تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الزُّمَر

۱۔۔۔    چونکہ زبردست ہے اس لیے اس کتاب کے احکام پھیل کر اور نافذ ہو کر رہیں گے۔ کوئی مقابل و مزاحم اس کے شیوع و نفاذ کو روک نہیں سکتا۔ اور حکیم ہے اس لیے دنیا کی کوئی کتاب اس کی خوبیوں اور حکمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

۳۔۔۔   یعنی حسب معمول اللہ کی بندگی کرتے رہیے جو شوائب شرک و ریاء وغیرہ سے پاک ہو اسی کی طرف قولاً و فعلاً لوگوں کو دعوت دیجئے اور اعلان کر دیجئے کہ اللہ اسی بندگی کو قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو عمل خالی از اخلاص کی اللہ کے ہاں کچھ پوچھ نہیں۔

۴۔۔۔   ۱: عموماً مشرک لوگ یہ ہی کہا کرتے ہیں کہ ان جھوٹے خداؤں اور دیوتاؤں کی پرستش کر کے ہم بڑے خدا سے نزدیک ہو جائیں گے اور وہ ہم پر مہربانی کرے گا جس سے ہمارے کام بن جائیں گے۔ اس کا جواب دیا کہ ان لچر پوچ حیلوں سے توحید خالص میں جو جھگڑے ڈال رہے ہو، اور اہل حق سے اختلاف کر رہے ہو اس کا عملی فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگے چل کر ہو جائے گا۔

۲:   یعنی جس نے دل میں یہ ہی ٹھان لی کہ کبھی سچی بات کو نہ مانوں گا۔ جھوٹ اور ناحق ہی پر ہمیشہ اڑا رہوں گا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے محسنوں ہی کی بندگی کروں گا۔ اللہ کی عادت ہے کہ ایسے بد باطن کو فوزو کامیابی کی راہ نہیں دیتا۔

۵۔۔۔     ۱: یہاں سے ان کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں جیسا کہ نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ساتھ ہی تین خداؤں میں کا ایک خدا مانتے ہیں۔ یا عرب کے بعض قبائل فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ یہ ارادہ کرتا کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو ظاہر ہے وہ اپنی مخلوق ہی میں سے کسی کو اس کام کے لیے جنتا۔ کیونکہ دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایک خدا کے سوا جو کوئی چیز ہے سب اسی کی مخلوق ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مخلوق اور خالق میں کسی درجہ میں بھی نوعی یا جنسی اشتراک نہیں۔ پھر ایک دوسرے کا باپ یا بیٹا کیسے بن سکتا ہے۔ اور جب مخلوق و خالق میں یہ رشتہ محال ہے تو اللہ کی طرف سے ایسا ارادہ کرنا بھی محال ہو گا۔ علاوہ بریں فرض کیجیے یہ چیز محال نہ ہوتی تب بھی فرشتوں کو بیٹیاں بنانا تو کسی طرح سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا۔ جب مخلوق میں سے انتخاب کی ٹھہرتی تو اس کا کیا مطلب کہ خدا اپنے لیے گھٹیا چیز انتخاب کرتا اور بڑھیا اولاد چن چن کر تمہیں دے دیتا۔

۲:   یعنی ہر چیز اس کے سامنے دبی ہوئی ہے اس پر کسی کا دباؤ نہیں۔ نہ کسی چیز کی اسے حاجت، پھر اولاد بنانا آخر کس غرض سے ہو گا۔

۶۔۔۔     ۱: مغرب کے وقت مشرق کی طرف دیکھو، معلوم ہو گا کہ افق سے ایک چادر تاریکی کی اٹھتی ہوئی چلی آ رہی ہے اور اپنے آگے سے دن کی روشنی کو مغرب کی طرف صف کی طرح لپیٹی جاتی ہے۔ اسی طرح صبح صادق کے وقت نظر آتا ہے کہ دن کا اجالا رات کی ظلمت کو مشرق سے دھکیلتا ہوا آ رہا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ایک پر دوسرا چلا آتا ہے۔ توڑا نہیں پڑتا۔

۲:  یعنی اس زبردست قدرت سے یہ انتظام قائم کیا اور تھام رکھا ہے لوگوں کی گستاخیاں اور شرارتیں تو ایسی ہیں کہ سب نظام درہم برہم کر دیا جائے لیکن وہ بڑا بخشنے والا اور درگزر کرنے والا ہے اپنی شان عفو و مغفرت سے ایک دم ایسا نہیں کرتا۔

۷۔۔۔    ۱: یعنی آدم علیہ السلام اور ان کا جوڑا حضرت حواء۔

  ۲: یعنی تمہارے نفع اٹھانے کے لیے چوپایوں میں آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری جن کا ذکر سورہ "انعام" میں گزر چکا۔

۳:  یعنی بتدریج پیدا کیا۔ مثلاً نطفہ سے علقہ بنایا، علقہ سے مضغہ بنایا، پھر ہڈیاں بنائیں، اور ان پر گوشت منڈھا، پھر روح پھونکی۔

۴: ایک پیٹ اور دوسرا رحم، تیسری جھلی جس کے اندر بچہ ہوتا ہے۔ وہ جھلی بچہ کے ساتھ نکلتی ہے۔

۵:  یعنی جب خالق، رب، مالک اور ملک وہ ہی ہے تو معبود اس کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ خدائے واحد کے لیے ان صفات کا اقرار کرنے کے بعد دوسرے کی بندگی کیسی۔ مطلب کے اتنا قریب پہنچ کر کدھر پھرے جاتے ہو۔

۸۔۔۔   ۱: یعنی کافر بن کر اس کے انعامات و حقوق کا انکار کرو گے تو تمہارا ہی نقصان ہے، اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کفر سے راضی نہیں۔ اپنے بندوں کے کافر و منکر بننے سے ناخوش ہوتا ہے اور اس چیز کو ان کے لیے ناپسند کرتا ہے۔

۲: یعنی بندے اس کا حق مان کر مطیع و شکر گزار بنیں۔ یہ بات اس کو پسند ہے جس کا نفع ان ہی کو پہنچتا ہے۔

۳:  یعنی ناشکری کوئی کرے اور پکڑا کوئی جائے، ایسا اندھیر اس کے یہاں نہیں جو کرے گا سو بھرے گا۔

۴: یعنی وہاں جا کر سب کے اچھے برے عمل سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ کوئی چھوٹا بڑا کام نہ ہو گا۔ کیونکہ خدا کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ دلوں کی تہہ میں جو بات چھپی ہوئی ہو اسے بھی جانتا ہے۔

