تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الدّخان

(سورۃ الدخان ۔ سورہ نمبر ۴۴ ۔ تعداد آیات ۵۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     حٰ مٓ

۲۔۔۔     قسم ہے اس کتاب کی جو کھول کر بیان کرنے والی ہے

۳۔۔۔     بلاشبہ ہم نے ہی اتارا ہے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات میں کہ ہمیں بہر حال خبردار کرنا ہے

۴۔۔۔     جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا

۵۔۔۔     ہمارے حکم کی بناء پر بے شک ہمیں رسول بھیجنا تھا

۶۔۔۔     تیرے رب کی عظیم الشان رحمت کی بناء پر بلاشبہ وہی ہے جو (ہر کسی کی) سنتا (سب کچھ) جانتا ہے

۷۔۔۔     جو کہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور اس (ساری کائنات) کا جو کہ ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو

۸۔۔۔     اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی بخشتا ہے اور اسی کا کام ہے موت دینا وہی رب ہے تمہارا بھی اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی

۹۔۔۔     (مگر ان کو یقین پھر بھی نہیں) بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں

۱۰۔۔۔     پس آپ انتظار کیجئے اس دن کا جب کہ آسمان ایک ایسا ظاہر دھواں لئے ہوئے آئے گا

۱۱۔۔۔     جو کہ چھا جائے گا ان سب لوگوں پر یہ ایک بڑا دردناک عذاب ہو گا

۱۲۔۔۔     (اس دن یہ کہیں گے) اے ہمارے رب دور فرما دے ہم سے اس عذاب کو ہم یقیناً ایمان لانے والے ہیں

۱۳۔۔۔     (مگر) کہاں (اور کیسے) کام آئے ان کو نصیحت حالانکہ (اس سے پہلے) ان کے پاس آ چکے (حق اور حقیقت کو) کھول کر بیان کرنے والے ایک عظیم الشان رسول

۱۴۔۔۔     پھر بھی یہ لوگ پھرے ہی رہے (راہ حق و ہدایت سے) اور کہا کہ یہ تو ایک سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے

۱۵۔۔۔     بے شک ہم (اتمام حجت کے لئے) ہٹائے دیتے ہیں اس عذاب کو تھوڑے عرصے کے لئے مگر تم لوگ یقیناً پھر وہی کرو گے جو پہلے کرتے تھے

۱۶۔۔۔     (اور یاد کرو اس دن کو کہ) جب ہم پکڑیں گے اس بڑی سخت پکڑ میں کہ یقیناً ہم نے (بدلہ و) انتقام لینا ہے (مجرموں سے)

۱۷۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ان سے پہلے آزمائش میں ڈال چکے ہیں فرعون کی قوم کو بھی اور ان کے پاس بھی ایک رسول آیا بڑا عزت والا

۱۸۔۔۔     (اس پیغام کے ساتھ) کہ میرے حوالے کر دو تم لوگ اللہ کے بندوں کو بے شک میں رسول ہوں (اس کا) تمہاری طرف امانت دار

۱۹۔۔۔     اور سرکشی مت کرو تم اللہ کے مقابلے میں بے شک میں آیا ہوں تمہارے پاس ایک کھلی سند کے ساتھ

۲۰۔۔۔     اور بے شک میں نے پناہ لے رکھی ہے اس کی جو کہ رب ہے میرا بھی اور تمہارا بھی اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو

۲۱۔۔۔     اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ

۲۲۔۔۔     آخرکار موسیٰ نے اپنے رب کو پکار کر عرض کیا کہ (مالک !) یہ لوگ تو پکے مجرم ہیں

۲۳۔۔۔     (جواب ملا کہ) اچھا تو پھر تم راتوں رات نکل جاؤ (یہاں سے) میرے بندوں کو اپنے ساتھ لے کر تمہارا پیچھا بہر حال کیا جائے گا

۲۴۔۔۔     اور (اسی طرح) چھوڑ دینا سمندر کو تھما ہوا کیونکہ (دشمن کے) اس سارے لشکر نے (وہیں) غرق ہونا ہے

۲۵۔۔۔     سو ان لوگوں نے چھوڑ دیے کتنے ہی باغ اور چشمے

۲۶۔۔۔     کھیتیاں اور عمدہ مکانات

۲۷۔۔۔     اور نعمت کے وہ ساز و سامان جن میں یہ لوگ مزے کیا کرتے تھے

۲۸۔۔۔     اسی طرح ہوا اور ہم نے وارث بنا دیا (اپنی قدرت و عنایت سے) ان چیزوں کا ایک دوسری قوم کو

۲۹۔۔۔     پھر نہ تو ان پر آسمان رویا نہ زمین اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت ہی ملنے والی تھی

۳۰۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے نجات دی بنی اسرائیل (جیسی گھسی پٹی قوم) کو اس رسوا کن عذاب سے

۳۱۔۔۔     یعنی فرعون سے واقعی وہ بڑا سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا

۳۲۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے ان کو چن لیا تھا علم کی بناء پر (ان کے اپنے دور کے) سب جہانوں پر

۳۳۔۔۔     اور ان کو ایسی (عظیم الشان اور امتیازی) نشانیوں سے نوازا تھا جن میں کھلی آزمائش تھی

۳۴۔۔۔     بلاشبہ (دور حاضر کے) یہ منکرین زور دے کر کہتے ہیں

۳۵۔۔۔     کہ وہ (آخری حالت) تو بس ہمارا یہی دنیا کا مرنا ہے اور بس اور ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں

۳۶۔۔۔     پس تم لے آؤ ہمارے (اگلے) باپ دادوں کو اگر تم لوگ سچے ہو (اپنے دعوی میں)

۳۷۔۔۔     کیا یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور وہ لوگ جو اس سے بھی پہلے گزر چکے ہیں ؟ ان سب کو تو ہم نے ہلاک کر ڈالا کیونکہ وہ لوگ مجرم تھے

۳۸۔۔۔     اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان تمام چیزوں کو جو کہ ان دونوں کے درمیان ہیں کچھ کھیل کے طور پر تو پیدا نہیں کیا

۳۹۔۔۔     ہم نے تو ان کو برحق ہی پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں

۴۰۔۔۔     بلاشبہ فیصلے کا دن تو ان سب کے لئے ایک مقرر شدہ وقت ہے

۴۱۔۔۔     جس دن نہ تو کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام آ سکے گا اور نہ (کہیں اور سے) ان کی کوئی مدد کی جائے گی

۴۲۔۔۔     سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرما دے بلاشبہ وہی ہے سب پر غالب انتہائی مہربان

۴۳۔۔۔     بلاشبہ زقوم کا درخت

۴۴۔۔۔     کھانا ہو گا بڑے گناہ گاروں کا

۴۵۔۔۔     تیل کی تلچھٹ جیسا چوپٹیوں میں اس طرح کھول رہا ہو گا

۴۶۔۔۔     جیسے ابلتا ہوا پانی کھولتا ہے

۴۷۔۔۔     (حکم ہو گا کہ) پکڑو اس کو پھر اس کو گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ دوزخ کے بیچوں بیچ

۴۸۔۔۔     پھر انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب

۴۹۔۔۔     چکھ کہ تو تو بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے

۵۰۔۔۔     بلاشبہ یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے

۵۱۔۔۔     اس کے برعکس پرہیزگار لوگ ایک نہایت ہی امن (و سکون) والے مقام میں ہوں گے

۵۲۔۔۔     یعنی طرح طرح کے عظیم الشان باغوں اور چشموں میں

۵۳۔۔۔     باریک اور گاڑھا ریشم پہنے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے

۵۴۔۔۔     یونہی ہو گا اور ہم نے ان کی شادی بھی کر دی ہو گی گوری رنگت کی آہو چشم عورتوں سے

۵۵۔۔۔     وہاں وہ پورے امن و اطمینان کے ساتھ ہر قسم کی لذت بخش چیزیں طلب کر رہے ہوں گے

