خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الحَجّ

اللہ کے  نام سے  جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ حج بقول ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما و مجاہد مکّیہ ہے سوائے چھ آیتوں کے جو  ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ سے شروع ہوتی ہیں اس صورت میں دس رکوع اور اٹھتر آیتیں اور ایک ہزار دو سو اکانوے ۱۲۹۱ کلمات اور پانچ ہزار پچھتر ۵۰۷۵ حرف ہیں۔

(۱) اے  لوگو! اپنے  رب سے  ڈرو (ف ۲)  بیشک قیامت کا زلزلہ (ف ۳) بڑی سخت چیز ہے۔

۲                 اس کے عذاب کا خوف کرو اور اس کی طاعت میں مشغول ہو۔

۳                 جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گا۔

(۲) جس دن تم اسے  دیکھو گے  ہر دودھ پلانے  وا لی (ف ۴) اپنے  دودھ پیتے  کو بھول جائے  گی اور ہر گابھ (ف ۵) اپنا گابھ ڈال دے  گی (ف ۶) اور تو لوگوں کو دیکھے  گا جیسے  نشہ میں ہیں  اور نشہ میں نہ ہوں گے  (ف ۷) مگر ہے  یہ کہ اللہ کی مار کڑی ہے۔

۴                 اس کی ہیبت سے۔

۵                 یعنی حمل والی اس دن کے ہول سے۔

۶                 حمل ساقط ہو جائیں گے۔

۷                 بلکہ عذابِ الٰہی کے خوف سے لوگوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔

(۳) اور کچھ لوگ وہ ہیں کہ اللہ کے  معاملہ میں جھگڑتے  ہیں بے  جانے  بوجھے، اور ہر سرکش شیطان کے  پیچھے  ہو لیتے  ہیں (ف ۸)

۸                 شانِ نُزول : یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور قرآن کو پہلوں کے قصّے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکِر تھا۔

(۴) جس پر لکھ دیا گیا ہے  کہ جو اس کی دوستی کرے  گا تو یہ ضرور اسے  گمراہ کر دے  گا اور اسے  عذاب دوزخ کی راہ بتائے  گا (ف ۹)

۹                 شیطان کے اِتّباع سے زجر فرمانے کے بعد منکِرینِ بعث پر حُجّت قائم فرمائی جاتی ہے۔

(۵)  اے  لوگو! اگر تمہیں قیامت کے  دن جینے  میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے  تمہیں پیدا کیا مٹی سے  (ف ۱۰) پھر پانی کی بوند سے  (ف ۱۱) پھر خون کی پھٹک سے  (ف ۱۲) پھر گوشت کی بوٹی سے  نقشہ بنی اور بے  بنی (ف ۱۳) تاکہ ہم تمہارے  لیے  اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں (ف ۱۴) اور ہم ٹھہرائے  رکھتے  ہیں ماؤں کے  پیٹ میں جسے  چاہیں ایک  مقرر میعاد تک (ف ۱۵) پھر تمہیں نکالتے  ہیں بچہ پھر (ف ۱۶)  اس لیے  کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو (ف  ۱۷) اور تم میں کوئی پہلے  ہی مر جاتا ہے  اور کوئی سب میں نکمی عمر تک ڈالا جاتا ہے  (ف ۱۸) کہ جاننے  کے  بعد کچھ نہ جانے  (ف ۱۹) اور تو  زمین کو دیکھے  مرجھائی ہوئی (ف ۲۰) پھر جب ہم نے  اس پر پانی اتارا  تر و تازہ ہوئی اور ابھر آئی اور  ہر رونق دار جوڑا (ف ۲۱)  اُگا لائی (ف ۲۲)

۱۰               تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کر کے۔

۱۱               یعنی قطرۂ مَنی سے ان کی تمام ذُرِّیَّت کو۔

۱۲               کہ نطفۂ خونِ غلیظ ہو جاتا ہے۔

۱۳               یعنی مُصوَّر اور غیرِ مُصوَّر۔ بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تم لوگوں کا مادۂ پیدائش ماں کے شکم میں چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدّت خونِ بستہ ہو جاتا ہے پھر اتنی ہی مدّت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق، اس کی عمر، اس کے عمل، اس کا شقی یا سعید ہونا لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونکتا ہے۔ (الحدیث) اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش اس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل کرتا ہے یہ اس لئے بیان فرمایا گیا۔

۱۴               اور تم اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت و حکمت کو جانو اور اپنی ابتدائے پیدائش کے حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں اتنے انقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کرے تو اس کی قدرت سے کیا بعید۔

۱۵               یعنی وقتِ ولادت تک۔

۱۶               تمہیں عمر دیتے ہیں۔

۱۷               اور تمہاری عقل و قوّت کامل ہو۔

۱۸               اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حوّاس بجا نہیں رہتے اور ایسا ہو جاتا ہے۔

۱۹               اور جو جانتا ہو وہ بھول جائے۔ عِکرمہ نے کہا جو قرآن کی مداومت رکھے گا اس حالت کو نہ پہنچے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ بَعث یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے۔

۲۰               خشک بے گیاہ۔

۲۱               یعنی ہر قِسم کا خوش نما سبزہ۔

۲۲               یہ دلیلیں بیان فرمانے کے بعد نتیجہ مرتّب فرمایا جاتا ہے۔

(۶) یہ اس لیے  ہے  کہ اللہ ہی حق ہے  (ف ۲۳) اور یہ کہ وہ مردے  جِلائے  گا  اور یہ کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۲۳               اور یہ جو کچھ ذکر کیا گیا آدمی کی پیدائش اور خشک بے گیاہ زمین کو سرسبز و شاداب کر دینا اس کے وجود و حکمت کی دلیلیں ہیں ان سے اس کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے۔

(۷) اور اس لیے  کہ قیامت آنے  وا لی اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے  گا انہیں جو قبروں میں ہیں۔

(۸) اور کوئی آدمی وہ ہے  کہ اللہ کے  بارے  میں یوں جھگڑتا ہے  کہ نہ تو علم نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی روشن نوشتہ (تحریر)  (ف ۲۴)

۲۴               شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل وغیرہ ایک جماعتِ کُفّار کے حق میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں جھگڑا کرتے تھے اور اس کی طرف ایسے اوصاف کی نسبت کرتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ آدمی کو کوئی بات بغیر علم اور بے سند و دلیل کے کہنی نہ چاہیئے، خاص کر شانِ الٰہی میں اور جو بات علم والے کے خلاف بے علمی سے کہی جائے گی وہ باطل ہو گی پھر اس پر یہ انداز کہ اصرار کرے اور براہِ تکبُّر۔

(۹) حق سے  اپنی گردن موڑے  ہوئے  تاکہ اللہ کی راہ سے  بہکا دے  (ف ۲۵) اس کے  لیے  دنیا میں رسوائی ہے  (ف ۲۶) اور قیامت کے  دن ہم اسے  آگ کا عذاب چکھائیں گے  (ف ۲۷)

