دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الصَّف

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۴ میں اللہ کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑنے والوں کا ذکر ہوا ہے ۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " الصف" ہے ۔

 

زمانہ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ احد کے بعد ۳ ۰؁ھ میں نازل ہوئی ہوگی۔

 

مرکزی مضمون

 

مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے پر ابھارنا ہے ۔

 

نظمِ کلام

 

پہلی آیت تمہیدی ہے جس میں آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کے اللہ کی تسبیح میں زمزمہ سنج ہونے کا ذکر ہے ۔

 

آیت ۲ تا ۴ میں ان مسلمانوں پر گرفت ہے جو اپنے قول پر عمل نہیں کرتے اور اپنے عہد کو پورا نہیں کرتے اور ان مسلمانوں کی تعریف ہے جو منظم ہو کر اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور وفائے عہد کا ثبوت دیتے ہیں ۔

 

آیت ۵ اور ۶ میں مسلمانوں کو متنبہ کیاگیا ہے کہ وہ یہود کے نقشِ قدم پر نہ چلیں جنہوں نے اپنے پیغمبر کو اذیت دی اور کجروی( ٹیڑھ پن) اختیار کی جس کے نتیجہ میں ان کے دل ٹیڑھے ہو کر رہ گئے ۔ پھر انہوں نے اپنے ہی درمیان سے اٹھنے والے ایک ایسے رسول کا انکار کیا جس کا ظہور کھلے معجزات کے ساتھ ہوا تھا۔

 

آیت ۷ تا ۹ میں اسلام کی مخالفت کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے اعلان کیاگیا ہے کہ اللہ کا نور پورا ہو کر رہے گا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب آکر رہے گا خواہ کفار اور مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

 

آیت ۱۰ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کی اخروی جزاء بھی بیان کی گئی ہے نیز نصرت و فتح کی خوشخبری بھی دی گئی ہے ۔

 

آیت ۱۴ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھیوں کی مثال پیش کر کے اہل ایمان کو اللہ کے مددگار ( یعنی اس کے دین کے مددگار) بننے کی دعوت دی گئی ہے ۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں ۔ ۱* اور وہ غالب اور حکمت والا ہے ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! ۲* تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ! ۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت نا پسندیدہ کہ تم کہو وہ بات جو کرو نہیں ۔۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔ اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔ ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔ اور یاد کرو موسیٰ نے جب اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے کیوں اذیت دیتے ہو حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ۔۶* پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے ۔۷* اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔۸*

 

۶۔۔۔۔۔۔ اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ۔۹* اور تورات میں سے جو کچھ میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں ۔۱۰* اور خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ ۱۱* تو جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح جادو ہے ۔ ۱۲*

 

۷۔۔۔۔۔۔ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے حالانکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو ۱۳*؟ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔۱۴*

 

۸۔۔۔۔۔۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کافروں کو ناگوار ہو۔۱۵*

 

۹۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو۔۱۶*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے ۔ ۱۷*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر۔ ۱۸* اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے ۱۹* یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

 

۲۰(۱۲۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ۲۱* اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں ۔ ۲۲* جو جاودانی باغوں میں ہوں گے ۔ ۲۳* یہ ہے بڑی کامیابی۔ ۲۴*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ اور دوسری چیز بھی جو تم چاہتے ہو اللہ کی طرف سے نصرت اور عنقریب حاصل ہونے والی فتح۔ ۲۵* اور( اے نبی!۔۔۔۔۔۔ مومنوں کو اس کی بشارت دے دو۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بنو ۲۶* جس طرح عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہیں اللہ کی راہ میں میرے مددگار؟ حواریوں نے جواب دیا تھا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ ۲۷* تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے کفر کیا۔ ۲۸* تو ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی اور وہ غالب ہو گئے ۔ ۲۹*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔   اس کی تشریح سورۂ حدید نوٹ ۱  میں گزر چکی۔

 

