اس صورت میں ایک مقام پر "آلِ عمران" کا ذکر آیا ہے۔ اسی کو علامت کے طور پر اس کا نام قرار دیا گیا۔
اس میں چار تقریریں شامل ہیں : پہلی تقریر آغاز سورت سے چوتھے رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ہے اور وہ غالباً جنگ بدر کے بعد قریبی زمانے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ دوسری تقریر آیت "ترجمہ:اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پو ترجیح دے کر اپنی رسالت کے کام کے لئے منتخب کیا تھا" سے شروع ہوتی ہے اور چھٹے رکوع کے اختتام پر ختم ہوتی ہے۔ یہ ۹ ھ میں وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی۔ تیسری تقریر ساتویں رکوع کے آغاز سے لے کر بارہویں رکوع کے اختتام تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے۔ چوتھی تقریر تیرہویں رکوع سے ختمِ سورت تک جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے۔
ان مختلف تقریروں کو ملا کر جو چیز ایک مسلسل مضمون بناتی ہے، وہ مقصد و مدعا اور مرکزی مضمون کی یکسانیت ہے۔ سورت کا خطاب خصوصیت کے ساتھ دو گروہوں کی طرف ہے : ایک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)۔ دوسرے وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے تھے۔
پہلے گروہ کو اسی طرز پر مزید تبلیغ کی گئی ہے جس کا سلسلہ سورۂ بقرہ میں شروع کیا گیا تھا۔ ان کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ رسول اور یہ قرآن اسی دین کی طرف بلا رہا ہے جس کی دعوت شروع سے تمام انبیا دیتے چلے آئے ہیں اور جو فطرت اللہ کے مطابق ایک ہی دین حق ہے۔ اس دین کے سیدھے رستے سے ہٹ کر جو راہیں تم نے اختیار کی ہیں وہ خود ان کتب کی رو سے بھی صحیح نہیں ہیں جن کو تم کتبِ آسمانی تسلیم کرتے ہو۔ لہٰذا اس صداقت کو قبول کرو جس کے صداقت ہونے سے تم خود بھی انکار نہیں کر سکتے۔
دوسرے گروہ کو، جو اب بہترین امت ہونے کی حیثیت سے حق کا علمبردار اور دنیا کی اصلاح کا ذمہ دار بنایا جا چکا ہے، اسی سلسلے میں مزید ہدایات دی گئی ہیں، جو سورۂ بقرہ میں شروع ہوا تھا۔ انہیں پچھلی امتوں کے مذہبی و اخلاقی زوال کا عبرتناک نقشہ دکھا کر متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے سے بچیں۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک مصلح جماعت ہونے کی حیثیت سے وہ کس طرح کام کریں اور ان اہلِ کتاب اور منافق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں، جو خدا کے راستے میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈال رہے تھے۔ انہیں اپنی اُن کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے جن کا ظہور جنگ احد کے سلسلے میں ہوا تھا۔
اس طرح یہ سورت نہ صرف آپ اپنے مختلف اجزا میں مسلسل و مربوط ہے، بلکہ سورۂ بقرہ کے ساتھ بھی اس کا ایسا قریبی تعلق نظر آتا ہے کہ یہ بالکل اس کا تتمہ معلوم ہوتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا فطری مقام بقرہ سے متصل ہی ہے۔
سورت کا تاریخی پس منظر یہ ہے :
* سورۂ بقرہ میں اِس دین حق پر ایمان لانے والوں کو جن آزمائش اور مصائب سے مشکلات سے قبل از وقت متنبہ کر دیا گیا تھا، وہ پوری شدت کے ساتھ پیش آ چکی تھیں۔ جنگ بدر میں اگرچہ اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی تھی، لیکن یہ جنگ گویا بھڑوں کے چھتے میں پتھر مارنے کے ہم معنی تھی۔ اس اولین مسلح مقابلے نے عرب کی ان سب طاقتوں کو چونکا دیا تھا جو اس نئی تحریک سے عداوت رکھتی تھیں۔ ہر طرف طوفان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے، مسلمانوں پر ایک دائمی خوف اور بے اطمینانی کی حالت طاری تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مدینے کی یہ چھوٹی سی بستی، جس نے گرد و پیش کی دنیا سے لڑائی مول لے لی ہے، صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالی جائے گی۔ ان حالات کا مدینے کی معاشی حالت پر بھی نہایت برا اثر پڑ رہا تھا۔ اول تو ایک چھوٹے سے قصے میں جس کی آبادی چند سو گھروں سے زیادہ نہ تھی، یکایک مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کے آ جانے ہی سے معاشی توازن بگڑ چکا تھا۔ اس پر مزید مصیبت اس حالت جنگ کی وجہ سے نازل ہو گئی۔
* ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اطراف مدینہ کے یہودی قبائل کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے، ان لوگوں نے ان معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہ کیا۔ جنگ بدر کے موقع پر ان اہل کتاب کی ہمدردیاں توحید و نبوت اور کتاب و آخرت کے ماننے والے مسلمانوں کے بجائے بت پوجنے والے مشرکین کے ساتھ تھیں۔ بدر کے بعد یہ لوگ کھلم کھلا قریش اور دوسرے قبائلِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلا دلا کر بدلہ لینے پر اکسانے لگے۔ خصوصاً بنو نضیر کے سردار کعب بن اشرف نے تو اس سلسلے میں اپنی مخالفانہ کوششوں کو اندھی عداوت، بلکہ کمینے پن کی حد تک پہنچا دیا۔ اہل مدینہ کے ساتھ ان یہودیوں کے ہمسائیگی اور دوستی کے جو تعلقات صدیوں سے چلے آ رہے تھے، ان کا پاس و لحاظ بھی انہوں نے اٹھا دیا۔ آخر کار جب ان کی شرارتیں اور عہد شکنیاں حد برداشت سے گزر گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدر کے چند ماہ بعد بنو قینقاع پر، جو ان یہودی قبیلوں میں سب سے زیادہ شریر لوگ تھے، حملہ کر دیا اور انہیں اطراف مدینہ سے نکال باہر کیا۔ لیکن اس سے دوسرے یہودی قبائل کی آتشِ عناد اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے مدینے کے منافق مسلمانوں اور حجاز کے مشرک قبائل کے ساتھ ساز باز کر کے اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہر طرف خطرات ہی خطرات پیدا کر دیئے، حتیٰ کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کے متعلق ہر وقت اندیشہ رہنے لگا کہ نہ معلوم کب آپ پر قاتلانہ حملہ ہو جائے۔ صحابۂ کرام اس زمانے میں بالعموم ہتھیار بند سوتے تھے۔ شب خون کے ڈر سے راتوں کو پہرے دیے جاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے تو صحابۂ کرام آپ کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔
* بدر کی شکست کے بعد قریش کے دلوں میں آپ ہی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کہ اس پر مزید تیل یہودیوں نے چھڑکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال میں مکے سے تین ہزار کا لشکرِ جرار مدینے پر حملہ آور ہو گیا اور احد کے دامن میں وہ لڑائی پیش آئی جو جنگ احد کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینے سے نکلے تھے مگر راستے میں تین سو منافقین یکایک الگ ہو کر مدینے کی طرف پلٹ گئے اور جو سات سو آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے تھے ان میں بھی منافقین کی ایک چھوٹی سے جماعت شامل رہی، جس نے دوران جنگ مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اپنے گھر میں اتنے کثیر التعداد مارِ آستین موجود ہیں اور وہ اس طرح باہر کے دشمنوں کے ساتھ مل کر خود اپنے بھائی بندوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔
* جنگ احد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی، اس میں اگرچہ منافقین کی تدبیروں کا ایک بڑا حصہ تھا، لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کا حصہ بھی کچھ کم نہ تھا اور یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایک خاص طرز فکر اور نظام اخلاق پر جو جماعت ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی، جس کی اخلاقی تربیت ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی، اور جسے اپنے عقیدہ و مسلک کی حمایت میں لڑنے کا یہ دوسرا ہی موقع پیش آیا تھا، اس کے کام میں بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہوتا۔ اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ جنگ کے بعد اس جنگ کی پوری سرگزشت پر ایک مفصل تبصرہ کیا جائے اور اس میں اسلامی نقطۂ نظر سے جو کمزوریاں مسلمانوں کے اندر پائی گئی تھیں، ان میں سے ایک ایک کی نشاندہی کر کے اس کی اصلاح کے متعلق ہدایات دی جائیں۔ اس سلسلے میں یہ بات نظر میں رکھنے کے لائق ہے کہ اس جنگ پر قرآن کا تبصرہ ان تبصروں سے کتنا مختلف ہے جو دنیوی جرنیل اپنی لڑائیوں کے بعد کیا کرتے ہیں۔
۱-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۷۸۔
۲-عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائیبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں لے لیتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اُلجھن پیش آتی ہے کہ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلامِ الٰہی ہیں؟ اور کیا واقعی قرآن اُن سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جوا ن میں درج ہیں؟ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اُن کے اندر مندرج ہے، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے۔
دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباً چالیس سال کے دَوران میں اُن پر نازل ہوئے۔ اُن میں سے دس احکام تو وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انہیں دیے تھے۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ نے لکھوا کر اس کی ۱۲ نقلیں بنی اسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوِی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں۔ اسی کتاب کا نام ’’ تورات‘‘ تھا۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی۔ اس کی ایک کاپی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی، پتھروں کی لوحوں سمیت، عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو ’’توریت‘‘ ہی کے نام سے جانتے تھے۔ لیکن اُس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکلِ سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن (یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا) خِلقیاہ کو ایک جگہ توریت رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا، جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے (ملاحظہ ہو ۲-سلاطین، باب ۲۲-آیت ۸ تا ١۳)۔ یہی وجہ ہے کہ جب بخت نَصَّر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے، جو ان کے ہاں طاقِ نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے، ہمیشہ کے لیے گم کر دیے۔ پھر جب عَزرا کاہن (عُزیر ) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھُچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المَقدِس تعمیر ہوا، تو عَزرا نے اپنی قوم کے چند دُوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی، جو اب بائیبل کی پہلی ۱۷ کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے چار باب، یعنی خروج، اَحبار، گَنتی اور اَستثنا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ َ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کر دی گئی ہیں، جو عَزر ا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں۔ پس دراصل اب تورات اُن منتشر اجزا کا نام ہے، جو سیرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں صرف اِس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اِس تاریخی بیان کے دَوران میں جہاں کہیں سیرت ِ موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے یہ فرمایا، یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے، وہاں سے تورات کا ایک جُز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہو جاتی ہے، وہاں وہ جُز ختم ہو جاتا ہے۔ بیچ میں جہاں کہیں کوئی چیز بائیبل کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے، وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ اصل تورات کا حصّہ ہے، یا شرح و تفسیر۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں، وہ ایک حد تک صِحت کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ان اجزا میں کہاں کہاں تفسیری و تشریحی اضافے ملحق کر دیے گئے ہیں۔
قرآن انھیں منتشر اجزا کو ’’تورات‘‘ کہتا ہے، اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جُزوی احکام میں اختلاف ہے، اُصُولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان ایک سرِ مو فرق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسُوس کر سکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں۔