۲۵               اور اس کے دین سے منحرف کر دے۔

۲۶               چنانچہ بدر میں وہ ذلّت و خواری کے ساتھ قتل ہوا۔

۲۷               اور اس سے کہا جائے گا۔

(۱۰) یہ اس کا بدلہ ہے  جو تیرے  ہاتھوں نے  آگے  بھیجا (ف ۲۸) اور  اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا (ف ۲۹)

۲۸               یعنی جو تو نے دنیا میں کیا کُفر و تکذیب۔

۲۹               اور کسی کو بے جُرم نہیں پکڑتا۔

(۱۱) اور کچھ آدمی اللہ کی بندگی ایک کنارہ پر کرتے  ہیں (ف ۳۰)  پھر اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچ گئی جب تو چین سے  ہیں اور جب کوئی جانچ آ کر پڑی (ف ۳۱) منہ کے  بل پلٹ گئے ،(ف ۳۲) دنیا  اور آخرت دونوں کا گھاٹا (ف ۳۳) یہی ہے  صریح نقصان (ف ۳۴)

۳۰               اس میں اطمینان سے داخل نہیں ہوتے اور انہیں ثبات و قرار حاصل نہیں ہوتا، شک و تردّد میں رہتے ہیں جس طرح پہاڑ کے کنارے کھڑا ہوا شخص تَزَلزُل کی حالت میں ہوتا ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت اعرابیوں کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی جو اطراف سے آ کر مدینہ میں داخل ہوتے اور اسلام لاتے تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر وہ خوب تندرست رہے اور ان کی دولت بڑھی اور ان کے بیٹا ہوا تب تو کہتے تھے اسلام اچھا دین ہے اس میں آ کر ہمیں فائدہ ہوا اور اگر کوئی بات اپنی امید کے خلاف پیش آئی مثلاً بیمار ہو گئے یا لڑکی ہو گئی یا مال کی کمی ہوئی تو کہتے تھے جب سے ہم اس دین میں داخل ہوئے ہیں ہمیں نقصان ہی ہوا اور دین سے پھر جاتے تھے۔ یہ آیت ان کی حق میں نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ انہیں ابھی دین میں ثبات ہی حاصل نہیں ہوا ان کا حال یہ ہے۔

۳۱               کسی قِسم کی سختی پیش آئی۔

۳۲               مرتد ہو گئے اور کُفر کی طرف لوٹ گئے۔

۳۳               دنیا کا گھاٹا تو یہ کہ جو ان کی امّیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں اور اِرتِداد کی وجہ سے ان کا خون مباح ہوا اور آخرت کا گھاٹا ہمیشہ کا عذاب۔

۳۴               وہ لوگ مرتد ہونے کے بعد بُت پرستی کرتے ہیں اور۔

(۱۲) اللہ کے  سوا  ایسے  کو پوجتے  ہیں جو ان کا برا بھلا کچھ نہ کرے  (ف ۳۵) یہی ہے  دور کی گمراہی۔

۳۵               کیونکہ وہ بے جان ہے۔

(۱۳) ایسے  کو پوجتے  نہیں جس کے  نفع سے  (ف ۳۶) نقصان کی توقع زیادہ ہے  (ف ۳۷) بیشک (ف ۳۸) کیا ہی برا مولیٰ اور بیشک کیا ہی برا رفیق۔

۳۶               یعنی جس کی پرستِش کے خیالی نفع سے اس کو پُوجنے کے۔

۳۷               یعنی عذابِ دنیا و آخرت کی۔

۳۸               وہ بُت۔

(۱۴) بیشک اللہ داخل کرے  گا انہیں جو ایمان لائے  اور بھلے  کام کیے  باغوں میں جن کے  نیچے  نہریں رواں، بیشک اللہ کرتا ہے  جو چاہے  (ف ۳۹)

۳۹               فرمانبرداروں پر انعام اور نافرمانوں پر عذاب۔

(۱۵) جو یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ اپنے  نبی (ف ۴۰) کی مدد نہ فرمائے  گا دنیا (ف ۴۱) اور آخرت میں (ف ۴۲) تو اسے  چاہیے  کہ اوپر کو ایک رسی تانے  پھر اپنے  آپ کو پھانسی دے  لے  پھر دیکھے  کہ اس  کا یہ داؤں کچھ لے  گیا اس بات کو جس کی اسے  جلن ہے  (ف ۴۳)

۴۰               حضرت محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۴۱               میں ان کے دین کو غلبہ عطا فرما کر۔

۴۲               ان کے درجے بلند کر کے۔

۴۳               یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد ضرور فرمائے گا جسے اس سے جلن ہو وہ اپنی انتہائی سعی ختم کر دے اور جلن میں مر بھی جائے تو بھی کچھ نہیں کر سکتا۔

(۱۶) اور بات یہی ہے  کہ ہم نے  یہ قرآن اتارا روشن آیتیں اور یہ کہ اللہ راہ دیتا ہے  جسے  چاہے۔

(۱۷) بیشک مسلمان اور یہودی اور ستارہ پرست اور نصرانی اور آتش پرست اور مشرک، بیشک اللہ ان سب میں قیامت کے  دن فیصلہ کر دے  گا (ف ۴۴) بیشک ہر چیز اللہ کے  سامنے  ہے۔

۴۴               مؤمنین کو جنّت عطا فرمائے گا اور کُفّار کو کسی قِسم کے بھی ہوں جہنّم میں داخل کرے گا۔

(۱۸) کیا تم نے  نہ دیکھا (ف ۴۵) کہ اللہ کے  لیے  سجدہ کرتے  ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور تارے  اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے  (ف ۴۶) اور بہت آدمی (ف ۴۷) اور بہت وہ ہیں جن پر عذاب مقرر ہو چکا (ف ۴۸) اور جسے  اللہ ذلیل کرے  (ف ۴۹) اسے  کوئی عزت دینے  والا نہیں، بیشک اللہ جو چاہے  کرے، (السجدۃ)۶

۴۵               اے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۴۶               سجدۂ خضوع جیسا اللہ چاہے۔

۴۷               یعنی مومنین مزید براں سجدۂ طاعت و عبادت بھی۔

۴۸               یعنی کُفّار۔

۴۹               اس کی شقاوت کے سبب۔

(۱۹) یہ دو فریق ہیں (ف ۵۰) کہ اپنے  رب میں جھگڑے  (ف ۵۱) تو جو کافر ہوئے  ان کے  لیے  آگ کے  کپڑے  بیونتے  (کاٹے ) گئے  ہیں (ف ۵۲) اور ان کے  سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے  گا (ف ۵۳)

۵۰               یعنی مؤمنین اور پانچوں قِسم کے کُفّار جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔

۵۱               یعنی اس کے دین کے بارے میں اور اس کی صفات میں۔

۵۲               یعنی آگ انہیں ہر طرف سے گھیر لے گی۔

۵۳               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ایسا تیز گرم کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا کے پہاڑوں پر ڈال دیا جائے تو ان کو گلا ڈالے۔