۲۔۔۔۔۔۔   خطاب عام مسلمانوں سے ہے اگرچہ اصل مخاطب کمزور کردار کے لوگ ہیں ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔   یہ سوال اس بات کا احساس دلانے کے لیے ہے کہ آدمی جو کہے وہی کر دکھائے ۔ اگر ایک کام کرنا نہیں ہے تو اس کا اظہار و اعلان کیوں کرے ۔ یہ بات اگرچہ عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے جس میں وعدہ خلافی اور عہد شکنی جیسی چیزیں بھی شامل ہیں لیکن خاص طور سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو کہتے تھے کہ اگر کافروں سے جنگ کا موقع ہمیں مل گیا تو ہم مردانہ وار لڑیں گے لیکن جب اس طرح کے مواقع پیش آنے لگے تو بے دریغ لڑنے سے جی چرانے لگے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔   یعنی اللہ کی نظر میں ایسے لوگ مبغوض ہیں جو قول و عمل کے تضاد میں مبتلا ہوں جو لوگ صرف باتوں کے دھنی اور گفتار کے غازی ہوتے ہیں ان کی کوئی وقعت اللہ کی نظر میں نہیں ہے ۔ قول و عمل میں مطابقت ضروری ہے ۔ اسلام کے نزدیک ’’قوالی‘‘ کی نہیں بلکہ ’’ فعالی‘‘ کی اہمیت ہے ۔ لفاظی اور کسی کام کے بلند بانگ دعوے کرنا اور پھر پھسڈی ہونا سخت مذموم حرکت ہے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔   یعنی اللہ کو با کردار لوگ پسند ہیں جو متحد اور منظم ہو کر اس کی راہ میں جہاد کریں اور جان کی بازی لگا دیں ۔ جنگ میں دشمن کے مقابلہ کے لیے صف آرائی اپنی قوت اور اپنے عزم کا اظہار ہے نیز یہ اس بات کا اہتمام بھی ہے کہ دشمن مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے نہ پائے ۔

 

اللہ کی راہ میں لڑنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کی جنگ خالصۃً دین حق کی سربلندی اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہو۔مسلمانوں کی وہ جنگیں جو دنیوی اغراض کے لیے ہوتی ہیں جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہیں آتیں ۔

 

 

۶۔۔۔۔۔۔  بنی اسرائیل اس بات کو جاننے کے باوجود کہ حضرت موسیٰ اللہ کے رسول ہیں ۔ انہیں اذیت دیتے رہے جس کی متعدد مثالیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔ جہاد کے تعلق سے انہوں نے موسیٰ کو جو اذیت دی اس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہوا ہے ۔ جب حضرت موسیٰ نے ان سے ارضِ مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں زبردست لوگ رہتے ہیں اس لیے جب تک وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے ہم وہاں داخل نہیں ہوں گے اور پھر یہاں تک کہہ گزرے کہ:

 

فَاِذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ اِنَّا ہٰہُنَا قَاعِدُوْنَ" تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے ۔"( مائدہ : ۲۴)

 

بنی اسرائیل کی اس اذیت دہی کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رسول کے ساتھ اذیت کا رویہ اختیار نہ کریں بلکہ آپ کی قیادت پر کامل اعتماد کرتے ہوئے سر فروشی کے ساتھ جنگ لڑیں ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔  جو شخص سیدھا دین پسند نہیں کرتا اور ٹیڑھی باتیں کرنے لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ٹیڑھ پیدا کر دیتا ہے پھر اس کے ذہن کا سانچہ ہی ٹیڑھا ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ بالکل غلط راہ پر جا پڑتا ہے ۔ اسی لیے اہل ایمان کو یہ دعا کرنے کی ہدایت ہوئی کہ :

 

رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْہَدَیتَنَا۔(آل عمران۔۸) " اے ہمارے رب! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر۔"

 

۸۔۔۔۔۔۔  یعنی جو لوگ نافرمان بنے رہنا چاہتے ہیں ان پر ہدایت کی راہ نہیں کھلتی۔ ہدایت اسی کو ملتی ہے جو اس کا طالب اور قدر داں ہو۔

 

بنی اسرائیل نے جب جہاد کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی تو انہیں فاسق قرار دیا گیا۔(ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ آیت ۲۵ اور ۲۶)

 

۹۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۷۲۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۷۴۔

 

"تورات میں سے جو کچھ میرے سامنے موجود ہے ۔"کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ تورات اپنی اصل شکل میں مکمل طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی موجود نہیں تھی بلکہ اس کے اجزاء موجود تھے اس لیے اس کے جو اجزاء موجود تھے ان کی آپ نے تصدیق فرمائی۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔  یہ آخری رسول( حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کے بارے میں بہت واضح پیشین گوئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری رسول تھے جن کے بعد بنی اسمٰعیل میں خاتم النبین کی بعثت ہونے والی تھی اس لیے اس کی بشارت دینے کا کام اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے ان کے سپرد کیا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر دنیا کو خوشخبری دی کہ آنے والا نبی کس شان کا ہوگا۔

 

پیشین گوئیاں خواہ کسی قسم کی ہوں بالعموم اشاروں اور کنایوں میں بیان ہوئی ہیں اور اگر کوئی پیشین گوئی کسی بنی سے متعلق ہے تو اس کے اصل نام کے بجائے اس کا وصفی نام بیان ہوا ہے ( سوائے حضرت یحییٰ کے ) تاکہ یہ وصف اس کی نبوت پر دلیل ہو۔

