آیت نمبر ۱۳ میں استعمال ہونے والے لفظ الرعد کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورت میں بادل کی گرج کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے یا جس میں رعد کا ذکر آیا ہے۔
رکوع چار اور رکوع چھ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورت بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۂ یونس، ہود اور اعراف نازل ہوئی ہیں، یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ انداز بیاں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدتِ دراز گزر چکی ہے۔ مخالفین آپ کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمنانِ حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرا اٹھو۔ پھر آیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آ جائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
سورت کا مدعا پہلی ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید و رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی فوائد سمجھائے گئے ہیں، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کام قصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ہے، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف، ترہیب، ترغیب اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگ اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آ جائیں۔ دوران تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کیے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو بھی، جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے، تسلی دی گئی ہے۔
۱-یہ اس سورے کی تمہید ہے جس میں مقصودِ کلام کو چند لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ اِسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہو جاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں اُ ن کا رویہ کس قدر غلط ہے۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے، اِنہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے۔
۲-بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرامِ فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی۔
۳-اِس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۴۱۔ مختصراً یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنتِ کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں، اور نہ مختلف خداؤں کی آماجگاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے۔
۴-یہاں یہ امر ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ بلکہ ان واقعات کو، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہو سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجودِ باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو۔
۵-یعنی یہ نظام صرف اِسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے، بلکہ اس کے تمام اجزا ء اور اُن میں کام کرنے والی ساری قوتیں اِس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اُس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مِٹ جاتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح اِس نظام کے ایک ایک جُزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اِس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالمِ طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہو گا۔ لہٰذا قیامت، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے۔
۶-یعنی اِس امر کی نشانیاں کہ رسولِ خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف اُن پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آ جائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات اُن کی تصدیق کر رہے ہیں۔
۷-اوپر جن آثارِ کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الٰہی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سُن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو اِنہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
مذکورۂ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے :
ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرامِ فلکی پیدا کیے ہیں، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کُروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے، اُس کے لیے نوعِ انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پید ا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اِسی نظامِ فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اِس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے، اور اُس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحبِ اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد، اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد، اس کے کارنامۂ زندگی کا حساب نہ لے، اُس کے ظالموں سے باز پرس اور اُس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے، اُ س کے نیکوکاروں کو جزا اور اُس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اُس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تو نے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خوابِ غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے۔
۸-اَجرامِ فلکی کے بعد عالمِ ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے اُنہی دونوں حقیقتوں (توحید اور آخرت) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالمِ سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے :
(۱) اجرامِ فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے۔
(۲) زمین کے اِس عظیم الشان کُرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا اُبھر آنا، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا، اِس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا، یہ سب چیزیں اُ س خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ ایسے قادرِ مطلق کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا، عقل و دانش کی نہیں، حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔
(۳) زمین کی ساخت میں، اُس پر پہاڑوں کی پیدائش میں، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں، پھلوں کی ہر قسم دو دو طرح کے پھل پیدا کرنے میں، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدا نے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کام کرتی نظر آتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کر کے اور اُسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا۔
۹-یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار خطّے پید ا کر دیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں، رنگ میں، مادّۂ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف خطّوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ دوسری مخلوقات سے قطعِ نظر، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے اِن خطّوں کی گوناگونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں، وہ یقیناً کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمندانہ ارادے کا نتیجہ ہیں۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کے لیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے۔
۱۰-کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں۔
۱۱-اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اِس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے۔ ایک ہی زمین ہے، مگر اس کے قطعے اپنے اپنے رنگوں، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہو گا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ میں فرمایا گیا ہے، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانو ں کو یکساں بنا سکتا تھا، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے۔ سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا۔
۱۲-یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
۱۳-گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے، اپنی ہٹ دھرمی کے، اپنی خواہشاتِ نفس کے، اور اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔ اِنہیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے، اور انکارِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نا معقول ہے۔
۱۴- کفارِ مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو؟ اس کی آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے ؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ (خدایا ہمارا حساب تو ابھی کر دے، قیامت پر نہ اٹھا رکھ)۔ اور کبھی کہتے کہ اَلَّھُمّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلیمٍ۔ (خدایا اگر یہ باتیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے )۔ اس آیت میں کفار کی انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں، اللہ کی طرف سے ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کر دیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فوراً گرفت کر ڈالی جائے۔
