تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الحَشر

۱ ۔۔۔     چنانچہ اس کے زبردست غلبہ اور حکمت کے آثار میں سے ایک واقعہ آگے بیان کیا جاتا ہے۔

۲ ۔۔۔      ۱: مدینہ سے مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر ایک قوم یہود بستی تھی جس کو "بنی نضیر" کہتے تھے۔ یہ لوگ بڑے جتھے والے اور سرمایہ دار تھے، اپنے مضبوط قلعوں پر ان کو ناز تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے صلح کا معاہدہ کر لیا، کہ ہم آپ کے مقابلہ پر کسی کی مدد نہ کریں گے۔ پھر مکہ کے کافروں سے نامہ و پیام کرنے لگے۔ حتی کہ ان کے ایک بڑے سردار کعب بن اشرف نے چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچ کر بیت اللہ شریف کے سامنے مسلمانوں کے خلاف قریش سے عہد و پیمان باندھا۔ آخر چند روز بعد اللہ و رسول کے حکم سے محمد بن مسلمہ نے اس غدار کا کام تمام کر دیا۔ پھر بھی "بنی نضیر" کی طرف سے بدعہدی کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی دغا بازی سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو چند رفیقوں کے ساتھ بلا کر اچانک قتل کرنا چاہا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جہاں بیٹھے تھے اوپر سے بھاری چکی کا پاٹ ڈال دیا۔ اگر لگے تو آدمی مر جائے۔ مگر سب مواقع پر اللہ کے فضل نے حفاظت فرمائی۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا۔ ارادہ کیا کہ ان سے لڑیں ۔ جب مسلمانوں نے نہایت سرعت و مستعدی سے مکانوں اور قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ وہ مرعوب و خوفزدہ ہو گئے۔ عام لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ انہوں نے گھبرا کر صلح کی التجا کی۔ آخر یہ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں ۔ ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جا سکتے ہیں ، لے جائیں ۔ باقی مکان، زمین، باغ، وغیرہ پر مسلمان قابض ہوئے۔ حق تعالیٰ نے وہ زمین مال غنیمت کی طرح تقسیم نہ کرائی، صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیار پر رکھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اکثر اراضی مہاجرین پر تقسیم کر دی۔ اس طرح انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور مہاجرین و انصار دونوں کو فائدہ پہنچا۔ نیز حضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر کا اور وارد و صادر کا سالانہ خرچ بھی اسی سے لیتے تھے اور جو بچ رہتا اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھے۔ اس سورت میں یہ ہی قصہ مذکور ہے۔

۲: یعنی ایک ہی ہلہ میں گھبرا گئے اور پہلی ہی مڈبھیڑ پر مکان اور قلعے چھوڑ کر نکل بھاگنے کو تیار ہو بیٹھے۔ کچھ بھی ثابت قدمی نہ دکھلائی۔ (تنبیہ) "اوّل الحَشْر" سے بعض مفسرین کے نزدیک یہ مراد ہے کہ اس قوم کے لیے اس طرح ترک وطن کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ قبل ازیں ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ یا "اول الحشر" میں اس طرف اشارہ ہوا کہ ان یہود کا پہلا حشر یہ ہے کہ مدینہ چھوڑ کر بہت سے خیبر وغیرہ چلے گئے اور دوسرا حشر وہ ہو گا جو حضرت عمر رضی اللہ کے عہد خلافت میں پیش آیا۔ یعنی دوسرے یہود و نصاریٰ کی معیّت میں یہ لوگ بھی خیبر سے ملک شام کی طرف نکالے گئے جہاں آخری حشر بھی ہونا ہے۔ اسی لیے "شام" کو "ارض المحشر" بھی کہتے ہیں ۔

