اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں۔
ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت ۲۴ (وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے۔
اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت ۲۵ سے ۴۱ تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے، اور آیت ۳۹۔ ۴۰ کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا، مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا، اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار کر دی، ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس، مجاہد، عَرْوَہ بن زُبَیر، زید بن اسلم، مقاتل بن حیان، قَآتَدہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر ۲ ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔
اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں۔ مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان، اور مومنین صادقین۔
مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خیالات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے، اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔
مذبذب مسلمان، جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت، عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں، پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔
اہل ایمان سے خطاب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔
پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے، حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔
دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘’‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو، تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔
اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔
۱: یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک اُلٹی پھرنی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمَہ اور شَعْبِی نے بیا ن کی ہے کہ یکون ذلک عند طلوعِ الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اُس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ نفخِ صور کے تین واقع ہیں۔ ایک نفخِ فَزَع، دوسرا نفخِ صَعْق اور تیسرا نفخِ قیام الربّ العالمین۔ یعنی پہلا نفخِ عام سراسیمگی پیدا کرے گا، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اُس وقت زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اُس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بُری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اُس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً: فَاِذَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَ ۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَ ۃً فَیَوْ مَئیذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ) پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ ۂ عظیم پیش آ جائے گا۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا، وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ (الزلزال) جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ، قُلُوْبٌ یُّوْمَئیذٍ وَّاجِفَہ، اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النازعات ) جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔ اَذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ) جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اُڑنے لگیں گے۔ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِن ْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِ السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ۔ (الزلزال) اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا۔ اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مُردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں گے، اور اس کی تائید میں متعدّد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ قرآن اِس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دُور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سند اً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدمِ مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔
۲: آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْ ضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مُرضِعْ اُس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو، اور مُرْضِعَہ اُس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔
۳: واضح رہے کہ یہاں اصل مقصودِ کلام قیامت کا حال بیان کر نا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر اُن باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا قیامت کی اِس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔
۴: آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے، اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑ تے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخر کار جس چیز پر جا کر ٹھیرتا تھا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا، اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی۔
۵: اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان اُن مادّوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اِس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوعِ انسانی کا آغاز آدم علیہ السّلام سے کیا گیا جو براہِ راست مٹی سے بنائے گئے تھے، اور پھر آگے نسلِ انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سُورۂ سجدہ میں فرمایا وَبَدَ ءَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ۔ (آیات ۷ – ۸)’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے‘‘۔
۶: یہ اشارہ ہے اُن مختلف ادوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آ سکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اُس زمانے کے عام بدّو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہو تا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاطِ حمل کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے، اس لیے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اُس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔
۷: یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا، بوڑھا ہو کر اُس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔
۸: اس سلسلۂ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمہارا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ، واجب الوجود اور علّت العلل (First Cause ) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعلِ مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت، اپنے ارادے، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پُر حکمت ہیں۔
۹: اِن آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے: (۱)یہ کہ اللہ ہی حق ہے، (۲) یہ کہ وہ مُردوں کو زندہ کر تا ہے، (۳) یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، (۴) یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور (۵) یہ کہ اللہ ضرور اُن سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔ پورے نظامِ کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کا ر فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو ور سلسلہنما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اُس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفسِ انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اُس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکمِ مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے () کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز ۹ مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے اُن میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیمِ فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے، یا گوشت کی بوٹی، یا نا تمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے اَن گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گُونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بدصورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کوَدن اور کُند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے، اِس کے دَوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم ۹۰ فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں، قوموں کے، بلکہ پوری نوع ِ انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کو نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ’’حق ‘‘ہے اور صرف اللہ ہی ’’حق‘‘ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔ دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ لوگوں کو تو یہ سُن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مُردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مُردے جِلا رہا ہے۔ جن مادّوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے اُن کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفسِ انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر انہی مردہ، بے جان اور مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے۔ پھر انہی مادّوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مَردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردو پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوندِ خاک ہوئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کو کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مُردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مُردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اِسی زمین کو لے لیجیے، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اُس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کو کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدابس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑی بنا سکتا ہے، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا ہے کہ انسان کے ’’امکانات‘‘ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اُس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اس کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتا، تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خد ا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔ چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ ’’قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں‘‘،اُن تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت بر پا کر سکتا ہے اور جب چاہے اُن سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اُس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پور ا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھرا سی حکمت کی بنا پر آدمی اِرادی اور غیر اِرادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے، اِرادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصوّر وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، اور بُرے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ، حتیٰ کہ خود ایک نظام ِ عدالت اِس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا؟ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھُول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو بُرے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعدِ موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے۔
