تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ التّکویر

۱ ۔۔۔     گویا اس کی لمبی شعاعیں جن سے دھوپ پھیلتی ہے لپیٹ کر رکھ دی جائیں اور آفتاب بے نور ہو کر پنیر کی چکی کی مانند رہ جائے یا بالکل نہ رہے۔

۲ ۔۔۔       یعنی ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں اور ان کا نور زائل ہو جائے۔

۳ ۔۔۔     یعنی ہوا میں اڑتے پھریں ۔

 ۴ ۔۔۔        اونٹ عرب کا بہترین مال ہے اور دس مہینے کی گابھن اونٹنی جو بیانے کے قریب ہو دودھ اور بچہ کی توقع پر بہت زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لیکن قیامت کے ہولناک زلازل کے وقت ایسے نفیس و عزیز مال کو کوئی نہ پوچھے گا نہ مالک کو اتنا ہوش ہو گا کہ ایسے بڑھیا مال کی خبر گیری کرے۔ باقی یہ کہنا کہ ریل نکل جانے کی وجہ سے اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی، محض ظرافت ہے۔

۵ ۔۔۔      یعنی جنگل کے وحشی جانور جو آدمی کے سایہ سے بھاگتے ہیں مضطرب ہو کر شہر میں آگھسیں اور پالتو جانوروں میں مل جائیں جیسا کہ اکثر خوف کے وقت دیکھا گیا ہے۔ ابھی چند سال ہوئے گنگا جمنا میں سیلاب آیا تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ ایک چھپر بہتا جا رہا ہے اس پر آدمی بھی ہیں اور سانپ وغیرہ بھی لپٹ رہے ہیں ایک دوسرے سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ نفسی نفسی پڑی ہوئی ہے بلکہ زیادہ سردی کے زمانہ میں بعض درندے جنگل سے شہر میں گھس آتے ہیں ۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے "حُشِرَتْ"کے معنے مارنے کے اور بعض نے مار کر اٹھانے کے لئے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

۶ ۔۔۔      یعنی سمندروں کا پانی گرم ہو کر دھواں اور آگ بن جائے جو نہایت گرم ہو کر محشر میں کافروں کو دکھ پہنچائے اور تنور کی طرح جھونکنے سے اُبلے۔

۷ ۔۔۔       یعنی کافر کافر کے اور مسلم مسلم کے ساتھ پھر ہر قسم کا نیک یا بد عمل کرنے والا اپنے جیسے عمل کرنے والوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور عقائد، اعمال، اخلاق وغیرہ کے اعتبار سے الگ جماعتیں بنا دی جائیں یا یہ مطلب ہے کہ روحوں کو جسموں کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔

۹ ۔۔۔ عرب میں رسم تھی کہ باپ اپنی بیٹی کو نہایت سنگدلی اور بے رحمی سے زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا بعض تو تنگدستی اور شادی بیاہ کے اخراجات کے خوف سے یہ کام کرتے تھے اور بعض کو یہ عار تھی کہ ہم اپنی بیٹی کسی کو دیں گے وہ ہمارا داماد کہلائے گا۔ قرآن نے آگاہ کیا کہ ان مظلوم بچیوں کی نسبت بھی سوال ہو گا کہ کس گناہ پر اس کو قتل کیا تھا۔ یہ مت سمجھنا کہ ہماری اولاد ہے، اس میں ہم جو چاہیں تصرف کریں بلکہ اولاد ہونے کی وجہ سے جرم اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔

۱۱ ۔۔۔       جیسے جانور کا بعد ذبح کے پوست اتار لیتے ہیں ۔ اس سے تمام اعضاء اور رگ و ریشہ ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح آسمان کے کھل جانے سے اس کے اوپر کی چیزیں نظر آئیں گی اور غمام کا نزول ہو گا۔ جس کا ذکر انیسویں پارہ میں آیت "ویوم تشقق السماء بالغمام " سے ہوا ہے۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی دوزخ بڑے زور شور کے ساتھ دہکائی جائے اور بہشت متقیوں کے نزدیک کر دی جائے جس کی رونق و بہار دیکھنے سے عجیب مسرت و فرحت حاصل ہو۔