 

اَحْمَدْ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا نا م تھا چنانچہ حدیث میں آتا ہے :

 

عَنْ جُبَرِ بن مُطْعَمْ اَنَّ النَّبیَ صلّی اللّٰہ علیہ و سلم قال: اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ۔۔۔۔۔۔ ) " جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں ۔۔۔"(مسلم کتاب الفضائل)

 

لفظ احمد حمد سے ہے اور اس نام کی تشریح امام راغب نے اس طرح کی ہے :

 

فَاَحْمَدُ اِشَارَۃٌ اِلی النَّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِاِسْمِہٖ وَ فِعْلِہٖ تَنْبِے ہًا اَنَّہٗ کَمَا رُجِدَ اِسْمُہٗ اَحْمَدُ ے وْجَدُ وَہُوَ مَحْمُوْدٌ اَخَلاَقِہٖ وَاَحْوَالِہٖ"  احمد کا اشارہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام اور سیرت کی طرف ہے اور اس بات سے با خبر کرنا مقصود ہے کہ آپ اسم با مسمیٰ ہوں گے یعنی اپنے اخلاق و کردار میں محمود ( قابلِ تعریف) ہوں گے ۔(مفردات ص۱۳۰)

 

اس لفظ کے دوسرے معنی بہ کثرت حمد کرنے والے کے ہیں ( احمد حامد سے اَفعل  التفضیل کا صیغہ ہے ( نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کثرت سے اللہ کی حمد کی ہے ، جس شرح و بسط کے ساتھ اس کی صفاتِ محمودہ کو پیش کیا۔ نماز کا آغاز جس طرح حمد(سورۂ فاتحہ) سے فرمایا۔ حمد و تسبیح پر مشتمل اذکار کا جو خزانہ امت کو عطا کیا، اور حمد و ستائش سے جس طرح فضاؤں کو بھر دیا وہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے اور آپ کے احمد ہونے کا واضح ثبوت ہے ۔

 

آپ کا یہ اسم گرامی معروف رہا ہے چنانچہ دربارِ نبوی کے شاعر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا شعر ہے :

 

صَلَّی الْاِلٰہُ وَمَنْ ے حُفُّ بَعَرْشِہٖ

 

وَالطَّے بُوْنَ عَلَی الْمُبَارَکِ اَحْمَدَ

 

" اللہ اور عرش کے گرد رہنے والے فرشتے اور پاکیزہ لوگ مبارک ذاتِ محمد پر درود بھیجتے ہیں ۔"

 

جہاں تک موجودہ انجیلوں میں "مرقس" لوقا اور یوحنا کا تعلق ہے وہ عیسیٰ علیہ السلام کے حالات اور ان کی تعلیمات کو ناقص شکل میں پیش کرتی ہیں ۔ کیونکہ ان مؤلفین نے ان کو عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کئی سال بعد مرتب کیا تھا اور یہ مرتب سوائے متی کے عیسیٰ علیہ السلام کے حواری نہیں تھے کہ انہوں نے ان سے براہِ راست سنا ہو۔ اس لیے یہ انجیل نہیں ہے جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی البتہ اس کے کچھ اجزاء اس میں ضرور موجود ہیں مگر وہ اپنی اصل شکل میں نہیں ۔ بنی اسرائیل کی مذہبی زبان عبرانی رہی ہے اور تورات اور دیگر صحیفے عبرانی میں موجود ہیں ۔ گو تحریف شدہ شکل میں لیکن انجیل عبرانی میں موجود نہیں ہے ۔ موجودہ انجیلیں یونانی(Greek) زبان سے ترجمہ شدہ ہیں اور پھر ترجمہ در ترجمہ ہونے کی وجہ سے بات اپنی اصل سے بہت زیادہ ہٹ گئی ہے ۔ پھر یہ کتابیں خود بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کرتیں کہ وہ لفظاً لفظاً وحی الٰہی ہیں بلکہ ان میں واقعات نگاری کا اسلوب بالکل واضح ہے ۔ بائبل کا شارح خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ جیسا کہ لوقا کی انجیل میں بیان ہوا ہے واقعات نگاری اس کا مقصد ہے اور اس میں اس کے الہامی ہونے کا کہیں دعویٰ نہیں کیا گیا ہے :

 

The motive and method of the writing of a gospel are described in the prologue of the Gospel of Luke, without any claim to inspiration, the writer set out to get the best information that he could and to use the previous attempts which had been made. The narrative was not designed to be sacred scripture. It was a record of events wherein the sacred scriptures were fulfilled.

