تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ آل عِمرَان

(سورہ نمبر ۳ ۔ تعداد آیات ۲۰۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے

ترجمہ

 

۱.۔۔ اللہ وہ (ہستی) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو خود زندہ (سب کو) تھامنے والا ہے، اسی نے (جو اس عظمت و شان کا مالک ہے)

۲.۔۔ اتاری آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ، جو تصدیق کرنے والی ہے ان سب کتابوں کی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں، اور اسی نے اتارا تورات کو بھی اور انجیل کو بھی،

۳.۔۔ اس سے پہلے، لوگوں کی ہدایت (و راہنمائی) کیلئے، اور اسی نے اتارا (حق و باطل کے درمیان) فرق کر دینے والی چیز کو، بے شک جن لوگوں نے انکار کیا اللہ کی آیتوں (عظیم الشان نعمت) کا، ان کے لئے بڑا سخت عذاب ہے، اور اللہ بڑا ہی زبردست، (اور) انتقام لینے والا ہے،

۴.      ۔۔ بے شک اللہ پر کوئی چیز چھپی نہیں، نہ زمین (کی پستیوں) میں، اور نہ آسمان (کی بلندیوں) میں،

۵.      ۔۔ وہ (وحدہٗ لاشریک) وہی ہے جو تمہاری صورت گری فرماتا ہے تمہاری ماؤں کے رحموں اندر جیسے چاہتا ہے، کوئی معبود نہیں سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے، جو بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے،

۶.      ۔۔ وہ ہی ہے جس نے آپ پر یہ (عظیم الشان) کتاب اتاری، جس کی کچھ آیتیں محکم ہیں،  جو کہ اس کتاب کی اصل بنیاد ہیں، جب کہ اس کی کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں، سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی (اور ٹیڑھ) ہے، وہ اس کی انہی آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں، جو کہ متشابہ ہیں، فتنہ (و فساد) کی تلاش میں، اور ان (سے اپنی مرضی) کا مطلب نکالنے کے لئے حالانکہ ان کا (حقیقی) مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے، اور جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر (اللہ کی مراد کے مطابق) ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) سبق وہی لوگ لیتے ہیں جو عقل سلیم رکھتے ہیں،

۷.      ۔۔ (اور وہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب، پھیر نہ دینا ہمارے دلوں کو (راہ حق و صواب سے) اس کے بعد کہ تو (اپنے کرم سے) ہمیں نواز چکا ہے (حق و) ہدایت (کی دولت) سے اور عطا فرما دے ہمیں اپنی طرف سے رحمت بے شک تو (اے ہمارے مالک !) بڑا ہی بخشنے والا (سب کچھ عطا کرنے والا) ہے،

۸.      ۔۔ اے ہمارے رب بے شک تو جمع کرنے والا ہے سب لوگوں کو ایک ایسے (ہولناک اور) عظیم الشان دن میں، جس میں کوئی شک نہیں، بے شک اللہ خلاف نہیں فرماتا اپنے وعدہ کے،

۹.      ۔۔ بے شک جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفرو (باطل) پر، ان کو اللہ کے مقابلے میں نہ تو ان کے مال کچھ کام آ سکیں گے، اور نہ ہی ان کی اولا دیں، اور یہی لوگ ہیں جو ایندھن ہوں گے (دوزخ کی) اس ہولناک آگ کا،

۱۰.    ۔۔ (یہ لوگ اپنے حال و مال کے اعتبار سے ویسے ہی ہیں) جیسا کہ فرعون والے اور وہ لوگ تھے جو کہ ان سے بھی پہلے گزر چکے ہیں، کہ انہوں نے بھی ہمیں جھٹلایا ہماری آیتوں کو، جس کے نتیجے میں اللہ نے (آخرکار) ان کو پکڑا، ان کے گناہوں کے سبب اور اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے،

۱۱.    ۔۔ کہہ دو ان لوگوں سے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر کہ عنقریب ہی تم کو (اس دنیا میں بھی) مغلوب ہونا ہے، اور (پھر قیامت کے روز) تم کو ہانک کر لے جایا جائے گا، جہنم کے (ہولناک گڑھے) کی طرف، اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ۔

۱۲.    ۔۔ وہ بے شک تمہارے لئے (حق و باطل کی پہچان کے لئے) بڑی نشانی تھی ان دو گروہوں (کی مڈ بھیڑ) میں، جن کا (بدر کے مقام پر) باہم مقابلہ ہوا جن میں سے ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں (اور اس کی رضا کے لئے) لڑ رہا تھا، اور دوسرا گروہ جو کہ کافروں کا تھا، وہ (عین معرکہ کے وقت) مسلمانوں کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا آنکھوں کے اعتبار سے اور اللہ تائید فرماتا اپنی مدد سے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی بناء پر) جس کو چاہتا ہے، بے شک اس میں بڑا سامان عبرت ہے چشم بینا رکھنے والوں کے لئے ۔

۱۳.    ۔۔ خوشنما بنا دیا گیا لوگوں کے لئے مرغوبات نفس کی محبت کو، جیسے عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے جمع کردہ ڈھیر، نشان کئے ہوئے (عمدہ) گھوڑے، مویشی اور کھیتی (مگر یہ سب کچھ تو دنیا کی (چند روزہ) زندگی کا سامان ہے، (اور بس) جب کہ (اصل اور) عمدہ ٹھکانا اللہ ہی کے پاس ہے،

۱۴.    ۔۔ کہو کیا میں تم لوگوں کو ایسی چیز (نہ) بتا دوں جو ان سے کہیں بڑھ کر بہتر ہے ؟ (وہ یہ کہ) جن لوگوں نے تقویٰ (و پرہیزگاری) کی زندگی گزاری ہو گی، ان کے لئے ان کے رب کے یہاں ایسی عظیم الشان جنتیں ہوں گی، جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان (اور بے مثل) نہریں، جہاں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا، اور وہاں ان کے لئے ایسی بیویاں بھی ہوں گی جن کو پاک کر دیا گیا ہو گا (ہر طرح کے عیوب و نقائص سے)، اور (ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے لئے) اللہ کی طرف سے خوشنودی (کی عظیم الشان نعمت) بھی ہو گی، اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اپنے بندوں کو،

۱۵.    ۔۔ (یہ خوش نصیب لوگ وہ ہیں) جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم (صدق دل سے) ایمان لائے، پس تو بخش دے ہمارے گناہوں کو، اور بچا دے ہمیں دوزخ کے عذاب سے،

۱۶.    ۔۔ جو صبر کرنے والے، راستباز، فرمانبرداری کرنے والے، (راہ حق میں) خرچ کرنے والے، اور اپنی بخشش کی دعائیں مانگنے والے ہیں، راتوں کے پچھلے حصوں میں،

۱۷.    ۔۔ گواہی دی اللہ نے خود اس بات کی کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے، اور اس کے فرشتوں نے بھی (یہی گواہی دی) اور اہل علم نے بھی، وہی قائم رکھنے والا ہے (عدل و) انصاف کو، کوئی بھی بندگی کے لائق نہیں سوائے اس (وحدہٗ لاشریک) کے، جو بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے،

۱۸.    ۔۔ بے شک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے،  اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق اور حقیقت کے بارے میں صحیح) علم پہنچ گیا، محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بنا پر، اور جو کوئی کفر کرے گا اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو (وہ یقیناً اپنا ہی نقصان کرے گا کہ) بے شک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے،

۱۹.    ۔۔ پس اگر یہ لوگ (پھر بھی) آپ سے جھگڑا (اور حجت بازی) ہی کریں، تو (ان سے صاف) کہہ دو کہ (تم لوگ مانو یا نہ مانو) میں نے تو بہرحال حوالے کر دیا اپنی ذات کو اللہ کے، اور ان سب نے بھی جو میری پیروی کرتے ہیں، نیز پوچھو ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی ہے اور اگر وہ منہ موڑے ہی رہے، تو (آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں کیونکہ) آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے (پیغام حق کو) اور بس  اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے اپنے بندوں کو

۲۰.    ۔۔ بے شک جو لوگ انکار کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کا اور وہ قتل کرتے ہیں اس کے پیغمبروں کو بغیر کسی حق کے،  اور وہ قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو (دنیا کو) تعلیم دیتے ہیں (حق و) انصاف کی، تو ان کو خوشخبری سنا دو ایک بڑے دردناک عذاب کی۔

۲۱.    ۔۔، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اکارت چلے گئے سب عمل، دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو گا۔

۲۲     ۔۔ کیا تم نے ان لوگوں (کے تعجب انگیز حال) کی طرف نہیں دیکھا؟ جن کو دیا گیا ایک حصہ کتاب (خداوندی) کا، (ان کا حال یہ کہ جب) ان کو بلایا جاتا ہے اللہ کی کتاب کی طرف، تاکہ وہ فیصلہ فرمائے ان کے درمیان، تو پھر جاتا ہے ان میں سے ایک گروہ (کلام حق سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ) بے رخی برتتے ہوئے،

۲۳.    ۔۔ یہ اس وجہ سے کہ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں، مگر گنتی کے کچھ دن، اور دھوکے میں ڈال رکھا ہے ان کو ان کے دین کے بارے میں، ان کی ان (خود ساختہ) باتوں نے جن کو یہ لوگ خود (گھڑ) گھڑ کر بناتے ہیں،

۲۴.    ۔۔ پھر کیا حال ہو گا ان لوگوں کا اس وقت، جب کہ ہم اکٹھا کر لائیں گے ان سب کو ایک ایسے ہولناک دن میں جس میں کوئی شک (وشبہ) نہیں، اور (اس روز) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر کسی کو اس کی (زندگی بھر کی) کمائی (اور کئے کرائے) کا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا،

۲۵.    ۔۔ کہو اے اللہ، مالک اس (ساری سلطنت و) بادشاہی کے، تو (اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے) جس کو چاہتا ہے (حکومت و) بادشاہی سے نوازتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے ذلت (و خواری) سے ہم کنار کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہے سب (خوبی و) بھلائی، بے شک تو (اے ہمارے مالک!) ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،

۲۶.    ۔۔ تو داخل فرماتا ہے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) رات کو دن میں اور دن کو رات میں، اور تو ہی نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے، اور مردہ کو زندہ سے، اور جس کو چاہتا ہے روزی دیتا ہے بغیر کسی حساب کے،

۲۷.    ۔۔ ایمان والے کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اہل ایمان کو چھوڑ کر، اور جس نے ایسے کیا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان (کے ظلم و ستم) سے بچنے کے لئے (اور اپنی حفاظت کی خاطر) بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کر لو، اور اللہ تم لوگوں کو ڈراتا ہے اپنے آپ سے، اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (سب کو)

۲۸.    ۔۔ کہو (ان سے، کہ اے لوگو!) اگر تم چھپا رکھو وہ کچھ جو کہ تمہارے سینوں کے اندر ہے یا اس کو ظاہر کرو اللہ بہرحال اس سب کو جانتا ہے  اور اللہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،

۲۹.    ۔۔ (اور ہمیشہ یاد رکھو اس بڑے دن کو کہ) جس دن ہر شخص اپنے (زندگی بھر کے) کئے کرائے کو اپنے سامنے حاضر (و موجود) پائے گا، نیکی کو بھی، اور بدی کو بھی، (اور اس وقت) یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے درمیان اور اس کے ان برے اعمال کے درمیان بڑی دور کی مسافت حائل ہوتی، اللہ ڈراتا ہے تم لوگوں کو اپنے آپ سے، اور اللہ بڑا ہی مہربان (و شفیق) ہے اپنے بندوں پر،

۳۰.    ۔۔ کہو (ان سے کہ اے لوگو!) اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے (اس کی بے انتہاء رحمتوں اور عنایتوں کی بنا پر) تو تم میری پیروی کرو، اس پر اللہ تم سے محبت بھی فرمائے گا، اور تمہارے گناہوں کی بخشش بھی فرما دے گا، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے،

۳۱.    ۔۔ کہو، تم لوگ سچے دل سے فرمانبرداری کرو اللہ کی، اور اس کے رسول کی، پھر اگر یہ لوگ منہ موڑیں (حق و ہدایت کی اس راہ سے) تو یقیناً یہ اپنا ہی نقصان کریں گے کہ) بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا ایسے کافروں کو،

۳۲.    ۔۔ بے شک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح کو، اور آل ابراہیم اور آل عمران کو، سب جہانوں پر،

۳۳.    ۔۔ درآنحالیکہ یہ سب ایک دوسرے کی اولاد تھے، اور اللہ (ہر کسی کی) سنتا، (اور سب کچھ) جانتا ہے،

۳۴.    ۔۔ (اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب ! میں نے تیرے نذر کر دیا اپنے اس بچے کو جو کہ میرے پیٹ میں ہے، سب سے آزاد کر کے، پس تو (اے میرے مالک، اپنے کرم سے میری اس نذر کو) قبول فرما لے، بے شک تو ہی ہے (ہر کسی کی) سنتا (سب کچھ) جانتا،

۳۵.    ۔۔ مگر جب اس کے یہاں (خلاف توقع بچے کی بجائے) بچی پیدا ہو گئی تو اس نے (حسرت بھرے انداز میں) کہا کہ اے میرے رب ! میرے یہاں تو بچی نے جنم لیا ہے، اور اللہ کو خوب معلوم تھا کہ اس خاتون نے کس چیز کو جنم دیا، حالانکہ وہ بیٹا (جس کی خواہش انہوں نے کی تھی) اس بیٹی جیسا نہیں تھا (جو کہ قدرت کی طرف سے انکو ملی تھی) اور (کہا کہ) میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے، نیز میں نے تیری پناہ میں دے دیا (اے میرے مالک!) اس کو بھی، اور اس کی اولاد کو بھی شیطان مردود (کے شر و فتنہ) سے،

۳۶.    ۔۔ اس (عرض حسن) پر اس کے رب نے (لڑکے کی بجائے) اس لڑکی کو ہی قبول فرما لیا، بڑی عمدہ قبولیت کے ساتھ، اور اس کو ایک بڑی ہی عمدہ اٹھان (اور بڑھوتری) سے نوازا، اور (حضرت) زکریا کو اس کا سر پرست (و نگران) بنا دیا، جب بھی زکریا اس کے پاس اس کے حجرے (محراب) میں آتے، تو اس کے پاس کھانے (پینے) کا کچھ نہ کچھ سامان موجود پاتے، اس سے پوچھتے کہ مریم تیرے پاس یہ (سب کچھ) کہاں سے آگیا؟ تو وہ جواب دیتیں کہ یہ سب کچھ اللہ کے یہاں سے آیا ہے، بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے روزی دیتا ہے بغیر حساب کے،

۳۷.    ۔۔ اس موقع پر زکریا نے اپنے رب کو پکارا (اور اس کے حضور) عرض کیا کہ اے میرے رب، عطا فرما دے مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد، بے شک تو ہی دعا کو سننے والا (اور قبول فرمانے) والا،

۳۸.    ۔۔ اس پر فرشتوں نے آواز دی جب کہ وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ بے شک اللہ آپ کو خوشخبری دیتا ہے یحییٰ (جیسے عظیم الشان بیٹے) کی، جو کہ تصدیق کرنے والا ہو گا، اللہ کی طرف سے صادر ہونے والے ایک عظیم الشان فرمان کی، جو کہ سردار ہو گا بڑا ہی (پاک دامن اور) ضبط نفس رکھنے والا ہو گا، اور پیغمبر، (ہمارے قرب خاص کے) سزاواروں میں سے،

۳۹.    ۔۔ (اس پر) زکریا نے (فرط مسرت اور کمال ادب سے) عرض کیا کہ اے میرے رب، میرے یہاں کوئی لڑکا کس طرح ہو گا جب کہ حال یہ ہے کہ مجھے ایسا (آخری درجے کا) بڑھاپا پہنچ چکا ہے، اور میری بیوی (پہلے سے ہی) بانجھ ہے، ارشاد ہوا ایسے ہی ہو گا، اللہ (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) جو چاہتا ہے کرتا ہے،

۴۰.    ۔۔ عرض کیا تو پھر میرے لیے اے میرے مالک کوئی نشانی مقرر فرما دیجئے، اور ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم (تندرست و صحت مند ہونے کے باوجود) تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا بات نہیں کر سکو گے، (سو اس دوران) تم اپنے رب کو کثرت سے یاد کرتے رہنا اور صبح و شام اس کی تسبیح میں لگے رہنا۔

۴۱.    ۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ اے مریم، بے شک اللہ نے تم کو (اپنے کرم خاص سے) چن لیا، تم کو طہارت (و پاکیزگی) سے نواز دیا، اور تم کو چن لیا دنیا بھر کی عورتوں کے مقابلے میں

۴۲.    ۔۔ (پس اب تم اس کے شکریے میں) اے مریم، اپنے رب کی فرمانبرداری میں لگ جاؤ، اس کے سامنے سجدہ ریز رہو، اور اس کے حضور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ،

۴۳.    ۔۔ یہ سب کچھ غیب کی ان خبروں میں سے ہے، (اے پیغمبر!) جو ہم وحی کے ذریعے آپ کی طرف بھے جتے ہیں، ورنہ آپ اس وقت وہاں انکے پاس موجود نہیں تھے، جب کہ وہ لوگ (قرعہ اندازی کے لئے) اپنے اپنے قلم (پانی میں) ڈال رہے تھے، کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت (و پرورش) کرے، اور نہ ہی آپ اس وقت ان کے پاس موجود تھے جب کہ وہ (اس بارے) باہم جھگڑ رہے تھے،

۴۴.    ۔۔ (اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب فرشتوں نے کہا اے مریم، بے شک اللہ تم کو خوشخبری دیتا ہے اپنی طرف سے صادر ہونے والے ایک ایسے عظیم الشان کلمے کی، جس کا نام (و لقب) مسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا، جو کہ بڑی عزت (و آبرو) والا ہو گا دنیا میں بھی، اور وہ (اللہ کے خاص) مقرب بندوں میں سے ہو گا،

۴۵.    ۔۔ اور وہ (ایسی عظمت شان والا ہو گا کہ) لوگوں کو کلام کرے گا گہوارے میں بھی، اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، (یکساں طور پر) اور وہ (قرب خاص کے) سزاواروں میں سے ہو گا،

۴۶.    ۔۔ مریم نے (اس پر بطور تعجب) عرض کیا کہ اے میرے رب، میرے یہاں کوئی بچہ کس طرح ہو گا، جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا بھی نہیں، (اس پر ان کو) جواب ملا کہ ایسے ہی ہو گا، اللہ (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) جو چاہتا ہے پیدا فرما ہے، وہ جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما دیتا ہے تو اس کو صرف اتنا کہتا ہے کہ ہو جاتو وہ ہو جاتا ہے،

