پہلی ہی آیت قُلْ یٰٓا اَیّھَُا الْکٰفِرُوْنَ کے لفظ الکافرون کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت حسن بصری اور عِکْرِمَہ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکّی ہے، حضرت عبد اللہ بن زبیر کہتے ہیں مدّنی ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور قَتَادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکّی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ مکّی سورۃ ہے، اور اس کا مضمون خود اس کے مکّی ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔
مکّہ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضورؐ کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تا کہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رُو نما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دے دیتے ہیں کہ آپ مکّہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی بُرائی کرنے سے باز رہیں۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی۔ حضور ؐ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبود وں لات اور عُزّیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا، ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں کہ میرے ربّ کی طرف سے کیا حکم آتا ہے۔ ۱؎ اس پر وحی نازل ہوئی قُلْ یٰٓا اَیّھَا الْکٰفِرُوْنَ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ قُلْ اَفَغَیْرَ اللہِ تَاْ مُرُوْنِّیْٓ اَعْبُدُ اَیّھَُا الْجٰعِلُوْنَo (الزُّمر، آیت۶۴)۔ ’’اِن سے کہو، اے نادانو، کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں ؟‘‘ (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی)۔ ابن عباسؓ کی ایک اور روایت یہ ہے کہ قریش کے لوگوں نے حضورؐ سے کہا ’’ اے محمدؐ، اگر تم ہمارے معبود بتوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کریں گے۔ ‘‘ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی(عبد بن حُمَید)۔
سعید بن مینا ء (ابو البَخْتَرِی کے آزاد کردہ غلام، کی روایت ہے کہ ولید بن مُغِیْرہ، عاص بن وائل، اَسْوَد بن المُطَّلِب اور اُمَیَّہ بن خَلَف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملے اور آپ سے کہا ’’اے محمدؐ، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کر دیتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اُس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اُس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اُس سے پالیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اُس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصّہ پا لو گے۔ ‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی کہ قُلْ یٰٓا اَیّھَُا الْکٰفِرُوْنَ۔ ۔۔۔۔۔۔۔(ابن جریر و ابن ابی حاتم ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے )
وَہْب بن مُنَبِّہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں گے اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں (عبد بن حُمَید ابن ابی حاتم)۔
اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفّارِ قریش نے حضورؐ کے سامنے اِس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اس بات کی ضرور ت تھی کہ ایک دفعہ دو ٹوک جواب دے کر اُن کی اِس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین کے معاملہ میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر اُن سے کوئی مصالحت کر لیں گے۔
اِس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں ، بلکہ اِس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفّار کے دین اور اُن کی پوجا پاٹ اور اُن کے معبودوں سے قطعی براءت، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کر دیا جائے اور اُنہیں بتا دیا جائے کہ دینِ کفر اور دینِ اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، اُن کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتداءً قریش کے کفار کو مُخاطَب کر کے اُن کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی، لیکن یہ اُنہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے قرآن میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دینِ کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے اُن کو اس سے قول اور عمل میں براءت کا اظہار چاہیے اور بلا رو رعایت کہہ دینا چاہیے کہ دین کے معاملہ میں وہ کافروں سے کسی قسم کی مداہنت یا مصالحت نہیں کر سکتے۔ اسی لیے یہ سورۃ اُس وقت بھی پڑھی جاتی رہی جب وہ لوگ مر کھپ گئے تھے جن کی باتوں کے جواب میں اِسے نازل فرمایا گیا تھا، اور وہ لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد اسے پڑھتے رہے جو اِس کے نزول کے زمانے میں کافر و مشرک تھے، اور اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعد آج بھی مسلمان اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ کفر اور کافری سے بیزاری و لاتعلقی ایمان کا دائمی تقاضا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ میں اِس سورہ کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ ذیل کی چند احادیث سے کیا جا سکتا ہے :
