خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الزُّمَر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ زُمر مکّیہ ہے سوا آیت قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْاعَلیٰ اَنْفُسھِمْ اور آیت اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کے، اس سورت میں آٹھ ۸رکوع اور پچھتّر۷۵ آیتیں اور ایک ہزار ایک سو بہتّر۱۱۷۲ کلمے اور چار ہزار نو سو آٹھ۴۹۰۸ حرف ہیں۔

(۱) کتاب (ف ۲) اتارنا ہے  اللہ عزت و حکمت والے  کی طرف سے۔

۲                 کتاب سے مراد قرآن شریف ہے۔

(۲) بیشک ہم نے  تمہاری طرف (ف ۳) یہ کتاب حق کے  ساتھ اتاری تو اللہ کو کو پوجو نرے  اس کے  بندے  ہو کر۔

۳                 اے سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

(۳) ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے  (ف ۴) اور وہ جنہوں نے  اس کے  سوا  اور وا لی بنا لیے  (ف ۵) کہتے  ہیں ہم تو انہیں (ف ۶) صرف اتنی بات کے  لیے  پوجتے  ہیں کہ  یہ ہمیں اللہ کے  پاس نزدیک کر دیں، اللہ ان پر فیصلہ کر دے  گا اس بات کا جس میں اختلاف کر رہے  ہیں (ف ۷) بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے  جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو (ف ۸)

۴                 اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔

۵                 معبود ٹھہرا لئے۔ مراد ان سے بت پرست ہیں۔

۶                 یعنی بتوں کو۔

۷                 ایمان داروں کو جنّت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل فرما کر۔

۸                 جھوٹا اس بات میں کہ بتوں کو اﷲ تعالیٰ سے نزدیک کرنے والا بتائے اور خدا کے لئے اولاد ٹھہرائے اور ناشکر ایسا کہ بتوں کو پوجے۔

(۴) اللہ اپنے  لیے  بچہ بناتا تو اپنی مخلوق میں سے  جسے  چاہتا چن لیتا (ف ۹) پاکی ہے  اسے  (ف ۱۰) وہی ہے  ایک اللہ (ف ۱۱) سب پر غالب۔

۹                 یعنی اگر بالفرض اﷲ تعالیٰ کے لئے اولاد ممکن ہوتی تو وہ جسے چاہتا اولاد بناتا نہ کہ یہ تجویز کفّار پر چھوڑتا کہ وہ جسے چاہیں خدا کی اولاد قرار دیں۔ (معاذ اللہ)

۱۰               اولاد سے اور ہر اس چیز سے جو اس کی شانِ اقدس کے لائق نہیں۔

۱۱               نہ اس کا کوئی شریک نہ اس کی کوئی اولاد۔

(۵) اس نے  آسمان اور زمین حق بنائے  رات کو دن پر لپیٹتا ہے  اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے  (ف ۱۲) اور اس نے  سورج اور  چاند کو کام میں لگایا ہر ایک، ایک ٹھہرائی میعاد کے  لیے  چلتا ہے  (ف ۱۳) سنتا ہے  وہی صاحب عزت بخشنے  والا ہے۔

۱۲               یعنی کبھی رات کی تاریکی سے دن کے ایک حصّہ کو چھُپاتا ہے اور کبھی دن کی روشنی سے رات کے حصّہ کو، مراد یہ ہے کہ کبھی دن کا وقت گھٹا کر رات کو بڑھاتا ہے، کبھی رات گھٹا کر دن کو زیادہ کرتا ہے۔ اور رات اور دن میں سے گَھٹنے والا گَھٹتے گَھٹتے دس گھنٹہ کا رہ جاتا ہے اور بڑھنے والا بڑھتے چودہ گھنٹے کا ہو جاتا ہے۔

۱۳               یعنی قیامت تک وہ اپنے مقرر نظام پر چلتے رہیں گے۔

(۶) اس نے  تمہیں ایک جان سے  بنایا (ف ۱۴) پھر اسی سے  اس کا جوڑ پیدا کیا (ف ۱۵) اور تمہارے  لیے  چوپایوں میں سے  (ف ۱۶)  آٹھ جوڑے  تھے  (ف ۱۷) تمہیں تمہاری ماؤں کے  پیٹ میں بناتا ہے  ایک طرح کے  بعد اور طرح (ف ۱۸) تین اندھیریوں میں (ف ۱۹) یہ ہے  اللہ تمہارا رب اسی کی بادشاہی ہے، اس کے  سوا کسی کی بندگی نہیں، پھر کہیں پھیرے  جاتے  ہو (ف ۲۰)

۱۴               یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے۔

۱۵               یعنی حضرت حوّا کو۔

۱۶               یعنی اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ سے۔

۱۷               یعنی پیدا کئے جوڑوں سے، مراد نر اور مادّہ ہیں۔

۱۸               یعنی نطفہ پھر علقہ (خون بستہ) پھر مضغہ( گوشت پارہ )۔

۱۹               ایک اندھیری پیٹ کی دوسری رحم کی تیسری بچّہ دان کی۔

۲۰               اور طریقِ حق سے دور ہوتے ہو کہ اس کی عبادت چھوڑ کر غیر کی عبادت کرتے ہو۔

(۷) اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ بے  نیاز ہے  تم سے  (ف ۲۱) اور اپنے  بندوں کی ناشکری اسے  پسند نہیں، اور اگر شکر کرو تو اسے  تمہارے  لیے  پسند فرماتا ہے  (ف ۲۲) اور کوئی بوجھ اٹھانے  وا لی جان دوسرے  کا بوجھ نہیں اٹھائے  گی (ف ۲۳) پھر تمہیں اپنے  رب ہی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۲۴) تو وہ تمہیں بتا دے  گا جو تم کرتے  تھے  (ف ۲۵) بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔

۲۱               یعنی تمہاری طاعت و عبادت سے اور تم ہی اس کے محتاج ہو۔ ایمان لانے میں تمہارا ہی نفع اور کافر ہو جانے میں تمہارا ہی ضرر ہے۔

۲۲               کہ وہ تمہاری کامیابی کا سبب ہے اس پر تمہیں ثواب دے گا اور جنّت عطا فرمائے گا۔

