تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ التّکویر

(سورۃ التكویر ۔ سورہ نمبر ۸۱ ۔ تعداد آیات ۲۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     جب لپیٹ دیا جائے گا (اس چمکتے دمکتے ) سورج کی بساط کو

۲۔۔۔     اور جب بے نور ہو جائیں گے (یہ جھلمل جھلمل کرتے ) ستارے

۳۔۔۔     اور جب چلا دیا جائے گا (ان جمے ہوئے دیو ہیکل) پہاڑوں کو

۴۔۔۔     اور جب آوارہ پھرتا چھوڑ دیا جائے گا دس ماہ کی گابھن اونٹنیوں کو

۵۔۔۔     اور جب اکٹھا کر دیا جائے گا وحشی جانوروں کو

۶۔۔۔     اور جب بھڑکا دیا جائے گا سمندروں کو

۷۔۔۔     اور جب جوڑ دیا جائے گا جانوں کو

۸۔۔۔     اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا

۹۔۔۔     کہ اس کو کس گناہ کی بنا پر قتل کیا گیا تھا؟

۱۰۔۔۔     اور جب اعمال ناموں کو کھول دیا جائے گا

۱۱۔۔۔     اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی

۱۲۔۔۔     اور جب دوزخ کو (دہکا اور) بھڑکا دیا جائے گا

۱۳۔۔۔     اور جب جنت کو نزدیک کر دیا جائے گا

۱۴۔۔۔     (جب یہ سب کچھ ہو جائے گا) تو اس وقت معلوم ہو جائے گا ہر شخص کو کہ وہ کیا لے کر آیا ہے

۱۵۔۔۔     پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں

۱۶۔۔۔     سیدھے چلنے والوں چھپ جانے والوں کی

۱۷۔۔۔     اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہونے لگے

۱۸۔۔۔     اور صبح کی جب کہ وہ سانس لینے لگے

۱۹۔۔۔     بلاشبہ یہ (قرآن لایا ہوا) کلام ہے ایک ایسے باعزت رسول کا

۲۰۔۔۔     جو بڑی قوت والا اور عرش کے مالک کے نزدیک بڑے مرتبے والا ہے

۲۱۔۔۔     وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہ بڑا امانتدار بھی ہے

۲۲۔۔۔     اور (عقل کے دشمنو !) تمہارے اس ساتھی میں تو جنون کی کوئی بات نہیں

۲۳۔۔۔     اور بلاشبہ انہوں نے دیکھا اس (رسول کریم) کو روشن افق پر

۲۴۔۔۔     اور یہ پیغمبر اس غیب کو بتانے میں کوئی بخل نہیں کرتے

۲۵۔۔۔     اور نہ ہی یہ (قرآن) کلام ہو سکتا ہے کسی شیطان مردود کا

۲۶۔۔۔     پھر تم لوگ کدھر (بہکے اور بھٹکے ) جا رہے ہو؟

۲۷۔۔۔     یہ تو ایک عظیم الشان نصیحت (اور یاددہانی) ہے سب جہاں والوں کے لئے

۲۸۔۔۔     تم میں سے ہر اس شخص کے لیے جو سیدھا چلنا چاہے

۲۹۔۔۔     اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا مگر یہ کہ اﷲ چا ہے جو کہ پروردگار ہے سارے جہانوں کا

تفسیر

 

۱۴۔۔۔ اوپر جتنے اذا گزرے ہیں یہ ان سب کا اکٹھا جواب ہے یعنی جب یہ اور یہ احوال پیش آ جائیں گے اور یہ اور یہ کچھ وقوع پذیر ہو جائے گا تب ہر شخص جان لے گا اور اس کے سامنے واضح ہو جائے گا کہ وہ اپنے رب کے حضور کیا کچھ لے کر حاضر ہوا ہے اور اس کے مطابق وہ اس یوم جزا میں کس صلے اور بدلے کا مستحق قرار پائے گا اور مقصود اس دن کے اس جاننے سے یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے کیے کرائے کے نتیجے اور اس کے صلے اور بدلے کو جان لے گا پس جو لوگ آج اس یوم حساب کو جھٹلاتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں اس روز ان کو بڑے ہی ہولناک خسارے کا منہ دیکھنا پڑے گا اور یہ وہ خسارہ ہو گا جس سے نکلنے اور خلاصی پانے کی پھر کوئی صورت ان کے لیے ممکن نہ ہو گی۔ سوآخرت کا انکار اور اس کی تکذیب سب سے بڑا انتہائی ہولناک اور خساروں کا خسارہ ہے۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔آمین۔

۲۹۔۔۔ ۱ اس سورہ کریمہ کے خاتمے کی ان آیات کریمات سے چند اہم امور سے آگہی بخشی گئی ہے، جن میں سب سے پہلی اہم بات یہ ذکر فرمائی گئی کہ یہ کتاب حکیم ایک عظیم الشان نصیحت اور یاد دہانی ہے سب جہان والوں کے لئے جو ان کو آگہی بخشتی ہے ان کے مقصد حیات اور ان کے مآل و انجام سے۔ پس اس کو اپنانے اور اس کی تعلیمات مقدسہ پر عمل کرنے میں لوگوں کا خود اپنا ہی بھلا اور فائدہ ہے اور اس سے اعراض و روگردانی میں خود ان ہی کا نقصان اور خسارہ ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے اور جہاں کا خسارہ سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے و العیاذُ  باللہ، دوسری اہم بات اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اس سلسلے میں کسی طرح کا کوئی جبر و اکراہ نہیں بلکہ معاملہ تمہاری اپنی مرضی اور اختیار پر ہے۔ تم میں سے جو چاہے اس کی تعلیمات کی روشنی میں سیدھا راستہ اپنائے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکے، ورنہ وہ اپنی محرومی کا ذمہ دار خود ہو گا، اور تیسری اہم بات اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اصل معاملہ تمہاری مشیت پر نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کی مشیت پر ہے کہ اس کی اس کائنات میں مشیت اسی کی چلتی ہے کہ اس میں حاکم و متصرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور وہ چونکہ حاکم مطلق ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم مطلق بھی ہے، اس لئے اس کی ہر مشیت اس کی حکمت کے مطابق اور اس کے ماتحت ہی ہوتی ہے اور ہدایت و غوایت کے سلسلہ میں اس کی مشیت اور اس کی سنت و دستور یہی ہے کہ اس سے وہ انہی لوگوں کو نوازتا، اور سرفراز فرماتا ہے جو اپنے اندر اس کے لئے طلب صادق رکھتے ہیں، اور اس کے لئے اپنی عقل و فکر کی قوتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں پس اصل چیز اس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھنا ہے۔ اللہ توفیق بخشے ہر لمحہ اپنی رضا ہی کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے۔ اور ہر قدم اپنی رضا اور خوشنودی ہی کے مطابق اٹھانا نصیب فرمائے۔ اور ہمیشہ ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین،