خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الدّخان

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ دخان مکّی ہے، اس میں تین۳ رکوع اور ستاون۵۷ یا انسٹھ۵۹ آیتیں اور تین سو چھیالیس ۳۴۶کلمے اور ایک ہزار چار سو اکتیس ۱۴۳۱حرف ہیں۔

(۱)  حٰمٓ

(۲)  قسم اس روشن کتاب کی (ف ۲)

۲                 یعنی قرآنِ پاک کی جو حلال و حرام وغیرہ احکام کا بیان فرمانے والا ہے۔

(۳) بیشک ہم نے  اسے  برکت وا لی رات میں اتارا  (ف ۳)  بیشک ہم ڈر سنانے  والے  ہیں (ف ۴)

۳                 اس رات سے یا شبِ قدر مراد ہے یا شبِ برأۃ۔ اس شب میں قرآنِ پاک بِتمامہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا، پھر وہاں سے حضرت جبرئیل بیس۲۰ سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے، اس شب کو شبِ مبارکہ اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں قرآنِ پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس شب میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔

۴                 اپنے عذاب کا۔

(۴) اس میں بانٹ دیا جاتا ہے  ہر حکمت والا کام (ف ۵)

۵                 سال بھر کے ارزاق و آجال و احکام۔

(۵) ہمارے  پاس کے  حکم سے، بیشک ہم بھیجنے  والے  ہیں (ف ۶)

۶                 اپنے رسول خاتمُ الانبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور ان سے پہلے انبیاء کو۔

(۶) تمہارے  رب کی طرف سے  رحمت، بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔

(۷) وہ جو رب ہے  آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے، اگر تمہیں یقین ہو (ف ۷)

۷                 کہ وہ آسمان و زمین کا رب ہے تو یقین کرو کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اس کے رسول ہیں۔

(۸)  اس کے  سوا  کسی کی بندگی نہیں وہ جِلائے  اور مارے، تمہارا  رب اور تمہارے  اگلے  باپ دادا کا رب۔

(۹) بلکہ وہ شک میں پڑے  کھیل رہے  ہیں (ف ۸)

۸                 ان کا قرار علم و یقین سے نہیں بلکہ ان کی بات میں ہنسی اور تمسخر شامل ہے اور وہ آپ کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان پر دعا کی کہ یارب انہیں ایسی ہفت سالہ قحط کی مصیبت میں مبتلا کر جیسے سات سال کا قحط حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بھیجا تھا، یہ دعا مستجاب ہوئی اور حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ارشاد فرمایا گیا۔

(۱۰) تو تم اس دن کے  منتظر رہو جب  آسمان ایک ظاہر دھواں لائے  گا۔

(۱۱) کہ لوگوں کو ڈھانپ لے  گا (ف ۹) یہ ہے  دردناک عذاب۔

۹                 چنانچہ قریش پر قحط سالی آئی اور یہاں تک اس کی شدّت ہوئی کہ وہ لوگ مردار کھا گئے اور بھوک سے اس حال کو پہنچ گئے کہ جب اوپر کو نظر اٹھاتے، آسمان کی طرف دیکھتے تو ان کو دھواں ہی دھواں معلوم ہوتا یعنی ضعف سے نگاہوں میں خیر گی آ گئی تھی اور قحط سے زمین سے خشک ہو گئی، خاک اڑنے لگی، غبار نے ہوا کو مکدر کر دیا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دھوئیں سے مراد وہ دھواں ہے جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت ظاہر ہو گا، مشرق و مغرب اس سے بھر جائیں گے، چالیس روز و شب رہے گا، مومن کی حالت تو اس سے ایسی ہو جائے گی جیسے زکام ہو جائے اور کافر مدہوش ہوں گے، ان کے نتھنوں اور کانوں اور بدن کے سوراخوں سے دھواں نکلے گا۔

(۱۲) اس دن کہیں گے، اے  ہمارے  رب! ہم پر سے  عذاب کھول دے  ہم ایمان لاتے  ہیں (ف ۱۰)

۱۰               اور تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تصدیق کرتے ہیں۔

(۱۳) کہاں سے  ہو انہیں نصیحت ماننا (ف ۱۱) حالانکہ ان کے  پاس صاف بیان فرمانے  والا  رسول تشریف لا چکا (ف ۱۲)

۱۱               یعنی ایسی حالت میں وہ کیسے نصیحت مانیں گے۔

۱۲               اور معجزاتِ ظاہرات اور آیاتِ بیّنات پیش فرما چکا۔

(۱۴) اس سے  روگرداں ہوئے  اور بولے  سکھایا ہوا دیوانہ ہے  (ف ۱۳)

۱۳               جس کو وحی کی غشی طاری ہونے کے وقت جنّات یہ کلمات تلقین کر جاتے ہیں۔ (معاذ اﷲ تعالیٰ)