۲۳               یعنی کوئی شخص دوسرے کے گناہ میں ماخوذ نہ ہو گا۔

۲۴               آخرت میں۔

۲۵               دنیا میں اور اس کی تمہیں جزا دے گا۔

(۸) اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے  (ف ۲۶) اپنے  رب کو پکارتا ہے  اسی طرف جھکا ہوا (ف ۲۷) پھر جب اللہ نے  اسے  اپنے  پاس سے  کوئی نعمت دی تو بھول جاتا ہے  جس لیے  پہلے  پکارا تھا (ف ۲۸) اور اللہ کے  برابر والے  ٹھہرانے  لگتا ہے  (ف ۲۹) تاکہ اس کی راہ سے  بہکا دے  تم فرماؤ (ف ۳۰) تھوڑے  دن اپنے  کفر کے  ساتھ برت لے  (ف ۳۱) بیشک تو دوزخیوں میں ہے۔

۲۶               یہاں آدمی سے مطلقاً کافر یا خاص ابوجہل یا عتبہ بن ربیعہ مراد ہے۔

۲۷               اسی سے فریاد کرتا ہے۔

۲۸               یعنی اس شدّت و تکلیف کو فراموش کر دیتا ہے جس کے لئے اللہ سے فریاد کی تھی۔

۲۹               یعنی حاجت بر آری کے بعد پھر بت پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

۳۰               اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کافر سے۔

۳۱               اور دنیا کی زندگی کے دن پورے کر لے۔

(۹) کیا وہ جسے  فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزریں سجود میں اور قیام میں (ف ۳۲)  آخرت سے  ڈرتا اور اپنے  رب کی رحمت کی آس لگائے  (ف ۳۳) کیا وہ نافرمانوں جیسا ہو جائے  گا تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے  والے  اور انجان، نصیحت تو وہی مانتے  ہیں جو عقل والے  ہیں۔

۳۲               شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں نازل ہوئی اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت ابنِ مسعود اور حضرت عمّار اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حق میں نازل ہوئی۔

فائدہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ رات کے نوافل و عبادت دن کے نوافل سے افضل ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رات کا عمل پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے وہ ریا سے بہت دور ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیا کے کاروبار بند ہوتے ہیں اس لئے قلب بہ نسبت دن کے بہت فارغ ہوتا ہے اور توجّہ الَی اللہ اور خشوع دن سے زیادہ رات میں میسّر آتا ہے۔ تیسرے رات چونکہ راحت و خواب کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس میں بیدار رہنا نفس کو بہت مشقّت و تعب میں ڈالتا ہے تو ثواب بھی اس کا زیادہ ہو گا۔

۳۳               اس سے ثابت ہوا کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ بین الخوف والرجاء ہو، اپنے عمل کی تقصیر پر نظر کر کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے، دنیا میں بالکل بے خوف ہونا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مطلقاً مایوس ہونا یہ دونوں قرآنِ کریم میں کفّار کی حالتیں بتائی گئی ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ فَلَایَاْمَنُ مَکْرَاللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الخٰسِرُوْنَ وَقَالَ تَعَالیٰ لَایَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ

(۱۰)  تم فرماؤ اے  میرے  بندو! جو ایمان لائے  اپنے  سے  ڈرو، جنہوں نے  بھلائی کی (ف ۳۴) ان کے  لیے  اس دنیا میں بھلائی ہے  (ف ۳۵) اور اللہ کی زمین وسیع ہے  (ف ۳۶) صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے  گا بے  گنتی (ف ۳۷)

۳۴               طاعت بجا لائے اور اچھے عمل کئے۔

۳۵               یعنی صحت و عافیت۔

۳۶               اس میں ہجرت کی ترغیب ہے کہ جس شہر میں معاصی کی کثرت ہو اور وہاں رہنے سے آدمی کو اپنی دینداری پر قائم رہنا دشوار ہو جائے چاہئے کہ اس جگہ کو چھوڑ دے اور وہاں سے ہجرت کر جائے۔

 شانِ نزول : یہ آیت مہاجرینِ حبشہ کے حق میں نازل ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب اور ان کے ہمراہیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مصیبتوں اور بلاؤں پر صبر کیا اور ہجرت کی اور اپنے دِین پر قائم رہے اس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔

۳۷               حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہر نیکی کرنے والے کی نیکیوں کا وزن کیا جائے گا سوائے صبر کرنے والوں کے کہ انہیں بے اندازہ اور بے حساب دیا جائے گا۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اصحابِ مصیبت و بَلا حاضر کئے جائیں گے نہ ا ن کے لئے میزان قائم کی جائے، نہ ان کے لئے دفتر کھولے جائیں ان پر اجرو ثواب کی بے حساب بارش ہو گی یہاں تک کہ دنیا میں عافیت کی زندگی بسر کرنے والے انہیں دیکھ کر آرزو کریں گے کہ کاش وہ اہلِ مصیبت میں سے ہوتے اور ان کے جسم قینچیوں سے کاٹے گئے ہوتے کہ آج یہ صبر کا اجر پاتے۔

 (۱۱) تم فرماؤ (ف ۳۸) مجھے  حکم ہے  کہ اللہ کو پوجوں نرا  اس کا بندہ ہو کر۔

۳۸               اے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

(۱۲) اور مجھے  حکم ہے  کہ میں سب سے  پہلے  گردن رکھوں (ف ۳۹)

۳۹               اور اہلِ طاعت و اخلاص میں مقدم و سابق ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اخلاص کا حکم دیا جو عملِ قلب ہے پھر اطاعت یعنی اعمالِ جوارح کا چونکہ احکامِ شرعیہ رسول سے حاصل ہوتے ہیں وہی انکے پہچانے والے ہیں تو وہ ان کے شروع کرنے میں سب سے مقدم اور اوّل ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دے کر تنبیہ کی کہ دوسروں پر اس کی پابندی نہایت ضروری ہے اور دوسروں کی ترغیب کے لئے نبی علیہ السلام کو یہ حکم دیا گیا۔

(۱۳) تم فرماؤ بالفرض اگر مجھ سے  نافرمانی ہو جائے  تو مجھے  اپنے  رب سے  ایک بڑے  دن کے  عذاب کا ڈر ہے  (ف ۴۰)

۴۰               شانِ نزول :کفّارِ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ آپ اپنی قوم کے سرداروں اور اپنے رشتہ داروں کو نہیں دیکھتے جو لات و عزّیٰ کی پرستش کرتے ہیں ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(۱۴) تم فرماؤ میں اللہ ہی کو پوجتا ہوں نرا  اس کا بندہ ہو کر۔

(۱۵)  تو تم اس کے  سوا جسے  چاہو  پوجو(ف ۴۱) تم فرماؤ پوری  ہار انہیں جو اپنی جان اور اپنے  گھر والے  قیامت کے  دن ہار بیٹھے  (ف ۴۲) ہاں ہاں یہی کھلی ہار ہے۔

