دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الدّخان

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

نام

 

آیت ۱۰ میں آسمان سے دخان (دھوئیں) کے نکلنے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورۃ کا نام "الدخان" ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ زخرف کے بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن کی قدر نہ کرنے والوں اور پیغمبر قرآن کا انکار کرنے والوں کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۶ میں قرآن کی قدر و منزلت بیان کی گئی ہے۔

 

آیت ۷ اور ۸ میں قرآن نازل کرنے والے کی معرفت بخشی گئی ہے۔

 

آیت ۹ تا ۳۳ میں قوم فرعون کی تباہی اور بنی اسرائیل کی سرفرازی کو ایک تاریخی مثال کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ رسول کی مخالفت کرنے والے کس انجام کو پہنچے اور اس کی پیروی کرنے والے کس طرح سرخرو ہوئے۔

 

آیت ۳۴ تا ۵۷ میں دوسری زندگی کا انکار کرنے والوں اور اس پر یقین رکھ کر تقویٰ کی زندگی گزارنے والوں کا الگ الگ انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے دن ان کے سامنے آئے گا۔

 

آیت ۵۸ اور ۵۹ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں قرآن کی قدر نہ کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے۔ یعنی جس مضمون سے سورہ کا آغاز ہوا تھا اسی پر اس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حا۔ میم ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے روشن کتاب کی ۲*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اسے ایک مبارک شب میں نازل کیا۔ ۳* یقیناً ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے۔ ۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شب میں ہر قسم کے حکیمانہ امور طے کئے جا رہے تھے۔ ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری طرف سے ایک فرمان کی حیثیت سے۔ ۶* یقیناً ہم رسول بھیجنے والے تھے۔ ۷*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے رب کی رحمت کے طور پر۔ ۸* بلا شبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۹*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کا نیز ان کے درمیان کی تمام موجودات کا رب۔ اگر تم کو یقین کرنا ہے۔ ۱۰*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سوا کوئی الٰہ (معبود) نہیں۔ وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ تمہارا رب اور تمہارے گزرے ہوئے آبا ء و اجداد کا رب۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ ۱۱*

 

۱۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انتظار کرو اس دن کا جب آسمان سے کھلا ہوا دھواں نمودار ہو گا۔ ۱۲*

 

۱۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگوں پر چھا جاۓ گا۔ یہ ہے درد ناک عذاب۔

 

۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ہمارے رب! ہم سے عذاب دور کر دے ہم ایمان لاتے ہیں۔

 

۱۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان کے لیے نصیحت حاصل کرنے کا کیا موقع رہا جب کہ ان کے پاس رسول آشکارا طور پر ا گیا تھا۔ ۱۳*

 

۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انہوں نے اس سے رو گردانی کی تھی اور کہا تھا یہ تو ایک سکھایا پڑھایا خطبی ہے۔ ۱۴*

 

۱۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کچھ دیر کے لیے عذاب کو دور کر بھی دیں تو تم وہی کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ ۱۵*

 

۱۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن ہم بڑی پکڑ میں لیں گے ۱۶* اس دن ہم سزا دے کر رہیں گے۔

 

۱۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ۱۷* اس سے پہلے قوم فرعون کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ ۱۸* ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔

 

۱۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالہ کرو۔ ۱۹* میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔ ۲۰*

 

۱۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے کھلی حجت پیش کرتا ہوں۔ ۲۱*

 

۲۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگی اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ ۲۲*

 

۲۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھے چھوڑ دو۔ ۲۳*

 

۲۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ لوگ مجرم ہیں۔ ۲۴*

 

۲۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ (حکم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ ۲۵* تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ ۲۶*

 

۲۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سمندر کو ساکن چھوڑ دو۔ یہ لوگ ڈوب جانے والا لشکر ہیں۔ ۲۷*

 

۲۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کتنے ہی باغ اور چشمے چھوڑے۔

 

۲۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کھیت اور عمدہ ٹھکانے۔

 

۲۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سامانِ عیش جس میں وہ مزے کر رہے تھے۔ ۲۸*

 