 

Peake's Commentary on the Bible-London 1962 P.4

 

تاہم موجودہ انجیلوں میں آنے والے رسول کے بارے میں واضح اشارات ملتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ہی منطبق ہوتے ہیں : مثلاً

 

" اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ۔"( یوحنا۔۱۴:۳۰)

 

" لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا۔"(یوحنا ۱۶:۷)

 

"مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔" (یوحنا ۱۶:۱۲۔۱۳)

 

انجیل کے اردو ترجمہ میں "مددگار" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن ابن ہشام نے صراحت کی ہے کہ یوحنا کی جو انجیل سریانی زبان میں ہے اس میں لفظ منحَمنّا استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں " محمد"( ابن ہشام ج ۱ ص ۲۵۱)

 

اور انجیل متّی میں آخری نبی کے بارے میں اس طرح پیشین گوئی ہے :

 

" یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتابِ مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دیدی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔"( متّی ۲۱:۵۲ تا ۴۵)

 

رہی انجیل بَرنا باس (Barnabbas) تو اس میں نام کی صراحت کے ساتھ پیشین گوئی موجود ہے :

 

"یسوع نے جواب دیا یقین کر برنا باس۔  ۔  ۔  ۔  ۔  ۔ خدا کی مشیت ہوئی کہ دنیا میں لوگ یہوواہ کی موت پر میری ہنسی اڑا لیں اور سب لوگ یہی جانیں کہ میں صلیب پر مرا اور یہ ہنسی اڑتی رہے گی جب تک محمد ، خدا کا رسول نہ آ جائے کہ وہ جب آئے گا تو اس فریب کو ان پر فاش کرے گا جو خدا کی شریعت پر ایمان لائیں ۔"( باب ۲۲۰)

 

مگر یہ انجیل کی طرح لائقِ اعتماد نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سورج سے زیادہ روشن ہے آپ کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے کمزور دلیلوں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انجیل برنا باس کی پیشین گوئیاں عیسائیوں کے لیے حجت نہیں بن سکتیں ۔ کیونکہ وہ اسے مستند نہیں مانتے ۔ اس انجیل کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو کسی مسلمان نے مرتب کر کے برنا باس کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اس کے جعلی ہونے پر مبسوط بحث کی ضرورت ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ۔ اس لیے مختصراً چند باتیں پیش کی جاتی ہیں :

 

۱) برنا باس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ہونا ثابت نہیں ہے ۔ بائبل کی کتاب " اعمال"(Acts) سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پال(Paul) کے ساتھ تبلیغ کے لیے انطاکیہ گیا تھا( اعمال ۱۵:۲۲) مگر اس کے حالات نا معلوم ہیں ۔

 

۲) برنا باس نے اپنی کتاب کے آغاز میں اس کے لکھنے کی غرض یہ بیان کی ہے کہ پولَس جو فاسد عقائد پھیلا رہا ہے اس کی تردید کی جائے اور سچی باتیں سامنے لائی جائیں لیکن کتاب کے آخر میں لکھتا ہے کہ یسوع نے اس سے کہا :

 

"دیکھ برنا باس، تو ضرور بالضرور میری انجیل لکھنا۔"(باب: ۲۲۱)

 

اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے برنا باس کو انجیل لکھنے کا پہلے ہی حکم دیا تھا تو پھر اسے اول روز ہی یہ کام کرنا چاہیے تھا۔  اور اس کتاب کے لکھنے کی غرض بھی یہی بیان کرنا چاہیے تھی مگر وہ پال کے فاسد عقائد کے پھیلنے تک خاموش رہا۔

 

۳) انجیل برنا باس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا صرف ایک نسخہ جو اطالوی زبان میں تھا پوپ سکٹس Sixtus   (۱۵۹۰۔ ۱۵۸۵)۔ کے کتب خانہ میں موجود تھا اور اٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل میں وہ منظر عام پر آیا۔ اگر یہ واقعۃً  برنا باس کی لکھی ہوئی انجیل ہے تو وہ اصلاً کس زبان میں تھی اور پوری دنیا اس سے کس طرح بے خبر رہی؟

 

۴) اس انجیل میں حضرت مریم کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ جب وہ حاملہ ہو گئیں تو اس ڈر سے کہ کہیں وہ زنا کے الزام میں سنگسار نہ کر دی جائیں اپنے لیے اپنی ہی برادری کا ایک ساتھی چن لیا جس کا نام یوسف تھا( باب ۲)

 

یہ بات قرآن کے بیان کے صریح خلاف ہے اور حضرت مریم کے کردار کو بھی مشکوک بنادیتی ہے ۔ وہ تو پیکر عفت تھیں ۔ اور اللہ پر ان کا توکل غیر معمول تھا پھر وہ کیوں اپنے کو ایک ایسے شخص کی طرف جو اس کا شوہر نہیں تھا منسوب کرتیں ؟

 

۵) اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ بیان کیاگیا ہے کہ انہو ں نے ایک دعوت کے موقع پر پانی کو شراب بنا دیا تھا۔ (باب ۱۵) کیسی لغو بات ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہے !

 

۶) اس میں انبیاء کی تعداد حضرت عیسیٰ کی زبانی ایک لاکھ چوالیس ہزار بیان کی گئی ہے ۔( باب ۱۷)

 

ایسی ہی بات ضعیف حدیث میں بیان ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے یہ اسی سے ماخوذ ہے ۔

 

اسی باب میں آگے چل کر بیان ہوا ہے کہ ایلیاہ کے وقت میں ایزبل نے دس ہزار نبی قتل کئے ۔ یہ صریح مبالغہ ہے ۔ بہ ایک وقت اتنی بڑی تعداد میں نبیوں کے بھیجے جانے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ اس کی تائید نہ قرآن سے ہوتی ہے اور نہ حدیث سے ۔

 

۷) اس میں حضرت عیسیٰ کی طرف یہ قول منسوب کیا  گیا ہے کہ "شیطان جو گویا فرشتوں کا کاہن اور سردار تھا۔"( باب ۲۵)

 

یہ بات بھی قرآن کے بیان سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔

 

۸) اس میں حضرت آدم کا یہ قصہ بیان ہوا ہے کہ:

 

"جب آدم اٹھ کھڑا ہوا تو اس نے ہوا میں ایک تحریر دیکھی جو سورج کی طرح چمکتی تھی کہ خدا ایک ہی ہے اور محمد خدا کا رسول ہے ۔ اس پر آدم نے اپنا منہ کھولا اور کہا اے خداوند میرے خدا میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تونے میری تخلیق کی تقدیر فرمائی۔ مگر میں منت کرتاہوں مجھے بتا ان الفاظ کا کیا مطلب ہے ۔ " محمد خدا کا رسول ہے ۔"  کیا مجھ سے پہلے اور انسان بھی ہوئے ہیں ؟ تب خدا نے کہا مرحبا اے میرے بندے آدم، میں تجھے بتاتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جسے میں نے پیدا کیا اور وہ جسے تو نے ( مُندرج) دیکھا ہے تیرا بیٹا ہے جو دنیا میں اب سے بہت سال بعد آئے گا اور میرا رسول ہوگا۔ جس کے لیے تمام چیزیں پیدا کی ہیں )آدم نے خدا کی منت کی کہ خداوند یہ تحریر میرے ہاتھوں کی انگلیوں کے ناخنوں پر درج فرمادے ۔ تب خدا نے پہلے انسان کے انگوٹھوں پر یہ تحریر درج کر دی۔ دائیں انگوٹھے کے ناخن پر لکھا تھا خدا ایک ہی ہے اور بائیں انگوٹھے کے ناخن پر لکھا تھا محمد خدا کا رسول ہے ۔ تب پہلے انسان نے پدرانہ شفقت سے یہ الفاظ چومے  اور اپنی آنکھیں ملیں اور کہا مبارک ہو وہ دن جب تو دنیا میں آئے ۔" (باب ۲۹  اور باب ۴۱) میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم نے جنت کے پھاٹک پر لکھا ہوا دیکھا۔ "خدا ایک ہی ہے اور محمد اس کا رسول ہے ۔"

 

یہ ایسی ہی باتی ہیں جو ہمارے یہاں موضوع( گھڑی ہوئی ) حدیثوں میں بیان ہوئی ہیں ۔

 

تعجب ہے مولانا مودودی نے ایک ایسی انجیل کو جو مجہول ہے اور میں بے سروپا باتیں اور کلامی بحثیں درج ہیں مستند قرار دیا۔ اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے ان پیشین گوئیوں کو نقل کیا جو اس میں بیان ہوئی ہیں ۔ فرماتے ہیں :

 

"اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برنا باس در حقیقت انا جیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور سیرت اور اس کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ۔" ( تفہیم القرآن ج۵  ص ۴۷۱)

 

مگر کسی ایسی کتاب کو جس میں الہامی باتیں بیان کرنے کا دعویٰ کیاگیا ہو اس کے محض خوش کن پہلوؤں کو دیکھ کر متاثر ہوجانا صحیح نہیں ۔ اس کا اثر ہمارے موقف پر پڑتا ہے اور دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔  یعنی بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیش کر دہ معجزات کو جادو قرار دیا۔ یہی مضمون سورۂ مائدہ میں بھی بیان ہوا ہے :