اسی طرح انجیل دراصل نام ہے اُن الہامی خطبات اور اقوال کا، جو مسیح علیہ السّلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت ِ نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیّبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں، اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے۔ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کر لیا ہو، اور ممکن ہے کہ سُننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد رکھا ہو۔ بہر حال ایک مدّت کے بعد جب آنجناب کی سیرتِ پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے، تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسبِ موقع درج کر دیے گئے، جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یُوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں، بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفین ِ سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں۔ قرآن انہیں اجزا کے مجمُوعے کو ’’انجیل‘‘ کہتا ہے اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسُوس ہو گا، وہ بھی غیر متعصبانہ غور و تامّل کے بعد بآسانی حل کی جا سکے گا۔
۳-وہ کائنات کی تمام حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ لہٰذا جو کتاب اس نے نازل کی ہو، وہ سراسر حق ہی ہونی چاہیے۔ بلکہ خالص حق صرف اسی کتاب میں انسان کو میسر آ سکتا ہے، جو اُس علیم و دانا کی طرف سے نازل ہو۔
۴-اس میں دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک یہ کہ تمہاری فطرت کو جیسا وہ جانتا ہے، نہ کوئی دوسرا جان سکتا ہے، نہ تم خود جان سکتے ہو۔ لہٰذا اس کی رہنمائی پر اعتماد کیے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس نے تمہارے استقرارِ حمل سے لے کر بعد کے مراحل تک ہر موقع پر تمہاری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں تک کو پورا کرنے کا اہتمام کیا، کس طرح ممکن تھا کہ وہ دُنیا میں تمہاری ہدایت و رہنمائی کا انتظام نہ کرتا، حالانکہ تم سب سے بڑھ کر اگر کسی چیز کے محتاج ہو، تو وہ یہی ہے۔
۵-مْحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ’’آیاتِ محکمات‘‘ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختۂ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات ’’کتاب کی اصل بنیاد ہیں‘‘، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے، اُس غرض کو یہی آیتیں پُورا کرتی ہیں۔ اُنہی میں اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے، اُنہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، اُنہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ اُنہی میں دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔ اُنہی میں عقائد، عبادات، اخلاق، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں مشغول رہے گا۔
۶-متشابہات، یعنی وہ آیات جن کے مفہُوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دُوسرے بُنیادی اُمور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومات انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں، نہ آ سکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھُوا، نہ چکھا، اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اُنہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیبِ بیان مِل سکتے ہیں، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھِنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیبِ بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسُوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔
لیکن اِس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھُندلا سا تصوّر پیدا کر دے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتیٰ کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالبِ حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دھُندلے تصوّر پر قناعت کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بُوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں، اُن کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔
۷-یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہُوم جانتے ہی نہیں، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیاتِ محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہُوم اس کی سمجھ میں آ جاتا ہے، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔
۸-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۶۱۔
۹-اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسُوس کیے بغیر تو نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دو گنا ہے۔
۱۰-جنگِ بدر کا واقعہ اُس وقت قریبی زمانے ہی میں پیش آ چکا تھا، اس لیے اس کے مشاہدات و نتائج کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں:
ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دُوسرے کے بالمقابل آئے تھے، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دَور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب دادِ عیش دی جا رہی تھی۔ دُوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیز گاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دُعائیں اور التجائیں کی جا رہی تھیں۔ دونوں لشکروں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔
دُوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلتِ تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہتر اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے، اس سے صاف معلوم ہو گیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی۔
تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہو کر جو لوگ اپنے سر و سامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھُولے ہوئے تھے، ان کے لیے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مُفلس و قَلّانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مُٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلوا سکتا ہے، جو تمام عرب کا سرتاج تھا۔
۱۱-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۷۔
۱۲-یعنی اللہ غلط بخش نہیں ہے اور نہ سرسری اور سطحی طور پر فیصلہ کرنے والا ہے۔ وہ بندوں کے اعمال و افعال اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو خوب جانتا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ بندوں میں سے کون اُس کے انعام کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔
۱۳-یعنی راہِ حق پر پُوری استقامت دکھانے والے ہیں۔ کسی نقصان یا مصیبت سے ہمت نہیں ہارتے، کسی ناکامی سے دل شکستہ نہیں ہوتے، کسی لالچ سے پھِسل نہیں جاتے اور ایسی حالت میں بھی حق کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے رہتے ہیں، جبکہ بظاہر اُس کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہ آتا ہو۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۶۰)۔
۱۴-یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہِ راست علم رکھتا ہے، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں، یہ اُس کی شہادت ہے۔۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہو گی۔۔۔۔ کہ پورے عالمِ وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو۔
۱۵-اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے، کیونکہ وہ سلطنتِ کائنات کے انتظامی اہلِ کار ہیں اور وہ براہِ راست اپنے ذاتی عِلم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے، جس کی طرف زمین و آسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رُجوع کرتے ہوں۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے، ان سب کی ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مُدبّر ہے۔
۱۶-یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظامِ زندگی اور ایک ہی طریقۂ حیات صحیح و درست ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبُود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپر د کر دے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے، بلکہ اُس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے۔ اسی طرزِ فکر و عمل کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اِس اسلام کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کو جائز تسلیم نہ کرے۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بُت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نِری بغاوت ہے۔
۱۷-مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دُنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دُنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوعِ انسانی میں رائج کیے گئے، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصِل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد، اُصُول اور احکام میں ردّ و بدل کر ڈالا۔
۱۸-دُوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھئے کہ ’’میں اور میرے پیرو تو اس ٹھیٹھ اسلام کے قائل ہو چکے ہیں جو خدا کا اصل دین ہے۔ اب تم بتا ؤ کہ کیا تم اپنے اور اپنے اسلاف کے بڑھائے ہوئے حاشیوں کو چھوڑ کر اس اصلی و حقیقی دین کی طرف آتے ہو‘‘۔
۱۹-یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔
۲۰-یعنی انہوں نے اپنی قوتیں اور کوششیں ایسی راہ میں صرف کی ہیں جس کا نتیجہ دُنیا میں بھی خراب ہے اور آخرت میں بھی خراب۔
۲۱-یعنی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو ان کی اس غلط سعی و عمل کو سُپھل بنا سکے، یا کم از کم بد انجامی ہی سے بچا سکے۔ جِن جِن قوتوں پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ دُنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ ان کے کام آئیں گی، ان میں سے فی الواقع کوئی بھی ان کی مددگار ثابت نہ ہو گی۔
۲۲-یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائی کتاب کو آخری سند مان لو، اس کے فیصلے کے آگے سر جھکا دو اور جو کچھ اس کی رُو سے حق ثابت ہو، اسے حق اور جو اس کی رُو سے باطل ثابت ہو، اسے باطل تسلیم کر لو۔ واضح رہے کہ اس مقام پر خدا کی کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے اور ’’کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ پانے والوں‘‘ سے مراد یہود و نصاریٰ کے علما ہیں۔
۲۳-یعنی یہ لوگ اپنے آپ کو خدا کا چَہیتا سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ اس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ ہم خواہ کچھ کریں بہرحال جنت ہماری ہے۔ ہم اہلِ ایمان ہیں، ہم فلاں کی اولاد اور فلاں کی اُمّت اور فلاں کے مرید اور فلاں کے دامن گرفتہ ہیں، بھلا دوزخ کی کیا مجال کہ ہمیں چھُو جائے۔ اور بالفرض اگر ہم دوزخ میں ڈالے بھی گئے تو بس چند روز وہاں رکھے جائیں گے تاکہ گناہوں کی جو آلائش لگ گئی ہے وہ صاف ہو جائے، پھر سیدھے جنت میں پہنچا دیے جائیں گے۔ اسی قسم کے خیالات نے ان کو اتنا جری و بے باک بنا دیا ہے کہ وہ سخت سے سخت جرائم کا ارتکاب کر جاتے ہیں، بدترین گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، کھُلم کھُلا حق سے انحراف کرتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف ان کے دل میں نہیں آتا۔
۲۴-جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتُوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کِس طرح پَھل پھول رہے ہیں، دوسری طرف اہلِ ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور اُن مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے، جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابۂ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مُبتلا تھے، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصّور نہیں کیا جا سکتا۔