۲۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح ہم نے ان کے ساتھ معاملہ کیا اور ان چیزوں کا وارث ہم نے دوسروں کو بنایا۔ ۲۹*

 

۲۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین ۳۰* اور نہ ان کو کوئی مہلت دی گئی۔

 

۳۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات دی۔

 

۳۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرعون سے ۳۱* جو حد سے گزر جانے والے لوگوں میں سے تھا ۳۲* اور بڑا ہی سرکش تھا۔ ۳۳*

 

۳۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان کو (یعنی بنی اسرائیل کو) جانتے ہوئے دنیا والوں پر ترجیح دی۔ ۳۴*

 

۳۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہیں ایسی نشانیاں عطا کیں جن میں کھلی آزمائش تھی۔ ۳۵*

 

۳۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ۳۶* بڑے وثوق سے کہتے ہیں۔

 

۳۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بس یہ ہماری پہلی موت ہے ۳۷* اور اس کے بعد ہم اٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔

 

۳۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ ہمارے باپ دادا کو۔ ۳۸*

 

۳۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ (قوت و شوکت میں) یہ لوگ بہتر ہیں یا قوم تبع ۳۹* اور وہ قومیں جو ان سے پہلے گزریں۔ ۴۰* ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ وہ بڑے مجرم تھے۔

 

۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۴۱*

 

۳۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو (مقصدِ)حق کے ساتھ پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ ۴۲*

 

۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کا دن ۴۳* ان سب کے لیے وقتِ مقرر ہے۔

 

۴۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن کوئی قریبی عزیز کسی قریبی عزیز کے کام نہ آئے گا اور نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

 

۴۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم کرے۔ ۴۴* یقیناً وہ بڑا زبردست رحم فرمانے والا۔ ۴۵*

 

۴۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ زقوم ۴۶* کا درخت۔

 

۴۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ گنہگاروں ۴۷* کا کھانا ہو گا۔

 

۴۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا پگھلی ہوئی دھات۔ وہ پیٹ میں گھولے گا۔ ۴۸*

 

۴۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے گرم پانی کھولتا ہے۔ ۴۹*

 

۴۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پکڑو اس کو ۵۰* اور گھسیٹتے ہوئے جہنم کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔

 

۴۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب انڈیل دو۔

 

۴۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ چکھ اس کا مزہ۔ تو بڑا زبردست اور عزت والا آدمی ہے۔ ۵۱*

 

۵۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں تم شک میں پڑے ہوئے تھے۔ ۵۲*

 

۵۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ اللہ سے ڈرنے والے ۵۳* پر امن مقام میں ہوں گے۔ ۵۴*

 

۵۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ باغوں اور چشموں میں۔

 

۵۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

 

۵۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح وہ سرفراز کئے جائیں گے۔ اور حسین چشم حوروں سے ہم ان کا بیاہ کر دیں گے۔ ۵۵*

 

۵۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر قسم کے میوے طلب کریں گے۔

 

۵۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی موت کے بعد وہ کسی موت کا مزہ نہیں چکھیں گے۔ ۵۶*

 

۵۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمہارے رب کے فضل سے ہو گا۔ ۵۷* یہی ہے بڑی کامیابی۔ ۵۸*

 

۵۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے (اے پیغمبر!) تمہاری زبان میں اسے آسان بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ۵۹*

 

۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تم بھی انتظار کرو۔ وہ بھی انتظار کرتے ہیں۔ ۶۰*

تفسیر

۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح سورۂ مومن نوٹ ۱ میں گزر چکی۔

 

اس سورہ کی آیت ۴ میں الہ کے حکیمانہ فیصلوں کا ذکر ہوا ہے اور ان حروف کا اشارہ اسی مضمون (امر حکیم) کی طرف ہے۔ اور اللہ کے حکیمانہ فیصلے اس کے "حکیم" (حکمت والا) ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

 

۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ زخرف نوٹ ۲ میں گزر چکی۔

 

۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہدایت کی روشنی رات کی تاریکی میں نمودار ہوئی۔ گویا وہ جہالت کی تاریکیوں کو چیرتے ہوئے نمودار ہوئی تھی اور وہ گھڑی بڑی خیر و برکت اور سعادت کی گھڑی تھی جب نزولِ قرآن کا آغاز ہوا کیونکہ نزولِ قرآن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑے اور روحانی برکتوں سے فضا معمور ہوئی۔ یہ شب اپنے اسی وصف کی بنا پر کہ اس میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا مبارک شب اور قدر و منزلت والی شب (لیلۃ القدر) قرار پائی۔ عام طور سے مفسرین نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مبارک شب اور لیلۃ القدر پہلے سے ایک ممتاز اور فضیلت والی شب تھی جس کو نزول قرآن کے لیے منتخب کیا گیا مگر اس کی تائید میں نہ قرآن کی کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی صحیح حدیث۔ حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز کرتے وقت جس جگہ سے اللہ تعالیٰ نے پکارا تھا اسے البقعۃ المبارکۃ (مبارک خطہ۔ سورہ قصص۔ ۳۰) کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ خطہ پہلے سے مبارک چلا ا رہا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس خطہ کو ندائے الٰہی کے لیے منتخب کئے جانے کا شرف حاصل ہو رہا ہے اس لیے یہ خطہ مبارک قرار پایا۔ اسی طرح قرآن کو مبارک شب میں نازل کرنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ یہ شب نزولِ قرآن کی برکتوں کی وجہ سے مبارک قرار پائی ہے۔ (دیکھئے سورۂ قدر نوٹ ۲)

 

یہ وہی شب ہے جسے سورۂ قدر میں لیلۃ القدر سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآن کے نزول کا آغاز رمضان میں ہوا تھا۔

 

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنَ (بقرہ:۱۸۵) " رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا "

 

اس لیے یہ مبارک شب رمضان کی ایک شب تھی اور حدیث کی صراحت کے مطابق یہ رمضان کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ بعض مفسرین نے " مبارک رات" سے مراد شعبان کی پندرہویں شب لی ہے جسے "شب برأت" کہا جاتا ہے مگر یہ تاویل قرآن کی تصریحات کے بالکل خلاف ہے اس لیے یہ قول قابل رد ہے۔ علامہ ابن کثیر اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"جنہوں نے کہا کہ یہ نصف شعبان کی شب ہے جیسا کہ عکرمہ سے مروی ہے تو انہوں نے بہت دور کی بات کہی کیونکہ قرآن صراحت کرتا ہے کہ وہ رمضان کی رات ہے۔ رہی وہ حدیث جو عبداللہ بن صالح نے لیث، عقیل اور زہری کے واسطہ سے عثمان بن محمد بن نصیر الاحنس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اجل پوری ہو جانے (یعنی موت) کا فیصلہ شعبان سے شعبان تک کے لیے کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک شخص نکاح کر لیتا ہے اور اسے اولاد ہونے والی ہوتی ہے مگر اس کا نام مردوں میں شامل ہو چکا ہوتا ہے۔ تو یہ حدیث مرسل ہے (یعنی تابعی نے صحابی کے واسطہ کے بغیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی ہے (اور اس قسم کی روایتیں نصوص (قرآن کی تصریحات) کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جا سکتیں" (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۱۳۷)۔

 

اصل میں شب برأت (شعبان کی پندرہویں شب) کی فضیلت نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے جو روایتیں اس کی فضیلت میں پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔ ایسی روایتوں سے دین میں حجت قائم نہیں ہوتی۔ اگر شب برأت کی کوئی اصل ہوتی تو یہ بات صحابہ کرام میں مشہور ہوتی اور اس کو بیان کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی مگر عجیب بات یہ ہے کہ اتنی اہم بات کو نقل کرنے والے یا تو ضعیف راوی ہیں یا وہ جنہوں نے فضائل کے سلسلہ میں حدیثیں گڑھنے کا کارخانہ کھول رکھا تھا۔

 

۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غفلت میں پڑی ہوئی اور اپنے انجام سے بے خبر انسانیت کو چونکا دینا اور خبردار کرنا وہ اہم ترین مقصد ہے جس کے لیے قرآن کا نزول ہوا۔

 

۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس شب میں نہایت اہم اور حکیمانہ فیصلے کئے گئے مثلاً حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز کرنے کا فیصلہ، ایک معجزانہ کتاب عطا کرنے کا فیصلہ، اس کتاب کی حفاظت کا فیصلہ، دین کی تکمیل اور اس کو غالب کرنے کا فیصلہ ، امت مسلمہ کو برپا کرنے ، اس کو امامت کے منصب پر مامور کرنے اور خانۂ کعبہ کو اس کی تولیت میں دینے کا فیصلہ، اس کے ذریعہ دنیا میں عالمگیر دینی انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ اور جنت کے لیے ان لوگوں کے انتخاب کا فیصلہ جو چمن انسانیت کے گلِ سر سبد ہوں۔ یہ اور اس طرح کے فیصلے اللہ کی حکیمانہ شان کے مظہر تھے۔

 

۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا نزول فرمانروائے کائنات کی طرف سے ایک واجب الاطاعت فرمان (Decree) کی حیثیت سے ہوا ہے جس سے انکار کی صورت میں سزا لازمی ہے۔ کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس کتاب کو ماننا اور نہ ماننا یکساں ہے۔

 

۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارا یہ فیصلہ تھا کہ ایک رسول بھیجنا ہے اس لیے ہم نے رسالت کے لیے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا انتخاب کر کے ان پر وحی نازل کی۔

 

۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کتاب تمہارے رب کی طرف سے رحمت بن کر نازل ہوئی ہے۔ اسے اپنے لیے مصیبت نہ سمجھو۔ اگر قبول کرو گے تو تم پر اس کی رحمتوں کی بارش ہو گی۔

 

۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی ان دو صفتوں کا یہاں ذکر اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے ہے کہ اس مہتمم بالشان کتاب کے بارے میں کون کیا کہتا ہے اس کو وہ سن لے گا اور اس کے ساتھ کون کیا سلوک کرتا ہے اس کو دیکھ لے گا۔

 

۱۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا کائنات کا رب ہونا ایک حقیقت ہے مگر تمہیں اس کا یقین نہیں۔ اگر تمہیں اس کا یقین ہوتا تو غیر اللہ کو معبود نہ بناتے۔

 

۱۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا کے بارے میں وہ طرح طرح کے شکوک میں مبتلا ہیں اور جو حقیقتیں پیش کی جا رہی ہیں ان پر وہ سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

 

۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دھواں ہے جو کافروں پر چھا جائے گا جیسا کہ بعد کی آیتوں سے واضح ہے۔ مگر بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو مکہ میں لوگوں کو قحط کی سخت تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے آسمان پر دکھائی دے رہا تھا۔ عام طور سے مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہی قول پیش کرتے ہیں مگر علامہ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن نے جو "دخان مبین" کہا ہے تو اس کے معنی کھلے ہوئے اور واضح دھوئیں کے ہیں جس کو ہر شخص دیکھ سکے گا۔ مگر عبداللہ بن مسعود کی تفسیر کی رو سے دھواں محض خیالی تھا جو بھوک کی شدت سے لوگوں کو دکھائی دے رہا تھا اور اگر واقعی یہ محض خیالی دھواں ہوتا تو قرآن یہ نہ کہتا کہ " وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ " (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۴ص۱۳۹)

 

ہم سمجھتے ہیں کسی روایت کے پیش نظر قرآن کی کسی آیت کی ایسی تاویل کرنا جو اس کے ظاہری پہلو اور اس کے مضمون سے مطابقت نہ رکھی ہو صحیح نہیں۔ البتہ روایت کی یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ روایت نقل کرنے میں راویوں سے سہو ہوا ہے۔ اور جہاں تک قیامت کے دن کافروں پر دھواں چھوڑے جانے کا تعلق ہے سورۂ رحمن میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔

 

یُرْسَلُ عَلَیْکُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَار وَنُخَاسٌ فَلَاتَنتَصِرَانِ: (رحمن:۳۵) " تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا تو تم اپنی مدافعت نہ کر سکو گے۔ "

 