 

وَاِذْ کَفَفْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ عَنْکَ اِذْ جِئَتہُمْ بِالْبَینَاتِ فَقَاَ الَّذِینَ کَفَرُوْامِنْہُمْ اِنْ ہَذَا اِلاَّ سَخرٌ مُّبِینٌ  " اور جب میں نے بنی اسرائیل ( کے ہاتھوں ) کو تم سے روک دیا تھا جب کہ تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور جو لوگ ان میں سے کافر تھے انہو ں نے کہا تھا کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔"(مائدہ: ۱۱۰)

 

۱۳۔۔۔۔۔۔  یعنی پیغمبرِ قرآن کی دعوت ٹھیٹھ اسلام کی طرف ہے لیکن یہ یہود وغیرہ اپنے جھوٹے مذہبی عقائد کی بناء پر اس کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ کوئی بھی مذہبی عقیدہ جس کو اللہ کی طرف سے سند حاصل نہ ہو اللہ پر جھوٹ باندھنے کے ہم معنی ہے مثلاً یہود کا یہ دعویٰ کہ رسول بنی اسرائیل ہی میں سے ہو سکتا ہے ، نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں اور مشرکین کا یہ دعویٰ کہ معبود بہت سے ہیں اور اللہ نے اس شخص( حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو رسول بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔ یہ اور اس قسم کی دوسری خلاف اسلام باتیں جن کو اہل مذاہب اپنا مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں اور اس بنا پر اسلام کو قبول نہیں کرتے اللہ کی طرف صریح جھوٹ منسوب کرتے ہیں خواہ وہ اللہ کا نام لے کر یہ باتیں کہیں یا نہ کہیں کیونکہ عقیدہ و مذہب کا تعلق لازماً خدا سے ہے ۔ تو خدا کے بارے میں جھوٹ بولنا کوئی معمولی جرم نہیں ہو سکتا بلکہ یہ جرم نہایت سنگین ہے ۔

۱۴۔۔۔۔۔۔  یعنی جب تک وہ اس ظلم( غلط روی) سے باز نہیں آتے انہیں ہدایت نہیں مل سکتی۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ توبہ نوٹ ۶۴ میں گزر چکی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ توبہ نوٹ  اور سورۂ فتح نوٹ ۵۸۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔  انسان تجارت اس لئے کرتا ہے تاکہ نفع کمائے مگر یہ نفع عارضی ہوتا ہے جو دنیا ہی تک محدود رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں وہ سود ا جو اللہ سے کیا جاتا ہے اور جس میں اپنا قیمتی سرمایہ جان اور مال لگایا جاتا ہے اور جس کے لیے محنت شاقہ کی جاتی ہے حقیقی اور ابدی نفع کا سودا ہے اس کا اولین فائدہ یہ ہے کہ سودا کرنے والا اللہ کے عذاب سے جو نہایت ہی دردناک ہوگا بچ جائے گا اور اسے ابدی کامیابی حاصل ہوگی جو آگے بیان ہوئی ہے ۔

 

اس موقع پر سورۂ توبہ آیت ۱۱۱  اور تشریح نوٹ ۱۹۹ بھی پیش نظر رہے ۔

 

یہ آیت ذہن کو اس بات پر مرتکز کرتی ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مسئلہ اُخروی نجات کا مسئلہ ہے اور اس کا سامان انسان کو اس دنیا میں کرنا چاہیے ۔ یہ فکر انسان پر جب تک حاوی نہیں ہوگی وہ دنیوی مسائل ہی میں الجھتا رہے گا اور کامیابی اور ناکامی کے لیے غلط معیار قائم کرے گا۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔  ایمان والوں کو خطاب کر کے ایمان رکھنے کی یہ ہدایت اس معنی میں ہے کہ اپنے کو مخلص مومن بناؤ اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔  جہاد ایمان کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ دین کی حفاظت اور اس کی سربلندی کے لیے جب بھی سردھڑ کی بازی لگانے کی ضرورت پیش آجائے اہلِایمان جانی اور مالی قربانیاں دیں اور اس وقت کے حالات میں تو جہاد ناگزیر ہوگیا تھا اور مسجد حرام کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کرانا سب سے بڑی مہم تھی نیز یہ جہاد اللہ کے رسول کی قیادت میں کیا جارہا تھا اس لیے اس کی اہمیت غیر معمولی تھی۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔  یعنی اس کا جو بہترین صلہ ملنے والا ہے اس پر اگر تمہاری نگاہ ہے تو تم اس کو اپنے حق میں بہتر ہی خیال کرو گے ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔  گناہوں کی بخشش بہت بڑا صلہ ہے ۔ اگر کسی ایک گناہ پر بھی اللہ تعالیٰ گرفت فرمائے تو انسان کا کیا حال ہوگا مگر جو لوگ اللہ کی راہ میں قربانیاں دیتے ہیں ان کی ان قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔  یعنی پاکیزہ اور بہترین مکان جن کے سامنے دنیا کے مکان ہیچ ہیں ۔