۳:  یعنی ان کے سازو سامان، مضبوط قلعے اور جنگجویانہ اطوار دیکھ کر نہ تم کو اندازہ تھا کہ اس قدر جلد اتنی آسانی سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور نہ ان کو خیال تھا کہ مٹھی بھر بے سر و سامان لوگ اس طرح قافیہ تنگ کر دیں گے۔ وہ اسی خواب خرگوش میں تھے کہ مسلمان (جن کے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے) ہمارے قلعوں تک پہنچنے کا حوصلہ نہ کر سکیں گے۔ اور اس طرح گویا اللہ کے ہاتھ سے بچ نکلیں گے۔ مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نہ روک سکی۔ ان کے اوپر اللہ کا حکم وہاں سے پہنچا، جہاں سے ان کو خیال و گمان بھی نہ تھا۔ یعنی دل کے اندر سے خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اور بے سر و سامان مسلمانوں کی دھاک بٹھلا دی۔ ایک تو پہلے ہی اپنے سردار کعب بن اشرف کے ناگہانی قتل سے مرعوب و خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اب مسلمانوں کے اچانک حملہ نے رہے سہے حواس بھی کھو دیے۔ ۔    یعنی حرص اور غیظ و غضب کے جوش میں مکانوں کے کڑے، تختے، کواڑ اکھاڑنے لگے تاکہ کوئی چیز جو ساتھ لے جا سکتے ہیں رہ نہ جائے اور مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے۔ اس کام میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ ایک طرف سے وہ خود گراتے تھے دوسری طرف سے مسلمان۔ اور غور سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ہاتھوں جو تباہی و ویرانی عمل میں آئی وہ بھی ان ہی بدبختوں کی بد عہدیوں اور شرارتوں کا نتیجہ تھی۔

۴: یعنی اہل بصیرت کے لیے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دکھلا دیا کہ کفر، ظلم، شرارت اور بدعہدی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ محض ظاہری اسباب پر تکیہ کر کے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے غافل ہو جانا عقلمند کا کام نہیں ۔

۳ ۔۔۔     یعنی ان کی قسمت میں جلا وطنی کی سزا لکھی تھی۔ یہ بات نہ ہوتی تو کوئی دوسری سزا دنیا میں دی جاتی۔ مثلاً بنی قریظہ کی طرح مارے جاتے۔ غرض سزا سے بچ نہیں سکتے۔ یہ خدا کی حکمت ہے قتل کے بجائے محض جلا وطنی پر اکتفا کیا گیا۔ لیکن یہ تخفیف صرف دنیاوی سزا میں ہے آخرت کی ابدی سزا کس طرح ان کافروں سے ٹل نہیں سکتی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "جب یہ قوم ملک شام سے بھاگ کر یہاں آئی تھی تو ان کے بڑوں نے کہا تھا کہ ایک دن تم کو یہاں سے ویران ہو کر پھر شام میں جانا پڑے گا۔ چنانچہ اس وقت اجڑ کر (بعض شام میں چلے گئے اور بعض) خیبر میں رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں وہاں سے اجڑ کر شام میں گئے۔

 ۴ ۔۔۔     یعنی ایسے مخالفوں کو ایسی سخت سزا ملتی ہے۔

۵ ۔۔۔        ۱: جب وہ لوگ قلعہ بند ہو گئے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اور باغ اجاڑے جائیں تاکہ اس کے درد سے باہر نکل کر لڑنے پر مجبور ہوں اور کھلی ہوئی جنگ کے وقت درختوں کی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ اس پر کچھ درخت کاٹے گئے اور کچھ چھوڑ دیے گئے کہ فتح کے بعد مسلمانوں کے کام آئیں گے۔ کافروں نے طعن کرنا شروع کیا کہ خود تو فساد سے منع کرتے ہیں ، کیا درختوں کا کاٹنا اور جلانا فساد نہیں ؟ اس پر یہ آیت اتری۔ یعنی یہ سب کچھ اللہ جل شانہ کے حکم سے ہے۔ حکم الٰہی کی تعمیل کو فساد نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ گہری حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حکم کے بعض مصالح اوپر بیان ہو چکیں ۔

۲: یعنی تاکہ مسلمانوں کو عزت دے اور کافروں کو ذلیل کرے۔ چنانچہ جو درخت چھوڑ دیے گئے اس میں مسلمانوں کی ایک کامیابی اور کفار کو غیظ میں ڈالنا ہے کہ یہ مسلمان ان کو برتیں گے اور نفع اٹھائیں گے اور جو کاٹے یا جلائے گئے اس میں مسلمانوں کی دوسری کامیابی یعنی ظہور آثار غلبہ اور کفار کو غیظ و غضب میں ڈالنا ہے کہ مسلمان ہماری چیزوں میں کیسے تصرفات کر رہے ہیں ۔ لہٰذا دونوں امر جائز اور حکمت پر مشتمل ہیں ۔