۵۶۔۔۔     وہاں پر وہ موت کا مزہ بھی نہیں چکھیں گے سوائے اسی پہلی موت کے (جو کہ دنیا میں آ چکی تھی) اور اللہ نے ان کو بچا لیا ہو گا دوزخ کے عذاب سے

۵۷۔۔۔     یہ سب کچھ آپ کے رب کے فضل سے ہو گا یہی ہے وہ بڑی کامیابی

۵۸۔۔۔     سو ہم نے آسان کر دیا اس (کتاب حکیم) کو آپ کی زبان میں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں

۵۹۔۔۔     پس آپ انتظار کریں یہ لوگ بھی انتظار میں ہیں

تفسیر

 

۳۔۔  سو اس سے اس خاص اہتمام کو واضح فرمایا گیا ہے جو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب حکیم کے نازل کرنے کے لئے فرمایا گیا، تاکہ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سکیم کا ایک نہایت عظیم الشان حصہ ہے، سو اس کو اتارنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان رات کو منتخب فرمایا جو کہ بڑی ہی برکتوں بھری رات ہے جس کو اس کی طرف سے تمام امور حکمت کی تقسیم کے لئے مختص اور مقرر فرمایا گیا ہے، اور اس کتاب حکیم کے اتارنے سے اصل مقصد انذار ہے۔ یعنی اس کو اس لئے اتارا گیا کہ ان لوگوں کو خبردار کیا جائے جن کے آباء و اجداد کو خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ غفلت میں بڑے ہوئے تھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لِتُنْذِرْ قَوْمًا مَّا اُنْذِرْ اٰبآءُ ہُمْ فَہُمْ غَافِلُوْنَ (یس۔۶) تاکہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہو جائے، اور کل قیامت میں یہ لوگ اس طرح کا کوئی عذر نہ کر سکیں، کہ ان کو انذار کے بغیر ہی پکڑا لیا گیا۔ اور مراد اس لیلہ مبارکہ (مبارک رات) سے لیلۃ القدر ہے۔ جیسا کہ سورہ قدر میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، کہ قرآن حکیم کو اسی رات میں نازل فرمایا گیا ہے اور قرآن حکیم کو چونکہ رمضان المبارک ہی میں نازل فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱٨۵ میں اس امر کی تصریح فرمائی گئی ہے، اس لئے یہ لیلہ مبارکہ بھی لازماً رمضان المبارک ہی کی کوئی رات ہو گی۔ جس کی تعیین کے بارے میں آگے مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

۷۔۔  سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ رسول کی بعثت و تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے، کہ یہ انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ اور دوسری طرف اس میں پیغمبر کو خطاب فرمانے سے آنجناب کے لئے بھی تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ آپ کی بعثت و تشریف آوری بہر حال قدرت کی ایک عظیم الشان رحمت ہے۔ پس جو لوگ اس سے اعراض و روگردانی برتیں گے وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے بلکہ اپنا ہی نقصان کریں گے، اور تیسری طرف اس سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ ہی ہے جو ہر کسی کی سنتا، اور سب کچھ جانتا ہے، اس لئے وہی ہے جو اپنے بندوں کی حاجتوں اور ضرورتوں کو جانتا اور ان کی دعاء و پکار کو سنتا ہے، اس لئے وہی ان کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا سامان کرتا ہے، اور وہی کر سکتا ہے، اسی لئے اس نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اپنے رسول مبعوث فرمائے، اور ان پر اپنی کتابیں اتاریں۔ اور خاص کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا، جو تمام رسولوں کے امام اور سلسلہ انبیاء و رسل کے خاتم ہیں، اور اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی نبوت و رسالت کی روشنی دنیا کو راہ حق و ہدایت سے سرفراز و فیضیاب کرتی رہے گی، اور پھر آپ پر قرآن حکیم کی صورت میں وہ کتاب عظیم نازل فرمائی جو تمام آسمانی کتابوں کی جامع اور ان کی مہیمن ہے، اور جو قیامت تک کے سب زمانوں اور جملہ انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نور مبین کی شکل میں اور ایک بے مثال معجزہ خالدہ کے طور پر ہمیشہ موجود اور فیض بار رہے گی۔ اور چوتھی طرف یہاں پر اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ کتاب حکیم اس رب العالمین کی طرف سے ہے جو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے، اس سے جہاں ایک طرف یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کتاب حکیم کی عظمت شان بھی بے مثال ہے، اور یہ اس کی شان ربوبیت کی حامل و عکاس، اور اس کی مظہر و علمبردار ہے وہیں اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسی کا حق ہے کہ وہ ایسی کتاب عظیم نازل فرمائے تاکہ اس کے بندے اس کی کائنات میں اس کے قانون کے مطابق زندگی گزریں، اور اس کے نتیجے وہ میں دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکیں، پھر جو خوش نصیب اس کو صدق دل سے اپنائیں گے وہ اس کی طرف سے ابدی سعادت اور دائمی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔ اور جو بدبخت اس سے اعراض و روگردانی برتیں گے، وہ ابدی عذاب میں مبتلاء ہوں گے۔ والعیاذ باللہ جل وجلا، بکل حال من الاحوال