۴۷.    ۔۔ اور اس کو اللہ خود ہی (بغیر کسی معلم اور استاذ کے) سکھائے گا کتاب اور حکمت (کے معارف) بھی، اور تورات و انجیل بھی،

۴۸.    ۔۔ اور (مزید یہ کہ وہ اللہ کا) رسول ہو گا (خاص) بنی اسرائیل کی طرف، (اس مضمون و پیغام کے ساتھ) کہ بے شک میں تمہارے پاس آیا ہوں، ایک عظیم الشان نشانی کے ساتھ، تمہارے رب کی جانب سے، کہ میں تمہارے سامنے مٹی کے پرندے کی شکل جیسا (ایک مجسمہ) بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں، جس سے وہ ہو جائے گا (سچ مچ کا) ایک پرندہ، اللہ کے اذن (و حکم) سے اور میں اچھا کر دیتا ہوں مادر زاد اندھے، اور کوڑھ والے کو، اور میں زندہ کرتا ہوں مردوں کو؟ اللہ کے اذن (و حکم) سے اور (یہ کہ) میں تم کو یہ بھی بتائے دیتا ہیں کہ تم لوگ کیا کھا کر آتے ہو، اور کیا کچھ رکھ آتے ہو اپنے گھروں میں بے شک اس (سب) میں بڑی بھاری نشانی ہے تمہارے لئے اگر تم لوگ واقعی ایمان لانے والے ہو،

۴۹.    ۔۔ اور مجھے تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا گیا اس (آسمانی کتاب) کی جو مجھ سے پہلے آ چکی ہے، یعنی تورات، اور (اس لئے بھیجا گیا) تاکہ میں حلت بیان کروں تمہارے لئے بعض ان چیزوں کی، جو تم پر حرام کر دی گئی تھیں، اور میں تمہارے پاس آیا ہوں ایک عظیم الشان نشانی کے ساتھ، تمہارے رب کی جانب سے، پس اگر تم لوگ ڈرو اللہ سے (اور بچو میری تکذیب و مخالفت سے) اور (سچے دل سے) اطاعت (و فرمانبرداری) کرو میری،

۵۰.    ۔۔ بے شک اللہ ہی رب ہے میرا بھی اور تمہارا بھی، پس تم سب اسی (وحدہٗ لاشریک) کی بندگی کرو، یہی ہے سیدھا راستہ،

۵۱.    ۔۔ پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر ہی محسوس کیا، تو کہا کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں ؟ تو آپ کے حواریوں نے (جو کی آپ کے خاص ساتھی تھے، انہوں نے) کہا کہ ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے، ہم (سچے دل سے) ایمان لائے اللہ پر، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم پکے فرمانبردار ہیں

۵۲.    ۔۔ اے ہمارے رب، ہم (سچے دل سے) ایمان لائے اس سب پر جو کہ نازل فرمایا تو نے، اور ہم نے پیروی کی آپ کے رسول کی، پس تو (اے ہمارے مالک!) لکھ دے ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ،

۵۳.    ۔۔ اور ان لوگوں نے (جو کہ آپ کے منکر اور دشمن تھے آپ کے قتل و قید کیلئے) خفیہ تدبیریں کیں، اور اللہ نے بھی ان کے جواب میں خفیہ تدبیر فرمائی، اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے،

۵۴.    ۔۔ (چنانچہ اس کا ایک نمونہ وہ تھا کہ) جب فرمایا اللہ نے (عیسیٰ سے، کہ) اے عیسیٰ میں تم کو پورا پورا واپس لینے والا ہوں، اور تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں، اور تم کو پاک کرنے والا ہوں ان لوگوں (کے گندے اور دل آزار ماحول) سے، جو کہ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر، اور تمہارے پیروکاروں کو بالا و برتر کرنے والا ہوں ان لوگوں کے مقابلے میں، جو کہ اڑے ہوئے ہیں (آپ کے کفر و) انکار پر، قیامت کے دن تک، پھر آخرکار تم سب کو (اے لوگو!) لوٹ کر بہرحال میری ہی طرف (اور میرے ہی پاس) آنا ہے، تب میں فیصلہ کر دوں گا تمہارے درمیان (آخری اور عملی طور پر) ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں تم لوگ آپس میں اختلاف کرتے رہے تھے،

۵۵.    ۔۔ سو وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر، ان کو میں سخت عذاب دوں گا دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی، اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہو گا،

۵۶.    ۔۔ اور جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے ہوں گے، اور انہوں نے نیک کام بھی کیے ہوں گے، ان کو وہ ان کے اجر پورے کے پورے عطا فرمائے گا، اور اللہ پسند نہیں فرماتا ایسے ظالموں کو،

۵۷.    ۔۔ یہ ہماری آیتیں ہیں جو ہم پڑھ کر سناتے ہیں آپ کو (اے پیغمبر!) اور حکمت سے لبریز ذکر (و نصیحت جس سے ہم نوازتے ہیں آپ کو)

۵۸.    ۔۔ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے، کہ ان کو بنایا اللہ نے مٹی سے، پھر فرمایا کہ ہو جا تو ہو گیا (زندہ و موجود)

۵۹.    ۔۔ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے ہے، پس تم کبھی نہیں ہو جانا شک کرنے والوں میں سے،

۶۰.    ۔۔ پھر بھی جو آپ سے اس بارے جھگڑا (اور حجت بازی) کریں (حق اور حقیقت کو واضح کر دینے والے) اس علم کے بعد، جو کہ پہنچ چکا آپ کے پاس، (آپ کے رب کی جانب سے) تو ان سے کہو کہ آؤ (ہم اور تم اس بارے آپس میں مباہلہ کر لیتے ہیں، اسی طرح کہ) ہم اور تم خود بھی (میدان میں) آتے ہیں، اور اپنے اپنے بیوی بچوں کو بھی بلا لاتے ہیں، پھر ہم سب مل کر (اللہ تعالیٰ کے حضور) عاجزی و زاری کے ساتھ دعا (و التجا) کرتے ہیں، کہ اللہ کی لعنت (اور پھٹکار) ہو ان پر، جو جھوٹے ہوں،

۶۱.    ۔۔ بے شک یہی ہے قطعی طور پر حق (اور سچا) بیان، اور یہ کہ کوئی معبود (برحق) نہیں سوائے اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے، اور بے شک اللہ ہی ہے جو سب پر غالب نہایت حکمت والا ہے،

۶۲.    ۔۔ سو اگر یہ لوگ پھر پھرے ہی رہے، تو، (اپنے کئے کا بھگتان بھگت کر رہیں گے کہ) بے شک اللہ پوری طرح جانتا ہے فساد کرنے والوں کو،

۶۳.    ۔۔ کہو اے اہل کتاب، آؤ تم ایک ایسی بات کی طرف جو کہ یکساں ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان، کہ ہم کسی کی بھی بندگی نہیں کریں گے سوائے ایک اللہ کے، اور ہم کسی بھی چیز کو (کسی بھی طور پر) اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اور نہ ہی ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب بنائے گا سوائے اللہ کے، پس اگر (اس واضح اور معقول بات کے بعد) یہ لوگ روگردانی کریں، تو کہو کہ تم لوگ گواہ رہو کہ بے شک ہم تو (بہرطور اسی کے) فرمانبردار ہیں،

۶۴.    ۔۔ اے کتاب والو، تم کیوں جھگڑا (اور حجت بازی) کرتے ہو ابراہیم کے بارے میں، حالانکہ نہیں اتاری گئی تورات اور انجیل، مگر ان کے (ایک زمانہ دراز کے) بعد، تو کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں جانتے (اور سمجھتے)۔

۶۵.    ۔۔ ہاں تم لوگ وہی ہو جو جھگڑا کر چکے ہو ایسی بات کے بارے میں جس کا تمہیں کچھ علم نہیں تھا مگر اب تم کیوں جھگڑا (اور حجت بازی) کرتے ہو اس چیز کے بارے میں جس کا تمہیں کچھ علم نہیں اور اللہ جانتا ہے (ہر چیز کو) اور تم نہیں جانتے،

۶۶.    ۔۔ (سو اللہ بتلاتا ہے کہ) ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ سیدھے راستے والے (اور یکسو) مسلمان تھے، اور انکو کوئی لگاؤ (اور تعلق) نہیں تھا مشرکوں سے،

۶۷.    ۔۔ بے شک ابراہیم کے سب سے زیادہ قریب (مذہب و ملت کے اعتبار سے ان کے زمانے میں) وہ لوگ تھے، جنہوں نے (صدق و اخلاص سے) ان کی پیروی کی، اور (اب اس آخری زمانے میں) یہ نبی اور ان پر ایمان لانے والے ہیں اور اللہ حامی و مددگار ہے ایمان والوں کا،

۶۸.    ۔۔ اہل کتاب کا ایک گروہ (حق سے اپنے شدید بغض و عناد کی بناء پر) چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح تم کو بھی گمراہ کر دے، لیکن (حقیقت میں) وہ کسی کو گمراہ نہیں کرتے سوائے اپنے آپ کے، مگر یہ لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے،

۶۹.    ۔۔ اے کتاب والو، تم کیوں کفر (اور انکار) کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا، حالانکہ تم خود گواہ ہو،

۷۰.    ۔۔ اے کتاب والو، تم کیوں ملاتے (اور خلط ملط کرتے) ہو حق کو باطل کے ساتھ اور تم لوگ چھپاتے ہو حق کو حالانکہ تم خود جانتے ہو (کہ یہ کتنا بڑا اور سنگین جرم ہے)

۷۱.    ۔۔ اور اہل کتاب کے ایک گروہ نے (حق سے پھیرنے کی یہ سازش تیار کی کہ آپس میں) کہا کہ تم (ظاہری طور پر) ایمان لے آؤ اس (دین و کتاب) پر، جو اتارا گیا ایمان والوں پر، دن کے شروع میں، اور اس کا انکار کر دو اس کے آخری حصے میں، تاکہ اس طرح یہ لوگ پھر جائیں (اپنے دین و ایمان سے)

۷۲.    ۔۔ اور (یہ لوگ آپس میں) کہا کہ تم (ظاہری طور پر) ایمان لے آؤ اس (دین و کتاب) پر، جو اتارا گیا ایمان والوں پر، دن کے شروع میں، اور اس کا انکار کر دو اس کے آخری حصے میں، تاکہ اس طرح یہ لوگ پھر جائیں (اپنے دین و ایمان سے) اور (یہ لوگ آپس میں کہتے کہ) تم کسی کی بات نہ ماننا بجز اس کے جو تمہارے دین کا پیرو ہو، (ان سے) کہو کہ (تمہاری ان چال بازیوں سے کچھ نہیں ہونے کا، کہ) بے شک ہدایت اللہ ہی کی ہدایت ہے، (اور تم یہ سب چال بازیاں محض اس حسد کی بنا پر کرتے ہو) کہ کسی اور کو بھی وہی کچھ (کیوں) دیا جائے جو (اس سے پہلے) تم کو دیا جا چکا ہے، یا یہ کہ دوسرے لوگ تمہارے رب کے یہاں حجت و دلیل میں تم پر غالب آ جائیں گے، کہو کہ (تمہاری ان سازشوں اور تدبیروں سے کچھ نہیں ہونے کا کہ) بے شک فضل (و مہربانی)

۷۳.    ۔۔ وہ اپنی مہربانی کے ساتھ جس کو چاہتا ہے خاص فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑے ہی فضل والا ہے،

۷۴.    ۔۔ اور اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ایک دینار بھی رکھ دو تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سروں پر سوار رہو، یہ (گراوٹ اور اخلاقی پستی) اس بناء پر ہے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم امیوں (غیر اہل کتاب اور ان کا مال مار کھانے) کے بارے میں کوئی مواخذہ (و الزام) نہیں، اور (اس طرح) یہ لوگ دیدہ و دانستہ (اور جانتے بوجھتے) اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں

۷۵.    ۔۔ (مواخذہ الزام) کیوں نہیں (جب کہ ضابطہ و قانون یہ ہے کہ) جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور ڈرتا رہا (اپنے خالق و مالک سے) تو یقیناً (وہ کامیاب ہو گیا کہ) اللہ محبت رکھتا ہے ایسے پرہیزگاروں سے،

۷۶.    ۔۔ (اور اس کے برعکس) جو لوگ (سمیٹتے اور) اپناتے ہیں اللہ کے عہد، اور اپنی قسموں کے عوض، (دنیا دوں گا) تھوڑا (اور گھٹیا) مول، تو ایسوں کے لئے یقیناً نہ آخرت میں کوئی حصہ ہے، اور نہ اللہ ان سے کلام فرمائے گا، اور نہ ہی وہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا قیامت کے روز، اور نہ ہی وہ ان کو پاک فرمائے گا، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب (مقرر) ہے،

۷۷.    ۔۔ اور بے شک ان (اہل کتاب) میں سے ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہیں اپنی زبانوں کو تروڑ(مروڑ) کر، تاکہ تم اس (ملائے ہوئے) کو بھی کتاب میں سے سمجھو، حالانکہ وہ کتاب میں سے ہے نہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے، اور (اس طرح) یہ لوگ (دیدہ و دانستہ اور) جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں،

۷۸.    ۔۔ کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اس کو (اپنی خاص رحمت و عنایت سے نواز کر) کتاب، حکم، اور نبوت سرفراز فرمائے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ (وہ تو اس کے برعکس یہی کہے گا کہ) تم لوگ (سچے دل سے اور صحیح معنوں میں) اللہ والے بن جاؤ، اس بناء پر کہ تم لوگ کتاب (الہٰی دوسروں کو) سکھاتے ہو، اور اس بناء پر کہ تم (توحید و عظمت خداوندی سے لبریز یہ کتاب) خود پڑھتے ہو،

۷۹.    ۔۔ اور نہ (ہی اس سے یہ ممکن ہے کہ) وہ تم کو یہ حکم دے کہ تم لوگ (اللہ کو چھوڑ کر اس کے) فرشتوں اور نبیوں کو اپنا رب بنا لو، کیا (یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ) وہ (نبی ہو کر) تم کو کفر کا حکم دے، اس کے بعد تم مسلمان ہو چکے ہو؟

۸۰.    ۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب اللہ نے عہد لیا اپنے پیغمبروں سے، کہ جو بھی کوئی کتاب و حکمت میں تم کو دوں، پھر تمہارے پاس کوئی دوسرا ایسا پیغمبر آ جائے جو تصدیق کرنے والا ہو اس (کتاب و شریعت) کی، جو تمہارے پاس موجود ہو، تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ہو گی، (پھر اس عہد کی مزید تاکید و توثیق کے لئے حق تعالیٰ نے ان سے) فرمایا کی کیا تم لوگوں نے اس کا اقرار کیا، اور اس پر میری (طرف سے عائد ہونے والی) اس بھاری ذمہ داری کو قبول کر لیا؟ تو ان سب نے کہا ہاں، ہم نے اقرار کر لیا، تب اللہ نے فرمایا کہ اچھا تم اس پر گواہ رہو، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں،

۸۱.    ۔۔ پس اس کے بعد جو کوئی پھر گیا (اپنے عہد و پیمان سے) تو ایسے ہی لوگ فاسق (و بدکار) ہیں،

۸۲.    ۔۔ تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا (کوئی اور طریقہ) چاہتے ہیں، حالانکہ اسی (وحدہٗ لاشریک) کے حضور سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے خواہ خوشی (اور رضا رغبت) سے ہو یا لاچاری (اور مجبوری) کی بنا پر،

۸۳.    ۔۔ کہو کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو بہر حال ایمان لائے اللہ پر اور اس (وحی و کتاب) پر جو اتاری گئی ہم پر، اور اس پر بھی جو اتاری گئی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اور ان کی اولاد پر، اور اس سب پر بھی جو کچھ کہ دیا گیا موسیٰ، عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کو، ان کے رب کی جانب سے، ہم ان میں سے کسی ایک کی بھی تفریق نہیں کرتے، ہم خالص اسی کے فرمانبردار ہیں،

۸۴.    ۔۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں یقیناً خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا،

۸۵.    ۔۔ کیسے ہدایت (کے نور) سے نوازے اللہ ایسے لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد؟ حالانکہ وہ خود اس بات کی گواہی دے چکے ہیں، کہ یہ رسول قطعی طور پر حق ہے، اور ان لوگوں کے پاس (حق کو واضح کرنے والی کھلی اور) روشن نشانیاں بھی آ چکیں، اور اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ظالم لوگوں کو،

۸۶.    ۔۔ ایسے (ظالم اور ناشکرے و بے انصاف) لوگوں کا یہی بدلہ ہے کہ ان پر لعنت (برستی) رہے اللہ کی، اس کے فرشتوں کی، اور سب لوگوں کی،

۸۷.    ۔۔ اس حال میں کہ ان کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہو گا، نہ ان سے ان کا عذاب ہلکا کیا جائے گا، اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت دی جائے گی،

۸۸.    ۔۔ بجز ان لوگوں کے جو (سچے دل سے) ایمان لے آئے اس کے بعد، اور انہوں نے اصلاح بھی کر لی (اپنے فساد و بگاڑ کی) تو (ان کا کام بن گیا کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے،

۸۹.    ۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اپنے ایمان کے بعد، پھر وہ اپنے کفر ہی میں بڑھتے چلے گیے، تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور ایسے ہی لوگ ہیں پکے (اور پورے) گمراہ

۹۰.    ۔۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، اور کفر ہی کی حالت میں انہوں نے جان دے دی، تو ان میں سے کسی سے روئے زمین بھر کر سونا بھی ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اگرچہ وہ یہ سب اپنے (عذاب کے) بدلے میں دے دے، ایسے لوگوں کیلئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، اور ان کے لئے کوئی (حامی اور) مددگار نہیں ہو گا،

۹۱.    ۔۔ (ایمان والو! یاد رکھو کہ) تم نیکی میں کمال ہرگز حاصل نہ کر سکو گے، یہاں تک کہ تم (اللہ کی راہ میں) اپنی ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم (اپنے لئے پسند کرتے اور) محبوب رکھتے ہو،  اور یوں جو بھی خرچ کرو گے تو (حسب حال اس کا اجر پاؤ گے کہ) بے شک اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے،

۹۲.    ۔۔ کھانے کی سب ہی چیزیں (جو شریعت محمدیہ میں حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لئے بھی حلال تھیں، بجز ان کے جن کو اسرائیل (یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، قبل اس سے کہ تورات نازل کی جاتی، (ان سے) کہو کہ اچھا تو لاؤ تم لوگ تورات کو، اور پڑھ کر سناؤ اسے، اگر تم واقعی سچے ہو (اپنے دعویٰ میں)