یہ بہ طریقِ تہدید و توبیخ فرمایا۔

یعنی گمراہی اختیار کر کے ہمیشہ کے لئے مستحقِ جہنّم ہو گئے اور جنّت کی نعمتوں سے محروم ہو گئے جو ایمان لانے پر انہیں ملتیں۔

(۱۶)  ان کے  اوپر آگ کے  پہاڑ ہیں اور ان کے  نیچے  پہاڑ (ف ۴۳) اس سے  اللہ ڈراتا ہے  اپنے  بندوں (ف ۴۴) اے  میرے  بندو! تم مجھ سے  ڈرو (ف ۴۵)

یعنی ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔

۴۴               کہ ایمان لائیں اور ممنوعات سے بچیں۔

۴۵               وہ کام نہ کرو جو میری ناراضی کا سبب ہو۔

(۱۷) اور وہ جو بتوں کی پوجا سے  بچے  اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے  انہیں کے  لیے  خوشخبری ہے  تو خوشی سناؤ میرے  ان بندوں کو۔

(۱۸) جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے  بہتر پر چلیں (ف ۴۶) یہ ہیں جن کو اللہ نے  ہدایت فرمائی اور یہ ہیں جن کو عقل ہیں (ف ۴۷)

۴۶               جس میں ان کی بہبود ہو۔

۴۷               شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے تو آپ کے پاس حضرت عثمان اور عبدالرحمٰن ابنِ عوف اور طلحہ و زبیر و سعد بن ابی وقاص و سعید بن زید آئے اور ان سے حال دریافت کیا انہوں نے اپنے ایمان کی خبر دی یہ حضرات بھی سُن کر ایمان لے آئے ان کے حق میں یہ نازل ہوئی فَبَشِّرْعِبَادِیۡ الآیۃ۔

(۱۹)  تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی نجات والوں کے  برابر ہو جائے  گا تو کیا تم ہدایت دے  کر آگ کے  مستحق کو بچا لو گے  (ف ۴۸)

۴۸               جو ازلی بدبخت اور علمِ الٰہی میں جہنّمی ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد اس سے ابولہب اور اس کے لڑکے ہیں۔

(۲۰)  لیکن جو اپنے  رب سے  ڈرے  (ف ۴۹) ان کے  لیے  بالا خانے  ہیں ان پر بالا خانے  بنے  (ف ۵۰) ان کے  نیچے  نہریں بہیں، اللہ کا وعدہ،  اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا۔

۴۹               اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی۔

۵۰               یعنی جنّت کے منازلِ رفیعہ جن کے اوپر اور ارفع منازل ہیں۔

(۲۱) کیا تو نے  نہ دیکھا کہ اللہ نے  آسمان سے  پانی اتارا پھر اس سے   زمین میں چشمے  بنائے  پھر اس سے  کھیتی نکالتا ہے  کئی رنگت کی (ف ۵۱) پھر سوکھ جاتی ہے  تو تُو دیکھے  کہ وہ (ف ۵۲)  پیلی پڑ گئی پھر اسے  ریزہ ریزہ کر دیتا ہے، بیشک اس میں دھیان کی بات ہے  عقل مندوں کو (ف ۵۳)

۵۱               زرد، سبز، سرخ، سفید قِسم قِسم کی گیہوں، جَو اور طرح طرح کے غلّے۔

۵۲               سرسبز و شاداب ہونے کے بعد۔

۵۳               جو اس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت و قدرت پر دلیلیں قائم کرتے ہیں۔

(۲۲) تو کیا وہ جس کا  سینہ اللہ نے  اسلام کے  لیے  کھول دیا  (ف ۵۴) تو وہ اپنے  رب کی طرف سے  نور پر ہے  (ف ۵۵) اس جیسا ہو جائے  گا جو سنگدل ہے  تو خرابی ہے  ان کی جن کے  دل یادِ خدا کی طرف سے  سخت ہو گئے  ہیں (ف ۵۶) وہ کھلی گمراہی میں ہیں۔

۵۴               اور اس کو قبولِ حق کی توفیق عطا فرمائی۔

۵۵               یعنی یقین و ہدایت پر۔ الحدیث : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) سینہ کا کھُلنا کس طرح ہوتا ہے ؟ فرمایا کہ جب نور قلب میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھُلتا ہے اور اس میں وسعت ہوتی ہے صحابہ نے عرض کیا اس کی کیا علامت ہے ؟ فرمایا دار الخُلود کی طرف متوجّہ ہونا اور دار الغرور (دنیا )سے دور رہنا اور موت کے لئے اس کے آنے سے قبل آمادہ ہونا۔

۵۶               نفس جب خبیث ہوتا ہے تو قبولِ حق سے اس کو بہت دوری ہو جاتی ہے اور ذکر اللہ کے سننے سے اس کی سختی اور کدورت بڑھتی ہے جیسے کہ آفتاب کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی ذکر اللہ سے مومنین کے قلوب نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔ فائدہ : اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنا چاہئے جنہوں نے ذکر اللہ کو روکنا اپنا شعار بنا لیا ہے وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں، نمازوں کے بعد ذکر اللہ کرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں، اور ان ذکر کی محفلوں سے نہایت گھبراتے اور بھاگتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔

(۲۳) اللہ نے  اتاری سب سے  اچھی کتاب (ف ۵۷) کہ اول سے  آخر تک ایک سی ہے  (ف ۵۸) دوہرے  بیان وا لی (ف ۵۹) اس سے  بال کھڑے  ہوتے  ہیں ان کے  بدن پر جو اپنے  رب سے  ڈرتے  ہیں، پھر ان کی کھا لیں اور دل نرم پڑتے  ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں (ف ۶۰)  یہ اللہ کی  ہدایت ہے  راہ دکھائے  اس سے  جسے  چاہے، اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اسے  کوئی راہ دکھانے   والا نہیں۔

۵۷               قرآن شریف جو عبارت میں ایسا فصیح و بلیغ کہ کوئی کلام اس سے کچھ نسبت ہی نہیں رکھ سکتا، مضمون نہایت دل پذیر باوجود یہ کہ نہ نظم ہے نہ شِعر، نرالے ہی اسلوب پر ہے اور معنیٰ میں ایسا بلند مرتبہ کہ تمام علوم کا جامع اور معرفتِ الٰہی جیسی عظیم الشان نعمت کا رہنما۔

۵۸               حسن و خوبی میں۔

۵۹               کہ اس میں وعد کے ساتھ وعید اور امر کے ساتھ نہی اور اخبار کے ساتھ احکام ہیں۔

۶۰               حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ اولیاء اللہ کی صفت ہے کہ ذکرِ الٰہی سے ان کے بال کھڑے ہوتے جسم لرزتے ہیں اور دل چین پاتے ہیں۔

