خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الصَّف

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ صف مکّیہ ہے اور بقولِ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما و جمہور مفسّرین مدنیّہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، چودہ ۱۴ آیتیں، دوسو اکّیس۲۲۱ کلمے اور نو سو ۹۰۰ حرف ہیں۔

(۱) اللہ کی پاکی بولتا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔

(۲) اے  ایمان والو کیوں کہتے  ہو وہ جو نہیں کرتے  (ف ۲)

۲                 شانِ نزول : صحابۂ کرام کی ایک جماعت گفتگوئیں کر رہی تھی یہ وہ وقت تھا جب تک کہ حکمِ جہاد نازل نہیں ہوا تھا اس جماعت میں یہ تذکرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کیا عمل پیارا ہے ہمیں معلوم ہوتا تو ہم وہی کرتے چاہے اس میں ہمارے مال اور ہماری جانیں کام آ جاتیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کی شانِ نزول میں اور بھی کئی قول ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو مسلمانوں سے مدد کا جھوٹا وعدہ کرتے تھے۔

(۳) کیسی سخت ناپسند ہے  اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔

(۴) بیشک اللہ دوست رکھتا ہے  انہیں جو اس کی راہ میں لڑتے  ہیں پرا (صف) باندھ کر گویا وہ عمارت  ہیں رانگا پلائی (سیسہ پلائی دیوار) (ف ۳)

۳                 ایک سے دوسرا ملا ہوا ہر ایک اپنی اپنی جگہ جمع ہوا دشمن کے مقابل سب کے سب مثل شے واحد کے۔

(۵) اور یاد کرو جب موسیٰ نے  اپنی قوم سے  کہا، اے  میری قوم مجھے  کیوں ستاتے  ہو (ف ۴) حالانکہ تم جانتے  ہو (ف ۵) کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں (ف ۶) پھر جب وہ (ف ۷) ٹیڑھے  ہوئے  اللہ نے  ان کے  دل ٹیڑھے  کر دیے  (ف ۸) اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نہیں دیتا  (ف ۹)

۴                 آیات کا انکار کر کے اور میرے اوپر جھوٹی تہمتیں لگا کر۔

۵                 یقین کے ساتھ۔

۶                 اور رسول واجبُ التعظیم ہوتے ہیں ان کی توقیر اور ان کا احترام لازم ہے انہیں ایذا دینا سخت حرام اور انتہا درجہ کی بدنصیبی ہے۔

۷                 حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایذا دے کر راہِ حق سے منحرف اور۔

۸                 انہیں اتباعِ حق کی توفیق سے محروم کر کے۔

۹                 جو اس کے علم میں نافرمان ہیں اس آیت میں تنبیہ ہے کہ رسولوں کو ایذا دینا شدید ترین جُرم ہے اور اس کے وبال سے دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور آدمی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔

(۶) اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے  کہا اے  بنی  اسرائیل  میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے  سے  پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا  (ف ۱۰) اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے  بعد تشریف لائیں گے  ان کا نام احمد ہے  (ف ۱۱) پھر جب احمد ان کے  پاس روشن نشانیاں لے  کر تشریف لائے  بولے  یہ کھلا جادو۔

۱۰               اور توریت و دیگر کُتُبِ الٰہیہ کا اقرار و اعتراف کرتا ہوا اور تمام پہلے انبیاء کو مانتا ہوا۔

۱۱               حدیث : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حکم سے اصحابِ کرام نجاشی بادشاہ کے پاس گئے تو نجاشی بادشاہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور وہی رسول ہیں جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی اگر امورِ سلطنت کی پابندیاں نہ ہوتیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کفش برداری کی خدمت بجا لاتا۔ (ابو اؤد ) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ توریت میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صفت مذکور ہے اور یہ بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے پاس مدفون ہوں گے۔ ابوداؤد مدنی نے کہا کہ روضۂ اقدس میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ (ترمذی)حضرت کعب احبار سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا یا روحَ اللہ کیا ہمارے بعد اور کوئی امّت بھی ہے فرمایا ہاں احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی امّت، وہ لوگ حکماء، علماء، ابرار و اتقیاء ہیں اور فقہ میں نائبِ انبیاء ہیں اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی۔

(۷) اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے  (ف ۱۲) حالانکہ اسے  اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو (ف ۱۳) اور ظالم لوگوں کو اللہ راہ نہیں دیتا۔

۱۲               اس کی طرف شریک اور ولد کی نسبت کر کے اور اس کی آیات کو جادو بتا کر۔