۲۵-یعنی اگر کو ئی مومن کسی دشمنِ اسلام جماعت کے چنگل میں پھنس گیا ہو اور اسے ان کے ظلم و ستم کا خوف ہو، تو اس کو اجازت ہے کہ اپنے ایمان کو چھپائے رکھے اور کفار کے ساتھ بظاہر اس طرح رہے کہ گویا اُنہی میں کا ایک آدمی ہے۔ یا اگر اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہو گیا ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ کفار کے ساتھ دوستانہ رویّہ کا اظہار کر سکتا ہے، حتیٰ کہ شدید خوف کی حالت میں جو شخص برداشت کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کو کلمۂ کفر تک کہہ جانے کی رخصت ہے۔
۲۶-یعنی کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نِکل جائے۔ انسان حد سے حد تمہاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمہیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے بچا ؤ کے لیے اگر بدرجۂ مجبُوری کبھی کفار کے ساتھ تقیہ کرنا پڑے، تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہیے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت کے مفاد اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کر لو۔ لیکن خبردار، کفر اور کفار کی کوئی ایسی خدمت تمہارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہو نے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آ جانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو یا اہلِ دین کی جماعت کو یا کسی ایک فردِ مومن کو بھی نقصان پہنچایا، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی، تو اللہ کے محاسبے سے ہر گز نہ بچ سکو گے۔ جانا تم کو بہرحال اسی کے پاس ہے۔
۲۷-یعنی یہ اس کی انتہائی خیر خواہی ہے کہ وہ تمہیں قبل از وقت ایسے اعمال پر متنبہ کر رہا ہے جو تمہارے انجام کی خرابی کے موجب ہو سکتے ہیں۔
۲۸-یہاں پہلی تقریر ختم ہوتی ہے۔ اس کے مضمون، خصُوصاً جنگِ بدر کی طرف جو اشارہ اس میں کیا گیا ہے، اس کے انداز پر غور کرنے سے غالب قیاس یہی ہوتا ہے کہ اس تقریر کے نزول کا زمانہ جنگِ بدر کے بعد اور جنگِ اُحد سے پہلے کا ہے، یعنی سن ۳ ہجری۔ محمد بن اسحاق کی روایت سے عموماً لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ۸۰ آیتیں وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اوّل تو اس تمہیدی تقریر کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ اس سے بہت پہلے نازل ہوئی ہو گی، دُوسرے مُقاتل بن سلیمان کی روایت میں تصریح ہے کہ وفدِ نجران کی آمد پر صرف وہ آیات نازل ہوئی ہیں جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے بیان پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد ۳۰ یا اس سے کچھ زائد ہے۔
۲۹-یہاں سے دُوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے نزول کا زمانہ سن ۹ ہجری ہے، جب کہ نجران کی عیسائی جمہُوریت کا وفد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے۔ اُس وقت اس علاقے میں ۷۳ بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار قابلِ جنگ مرد اس میں سے نِکل سکتے تھے۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیرِ حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا، جس کی حیثیت امیرِ قوم کی تھی۔ دُوسرا سیّد کہلاتا تھا، جو ان کے تمدّنی و سیاسی اُمور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا ُسقُف(بشپ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکّہ فتح کیا اور تمام اہلِ عرب کو یقین ہو گیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد ؐ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ہے، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہو گئے۔ اِسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی ۶۰ آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کر تے ہیں یا ذِمّی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفدِ نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے۔
۳۰-عمران حضرت موسیٰؑ اور ہارونؑ کے والد کا نام تھا، جسے بائیبل میں ’’عِمرام‘‘ لکھا ہے۔
۳۱-مسیحیوں کی گمراہی کا تمام تر سبب یہ ہے کہ وہ مسیح کو بندہ اور رسول ماننے کے بجائے اللہ کا بیٹا اور الوہیّت میں اس کا شریک قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کی یہ بنیادی غلطی رفع ہو جائے، تو اِسلام صحیح و خالص کی طرف ان کا پلٹنا بہت آسان ہو جائے۔ اسی لیے اس خطبے کی تمہید یُوں اُٹھائی گئی ہے کہ آدمؑ اور نُوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمران کے سب پیغمبر انسان تھے، ایک کی نسل سے دُوسرا پیدا ہوتا چلا آیا، ان میں سے کوئی بھی خدا نہ تھا، ان کی خصُوصیت بس یہ تھی کہ خدا نے اپنے دین کی تبلیغ اور دُنیا کی اصلاح کے لیے ان کو منتخب فرمایا تھا۔
۳۲-اگر عمران کی عورت سے مراد ’’عمران کی بیوی‘‘ لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ عمران نہیں ہیں جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے، بلکہ یہ حضرت مریم کے والد تھے، جن کا نام شاید عمران ہو گا۔ ( مسیحی روایات میں حضرت مریم کے والد کا نام یو آخیم Ioachim لکھا ہے ) اور اگر عمران کی عورت سے مراد آلِ عمران لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعۂ معلومات نہیں ہے جس سے ہم قطعی طور پر ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے سکیں، کیونکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور ان کی والدہ کس قبیلے کی تھیں۔ البتہ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے کہ حضرت یحییٰؑ کی والدہ اور حضرت مریم کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں تو پھر ’’عمران کی عورت‘‘ کے معنی قبیلۂ عمران کی عورت ہی درست ہوں گے، کیونکہ انجیل لوقا میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارونؑ کی اولاد سے تھیں (لوقا۵:١)۔
۳۳-یعنی تو اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی نیتوں کے حال سے واقف ہے۔
۳۴-یعنی لڑکا اُن بہت سی فطری کمزوریوں اور تمدّنی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے، جو لڑکی کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہیں، لہٰذا اگر لڑکا ہوتا تو وہ مقصد زیادہ اچھی طرح حاصل ہو سکتا تھا جس کے لیے میں اپنے بچے کو تیری راہ میں نذر کرنا چاہتی تھی۔
۳۵-اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سِن رُشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عباد ت گاہ (ہیکل) میں داخل کر دی گئیں اور ذکرِ الٰہی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پُرانے عہد نامے میں آیا ہے۔
۳۶-لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطحِ زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں، جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدّام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں، انہیں محراب کہا جاتا ہے۔ اسی قسم کے کمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں۔
۳۷-حضرت زکریّا اس وقت تک بے اولاد تھا۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی کو دیکھ کر فطرةً ان کے دل میں یہ تمنّا پیدا ہوئی کہ کاش، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے، انہیں یہ اُمید ہوئی کہ اللہ چاہے، تو اس بڑھاپے میں بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے۔
۳۸-بائیبل میں ان کا نام ’’یوحنا بپتسمہ دینے والا‘‘(John the Baptist) لکھا ہے۔ ان کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو متی باب ۳ و ١١ و ١۴۔مرقس باب ١ و ٦۔ لوقا باب ١ و ۳۔
۳۹-اللہ کے ’’فرمان‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰؑ ہیں۔ چونکہ ان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی فرمان سے خَرقِ عادت کے طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کو قرآن مجید میں ’’کَلِمَةٌ مِّنَ اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔
۴۰-یعنی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود اللہ تجھے بیٹا دے گا۔
۴۱- یعنی ایسی علامت بتا دے کہ جب ایک پیرِ فرتوت اور ایک بوڑھی بانجھ کے ہاں لڑکے کی ولادت جیسا عجیب غیر معمُولی واقعہ پیش آنے والا ہو تو اس کی اطلاع مجھے پہلے سے ہو جائے۔
۴۲-اس تقریر کا اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اِس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح علیہ السّلام کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں۔ تمہید میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح علیہ السّلام کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اُسی طرح اُن سے چھ ہی مہینہ پہلے اُسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دُوسری طرح کے معجزے سے ہو چکی تھی۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیی ٰؑ کو ان کی اعجازی ولادت نے الہٰ نہیں بنایا تو مسیحؑ محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں۔
۴۳-یعنی قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ حضرت مریمؑ کی والدہ نے ان کو خدا کے کام کے لیے ہیکل کی نذر کر دیا تھا۔ اور وہ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے یہ ایک نازک مسئلہ بن گیا تھا کہ ہیکل کے مجاوروں میں سے کس کی سرپرستی میں وہ رہیں۔
۴۴-یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریمؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریمؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے، اور اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیحؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریمؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ)۔
۴۵-یعنی یہ علامت تم کو اس امر کا اطمینان دلانے کے لیے کافی ہیں کہ میں اُس خدا کا بھیجا ہوا ہوں جو کائنات کا خالق اور حاکمِ ذی اقتدار ہے۔ بشرطیکہ تم حق کو ماننے کے لیے تیار ہو، ہٹ دھرم نہ ہو۔
۴۶-یعنی یہ میرے فرستادہ ٴ خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ اگر میں اُس کی طرف سے بھیجا ہو ا نہ ہوتا بلکہ جھوٹا مدّعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے اِن کمالات کے زور پر تمہیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن میں تو اُسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہا ہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے۔
یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام وہی دین لے کر آئے تھے جو موسیٰ علیہ السّلام اور دُوسرے انبیا ء نے پیش کیا تھا، رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے۔ مثلاً متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے وعظ میں مسیح علیہ السّلام صاف فرماتے ہیں:
’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں‘‘۔(۵ : ١۷)
ایک یہُودی عالم نے حضرت مسیحؑ سے پوچھا کہ احکامِ دین میں اوّلین حکم کونسا ہے ؟ جواب میں آپؑ نے فرمایا:
’’خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دُوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے ‘‘۔
پھر حضرت مسیحؑ اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں:
’’فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو مگر ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔‘‘ (متی ۲۳:۲۔۳)
۴۷-یعنی تمہارے جُہلا کے توہّمات، تمہارے فقیہوں کی قانونی موشگافیوں، تمہارے رہبانیت پسند لوگوں کے تشدّدات، اور غیر مسلم قوموں کے غلبہ و تسلّط کی بدولت تمہارے ہاں اصل شریعتِ الٰہی پر جن قیُود کا اضافہ ہو گیا ہے، میں ان کو منسُوخ کروں گیا اور تمہارے لیے وہی چیزیں حلال اور وہی حرام قرار دوں گا جنہیں اللہ نے حلال یا حرام کیا ہے۔
۴۸-اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا علیہم السّلام کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے :
ایک یہ کہ اقتدارِ اعلیٰ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویّہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدّن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ اُس مقتدرِ اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔
تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حِلّت و حُرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دُوسروں کے عائد کردہ قوانین منسُوخ کر دیے جائیں۔