(۲۴) تو کیا وہ جو قیامت کے  دن برے  عذاب کی ڈھال نہ پائے  گا اپنے  چہرے  کے  سوا  (ف ۶۱) نجات والے  کی طرح  ہو جائے  گا (ف ۶۲) اور ظالموں سے  فرمایا جائے  گا اپنا کمایا چکھو (ف ۶۳)

۶۱               وہ کافر ہے جس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جائیں گے اور اس کی گردن میں گندھک کا ایک جلتا ہوا پہاڑ پڑا ہو گا جو اس کے چہرے کو بھونے ڈالتا ہو گا اس حال سے اوندھا کر کے آتشِ جہنّم میں گرایا جائے گا۔

۶۲               یعنی اس مومن کی طرح جو عذاب سے مامون و محفوظ ہو۔

۶۳               یعنی دنیا میں جو کفر، سرکشی اختیار کی تھی اب اس کا وبال و عذاب برداشت کرو۔

(۲۵) ان سے  اگلوں نے  جھٹلایا (ف ۶۴) تو انہیں عذاب آیا جہاں سے  انہیں خبر نہ تھی (ف ۶۵)

۶۴               یعنی کفّارِ مکّہ سے پہلے کافروں نے رسولوں کو جھٹلایا۔

۶۵               عذاب آنے کا خطرہ بھی نہ تھا غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔

(۲۶) اور اللہ نے  انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھایا (ف ۶۶) اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے  بڑا،  کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے  (ف ۶۷)

۶۶               کسی قوم کی صورتیں مسخ کیں، کسی کو زمین میں دھنسایا۔

۶۷               اور ایمان لے آتے تکذیب نہ کرتے۔

(۲۷) اور بیشک ہم نے  لوگوں کے  لیے  اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو (ف ۶۸)

۶۸               اور وہ نصیحت قبول کریں۔

(۲۸) عربی زبان کا قرآن (ف ۶۹) جس میں اصلاً  کجی نہیں (ف ۷۰) کہ کہیں وہ ڈریں (ف ۷۱)

۶۹               ایسا فصیح جس نے فصحاء و بلغاء کو عاجز کر دیا۔

۷۰               یعنی تناقص و اختلاف سے پاک۔

۷۱               اور کفر و تکذیب سے باز آئیں۔

(۲۹) اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے  (ف ۷۲) ایک غلام میں کئی بد خو آقا شریک اور ایک نرے  ایک مولیٰ کا، کیا  ان دونوں کا حال ایک سا ہے  (ف ۷۳) سب خوبیاں اللہ کو (ف ۷۴) بلکہ ان کے  اکثر نہیں جانتے  (ف ۷۵)

۷۲               مشرک اور موحِّد کی۔

۷۳               یعنی ایک جماعت کا غلام نہایت پریشان ہوتا ہے کہ ہر ایک آقا اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنے اپنے کام بتاتا ہے وہ حیران ہے کہ کس کا حکم بجا لائے اور کس طرح تمام آقاؤں کو راضی کرے اور خود اس غلام کو جب کوئی حاجت و ضرورت پیش ہو تو کس آقا سے کہے بخلاف اس غلام کے جس کا ایک ہی آقا ہو وہ اس کی خدمت کر کے اسے راضی کر سکتا ہے اور جب کوئی حاجت پیش آئے تو اسی سے عرض کر سکتا ہے اس کو کوئی پریشانی پیش نہیں آتی یہ حال مومن کا ہے جو ایک مالک کا بندہ ہے اسی کی عبادت کرتا ہے اور مشرک جماعت کے غلام کی طرح ہے کہ اس نے بہت سے معبود قرار دے دیئے ہیں۔

۷۴               جو اکیلا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۷۵               کہ اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں۔

(۳۰) بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے  اور ان کو بھی مرنا ہے  (ف ۷۶)

۷۶               اس میں کفّار کا رد ہے جو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی وفات کا انتظار کیا کرتے تھے انہیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے کفّار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے پھر انہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ اس پر بہت سی شرعی برہانیں قائم ہیں۔

(۳۱) پھر تم قیامت کے  دن اپنے  رب کے  پاس جھگڑو گے  (ف ۷۷)

۷۷               انبیاء امّت پر حجّت قائم کریں گے کہ انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور دِین کی دعوت دینے میں جُہدِ بلیغ صرف فرمائی اور کافر بے فائدہ معذرتیں پیش کریں گے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اختصامِ عام ہے کہ لوگ دنیوی حقوق میں مخاصمہ کریں گے اور ہر ایک اپنا حق طلب کرے گا۔

(۲۳) تو اس سے  بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے  (ف ۷۸) اور حق کو جھٹلائے  (ف ۷۹) جب اس کے  پاس آئے، کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانہ نہیں۔

۷۸               اور اس کے لئے شریک اور اولاد قرار دے۔

۷۹               یعنی قرآن شریف کو یا رسول علیہ السلام کی رسالت کو۔

(۳۳) اور وہ جو یہ سچ لے  کر تشریف لائے  (ف ۸۰) اور وہ جنہوں نے  ان کی تصدیق کی (ف ۸۱)

۸۰               یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جو توحیدِ الٰہی لائے۔

۸۱               یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا تمام مومنین۔

(۳۴) یہی ڈر والے  ہیں، ان کے  لیے  ہے،  جو وہ چاہیں اپنے  رب کے  پاس، نیکوں کا یہی صلہ ہے۔

(۳۵) تاکہ اللہ ان سے  اتار دے  برے  سے  برا کام جو انہوں نے  کیا اور انہیں ان کے  ثواب کا صلہ دے  اچھے  سے  اچھے  کام پر (ف ۸۲) جو وہ کرتے  تھے۔

۸۲               یعنی ان کی بدیوں پر گرفت نہ کرے اور نیکیوں کی بہترین جزا عطا فرمائے۔

(۳۶) کیا اللہ اپنے  بندے  کو کافی نہیں (ف ۸۳) اور تمہیں ڈراتے  ہیں اس کے  سوا اوروں سے  (ف ۸۴) اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اس کی کوئی ہدایت کرنے  والا نہیں۔

۸۳               یعنی سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے لئے اور ایک قرأت میں عِبَادَہٗ بھی آیا ہے اس صورت میں انبیاء علیہم السلام مراد ہیں جن کے ساتھ ان کی قوموں نے ایذا رسانی کے ارادے کئے اللہ تعالیٰ نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی کفایت فرمائی۔