۱ ۴ ۔۔۔      یعنی ہر ایک کو پتہ لگ جائے گا کہ نیکی یا بدی کا کیا سرمایہ لے کر حاضر ہوا ہے۔

۱۶ ۔۔۔      کئی سیاروں (مثلاً زحل، مشتری، مریخ، زہر، عطارد) کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں یہ سیدھی راہ ہے، کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آ کر کتنے دنوں تک غائب رہیں ۔

۱۷ ۔۔۔      یا جب جانے لگے۔ اس لفظ کے دونوں معنی آتے ہیں ۔

۱۸ ۔۔۔    حضرت شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں گویا آفتاب کو دریا میں تیرنے والی مچھلی سے تشبیہ دی اور طلوع سے پہلے اس کے نور کے منتشر ہونے کو دم ماہی سے نسبت کی۔ جیسے مچھلی دریا میں آنکھوں سے پوشیدہ گزرتی ہے اور اس کے سانس لینے سے پانی اڑتا اور منتشر ہوتا ہے۔ اسی طرح آفتاب کی حالت قبل طلوع اور قبل روشنی پھیلنے کے ہے۔ اور بعضوں نے کہا کہ دم صبح کنایہ ہے نسیم سے جو طلوع صبح کے قریب موسم بہار میں چلتی ہے (تنبیہ) ان قسموں کی مناسبت آیندہ مضمون سے یہ ہے کہ ان ستاروں کا چلنا، ٹھہرنا، لوٹنا، اور چھپ جانا ایک نمونہ ہے اگلے انبیاء پر بار بار وحی آنے اور ایک مدت دراز تک اس کے نشان باقی رہنے پھر منقطع ہو کر چھپ جانے اور غائب ہو جانے کا۔ اور رات کا آنا نمونہ ہے اس تاریک دور کا جو خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت سے پہلے دنیا پر گزرا کہ کسی شخص کو حق و باطل کی تمیز نہ رہی تھی۔ اور وحی کے آثار بالکل مٹ چکے تھے اس کے بعد صبح صادق کا دم بھرنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اس جہان میں تشریف لانا اور قرآن کا اترنا ہے کہ ہر چیز کو ہدایت کے نور سے دن کی مانند روشن کر دیا۔ گویا اگلے انبیاء کا نور ستاروں کی طرح تھا اور اس نوراعظم کو آفتاب درخشاں کہنا چاہئے۔ ولنعم ما قیل۔ فانہ شمس فضلھم کواکبھا یظھرن انوارھا للناس فی الظلم حتیٰ اذاطلعت فی الکون عم ھداھا العالمین واحیت سائر الامم اور بعض علماء نے فرمایا کہ ستاروں کا سیدھا چلنا اور لوٹنا اور چھپ جانا، فرشتے کے آنے اور واپس جانے اور عالم ملکوت میں جا چھپنے کے مشابہ ہے اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا، قرآن کے سبب ظلمت کفر دور ہو جانے اور نور ہدایت کے پوری طرح ظاہر ہو جانے کے مشابہ ہے۔ اس تقریر کے موافق مقسم بہ کی مناسبت مقسم علیہ سے زیادہ واضح ہے۔ واللہ اعلم۔