۹۳.    ۔۔ پھر جو کوئی اس (واضح اور فیصلہ کن بات) کے بعد بھی اللہ پر جھوٹ باندھے، تو ایسے لوگ بڑے ظالم (اور ڈھیٹ و بے انصاف) ہیں

۹۴.    ۔۔  کہو اللہ نے (حق اور) سچ بیان فرما دیا، سو اب تم (بھی اے یہود، مسلمانوں کی طرح) پیروی کرو ملت ابراہیمی کی، جو کہ (سب سے کٹ کر) ایک ہی کے ہو گئے تھے، اور ان کا کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے

۹۵.    ۔۔ بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے (روئے زمین پر اللہ کی عبادت و بندگی کیلئے) مقرر کیا گیا، وہ وہی ہے جو کہ مکہ میں ہے، جو کہ خیرو برکت کا مرکز، اور ایک عظیم الشان نشان ہدایت (اور مینارہ نور) ہے، سب جہان والوں کے لئے

۹۶.    ۔۔  اس میں (حق و صداقت کی) کھلی نشانیاں بھی ہیں، (اور خاص کر) مقام ابراہیم بھی، اور (اس کی عظمت شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ) جو اس (کی حدود) میں داخل ہو گیا وہ امن والا ہو گیا، اور لوگوں کے ذمے اللہ (کی رضا) کیلئے اس گھر کا حج کرنا فرض (و لازم) ہے، یعنی (ان میں سے) ہر ایسے شخص کے ذمے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو  اور جس نے انکار کیا تو (اس نے یقیناً اپنا ہی نقصان کیا کہ) بے شک اللہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے

۹۷.    ۔۔ (ان سے) کہو کہ اے کتاب والو! تم کیوں انکار کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا  حالانکہ اللہ گواہ ہے تمہارے ان سب کاموں پر جو تم لوگ کرتے ہو

۹۸.    ۔۔ کہو (ان سے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہ) اے کتاب والو، تم کیوں روکتے ہو، اللہ کی راہ سے ان لوگوں کو جو (برضا و رغبت) ایمان لاتے ہیں، (اور اس غرض کے لئے) تم لوگ اس (سیدھی اور واضح راہ) میں کجی ڈھونڈتے ہو حالانکہ تم خود گواہ ہو، اور اللہ غافل (و بے خبر) نہیں، ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۹۹.    ۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے بات مان لی ان لوگوں میں سے ایک گروہ کی جن کو کتاب دی گئی ہے، تو وہ یقیناً تمہیں تمہارے ایمان کے بعد (راہ حق سے) پھیر کر کافر بنا دیں گے

۱۰۰.  ۔۔ اور تم کیسے کفر کرتے ہو جب کہ تمہیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں، اور تمہارے اندر موجود ہے اس کا رسول، اور (یاد رکھو کہ) جس نے مضبوطی سے تھام لیا اللہ (کی رسی) کو، تو وہ یقیناً سرفراز ہو گیا سیدھی راہ کی ہدایت سے 

۱۰۱.  ۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، ڈرو تم اللہ سے، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت نہ آنے پائے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔

۱۰۲.  ۔۔ اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کہ رسی کو، سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں  اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے  اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے (اپنی رحمت بیکراں اور عنایت بے نہایت سے) اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو

۱۰۳.  ۔۔ اور تمہارے اندر ضرور ایسے لوگوں کی ایک جماعت رہنی چاہیے، جو (دنیا کو) نیکی کی طرف بلائے، بھلائی کا حکم کرے، اور برائی سے روکے، اور یہی لوگ ہیں فلاح (اور حقیقی کامیابی) سے سرفراز ہونے والے

۱۰۴.  ۔۔ اور (خبردار) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہو جانا جو (مختلف فرقوں میں) بٹ گئے، اور وہ باہم اختلاف میں پڑ گئے، اس کے بعد کہ آ چکیں تھیں ان کے پاس (ان کے رب کی جانب سے واضح اور) کھلی ہدایت، اور ایسے لوگوں کیلئے بہت بڑا عذاب ہے

۱۰۵.  ۔۔ جس دن کچھ چہرے تو (اپنے ایمان و یقین کے نور کی بناء پر سفید) اور روشن ہوں گے، اور کچھ چہرے (اپنے کفر و معصیت کے نتیجے میں) سیاہ ہوں گے  سو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (تو ان سے ان کی توبیخ و تذلیل کے لئے کہا جائے گا کہ) کیا تم لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا تھا اپنے ایمان کے بعد؟سو اب چکھو (اور چکھتے رہو) تم لوگ مزہ اس عذاب کا اپنے اس کفر کی بنا پر جس کا ارتکاب تم لوگ (اپنی زندگیوں میں) کرتے رہے تھے

۱۰۶.  ۔۔ اور جن (خوش نصیبوں) کے چہرے سفید (اور روشن) ہوں گے، وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، جس میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا

۱۰۷.  ۔۔ یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم پڑھ کر سناتے ہیں آپ کو (اے پیغمبر !) حق کے ساتھ، اور اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ قطعاً) ظلم نہیں کرنا چاہتا جہان والوں پر

۱۰۸.  ۔۔ اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ جو زمین میں ہے  اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں (اور لوٹائے جائیں گے) سب کام

۱۰۹.  ۔۔ تم لوگ (اے مسلمانو!) سب سے بہتر امت ہو، جسے میدان میں لایا گیا ہے، لوگوں کے بھلے کے لئے، تمہارا کام ہے نیکی کی تعلیم دینا، اور برائی سے روکنا، اور تم (بمقابلہ دوسروں کے ٹھیک طور پر صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو اللہ (وحدہٗ لاشریک) پر، اور اگر اہل کتاب بھی (اسی طرح ٹھیک طریقے سے ایمان لے آتے تو یہ خود انہی کے لئے بہتر ہوتا  ان میں سے کچھ تو ایماندار ہیں مگر ان کی اکثریت بدکاروں (اور بے ایمانوں) ہی کی ہے

۱۱۰.  ۔۔ وہ تم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بجز (زبانی کلام) کچھ ایذاء رسانی کے، اور اگر انہوں نے تم سے لڑائی کی تو یہ بھاگ کھڑے ہوں گے تم کو پیٹھ دے کر، پھر (کہیں سے بھی) ان کی کوئی مدد نہیں ہو گی

۱۱۱.  ۔۔ چپکا دی گئی ان پر ذلت (و خواری) جہاں بھی یہ پائے گئے (کہیں بھی امان نہ پا سکیں گے) مگر اللہ کے عہد و پیمان سے، اور لوگوں کے عہد و پیمان سے، مستحق ہو گئے یہ لوگ اللہ کے غضب کے، اور چپکا دی گئی ان پر پستی و محتاجی، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ یہ لوگ کفر (و انکار) کرتے تھے اللہ کی آیتوں کا، اور یہ قتل کرتے تھے (اللہ کے) نبیوں کو بغیر کسی حق کے، (اور) یہ (کفر اور قتل انبیاء) اس بناء پر کہ یہ لوگ نافرمانی کرتے تھے (اللہ کی) اور تجاوز کرتے تھے (اللہ کی مقرر کردہ حدود سے)

۱۱۲.  ۔۔ یہ سب برابر نہیں، (بلکہ) اہل کتاب میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو کہ قائم ہیں (راہ حق و صداقت پر) جو تلاوت کرتے ہیں اللہ کی آیتوں کی  رات کی گھڑیوں میں (اٹھ اٹھ کر) اور وہ (اسی کے حضور) سجدہ ریز ہوتے ہیں

۱۱۳.  ۔۔ جو (ٹھیک ٹھیک) ایمان رکھتے ہیں اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، اور وہ تعلیم دیتے ہیں (لوگوں کو) اچھائی کی، اور (ان کو) روکتے ہیں برائی سے، اور دوڑتے ہیں نیک کاموں میں سبقت کرتے ہوئے، اور ایسے ہی لوگ (نیک بخت) اور شائستہ لوگوں میں سے ہوتے ہیں

۱۱۴.  ۔۔ یہ جو بھی نیکی کریں گے، اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پوری طرح جانتا ہے پرہیزگاروں کو

۱۱۵.  ۔۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے (اپنے مال و اولاد کے گھمنڈ میں) کفر کیا، تو بے شک ان کو اللہ (کی گرفت و پکڑ) کے مقابلے میں نہ ان کے مال کچھ کام آ سکیں گے، اور نہ ہی ان کی اولا دیں، یہ لوگ یار ہیں دوزخ کے، جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا

۱۱۶.  ۔۔ مثال اس کی جو یہ (کافر) لوگ خرچ کرتے ہیں اس دنیا کی زندگی میں، ایسی ہے جیسے کہ ایک ہوا ہو جس میں پالا (سخت سردی) ہو، جو آ پڑے ایسے لوگوں کی کسی کھیتی پر، جنہوں نے ظلم ڈھایا ہو اپنی جانوں پر، اور وہ ہلاک و برباد کر کے رکھ دے اس کھیتی کو، اور اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، مگر یہ لوگ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے رہتے تھے

۱۱۷.  ۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی (اور بربادی) میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے، وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم لوگ تکلیف اور (نقصان) ہی میں مبتلا رہو، ان کے دلوں کا بغض ان کے مونہوں سے نکلا پڑتا ہے، اور جو کچھ انہوں نے اپنے سینوں میں چھپا رکھا ہے، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، ہم نے تو کھول کر بیان کر دیں تمہارے لئے (حقیقت سے آگاہ کرنے والی) نشانیاں (سو تم احتیاط سے کام لو) اگر تم میں عقل رکھتے ہو

۱۱۸.  ۔۔ ہاں (تم لوگ اتنے سادہ لوح اور غفلت شعار کیوں ہو کہ) تم تو ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، حالانکہ تم لوگ ایمان رکھتے ہو تمام (آسمانی) کتابوں پر، اور ان کا حال یہ ہے کہ جب تم سے ملنے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، لیکن جب وہ الگ ہوتے ہیں، تو تم پر غیظ (و غضب) کے مارے اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں، کہو کہ جل مرو تم اپنے اس غیظ (و غضب) میں، بے شک اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی باتوں تک کو

۱۱۹.  ۔۔ (نیز ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تمہیں کوئی اچھائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اس سے یہ لوگ خوش ہوتے ہیں، اور (یاد رکھو کہ) اگر تم صبر و (استقامت) سے کام لیتے رہے، اور تم نے تقویٰ (و پرہیز گاری) کو اپنائے رکھا، تو ان کے مکر (و فریب) سے تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا، بے شک اللہ (اپنی قدرت کاملہ اور علم شامل سے) پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے، ان کے ان تمام کاموں کا جو یہ لوگ کرتے ہیں

۱۲۰.  ۔۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب آپ (اے پیغمبر !) صبح کے وقت (جہاد و قتال کی غرض سے) اپنے گھر سے نکلے تھے (اور احد کے میدان میں) مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے لڑائی کے مورچوں پر، اور اللہ بڑا ہی سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے

۱۲۱.  ۔۔ (اور وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم میں سے (اے مسلمانو!) دو گروہوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ بزدلی دکھائیں، اور اللہ مددگار تھا ان دونوں کا، اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو

۱۲۲.  ۔۔ اور یقیناً اللہ مدد فرما چکا ہے تمہاری (اس سے پہلے) بدر کے مقام پر، جب کہ تم (بالکل) کمزور تھے  سو ڈرتے (اور بچتے) رہو تم لوگ اللہ (کی ناراضگی و نافرمانی) سے، تاکہ تم (اس کے) شکر گزار بن سکو

۱۲۳.  ۔۔ (اور وہ بھی یاد کرو کہ) جب آپ (اے پیغمبر !) اہل ایمان سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہیں کافی نہیں یہ بات کہ تمہارا رب تمہاری مدد فرمائے تین ہزار ایسے فرشتوں سے جو کہ (اسی غرض کیلئے) اتارے گئے ہیں

۱۲۴.  ۔۔ ہاں کیوں نہیں، اگر تم ثابت قدم رہے، اور تم تقویٰ (و پرہیز گاری) پر قائم رہے، اور وہ لوگ تم پر یکبارگی حملہ آور ہو گئے، تو تمہارا رب تمہاری مدد فرمائے گا، پانچ ہزار ایسے فرشتوں سے جو کہ خاص نشانوں والے ہوں گے

۱۲۵.  ۔۔ اور اس (امداد) کو بھی اس نے محض اس لئے مقرر (اور بیان) فرما دیا تاکہ خوشخبری ہو تمہارے لئے، اور (اس لئے کہ) تاکہ مطمئن ہو جائیں اس سے تمہارے دل، ورنہ (حقیقت یہ ہے کہ فتح و) نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، جو کہ بڑا ہی زبردست (و غالب، اور) نہایت ہی حکمت والا ہے

۱۲۶.  ۔۔ (اور ایسا اس غالب و حکیم مطلق نے اس لئے کیا کہ) تاکہ وہ جڑ (بنیاد) کاٹ دے کافروں کے ایک گروہ کی، (اور ان کے کبر و غرور کی) یا ان کو ایسا ذلیل و خوار کر دے کہ وہ لوٹیں ناکام (و نامراد) ہو کر

۱۲۷.  ۔۔  آپ کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں (اے پیغمبر ! آپ اس کو اللہ ہی کے حوالے کر دیں) وہ چاہے ان کو معاف کرے، یا سزا دے، بے شک یہ لوگ پکے ظالم (اور مجرم) ہیں

۱۲۸.  ۔۔ اور اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے، وہ بخشش فرماتا ہے جس کی چاہتا ہے، اور سزا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے

۱۲۹.  ۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، مت کھاؤ تم سود بڑھتا چڑھتا  اور ڈرو تم لوگ اللہ (کی پکڑ) سے، تاکہ تم فلاح (کی حقیقی اور ابدی سعادت) پا سکو

۱۳۰.  ۔۔ اور ڈرو تم لوگ اس (ہولناک) آگ سے جس کو تیار کیا گیا ہے کافروں کیلئے

۱۳۱.  ۔۔ اور تم لوگ، (دل کی خوشی سے) حکم مانو اللہ کا، اور اس کے رسول کا، تاکہ تم پر رحم کیا جائے

۱۳۲.  ۔۔ اور دوڑو تم لوگ (ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر) اپنے رب (مہربان و غفور) کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف، جس کا عرض (اور پھیلاؤ) آسمانوں اور زمین کے (عرض و پھیلاؤ) کے برابر ہے، جسے تیار کیا گیا ہے ان متقی (اور پرہیزگار) لوگوں کیلئے

۱۳۳.  ۔۔ جو خرچ کرتے ہیں (اپنے مال اللہ کی رضا کیلئے) خوشی میں بھی، اور تنگی میں بھی، اور جو پی جاتے اپنے غصے کو، اور جو عفو (درگزر سے) کام لیتے ہیں لوگوں سے (ان کی خطاؤں اور تقصیرات پر) اور اللہ (پسند فرماتا اور) محبت رکھتا ہے ایسے نیکو کاروں سے

۱۳۴.  ۔۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ جب ان سے کوئی (ناشدنی حرکت اور) بے حیائی سر زد ہو جاتی ہے، یا وہ (کسی گناہ کے ارتکاب سے) ظلم کر بیٹھتے ہیں اپنی جانوں پر، تو فوراً اللہ (تعالیٰ اور اس کی عظمت و جلال) کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی بخشش (و معافی) مانگنے لگ جاتے ہیں، اور کون ہے جو گناہوں کو معاف کر سکے سوائے اللہ (وحدہٗ لاشریک) کے ؟ اور وہ اڑتے نہیں اپنے کئے پر، جانتے بوجھتے

۱۳۵.  ۔۔ ایسے لوگوں کا بدلہ (اور انکی جزاء) ان کے رب (کی طرف) سے ملنے والی بخشش اور ایسی عظیم الشان جنتیں ہیں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان) نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا  اور بڑا ہی عمدہ بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا

۱۳۶.  ۔۔ بے شک گزر چکے ہیں بہت سے (عبرت انگیز) واقعات (اور مثالیں) سو تم لوگ چل پھر کر دیکھو زمین میں، کہ کیسے ہوا انجام (حق کو) جھٹلانے والوں کا  یہ ایک عظیم الشان بیان ہے لوگوں (کی آنکھیں کھولنے) کے لئے

۱۳۷.  ۔۔ اور سراسر ہدایت، اور ایک (بے مثل و) عظیم الشان نصیحت، پرہیزگاروں کے لئے

۱۳۸.  ۔۔ اور نہ تم ہمت ہارو (آئندہ کیلئے اے مسلمانو !) اور نہ غم کھاؤ (گزشتہ پر) اور (حقیقت بہرحال یہی ہے کہ) غالب تم ہی ہو اگر تم (واقعی اور سچے) مومن ہو  اگر تم کو کوئی زخم پہنچا ہے تو (یہ کوئی ہمت ہارنے کی بات نہیں کہ)

۱۳۹.  ۔۔ یقیناً (فریق مخالف کے) ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے، (اس سے پہلے بدر کے موقع پر) اور (فتح و شکست کے) ان دنوں کو ہم ادلتے بدلتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان (تاکہ ابتلاء و آزمائش کے تقاضے پورے ہوں) اور تاکہ اللہ دیکھ لے ان لوگوں کو جو (صدق دل سے) ایمان لائے ہیں، اور (تاکہ) تم میں سے کچھ کو وہ شہید بنا لے، اور (یہ بہرحال قطعی امر ہے کہ) اللہ پسند نہیں فرماتا ظالموں کو

۱۴۰.  ۔۔  اور تاکہ (اس طرح) اللہ چھانٹ کر الگ کر دے ایمان والوں کو، اور مٹا دے وہ کافروں (اور ان کے غلبہ و تسلط) کو،

۱۴۱.  ۔۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے (اے مسلمانو!) کہ تم یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو دیکھا (پرکھا اور ظاہر کیا) ہی نہیں، جنہوں نے اس کی راہ میں جہاد کیا، اور جو (راہ حق میں ثابت قدم رہنے والے اور) صابر ہیں

۱۴۲.  ۔۔ اور تم لوگ تو (بڑے زور و شور سے) موت کی تمنا (و آرزو) کرتے تھے، اس سے پہلے کہ تمہارا اس سے آمنا سامنا ہوتا، سو اب وہ تمہارے سامنے آ گئی، اور تم اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو

۱۴۳.  ۔۔  اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نہیں ہیں مگر ایک رسول  ان سے پہلے بھی گزر چکے ہیں بہت سے رسول، تو کیا اگر وہ مر جائیں، یا قتل کر دئیے جائیں، تو تم لوگ (راہ حق و صواب سے) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور (یاد رکھو کہ) جو کوئی پھر گیا (راہ حق و صواب سے) تو وہ (یقیناً اپنا ہی نقصان کرے گا) اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑے گا، اور اللہ (ضرور اور) جلد ہی نوازے گا شکر گزاروں کو ان کے (صلہ و) بدلہ سے