۵: یعنی انسان کی حالت عجیب ہے۔ مصیبت پڑنے پر تو ہمیں یاد کرتا ہے کیونکہ دیکھتا ہے کوئی مصیبت کو ہٹانے والا نہیں۔ پھر جہاں اللہ کی مہربانی سے ذرا آرام و اطمینان نصیب ہو امعاً وہ پہلی حالت بھول جاتا ہے جس کے لیے ابھی ابھی ہم کو پکار رہا تھا۔ عیش و تنعم کے نشہ میں ایسا مست و غافل ہو جاتا ہے گویا کبھی ہم سے واسطہ ہی نہ تھا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسرے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدائے واحد کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔

۶: یعنی اچھا کافر رہ کہ چند روز یہاں اور عیش اڑا لے۔ اور خدا نے جب تک مہلت دے رکھی ہے دنیا کی نعمتوں سے تمتع کرتا رہ۔ اس کے بعد تجھے دوزخ میں رہنا ہے جہاں سے کبھی چھٹکارا نصیب نہ ہو گا۔

۹۔۔۔   یعنی جو بندہ رات کی نیند اور آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگا کبھی اس کے سامنے دست بستہ کھڑا رہا، سجدہ میں گرا۔ ایک طرف آخرت کا خوف اس کے دل کو بیقرار کیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اللہ کی رحمت نے ڈھارس بندھا رکھی ہے۔ کیا یہ سعید بندہ اور وہ بدبخت انسان جس کا ذکر اوپر ہوا کہ مصیبت کے وقت خدا کو پکارتا ہے اور جہاں مصیبت کی گھڑی ٹلی خدا کو چھوڑ بیٹھا، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہو تو یوں کہو کہ ایک عالم اور جاہل یا سمجھدار اور بیوقوف میں کچھ فرق نہ رہا مگر اس بات کو بھی وہ سوچتے سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے عقل دی ہے۔

۱۰۔۔۔    ۱: یعنی اللہ کی طرف سے یہ پیغام پہنچا دو۔

۲:  یعنی جس نے دنیا میں نیکی کی آخرت میں اس کے لیے بھلائی دے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جس نے نیکی کی اس کو آخرت سے پہلے اسی دنیا میں بھلائی ملے گی ظاہری یا باطنی۔

۳:  یعنی اگر ایک ملک میں لوگ نیک راہ چلنے سے مانع ہوں تو خدا کی زمین کشادہ ہے، دوسرے ملک میں چلے جاؤ جہاں آزادی سے اس کے احکام بجا لا سکو۔ بلاشبہ اس طرح ترک وطن کرنے میں بہت مصائب برداشت کرنا پڑیں گی۔ اور طرح طرح کے خلاف عادت و طبیعت امور پر صبر کرنا پڑے گا، لیکن یاد رہے کہ بیشمار ثواب بھی ملے گا تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔ اس کے مقابلہ میں دنیا کی سب سختیاں اور تکلیفیں ہیچ ہیں۔

۱۲۔۔۔      چنانچہ آپ عالم شہادت میں اس امت کے لحاظ سے اور عالم غیب میں تمام اولین و آخرین کے اعتبار سے اللہ کے سب سے پہلے حکم بردار بندے ہیں۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔

۱۳۔۔۔     یعنی مجھ جیسا معصوم و مقرب بھی اگر بفرض محال نافرمانی کرے تو اس دن کے عذاب سے مامون نہیں تابدیگراں چہ رسد۔

۱۵۔۔۔   ۱: یعنی میں تو خدا کے حکم کے موافق نہایت اخلاص سے اسی اکیلے کی بندگی کرتا ہوں۔ تم کو اختیار ہے جس کی چاہو پوجا کرتے پھرو۔ ہاں اتنا سوچ لینا کہ انجام کیا ہو گا۔ آگے اسے کھولتے ہیں۔

۲:  یعنی مشرکین نہ اپنی جان کو عذاب الٰہی سے بچا سکے نہ اپنے گھر والوں کو۔ سب کو جہنم کے شعلوں کی نذر کر دیا۔ اس سے زیادہ خسارہ کیا ہو گا۔

۱۶۔۔۔ ۱: یعنی ہر طرف سے آگ محیط ہو گی۔ جیسے گھٹا چھا جاتی ہے۔

۲:  یعنی سمجھ لو۔ یہ چیز ڈرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اللہ کے غضب سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔

۱۷۔۔۔ یعنی جنہوں نے شیطانوں کا کہا نہ مانا اور سب شرکاء سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع ہوئے۔ ان کے لیے ہے بڑی بھاری خوشخبری۔

۱۸۔۔۔   ۱: یعنی سب طرح کی باتیں سنتے ہیں۔ پر ان میں جو بات اچھی ہو اس پر چلتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ خدا کی بات سنتے ہیں اور اس میں جو ہدایات اعلیٰ سے اعلیٰ ہوں ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز رخصت واباحت کی سنی، دوسری عزیمت کی، تو عزیمت کی طرف جھپٹتے ہیں۔ رخصتوں کا تتبع نہیں کرتے۔ یا یوں ترجمہ کرو کہ اللہ کا کلام سن کر اس کی بہترین باتوں کا اتباع کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی ساری باتیں بہتر ہی ہیں۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحب نے ایک اور طرح اس کا مطلب بیان کیا ہے۔ "چلتے ہیں اس کے نیک پر، یعنی حکم پر چلنا کہ اس کو کرتے ہیں۔ اور منع پر چلنا کہ اس کو نہیں کرتے۔ اس کا کرنا نیک ہے اس کا نہ کرنا نیک ہے۔

۲: یعنی کامیابی کا راستہ ان ہی کو ملا ہے کیونکہ انہوں نے عقل سے کام لے کر توحید خالص اور انابت الی اللہ کا راستہ اختیار کیا۔

۱۹۔۔۔   یعنی جن پر ان کی ضد و عناد اور بداعمالیوں کی بدولت عذاب کا حکم ثابت ہو چکا، کیا وہ کامیابی کا راستہ پا سکتے ہیں۔ بھلا ایسے بدبختوں کو جو شقاوت ازلی کے سبب آگ میں گر چکے ہوں۔ کون آدمی راہ پر لا سکتا ہے اور کون آگ سے نکال سکتا ہے۔

۲۰۔۔۔   یہ جنت کے درجات کی طرف اشارہ ہوا۔ اور یہ کہ وہ سب تیار ہیں۔ نہ یہ کہ قیامت کے روز تیار کیے جائیں گے۔

۲۱۔۔۔     ۱: یعنی بارش کا پانی پہاڑوں اور زمینوں کے مسام میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے، باقی اگر چشموں کے حدوث کا کوئی اور سبب بھی ہو، اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔

۲: یا مختلف قسم کی کھیتیاں مثلاً گیہوں چاول وغیرہ۔

۳:  یعنی عقلمند آدمی کھیتی کا حال دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے کہ جس طرح اس کی رونق اور سرسبزی چند روزہ تھی، پھر چورا چورا کیا گیا۔ یہ ہی حال دنیا کی چہل پہل کا ہو گا۔ چاہیے کہ آدمی اس کی عارضی بہار پر مفتوں ہو کر انجام سے غافل نہ ہو جائے جیسے کھیتی مختلف اجزاء سے مرکب ہے۔ مثلاً اس میں دانہ ہے جو آدمیوں کی غذا بنتا ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کا چارہ بنتا ہے۔ اور ہر ایک جزء سے متنفع ہونا بدون اس کے ممکن نہیں کہ دوسرے اجزاء سے اس کو الگ کریں اور اپنے اپنے ٹھکانا پر پہنچائیں۔ اسی طرح دنیا کو سمجھ لو کہ اس میں نیکی، بدی، راحت، تکلیف وغیرہ سب ملی جلی ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ کھیتی کٹے اور خوب چورا چورا کی جائے۔ پھر اس میں سے ہر ایک جزء کو اس کے مناسب ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے، نیکی اور راحت اپنے مرکز و مستقر پر پہنچ جائے اور بدی یا تکلیف اپنے خزانہ میں جا ملے۔ غرض کھیتی کے مختلف احوال دیکھ کر عقلمند لوگ بہت مفید سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز مضمون آیت میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ جس خدا نے آسمانی بارش سے زمین میں چشمے جاری کر دیے وہ ہی جنت کے محلات میں نہایت قرینہ کے ساتھ نہروں کا سلسلہ جاری کر دے گا۔

۲۲۔۔۔     یعنی دونوں برابر کہاں ہو سکتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اللہ نے قبول اسلام کے لیے کھول دیا۔ نہ اسے اسلام کے حق ہونے میں کچھ شک و شبہ ہے نہ احکام اسلام کی تسلیم سے انقباض۔ حق تعالیٰ نے اس کو توفیق و بصیرت کی ایک عجیب روشنی عطا فرمائی۔ جس کے اجالے میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ اللہ کے راستہ پر اڑا چلا جا رہا ہے۔ دوسرا وہ بدبخت جس کا دل پتھر کی طرح سخت ہو، نہ کوئی نصیحت اس پر اثر کرے نہ خیر کا کوئی قطرہ اس کے اندر گھسے، کبھی خدا کی یاد کی توفیق نہ ہو۔ یوں ہی اوہام و اہواء، اور رسوم و تقلید آباء کی اندھیریوں میں بھٹکتا پھرے۔

۲۳۔۔۔   ۱: یعنی دنیا میں کوئی بات اس کتاب کی باتوں سے بہتر نہیں۔

۲: یعنی صحیح، صادق، مضبوط، نافع، معقول اور فصیح و بلیغ ہونے میں کوئی آیت کم نہیں۔ ایک دوسری سے ملتی جلتی ہے، مضامین میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں۔ بلکہ بہت سی آیات کے مضامین ایسے متشابہ واقع ہوئے ہیں کہ ایک آیت کو دوسری کی طرف لوٹانے سے صحیح تفسیر معلوم ہو جاتی ہے۔ القراٰن یفسر بعضہ بعضًا اور "مثانی" یعنی دہرائی ہوئی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احکام اور مواعظ و قصص کو مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے تاکہ اچھی طرح دلنشین ہو جائیں۔ نیز تلاوت میں بار بار آیتیں دہرائی جاتی ہیں۔ اور بعض علماء نے "متشابہ" و "مثانی" کا مطلب یہ لیا ہے کہ بعض آیات میں ایک ہی طرح کے مضمون کا سلسلہ دور تک چلا جاتا ہے وہ متشابہ ہوئیں اور بعض جگہ ایک نوعیت کے مضمون کے ساتھ دوسرے جملہ میں اس کے مقابل کی نوعیت کا مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً "ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم" یا "نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم" یا "ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رءُوف بالعباد" ایسی آیات کو مثانی کہیں گے کہ ان میں دو مختلف قسم کے مضمون بیان ہوئے۔

۳: یعنی کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ خوف و رعیت کی کیفیت طاری ہو کر ان کا قلب و قالب اور ظاہر و باطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے یہ حال اقویائے کاملین کا ہوا۔ اگر کبھی ضعفاء و ناقصین پر دوسری قسم کی کیفیات و احوال طاری ہو جائیں مثلاً غشی یا صعقہ وغیرہ تو اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔ اور نہ ان کی تفصیل ان پر لازم آتی ہے۔ بلکہ اس طرح از خود رفتہ اور بے قابو ہو جانا عموماً وارد کی قوت اور مورد کے ضعف کی دلیل ہے۔ جامع ترمذی میں ایک حدیث بیان کرتے وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اس قسم کے بعض احوال کا طاری ہونا مصرح ہے۔ واللہ اعلم۔

۴: یعنی جس کے لیے حکمت الٰہی مقتضی ہو اس طرح کامیابی کے راستے کھول دیے جاتے ہیں اور اس شان سے منزلِ مقصود کی طرف لے چلتے ہیں۔ اور جس کو سوء استعداد کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہدایت کی توفیق نہ دے۔ آگے کون ہے جو اس کی دستگیری کر سکے۔

۲۴۔۔۔   آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب سامنے سے کوئی حملہ ہو تو ہاتھوں پر روکتا ہے۔ لیکن محشر میں ظالموں کے ہاتھ بندھے ہوں گے، اس لیے عذاب کی تھپیڑیں سیدھی منہ پر پڑیں گی۔ تو ایسا شخص جو بدترین عذاب کو اپنے منہ پر روکے اور اس سے کہا جائے کہ اب اس کام کا مزہ چکھ جو دنیا میں کیے تھے۔ کیا اس مومن کی طرح ہو سکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور گزند پہنچنے کا اندیشہ نہیں، اللہ کے فضل سے مطمئن اور بے فکر ہے۔ ہرگز نہیں۔

۲۶۔۔۔   یعنی بہت قومیں تکذیب انبیاء کی بدولت دنیا میں ہلاک اور رسوا کی جا چکی ہیں۔ اور آخرت کا اشد عذاب جوں کا توں رہا۔ تو کیا موجودہ مکذبین مطمئن ہیں کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ ہاں سمجھ ہوتی تو کچھ فکر کرتے۔

۲۸۔۔۔     یعنی ان کا نہ سمجھنا اپنی غفلت اور حماقت سے ہے۔ قرآن کے سمجھانے میں کوئی کمی نہیں قرآن تو بات بات کو مثالوں اور دلیلوں سے سمجھاتا ہے تاکہ لوگ ان میں دھیان کر کے اپنی عاقبت درست کریں۔قرآن ایک صاف عربی زبان کی کتاب ہے جو اس کے مخاطبین اولین کی مادری زبان تھی۔ اس میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ سیدھی اور صاف باتیں ہیں جن کو عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ کسی طرح کا اختلال اور کجی اس کے مضامین یا عبارت میں نہیں۔ جن باتوں کو منوانا چاہتا ہے، نہ ان کا ماننا مشکل، اور جن چیزوں پر عمل کرانا چاہتا ہے نہ ان پر عمل کرنا محال، غرض یہ ہے کہ لوگ بسہولت اس سے مستفید ہوں۔ اعتقادی و عملی غلطیوں سے بچ کر چلیں۔ اور صاف صاف نصیحتیں سن کر اللہ سے ڈرتے رہیں۔

