) اور اجالا (ف ۵۷)

۵۶               یعنی کُفر۔

۵۷               یعنی ایمان۔

(۲۱) اور نہ سایہ (ف ۵۸) اور نہ تیز دھوپ (ف ۵۹)

۵۸               یعنی حق یا جنّت۔

۵۹               یعنی باطل یا دوزخ۔

(۲۲)  اور برابر نہیں زندے  اور مردے  (ف ۶۰) بیشک اللہ سنا  تا ہے  جسے  چاہے  (ف ۶۱) اور تم نہیں سنانے  والے  انہیں جو قبروں میں پڑے  ہیں (ف ۶۲)

۶۰               یعنی مومنین اور کُفّار یا عُلَماء اور جھُّال۔

۶۱               یعنی جس کی ہدایت منظور ہو اس کو توفیق عطا فرماتا ہے۔

۶۲               یعنی کُفّار کو۔ اس آیت میں کُفّار کو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور پند پذیر نہیں ہوتے، بد انجام کُفّار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے۔ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کُفّار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سنتا ہے جس پر راہ یابی کا نفع مرتب ہو، رہا مُردوں کا سننا وہ احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اس مسئلہ کا بیان بیسویں پارے کے دوسرے رکوع میں گزرا۔

(۲۳) تم تو یہی ڈر سنانے  والے  ہو (ف ۶۳)

۶۳               تو اگر سننے والا آپ کے اِنذار پر کان رکھے اور بگوشِ قبول سنے تو نفع پائے اور اگر مصرِّین منکِرین میں سے ہو اور آپ کی نصیحت سے پند پذیر نہ ہو تو آپ کا کچھ حرج نہیں وہی محروم ہے۔

(۲۴) اے  محبوب! بیشک ہم نے  تمہیں حق کے  ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا  (ف ۶۴) اور ڈر سنا  تا (ف ۶۵) اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ایک ڈر سنانے  والا گزر چکا (ف ۶۶)

۶۴               ایمانداروں کو جنّت کی۔

۶۵               کافِروں کو عذاب۔

۶۶               خواہ وہ نبی ہو یا عالِمِ دین جو نبی کی طرف سے خَلقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے۔

(۲۵) اور اگر یہ (ف ۶۷) تمہیں جھٹلائیں تو ان سے  اگلے  بھی جھٹلا چکے  ہیں (ف ۶۸) ان کے  پاس ان کے  رسول آئے  روشن دلیلیں (ف ۶۹) اور صحیفے  اور چمکتی کتاب (ف ۷۰) لے  کر۔

۶۷               کُفّارِ مکّہ۔

۶۸               اپنے رسولوں کو، کُفّار کا قدیم سے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہی برتاؤ رہا ہے۔

۶۹               یعنی نبوّت پر دلالت کرنے والے معجزات۔

۷۰               توریت و انجیل و زبور۔

(۲۶) پھر میں نے  کافروں کو پکڑا  (ف ۷۱) تو کیسا ہوا میرا  انکار (ف ۷۲)

۷۱               طرح طرح کے عذابوں سے بسبب ان کی تکذیبوں کے۔

۷۲               میرا عذاب دینا۔

(۲۷) کیا تو نے  نہ دیکھا کہ اللہ نے  آسمان سے  پانی اتارا  (ف ۷۳) تو ہم نے  اس سے  پھل نکالے  رنگ برنگ (ف ۷۴) اور پہاڑوں میں راستے  ہیں سفید اور سرخ رنگ رنگ کے  اور کچھ کالے  بھوجنگ (سیاہ کالے )

۷۳               بارش نازل کی۔

۷۴               سبز، سرخ، زرد وغیرہ طرح طرح کے انار، سیب، انجیر، انگور، کھجور وغیرہ بے شمار۔

(۲۸) اور آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں کے  رنگ یونہی طرح طرح کے  ہیں (ف ۷۵) اللہ سے  اس کے  بندوں میں وہی ڈرتے  ہیں جو علم والے  ہیں (ف ۷۶) بیشک اللہ بخشنے  والا عزت والا ہے۔

۷۵               جیسے پھلوں اور پہاڑوں میں یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیتیں اور اپنے نشانہائے قدرت اور آثارِ صنعت جن سے اس کی ذات و صفات پر استدلال کیا جائے ذکر کئے، اس کے بعد فرمایا۔