۱۴۴.  ۔۔ اور کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ از خود یونہی مر جائے، مگر اللہ کے اذن (و حکم) سے (اور مرنا بھی ہر ایک نے) ایک لکھے ہوئے (اور طے شدہ) وقت کے مطابق (ہی ہے)  اور جو کوئی بدلہ چاہے گا دنیا کا، تو اس کو ہم اسی (دنیا) میں سے دے دیں گے، اور جو کوئی بدلہ چاہے گا آخرت کا تو اس کو ہم اس میں سے دیں گے  اور ہم عنقریب ہی (اور ضرور اور بھرپور) بدلہ دیں گے شکر گزاروں کو،

۱۴۵.  ۔۔ اور کتنے ہی نبی ایسے گزرے ہیں جن کے ساتھ شامل ہو کر (جہاد و قتال) کیا بہت سے اللہ والوں نے، (حق کی سر بلندی کی خاطر) سو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں (اور تکلیفوں) کی بناء پر نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ ہی کمزوری دکھائی، اور نہ ہی (باطل کے آگے) دبے، اور اللہ محبت رکھتا (اور پسند فرماتا) ہے ایسے ہی صابر (اور ثابت قدم) لوگوں سے،

۱۴۶.  ۔۔ اور (میدان کارزار میں بھی) ان کا قول (و کلام) بس یہی ہوتا تھا کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہوں کو، اور ہماری زیادتیوں کو ہمارے معاملے میں، اور ثابت (و پختہ) رکھ ہمارے قدموں کو، اور مدد فرما ہماری کافر قوم کے مقابلے میں

۱۴۷.  ۔۔ سو اس (اخلاص و استقامت) پر اللہ نے ان کو دنیا کے (اجر و) ثواب سے بھی نوازا، اور آخرت کا عمدہ (اور حقیقی اجرو) ثواب بھی ان کو عطا فرمایا، اور اللہ محبت کرتا (اور پسند فرماتا) ہے ایسے نیکو کاروں کو

۱۴۸.  ۔۔  اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اطاعت (و فرمانبرداری) کی ان لوگوں کی جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر دیں گے (اپنے کفر و باطل کی طرف) جس سے تم لوگ مبتلا ہو جاؤ گے (دارین کے) خسارے میں (وہ نہیں)

۱۴۹.  ۔۔ بلکہ اللہ ہی تمہارا حامی و مددگار ہے، اور وہی ہے سب سے بہتر مدد کرنے والا

۱۵۰.  ۔۔  عنقریب ہی ہم رعب ڈال دیں گے کافروں کے دلوں میں، اس بناء پر کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا ایسی (بے بنیاد اور وہمی) چیزوں کو جن کے بارے میں اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری، اور (آخرت میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ایسے ظالموں کا

 

۱۵۱.  ۔۔  اور یقیناً اللہ نے سچ کر دکھایا تم لوگوں سے اپنا وعدہ، جبکہ تم لوگ ان (دشمنان اسلام) کو تہ تیغ کرتے چلے جا رہے تھے اللہ کے (حکم و) اذن سے، یہاں تک جب تم لوگوں نے بزدلی دکھائی، اور جھگڑا ڈال دیا اپنے معاملے میں، اور تم نے نافرمانی کا ارتکاب کیا، اس کے بعد اللہ نے تم کو دکھا دیا تھا وہ کچھ جس سے تم لوگ محبت رکھتے تھے، (یعنی فتح و نصرت)  تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت، پھر اللہ نے تم کو پھیر دیا ان لوگوں سے، (جس سے تم پسپائی سے دو چار ہو گئے) تاکہ اس طرح وہ تمہاری آزمائش کرے، اور البتہ تحقیق اس نے معاف فرما دیا تم سب کو، اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے ایمانداروں پر

۱۵۲.  ۔۔ (اور یاد کرو کہ) جب تم لوگ بھاگے جا رہے تھے، اور کسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے، اور تمہارے رسول تمہیں پیچھے سے پکار رہے تھے، پھر اس (وحدہٗ لاشریک) نے تم کو غم پر غم دیا  تاکہ تم آئندہ نہ غم کرو کسی ایسی چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے، اور نہ (ہی تم دل برداشتہ ہوا کرو) کسی ایسی مصیبت پر جو تمہیں پیش آ جائے، اور اللہ پوری طرح باخبر ہے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۱۵۳.  ۔۔ پھر اس (خدائے مہربان) نے (اپنی خاص رحمت و عنایت سے) تم پر (جب کہ دشمن میدان سے نکل چکا تھا) امن کی ایک خاص کیفیت طاری کر دی یعنی ایک ایسی اونگھ سی جو چھا رہی تھی، تم میں سے ایک گروہ پر، جب کہ ایک اور گروہ کو اپنی جانوں ہی کی فکر کھائے جا رہی تھی، یہ لوگ گمان کر رہے تھے اللہ کے بارے میں ناحق طور پر جاہلیت کا گمان، یہ لوگ (اپنے خاص انداز میں) کہتے تھے کہ کیا اس کام میں ہمارا بھی کوئی (حصہ اور) اختیار ہے ؟ کہو اختیار تو سب اللہ ہی کیلئے (اور اسی کے ساتھ خاص) ہے، یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ کچھ چھپاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے بھی اس معاملہ میں کوئی شئی (رائے اور اختیار کی) ہوتی، تو ہم لوگ یہاں (اس میدان احد میں اس طرح) قتل نہ ہوتے، کہو کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی وہ لوگ خود بخود (اور ضرور بالضرور) نکل آتے اپنی قتل گاہوں کہ طرف، جن پر قتل ہونا لکھ دیا گیا تھا، اور (یہ سب کچھ اس لئے بھی ہوا کہ) تاکہ اللہ آزمائش کرے اس کی جو کچھ کہ ان کے سینوں کے اندر (چھپا ہوا) ہے، اور تاکہ اللہ چھانٹ (کر الگ کر) دے وہ کچھ، جو کہ تمہارے دلوں میں ہے (شوائب وساوس میں سے) اور اللہ خوب جانتا ہے دلوں کے (اندر چھپے بھیدوں اور) رازوں کو

۱۵۴.  ۔۔ بے شک تم میں سے جن لوگوں نے پیٹھ پھیری (اس دن) جس دن کہ آمنا سامنا ہوا (حق و باطل کے) دو گروہوں کا  تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ تھی کہ ان کو پھسلا دیا تھا شیطان نے ان کی بعض کمزوریوں کی بناء پر اور یقیناً اللہ نے معاف فرما دیا ان سب کو بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی بردبار ہے (سبحانہ و تعالیٰ)

۱۵۵.  ۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان (لانے) کے شرف سے مشرف ہو چکے ہو، کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو (ایمان کے بلند بانگ دعوے تو کرتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ) کفر ہی کی راہ پر گامزن ہیں، جو اپنے بھائیوں کے بارے میں جب کہ وہ زمین پر کہیں سفر پر نکلتے ہیں، (اور وہاں اتفاق سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے) یا وہ کسی جنگ میں شریک ہوتے ہیں (اور وہاں قتل ہو جاتے ہیں، وہ ان کے بارے میں) کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ہمارے پاس ہوتے تو نہ (اس طرح) مرتے اور نہ قتل ہوتے، تاکہ (اس طرح) اللہ (ان کی) اس بات کو حسرت (و افسوس کا انگارہ) بنا کر ان کے دلوں میں ڈال دے  حالانکہ اللہ ہی زندگی بخشتا ہے، اور وہی موت بھی دیتا ہے، اور اللہ پوری طرح دیکھنے والا ہے ان کاموں کو جو تم کرتے ہو

۱۵۶.  ۔۔ اور اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے، یا مر گئے، تو (کسی ناکامی کا سوال ہی نہیں کہ) بے شک اللہ کی طرف سے ملنے والی عظیم الشان بخشش اور (بے پایاں) رحمت اس (حطام دنیا) سے کہیں بہتر ہے جس کو جمع کرنے (اور جوڑ جوڑ کر رکھنے) میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں

۱۵۷.  ۔۔ اور اگر تم (کسی بھی طرح) مر گئے، یا قتل ہو گئے، تو (کیا ہوا؟) تم سب کو بہرحال اللہ ہی کی طرف سمٹ کر جانا ہے

۱۵۸.  ۔۔ سو اللہ کی رحمت کی بنا پر، آپ نرم خو ہو گئے ان کے لئے (اے پیغمبر !) ورنہ اگر کہیں آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے، تو یہ کبھی کے آپ کے آس پاس سے چھٹ گئے ہوتے سو آپ درگزر کرو ان (کی کوتاہیوں) سے، اور بخشش مانگو ان کے لئے (اپنے رب سے) اور شریک مشورہ رکھو ان کو ایسے (اہم اور اجتماعی) کاموں میں، پھر جب آپ (کسی معاملے میں) پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کر (کے اس میں لگ) جاؤ، بے شک اللہ محبت رکھتا (اور پسند فرماتا) ہے ایسے بھروسہ کرنے والوں کو

۱۵۹.  ۔۔ اگر اللہ تمہاری مدد پر ہو تو پھر کوئی بھی (خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو) تم پر غالب نہیں آ سکتا، اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے ۔ والعیاذ بہ سبحانہ و تعالیٰ۔ تو پھر کون ہے جو تمہاری مدد کر سکے اس کے بعد؟ اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے، ایمان والوں کو

۱۶۰.  ۔۔  اور کسی نبی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ (کسی طرح کی) کوئی خیانت کرے، اور جس کسی نے کوئی خیانت کی تو اسے قیامت کے روز اپنی خیانت (کردہ شئی) کو خود (اپنے سر پر اٹھا کر) لانا ہو گا، پھر ہر کسی کو پورا بدلہ دیا جائے گا اس (کی زندگی بھر) کے کئے کرائے کا، اور ان پر (کسی طرح کا) کوئی ظلم نہیں ہو گا

۱۶۱.  ۔۔ تو کیا وہ شخص جو پیروی کرتا ہو اللہ (تعالیٰ) کی رضا کی، وہ اس کی طرح ہو سکتا ہے جو (اپنے کرتوتوں کے باعث) مستحق ہو گیا ہو اللہ کے غضب کا، اور اس کا ٹھکانا (قرار پا چکا) ہو جہنم؟ اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ (والعیاذ باللہ)

۱۶۲.  ۔۔ یہ لوگ اللہ کے یہاں بڑے مختلف درجوں کے ہیں، اور اللہ پوری طرح دیکھنے والا ہے ان تمام کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں

۱۶۳.  ۔۔  بے شک اللہ نے بڑا ہی احسان فرمایا ایمان والوں پر، کہ ان میں ایک ایسا عظیم الشان پیغمبر مبعوث فرمایا، جو خود ان ہی میں سے ہے  جو کہ ان کو پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیتیں، اور وہ پاک (و صاف) کرتا ہے ان کے باطن کو، اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے ان کو کتاب و حکمت (کے علوم و معارف) حالانکہ اس سے قبل یہ لوگ قطعی طور پر (پڑے) تھے کھلی گمراہی میں

۱۶۴.  ۔۔  اور (تمہارا یہ کیا حال ہے) جب تم لوگوں کو (احد میں) کچھ تکلیف پہنچی تو تم چیخ اٹھے، کہ یہ کہاں سے (اور کیسے) آ گئی، حالانکہ اس سے (پہلے بدر میں) تم لوگ اس سے دوگنی تکلیف (اپنے ان دشمنوں کو) پہنچا چکے تھے، (ان سے) کہو (اے پیغمبر!) کہ یہ (تکلیف و مصیبت) بھی خود تمہاری اپنی ہی طرف سے ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۱۶۵.  ۔۔ اور جو بھی کچھ مصیبت تمہیں (غزوہ احد میں) اس روز پہنچی جب کہ (کفر و اسلام کی) ان دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا تو وہ سب اللہ کے اذن سے تھا، اور (یہ اس لئے ہوا کہ) تاکہ اللہ دیکھ لے ایمان والوں کو،

۱۶۶.  ۔۔  اور تاکہ وہ دیکھ لے ان لوگوں کو جنہوں نے منافقت کا و طیرہ اپنا رکھا تھا، اور (جن کا حال یہ تھا کہ جب) ان سے کہا گیا کہ آؤ تم (ہمارے ساتھ شامل ہو کر) لڑو اللہ کی راہ میں یا (کم از کم اس طرح تکثیر سواد کے ذریعے) تم لوگ دفاع کرو (اپنے شہر کا) تو انہوں نے (صاف) کہہ دیا کہ اگر ہم کوئی لڑائی جانتے تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے، اس روز یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، یہ اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہتے ہیں جو کہ ان کے دلوں میں نہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ یہ چھپاتے ہیں

۱۶۷.  ۔۔ یہ ایسے (بد نصیب اور محروم) لوگ ہیں کہ خود تو بیٹھے رہے، (اپنے گھروں میں) اور اپنے (ان ہم نسب) بھائیوں کے لئے (جو کہ راہ حق میں کام آئے یوں) کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے تو (اس طرح) قتل نہ ہوتے کہو (ان سے، اے پیغمبر!) کہ اچھا تو پھر تم لوگ خود اپنی جانوں سے (اپنے وقت پر آنے والی) موت کو ٹال کے دکھاؤ، اگر تم سچے ہو (اپنی ان باتوں میں)

۱۶۸.  ۔۔ اور تم ان لوگوں کو جو کہ اللہ کی راہ میں مارے جائیں کبھی مردہ نہیں سمجھنا کہ وہ (حقیقت میں) زندہ ہیں، اپنے رب کے یہاں رزق (بے گمان) پا رہے ہیں

۱۶۹.  ۔۔ وہ خوش و خرم ہیں ان نعمتوں سے جن سے اللہ نے ان کو نوازا ہے اپنے فضل (و کرم) سے، اور یہ خوش ہوتے ہیں ان لوگوں کی بناء پر بھی جو ان کے پیچھے (اور ان کے نقش قدم پر) ہیں، اور جو ابھی تک ان سے ملے نہیں کہ (وہ بھی اگر شہادت کی موت پا لیں تو) ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

۱۷۰.  ۔۔ وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کے عظیم الشان انعام اور مہربانی پر، (جس سے وہ سرفراز ہو چکے ہیں) اور اس بناء پر کہ بے شک اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ) ضائع نہیں فرماتا اجر ایمانداروں کا

۱۷۱.  ۔۔ جن لوگوں نے حکم مانا اللہ کا اور اس کے رسول کا اس کے بعد کہ ان کو (ابھی تازہ) زخم لگ چکا تھا  ان میں سے جو نیکوکار اور تقویٰ (و پرہیزگاروں) والے ہیں ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے

۱۷۲.  ۔۔ جن سے لوگوں نے (ان کو خوف زدہ کرنے کے لئے) کہا کہ بے شک (تمہارے دشمن) لوگوں نے تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع کر رکھی ہیں، پس تم ان سے ڈرو (اور ان کے مقابلے سے بچو) تو اس سے (ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی بجائے) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہو گیا، اور انہوں نے (فوراً اور قوت ایمانی سے لبریز انداز میں) کہا کہ کافی ہے ہمیں اللہ اور وہی ہے سب سے (بڑا اور سب سے) اچھا کارساز

۱۷۳.  ۔۔ سو اس (ایمان و یقین اور صدق و اخلاص) کے نتیجے میں وہ اللہ (کی طرف) سے ملنے والی بڑی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے، اس حال میں کہ کسی (تکلیف اور) برائی نے ان کو چھوا تک نہیں، اور انہیں اللہ کی رضا کی پیروی کا شرف بھی حاصل ہو گیا، اور اللہ بڑا ہی فضل فرمانے والا (اور نوازنے والا) ہے

۱۷۴.  ۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ (ڈرانے والا) یہ شخص دراصل شیطان تھا، جو تمہیں ڈرا رہا تھا اپنے دوستوں سے، پس تم ایسوں سے کبھی نہ ڈرنا اور خاص مجھ سے ہی ڈرتے رہنا اگر تم ایماندار ہو

۱۷۵.  ۔۔ اور آپ کو (اے پیغمبر!) غم میں نہ ڈالنے پائیں وہ لوگ جو دوڑ دوڑ کر جا (گرتے) ہیں کفر میں، یہ لوگ قطعاً کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، اللہ چاہتا ہے کہ ایسے (بدبختوں) کے لئے کوئی حصہ نہ رکھے آخرت میں، اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے

۱۷۶.  ۔۔ بے شک جن لوگوں نے ایمان کے (نور کی) بجائے کفر (کی ظلمت) کو اپنایا وہ یقیناً اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، اور ان کے لئے (انجام کار) ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۱۷۷.  ۔۔ اور کافر لوگ کبھی بھی یہ مت سمجھیں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم تو یہ ڈھیل محض اس لئے دے رہے ہیں کہ یہ لوگ گناہ میں بڑھتے (اور اپنا  پیمانہ لبریز کرتے) جائیں، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے (والعیاذ باللہ)

۱۷۸.  ۔۔ اللہ ایسا نہیں کہ ایمان والوں کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر کہ تم لوگ اب ہو۔ (بلکہ وہ طرح طرح سے ان کی آزمائش کرتا رہے گا) یہاں تک کہ وہ (اس مقصد کے لئے) چنتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، پس تم لوگ (بے چوں چراں اور پورے صدق و اخلاص سے) ایمان لے آؤ اللہ پر، اور اس کے رسولوں پر، اور اگر تم (صدق و اخلاص سے) ایمان لے آئے، اور تم نے تقویٰ (و پرہیزگاری) کو اپنایا، تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے

۱۷۹.  ۔۔ اور وہ لوگ جو بخل سے کام لیتے ہیں ان چیزوں میں سے جن سے ان کو اللہ نے نوازا ہے اپنے فضل (و کرم) سے، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ (بخل) ان کے لئے بہتر ہے، بلکہ یہ ان کے لئے بہت برا ہے (اور وہ یاد رکھیں کہ) جو کچھ انہوں نے بخل کر کے جوڑا تھا کل قیامت کے روز اس کو ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، اور اللہ ہی کے لئے ہے میراث آسمانوں اور زمین (اور ان دونوں کے درمیان کی ساری کائنات) کی، اور اللہ پوری طرح باخبر (و آگاہ) ہے، ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۱۸۰.  ۔۔ بے شک اللہ نے سن لی بات ان (بد بخت اور منحوس) لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ اللہ محتاج ہے (والعیاذ باللہ) اور ہم دولت مند، ہم لکھ رکھیں گے ان کی باتوں کو بھی، اور ان کے انبیاء (کرام) کے قتل ناحق کرنے (کے سنگین ترین جرم) کو بھی، اور (پھر وقت آنے پر ہم ان سے) کہیں گے کہ لو اب چکھ لو تم لوگ مزہ دوزخ کی اس (دہکتی) بھڑکتی آگ کا