۲۹۔۔۔     ۱: یعنی کئی حصہ دار ایک غلام یا نوکر میں شریک ہیں۔ اور ہر حصہ دار اتفاق سے کج خلق، بے مروت اور سخت ضدی واقع ہوا ہے، چاہتا ہے کہ غلام تنہا اس کے کام میں لگا رہے دوسرے شرکاء سے سروکار نہ رکھے۔ اس کھینچ تان میں ظاہر ہے غلام سخت پریشان اور پراگندہ دل ہو گا۔ برخلاف اس کے جو غلام پورا ایک کا ہو، اسے ایک طرح کی یکسوئی اور طمانیت حاصل ہو گی اور کئی آقاؤں کو خوش رکھنے کی کشمکش میں گرفتار نہ ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں غلام برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح کتنے ہی جھوٹے معبودوں کو خوش رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس کے برخلاف موحد کی کل توجہات و خیالات اور دوا و دوش کا ایک مرکز ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے خوش رکھنے کی فکر میں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بعد کسی کی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ اکثر مفسرین نے اس مثال کی تقریر اسی طرح کی ہے۔ مگر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ایک غلام جو کئی کا ہو، کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے، تو اس کی پور خبر نہ لے، اور ایک غلام سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے۔ یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں، اور جو کئی رب کے بندے ہیں۔

۲: یعنی سب خوبی اللہ کے لیے ہے کہ کیسے اعلیٰ مطالب و حقائق کو کیسی صاف اور دلنشین امثال و شواہد سے سمجھا دیتے ہیں۔ مگر اس پر بھی بہت بدنصیب ایسے ہیں جو ان واضح مثالوں کے سمجھنے کی توفیق نہیں پاتے۔

۳۱۔۔۔     یعنی جیسے مشرک اور موحد میں جو اختلاف ہے اس کا اثر قیامت کے دن اعلیٰ رؤس الاشہاد ظاہر ہو گا جس وقت پیغمبر اور امتی سب اکٹھے کیے جائیں گے اور کفار، انبیاء اور مومنین کے مقابلہ میں جھگڑے اور حجتیں نکالیں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "کافر منکر ہوں گے کہ ہم کو کسی نے حکم نہیں پہنچایا پھر فرشتوں کی گواہی اور زمین و آسمان کے ہاتھ کی گواہی سے ثابت ہو گا۔" کہ اس ادعاء میں جھوٹے ہیں۔ اسی طرح دوسرے تمام جھگڑوں کا فیصلہ بھی اس دن پروردگار کے سامنے ہو گا۔ بہتر یہ ہی ہے کہ لفظ "اختصام" کو عام رکھا جائے تاکہ احادیث و آثار کے خلاف نہ ہو۔

۳۲۔۔۔ اللہ پر جھوٹ بولا، یعنی اس کے شریک ٹھہرائے یا اولاد تجویز کی، یا وہ صفات اس کی طرف منسوب کیں جو واقع میں اس کے لائق نہ تھیں اور جھٹلایا سچی بات کو جب پہنچی اس کے پاس یعنی انبیاء علیہم السلام جو سچی باتیں خدا کی طرف سے لائے ان کو سنتے ہی جھٹلانے لگا۔ سوچنے سمجھنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی۔ بلاشبہ جو شخص سچائی کا اتنا دشمن ہو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے۔ اور ایسے ظالموں کا ٹھکانا دوزخ کے سوا اور کہاں ہو گا۔ عموماً مفسرین نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے مگر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اگر نبی نے (معاذ اللہ) جھوٹ خدا کا نام لیا تو اس سے برا کون۔ اور اگر وہ سچا تھا اور تم نے جھٹلایا تو تم سے برا کون۔" (گویا من کذب علی اللہ اور کذب بالصدق کا مصداق الگ الگ قرار دیا۔ اور ایسا ہی آگے والذی جاءَ بالصدق میں آتا ہے)

۳۳۔۔۔    یعنی خدا سے ڈرنے والوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ سچی بات لائیں، ہمیشہ سچ کہیں، اور سچ کی تصدیق کریں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جو سچی بات لے کر آیا وہ نبی، اور جس نے سچ مانا وہ مومن ہے۔" (گویا دونوں جملوں کا مصداق علیحدہ ہے)

۳۵۔۔۔   یعنی اللہ تعالیٰ متقین و محسنین کو ان کے بہتر کاموں کا بدلہ دے گا اور غلطی سے جو برا کام ہو گیا وہ معاف کرے گا (تنبیہ) شاید "اسوآ"اور "احسن" (صیغہ تفضیل) اس لیے اختیار فرمایا کہ بڑے درجہ والوں کی ادنیٰ بھلائی اوروں کی بھلائیوں سے اور ادنیٰ برائی اوروں کی برائیوں سے بھاری سمجھی جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔

۳۷۔۔۔   چند آیات پہلے "ضرب اللہ مثلاً رجلًا فیہ شرکاء۔"الخ میں شرک کا رد اور مشرکین کا جہل بیان کیا گیا تھا۔ اس پر مشرکین پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے بتوں سے ڈراتے تھے کہ دیکھو تم ہمارے دیوتاؤں کی توہین کر کے ان کو غصہ نہ دلاؤ۔ کہیں تم کو (معاذ اللہ) بالکل خبطی اور پاگل نہ بنا دیں۔ اس کا جواب دیا کہ جو شخص ایک زبردست خدا کا بندہ بن چکا، اسے ان عاجز اور بے بس خداؤں سے کیا ڈر ہو سکتا ہے؟ کیا اس عزیز منتقم کی امداد و حمایت اس کو کافی نہیں جو کسی دوسرے سے ڈرے یا لو لگائے۔ یہ بھی ان مشرکین کا خبط و ضلال اور مستقل گمراہی ہے کہ خدائے واحد کے پرستار کو اس طرح کی گیدڑ بھبکیوں سے خوف زدہ کرنا چاہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹھیک راستہ پر لگا دینا یا نہ لگانا سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ جس کسی شخص کو اس کی بدتمیزی اور کجروی کی بناء پر اللہ تعالیٰ کامیابی کا راستہ نہ دے، وہ اسی طرح خبطی اور پاگل ہو جاتا ہے۔ اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے کی قوت بھی اس میں نہیں رہتی۔ کیا ان احمقوں کو اتنا نہیں سوجھتا کہ جو بندہ خداوند قدوس کی پناہ میں آگیا، کون سی طاقت ہے جو اس کا بال بیکا کر سکے۔ جو طاقت مقابل ہو گی پاش پاش کر دی جائے گی۔ غیرت خداوندی مخلص وفاداروں کا بدلہ لیے بدون نہ چھوڑے گی۔