۶ ۔۔۔      حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "کہ یہ ہی فرق رکھا ہے "غنیمت" میں اور "فئے" میں ۔ جو مال لڑائی سے ہاتھ لگا وہ غنیمت ہے اس میں پانچواں حصہ اللہ کی نیاز (جس کی تفصیل دسویں پارہ کے شروع میں گزر چکی ہے) اور چار حصے لشکر کو تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ اور جو بغیر جنگ کے ہاتھ آیا وہ سب کا سب مسلمانوں کے خزانہ میں رہے (ان کی مصالح عامہ میں ) اور جو کام ضروری ہو اس پر خرچ ہو۔" (تنبیہ) اگر قدرے جنگ ہونے کے بعد کفار مرعون ہو کر صلح کی طرف مسارعت کریں اور مسلمان قبول کر لیں ۔ اس صورت میں جو اموال صلح سے حاصل ہوں گے وہ بھی حکم "فئے" میں داخل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اموال "فئے" خالص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیار و تصرف میں ہوتے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ اختیار مالکانہ ہو جو صرف آپ کے لیے مخصوص تھا۔ جیسا کہ آیت حاضرہ میں "علیٰ رسولہ" کے لفظ سے متبادر ہوتا ہے۔ اور احتمال ہے کہ محض حاکمانہ ہو بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان اموال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اگلی آیت میں ہدایت فرما دی کہ وجوباً یا ندباً فلاں فلاں مصارف میں صرف کیے جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ اموال امام کے اختیار و تصرف میں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن اس کا تصرف مالکانہ نہیں ہوتا، محض حاکمانہ ہوتا ہے۔ وہ ان کو اپنی صوابدید اور مشورہ سے مسلمانوں کی عام ضروریات و مصالح میں خرچ کرے گا۔ باقی اموالِ غنیمت کا حکم اس سے جدا گانہ ہے۔ وہ خمس نکالے جانے کے بعد خالص لشکر کا حق ہوتا ہے۔ کما یدل علیٰ قولہ تعالیٰ۔ "وَاعْلَمُوآ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ" الخ لشکری اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو وہ علیحدہ بات رہی۔ البتہ شیخ ابوبکر رازی حنفی نے "احکام القرآن" میں نقل کیا ہے کہ یہ حکم اموال منقولہ کا ہے غیر منقولہ میں امام کو اختیار ہے کہ مصلحت سمجھے تو لشکر پر تقسیم کر دے اور مصلحت نہ سمجھے تو مصالح عامہ کے لیے رہنے دے۔ جیسا کہ سوادِ عراق میں حضرت عمر نے بعض جلیل القدر صحابہ کے مشورہ سے یہ ہی عمل درآمد رکھا۔ اسی مسلک کے موافق شیخ ابوبکر رازی نے "وَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا غَنِمْتُمْ" الخ کو اموال منقولہ پر اور سورہ "حشر" کی آیات کو اموال غیر منقولہ پر حمل کیا ہے۔ اس طرح کی پہلی آیت "وما اَفَاءَ اللّٰہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ" حکم "فئے" پر اور دوسری آیت "مَااَفَاءَ اللّٰہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُریٰ۔" حکم "غنیمت" پر محمول ہے۔ اور لغۃً "غنیمت" کو لفظ "فئے" سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

۷ ۔۔۔     ۱: پہلی آیت میں صرف اموال "بنی نضیر" کا ذکر تھا۔ اب اموال "فئے" کے متعلق عام ضابطہ بتلاتے ہیں ۔ یعنی "فئے" پر قبضہ رسول کا اور رسول کے بعد امام کا اسی پر یہ خرچ پڑتے ہیں ۔ باقی اللہ کا ذکر تبرکاً ہوا۔ وہ تو سب ہی کا مالک ہے۔ وہاں کعبہ کا خرچ اور مسجدوں کا بھی جو اللہ کے نامزد ہیں ممکن ہے اس میں درج ہو۔

۲: یعنی حضرت کے قرابت والوں کے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ میں اس مال میں سے ان کو بھی دیتے تھے۔ اور ان میں فقیر کی بھی قید نہیں تھی۔ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ کو جو دولت مند تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حصہ عطا فرمایا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حنفیہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابتدار جو صاحب حاجت ہوں امام کو چاہیے کہ انہیں دوسرے محتاجوں سے مقدم رکھے۔