(۲۰) جس سے  گل جائے  گا جو کچھ ان کے  پیٹوں میں ہے  اور ان کی کھا لیں (ف ۵۴)

۵۴               حدیث شریف میں ہے پھر انہیں ویسا ہی کر دیا جائے گا۔ (ترمذی)۔

(۲۱) اور ان کے  لیے  لوہے  کے  گرز ہیں (ف ۵۵)

۵۵               جن سے ان کو مارا جائے گا۔

(۲۲)  جب گھٹن کے  سبب اس میں سے   نکلنا چاہیں گے  (ف ۵۶) اور پھر اسی میں لوٹا دیے  جائیں گے، اور حکم ہو گا کہ چکھو آگ کا عذاب۔

۵۶               یعنی دوزخ میں سے تو گُرزوں سے مار کر۔

(۲۳) بیشک اللہ داخل کرے  گا انہیں جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  بہشتوں میں جن کے  نیچے  نہریں بہیں اس میں پہنائے  جائیں گے  سونے  کے   کنگن اور موتی (ف ۵۷) اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے  (ف ۵۸)

۵۷               ایسے جن کی چمک مشرق سے مغرب تک روشن کر ڈالے۔ (ترمذی)۔

۵۸               جس کا پہننا دنیا میں مَردوں کو حرام ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے دنیا میں ریشم پہنا آخرت میں نہ پہنے گا۔

(۲۴) اور انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی (ف ۵۹) اور سب خوبیوں سراہے  کی راہ بتائی گئی (ف ۶۰)

۵۹               یعنی دنیا میں اور پاکیزہ بات سے کلمۂ توحید مراد ہے۔ بعض مفسِّرین نے کہا قرآن مراد ہے۔

۶۰               یعنی اللہ کا دین اسلام۔

(۲۵) بیشک وہ جنہوں نے  کفر کیا اور روکتے  ہیں اللہ کی راہ (ف ۶۱) اور اس ادب وا لی مسجد سے  (ف ۶۲) جسے  ہم نے  سب لوگوں کے  لیے  مقرر کیا کہ اس میں ایک سا حق ہے  وہاں کے  رہنے  والے  اور پردیسی  کا، اور جو اس میں کسی زیادتی کا ناحق ارادہ کرے  ہم اسے  دردناک عذاب چکھائیں گے  (ف ۶۳)

۶۱               یعنی اس کے دین اور اس کی اطاعت سے۔

۶۲               یعنی اس میں داخل ہونے سے۔ شانِ نُزول : یہ آیت سفیان بن حرب وغیرہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ مسجدِ حرام سے یا خاص کعبۂ معظّمہ مراد ہے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے کہ وہ تمام لوگوں کا قبلہ ہے، وہاں کے رہنے والے اور پردیسی سب برابر ہیں، سب کے لئے اس کی تعظیم و حرمت اور اس میں ادائے مناسکِ حج یکساں ہے اور طواف و نماز کی فضیلت میں شہری اور پردیسی کے درمیان کوئی فرق نہیں اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک یہاں مسجدِ حرام سے مکّہ مکرّمہ یعنی جمیع حرم مراد ہے، اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ حرم شریف شہری اور پردیسی سب کے لئے یکساں ہے، اس میں رہنے اور ٹھہرنے کا سب کسی کو حق ہے بَجُز اس کے کہ کوئی کسی کو نکالے نہیں اسی لئے امام صاحب مکّہ مکرّمہ کی اراضی کی بیع اور اس کے کرایہ کو منع فرماتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکّہ مکرّمہ حرام ہے اس کی اراضی فروخت نہ کی جائیں۔ (تفسیرِ احمدی)۔

۶۳               اِلْحادٍ بِظُلْم  ناحق زیادتی سے یا شرک و بُت پرستی مراد ہے۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ ہر ممنوع قول و فعل مراد ہے حتی کہ خادم کو گالی دینا بھی۔ بعض نے کہا اس سے مراد ہے حرم میں بغیر احرام کے داخل ہونا یا ممنوعاتِ حرم کا ارتکاب کرنا مثل شکار مارنے اور درخت کاٹنے کے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو تجھے نہ قتل کرے تو اسے قتل کرے یا جو تجھ پر ظلم نہ کرے تو اس پر ظلم کرے۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن انیس کو دو آدمیوں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں ایک مہاجر تھا دوسرا انصاری، ان لوگوں نے اپنے اپنے مفاخرِ نسب بیان کئے تو عبداللہ بن انیس کو غصّہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کر دیا اور خود مرتد ہو کر مکّہ مکرّمہ کی طرف بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(۲۶) اور جب کہ ہم نے  ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتا دیا (ف ۶۴) اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر ستھرا رکھ (ف ۶۵) طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے  والوں کے  لیے  (ف ۶۶)

۶۴               تعمیرِ کعبہ شریف کے وقت پہلے عمارتِ کعبہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنائی تھی اور طوفانِ نوح کے وقت وہ آسمان پر اٹھا لی گئی، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا مقرر کی جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَبر بھیجا جو خاص اس بُقعَہ کے مقابل تھا جہاں کعبہ معظّمہ کی عمارت تھی اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ شریف کی جگہ بتائی گئی اور آپ نے اس کی قدیم بنیاد پر عمارتِ کعبہ تعمیر کی اور اللہ تعالیٰ نے آ پ کو وحی فرمائی۔

۶۵               شرک سے اور بُتوں سے اور ہر قسم کی نجاستوں سے۔

۶۶               یعنی نمازیوں کے۔

(۲۷) اور لوگوں میں حج کی عام ندا کر دے  (ف ۶۷) وہ تیرے  پاس حاضر ہوں گے  پیادہ اور ہر دبلی  اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے  آتی ہیں (ف ۶۸)

۶۷               چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں کو ندا کر دی کہ بیت اللہ کا حج کرو، جن کے مقدور میں حج ہے انہوں نے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا لَبَّیْکَ اَللّہُمَّ لَبَّیْکَ۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اس آیت میں اَذِّنْ کا خِطاب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہے چنانچہ حَجَّۃُ الوداع میں اعلان فرما دیا اور ارشاد کیا کہ اے لوگو اللہ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو۔

۶۸               اور کثرتِ سیر و سفر سے دبلی ہو جاتی ہیں۔

(۲۸) تاکہ وہ اپنا فائدہ پائیں (ف ۶۹) اور اللہ کا نام لیں (ف ۷۰) جانے  ہوئے  دنوں میں (ف ۷۱) اس پر کہ انہیں روزی دی بے  زبان چوپائے  (ف ۷۲) تو ان میں سے  خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ (ف ۷۳)

۶۹               دینی بھی دنیوی بھی جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں، دوسری عبادت میں نہیں پائے جاتے۔