۳۸۔۔۔   یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو خود تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بے جان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب مل کر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف و راحت کو اس جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ، دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لیے کافی سمجھا جائے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے بھی کہا تھا "ان نقول الا اعتراک بعض الہتنا بسوء" جس کا جواب حضرت ہود نے یہ دیا۔ "انی اشہد اللہ واشہدوآ انی بری مما تشرکون من دونہ فکیدونی جمیعًا ثم لا تنظرون انی توکلت علی اللہ ربی وربکم مامن دآبۃٍ الا ہوا احد بنا صیتہا ان ربی علی صراطٍ مستقیم" (ہود، رکوع۵) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا "ولا اخاف ماتشرکون بہ الا ان یشاء ربی شیئًا وسع ربی کل شی ءٍ علمًا افلاتتذکرون وکیف اخاف ما اشرکتم ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ مالم ینزل بہ علیکم سلطاناً فای الفریقین احق بالا من ان کنتم تعلمون۔" (انعام، رکوع۹)

۴۰۔۔۔    یعنی عنقریب پتہ لگ جائے جائے گا کہ خدائے واحد کا بندہ غالب آتا ہے یا صدہا دروازوں کے بھکاری کامیاب ہوتے ہیں۔ واقعات جلد بتا دیں گے کہ جو بندہ اللہ کی حمایت اور پناہ میں آیا اس کا مقابلہ کرنے والے آخرکار سب ذلیل و خوار ہوئے (تنبیہ) "عذاب یخزیہ" سے دنیا کا اور "عذاب مقیم" سے آخرت کا عذاب مراد ہے۔ واللہ اعلم

۴۱۔۔۔   یعنی تیری زبان پر اس کتاب کے ذریعہ سے سچی بات نصیحت کی کہہ دی گئی اور دین کا راستہ ٹھیک ٹھیک بتلا دیا گیا۔ آگے ہر ایک آدمی اپنا نفع نقصان سوچ لے۔ نصیحت پر چلے گا تو اس کا بھلا ہے ورنہ اپنا ہی انجام خراب کرے گا۔ تجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ زبردستی ان کو راہ پر لے آئے، صرف پیغام حق پہنچا دینا آپ کا فرض تھا وہ آپ نے ادا کر دیا۔ آگے معاملہ خدا کے سپرد کیجیے جس کے ہاتھ میں مارنا جلانا اور سلانا جگانا سب کچھ ہے۔

۴۲۔۔۔   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئی وہ ہی موت ہے۔ مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہری) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں۔ اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی" (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ "نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی" (جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے۔ لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۴۳۔۔۔     ۱: یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعوے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لیے ان کی عبادت کی جاتی ہے سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا ماذون ہونا اور مشفوع کا مرتضیٰ ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضیٰ ہونا۔ لہٰذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔

۲: یعنی بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر ان کو شفیع ماننا عجیب ہے۔

۴۴۔۔۔   یعنی فی الحال بھی زمین و آسمان میں اس کی سلطنت ہے اور آئندہ بھی اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے تو اس کی اجازت و خوشنودی کے بغیر کس کی مجال ہے جو زبان ہلا سکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ یعنی "اللہ کے روبرو سفارش ہے پر اللہ کے حکم سے، نہ تمہارے کہے سے جب موت آئے کسی کے کہے سے عزرائیل نہیں چھوڑتا۔

۴۵۔۔۔   مشرک کا خاصہ ہے کہ گو بعض وقت زبان سے اللہ کی عظمت و محنت کا اعتراف کرتا ہے، لیکن اس کا دل اکیلے خدا کے ذکر اور حمدو ثناء سے خوش نہیں ہوتا۔ ہاں دوسرے دیوتاؤں یا جھوٹے معبودوں کی تعریف کی جائے تو مارے خوشی کے اچھلنے لگتا ہے جس کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں۔ افسوس یہ ہی حال آج بہت سے نام نہاد مسلمانوں کا دیکھا جاتا ہے کہ خدائے واحد کی قدرت و عظمت اور اس کے علم کی لامحدود وسعت کا بیان ہو تو چہروں پر انقباض کے آثار ظاہر ہوتے ہیں مگر کسی پیر فقیر کا ذکر آ جائے اور جھوٹی سچی کرامات اناپ شناپ بیان کر دی جائیں تو چہرے کھل پڑتے اور دلوں میں جذبات مسرت و انبساط جوش مارنے لگتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات توحید خالص کا بیان کرنے والا ان کے نزدیک منکر اولیاء سمجھا جاتا ہے۔ "فالی اللہ المشتکی وہو المستعان۔

۴۶۔۔۔    یعنی جب ایسی موٹی باتوں میں بھی جھگڑے ہونے لگے اور اللہ کا اتنا وقار بھی دلوں میں باقی نہ رکھا تو اب تیرے ہی سے فریاد ہے۔ تو ہی ان جھگڑوں کا عملی فیصلہ فرمائے گا۔

۴۸۔۔۔   یعنی جب قیامت کے دن ان اختلافات کا فیصلہ سنایا جائے گا اس وقت جو ظالم شرک کر کے خدا تعالیٰ کی شان گھٹاتے تھے ان کا سخت برا حال ہو گا۔ اگر اس روز فرض کیجیے کل روئے زمین کے خزانے بلکہ اس سے بھی زائد ان کے پاس موجود ہوں تو چاہیں گے کہ سب دے دلا کر کسی طرح اپنا پیچھا چھڑا لیں، جو بد معاشیاں دنیا میں کی تھیں سب ایک ایک کر کے ان کے سامنے ہوں گی۔ اور ایسے قسم قسم کے ہولناک عذابوں کا مزہ چکھیں گے جو کبھی ان کے خیال و گمان میں بھی نہ گزرے تھے۔ غرض توحید خالص اور دین حق سے جو ٹھٹھا کرتے تھے اس کا وبال پڑ کر رہے گا اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہ ان پر الٹ پڑے گا۔

۴۹۔۔۔   ۱: یعنی جس کے ذکر سے چڑتا تھا مصیبت کے وقت اسی کو پکارتا ہے اور جن کے ذکر سے خوش ہوتا تھا انہیں بھول جاتا ہے۔

۲: یعنی قیاس یہ ہی چاہتا تھا کہ یہ نعمت مجھ کو ملے۔ کیونکہ مجھ میں اس کی لیاقت تھی اور اس کی کمائی کے ذرائع کا علم رکھتا تھا اور خدا کو میری استعداد و اہلیت معلوم تھی، پھر مجھے کیوں نہ ملتی۔ غرض اپنی لیاقت اور عقل پر نظر ی، اللہ کے فضل و قدرت پر خیال نہ کیا۔

