تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ لهب / المَسَد

نام

پہلی آیت کے لفظ لَھَب کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اِس کے مکّی ہونے میں  تو مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں  ہے،  لیکن ٹھیک ٹھیک یہ متعیّن کرنا مشکل ہے کہ مکّی دور کے کس زمانے میں  یہ نازل ہوئی تھی۔ البتّہ ابو لہب کا جو کردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور آپ کی دعوتِ حق کے خلاف تھا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِس سورہ کا نزول اُس زمانے میں  ہوا ہو گا جب وہ حضورؐ کی عداوت میں  حد سے گزر گیا تھا اور اُس کا رویّہ اسلام کی راہ میں  ایک بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ بعید نہیں  کہ اِس کا نزول اُس زمانے میں  ہوا ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور آپؐ کے خاندان والوں  کا مقاطعہ کر کے قریش کے لوگوں  نے اُن کو شعبِ ابی طالب میں  محصور کر دیا تھا اور تنہا ابو لہب ہی ایسا شخص تھا جس نے اپنے خاندان والوں  کو چھوڑ کر دشمنوں  کا ساتھ دیا تھا۔ ہمارے اِس قیاس کی بنا یہ ہے کہ ابو لہب حضورؐ کا چچا تھا، اور بھتیجے کی زبان سے چچا کی کھلّم کھلا مَذَمَّت کرانا اُس وقت تک مناسب نہ ہو سکتا تھا جب تک چچا کی حد سے گزری ہوئی زیادتیاں  عَلانیہ سب کے سامنے نہ آ گئی ہوں۔  اِس سے پہلے اگر ابتداء ہی میں  یہ سورۃ نازل کر دی گئی  ہوتی تو لوگ اس کو اخلاقی حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجا  اپنے چچا کی اِس طرح مذمّت کرے۔

پَسْ منظر

قرآن مجید میں  یہ ایک ہی مقام ہے جہاں  دشمنانِ اسلام میں  سے کسی شخص کا نام لے کر اُس کی مَذَمَّت کی گئی ہے،  حالانکہ مکّے میں  بھی، اور ہجرت کے بعد مدینہ میں  بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  کی عداوت میں  ابو لہب سے کسی طرح کم نہ تھے۔  سوال یہ ہے کہ اِس شخص کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی بنا پر اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس وقت کے عربی معاشرے کو سمجھا جائے،  اور اُس میں  ابو لہب کے کردار کو دیکھا جائے۔

قدیم زمانے میں  چونکہ پورے ملکِ عرب میں  ہر طرف بد امنی،  غارت گری اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی،  اور صدیوں  سے حالت یہ تھی کہ کسی شخص کے لیے اُس کے خاندان اور خونی رشتہ داروں  کی حمایت کے سوا جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی، اس لیے عربی معاشرے  کی اخلاقی قدروں  میں  صلۂ رحمی (یعنی رشتہ داروں  کے ساتھ حسنِ سلوک ) کو بڑی اہمیت حاصل تھی، اور قطعِ رحمی کو بہت بڑا پاپ سمجھا جاتا تھا۔ عرب کی اِنہی روایات کا یہ اثر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اسلام کی دعوت لے کر اُٹھے تو قریش کے دوسرے خاندانوں  اور ان کے سرداروں  نے تو حضورؐ کی شدید مخالفت کی، مگر بنی ہاشم اور بنی المُطَّلِب (ہاشم کے بھائی مُطّلِب کی اولاد) نے نہ صرف یہ کہ آپؐ کی مخالفت نہیں  کی، بلہ وہ کھُلّم کھلا آپؐ کی حمایت کرتے رہے،  حالانکہ ان میں  سے اکثر لوگ آپؐ کی نبوّت پر ایمان نہیں   لائے تھے۔  قریش کے دوسرے خاندان خود بھی حضورؐ کے اِن خونی رشتہ داروں  کی حمایت کو عرب کی اخلاقی روایات کے عین مطابق سمجھتے تھے،  اسی وجہ سے انہوں  نے کبھی بنی ہاشم اور بنی المُطَّلِب کو یہ طعنہ نہیں  دیا کہ تم ایک دوسرا  دین پیش کرنے والے شخص کی حمایت کر  کے اپنے دینِ آبائی سے منحرف ہو گئے ہو۔ وہ اِس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ اپنے خاندان کے ایک فرد کو وہ کسی حالت میں  اُس کے دشمنوں  کے حوالے نہیں  کر سکتے،  اور اُن کا اپنے عزیز کی پشتیبانی کرنا قریش اور اہلِ عرب سب کے نزدیک بالکل ایک فطری امر تھا۔