رہی وہ حدیث جس میں قرب قیامت میں دخان (دھوئیں) کے ظاہر ہونے کی پیشین گوئی کی گئی ہے (مسلم کتا ب الفتن) تو وہ دوسرا دھواں ہے جو قیامت کی علامتوں میں سے ہے اور حدیث میں اس دھوئیں کو اس آیت کی تفسیر نہیں قرار دیا گیا ہے۔

 

۱۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت حاصل کرنے کا موقع ظاہر ہے قیامت کے دن ہی باقی نہیں رہے گا اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن جس دھوئیں کے عذاب کا ذکر کر رہا ہے وہ قیامت کے دن کا دھواں ہے۔

 

۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کا یہ الزام بالکل بے بنیاد تھا۔ اگر پیغمبر کے بارے میں واقعی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی شخص انہیں سکھا پڑھا رہا ہے تو انہوں نے اس شخص کی نشاندہی کیوں نہیں کی؟ اور وہ شخص آخر کیسا تھا جو اخیر وقت تک چھپا رہا اور یہ ظاہر نہیں کیا کہ اس عظیم کتاب کا مصنف میں ہو؟ رہا خبطی ہونے کا الزام تو قرآن کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس میں کتنی صداقت ہے۔ یہ کیسی دیوانہ کی بڑ ہے یا حکیمانہ کلام ؟

 

۱۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسی سورۂ انعام آیت ۲۸ میں ارشاد ہوئی ہے۔ وَلَوْرُدُّوْلَعَادُوْلِمَانُہُوْا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ۔ "اگر انہیں (دنیا کی طرف) واپس بھیج دیا جائے تو وہ پھر وہی کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ "

 

۱۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے اور اس کی تائید ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو طبری نے ان سے نقل کی ہے:

 

" عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا ابن مسعود کہتے ہیں البطثۃ الکبریٰ سے مراد یوم بدر ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ مراد قیامت کا دن ہے۔ " (تفسیر طبری ج ۲۵ ص ۷۰)

 

۱۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم فرعون کا قصہ اس سے پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا یہاں اس کے چند پہلو حالات کی مناسبت سے پیش کئے گئے ہیں۔

 

۱۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آزمائش اس بات کی کہ اقتدار پا کر تم کمزوروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو نیز اس بات کی کہ اللہ کی طرف سے رسول آ جانے اور معجزات کو دیکھ لینے کے بعد تم اس کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہو۔

 

۱۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو کہ مصر سے چلے جائیں۔ وہ اللہ کے بندے ہیں نہ کہ فرعون کے بندے اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو تم میرے حوالہ کر دو تاکہ انہیں اللہ کے احکام کی تعمیل کے لیے آزادانہ ماحول میسر آئے۔

 

۲۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ امانت دار رسول ہو ں یعنی اللہ کا پیغام اور اس کے احکام ٹھیک ٹھیک تمہیں پہنچا رہا ہوں میرے بارے میں اس بات کا اندیشہ نہیں ہو سکتا کہ میں کوئی بات اپنی طرف سے اللہ کی طرف منسوب کر کے بیان کروں گا۔

 

۲۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رسول ہونے کی حجت۔ مراد معجزہ ہے۔

 

۲۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومِ فرعون نے حضرت موسیٰ کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے کس عزم اور حوصلہ کا ثبوت دیا تھا۔

 

اس آیت میں یہ رہنمائی بھی ہے کہ ایک مومن کو جب دشمن کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہو تو وہ اس شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔

 

۲۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میری بات تم نہیں ماننا چاہتے تو نہ مانو لیکن میری راہ نہ روکو بلکہ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ مگر اتنی معقول بات بھی فرعون اور اس کی قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوئی اور وہ حضرت موسیٰ کے خلاف کارروائی کرتے رہے۔

 

۲۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دعا حضرت موسیٰ نے اس وقت کی جب کہ وہ اصلاح کی مسلسل کوششوں کے بعد ان لوگوں کی طرف سے مایوس ہو گئے تھے اور انہیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ لوگ اب ایمان لانے والے نہیں۔

 

۲۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ قوم فرعون کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا تم میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے نکل جاؤ۔

 

۲۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ شعراء نوٹ ۴۹۔

 

