تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الدّخان

۳۔۔۔   ۱: "برکت کی رات" شب قدر ہے کما قال تعالیٰ۔ "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" (قدر، رکوع۱) اور جو رمضان میں واقع ہے لقولہ تعالیٰ۔ "شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" (بقرہ، رکوع ۲۳) اس رات میں قرآن کریم لوح محفوظ سے سمائے دنیا پر اتار گیا۔ پھر بتدریج تئیس سال میں پیغمبر پر اترا۔ نیز اسی شب میں پیغمبر پر اس کے نزول کی ابتداء ہوئی۔

۲: یعنی کہہ سنایا ہمیشہ ہمارا دستور رہا ہے۔ اسی کے موافق پر قرآن اتارا۔

۵۔۔۔   ۱: یعنی سال بھر کے متعلق قضاء و قدر کے حکیمانہ اور اٹل فیصلے اسی عظیم الشان رات میں "لوح محفوظ" سے نقل کر کے ان فرشتوں کے حوالہ کیے جاتے ہیں جو شعبہ ہائے تکوینیات میں کام کرنے والے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعبان کی پندرھویں رات ہے جسے شب برات کہتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں سے اس کام کی ابتداء اور شب قدر پر انتہاء ہوئی ہو۔ واللہ اعلم۔

۲: یعنی فرشتوں کو ہر کام پر جو ان کے مناسب ہو۔ چنانچہ جبرائیل کو قرآن دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا۔

۶۔۔۔     یعنی تمام عالم کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی پکار سنتا ہے۔ اسی لیے عین ضرورت کے وقت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن دے کر اور عالم کے لیے رحمت کبریٰ بنا کر بھیج دیا۔

۷۔۔۔     یعنی اگر تم میں کسی چیز پر یقین رکھنے کی صلاحیت ہے تو سب سے پہلی چیز یقین رکھنے کے قابل اللہ کی ربوبیت عامہ ہے جس کے آثار ذرہ ذرہ میں روزِ روشن سے زیادہ ہوا ہیں۔

۸۔۔۔   یعنی جس کے قبضہ میں مارنا جلانا اور وجود و عدم کی باگ ہو۔ اور سب اولین و آخرین جس کے زیر تربیت ہوں۔ کیا اس کے سوا دوسرے کلی بندگی جائز ہو سکتی ہے؟ یہ ایک ایسی صاف حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔

۹۔۔۔     یعنی ان واضح نشانات اور دلائل کا اقتضاء تو یہ تھا کہ یہ لوگ مان لیتے، مگر پھر بھی نہیں مانتے، بلکہ وہ توحید وغیرہ عقائد حقہ کی طرف سے شک میں پڑے ہیں اور دنیا کے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ آخرت کی فکر نہیں جو حق کو طلب کریں اور اس میں غورو فکر سے کام لیں۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ہمیشہ یوں ہی رہنا ہے۔ خدا کے سامنے کبھی پیشی نہیں ہو گی۔ اس لیے نصیحت کی باتوں کو ہنسی کھیل میں اڑا دیتے ہیں۔

۱۱۔۔۔   "دھوئیں" سے یہاں کیا مراد ہے؟ اس میں سلف کے دو قول ہیں۔ ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں کہ قیامت کے قریب ایک دھواں اٹھے گا جو تمام لوگوں کو گھیر لے گا۔ نیک آدمی کو اس کا اثر خفیف پہنچے گا، جس سے زکام سا ہو جائے گا۔ اور کافر و منافق کے دماغ میں گھس کر بے ہوش کر دے گا۔ وہ یہاں مراد ہے۔ شاید یہ دھواں وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر "تم استویٰ الیٰ السماء وہی دخان" میں ہوا ہے گویا آسمان تجلی تحلیل ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف عود کرنے لگیں گے اور یہ اس کی ابتدا ہو گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ اور ابن مسعود زور و شور کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت سے مراد وہ دھواں نہیں جو علاماتِ قیامت میں سے ہے بلکہ قریش کے تمرد و طغیان سے تنگ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی تھی کہ ان پر بھی سات سال کا قحط مسلط کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصریوں پر مسلط ہوا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا جس میں مکہ والوں کو مردار اور چمڑے ہڈیاں کھانے کی نوبت آ گئی غالباً اسی دوران میں "یمامہ" کے رئیس ثمامہ ابن آثال رضی اللہ عنہ مشرف با سلام ہوئے اور وہاں سے غلہ کی جو بھرتی مکہ کو جاتی تھی بند کر دی۔ غرض اہل مکہ بھوکوں مرنے لگے اور قاعدہ ہے کہ شدت کی بھوک اور مسلسل خشک سالی کے زمانہ میں جو یعنی زمین و آسمان کے درمیان دھواں سا آنکھوں کے سامنے نظر آیا کرتا ہے اور ویسے بھی مدت دراز تک بارش بند رہنے سے گرد و غبار وغیرہ چڑھ کر آسمان پر دھواں سا معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس کو یہاں دخان سے تعبیر فرمایا۔ اس تقدیر پر "یغشی الناس "میں لوگوں سے مکہ والے ہوں گے۔ گویا یہ ایک پیشین گوئی تھی (کما یدل علیہ قول "فارتقب") جو پوری ہوئی۔

