تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الحَجّ

۲۔۔۔  قیامت کے عظیم الشان زلزلے (بھونچال) دو ہیں۔ ایک عین قیام قیامت کے وقت یا نفخہ ثانیہ کے بعد دوسرا قیامت سے کچھ پیشتر جو علامات قیامت میں سے ہے۔ اگر یہاں دوسرا مراد ہو تو آیت اپنے ظاہر معنیٰ پر رہے گی اور پہلا مراد ہو تو دونوں احتمال ہیں، حقیقتہً زلزلہ آئے اور دودھ پلانے والی یا حاملہ عورتیں اپنی اسی ہیئت پر محشور ہوں۔ یا زلزلہ سے مراد وہاں کے احوال و شدائد ہوں اور "یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ" الخ کو تمثیل پر حمل کیا جائے یعنی اس قدر گھبراہٹ اور سختی ہو گی کہ اگر دودھ پلانے والی عورتیں موجود ہوں تو مارے گھبراہٹ اور شدتِ ہول کے اپنے بچوں کو بھول جائیں اور حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو جائیں۔ اس وقت لوگ اس قدر مدہوش ہوں گے کہ دیکھنے والا شراب کے نشہ کا گمان کرے حالانکہ وہاں نشہ کا کیا کام۔ خدا کے عذاب کا تصور اور احوال و شدائد کی سختی ہوش گم کر دے گی۔ (تنبیہ) اگر یہ گھبراہٹ سب کو عام ہو تو "لَایَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ" میں نفی باعتبار اکثر احوال کے اور یہاں اثبات باعتبار ساعت قلیلہ کے لیا جائے گا۔ اور اگر آیت حاضرہ اکثر ناس کے حق میں ہو، سب کے حق میں نہ ہو تو سرے سے اشکال ہی نہیں۔

۳۔۔۔  ۱: یعنی اللہ تعالیٰ جن باتوں کی خبر دیتا ہے ان میں یہ لوگ جھگڑتے اور کج بحثیاں کرتے ہیں اور جہل و بے خبری سے عجیب احمقانہ شبہات پھیلاتے ہیں۔ چنانچہ قیامت، بعث بعد الموت اور جزاء و سزا وغیرہ پر ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب آدمی مر کر گل سڑ گیا اور ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو گئیں تو یہ کیسے سمجھ میں آئے کہ وہ پھر زندہ ہو کر اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے گا۔

۲:  یعنی جن یا آدمیوں میں کا جو شیطان اس کو اپنی طرف بلائے یہ فوراً اسی کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ گویا گمراہ ہونے کی ایسی کامل استعداد رکھتا ہے کہ کوئی شیطان کسی طرف پکارے یہ اس پر لبیک کہنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

۴۔۔۔  یعنی شیطانِ مَرید کے متعلق یہ طے شدہ امر ہے کہ جو اس کی رفاقت اور پیروی کرے وہ اپنے ساتھ اسے بھی لے ڈوبتا ہے اور گمراہ کر کے دوزخ سے ورے نہیں چھوڑتا۔

 ۵۔۔۔  ۱: یعنی اگر یہ دھوکا لگ رہا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر دوبارہ کیسے جی اٹھیں گے تو خود اپنی پیدائش میں غور کرو کس طرح ہوئی ہے۔

۲:  یعنی اول تمہارے باپ آدم کو مٹی سے، پھر تم کو قطرہ منی سے بنایا، یا یہ مطلب ہے کہ مٹی سے غذا نکالی جس سے کئی منزلیں طے ہو کر نطفہ بنا، پھر نطفہ سے کئی درجے طے کر کے تمہاری تشکیل و تخلیق ہوئی۔

۳:  یعنی نطفہ سے جما ہوا خون اور خون سے گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ جس پر ایک وقت آتا ہے کہ آدمی کا پورا نقشہ (ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک وغیرہ) بنا دیا جاتا ہے۔ اور ایک وقت ہوتا ہے کہ ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ بعض کی پیدائش مکمل کر دی جاتی ہے اور بعض یونہی ناقص صورت میں گر جاتا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ بعض بے عیب ہوتا ہے، بعض عیب دار۔

۴:  کہ خود تمہاری اصل کیا تھی اور کتنے روز گزرنے کے بعد آدمی بنے ہو۔ اسی کو سمجھ کر بہت سے حقائق کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ اور بعث بعد الموت کا امکان بھی سمجھ میں آ سکتا ہے۔

۵:  یعنی جتنی مدت جس کو رحم مادر میں ٹھہرانا مناسب ہوتا ہے ٹھہراتے ہیں۔ کم از کم چھ مہینے اور زیادہ سے زیادہ دو برس یا چار برس علیٰ اختلاف الاقوال۔

۶:  یعنی جس طرح اندر رہ کر بہت سے مدارج طے کیے ہیں، باہر آ کر بھی تدریجاً بہت منازل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک بچپن کا زمانہ ہے جب آدمی بالکل کمزور و ناتواں ہوتا ہے اور اس کی تمام قوتیں چھپی رہتی ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ کامن (پوشیدہ) قوتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ جسمانی حیثیت سے  ہر چیز کمال شباب کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر بعض تو جوانی ہی میں مر جاتے ہیں اور بعض اس عمر کو پہنچتے ہیں جہاں پہنچ کر آدمی کے اعضاء و قویٰ جواب دے دیتے ہیں، وہ سمجھدار بننے کے بعد ناسمجھ اور کارآمد ہونے کے بعد نکما ہو جاتا ہے۔ یاد کی ہوئی چیزیں بھول جاتا ہے اور جانی ہوئی چیزوں کو کچھ نہیں جانتا۔ گویا بوڑھا ہو کر پھر بچہ بن جاتا ہے۔

۷:  یعنی زمین مردہ پڑی تھی، رحمت کا پانی پڑتے ہی جی اٹھی اور تروتازہ ہو کر لہلہانے لگی۔ قسم قسم کے خوش منظر، فرحت بخش اور نشاط افزا پودے قدرت نے اگا دیے۔

۷۔۔۔  انسان کی پیدائش اور کھیتی کی مثالوں سے جو اوپر مذکور ہوئیں چند باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ (۱) یہ کہ یقیناً اور بالتحقیق اللہ موجود ہے ورنہ ایسی منظم متّیقن اور حکیمانہ صنعتیں کہاں سے ظاہر ہوئیں۔ (۲) یہ کہ خدا تعالیٰ مردہ اور بے جان چیزوں کو زندہ اور جان دار بنا دیتا ہے۔ چنانچہ مشتِ خاک یا قطرہ آب سے انسان بنا دینا اور افتادہ زمین میں روح نباتی پھونک دینا اس پر شاہد ہے، پھر دوبارہ پیدا کر دینا اس کو کیا مشکل ہے (۳) یہ کہ وہ  ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر  ہر چیز اس کی قدرت کے نیچے نہ ہوتی تو ہرگز یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ (۴) یہ کہ قیامت ضرور آنی چاہیے اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ضرور ملنی چاہیے کیونکہ اتنے بڑے انتظامات یوں ہی لغو اور بے کار نہیں ہو سکتے۔ جس حکیم مطلق اور قادر علی الاطلاق نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ سے انسان کو ایسی عجیب و غریب صفت کے ساتھ پیدا کیا، کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اس کی زندگی بیکار بنائی ہو گی؟ ہرگز نہیں یقیناً انسان کی یہ محدود زندگی جس میں سعادت و شقاوت نیکی بدی اور رنج و راحت باہم مخلوط رہتے ہیں اور امتحان و انتقام کی صورتیں ایک دوسرے سے مکمل اور نمایاں طور پر متمیز نہیں ہوتیں، اس کو مقتضی ہے کہ کوئی دوسری زندگی ہو۔ جہاں سعید و شقی، مجرم و وفادار اور صاف طور پر الگ الگ ہوں اور ہر ایک اس مقام پر پہنچایا جائے جہاں پہنچنے کے لیے بنایا گیا ہے اور جس کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے۔ مادی حیثیت سے منی کے جن اجزاء میں نطفہ بننے کی استعداد تھی ان سے نطفہ بنا اسی طرح نطفہ کی پوشیدہ قوتیں علقہ میں، علقہ کی مضغہ میں، مضغہ کی طفل میں آئیں اور جوانی کے وقت ان کا پورا ظہور ہوا۔ یا زمین کی پوشیدہ قوتیں بارش کا چھینٹا پڑنے سے ظہور پذیر ہوئیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ انسان میں سعادت و شقاوت کی جو روحانی قوتیں ودیعت کی گئیں یا نیکی اور بدی میں پھولنے پھلنے کی جو زبردست استعداد رکھی ہے وہ اپنے پورے شباب کو پہنچے اور کامل ترین اشکال و صورتیں ظاہر ہوں۔ اس کا نام بعث بعد الموت ہے جو دنیا کی زندگی کا موجودہ دور ختم کرنے کے بعد وقوع پذیر ہو گا۔

۸۔۔۔  یعنی ایسے واضح دلائل و شواہد سننے کے بعد بھی بعض کجرو اور ضدی لوگ اللہ کی باتوں میں یوں ہی بے سند جھگڑے کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی علم ضروری ہے، نہ دلیل عقلی، نہ دلیل سمعی، محض اوہام و ظنون کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

۹۔۔۔  ۱: یعنی اعراض و تکبر کے ساتھ۔

۲:  یعنی جو شخص بدون حجت و دلیل محض عناد سے خدا کی باتوں میں جھگڑتا ہے اور غرض یہ ہو کہ دوسرے لوگوں کو ایمان و یقین کی راہ سے ہٹا دے اس کو دنیا میں خدا تعالیٰ ذلیل کرے گا اور آخرت کا عذاب رہا سو الگ۔