اِس اخلاقی اصول کو،  جسے زمانۂ جاہلیت میں  بھی عرب کے لوگ واجب الاحترام سمجھتے تھے،  صرف ایک شخص نے اسلام کی دشمنی میں  توڑ ڈالا،  اور وہ تھا ابو لہب بن عبد المطّلِب۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا چچا تھا۔ حضورؐ کے والد ماجد اور یہ ایک ہی باپ کے بیٹے  تھے۔  عرب میں  چچا کو باپ کی جگہ سمجھا جاتا تھا، خصوصاً جبکہ بھتیجے،  کا باپ وفات پا چکا ہو تو عربی معاشرے میں  چچا سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بھتیجے کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھے گا۔ لیکن اِس شخص نے اسلام کی دشمنی  اور کفر کی محبت میں  اِن تمام عربی روایات کو پامال کر دیا۔

ابن عباسؓ سے متعدد  سندوں  کے ساتھ یہ روایت محدثین نے نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دعوتِ عام پیش کرنے کا حکم دیا گیا اور قرآن مجید میں  یہ ہدایت نازل ہوئی کہ آپ اپنے قریب ترین عزیزوں  کو سب سے پہلے خدا کے عذاب سے ڈرائیں  تو آپ نے صبح سویرے کوہ صفا پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا، یا صبا حاہ (ہائے صبح کی آفت)۔ عرب میں  یہ صدا  وہ شخص لگاتا تھا جو صبح کے جھُٹ پُٹے میں  کسی دشمن کو اپنے قبیلے پر حملہ کرنے کے لیے آتے دیکھ لیتا تھا۔ حضورؐ کی یہ آواز سُن کر لوگوں  نے دریافت کیا کہ یہ کون پکار رہا ہے۔  بتایا گیا یہ محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) کی آواز ہے۔  اس پر قریش کے تمام خاندانوں  کے لوگ آپؐ کی طرف دوڑ پڑے۔  جو خود آ سکتا تھا وہ خود آیا، اور جو نہ آ سکتا تھا اُس نے اپنی طرف سے کسی کو  بھیج دیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو آپؐ نے قریش کے ایک ایک خاندان کا نام لے لے کر پکارا، اے بنی ہاشم، اے بنی عبد المطلب، اے بنی فِہر، اے بنی فلاں،  اے بنی فلاں،  اگر میں  تمہیں  یہ بتاؤں  کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے  کے لیے تیار ہے تو تم میری بات سچ مانو گے ؟ لوگوں  نے کہا ہاں،  ہمیں  کبھی تم سے جھوٹ سننے کا تجربہ نہیں  ہوا ہے۔  آپؐ نے فرمایا تو میں  تمہیں  خبردار کرتا ہوں  کہ آگے سخت عذاب آ رہا ہے۔  اس پر قبل اِس کے کہ کوئی اور بولتا،  حضورؐ کے اپنے چچا ابو لہب نے کہا تَبّاً لَکَ اَلھِٰذَا جَمَعْتَنَا ؟’’ستیاناس جائے تیرا،  کیا اس لیے تُو نے ہمیں  جمع کیا تھا؟‘‘ ایک روایت  میں  یہ بھی ہے کہ اس نے پتھر اٹھایا تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر کھینچ  مارے (مُسند احمد، بخاری،  مسلم، ترمذی، ابن جریر وغیرہ)۔