۱۸۱.  ۔۔ یہ بدلہ ہے تمہاری اس کمائی کا جو تم لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں آگے بھیجی تھی، اور یقیناً اللہ (کسی بھی طرح کا) کوئی ظلم نہیں کرتا اپنے بندوں پر

۱۸۲.  ۔۔ جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اللہ نے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش کرے جسے (آسمانی) آگ آ کر کھا جائے، (ان سے) کہو کہ کتنے ہی رسول آ چکے مجھ سے پہلے کھلی کھلی نشانیاں لے کر، اور اس نشانی کے ساتھ بھی جس کا مطالبہ تم لوگ (آج مجھ سے) کر رہے ہو، تو پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو (اپنے اس دعویٰ و مطالبے میں ؟)

۱۸۳.  ۔۔ پھر بھی اگر یہ لوگ آپ کو (اے پیغمبر!) جھٹلاتے ہی جائیں گے تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کہ) آپ سے پہلے بھی کتنے ہی رسولوں کو جھٹلایا جا چکا ہے، جو (اپنی صداقت و حقانیت کی) کھلی کھلی نشانیاں (پاکیزہ آسمانی) صحیفے (اور حق و صداقت کی) روشنی بخشنے والی (الہامی) کتابیں لے کر آئے تھے،

۱۸۴.  ۔۔ (کوئی مانے یا نہ مانے یہ بہرحال ایک اٹل حقیقت ہے کہ) ہر شخص نے موت کا مزہ بہرحال چکھنا ہے، اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ تم لوگوں کو تمہارے پورے پورے اجر قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جس کو دوزخ کی اس (ہولناک) آگ سے بچا لیا گیا، اور اس کو جنت میں داخل کر دیا گیا، تو وہ یقیناً حقیقی کامیابی سے سرفراز ہو گیا، اور دنیا کی یہ (عارضی و فانی) زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں

۱۸۵.  ۔۔ تمہاری ضرور آزمائش ہو گی (اے ایمان والو!) تمہارے مالوں میں بھی، اور تمہاری جانوں میں بھی، اور تمہیں ضرور سننا پڑیں گی بہت سی تکلیف دہ باتیں ان لوگوں سے بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی، اور ان سے بھی جو کھلے شرک پر ہیں، اور اگر تم نے صبر (و استقامت) سے کام لیا، اور تم لوگ تقویٰ (و پرہیز گاری) پر کار بند رہے، تو (یقیناً تم مراد کو پہنچ گئے کہ) بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے

۱۸۶.  ۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب اللہ نے پختہ عہد لیا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی کہ تم نے ضرور بالضرور اس کو کھول کر بیان کرنا ہے لوگوں (کی بھلائی اور نفع رسانی) کے لئے، اور اس (کے کسی بھی حصے) کو بھی تم نے چھپانا نہیں، مگر (اس کے باوجود) انہوں نے اس (عہد و پیمان) کو پس پشت ڈال دیا، اور اس کے بدلے میں انہوں نے (دنیاء دوں کے) گھٹیا مول کو اپنا لیا، سو بڑا ہی برا ہے وہ کچھ جسے یہ لوگ (حق کے مقابلے میں) اپنا رہے ہیں

۱۸۷.  ۔۔ (اور) کبھی گمان بھی نہ کرنا ان لوگوں کے بارے میں جو خوش ہوتے (اور بغلیں بجاتے) ہیں اپنے کرتوتوں پر، اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ایسے کاموں پر جو انہوں نے کئے نہیں، سو ان کے بارے میں کبھی یہ گمان نہیں کرنا کہ وہ عذاب سے کسی طرح کے بچاؤ (اور حفاظت) میں ہیں، (ہرگز نہیں) اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۱۸۸.  ۔۔ اور اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۱۸۹.  ۔۔ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور رات دن کے ادلنے بدلنے میں، (غور و فکر کے لئے) بڑی بھاری نشانیاں ہیں، ان عقل خالص (و سلیم) رکھنے والوں کیلئے

۱۹۰.  ۔۔  جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے، بیٹھے، اور اپنے پہلووں پر لیٹے، (ہر حال میں) اور وہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں، آسمانوں اور زمین میں، (اور پھر وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب، تو نے یہ (سب کچھ) بے کار (اور بے مقصد) پیدا نہیں فرمایا، تو پاک ہے (ہر نقص و عیب سے اور اس سے کہ تو یہ سب کچھ بے مقصد پیدا فرمائے) پس تو ہمیں (ہمارے اس ایمان و عقیدہ کے صلہ و نتیجہ میں اور اپنے فضل و کرم کی بناء پر) بچا لے دوزخ کے عذاب سے

۱۹۱.  ۔۔ اے ہمارے رب، بے شک جس کو تو نے (اے ہمارے مالک!) ڈال دیا دوزخ کے عذاب میں، تو یقیناً اس کو تو نے دو چار کر دیا سخت (ذلت و) رسوائی سے، (اس کے اپنے کئے کہ پاداش میں) اور ایسے ظالموں کے لئے کوئی (یارو) مددگار نہیں ہو گا

۱۹۲.  ۔۔  اے ہمارے رب، بے شک ہم نے سنا ایک پکارنے والے کو جو پکار رہا تھا ایمان کے لئے کہ (صدق دل سے) ایمان لاؤ تم سب (اے لوگو!) اپنے رب پر، سو ہم (صدق دل سے) ایمان لے آئے، پس تو اے ہمارے رب (اس ایمان کے طفیل) بخش دے ہمارے گناہوں کو، اور مٹا دے ہم سے ہماری برائیوں (کی میل کچیل) کو، (اپنے عفو و درگزر کے آب ذلال سے) اور ہمارا خاتمہ فرما نیک لوگوں کے ساتھ

۱۹۳.  ۔۔ اور عطا فرما دے ہمیں اے ہمارے رب، وہ کچھ کہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ فرما رکھا ہے اپنے رسولوں کے ذریعے، اور ہمیں رسوا نہیں کرنا قیامت کے روز، بے شک تو (اے اصدق القائلین!) خلاف نہیں کرتا اپنے وعدے کے

۱۹۴.  ۔۔ سو قبول فرما لیا ان کے رب نے ان کی ان دعاؤں کو، (اپنے کرم بے پایاں سے، اور فرمایا کہ میری شان یہی ہے کہ) بے شک میں کبھی ضائع نہیں کرتا، تم میں سے کسی بھی شخص کے عمل کو، خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت، تم سب آپس میں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہو  سو جن لوگوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا (میری خاطر) اور ان کو نکال باہر کیا گیا ان کے گھروں سے (ظلم و زیادتی کے ساتھ) اور جن کو (طرح طرح سے) ستایا گیا میری راہ میں، اور جو لڑے اور مارے گئے، تو میں ضرور داخل کر دوں گا ان کو ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان اور بے مثال) نہریں اللہ کے یہاں سے (ملنے والے) ایک عظیم الشان بدلہ (اور جزاء) کے طور پر، اللہ ہی کے پاس ہے سب سے عمدہ (اور کامل) بدلہ

۱۹۵.  ۔۔ (اور خبردار اے مخاطب!) تم کو کبھی بھی دھوکے میں نہ ڈالنے پائے چلنا پھرنا کافروں کا مختلف شہروں (اور ملکوں) میں

۱۹۶.  ۔۔ (کہ یہ سب کچھ تو محض) چند روزہ سامان عیش و عشرت ہے (اور بس) پھر ان کا دائمی ٹھکانا تو جہنم ہی ہے، (ان کے اپنے کفر اور غفلت شعاری کی بناء پر) اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۱۹۷.  ۔۔ (اس کے برعکس جو لوگ (زندگی بھر) ڈرتے رہے اپنے رب سے، ان کے لئے ایسی عظیم الشان جنتیں ہیں (دائمی اور ابدی انعام و بدلہ کے طور پر) جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی (عظیم الشان اور بے مثل) نہریں، جن میں ان (سعادت مندوں) کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا، ایک عظیم الشان (اور بے مثل) مہمانی کے طور پر، اللہ تعالیٰ کے یہاں سے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے (اس کے) نیک بندوں کیلئے وہ (کفار کے اس چند روزہ سامان عیش و عشرت سے) کہیں بڑھ کر بہتر ہے

۱۹۸.  ۔۔ اور اہل کتاب میں سے بھی یقیناً کچھ لوگ ایسے (راست رو) ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر، اور اس کتاب پر جو اتاری گئی تمہاری طرف، اور اس پر بھی جو اتاری گئی ان کی طرف، اس حال میں کہ وہ (دل و جان سے) جھکے رہتے ہیں اللہ کے حضور وہ نہیں اپناتے اللہ کی آیتوں کے بدلے میں (دنیاء دوں کا) تھوڑا (اور گھٹیا) مول  ایسوں کے لئے ان کا اجر (و ثواب) ہے، ان کے رب کے یہاں بے شک اللہ بڑا ہی جلد حساب چکا دینے والا ہے

۱۹۹.  ۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم صبر (و استقامت) سے کام لیا کرو (تکالیف و مصائب پر) اور (ثابت قدمی و) پامردی دکھایا کرو دشمن کے مقابلے میں، اور (مستعد و) کمر بستہ رہا کرو (حق کی خدمت کے لئے) اور ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے تاکہ تم لوگ فلاح پا سکو

تفسیر

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۴۔ یعنی جس سے حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور راہ حق و ہدایت پوری طرح نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ سو یہ تورات کی ایک خاص صفت تھی۔ جو اب قرآن حکیم میں بدرجہ تمام و کمال پائی جاتی ہے۔ پس جو لوگ اس کتاب حکیم پر ایمان کی دولت سے محروم ہیں وہ حق و ہدایت کی روشنی سے محروم اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں والعیاذ باللہ العظیم

۵۔  سو آسمان و زمین کی اس پوری کائنات کی کوئی بھی چیز اس سے مخفی و مستور نہیں ہو سکتی وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے پس معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔

۷۔ جن کی مراد واضح ہے اور ان میں کسی طرح کا کوئی اشتباہ نہیں عمل کا مدار و انحصار انہی آیتوں پر ہے۔ یہی آیات کریمات اس کتاب حکیم کی اصل اور اساس ہیں اور اصل رجوع انہی کی طرف ہے۔  نوٹ۔  اور جو آگے دو قسم پر ہیں ایک وہ جن کا معنی اللہ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں جیسے حروف مقطعات وغیرہ اور دوسری وہ جن کے معانی تو معلوم ہیں لیکن ان کے اصل حقائق اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیسے استواء علی العرش کہ استواء کا معنی و مفہوم تو اصل لغت کے اعتبار سے واضح ہے، لیکن حضرت حق جَلَّ مَجْدَہ کے استواء علی العرش کی حقیقت اور کیفیت کو جاننا ہمارے بس میں نہیں، سبحانہ و تعالیٰ نوٹ۔جمہور اہل علم کے نزدیک یہاں پر وقف لفظ جلالہ یعنی اللہ پر ہے، اور اس کے بعد والرَّاسِخُوْنَ فی العلم سے شروع ہونے والا کلام کلام مستانف ہے، سو اس صورت میں معنی و مطلب یہ ہو گا کہ متشابہ کی مراد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جو راسخ فی العلم لوگ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے۔ جبکہ بعض دوسرے اہلِ علم کی رائے اس کے خلاف ہے۔ تفصیل ہماری بڑی تفسیر میں۔نوٹ۔  جن کی عقلیں زیغ و ضلال کے جملہ شوائب سے پاک اور صاف ہوتی ہیں کہ وہی حق و ہدایت کی دولت سے سرفراز ہوتے، اور راہ حق و صواب کو اپناتے ہیں، اور اس کے برعکس جن کی عقلیں شوائب کفر و شرک، زیغ و ضلال اور مادہ و معدہ پرستی کی کدورات سے میلی ہو جاتی ہیں، ان کو نور حق وہدایت سے سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی کہ ایسی عقلیں ماؤف اور معطل ہو جاتی ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال

۸۔ سو یہ کائنات پوری اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ سب کا سب تیری ہی عطاء و بخشش کا نمونہ و مظہر ہے۔ اس دنیا میں جس کو ملا اور جو کچھ ملا وہ سب کا سب تیری ہی عطا و بخشش سے ملا۔ کہ ہر طرح کی عطاء و بخشش تیری ہی صفت و شان ہے۔ اور تو ہی وہاب و کریم ہے، تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ واضح رہے کہ وہاب کی اسی صفت کریمہ کی طرف نسبت سے لفظ وہابی بنتا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں اللہ والا۔ جو کہ بہت بڑا اعزاز اور ایک عظیم الشان نسبت اور شرف ہے مگر اہل بدعت اپنی بدبختی اور کج فہمی کی بناء پر اس کو اہل حق کے خلاف طعن و تشنیع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ایسے لوگ اپنی محرومی اور شقاوت و بدبختی میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور ان کو اپنی اس محرومی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ والعیاذ باللہ العظیم، بکل حال من الاحوال

۱۰۔ سو جس مال و اولاد اور دنیا و دولت پر یہ لوگ آج مست اور مغرور ہیں، وقت آنے پر وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گی، بلکہ وہ ان کے لئے آتش دوزخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اور اس طور پر کہ اس سے ان کے لئے نکلنے اور بچنے کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔ اور یہ ہمیشہ کے لئے آتش دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے، سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے، جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد دولت ہے، اور جس کی کمائی اور اس سے سرفرازی کا موقع یہی دنیاوی زندگی اور اس کی فرصت محدود ہے جو کہ رفتہ رفتہ انسان کے ہاتھ سے رخصت ہوتی جاتی ہے اور اس طور پر کہ اس کی واپسی کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی مگر اہل کفر و باطل کو اس کا شعور و احساس نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس بڑے ہی محروم اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو دولت ایمان و یقین سے محروم اور اس کے تقاضوں سے غافل ولاپرواہ ہیں، کیونکہ یہ خسارہ و محرومی ایسا ہولناک خسارہ اور اس قدر سنگین محرومی ہے جو دارین کی ہلاکت وتباہی کا باعث ہے والعیاذ باللہ العظیم بِکُلِّ حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، جبکہ اس کے برعکس ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی کے بعد انسان کی ہر حالت اس کے لئے خیر ہی بن جاتی ہے، دنیا ملے تو بھی خیر، اور نہ ملے تو بھی خیر، دنیا ملنے کی صورت میں اس کو شکر کی توفیق و سعادت نصیب ہو گی، اور دنیا نہ ملنے کی صورت میں صبر و قناعت کی، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،

۱۱۔ اتنا برا اور اس قدر ہولناک ٹھکانا کہ اس جہاں میں اس کا تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں، سو جو لوگ اپنے کفر و باطل پر اڑے ہوئے ہیں، اور وہ پیغام حق و ہدایت کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ان کو بالآخر اپنے اس انتہائی ہولناک انجام سے دو چار ہو کر رہنا ہے۔ اور جب دنیا سے وہ دولت ایمان و یقین سے محرومی کے ساتھ رخصت ہوئے تو ان کو دوزخ کے اس انتہائی ہولناک گڑھے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مبتلا رہنا ہے، وہ کبھی اور کسی بھی طرح اس سے نکل نہیں سکیں گے، اور یہی ہے سب سے بڑی محرومی اور انتہائی ہولناک خسارہ جو کہ خساروں کا خسارہ اور محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۳۔ سو ایسے ہی لوگ ہیں، جو کہ چشم بینا اور دیدہ عبرت و بصیرت رکھتے ہیں، اور وہی ایسے مواقع سے درسِ عبرت و بصیرت لیتے ہیں، اور وہی یہ اہم سبق لیتے ہیں کہ اصل قوت ایمان و یقین کی قوت ہے جس سے سرفرازی کے بعد تھوڑی سی تعداد بھی ظاہری اسباب و وسائل سے عاری اور بے سہارا ہونے کے باوجود اپنے سے کہیں بڑی قوت پر غالب آ جاتی ہے، اگرچہ وہ مادی ساز وسامان کے اعتبار سے بھی کہیں بڑھ کر ہو۔ مگر یہ سبق دیدہ بنا رکھنے والے لوگ ہی لے سکتے ہیں ورنہ عام لوگوں کے لئے اس طرح کے عبرت انگیز مواقع میں بھی کوئی درس عبرت و بصیرت نہیں ہوتا۔ کہ ان کا دیکھنا محض حیوان کا دیکھنا ہوتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۴۔ سو ابنائے دنیا کی قاصر و محدود اور مادہ پرست نگاہوں میں یہی چیزیں کھبا دی گئی ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا اور منتہائے نظر یہی کچھ ہے، وہ مادہ و معدہ سے تعلق رکھنے والی انہی چیزوں کے لئے جیتے اور انہی کے لئے مرتے ہیں ذَالِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ۔ یعنی ان کے علم کی انتہاء اور ان کا منتہاء مقصود ہے یہی کچھ ہے اور بس حالانکہ یہ سب کچھ دنیائے دُوں کا چند روزہ سامان اور متاعِ فانی ہے۔ اور بس سو بڑے ہی خسارے میں ہیں وہ لوگ جو دنیائے فانی کے اسی متاع قلیل اور حطامِ زائل کو اپنا اصل مقصود قرار دے کر آخرت کی ابدی زندگی اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر نچنت و بے فکر بیٹھے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اس طرح ایسے لوگ اپنے لئے اس ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہیں جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا اور اس پر مستزادیہ کہ ان کو اپنے اس خسارے کا شعور و احساس ہی نہیں، بلکہ یہ اپنے اس رویے پر خوش اور مست و مگن ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں، وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا،

۱۵۔ سو تقاضائے عقل و نقل یہی ہے کہ آخرت کی ان ابدی اور حقیقی نعمتوں ہی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین قرار دیا جائے اور حیات دنیا کی اس فرصت محدود میں آخرت کی اس حقیقی کامیابی اور ابدی بادشاہی سے سرفرازی کے لئے کوشش کی جائے کہ اس کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے ایمان و عمل کی دولت اسی میں کمائی جا سکتی ہے اس کے بعد اس کا کوئی موقع و مقام ممکن نہیں، کیونکہ دارالعمل یہی دنیاوی زندگی ہے، جو کہ آخرت کے لئے مزرعۃ یعنی کھیتی ہے، جبکہ اس کے بعد آخرت کا وہ جہاں جو کہ فیصلے اور جزاء کا جہاں ہو گا، وہ درحقیقت اسی فصل کے کاٹنے اور اس کے پھل پانے کا جہاں ہو گا، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۶۔ سو اس سے یہ واضح فرما دیا گیا کہ اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا حوالہ دے کر اور ان کے واسطے اور وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی جائے۔ کیونکہ ایسی دعا کی قبولیت کی امید زیادہ ہوتی ہے اور اسی کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو کہ حدیث غار کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ کہ غار میں پھنس اور بند ہو جانے والے ان تینوں حضرات نے اپنے اپنے نیک اعمال کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کے حضور مصیبت سے رہائی کی دعا کی تو وہ قبول ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں پہاڑ ان کے راستے سے ہٹ گیا۔ اور ان تینوں کو اس مصیبت سے رہائی مل گئی۔ (بخاری کتاب البیوع۔ باب اِذا اشتری شیأاًلغیرہ بغیر اذنہ فرضی، و کتاب التہجد، باب الدعاء والصلوٰۃ من آخر اللیل۔ ومسلم کتاب المسافرین و قصرہا) ولاحمدللّٰہ جل وعلا