۳:  یعنی جب سزا دیں گے تو کہا جائے گا کہ خدا کی طرف سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں۔ تیرے ہاتھوں کی کرتوت ہے۔ جس کا مزہ آج چکھ رہا ہے۔

۱۱۔۔۔  یعنی بعض آدمی محض دنیا کی غرض سے دین کو اختیار کرتا ہے اور اس کا دل مذبذب رہتا ہے۔ اگر دین میں داخل ہو کر دنیا کی بھلائی دیکھے، بظاہر بندگی پر قائم رہے اور تکلیف پائے تو چھوڑ دے، اُدھر دنیا گئی اِدھر دین گیا، کنارے پر کھڑا ہے۔ یعنی دل ابھی اس طرف ہے نہ اس طرف، جیسا کوئی مکان کے کنارے کھڑا ہو جب چاہے نکل بھاگے۔

۱۲۔۔۔  یعنی خدا کی بندگی چھوڑی، دنیا کی بھلائی نہ ملنے کی وجہ سے اب پکارتا ہے ان چیزوں کو جن کے اختیار میں نہ ذرہ برابر بھلائی ہے نہ برائی۔ کیا خدا نے جو چیز نہیں دی تھی وہ پتھروں سے حاصل کرے گا؟ اس سے بڑھ کر کھلی حماقت کیا ہوں گی۔

۱۳۔۔۔  ۱: یعنی بتوں سے نفع کی تو امید موہوم ہے (بت پرستوں کے زعم کے موافق) لیکن ان کو پوجنے کا جو ضرر ہے وہ قطعی اور یقینی ہے اس لیے فائدہ کا سوال تو بعد کو دیکھا جائے گا، نقصان ابھی ہاتھوں ہاتھ پہنچ گیا۔

۲:  جب قیامت میں بت پرستی کے نتائج سامنے آئیں گے تو بت پرست بھی یہ کہیں گے "لَبِئْسَ الْمَوْلیٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ" یعنی جن سے بڑی امداد و رفاقت کی توقع تھی وہ بہت ہی برے رفیق اور مددگار ثابت ہوئے کہ نفع تو کیا پہنچاتے الٹا ان کے سبب سے نقصان پہنچ گیا۔

۱۴۔۔۔  ۱: منکرین مجادلین اور مذبذبین کے بعد یہاں مومنین مخلصین کا انجام نیک بیان فرمایا۔

 ۲:  جس کو مناسب جانے سزا دے اور جس پر چاہے انعام فرمائے۔ اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔

۱ ۵۔۔۔  ۱: "لَنْ یَّنْصُرَہُ" میں ضمیر مفعول نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف راجع ہے جن کا تصور قرآن پڑھنے والے کے ذہن میں گویا ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ کیونکہ آپ ہی قرآن کے اولین مخاطب ہیں۔ گویا مومنین کا انجام ذکر کرنے کے بعد یہ انکے پیغمبر کے مستقبل کا بیان ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے رسول سے دنیاوی اور اخروی فتح و نصرت کے جو وعدے کر چکا ہے وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے، خواہ کفار و حاسدین کتنا ہی غیظ کھائیں اور نصرتِ ربانی کے روکنے کی کیسی ہی تدبیریں کر لیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نصرت و کامیابی کسی طرح رک نہیں سکتی یقیناً آ کر رہے گی۔ اگر ان کفار و حاسدین کو اس پر زیادہ غصہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کوشش سے خدا کی مشیت کو روک سکیں گے تو اپنی انتہائی کوشش صرف کر کے دیکھ لیں، حتی کہ ایک رسی اوپر چھت میں لٹکا کر گلے میں ڈال لیں اور خود پھانسی لے کر غیظ سے مر جائیں، یا ہو سکتا ہو تو آسمان میں رسی تان کر اوپر چڑھیں اور وہاں سے آسمانی امداد کو منقطع کر آئیں، پھر دیکھیں کہ ان تدبیروں سے وہ چیز آنی بند ہو جاتی ہے۔ جس پر انہیں اس قدر غصہ اور پیچ و تاب ہے۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے لیکن حضرت شاہ صاحب نے آیت کو "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلیٰ حَرْفٍ" الخ کے مضمون سے مربوط کر کے نہایت لطیف تقریر فرمائی ہے۔ ان کے نزدیک "مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ الخ" میں ضمیر مفعول "من" کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تکلیف میں جو کوئی خدا سے نا امید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزیں پوجنے لگے وہ اپنے دل کے ٹھہرانے کو یہ قیاس کر لے جیسے ایک شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے، اگر چڑھ نہیں سکتا توقع تو ہے کہ رسی اوپر کھینچے تو چڑھ جائے۔ جب رسی توڑ دی تو کیا توقع رہی، کیا خدا کی رحمت سے نا امید ہو کر کامیابی حاصل کر سکے گا؟ گویا "رسی" کہا اللہ کی امید کو، اس کا کاٹ دینا نا امید ہو جانا اور آسمان سے مراد بلندی ہے۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی کیسی صاف صاف مثالیں اور کھلی باتیں ہیں۔ مگر سمجھتا وہ ہی ہے جسے خدا سمجھ دے۔

۱۷۔۔۔  ۱: مجوس آگ پوجتے ہیں اور دو خالق مانتے ہیں ایک خیر کا خالق جس کا نام "یزدان" ہے دوسرا شر کا جس کو "اہرمن" کہتے ہیں اور کسی نبی کا نام بھی لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ پیچھے بگڑے ہیں یا سرے سے غلط ہیں۔ شہر ستانی نے "ملل و نحل" میں ان کے مذہب پر جو کلام کیا ہے اسے دیکھا جائے "صابئین" وغیرہ کا ذکر پہلے گزر چکا۔

۲:  یعنی تمام مذاہب و فرق کے نزاعات کا عملی اور دو ٹوک فیصلہ حق تعالیٰ کی بارگاہ سے قیامت کے دن ہو گا۔ سب جدا کر کے اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچا دئیے جائیں گے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کس مقام یا کس سزا کا مستحق ہے۔

۱۸۔۔۔  ۱: ایک سجدہ ہے جس میں آسمان و زمین کی ہر ایک مخلوق شامل ہے وہ یہ کہ اللہ کی قدرت کے آگے تکویناً سب مطیع و منقاد اور عاجز و بے بس ہیں خواہی نخواہی سب کو اس کے سامنے گردن ڈالنا اور سر جھکانا پڑتا ہے۔ دوسرا سجدہ ہے  ہر چیز کا جدا۔ وہ یہ کہ جس چیز کو جس کام کے لیے بنایا اس کام میں لگے، یہ بہت آدمی کرتے ہیں بہت نہیں کرتے۔ مگر آدمیوں کو چھوڑ کر اور ساری خلقت کرتی ہے۔ بناء ً علیہ اِنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ الخ میں  ہر چیز کا اپنی شان کے لائق سجدہ مراد ہو گا یا "مَنْ فِیْ الْاَرْضِ" کے بعد دوسرا "یَسْجُدُ" مقدر نکالا جائے گا (تنبیہ) پہلی آیت سے ربط یہ ہوا کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں حالانکہ دوسری تمام مخلوق خدا کی مطیع و منقاد ہے۔ انسان جو ساری مخلوق سے زائد عاقل ہے، چاہیے تھا کہ اس کے کل افراد اوروں سے زیادہ متفق ہوتے۔

۲:  یعنی سجدہ سے انکار و اعراض کرنے کی بدولت عذاب کے مستحق ہوئے۔

۳:  یعنی خدا تعالیٰ جس کو اس کی شامت اعمال سے ذلیل کرنا چاہے اسے ذلت کے گڑھے سے نکال کر عزت کے مقام پر کون پہنچا سکتا ہے؟

۱۹۔۔۔  ۱: یعنی پہلے "اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا َوالصَّابِئِیْنَ" الیٰ آخرہ میں جن فرقوں کا ذکر ہوا ان سب کو حق و باطل پر ہونے کی حیثیت سے دو فریق کہہ سکتے ہیں۔ ایک مومنین کا گروہ جو اپنے رب کی سب باتوں کو من و عن تسلیم کرتا اور اس کے احکام کے آگے سر بسجود رہتا ہے۔ دوسرے کفار کا مجمع جس میں یہود، نصاریٰ، مجوس، مشرکین، صابئین وغیرہ ہم سب شامل ہیں۔ جو ربانی ہدایات کو قبول نہیں کرتے اور اس کی اطاعت کے لیے سر نہیں جھکاتے، یہ دونوں فریق دعاوی میں، بحث و مناظرہ میں اور جہاد و قتال کے مواقع میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے ہیں۔ جیسا کہ "بدر" کے میدان مبارزہ میں حضرت علی، حضرت حمزہ اور عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم تین کافروں (عتبہ ابن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ) کے مقابلہ پر نکلے تھے، آگے دونوں فریق کا انجام بتلاتے ہیں۔

۲:  یعنی جس طرح لباس آدمی کے بدن کو ڈھانپ لیتا ہے۔ جہنم کی آگ اسی طرح ان کو محیط ہو گی۔ یا کسی ایسی چیز کے کپڑے پہنائے جائیں گے جو آگ کی گرمی سے بہت سخت اور بہت جلد تپنے والے ہوں۔