۷۶               اور اس کے صفات جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں، جتنا علم زیادہ اتنا خوف زیادہ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جبروت اور اس کی عزّت و شان سے باخبر ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا قَسم اللہ عزَّوجلَّ کی کہ میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں۔

(۲۹) بیشک وہ جو اللہ کی کتاب پڑھتے  ہیں اور نماز قائم رکھتے  اور ہمارے  دیے  سے  کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے  ہیں پوشیدہ اور ظاہر  وہ ایسی تجارت کے  امیدوار ہیں (ف ۷۷) جس میں ہرگز  ٹوٹا (نقصان) نہیں۔

۷۷               یعنی ثواب کے۔

(۳۰) تاکہ ان کے  ثواب انہیں بھرپور دے  اور اپنے  فضل سے  اور زیادہ عطا کرے، بیشک وہ بخشنے  والا قدر فرمانے  والا ہے۔

(۳۱)  اور ہو کتاب جو ہم نے  تمہاری طرف وحی بھیجی (ف ۷۸) وہی حق ہے  اپنے  سے  اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ہوئی، بیشک اللہ اپنے  بندوں سے  خبردار دیکھنے  والا  ہے  (ف ۷۹)

۷۸               یعنی قرآنِ مجید۔

۷۹               اور ان کے ظاہر و باطن کا جاننے والا۔

(۳۲) پھر ہم نے  کتاب کا وارث کیا اپنے  چُنے  ہوئے  بندوں کو (ف ۸۰) تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرتا ہے   اور ان میں کوئی میانہ چال پر ہے، اور ان میں کوئی وہ ہے  جو اللہ کے  حکم سے  بھلائیوں میں سبقت لے  گیا (ف ۸۱) یہی بڑا فضل ہے۔

۸۰               یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اُمّت کو یہ کتاب عطا فرمائی جنہیں تمام اُمّتوں پر فضیلت دی اور سیدِ رُسُل صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی غلامی و نیاز مندی کی کرامت و شرافت سے مشرف فرمایا، اس اُمّت کے لوگ مختلف مدارج و مراتب رکھتے ہیں۔

۸۱               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ سبقت لے جانے والا مومنِ مخلص ہے اور مقتصد یعنی میانہ روی کرنے والا وہ جس کے عمل ریا سے ہوں اور ظالم سے مراد یہاں وہ ہے جو نعمتِ الٰہی کا منکِر تو نہ ہو لیکن شکر بجا نہ لائے۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ ہمارا سابق تو سابق ہی ہے اور مقتصد ناجی اور ظالم مغفور اور ایک اور حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا نیکیوں میں سبقت لے جانے والا جنّت میں بے حساب داخل ہو گا اور مقتصد سے حساب میں آسانی کی جائے گی اور ظالم مقامِ حساب میں روکا جائے گا اس کو پریشانی پیش آئے گی پھر جنّت میں داخل ہو گا۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ سابق عہدِ رسالت کے وہ مخلصین ہیں جن کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جنّت کی بشارت دی اور مقتصد وہ اصحاب ہیں جو آپ کے طریقہ پر عامل رہے اور ظالم لنفسہٖ ہم تم جیسے لوگ ہیں یہ کمالِ انکسار تھا۔ حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کہ اپنے آپ کو اس تیسرے طبقہ میں شمار فرمایا باوجود اس جلالتِ منزلت و رفعتِ درَجت کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی تھی اور بھی اس کی تفسیر میں بہت اقوال ہیں جو تفاسیر میں مفصلاً مذکور ہیں۔

(۳۳)  بسنے  کے  باغوں میں داخل ہوں گے  وہ  (ف ۸۲) ان میں سونے  کے  کنگن اور موتی پہنائے  جائیں گے  اور  وہاں ان کی پوشاک ریشمی ہے۔

۸۲               تینوں گروہ۔

(۳۴) اور کہیں گے  سب خوبیاں اللہ کو جس نے  ہمارا غم دور کیا (ف ۸۳) بیشک ہمارا رب بخشنے  والا قدر فرمانے  والا ہے  (ف ۸۴)

۸۳               اس غم سے مراد یا دوزخ کا غم ہے یا موت کا یا گناہوں کا یا طاعتوں کے غیرِ مقبول ہونے کا یا اہوالِ قیامت کا، غرض انہیں کوئی غم نہ ہو گا اور وہ اس پر اللہ کی حمد کریں گے۔