۱۲۔۔۔    یعنی اس عذاب میں مبتلا ہو کر یوں کہیں گے کہ اب تو اس آفت سے نجات دیجئے آگے کو ہماری توبہ! ہم کو اب یقین آگیا۔ پھر شرارت نہ کریں گے۔ پکے مسلمان بن کر رہیں گے۔ آگے اس کا جواب دیا ہے۔

۱۴۔۔۔    یعنی اب موقع سمجھنے اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے کا کہاں رہا۔ اس وقت تو مانا نہیں جب ہمارا پیغمبر کھلے کھلے نشان اور کھلی کھلی ہدایات لے کر آیا تھا۔ اس وقت کہتے تھے کہ یہ باؤلا ہے۔ کبھی کہتے کہ کسی دوسرے سے سیکھ کر اس نے یہ کتاب تیار کر لی ہے (ابن عباس کی تفسیر پر یہ مطلب ہوا) اور ابن مسعود کی تفسیر کے موافق یہ معنی ہوں گے کہ اہل مکہ نے قحط وغیرہ سے تنگ آ کر درخواست کی کہ یہ آفت ہم سے دور کیجیے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابو سفیان وغیرہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں فریاد کی کہ آپ تو کہتے ہیں کہ میں رحمت ہوں اور یہ آپ کی قوم قحط و خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رحم اور قرابت کا واسطہ دیتے ہیں کہ اس مصیبت کے دور ہونے کی دعا کیجیے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے بارش ہوئی اور ثمامہ نے جو غلہ روک دیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھلوا دیا پھر بھی وہ ایمان نہ لائے۔ اسی کو فرماتے ہیں "انی لہم الذکریٰ" یعنی یہ لوگ ان باتوں سے ماننے والے کہاں ہیں، اس قسم کی چیزوں میں تو ہزار تاویلیں گھڑ لیں جو چیز بالکل کھلی ہوئی آفتاب اور زیادہ روشن تھی یعنی آپ کی پیغمبری۔ اسی کو نہ مانا۔ کوئی مجنون بتلانے لگا، کسی نے کہا کہ صاحب! فلاں رومی غلام سے کچھ مضامین سیکھ آئے ہیں ان کو اپنی عبادت میں ادا کر دیتے ہیں۔ ایسے متعصب معاندین سے سمجھنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

۱۵۔۔۔   یعنی اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے عذاب ہٹا لیں، پھر وہ ہی حرکتیں کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔ اور ابن مسعود کی تفسیر پر یہ مطلب ہو گا کہ لو! اچھا ہم تھوڑی مدت کے لیے یہ عذاب ہٹا لیتے ہیں۔ پھر دیکھ لینا، وہ ہی کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔

۱۶۔۔۔    ابن عباس کے نزدیک بڑی پکڑ قیامت ہو گی۔ غرض یہ ہے کہ آخرت کا عذاب نہیں ٹلتا۔ اور ابن مسعود کے نزدیک "بڑی پکڑ" سے معرکہ "بدر" کا واقعہ مراد ہے۔ "بدر" میں ان لوگوں سے بدلہ لے لیا گیا۔

۱۷۔۔۔   یعنی حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ان کا امتحان کیا گیا کہ اللہ کے پیغام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

۱۸۔۔۔   یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔

۱۹۔۔۔     "کھلی سند" وہ معجزات تھے جو حضرت موسیٰ نے دکھائے۔ "عصا" اور "ید بیضا" وغیرہ۔

۲۰۔۔۔     یہ ان کی دھمکیوں کا جواب دیا۔ یعنی میں تمہارے ظلم و ایذاء سے خدا کی پناہ حاصل کر چکا ہوں وہ میری حمایت پر ہے اور اسی کی حفاظت پر مجھے بھروسہ ہے۔