۸۴               یعنی بتوں سے۔ واقعہ یہ تھا کہ کفّارِ عرب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ڈرانا چاہا اور آپ سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں یعنی بتوں کی برائی بیان کرنے سے باز آئیے ورنہ وہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے ہلاک کر دیں گے یا عقل کو فاسد کر دیں گے۔

(۳۷)  اور جسے  اللہ ہدایت دے  اسے  کوئی بہکانے  والا نہیں،  کیا اللہ عزت والا بدلہ  لینے  والا نہیں (ف ۸۵)

۸۵               بے شک وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے۔

(۳۸) اور  اگر تم ان سے  پوچھو آسمان اور زمین کس نے  بنائے  تو ضرور کہیں گے  اللہ نے  (ف ۸۶) تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو وہ جنہیں تم اللہ کے  سوا پوجتے  ہو (ف ۸۷) اگر اللہ مجھے  کوئی تکلیف پہنچانا چاہے  (ف ۸۸) تو کیا وہ اس کی بھیجی تکلیف ٹال دیں گے  یا وہ مجھ پر مہر (رحم) فرمانا چاہے  تو کیا وہ اس کی مہر کو روک رکھیں گے  (ف ۸۹) تم فرماؤ اللہ مجھے  بس ہے  (ف ۹۰) بھروسے  والے  اس پر بھروسہ کریں۔

۸۶               یعنی یہ مشرکین خدائے قادر، علیم، حکیم کی ہستی کے تو مقِر ہیں اور یہ بات تمام خَلق کے نزدیک مسلّم ہے اور خَلق کی فطرت اس کی شاہد ہے اور جو شخص آسمان و زمین کے عجائب میں نظر کرے اس کو یقینی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ موجودات ایک قادرِ حکیم کی بنائی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان مشرکین پر حجّت قائم کیجئے چنانچہ فرماتا ہے۔

۸۷               یعنی بتوں کو یہ بھی تو دیکھو کہ وہ کچھ بھی قدرت رکھتے ہیں اور کسی کام بھی آ سکتے ہیں ؟

۸۸               کسی طرح کی مرض کی یا قحط کی یا ناداری کی یا اور کوئی۔

۸۹               جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرکین سے یہ سوال فرمایا تو وہ لاجواب ہوئے اور ساکت رہ گئے اب حجّت تمام ہو گئی اور ان کے سکوتی اقرار سے ثابت ہو گیا کہ بت محض بے قدرت ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ کچھ ضرر ان کی عبادت کرنا نہایت ہی جہالت ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ارشاد فرمایا۔

(۳۹) تم فرماؤ، اے  میری قوم! اپنی جگہ کام کیے  جاؤ (ف ۹۱) میں اپنا کام کرتا ہوں (ف ۹۲) تو آگے  جان جاؤ گے، (۴۰)  کس پر آتا ہے  وہ عذاب کہ اسے  رسوا کرے  گا (ف ۹۳) اور کس پر اترتا ہے  عذاب کہ رہ پڑے  گا (ف ۹۴)

۹۰               میرا اسی پر بھروسہ ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا تم جو مجھے بت جیسی بے قدرت و بے اختیار چیزوں سے ڈراتے ہو یہ تمہاری نہایت ہی بے وقوفی و جہالت ہے۔

۹۱               اور جو جو مَکَر و حیلے تم سے ہو سکیں میری عداوت میں سب ہی کر گزرو۔

۹۲               جس پر مامور ہوں۔ یعنی دِین کا قائم کرنا اور اللہ تعالیٰ میر امُعِین و ناصر ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے۔

۹۳               چنانچہ روزِ بدر و ہ رسوائی کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔

۹۴               یعنی دائم ہو گا اور وہ عذابِ جہنّم ہے۔

(۴۱) بیشک ہم نے  تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کو حق کے  ساتھ اتاری (ف ۹۵) تو جس نے  راہ پائی تو  اپنے  بھلے  کو (ف ۹۶) اور جو بہکا وہ اپنے  ہی برے  کو بہکا (ف ۹۷) اور تم کچھ ان کے  ذمہ دار نہیں (ف ۹۸)

۹۵               تاکہ اس سے ہدایت حاصل کریں۔

۹۶               کہ اس راہ یابی کا نفع وہی پائے گا۔

۹۷               اس کی گمراہی کا ضرر اور وبال اسی پر پڑے گا۔

۹۸               تم سے ان کی تقصیر کا مؤاخذہ نہ ہو گا۔

(۴۲)  اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے  ان کی موت کے  وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے  سوتے  میں  پھر جس پر موت کا حکم فرما دیا اسے  روک رکھتا ہے  (ف ۹۹) اور دوسری (ف ۱۰۰) ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے  (ف ۱۰۱) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں سوچنے  والوں کے  لیے  (ف ۱۰۲)

۹۹               یعنی اس جان کو اس کے جسم کی طرف واپس نہیں کرتا۔

۱۰۰             جس کی موت مقدر نہیں فرمائی اس کو۔

۱۰۱             یعنی اس کی موت کے وقت تک۔

۱۰۲             جو سوچیں اور سمجھیں کہ جو اس پر قادر ہے وہ ضرور مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔

(۴۳) کیا انہوں نے  اللہ کے  مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے  ہیں (ف ۱۰۳) تم فرماؤ کیا اگرچہ وہ کسی چیز کے  مالک نہ ہوں (ف ۱۰۴) اور نہ عقل رکھیں۔

۱۰۳             یعنی بت جن کی نسبت وہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے شفیع ہیں۔

۱۰۴             نہ شفاعت کے نہ اور کسی چیز کے۔

(۴۴) تم فرماؤ شفاعت تو سب اللہ کے  ہاتھ میں ہے  (ف ۱۰۵) اسی کے  لیے  ہے  آسمانوں اور زمین کی بادشاہی، پھر تمہیں اسی کی طرف پلٹنا ہے  (ف ۱۰۶)

۱۰۵             جو اس کا ماذون ہو وہی شفاعت کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے شفاعت کا اذن دیتا ہے بتوں کو اس نے شفیع نہیں بنایا اور عبادت تو خدا کے سوا کسی کی بھی جائز نہیں شفیع ہو یا نہ ہو۔

۱۰۶             آخرت میں۔

(۴۵) اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے  دل سمٹ جاتے  ہیں ان کے  جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے  (ف ۱۰۷) اور جب اس کے  سوا اوروں کا ذکر ہوتا ہے  (ف ۱۰۸) جبھی وہ خوشیاں مناتے  ہیں۔

۱۰۷             اور وہ بہت تنگ دل اور پریشان ہوتے ہیں اور ناگواری کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر ہو جاتا ہے۔