پس در حقیقت حضرت عیسی ٰؑ اور حضرت موسیٰؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور دُوسرے انبیا کے مِشن میں یک سرِ مُو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مِشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیّت کے اعتبار سے فرق کیا ہے اُنہوں نے سخت غلطی کی ہے۔ مالک الملک کی طرف سے اُس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دُوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔
افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح علیہ السّلام کے مِشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اُوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بُنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اِس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے :
’’ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر‘‘(متی۴ : ١۰)
اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصُود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امرِ شرعی کی اُسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امرِ تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے :
’’تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو‘‘ (متی ٦ :١۰ )
پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدّد اقوال سے معلوم ہوتی ہے۔
انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہلِ شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا’’ نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا‘‘۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ’’ ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو‘‘(لوقا ١۳:۲۳ )۔
آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ’’مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ‘‘۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیحؑ سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چُپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’اگر یہ چُپ رہیں گے تو پتھر پکار اُٹھیں گے ‘‘(لوقا ١۹: ۳۸۔۴۰)ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:
’’اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آ ؤ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جو ا اپنے اُوپر اُٹھا لو۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا‘‘۔(متی ١١: ۲۸۔۳۰)
پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اُس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھا لیتے ہیں؟ اس پر حضرت مسیحؑ نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ’’یہ اُمّت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مُجھ سے دُور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزّت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو بُرا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آ سکتی تھیں اُنہیں میں خدا کی نذر کر چکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متی۵:۳۔۹۔ مرقس۷: ۵۔١۳)
۴۹-’’حواری‘‘ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو ہمارے ہاں ’’انصار‘‘ کا مفہُوم ہے۔ بائیبل میں بالعموم حواریوں کے بجائے ’’شاگردوں‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور بعض مقامات پر انہیں رسول بھی کہا گیا ہے۔ مگر رسول اِس معنی میں کہ مسیح علیہ السّلام ان کو تبلیغ کے لیے بھیجتے تھے، نہ اِسم معنی میں کہ خدا نے ان کو رسُول مقرر کیا تھا۔
۵۰-دینِ اسلام کی اقامت میں حصّہ لینے کو قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ’’اللہ کی مدد کرنے ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے۔ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا کی ہے، اس میں وہ انسان کو کفر یا ایمان، بغاوت یا اطاعت میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے پر اپنی خدائی طاقت سے مجبُور نہیں کرتا۔ اس کے بجائے وہ دلیل اور نصیحت سے انسان کو اس بات کا قائل کرنا چاہتا ہے کہ انکار و نافرمانی اور بغاوت کی آزادی رکھنے کے باوجود اُس کے لیے حق یہی ہے اور اس کی فلاح و نجات کا راستہ بھی یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت اختیار کرے۔ اس طرح فہمائش اور نصیحت سے بندوں کو راہِ راست پر لانے کی تدبیر کرنا، یہ دراصل اللہ کا کام ہے۔ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں اُن کو اللہ اپنا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے۔ اور یہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہو سکتی ہے۔ نماز، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض بندہ و غلام ہوتا ہے۔ مگر تبلیغِ دین اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں بندے کو خدا کی رفاقت و مددگاری کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں رُوحانی ارتقا کا سب سے او نچا مرتبہ ہے۔
۵۱-اصل میں لفظ ’’مُتَوَفِّیْکَ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ تَوَفِّی کے اصل معنی لینے اور وُصُول کرنے کے ہیں ’’رُوح قبض کرنا‘‘ اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی۔ یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ(To recall) کے معنی میں مستعمل ہوا ہے، یعنی کسی عہدہ دار کو اس کے منصب سے واپس بُلانا۔ چونکہ بنی اسرائیل صدیوں سے مسلسل نافرمانیاں کر رہے تھے، بار بار کی تنبیہوں اور فہمائشوں کے باوجود ان کی قومی روش بگڑتی ہی چلی جا رہی تھی، پے در پے کئی انبیا کو قتل کر چکے تھے اور ہر اس بندۂ صالح کے خون کے پیاسے ہو جاتے تھے جو نیکی اور راستی کی طرف انہیں دعوت دیتا تھا، جیسے دو جلیل القدر پیغمبروں کو بیک وقت مبعوث کیا جن کے ساتھ مامور مِنَ اللہ ہونے کی ایسی کھُلی کھُلی نشانیاں تھیں کہ ان سے انکار صرف وہی لوگ کر سکتے تھے جو حق و صداقت سے انتہا درجہ کا عناد رکھتے ہوں اور حق کے مقابلہ میں جن کی جسارت و بے باکی حد کو پہنچ چکی ہو۔ مگر بنی اسرائیل نے اس آخری موقع کو بھی ہاتھ سے کھو دیا اور صرف اتنا ہی نہ کیا کہ ان دونوں پیغمبروں کی دعوت رد کر دی، بلکہ ان کے ایک رئیس نے علی الاعلان حضرت یحییٰؑ جیسے بلند پایہ انسان کا سر ایک رقّاصہ کی فرمائش پر قلم کرا دیا، اور ان کے علما و فقہا نے سازش کر کے حضرت عیسیٰؑ کو رُومی سلطنت سے سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی فہمائش پر مزید وقت صرف کرنا بالکل فضول تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو واپس بُلا لیا اور قیامت تک کے لیے بنی اسرائیل پر ذلت کی زندگی کا فیصلہ لکھ دیا۔
یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن کی یہ پُوری تقریر دراصل عیسائیوں کے عقیدہ ٴ اُلوہیّتِ مسیح کی تردید و اصلاح کے لیے ہے۔ اور عیسائیوں میں اس عقیدہ کے پیدا ہونے کے اہم ترین اسباب تین تھے :
(١) حضرت مسیح کی اعجاز ی ولادت۔
(۲) ان کے صریح محسُوس ہونے والے معجزات۔
(۳) اُن کا آسمان کی طرف اُٹھایا جانا جس کا ذکر صاف الفاظ میں ان کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
قرآن نے پہلی بات کی تصدیق کی اور فرمایا کہ مسیح کا بے باپ پیدا ہونا محض اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔ اللہ جس کو جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یہ غیر معمُولی طریقِ پیدائش ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مسیح خدا تھا یا خدائی میں کچھ بھی حصّہ رکھتا تھا۔
دُوسری بات کی بھی قرآن نے تصدیق کی اور خود مسیح کے معجزات ایک ایک کر کے گنائے، مگر بتا دیا کہ یہ سارے کام اُس نے اللہ کے اذن سے کیے تھے، باختیار خود کچھ بھی نہیں کیا، اس لیے ان میں سے بھی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے تم یہ نتیجہ نکالنے میں کچھ بھی حق بجانب ہو کہ مسیح کا خدائی میں کوئی حصّہ تھا۔
اب تیسری بات کے متعلق اگر عیسائیوں کی روایت سرے سے بالکل ہی غلط ہوتی تب تو ان کے عقیدہ ٴ اُلوہیّتِ مسیح کی تردید کے لیے ضروری تھا کہ صاف صاف کہہ دیا جاتا کہ تم الٰہ اور ابن اللہ بنا رہے ہو وہ مر کر مٹی میں مل چکا ہے، مزید اطمینان چاہتے ہو تو فلاں مقام پر جا کر اس کی قبر دیکھ لو۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی موت کی تصریح نہیں کرتا، اور صرف یہی نہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو زندہ اُٹھائے جانے کے مفہوم کا کم از کم احتمال تو رکھتے ہی ہیں، بلکہ عیسائیوں کو اُلٹا یہ اور بتا دیتا ہے کہ مسیح سرے سے صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے، یعنی وہ جس نے آخر وقت میں ’’ایلی ایلی لما شبقتانی‘‘ کہا تھا اور وہ جس کی صلیب پر چڑھی ہوئی حالت کی تصویر تم لیے پھرتے ہو وہ مسیح نہ تھا، مسیح کو تو اس سے پہلے ہی خدا نے اُٹھا لیا تھا۔
اس کے بعد جو لوگ قرآن کی آیات سے مسیح کی وفات کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ میاں کو صاف سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا مطلب ظاہر کرنے تک کا سلیقہ نہیں ہے۔ اعاذ نا اللہ مِن ذٰلِک۔
۵۲-انکار کرنے والوں سے مراد یہودی ہیں جن کو حضرت عیسیٰؑ نے ایمان لانے کی دعوت دی اور انہوں نے اُسے رد کر دیا۔ بخلاف ان کے پیروی کرنے والوں سے مراد اگر صحیح پیروی کرنے والے ہوں تو وہ صرف مسلمان ہیں، اور اگر اس سے مراد فی الجملہ آنجناب کے ماننے والے ہوں تو ان میں عیسائی اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔
۵۳-یعنی اگر محض اعجاز ی پیدائش ہی کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے لیے کافی دلیل ہو تب تو پھر تمہیں آدم کے متعلق بدرجۂ اولیٰ ایسا عقیدہ تجویز کرنا چاہیے تھا، کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے، مگر آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔
۵۴-یہاں تک کی تقریر میں جو بُنیادی نکات عیسائیوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں اُن کا خلاصہ علی الترتیب حسبِ ذیل ہے:
پہلا امر جو ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح کی اُلوہیت کا اعتقاد تمہارے اندر جن وجُوہ سے پیدا ہوا ہے، ان میں سے کوئی وجہ بھی ایسے اعتقاد کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ایک انسان تھا جس کو اللہ نے اپنی مصلحتوں کے تحت مناسب سمجھا کہ غیر معمُولی صورت سے پیدا کرے اور اسے ایسے معجزے عطا کرے جو نبوّت کی صریح علامت ہوں، اور منکرینِ حق کو اسے صلیب پر نہ چڑھانے دے بلکہ اس کو اپنے پاس اُٹھا لے۔ مالک کو اختیار ہے، اپنے جس بندے کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔ محض اس غیر معمولی برتا ؤ کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ خود مالک تھا، یا مالک کا بیٹا تھا، یا ملکیّت میں اس کا شریک تھا۔
دُوسری اہم بات جو ان کو سمجھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح جس چیز کی طرف دعوت دینے آئے تھے وہ وہی چیز ہے جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم دعوت دے رہے ہیں۔ دونوں کے مِشن میں یک سر مو فرق نہیں ہے۔
تیسرا بنیادی نکتہ اس تقریر کا یہ ہے کہ مسیح کے بعد ان کے حواریوں کا مذہب بھی یہی اسلام تھا جو قرآن پیش کر رہا ہے۔ بعد کی عیسائیت نہ اس تعلیم پر قائم رہی جو مسیح علیہ السّلام نے دی تھی اور نہ اُس مذہب کی پیرو رہی جس کا اتباع مسیح کے حواری کرتے تھے۔
۵۵-فیصلہ کی یہ صُورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصُود تھا کہ وفدِ نجران جان بُوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔اُوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی اُن لوگوں کے پاس نہ تھا۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کام یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہلِ وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوّت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے۔ اس لیے جب اُن سے کہا گیا کہ اچھّا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آ ؤ ہمارے مقابلہ میں دُعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھُل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری، جن کے تقدس کا سکّہ دُور دُور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے۔