۲۱۔۔۔   دوزخیوں کے سر ہتھوڑے سے کچل کر کھولتا ہوا پانی اوپر سے ڈالا جائے گا جو دماغ کے راستہ سے پیٹ میں پہنچے گا جس سے سب انتڑی اوجھڑی کٹ کٹ کر نکل پڑے گی اور بدن کی بالائی سطح کو جب پانی مس کرے گا تو بدن کا چمڑا گل کر گر پڑے گا۔ پھر اصلی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے اور بار بار یہ ہی عمل ہوتا رہے گا۔ "کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَ ہَا لِیُذُوْقُوْا الْعَذَابَ" (نسآء، رکوع۸، آیت:۵۶) اللّٰہم اعذنا من غضبک و عذابک۔

۲۲۔۔۔  یعنی دوزخ میں گُھٹ گُھٹ کر چاہیں گے کہ کہیں کو نکل بھاگیں، آگ کے شعلے ان کو اوپر کی طرف اٹھائیں گے پھر فرشتے آہنی گرز مار کر نیچے دھکیل دیں گے اور کہا جائے گا کہ دائمی عذاب کا مزہ چکھتے رہو جس سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہو گا۔ العیاذ باللہ۔

۲۳۔۔۔  ۱: یعنی بڑی آرائش اور زیب و زینت سے رہیں گے اور ہر ایک عنوان سے تجمل و تنعم کا اظہار ہو گا۔

۲:  پہلے "قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ"میں دوزخیوں کا لباس مذکور ہوا تھا، اس کے بالمقابل یہاں جنتیوں کا پہناوا بیان فرماتے ہیں کہ ان کی پوشاک ریشم کی ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یہ جو فرمایا کہ وہاں گہنا اور وہاں پوشاک۔ معلوم ہوا یہ دونوں (چیزیں مردوں کے لیے) یہاں نہیں۔ اور گہنوں میں سے کنگن اس واسطے کہ غلام کی خدمت پسند آتی ہے تو کڑے ہاتھ میں ڈالتے ہیں۔" (تنبیہ) احادیث میں ہے کہ جو مرد یہاں ریشم کا لباس پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا اگر وہ پہننے والا کافر ہے تب تو ظاہر ہے کہ وہ جنت میں داخل ہی نہ ہو گا کہ جنتیوں کا لباس پہنے۔ ہاں اگر مومن ہے تو شاید کچھ مدت تک اس لباس سے محروم رکھا جائے پھر ابدالآباد تک پہنتا رہے اور اس لا متناہی مدت کے مقابلہ میں یہ قلیل زمانہ غیر معتدبہ سمجھا جائے۔

۲۴۔۔۔  ۱: دنیا میں بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا، قرآن پڑھا، خدا کی تسبیح و تحمید کی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا اور آخرت میں بھی کہ فرشتے ہر طرف سے سلام کریں گے اور جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ستھری باتیں کرتے ہوں گے بک بک جھک جھک نہ ہو گی اور نعمائے جنت پر شکر خداوندی بجا لائیں گے۔ مثلاً کہیں گے "اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْجَنَّۃَ" سورہ فاطر میں ہے "یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا وَّلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ" الآیہ۔ اس سے آیت حاضرہ کی تفسیر ہوتی ہے۔ نبہ علیہ فی الروح۔

۲: یعنی اللہ کی راہ پائی جس کا نام اسلام ہے یہ راہ خود بھی حمید ہے اور راہ والا بھی حمید ہے۔ یا راہ پائی اس جگہ کی جہاں پہنچ کر آدمی کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے۔

۲ ۵۔۔۔  ۱: پہلے "ہٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا" الخ میں مومنین اور کفار کے اختصام (جھگڑے) کا ذکر تھا۔ اس اختصام کی بعض صورتوں کو یہاں بیان فرمایا ہے۔ یعنی ایک وہ لوگ ہیں جو خود گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں سے مزاحم ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کوئی شخص اللہ کے راستہ پر نہ چلے۔ حتی کہ جو مسلمان اپنے پیغمبر کی معیت میں عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ معظمہ جا رہے تھے ان کا راستہ روک دیا۔ حالانکہ مسجد حرام (یا حرم شریف کا وہ حصہ جس سے لوگوں کی عبادات و مناسک کا تعلق ہے) سب کے لیے یکساں ہے۔ جہاں مقیم و مسافر اور شہری و پردیسی کو ٹھہرنے اور عبادت کرنے کے مساویانہ حقوق حاصل ہیں۔ ہاں وہاں سے نکالے جانے کے قابل اگر ہیں تو وہ لوگ جو شرک اور شرارتیں کر کے اس بقعہ مبارکہ کی بے تعظیمی کرتے ہیں۔ (تنبیہ) بیوت مکہ کی ملکیت اور بیع و شراء وغیرہ کا مسئلہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی کافی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں کی گئی ہے۔ یہاں اس کے بیان کا موقع نہیں۔

۲: یعنی جو شخص حرم شریف میں جان بوجھ کر بالارادہ بے دینی اور شرارت کی کوئی بات کرے گا اس کو اس سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی جو دوسری جگہ ایسا کام کرنے پر ملتی ہے۔ اسی سے ان کا حال معلوم کر لو جو ظلم و شرارت سے مومنین کو یہاں آنے سے روکتے ہیں۔

۲۶۔۔۔  ۱: کہتے ہیں کعبہ شریف کی جگہ پہلے سے بزرگ تھی، پھر مدتوں کے بعد نشان نہ رہا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بیت اللہ تعمیر کرو۔ اس معظم جگہ کا نشان دکھلایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ (تنبیہ) "مسجد حرام" کا ذکر پہلے آیا تھا اس کی مناسبت سے کعبہ کی بناء کا حال اور اس کے متعلق بعض احکام دور تک بیان کیے گئے ہیں۔

۲: یعنی اس گھر کی بنیاد خالص توحید پر رکھو، کوئی شخص یہاں آ کر اللہ کی عبادت کے سوا کوئی مشرکانہ رسوم نہ بجا لائے۔ کفار مکہ نے اس پر ایسا عمل کیا کہ وہاں تین سو ساٹھ بت لا کر کھڑے کر دیئے۔ العیاذ باللہ جن کی گندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا کے گھر کو پاک کیا۔ فللّٰہ الحمد والمنہ۔

۳:  یعنی خالص ان ہی لوگوں کے لیے رہے اور سب سے پاک کیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "پہلی امتوں میں رکوع نہ تھا یہ خاص اسی امت محمدیہ کی نماز میں ہے۔ تو خبر دی کہ آگے لوگ ہوں گے اس کے آباد کرنے والے "وفیہ نظر فتامل

۲۷۔۔۔   جب کعبہ تعمیر ہو گیا تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پکارا کہ لوگو! تم پر اللہ نے حج فرض کیا ہے حج کو آؤ۔ حق تعالیٰ نے یہ آواز ہر طرف ہر ایک روح کو پہنچا دی (بلا تشبیہ جیسے آجکل ہم امریکہ یا ہندوستان میں بیٹھ کر لندن کی آوازیں سن لیتے ہیں) جس کے لیے حج مقدر تھا اس کی روح نے لبیک کہا۔ وہ ہی شوق کی دبی ہوئی چنگاری ہے کہ ہزاروں آدمی پا پیادہ تکلیفیں اٹھاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں اور بہت سے اتنی دور سے سوار ہو کر آتے ہیں کہ چلتے چلتے اونٹنیاں تھک جاتی اور دبلی ہو جاتی ہیں، بلکہ عموماً حاجیوں کو عمدہ سانڈنیاں کہاں ملتی ہیں ان ہی سوکھے دبلے اونٹوں پر منزلیں قطع کرتے ہیں۔ یہ گویا اس دعا کی مقبولیت کا اثر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی "فَاجَعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْہِمْ" (ابراہیم، رکوع۶، آیت:۳۷)

۲۸۔۔۔  ۱: اصل مقصد تو دینی و اخروی فوائد کی تحصیل ہے مثلاً حج و عمرہ اور دوسری عبادات کے ذریعہ حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا اور روحانی ترقیات کے بلند مقامات پر فائز ہونا۔ لیکن اس عظیم الشان اجتماع کے ضمن میں بہت سے سیاسی، تمدنی اور اقتصادی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کما لایخفی۔

۲:  "ایام معلومات" سے بعض کے نزدیک ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور بعض کے نزدیک تین دن قربانی کے مراد ہیں۔ بہرحال ان ایام میں ذکر اللہ کی بڑی فضیلت آتی ہے۔ اسی ذکر کے تحت میں خصوصیت کے ساتھ یہ بھی داخل ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا جائے اور بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا جائے۔ ان دنوں میں بہترین عمل یہ ہی ہے اللہ کے نام پر ذبح کرنا۔

۳:  بعض کفار کا خیال تھا کہ قربانی کا گوشت خود قربانی کرنے والے کو نہ کھانا چاہیے۔ اس کی اصلاح فرما دی کہ شوق سے کھاؤ، دوستوں کو دو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو کھلاؤ۔

۲۹۔۔۔  جہاں سے لبیک شروع کرتے ہیں حجامت نہیں بنواتے، ناخن نہیں لیتے، بالوں میں تیل نہیں ڈالتے، بدن پر میل اور گرد و غبار چڑھ جاتا ہے زیادہ مل دَل کر غسل نہیں کرتے۔ ایک عجیب عاشقانہ و مستانہ حالت ہوتی ہے، اب دسویں تاریخ کو سب قصے تمام کرتے ہیں، حجامت بنوا کر غسل کر کے سلے ہوئے کپڑے پہن کر طواف زیارت کو جاتے ہیں، جس کو ذبح کرنا ہو پہلے ذبح کر لیتا ہے۔ اور اپنی منتیں پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ اپنی مرادوں کے واسطے جو منتیں مانی ہوں ادا کریں۔ اصل منت اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ بعض کے نزدیک "نذور" کے لفظ سے مناسک حج یا واجبات حج مراد ہیں۔ اور یہ ہی اقرب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) "عتیق" کے معنی قدیم پرانے کے ہیں، اور بعض کے نزدیک "بیت عتیق" اس لیے کہا کہ اس گھر کو برباد کرنے کی غرض سے جو طاقت اٹھے گی حق تعالیٰ اس کو کامیاب نہ ہونے دے گا۔ تاآنکہ خود اس کا اٹھا لینا منظور ہو۔