۱۸۔۔    سو اس سے حضرت موسیٰ نے اپنے مشن و نصب العین کے اہم حصے کی وضاحت بھی فرما دی، اور اس کی دلیل بھی بیان فرما دی، اور اپنے منصب و مقام کو بھی واضح فرما دیا۔ سو اپنے مشن کے اہم حصے کی تصریح کے طور پر آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو۔ سو عِبَادَاللّٰہِ (اللہ کے بندے) کہہ کر آپ نے اپنے دعوے اور مطالبے کی دلیل بھی پیش فرما دی کہ جب وہ بندے اللہ ہی کے ہیں تو پھر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کو اپنا بندہ بنائے؟ پس تم لوگ اے فرعونیو! اللہ کے ان بندوں کو میرے حوالے کر دو۔ تاکہ ہم اللہ کی بندگی جس طرح چاہیں کریں، اور پھر اپنی حیثیت اور مقام کی وضاحت کے طور پر ارشاد فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں امانت دار، پس میں جو کچھ تم لوگوں سے کہہ رہا ہوں وہ سب اسی کی طرف سے ہے۔ اس میں کسی طرح کی کوئی بھی کمی پیشی نہیں کرتا۔ پس تم لوگوں نے اگر میری بات کو نہ مانا تو یہ صرف میری نافرمانی نہیں ہو گی، بلکہ یہ درحقیقت اس اللہ کی نافرمانی ہو گی جس کا میں بھیجا ہوا ہوں۔ اور اس خالق و مالک کی نافرمانی کا انجام بڑا ہولناک ہوتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم اور بنی اسرائیل کی آزادی سے متعلق حضرت موسیٰ کے اس مشن اور مطالبے کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَائِیَلَ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ الایٰۃ (طہ۔۴۷) یعنی تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور ان کو عذاب نہ دے۔ یعنی ان کو اپنی غلام سے آزاد کر دے،

۲۱۔۔  سو ان آیات کریمات سے ایک بات تو یہ بات واضح فرما دی گئی کہ حضرت موسیٰ نے ان لوگوں کو بطور تنبیہ فرمایا کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرنا، کیونکہ میرے مقابلے میں سرکشی اللہ کے مقابلے میں سرکشی ہو گی، کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا انجام بہت برا ہوتا ہے، والعیاذ باللہ، اور میں تمہارے پاس کھلی سند لے کر آیا ہوں، یعنی عصا اور ید بیضا کے معجزے کی سند کے ساتھ، اس لئے تم لوگوں کو میری بات ماننی چاہئیے کہ یہی راہ حق و صواب ہے، اور اسی میں تم لوگوں کا بھلا ہے دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، روایات کے مطابق اس پر آنجناب کو ان لوگوں کی طرف سے قتل دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں، تو اس پر آپ نے ان سے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دے دیا جو کہ رب ہے میرا بھی، اور تمہارا بھی، سو اس کے آگے سر تسلیم خم کر دینا تم لوگوں کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم لوگ مجھ پر ایمان لے آؤ، کہ میں یقیناً اللہ کا رسول ہوں، اور اگر تم نے ایسے نہ کیا اور تم کو اس کی توفیق نصیب نہ ہو سکی تو تم میرے قتل اور سنگسار کرنے کے جرم کا ارتکاب نہ کرنا، اور کم از کم میری راہ میں مزاحم اور رکاوٹ نہ بننا، بلکہ میرا راستہ خالی کر دو، میں بنی اسرائیل کے ساتھ جہاں جانا چاہوں جا سکوں۔