۵۶-یہاں سے ایک تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جس کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ بدر اور جنگِ اُحد کے درمیانی دَور کی ہے۔ لیکن ان تینوں تقریروں کے درمیان مطالب کی ایسی قریبی مناسبت پائی جاتی ہے کہ شروع سُورت سے لے کر یہاں تک کسی جگہ ربطِ کلام ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ اسی بنا پر بعض مفسّرین کو شبہہ ہوا ہے کہ یہ بعد کی آیات بھی وفدِ نجران والی تقریر ہی کے سلسلہ کی ہیں۔ مگر یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کا اندازہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب یہُودی ہیں۔
۵۷-یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کر لو جس پر ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔ تمہارے اپنے انبیا سے یہی عقیدہ منقول ہے۔ تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں اس کی تعلیم موجود ہے۔
۵۸-یعنی تمہاری یہ یہُودیت اور یہ نصرانیت بہر حال تورات اور انجیل کے نزُول کے بعد پیدا ہوئی ہیں، اور ابراہیم علیہ السّلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا۔ پھر اگر حضرت ابراہیمؑ راہِ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہِ راست پر ہونا اور نجات پانا یہُودیّت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۳۵ و ۱۴۱)
۵۹-اصل میں لفظ حَنیف استعمال ہوا ہے جس سے مراد ایسا شخص ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک خاص راستہ پر چلے۔ اسی مفہوم کو ہم نے ’’مسلمِ یک سُو‘‘ سے ادا کیا ہے۔
۶۰-دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’تم خود گواہی دیتے ہو‘‘۔ دونوں صُورتوں میں نفسِ معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پاکیزہ زندگی، اور صحابۂ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قران میں ارشاد ہو رہے تھے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتبِ آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوّت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہلِ کتاب(خصُوصاً ان کے اہلِ علم) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیائے سابقین نے کیا تھا، حتیٰ کہ کبھی کبھی حق کی زبر دست طاقت سے مجبُور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں۔اسی وجہ سے قرآن بار بار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو۔
۶۱-یہ اُن چالوں میں سے ایک چال تھی جو اطرافِ مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کے لیڈر اور مذہبی پیشوا اسلام کی دعوت کو کمزور کرنے کے لیے چلتے رہتے تھے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو بد دل کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عامّۂ خلائق کو بدگمان کر نے کے لیے خفیہ طور پر آدمیوں کو تیار کر کے بھیجنا شروع کیا تا کہ پہلے علانیہ اسلام قبول کریں، پھر مرتد ہو جائیں، پھر جگہ جگہ لوگوں میں یہ مشہور کرتے پھریں کہ ہم نے اسلام میں اور مسلمانوں میں اور ان کے پیغمبر میں یہ اور یہ خرابیاں دیکھی ہیں تب ہی تو ہم ان سے الگ ہو گئے۔
۶۲-اصل میں لفظ ’’واسِع‘‘ استعمال ہوا ہے جو بالعموم قرآن میں تین مواقع پر آیا کرتا ہے۔ ایک وہ موقع جہاں انسانوں کے کسی گروہ کی تنگ خیالی و تنگ نظری کا ذکر آتا ہے اور اُسے اس حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اللہ تمہاری طرح تنگ نظر نہیں ہے۔ دُوسرا وہ موقع جہاں کسی کے بُخل اور تنگ دلی اور کم حوصلگی پر ملامت کرتے ہوئے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ فراخ دست ہے، تمہاری طرح بخیل نہیں ہے۔ تیسرا وہ موقع جہاں لوگ اپنے تخیّل کی تنگی کے سبب سے اللہ کی طرف کسی قسم کی محدُودیّت منسُوب کرتے ہیں اور انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ غیر محدُود ہے۔(ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۱۶)
۶۳-یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ کون فضل و شرف کا مستحق ہے۔
۶۴-یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیال نہ تھا، بلکہ اُن کے ہاں کی مذہبی تعلیم بھی یہی کچھ تھی، اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشوا ؤ ں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے۔ بائیبل قرض اور سُود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے (استثناء ١۵:۳۔۲۳:۲۰)۔ تَلموُد میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر ے تو اس پر تاوان ہے۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ کوئی گِری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گردو پیش آبادی کن لوگوں کی ہے۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے۔ ربّی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر اُمّی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جِتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جِتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے۔ اور اگر اُمّیوں کے قانون کے تحت جِتوا سکتا ہو تو اُس کے تحت جِتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کر سکتا ہو کرے۔ ربّی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اُٹھانا چاہیے (تالمودِک مِسّلینی، پال آئزک ہرشون، لندن ١۸۸۰ء، صفحات ۳۷۔۲١۰۔۲۲١)۔
۶۵-سبب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے ایسے سخت اخلاقی جرائم کر نے کے بعد بھی اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے روز بس یہی اللہ کے مقرب بندے ہوں گے، انہی کی طرف نظرِ عنایت ہو گی، اور جو تھوڑا بہت گناہوں کا مَیل دنیا میں ان کو لگ گیا ہے وہ بھی بزرگوں کے صدقے میں ان پر سے دھو ڈالا جائے گا، حالانکہ دراصل وہاں ان کے ساتھ بالکل برعکس معاملہ ہو گا۔
۶۶-اس کا مطلب اگرچہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کتابِ الٰہی کے معانی میں تحریف کرتے ہیں، یا الفاظ کا اُلٹ پھیر کر کے کچھ سے کچھ مطلب نکالتے ہیں، لیکن اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب کو پڑھتے ہوئے کسی خاص لفظ یا فقرے کو، جو اُن کے مفاد یا اُن کے خود ساختہ عقائد و نظریات کے خلاف پڑتا ہو، زبان کی گردش سے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ اس کی نظیریں قرآن کو ماننے والے اہلِ کتاب میں بھی مفقود نہیں ہیں۔ مثلاً بعض لوگ جو نبی کی بشریّت کے منکر ہیں آیت قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ میں اِنَّمَا کو اِنَّ مَا پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ’’اے نبی!کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا‘‘۔
۶۷-یہودیوں کے ہاں جو علماء مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے اور جن کا کام مذہبی اُمُور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کے قیام اور احکامِ دین کا اجراء کرنا ہوتا تھا، ان کے لیے لفظ رَبَّانِی استعمال کیا جا تا تھا جیسا کہ خود قرآن میں ارشاد ہوا ہے لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ و َ الْاَ حْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْت (ان کے ربّانی اور ان کے علماء ان کو گناہ کی باتیں کرنے اور حرام کے مال کھانے سے کیوں نہ روکتے تھے )۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں لفظ ( Divine ) بھی ’’ربّانی‘‘ کا ہی ہم معنی ہے۔
۶۸-یہ اُن تمام غلط باتوں کی ایک جامع تردید ہے جو دُنیا کی مختلف قوموں نے خدا کی طرف سے آئے ہوئے پیغمبروں کی طرف منسُوب کر کے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کر دی ہیں اور جن کی رُو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ کسی نہ کسی طرح خدا اور معبُود قرار پاتا ہے۔ ان آیات میں یہ قاعدہ ٴ کلیہ بتایا گیا ہے کہ ایسی کوئی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی و پرستش سکھاتی ہو اور کسی بندے کو بندگی کی حد سے بڑھا کر خدائی کے مقام تک لے جاتی ہو، ہر گز کسی پیغمبر کی دی ہوئی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ جہاں کسی مذہبی کتاب میں یہ چیز نظر آئے، سمجھ لو کہ یہ گمراہ کُن لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔
۶۹-مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اُس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامُور ہوئے ہو، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا۔ اُس کے ساتھ تعصّب نہ برتنا، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا، حق کی مخالفت نہ کرنا، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اُٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمّت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی اُمّت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔
۷۰-اِس ارشاد سے مقصُود اہلِ کتاب کو متنبہ کرنا ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ رہے ہو، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار اور ان کی مخالفت کر کے اُس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہو، جو تمہارے انبیاء سے لیا گیا تھا، لہٰذا اب تم فاسق ہو چکے ہو، یعنی اللہ کی اطاعت سے نِکل گئے ہو۔
۷۱-یعنی تمام کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا دین تو یہی اسلام، یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے، اب تم اس کائنات کے اندر رہتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر کونسا طریقہ ٴ زندگی تلاش کر رہے ہو؟
۷۲-یعنی ہمارا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی نبی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں، کسی کو جھُوٹا کہیں اور کسی کو سچّا۔ ہم تعصّب اور حمیّتِ جاہلیّہ سے پاک ہیں۔ دُنیا میں جہاں، جو اللہ کا بندہ بھی اللہ کی طرف سے حق لے کر آیا ہے، ہم اس کے بر حق ہونے پر شہادت دیتے ہیں۔
۷۳-یہاں پھر اُسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سے اس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبیِ برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصّب، ضد اور دُشمنیِ حق کی اُس پُرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرم چلے آرہے تھے۔
۷۴-یعنی صرف انکار ہی پر بس نہ کی بلکہ عملاً مخالفت و مزاحمت بھی کی، لوگوں کو خدا کے راستہ سے روکنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا، شبہات پیدا کیے، بدگمانیاں پھیلائیں، دلوں میں وسوسے ڈالے، اور بدترین سازشیں اور ریشہ دوانیاں کیں تا کہ نبی کا مِشن کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔
۷۵-اس سے مقصُود اُن کی اس غلط فہمی کو دُور کرنا ہے جو وہ ’’نیکی‘‘ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصوّر بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ’’تشرُّع‘‘ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اُتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹے ضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اُوپری سطح سے نیچے بالعمُوم یہُودیوں کے بڑے بڑے ’’دیندار‘‘ لوگ تنگ دلی، حرض، بخل، حق پوشی اور حق فروشی کے عیُوب چھّپائے ہوئے تھے اور رائے عام اُن کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے اُنھیں بتایا جا رہا ہے کہ ’’نیک انسان‘‘ ہونے کا مقام اُن چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل رُوح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آ جائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو، بس وہی بُت ہے اور جب تک اُ س بُت کو آدمی توڑ نہ دے، نیکی کے دروازے اُس پر بند ہیں۔ اس رُوح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اُس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھُن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا۔
۷۶-قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر جب علماء یہُود کوئی اُصُولی اعتراض نہ کر سکے (کیونکہ اساسِ دین جن اُموُر پر ہے اُن میں انبیاء سابقین کی تعلیمات اور نبیِ عربی ؐ کی تعلیم میں یک سر مُو فرق نہ تھا) تو اُنہوں نے فقہی اعتراضات شروع کیے۔ اس سلسلہ میں ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے کھانے پینے کی بعض ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو پچھلے انبیاء کے زمانہ سے حرام چلی آ رہی ہیں۔ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جا رہا ہے۔