۳۰۔۔۔ ۱:  یعنی حرام چیزوں کو بھاری سمجھ کر چھوڑ دینا یا اللہ نے جن چیزوں کو محترم قرار دیا ہے ان کا ادب و تعظیم قائم رکھنا بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے جس کا انجام نہایت اچھا ہو گا۔ محترم چیزوں میں قربانی کا جانور، بیت اللہ، صفا مروہ، منیٰ، عرفات، مسجدیں، قرآن، بلکہ تمام احکام الٰہیہ آ جاتے ہیں۔ خصوصیت سے یہاں مسجد حرام اور ہدی کے جانور کی تعظیم پر زور دینا ہے کہ خدائے واحد کے پرستاروں کو وہاں آنے سے نہ روکیں نہ قربانی کے آئے ہوئے جانوروں کو واپس جانے پر مجبور کریں بلکہ قیمتی اور موٹے تازے جانور قربان کریں۔

۲:  یعنی ان کے ذبح کرنے کا حکم تعظیم حرمات اللہ کے خلاف نہیں۔ کیونکہ جس مالک نے ایک چیز کی حرمت بتلائی تھی اسی کی اجازت سے اور اسی کے نام پر وہ قربان کی جاتی ہے۔

۳:  یعنی جن جانوروں کا حرام ہونا وقتاً فوقتاً تم کو سنایا جاتا رہا ہے جیسا کہ سورہ "انعام" میں تفصیلاً گزر چکا وہ حلال نہیں۔

۴:  یعنی جانور اللہ کی مخلوق و مملوک ہیں، اس کی اجازت سے اسی کے نام پر ذبح کیے جا سکتے ہیں اور اسی کے کعبہ کی نیاز ہو سکتے ہیں، جو جانور کسی بت یا دیوی دیوتا کے استھان پر ذبح کیا گیا وہ مردار ہوا۔ ایسی شرکیات اور گندے کاموں سے بچنا ضروری ہے۔

۵:  جھوٹی بات زبان سے نکالنا، جھوٹی شہادت دینا، اللہ کے پیدا کیے ہوئے جانور کو غیر اللہ کے نامزد کر کے ذبح کرنا، کسی چیز کو بلا دلیل شرعی حلال و حرام کہنا، سب"قَوْلَ الزُّوْرِ" میں داخل ہے۔ "قَوْلَ الزُّوْرِ" کی برائی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کو یہاں شرک کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ "وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَاتَعْلَمُوْنَ" (اعراف، رکوع۴، آیت:۳۳) احادیث میں بڑی تاکید و تشدید سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو منع فرمایا ہے۔

۳۱۔۔۔  ۱: یعنی ہر طرف سے ہٹ کر ایک اللہ کے ہو کر رہو۔ تمہارے تمام افعال و نیّات بالکلیہ بلا شرکت غیرے خالص خدا کے لیے ہونے چاہئیں۔

۲:  یہ شرک کی مثال بیان فرمائی، خلاصہ یہ ہے کہ توحید نہایت اعلیٰ اور بلند مقام ہے۔ اس کو چھوڑ کر جب آدمی کسی مخلوق کے سامنے جھکتا ہے تو خود اپنے کو ذلیل کرتا اور آسمانِ توحید کی بلندی سے پستی کی طرف گراتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر اونچے سے گر کر زندہ بچ نہیں سکتا۔ اب یا تو اہواء و افکار ردیہ کے مردار خوار جانور چاروں طرف سے اس کی بوٹیاں نوچ کر کھائیں گے یا شیطان لعین ایک تیز ہوا کے جھکڑ کی طرح اس کو اڑا لے جائے گا اور ایسے گہرے کھڈ میں پھینکے گا جہاں کوئی ہڈی پسلی نظر نہ آئے۔ یا یوں کہو کہ مثال میں دو قسم کے مشرکوں کا الگ الگ حال بیان ہوا ہے۔ جو مشرک اپنے شرک میں پوری طرح پکا نہیں مذبذب ہے کبھی ایک طرف جھک جاتا ہے کبھی دوسری طرف، وہ "فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ" کا، اور جو مشرک اپنے شرک میں پوری طرح پکا اٹل ہو، وہ "تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ" کا مصداق ہے یا تَخْطَفُہُ الطَّیْرُ سے مراد لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ سے طبعی موت مرنا مراد ہو، اکثر مفسرین نے وجہ تشبیہ کے بیان میں اسی طرح کے احتمالات ذکر کیے ہیں۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جس کی نیت ایک اللہ پر ہے وہ قائم ہے اور جہاں نیت بہت طرف گئی وہ سب اس کو (پریشان کر کے) راہ میں سے اچک لیں گی۔ یا سب سے منکر ہو کر دَہری ہو جائے گا۔

۳۲۔۔۔  یعنی شعائر اللہ کی تعظیم شرک میں داخل نہیں۔ جس کے دل میں پرہیزگاری کا مضمون اور خدائے واحد کا ڈر ہو گا وہ اس کے نام لگی چیزوں کا ادب ضرور کرے گا۔ یہ ادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید کے آثار میں سے ہے کہ خدا کا عاشق ہر اس چیز کی قدر کرتا ہے جو بالخصوص اس کی طرف منسوب ہو جائے۔

۳۳۔۔۔   قدیم گھر بیت اللہ شریف ہے اور یہاں شاید توسعًا سارا حرم مراد ہو، یعنی اونٹ، گائے، بکری وغیرہ سے تم بہت فوائد حاصل کر سکتے ہو۔ مثلاً سواری کرو، دودھ پیو، نسل چلاؤ، اُون وغیرہ کو کام میں لاؤ، مگر یہ اس وقت کہ ان کو ہدی نہ بناؤ۔ "ہدی" بننے کے بعد اس قسم کا انتفاع (بدون شدید ترین ضرورت کے) نہیں کر سکتے۔ اب تو اس کا عظیم الشان اخروی فائدہ یہ ہی ہے کہ کعبہ کے پاس لیجا کر خدا تعالیٰ کے نام پر قربان کر دو۔

۳۴۔۔۔  ۱: یعنی اللہ کی نیاز کے طور پر مویشی قربان کرنا ہر دین سماوی میں عبادت قرار دی گئی ہے۔ اگر یہ عبادت غیر اللہ کی نیاز کے طور پر کرو گے تو شرک ہو جائے گا جس سے بہت پرہیز کرنا چاہیے۔ موحد کا کام یہ ہے کہ قربانی اکیلے اسی خدا کے لیے کرے جس کے نام پر قربان کرنے کا تمام شرائع میں حکم رہا ہے۔ اس کے حکم سے باہر نہ ہو۔

۲:  یعنی ان لوگوں کو رضائے الٰہی کی بشارت سنا دیجئے جو صرف اسی ایک خدا کا حکم مانتے ہیں اسی کے سامنے جھکتے ہیں اسی پر ان کا دل جمتا ہے اور اسی کے جلال و جبروت سے ڈرتے رہتے ہیں۔

۳ ۵۔۔۔  ۱: یعنی مصائب و شدائد کو صبر و استقلال سے برداشت کریں، کوئی سختی اٹھا کر راہ حق سے قدم نہ ڈگمگائے۔

۲:  بیت اللہ تک پہنچنے میں بہت مصائب و شدائد پیش آتے ہیں، سفر میں اکثر نمازوں کے فوت ہونے یا قضا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، شاید اسی مناسبت سے ان اوصاف و خصال کا یہاں ذکر فرمایا۔

۳۶۔۔۔  ۱: پہلے مطلق شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم تھا۔ اب تصریحاً بتلا دیا کہ اونٹ وغیرہ قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ جن کی ذوات میں اور جن کو ادب کے ساتھ قربانی کرنے میں تمہارے لیے بہت سی دنیاوی و اخروی بھلائیاں ہیں تو عام ضابطہ کے موافق چاہیے کہ اللہ کا نام پاک لے کر ان کو ذبح کرو۔ بالخصوص اونٹ کے ذبح کا بہترین طریقہ نحر ہے کہ اس کو قبلہ رخ کھڑا کر کے اور ایک ہاتھ داہنا یا بایاں باندھ کر سینہ پر زخم لگائیں جب سارا خون نکل چکا وہ گر پڑا تب ٹکڑے کر کے استعمال کریں اور بہت اونٹ ہوں تو قطار باندھ کر کھڑا کر لیں۔

۲:  یہ محتاج کی دو قسمیں بتلائیں۔ ایک جو صبر سے بیٹھا ہے، سوال نہیں کرتا۔ تھوڑا مل جائے تو اسی پر قناعت کرتا ہے دوسرا جو بے قرار ہو کر سوال کرتا پھرتا ہے کچھ مل جائے تب بھی قرار نہیں۔

۳:  یعنی ایسے بڑے بڑے جانور جو تم سے جثہ میں اور قوت میں کہیں زیادہ ہیں، تمہارے قبضہ میں کر دیے کہ تم ان سے طرح طرح کی خدمات لیتے ہو اور کیسی آسانی سے ذبح کر لیتے ہو۔ یہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ شرک کر کے الٹی ناشکری کرو۔