۱۷۔ اس لئے کہ رات کے پچھلے حصے یعنی سحری کے اس وقت میں دعا و استغفار کا خاص اثر اور فائدہ ہوتا ہے ایک تو اس لئے کہ غلبہ نیند کے اس خاص وقت میں اٹھنا بڑا مشکل، اور نفس کی خواہشات کو کچلنے میں خاص کارگر ہوتا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ اس وقت قلب و ذہن مشاغل و وساوس سے نسبۃً زیادہ فارغ اور آزاد ہوتے ہیں، اور تیسرے اس لئے کہ اس وقت حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی خاص عنایات اس کے بندوں کے لئے متوجہ ہوتی ہیں جیسا کہ صحیح احادیث قدسیہ میں اس کی طرح طرح سے تصریح فرمائی گئی ہے بہر کیف اس سے اہل جنت کی خاص صفات کو بیان فرمایا گیا ہے جس سے یہ بھی ظاہر فرما دیا گیا ہے کہ جنت سے سرفرازی کسی قومیت اور نسل وغیرہ کی بناء پر نہیں ہو گی۔ بلکہ انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار سے ہو گی۔ پس جو اپنے ایمان و عقیدہ میں پختہ و راسخ ہو گا، اور اعمال صالحہ کی دولت اور اس کا ذخیرہ رکھتا ہو گا وہی اس سے سرفرازی کا اہل اور مستحق ہو گا۔ خواہ وہ کہیں کا بھی ہو، اور اس کا تعلق کسی بھی قوم قبیلے اور ملک و ملت سے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۹۔ سو دین حق صرف اسلام ہے۔ اور نجات و سرخروئی اسی سے وابستہ ہے اس کے سوا اور کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور ایسے لوگ آخرت میں یقیناً اور قطعی طور پر محروم اور خسارے میں ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (اٰل عمران۔٨۵) پس جو لوگ لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ سب دین ٹھیک ہیں سب نیکی کی دعوت دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ وہ سراسر غلط، جھوٹ اور ناحق بات کہتے ہیں دین حق صرف اسلام ہے۔ اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، اسلام ہی دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے، والحمد للہ جل وعلا

۲۰۔ اور آپ نے پیغام حق و ہدایت پہنچا دیا۔ اور پوری طرح پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپ کا ذمہ فارغ ہو گیا۔ آپ پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں، یہ لوگ اپنی محرومی اور ہلاکت و تباہی کے ذمہ دار خود ہیں آپ کا کام صرف پیغام حق و ہدایت کی تبلیغ ہے اور بس آگے لوگوں سے حق کو منوا لینا اور ان کو راہ حق پر ڈال دینا نہ آپ کے ذمے ہے اور نہ ہی آپ کے بس میں اس کے بعد آپ کا ذمہ فارغ، اس کے بعد جنہوں نے حق کو قبول کیا ان کا خود اپنا بھلا، اور جنہوں نے اس سے منہ موڑا، والعیاذ باللہ، ان کا خود اپنا نقصان،

۲۱۔ یعنی یہاں پر نکرہ تحت النفی واقع ہوا ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی یہ لوگ اللہ کے نبیوں کو قتل کرتے ہیں بغیر کسی بھی قسم کے حق کے، کیونکہ کسی نبی کے قتل کرنے کا کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا، حتی کہ جو لوگ قتل انبیاء کے اس سنگین اور انتہائی ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے نزدیک بھی نبیوں کا قتل ناحق ہی ہوتا ہے۔ اس لئے بعض مترجمین جو اس لفظ کا ترجمہ ناحق طور پر جیسے الفاظ سے کرتے ہیں وہ اس کا پورا اور صحیح ترجمہ نہیں بنتا۔ کیونکہ وہ ترجمہ دراصل بِغَیْرِ الْحَقِّ کا ہوتا ہے، جبکہ یہاں پر بِغَیْرِ حَقِّ فرمایا گیا ہے۔ اور ان دونوں تعبیروں میں بڑا فرق ہے۔ نوٹ۔  سو ایسے لوگوں کے لئے بڑے ہی دردناک عذاب کی خوشخبری ہے، کیونکہ ان کا جرم بڑا ہی سنگین ہے۔ ابن جریر نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح سے روایت کیا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ سخت عذاب کس کو ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو، یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا ہو، جو نیکی کی تعلیم دیتا، اور برائی سے روکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ابو عبیدہ بنو اسرائیل نے ایک دن صبح کے وقت میں تینتالیس نبیوں کو ایک ساتھ قتل کیا۔ پھر اسی دن کی شام کو انہوں نے ایک سو ستراں لوگوں کو قتل کیا، جو نیکی کی تعلیم دیتے اور برائی سے روکتے تھے (تفسیر المراغی وغیرہ)

۲۳۔ سو ایسے لوگوں کا حال بڑا تعجب انگیز اور عبرت خیز ہے کہ ان کو کتاب ہدایت کا ایک حصہ دیا گیا۔ اس کے بعد جب ان کے پاس کتاب ہدایت اپنی پوری اور کامل شکل میں آ گئی تو چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر اس کو اپناتے، اور پورے شوق و ذوق سے اپناتے اور اس طرح اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرتے۔ مگر اس کے برعکس ان کے ایک بڑے گروہ نے اس سے منہ موڑا اور بے رُخی برتی، اور اس طرح انہوں نے پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر سعادت دارین سے سرفرازی کی بجائے دارین کی ہلاکت و تباہی کی راہ کو اپنایا، جو کہ خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے، مگر ان کو اپنے اس سب سے بڑے خسارے کا احساس تک نہیں والعیاذُ باللہ العظیم

۲۴۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دین میں خود ساختہ اور من گھڑت باتوں کے اضافے اور آمیزش کے نتیجے میں انسان راہ حق و ہدایت سے ہٹ جاتا ہے۔ اور وہ دین حنیف کی روشنی سے محروم ہو کر کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔ جیسا کہ آج امت مسلمہ کے بہت سے فرقوں اور گروہوں کا بھی یہی حال ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اسی لئے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا، یعنی تم لوگ پیروی کرو، اور دین میں نئی نئی باتیں مت نکالو، سو اتباع یعنی دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی پیروی کرنا سعادتوں کی سعادت اور ابتداع یعنی دین میں نئی باتیں نکالنا محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، پس اتباع کا راستہ ہی صحت وسلامتی اور نجات و فلاح کا راستہ ہے،

۲۵۔  بلکہ اس روز ہر کسی کو اس کے اپنے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ دیا جائے گا۔ اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق دیا جائے گا۔ تو اس وقت حق سے منہ موڑنے والے ایسے بدبختوں کا کیا حال ہو گا۔ کہ اس وقت ایسوں کے لئے نہ کسی طرح کے کسی گریز و فرار کی کوئی گنجائش ہو گی، اور نہ کسی تدارک اور تلافی مافات کی کوئی صورت، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۶۔ پس تُو اے ہمارے خالق و مالک! جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ تیرے لئے نہ کچھ مشکل ہے، اور نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ، اور تیرا ہر کام حق اور حقیقت پر مبنی ہے اور تیری شان عطا اور بخشش اور لگاتار و مسلسل عطاء و بخشش کی شان ہے، پس تو محض اپنے فضل و کرم اور انعام و احسان سے ہمیں حکومت و سلطنت، عزت و عظمت، اور ہر قسم کی عطاء اور خیر سے نواز دے، اور محض اپنے فضل و کرم سے، اور اپنی شان کریمی و رحیمی کی بناء پر نواز دے۔ اور ہماری کمزوریوں، کوتاہیوں، لغزشوں خطاؤں اور تقصیرات و مزلات سے درگزر فرما دے۔ کہ ہم تو ہر حال میں اور ہر اعتبار سے خطا کار و قصور وار ہیں۔ اور ہمیں اپنی خطاؤں اور تقصیرات کا احساس وادراک بھی ہے اور اعتراف و اقرار بھی، پس تو ہماری خطاؤں اور کوتاہیوں کو نہ دیکھ۔ بلکہ اپنی رحمتوں عنایتوں اور شان کریمی و رحیمی کے مطابق ہم سے معاملہ فرما، یا ذالجلال و الاکرام

۲۷۔ جس سے کبھی دن بڑا ہوتا ہے، اور رات چھوٹی، اور کبھی اس کے برعکس، اور دن اور رات کا یہ ادل بدل، اور اس کی اس تبدیلی کا یہ عمل ہمیشہ اور ہر حال میں جاری و ساری، اور مسلسل و لگاتار جاری و ساری رہتا ہے۔ جو تیری اے ہمارے خالق و مالک! قدرت بے پایاں، حکمت بے نہایت، اور رحمت و عنایت بے غایت، کا ایک کھلا اور عظیم الشان نمونہ و مظہر ہے۔ جس میں غور و فکر، تیری عظمت و قدرت، اور وحدانیت و یکجائی، کے عظیم الشان دلائل اور سامان ہائے غور و فکر موجود ہیں، جن میں غور و فکر سے کام لیکر عقل سلیم اور فطرت مستقیم رکھنے والے دل و جان سے تیرے حضور جھک جھک جاتے ہیں۔ ولک الحمد ولک الشکر بکلِّ حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ۔ نوٹ۔  سو زندگی و موت اور رزق و روزی سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، تو ہی نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے، جیسے عالم کو جاہل سے، اور مومن کو کافر سے کہ یہ معنوی زندگی اور موت کے نمونے ہیں جو کہ ظاہر اور حسی موت و حیات سے کہیں زیادہ اہمیت اور عظمت شان رکھتے ہیں، یا جیسے درختوں اور نباتات کو گٹھلیوں اور بیجوں سے، انسان اور حیوان کو نطفہ سے، اور پرندے کو انڈے سے، وغیرہ جو کہ حسی زندگی اور موت کے نمونے ہیں۔ جو کہ تیری قدرت کاملہ، اور حکمت بالغہ کے عظیم الشان اور کھلے نمونے اور مظاہر ہیں، اور تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے رزق و روزی اور جملہ اسباب وسائل

۲۹۔ اور اس سب کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے، سو اسی کے مطابق وہ تم سے معاملہ فرمائے گا پس تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اس امر کی فکر و کوشش میں رہا کرو کہ تمہارا معاملہ اس خالق و مالک سے ہمیشہ صحیح اور درست رہے۔ کہ اس کے یہاں صرف ظاہرداری نہیں چلے گی۔ بلکہ باطن کے معاملے کا درست ہونا بھی ضروری ہے، کہ وہ ظاہر و باطن دونوں کو ایک برابر جانتا ہے، اور اس کے یہاں ظاہر و باطن دونوں کی صلاح و اصلاح مامور و مطلوب ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔

۳۱۔ سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے تقاضوں سے متعلق اہم اور بنیادی مسئلے کو پوری طرح اور بدرجہ تمام و کمال واضح فرما دیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان کے نزدیک اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی محبت سب سے اہم، سب پر فائق اور سب سے مقدم ہے، کہ ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور اس کی رحمتوں اور عنایتوں میں ہمارے جسم و جان کا رواں رواں ڈوبا ہوا ہے، اسی لئے کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اشَدُّ حُ با لِّلّٰہِ الایٰۃ اور یہی تقاضا ہے عقلِ سلیم اور فطرتِ مستقیم کا، کہ محبت کا اصل اور سب سے بڑا مستحق اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے کہ محبت کے تینوں بنیادی اسباب یعنی جمال کمال اور نوال اسی وحدہٗ لاشریک میں پائے جاتے ہیں اور بدرجہ تمام و کمال پائے جاتے ہیں، اس لئے محبوب حقیقی وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اب رہ جاتی ہے یہ بات کہ اس غنی مطلق سبحانہ و تعالیٰ کی محبت کے تقاضے پورے کس طرح کئے جائیں؟ تو اس سوال کے جواب سے پوری دنیا عاجز و قاصر ہے، کیونکہ یہ چیز انسانی فکر و فہم اور اس کے علم و ادراک کی حدود سے خارج اور اس کی رسائی سے باہر ہے اس لئے اس کا جواب اس رب رؤف و رحیم نے اپنی رحمت بے پایاں اور عنایت بے نہایت سے اس آیت کریمہ میں خود ہی ارشاد فرما دیا۔ کہ اس کا طریقہ ہے اتباع رسول، علیہ الصلوٰۃ والسلام، اور پھر اتباع رسول کی اس سعادت پر دو عظیم الشان اور بے مثال انعامات کا مژدہ جانفزا بھی سنا دیا گیا، ایک یہ کہ اس سے اتباع کرنے والے محبوب خدا بن جائیں گے، اور دوسرے یہ کہ اس سے ان کو مغفرت ذنوب کی سعادت بھی نصیب ہو گی، اور وہ غفور و رحیم ان کو طرح طرح کے انعامات سے بھی نوازے گا، سو اتباع رسول کی سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید۔

۳۴۔ سو ان پاکیزہ ہستیوں کے یہاں پر اس ذکر سے دراصل اس شرک کی نفی و تردید کے لئے تمہید باندھی جا رہی ہے جو حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے بارے میں ان کے ماننے والوں نے بعد میں دنیا میں پھیلایا اور جس کا کاروبار آج تک دنیا میں چل رہا ہے۔ اور دھڑلے سے چل رہا ہے اور جس کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ کے پیش کردہ دین توحید کو دین شرک بنا دیا گیا، اور توحید کے عقیدہ صافیہ کے بجائے تثلیث کے اس من گھڑت شرکیہ عقیدے کو اپنا لیا گیا، جو نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، سو یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب حضرت انسان بشر اور ایک دوسرے کی اولاد تھے، ان میں کسی طرح کی الوہیت اور خدائی کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ ان کے بارے میں الوہیت اور خدائی کے جو دعوے کئے گئے۔ اور جو خود ساختہ اور من گھڑت عقیدے اختیار کئے گئے وہ سب کچھ افتراء تھا۔ اور جس کا حق اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور یہ سب افتراء پردازی ان کے نا خلف نام لیواؤں نے ان کے بعد کی۔ والعیاذ باللہ العظیم

۳۶۔ کہ پناہ دینے والا سب کو وہی وحدہٗ لاشریک ہے سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان اس خالق و مالک حقیقی سے منہ موڑ کر، اور اس سے اس کی پناہ کی درخواست کرنے کے بجائے طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتا ہے؟ والعیاذُ باللہ العظیم، بہر کیف ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت مریم نے اس بچی کو جنم دینے کے بعد اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطانِ مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں، کہ شیطانِ مردود کے شر سے پناہ دینے والا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۳۷۔ کیونکہ وہ چھوٹی بچی تھیں، ان کے لئے کسی کفیل، اور نگران کا ہونا ضروری تھا، اور حضرت زکریا رشتے میں ان کے خالو لگتے تھے۔ اس لئے ان کو حضرت مریم کا کفیل اور نگران بنا دیا گیا۔ اور وہ وہاں کے اس وقت سب سے بڑے کاہن تھے۔ اس لحاظ سے بھی اس کے حقدار وہی تھے ۔ نوٹ۔ محراب کا لفظ سن کر عام طور پر انسان کا ذہن اس محراب کی طرف جاتا ہے جو کہ ہماری مسجدوں میں بنا ہوا ہوتا ہے۔ اور پھر عام طور پر یہ آیت کریمہ ہماری مسجدوں کے محرابوں کے اندر لکھی ہوئی بھی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک عام آدمی اس الجھن میں پڑ جاتا ہے کہ حضرت مریم اس محراب میں کس طرح رہتی تھیں اور وہاں پر ان کے لئے طرح طرح کے پھل آخر کس طرح رکھے رہتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ سو واضح رہے کہ یہاں پر محراب سے مراد وہ محراب سرے ہے ہی نہیں جو ہماری مسجدوں میں اس نام سے پایا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے یہاں پر مراد وہ خاص حجرہ ہے جو عبادت کے لئے اس دور میں معبد کے ساتھ بنایا جاتا تھا۔ اور جس کو اہل کتاب کے یہاں مذبح کہا جاتا تھا اور جس کو مقصورہ بھی کہا جاتا تھا۔ سو یہ اسی طرح کا ایک خاص نوعیت کا کمرہ تھا۔ جو آج کل حرم مکی میں خَلْوَۃٍ کے نام سے معروف ہے۔ نوٹ۔  سو وہی مالک جو سب کو روزی دیتا اور رزق بے گمان سے نوازتا ہے۔ وہی مجھے یہ رزق و روزی اور ان پھلوں سے نوازتا ہے۔ سبحان اللہ! آدمی کی طبیعت صاف اور اس کا قلب و باطن صحیح ہو، تو کس طرح ایک چھوٹی سی معصوم بچی بھی فوری اور صاف طور پر کہتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا بخشا ہے کہ سب کو اور سب کچھ دینے بخشنے والا وہی وحدہٗ لاشریک ہے لیکن اس کے برعکس جن لوگوں کے دلوں پر شرک کی نحوست چھا جاتی ہے اور حرام خوری کی میل ان پر جم جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی بخشی ان نعمتوں کو کسی خود ساختہ اور من گھڑت سرکار، اور کسی جبہ قبہ اور بنی ٹھنی قبر وغیرہ کی طرف منسوب کرتے، اور کہتے ہیں کہ یہ سب انہی کا کرم ہے، اور اس طرح ایسے لوگ اپنے باطن کی سیاہی کو اور پکا، اور اپنی سیاہ بختی کے داغ کو اور گہرا کرتے جاتے ہیں سو ایسے لوگ کھاتے کسی کا اور گاتے کسی اور کا ہیں دیتا کوئی ہے مگر یہ نام کسی اور کا لیتے ہیں، اور ان کو اس کا احساس و شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ اپنے لئے کس قدر ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہیں اور یہی خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۳۹۔سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب دعا صحیح موقع پر اور صحیح طریقے سے ہو تو حضرت واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کس قدر عظمت شان کے ساتھ اس کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے کہ حضرت زکریا کو نماز کی حالت ہی میں اس کی قبولیت کے شرف سے آگاہ فرما دیا گیا۔ اور وہ بھی اس بے مثال طریقے سے کہ اس بچے کے نام اور اس کی امتیازی صفات سے بھی آگاہ فرمایا دیا گیا۔ اور نام بھی وہ تجویز فرمایا گیا جو اس کے لئے حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کا آئینہ دار ہے۔ کیونکہ یحیی کے معنی ہوتے ہیں جو زندہ رہے۔ جیسا کہ عربی کا شاعر کہتا ہے وَسَمَّیْتُہ یَحْییٰ لِیَحْیًایعنی میں نے اپنے بیٹے کا نام یحییٰ اس لئے رکھا کہ وہ زندہ رہے، سو حضرت زکریا کو بشارت و خوشخبری سنائی گئی کہ آپ کو ایک ایسے عظیم الشان بیٹے سے سرفراز فرمایا جائے گا جو زندہ رہے گا، یعنی وہ ایسی عظیم الشان اور پاکیزہ زندگی گزارے گا کہ اپنے باپ اور اٰل یعقوب کے علم و فضل اور ان کی عظیم الشان اور پاکیزہ روایات کا امین و پاسدار ہو گا، سو آنجناب کو مسرتوں پر مسرتوں سے نوازا گیا، والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وہو العزیز الوہاب