(۱۵) ہم کچھ دنوں کو عذاب کھولے  دیتے  ہیں تم پھر وہی کرو گے  (ف ۱۴)

۱۴               جس کفر میں تھے اسی کی طرف لوٹو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا، اب فرمایا جاتا ہے کہ ا س دن کو یاد کرو۔

(۱۶) جس دن ہم سب سے  بڑی پکڑ  پکڑیں گے  (ف ۱۵) بیشک ہم بدلہ لینے  والے  ہیں۔

۱۵               اس دن سے مراد روزِ قیامت ہے یا روزِ بدر۔

(۱۷) اور بیشک ہم نے  ان سے  پہلے  فرعون کی قوم کو جانچا اور ان کے  پاس ایک معزز رسول تشریف لایا (ف ۱۶)

۱۶               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام۔

(۱۸) کہ اللہ کے  بندوں کو مجھے  سپرد کر دو (ف ۱۷) بیشک میں تمہارے  لیے  امانت والا رسول ہوں۔

۱۷               یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو اور جو شدّتیں اور سختیاں ان پر کرتے ہو اس سے رہائی دو۔

(۱۹) اور اللہ کے  مقابل سرکشی نہ کرو، میں تمہارے  پاس ایک روشن سند لاتا ہوں (ف ۱۸)

۱۸               اپنے صدقِ نبوّت و رسالت کی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمایا تو فرعونیوں نے آپ کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے تو آپ نے فرمایا۔

(۲۰) اور میں پناہ لیتا ہوں اپنے  رب اور تمہارے  رب کی اس سے  کہ تم مجھے  سنگسار کرو (ف ۱۹)

۱۹               یعنی میرا تو کّل و اعتماد اس پر ہے، مجھے تمہاری دھمکی کی کچھ پروا نہیں، اللہ تعالیٰ میرا بچانے والا ہے۔

(۲۱) اور اگر میرا  یقین نہ لاؤ تو مجھ سے  کنارے  ہو جاؤ (ف ۲۰)

۲۰               میری ایذا کے درپے نہ ہو، انہوں نے اس کو بھی نہ مانا۔

(۲۲) تو اس نے  اپنے  رب سے  دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں۔

(۲۳)  ہم نے  حکم فرمایا کہ میرے  بندوں (ف ۲۱) کو راتوں رات لے  نکل ضرور تمہارا پیچھا کیا جائے  گا (ف ۲۲)

۲۱               یعنی بنی اسرائیل۔

۲۲               یعنی فرعون مع اپنے لشکروں کے تمہارے درپے ہو گا، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام روانہ ہوئے اور دریا پر پہنچ کر آپ نے عصا مارا، اس میں بارہ رستے خشک پیدا ہو گئے، آپ مع بنی اسرائیل کے دریا میں سے گزر گئے، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آ رہا تھا، آپ نے چاہا کہ پھر عصا مار کر دریا کو ملا دیں تاکہ فرعون اس میں سے گزر نہ سکے تو آپ کو حکم ہوا۔

(۲۴) اور دریا کو یونہی  جگہ جگہ سے  چھوڑ دے  (ف ۲۳) بیشک وہ لشکر ڈبو دیا جائے  گا (ف ۲۴)

۲۳               تاکہ فرعونی ان راستوں سے دریا میں داخل ہو جائیں۔

۲۴               حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان ہو گیا اور فرعون اور اس کے لشکر دریا میں غرق ہو گئے اور ان کا تمام مال و متاع اور سامان یہیں رہ گیا۔

 (۲۵) کتنے  چھوڑ گئے  باغ اور چشمے۔

(۲۶)  اور کھیت اور عمدہ مکانات (ف ۲۵)

۲۵               آراستہ، پیراستہ، مزیّن۔

(۲۷) اور نعمتیں جن میں فارغ البال تھے  (ف ۲۶)

۲۶               عیش کرتے، اتراتے۔

(۲۸) ہم نے  یونہی کیا اور ان کا وارث دوسری قوم کو کر دیا (ف ۲۷)

۲۷               یعنی بنی اسرائیل کو جو نہ ان کے ہم مذہب تھے، نہ رشتہ دار، نہ دوست۔

(۲۹) تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے  (ف ۲۸) اور انہیں مہلت نہ دی گئی (ف ۲۹)

۲۸               کیونکہ وہ ایماندار نہ تھے اور ایماندار جب مرتا تو اس پر آسمان و زمین چالیس روز تک روتے ہیں، جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں ہے مجاہد سے کہا گیا کہ مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں، فرمایا زمین کیوں نہ روئے اس بندے پر جو زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا اور آسمان کیوں نہ روئے اس بندے پر جس کی تسبیح و تکبیر آسمان میں پہنچتی تھی۔ حسن کا قول ہے کہ مومن کی موت پر آسمان والے اور زمین والے روتے ہیں۔