۷۰               وقتِ ذَبح۔

۷۱               جانے ہوئے دنوں سے ذِی الحِجّہ کا عشرہ مراد ہے جیسا کہ حضرت علی اور ابنِ عباس و حسن و قتادہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے اور یہی مذہب ہے ہمارے امامِ اعظم حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اور صاحبین کے نزدیک جانے ہوئے دنوں سے ایّامِ نحر مراد ہیں، یہ قول ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا اور ہر تقدیر پر یہاں ان دنوں سے خاص روزِ عید مراد ہے۔ (تفسیرِ احمدی)۔

۷۲               اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ۔

۷۳               تطّوُع اور متعہ و قِرانْ و ہر ایک ہدی سے جن کا اس آیت میں بیان ہے کھانا جائز ہے، باقی ہدایا سے جائز نہیں۔ (تفسیرِ احمد ی و مدارک)۔

(۲۹) پھر اپنا میل کچیل اتاریں (ف ۷۴) اور اپنی منتیں پوری کریں (ف ۷۵) اور اس آزاد گھر کا طواف کریں (ف ۷۶) 

۷۴               مونچھیں کتروائیں، ناخن تراشیں، بغلوں اور زیرِ ناف کے بال دور کریں۔

۷۵               جو انہوں نے مانی ہوں۔

۷۶               اس سے طوافِ زیارت مراد ہے، مسائلِ حج بالتفصیل سورۂ بقر پارہ دو میں ذکر ہو چکے۔

(۳۰)  بات یہ ہے  اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے  (ف ۷۷) تو وہ اس کے  لیے  اس کے  رب کے  یہاں بھلا ہے، اور تمہارے  لیے  حلال کیے  گئے  بے  زبان چوپائے  (ف ۷۸) سوا  ان کے  جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے  (ف ۷۹) تو دور ہو بتوں کی گندگی سے  (ف ۸۰) اور بچو جھوٹی بات سے۔

۷۷               یعنی اس کے احکام کی خواہ وہ مناسکِ حج ہوں یا ان کے سوا اور احکام۔ بعض مفسِّرین نے اس سے مناسکِ حج مراد لئے ہیں اور بعض نے بیتِ حرام و مشعرِ حرام و شہرِ حرام و بلدِ حرام و مسجدِ حرام مراد لئے ہیں۔

۷۸               کہ انہیں ذبح کر کے کھاؤ۔

۷۹               قرآنِ پاک میں جیسے کہ سورۂ مائدہ کی آیت حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ میں بیان فرمائی گئی۔

۸۰               جن کی پرستِش کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے۔

(۳۱) ایک اللہ کے  ہو کر کہ اس کا ساجھی کسی کو نہ کرو، اور جو  اللہ کا شریک کرے  وہ گویا  گرا  آسمان سے  کہ پرندے  اسے  اچک لے  جاتے  ہیں (ف ۸۱) یا ہوا اسے  کسی دور جگہ پھینکتی ہے  (ف ۸۲)

۸۱               اور بوٹی بوٹی کر کے کھا جاتے ہیں۔

۸۲               مراد یہ ہے کہ شرک کرنے والا اپنی جان کو بدترین ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ ایمان کو بلندی میں آسمان سے تشبیہ دی گئی اور ایمان ترک کرنے والے کو آسمان سے گرنے والے کے ساتھ اور اس کی خواہشاتِ نفسانیہ کو جو اس کی فکروں کو منتشر کرتی ہیں بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کے ساتھ اور شیاطین کو جو اس کو وادیِ ضلالت میں پھینکتے ہیں ہَوا کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور اس نفیس تشبیہ سے شرک کا انجامِ بد سمجھایا گیا۔

(۳۲) بات یہ ہے، اور جو اللہ کے  نشانوں کی تعظیم کرے  تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے  ہے  (ف ۸۳)

۸۳               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ شعائر اللہ سے مراد بُدنے اور ہدایا ہیں اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ، خوبصورت، قیمتی لئے جائیں۔

(۳۳) تمہارے  لیے  چوپایوں میں فائدے  ہیں (ف ۸۴) ایک مقررہ میعاد تک (ف ۸۵) پھر ان کا پہنچنا ہے  اس آزاد گھر تک (ف ۸۶)

۸۴               وقتِ ضرور ت ان پر سوار ہونے اور وقتِ حاجت ان کے دودھ پینے کے۔

۸۵               یعنی ان کے ذبح کے وقت تک۔

۸۶               یعنی حرم شریف تک جہاں وہ ذبح کئے جائیں۔

(۳۴) اور ہر امت کے  لیے  (ف ۸۷) ہم نے  ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے  دیے  ہوئے  بے  زبان چوپایوں پر (ف ۸۸) تو تمہارا معبود ایک معبود ہے  (ف ۸۹) تو اسی کے  حضور  گردن رکھو (ف ۹۰) اور اے  محبوب خوشی سنا دو ان تواضع والوں کو۔

۸۷               پچھلی ایماندار اُمّتوں میں سے۔

۸۸               ان کے ذبح کے وقت۔

۸۹               تو ذبح کے وقت صرف اسی کا نام لو۔ اس آیت میں دلیل ہے اس پر کہ نامِ خدا کا ذکر کر نا ذبح کے لئے شرط ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک اُمّت کے لئے مقرر فرما دیا تھا کہ اس کے لئے بہ طریقِ تَقَرُّب قربانی کریں اور تمام قربانیوں پر اسی کا نام لیا جائے۔

۹۰               اور اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرو۔

(۳۵) کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے  ان کے  دل ڈرنے  لگتے  ہیں (ف ۹۱) اور جو افتاد پڑے  اس کے  سنے  والے  اور نماز برپا  رکھنے  والے  اور ہمارے  دیے  سے  خرچ کرتے  ہیں (ف ۹۲)

۹۱               اس کے ہیبت و جلال سے۔

۹۲               یعنی صدقہ دیتے ہیں۔

(۳۶) اور قربانی کے  ڈیل دار جانور  اور اونٹ اور گائے  ہم نے  تمہارے  لیے  اللہ کی نشانیوں سے  کیے  (ف ۹۳) تمہارے  لیے  ان میں بھلائی ہے  (ف ۹۴) تو ان پر اللہ کا نام لو (ف ۹۵) ایک پاؤں بندھے  تین پاؤں سے  کھڑے  (ف ۹۶) پھر جب ان کی کروٹیں گر جائیں (ف ۹۷) تو ان میں سے  خود کھاؤ (ف ۹۸) اور صبر سے  بیٹھنے  والے  اور بھیک مانگنے  والے  کو کھلاؤ، ہم نے  یونہی ان کو تمہارے   بس میں دے  دیا کہ تم احسان مانو۔

۹۳               یعنی اس کے اَعلامِ دین سے۔

۹۴               دنیا میں نفع اور آخرت میں اجر و ثواب۔

۹۵               ان کے ذبح کے وقت جس حال میں کہ وہ ہوں۔

۹۶               اُونٹ کے ذبح کا یہی مسنون طریقہ ہے۔

۹۷               یعنی بعدِ ذبح ان کے پہلو زمین پر گریں اور ان کی حرکت ساکن ہو جائے۔