۷۷-’’اسرائیل‘‘ سے مُراد اگر بنی اسرائیل لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ نزولِ توراة سے قبل بعض چیزیں بنی اسرائیل نے محض رسماً حرام قرار دے لی تھیں۔ اور اگر اس سے مراد حضرت یعقوبؑ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنجناب نے بعض چیزوں سے طبعی کراہت کی بنا پر یا کسی مرض کی بنا پر احتراز فرمایا تھا اور ان کی اولاد نے بعد میں اُنہیں ممنوع سمجھ لیا۔ یہی موخر الذکر روایت زیادہ مشہور ہے۔ اور بعد والی آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اُونٹ اور خرگوش وغیرہ کی حُرمت کا جو حکم بائیبل میں لکھا ہے وہ اصل توراة کا حکم نہیں ہے بلکہ یہودی علماء نے بعد میں اسے داخلِ کتاب کر دیا ہے۔(مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۱۲۲)۔
۷۸-مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہو گئے۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملّتِ ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔
۷۹-یہودیوں کا دُوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدِس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدِس ہی تھا۔ اس کا جواب سُورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے۔ لیکن یہُودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مُصِر رہے۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ بیت المقدِس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمانؑ نے اس کو تعمیر کیا (١۔سلاطین، باب ٦۔آیت ١)۔ اور حضرت سلیمانؑ ہی کے زمانہ میں وہ قبلۂ اہلِ توحید قرار دیا گیا(کتاب مذکور، باب ۸، آیت ۲۹۔۳۰)۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا، اور وہ حضرت موسیٰؑ سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں۔ لہٰذا کعبہ کی اوّلیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں۔
۸۰-یعنی اس گھر میں ایسی صریح علامات پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جناب میں مقبول ہوا ہے اور اسے اللہ نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہے۔ لق و دق بیابان میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس کے جوار میں رہنے والوں کی رزق رسانی کا بہتر سے بہتر انتظام کر دیا۔ ڈھائی ہزار برس تک جاہلیّت کے سبب سے سارا ملکِ عرب انتہائی بد امنی کی حالت میں رہا، مگرا س فساد بھری سر زمین میں کعبہ اور اطرافِ کعبہ ہی کا ایک خِطّہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا۔ بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسّر آ جاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی پہلے ہی سب دیکھ چکے ہیں کہ اَبرَہہ نے جب کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج کس طرح قہر الٰہی کی شکار ہوئی۔ اس واقعہ سے اُس وقت عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اور اس کے چشم دید شاہد اِن آیات کے نزول کے وقت موجود تھے۔
۸۱-جاہلیّت کے تاریک دَور میں بھی اس گھر کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دُشمن ایک دُوسرے کو وہاں دیکھتے تھے اور ایک کو دُوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
۸۲-یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو۔
۸۳-اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دُوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ’’مضبوط پکڑنے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت ’’دین‘‘ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رُو نما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔
۸۴-یہ اشارہ ہے اُس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہلِ عرب مبتلا تھے۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انھیں بچایا تو وہ یہی نعمتِ اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اَوس اور خَزرَج کے وہ قبیلے، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، باہم مل کر شِیر و شکر ہو چکے تھے، اور یہ دونوں قبیلے مکّہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتا ؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے۔
۸۵-یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خُود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اِس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اِسے چھوڑ کر پھر اُسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے ؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسُول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالتِ سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
۸۶-یہ اشارہ اُن اُمّتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دینِ حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مُدّت گزر جانے کے بعد اساسِ دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضِمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے، پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ اُنہیں اُس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے اُن بنیادی اُصُولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر در حقیقت انسان کی فلاح و سعادت کا مدار ہے۔
۸۷-یعنی چونکہ اللہ دُنیا والوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ ان کو سیدھا راستہ بھی بتا رہا ہے اور اِس بات سے بھی انہیں قبل از وقت آگاہ کیے دیتا ہے کہ آخر کار وہ کن اُمور پر اُن سے باز پرس کرنے والا ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کج روی اختیار کریں اور اپنے غلط طرزِ عمل سے باز نہ آئیں وہ اپنے اُوپر آپ ظلم کریں گے۔
۸۸-یہ وہی مضمون جو سورہ ٴ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے۔ نبیِ عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دُنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئی ہیں جو امامتِ عادلہ کے لیے ضروری ہیں، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہٗ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور ربّ تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو اور اُن غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۲۳ و نمبر ۱۴۴)۔
۸۹-یہاں اہلِ کتاب سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔
۹۰-یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن چین نصیب بھی ہوا ہے تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن و چین نہیں ہے بلکہ دُوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی، اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انھیں اپنی حمایت میں لے لیا۔ اسی طرح بسا اوقات انھیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے، لیکن وہ بھی اپنے زورِ بازو سے نہیں بلکہ محض ’’بپائے مردی ہمسایہ‘‘۔
۹۱-اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جذبۂ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطۂ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تمثیل سے یہ بتا نا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ کر ڈالتی ہے، اسی طرح خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعۂ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے، مگر جب اس کے اندر کفر کا زہر ملا ہو ا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مہلک بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے، اور اُس مال کا مالک بھی اللہ ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اندر رہ کر انسان کام کر رہا ہے۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتا، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اَور کی ناجائز بندگی بھی شریک کرتا ہے، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا، تو اس کے یہ تمام تصرفات از سر تا پا جُرم بن جاتے ہیں۔ اجر ملنا کیسا وہ تو اِس کا مستحق ہے کہ اِن تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اُ س کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے۔
۹۲-مدینہ کے اطراف میں جو یہودی آباد تھے ان کے ساتھ أوس اور خَزرَج کے لوگوں کی قدیم زمانہ سے دوستی چلی آ رہی تھی۔ انفرادی طور پر بھی اِن قبیلوں کے افراد اُن کے افراد سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور قبائلی حیثیت سے بھی یہ اور وہ ایک دوسرے کے ہمسایہ اور حلیف تھے۔ جب أوس اور خَزرَج کے قبیلے مسلمان ہو گئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پرانے تعلقات نباہتے رہے ان کے افراد اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی محبت و خلوص کے ساتھ ملتے رہے۔ لیکن یہودیوں کو نبیِ عربی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے مشن سے جو عداوت ہو گئی تھی اس کی بنا پر وہ کسی ایسے شخص سے مخلصانہ محبت رکھنے کے لیے تیار نہ تھے جو اس نئی تحریک میں شامل ہو گیا ہو۔ انہوں نے انصار کے ساتھ ظاہر میں تو وہی تعلقات رکھے جو پہلے سے چلے آتے تھے، مگر دل میں اب ان کے سخت دشمن ہو چکے تھے، اور اس ظاہری دوستی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں اندرونی فتنہ و فساد برپا کر دیں اور ان کی جماعتی راز معلوم کر کے ان کے دشمن تک پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کی اسی منافقانہ روش سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔
۹۳-یعنی یہ عجیب ماجرا ہے کہ شکایت بجائے اِس کے کہ تمہیں اُن سے ہوتی، اُن کو تم سے ہے۔ تم تو قرآن کے ساتھ توراة کو بھی مانتے ہو اس لیے اُن کو تم سے شکایت ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی۔ البتہ شکایت اگر ہو سکتی تھی تو تمہیں اُن سے ہو سکتی تھی کیونکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے۔
۹۴-یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ یہ جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگِ اُحُد پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اُوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ ’’ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔‘‘ اب چونکہ اُحُد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں، اس لیے یہ خطبہ جس میں اُنھیں اِن کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے، مندرجۂ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا۔
اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگِ اُحُد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تُلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفارِ قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگِ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار اُن کے اصرار سے مجبُور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ ؐ کے ساتھ نکلے، مگر مقامِ شَوط پر پہنچ کر عبداللہ ابنِ ابَیّ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا۔ عین وقت پر اُس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا، حتیٰ کہ بنو سلمہ اور بنو حارِثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر پھر اُولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا۔ اِن باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے اور اُحُد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جُبَیر کے زیرِ قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ’’کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا۔ ‘‘ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتداءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مالِ غنیمت کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لُوٹنا شروع کر دیا۔ اُدھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لُٹ رہی ہے، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تاکیدی حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکرِ کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بر وقت فائدہ اُٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کر سکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورتِ حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حِصّہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اُڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمّت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد و پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ ؐ خود زخمی ہو چکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہیں، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ ؐ کے گرد جمع ہو گئے اور آپ ؐ کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معمّا ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفارِ مکّہ کو خود بخود واپس پھیر دیا۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
۹۵-یہ اشارہ ہے بنو سلمہ اور بنو حارثہ کی طرف جن کی ہمتیں عبداللہ بن اُبَی اور اس کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد پست ہو گئی تھیں۔
۹۶-مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف دشمن تین ہزار ہیں اور ہمارے ایک ہزار میں سے بھی تین سو الگ ہو گئے ہیں تو ان کے دل ٹوٹنے لگے۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن سے یہ الفاظ کہے تھے۔
۹۷-نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب زخمی ہوئے تو آپ کے مُنہ سے کفار کے حق میں بد دُعا نکل گئی اور آپ نے فرمایا کہ ’’ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کو زخمی کرے ‘‘۔ یہ آیات اسی کے جواب میں ارشاد ہوئی ہیں۔
۹۸-اُحُد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لُوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیمِ مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سُود خواری سے باز آ ؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
۹۹-(سُود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سُود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سُود لینے والوں میں حرص و طمع، بُخل اور خود غرضی۔ اور سُود دینے والوں میں نفرت، غصّہ اور بُغض و حسد۔ اُحُد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصّہ شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سُود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالکل برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دُوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دُوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۳۲۰)
۱۰۰-اشارہ ہے جنگِ بدر کی طرف۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اُس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمّت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمّت ہارو۔
۱۰۱-اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشھَُدَآءَ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزّت بخشنا چاہتا تھا۔ اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اِس وقت مشتمل ہو، اُن لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شھَُدَآ ء عَلَی النَّاس ہیں، یعنی اُس منصبِ جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمّتِ مسلمہ کو سرفراز کیا ہے۔
۱۰۲-اشارہ ہے شہادت کے اُن تمنائیوں کی طرف جن کے اصرار سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔
۱۰۳-جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی خبر مشہُور ہوئی تو اکثر صحابہ کی ہمتیں چھُوٹ گئیں۔ اس حالت میں منافقین نے (جو مسلمانوں کے ساتھ ہی لگے ہوئے تھے ) کہنا شروع کیا کہ چلو عبداللہ بن اُبَی کے پاس چلیں تاکہ وہ ہمارے لیے ابُوسُفیان سے امان لے دے۔ اور بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر محمد ؐ خدا کے رسول ہوتے تو قتل کیسے ہوتے، چلو اب دینِ آبائی کی طرف لوٹ چلیں۔ انہی باتوں کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر تمہاری ’’حق پرستی‘‘ محض محمد ؐ کی شخصیت سے وابستہ ہے اور تمہارا اسلام ایسا سُست بُنیاد ہے کہ محمد ؐ کے دُنیا سے رخصت ہوتے ہی تم اسی کفر کی طرف پلٹ جا ؤ گے جس سے نکل کر آئے تھے تو اللہ کے دین کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔
۱۰۴-اس سے یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ موت کے خوف سے تمہارا بھاگنا فضُول ہے۔ کوئی شخص نہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے مر سکتا ہے اور نہ اس کے بعد جی سکتا ہے۔لہٰذا تم کو فکر موت سے بچنے کی نہیں بلکہ اس بات کی ہونی چاہیے کہ زندگی کی جو مُہلت بھی تمہیں حاصل ہے اس میں تمہاری سعی و جہد کا مقصُود کیا ہے، دُنیا یا آخرت؟
۱۰۵-ثواب کے معنی ہیں نتیجۂ عمل۔ ثوابِ دنیا سے مراد وہ فوائد و منافع ہیں جو انسان کو اُس کی سعی اور عمل کے نتیجہ میں اِسی دنیا کی زندگی میں حاصل ہوں۔ اور ثوابِ آخرت سے مراد وہ فوائد و منافع ہیں جو اسی سعی و عمل کے نتیجہ میں آخرت کی پائیدار زندگی میں حاصل ہوں گے۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے انسانی اخلاق کے معاملہ میں فیصلہ کُن سوال یہی ہے کہ کارزارِ حیات میں آدمی جو دوڑ دھوپ کر رہا ہے اس میں آیا وہ دُنیوی نتائج پر نگاہ رکھتا ہے یا اُخروی نتائج پر۔
۱۰۶-’’شکر کرنے والوں‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اِس نعمت کے قدر شناس ہوں کہ اُن نے دین کی صحیح تعلیم دے کر انھیں دنیا اور اس کی محدود زندگی سے بہت زیادہ وسیع، ایک نا پیدا کنار عالَم کی خبر دی، اور انھیں اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسانی سعی و عمل کے نتائج صرف اس دنیا کی چند سالہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دُوسرے عالَم تک ان کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔ یہ وسعتِ نظر اور یہ دُوربینی و عاقبت اندیشی حاصل ہو جانے کے بعد جو شخص اپنی کوششوں اور محنتوں کو اِس دُنیوی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں بار آور ہوتے نہ دیکھے، یا ان کا برعکس نتیجہ نکلتا دیکھے، اور اس کے باوجود اللہ کے بھروسہ پر وہ کام کرتا چلا جائے جس کے متعلق اللہ نے اسے یقین دلایا ہے کہ بہرحال آخرت میں اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا، وہ شکر گزار بندہ ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اس کے بعد بھی دنیا پرستی کی تنگ نظری میں مُبتلا رہیں، جن کا حال یہ ہو کہ دنیا میں جن غلط کوششوں کے بظاہر اچھے نتائج نکلتے نظر آئیں ان کی طرف وہ آخرت کے بُرے نتائج کی پروا کیے بغیر جھُک پڑیں، اور جن صحیح کوششوں کے یہاں بار آور ہونے کی اُمید نہ ہو، یا جن سے یہاں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، اُن میں آخرت کے نتائجِ خیر کی اُمید پر اپنا وقت، اپنے مال اور اپنی قوتیں صرف کرنے کے لیے تیار نہ ہوں، وہ ناشکرے ہیں اور اُس علم کے نا قدر شناس ہیں جو اللہ نے انھیں بخشا ہے۔
۱۰۷-یعنی اپنی قلتِ تعداد اور بے سر و سامانی، اور کفار کی کثرت اور زور آوری دیکھ کر اُنھوں نے باطل پرستوں کے آگے سَپر نہیں ڈالی۔
۱۰۸-یعنی جس کفر کی حالت سے تم نِکل کر آئے ہو اُسی میں تمہیں پھر واپس لے جائیں گے۔ منافقین اور یہودی اُحد کی شکست کے بعد مسلمانوں میں یہ خیال پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ محمد ؐ اگر واقعی نبی ہوتے تو شکست کیوں کھاتے۔ یہ تو ایک معمولی آدمی ہیں۔ ان کا معاملہ بھی دوسرے آدمیوں کی طرح ہے۔ آج فتح ہے تو کل شکست۔ خدا کی جس حمایت و نصرت کا انہوں نے تم کو یقین دلا رکھا ہے وہ محض ایک ڈھونگ ہے۔
۱۰۹-یعنی تم نے غلطی تو ایسی کی تھی کہ اگر اللہ تمہیں معاف نہ کر دیتا تو اس وقت تمہارا استیصال ہو جاتا۔ یہ اللہ کا فضل تھا اور اس کی تائید و حمایت تھی جس کی بدولت تمہارے دشمن تم پر قابو پا لینے کے بعد ہوش گم کر بیٹھے اور بلاوجہ خود پسپا ہو کر چلے گئے۔
۱۱۰-جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے بیک وقت حملہ ہوا اور ان کی صفحوں میں ابتری پھیل گئی تو کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے اور کچھ اُحد پر چڑھ گئے، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ دُشمنوں کا چاروں طرف ہجوم تھا، دس بارہ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت پاس رہ گئی تھی، مگر اللہ کا رسُول اس نازک موقع پر بھی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما ہوا تھا اور بھاگنے والوں کو پکار رہا تھا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ اِلَیَّ عِبَادَاللہِ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ۔
۱۱۱-رنج ہزیمت کا، رنج اس خبر کا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، رنج اپنے کثیر التعداد مقتولوں اور مجرُوحوں کا، رنج اس بات کا کہ اب گھروں کی بھی خبر نہیں، تین ہزار دشمن، جن کی تعداد مدینہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، شکست خوردہ فوج کو روندتے ہوئے قصبہ میں آ گھُسیں گے اور سب کو تباہ کر دیں گے۔
۱۱۲-یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکرِ اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہؓ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اُونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھُوٹی پڑتی تھیں۔
۱۱۳-یعنی یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قضاء الٰہی کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی۔ مگر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور سب کچھ تدبیروں ہی پر موقوف سمجھتے ہیں ان کے لیے اس قسم کے قیاسات بس داغِ حسرت بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ کاش یوں ہوتا تو یہ ہو جاتا۔
۱۱۴-جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دُشمن کا لشکر لوٹا جا رہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مِل جائے جو اسے لوٹ رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے اُن لوگوں کو بُلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے۔ اس پر حضور نے فرمایا بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم۔’’اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصّہ نہیں دیں گے۔‘‘ اس آیت کا اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے۔ ارشادِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہو گا۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت، امانت اور انصاف کے سوا کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے ؟
۱۱۵-اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسُول ؐ ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ اس لیے جب اُحد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے، اس کا وعدۂ نصرت ہمارے ساتھ تھا، اُس کا رسُول خود میدانِ جنگ میں موجود تھا، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے ؟ اور شکست بھی اُن سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے ؟ یہ آیات اِسی حیرانی کو دُور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں۔
۱۱۶-جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے۔ بخلاف اس کے جنگِ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے۔
۱۱۷-یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے، حکم کی خلاف ورزی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر کیوں پُوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟
۱۱۸-یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔
۱۱۹-عبداللہ بن اُبَی جب تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر راستہ سے پلٹنے لگا تو بعض مسلمانوں نے جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنا چاہا۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آج جنگ نہیں ہو گی، اس لیے ہم جا رہے ہیں، ورنہ اگر ہمیں توقع ہوتی کہ آج جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔
۱۲۰-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۵۵۔