۱۰: یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو۔
۱۱: یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے۔
۱۲: یعنی وہ واقفیت جو خد ا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہو ئی ہو۔
۱۳: اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں: جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور ِ نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔
۱۴: پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔
۱۵: یعنی دائرۂ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر، یا بالفاظِ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے۔
۱۶: اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا۔ پھر وہ ہر اُس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو۔
۱۷: یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے۔ کافر اپنے ربّ سے بے نیاز، آخرت سے بے پروا، اور قوانینِ الٰہی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسُوئی کے ساتھ مادّی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھودے، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیر وی کرتا ہے تو اگر چہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر ہی رہتی ہے، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے، آخرت میں بہر حال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدُود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسُوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اُس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخر ت بھی۔
۱۸: پہلی آیت میں معبودانِ غیر اللہ کے نافع و ضار ہونے کی قطعی نفی کی گئی ہے، کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی نفع و ضرر کی قدرت نہیں رکھتے۔ دوسری آیت میں اُن کے نقصان کو اُن کے نفع سے قریب تر بتایا گیا ہے، کیونکہ ان سے دعائیں مانگ کر اور ان کے آگے حاجت روائی کے لیے ہاتھ پھیلا کر وہ اپنا ایمان تو فوراً اور یقیناً کھو دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ نفع اسے حاصل ہو جس کی امید پر اس نے انہیں پکارا تھا، تو حقیقت سے قطع نظر، ظاہر حال کے لحاظ سے بھی وہ خود مانے گا کہ اس کا حصول نہ تو یقینی ہے اور نہ قریب الوقوع۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کو مزید فتنے میں ڈالنے کے لیے کسی آستانے پر اس کی مراد بر لائے، اور ہو سکتا ہے کہ اُس آستانے پر وہ اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھا آئے اور اپنی مراد بھی نہ پائے۔
۱۹: یعنی جس نے بھی اس کو اس راستے پر ڈالا، خواہ وہ کوئی انسان ہو یا شیطان، وہ بدترین کار ساز و سرپرست اور بدترین دوست اور ساتھی ہے۔
۲۰: یعنی جن کا حال اس مطلب پرست، مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کر تے ہیں، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہِ حق پر چلتے رہتے ہیں، خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا بُرے حالات سے، خواہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں۔
۲۱: یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ دنیا میں، یا آخرت میں، یا دونوں جگہ، وہ جس کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دِلوانے والا نہیں۔
۲۲: اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے: (۱) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے۔ (۲)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جانے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ (۳)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کر نے کی کوشش کر دیکھے۔ (۴)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ (۵) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خودکشی کر لے۔ (۶) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے۔ ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں، لیکن کلام کے ٹھیک مدّعا تک نہیں پہنچتے۔ سلسلۂ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے، اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے، یا کسی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے، تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ قضائے الٰہی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے، حتیٰ کہ آگر آسمان کو پھاڑ کر تھِگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر ِ الٰہی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش جس کا انسان تصوّر کر سکتا ہو۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے۔
۲۳: یعنی’’مسلمان‘‘ جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء، اور اس کی کتابوں کو مانا، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر ’’کنارے ‘‘ پر رہ کر بندگی کرتے تھے، اور کفر و ایمان کے درمیان مذبذب تھے۔
۲۴: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اوّل، النساء، حاشیہ نمبر ۷۲۔
۲۵: صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے، اور حضرت یحییٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہماالسلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیّاروں کی اور سیّاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حَرّاں تھا اور عراق کے مختلف حصّوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور فنِ طِب کے کمالات کے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزولِ قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا۔
۲۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، المائدہ، حاشیہ نمبر ۳۶۔
۲۷: یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مَزْدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پایا گیا تھا۔
۲۸: یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورۂ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مُشْرِکِیْن اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْ کے اصطلاحی ناموں سے یاد کر تا ہے، اگرچہ اہلِ ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا۔
۳۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد، حاشیہ نمبر ۲۴ – ۲۵، النحل، حاشیہ نمبر ۴۱ – ۴۲۔
۳۱: عنی فرشتے، اَجرامِ فلکی، اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا ء دوسرے جہانوں میں ہیں خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و اختیار ہوں، یا حیوانات، نباتات، جمادات اور ہوا روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔
۳۲: یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بذھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے۔
۳۳: مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا، لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیّاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے، مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا ہے وہ بھی اُس کی اطاعت پر اُسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی نبی اور ولی، اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفات اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جا سکے، یا خداوند ِ عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکے۔ کسی قانون ِ بے حاکم اور فطرتِ بے صانع اور نظامِ بے ناظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے او ر قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا برسر ِ باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا۔
۳۴: یہاں ذلت اور عزّت سے مراد حق کا انکار اور اس کی پیروی ہے، کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلّت اور عزّت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے، اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی ِ حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اِس عزت سے سرفراز کر دے۔
۳۵: یہاں سجدہ ۂ تلاوت واجب ہے، اور سورۂ حج کا یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔ سجدہ ۂ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۱۵۷۔
۳۶: یہاں خدا کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر خدا کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے، خواہ اس کے اندر آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کر لی ہوں۔
۳۷: مستقبل میں جس چیز کا پیش آنا بالکل قطعی اور یقینی ہو اس کو زور دینے کے لیے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ گویا وہ پیش آچکی ہے۔ آگ کے کپڑوں سے مراد غالباً وہی چیز ہے جسے سُورۂ ابراہیم آیت ۵۰ میں سَرَ ابِیْلُھُمْ مِنْ قَطِرَانٍ فرمایا گیا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، ابراہیم، حاشیہ نمبر ۵۸۔
۳۸: اِس سے یہ تصور دلانا مقصُود ہے کہ اُن کو شاہانہ لباس پہنائے جائیں گے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے، اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں۔
۳۹: اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں، مگر مراد ہے وہ کلمۂ طیبہ اور عقیدۂ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر ہو مومن ہوئے۔
۴۰: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے، ہمارے نزدیک یہاں سُورے کا وہ حصّہ ختم ہو جاتا ہے جو مکّی دَور میں نازل ہو ا تھا۔اِس حصّے کا مضمون اور اندازِ بیان وہی ہے جو مکّی سورتوں کا ہوا کر تا ہے، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصّہ، یا اِس کا کوئی جُز مدینے میں نازل ہوا ہو۔ صرف آیت ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْ ا فِیْ رَبِّھِمْ۔ (یہ دونوں فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگِ بدر کے فریقین ہیں، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو۔ الفاظ عام ہیں، اور سیاق ِ عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اُس نزاعِ عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جنگِ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورۂ انفال میں تھی نہ کہ اِس سورے میں اور اِس سلسلہ ۂ کلام میں۔ یہ طریقِ تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر اُن کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا۔ حالانکہ قرآن کا نظمِ کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے۔