۳:  یعنی ایسا نہیں بلکہ یہ نعمت خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ بندہ اسے لے کر کہاں تک منعم حقیقی کو پہچانتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ اگر ناشکری کی گئی تو یہ ہی نعمت نقمت بن کر وبال جان ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی دوڑنے لگتی ہے تاکہ اپنی عقل پر بہکے۔ وہ ہی عقل رہتی ہے اور آفت آ پہنچتی ہے۔" پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔

۵۱۔۔۔    ۱: چنانچہ قارون نے یہ ہی کہا تھا۔ اس کا جو حشر ہوا وہ پہلے گزر چکا۔

۲: یعنی جیسے پہلے مجرموں پر ان کی شرارتوں کا وبال پڑا، موجود الوقت مشرکین پر بھی پڑنے والا ہے۔ جس وقت اللہ تعالیٰ ان کو سزا دینا چاہے گا یہ روپوش ہو کر یا اور کسی تدبیر سے اس کو تھکا نہیں سکتے۔

۵۲۔۔۔   یعنی دنیا میں محض روزی کا کشادہ یا تنگ ہونا کسی شخص کے مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ نہ روزی کا ملنا کچھ عقل و ذہانت اور علم و لیاقت پر منحصر ہے۔ دیکھ لو کتنے بیوقوف یا بدمعاش چین اڑا رہے ہیں، اور کتنے عقلمند اور نیک آدمی فاقے کھینچتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی عقل دوڑانے اور تدبیر کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتا پھر ایک کو روزی کشادہ ہے ایک کو تنگ۔ جان لو کہ (صرف) عقل کا کام نہیں" (کہ اپنے اوپر روزی کشادہ کر لے) بلکہ یہ تقسیم رزاق حقیقی کی حکمت و مصلحت کے تابع اور اسی کے ہاتھ میں ہے۔

۵۳۔۔۔    یہ آیت ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں اور عفو و درگزر کی شانِ عظیم کا اعلان کرتی ہے اور سخت سے سخت مایوس العلاج مریضوں کے حق میں اکسیر شفاء کا حکم رکھتی ہے۔ مشرک، ملحد، زندیق، مرتد، یہودی، نصرانی، مجوسی، بدعتی، بدمعاش، فاسق، فاجر کوئی ہو آیت ہذا کو سننے کے بعد خدا کی رحمت سے بالکلیہ مایوس ہو جانے اور آس توڑ کر بیٹھ جانے کی اس کے لیے کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ اللہ جس کے چاہے سب گناہ معاف کر سکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ پھر بندہ نا امید کیوں ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے دوسرے اعلانات میں تصریح کر دی گئی کہ کفر و شرک کا جرم بدون توبہ کے معاف نہیں کرے گا۔ لہٰذا "ان اللہ یغفرالذنوب جمیعًا۔" کو "لمن یشاء" کے ساتھ مقیدسمجھنا ضروری ہے کما قال تعالیٰ "ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاءُ" (نسائ، رکوع۱۸) اس تقیید سے یہ لازم نہیں آتا کہ بدون توبہ کے اللہ تعالیٰ کوئی چھوٹا بڑا قصور معاف ہی نہ کر سکے اور نہ یہ مطلب ہوا کہ کسی جرم کے لیے توبہ کی ضرورت ہی نہیں۔ بدون توبہ کے سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ قید صرف مشیت کی ہے اور مشیت کے متعلق دوسری آیات میں بتلا دیا گیا کہ وہ کفر و شرک سے بدون توبہ کے متعلق نہ ہو گی۔ چنانچہ آیت ہذا کی شان نزول بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت کے فائدہ سے معلوم ہو گا۔

۵۴۔۔۔   مغفرت کی امید دلا کر یہاں سے توبہ کی طرف متوجہ فرمایا۔ یعنی گذشتہ غلطیوں پر نادم ہو کر اور اللہ کے بے پایاں جود و کرم سے شرما کر کفر و عصیان کی راہ چھوڑو، اور اس رب کریم کی طرف رجوع ہو کر اپنے کو بالکلیہ اسی کے سپرد کر دو۔ اس کے احکام کے سامنے نہایت عجز و اخلاص کے ساتھ گردن ڈال دو۔ اور خوب سمجھ لو کہ حقیقت میں نجات محض اس کے فضل سے ممکن ہے۔ ہمارا رجوع و انابت بھی بدون اس کے فضل و کرم کے میسر نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کیا۔ جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب اس طرف اللہ ہے۔ یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچھتائے۔ لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی۔ دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے خدا پرستوں کے خون کیے۔ تب اللہ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اللہ قبول نہ کرے، نا امید مت ہو، توبہ کرو اور رجوع ہو، بخشے جاؤ گے مگر جب سر پر عذاب آیا یا موت نظر آنے لگی اس وقت کی توبہ قبول نہیں۔" نہ اس وقت کوئی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔

۵۵۔۔۔   بہتر بات سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی قرآنی ہدایت پر چل کر عذاب آنے سے پہلے اپنے مستقبل کی روک تھام کر لو۔ ورنہ معاً عذاب الٰہی اس طرح ایک دم آ دبائے گا کہ خبر بھی نہ ہو گی کہاں سے آگیا۔

۵۶۔۔۔     یعنی ہوا و ہوس، رسم و تقلید اور دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ اس کے دین کی اور پیغمبروں کی اور جس ہولناک انجام سے پیغمبر ڈرایا کرتے تھے، سب کی ہنسی اڑاتا رہا۔ ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہی نہ سمجھی۔ افسوس خدا کے پہچاننے اور اس کا حق ماننے میں میں نے کس قدر کوتاہی کی جس کے نتیجہ میں آج یہ برا وقت دیکھنا پڑا۔ (یہ بات کافر محشر میں کہے گا اور اگر آیت کا مضمون کفار و عصاۃ کو عام رکھا جائے تو "وان کنت لمن الساخرین" کے معنی "عملت عمل ساخرٍ مستہزی" کے ہوں گے۔ کما فسربہ ابن کثیر)

۵۷۔۔۔     جب حسرت و افسوس سے کام نہ چلے گا تو اپنا دل بہلانے کے لیے یہ عذر پیش کرے گا کہ کیا کہوں خدا نے مجھ کو ہدایت نہ کی۔ وہ ہدایت کرنا چاہتا تو میں بھی آج متقین کے درجہ میں پہنچ جاتا (اس کا جواب آگے آتا ہے۔ "بلی قد جاء تک ایاتی" الخ) اور ممکن ہے یہ کلام بطریق اعتذار و احتجاج نہ ہو بلکہ محض اظہار یاس کے طور پر ہو۔ یعنی میں اپنی سوء استعداد اور بدتمیزی کی وجہ سے اس لائق نہ تھا کہ اللہ مجھ کو راہ دکھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا۔ اگر مجھ میں اہلیت و استعداد ہوتی اور اللہ میری دستگیری فرماتا تو میں بھی آج متقین کے زمرہ میں شامل ہوتا۔