۹۸               اگر تم چاہو۔

(۳۷) اللہ کو ہرگز نہ ان کے  گوشت پہنچتے  ہیں نہ ان کے  خون ہاں تمہاری  پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے  (ف ۹۹) یونہی ان کو تمہارے  پس میں کر دیا کہ تم اللہ کی بڑائی  بولو  اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی، اور اے  محبوب! خوشخبری سناؤ نیکی والوں کو (ف ۱۰۰)

۹۹               یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروطِ تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔

شانِ نُزول : زمانۂ جاہلیت کے کُفّار اپنی قربانیوں کے خون سے کعبۂ معظّمہ کی دیواروں کو آلودہ کرتے تھے اور اس کو سببِ تقرُّب جانتے تھے۔ اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

۱۰۰             ثواب کی۔

(۳۸)  بیشک اللہ بلائیں ٹالتا ہے، مسلمانوں کی (ف ۱۰۱) بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا ہر بڑے  دغا باز ناشکرے  کو (ف ۱۰۲)

۱۰۱             اور ان کی مدد فرماتا ہے۔

۱۰۲             یعنی کُفّار کو جو اللہ اور اس کے رسول کی خیانت اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔

(۳۹)  پروانگی (اجازت)  عطا ہوئی انہیں جن سے  کافر لڑتے  ہیں (ف ۱۰۳) اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا (ف ۱۰۴) اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے  پر  ضرور قادر ہے ۔

۱۰۳             جہاد کی۔

۱۰۴             شانِ نُزول : کُفّارِ مکّہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روزمرہ ہاتھ اور زبان سے شدید ایذائیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ حضور کے پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے کسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے روزمرہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس میں پہنچتی تھیں اور اصحابِ کرام کفُاّر کے مظالم کی حضور کے دربار میں فریادیں کرتے حضور یہ فرما دیا کرتے کہ صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے جب حضور نے مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں کُفّار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

(۴۰)  وہ جو اپنے  گھروں سے  ناحق نکالے  گئے  (ف ۱۰۵) صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے  کہا ہمارا  رب اللہ ہے  (ف ۱۰۶) اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے  سے  دفع نہ فرماتا (ف ۱۰۷) تو ضرور ڈھا دی جاتیں خانقاہیں (ف ۱۰۸) اور گرجا (ف ۱۰۹) اور کلیسے  (ف ۱۱۰) اور مسجدیں (ف ۱۱۱) جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے، اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے  گا اس کی جو اس کے  دین کی مدد کرے  گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے۔

۱۰۵             اور بے وطن کئے گئے۔

۱۰۶             اور یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعاً ناحق۔

۱۰۷             جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین کا استیلا ہو جاتا اور کوئی دین و ملّت والا ان کے دستِ تعدّی سے نہ بچتا۔

۱۰۸             راہبوں کی۔

۱۰۹             نصرانیوں کے۔

(۴۱)  وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں (ف ۱۱۲) تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے  روکیں (ف ۱۱۳) اور اللہ ہی کے  لیے  سب  کاموں کا انجام۔

۱۱۰             یہودیوں کے۔

۱۱۱             مسلمانوں کی۔

۱۱۲             اور ان کے دشمنوں کے مقابل ان کی مدد فرمائیں۔

۱۱۳             اس میں خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں تصرف عطا فرمانے کے بعد ان کی سیرتیں ایسی پاکیزہ رہیں گی اور وہ دین کے کاموں میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہیں گے اس میں خلفائے راشدین مہدیّین کے عدل اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کی دلیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمکین و حکومت عطا فرمائی اور سیرتِ عادلہ عطا کی۔

(۴۲) اور اگر یہ تمہاری تکذیب کرتے  ہیں (ف ۱۱۴) تو بیشک ان سے  پہلے  جھٹلا چکی ہے  نوح کی قوم اور عاد (ف ۱۱۵) اور ثمود (ف ۱۱۶)

۱۱۴             اے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۱۱۵             حضرت ہود کی قوم۔

۱۱۶             حضرت صالح کی قوم۔

(۴۳) اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم۔

(۴۴)  اور مدین والے  (ف ۱۱۷) اور موسیٰ کی تکذیب ہوئی (ف ۱۱۸) تو میں نے  کافرو  ں کو ڈھیل دی (ف ۱۱۹) پھر انہیں پکڑا (ف ۱۲۰)  تو کیسا ہوا میرا عذاب (ف ۱۲۱)

۱۱۷             یعنی حضرت شعیب کی قوم۔

۱۱۸             یہاں موسیٰ کی قوم نہ فرمایا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی تھی، ان قوموں کا تذکرہ اور ہر ایک کے اپنے رسول کی تکذیب کرنے کا بیان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تسکینِ خاطر کے لئے ہے کہ کُفّار کا یہ قدیمی طریقہ ہے پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے۔

۱۱۹             اور ان کے عذاب میں تاخیر کی اور انہیں مہلت دی۔

۱۲۰             اور ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی۔

۱۲۱             آپ کی تکذیب کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے انجام کو سوچیں اور عبرت حاصل کریں۔

(۴۵) اور کتنی ہی بستیاں ہم نے  کھپا دیں (ہلاک کر دیں ) (ف ۱۲۲) کہ وہ ستمگار تھیں (ف ۱۲۳) تو اب وہ اپنی چھتوں پر ڈھہی (گری) پڑی ہیں اور کتنے  کنوئیں بیکار پڑے  (ف ۱۲۴) اور کتنے  محل گچ کیے  ہوئے  (ف ۱۲۵)

۱۲۲             اور وہاں کے رہنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

۱۲۳             یعنی وہاں کے رہنے والے کافِر تھے۔

۱۲۴             کہ ان سے کوئی پانی بھرنے والا نہیں۔

۱۲۵             ویران پڑے ہیں۔

(۴۶) تو کیا زمین میں نہ چلے  (ف ۱۲۶) کہ ان کے  دل ہوں جن سے  سمجھیں (ف ۱۲۷) یا کان ہوں  جن سے  سنیں (ف ۱۲۸) تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں (ف ۱۲۹) بلکہ وہ دل اندھے  ہوتے  ہیں جو سینو ں میں ہیں، (ف ۱۳۰)

۱۲۶             کُفّار کہ ان حالات کا مشاہدہ کریں۔

۱۲۷             کہ انبیاء کی تکذیب کا کیا انجام ہوا اور عبرت حاصل کریں۔

۱۲۸             پچھلی اُمّتوں کے حالات اور ان کا ہلاک ہونا اور ان کی بستیوں کی ویرانی کہ اس سے عبرت حاصل ہو۔

۱۲۹             یعنی کُفّار کی ظاہری حِس باطل نہیں ہوئی ہے وہ ان آنکھوں سے دیکھنے کی چیزیں دیکھتے ہیں۔

۱۳۰             اور دلوں ہی کا اندھا ہونا غضب ہے اسی لئے آدمی دین کی راہ پانے سے محروم رہتا ہے۔