 

کیسے نادان ہیں وہ لوگ جو اپنی دنیا بنانے کے لیے تو "کپڑا مکان اور روٹی "  کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے لیے انہیں کوئی فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ یہ چیزیں وہاں کس طرح حاصل ہوں گی۔ اگر وہ اس مسئلہ پر غور کرتے تو دنیا ہی کو سب کچھ نہ سمجھتے ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔  یعنی مکان بھی ابدی، باغ بھی ابدی اور مکین بھی ابدی۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ ہے اس تجارت کا اصل نفع کہ مستقبل روشن اور بہترین نعمتوں کے ساتھ جساتِ جاودانی ۔ کتنی بڑی اور کیسی شاندار ہے یہ کامیابی!

 

۲۵۔۔۔۔۔۔  یعنی اس اخروی کامیابی کے علاوہ وہ چیز بھی ملے گی جو تمہیں محبوب ہے یعنی اللہ کی نصرت اور جلد حاصل ہونے والی فتح۔ فتح قریب سے اشارہ ہے فتحِ مکہ کی طرف جس کو جلد حاصل کرنے کے لیے اہل ایمان بے چین تھے ۔ اس موقع پر ان مجاہدین کو نصرتِ الٰہی کے ظہور کے ساتھ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ مکہ عنقریب فتح ہوگا۔ چنانچہ اس سورہ کے نزول کے بعد بہت جلد مکہ فتح ہوااور قرآن اور پیغمبر کی صداقت ایسی ثابت ہو گئی کہ اسلام کے کٹر مخالف بھی اس کے قائل ہو گئے ۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔  اللہ کے مدد گار بننے سے مراد اللہ کے دین کے مددگار بننا ہے ۔ ظاہر ہے اللہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے لیکن وہ ان لوگوں کو جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں اور خاص طور سے صبر آزما حالات میں مدد کرتے ہیں انصار اللہ ( اللہ کے مددگار) کا اعزاز عطا فرماتا ہے تاکہ ان کی قدر افزائی اور حوصلہ افزائی ہو اور ان میں اللہ کی خاطر کام کرنے کا جذبہ ابھرے ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔  حواری کے معنی مخلص اور بے لوث رفیق کے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کی رسالت اور دین کی صحیح دعوت کو پیش کرنا جان جوکھو میں ڈالے بغیر ممکن نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ کون ہے جو ان حالات میں میری حمایت پر کمربستہ ہوتا ہے اور اللہ کے دین کی بے لاگ تبلیغ کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ انہو ں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور اس مہم کو سر کرنے کے لیے پابۂ رکاب۔ یہ جواب عیسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھیوں نے دیا تھا جو جواری کہلائے ۔ یہاں واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو آپ کی حمایت و نصرت اور دین کی دعوت و تبلیغ پر ابھارتا ہے ۔

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تلوار سے جہاد کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن جن حالات سے آپ کو سابقہ تھا ان میں دین کو اپنی اصل اسپرٹ میں پیش کرنا، ظاہرداری اور رسمی دینداری کے بجائے حقیقی دینداری کی طرف دعوت دینا اور اللہ کے پیغام کو عام کرنا بھی جہاد سے کم نہ تھا۔

 

آج کے حالات میں بھی دین کی دعوت اور اس کی اشاعت کا کام بے لاگ طور پر اور صحیح ڈھنگ سے انجام دینا، مشرکانہ ماحول میں توحید کو نکھار کر پیش کرنا، بدعات و خرافات نے دین پر جو تہیں جمادی ہیں ان کو کھروچ کر نکالنا تاکہ اسلام اپنی اصل شکل میں سامنے آئے ، باطل افکار کو رد کرتے ہوئے اسلامی فکر کو نمایاں کرنا، غیر اسلامی قوانین کی جگہ شرعی قوانین کی حمایت و حفاظت کرنا اور ایسی کوششیں کرنا جو دین کی سربلندی کا باعث ہوں اللہ کے دین کی بہت بڑی نصرت اور بہت بڑا جہاد ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 

وَالَّذِینَ جَاہَدُوْافِینَا لَنَہْدینَّہُمْ سُبُلَنَا "جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیں گے ۔"(عنکبوت:۶۹)

 