۵۸۔۔۔   جب حسرت و اعتذار دونوں بیکار ثابت ہوں گے اور دوزخ کا عذاب آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اس وقت شدت اضطراب سے کہے گا کہ کس طرح مجھ کو ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے تو دیکھو میں کیسا نیک بن کر آتا ہوں۔

۵۹۔۔۔     یعنی غلط کہتا ہے کہ کیا اللہ نے راہ نہیں دکھلائی تھی اور اپنے پیغمبروں کو نشانات اور احکام دے کر نہیں بھیجا تھا مگر تو نے تو ان کی کوئی بات ہی نہیں سنی۔ جو کچھ کہا گیا غرور اور تکبر سے اسے جھٹلاتا رہا تیری شیخی قبول حق سے مانع رہی۔ اور بات یہ ہے کہ اللہ کو ازل سے معلوم تھا کہ تو اس کی آیات کا انکار کرے گا۔ اور تکبر و سرکشی سے پیش آئے گا، تیرے مزاج و طبیعت کی افتاد ہی ایسے ہے۔ اگر ہزار مرتبہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے تب بھی اپنی حرکات سے باز نہیں آ سکتا۔ "ولو ردوا العادوا لمانہوا عنہ وانہم لکاذبون" (انعام، رکوع۳) ایسے لوگوں کی نسبت خدا کی عادت نہیں کہ ان کو عروس کامیابی سے ہمکنار کرے۔

۶۰۔۔۔   ۱: اللہ کی طرف سے جو سچی بات آئے اس کو جھٹلانا یہ ہی اللہ پر جھوٹ بولنا ہے۔ کیونکہ جھٹلانے والا دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے فلاں بات نہیں کہی حالانکہ واقع میں کہی ہے۔ اس جھوٹ کی سیاہی قیامت کے دن ان کے چہروں پر ظاہر ہو گی۔

۲: پہلے فکذبت بہاواستکبرت میں دو صفتیں کافر کی بیان ہوئی تھیں۔ تکذیب جو مشتمل ہے کذب پر اور استکبار و غرور، یہاں بتلا دیا کہ کذب و دروغ سے ان کے منہ کالے ہوں گے اور غرور و تکبر کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں۔

۶۱۔۔۔   یعنی اللہ تعالیٰ متقین کو ان کے ازلی فوزو سعادت کی بدولت کامیابی کے اس بلند مقام پر پہنچائے گا۔ جہاں ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ اور ہر طرح کے فکر و غم سے آزاد ہوں۔

۶۳۔۔۔   یعنی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد اس کی بقاء و حفاظت کا ذمہ دار بھی وہ ہی ہوا اور زمین و آسمان کی تمام چیزوں میں تصرف و اقتدار بھی اسی کو حاصل ہے کیونکہ سب خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ پھر ایسے خدا کو چھوڑ کر آدمی کہاں جائے۔ چاہیے کہ اسی کے غضب سے ڈرے اور اسی کی رحمت کا امید وار رہے۔ کفر و ایمان اور جنت و دوزخ سب اسی کے زیر تصرف ہیں۔ اس کی باتوں سے منکر ہو کر آدمی کا کہیں ٹھکانا نہیں۔ کیا اس سے منحرف ہو کر آدمی کسی فلاح کی امید رکھ سکتا ہے۔

۶۴۔۔۔     یعنی انتہائی نادانی اور حماقت و جہالت یہ ہے کہ آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کرے اور پیغمبر خدا سے (معاذ اللہ) یہ طمع رکھے کہ وہ اس کے راستہ پر جائیں گے۔ بعض روایات میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دیوتاؤں کی پرستش کی طرف بلایا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

۶۶۔۔۔     یعنی عقلی حیثیت سے دیکھا جائے کہ تمام چیزوں کا پیدا کرنا باقی رکھنا اور ان میں ہر قسم کے تصرفات کرتے رہنا صرف اللہ کا کام ہے تو عبادت کا مستحق بجز اس کے کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور نفلی حیثیت سے لحاظ کرو تو تمام انبیاء اللہ اور ادیان سماویہ توحید کی صحت اور شرک کے بطلان پر متفق ہیں بلکہ ہر نبی کو بذریعہ وحی بتلا دیا گیا ہے کہ (آخرت میں) مشرک کے تمام اعمال اکارت ہیں اور شرک کا انجام خالص حرمان و خسران کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر طرف سے ہٹ کر ایک خدائے قدوس کو پوجے اور اس کا شکر گزار و وفادار بندہ بنے۔ اس کے عظمت و جلال کو سمجھے۔ عاجز و حقیر مخلوق کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ اس کو اسی طرح بزرگ و برتر مانے، جیسا کہ وہ واقع میں ہے۔

۶۷۔۔۔   ۱: یعنی مشرکین نے اس کے عظمت و جلال اور بزرگی و برتری کو وہاں تک نہ سمجھا اور ملحوظ نہ رکھا جہاں تک ایک بندہ کو سمجھنا اور ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اس کی شان رفع اور مرتبہ بلند کا اجمالی تصور رکھنے والا، کیا عاجز و محتاج مخلوق حتی کہ پتھر کی بے جان مورتیوں کو اس کا شریک تجویز کر سکتا ہے۔ حاشا وکلا۔ آگے اس کی بعض شؤونِ عظمت و جلال کا بیان ہے۔

۲: یعنی جس کی عظمت شان کا یہ حال ہے کہ قیامت کے دن کل زمین اس کی ایک مٹھی میں اور سارے آسمان کاغذ کی طرح لپٹے ہوئے ایک ہاتھ میں ہوں گے، اس کی عبادت میں بے جان یا عاجز و محتاج مخلوق کو شریک کرنا کہاں تک روا ہو گا۔ وہ شرکاء تو خود اس کی مٹھی میں پڑے ہیں۔ جس طرح چاہے ان پر تصرف کرے۔ ذرا کان یا زبان نہیں ہلا سکتے۔ (تنبیہ) مطوبات بیمینہ" کے متعلق سورہ "انبیاء" کی آیت "یوم نطوی السماء"کا حاشیہ دیکھنا چاہیے۔ اور "یمین" وغیرہ الفاظ متشابہات میں سے ہیں جن پر بلا کیف ایمان رکھنا واجب ہے۔ بعض احادیث میں ہے "فکلتا یدیہ یمین" (اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں) اس سے تجسم، تحیز اور جہت وغیرہ کی نفی ہوتی ہے۔

۶۸۔۔۔   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ایک بار نفخ صور ہے عالم کا فناء کا، دوسرا ہے زندہ ہونے کا، یہ تیسرا بعد حشر کے ہے بیہوشی کا، چوتھا خبردار ہونے کا، اس کے بعد اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہو گی۔" اور بتغییر یسیر۔ لیکن علمائے محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخ صور ہو گا۔ پہلی مرتبہ میں سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پھر زندہ تو مردہ ہو جائیں گے اور جو مر چکے تھے ان کی ارواح پر بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ بعدہ دوسرا نفخہ ہو گا جس سے مردوں کی ارواح ابدان کی طرف واپس آ جائیں گی اور بیہوشی کو افاقہ ہو گا۔ اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے۔ پھر خداوند قدوس کی پیشی میں تیزی کے ساتھ حاضر کیے جائیں گے