(۴۷) اور یہ تم سے  عذاب مانگنے  میں جلدی کرتے  ہیں (ف ۱۳۱) اور اللہ ہرگز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے  گا (ف ۱۳۲) اور بیشک تمہارے  رب کے  یہاں (ف ۱۳۳) ایک دن ایسا ہے   جیسے  تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس (ف ۱۳۴) (۴۸) اور کتنی بستیاں کہ ہم نے  ان کو ڈھیل دی اس حال پر کہ وہ  ستمگار تھیں پھر میں نے  انہیں پکڑا  (ف ۱۳۵) اور میری ہی طرف پلٹ کر آتا ہے  (ف ۱۳۶)

۱۳۱             یعنی کُفّارِ مکّہ مثل نضر بن حارث وغیرہ کے اور یہ جلدی کرنا ان کا استہزاء کے طریقہ پر تھا۔

۱۳۲             اور ضرور حسبِ وعدہ عذاب نازل فرمائے گا چنانچہ یہ وعدہ بدر میں پورا ہوا۔

۱۳۳             آخرت میں عذاب کا۔

۱۳۴             تو یہ کُفّار کیا سمجھ کر عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔

۱۳۵             اور دنیا میں ان پر عذاب نازل کیا۔

۱۳۶             آخرت میں۔

(۴۹) تم فرما دو کہ اے  لوگو! میں تو یہی تمہارے  لیے  صریح ڈر سنانے  والا ہوں۔

(۵۰) تو جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کے  لیے  بخشش ہے  اور عزت کی روزی (ف ۱۳۷)

۱۳۷             جو کبھی منقطع نہ ہو وہ جنّت ہے۔

(۵۱) اور وہ جو کوشش کرتے   ہیں ہماری آیتوں میں ہار  جیت کے  ارادہ سے  (ف ۱۳۸) وہ جہنمی ہیں۔

۱۳۸             کہ کبھی ان آیات کو سحر کہتے ہیں، کبھی شعر، کبھی پچھلوں کے قصّے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا یہ مَکر چل جائے گا۔

(۵۲) اور ہم نے  تم سے  پہلے  جتنے  رسول یا نبی بھیجے  (ف ۱۳۹) سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے  کہ جب انہوں نے  پڑھا تو شیطان نے  ان کے  پڑھنے  میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے  ملا دیا تو مٹا دیتا ہے  اللہ اس شیطان کے  ڈالے  ہوئے  کو پھر اللہ اپنی آیتیں پکی کر دیتا ہے  (ف ۱۴۰) اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

۱۳۹             نبی اور رسول میں فرق ہے نبی عام ہے اور رسول خاص۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ رسول شرع کے واضع ہوتے ہیں اور نبی اس کے حافظ اور نگہبان۔ شانِ نُزول : جب سورۂ والنجم نازل ہوئی تو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجدِ حرام میں اس کی تلاوت فرمائی اور بہت آہستہ آہستہ آیتوں کے درمیان وقفہ فرماتے ہوئے جس سے سننے والے غور بھی کر سکیں اور یاد کرنے والوں کو یاد کرنے میں مدد بھی ملے جب آپ نے آیت وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پڑھ کر حسبِ دستور وقفہ فرمایا تو شیطان نے مشرکین کے کان میں اس سے ملا کر دو کلمے ایسے کہہ دیئے جن سے بُتوں کی تعریف نکلتی تھی، جبریلِ امین نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ حال عرض کیا اس سے حضور کو رنج ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلّی کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔

۱۴۰             جو پیغمبر پڑھتے ہیں اور انہیں شیطانی کلمات کے خلط سے محفوظ فرماتا ہے۔

(۵۳)  تاکہ شیطان کے  ڈالے  ہوئے  کو فتنہ کر دے  (ف ۱۴۱) ان کے   لیے  جن کے  دلوں میں بیماری ہے  (ف ۱۴۲) اور جن کے  دل سخت ہیں (ف ۱۴۳) اور بیشک ستمگار (ف ۱۴۴) دھُرکے  (پرلے  درجے  کے ) جھگڑالو ہیں۔

۱۴۱             اور ابتلا و آزمائش بنا دے۔

۱۴۲             شک اور نفاق کی۔

۱۴۳             حق کو قبول نہیں کرتے اور یہ مشرکین ہیں۔

۱۴۴             یعنی مشرکین و منافقین۔

(۵۴) اور اس لیے  کہ جان لیں وہ جن کو علم ملا ہے  (ف ۱۴۵) کہ وہ (ف ۱۴۶) تمہارے  رب کے  پاس سے  حق ہے  تو اس پر ایمان لائیں تو جھک جائیں اس کے  لیے  ان کے  دل، اور بیشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ چلانے  والا ہے، (۵۵) اور کافر اس سے  (ف ۱۴۷) ہمیشہ شک میں رہیں گے  یہاں تک کہ ان پر قیامت آ جائے  اچانک (ف ۱۴۸) یا ان پر ایسے  دن کا عذاب آئے  جس کا پھل ان کے  لیے  کچھ اچھا نہ ہو (ف ۱۴۹)

۱۴۵             اللہ کے دین کا اور اس کی آیات کا۔

۱۴۶             یعنی قرآن شریف۔

۱۴۷             یعنی قرآن سے یا دینِ اسلام سے۔

۱۴۸             یا موت کہ وہ بھی قیامتِ صغریٰ ہے۔

۱۴۹             اس سے بدر کا دن مراد ہے جس میں کافِروں کے لئے کچھ کشائش و راحت نہ تھی اور بعض مفسّرین نے کہا کہ اس سے روزِ قیامت مراد ہے۔

(۵۶) بادشاہی اس دن (ف ۱۵۰) اللہ ہی کی ہے، وہ ان میں فیصلہ کر دے  گا، تو جو ایمان لائے  اور (ف ۱۵۱) اچھے  کام کیے  وہ چین کے  باغوں میں ہیں۔

۱۵۰             یعنی قیامت کے دن۔

۱۵۱             انہوں نے۔

(۵۷) اور جنہوں نے  کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں ان کے  لیے  ذلت کا عذاب ہے۔

(۵۸) اور وہ جنہوں نے  اللہ کی راہ میں اپنے  گھر بار  چھوڑے  (ف ۱۵۲) پھر مارے  گئے  یا مر گئے  تو اللہ ضرور انہیں اچھی روزی دے  گا (ف ۱۵۳) اور بیشک اللہ کی روزی سب سے  بہتر ہے۔

۱۵۲             اور اس کی رضا کے لئے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر وطن سے نکلے اور مکّہ مکرّمہ سے مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت کی۔

۱۵۳             یعنی رزقِ جنت جو کبھی منقطع نہ ہو۔

(۵۹) ضرور انہیں ایسی جگہ لے  جائے  گا جسے  وہ پسند کریں گے  (ف ۱۵۴) اور بیشک اللہ علم اور حلم والا ہے۔