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے بار ہا حضورؐ کو فجر کی نماز سے پہلے اور مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتوں میں قُلْ یٰٓا اَیّھَُا الْکٰفِرُوْنََ اور قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد پڑھتے دیکھا ہے۔ (اِس مضمون کی متعدد روایات کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ امام احمد، تِرْمذی، نَسائی، ابن ماجہ، ابن حِبّان اور ابن مَردویَہ نے ابن عمرؓ سے نقل کی ہیں )۔
حضرت خَبّاب ؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹو تو قُلْ یٰٓا اَیّھَُا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لیا کرو، اور حضورؐ کا خود بھی یہ طریقہ تھا کہ جب آپؐ سونے کے لیے لیٹتے تو یہ سورۃ پڑھ لیا کرتے تھے (بزّار، طَبَرانی، ابن مردویہ)
ابنِ عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا ’’میں تمہیں ) بتاؤں وہ کلمہ جو تم کو شرک سے محفوظ رکھنے والا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ سوتے وقت قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لیا کرو (ابو یَعلیٰ، طَبَرانی)۔
حضرت اَنَسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت مُعاذ بن جَبَل سے فرمایا سوتے وقت قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے (بَیْہَقِی فی الشعب)۔
فَرْدَہ بن نَوفَل اور عبد الرحمان بن نَوفَل، دونوں کا بیان ہے کہ ان کے والد نوفل بن معاویہؓ الاَشْجَعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیئے جسے میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں۔ آپ نے فرمایا قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ آخر تک پڑھ کر سو جایا کرو، کیونکہ یہ شرک سے براءت ہے (مُسند احمد، ابو داؤد، تِرمِذی، نَسائی، ابن ابی شَیبہ، حاکم، ابن مَرْدُوْیَہ، بِیْہَقِی فی الشعب)۔ ایسی ہی درخواست حضرت زید بن ؓ حارثہ کے بھائی حضرت جَبَلہ بنؓ حارثہ نے حضور سے کی تھی اور ان کو بھی آپ نے یہی جواب دیا تھا ( مُسند احمد، طَبَرانی)۔۱؎ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابلِ قبول کیا معنی قابلِ غور بھی سمجھتے تھے، اور آپؐ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابلِ قبول نہیں ہے، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کے بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں ، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار جاری رہتا ہے، لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں۔
1: اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں : (۱) حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں، لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے کہ جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے حتیٰ کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دینِ کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اِسی طرح اپنی براءت کا اظہار کر دے۔ پس لفظِ قُلْ (کہہ دو) کے اولین مخاطَب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہیں، مگر حکم حضور ؐ کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپؐ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے۔ (۲) ’’کافر‘‘ کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مُخاطَبوں کو دی گئی ہو، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے ( Unbeliever ) کے ہیں ، اور اس کے مقابلے میں ’’مومن‘‘ کا لفظ مان لینے اور تسلیم کر لینے والے (Believer ) کے لیے بولا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمانا کہ ’’ اے کافرو‘‘ دراصل اس معنی میں ہے کہ’’ اے و ہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ‘‘ اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے۔ (۳) اے کافرو کہا ہے، اے مشرکو نہیں ، اس لیے مخاطَب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول، اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جلّ شانہ، کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے، خواہ وہ یہود ہوں، نصاریٰ ہوں، مجوسی ہوں یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں۔ اِس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کاکی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (۴) منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو، یا اے مخالفو کہہ کر مخاطب کریں۔ اِس طرح کا خطاب دراصل مُخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ اُن کی صفتِ دشمنی اور صفتِ مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اُسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک اُن میں یہ صفت باقی رہے۔ اگر اُن میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے، یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اِس خِطاب کا مُخاطَب نہیں رہتا۔ بالکل اِسی طرح جن لوگوں کو ’’اے کافرو‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے وہ بھی اُن کی صفتِ کفر کے لحاظ سے ہے نہ کہ اُن کی ذاتی حیثیت سے۔ اُن میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اُس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہو گا، لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اِس کا مُخاطَب نہ رہے گا۔ (۵) مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے دی ہے کہ اس سورۃ میں ’’اے کافرو‘‘ کا خطاب قریش کے صرف اُن چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویز لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یہ رائے انہوں نے دو وجوہ سے قائم کی ہے۔ ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo(جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا اُن کی عبادت میں نہیں کرتا) فرمایا گیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاریٰ پر صادق نہیں آتا، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ، (اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں )، اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول اُن لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اِس سورۃ کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے۔ لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں۔ جہاں تک اِن آیتوں کا تعلق ہے اِن کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہو جائے گا کہ اِن کا وہ مطلب نہیں ہے جو اِن سے سمجھا گیا ہے۔ یہاں اِس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اِس سورہ کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو اُن کے مر کھپ جانے کے بعد اِس سورۃ کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے ؟ اور اسے مستقل طور پر قرآن میں درج کر دینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں ؟
2: اس میں وہ سب معبود شامل ہیں جن کی عبادت دنیا بھر کے کفار اور مشرکین کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، خواہ وہ ملائکہ ہوں، جن ہوں، انبیاء اور اولیاء ہوں، زندہ ہوں یا مردہ انسانوں کی ارواح ہوں، یا سورج، یا چاند، ستارے، جانور، درخت، دریا، بُت اور خیالی دیویاں اور دیوتا ہوں۔ اس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرکینِ عرب اللہ تعالیٰ کو بھی تو معبود مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین نے بھی قدیم زمانے سے آج تک اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔ رہے اہلِ کتاب تو وہ اصل معبود تو اللہ ہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر اِن سب لوگوں کے تمام معبودوں کی عبادت سے کسی استثناء کے بغیر براءت کا اعلان کیسے صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اللہ بھی ان میں شامل ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو معبودوں کے مجموعے میں ایک معبود کی حیثیت سے شامل کر کے اگر دوسروں کے ساتھ اُس کی عبادت کی جائے تو وہ شخص جو توحید پر ایمان رکھتا ہو لازماً اس عبادت سے اپنی براءت کا اظہار کرے گا، کیونکہ اس کے نزدیک اللہ معبودوں کے مجموعے میں سے ایک معبود نہیں بلکہ وہی ایک تنہا معبود ہے، اور اِس مجموعے کی عبادت سرے سے اللہ کی عبادت ہی نہیں ہے اگرچہ اُس میں اللہ کی عبادت بھی شامل ہو۔ قرآن مجدد میں اِس بات کو صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف وہ ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ تک نہ ہو، اور جس میں انسان اپنی بندگی کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دے۔ وَمَآ اُمِرُوْ اِلَّا لِیَعْبُدُو ا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآ ءَ۔ ’’ لوگوں کو اِس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بالکل یَک سُو ہو کر، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی عبادت کریں ‘‘ (البیِّنَہ۔۵)۔ یہ مضمون بکثرت مقامات پر قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھاور پورے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء، آیات ۱۴۶-۱۴۵، الاَعراف، ۲۹۔ الزُّمَر، ۱۵-۱۴-۱۱-۳-۲۔ المؤمن، ۱۴- ۶۴تا ۶۶۔ یہی مضمون ایک حدیث قُدسی میں بیان کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بڑھ کر ہر شریک کی شرکت سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے کوئی عمل ایسا کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی اُس نے شریک کیا ہو اُس سے میں بَری ہوں اور وہ پورا پورا عمل اُسی کے لیے ہے جس کو اُس نے شریک کیا‘‘(مسلم، مُسند احمد، ابن ماجہ)۔ پس درحقیقت اللہ کو دو یا تین یا بہت سے خداؤں میں سے ایک قرار دینا اور اُس کے ساتھ دوسروں کی بندگی و پرستش کرنا ہی تو وہ اصل کفر ہے جس سے اظہارِ براءت کرنا اس سورۃ کا مقصود ہے۔