اِبن زَید کی روایت ہے کہ ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے ایک  روز پوچھا اگر میں  تمہارے دین کو مان لوں  تو مجھے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا جو اور سب ایمان لانے والوں  کو ملے گا۔ اس نے کہا میرے لیے کوئی فضیلت نہیں  ہے ؟ حضورؐ نے فرمایا اور آپ کیا چاہتے ہی؟ اس پر وہ بولا تَبّاً لھِٰذَا الدِّیْنِ تَبّاً اَنْ اَکُوْنَ وَھٰٓئُو لَا ءِ سَوَآءً۔  ’’ناس جائے اِس دین کا جس میں  میں  اور یہ دوسرے لوگ برابر ہوں ‘‘ (ابن جریر)۔

مکّہ میں  ابو لہب حضورؐ کا قریب ترین ہمسایہ تھا۔ دونوں  کے گھر ایک دیوار  بیچ واقع تھے۔  اُس کے علاوہ حَکَم بن عاص (مروان کا باپ) عُقْبہ بن ابی مُعَیط، عَدِی بن حَمْر اء اور ابن الاَصْداءِ الہُذَلِی بھی آپ کے ہمسائے تھے۔  یہ لوگ گھر میں  بھی حضورؐ کو چین نہیں  لینے دیتے تھے۔  آپ  کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ اوپر سے بکری کا اوجھ آپؐ پر پھینک دیتے۔  کبھی صحن میں  کھانا پک رہا ہوتا تو یہ ہنڈیا پر غلاظت پھینک دیتے۔  حضورؐ باہر نکل کر ان لوگوں  سے فرماتے ’’اے بنی عبد مَناف،  یہ کیسی ہمسایگی ہے ؟‘‘۔ ابو لہب کی بیوی امِّ جملپ (ابو سفیان کی بہن) نے تو یہ مستقل وتیرہ ہی اختیار کر رکھا تھا کہ راتوں  کو آپؐ کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں  لا کر ڈال دیتی،  تاکہ صبح سویرے جب آپؐ یا آپؐ کے بچے باہر نکلیں  تو کوئی کانٹا پاؤں  میں  چُبھ جائے (بَیْہَقِی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عَساکِر، ابن ہِشام)۔

نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دو صاحبزادیاں  ابو لہب کے دو بیٹوں  عُتْبَہ اور  عُتَیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں۔  نبوت کے بعد جب حضورؐ نے اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی تو اِس شخص نے اپنے دونوں  بیٹوں  سے کہا کہ میرے لیے تم سے ملنا حرام ہے اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) کی بیٹیوں  کو طلاق نہ دے دو۔  چنانچہ دونوں  نے طلاق دے دی۔ اور عُتَیبہ تو جہالت میں  اس قدر آگے بڑھ گیا کہ ایک روز حضورؐ کے سامنے آ کر اس نے کہا کہ میں  النَّجْمِ اذَا ھَویٰ اور اَلَّذِیْ دَنَا فَتَدَلّیٰ کا انکار کرتا ہوں،  اور یہ کہہ کر اس نے حضورؐ کی طرف تھوکا جو آپؐ پر نہیں  پڑا۔ حضورؐ نے فرمایا خدایا، اِس پر اپنے کتّوں  میں  ست ایک کتّے کو مسلّط کر دے۔  اِس کے بعد عتیبہ اپنے باپ کے ساتھ  شام کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ دَورانِ سفر میں  ایک  ایسی جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا جہاں  مقامی لوگوں  نے بتایا کہ راتوں  کو درندے آتے ہیں۔  ابو لہب نے اپنے ساتھی اہلِ قریش سے کہا کہ میرے بیٹے کی حفاظت کا کچھ انتظام کر و، کیونکہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی بددعا  کا خو ف ہے۔  اس پر قافلے والوں  نے عُتَیبہ کے گرد ہر طرف اپنے اُونٹ بٹھا دیے اور پڑ کر سو رہے۔  رات کو ایک شیر آیا اور اونٹوں  کے حلقے میں  سے گزر کر اُس نے عتیبہ کو پھاڑ کھایا۔ (الاستِعیاب لابن عبد الَبّر، الاِ صا بہ بن حَجْر، دلائل النبوۃ لا بی نعیم الاصفہانی، روض الانف للسُّہَیلی۔ روایات میں  یہ اختلاف ہے کہ بعض راوی طلاق کے معاملے  کو اعلانِ نبوّت کے بعد کا واقعہ بیان کرتے ہیں  اور بعض کہتے ہیں  کہ یہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ کے نزول کے بعد پیش آیا تھا۔ اس امر میں  بھی اختلاف ہے کہ یہ ابو لہب کا لڑکا عُتْبہ تھا یا عُتَیبہ۔  لیکن یہ  بات ثابت ہے کہ فتح مکّہ کے بعد عُتبَہ نے اسلام قبول کر کے حضورؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ لڑکا عُتَیبہ تھا)۔