۱۵۴             وہاں ان کی ہر مراد پوری ہو گی اور کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی۔ شانِ نُزول : نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ کے بعض اصحاب نے عرض کیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے جو اصحاب شہید ہو گئے ہم جانتے ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کے بڑے درجے ہیں اور ہم جہادوں میں حضور کے ساتھ رہیں گے لیکن اگر ہم آپ کے ساتھ رہے اور بے شہادت کے موت آئی تو آخرت میں ہمارے لئے کیا ہے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔

(۶۰) بات یہ ہے  اور جو بدلہ لے  (ف ۱۵۵)  جیسی تکلیف پہنچائی گئی تھی پھر اس پر زیادتی کی جائے  (ف ۱۵۶) تو بیشک اللہ اس کی مدد فرمائے  گا (ف ۱۵۷) بیشک اللہ معاف کرنے  والا بخشنے  والا ہے۔

۱۵۵             کوئی مؤمن ظلم کا مشرک سے۔

۱۵۶             ظالم کی طرف سے اس کو بے وطن کر کے۔

۱۵۷             شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی جو ماہِ محرّم کی اخیر تاریخوں میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں نے ماہِ مبارک کی حرمت کے خیال سے لڑنا نہ چاہا مگر مشرک نہ مانے اور انہوں نے قتال شروع کر دیا مسلمان ان کے مقابل ثابت رہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔

(۶۱) یہ (ف ۱۵۸) اس لیے  کہ اللہ تعا لیٰ رات کو ڈالتا ہے  دن کے  حصہ میں اور دن کو لاتا ہے  رات کے  حصہ میں (ف ۱۵۹) اور اس لیے  کہ اللہ سنتا دیکھتا ہے۔

۱۵۸             یعنی مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے اور اس کی قدرت کی نشانیاں ظاہر ہیں۔

۱۵۹             یعنی کبھی دن کو بڑھاتا رات کو گھٹاتا ہے اور کبھی رات کو بڑھاتا دن کو گھٹاتا ہے اس کے سوا کوئی اس پر قدرت نہیں رکھتا جو ایسا قدرت والا ہے وہ جس کی چاہے مدد فرمائے اور جسے چاہے غالب کرے۔

(۶۲) یہ اس لیے  (ف ۱۶۰) کہ اللہ ہی حق ہے  اور اس کے  سوا جسے  پوجتے  ہیں (ف ۱۶۱)  وہی باطل ہے  اور اس لیے  کہ اللہ ہی بلندی بڑائی والا ہے۔

۱۶۰             یعنی اور یہ مدد اس لئے بھی ہے۔

۱۶۱             یعنی بُت۔

(۶۳) کیا تو نے  نہ دیکھا کہ  اللہ نے  آسمان سے  پانی اتارا تو صبح کو زمین (ف ۱۶۲) ہریا لی ہو گئی، بیشک اللہ پاک خبردار ہے۔

۱۶۲             سبزے سے۔

(۶۴) اسی کا مال ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے، اور  بیشک اللہ ہی بے  نیاز سب خوبیوں سراہا ہے۔

(۶۵) کیا تو نے  نہ دیکھا کہ اللہ نے  تمہارے  بس میں کر دیا جو کچھ زمین میں ہے  (ف ۱۶۳) اور کشتی کہ دریا میں اس کے  حکم سے  چلتی ہے  (ف ۱۶۴) اور وہ روکے  ہوئے  ہے  آسمان کو کہ زمین پر نہ گر پڑے  مگر اس کے  حکم سے، بیشک اللہ آدمیوں پر بڑی مہر والا مہربان ہے  (ف ۱۶۵)

۱۶۳             جانور وغیرہ جن پر تم سوار ہوتے ہو اور جن سے تم کام لیتے ہو۔

۱۶۴             تمہارے لئے اس کے چلانے کے واسطے ہوا اور پانی کو مسخر کیا۔

۱۶۵             کہ اس نے ان کے لئے منفعتوں کے دروازے کھولے اور طرح طرح کی مضرتوں سے ان کو محفوظ کیا۔

(۶۶) اور وہی ہے  جس نے  تمہیں زندہ کیا (ف ۱۶۶) اور پھر تمہیں مارے  گا (ف ۱۶۷) پھر تمہیں جِلائے  گا (ف ۱۶۸) بیشک آدمی بڑا ناشکرا ہے  (ف ۱۶۹)

۱۶۶             بے جان نطفہ سے پیدا فرما کر۔

۱۶۷             تمہاری عمریں پوری ہونے پر۔

۱۶۸             روزِ بَعث ثواب و عذاب کے لئے۔

۱۶۹             کہ باوجود اتنی نعمتوں کے اس کی عبادت سے منہ پھیرتا ہے اور بے جان مخلوق کی پرستش کرتا ہے۔

(۶۷) ہر امت  کے  لیے  (ف ۱۷۰) ہم نے  عبادت کے  قاعدے  بنا دیے  کہ وہ ان پر چلے  (ف ۱۷۱) تو ہرگز وہ تم سے  اس معاملہ میں جھگڑا  نہ کریں (ف ۱۷۲) اور اپنے  رب کی طرف بلاؤ (ف ۱۷۳) بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔

۱۷۰             اہلِ دین و ملل میں سے۔

۱۷۱             اور عامل ہو۔

۱۷۲             یعنی امرِ دین میں یا ذبیحہ کے امر میں۔ شانِ نُزول : یہ آیت بدیل ابن ور قاء اور بشر بن سفیان اور یزید ابنِ خنیس کے حق میں نازل ہوئی ان لوگوں نے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کیا سبب ہے جس جانور کو تم خود قتل کرتے ہو اسے تو کھاتے ہو اور جس کو اللہ مارتا ہے اس کو نہیں کھاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۷۳             اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے اور اس کا دین قبول کرنے اور اس کی عبادت میں مشغول ہونے کی دعوت دو۔

(۶۸) اور اگر وہ (ف ۱۷۴) تم سے  جھگڑیں تو فرما دو کہ اللہ خوب جانتا ہے  تمہارے  کوتک (تمہاری کرتوت)

۱۷۴             باوجود تمہارے طرح دینے کے بھی۔

(۶۹)  اللہ تم پر فیصلہ کر دے  گا قیامت کے  دن جس بات میں اختلاف کرتے  ہو (ف ۱۷۵)

۱۷۵             اور تم پر حقیقتِ حال ظاہر ہو جائے گی۔

(۷۰)  کیا تو نے  نہ جانا کہ اللہ جانتا ہے  جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بیشک یہ سب ایک کتاب میں ہے  (ف ۱۷۶) بیشک یہ (ف ۱۷۷) اللہ پر آسان  ہے  (ف ۱۷۸)

۱۷۶             یعنی لوحِ محفوظ میں۔

۱۷۷             یعنی ان سب کا علم یا تمام حوادث کا لوحِ محفوظ میں ثبت فرمانا۔

۱۷۸             اس کے بعد کُفّار کی جہالتوں کا بیان فرمایا جاتا ہے کہ وہ ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو عبادت کے مستحق نہیں۔