۱۲۱-مسند احمد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص نیک عمل لے کر دُنیا سے جاتا ہے اُسے اللہ کے ہاں اس قدر پُر لُطف اور پُر کیف زندگی میسّر آتی ہے جس کے بعد وہ کبھی دُنیا میں واپس آنے کی تمنا نہیں کرتا۔ مگر شہید اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ تمنا کرتا ہے کہ پھر دُنیا میں بھیجا جائے اور پھر اُس لذّت، اس سرُور اور اس نشے سے لُطف اندوز ہو جو راہِ خدا میں جان دیتے وقت حاصل ہوتا ہے۔
۱۲۲-جنگِ اُحُد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دُور چلے گئے تو انھیں ہوش آیا اور انہوں نے آپس میں کہا یہ ہم نے کیا حرکت کی کہ محمد ؐ کی طاقت کو توڑ دینے کا جو بیش قیمت موقع ملا تھا اُسے کھو کر چلے آئے۔ چنانچہ ایک جگہ ٹھیر کر اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر فوراً ہی دُوسرا حملہ کر دیا جائے۔ لیکن پھر ہمّت نہ پڑی اور مکّہ واپس چلے گئے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر نہ پلٹ آئیں۔ اس لیے جنگِ اُحد کے دوسرے ہی دن آپ ؐ نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا کہ کفار کے تعاقب میں چلنا چاہیے۔ یہ اگرچہ نہایت نازک موقع تھا، مگر پھر بھی جو سچّے مومن تھے وہ جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس آیت کا اشارہ انہی فدا کاروں کی طرف ہے۔
۱۲۳-یہ چند آیات جنگِ اُحد کے ایک سال بعد نازل ہوئی تھیں مگر چونکہ ان کا تعلق اُحد ہی کے سلسلۂ واقعات سے تھا اس لیے ان کو بھی اس خطبہ میں شامل کر دیا گیا۔
۱۲۴-اُحد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہو گا۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمّت نے جواب دے دیا کیونکہ اُس سال مکّہ میں قحط تھا۔ لہٰذا اُس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کر سکے گا۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری اُنہی پر رہے۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمّت افزا جواب نہ ملا۔ آخر کار اللہ کے رسول ؐ نے بھرے مجمع میں اعلان کر دیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جا ؤ ں گا۔ اس پر ۱۵ سو فدا کار آپ ؐ کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ ؐ انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے۔ اُدھر سے ابوسفیان دو ہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، آئندہ سال آئیں گے چنانچہ وہ اور اس کے سا تھی واپس ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آٹھ روز تک بدر کے مقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دَوران میں آپ ؐ کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اُٹھایا۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہو گئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ ؐ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔
۱۲۵-یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہلِ ایمان اور منافق، سب خلط ملط رہیں۔
۱۲۶-یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھُل جائے گا۔
۱۲۷-یعنی زمین و آسمان کی جو چیز بھی کوئی مخلوق استعمال کر رہی ہے وہ دراصل اللہ کی مِلک ہے اور اس پر مخلوق کا قبضہ و تصّرف عارضی ہے۔ ہر ایک اپنے مقبوضات سے بہر حال بے دخل ہونا ہے اور آخر کار سب کچھ اللہ ہی کے پاس رہ جانے والا ہے۔ لہٰذا عقل مند ہے وہ جو اس عارضی قبضہ کے دَوران میں اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر صرف کرتا ہے۔ اور سخت بیوقوف ہے وہ جو اسے بچا بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
۱۲۸-یہ یہودیوں کا قول تھا۔ قرآن مجید میں جب یہ آیت آئی کہ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْ ضًا حَسَنًا، ’’کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے ‘‘، تو اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے یہُودیوں نے کہنا شروع کیا کہ جی ہاں، اللہ میاں مفلس ہو گئے ہیں، اب وہ بندوں سے قرض مانگ رہے ہیں۔
۱۲۹-بائیبل میں متعدّد مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ خدا کے ہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہو کر اسے بھسم کر دیتی تھی (قضاة ٦: ۲۰۔۲١ و ١۳: ١۹۔۲۰)۔ نیز یہ ذکر بھی بائیبل میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر کوئی نبی سو ختنی قربانی کرتا تھا اور ایک غیبی آگ آ کر اسے کھا لیتی تھی(احبار۔۹ : ۲۴۔۲۔تواریخ۔۷ : ١۔۲)۔ لیکن یہ کسی جگہ بھی نہیں لکھا کہ اس طرح کی قربانی نبوّت کی کوئی ضروری علامت ہے، یا یہ کہ جس شخص کو یہ معجزہ نہ دیا گیا ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہو سکتا۔ یہ محض ایک من گھڑت بہانا تھا جو یہودیوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوّت کا انکار کرنے کے لیے تصنیف کر لیا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی حق دشمنی کا ثبوت یہ تھا کہ خود انبیائے بنی اسرائیل میں سے بعض نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آتشیں قربانی کا یہ معجزہ پیش کیا اور پھر بھی یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے قتل سے باز نہ رہے۔ مثال کے طور پر بائیبل میں حضرت الیاسؑ (ایلیاہ تِشبی) کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے بَعل کے پجاریوں کو چیلنج دیا کہ مجمعِ عام میں ایک بیل کی قربانی تم کرو اور ایک کی قربانی میں کرتا ہوں۔ جس کی قربانی کو غیبی آگ کھا لے وہی حق پر ہے۔ چنانچہ ایک خلقِ کثیر کے سامنے یہ مقابلہ ہوا اور غیبی آگ نے حضرت الیاسؑ کی قربانی کھائی۔ لیکن اس کا جو کچھ نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاسؑ کی دشمن ہو گئی، اور وہ زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کی خاطر ان کے قتل کے درپے ہوا اور ان کو مجبوراً ملک سے نِکل کر جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی( ١۔سلاطین۔باب ١۸ و ١۹)۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ حق کے دُشمنو! تم کس منہ سے آتشیں قربانی کا معجزہ مانگتے ہو ؟ جن پیغمبروں نے یہ معجزہ دکھایا تھا انہی کے قتل سے تم کب باز رہے۔
۱۳۰-یعنی اس دُنیا کی زندگی میں جو نتائج رُو نما ہوتے ہیں انہی کو اگر کوئی شخص اصلی اور آخری نتائج سمجھ بیٹھے اور اُنہی پر حق و باطل اور فلاح و خُسران کے فیصلے کا مدار رکھے تو درحقیقت وہ سخت دھوکہ میں مُبتلا ہو جائے گا۔ یہاں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہی حق پر بھی ہے اور اسی کو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت بھی حاصل ہے۔ اور اسی طرح یہاں کسی کا مصائب و مشکلات میں مُبتلا ہونا بھی لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ باطل پر ہے اور مردودِ بارگاہِ الٰہی ہے۔ اکثر اوقات اس ابتدائی مرحلہ کے نتائج اُن آخری نتائج کے برعکس ہوتے ہیں جو حیاتِ ابدی کے مرحلہ میں پیش آنے والے ہیں۔ اور اصل اعتبار اُنہی نتائج کا ہے۔
۱۳۱-یعنی اُن کے طعن و تشنیع، اُن کے الزامات، اُن کے بیہُودہ طرزِ کلام اور اُن کی جھُوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اُتر آ ؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں۔
۱۳۲-یعنی انھیں یہ تو یاد رہ گیا کہ بعض پیغمبروں کو آگ میں جلنے والی قربانی بطور نشان کے دی گئی تھی، مگر یہ یاد نہ رہا کہ اللہ نے اپنی کتاب ان کے سپرد کرتے وقت ان سے کیا عہد لیا تھا اور کس خدمتِ عظمیٰ کی ذمّہ داری ان پر ڈالی تھی۔
یہاں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ذکر جگہ جگہ بائیبل میں آتا ہے۔ خصُوصاً کتاب استثناء میں حضرت موسیٰؑ کی جو آخری تقریر نقل کی گئی ہے اس میں تو وہ بار بار بنی اسرائیل سے عہد لیتے ہیں کہ جو احکام میں نے تم کو پہنچائے ہیں اُنھیں اپنے دل پر نقش کر نا، اپنی آئندہ نسلوں کو سکھانا، گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے، ہر وقت ان کا چرچا کرنا، اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر ان کو لکھ دینا(٦:۴۔۹)۔ پھر اپنی آخری نصیحت میں اُنھوں نے تاکید کی کہ فلسطین کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرنا کہ کوہِ عیبال پر بڑے بڑے پتھر نصب کر کے توراة کے احکام ان پر کندہ کر دینا(۲۷:۲۔۴)۔ نیز بنی لاوِی کو توراة کا ایک نسخہ دے کر ہدایت فرمائی کہ ہر ساتویں برس عیدِ خیام کے موقع پر قوم کے مردوں، عورتوں، بچّوں سب کو جگہ جگہ جمع کر کے یہ پُوری کتاب لفظ بلفظ ان کو سُناتے رہنا۔ لیکن اس پر بھی کتاب اللہ سے بنی اسرائیل کی غفلت رفتہ رفتہ یہاں تک بڑھی کہ حضرت موسیٰؑ کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین، اور یروشلم کے یہُودی فرماں روا تک کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں تورات نامی بھی کوئی کتاب موجود ہے۔(۲۔سلاطین۔۲۲ :۸۔١۳)۔
۱۳۳-مثلاً وہ اپنی تعریف میں یہ سننا چاہتے ہیں کہ حضرت بڑے متقی ہیں، دیندار اور پارسا ہیں، خادمِ دین ہیں، حامیِ شریعت ہیں، مُصلح و مزکّی ہیں، حالانکہ حضرت کچھ بھی نہیں ہیں۔ یا اپنے حق میں یہ ڈھنڈورا پٹوانا چاہتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے ایثار پیشہ اور مخلص اور دیانت دار رہنما ہیں اور انہوں نے ملّت کی بڑی خدمت کی ہے، حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔
۱۳۴-یہ خاتمۂ کلام ہے۔ اس کا ربط اُوپر کی قریبی آیات میں نہیں بلکہ پُوری سُورۃ میں تلاش کرنا چاہیے۔ اس کو سمجھنے کے لیے خصُوصیّت کے ساتھ سُورۃ کی تمہید کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔
۱۳۵-یعنی ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو، اور آثارِ کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے۔
۱۳۶-جب وہ نظامِ کائنات کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھُل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اور یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حِس پیدا کی ہو، جسے تصرّف کے اختیارات دیے ہوں، جسے عقل و تمیز عطا کی ہو، اُس سے اُس کی حیاتِ دنیا کے اعمال پر باز پُرس نہ ہو، اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے۔ اس طرح نظامِ کائنات پر غور و فکر کرنے سے اُنھیں آخرت کا یقین حاصل ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔
۱۳۷-اِسی طرح یہی مشاہدہ اُن کو اِس بات پر بھی مطمئن کر دیتا ہے کہ پیغمبر اِس کائنات اور اس کے آغاز و انجام کے متعلق جو نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور زندگی کا جو راستہ بتاتے ہیں وہ سراسر حق ہے۔
۱۳۸-یعنی انھیں اس امر میں تو شک نہیں ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کو پُورا کرے گا یا نہیں۔ البتہ تردّد اس امر میں ہے کہ آیا ان وعدوں کے مصداق ہم بھی قرار پاتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے وہ اللہ سے دُعا مانگتے ہیں کہ ان وعدوں کا مصداق ہمیں بنا دے اور ہمارے ساتھ انھیں پورا کر، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لا کر کفر کی تضحیک اور طعن و تشنیع کے ہدف بنے ہی ہیں، قیامت میں بھی اِن کافروں کے سامنے ہماری رُسوائی ہو اور وہ ہم پر پھبتی کسیں کہ ایمان لا کر بھی اِن کا بھَلا نہ ہوا۔
۱۳۹-یعنی تم سب انسان ہو اور میری نگاہ میں یکساں ہو۔ میرے ہاں یہ دستور نہیں ہے کہ عورت اور مرد، آقا اور غلام، کالے اور گورے، اُونچ اور نیچ کے لیے انصاف کے اُصُول اور فیصلے کے معیار الگ الگ ہوں۔
۱۴۰-روایت ہے کہ بعض غیر مسلم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰؑ عصا اور یدِ بیضا ء لائے تھے۔ عیسیٰؑ اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اچھا کرتے تھے۔ دُوسرے پیغمبر بھی کچھ نہ کچھ معجزے لائے تھے۔ آپ فرمائیں کہ آپ کیا لائے ہیں ؟ اس پر آپ نے اس رکوع کے آغاز سے یہاں تک کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان سے کہا میں تو یہ لایا ہوں۔
۱۴۱-اصل عربی متن میں صَابِرُوْا کا لفظ آیا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ کفار اپنے کفر پر جو مضبوطی دکھا رہے ہیں اور اس کو سربلند رکھنے کے لیے جو زحمتیں اُٹھا رہے ہیں تم ان کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ۔ دوسرے یہ کہ ان کے مقابلہ میں ایک دُوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھا ؤ۔