۱۰۸             یعنی بتوں کا۔

(۴۶) تم عرض کرو اے  اللہ!  آسمانوں اور زمین کے  پیدا کرنے  والے  نہاں اور عیاں کے  جاننے  والے  تو اپنے  بندوں میں فیصلہ فرمائے  گا جس میں وہ اختلاف رکھتے  تھے  (ف ۱۰۹)

۱۰۹             یعنی امرِ دِین میں۔ ابنِ مسیّب سے منقول ہے کہ یہ آیت پڑھ کر جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔

(۴۷) اور اگر ظالموں کے  لیے  ہوتا جو کچھ زمین میں ہے  سب اور اس کے  ساتھ اس جیسا (ف ۱۱۰) تو یہ سب چھڑائی (چھڑانے ) میں دیتے  روز  قیامت کے  بڑے  عذاب سے  (ف ۱۱۱) اور انہیں اللہ کی طرف سے  وہ بات ظاہر ہوئی جو ان کے  خیال میں نہ تھی (ف ۱۱۲)

۱۱۰             یعنی اگر بالفرض کافر تمام دنیا کے اموال و ذخائر کے مالک ہوتے اور اتنا ہی اور بھی ان کے مِلک میں ہوتا۔

۱۱۱             کہ کسی طرح یہ اموال دے کر انہیں اس عذابِ عظیم سے رہائی مل جائے۔

۱۱۲             یعنی ایسے ایسے عذابِ شدید جن کا انہیں خیال بھی نہ تھا اور اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گمان کرتے ہوں گے کہ ان کے پاس نیکیاں ہیں اور جب نامۂ اعمال کھُلیں گے تو بدیاں ظاہر ہوں گی۔

(۴۸) اور ان پر اپنی کمائی ہوئی برائیاں کھل گئیں (ف ۱۱۳) اور ان پر آ پڑا وہ جس کی ہنسی بناتے  تھے  (ف ۱۱۴)

۱۱۳             جو انہوں نے دنیا میں کی تھیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کے دوستوں پر ظلم کرنا وغیرہ۔

۱۱۴             یعنی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خبر دینے پر وہ جس عذاب کی ہنسی بنایا کرتے تھے وہ نازل ہو گیا اور اس میں گھِر گئے۔

(۴۹) پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے  تو ہمیں بلاتا ہے  پھر جب اسے  ہم اپنے  پاس سے  کوئی نعمت عطا فرمائیں کہتا ہے  یہ تو مجھے  ایک علم کی بدولت ملی ہے   (ف ۱۱۵) بلکہ وہ تو آزمائش ہے  (ف ۱۱۶) مگر ان میں بہتوں کو علم نہیں (ف ۱۱۷)

۱۱۵             یعنی میں معاش کا جو علم رکھتا ہوں اس کے ذریعہ سے میں نے یہ دولت کمائی جیسا کہ قارون نے کہا تھا۔

۱۱۶             یعنی یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش و امتحان ہے کہ بندہ اسی پر شکر کرتا ہے یا ناشکری۔

۱۱۷             کہ یہ نعمت و عطا استدراج و امتحان ہے۔

(۵۰) ان سے  اگلے  بھی ایسے  ہی کہہ چکے  (ف ۱۱۸) تو ان کا کمایا ان کے  کچھ کام نہ آیا۔

۱۱۸             یعنی یہ بات قارون نے بھی کہی تھی کہ یہ دولت مجھے اپنے علم کی بدولت ملی اور اس کی قوم اس کی اس بے ہودہ گوئی پر راضی رہی تھی تو وہ بھی قائلوں میں شمار ہوئی۔

(۵۱) تو ان پر پڑ گئیں ان کی کمائیوں کی برائیاں (ف ۱۱۹) اور وہ جو ان میں ظالم عنقریب ان پر پڑیں گی ان کی کمائیوں کی برائیاں اور وہ قابو سے  نہیں نکل سکتے  (ف ۱۲۰)

۱۱۹             یعنی جو بدیاں انہوں نے کیں تھیں ان کی سزائیں۔

۱۲۰             چنانچہ وہ سات برس قحط کی مصیبت میں مبتلا رکھے گئے۔

(۵۲) کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ روزی کشادہ کرتا ہے  جس کے  لیے  چاہے  اور تنگ فرماتا ہے، بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ایمان والوں کے  لیے۔

(۵۳) تم فرماؤ اے  میرے  وہ بندو! جنہوں نے  اپنی جانوں پر زیادتی کی (ف ۱۲۱) اللہ کی رحمت سے  ناامید نہ ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے  (ف ۱۲۲) بیشک وہی بخشنے  والا مہربان ہے۔

۱۲۱             گناہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو کر۔

۱۲۲             اس کے جو کفر سے باز آئے۔ شانِ نزول : مشرکین میں سے چند آدمی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ آپ کا دِین تو بے شک حق اور سچّا ہے لیکن ہم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں بہت سی معصیّتوں میں مبتلا رہے ہیں کیا کسی طرح ہمارے وہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(۵۴) اور اپنے  رب کی طرف رجوع لاؤ (ف ۱۲۳) اور اس کے  حضور گردن رکھو (ف ۱۲۴) قبل اس کے  کہ تم پر عذاب آئے  پھر  تمہاری مدد نہ ہو۔

۱۲۳             تائب ہو کر۔

۱۲۴             اور اخلاص کے ساتھ طاعت بجا لاؤ۔

(۵۵) اور اس کی پیروی کرو جو اچھی سے  اچھی تمہارے  رب سے  تمہاری طرف اتاری گئی (ف ۱۲۵) قبل اس کے  کہ عذاب تم پر اچانک آ جائے  اور تمہیں خبر نہ ہو (ف ۱۲۶)

۱۲۵             وہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید ہے۔

۱۲۶             تم غفلت میں پڑے رہو اس لئے چاہئے کہ پہلے سے ہوشیار رہو۔

(۵۶) کہ کہیں کوئی جان یہ نہ کہے  کہ ہائے  افسوس! ان تقصیروں پر جو میں نے  اللہ کے  بارے  میں کیں (ف ۱۲۷) اور بیشک میں ہنسی بنایا کرتا تھا (ف ۱۲۸)

۱۲۷             کہ اس کی طاعت بجا نہ لایا اور اس کے حق کو نہ پہچانا اور ا سکی رضا جوئی کی فکر نہ کی۔

۱۲۸             اللہ تعالیٰ کے دِین کی اور اس کی کتاب کی۔

(۵۷) یا کہے  اگر اللہ مجھے  راہ دکھاتا تو میں  ڈر والوں میں ہوتا۔

(۵۸) یا کہے  جب عذاب دیکھے  کسی طرح مجھے  واپسی ملے  (ف ۱۲۹) کہ میں نیکیاں کروں  (ف ۱۳۰)