۲۱ ۔۔۔      یہ حضرت جبرائیل کی صفات بیان ہوئیں ۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کے پاس سے ہم تک پہنچا اس میں دو واسطے ہیں ۔ ایک وحی لانے والا فرشتہ ( جبرائیل) اور دوسرا پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم دونوں کی صفات وہ ہیں جن کے معلوم ہونے کے بعد کسی طرح کا شک و شبہ قرآن کے صادق اور منزل من اللہ ہونے میں نہیں رہتا۔ کسی روایت کی صحت تسلیم کرنے کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ راوی وہ ہوتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا ثقہ، عادل، ضابط، حافظ اور امانتدار ہو۔ جس سے روایت کرے اس کے پاس عزو حرمت کے ساتھ رہتا ہو۔ بڑے بڑے معتبر ثقات اس کی امانت وغیرہ پر اعتماد کلی رکھتے ہوں ۔ اور اسی لئے اس کی بات بے چون و چرا مانتے ہوں ۔ یہ تمام صفات حضرت جبرائیل میں موجود ہیں وہ کریم (عزت والے) ہیں جن کے لئے اعلیٰ نہایت متقی اور پاکباز ہونا لازم ہے " ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم " وفی الحدیث "الکرم التقویٰ " قوت والے ہیں جس میں اشراہ ہے کہ حفظ و ضبط اور بیان کی قوت بھی کامل ہے۔ اللہ کے ہاں ان کا بڑا درجہ ہے۔ سب آسمانوں کے فرشتے ان کے امین اور معتبر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ۔ یہ تو رسول ملکی کا حال تھا آگے رسول بشری کا حال سن لیجئے۔

۲۲ ۔۔۔   یعنی بعثت سے پہلے چالیس سال تک وہ تمہارے اور تم اس کے ساتھ رہے اتنی طویل مدت تک اس کے تمام کھلے چھپے احوال کا تجربہ کیا۔ کبھی ایک مرتبہ اس میں جھوٹ فریب یا دیوانہ پن کی بات نہ دیکھی۔ ہمیشہ اس کے صدق و امانت اور عقل و دانائی کے معترف رہے۔ اب بلاوجہ اسے جھوٹا یا دیوانہ کیونکر کہہ سکتے ہو۔ کیا یہ وہ ہی تمہارا رفیق نہیں ہے جس کے رتی رتی احوال کا تم پہلے سے تجربہ رکھتے ہو۔ اب اس کو دیوانہ کہنا بجز دیوانگی کے کچھ نہیں ۔

۲۳ ۔۔۔        یعنی مشرقی کنارہ کے پاس اس کی اصلی صورت میں صاف صاف دیکھا۔ اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شاید دیکھنے یا پہچاننے میں کچھ اشتباہ و التباس ہو گیا ہو گا جس کو فرشتہ سمجھ لیا وہ واقع میں فرشتہ نہ ہو گا۔ سورہ "نجم" میں پہلے آ چکا "فاستویٰ وھو بالافق الاعلےٰ "۔

۲ ۴ ۔۔۔      یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت و دوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کر بیان کرتا ہے اور اس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کئے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔

۲۵ ۔۔۔       بھلا شیطان ایسی نیکی اور پرہیزگاری کی باتیں کیوں سکھلانے لگا جس میں سراسر بنی آدم کا فائدہ اور خود اس ملعون کی تقبیح و مذمت ہو۔

۲۶ ۔۔۔      یعنی جب جھوٹ، دیوانگی، تخیل و توہم اور کہانت وغیرہ کے سب احتمالات مرفوع ہوئے تو بجز صدق و حق کے اور کیا باقی رہا۔ پھر اس روشن اور صاف راستہ کو چھوڑ کر کدھر بہکے جا رہے ہو۔

۲۷ ۔۔۔       قرآن کی نسبت جو احتمالات تم پیدا کرتے ہو، سب غلط ہیں ۔ اگر اس کے مضامین و ہدایات میں غور کرو تو اس کے سوا کچھ نہ نکلے گا کہ یہ سارے جہان کے لئے ایک سچا نصیحت نامہ اور مکمل دستور العمل ہے جس سے ان کی دارین کی فلاح وابستہ ہے۔

۲۸ ۔۔۔      یعنی بالخصوص ان کے لئے نصیحت ہے جو سیدھا چلنا چاہیں ۔ عناد اور کجروی اختیار نہ کریں ۔ کیونکہ ایسے ہی لوگ اس نصیحت سے منتفع ہوں گے۔

۲۹ ۔۔۔  یعنی فی نفسہ قرآن نصیحت ہے لیکن اس کی تاثیر مشیت الٰہی پر موقوف ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے۔ اور بعض کے لئے کسی حکمت سے ان کے سوءِ استعداد کی بناء پر متعلق نہیں ہوتی۔