(تنبیہ) الامن شاء اللہ سے بعض نے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں۔ بعض نے ان کے ساتھ حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہداء مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ استثناء اس نفخہ کے وقت ہو گا۔ اس کے بعد ممکن ہے ان پر بھی فنا طاری کر دی جائے۔ "لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار۔" (المومن، رکوع۲)

۶۹۔۔۔    یعنی اس کے بعد حق تعالیٰ حساب کے لیے اپنی شان کے مناسب نزول اجلال فرمائیں گے (کما ورد فی بعض روایات الدر المنثور) اس وقت حق تعالیٰ کی تجلی اور نور بے کیف سے محشر کی زمین چمک اٹھے گی حساب کا دفتر کھلے گا۔ سب کے اعمالنامے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے گواہ دربار میں حاضر ہوں گے اور ہر شخص کے اعمال کا نہایت انصاف سے ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا جائے گا۔ کسی پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہو گی (تنبیہ) "شہداء" سے مراد علاوہ انبیاء علیہم السلام کے فرشتے، امت محمدیہ کے لوگ اور انسان کے ہاتھ پاؤں وغیرہ سب ہو سکتے ہیں۔ اور حضرت شاہ صاحب نے ہر امت کے نیک آدمی مراد لیے ہیں۔

۷۰۔۔۔   ۱: یعنی نیکی کے بدلہ میں کمی اور بدی کے بدلہ میں زیادتی نہ ہو گی جس کا جتنا اچھا یا برا عمل ہے سب خدا کے علم میں ہے اسی کے موافق بدلہ ملے گا۔ جس کی کچھ تفصیل آگے آتی ہے۔

۲: یعنی گواہ آتے ہیں ان کے الزام کو۔ ورنہ اللہ سے کیا چیز پوشیدہ ہے۔ (کذا فی الموضح)

۷۱۔۔۔     ۱:یعنی تمام کافروں کو دھکے دے کر نہایت ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا اور چونکہ کفر کی اقسام و مراتب بہت ہیں ہر قسم اور ہر درجہ کا گروہ الگ الگ کر دیا جائے گا۔

۲:   جس طرح دنیا میں جیل خانہ کا پھاٹک کھلا نہیں رہتا جب کسی قیدی کو داخل کرنا ہوتا ہے کھول کر داخل کرتے اور پھر بند کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی وہاں جس وقت دوزخی دوزخ کے قریب پہنچیں گے دروازے کھول کر اس میں دھکیل دیا جائے گا۔ اس کے بعد دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ کما قال تعالیٰ "علیہم نار موصدۃ"(ھمزہ)

۳:  یعنی جو فرشتے دوزخ کے محافظ ہیں وہ کفار سے بطور ملامت یہ کہیں گے۔

۴: یعنی جن سے تم کو بسبب ہم جنس ہونے کے فیض لینا بہت آسان تھا۔

۵: یعنی پیغمبر کیوں نہیں آئے۔ ضرور آئے ہم کو اللہ کی باتیں سنائیں، اور آج کے دن سے بہت کچھ ڈرایا لیکن ہماری بدبختی اور نالائقی کہ ہم نے ان کا کہا نہ مانا، آخر خدا کی اٹل تقدیر سامنے آئی اور عذاب کا حکم ہم کافروں پر ثابت ہو کر رہا۔ "فاعترفوا بذنبہم فسحقًا لا صحاب لسعیر۔

۷۲۔۔۔    یعنی تم نے شیخی اور غرور میں آ کر اللہ کی بات نہ مانی۔ اب ہمیشہ دوزخ میں پڑے اس کا مزہ چکھتے رہو۔

۷۳۔۔۔    ۱: یعنی ایمان و تقویٰ کے مدارج چونکہ متفاوت ہیں ہر درجہ کے مومنین متقین کی جماعت الگ ہو گی اور ان سب جماعتوں کو نہایت شوق دلا کر جلدی جلدی جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا۔

۲:  یعنی جس طرح مہمانوں کے لیے ان کی آمد سے پہلے مہمان خانہ کا دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے، جنتی وہاں پہنچ کر جنت کے دروازے کھلے پائیں گے۔ کماقال فی موضع آخر "مفتحۃً لہم الابواب" (ص، رکوع۴) اور خدا کے فرشتے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ کلماتِ سلام و ثناء وغیرہ سے ان کا استقبال کریں گے اور جنت میں رہنے کی بشارت سنائیں گے۔

۷۴۔۔۔   ۱: یعنی خدا کا شکر جو وعدے انبیاء کی زبانی دنیا میں کیے گئے تھے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔

۲:  یعنی جنت کی زمین کا۔

۳:   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ان کو حکم ہے جہاں چاہیں جائیں لیکن ہر کوئی وہ ہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے۔" اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ جنت میں سیر و ملاقات کے لیے کہیں آنے جانے کی روک ٹوک نہ ہو گی۔

۷۵۔۔۔   یعنی حق تعالیٰ جب حساب کتاب کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے۔ اس وقت فرشتے عرش کے گردا گرد حلقہ باندھے اپنے رب کی تسبیح و تحمید کرتے ہوں گے اور تمام بندوں میں ٹھیک ٹھیک انصاف کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ جس پر ہر طرف سے جوش و خروش کے ساتھ "الحمدللہ رب العالمین" کا نعرہ بلند ہو گا۔ یعنی ساری خوبیاں اس خدا کو زیبا ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے (جس نے سارے جہان کا ایسا عمدہ فیصلہ کیا) اسی نعرہ تحسین پر دربار برخاست ہو جائے گا۔ عموماً مفسرین نے آیت کا یہ ہی مطلب بیان کیا ہے لیکن حضرت شاہ صاحب نے آیت کو حالت راہنہ پر حمل کیا اور قضی بینہم کی ضمیر ملائکہ کی طرف راجع کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "فرشتوں میں فیصلہ یہ کہ ہر ایک فرشتہ (ملاء الاعلیٰ میں) اپنے قاعدہ سے ایک تدبیر بولتا ہے۔ (کمایشیر الیہ اختصام الملاء الاعلی و تفصیلہ فی حجۃ اللہ البالغہ) پھر اللہ تعالیٰ ایک کی بات جاری کرتا ہے۔ وہ ہی ہوتی ہے حکمت کے موافق۔ یہ ماجرا اب بھی ہے اور قیامت میں بھی۔" واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ تم سورۃ الزمر بعون اللہ وتوفیقہ وللہ الحمد۔