۱۲۹             اور دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے۔

۱۳۰             ان باطل عذروں کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ہے جو اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے۔

(۵۹) ہاں کیوں نہیں بیشک تیرے  پاس میری آیتیں آئیں تو تُو نے  انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافر تھا (ف ۱۳۱)

۱۳۱             یعنی تیرے پاس قرآنِ پاک پہنچا اور حق و باطل کی راہیں واضح کر دی گئیں اور تجھے حق و ہدایت اختیار کرنے کی قدرت دی گئی باوجود اس کے تو نے حق کو چھوڑا اور اس کو قبول کرنے سے تکبر کیا، گمراہی اختیار کی، جو حکم دیا گیا اس کی ضد و مخالفت کی تو اب تیرا یہ کہنا غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے راہ دکھاتا تو میں ڈر والوں میں ہوتا اور تیرے تمام عذر جھوٹے ہیں۔

(۶۰) اور قیامت کے  دن تم دیکھو گے  انہیں جنہوں نے  اللہ پر جھوٹ باندھا (ف ۱۳۲)  کہ ان کے  منہ کالے  ہیں کیا مغرور ٹھکانا جہنم میں نہیں (ف ۱۳۳)

۱۳۲             اور شانِ الٰہی میں ایسی بات کہی جو اس کے لائق نہیں اس کے لئے شریک تجویز کئے اولاد بتائی اس کی صفات کا انکار کیا اس کا نتیجہ یہ ہے۔

۱۳۳             جو براہِ تکبر ایمان نہ لائے۔

(۶۱) اور اللہ بچائے  گا پرہیزگاروں کو ان کی نجات کی جگہ (ف ۱۳۴) نہ انہیں عذاب چھوئے  اور نہ انہیں غم ہو۔

۱۳۴             انہیں جنّت عطا فرمائے گا۔

(۶۲) اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے  والا ہے، اور وہ ہر چیز کا مختار ہے۔

(۶۳) اسی کے  لیے  ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں (ف ۱۳۵) اور جنہوں نے  اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی نقصان میں ہیں۔

۱۳۵             یعنی خزائنِ رحمت و رزق و بارش وغیرہ کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں وہی ان کا مالک ہے یہ بھی کہا گیا کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو فرمایا کہ مقالیدِ سماوات و ارض یہ ہیں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَسُبحْانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ وَاَسْتَغْفِرُاللہَ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوۃَ اِلَّا باللہِ وَھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَعَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر۔ مراد یہ ہے کہ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی توحید و تمجید ہے یہ آسمان و زمین کی بھلائیوں کی کنجیاں ہیں جس مومن نے یہ کلمے پڑھے دارَین کی بہتری پائے گا۔

(۶۴) تم فرماؤ (ف ۱۳۶) تو کیا اللہ کے  سوا دوسرے  کے  پوجنے  کو مجھ سے  کہتے  ہو، اے  جاہلو! (ف ۱۳۷)

۱۳۶             اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان کفّارِ قریش سے جو آپ کو اپنے دِین یعنی بت پرستی کی طرف بلاتے ہیں۔

۱۳۷             جاہل اس واسطے فرمایا کہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی مستحقِ عبادت نہیں باوجود یہ کہ اس پر قطعی دلیلیں قائم ہیں۔

(۶۵) اور بیشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے  اگلوں کی طرف کہ اسے  سننے  والے  اگر تو نے  اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا  اَکارت  جائے  گا اور ضرور تو ہار میں رہے  گا۔

(۶۶) بلکہ اللہ ہی کی بندگی کر اور شکر والوں سے  ہو (ف ۱۳۸)

۱۳۸             جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے تجھ کو عطا فرمائیں اس کی طاعت بجا لا کر ان کی شکر گزاری کر۔

(۶۷) اور  انہوں نے  اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کا حق تھا (ف ۱۳۹) اور وہ قیامت کے  دن سب زمینوں کو سمیٹ دے  گا اور اس کی قدرت سے  سب آسمان لپیٹ دیے  جائیں گے  (ف ۱۴۰)  اور ان کے  شرک سے  پاک اور برتر ہے، (۶۸) اور صُور پھونکا جائے  گا تو بے  ہوش ہو جائیں گے  (ف ۱۴۱) جتنے  آسمانوں میں ہیں اور جتنے  زمین میں مگر جسے  اللہ چاہے  (ف ۱۴۲) پھر وہ  دوبارہ پھونکا جائے  گا (ف ۱۴۳) جبھی وہ دیکھتے  ہوئے  کھڑے  ہو جائیں گے  (ف ۱۴۴)

۱۳۹             جبھی تو شرک میں مبتلا ہوئے اگر عظمتِ الٰہی سے واقف ہوتے اور اس کا مرتبہ پہچانتے ایسا کیوں کرتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کا بیان ہے۔

۱۴۰             حدیثِ بخاری و مسلم میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ آسمان کو لپیٹ کر اپنے دستِ قدرت میں لے گا پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبّار، کہاں ہیں متکبر، مُلک و حکومت کے دعوےدار، پھر زمینوں کو لپیٹ کر اپنے دوسرے دستِ قدرت میں لے گا اور یہی فرمائے گا میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ۔

۱یہ پہلے نفخہ کا بیان ہے اس نفخہ سے جو بے ہوشی طاری ہو گی اس کا یہ اثر ہو گا کہ ملائکہ اور زمین والوں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے جن پر موت نہ آئی ہو گی وہ اس سے مر  جائیں گے۔ اور جن پر موت وارد ہو چکی پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حیات عنایت کی وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے کہ انبیاء و شہداء ان پر اس نفخہ سے بے ہوشی کی سی کیفیّت طاری ہو گی اور جو لوگ قبروں میں مرے پڑے ہیں انہیں اس نفخہ کا شعور بھی نہ ہو گا۔ (جمل وغیرہ)