۲۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کے سمندر پر لاٹھی مارنے سے وہ پھٹ گیا تھا اور بنی اسرائیل کے لیے معجزانہ طور پر راستہ بن گیا تھا تاکہ وہ سمندر کو عبور کر سکیں۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ کو ہدایت ہوئی کہ وہ جب بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر عبور کر چکیں تو اس کو اسی حال میں رہنے دیں اور دوبارہ لاٹھی مارکر اس کو ملانے کا ارادہ نہ کریں کیونکہ اللہ کا منصوبہ یہ ہے کہ فرعون راہ کھلی دیکھ کر اپنے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہو اور جب بیچ سمندر کے پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سمندر کے دونوں حصوں کو ملا دے اور یہ سب غرق ہو جائیں۔

 

۲۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ شعراء نوٹ ۵۲۔

 

۲۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ شعراء نوٹ ۵۳۔

 

۳۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت پر نہ آسمان والوں کو کوئی افسوس ہوا اور نہ زمین والوں کو کیونکہ وہ ظالم تھے اور اپنی ہلاکت کے آپ ذمہ د ار تھے۔

 

۳۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون بنی اسرائیل کے لیے عذاب بن کر رہ گیا تھا اور عذاب بھی ایسا جو ذلیل کر دینے والا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو ایک مومن گروہ تھا فضل فرمایا اور فرعون کی گرفت سے انہیں آزاد کر دیا۔

 

اس واقعہ میں اہل ایمان کے لیے یہ سبق ہے کہ اگر وہ کسی وجہ سے ظالمانہ اقتدار کی گرفت میں آ گئے ہوں تو صبر و استقامت کے ساتھ ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے نجات کی راہ کھول دے گا۔

 

۳۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اخلاقی حدود سے گزرنے والا تھا۔ بالفاظ دیگر بد اخلاق، بد اطوار اور ظالم تھا۔

 

۳۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں وہ بندوں کے حق میں ظالم تھا وہاں وہ اللہ کا نافرمان اور باغی بھی تھا۔

 

۳۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا والوں کی دینی رہنمائی اور قیامت کے لیے بنی اسرائیل کا جو انتخاب کیا تو وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر کیا تھا۔ یعنی اس کو بنی اسرائیل کی صلاحیت کا ر وغیرہ کا علم تھا اور اقوام عالم میں سے اس قوم کا انتخاب موزوں ترین انتخاب تھا۔

 

۳۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ معجزے ہیں جو نبی اسرائیل کے لیے انعام کی حیثیت رکھتے تھے مثلاً ان کے لیے سمندر کا پھٹ جانا، صحرا میں بادلوں کا سایہ فگن ہونا، چشموں کا بہہ پڑنا، من و سلویٰ کا نزول وغیرہ مگر اس میں ان کے صبر و استقامت کا امتحان بھی تھا۔

 

۳۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مشرکین مکہ ہیں۔

 

۳۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پہلی بار جو موت آئے گی وہ زندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ اس کے بعد زندگی اور موت کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔

 

۳۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر دوسری زندگی کی کوئی حقیقت ہے تو اس کے ثبوت میں گزرے ہوئے لوگوں کو زندہ کر دکھاؤ۔ جب ہم اپنی آنکھوں سے گزرے ہوئے لوگوں کو اپنے سامنے زندہ دیکھ لیں گے تو دوسری زندگی پر یقین کریں گے۔

 

ان کا یہ مطالبہ بڑی نادانی کی بات تھی کیونکہ جس چیز کا علم انسان کو تجربہ کے ذریعہ ہو گیا وہ چیز نہ غیب کی رہ جاتی ہے اور نہ اس پر ایمان لانے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ پھر امتحان کہاں باقی رہا جبکہ یہ زندگی سراسر امتحان کی زندگی ہے۔

 

۳۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تبّع یمن کے بادشاہوں کا لقب تھا جو قوم سا کے ایک قبیلہ حمِیرَ سے تعلق رکھتے تھے اور جن کا زمانہ قبلِ مسیح رہا ہے۔

 

"کتبات میں ملوک معین و سبا کے عہد میں یعنی کم از کم ہزار سال قبل مسیح میں لفظ تُبّع نظر آتا ہے۔ " (ارض القرآن ج ۱ص ۲۹۳)

 

ان کے زمانہ کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنا مشکل ہے اور ان کے تفصیلی حالات جاننے کے لیے بھی کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے۔ البتہ سورۂ ق آیت ۱۴ سے واضح ہوتا ہے کہ قوم تبع کی طرف بھی رسول بھیجا گیا تھا جس کو اس نے جھٹلایا اور بالآخر عذاب سے دو چار ہوئی۔

 

۴۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عاد، ثمود جیسی گمراہ قومیں۔

 

۴۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انبیاء نوٹ ۱۶۔

 

۴۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کائنات کے پیدا کرنے کا ایک مقصد اور ایک غایت ہے اور وہ ہے جو جزاء و سزاء کا معاملہ اور انسانیت کے جوہر کو چھانٹ کر اسے ابدی کامیابی اور جنت کی لا زوال نعمتوں سے سرفراز کرنا۔ مگر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد وجود ہی سے بے خبر ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اپنی زندگی کی غایت معلوم کریں۔

 

۴۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کا دن۔

 

۴۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن نہ رشتے ناطے کام آئیں گے اور نہ دوستی بلکہ نجات کا معاملہ اللہ کے رحم و کرم پر موقوف ہو گا اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ کافروں پر رحم نہیں فرمائے گا اس لیے کوئی شخص کفر کرتے ہوئے اللہ سے رحم کی امید نہ رکھے۔

 

۴۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بڑا زبردست ہے اس لیے جس کو وہ اپنے عذاب کی گرفت میں لینا چاہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا اور وہ رحیم ہے اس لیے جس پر وہ رحم کرنا چاہے تو کوئی نہیں جو اس کو رحم کرنے سے روک سکے۔

 

۴۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ صافات نوٹ ۵۱۔

 

۴۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد کافر ہیں جیسا کہ آگے آیت ۵۰ سے واضح ہے۔

 

۴۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زقوم کھانے کے بعد ان کا حال ایسا ہو گا جیسے پیٹ میں پگھلی ہوئی دھات ابل رہی ہو۔

 

۴۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زقوم پیٹ میں گرم پانی کی طرح جوش کھا رہا ہو گا۔

 

۵۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکم فرشتوں کو ہو گا۔

 

۵۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ طنز ہے کہ تو اپنے کو بڑا زبردست اور عزت والا آدمی سمجھتا تھا حالانکہ تو نے سرکش بن کر ذلیل حرکتیں کی تھیں۔ اب چکھ اپنے کرتوتوں کا مزا اور دیکھ آج تو کیسا بے بس اور ذلیل ہے۔

 

۵۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت اور جزا و سزا کا انکار کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں شک کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے کیونکہ شک میں مبتلا ہو کر بھی آدمی دنیا ہی کو اپنا مقصد حیات بنا لیتا ہے اور اللہ کا نافرمان بن کر من مانی کرنے لگتا ہے اس لیے عمل کے لحاظ سے آخرت کے منکر اور اس میں شک کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا۔ لہٰذا دونوں بجا طور پر جہنم کی سزا کے مستحق ہیں۔

 

۵۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔ گنہگاروں اور آخرت کے بارے میں شک میں مبتلا ہونے والوں کے مقابلہ میں متقین (اللہ سے ڈرنے والوں) کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور جن کی زندگیاں اللہ کی اطاعت میں بسر ہوتی ہیں۔

 

۵۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں کسی قسم کا خوف و خطرہ نہیں ہو گا۔ مراد جنت ہے۔

 

حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ :

 

اَنَّ لَکُمْ اَنْ تَصِحُّوْا فَلَاتَسقَمُوْااَبَدًا، وَاَنَّ لَکُمْ اَنْ تَحْیوْافَلاَتَمُوْتُوْا اَبَدًا،وَاَنَّ لَکُمْ اَنْ تَشُبُّوْا فَلاَ تَہْرِمُوْااَبَدًاوَاَنَّ لَکُمْ اَنْ تَنْعَمُوْ! فَلاَ تَبْأَسُوَااَبَدًا۔ "تمہارے لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ تم صحت مند رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے۔ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے۔ اور تم عیش میں رہو گے کبھی تمہیں تکلیف نہیں پہنچے گی۔ " (مسلم کتاب الجنۃ)