(۷۱) اور اللہ کے  سوا  ایسوں کو پوجتے  ہیں (ف ۱۷۹) جن کی کوئی سند اس نے  نہ اتاری اور ایسوں کو جن کا خود انہیں کچھ علم نہیں (ف ۱۸۰) اور ستمگاروں کا (ف ۱۸۱) کوئی مددگار نہیں (ف ۱۸۲)

۱۷۹             یعنی بُتوں کو۔

۱۸۰             یعنی ان کے پاس اپنے اس فعل کی نہ کوئی دلیلِ عقلی ہے نہ نقلی، مَحض جہل و نادانی سے گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور جو کسی طرح پُوجے جانے کے مستحق نہیں ان کوپُوجتے ہیں یہ شدید ظلم ہے۔

۱۸۱             یعنی مشرکین کا۔

۱۸۲             جو انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکے۔

(۷۲) اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جائیں (۱۸۳) تو تم ان کے  چہروں پر بگڑنے  کے  آثار دیکھو گے  جنہوں نے  کفر کیا، قریب ہے  کہ لپٹ پڑیں ان کو جو ہماری  آیتیں ان پر پڑھتے  ہیں، تم فرما دو کیا میں تمہیں بتا دوں جو تمہارے  اس حال سے  بھی (ف ۱۸۴) بدتر ہے  وہ آگ ہے، اللہ نے  اس کا وعدہ دیا ہے  کافروں کو، اور کیا ہی بری پلٹنے  کی جگہ۔

۱۸۳             اور قرآنِ کریم انہیں سُنایا جائے جس میں بیانِ احکام اور تفصیلِ حلال و حرام ہے۔

۱۸۴             یعنی تمہارے اس غیظ و ناگواری سے بھی جو قرآنِ پاک سُن کر تم میں پیدا ہوتی ہے۔

(۷۳) اے  لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے  اسے  کان لگا کر سنو (ف ۱۸۵) وہ جنہیں اللہ کے  سوا تم پوجتے  ہو (ف ۱۸۶) ایک مکھی نہ بنا سکیں گے  اگرچہ سب اس پر اکٹھے  ہو جائیں (ف ۱۸۷) اور اگر مکھی ان سے  کچھ چھین کر لے  جائے  (ف ۱۸۸) تو اس سے  چھڑا نہ سکیں (ف ۱۸۹) کتنا کمزور چاہنے  والا اور وہ جس کو چاہا (ف ۱۹۰)

۱۸۵             اور اس میں خوب غور کرو وہ کہاوت یہ ہے کہ تمہارے بُت۔

۱۸۶             ان کی عاجزی اور بے قدرتی کا یہ حال ہے کہ وہ نہایت چھوٹی سی چیز۔

۱۸۷             تو عاقل کو کب شایاں ہے کہ ایسے کو معبود ٹھہرائے ایسے کو پُوجنا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا انتہا درجہ کا جہل ہے۔

۱۸۸             وہ شہد و زعفران وغیرہ جو مشرکین بُتوں کے منہ اور سروں پر ملتے ہیں جس پر مکھیاں بھنکتی ہیں۔

۱۸۹             ایسے کو خدا بنانا اور معبود ٹھہرانا کتنا عجیب اور عقل سے دور ہے۔

۱۹۰             چاہنے والے سے بُت پرست اور چاہے ہوئے سے بُت مراد ہے یا چاہنے والے سے مکھی مراد ہے جو بُت پر سے شہد و زعفران کی طالب ہے اور مطلوب سے بُت اور بعض نے کہا کہ طالب سے بُت مراد ہے اور مطلوب سے مکھی۔

(۷۴) اللہ کی قدر نہ  جانی جیسی چاہیے  تھی (ف ۱۹۱) بیشک اللہ قوت والا غالب ہے۔

۱۹۱             اور اس کی عظمت نہ پہچانی جنہوں نے ایسوں کو خدا کا شریک کیا جو مکھی سے بھی کمزور ہیں معبود وہی ہے جو قدرتِ کاملہ رکھے۔

(۷۵) اللہ چن لیتا ہے  فرشتوں میں سے  رسول (ف ۱۹۲) اور آدمیوں میں سے  (ف ۱۹۳) بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔

۱۹۲             مثل جبریل و میکائیل وغیرہ کے۔

۱۹۳             مثل حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ و حضرت سیدِ عالَم صلوٰۃ اللہ تعالیٰ علیہم و سلامہ کے۔ شانِ نُزول : یہ آیت ان کُفّار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے۔

(۷۶) جانتا ہے  جو ان کے  آگے  ہے  اور جو ان کے  پیچھے  ہے  (ف ۱۹۴) اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے۔

۱۹۴             یعنی امورِ دنیا کو بھی اور امورِ آخرت کو بھی یا ان کے گزرے ہوئے اعمال کو بھی اور آئندہ کے احوال کو بھی۔

(۷۷)  اے  ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو (ف ۱۹۵) اور اپنے  رب کی بندگی کرو (ف ۱۹۶) اور بھلے  کام کرو (ف ۱۹۷) اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو،  (السجدۃ) عندالشافعیؒ۔

۱۹۵             اپنی نمازوں میں اسلام کے اوّل عہد میں نماز بغیر رکوع و سجود کے تھی پھر نماز میں رکوع و سجود کا حکم فرمایا گیا۔

۱۹۶             یعنی رکوع و سجود خاص اللہ کے لئے ہوں اور عبادت میں اخلاص اختیار کرو۔

۱۹۷             صلہ رحمی و مکارمِ اخلاق وغیرہ نیکیاں۔

(۷۸) اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے  جہاد کرنے  کا (ف ۱۹۸) اس نے  تمہیں پسند کیا (ف ۱۹۹) اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی (ف ۲۰۰) تمہارے  باپ ابراہیم کا دین (ف ۲۰۱) اللہ نے  تمہارا نام مسلمان رکھا ہے  اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو (ف ۲۰۲) اور تم  اور لوگوں پر گواہی دو (ف ۲۰۳) تو نماز برپا رکھو (ف ۲۰۴) اور زکوٰۃ دو اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو (ف ۲۰۵) وہ تمہارا مولیٰ ہے  تو کیا ہی اچھا مولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار۔

۱۹۸             یعنی نیتِ صادقہ خالصہ کے ساتھ اعلائے دین کے لئے۔

۱۹۹             اپنے دین و عبادت کے لئے۔

۲۰۰             بلکہ ضرورت کے موقعوں پر تمہارے لئے سہولت کر دی جیسے کہ سفر میں نماز کا قصر اور روزے کے افطار کی اجازت اور پانی نہ پانے یا پانی کے ضرر کرنے کی حالت میں غسل اور وضو کی جگہ تیمم تو تم دین کی پیروی کرو۔

۲۰۱             جو دینِ محمّدی میں داخل ہے۔

۲۰۲             روزِ قیامت کہ تمہارے پاس خدا کا پیام پہنچا دیا۔

۲۰۳             کہ انہیں ان رسولوں نے احکامِ خداوندی پہنچا دیئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ عزت و کرامت عطا فرمائی۔

۲۰۴             اس پر مداومت کرو۔

۲۰۵             اور اس کے دین پر قائم رہو۔