۲۱۔۔۔   یعنی اگر میری بات نہیں مانتے تو کم از کم مجھے ایذاء دے کر اپنے جرم کو سنگین مت کرو۔ "مرا بخیر تو امید نیست بدمرساں" اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اپنی قوم کو لے جاؤں تم راہ نہ روکو۔

۲۳۔۔۔     یعنی آخر مجبور ہو کر اللہ سے فریاد کی کہ یہ لوگ اپنے جرائم سے باز آنے والے نہیں اب آپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجیے وہاں کیا دیر تھی۔ حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ فرعونیوں کو اطلاع کیے بدون بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے چلے جاؤ۔ کیونکہ دن ہونے پر جب انہیں اطلاع ہو گی اس وقت تمہارا پیچھا کریں گے۔ لیکن یاد رہے راستہ میں سمندر پڑے گا۔ اس پر عصا مارنے سے پانی ادھر ادھر ہٹ جائے گا اور درمیان میں خشکی و صاف راستہ نکل آئے گا۔ اسی راستہ سے اپنی قوم کو لے کر گزر جاؤ۔

۲۴۔۔۔   یعنی اس کی فکر مت کرو کہ دریا میں خدا کی قدرت سے جو راستہ بن گیا وہ باقی نہ رہے۔ اس کو اسی حالت میں چھوڑ دے۔ یہ راستہ دیکھ کر تو فرعون کے لشکر اس میں گھسنے کی ہمت کریں گے۔ چنانچہ وہ سب خشک راستہ دیکھ کر اندر گھسے، اس کے بعد خدا کے حکم سے سمندر کا پانی چاروں طرف سے آ کر مل گیا۔ سارا لشکر اس طرح غرقاب ہوا۔

۲۸۔۔۔    یعنی بنی اسرائیل کے ہاتھوں میں دے دیا۔ جیسا کہ سورہ شعراء میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے غرق ہوئے بعد مصر میں نبی اسرائیل کا دخل ہوا۔ اور اگر یہ ثابت نہ ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ جس قسم کے سامان فرعونیوں نے چھوڑے تھے اسی طرح کے ہم نے بنی اسرائیل کو دیے۔ واللہ اعلم۔

۲۹۔۔۔    روایات میں ہے کہ مومن کے مرنے پر آسمان کا وہ دروازہ روتا ہے جس سے اس کی روزی اترتی تھی یا جس سے اس کا عمل صالح اوپر چڑھتا تھا۔ اور زمین روتی ہے جہاں وہ نماز پڑھتا تھا یعنی افسوس وہ سعادت ہم سے چھین گئی۔ کافر کے پاس عمل صالح کا بیج ہی نہیں، پھر اس پر آسمان یا زمین کیوں روئے۔ بلکہ شاید خوش ہوتے ہوں گے کہ چلو پاپ کٹا۔ "خس کم جہاں پاک

۳۱۔۔۔      ۱: بلکہ فرعون کا وجود ایک مجسم مصیبت تھا۔

۲: یعنی بڑا متکبر اور سرکش تھا۔

۳۲۔۔۔   یعنی اگرچہ بنی اسرائیل کی کمزوریاں بھی ہم کو معلوم تھیں۔ تاہم ان کو ہم نے اس زمانہ کے تمام لوگوں سے فضیلت دی۔ اور بعض فضائل جزئیہ تو وہ ہیں جو آج تک کسی قوم کو میسر نہیں ہوئے مثلاً اتنے بیشمار انبیاء کا ان میں اٹھایا جانا۔

۳۳۔۔۔    یعنی حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے مثلاً "من و سلویٰ" کا اتارنا، بادل کا سایہ کرنا وغیرہ ذلک۔

۳۵۔۔۔   درمیان میں حضرت موسیٰ کی قوم کا ذکر استطرادًا آگیا تھا۔ یہاں سے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ ہماری آخری حالت بس یہ ہی ہے کہ موت آ جائے۔ موت کے بعد سب قصہ ختم۔ موجودہ زندگی کے سوا دوسری زندگی کوئی نہیں۔ کہاں کا حشر، اور کیسا حساب کتاب۔

۳۶۔۔۔   یعنی پیغمبر اور مومنین سے کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے عقیدہ میں سچے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے تو اچھا ہمارے مرے ہوئے باپ دادوں کو ذرا زندہ کر کے دکھا دو۔ تب ہم جانیں۔