۳:  یعنی یہ مصارف اس لیے بتلائے کہ ہمیشہ یتیموں ، محتاجوں ، بیکسوں اور عام مسلمانوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور عام اسلامی ضروریات سرا نجام پا سکیں ۔ یہ اموال محض دولت مندوں کے الٹ پھیر میں پڑ کر ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں جن سے سرمایہ دار مزے لوٹیں اور غریب فاقوں پر مریں ۔    یعنی مال و جائداد وغیرہ جس طرح پیغمبر اللہ کے حکم سے تقسیم کرے اسے بخوشی و رغبت قبول کرو، جو ملے لے لو، جس سے روکا جائے رک جاؤ اور اسی طرح اس کے تمام احکام اور اوامر و نواہی کی پابندی رکھو۔

۴:  یعنی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ ڈرتے رہو کہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی سخت عذاب مسلط نہ کر دے۔

۸ ۔۔۔    یعنی یوں تو اس مال سے عام مسلمانوں کی ضروریات و حوائج متعلق ہیں ۔ لیکن خصوصی طور پر ان ایثار پیشہ جاں نثاروں اور سچے مسلمانوں کا حق مقدم ہے۔ جنہوں نے محض اللہ کی خوشنودی اور رسول کی محبت و اطاعت میں اپنے گھر بار اور مال و دولت سب کو خیر باد کہا اور بالکل خالی ہاتھ ہو کر وطن سے نکل آئے تاکہ اللہ و رسول کے کاموں میں آزادانہ مدد کر سکیں ۔

۹ ۔۔۔     ۱: اس گھر سے مراد ہے مدینہ طیبہ اور یہ لوگ انصار مدینہ ہیں جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں سکونت پذیر تھے۔ اور ایمان و عرفان کی راہوں پر بہت مضبوطی کے ساتھ مستقیم ہو چکے تھے۔

۲: یعنی محبت کے ساتھ مہاجرین کی خدمت کرتے ہیں حتی کہ اپنے اموال وغیرہ میں ان کو برابر کا شریک بنانے کے لیے تیار ہیں ۔

۳:  یعنی مہاجرین کو اللہ تعالیٰ جو فضل و شرف عطا فرمائے یا اموال فئے وغیرہ میں سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ عنایت کریں ، اسے دیکھ کر انصار دل تنگ نہیں ہوتے نہ حسد کرتے ہیں ۔ بلکہ خوش ہوتے ہیں اور ہر اچھی چیز میں ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں ۔ خود سختیاں اور فاقے اٹھا کر بھی اگر ان کو بھلائی پہنچا سکیں تو دریغ نہیں کرتے۔ ایسا بے مثال ایثار آج تک دنیا کی کس قوم نے کس کے لیے دکھلایا۔

۴: یعنی بڑے کامیاب اور با مراد ہیں وہ لوگ جن کو اللہ کی توفیق و دستگیری نے ان کے دل کے لالچ اور حرص و بخل سے محفوظ رکھا۔ لالچی اور بخیل آدمی اپنے بھائیوں کے لیے کہاں ایثار کر سکتا ہے اور دوسروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر کب خوش ہوتا ہے؟

۱۰ ۔۔۔       یعنی ان مہاجرین و انصار کے بعد عالم وجود میں آئے، یا ان کے بعد حلقہ اسلام میں آئے، یا مہاجرین سابقین کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ والظاہر ہو الاول۔  یعنی سابقین کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور کسی مسلمان بھائی کی طرف سے دل میں بیر اور بغض نہیں رکھتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ "آیت سب مسلمانوں کے واسطے ہے جو اگلوں کا حق مانیں اور انہی کے پیچھے چلیں اور ان سے بیر نہ رکھیں ۔" امام مالک نے یہیں سے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بد گوئی کرے اس کے لیے مال فئے میں کچھ حصہ نہیں ۔

۱۱ ۔۔۔     ۱: عبد اللہ بن اُبی وغیرہ منافقین نے یہود "بنی النضیر" کو خفیہ پیغام بھیجا تھا کہ گھبرانا نہیں اور اپنے کو اکیلا مت سمجھنا۔ اگر مسلمانوں نے تم کو نکالا۔ ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور لڑائی کی نوبت آئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ یہ ہمارا بالکل اٹل اور قطعی فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ماننے والے اور پروا کرنے والے نہیں ۔

۲: یعنی دل سے نہیں کہہ رہے۔ محض مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے باتیں بنا رہے ہیں ۔ اور جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں ہرگز اس پر عمل نہیں کریں گے۔

۱۲ ۔۔۔       ۱: چنانچہ لڑائی کا سامان ہوا اور "بنی نضیر" محصور ہو گئے۔ ایسی نازک صورت حال میں کوئی منافق ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ اور آخرکار جب وہ نکالے گئے یہ اس وقت آرام سے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے رہے۔