۱۳               جس میں سعادتِ دارَین ہے۔

(۸) چاہتے  ہیں کہ اللہ کا نور (ف ۱۴) اپنے  مونھوں سے  بجھا دیں (ف ۱۵) اور اللہ کو اپنا نور پورا کرنا پڑے  برا  مانیں  کافر۔

۱۴               یعنی دِینِ برحق اسلام۔

۱۵               قرآنِ پاک کو شِعر و سِحر و کہانت بتا کر۔

(۹) وہی ہے  جس نے  اپنے  رسول کو ہدایت اور سچے  دین کے  ساتھ بھیجا کہ اسے  سب دینوں پر غالب کرے  (ف ۱۶) پڑے  برا  مانیں مشرک۔

۱۶               چنانچہ ہر ایک دِین بعنایتِ الٰہی ا سلام سے مغلوب ہو گیا۔ مجاہد سے منقول ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو روئے زمین پر سوائے اسلام کے اور کوئی دِین نہ ہو گا۔

(۱۰) اے  ایمان والو (ف ۱۷) کیا میں بتا دوں وہ تجارت جو تمہیں دردناک عذاب سے  بچا لے  (ف ۱۸)

۱۷               شانِ نزول : مومنین نے کہا تھا کہ اگر ہم جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل بہت پسند ہے تو ہم وہی کرتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت میں اس عمل کو تجارت سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ جس طرح تجارت سے نفع کی امید ہوتی ہے اسی طرح ان اعمال سے بہترین نفع رضائے الٰہی اور جنّت و نجات حاصل ہوتی ہے۔

۱۸               اب وہ تجارت بتائی جاتی ہے۔

(۱۱) ایمان رکھو اللہ اور اس کے  رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنے  مال و جان سے  جہاد کرو، یہ تمہارے  لیے  بہتر ہے  (ف ۱۹) اگر تم  جانو (ف ۲۰)

۱۹               جان اور مال اور ہر ایک چیز سے۔

۲۰               اور ایسا کرو تو۔

(۱۲) وہ تمہارے  گناہ بخش دے  گا اور تمہیں باغوں میں لے  جائے  گا جن کے  نیچے  نہریں رواں اور پاکیزہ محلوں میں جو بسنے  کے  باغوں میں ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

(۱۳) اور ایک نعمت تمہیں اور دے  گا (ف ۲۱) جو تمہیں پیاری ہے  اللہ کی مدد اور جلد آنے  وا لی فتح (ف ۲۲) اور اے  محبوب  مسلمانوں کو خوشی سنا دو (ف ۲۳)

۲۱               اس کے علاوہ جلد ملنے والی۔

۲۲               اس فتح سے یا فتحِ مکّہ مراد ہے یا بلادِ فارس و روم کی فتح۔

۲۳               دنیا میں فتح کی اور آخرت میں جنّت کی۔

(۱۴) اے  ایمان والو  دین خدا کے  مددگار ہو جیسے  (ف ۲۴) عیسیٰ بن مریم نے  حواریوں سے  کہا تھا کون ہے  جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے  (ف ۲۵) ہم دینِ خدا کے  مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے  ایک گروہ ایمان لایا (ف ۲۶) اور ایک گروہ نے  کفر کیا (ف ۲۷) تو ہم نے  ایمان والوں کو ان کے  دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہو گئے  (ف ۲۸)

۲۴               حواریوں نے دِینِ الٰہی کی مدد کی تھی جب کہ۔

۲۵               حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلصین کو کہتے ہیں یہ بارہ حضرات تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اوّل ایمان لائے انہوں نے عرض کیا۔

۲۶               حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر۔

۲۷               ان دونوں میں قتال ہوا۔

۲۸               ایمان والے۔ اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے تو ان کی قوم تین فرقوں میں منقسم ہو گئی ایک فرقے نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کہا کہ وہ اللہ تھا آسمان پر چلا گیا دوسرے فرقہ نے کہا کہ وہ اللہ تعالی کا بیٹا تھا اس نے اپنے پاس بُلا لیا تیسرے فرقہ نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول تھے اس نے اٹھا لیا۔ یہ تیسرے فرقے والے مومن تھے ان کی ان دونوں فرقوں سے جنگ رہی اور کافر گروہ ان پر غالب رہے یہاں تک کہ سیّدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ظہور فرمایا اس وقت ایمان دار گروہ ان کافروں پر غالب ہوا اس تقدیر پر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی ہم نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تصدیق کرنے سے مدد فرمائی۔