 

۵۵ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حُور عربی میں گوری رنگت والی غزالی چشم عورتوں کو کہا جاتا ہے۔ یہاں جنت کی حسین و جمیل عورتیں مراد ہیں جو متقیوں سے بیاہ دی جائیں گی۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ یہ کوئی اور مخلوق ہو گی اس لیے اس کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ یہ انسانوں میں سے ہوں گی۔ اور عجب نہیں کہ جو باکرہ لڑکیاں فوت ہو گئیں ان کو حور بنا کر متقیوں کی زوجیت میں دیدیا جائے۔ قرآن کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو ان کی مومن بیویاں تو جنت میں ملیں گی ہی مزید یہ کہ حوروں سے بھی ان کا بیاہ کر دیا جائے گا۔ والعلم عند اللہ۔

 

رہا یہ عام خیال کہ جنت میں ایک ایک آدمی کو ستر ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد میں حوریں ملیں گی تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ نہ قرآن میں کہیں یہ بات کہی گئی ہے اور نہ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ ایسی باتیں قصہ گو لوگ بیان کرتے ہیں اور جنت کا مذاق اڑانے والے اس کو موضوع بحث بنا لتے ہیں۔

 

۵۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں جو پہلی موت ہو گی اس کے بعد ان کے لیے ابدی زندگی ہے۔ موت کا انہیں کبھی سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔

 

۵۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنم کے عذاب سے محفوظ ہونا اگرچہ تقویٰ کی بنا پر ہو گا مگر یہ سراسر اللہ ہی کے فضل سے ہو گا۔ اس کے فضل کے بغیر جنت میں پہنچنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

 

۵۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنم کے عذاب سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جو لوگ اس کو حقیقی کامیابی سمجھتے ہیں وہ اس کے حصول کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

 

۵۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو پیغمبر قرآن اور ان کی قوم کی اپنی زبان ہے نیز اسے نہایت سہل اور عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے تاکہ لوگ تذکیر کا فائدہ حاصل کر سکیں۔ قرآن کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ دقیق ترین مضامین کو جو کائنات کے اسرار و رموز، انسان کی باطنی کیفیات ، روحانی معاملات اور قیامت کے احوال سے تعلق رکھتے ہیں اتنے سلیس انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کا ابتدائی مفہوم ایک عام آدمی کے لیے بھی بشرطیکہ وہ صاف ذہن کا آدمی ہو سمجھنا اور اس سے نصیحت پذیر ہونا جو قرآن کا اولین منشاء ہے کچھ بھی مشکل نہیں۔ نصیحت کا یہ فائدہ غیر عربی داں قرآن کے ترجمہ سے بھی بشرطیکہ ترجمہ صحیح ہو حاصل کر سکتے ہیں۔

 

یہ آیت سورۂ قمر کی آیت:

 

وَلَقَدْیَسَّرْنَالْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُدَّكِر" ہم نے قرآن کو "ذکر" (نصیحت حاصل کرنے) کے لیے آسان کر دیا ہے۔ "تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔ " (قمر:۲۲) کی تفسیر کرتی ہے اور اس سے "ذکر" کے یہ معنی کہ نصیحت اور یاد دہانی حاصل کرنا ہے معین ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جن علماء نے اس متبادر مفہوم کو چھوڑ کر محض لغت کے سہارے اس کے معنی (حفظ) کے لیے ہیں یعنی قرآن حفظ کرنے لیے آسان بنا دیا گیا ہے تو اس آیت سے ان کی اس تاویل کی تردید ہو جاتی ہے۔

 

۶۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس فہمائش اور نصیحت کے بعد بھی اگر یہ لوگ انجام کار ہی کے منتظر ہیں تو تم بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور انتظار کرو حالات خود بتا دیں گے کہ قرآن اور پیغمبر نے جو کچھ کہا تھا وہ کس طرح سچ ثابت ہوا۔

٭٭٭٭٭