۴۱: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ اِن سے مراد کفارِ مکہ ہیں۔
۴۲: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے پیرووں کو حج اور عمرہ نہیں کرنے دیتے۔
۴۳: یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے، بلکہ وقفِ عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کا حق نہیں ہے۔ یہاں فقہی نقطۂ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں: اوّل یہ کہ ’’مسجد حرام‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف مسجد یا پورا حرم مکّہ؟ دوم یہ ہے کہ اس میں عاکف (رہنے والے) اور باد (بارہ سے آنے والے) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم، جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احدًا طاف بھٰذا البیت او صلّٰی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔’’ اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہوا سے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے۔‘‘ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجدِ حرام سے پورا حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ مکّہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوقِ ملکیت و وراثت اور حقوقِ بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے، حتّٰیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صَفوان بن اُمَیَّہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے۔ اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکّہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی، مُزدلفہ، عرفات، سب مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ، ’’ مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہِ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے‘‘۔ (بقرہ۔ آیت ۲۱۷)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالنا نہیں بلکہ مکّہ سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلَہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ’’یہ رعایت اُس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ۔ آیت ۱۹۶)۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ’’مسجد حرام‘‘ میں مساوات کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ حرمِ مکّہ میں مساوات ہے۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے، بلکہ حرمِ مکّہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سرزمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوقِ ملکیّت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھیر سکتا ہے، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا و لا تؤ اجر بیوتھا، ’’مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں‘‘۔ ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت کہ حضور ؐ نے فرمایا مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا، ’’مکّہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے‘‘۔ (واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریباً انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا‘‘۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں، اور فقہا میں سے امام مالک، امام ابو حنیفہ، سُفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَ یْہ کی بھی یہی رائے ہیں کہ اراضی مکّہ کی بیع، اور کم از کم موسمِ حج میں مکّے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکّہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کہ مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہلِ مکّہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس ِ فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکانِ زمین اور مالکانِ مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لُوٹیں۔ وہ ایک وقفِ عام ہے تمام اہلِ ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں جگہ پائے ٹھیر جائے۔
۴۴: اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھا نے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجۂ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً: حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔ حرم کی حیثیت حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلی آتی ہے، اور فتح مکّہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اُٹھائی گئی، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔ قرآن کا ارشاد ہے وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا، ’’جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آ گیا‘‘۔ حضرت عمر، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہلِ حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا۔ وہاں جنگ اور خونریز ی حرام ہے۔ فتح مکّہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپؐ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’’لوگو، اللہ نے مکّے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے۔ کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر میری اِس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا، پھر آج اُس کی حرمت اُسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی‘‘۔ وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا، نہ خود رو گھاس اُکھاڑی جا سکتی ہے، نہ پرندوں اوردوسرے جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں جانوروں کو بھگایا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے۔ اِس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے مو ذی جانور مستثنٰی ہیں۔ اور خود رو گھاس سے اِذْخِر اور خشک گھاس مستثنٰی کی گئی ہے۔ اِن امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں۔ وہاں کی گری پڑی چیز اُٹھا نا ممنوع ہے، جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن لقطۃ الحاج، یعنی ’’آپؐ نے حاجیوں کی گِری پڑی چیز اُٹھانے سے منع فرما دیا تھا‘‘۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عُمرے کی نیت سے آئے وہ اِحرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سےداخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بِلا احرام داخل نہیں ہو سکتے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کو مؤید ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ اِحرام کی قید سے مستثنٰی ہیں جن کو بار بار اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو۔ باقی سب کو احرام بند جانا چاہیے۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکّہ میں بِلا احرام داخل ہو سکتا ہے، مگر جو حدودِ میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بِلا اِحرام نہیں جا سکتا۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے۔
۴۵: بعض مفسرین نے ’’پاک رکھو‘‘ پر اُس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو دیا گیا تھا، اور ’’حج کے لیے اذنِ عام دے دو‘‘ کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف ہے اور اُسی حکم کا ایک حصّہ ہے جو اُن کو خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصودِ کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اوّل روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذنِ عام تھا۔
۴۶: اصل میں لفظ ’’ضامر‘‘ استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دُبلے اُونٹوں کے لیے بولتے ہیں۔ اس سے اُن مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آرہے ہوں اور راستے میں اُن کے اُونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دُبلے ہو گئے ہوں۔
۴۷: یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداءً حضرت ابراہیمؑ کو دیا گیا تھا، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اِس کلام کا خاتمہ’’اِس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘ پر ہوا ہے، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانۂ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا۔ (حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر خانۂ کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، سورۂ بقرہ، آیات ۱۲۵ – ۱۲۹۔ آل ِ عمران، آیات ۹۶ – ۹۷۔ ابراہیم، آیات ۳۵ – ۴۱)۔
۴۸: اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدہ بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ ۂ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکزِ وحدت حاصل رہا جس نے اُن کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصّے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، آلِ عمران، حواشی ۸۰ – ۸۱۔ المائدہ، حاشیہ ۱۱۳)۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گئے۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے اہلِ توحید کے لیے رحمت ہو گیا۔
۴۹: جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں، یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری، جیسا کہ سورۂ انعام آیات ۱۴۲ – ۱۴۴ میں بصراحت بیا ن ہوا ہے۔ اُن پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اُس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کر ے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایّام معلومات (چند مقرر دنوں) سے مراد کون سے دن ہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباس ؓ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی ۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابنِ عباس ؓ، ابن عمر ؓ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں، اور امام شافعی ؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں، یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر، علی، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ، سعید بن مُسَیَّب وار سعید بن جُبَیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہاء میں سے سُفیانؒ ثوری، امام مالکؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمد ؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے،کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے۔
۵۰: ’’بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں، کیونکہ حکم بصیغۂ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے، اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد و اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ فَکُلُوْ ا مِنْھَا میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا وَاِ ذَا حَلَلْتُمْ فَا صطَادُوْا، ’’ جب تم حالتِ اِحرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘۔(المائدہ۔ آیت ۲) اور فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰ ۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ، ’’پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘‘(الجمعہ۔ آیت ۱۰)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے ہیں اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں، اسے کھاؤ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا۔ دوست، ہمسائے، رشتہ دار، خواہ محتاج نہ ہوں، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقَمَہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا، خود بھی کھانا، مساکین کو بھی دینا اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصّہ کھاؤ، ایک حصّہ ہمسایوں کو دو، اور ایک حصّہ مساکین میں تقسیم کرو۔