اُس کے خبثِ نفس کا یہ حال تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے صاحبزادے حضرت قاسم کے بعد دوسرے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کا بھی انتقال ہو گیا تو یہ اپنے بھتیجے کے غم میں  شریک ہونے کے بجائے خوشی خوشی دوڑا ہوا قریش کے سرداروں  کے پاس پہنچا اور اُن کو خبر دی کہ لو آج محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) بے نام و نشان ہو گئے۔  اُس کی اِس حرکت کا ذکر ہم سورۂ کوثر کی تفسیر میں  کر چکے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جہاں  جہاں  بھی اسلام کی دعوت دینے کے لیے تشریف لے  جاتے،  یہ آپؐ  کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں  کو آپؐ کی بات سننے سے روکتا۔ رَبِیعہؓ بن عَبّاد الدِّیْلیِ بیان کرتے ہیں  کہ میں  نو عمر تھا  جب اپنے باپ کے ساتھ ذوالمجاز کے بازار میں  گیا۔ وہاں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دیکھا آپؐ کہہ رہے تھے،   ’’ لوگو،کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  ہے،  فلاح پاؤ گے۔ ‘‘ اور آپؐ کے پیچھے پیچھے ایک شخص کہتا جا رہا تھا کہ ’’یہ جھوٹا ہے،  دین آبائی سے پھر گیا ہے۔ ‘‘ میں  نے پوچھا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں  نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے (مُسند احمد، بَیْہَقِی)۔ دوسری روایت انہی حضرت ربیعہؓ سے یہ ہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دیکھا کہ آپؐ ایک ایک قبیلے کے پڑاؤ پر جاتے ہیں  اور فرماتے ہیں  ’’ اے بنی فلاں،  میں  تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔  تمہیں  ہدایت کرتا ہوں  کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تم میری تصدیق کرو اور میرا ساتھ دو تا کہ میں  وہ کام پورا کروں  جس کے لیے اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔ ‘‘ آپؐ کے پیچھے پیچھے ایک اور شخص آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ’’اے بنی فلاں،  یہ تم کو لات اور عُزّیٰ سے پھیر کر اُس بدعت اور گمراہی  کی طرف لے جانا چاہتا ہے  جسے یہ لے کر آیا ہے۔  اس کی بات پرگز نہ مانو اور اس کی پیروی نہ کرو۔‘‘ میں  نے اپنے باپ سے  پوچھا یہ کون ہے۔  انہوں  نے کہا  یہ ان کا چچا ابو لہب ہے (مُسند احمد، طَبَرانی)۔ طارقؓ بن عبد اللہ المُحارِبی کی روایت بھی اسی سے ملتی جلتی ہے۔  وہ کہتے ہیں  میں  نے ذوالمجاز کے بازار میں  دیکھا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم لوگوں  سے کہتے جاتے  ہیں  کہ  ’’لوگو، لا الٰہ الا اللہ کہو، فلاح پاؤ گے۔ ‘‘ اور پیچھے ایک شخص ہے جو آپؐ کو پتھر مار رہا ہے،  یہاں  تک کہ آپؐ کی ایڑیاں  خون سے تر ہو گئی ہیں،  اور وہ کہتا جاتا ہے کہ ’’ یہ جھوٹا ہے،  اس کی بات نہ مانو۔‘‘ میں  نے لوگوں  سے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں  نے کہا یہ ان کا چچا ابولہب ہے (ترمذی)۔