۲۹               توبہ وغیرہ کے لئے عذاب میں گرفتار کرنے کے بعد۔

(۳۰) اور بیشک ہم نے  بنی اسرائیل کو ذلت کے  عذاب سے  نجات بخشی  (ف ۳۰)

۳۰               یعنی غلامی اور شاقّہ خدمتوں اور محنتوں سے اور اولاد کے قتل کئے جانے سے جو انہیں پہنچتا تھا۔

(۳۱) فرعون سے، بیشک وہ متکبر حد سے  بڑھنے  والوں سے۔

(۳۲) اور  بیشک  ہم نے  انہیں (ف ۳۱) دانستہ  چن لیا اس زمانے   والوں  سے ۔

۳۱               یعنی بنی اسرائیل کو۔

(۳۳) ہم نے  انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا (ف ۳۲)

۳۲               کہ ان کے لئے دریا میں خشک رستے بنائے، ابر کو سائبان کیا، من و سلویٰ اتارا، اس کے علاوہ اور نعمتیں دیں۔

(۳۴) بیشک یہ (ف ۳۳) کہتے  ہیں۔

۳۳               کفّارِ مکّہ۔

(۳۵) وہ تو نہیں مگر ہمارا  ایک دفعہ کا مرنا (ف ۳۴) اور ہم اٹھائے  نہ جائیں گے  (ف ۳۵)

۳۴               یعنی اس زندگانی کے بعد سوائے ایک موت کے ہمارے لئے اور کوئی حال باقی نہیں، اس سے ان کا مقصود بعث یعنی موت کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنا تھا جس کو اگلے جملے میں واضح کر دیا۔ (کبیر)

۳۵               بعدِ موت زندہ کر کے۔

(۳۶) تو ہمارے  باپ دادا کو لے  آؤ اگر تم سچے  ہو (ف ۳۶)

۳۶               اس بات میں کہ ہم بعد مرنے کے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے، کفّارِ مکّہ نے یہ سوال کیا تھا کہ قُصَیْ بِن کلاب کو زندہ کر دو، اگر موت کے بعد کسی کا زندہ ہونا ممکن ہو، اور یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ جس کام کے لئے وقت معیّن ہو اس کا اس وقت سے قبل وجود میں نہ آنا اس کے ناممکن ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اور نہ اس کا انکار صحیح ہوتا ہے، اگر کوئی شخص کسی نئے جمے ہوئے درخت یا پودے کو کہے کہ اس میں سے اب پھل نکالو ورنہ ہم نہیں مانیں گے کہ اس درخت سے پھل نکل سکتا ہے تو اس کو جاہل قرار دیا جائے گا اور اس کا انکار محض حُمُق یا مکابرہ ہو گا۔

(۳۷) کیا  وہ بہتر ہیں (ف ۳۷) یا تبع کی قوم (ف ۳۸) اور جو ان سے  پہلے  تھے  (ف ۳۹) ہم نے  انہیں ہلاک کر دیا (ف ۴۰) بیشک وہ مجرم لوگ تھے  (ف ۴۱)

۳۷               یعنی کفّارِ مکّہ زور و قوّت میں۔

۳۸               تُبَّع حمِیْری بادشاہِ یمن صاحبِ ایمان تھے اور ان کی قوم کافر تھی جو نہایت قوی، زور آور اور کثیرُ التعداد تھی۔

۳۹               کافر امّتوں میں سے۔

۴۰               ان کے کفر کے باعث۔

۴۱ٍ               کافر، منکِرِ بعث۔

(۳۸) اور ہم نے  نہ بنائے  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  کھیل کے  طور پر (ف ۴۲)

۴۲               اگر مرنے کے بعد اٹھنا اور حساب و ثواب نہ ہو تو خَلق کی پیدائش محض فنا کے لئے ہو گی اور یہ عبث و لعب ہے۔ تو اس دلیل سے ثابت ہوا کہ اس دنیوی زندگی کے بعد اخروی زندگی ضرور ہے جس میں حساب و جزا ہو۔

(۳۹) ہم نے  انہیں نہ بنایا مگر حق کے  ساتھ (ف ۴۳) لیکن ان میں اکثر جانتے  نہیں (ف ۴۴)

۴۳               کہ طاعت پر ثواب دیں اور معصیّت پر عذاب کریں۔

۴۴               کہ پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے اور حکیم کا فعل عبث نہیں ہوتا۔

(۴۰) بیشک فیصلہ کا دن (ف ۴۵) ان سب کی میعاد ہے۔

۴۵               یعنی روزِ قیامت جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلہ فرمائے گا۔

(۴۱) جس دن کوئی دوست کسی دوست کے  کچھ کام نہ آئے  گا (ف ۴۶) اور نہ ان کی مدد ہو گی (ف ۴۷)