۵۱: یعنی یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ ) کو قربانی سے فارغ ہو کر احرام کھول دیں، حجامت کرائیں، نہائیں، دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں۔ لغت میں تَفَث کے اصل معنی اُس غبار اور مَیل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے۔ مگر حج کے سلسلے میں جب میل کچیل دُور کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔ کیونکہ حاجی جب تک مناسِک حج اور قربانی سے فارغ نہ ہو جائے، وہ نہ بال ترشوا سکتا ہے، نہ ناخن کٹوا سکتا ہے، اور نہ جسم کی دوسری صفائی کر سکتا ہے۔ (اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قربانی سے فراغت کے بعد دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر بیوی کے پاس جانا اُس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طوافِ افاضہ نہ کر لے)۔
۵۲: یعنی جو نذر بھی کسی نے اِس موقع کے لیے مانی ہو۔
۵۳: کعبہ کے لیے ’’بیتِ عتیق‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔’’عتیق‘‘ عربی زبان میں تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک قدیم۔ دوسرے آزاد، جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو۔ تیسرے، مکرم اور معزّز۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں۔ طواف سے مراد طوافِ افاضہ، یعنی طوافِ زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے اور اِحرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ارکانِ حج میں سے ہے۔ اور چونکہ قضائے تَفَث کے حکم سے متصل اس کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طواف قربانی کرنے اور اِحرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہیے۔
۵۴: بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے، مگر اس سلسلہ ۂ کلام میں وہ حرمتیں بدرجۂ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرمِ مکّہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسکِ حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کر کے اُن بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں۔
۵۵: اس موقع پر مویشی جانوروں کی حِلّت کا ذکر کرنے سے مقصُود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اوّل یہ کہ قریش اور مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت ِ احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اُس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے۔
۵۶: اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورۂ انعام اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ (اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے)۔ (الانعام، آیت ۱۴۵۔ النحل، آیت ۱۱۵)۔
۵۷: یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھِن کھاتا ہے اور دُور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی اُن سے نجس اور پلید ہو جائے گا۔
۵۸: ’’اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلۂ کلام میں خاص طور پر اشارہ اُن باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیا دہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی براہِ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورۂ نحل میں فرمایا وَلَا نَقُوْلُوْ ا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ، ’’اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلا ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘۔( آیت ۱۱۶) اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ، ’’جھُوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے‘‘،اور پھر آپؐ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اُ س کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمر ؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا یُضْرب ظھرہ و یحلق راۂ سہ و یسخم و جھہ و یطال حبسہ، ’’اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے‘‘۔ عبداللہ بن عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن برسرِ عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے، اِسے پہچان لو، پھر اس کو قید کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تشہیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے۔
۵۹: اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اُس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے نہ کہ پستیوں کی طرف۔ لیکن شرک (اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان، جن کا اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشاتِ نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے، اسے اُڑائے اُڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اُس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ سَحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں۔ کسی جگہ کو سحیق اُس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پُرزے اُڑ جائیں۔
۶۰: یعنی خدا پرستی کی علامات، خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ، یا اشیاء ہوں جیسے مسجد اور رَہدی کے اونٹ وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، المائدہ، حاشیہ نمبر ۵۔
۶۱: یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے تبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے، یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اُتر آیا ہے۔
۶۲: پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھیرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں، جیسا کہ اہلِ عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ءِ رِ اللہِ، ’’اور ان ہدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ‘‘۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سوار ی کرنا، یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اِسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف نہیں ہے۔ یہی بات اُن احادیث سے معلوم ہوتی ہے جس اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جا رہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ اُس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ارے سوار ہو جا‘‘۔ مفسرین میں سے ابن عباس، قتادہ، مجاہد، ضَحّاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ سے مراد ’’جب تک جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے‘‘ ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہَدی کے نام سے موسوم نہ کر دے۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے، پھر اسے کوئی فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اوّل تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی بے معنی ہے۔ کیونکہ ’’ہدی‘‘ کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر ’’شعائر اللہ‘‘ کا اطلاق ہوا، اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے۔ دُوسرے مفسرین، مثلاً عُرْوَہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ’’ وقتِ مقرر ‘‘ سے مراد ’’قربانی کا وقت‘‘ ہے۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں، ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں، ان کے بچے بھی لے سکتے ہیں اور اُن کا اون، صوف، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں، لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرطِ ضرورت استفادہ جائز ہے۔
۶۳: جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ھَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَۃِ (المائدہ۔ آیت نمبر ۹۵) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر، یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے، بلکہ حرام کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ، یا بیت اللہ، یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرمِ مکّہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت۔
۶۴: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الٰہیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیراللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الٰہیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبودانِ باطل کی تیرتھ یا ترا کی ہے۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مَقْدِس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبُودوں کے لیے جانوروں کی قربانی بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں، مگر سب کی رُوح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔
۶۵: اصل میں لفظ ’’مُخْبِتِیْن‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں۔ استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اُس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا۔
۶۶: اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کی چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخچا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریا کارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’انفاق‘‘ قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چُرائے، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہے ہے، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام ’’اِنفاق‘‘ نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’بخل‘‘ اور’’ شُحِّ نفس‘‘ کہتا ہے۔
۶۷: اصل میں لفظ ’’بدُن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اُونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کرسکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان نشترک فی الا ضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے‘‘۔
۶۸: یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اُٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکرِ نعمت کے لیے، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کر نے کے لیے بھی، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اُس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز او ر روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ اُن اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریّے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم الشان نعمت پر اُس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوا ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں، جن کے گوشت کھاتے ہیں، جن کے دودھ پیتے ہیں، جن کی کھالوں اور بالوں اور خون اور ہڈی، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اُٹھاتے ہیں۔