۸۴               کہ گناہوں کو بخشتا ہے اور طاعتیں قبول فرماتا ہے۔

(۳۵) وہ جس نے  ہمیں آرام کی جگہ اتارا  اپنے  فضل سے، ہمیں اس میں نہ کوئی تکلیف پہنچے  نہ ہمیں اس میں کوئی تکان لاحق ہو۔

(۳۶) اور جنہوں نے  کفر کیا ان کے  لیے  جہنم کی آگ ہے  نہ ان کی قضا  آئے  کہ مر جائیں (ف ۸۵) اور نہ ان پر اس کا (ف ۸۶) عذاب کچھ ہلکا کیا جائے، ہم ایسی ہی سزا دیتے  ہیں ہر بڑے  ناشکرے  کو۔

۸۵               اور مَر کر عذاب سے چھوٹ سکیں۔

۸۶               یعنی جہنّم کا۔

(۳۷)  اور وہ اس میں چلاتے  ہوں گے  (ف ۸۷) اے  ہمارے  رب! ہمیں نکال (ف ۸۸) کہ ہم اچھا کام کریں اس کے  خلاف جو پہلے  کرتے  تھے  (ف ۸۹) اور کیا ہم نے  تمہیں وہ عمر  نہ دی تھی جس میں سمجھ لیتا جسے  سمجھنا ہوتا اور ڈر سنانے  والا (ف ۹۰) تمہارے  پاس تشریف لایا تھا (ف ۹۱) تو اب چکھو (ف ۹۲) کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

۸۷               یعنی جہنّم میں چیختے اور فریاد کرتے ہوں گے کہ۔

۸۸               یعنی دوزخ سے نکال اور دنیا میں بھیج۔

۸۹               یعنی ہم بجائے کُفر کے ایمان لائیں اور بجائے معصیت و نافرمانی کے تیری اطاعت اور فرمانبرداری کریں، اس پر انہیں جواب دیا جائے گا۔

۹۰               یعنی رسولِ اکرم سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۹۱               تم نے اس رسولِ محترم کی دعوت قبول نہ کی اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری بجا نہ لائے۔

۹۲               عذاب کا مزہ۔

 (۳۸) بیشک اللہ جاننے  والا ہے  آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی بات کا، بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔

(۳۹) وہی ہے  جس نے  تمہیں زمین میں اگلوں کا جانشین کیا (ف ۹۳) تو جو کفر کرے  (ف ۹۴) اس کا کفر اسی پر پڑے  (ف ۹۵) اور کافروں کو ان کا کفر ان کے  رب کے  یہاں نہیں بڑھائے  گا مگر بیزاری (ف ۹۶) اور کافروں کو ان کا کفر نہ بڑھائے  گا مگر نقصان (ف ۹۷)

۹۳               اور ان کے املاک و مقبوضات کا مالک و متصرف بنایا اور ان کے منافع تمہارے لئے مباح کئے تاکہ تم ایمان و طاعت اختیار کر کے شکر گزاری کرو۔

۹۴               اور ان نعمتوں پر شکرِ الٰہی نہ بجا لائے۔

۹۵               یعنی اپنے کُفر کا وبال اسی کو برداشت کرنا پڑے گا۔

۹۶               یعنی غضبِ الٰہی۔

۹۷               آخرت میں۔

(۴۰) تم فرماؤ بھلا بتلاؤ تو اپنے  وہ شریک (ف ۹۸) جنہیں اللہ کے  سوا پوجتے  ہو  مجھے  دکھاؤ انہوں نے  زمین میں سے  کونسا حصہ بنایا یا آسمانوں میں کچھ ان کا ساجھا ہے  (ف ۹۹) یا ہم نے  انہیں کوئی کتاب دی ہے  کہ وہ اس کی روشن دلیلوں پر ہیں (ف ۱۰۰) بلکہ ظالم آپس میں ایک دوسرے  کو وعدہ نہیں دیتے  مگر فریب کا (ف ۱۰۱)

۹۸               یعنی بُت۔

۹۹               کہ آسمانوں کے بنانے میں انہیں کچھ دخل ہو کس سبب سے انہیں مستحقِ عبادت قرار دیتے ہو۔

۱۰۰             ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔

۱۰۱             کہ ان میں جو بہکانے والے ہیں وہ اپنے متّبِعین کو دھوکا دیتے ہیں اور بُتوں کی طرف سے انہیں باطل امیدیں دلاتے ہیں۔