۲۸۔۔۔۔۔۔  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور ان کے حواریوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت عیسیٰ کی رسالت پر ایمان لے آیا جو مسلم تھا لیکن بعد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو نصاریٰ کہلائے ۔ رہا دوسرا گروہ تو اس نے حضرت عیسیٰ کی رسالت اور انجیل کو کتابِ الٰہی تسلیم کرنے سے انکار کیا اس لیے وہ کافر قرار پایا۔ یہ یہود کا گروہ ہے ۔

 

واضح رہے کہ اللہ کے کسی بھی رسول اور کسی بھی کتاب کو تسلیم کرنے سے انکار کی بنا پر آدمی کافر ہوجاتا ہے اگر چہ وہ دوسری باتوں پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو اور کسی ایسے مذہب سے وابستہ ہو جو کسی رسول کی طرف منسوب کیاگیا ہو۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔  یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے بالآخر غالب آ گئے جہاں تک حجت کے غلبہ کا تعلق ہے وہ تو انہیں پہلے ہی سے حاصل تھا اس لیے یہاں جس غلبہ کا ذکر ہوا ہے وہ اقتدار ہی کا غلبہ ہو سکتا ہے اور ظاہرین کا لفظ قرآن میں دوسرے مقام پر اقتدار کے غلبہ ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ فرعون کے دربار میں مرد مومن نے کہا تھا :

 

یٰقَوْمِ لَکُمُ الْمُلْکُ الْیوْمَ ظَاہِرِینَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ ینْصُرُنَا مِنْ بَأَسِ اللّٰہِ اِنْ جَائَئنَا " اے میری قوم کے لوگو! آج تمہیں حکومت حاصل ہے اور تم اس سرزمین میں غالب ہو لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ گیا تو کون ہے جو ہماری مدد کرے گا؟"( مومن: ۲۹)

 

 اس موقع پر سورۂ توبہ نوٹ ۶۵ بھی پیش نظر رہے ۔

 

اس آیت کا مدعا اصلاً یہ واضح کرنا ہے کہ جس طرح اللہ کے رسول عیسیٰ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے غالب ہو کر رہے اسی طرح پیغمبر قرآن پر ایمان لانے والے بھی غالب ہو کر رہیں گے اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔

 

قرآن میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو یہ بشارت دی تھی کہ :

                        

وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتّلبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوْااِلٰی یوْمِ الْقِیامَۃِ  "جن لوگوں نے تمہاری پیروی اختیار کی ان کو ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا قیامت تک غالب رکھنے والوں ہوں ۔"(آل عمران: ۵۵)

 

جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے اس کے اوراق زیادہ واضح نہیں ہیں تاہم یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ان کے پیرو مخالفت کے طوفان سے گزرتے ہوئے یہود پر جنہوں نے حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا غالب آتے چلے گئے ۔ ان کی دعوت پھیلتی رہی اور رومی سلطنت کے بڑے بڑے شہروں میں ان کے دعوتی مراکز قائم ہوئے ۔ یہودیت سکڑتی رہی یہاں تک کہ  ۷۰  ء؁ میں (Titus) نے بیت المقدس پر حملہ کر کے یہود کو تتر بتر کر دیا اور پھر یہود کا زور ایسا ٹوٹا کہ وہ پیروان عیسیٰ کے آگے بے بس ہو کر رہ گئے ۔ ادھر حضرت عیسیٰ کے پیروں کی تعداد بڑھتی رہی اور ٹیٹس رومی کے حملہ کے بعد رومیوں نے حضرت مسیح کا دین قبول کرنا شروع کیا اور حضرت مسیح کے متبعین کو غلبہ حاصل ہوتا چلا  گیا چنانچہ ابن خلدون لکھتے ہیں :

 

"پھر رومی مسیح علیہ السلام کے دین کو قبول کرنے اور اس کی تعظیم کرنے لگے ۔ پھر رومی بادشاہوں کا حال مختلف رہا۔ وہ کبھی نصاریٰ کے دین کو قبول کرتے اور کبھی چھوڑ دیتے یہاں تک کہ قُسْطَنْطِین آ گیا۔" (مقدمہ ابن خلدون ص ۳۵۵)

 

 ۳۱۲ ء میں جب رومی بادشاہ  قُسْطَنْطِین  برسر اقتدار آیا تو وہ مسیحت کا حامی بن گیا اور پیروانِ عیسیٰ کو اقتدار کا ایسا غلبہ ہوا کہ آج تک یہودیت کے مقابلہ میں مسیحت کا غلبہ چلا آ رہا ہے ۔ مسیحت کی تاریخ کے لیے دیکھئے

 (Interpreter‘s One Volume Commentary on Bible P. 1051(

 

٭٭٭٭٭