۴۶               اور قرابت و محبّت نفع نہ دے گی۔

۴۷               یعنی کافروں کی۔

(۴۲) مگر جس پر اللہ رحم کرے  (ف ۴۸) بیشک وہی عزت والا مہربان ہے۔

۴۸               یعنی سوائے مومنین کے، کہ وہ باذنِ الٰہی ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے۔ (جمل)

(۴۳) بیشک تھوہڑ  کا پیڑ (ف ۴۹)

۴۹               تھوہڑ ایک خبیث، نہایت کڑوا درخت ہے جو اہلِ جہنّم کی خوراک ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر ایک قطرہ اس تھوہڑ کا دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو اہلِ دنیا کی زندگانی خراب ہو جائے۔

(۴۴) گنہگاروں کی خوراک ہے  (ف ۵۰)

۵۰               ابوجہل کی اور اس کے ساتھیوں کی جو بڑے گنہگار ہیں۔

(۴۵)  گلے  ہوئے  تانبے  کی طرح پیٹوں میں جوش مارتا ہے۔

(۴۶)  جیسا  کھولتا پانی جوش مارے  (ف ۵۱)

۵۱               جہنّم کے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ۔

(۴۷) اسے  پکڑو (ف ۵۲) ٹھیک بھڑکتی آگ کی طرف بزور گھسیٹتے  لے  جاؤ۔

۵۲               یعنی گنہگار کو۔

(۴۸)  پھر اس کے  سر کے  اوپر کھولتے  پانی کا عذاب ڈالو (ف ۵۳)

۵۳               اور اس وقت دوزخی سے کہا جائے گا کہ۔

(۴۹) چکھ، (ف ۵۴) ہاں ہاں تو ہی بڑا عزت والا کرم والا ہے  (ف ۵۵)

۵۴               اس عذاب کو۔

۵۵               ملائکہ یہ کلمہ اہانت اور تذلیل کے لئے کہیں گے کیونکہ ابوجہل کہا کرتا تھا کہ بطحاء میں میں بڑا عزّت والا کرم والا ہوں، اس کو عذاب کے وقت یہ طعنہ دیا جائے گا اور کفّار سے یہ بھی کہا جائے گا کہ۔

(۵۰) بیشک  یہ ہے  وہ (ف ۵۶) جس میں تم شبہہ کرتے  تھے  (ف ۵۷)

۵۶               عذاب جو تم دیکھتے ہو۔

۵۷               اور اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اس کے بعد پرہیزگاروں کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔

(۵۱)  بیشک ڈر والے  امان کی جگہ میں ہیں (ف ۵۸)

۵۸               جہاں کوئی خوف نہیں۔

(۵۲) باغوں اور چشموں میں۔

(۵۳) پہنیں گے  کریب اور قنادیز (ف ۵۹)  آمنے  سامنے  (ف ۶۰) 

۵۹               یعنی ریشم کے باریک و دبیز لباس۔

۶۰               کہ کسی کی پشت کسی کی طرف نہ ہو۔

(۵۴)  یونہی ہے، اور ہم نے  انہیں بیاہ دیا نہایت سیاہ اور روشن بڑی آنکھوں وا لیوں سے۔

(۵۵) اس میں ہر قسم کا میوہ مانگیں گے  (ف ۶۱) امن و امان سے  (ف ۶۲)

۶۱               یعنی جنّت میں اپنے جنّتی خادموں کو میوے حاضر کرنے کا حکم دیں گے۔

۶۲               کہ کسی قِسم کا اندیشہ ہی نہ ہو گا، نہ میوے کے کم ہونے کا، نہ ختم ہو جانے کا، نہ ضرر کرنے کا، نہ اور کوئی۔

(۵۶) اس میں پہلی موت کے  سوا (ف ۶۳) پھر موت نہ چکھیں گے  اور اللہ نے  انہیں آگ کے  عذاب سے  بچا لیا، (ف ۶۴)

۶۳               جو دنیا میں ہو چکی۔

۶۴               اس سے نجات عطا فرمائی۔

(۵۷)  تمہارے  رب کے  فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

(۵۸)  تو ہم نے  اس قرآن کو تمہاری زبان میں (ف ۶۵)  آسان کیا کہ وہ سمجھیں (ف ۶۶)

۶۵               یعنی عربی میں۔

۶۶               اور نصیحت قبول کریں اور ایمان لائیں، لیکن لائیں گے نہیں۔

(۵۹) تو تم انتظار کرو (ف ۶۷) وہ بھی کسی انتظار میں ہیں (ف ۶۸)

۶۷               ان کے ہلاک و عذاب کا۔

۶۸               تمہاری موت کے۔ (قیل ہذہ الایۃ منسوخۃ بآیۃ السیف)