۳۷۔۔۔     ۱: 'تبع" لقب تھا یمن کے بادشاہ کا جس کی حکومت سبا اور حضر موت وغیرہ سب پر تھی۔ "تبع" بہت گزرے ہیں۔ اللہ جانے یہاں کون سا مراد ہے۔ بہرحال اتنا ظاہر ہوا کہ اس کی قوم بہت قوت و جبروت والی تھی جو اپنی سرکشی کی بدولت تباہ کی گئی۔ ابن کثیر نے اس سے قوم سبا مراد لی ہے جس کا ذکر سورہ سبا میں گزر چکا۔ واللہ اعلم۔

۲: مثلاً عاد و ثمود وغیرہ۔ ان سب کو اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر کے چھوڑا۔ کیا تم ان سے بہتر یا ان سے زیادہ طاقتور ہو کہ تم کو ہلاک نہ کرے گا یا نہ کر سکے گا؟

۳۹۔۔۔   یعنی اتنا بڑا کارخانہ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ بلکہ بڑی حکمت سے بنایا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ ایک دن نکل کر رہے گا۔ وہ ہی نتیجہ آخرت ہے۔

۴۰۔۔۔     یعنی اس دن سب کا حساب بیک وقت ہو جائے گا۔

۴۱۔۔۔   یعنی نہ کسی اور طرف سے مدد پہنچ سکے گی۔

۴۲۔۔۔    یعنی بس جس پر اللہ کی رحمت ہو جائے وہ ہی بچے گا۔ کما وردفی الحدیث۔ لا"الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ

۴۴۔۔۔    کسی ادنیٰ مشابہت کی وجہ سے اس کو زقوم (سیہنڈ) کہا گیا ہے ورنہ دوزخ کے سیہنڈ کی کیفیت اللہ ہی کو معلوم ہے جیسے بعض نعمائے جنت اور نعمائے دنیاوی میں اشتراک اسمی ہے۔ اسی طرح جہنم کے متعلق سمجھ لو۔

۴۷۔۔۔      یہ حکم فرشتوں کو ہو گا جو تعذیب مجرمین پر مامور ہیں۔

۴۸۔۔۔    وہ پانی دماغ سے اتر کے آنتوں کو کاٹتا ہوا باہر نکل آئے گا۔ (اعاذنا اللہ منہ)

۴۹۔۔۔    یعنی تو وہ ہی ہے جو دنیا میں بڑا معزز و مکرم سمجھا جاتا اور اپنے کو سردار ثابت کیا کرتا تھا۔ اب وہ عزت اور سرداری کہاں گئی۔

۵۰۔۔۔    یعنی تم کو کہاں یقین تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ اسی دھوکہ میں تھے کہ بس زندگی یونہی کھیلتے کودتے گزر جائے گی۔ آخر مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے، آگے کچھ بھی نہیں۔ اب دیکھ لیا کہ وہ باتیں سچی تھیں جو پیغمبروں نے بیان کی تھیں۔

۵۱۔۔۔   یعنی جو یہاں اللہ سے ڈرتے ہیں وہاں امن چین سے ہوں گے۔ کسی طرح کا خوف اور غم پاس نہ آئے گا۔

۵۳۔۔۔    یعنی ان کی پوشاک باریک اور دبیز ریشم کی ہو گی۔ اور ایک جنتی دوسرے سے اعراض نہ کرے گا بے تکلف دوستوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

۵۴۔۔۔   یعنی ان سے جوڑے ملا دیں گے۔

۵۵۔۔۔   یعنی جس میوے کو جی چاہے گا فوراً حاضر کرا دیا جائے گا۔ کوئی فکر نہ ہو گی۔ پوری دلجمعی سے کھائیں پئیں گے۔

۵۶۔۔۔     یعنی جو موت پہلے آ چکی وہ آ چکی، اب آگے کبھی موت نہیں دائماً اسی عیش و نشاط میں رہنا ہے نہ ان کو فنا، نہ ان کے سامانوں کو۔

۵۷۔۔۔     اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ عذاب الٰہی سے محفوظ و مامون رہے اور ابدالآباد کے لیے موردِ الطاف و افضال بنے۔

۵۸۔۔۔   یعنی اپنی مادری زبان میں آسانی سمجھ لیں اور یاد رکھیں۔

۵۹۔۔۔     یعنی اگر نہ سمجھیں تو آپ چندے انتظار کیجیے۔ ان کا بد انجام سامنے آ جائے گا۔ یہ تو منتظر ہیں کہ آپ پر کوئی افتاد پڑے۔ لیکن آپ دیکھتے جائیے کہ ان کا کیا حال بنتا ہے۔ تم سورۃ الدخان بفضل اللہ رحمتہ فللہ الحمد والمنۃ۔