۲: یعنی اگر بفرض محال منافق ان کی مدد کو نکلے بھی تو نتیجہ کیا ہو گا۔ بجز اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ پھر ان کی مدد تو کیا کر سکتے، خود ان کی مدد کو بھی کوئی نہ پہنچے گا۔

۱۳ ۔۔۔       یعنی اللہ کی عظمت کو سمجھتے اور دل میں اس کا ڈر ہوتا، تو کفر و نفاق کیوں اختیار کرتے۔ ہاں مسلمانوں کی شجاعت و بسالت سے ڈرتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے مقابلہ کی تاب نہیں لا سکتے نہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں ۔

۱ ۴ ۔۔۔      ۱: یعنی چونکہ ان لوگوں کے دل مسلمانوں سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں ، اس لیے کھلے میدان میں جنگ نہیں کر سکتے۔ ہاں گنجان بستیوں میں قلعہ نشین ہو کر یا دیواروں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر لڑ سکتے ہیں ۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے، کہ یورپ نے مسلمانوں کی تلوار سے عاجز ہو کر قسم قسم کے آتشبار اسلحہ اور طریق جنگ ایجاد کیے ہیں ۔ تاہم اب بھی اگر کسی وقت دست بدست جنگ کی نوبت آ جاتی ہے تو چند ہی منٹ میں دنیا "لَا یُقَاتِلُونَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِی قُریً مُحَصَّنَۃٍ اَوْمِنْ وَرَآءِ جُدُرٍ" کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ باقی اس قوم کا تو کہنا ہی کیا جس کے نزدیک چھتوں پر چڑھ کر اینٹ پتھر پھینکنا اور تیزاب کی پچکاریاں چلانا ہی سب سے بڑی علامت بہادری کی ہے۔   یعنی آپس میں لڑائی میں بڑے تیز اور سخت ہیں جیسا کہ اسلام سے پہلے "اوس" و "خزرج" کی جنگ میں تجربہ ہو چکا، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی ساری بہادری اور شیخی کِرکری ہو جاتی ہے۔

۲:  یعنی مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ظاہری اتفاق و اتحاد سے دھوکہ مت کھاؤ۔ ان کے دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں ، ہر ایک اپنی غرض و خواہش کا بندہ، اور خیالات میں ایک دوسرے سے جدا ہے پھر حقیقی یک جہتی کہاں میسر آ سکتی ہے۔ اگر عقل ہو تو سمجھیں کہ یہ نمائشی اتحاد کس کام کا۔ اتحاد اسے کہتے ہیں جو مومنین قانتین میں پایا جاتا ہے کہ تمام اغراض و خواہشات سے یکسو ہو کر سب نے ایک اللہ کی رسی کو تھام رکھا ہے، اور ان سب کا مرنا جینا اسی خدائے واحد کے لیے ہے۔

۱۵ ۔۔۔      یعنی ابھی قریب زمانہ میں یہود "بنی قینقاع" اپنی غداری کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔ جب انہوں نے بدعہدی کی تو مسلمانوں نے ایک مختصر لڑائی کے بعد نکال باہر کیا۔ اور اس سے پیشتر ماضی قریب میں مکہ والے "بدر" کے دن سزا پا چکے ہیں ، وہی انجام "بنی نضیر" کا دیکھ لو کہ دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں سزا مل چکی اور آخرت کا دردناک عذاب جوں کا توں رہا۔

۱۷ ۔۔۔    یعنی شیطان اول انسان کو کفرو معصیت پر ابھارتا ہے۔ جب انسان دام اغواء میں پھنس جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے الگ اور تیرے کام سے بیزار ہوں مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے (یہ کہنا بھی ریاء اور مکاری سے ہو گا) نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود بھی دوزخ کا کندہ بنا اور اسے بھی بنایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "شیطان آخرت میں یہ بات کہے گا اور "بدر" کے دن بھی ایک کافر کی صورت میں لوگوں کو لڑواتا تھا۔ جب فرشتے نظر آئے تو بھاگا۔ جس کا ذکر سورہ "انفال" میں گزر چکا ہے۔ یہی مثال منافقوں کی ہے۔ وہ "بنی نضیر" کو اپنی حمایت و رفاقت کا یقین دلا دلا کر بھرے پر چڑھاتے رہے۔ آخر جب وہ مصیبت میں پھنس گئے، آپ الگ ہو بیٹھے۔ لیکن کیا وہ اس طرح اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ دونوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔

۱۸ ۔۔۔       ۱: یعنی اللہ سے ڈر کر طاعات اور نیکیوں کا ذخیرہ فراہم کرو اور سوچو کل کے لیے کیا سامان تم نے آگے بھیجا ہے جو مرنے کے بعد وہاں پہنچ کر تمہارے کام آئے۔

۲؛ یعنی تمہارا کوئی کام اللہ سے پوشیدہ نہیں لہٰذا اس سے ڈر کر تقویٰ کا راستہ اختیار کرو اور معاصی سے پرہیز رکھو۔

۱۹ ۔۔۔       یعنی جنہوں نے اللہ کے حقوق بھلا دیے، اس کی یاد سے غفلت اور بے پروائی برتی۔ اللہ نے خود کی جانوں سے ان کو غافل اور بے خبر کر دیا کہ آنے والی آفات سے اپنے بچاؤ کی کچھ فکر نہ کی۔ اور نافرمانیوں میں غرق ہو کر دائمی خسارے اور ابدی ہلاکت میں پڑ گئے۔

۲۰ ۔۔۔     یعنی چاہیے کہ آدمی جب اپنے کو بہشت کا مستحق ثابت کرے جس کا راستہ قرآن کریم کی ہدایات کے سامنے جھکنے کے سوا کچھ نہیں ۔

۲۱ ۔۔۔       ۱: یعنی مقام حسرت و افسوس ہے کہ آدمی کے دل پر قرآن کا اثر کچھ نہ ہو، حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست اور قوی ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتارا جاتا اور اس میں سمجھ کا مادہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلم کی عظمت کے سامنے دب جاتا اور مارے خوف کے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جاتا۔ میرے والد مرحوم نے ایک طویل نظم کے ضمن میں یہ تین شعر لکھے تھے        

سنتے سنتے نغمہ ہائے محفل بدعات کو

کان بہرے ہو گئے دل بدمزہ ہونے کو ہے

آؤ سنوائیں تمہیں وہ نغمہ مشروع بھی

پارہ جس کے لحن سے طور ہدیٰ ہونے کو ہے

حیف گر تاثیر اس کی تیرے دل پر کچھ نہ ہو

کوہ جس سے خاشعاً متصدعاً ہونے کو ہے

۲:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یعنی کافروں کے دل بڑے سخت ہیں کہ یہ کلام سن کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ اگر پہاڑ سمجھے تو وہ بھی دب جائے۔"

(تنبیہ) یہ تو کلام کی عظمت کا ذکر تھا۔ آگے متکلم کی عظمت و رفعت کا بیان ہے۔

۲۳ ۔۔۔     ۱: یعنی سب نقائص اور کمزوریوں سے پاک، اور سب عیوب و آفات سے سالم، نہ کوئی برائی اس کی بارگاہ تک پہنچی نہ پہنچے۔

۲: "مومن" کا ترجمہ "امان دینے والا" کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک "مصدق" کے معنی ہیں یعنی اپنی اور اپنے پیغمبروں کی قولاً و فعلاً تصدیق کرنے والا۔ یا مومنین کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا۔

۳:  یعنی اس کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔

۲ ۴ ۔۔۔      ۱: "خالق" و "باری" کے فرق کی طرف ہم نے سورہ "بنی اسرائیل" کی آیت "وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوُحِ قُلِ الرُّوُحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی" الخ کے فوائد میں کچھ ارشاد کیا ہے۔

۲:  جیسا کہ نطفہ پر انسان کی تصویر کھینچ دی۔

۳: یعنی وہ نام جو اعلیٰ درجہ کی خوبیوں اور کمالات پر دلالت کرتے ہیں ۔

۴:  یعنی زبان حال سے یا قال سے بھی جس کو ہم نہیں سمجھتے۔

۵:   تمام کمالات و صفات الٰہیہ کا مرجع ان دو صفتوں "عزیز" اور "حکیم" کی طرف ہے۔ کیونکہ "عزیز" کمال قدرت پر، اور 'حکیم" کمال علم پر دلالت کرتا ہے۔ جتنے کمالات ہیں علم اور قدرت سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں ۔ روایات میں سورہ "حشر" کی ان تین آیتوں (ہواللہ الذی لا الہ الا ہو سے آخر تک) کی بہت فضیلت آئی ہے۔ مومن کو چاہیے کہ صبح و شام ان آیات کی تلاوت پر مواظبت رکھے،