۳۷۔۔۔  ۱: اس میں قربانی کا اصل فلسفہ بیان فرمایا۔ یعنی جانور کو ذبح کر کے محض گوشت کھانے کھلانے یا اس کا خون گرانے سے تم اللہ کی رضاء کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ نہ گوشت اور خون اٹھ کر اس کی بارگاہ تک پہنچتا ہے اس کے یہاں تو تمہارے دل کا تقویٰ اور ادب پہنچتا ہے کہ کیسی خوش دلی اور جوشِ محبت کے ساتھ ایک قیمتی اور نفیس چیز اس کی اجازت سے اس کے نام پر اس کے بیت کے پاس لے جا کر قربان کی۔ گویا اس قربانی کے ذریعہ سے ظاہر کر دیا کہ ہم خود بھی تیری راہ میں اسی طرح قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ بس یہ ہی وہ تقویٰ ہے جس کا ذکر "وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ" میں کہا گیا تھا۔ اور جس کی بدولت خدا کا عاشق اپنے محبوب حقیقی کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔

۲:  یعنی "بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ لَکَ وَمِنْکَ" کہہ کر ذبح کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اپنی محبت و عبودیت کے اظہار کی کیسی اچھی راہ سجھا دی، اور ایک جانور کی قربانی کو گویا خود تمہاری جان قربان کرنے کے قائم مقام بنا دیا۔

۳۸۔۔۔   ۱: "اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ" الخ میں ان کفار کا ذکر تھا جو مسلمانوں کو حرم شریف کی زیارت اور حج و عمرہ وغیرہ سے روکتے تھے درمیان میں مسجد حرام اور اس کے متعلقات کی تعظیم و ادب کے احکام بیان فرمائے۔ اب پھر مضمون سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی مسلمان مطمئن رہیں اللہ تعالیٰ عنقریب دشمنوں سے ان کا راستہ صاف کر دے گا۔ مسجد حرام تک پہنچنے اور اس کے متعلق احکام کی تعمیل کرنے میں کوئی مخالفانہ رکاوٹ باقی نہ رہے گی۔ بے خوف و خطر حج و عمرہ ادا کریں گے۔ گویا "وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ"میں جو بشارت دینے کا امر تھا اس کا ایک فرد یہ خوشخبری ہوئی۔

۲:  یعنی دغا باز  نا شکر گزاروں کو اگر ایک خاص میعاد تک مہلت دی جائے تو یہ مت خیال کرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خوش آتے ہیں۔ یہ مہلت بعض مصالح اور حکمتوں کی بناء پر ہے۔ آخری انجام یہ ہی ہوتا ہے کہ اہل حق غالب ہوں اور باطل پرستوں کو راستہ سے چھانٹ دیا جائے۔

۳۹۔۔۔  ۱: جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں تھے۔ حکم تھا کہ کفار کی سختیوں پر مسلمان صبر کریں اور ہاتھ روکے رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے کامل تیرہ سال تک سخت زہرہ گداز مظالم کے مقابلہ میں بے مثال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ جب مدینہ "دارالاسلام" بن گیا اور مسلمانوں کی قلیل سی جمعیت ایک مستقل مرکز پر جمع ہو گئی تو مظلوم مسلمانوں کو جن سے کفار برابر لڑتے رہتے تھے اجازت ہوئی بلکہ حکم ہوا کہ ظالموں کے مقابلہ پر تلوار اٹھائیں۔ اور اپنی جماعت اور مذہب کی حفاظت کریں۔ اسی قسم کی کئی آیتیں اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں۔

۲:  یعنی اپنی قلت اور بے سر و سامانی سے نہ گھبرائیں۔ اللہ تعالیٰ مٹھی بھر فاقہ مستوں کو دنیا کی فوجوں اور سلطنتوں پر غالب کر سکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک شہنشاہانہ طرز میں مسلمانوں کی نصرت و امداد کا وعدہ تھا۔ جیسے دنیا میں بادشاہ اور بڑے لوگ وعدہ کے موقع پر اپنی شانِ وقار و استغناء دکھلانے کے لیے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہاں تمہارا فلاں کام ہم کر سکتے ہیں۔ شاید یہ عنوان اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مخاطب سمجھ لے کہ ہم ایسا کرنے میں کسی سے مجبور نہیں ہیں جو کچھ کریں گے اپنی قدرت و اختیار سے کریں گے۔

۴۰۔۔۔  ۱: یعنی مسلمان مہاجرین جو اپنے گھروں سے نکالے گئے ان کا کوئی جرم نہ تھا نہ ان پر کسی کا کوئی دعویٰ تھا، بجز اس کے کہ وہ اکیلے ایک خدا کو اپنا رب کیوں کہتے ہیں۔ اینٹ پتھروں کو کیوں نہیں پوجتے۔ گویا ان پر سب سے بڑا اور سنگین الزام اگر لگایا جا سکتا ہے تو یہ ہی کہ ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کے کیوں ہو رہے۔

۲: یعنی اگر کسی وقت اور کسی حالت میں بھی ایک جماعت کو دوسری سے لڑنے بھڑنے کی اجازت نہ ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی سخت خلاف ورزی ہو گی۔ اس نے دنیا کا نظام ہی ایسا رکھا ہے کہ  ہر چیز یا ہر شخص یا ہر جماعت دوسری چیز یا شخص یا ہر جماعت کے مقابلہ میں اپنی ہستی برقرار رکھنے کے لیے جنگ کرتی رہے اگر ایسا نہ ہوتا اور نیکی کو اللہ تعالیٰ اپنی حمایت میں لے کر بدی کے مقابلہ میں کھڑا نہ کرتا تو نیکی کا نشان زمین پر باقی نہ رہتا۔ بد دین اور شریر لوگ جن کی ہر زمانہ میں کثرت رہی ہے تمام مقدس مقامات اور یادگاریں ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹا دیتے۔ کوئی عبادت گاہ، تکیہ، خانقاہ، مسجد، مدرسہ محفوظ نہ رہ سکتا۔ بناء علیہ ضروری ہوا کہ بدی کی طاقتیں خواہ کتنی ہی مجتمع ہو جائیں قدرت کی طرف سے ایک وقت آئے جب نیکی کے مقدس ہاتھوں سے بدی کے حملوں کی مدافعت کرائی جائے۔ اور حق تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرنے والوں کی خود مدد فرما کر ان کو دشمنانِ حق و صداقت پر غالب کرے بلاشبہ وہ ایسا قوی اور زبردست ہے کہ اس کی اعانت و امداد کے بعد ضعیف سے ضعیف چیز بڑی بڑی طاقتور ہستیوں کو شکست دے سکتی ہے۔ بہرحال اس وقت مسلمانوں کو ظالم کافروں کے مقابلہ میں جہاد و قتال کی اجازت دینا اسی قانونِ قدرت کے ماتحت تھا اور یہ وہ عام قانون ہے جس کا انکار کوئی عقلمند نہیں کر سکتا۔ اگر مدافعت و حفاظت کا یہ قانون نہ ہوتا تو اپنے اپنے زمانہ میں نہ عیسائی راہبوں کے صومعے (کوٹھڑے) قائم رہتے نہ نصاریٰ کے گرجے، نہ یہود کے عبادت خانے نہ مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں اللہ کا ذکر بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ یہ سب عبادت گاہیں گرا کر اور ڈھا کر برابر کر دی جاتیں۔ پس اس عام قانون کے ماتحت کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کو ایک وقت مناسب پر اپنے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔

۴۱۔۔۔  ۱: یہ ان ہی مسلمانوں کا بیان ہے جن پر ظلم ہوئے اور جن کو گھروں سے نکالا گیا۔ یعنی خدا ان کی مدد کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ ایسی قوم ہے کہ اگر ہم اسے زمین کی سلطنت دے دیں تب بھی خدا سے غافل نہ ہوں۔ بذات خود بدنی و مالی نیکیوں میں لگے رہیں۔ اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کو زمین کی حکومت عطاء کی اور جو پیشین گوئی کی تھی حرف بحرف سچی ہوئی۔ فللّٰہ الحمد علیٰ ذالک۔ اس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم خصوصاً مہاجرین اور ان میں اخص خصوص کے طور پر حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی حقانیت اور مقبولیت و منقبت ثابت ہوئی۔

۲:  یعنی گو آج مسلمان کمزور اور کافر غالب و قوی نظر آتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے کہ آخرکار انہیں منصور و غالب کر دے۔ یا یہ مطلب کہ یہ امت خدا کا دین قائم کرے گی ایک مدت تک آخر اللہ ہی جانے کیا ہو گا۔

۴۴۔۔۔  ۱: جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔

۲:  یعنی مصر کے قبطیوں نے۔

۳:  یعنی مسلمانوں کے غلبہ و نصرت کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں، کفار اپنی موجودہ کثرت و قوت کو دیکھتے ہوئے ان کی تکذیب نہ کریں، یہ خدا کی ڈھیل ہے۔ پہلی قوموں نے بھی خدا کی چند روزہ ڈھیل سے دھوکہ کھا کر اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا۔ آخر جب پکڑے گئے تو دیکھ لو ان کا حشر کیسا ہوا۔ اور خدا نے اپنے عذاب سے ڈرا کر ان کی شرارتوں پر جو انکار فرمایا تھا وہ کس طرح سامنے آگیا۔ اگلی آیت میں اسی کی تفصیل ہے۔

۴ ۵۔۔۔   ۱: یعنی بنیادیں ہلنے سے اول چھتیں گر پڑیں پھر دیواریں اور سارا مکان گر کر چھت کے ڈھیر پر آ رہا۔ یہ ان کے تہ و بالا ہونے کا نقشہ کھینچا ہے۔