۱اس استثناء میں کون کون داخل ہے اس میں مفسّرین کے بہت اقوال ہیں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نفخۂ صعق سے تمام آسمان اور زمین والے مر جائیں گے سوائے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و مَلَک الموت کے پھر اللہ تعالیٰ دونوں نفخوں کے درمیان جو چالیس برس کی مدّت ہے اس میں ان فرشتوں کو بھی موت دے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مستثنیٰ شہداء ہیں جن کے لئے قرآنِ مجید میں بَلْ اَحْیَاء  آیا ہے۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ وہ شہداء ہیں جو تلواریں حمائل کئے گردِ عرش حاضر ہوں گے۔ تیسرا قول حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مستثنیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں چونکہ آپ طور پر بے ہوش ہو چکے ہیں اس لئے اس نفخہ سے آپ بے ہوش نہ ہوں گے بلکہ آپ متیقظ و ہوشیار رہیں گے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ مستثنیٰ جنّت کی حوریں اور عرش و کرسی کے رہنے والے ہیں۔ ضحاک کا قول ہے کہ مستثنیٰ رضوان اور حوریں اور وہ فرشتے جو جہنّم پر مامور ہیں وہ اور جہنّم کے سانپ بچھو ہیں۔ (تفسیر کبیر و جمل)

۱یہ نفخۂ ثانیہ ہے جس سے مردے زندہ کئے جائیں گے۔

۱۴۴             اپنی قبروں سے اور دیکھتے ہوئے کھڑے ہونے سے یا تو یہ مراد ہے کہ وہ حیرت میں آکر مبہوت کی طرح ہر طرف نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ یہ دیکھتے ہوں گے کہ اب انہیں کیا معاملہ پیش آئے گا۔ اور مومنین کی قبروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سواریاں حاضر کی جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہےیَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا

(۶۹) اور زمین جگمگا اٹھے  گی (ف ۱۴۵) اپنے  رب کے  نور سے  (ف ۱۴۶) اور رکھی جائے  گی کتاب (ف ۱۴۷) اور لائے  جائیں گے  انبیاء اور یہ نبی اور اس کی امت کے  ان پر گواہ ہونگے  (ف ۱۴۸) اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرما دیا جائے  گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

۱۴۵             بہت تیز روشنی سے یہاں تک کہ سُرخی کی جھلک نمودار ہو گی یہ زمین دنیا کی زمین نہ ہو گی بلکہ نئی ہی زمین ہو گی جو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت کی محفل کے لئے پیدا فرمائے گا۔

۱۴۶             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ چاند سورج کا نور نہ ہو گا بلکہ یہ اور ہی نور ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اس سے زمین روشن ہو جائے گی۔ (جمل)

۱۴۷             یعنی اعمال کی کتاب حساب کے لئے۔ اس سے مراد یا تو لوحِ محفوظ ہے جس میں دنیا کے جمیع احوال قیامت تک شرح و بسط کے ساتھ ثبت ہیں یا ہر شخص کا اعمال نا مہ جو اس کے ہاتھ میں ہو گا۔

۱۴۸             جو رسولوں کی تبلیغ کی گواہی دیں گے۔

(۷۰) اور ہر جان کو اس کا کیا بھرپور دیا جائے  گا اور اسے  خوب معلوم جو وہ کرتے  تھے  (ف ۱۴۹)

۱۴۹             اس سے کچھ مخفی نہیں نہ اس کو شاہد و کاتب کی حاجت یہ سب حجّت تمام کرنے کے لئے ہوں گے۔ ( جمل)

(۷۱) اور کافر جہنم کی طرف ہانکے  جائیں گے  (ف ۱۵۰) گروہ گروہ (ف ۱۵۱) یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے  اس کے  دروازے  کھولے  جائیں گے  (ف ۱۵۲) اور اس کے  داروغہ ان سے  کہیں گے  کیا تمہارے  پاس تمہیں میں سے  وہ رسول نہ آئے  تھے  جو تم پر تمہارے  رب کی آیتیں پڑھتے  تھے   اور تمہیں اس دن سے  ملنے  سے  ڈراتے  تھے، کہیں گے  کیوں نہیں (ف ۱۵۳) مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اترا (ف ۱۵۴)

۱۵۰             سختی کے ساتھ قیدیوں کی طرح۔

۱۵۱             ہر ہر جماعت اور امّت علیٰحدہ علیٰحدہ۔

۱۵۲             یعنی جہنّم کے ساتوں دروازے کھولے جائیں گے جو پہلے سے بند تھے۔

۱۵۳             بے شک انبیاء تشریف بھی لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام بھی سنائے اور اس دن سے بھی ڈرایا۔

۱۵۴             کہ ہم پر ہماری بدنصیبی غالب ہو ئی اور ہم نے گمراہی اختیار کی اور حسبِ ارشادِ الٰہی جہنّم میں بھرے گئے۔

(۷۲) فرمایا جائے  گا جاؤ جہنم کے  دروازوں میں اس میں ہمیشہ رہنے، تو کیا ہی برا ٹھکانا متکبروں کا۔

(۷۳) اور جو اپنے  رب سے  ڈرتے  تھے  ان کی سواریاں (ف ۱۵۵) گروہ گروہ جنت کی طرف چلائی جائیں گی، یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے  اور اس کے  دروازے  کھلے  ہوئے  ہوں گے  (ف ۱۵۶) اور اس کے  داروغہ ان سے  کہیں گے  سلام تم پر تم خوب  رہے  تو جنت میں جاؤ ہمیشہ رہنے۔

۱۵۵             عزّت و احترام اور لطف و کرم کے ساتھ۔

۱۵۶             ان کے عزّت و احترام کے لئے۔ اور جنّت کے دروازے آٹھ ہیں۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دروازۂ جنّت کے قریب ایک درخت ہے اس کے نیچے سے دو چشمے نکلتے ہیں مومن وہاں پہنچ کر ایک چشمہ میں غسل کرے گا اس سے اس کا جسم پاک و صاف ہو جائے گا اور دوسرے چشمہ کا پانی پئے گا اس سے اس کا باطن پاکیزہ ہو جائے گا پھر فرشتے دروازۂ جنّت پر استقبال کریں گے۔

(۷۴) اور وہ کہیں گے  سب خوبیاں اللہ کو جس نے  اپنا وعدہ ہم سے  سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث کیا کہ ہم جنت میں رہیں جہاں چاہیں، تو کیا ہی اچھا ثواب کامیوں (اچھے  کام کرنے والوں ) کا (ف ۱۵۷)

۱۵۷             یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کا۔

(۷۵)  اور تم فرشتوں کو دیکھو گے  عرش کے  آس پاس حلقہ کیے  اپنے  رب کی تعریف کے  ساتھ ا س کی پاکی بولتے  اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرما دیا جائے  گا (ف ۱۵۸) اور کہا جائے  گا کہ سب خوبیاں اللہ کو جو سارے  جہاں کا رب (ف ۱۵۹)

۱۵۸             کہ مومنوں کو جنّت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔

۱۵۹             اہلِ جنّت جنّت میں داخل ہو کر ادائے شکر کے لئے حمدِ الٰہی عرض کریں گے۔