(۴۱) بیشک اللہ روکے  ہوئے  ہے  آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں (ف ۱۰۲) اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے  اللہ کے  سوا، بیشک وہ علم بخشنے  والا ہے۔

۱۰۲             ورنہ آسمان و زمین کے درمیان شرک جیسی معصیت ہو تو آسمان و زمین کیسے قائم رہیں۔

(۴۲)  اور انہوں نے  اللہ کی قسم کھائی اپنی قسموں میں حد کی کوشش سے  کہ اگر ان کے  پاس کوئی ڈر سنانے  والا آیا تو وہ ضرور کسی نہ کسی گروہ سے  زیادہ راہ پر ہوں گے  (ف ۱۰۳) پھر جب ان کے  پاس ڈر سنانے  والا تشریف لایا (ف ۱۰۴) تو اس نے  انہیں نہ بڑھا مگر نفرت کرنا (ف ۱۰۵)

۱۰۳             نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت سے پہلے قریش نے یہود و نصاریٰ کے اپنے رسولوں کو نہ ماننے اور ان کو جھٹلانے کی نسبت کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آئے اور انہوں نے انہیں جھٹلایا اور نہ مانا، خدا کی قَسم اگر ہمارے پاس کوئی رسول آئے تو ہم ان سے زیادہ راہ پر ہوں گے اور اس رسول کو ماننے میں ان کے بہتر گروہ پر سبقت لے جائیں گے۔

۱۰۴             یعنی سیدُ المرسلین خاتمُ النّبیّین حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رونق افروزی و جلوہ آرائی ہوئی۔

۱۰۵             حق و ہدایت سے اور۔

(۴۳) اپنی جان کو زمین میں اونچا کھینچنا اور برا داؤں (ف ۱۰۶) اور برا داؤں (ف ریب) اپنے  چلنے  والے  ہی پر پڑتا ہے  (ف ۱۰۷) تو  کا ہے  کے  انتظار میں ہیں  مگر اسی کے  جو اگلوں کا دستور ہوا  (ف ۱۰۸) تو  تم ہرگز اللہ کے  دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے  اور ہرگز اللہ کے  قانون کو ٹلتا نہ پاؤ  گے۔

۱۰۶             بُرے داؤں سے مراد یا تو شرک و کُفر ہے اور یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ مَکَر و فریب کرنا۔

۱۰۷             یعنی مکّار پر چنانچہ فریب کاری کرنے والے بدر میں مارے گئے۔

۱۰۸             کہ انہوں نے تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے۔

(۴۴) اور کیا انہوں نے  زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے  ان سے  اگلوں کا کیسا انجام ہوا  (ف ۱۰۹) اور وہ ان سے  زور میں سخت تھے  (ف ۱۱۰) اور اللہ وہ نہیں جس کے  قابو سے   نکل سکے  کوئی شئے  آسمانوں اور نہ زمین میں، بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔

۱۰۹             یعنی کیا انہوں نے شام اور عراق اور یمن کے سفروں میں انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والوں کی ہلاکت و بربادی اور ان کے عذاب اور تباہی کے نشانات نہیں دیکھے کہ ان سے عبرت حاصل کرتے۔

۱۱۰             یعنی وہ تباہ شدہ قومیں ان اہلِ مکّہ سے زور و قوّت میں زیادہ تھیں باوجود اس کے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ عذاب سے بھاگ کر کہیں پناہ لے سکتیں۔

(۴۵) اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے  کیے  پر پکڑتا (ف ۱۱۱) تو زمین کی پیٹھ  پر کوئی چلنے  والا نہ چھوڑتا لیکن ایک مقرر میعاد (ف ۱۱۲) تک انہیں ڈھیل دیتا ہے  پھر جب ان کا وعدہ آئے  گا تو بیشک اللہ کے   سب بندے  اس کی نگاہ میں ہیں (ف ۱۱۳)

۱۱۱             یعنی ان کے معاصی پر۔

۱۱۲             یعنی روزِ قیامت۔

۱۱۳             انہیں ان کے اعمال کی جزا دے گا جو عذاب کے مستحق ہیں انہیں عذاب فرمائے گا اور جو لائقِ کرم ہیں ان پر رحم و کرم کرے گا۔