۳۸۔۔  اس سے قیامت کی ضرورت اور اس کے تقاضائے عقل و فطرت ہونے کو واضح فرما دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی اس حکمتوں بھری کائنات کو یُوں ہی کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کیا، کہ یہ ہمیشہ یُونہی چلتی رہے، یا ایک دن یُوں ہی ختم ہو جائے، اور اس کے خلق و ایجاد کا کوئی نتیجہ ظاہر نہ ہو ایسا ہونا، اور ایسا سمجھنا اس کے خالق کی حکمت اور اس کی شان عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ پس لازم ہے کہ ایک ایسا یوم فصل و تمیز آئے جس میں صدق شعاروں اور اپنے خالق و مالک کے اطاعت گزاروں اور اس کے فرمانبرداروں کو ان کے صدق و اخلاص اور عمل و کردار کا صلہ و ثمرہ ملے۔ اور ناشکرے و ناہنجار لوگوں کو ان کے کفر و شرک اور تمرد و سرکشی کی قرار واقعی سزا ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں۔ سو وہی دن جزاء و سزا کا دن ہے۔ جس کو یُوْمُ الدِّیْن کہا جاتا ہے یعنی دلے کا دن، اور جس نے اس دنیا کے بعد بہر حال آ کر اور بپا ہو کر رہنا ہے کہ یہ حضرت خالق حکیم کی حکمت اس کی شان عدل و انصاف اور اس پُر حکمت کائنات کے وجود کا لازمی و بدیہی تقاضا ہے، ورنہ یہ دنیا اور اس کا وجود عبث و بے کار، اور باطل قرار پائے گا، جو عقل و نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

۳۹۔۔  سو اس آیت کریمہ میں نفی و اثبات کے ادوات حصر و قصر سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کو حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ نے حق کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے۔ جو کہ دراصل عبارت ہے دو چیزوں سے ایک یہ کہ انسان اس حکمتوں بھری کائنات میں غور و فکر سے کام لے کر اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرفراز ہو، اور وہ اس کی قدرت بے پایاں، اس کی حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت بے غایت، کے ان گوناگوں مظاہر کو دیکھ کر جو کہ اس کائنات میں ہر طرف اور جا بجا پھیلے بکھرے ہیں، اور ان میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے کروہ دل و جان سے اس کے آگے جھک جھک جائے، اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ہٰذَا بِاطِلًاسُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی پاک ہے تو اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب کچھ بیکار اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا تو پاک ہے، ایسے ہر تصور سے، پس تو ہمیں بچا دے دوزخ کے عذاب سے، اور دوسری حقیقت بالحق کی تصریح سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کے ذکر و شکر سے رطب اللّسان اور شاد کام ہو جائے، جس نے اپنے فضل و کرم سے دنیا کو ان عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے، اور محض اپنے کرم و احسان سے نوازا ہے سو ذکر و شکر دو ایسی عظیم الشان صفات و خصال ہیں، جو اس حکمتوں بھری کائنات کے وجود اور اس کی تخلیق سے وابستہ ہیں، اور یہی دو صفتیں انسان کے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہیں، اور یہ دونوں اس کائنات کی تخلیق بالحق کا بدیہی اور لازمی تقاضا ہیں۔ سو آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی عظیم الشان کائنات کو یونہی بے مقصد، اور محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ اس کو ایک عظیم الشان مقصد اور برتر غایت کے لئے پیدا فرمایا گیا ہے، پس اس کا لازمی اور بدیہی تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب بپا ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور نیکوکار بندوں کو انعام ملے، اور بدکاروں کو سزا سو وہی ہے قیامت کا دن، جو کہ اس کائنات کی تخلیق بالحق کا طبعی تقاضا اور منطقی نتیجہ ہے اس لئے اس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال واقع ہو کر، اور بپا ہو کر رہنا ہے۔