۴۱۔ یعنی ہر وقت اور ہر حال میں اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول اور اس سے سرفراز و سرشار رہنا۔ کہ یہی اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، اور اسی میں خود انسان کا اپنا بھلا ہے۔ کہ اس کی یاد دلشاد ہی اصل میں انسان کی زندگی اور اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل و ضامن اور حقیقی فوز و فلاح کی شاہ کلید ہے۔ سو اس ارشادِ ربانی میں بڑے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں مثلاً یہ کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں، اور نہ مختار کل، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے کیونکہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو نہ حضرت زکریا کو خود اپنے لئے بیٹے کی اس طرح دعا و درخواست کرنے کی ضرورت ہوتی۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹے کی خوشخبری ملنے کے بعد اس کے لئے کسی نشانی کے مقرر کئے جانے کی کوئی ضرورت ہوتی، اور مزید یہ کہ اس میں حضرت زکریا کے لئے جو نشانی قدرت کی طرف سے مقرر فرمائی گئی وہ بھی عظیم الشان تھی کہ آپ تین دن تک صحت و سلامتی میں ہونے کے باوجود کسی سے بات نہیں کر سکیں گے، سوائے اشاروں کنایوں کے البتہ اپنے رب کا ذکر اور اس کی تسبیح کرنے کی اہلیت بدستور موجود اور برقرار رہیگی۔ سو اس سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور اس کے ذکر و یاد کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ آنجناب کو اس موقع پر اسی بات کی ہدایت فرمائی گئی اور اسی کا انتظام فرمایا گیا کہ آپ کسی سے دنیا کی کوئی بات تو نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اپنے رب کی تسبیح و تحمید کی اہلیت و صلاحیت برابر موجود و برقرار رہے گی۔ تاکہ اس طرح آپ سارا وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی تسبیح و تقدیس میں لگا سکیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ اس سے یہ اطمینان بھی ہو گیا کہ یہ نشانی اللہ ہی کی طرف سے ہے، اس لئے اس ہدایت و بشارت میں کسی وسوسہ انسانی اور دغدغہ شیطانی کا کوئی خوف و خدشہ نہیں ہو سکتا۔ والحمد للہ جل وعلا۔

۴۴۔سو یہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و حقانیت کا ایک واضح اور کھلا ثبوت ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ماضی کی ان قوموں اور ان کے ان حالات کے جاننے کا کوئی ذریعہ و وسیلہ موجود نہیں تھا۔ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس موجود تھے۔ پھر ان کے ان حالات کے جاننے کا اور وہ بھی اس قدر باریک تفصیلات کے ساتھ جاننے کا اور کیا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ سوائے وحی خداوندی کے سو یہ اس بات کا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس کی وحی آتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ وحی کے ذریعے سناتے اور بتاتے ہیں ورنہ اس کے لئے دوسرا کوئی ذریعہ ممکن نہیں تھا، نیز وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ (آپ ان لوگوں کے پاس موجود نہیں تھے) کی تصریح سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہوتے جس طرح کہ کچھ اہل بدعت کا کہنا ماننا ہے۔ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی صفت اور اسی کی شان ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ الایۃ (الحدید۔۴) یعنی وہ تم لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں بھی ہوؤ گے، پس اس کی اس صفت میں کسی بھی اور کو شریک ماننا جائز نہیں۔ کہ ایسا کرنا شرک ہو گا جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے راہ حق و ہدایت پر مستقیم اور ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین، ویا اکرام الکرمین

۴۷۔ سو اس خالق کل اور مالک مطلق کا معاملہ اسباب و وسائل کا محتاج نہیں بلکہ اس کی شان کُنْ فَیَکُوْنَ کی شان ہے۔ وہ جو چاہتا ہے اور جیسا چاہتا ہے ویسا ہی ہو جاتا ہے، پس اس کا آپ کے یہاں اے مریم! بغیر کسی مسیس بشر کے بچہ پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ پس تم اس کی بشارت پر مطمئن ہو جاؤ۔ اور اس بارے کوئی تعجب نہیں کرو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۴۸۔ یہاں پر کتاب سے مراد یا تو کتابت ہے یعنی لکھنا یعنی اللہ تعالیٰ اس بچے کو لکھنا سکھائے گا۔ اور یا اس سے مراد جنس کتاب ہے، یعنی وہ اس کو آسمانی کتابوں کی تعلیم دیگا، (المحاسن۔ اور المراغی وغیرہ) بہر کہف یُعَلِّمُہ کے کلمات کریمہ سے اس کی تصریح فرما دی گئی کہ ان کو اللہ تعالیٰ سب کچھ خود سکھائے اور پڑھائے گا۔ سو پیغمبر کا علم براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں کبھی کسی سے نہیں پڑھتے۔

۴۹۔ یعنی ان کی بعثت و تشریف آوری صرف بنی اسرائیل کی طرف ہو گی۔ نہ کہ کسی اور قوم کی طرف سو ان کی بعثت و تشریف آوری خاص قوم اور خاص زمانے کے لئے تھی۔ نہ کہ سب قوموں کی طرف اور تمام زمانوں کے لئے پس ان کے نام لیوا جو بنی اسرائیل کے سوا دوسری قوموں کے لئے اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہیں وہ خود اپنے پیغمبر کی تعلیمات اور ان کی تصریحات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور اس پر مزید یہ کہ یہ لوگ دنیا کو دین حق سے روک کر ان کو اپنی محرف عیسائیت کے چال میں پھانسنے کی جس کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اس سے یہ دراصل خود اپنی ہلاکت و تباہی میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی شرکیات کی تعلیم و تبلیغ کے ذریعے یہ لوگ اپنے لئے جہنم کا سامان کر رہے ہیں جو کہ ظلم بالائے ظلم اور محرومی پر محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ پر جب وحی نازل ہوئی اس وقت ان کی عمر تیتیس سال تھی۔ اور وہ صرف تین برس تک ان لوگوں کے اندر موجود رہے، اس کے بعد ان کو آسمان کی طرف اٹھایا لیا گیا، (المراغی وغیرہ) سو عالمی بعثت صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے جو قیامت تک سب زمانوں اور تمام انسانوں کے لئے ہے، اور ساری دنیا کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے، ولحمد للہ۔

یعنی یہ معجزات جو قدرت کی طرف سے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے گئے ہیں یہ اس بات کا ثبوت اور اس کی نشانی ہیں کہ میں واقعۃً اللہ کا رسول اور اپنے دعوے میں سچا ہوں اگر تم لوگ ماننے والے ہو تو تمہارے لئے اب اس میں کسی حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی سو معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو پیغمبر کے ہاتھ پر ان کی تصدیق کے لئے ظاہر ہوتا ہے، اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ان معجزات کے ذکر میں بار بار بِاذْنِ اللّٰہ کی تصریح فرمائی کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اذن و حکم اور اسی کی مشیت و قدرت سے ہوا۔ میرا اس میں اپنا کوئی اختیار نہیں۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو۔ اور میری اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ یہی ان معجزات کا تقاضا ہے اور اسی میں تم لوگوں کا بھلا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،

۵۱۔  یعنی وہ سیدھا راستہ جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے اور جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والا واحد راستہ ہے، اور جس کا حاصل اور خلاصہ ہے کہ عبادت اور بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے لئے بجا لائی جائے کہ وہی معبود برحق اور سب کا رب ہے۔ اور وہ ہر شائبہ شرک سے پاک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۵۲۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر و انکار، اور بغض و عناد، ہی محسوس کیا، اور آپ نے دیکھا کہ یہ بدبخت لوگ ایمان و اطاعت کے بجائے الٹا آپ کے قتل اور ایذاء رسانی کے درپے ہو گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا معاون و مددگار ہو، انصار جمع ہے نصیر کی، جیسے اشراف جمع ہے شریف کی اور اس سے مراد ہے انتہائی ہمدرد مددگار، اور حواریوں جمع ہے حواری کی جس کے معنی ہوتے ہیں انتہائی مخلص اور خیر خواہ ساتھی۔ یہ حضرت عیسیٰ کے خاص ساتھیوں کا لقب اور وصف تھا۔ سو انہوں نے اپنے صدق و اخلاص کی بناء پر حضرت عیسیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم سچے دل سے ایمان لے آئے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں۔

۵۵۔ کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا جواب اور توڑ کسی سے کیا ممکن ہوتا، اس کا تو اگلے کو پتہ بھی نہیں چلتا، اور اس کو اس کا علم اور شعور و احساس ہی نہیں ہوتا، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ کے جال میں پھنس رہا ہے اسی لئے اس کو مکر کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے، کہ غافل انسان اس قادر مطلق کی گرفت و پکڑ سے بے فکر و لا پرواہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ آخرکار اس کو دھر لیا جاتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ (الفجر۔ ۱۴) یعنی یقیناً تمہارا رب گھات میں ہے۔ سو جس طرح گھات میں چھپے شخص کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا اور اگلا شخص غفلت و لاپرواہی میں چلا جا رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اچانک اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا باغی و نافرمان انسان اپنی غفلت و لاپرواہی میں پڑا مست و مگن ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اچانک اس کی گرفت و پکڑ میں آ کر رہتا ہے اور اس طور پر کہ پھر اس کے لئے چھٹکارے کی کوئی صورت ممکن نہیں رہتی، والعیاذُ باللہ العظیم۔

یعنی آپ کے دشمن جو آپ کے قتل کے درپے ہیں وہ اپنی اس کوشش اور منصوبہ بندی میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہم آپ کو بحفاظت ان سے بچا کر پورے کا پورا اپنے پاس لے آئیں گے، اور یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے، بلکہ الٹا یہی لوگ اپنی بدنیتی اور بدبختی کے نتیجے میں روا اور ذلیل و خوار ہوں گے، چنانچہ ایسے ہی ہوا، حضرت عیسیٰ کو تو اللہ تعالیٰ بحفاظت اٹھا لیا، اور آپ کے وہ دشمن ہمیشہ کے لئے رسوا اور ذلیل و خوار ہوئے، اس کی مزید تفصیلات ہماری بڑی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

کہ فیصلے اور جزاء و سزا کا دن وہی یوم الفصل ہے، جس میں جملہ اختلافات کا آخری اور عملی طور پر فیصلہ کر دیا جائے گا تب پوری طرح واضح ہو جائے گا کہ راہ حق و ہدایت پر کون تھا اور باطل و ضلال پر کون اور پھر اس کے مطابق ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل جائے گا۔ اس یوم فصل نے بہرحال آنا ہے اور تم سب کو اس میں بہرحال پیش ہونا ہے۔

۵۶۔  ایسا مددگار جو ان کو اس یوم عظیم کے عذاب سے بچا سکے اور ان کے کچھ کام آ سکے کیونکہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، جس کی نصرت و امداد اور رحمت و عنایت کام آ سکتی ہے اس سے انہوں نے تعلق قائم کیا نہیں ہو گا۔ اور جن مصنوعی اور خود ساختہ سہاروں پر انہوں نے تکیہ و آسرا کر رکھا تھا وہ سب بے حقیقت اور بے بنیاد تھے وہ سب ان سے اس روز کھو چکے ہوں گے۔ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَاکَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۔ والعیاذ باللہ العظیم، تب ان کے سامنے واضح ہو جائے گا کہ یہ لوگ کس قدر خسارے میں مبتلا تھے، مگر اس وقت ان کے لئے تلافی مَافات کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی، اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ، والعیاذ باللہ العظیم

۵۷۔ بلکہ ظالم لوگ اس کے یہاں مبغوض اور نہایت بُرے ہیں اور ایسے لوگوں نے اپنے ظلم کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے، اور اس کا آخری اور کامل ظہور قیامت کے یوم عظیم ہی میں ہو سکے گا۔ جو کہ عدل و انصاف کا دن ہو گا، کیونکہ یہ دنیا اپنی اصل اور طبیعت کے اعتبار سے دار الجزاء نہیں بلکہ دارالعمل اور دارالامتحان ہے اس میں ظالموں میں سے کچھ کو اپنے کئے کرائے کی کچھ سزا اگرچہ کبھی کبھار مل بھی جاتی ہے لیکن وہ پوری اور کامل سزا نہیں ہوتی بلکہ وہ کچھ ہی کے درجے میں ہوتی ہے، پوری اور کامل سزا ظالموں کو آخرت کے اس یوم عظیم ہی میں ملے گی اور اسی میں مل سکے گی۔ کہ اس یوم عظیم کا قیام ہی اس غرض کے لئے ہو گا، وہاں کوئی اپنے کئے کی پاداش سے نہیں بچ سکے گا، سو ظالموں نے اپنے ظلم و عدوان کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۵۹۔ سو اس سے نصاریٰ کے ایک مشرکانہ زعم فاسد کی بیخ کنی فرما دی گئی، کہ ان لوگوں کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ چونکہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لئے وہ خدا ہیں۔ نعوذُ باللہ من ذالک۔ سو اس کی تردید میں اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ حضرت عیسیٰ تو صرف باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے، مگر اس سے پہلے حضرت آدم کی پیدائش تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر ہوئی تھی۔ تو اگر اس کے باوجود وہ خدا نہیں ہو سکے۔ اور تم لوگوں سمیت کسی نے بھی ان کی خدائی کا دعوی نہیں کیا تو پھر حضرت عیسیٰ صرف باپ کے بغیر پیدا ہو جانے کے باعث خدا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ سو ان میں سے کسی میں بھی خدائی کا نہ کوئی شائبہ تھا نہ ہو سکتا تھا، بلکہ یہ دونوں قدرت خداوندی کے دو عظیم الشان نمونے اور مظہر تھے۔ جس طرح آدم کی تخلیق قدرت کے کلمہ کن سے ہوئی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ولادت بھی اس کے کلمہ کن سے ہوئی، پس یہ دونوں اس کے پاکیزہ بندے اور اس کی مخلوق تھے۔ الوہیت کا کوئی شائبہ بھی ان میں سے کسی میں نہیں تھا، اعلیٰ نبینا وعلیہما الصلوٰۃ السلام۔

۶۱۔ سو یہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کی آخری صورت ہوتی ہے جس کو مباہلہ کہا جاتا ہے کہ دونوں فریق باہم مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور وہ ہلاک و برباد ہو جائے۔ سو نصاریٰ نجران کے مقابلے میں جب ان کو آخری اور خدائی فیصلے کے طور پر مباہلے کی دعوت دی گئی تو وہ اس کے لئے تیار نہ ہوئے اور مارے خوف کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہ کر سکے۔ اور روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ مقابلے میں آ جاتے تو اللہ کا عذاب ان کو اسی وادی میں آ پکڑتا، والعیاذ باللہ

۶۴۔ سو یہ باہمی مصالحت اور صلح صفائی کے لئے ایک بڑا اہم اور معقول مصالحتی فارمولہ ہے جس کی بنیاد پر باہمی اختلافات کے خاتمے کے سلسلہ میں ہر موقع پر کام لیا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ باہمی اختلافات کے سلسلہ میں ان باتوں پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریقوں کے درمیان مسلم اور متفق علیہ ہوں۔ سو یہاں پر اس ضمن میں دو اہم اور بنیادی باتوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و یکتائی اور دوسری غیر اللہ کو رب بنانے کی ممانعت، مگر اہل کتاب یعنی نصاریٰ نے ان دونوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ سو انہوں نے طرح طرح سے شرک کا بھی ارتکاب کیا تھا۔ اور اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بھی بنایا تھا۔ والعیاذ باللہ، اس لئے یہاں پر انہی دو امور سے متعلق ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے۔ کہ اگر تم لوگ واقعی اختلاف مٹانا، اور اتفاق پیدا کرنا چاہتے ہو آؤ ہم ان بنیادی نقاط پر باہم اتفاق کر لیں، مگر کہاں اور کیونکر؟۔

یعنی اگر یہ لوگ اس واضح بات اور معقول دعوت کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو ان سے صاف کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو کہ ہم بہرحال اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں اور ہم اسی کے حضور جھکے ہوئے ہیں، ہم اس کے سوا اور کسی کی طرف نہیں جھکتے کہ معبود برحق اور نفع و نقصان سب کا مالک بہرحال وہی ہے اور تحلیل و تحریم کا سب اختیار اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ سو اس میں شرک اور مشرکوں سے اظہار براءت و بیزاری کا درس ہے، کہ ایسے لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ ہم تو بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کے فرمانبردار اور اسی کے حضور سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ پس تم لوگ گواہ رہو کہ ہم نے پیغامِ حق و ہدایت پوری وضاحت کے ساتھ تمہیں سنا دیا۔ اب کل قیامت کے روز خداوند قدوس کے حضور ساری ذمہ داری تم ہی لوگوں پر ہو گی۔ ہم اپنا فرض اداء کر چکے، والحمد للہ

۶۵۔ اور تم لوگوں کو اتنی موٹی اور اس قدر واضح بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب تورات اور انجیل حضرت ابراہیم کے ایک زمانہ دراز کے بعد نازل ہوئیں۔ اور یہودیت اور نصرانیت ان سے صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ تو پھر حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی آخر کس طرح ہو سکتے تھے؟ اور تم لوگ ان کے بارے میں کیوں اور کس طرح جھگڑتے ہو؟ کہ تم میں سے کوئی ان کو یہودی کہتا ہے اور کوئی نصرانی، آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا؟ والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو اس سے ان لوگوں کے دلوں پر دستک دی گئی ہے کہ یہ عقل سے کام لیں، اور راہِ حق و ہدایت کو اپنا کر اپنے بھلے کا سامان کریں، اور اس طرح اپنے ہولناک انجام سے بچ جائیں۔