۶۹: واضح رہے کہ اُونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے۔ اُس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اُونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَوَافّ کا۔ ابن عباس، مجاہد، ضحّاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابنِ عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا العثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم۔’’ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر، یہ ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اُسے کھڑا کرتے تھے، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اِسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے: اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، ’’جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں‘‘۔ اُسی صورت میں بولیں گے جبکہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔
۷۰: یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصوّر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت ۳۶ میں فرمایا فَا ذْ کُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا، ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت ۳۷ میں فرمایا لِتُکَبِّرُوْ االلہَ عَلیٰ مَا ھَدٰ کُمْ ’’تا کہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً (۱) بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَر، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ’’اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۲) اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ الّٰھُمّ منک ولک،’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۳) اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلوٰ تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمیْنَ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، ’’میں نے یکسُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔
۷۱: ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گِر ٹھیر جائیں، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نِکل جائے۔ ابوداؤد، ترمذی اور مُسْنَد احمد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ما قُطع (اَومابان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے‘‘۔
۷۲: یہاں پھر اشارہ ہے اِس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اُس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخّر کر کے تمہیں بخشی ہے۔
۷۳: جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے کا چڑھاتے تھے، اُسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون یا گوشت نہیں، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکرِ نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہی بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا ان اللہ لا ینظر الیٰ صورکم و لا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم، ’’اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے‘‘۔
۷۴: یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر ِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے، اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جا تا ہے کہ اللھم منک ولک، ’’خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ اس مقام پر یہ جان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکّے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود مدینۂ طیّبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مُسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: من وجد سعۃ فلم یُضَحِّ فلا یقربن مصَلّانا۔ جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔ ترمذی میں ابنِ عمرؓ کی روایت ہے : اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ بخاری میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقر عید کے روز فرمایا: من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد و من ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پو ری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکّے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔ مسلم میں جابر ؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینے میں بقر عید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھرا عادہ کریں۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام محمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سُفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپج صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سُوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔
۷۵: یہاں سے تقریر کا رُخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے۔ سلسلۂ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اُس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکّے میں ان پر کے گئے تھے بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکّے سے نِکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اِس صورت ِ حال کو بدلنے کے لیے اُٹھیں۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصّہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تا کہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصّے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلا ف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔
۷۶: ‘‘مدافعت دفع کر سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دُور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہلِ ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہلِ ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو اُن سے دفع کرتا رہتا ہے۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہلِ حق کے لیے ای بہت بڑے بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔
۷۷: یہ وجہ ہے ا س بات کی کہ اِس کشمکش میں اللہ کیوں اہلِ حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے، اور کافرِ نعمت ہے۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے، اور ہر اس نعمت کا جواب نا شکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے۔
۷۸: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اوّلین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں سورۂ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا، یعنی وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ، (آیت ۱۹۰) اور وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ وَاَ خْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْ کُمْ (آیت ۱۹۱) اور وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (آیت ۱۹۳) اور کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (آیت ۲۱۶) اور وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَا عْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (آیت ۲۴۴)۔ اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ سن ۱ ھ میں نازل ہوئی، اور حکم جنگ ِ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان سن ۲ ھ میں نازل ہوا۔
۷۹: یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں، اللہ ان کو تمام مشرکین ِ عرب پر غالب کر سکتا ہے۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اُٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ او ر اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد ہوا کہ ’’اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘ نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے اُبھارا جا رہا تھا، اور کفارِ کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ۔
۸۰: یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورۂ حج کا یہ حصّہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔
۸۱: جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں: حضرت صُہَیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار ِ قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہو گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت اُمِ سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مَغِیرہ (اُم سَلَمہ کے خاندان) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہے، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر بنی عبد الاسد (ابو سَلَمہ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے، اسے ہمارے حوالے کر دو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت اُم سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکّے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جا رہی تھی جن سے مسلح قبائل بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عیّاش بن رَبِیعہ، ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ امّاں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر اُنہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکّے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’اے اہلِ مکّہ، اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے‘‘۔ کافی مدّت تک بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا۔
۸۲: اصل میں صَوَ امِعُ اور بِیَعٌ اور صَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں۔ بِیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صَلَوات سے مراد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute ) اور (Salutation ) اسی سے نِکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔
۸۳: یعنی یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کر تا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضُھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ،’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ (آیت ۲۵۱)۔
۸۴: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلقِ خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دینِ حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مددگار ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۵۰)۔
۸۵: یعنی اللہ کے مددگار اور اُس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے، اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس یک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کارفرماؤں کی خصوصیات کا جو ہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔
۸۶: یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں۔ مگر جو طاقت ایک ذرا سے بیج کو تنا ور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو ہی زم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے، اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا ان کو کون ہلا سکے گا اُنہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونہ ۂ عبرت بن جائیں، اور جنہیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ کبھی اُٹھ سکیں گے اُنہیں ایسا سربلند کرے کہ دنیا میں اُن کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں۔