۴۶۔۔  سو زقوم یعنی تھوہر کا یہ درخت جو وہاں پر گنہگاروں کے لئے کھانا، اور ان کے لئے عذاب بنے گا دوزخ کا تھوہر ہو گا جس کی اصل حقیقت کو اس دنیا میں جاننا کسی کے بس میں نہیں اس کو اللہ تعالیٰ ہی جان سکتا ہے یا پھر وہ بدنصیب ہی جان سکیں گے جنہوں نے اس کو کھانا، اور اس سے پیٹ بھرنا ہو گا، والعیاذُ باللہ، تاہم اس لفظ کے استعمال سے اس کا کسی قدر تصور کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ اس کی اصل حقیقت کو اس دنیا میں جاننا کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا۔ سو اس کی ہولناکی کی تصویر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو گا۔ گنہگار لوگوں کے پیٹوں میں جا کر وہ ایسے کھولے گا جس طرح گرم پانی کھولتا ہے سو جن کفار و منکرین کا انجام یہ ہونے والا ہے ان کو اگر اس چار روزہ دنیاوی زندگی میں دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے تو بھی ان کو کیا ملا؟ جبکہ اس کے برعکس جن لوگوں کو ان کے اپنے ایمان و عمل کی بناء پر دوزخ سے بچا کر جنت کی سدا بہار اور اَبَدی نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے ان سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ اگرچہ دنیا میں ان کو نان جویں بھی میسر نہ آتی ہو۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے اور اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اللہ نصیب فرمائے آمین۔ثم آمین یا ربَّ العالمین

۵۶۔۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان پر بس وہی موت آئے گی جو دنیا میں ان پر آ چکی، اور بس اس کے بعد اب ان پر کوئی موت کبھی نہیں آئے گی۔ بلکہ اب یہ اس عظیم الشان حیات سے سرفراز ہوں گے، جو کہ اَبَدی اور دائمی ہو گی، اور ان کا وہ عیش جو ان کو جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ملے گا وہ بھی ابدی اور جاوداں ہو گا، موت سے انہوں نے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پا لیا، اور دوزخ کے عذاب سے بھی ان کو ان کے رب نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ سو یہی ہے اصل اور حقیقی کامیابی جس کو ہمیشہ کے لئے اپنا اصل مقصود اور حقیقی نصیب العین بنانا چاہئیے اور اسی کے لئے کوشش کرنی چاہئیے، کہ یہی تقاضائے عقل و نقل ہے، کہ لمثل ہذا فلیعمل العالمون۔

۵۷۔۔  جو کہ اصل اور حقیقی کامیابی ہے جس جیسی دوسری کوئی کامیابی نہ ہے، نہ ہو سکتی ہے، اور عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے کہ اسی کو اپنا اصل اور حقیقی مقصد، اور زندگی کا نصب العین قرار دیا جائے، نہ کہ دنیاوی مال و دولت اور جاہ و اقتدار کی ان ظاہری اور مادی کامیابیوں کو جن پر ابنائے دنیا ریجھے ہوئے ہیں، کہ یہ سب کچھ فانی وقتی اور عارضی ہے، اس لئے ایسی چیزوں کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین بنا کر متاع حیات کو انہی کے پیچھے لگا دینا، اور آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی زندگی اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا، خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، یہاں پر فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکَ کے کلمات سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اخروی زندگی کی اس عظیم الشان اور بے مثال کامیابی سے سرفرازی محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نصیب ہو گی، البتہ اس کے اس فضل و کرم سے سرفرازی انسان کے ایمان و عقیدہ اور عمل صالح ہی کی بنیاد پر ہو گی، سو انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و فساد کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن ہی سے ہے، کہ اس کا ارادہ و نیت کیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو بہر حال نوازنا ہی نوازنا ہے بہر حال میں اور ہر کسی کو نوازنا، سبحانہ و تعالیٰ فَاِیَّاہُ نساَلُ لمایُحِبُّ وَیَرْضیٰ مِنَ القول وَالْعمل، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ

۵۸۔۔  تیسیر کے معنی کسی چیز کو کسی مقصد کے لئے موزوں اور سازگار بنا دینے کے ہوتے ہیں، عربی میں کہتے ہیں یَسَّرَالْفَرَسَ لِلرَّکُوْب۔ یعنی اس نے گھوڑے کو زین، رکاب، لگام، اور دوسرے تمام لوازم سے آراستہ کر کے سواری کے لائق بنا دیا۔ اس لئے یَسَّرْنَا الْقراٰن لِلذِّکْرِ کے معنی ہوں گے کہ ہم نے قرآن حکیم کو اس کے اصل مقصد یعنی تعلیم و تذکیر کے لئے تمام ضروری لوازم سے آراستہ کر کے نہایت آسان اور موزوں بنا دیا۔ پس جن لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا کہ قرآن حکیم ایسی سہل اور آسان کتاب ہے کہ اس کے سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کی ضرورت ہی نہیں، انہوں نے تیسیر کے لفظ کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ سو اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر کو اس کی تعلیم کی ضرورت نہ ہوتی۔ بلکہ لوگ خود ہی اس کو سمجھ لیتے، حالانکہ تعلیم کتاب آپ کے مقاصد بعثت میں سے ایک اہم اور بنیادی مقصد ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نبوت کی تیئس سالہ زندگی میں اس کو شب و روز سکھایا پڑھایا۔ اور اگر حضرات صحابہ کرام باوجود خالص عرب ہونے کے، اور خیرالقرون کے زمانہ خیر و برکت میں پائے جانے کے پیغمبر سے پڑھے بغیر قرآن نہیں سمجھ سکے، تو پھر اور کون ایسا ہو سکتا ہے جو استاد سے پڑھے بغیر قرآن کو از خود سمجھ سکے؟ سو ایسا کہنا اور ماننا عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کر دیا تاکہ یہ لوگ سبق لیں، اور یاد دہانی حاصل کریں۔ یعنی یہ اس سبق کو یاد کریں جو ان کی عقل و فطرت کے اندر ودیعت فرمایا گیا ہے اور ان حقائق سے بھی سبق لیں جو آفاق و انفس کے اندر موجود و مضمر ہیں۔ اور ان تعلیمات سے بھی سبق لیں، جو گزشتہ انبیاء و رسل کے ذریعے دنیا کو ملی ہیں سو قرآن حکیم ان تمام باتوں کو بہترین زبان اور بہترین اسلوب و انداز میں پیش کرتا اور ان کی نہایت عمدہ طریقے سے تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ دنیا اس سب کے باوجود اس سے کوئی سبق نہیں لیتی۔ الا ماشاء اللہ۔

۵۹۔۔  یعنی یہ لوگ اگر اس سب کے باوجود اس کتاب حکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں، بلکہ یہ اس عذاب کو دیکھنے ہی کے لئے بضد ہیں جس سے یہ کتاب حکیم ان کو خبردار کر رہی ہے، کہ یہ اس کو دیکھ کر ہی اس کو مانیں گے۔ تو پھر آپ بھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، اور ان کے انجام اور اس عذاب ہی کا انتظار کریں۔ اس وقت معاملہ پوری طرح واضح ہو جائے گا۔ سو یہ ہٹ دھرموں کے لئے آخری جواب ہے کہ ایسوں سے اعراض و رُوگردانی ہی سے کام لیا جائے، کہ ایسوں سے الجھنے اور ان کے پیچھے پڑنے کا کچھ فائدہ نہیں، سوائے اپنی کوفت و تکلیف اور تضیع وقت کے، لہٰذا انکو ان کے انجام ہی کے حوالے کر دیا جائے، وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الدخان بتوفیق اللہ وعنایتہ، فلہ الحمد ولہ الشکر۔