۲:  یعنی کنویں جن پر پانی کھینچنے والوں کی بھیڑ رہتی تھی۔ آج ان میں کوئی ڈول پھانسنے والا نہ رہا۔ اور بڑے بڑے پختہ، بلند عالیشان، قلعی چونے کے محل ویران کھنڈر بن کر رہ گئے۔ جن میں کوئی بسنے والا نہیں۔

۴۶۔۔۔  ۱: یعنی ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر کبھی غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی سمجھ آ جاتی اور کان کھل جاتے۔

۲:  یعنی آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔ گو اس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں۔ اور حقیقت میں زیادہ خطرناک اندھا پن وہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)

۴۷۔۔۔  ۱: یعنی عذاب اپنے وقت پر یقیناً آ کر رہے گا۔ استہزاء و تکذیب کی راہ سے جلدی مچانا فضول ہے۔

۲: یعنی تمہارے ہزار برس اس کے یہاں ایک دن کے برابر ہیں۔ جیسے مجرم آج اس کے قبضہ میں ہے ہزار برس گزرنے کے بعد بھی اسی طرح اس کے قبضہ و اقتدار کے نیچے ہے۔ کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ یا یہ مطلب کہ ہزار برس کا کام وہ ایک دن میں کر سکتا ہے۔ مگر کرتا وہی ہے جو اس کی حکمت و مصلحت کے موافق ہو۔ کسی کے جلدی مچانے سے وہاں کچھ اثر نہیں ہوتا۔ یا یوں کہا جائے کہ اخروی عذاب کا وعدہ ضرور آ کر رہے گا۔ یعنی قیامت آئے گی اور تم کو پوری سزا ملے گی۔ آگے قیامت کے دن کا بیان ہوا کہ وہ ایک دن اپنی شدت و ہول کے لحاظ سے ہزار سال کے برابر ہو گا پھر ایسی مصیبت کو بلانے کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو۔

۴۸۔۔۔  یعنی کیا ڈھیل دینے سے وہ کہیں نکل کر بھاگ گئیں، آخر سب کو لوٹ کر ہماری ہی طرف آنا پڑا اور ہم نے ان کو پکڑ کر تباہ کر دیا۔

۴۹۔۔۔  یعنی میرا کام آگاہ و ہوشیار کر دینا ہے۔ عذاب کا لے آنا میرے قبضہ میں نہیں خدا ہی کے قبضہ میں ہے کہ سب مطیع و عاصی کا فیصلہ کرے گا اور ہر ایک کو اس کے مناسب حال جگہ پر پہنچائے۔

 ۵۰۔۔۔  یعنی جنت میں میوے پھل اور عمدہ عمدہ الوانِ نعمت اور حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا۔

 ۵۲۔۔۔  آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے اپنے پیشرو حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی روش اختیار فرمائی ہے جس کی طرف حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ' نے بھی "حجۃ اللہ البالغہ" کے آخر میں اشارہ کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب "موضح القرآن" میں لکھتے ہیں "نبی کو ایک حکم (یا ایک خبر) اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ اس میں ہرگز ذرہ بھر تفاوت نہیں ہو سکتا۔ اور ایک اپنے دل کا خیال (اور رائے کا اجتہاد) وہ کبھی ٹھیک پڑتا ہے کبھی نہیں۔ جیسے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں دیکھا (اور نبی کا خواب وحی ہوتا ہے) کہ آپ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا۔ خیال میں آیا کہ شاید امسال ایسا ہو گا (چنانچہ عمرہ کی نیت سے سفر شروع کیا لیکن درمیان میں احرام کھولنا پڑا) اور اگلے سال خواب کی تعبیر پوری ہوئی یا وعدہ ہوا کہ کافروں پر غلبہ ہو گا۔ خیال آیا کہ اب کی لڑائی میں۔ اس میں نہ ہوا، بعد کو ہوا۔ پھر اللہ جتلا دیتا ہے کہ جتنا حکم یا وعدہ تھا اس میں سر مو تفاوت نہیں۔" ہاں نبی کے ذاتی خیال و اجتہاد میں تفاوت ہو سکتا ہے۔ گو نبی اصل پیشین گوئی کے ساتھ ملا کر اپنے ذاتی خیال کی اشاعت نہیں کرتا بلکہ دونوں کو الگ رکھتا ہے۔ باقی اس صورت میں "القاء" کی نسبت شیطان کی طرف ویسی ہو گی جیسے "وَمَا اَنْسَانِیْہُ اِلَّاالشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ" میں "انساء" کی نسبت اس کی طرف کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ احقر کے نزدیک بہترین اور سہل ترین تفسیر وہ ہے جس کی مختصر اصل سلف سے منقول ہے۔ یعنی "تمنّیٰ" کو بمعنی قرأت و تلاوت یا تحدیث کے اور "اُمْنِیَّتْ" کو بمعنی متلو یا حدیث کے لیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ قدیم سے یہ عادت رہی ہے کہ جب کوئی نبی یا رسول کوئی بات بیان کرتا یا اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ شیطان اس بیان کی ہوئی بات یا آیت میں طرح طرح کے شبہات ڈال دیتا ہے۔ یعنی بعض باتوں کے متعلق بہت لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے۔ مثلاً نبی نے آیت "حُرِّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ" الخ پڑھ کر سنائی، شیطان نے شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا تو حلال اور اللہ کا مارا ہوا حرام کہتے ہیں۔ یا آپ نے "اِنَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ" پڑھا۔ اس نے شبہ ڈالا کہ "مَاتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ" میں حضرت مسیح و عزیر اور ملائکۃ اللہ بھی شامل ہیں۔ یا آپ نے حضرت مسیح کے متعلق پڑھا "کَلِمَتُہٗ اَلْقَاہَآ اِلیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ" شیطان نے سجھایا کہ اس سے حضرت مسیح کی ابنیت و الوہیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لقاء شیطانی کے ابطال و ردّ میں پیغمبر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی وہ آیات سناتے ہیں جو بالکل صاف اور محکم ہوں اور ایسی پکی باتیں بتلاتے ہیں جن کو سن کر شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہ رہے۔ گویا "متشابہات" کی ظاہری سطح کو لے کر شیطان جو اغواء کرتا ہے "آیات محکمات" اس کی جڑ کاٹ دیتی ہیں جنہیں سن کر تمام شکوک و شبہات ایک دم کافور ہو جاتے ہیں۔ یہ دو قسم کی آیتیں کیوں اتاری جاتی ہیں؟ شیاطین کو اتنی وسوسہ اندازی اور تصرف کا موقع کیوں دیا جاتا ہے؟ اور آیات کا جو اِحکام بعد کو کیا جاتا ہے ابتداء ہی سے کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ یہ سب امور حق تعالیٰ کی غیر محدود علم و حکمت سے ناشی ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو علماً و عملاً دار امتحان بنایا ہے۔ چنانچہ اس قسم کی کارروائی میں بندوں کی جانچ ہے کہ کون شخص اپنے دل کی بیماری یا سختی کی وجہ سے پادر ہوا شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور کون سمجھ دار آدمی اپنے علم و تحقیق کی قوت سے ایمان و جَنّات کے مقام بلند پر پہنچ کر دم لیتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ آدمی نیک نیتی اور ایمانداری سے سمجھنا چاہے تو اللہ تعالیٰ دستگیری فرما کر اس کو سیدھی راہ پر قائم فرما دیتے ہیں۔ رہے منکرین و مشککین ان کو قیامت تک اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا۔ "ہرچہ گیرد علتی علت شود"۔ ہماری اس تقریر میں دور تک کئی آیتوں کا مطلب بیان ہو گیا۔ سمجھ دار آدمی اس کے اجزاء کو آیات کے اجزاء پر بے تکلف منطبق کر سکتا ہے یہ آیات جیسا کہ ہم نے سورہ "آل عمران" کے شروع میں بیان کیا تھا۔ "ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ ایٰٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ الخ" سے بہت مشابہ ہیں۔ "اِلَّا اِذَا تَمَنّیٰ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِہٖ الخ" میں متشابہات کا اور "ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ ایٰتِہٖ" میں "محکمات" کا ذکر ہوا۔ اور "لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَّیطٰنُ فِتْنَۃً"الخ میں زاغین کی دو قسمیں مذکور ہوئیں۔ جن میں اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ کا کام ابتغاء تاویل، اور اَلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ کی غرض ابتغاء فتنہ ہے۔ آگے وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ الخ کو آیت وَالرّٰسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ الخ کی جگہ سمجھو اور وہاں جو دعاء رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِ ذْ ہَدَیْتَنَا سے کی تھی یہاں اس کی اجابت کا ذکر وَاِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ میں کیا گیا اور رَبَّنَا اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّارَیْبَ فِیْہِ کے مناسب "وَلَایَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّیٰ تَاْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ الیٰ قولہ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ" ہوئی۔ (تنبیہ) آیت حاضرہ کے تحت مفسرین نے جو قصہ غرانیق کا ذکر کیا ہے اس پر بحث کا یہاں موقع نہیں۔ شاید سورہ نجم میں کچھ لکھنے کی نوبت آئے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بہت بسط سے اس پر کلام کیا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب سلف کی تفسیر کے موافق بالکل صاف ہے گویا یہ تفصیل اس کی ہوئی جو اوپر وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ ایٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ میں ابطالِ آیات اللہ کی سعی کا ذکر تھا۔