نبوت کے ساتویں  سال جب قریش کے تمام خاندانوں  نے بنی ہاشم اور بنی مطّلب کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا اور یہ دونوں  خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و سلم کی حمایت پر ثابت قدم رہتے ہوئے شِعْبِ ابی طالب میں  محصور ہو گئے تو تنہا  یہی ابولہب تھا جس نے اپنے خاندان کا ساتھ دینے کے بجائے کفّارِ قریش کا ساتھ دیا۔ یہ مقاطعہ تین سال تک جاری رہا اور اس دوران میں  بنی ہاشم اور بنی المُطَّلِب پر فاقوں  کی نوبت آ گئی۔ مگر ابو لہب کا حال یہ تھا کہ جب مکّہ میں  کوئی تجارتی قافلہ آتا اور شِعبِ ابی طالب کے محصورین میں  سے کوئی خوراک کا سامان خریدنے کے لیے اس کے پاس جاتا تو یہ تاجروں  سے پکار کر کہتا کہ اِن  سے اتنی قیمت مانگو کہ یہ خرید نہ سکیں ،  تمہیں  جو خسارہ بھی ہو گا اسے میں  پورا کروں  گا۔ چنانچہ وہ بے تحاشا قیمت طلب کرتے اور خریدار بیچارہ اپنے بھوک سے تڑپتے ہوئے بال بچوں  کے پاس خالی ہاتھ پلٹ جاتا۔ پھر ابولہب اُنہی تاجروں  سے وہی چیزیں  بازار کے بھاؤ خرید لیتا(ابن سعد و ابن ہِشام)۔

یہ اس شخص کی حرکات تھیں  جن کی بنا پر اس سورۃ میں  نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ خاص طور پر اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ مکّہ سے باہر کے اہلِ عرب جو حج کے لیے آتے،  یا مختلف مقامات پر لگنے والے بازاروں  میں  جمع ہوتے،  اُن کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا اپنا چچا آپؐ کے پیچھے لگ کر آپؐ کی مخالفت کرتا، تو وہ عرب کی معروف روایات کے لحاظ سے یہ بات خلافِ توقع سمجھتے تھے کہ کوئی چچا بلا وجہ دوسروں  کے سامنے خود اپنے بھتیجے کو برا بھلا کہے اور اُسے پتھر مارے اور اس پر الزام تراشیاں  کرے۔  اِس وجہ سے وہ ابو لہب کی بات سے متاثر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے بارے میں  شک میں  پڑ جاتے۔  مگر جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور ابو لہب نے غصّے میں  بپھر کر اَول فَول بکنا شروع کر دیا تو لوگوں  کو معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی مخالفت میں  اِس شخص کا قول قابلِ اعتبار نہیں  ہے،  کیونکہ  یہ اپنے بھتیجے کی دشمنی میں  دیوانہ ہو رہا ہے۔