۱۵-نشانی سے اُن کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر اُن کو یقین آ جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ وہ آپؐ کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ آپؐ کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اُس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپؐ کی تعلیم کے اثر سے آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا۔ وہ اُن معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہامِ جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیا جا رہے تھے۔ اِن سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو جانچ سکیں۔
۱۶-یہ اُن کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہِ راست اُن کو دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کر دینا نہیں ہے۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور اُن کو غلط روی کے بُرے انجام سے خبردار کرو۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں، ہر قوم میں، ایک نہ ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالیٰ اُن کے مطالبے کی طرف رُخ پھیر لیتا ہے اور اُن کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اُس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اُس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔
۱۷-اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اُس کی قوتوں اور قابلیتوں، اور اُس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے، اللہ کی براہِ راست نگرانی میں ہوتی ہے۔
۱۸-یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہر حال میں براہِ راست خود دیکھ رہا ہے اور اُ س کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، بلکہ مزید برآں اللہ کے مقرر کیے ہوئے نگرانِ کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پُورے کارنامۂ زندگی کا ریکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایسے خدا کی خدائی میں جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار کی طرح زمین پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی نہیں جس کے سامنے وہ اپنے نامۂ اعمال کے لیے جواب دہ ہوں، وہ دراصل اپنی شامت آپ بلاتے ہیں۔
۱۹-یعنی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ کے ہاں کوئی پیر یا فقیر، یا کوئی اگلا پچھلا بزرگ، یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ ہی کرتے رہو، وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تمہیں تمہارے بُرے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا۔
۲۰-یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں۔
۲۱-فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔
۲۲-یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے ؟
۲۳-پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مد د کے لیے پکارنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے صرف اُسی سے دعائیں مانگنا بر حق ہے۔
۲۴-سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر مخلوق اِس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کر سکتی۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتا ہے، کیونکہ خدا کے قانون فطرت سے ہٹنا اُس کی مقدرت سے باہر ہے۔
۲۵-سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی کے امر کی مطیع اور کسی کے قانون سے مسخر ہیں۔
۲۶-واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آ جاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ کائنات کا ربّ کون ہے ؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے ؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟
۲۷-اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے ؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے ؟
۲۸- روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے ؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پا لیا ہے، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے ؟
۲۹- اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے ؟
۳۰-اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے ‘‘۔ یہ بات کہ ’’اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے ‘‘، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ ’’وہ یکتا اور قہار ہے ‘‘ اس تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات، یا صفات، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے۔
۳۱- اس تمثیل میں اُ س علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیا گیا تھا، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق بارانِ رحمت سے بھر پور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ اور اُس ہنگامہ و شورش کو جو تحریکِ اسلامی کے خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اُس جھاگ اور اُس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اُٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے۔
۳۲-یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے۔
ٍ۳۳-یعنی اُس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے۔
۳۴-بُری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کا محاسبہ اپنے اُن بندوں سے کرے گا جو اُس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کی مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے ’’حسابِ یسیر‘‘ یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا، اُ ن کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور اُن کے مجموعی طرزِ عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر اُن کی بہت سی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے گا۔ اس کی مزید توضیح اُس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے ابوداؤد میں مروی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے نزدیک کتاب اللہ سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓ ءً یُّجْزَ بِہٖ۔ ’’جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا‘‘۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا، عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اُس کو چبھتا ہے، تو اللہ اُسے اُس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے ؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہو گا وہ سزا پا کر رہے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فَاَمَّا مَنْ اُوْ تی کِتَابَہٗ بیمینِہٖ فَسَوْ فَ یُحَا سَبُ حِسَابًا یَّسیرًا؟ ’’جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا‘‘۔ حضورؐ نے جواب دیا، اس سے مراد ہے پیشی (یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے ضرر پیش ہوں گی) مگر جس سے باز پرس ہوئی تو وہ بس سمجھ لو کہ مارا گیا۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار اور فرمانبردار ملازم کو چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیشِ نظر معاف کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری و خیانت ثابت ہو جائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آ جاتے ہیں۔
۳۵-یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویّہ یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں۔
۳۶-یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اِس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں اُن کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔
۳۷-اس سے مراد وہ اَزَلی عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۴ و ۱۳۵)۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے، اور اُسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے۔ خدا کے رزق سے پلنا، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاقِ بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا، اِلّا یہ کہ نا دانستہ کبھی اَحیانًا اس سے کوئی لغزش ہو جائے۔
۳۸-یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صَلاح و فلاح منحصر ہے۔
۳۹-یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الٰہی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔
۴۰-یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خواہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے :
اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دو۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ’’ جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر‘‘۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ’’جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر‘‘۔