۵۴۔۔۔  "موضح القرآن" میں ہے۔ "یعنی اس میں گمراہ بہکتے ہیں سو ان کا کام ہے بہکنا، اور ایمان والے اور زیادہ مضبوط ہوتے ہیں کہ اس کلام میں بندہ کا دخل نہیں۔ اگر ہوتا تو یہ بھی بندہ کے خیال کی طرح کبھی صحیح کبھی غلط نکلتا۔ اور جس کی نیت اعتقاد پر ہو۔ اللہ اس کو یہ بات سمجھاتا ہے۔ "حضرت شاہ صاحب نے یہ فائدہ اپنے مذاق کے موافق لکھا ہے۔ ہمارا جو خیال ہے اس کی تقریر گذشتہ فائدہ میں گزر چکی۔ واللہ اعلم۔

 ۵ ۵۔۔۔  یعنی نفس قیامت کا ہولناک حادثہ اچانک آ پہنچے یا اسی قیامت کے دن کا عذاب مراد ہو۔ یعنی دنیا ہی میں سزا مل جائے جس سے کوئی رستگاری کی شکل نہیں۔

 ۵۶۔۔۔  یعنی قیامت کے دن اکیلے خدا کی بادشاہت کام کرے گی۔ کسی کی ظاہری و مجازی حکومت برائے نام بھی باقی نہ رہے گی۔ اس وقت سب دنیا کا بیک وقت عملی فیصلہ ہو جائے گا۔ جس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔

 ۵۹۔۔۔  مومنین کا انجام پہلے بتلایا تھا، یہاں ان میں سے ایک ممتاز جماعت کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ یعنی جو لوگ خدا کے راستہ میں گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے خواہ وہ لڑائی میں شہید ہوں یا طبعی موت سے مریں دونوں صورتوں میں اللہ کے ہاں ان کی خاص مہمانی ہو گی۔ کھانا پینا، رہنا سہنا سب ان کی مرضی کے موافق ہو گا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس چیز سے راضی ہوں گے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کن لوگوں نے خالص اس کے راستہ میں اپنا گھر بار ترک کیا ہے۔ ایسے مہاجرین و مجاہدین کی فرو گزاشتوں پر حق تعالیٰ تحمل کرے گا۔ اور شانِ عفو سے کام لے گا یا "علیم" و "حلیم" کی صفات اس غرض سے ذکر کیں کہ اللہ سب کو جانتا ہے ان کو بھی جنہوں نے ایسے مخلص بندوں کو تکلیفیں دے کر گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لیکن اپنی بردباری کی وجہ سے فوراً سزا نہیں دیتا۔

۶۰۔۔۔  ۱: یعنی مظلوم اگر ظالم سے واجبی بدلہ لے لے۔ پھر ازسر نو ظالم اس پر زیادتی کرے تو وہ پھر مظلوم ٹھہر گیا۔ حق تعالیٰ پھر مدد کرے گا جیسا کہ اس کی عادت ہے کہ مظلوم کی آخر حمایت کرتا ہے۔ وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ۔

بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کرد

ناجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید

۲:  یعنی بندوں کو بھی چاہیے کہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت سیکھیں۔ ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی واجبی بدلہ لینے والے کو خدا عذاب نہیں کرتا اگرچہ بدلہ نہ لینا بہتر تھا "بدر" کی لڑائی میں مسلمانوں نے بدلہ لیا کافروں کی ایذا کا۔ "احد" و "احزاب" میں زیادتی کرنے کو آئے۔ پھر اللہ نے پوری مدد کی۔

۶۱۔۔۔  ۱: یعنی وہ اتنی بڑی قدرت والا ہے کہ رات دن کا الٹ پلٹ کر اور گھٹانا بڑھانا اسی کے ہاتھ میں ہے اسی کے تصرف سے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں۔ پھر کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ایک مظلوم قوم یا شخص کو امداد دے کر ظالموں کے پنجہ سے نکال دے بلکہ ان پر غالب و مسلط کر دے۔ پہلے مسلمان مہاجرین کا ذکر تھا اس آیت میں اشارہ فرما دیا کہ عنقریب حالات رات دن کی طرح پلٹا کھانے والے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو دن میں لے لیتا ہے اسی طرح کفر کی سرزمین کو اسلام کی آغوش میں داخل کر دے گا۔

۲: یعنی مظلوم کی فریاد سنتا اور ظالم کے کرتوت دیکھتا ہے۔

۶۲۔۔۔  یعنی اللہ کے سوا ایسے عظیم الشان انقلابات اور کس سے ہو سکتے ہیں۔ واقع میں صحیح اور سچا خدا تو وہ ہی ایک ہے باقی اس کو چھوڑ کر خدائی کے جو دوسرے پاکھنڈ پھیلائے گئے ہیں سب غلط جھوٹ اور باطل ہیں۔ اسی کو خدا کہنا اور معبود بنانا چاہیے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑا ہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے۔

۶۳۔۔۔  ۱: اسی طرح کفر کی خشک و ویران زمین کو اسلام کی بارش سے سبزہ زار بنا دے گا۔

۲:  وہ ہی جانتا ہے کہ کس طرح بارش کے پانی سے سبزہ اُگ آتا ہے۔ قدرت اندر ہی اندر ایسی تدبیر و تصرف کرتی ہے کہ خشک زمین پانی وغیرہ کے اجزاء کو اپنے اندر جذب کر کے سرسبز و شاداب ہو جائے اسی طرح وہ اپنی مہربانی، لطیف تدبیر و تربیت، اور کمال خبرداری و آگاہی سے قلوب بنی آدم کو فیوض اسلام کا مینہ برسا کر سرسبز و شاداب بنا دے گا۔

۶۴۔۔۔  یعنی آسمان و زمین کی تمام چیزیں جب اسی کی مملوک و مخلوق ہیں اور سب کو اس کی احتیاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں تو ان میں جس طرح چاہے تصرف اور ادل بدل کرے، کوئی مانع و مزاحم نہیں ہو سکتا۔ البتہ باوجود غنائے نام اور اقتدارِ کامل کے کرتا وہ ہی ہے جو سراپا حکمت و مصلحت ہو۔ اس کے تمام افعال محمود ہیں اور اس کی ذات تمام خوبیوں اور صفاتِ حمیدہ کی جامع ہے۔

۶ ۵۔۔۔  یعنی اس کو تمہاری یا کسی کی کیا پروا تھی۔ محض شفقت و مہربانی دیکھو کہ کس طرح خشکی اور تری کی چیزوں کو تمہارے قابو میں کر دیا۔ پھر اسی نے اپنے دست قدرت سے آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کو اس فضائے ہوائی میں بدون کسی ظاہری کھمبے یا ستون کے تھام رکھا ہے جو اپنی جگہ سے نیچے نہیں سرکتے۔ ورنہ گر کر اور ٹکرا کر تمہاری زمین کو پاش پاش کر دیتے۔ جب تک اس کا حکم نہ ہو یہ کرات یوں ہی اپنی جگہ قائم رہیں گے مجال نہیں کہ ایک انچ سرک جائیں۔ "اِلَّابِاِذْنِہِ" کا استثناء محض اثبات قدرت کی تاکید کے لیے ہے۔ یا شاید قیامت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔

۶۶۔۔۔   ۱: اسی طرح کفر و جہل سے جو قوم روحانی موت مر چکی تھی، ایمان و معرفت کی روح سے اس کو زندہ کر دے گا۔

۲:  یعنی اتنے احسانات و انعامات دیکھ کر بھی اس کا حق نہیں مانتا منعم حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکنے لگتا ہے۔

۶۹۔۔۔  تمام انبیاء اصولِ دین میں متفق رہے ہیں۔ البتہ ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندگی کی صورتیں مختلف زمانوں میں مختلف مقرر کی ہیں۔ جن کے موافق وہ امتیں خدا کی عبادت بجا لاتی رہیں۔ اس امت محمدی کے لیے بھی ایک خاص شریعت بھیجی گئی لیکن اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا۔ بجز اللہ کے کبھی کسی دوسری چیز کی عبادت مقرر نہیں کی گئی۔ اس سے توحید وغیرہ کے ان متفق علیہ کاموں میں جھگڑا کرنا کسی کو کسی حال زیبا نہیں۔ جب ایسی کھلی ہوئی چیز میں بھی حجتیں نکالی جائیں تو آپ کچھ پروا نہ کریں۔ آپ جس سیدھی راہ پر قائم ہیں لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیے۔ اور خواہ مخواہ کے جھگڑے نکالنے والوں کا معاملہ خدائے واحد کے سپرد کیجئے۔ وہ خود ان کی تمام حرکات سے واقف ہے۔ قیامت کے دن ان کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا عملی فیصلہ کر دے گا۔ آپ دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے ان کی فکر میں زیادہ درد سری نہ اٹھائیں۔ ایسے ضدی معاندین کا علاج خدا کے پاس ہے (تنبیہ) "فَلَایُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْاَمْرِ" کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہر اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جداگانہ دستور العمل مقرر کیا ہے، پھر اس پیغمبر کی اُمت کے لیے نئی شریعت آئی تو جھگڑنے کی کیا بات ہے۔ بعض مفسرین نے "مَنْسَک" کے معنی ذبح و قربانی کے لیے ہیں، مگر اقرب وہ ہی ہے جو مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے اختیار فرمایا۔ واللہ اعلم۔

۷۰۔۔۔  یعنی کچھ ان کے اعمال پر منحصر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا علم تو زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو محیط ہے اور بعض مصالح اور حکمتوں کی بناء پر اسی علم کے موافق تمام واقعات " لوح محفوظ" میں اور بنی آدم کے تمام اعمال ان کے اعمالناموں میں لکھ بھی دیے گئے ہیں۔ اس کے موافق قیامت کے دن فیصلہ ہو گا۔ اور اتنی بے شمار چیزوں کا ٹھیک ٹھیک جاننا اور لکھ دینا اور اسی کے مطابق ہر ایک کا فیصلہ کرنا، ان میں سے کوئی بات اللہ کے ہاں مشکل نہیں، جس میں کچھ تکلیف یا دقت اٹھانی پڑے۔