۸۸: ’’یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اُس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کفارِ مکّہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ درحقیقت یہ مہلتِ غور و فکر جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے۔
۸۹: اصل میں لفظ نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بُری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس کو ایسی سزا دی جائے، جو اس کی حالت دگر گوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ یہ وہی شخص ہے۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی‘‘۔
۹۰: عرب میں کُنواں اور بستی قریب قریب ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ کسی قبیلے کی بستی کا نام لینا ہو تو کہتے ہیں ماء بنی فلان یعنی فلاں قبیلے کا کنواں۔ ایک عرب کے سامنے جب یہ کہا جائے گا کہ کنوئیں بیکار پڑے ہیں تو اس کے ذہن میں اس کا یہ مطلب آئے گا کہ بستیاں اُجڑی پڑی ہیں۔
۹۱: خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں نہ اُلجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے۔ ادبی زبان میں احساسات، جذبات، خیالات، بلکہ قریب قریب تمام ہی افعالِ دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسُوب کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی چیز کے ’’یاد ہونے‘‘ کو بھی یوں کہتے ہیں کہ ’’وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے‘‘۔
۹۲: یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے نبی بر حق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ، اور جس کی دھمکیاں بھی تم بار ہا ہم کو دے چکے ہو۔
۹۳: یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی اور کل اس کے اچھے یا بُرے نتائج ظاہر ہو گئے۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرزِ عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہو گی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرزِ عمل کو اختیار کیے ہمیں دس، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں، ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔
۹۴: یعنی میں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صرف خبردار کرنے والا ہوں۔ میرا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ شامت آنے سے پہلے تم کو متنبہ کر دوں۔ آگے فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی طے کرے گا کہ کس کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب کس صورت میں اس پر عذاب لانا ہے۔
۹۵: ’’مغفرت‘‘ سے مراد ہے خطاؤں اور کمزوریوں اور لغزشوں سے چشم پوشی و درگزر۔ اور ’’رزقِ کریم‘‘ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عمدہ رزق دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ عزّت کے ساتھ بٹھا کر دیا جائے۔
۹۶: رسول اور نبی کے فرق کی تشریح سورۂ مریم حاشیہ نمبر ۳۰ میں کی جا چکی ہے۔
۹۷: تمنّٰی کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک معنی تو وہی ہیں جو اُردو میں لفظ تمنّا کے ہیں، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو۔ دوسرے معنی تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔
۹۸: ’’تمنّا‘‘ کا لفظ اگر پہلے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہو گی کہ جب بھی اُس نے کلامِ الٰہی لوگوں کو سنایا، شیطان نے اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنی اس کو پہنائے، اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے اُلٹے سیدھے مطلب لوگوں کو سمجھائے۔
۹۹: پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شیطان کی خلل اندازیوں کے باوجود آخر کار نبی کی تمنا کو(آخری نبی کی تمنا اس کےسوا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی مساعی بار آور ہوں اور اس کا مشن فروغ پائے) پورا کرتا ہے اور اپنی آیات کو (یعنی ان وعدوں کو جو اس نے نبی سے کیے تھے) پختہ اور اٹل وعدے ثابت کر دیتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات و اعتراضات کو اللہ رفع کر دیتا ہے اور ایک آیت کے بارے میں جو الجھنیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتا ہے انہیں بعد کی کسی واضح تر آیت سے صاف کر دیا جاتا ہے۔
۱۰۰: یعنی وہ جانتا ہے کہ شیطان نے کہاں کیا خلل اندازی کی اور اس کے کیا اثرات ہوئے۔ اور اس کی حکمت ہر شیطانی فتنے کا توڑ کر دیتی ہے۔
۱۰۱: یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ اِنہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے برحق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلْملاتا۔ سلسلۂ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اِن آیات کا مطلب صاف سجھ میں آ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہی تھا کہ ایک شخص، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے، وہ تیرہ برس معاذاللہ سرمارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیرووں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں جب لوگ آپؐ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے، تو انہیں آپؐ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی، اور آپؐ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں، اب کیوں نہیں آ جاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جا تے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اِن آیتوں میں اُس کا رُخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جوب کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھراس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثارِ قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آ گیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں،، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اِن شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوتِ حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھِنچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھَٹ کر الگ ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں اِن آیات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب ِ علم فہمِ قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی طرح سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ قصّہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفارِ قریش کی نفرت دُور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں۔ یا کم از کم اُن کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپؐ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپؐ پر سورۂ نجم نازل ہوئی اور آپؐ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپؐ اَفَرَ اَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰیo وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰo پر پہنچے تو یکایک آپؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپؐ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتامِ سورہ پر آپؐ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدہ میں گر گئے۔ کفارِ قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد سے کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپؐ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل، رکوع ۸ میں ہے کہ وَاِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۔ یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرتؐ کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرینِ حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفارِ مکّہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکّہ واپس آ گئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صُلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کُفر کی دشمنی جُوں کی تُوں قائم ہے۔ یہ قصہ ابن جَریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں، ابن سعد نے طبقات میں، الواحدی نے اسباب النزُول میں، موسیٰ بن عُقبہ نے مَغازِی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں، اور ابن ابی حاتم، ابن المُنْذِر، بَزار، ابنِ مَرْدُوْییہ اور طَبرَانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظِی، عُروہ بن زبیر، ابو صالح، ابو العالیہ، سعید بن جُبَیر، ضَحّاک، ابوبکر بن عبد الرحمٰن بن حارث، قَتَادہ، مجاہد، سُدِّی، ابن ِ شہاب زُہْرِی، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے)۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو ۱۵ عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رُو سے یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپؐ پر القا کر دیے اور آپؐ سمجھے کہ یہ جبریل لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اُس خواہش کے زیرِ اثر سہواً آپؐ کی زبان سے نِکل گئے۔ کسی میں ہے کہ اُس وقت آپؐ کو اُونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپؐ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپؐ کی آواز میں آواز مِلا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپؐ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔ اِبنِ کَثِیر، بَیْہقی، قاضی عیاض، ابن خُزَیمہ، قاضی ابوبکر ابن العربی، امام رازی، قُرطُبی، بدر الدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ’’جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے، سب مُرسَل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔‘‘بیہقی کہتے ہیں کہ ’’ازروئے نقل یہ قصّہ ثابت نہیں ہے۔‘‘ ابنِ خُذیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ زنادقہ کا گھڑا ہو ا ہے۔‘‘ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ’’اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے۔‘‘ امام رازی، قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کر کے اسے بڑے پر زور طریقے سے رد کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حَجَر جیسے بلند پایہ محدث اور ابوبکر جَصّاص جیسے نامور فقیہ اور زَمَحشَرِی جیسے عقلیت پسند مفسِّر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت ِ زیرِ بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدّثانہ استدلال یہ ہے کہ: ’’سعید بن جُبَیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسندِ صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بزّار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حمّاد عن اُمَیَّہ بن خالد عن شُعْبَہ عن ابی بِشْر عن سعید بن حُبَیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طَبرَی نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق مُعتَمِر بن سلیمان و حماد بن سَلَمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ‘‘۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کی نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصّے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں، یا جواَب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ تو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین، اور متعدد و معتبر راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہُوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جبکہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابلِ قبول قرار پاتا ہے، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔ پہلی چیز خود اُس کی اندرونی شہادت ہے جو اُسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصّے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکّہ واپس آ گیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے: ---- ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب سن ۵ نبوی میں واقع ہوئی، اور مہاجرین ِ حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سُن کر تین مہینے بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں) مکّے واپس آ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لامحالہ سن ۵ نبوی کا ہے۔ ---- سورۂ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فعل پر بطورِ عتاب نازل ہوئی تھی، معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رُو سے سن ۱۱ یا سن۱۲ نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔ ---- اور زیرِ بحث آیت، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے سن ۱ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسُوخ کر دیا ہے۔ کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان ۹ سال بعد؟ پھر اس قصّے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ آمیزش سورۂ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آرہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پر پہنچ کر آپ نے بطورِ خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا، اور آگے پھر سورۂ نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ کفارِ مکّہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلۂ کلام میں اس الحاقی فقرے کے شامل کر کے تو دیکھیے: ’’پھر تم نے کچھ غور کیا اِن لات اور عُزّیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہے مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے ربّ کی طرف سے صحیح رہنمائی آ گئی ہے‘‘۔ دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر اُن پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصّے میں آئیں بیٹیاں! یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نِکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کے شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سُن رہا تھا، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سُن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورۂ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلا ف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سُننے کے بعد یہ پکار اُٹھے ہوں گے کہ چلو آج ہمارا اور محمد ؐ کا اختلاف ختم ہو گیا؟ یہ تو ہے اس قصّے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شانِ نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے؟ قصّے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورۂ نجم میں کی گئی تھی، جو سن ۵ نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورۂ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورۂ حج کی زیرِ بحث آیت میں کی گئی۔ اب لا محالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتیں بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورۂ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورۂ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ یہ دونوں آیتیں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورۂ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورۂ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے ۶ سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اُس بے تُکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نقدِ صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔ اس سلسلۂ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے(قطع نظر اس سے کہ آیت اِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورۂ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آ گیا کہ ’’اے نبی ۹ سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اُس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسُوخی کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔‘‘ ہم اس سے پہلے بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق و سباق، ترتیب، ہر چیز اُسے قبول کرنے سے انکار کر رہے ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصّہ غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ اسے ہر گز نہیں مان سکتا جبکہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی اپنی خواہش ِ نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں، یا یہ کہ آپ پر وحی کسی ایسے غیر محفوظ اور مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیطان بھی آپ پر کوئی لفظ القا کر جائے اور آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور اُن ثابت شدہ عقائد کے خلا ف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پنا ہ اُس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طُرقِ روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُس شک کو بھی دُور کر دیا جائے جو راویانِ حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصّے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصّے کی کوئی اصلیت نہیں ہے تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتا ن حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخار ی، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اوّل تو قرآن کا زورِ کلام اور انتہائی پُر تاثر اندازِ بیان، پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سُن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہی تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تاثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سُنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرینِ حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً ۳۳ آدمی مکّے میں واپس آ گئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش، اسجدہ، اس سجدے کی یہ توجیہ، اور مہاجرین ِ حبشہ کی واپسی، مِل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے والے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے، نذر ِ آتش کر دینے کے لائق ہے۔
۱۰۲: اصل میں لفظ ’’عَقِیْم‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’بانجھ‘‘ ہے۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کار گر نہ ہو، ہر کوشش اُلٹی پڑے، اور ہر اُمید مایوسی میں تبدیل ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً جس روز قومِ نوح پر طوفان آیا، وہ ان کے لیے ’’بانجھ‘‘ دن تھا۔ اسی طرح عاد، ثمود، قومِ لوط، اہلِ مَدیَن، اور دوسرے سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذابِ الٰہی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہُوا۔ کیونکہ اُس ’’امروز‘‘ کا کوئی ’’فردا‘‘ پھر وہ نہ دیکھ سکے، اور کوئی چارہ گری اُن کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے۔
۱۰۳: ’’علیم‘‘ ہے، یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے فی الحقیقت اُسی کی راہ میں گھر بار چھوڑا ہے اور وہ کس انعام کا مستحق ہے۔ ’’حلیم‘‘ ہے یعنی ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان کی بڑی بڑی خدمات اور قربانیوں پر پانی پھیر دینے والا نہیں ہے۔ وہ ان سے درگزر فرمائے گا اور ان کے قصور معاف کر دے گا۔
۱۰۴: پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں، اور یہاں اُن کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ امام شافعیؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اُسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا۔
۱۰۵: اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کہ مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو، عفو و درگزر کرنے والا ہے، اس لیے تم کو بھی، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و درگزر سےکام لینا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، عالی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق اُنہیں ضرور حاصل ہے، مگر بالکل منتقانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔
۱۰۶: اس پیراگراف کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے سے۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا، مظلوم اہلِ حق کی داد رسی کرنا، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہلِ حق کی نصرت فرمانا، یہ سب کسی وجہ سے ہے؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں۔
۱۰۷: یعنی تمام نظامِ کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اِس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار ہے ہے اُن کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھا دے، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اِس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چھَت جائے اور وہ دن نِکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نُور سے دنیا روشن ہو جائے۔
۱۰۸: یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خدا ہے، اندھا بہرا نہیں ہے۔
۱۰۹: یعنی حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی ربّ وہی ہے، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے۔ اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں، ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے اُن کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے، اس لیے خدا سے منہ موڑ کر اُن کے اعتماد پر جینے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔
۱۱۰: یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اُٹھتی ہے، اسی طرح یہ وحی کا بارانِ رحمت جو آج ہو رہا ہے، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
۱۱۱: ’’لطیف‘‘ ہے، یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اس کی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ اُن کے آغاز میں کبھی اُن کے انجام کا تصوّر تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ہے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خوردبین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی۔ کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بنا ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابلِ ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ’’خیبر‘‘ ہے، یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس طرح کرے۔