۴۱-اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ملائکہ ہر طرف سے آ آ کر ان کو سلام کریں گے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ملائکہ ان کو اس بات کی خوشخبری دیں گے کہ اب تم ایسی جگہ آ گئے ہو جہاں تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اب یہاں تم ہر آفت سے، ہر تکلیف سے ہر مشقت سے، اور ہر خطرے سے اور اندیشے سے محفوظ ہو۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حِجر، حاشیہ نمبر ۲۹)۔
۴۲-اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفار مکہ بھی عقیدہ و عمل کے حسن و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر قیمت کا حساب لگاتے تھے۔ اُن کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خو ب سامانِ عیش مِل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خواہ وہ کیسا ہی نیک ہو۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، اللہ کس کے ساتھ ہے۔ ا س پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرقِ مراتب کی اصل بنیاد اور اُن کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے بُرے اوصاف کا۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم۔
۴۳-اس سے پہلے آیت ۷ میں اِس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیشِ نظر رکھا جائے۔ اب دوبارہ اُن کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اُس کا جواب دیا جا رہا ہے۔
۴۴-یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اُسے زبردستی راہِ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے۔ وہ ایسے شخص کو اُنہی راستوں میں بھٹکنے کی توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سببِ ہدایت بنتے ہیں، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتے ہیں۔ شمعِ روشن بھی اُس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیرہ ہی کرنے کا کام دیتی ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا۔
۴۵-یعنی کسی ایسی نشانی کے بغیر جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔
۴۶-یعنی اُس کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں، اس کی صفات اور اختیارات اور حقوق میں دوسروں کو اُس کا شریک بنا رہے ہیں، اور اُس کی نعمتوں کے شکریے دوسروں کو ادا کر رہے ہیں۔
۴۷-اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ اِس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش اِن لوگوں کو کوئی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتے تھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اِس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں اِن سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے ؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں، کائنات کے آثار میں، نبی کی پاکیزہ زندگی میں، صحابۂ کرام کے انقلاب حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے ؟
۴۸-یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قاد ر نہیں ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوا لینا، اور ہدایت اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر و بصیرت کی اصلاح ہو۔
۴۹-یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا
۵۰-یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فرداً فرداً واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی۔
۵۱-جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مدِّ مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کر نے والا نہیں۔
۵۲-یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں اُن کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں:
ایک یہ کہ تمہارے پا س کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات، یا اختیارات، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہِ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کو ن اصحاب ہیں اور اُن کے شریکِ خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔
دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اُس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کر و۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔
لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھر تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھیرا لیتے ہو، جس کو چاہتے ہو داتا اور فریاد رس کہہ دیتے ہو، اور جس کے متعلق چاہتے ہو دعویٰ کر دیتے ہو کہ فلاں علاقے کے سلطان فلاں صاحب ہیں اور فلاں کام حضرت کی تائید و امداد سے بر آتے ہیں۔
۵۳-اس شرک کو مکّاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرامِ فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ اِن صفا ت و اختیارات کا دعویٰ کیا، نہ اِن حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارے آگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکّہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو اُن کا معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر اُن کا نمائندہ ٹھیرا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا شروع کر دیا۔
دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریبِ نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہِ فرار نکالتا ہے۔
تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے۔
۵۴-یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلے میں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی رد کردہ چیز کے خلاف ہر طرح کی باتیں چھانٹنی شروع کر دیتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے لیے اُن کی گمراہی، اور اُس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے اُن کی مکّاری خوشنما بنا دی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہِ راست پر آنے سے روک دیے گئے۔
۵۵-یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اُس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء لائے تھے جیسا کہ اِن کا دعویٰ ہے، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاریٰ، جو پچھلے انبیاء کے پیرو ہیں، آگے بڑھ کر اِن کا استقبال نہیں کرتے۔ اِس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اُن میں سے بعض لوگ اِ س پر خوش ہیں اور بعض ناراض، مگر اے نبی، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہر حال اِسی کی پیروی کروں گا۔
۵۶-یہ ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے۔ بھلا پیغمبروں کو بھی خواہشاتِ نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔
۵۷-یہ بھی ایک اعتراض کا جواب ہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ موسیٰ یدِ بیضا اور عصا لائے تھے۔ مسیح اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ صالحؑ نے اونٹنی کا نشان دکھایا تھا۔ تم کیا نشانی لے کر آئے ہو؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جس نبی نے جو چیز بھی دکھائی ہے اپنے اختیار او راپنی طاقت سے نہیں دکھائی ہے۔ اللہ نے جس وقت جس کے ذریعے سے جو کچھ ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ ظہور میں آیا۔ اب اگر اللہ کی مصلحت ہو گی تو جو کچھ وہ چاہے گا دکھائے گا۔ پیغمبر خود کسی خدائی اختیار کا مدعی نہیں ہے کہ تم اس سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو۔
۵۸-یہ بھی مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے آئی ہوئی کتابیں جب موجود تھیں تو اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ تم کہتے ہو کہ ان میں تحریف ہو گئی ہے، اب وہ منسُوخ ہیں اور اس نئی کتاب کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر خدا کی کتاب میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی؟ اور کوئی خدائی کتاب منسوخ کیسے ہو سکتی ہے ؟ تم کہتے ہو کہ یہ اُسی خدا کی کتاب ہے جس نے توراۃ و انجیل نازل کی تھیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ تمہارا طریقہ توراۃ کے بعض احکام کے خلاف ہے ؟ مثلاً بعض چیزیں جنہیں توراۃ والے حرام کہتے ہیں تم انہیں حلال سمجھ کر کھاتے ہو۔ ان اعتراضات کے جوابات بعد کی سورتوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ یہاں ان کا صرف ایک مختصر جامع جواب دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
’’اُمّ الکتاب‘‘ کے معنی ہیں ’’اصل کتاب‘‘ یعنی وہ منبع و سر چشمہ جس سے تمام کتب آسمانی نکلی ہیں۔
۵۹-مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی۔
۶۰-یعنی کیا تمہارے مخلافین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے اِن پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ یہ اِن کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں‘‘ ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔ کیونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں۔
۶۱-یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔
۶۲-یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے۔