۷۱۔۔۔  ۱: محض باپ دادوں کی کورانہ تقلید میں ایسا کرتے ہیں، کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہیں رکھتے۔

۲:  سب سے بڑا ظلم اور بے انصافی یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے۔ سو ایسے ظالم اور بے انصاف لوگ خوب یاد رکھیں کہ ان کے شرکاء مصیبت پڑنے پر کچھ کام نہ آئیں گے نہ اور کوئی اس وقت مدد کر سکے گا۔

۷۲۔۔۔  ۱: یعنی قرآن کی آیتیں (جو توحید وغیرہ کے صاف بیانات پر مشتمل ہیں) سن کر کفار و مشرکین کے چہرے بگڑ جاتے اور مارے نا خوشی کے تیوریاں بدل جاتی ہیں۔ حتی کہ شدتِ غیظ و غضب سے پاگل ہو کر چاہتے ہیں کہ آیات سنانے والوں پر حملہ کر دیں۔ چنانچہ بعض اوقات کر بھی گزرتے ہیں۔

۲:   یعنی تمہارے اس غیظ و غضب اور ناگواری سے بڑھ کر جو آیات اللہ کے پڑھے جانے پر پیدا ہوتی ہے، ایک سخت بری ناگوار چیز اور ہے جس پر کسی طرح صبر ہی نہ کر سکو گے اور وہ دوزخ کی آگ ہے جس کا وعدہ کافروں سے کیا جا چکا ہے۔ دونوں کا موازنہ کر کے فیصلہ کر لو کہ کونسا تلخ گھونٹ پینا تم کو نسبۃً آسان ہو گا۔

۷۳۔۔۔  ۱: یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لیے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غور و فکر سے سمجھنا چاہیے تاکہ ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔

۲:  یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لے جائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السموات والارضین" کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی، حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور مکھی سے زیادہ ان کے بت کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔

۷۴۔۔۔  سمجھتے تو ایسی گستاخی کیوں کرتے۔ کیا اللہ کی شانِ رفیع اور قدرو منزلت اتنی ہے کہ ایسی کمزور چیزوں کو اس کا ہمسر بنا دیا جائے؟ (العیاذ باللہ) اس کی قوت و عزت کے سامنے تو بڑے بڑے مقرب فرشتے اور پیغمبر بھی مجبور و بے بس ہیں۔ آگے ان کا ذکر کیا ہے۔

۷ ۵۔۔۔  ‍۱: یعنی بعض فرشتوں سے پیغامبری کا کام لیتا ہے (مثلاً جبرائیل علیہ السلام) اور بعض انسانوں سے جن کو خدا اس منصب کے لیے انتخاب فرمائے گا۔ ظاہر ہے ان کا درجہ دوسری تمام خلائق سے اعلیٰ ہونا چاہیے۔

۲:  یعنی ان کی تمام باتوں کو اور ان کے ماضی و مستقبل کے تمام احوال کو دیکھتا ہے اس لیے وہ ہی حق رکھتا ہے کہ جس کے احوال و استعداد پر نظر کر کے منصب رسالت پر فائز کرنا چاہیے فائز کر دے۔ "اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ" (انعام، رکوع۱۵، آیت:۱۲۴) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی ساری خلق میں بہتر وہ لوگ ہیں پیغام پہنچانے والے، فرشتوں میں بھی وہ فرشتے اعلیٰ ہیں۔ ان کو (یعنی ان کی ہدایات کو) چھوڑ کر بتوں کو مانتے ہو" کس قدر بے تکی بات ہے۔

۷۶۔۔۔  یعنی وہ بھی اختیار نہیں رکھتے، اختیار  ہر چیز میں اللہ کا ہے (کذا فی الموضح)

۷۷۔۔۔   شرک کی تقبیح اور مشرکین کی تفضیح کے بعد مومنین کو خطاب فرماتے ہیں کہ تم اکیلے اپنے رب کی بندگی پر لگے رہو۔ اسی کے آگے جھکو، اسی کے حضور میں پیشانی ٹیکو، اور اسی کے لیے دوسرے بھلائی کے کام کرو۔ تاکہ دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہو۔

۷۸۔۔۔  ۱: اپنے نفس کو درست رکھنے اور دنیا کو درستی پر لانے کے لیے پوری محنت کرو جو اتنے بڑے اہم مقصد کے شایان شان ہو۔ آخر دنیاوی مقاصد میں کامیابی کیلئے کتنی محنتیں اٹھاتے ہو۔ یہ تو دین کا اور آخرت کی دائمی کامیابی کا راستہ ہے جس میں جس قدر محنت برداشت کی جائے انصافاً تھوڑی ہے (تنبیہ) لفظ "مجاہدہ" میں ہر قسم کی زبانی، قلمی، مالی، بدنی کوشش شامل ہے۔ اور "جہاد" کی تمام قسمیں (جہاد مع النفس، جہاد مع الشیطان، جہاد مع الکفار، جہاد مع البغات، جہاد مع المبطلین) اس کے نیچے مندرج ہیں۔

۲:  کہ سب سے اعلیٰ و افضل پیغمبر دیا اور تمام شرائع سے اکمل شریعت عنایت کی، تمام دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے تم کو چھانٹ لیا اور سب امتوں پر فضیلت بخشی۔

۳:  دین میں کوئی ایسی مشکل نہیں رکھی جس کا اٹھانا کٹھن ہو۔ احکام میں ہر طرح کی رخصتوں اور سہولتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تم خود اپنے اوپر ایک آسان چیز کو مشکل بنا لو۔

۴:  ابراہیم علیہ السلام چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد میں ہیں اس لیے ساری امت کے باپ ہوئے، یا یہ مراد ہو کہ عربوں کے باپ ہیں کیونکہ اولین مخاطب قرآن کے وہ ہی تھے۔

۵:  یعنی اللہ نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام "مسلم" رکھا (جس کے معنی حکم بردار اور وفا شعار کے ہیں) یا ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تمہارا یہ نام رکھا تھا جب کہ دعاء میں کہا "وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ" (بقرہ، رکوع۱۵، آیت:۱۲۸) اور اس قرآن میں شاید ان ہی کے مانگنے سے یہ نام پڑا ہو۔ بہرحال تمہارا نام "مسلم"ہے۔ گو اور اُمتیں بھی مسلم تھیں مگر لقب یہ تمہارا ہی ٹھہرا ہے سو اس کی لاج رکھنی چاہیے۔

۶:  یعنی پسند کیا تم کو اس واسطے کہ تم اور امتوں کو سکھاؤ اور رسول تم کو سکھائے۔ اور یہ امت جو سب سے پیچھے آئی یہ ہی غرض ہے کہ تمام امتوں کی غلطیاں درست کرے اور سب کو سیدھی راہ بتائے۔ گویا جو مجدو شرف اس کو ملا ہے اسی وجہ سے ہے کہ یہ دنیا کے لیے معلم بنے اور تبلیغی جہاد کرے۔ (تنبیہ) دوسرے مفسرین نے "شہید" اور "شہداء" کو بمعنی "گواہ" لیا ہے۔ قیامت کے دن جب دوسری امتیں انکار کریں گی کہ پیغمبروں نے ہم کو تبلیغ نہیں کی اور پیغمبروں سے گواہ مانگے جائیں گے تو وہ امت محمدیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے، یہ امت گواہی دے گی کہ بیشک پیغمبروں نے دعوت و تبلیغ کر کے خدا کی حجت قائم کر دی تھی۔ جب سوال ہو گا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا۔ جواب دیں گے کہ ہمارے نبی نے اطلاع کی جس کی صداقت پر خدا کی محفوظ کتاب (قرآن کریم) گواہ ہے۔ گویا یہ فضل و شرف اس لیے دیا گیا کہ تم کو ایک بڑے عظیم الشان مقدمہ میں بطور معزز گواہ کے کھڑا ہونا ہے۔ لیکن تمہاری گواہی کی سماعت اور وقعت بھی تمہارے پیغمبر کے طفیل میں ہے کہ وہ تمہارا تزکیہ کریں گے۔

۷:  یعنی انعامات الٰہیہ کی قدر کرو، اپنے نام و لقب اور فضل و شرف کی لاج رکھو، اور سمجھو کہ تم بہت بڑے کام کے لیے کھڑے کیے گئے ہو۔ اس لیے اول اپنے کو نمونہ عمل بناؤ۔ نماز، زکوٰۃ (بالفاظ دیگر بدنی و مالی عبادات) میں کوتاہی نہ ہونے پائے، ہر کام میں اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔ ذرا بھی قدم جادہ حق سے ادھر ادھر نہ ہو۔ اس کے فضل و رحمت پر اعتماد رکھو۔ تمام کمزور سہارے چھوڑ دو، تنہا اسی کو اپنا مولیٰ اور مالک سمجھو، اس سے اچھا مالک و مددگار اور کون ملے گا؟ "رَبِّ اجْعَلْنَا مِنْ مُّقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمُؤْتِی الزَّکٰوۃِ وَالْمُعْتَصِمِیْنَ بِکَ وَالْمَتَوَکِّلِیْنَ عَلَیْکَ فَاَنْتَ مَوْلَانَا وناصِرُنَا فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ اَنْتَ وَنِعْمَ الْنَّصِیْرُ" ثم سورۃ الحج بفضلہ ومنہ فللّٰہ الحمد وعلیٰ نبیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