اِس کے علاوہ نام لے کر جب آپؐ کے چچا کی مذمت کی گئی تو لوگوں  کی یہ توقع ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم دین کے معاملہ میں  کسی کا لحاظ کر کے کوئی مداہنت برت سکتے ہیں۔  جب علی الاعلان رسول  کے  اپنے چچا کی خبر لے ڈالی گئی تو لوگ سمجھ گئے کہ یہاں  کسی لاگ لپیٹ کی گنجائش نہیں  ہے۔  غیر اپنا ہو سکتا ہے اگر ایمان لے آئے،  اور اپنا غیر ہو جاتا ہے اگر کفر کرے۔  اِس معاملہ میں  فلاں  ابنِ فلاں  کوئی چیز نہیں  ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ۔ 1 اُس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اُس کے کسی کام نہ آیا۔ 2 ضرور وہ شُعلہ زن آگ میں  ڈالا جائے گا اور (اُس کے ساتھ) اُس کی جورُو بھی، 3 لگائی بُجھائی کرنے والی، 4 اُس کی گردن میں  مونجھ کی رسّی ہو گی۔ 5  ؏۱

 

1: اس شخص کا اصل نام عبد العُزّیٰ تھا،  اور اسے ابو لہب  اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا۔ لہب آگ کے شُعلے کو کہتے ہیں   اور ابو لہب کے معنی ہیں  شُعلہ رو۔ یہاں  اُس کا ذِکر اُس کے نام کے بجائے اُس کی کُنّیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے نام سے نہیں  بلکہ اپنی کنیت  ہی سے معروف تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبد العُزّیٰ (بندۂ عُزّیٰ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں  یہ پسند نہیں  کیا گیا  کہ اُسے اِس نام سے یاد کیا جائے۔  تیسرے یہ کہ اُس کا جو انجام اِس سورہ میں  بان کیا گیا ہے اُس کے ساتھ اُس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔  تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبْ کے معنی بعض مفسرین نے  ’’ٹوٹ جائیں  ابولہب کے ہاتھ‘‘ بیان کیے ہیں  اور وَتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ  ’’وہ ہلاک ہو جائے ‘‘ یا  ’’وہ ہلاک ہو گیا‘‘۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں  ہے جو اُس کو دیا گیا ہو، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں  آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں  میں  بیان کیا گیا ہے،  گویا اُس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے  وہ ہو چکی۔  اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اِس سورہ میں  چند سال پہلے بیان کیا جا چکا تھا۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں  ہے،  بلکہ کسی شخص  کا اپنے اُس مقصد میں  قطعی ناکام ہو جانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا  دیا تھا۔ لیکن اِس سورہ کے نزول  پر سات آٹھ سال  ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں  قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے  جو اسلام کی دشمنی میں  ابو لہب کے ساتھی تھے۔  مکّہ میں  جب اِس شکست کی خبر پہنچی تو اُس کو اتنا  رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی۔ اُسے عَدَسَہ (Malignant Pustule)   کی بیماری  ہو گئی جس کی وجہ سے  اُس کے گھر والوں  نے اُسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں  چھُوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں  تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی۔ آخر کار  جب لوگوں  نے اس کے بیٹوں ً کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں  نے کچھ حبشیوں  کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور اُنہی مزدوروں  نے اس کو دفن کیا۔ اور دوسری روایت  یہ ہے کہ انہوں  نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں  سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں  پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔ اُس کی مزید اور مکمّل شکست اِس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ  روکنے کے لیے اُس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درّہ ہجرت کر کے مکّہ سے مدینے پہنچیں  اور اسلام لائیں۔  پھر فتح مکّہ کے موقع پر اُس کے دونوں  بیٹے عُتْبہ اور مُعَتَّب حضر ت عباس ؓ کی وساطت سے حضور ؐ کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لا کر انہوں  نے آپ ؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔

2: ابو لہب سخت بخیل اور زرپرست آدمی تھا۔ ابن اَیثر کا بیان ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں  ایک مرتبہ اُس پر یہ الزام بھی لگا یا گیا تھا کہ اس نے کعبہ کے خزانے میں  سے سونے کے دو ہرن چرا لیے ہیں۔  اگرچہ بعد میں  وہ ہرن ایک اور شخص کے پاس سے برآمد ہوئے،  لیکن بجائے خود یہ بات  کہ اُس پر یہ الزام لگایا گیا، یہ ظاہر کرتی ہے کہ مکّہ کے لوگ اُس کے بارے میں  کیا رائے رکھتے تھے۔  اُس کی مالداری کے متعقل قاضی رشید بن زبیر اپنی کتاب الذَّخائِر و التُّحَف میں  لکھتے ہیں  کہ وہ قریش کے اُس چار آدمیوں  میں  سے ایک تھا جو ایک قِنطار سونے کے مالک تھَ(قِنطار دو سو اَوقیہ کا اور ایک اَوقیہ سوا تین تولہ کا ہوتا ہے )۔ اُس کی زرپرستی کا اندازہ اِس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر،  جبکہ اُس کے مذہب کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا،  قریش کے تمام سردار لڑنے کے لیے گئے،  مگر اُس نے عاص بن ہِشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ یہ اُس چار ہزار درہم قرض کا بدل ہے جو میرا تم پر آتا ہے۔  اِس طرح اُس نے اپنا قرض وصول کرنے کی بھی ایک ترکیب نکال لی، کیونکہ عاص دیوالیہ ہو چکا تھا اور اُس سے رقم ملنے کی کوئی امید نہ تھی۔ مَا کَسَبَ کو بعض مفسّرین نے کمائی کے معنی  میں  لیا ہے،  یعنی اپنے مال سے جو مَنافِع اُس نے حاصل کیے ہو اُس کا کسب تھے۔  اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد  اولاد لی ہے،  کیونکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا ہے کہ آدمی کا بیٹا بھی اُس کا کسب ہے (ابو داؤد۔ ابن ابی حاتم)۔ یہ دونوں  معنی ابو لہب کے انجام سے  مناسبت رکھتے ہیں۔  کیونکہ جب وہ عَدَسَہ کے مرض میں  مبتلا ہوا تو اس کا مال بھی اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کی اولاد  نے بھی اسے بے کسی کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اُس کا جنازہ تک عزت  کے ساتھ اٹھانے کی اس اولاد کو توفیق نہ ہوئی۔ اِس طرح چند ہی سال کے اندر لوگوں  نے اس پیشینگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا  جو ابو لہب کے متعلق اِس سورہ میں  کی گئی تھی۔

 3: اس عورت کا نام اَرْویٰ تھا اور اُمِّ جَمِیل اِس کی کنیت تھی۔ یہ ابو سُفیان کی بہت تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ساتھ عداوت میں  اپنے شوہر ابو لہب سے کسی طرح کم نہ تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ کی صاحبزادی حضرت اَسماءؓ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت ناز  ل ہوئی اور امِّ جمیل نے اِس کو سنا تو وہ بِپھری ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلا ش میں  نکلی۔ اُس کے ہاتھ میں  مُٹھی بھر پتھر تھے اور وہ حضورؐ کی ہجو میں  اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی۔ حرم میں  پہنچی تو وہاں  حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ حضورؐ تشریف فرما تھے۔  حضر ت ابو بکر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ،  یہ آ رہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یہ کوئی بیہودگی کر گے گی۔ حضورؐ نے فرمایا یہ مجھ کو نہیں  دیکھ سکے گی۔  چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے موجود ہونے کے باوجود وہ آپ کو نہیں  دیکھ سکی اور اس نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا کہ میں  نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے۔  حضرت ابو بکر ؓ نے کہا، اِس گھر کے ربّ کی قسم اُنہوں  نے تو تمہاری کوئی ہجو نہیں  کی۔ اس پر وہ واپس چلی گئی (ابن ابی حاتم۔ سیرۃ ابن ہشام۔ بَزّار نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے بھی اِسی سے ملتا جُلتا واقعہ نقل کیا ہے )۔ حضرت ابو بکر ؓ کے اِس جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہجو ت اللہ تعالیٰ نے کی ہے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے نہیں  کی۔