3: اصل الفاظ ہیں مَآ اَعْبُدُ۔ عربی زبان میں مَا کا لفظ عموماً بے جان یا بے عقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَنْ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اِس بنا پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں مَنْ اَعْبُدُ کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کے چار جواب عام طور پر مفسرین نے دیے ہیں۔ ایک یہ کہ مَا بمعنیٰ مَنْ ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں مَا بمعنی اَلَّذِیْ (یعنی جو یا جس) ہے۔ تیسرے یہ کہ دونوں فقروں میں مَا مصدر کے معنی میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ عبادت نہیں کرتا جو تم کرتے ہو، یعنی مشرکانہ عبادت، اور تم وہ عبادت نہیں کرتے ہو جو میں کرتا ہوں ، یعنی مُوحِّدانہ عبادت۔ چوتھے یہ کہ پہلے فقرے میں چونکہ مَا تَعْبُدُوْنَ فرمایا گیا ہے اس لیے دوسرے فقرے میں کلام کی مناسبت برقرار رکھتے ہوئے مَآ اَعْبُدُ فرمایا گیا ہے، لیکن دونوں جگہ صرف لفظ کی یکسانی ہے، معنی کی یکسانی نہیں ہے، اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی ملتی ہیں۔ مثلاً سُورۂ بقرہ(آیت ۱۹۴) میں فرمایا گیا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَا عْدَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ ’’ جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم ویسی ہی زیادتی کر و جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ زیادتی کا ویسا ہی جواب جیسی زیادتی کی گئی ہو، زیادتی کی تعریف میں نہیں آتا، مگر محض کلام کی یکسانی کے لیے جواباً زیادتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی طرح سُورۂ توبہ (آیت ۶۷) میں ارشاد ہوا ہے نَسُوْا اللہ َ فَنَسِیَھُمْ ’’وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ اُن کو بھول گیا۔‘‘ حالانکہ اللہ بھُولتا نہیں ہے اور مقصُودِ کلام یہ ہے کہ اللہ نے ان کو نظر انداز فرما دیا، لیکن اُن کے نِسیان کے جواب میں اللہ کے نسیان کا لفظ محض کلام کی یکسانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں یہ سب معنی لینے کی گنجائش ہے، لین ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدّعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے مَنْ اَعْبُدُ کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کہا گیا ہے۔ دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَنْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اُس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے، اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اُس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا اردو زبان میں جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے مگر جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کیا ہیں ؟ تو اس سے یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ مثلاً وہ فوج کا آدمی ہے تو فوج میں اس کا منصب کیا ہے ؟ اور کسی درس گاہ سے تعلق رکھتا ہے تو اِس میں ریڈر ہے ؟ لکچرر ہے ؟ پروفیسر ہے ؟ کس علم یا فن کا استاد ہے ؟ کیا ڈگریاں رکھتا ہے ؟ وغیرہ پس اگر اس آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَآ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَنْ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور اس کے جواب میں مشرکین اور کفار یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں اور اس کی عبادت بھی ہم کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں اُن صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دین منکرینِ خدا کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آپؐ کا خدا اُن سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے۔ اُن میں سے کسی کا خدا ایسا ہے جس کو چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے کی ضرورت پیش آئی، جو ربُّ العالمین نہیں بلکہ ربِّ اسرائیل ہے، جس ایک نسل کے لوگوں سے ایسا خاص رشتہ ہے جو دوسرے انسانوں سے نہیں ہے، جو حضرت یعقوبؑ سے کشتی لڑتا ہے اور ان کو گرا نہیں سکتا، جو عُزَیر نامی ایک بیٹا بھی رکھتا ہے۔ کسی کا خدا یسوع مسیح نامی ایک اِکلوتے بیٹے کا باپ ہے اور وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو صلیب پر چڑھوا دیتا ہے۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے، مگر بے چارے کے ہاں صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھارتا ہے اور زمین پر انسانی جسم میں رہ کر انسانوں کے سے کام کرتا ہے۔ کسی کا خدا محض واجب الوجود، یا علت الْعِلَل یا علّتِ اولیٰ(First Cause ) ہے، کائنات کے نظام کو ایک مرتبہ حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اس کے بعد کائنات لگے بندھے قوانین کے مطابق خود چل رہی ہے اور انسان کا اُس سے اور اُس کا انسان سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی درحقیقت اُس خدا کو نہیں مانتے جو ساری کائنات کا ایک ہی خالق، مالک، مدبِّر، منتظم اور حاکم ہے۔ جس نے نظام کائنات کو صرف بنایا ہی نہیں ہے بلکہ ہر آن وہی اس کو چلا رہا ہے اور اس کا حکم ہر وقت یہاں چل رہا ہے۔ جو ہر عیب، نقص، کمزوری اور غلطی سے منزَّہ ہے۔ جو ہر تشبیہ اور تجسیم سے پاک، ہر نظیر و مَثِیل سے مُبَرّا اور ہر ساتھی اور ساجھی سے بے نیاز ہے۔ جس کی ذات، صفات، اختیارات اور استحقاقِ معبودیّت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ ایک ایک فرد کے ساتھ رزّاقی اور ربوبیت اور رحمت اور نگہبانی کا براہِ راست تعلق ہے۔ جو دعائیں سننے والا اور اُن کا جواب دینے والا ہے۔ جو موت اور زندگی، نفع اور ضرر اور قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کے جملہ اختیارات کا تنہا مالک ہے۔ جو اپنی مخلوق کو صرف پالتا ہی نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت بھی دیتا ہے۔ جس کے ساتھ ہمارا تعلق صرف یہی نہیں ہے کہ وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اُس کی پرستش کرتے ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں امر و نہی کے احکام دیتا ہے اور ہمارا کام اس کے احکام کی اطاعت کرنا ہے۔ جس کے سامنے ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں ، جو مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ اٹھانے والا ہے اور ہمارے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا دینے والا ہے۔ اِن صفات کے معبود کی عبادت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اُن کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے اگر خدا کی عبادت کر بھی رہے ہیں تو اصلی اور حقیقی خدا کی نہیں بلکہ اس خدا کی عبادت کر رہے ہیں جو اُن کا اپنا اختراع کردہ ایک خیالی خدا ہے۔
4: مفسّرین میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دونوں فقرے پہلے دونوں فقروں کے مضمون کی تکرار ہیں، اور یہ تکرار اِس غرض کے لیے کی گئی ہے کہ اُس بات کو زیادہ پر زور بنا دیا جائے جو پہلے دو فقروں میں کہی گئی تھی۔ لیکن بہت سے مفسّرین اس کو تکرار نہیں مانتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اِن میں ایک اور مضمون بیان کیا گیا ہے جو پہلے فقروں کے مضمون سے مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک اِس حد تک تو اُن کی بات صحیح ہے کہ اِن فقروں میں تکرار نہیں ہے، کیونکہ اِن میں صرف ’’اور نہ تم اس کی عبادت کر نے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ‘‘ کا اعادہ کیا گیا ہے، اور یہ اعادہ بھی اُس معنی میں نہیں ہے جس میں یہ فقرہ پہلے کہا گیا تھا۔ مگر تکرار کی نفی کرنے کے بعد مفسّرین کے اِس گروہ نے اِن دونوں فقروں کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں اِ س کا موقع نہیں ہے کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے بیان کردہ معنی کو نقل کر کے اُس پر بحث کریں، ا س لیے طولِ کلام سے بچتے ہوئے ہم صرف وہ معنی بیان کریں گے جو ہمارے نزدیک صحیح ہیں۔ پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اور نہ میں اُن کی عبادت کر نے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے۔ ‘‘ اِ س کا مضمون آیت نمبر ۲ کے مضمون سے بالکل مختلف ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ ’’ میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔‘‘ اِن دونوں باتوں میں دو حیثیتوں سے بہت بڑا فرق ہے۔ ایک یہ کہ میں فلاں کام کرتا یا نہیں کروں گا کہنے میں اگرچہ انکار اور پر زور انکار ہے، لیکن اس سے بہت زیادہ زور یہ کہنے میں ہے کہ میں فلاں کام کرنے والا نہیں ہوں، کیونکہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسا بُرا کام ہے جس کا ارتکاب کرنا تو درکنار اُس کا ارادہ یا خیال کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ’’ جن کی عبادت تم کرتے ہو‘‘ کا اطلاق صرف اُن معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اَب کر رہے ہیں۔ بخلاف اس کے ’’جن کی عبادت تم نے کی ہے ‘‘ کا اطلاق ان معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اور اُن کے آباء و اجداد زمانۂ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اب یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مشرکین اور کفار کے معبودوں میں ہمیشہ ردّ و بدل اور حذف و اضافہ ہوتا رہا ہے، مختلف زمانوں میں کفار کے مختلف گروہ مختلف معبودوں کو پوجتے رہے ہیں، اور سارے کافروں کے معبود ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی نہیں رہے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے معبودوں ہی سے نہیں بلکہ تمہارے آباء و اجداد کے معبودوں سے بھی بری ہوں اور میرا یہ کام نہیں ہے کہ ایسے معبودوں کی عبادت کا خیال تک اپنے دل میں لاؤں۔ رہا دوسرا فقرہ، تو اگرچہ آیت نمبر ۵ میں اُس کے الفاظ وہی ہیں جو آیت نمبر ۳ میں ہیں، لیکن دونوں جگہ اُس کا مفہوم مختلف ہے۔ آیت نمبر ۳ میں وہ اِس فقرے کے بعد آیا ہے کہ ’’ میں اُن کی عبادت نہیں کر تا جن کی عبادت تم کرتے ہو‘‘، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اور نہ تم اُن صفات کے معبودِ واحد کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ ‘‘ اور آیت نمبر ۵ میں وہ اِس فقرے کے بعد آیا ہے کہ ’’ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے ‘‘، اس لیے اس کے معنی یہ ہیں کہ’’ اور نہ تم اُس معبودِ واحد کی عبادت کر نے والے بنتے نظر آتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ‘‘، یا بالفاظِ دیگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ جن جن کو تم نے اور تمہارے اسلاف نے پوجا ہے اُن کا پُجاری بن جاؤں، اور تم کو بہت سے معبودوں کی بندگی چھوڑ کر ایک معبودِ واحد کی عبادت اختیار کر نے سے جو چِڑ ہے اُس کی بنا پر تم سے یہ توقع نہیں ہے کہ اپنی اِس غلط عبادت سے باز آ جاؤ گے اور اُس کی عبادت کرنے والے بن جاؤ گے جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔
5: یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میرے معبود کے پرستار نہیں۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کر سکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہو سکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں اُن سے ہمیشہ کے لیے براءت، بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود اُن کو اِس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کر دینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی اُن سے کوئی مصالحت کرے گا۔ یہی اعلانِ براءت اور اظہارِ بیزاری اِس سورۃ کے بعد نازل ہونے والی مکّی سورتوں میں پے در پے کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ یونس میں فرمایا ’’اگر یہ تجھے جھُٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ‘‘(آیت ۱۰۴)۔ سورۂ شُعَراء میں فرمایا ’’اے نبی، اب اگر یہ لوگ تمہاری بات نہیں مانتے تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے میں بَری الذمّہ ہوں ‘‘(آیت۲۱۶)۔ سورۂ سبا میں فرمایا ’’ اِن سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اُس کی کوئی جواب طلبی ہم سے نہیں کی جائے گی۔ کہو، ہمارا ربّ(ایک وقت) ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا‘‘(آیات۲۶-۲۵)۔سورۂ زمر میں فرمایا ’’اِن سے کہو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رُسوا کُن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں ‘‘(آیات ۴۰-۳۹)۔ پھر یہی سبق مدینۂ طیّبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ ’’ تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے اُن معبودوں سے، جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بَیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘ (الممتحنہ۔ آیت۴)۔ قرآن مجید کی اِن پے در پے توضیحات سے اِس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو۔ بلکہ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی سُورۂ زُمر میں فرمائی گئی ہے کہ ’’اے نبی، اِن سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا، تم اُسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کر نا چاہو کرتے رہو‘‘ (آیت ۱۴)۔ اِس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں، لیکن کفر بحیثیتِ مجموعی ایک ہی ملّت ہے، اس لیے یہودی عیسائی کا، اور عیسائی یہودی کا، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہو سکتا ہے اگر اُن کے درمیان نسب، یا نکاح یا کسی سبب کی بنا پر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچے کا مقتضی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام اَوزاعی اور امام احمد اِس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پا سکتے۔ ان کا استدلال یہ اُس حدیث سے ہے جو حضرت عبد اللہ ؓ بن عَمرْو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لا یتوارث اھل ملّتین شتّٰی۔ ’’دو مختلف ملّتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ‘‘( مُسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قُطْنِی)۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابرؓ سے اور ابن حِبّان نے حضرت عبد اللہؓ بن عمر سے اور بَزّار نے حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور امام امام شمس الاَئئمہ، سَرَ خُسِی لکھتے ہیں : ’’کفار آپس میں اُن سب اسباب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے ہوتے ہیں ، اور اُن کے درمیان بعض ایسی صورتوں میں بھی توارُث ہو سکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں ، ایک دینِ حق، دوسرے دینِ باطل، چنانچہ فرمایا لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ۔ اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں ، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے، اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفّار ہیں۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ھِذَان خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ (یہ دو مدّ مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ الحج، آیت ۱۹) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملّتیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ہی ملّت ہیں، کیونکہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملّت ہیں ۔ ۔۔۔۔ حدیث لا یتوارث اھل ملّتین اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ مِلّتَین (دو ملّتوں ) کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اس ارشاد سے کر دی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر و لا الکافر المسلم۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے ‘‘ (المبسوط، ج۳، صفحات ۳۲-۳۰)۔ امام سَرخَسِی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری، مسلم، نَسائی، احمد ، ترمِذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اُسامہ ؓ بن زید سے روایت کیا ہے۔