۱۱۲: وہی ’’غنی‘‘ ہے، یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور وہی ’’حمید‘‘ ہے، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، خواہ کوئی حمد کرے یا نہ کرے۔
۱۱۳: آسمان سے مراد یہاں پورا عالمِ بالا ہے جس کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ تھمی ہوئی ہے۔
۱۱۴: یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اُس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السّلام نے پیش کیا ہے۔
۱۱۶: یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظامِ عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ ’’قربانی کا قاعدہ‘‘ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ ’’تاکہ لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں‘‘ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کی تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض ’’قربانی‘‘ کے معنی میں لینے کی کو ئی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر ’’پرستش‘‘ کے بجائے ’’بندگی‘‘ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔ اس طرح منسک (طریقِ زندگی) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَتً وَّمِنْھَاجًا، ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی‘‘ (آیت ۴۸)۔
۱۱۷: یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دَور کی اُمتوں کے لیے ایک ’’منسک‘‘ لائے تھے، اسی طرح اس دَور کی اُمت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک ِ حق ہے۔ سُورۂ جاثیہ میں اِس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلیٰ شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَا تَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَ آءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت ۱۸) ’’پھر (انبیاء بنی اسرائیل کے بعد) اَے محمدؐ ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت (طریقے) پر قائم کیا، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۲۰)۔
۱۱۸: یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں۔
۱۱۹: سلسلۂ کلام سے اس پیراگراف کا تعلق سمجھنے کے لیے اس سُورے کی آیات ۵۵ تا ۵۷ نگاہ میں رہنی چاہییں۔
۱۲۰: یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصّہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں، اور ان کے آستانوں پر جَبہ سائیاں ہو رہی ہیں، دعائیں مانگی جا رہی ہیں، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں، نیازیں دی جا رہی ہیں، طواف کیے جا رہے ہیں اور اعتکاف ہو رہے ہیں،یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر اور کیا ہے۔
۱۲۱: یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخر ت میں ان کے مددگار ہیں، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے۔ نہ یہ معبود، کیونکہ ان کےپاس مدد کی کوئی طاقت نہیں، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں۔
۱۲۲: یعنی کلامِ الٰہی کی آیات سُن کر جو غصے کی جلن تم کو لاحق ہوتی ہے اس سے شدید تر چیز، یا یہ کہ ان آیات کو سنانے والوں کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ برائی تم کر سکتے ہو اس سے زیادہ بدتر چیز، جس سے تمہیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔
۱۲۳: یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالاتر طاقت کی طرف استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگرا س غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ اُن لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور۔
۱۲۴: مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چُن لیا ہے۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی۔
۱۲۵: یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذات خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سُننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے، لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے۔
۱۲۶: یعنی تدبیرِ امر بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات کے کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تواس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کر لینے پر قادر نہیں ہیں۔
۱۲۷: یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہی روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اُسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’’شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو‘‘ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔ امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورۂ حج کی یہ آیت بھی آیت ِ سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ، امام مالک، حسن بصری، سعید بن المسیَّب، سعید بن جُبَیر، ابراہیم نَخعی اور سُفیان ثَوری اس جگہ سجدہ ۂ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں۔ پہلے گروہ کا اوّلین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عُقْبہؓ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن مردُویَہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسُول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجد تین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقر اۂ ھما۔’’ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا سورۂ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں، پس جو اُن پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے‘‘۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ بن عاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو سورۂ حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرات عمرؓ، علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابوالدرداؓء، ابو موسیٰؓ اشعری اور عمّارؓ بن یاسِر سے یہ بات منقول ہے کہ سورۂ حج میں دو سجدے ہیں۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع وسجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عُقْبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو ہو شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمر و بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن مُنَین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوالِ صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورۂ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتاتا ہے کہ الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے، اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔
۱۲۸: جہاد سے مراد محض ’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدوجہد مطلوب ہے۔ اس اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ بندگی اور اس کی رضا جوئی میں، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں، اور جدوجہد کا مقصُود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اوّلین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آ گئے ہو‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔’’آدمی کی خود اپنی خواہشِ نفس کے خلاف جدوجہد‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا و ہ حقِ جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
۱۲۹: یعنی تمام نوعِ انسانی میں سے تم لوگ اُس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت ۱۴۳)۔ اور سورۂ آل ِ عمران میں فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ اُن آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور اُن لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہِ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس خطاب بالتبع پہنچتا ہے۔
۱۳۰: یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی اُمتوں کے فقیہوں او فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدّن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ یَاْ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئیثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ’’یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے، اور ان بُرائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرتِ انسانی انکار کرتی ہے، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۵۷)۔
۱۳۱: اگرچہ اسلام کو مِلّت نوح، ملّتِ موسیٰ، ملّتِ عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملّتِ ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملّتِ ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اوّلین مخاطب اہلِ عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسُوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان، مشرکینِ عرب، اور شرق اوسط کے صابِئی، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملّتوں کی پیدائش سےپہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابِئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکینِ عرب، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بُت پرستی کا رواج عَمرو بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خُزاعہ کا سردار تھا اور مُآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اُس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ مِلّت بھی حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملّتوں کے بجائے مِلّت ابراہیم ؑ کو اختیار کرو، تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ برحق اور برسرِ ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے، تو لامحالہ پھر وہی ملّت اصل مِلّتِ حق ہے نہ کہ یہ بعد کی مِلّتیں، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت اُسی مِلّت کی طرح ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حواشی ۱۳۴ – ۱۳۵۔ آل عمران، حواشی ۵۸ – ۷۹۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ ۱۲۰۔
۱۳۲: ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر سرف اُنہی اہلِ ایمان کی طرح نہیں ہے جو اِس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے، یا اس کے بعد اہلِ ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغازِ تاریخِ انسانی سے توحید، آخرت، رسالت اور کتبِ الٰہی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدّعا یہ ہے کہ اِس ملّتِ حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’نوحی‘‘،’’ابراہیمی‘‘،’’موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ ان کا نام’’مسلم‘‘(اللہ کا تابع فرمان) تھا، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ’’مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معمّا بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا۔
۱۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اِس مضمون پر ہم نے اپنے رسالۂ ’’شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے۔
۱۳۴: یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانونِ زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو، مدد کے لیے بھی اسی کی آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ۔