4: اصل الفاظ ہیں  حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ۔  جن کا لفظی ترجمہ  ہے ’’ لکڑیاں  ڈھونے والی‘‘۔ مفسّرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن عباسؓ،  ابن زیدؓ، ضَحّاک اور ربیع بن انس کہتے ہیں  کہ وہ راتوں  کو خاردار درختوں  کی ٹہنیاں  لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  کے دروازے پر ڈال دیتی تھی،  اس لیے اس کو لکڑیاں  ڈھونے  والی کہا گیا ہے۔  قَتادہ،  عِکْرِ مَہ، حسن بصری، مجاہد اور سُفیان ثَوری کہتے ہیں  کہ وہ لوگوں  میں  فساد ڈلوانے کے لیے چُغلیاں  کھاتی پھرتی تھی، اس لیے اسے عربی محاورے  کے مطابق لکڑیاں  ڈھونے والی کہا گیا، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو اِدھر کی بات اُدھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو، لکڑیاں  ڈھونے والا کہتے ہیں۔  اِس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ کے معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں  جو اردو میں  ’’بی جمالو‘‘ کے معنی ہیں۔  سعید بن جُبَیر کہتے ہیں  کہ جو شخص گناہوں  کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اُس کے متعلق  عربی زبان میں  بطور محاورہ کہا جاتا ہے فُلَانٌ یَّحْطَتِبُ عَلیٰ ظَھْرِ ہ۔ (فلاں  شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں  لاد رہا ہے )۔ پس حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں  گناہوں  کا بوجھ ڈھونے والی۔ ایک اور مطلب مفسّرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں  اُس کا حال ہو گا، یعنی وہ لکڑیاں  لا لا کر اُس آگ میں  ڈالے گی جس میں  ابو لہب جل رہا ہو گا۔5: اُس کی گردن  کے  لیے جِید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں  ایسی گردن کے لیے بو لا جاتا ہے جس میں  زیور پہنا گیا ہو۔ سعید بن المُسَیَّب، حسن بصری اور قَتادہ کہتے ہیں  کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں  پہنتی تھی،  اور کہا کرتی تھی کہ لات اور عُزّیٰ کی قسم میں  اپنا یہ ہار بیچ کر اس کی قیمت محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ) کی عداوت میں  خرچ کر دوں  گی۔ اسی بنا پر جید کا لفظ یہاں  بطورِ طنز استعمال کیا گیا ہے کہ اِس مزیّن گلے میں ،  جس کے ہار پر وہ فخر کرتی ہے،  دوزخ میں  رسّی پڑی ہو گی۔ یہ اسی طرح کا طنز یّہ اندازِ کلام ہے جیسے قرآن مجید میں  متعدّد مقامات پر فرما یا گیا ہے بَشِّرْ ھُمْ بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ، اُن کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔ جو رسّی اس کی گردن میں  ڈالی جائے گی اس کے لیے حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ کے الفاظ استعمال کیے ہیں،  یعنی وہ رَسّی مَسَد کی قِسم سے ہو گی۔ اِس کے مختلف معنی اہلِ لغت اور مفسّرین نے بیان کیے ہیں۔  ایک قول یہ ہے کہ خوب مضبوط  بٹی ہوئی رَسّی کو مسد کہتے ہیں۔  دوسرا قول یہ ہے کہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی رَسّی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔  تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں  مونجھ کی رسّی یا اونٹ کی کھال یا اس کے صوف سے بنی ہوئی رسّی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے  مراد لوہے کے تاروں  سے بٹی ہوئی رسّی ہے۔