۶۷۔ سو حضرت ابراہیم کی اصل اور حقیقی پوزیشن یہ تھی، اور یہ ہے کہ وہ صرف مسلمان تھے اور ہر طرف سے کٹ کر صرف ایک اللہ کے ہو گئے تھے۔ پس وہ نہ یہودی تھے۔ نہ نصرانی اور نہ ہی ان کا مشرکوں سے کوئی لگاؤ تھا۔ وہ ایسی تمام نسبتوں سے بری اور اعلیٰ و بالا تھے، پس یہود و نصاریٰ اور مشرکین میں سے کسی کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں، علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔

۶۸۔ سو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا صحیح طریقہ ایمان و اخلاص ہے، اور ایسے ہی مومنین مخلصین کو وہ اپنی تائید و نصرت اور حمایت و امداد سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے اور ایمان و اخلاص کا یہی راستہ حضرت ابراہیم کا راستہ تھا، اور ہے سو ان کے سچے پیروکار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اس کے بعد اب ان کے راستے پر قائم، اور ان کے سچے پیروکار یہ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ ایمان لائے کہ یہی لوگ توحید والے اور صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں جو کہ حنیفیت اور ملت ابراہیمی کی اصل روح ہے۔ پس تم لوگ اگر ابراہیمی بننا چاہتے ہو تو ان کے طریقے پر چلو، اور انکے راستے کو اپناؤ، کہ یہی راہ صحت و سلامتی اور فوز و فلاح کی راہ ہے، ورنہ خسارہ ہی خسارہ، اور دھوکہ ہی دھوکہ ہے اور محض زبانی کلامی دعووں سے کچھ نہیں بنتا۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۷۰۔  سو تم جانتے ہو کہ یہ سب آیتیں اور نشانیاں اللہ کی طرف سے ہیں اور ان سے حق اور صدق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے، اور تم جانتے ہو کہ یہ پیغمبر وہی پیغمبر ہیں، اور یہ شریعت وہی شریعت ہے، جن کا ذکر تمہاری کتابوں میں آیا ہے۔ اور تم لوگ یہ بھی جانتے ہو کہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کتنا بڑا جرم ہے۔ اس سب کے باوجود تم لوگوں کی یہ روش، اور راہ حق و ہدایت سے تمہارا یہ گربزو فرار، اور اس سے تمہارا یہ اعراض و روگردانی کس قدر سنگین جرم ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟

۷۱۔ سو تم لوگ جانتے ہو کہ حق یہ ہے اور باطل یہ اور یہ کہ حق دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور باطل ہلاکت و تباہی کا باعث اور تم لوگ یہ بھی جانتے ہو کہ حق کو باطل سے خلط ملط کرنا کس قدر سنگین اور کتنا ہولناک جرم ہے۔ مگر اس سب کے باوجود تم اس سنگین اور ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہو۔ سو تم لوگ کس قدر محروم القسمت، اور کتنے بدبخت ہو۔ جو ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہو؟ اور دائمی ہلاکت و تباہی کی راہ کو اپناتے ہو؟ والعیاذ باللہ العظیم

۷۳۔ یعنی جب تم لوگ صبح کو اسلام میں داخل ہو کر شام کو اس سے پھر جاؤ گے۔ تو عام لوگ اس سے یہی سمجھیں اور کہیں گے کہ یہ لوگ جب اہل کتاب اور اہل علم ہونے کے باوجود صبح اسلام میں داخل ہوئے اور شام کو اس سے پھر گئے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور یہ دین دین حق نہیں والعیاذ باللہ۔ ورنہ یہ لوگ اس قدر جلد اس سے کیوں پھر جاتے۔ آخر حق کو اپنانے کے بعد اس سے کون اور کیوں پھرتا ہے؟ سو یہ عام لوگوں کو راہ حق و ہدایت سے پھیرنے اور ان کو نورِ حق و ہدایت سے محروم کرنے کے لئے ایک خوفناک یہودی سازش تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اور ان کے واسطے سے ان کی امت کو ان بدبختوں کے اس خفیہ منصوبے سے آگہی بخش دی، تاکہ کمزور اور سادہ لوح عوام ان کے اس جال میں نہ پھنس جائیں، اور تاکہ ان بدبختوں کی خباثت سب کے سامنے واضح ہو جائے، اور ان کو اپنے اس خبیث منصوبے پر عمل کرنے کی ہمت نہ ہو سو اس سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کلام کسی بشر کا کلام نہیں، بلکہ یہ اس رب العالمین کا کلام ہے جو لوگوں کے بواطن و خفایا کو بھی پوری طرح جانتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۴۔ سو فضل و کرم سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور اس کے فضل و کرم کی تقسیم اور اس کی بخشش و عطاء کا معاملہ بھی اسی کی اور صرف اسی کی مشیت و مرضی پر مبنی ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کون کس لائق ہے۔ اور کس کو کس سے نوازا جائے۔ سو اپنی اسی حکمت اور مشیت کی بناء پر اس نے شرف نبوت و رسالت کو پہلے بنی اسرائیل میں رکھا تھا، اور اب اس شرف سے بنو اسماعیل کو سرفراز فرما دیا۔ کہ بنی اسرائیل نے اپنے عمل و کردار سے ثابت کر دیا کہ وہ اب اس امانت کے اہل نہیں رہے اس لئے اب اس نے ان کو اس شرف سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا۔ کہ ناشکری اور ناراضگی کا نتیجہ و انجام یہی ہوتا ہے والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۷۵۔ روایات میں وارد ہے کہ کچھ لوگوں نے اسلام سے پہلے یہود کے ہاتھ کچھ مال بیچا۔ پھر اسلام لانے کے بعد جب انہوں نے ان یہود سے اپنے اس مال کی قیمت کا مطالبہ کیا۔ تو انہوں نے جواب میں ان سے کہا کہ ہمارے ذمے نہ تمہارا کوئی مال ہے اور نہ کسی طرح کا کوئی حق کیونکہ تم لوگوں نے اپنے اس دین کو چھوڑ دیا جس پر تم لوگ اس سے پہلے تھے اور ہماری کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ جو لوگ ہمارے دین کو چھوڑ دیں ان ان کا ہم پر کوئی حق نہیں۔ سو ان کے اس دعوے کی تردید و تغلیط میں اور ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ (المراغی وغیرہ) سو اللہ تعالیٰ نے نہ ایسے فرمایا اور نہ ایسے فرما سکتا ہے کہ وہاں کا معاملہ کسی قوم قبیلے کا نہیں بلکہ ہر انسان اپنے ایمان و عمل اور کامل عدل و انصاف پر مبنی ہے، اس لئے اس کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرنا افتراءِ محض ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۷۶۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں کامیابی اور سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا مدار کسی قوم قبیلے یا نسل و نسب جیسے کسی غیر اختیار امر پر نہیں۔ بلکہ وہاں پر سعادت و سرخروئی کا مدار و انحصار صدق و اخلاص ایمان و عقیدہ اور تقویٰ و پرہیزگاری پر ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اور کہیں کا بھی ہو۔ پس جو تقویٰ و پرہیزگاری سے سرفراز و سرشار ہو گا وہی اس کے یہاں کامیاب و با مراد اور اس کا محبوب ہو گا وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔ و ہو الہادی الی سواء السبیل۔

۷۷۔ اور اتنا اور اس قدر دردناک و ہولناک عذاب کہ اس جہاں میں اس کا تصور اور احاطہ و ادراک بھی کسی کے لئے ممکن نہیں، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے عہد اور اس کی قسموں کے بدلے میں دنیا ئے دُوں کا حقیر اور گھٹیا مال اپنانا۔ اور حق فروشی کے جرم کا ارتکاب کرنا، کتنا ہولناک اور کس قدر سنگین جرم ہے۔ کہ ایسے لوگوں کے بارے میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ نہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ ہو گا۔ نہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے روز نظر رحمت فرمائے گا اور نہ ہی وہ ان کو پاک کریگا۔ اور ان کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے، اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین۔

۷۸۔ اور اس طرح یہ لوگ اپنی بدبختی اپنے خبث باطن کی بناء پر اپنی ان محرف باتوں کو جو یہ اپنی زبانوں کو اینٹھ اور مروڑ کر بناتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ تم لوگ یہ سمجھو کہ ان کا یہ کلام محرف، منزل من اللہ ہے۔ حالانکہ وہ منزل من اللہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ ان کا اپنا محرف اور خود ساختہ کلام ہوتا ہے۔ جس کو یہ لوگ، اس قدر بے خوفی اور لاپرواہی سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور ان کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس طرح یہ لوگ کتنے بڑے ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، سو ان کی اسی ذہنیت اور خبث باطنی کا ایک نمونہ اور مظہر ان کی یہ شرارت بھی تھی کہ جب یہ لوگ اللہ کے رسول سے ملتے تو یہ سلام کے موقع پر السلام علیک کے بجائے السَّامُ علیک کہتے، جس کے معنی موت کے آتے ہیں یعنی تم پر موت ہو، اور اس طرح یہ لوگ اپنی بد باطنی کی سیاہی کو اور پکا اور مزید گہرا کرتے، والعیاذُ باللہ العظیم

۷۹۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب نجران کے یہود و نصاریٰ نے ابو رافع القرظی کو اپنا نمائندہ اور وفد بنا کر رسول اللہ کے پاس بھیجا تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی طرح پوجا کریں جس طرح کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ بن مریم کی پوجا کرتے ہیں؟ اور اہل نجران کے ایک نصرانی شخص نے بھی کہا کہ آپ یہی چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پوجا کریں، تو ان سب کے جواب میں اس اہم اور بنیادی حقیقت کا اعلان فرمایا گیا کہ کسی بشر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز فرمائے تو پھر اس کے بعد وہ لوگوں سے کہے کہ تم میرے بندے بن جاؤ، اللہ کے سوا۔ بلکہ وہ تو ان سے یہی کہے گا کہ تم لوگ اللہ والے، اور اسی کے بندے بنو۔ کہ یہی بات حق اور صدق ہے اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، کہ عبادت و بندگی اللہ تعالیٰ ہی کی کی جائے کہ معبود برحق بہرحال وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، البتہ اس کی عبادت بندگی کا لازمی تقاضا اس کے رسول کی اطاعت مطلقہ ہے کہ اس کے بغیر اس کی عبادت و بندگی سے سرفرازی ممکن نہیں، بہر کیف اس آیت کریمہ سے ایسے تمام سوالات اور اعتراضات کا صاف اور واضح جواب دے دیا گیا (ابن کثیر اور المراغی وغیرہ)

۸۰۔ استفہام یہاں پر ظاہر ہے کہ انکار اور تعجب کے لئے ہے یعنی ایسے نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کتاب نبوت اور حکمت سے نوازے، اور اس کے بعد وہ لوگوں سے کہے کہ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر اس کے فرشتوں اور نبیوں کو رب قرار دے دو۔ اور ان کی پوجا و پرستش کرنے لگو، کہ ایسا کرنا تو کفر ہے تو پھر اللہ کے رسول اللہ کا انتخاب اور اس کا چناؤ ہونے کے بعد اس طرح کے کفر کا حکم آخر کس طرح دے سکتے ہیں؟ جبکہ پیغمبر کی تو بعثت اور تشریف آوری کا اصل مقصد اور نصب العین ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو خدا سے ملائے۔ اور دوسروں کی بندگی سے چھڑا کر ان کو خدا کے آگے جھکائے۔ کہ یہی وہ حق ہے جو عقل سلیم اور فطرتِ مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

۸۱۔ کیونکہ تمام انبیاء و رسل اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے ہیں اور ان سب کی بعثت و تشریف آوری کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے، یعنی دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید و وحدانیت اور اس کی عبادت و بندگی کی دعوت اور اس کا درس دینا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیائے کرام سے یہ عہد و اقرار لیا کہ جب بھی تمہارے پاس کوئی ایسا رسول آئے جو تمہاری کتاب و شریعت کی تصدیق کرتا ہو، تو تم اس پر ضرور ایمان لانا، اور اس کی مدد کرنا، سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دین حق باہمی بغض و عداوت کا باعث نہیں ہوتا بلکہ وہ باہمی تعاون و تناصر کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے۔ سو اہل کتاب کا حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عداوت و نفرت کا رویہ تقاضائے دین کے خلاف ہے۔ کیونکہ دین حق کی تعلیمات مقدسہ کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہر نبی برحق پر ایمان لایا جائے، اور ان کی نصرت و امداد کی جائے۔

۸۳۔ سو یہ لوگ چاہیں یا نہ چاہیں ان سب کا رجوع بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ آج اس دنیا میں بھی سب معاملات کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہوتا ہے، کہ اس کائنات میں جو بھی کچھ ہوتا ہے سب اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ اور کل قیامت کے اس یوم عظیم میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آئے گا، اس میں بھی جو کچھ ہو گا اسی کی مشیت قدرت سے ہو گا، پس سب کچھ اسی قادر مطلق سبحانہ و تعالیٰ کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، یہاں بھی، اور وہاں بھی، سو اس ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا کہ اسلام اس پوری کائنات کا دین ہے۔ پس جو لوگ اپنے ارادہ و اختیار اور صدق و اخلاص سے اپنے اس خالق و مالک کے حضور جھک جائیں گے کائنات ساری ان کی ہمنوا اور ان کے لئے سازگار و موافق ہو جائی گی جس کے نتیجے میں ایسے لوگوں کو خوشگوار اور پُرسکون پاکیزہ زندگی نصیب ہو گی، وباللہ التوفیق جبکہ اس کے برعکس اپنے اس خالق و مالک سے اعراض و روگردانی برتنے والے گویا کہ اس کائنات پوری سے متصادم اور اس سے ٹکرا رہے ہیں اس لئے ان کی زندگی کٹھن اور تلخ ہو گی۔ ان کے پاس اگرچہ دنیاوی مال و دولت سب کچھ ہو گا لیکن وہ سکون قلب کی دولت سے محروم اور اندرونی عذاب میں مبتلا ہوں گے، والعیاذ باللہ العظیم

۸۴۔ کہ معبود برحق بہرحال وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور اس کے بھیجے ہوئے سب رسول سچے اور برحق تھے، اور ہیں، ہم کسی طرح کی تفریق و استثناء کے بغیر ان سب ہی پر ایمان رکھتے۔ اور ان کو حق جانتے ہیں۔ اور ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی کفر سمجھتے ہیں اور یہی راہ حق و صواب اور تقاضائے عقل و نقل ہے۔ و الحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین

۸۵۔ اس لئے کہ دین حق صرف اسلام ہے جو کہ حضرت حق جلَّ مَجْدَہ، کا پسندیدہ، اور اس پوری کائنات کا دین ہے اور جو سراسر حق و صدق ہے، اور جس کا حاصل و خلاصہ ہے اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے آگے ڈال دینا۔ اور اپنی مرضیات و خواہشات کو کچل کر اس کی رضا و خوشنودی کے تابع ہو جانا۔ اور دین حق یہی اور صرف یہی ہے۔ جو کہ تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، تو پھر اس دین کے سوا کسی اور دین کے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ پس غلط کہتے اور سمجھتے ہیں وہ لوگ جن کا کہنا ہے کہ سب ہی دین ٹھیک ہیں کہ سب ہی نیکی کی دعوت دیتے ہیں، سو ایسا نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، اور ایسا کہنا اور ماننا سراسر غلط اور حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ سب دین ٹھیک نہیں اور نہ ہو سکتے ہیں، بلکہ ٹھیک دین صرف ایک ہی ہے۔ یعنی اسلام جو اس کائنات کے خالق و مالک کا پسندیدہ، فطرت کے تقاضوں کا عکاس و آئینہ دار، اور پوری کائنات کا دین ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کے یہاں کبھی اور کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ یہاں پر اس کی تصریح فرمائی گئی کہ جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو اپنائے گا وہ اس سے کبھی قبول نہیں کیا جائیگا، اور ایسا شخص آخرت میں قطعی طور پر خسارہ اٹھانے والوں سے ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

سو ایسے لوگ جو اسلام کے سوا دوسرے طرح طرح کے خود ساختہ دینوں کو اپنی خواہشات و مرضیات کے مطابق اپنائے ہوئے ہیں، وہ اگرچہ آج بھی خسارے اور ہلاکت میں ہیں لیکن دنیا کے اس دارالامتحان میں آج چونکہ حقائق پر پردے پڑے ہوئے ہیں جو کہ تقاضا ہے ابتلاء و آزمائش کا اس لئے ایسے لوگوں کا خسارہ آج ظاہر نہیں ہو رہا۔ اور ایسے لوگ اپنے خسارے کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن کل قیامت کے اس یوم فصل و تمیز میں جو کہ کشف حقائق، اور ظہور نتائج کا دن ہو گا، وہاں چونکہ سب پردے اٹھا دیئے جائیں گے۔ اور جملہ حقائق اپنی اصل شکل میں سامنے آ جائیں گے۔ اس لئے اس وقت ان لوگوں کا خسارہ سب کے سامنے واضح ہو جائے گا۔ اور اس طور پر کہ اس کے انکار کی کسی کے لئے بھی کوئی گنجائش نہیں ہو گی، سو اس وقت ایسے لوگوں کی یاس و حسرت اور ان کی حرمان نصیبی کا کوئی کنارہ اور ٹھکانا نہیں ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال

۹۱۔ یعنی کوئی ایسا مددگار جو ان کو اس دردناک عذاب سے چھڑا اور بچا سکے یا اس میں کسی طرح کی کوئی کمی کرا سکے کیونکہ یہ سب کچھ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے کہ نصرت و امداد سب اسی کی طرف سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بلکہ دنیا میں تو پھر بھی اسباب و وسائل کے پردے حائل ہیں۔ لیکن کل قیامت کے اس یوم مشاہدہ و ظہور میں اسباب و وسائل کے یہ پردے بھی ہوا ہو چکے ہوں گے۔ اور معاملہ سب کا سب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا۔ اور حَصْر و قَصْر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہ، (الانفطار۔۱۹) اور اس خالق و مالک سے ایسے لوگوں نے کوئی لُو چونکہ سرے سے لگائی ہی نہیں تھی کہ اس کی طرف سے ان کی کسی طرح کی کوئی مدد کی جاتی۔ اور جن خود ساختہ سہاروں پر انہوں نے از خود تکیہ کر رکھا تھا ان کی سرے سے کوئی حقیقت اور حیثیت تھی ہی نہیں، کہ ان کی طرف سے کسی طرح کی مدد کا کوئی امکان ہوتا۔ سو ایسے بدبختوں کے لئے اس روز کوئی بھی حامی اور مددگار نہیں ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم بکل

۹۲۔ سو جب تم لوگ اپنے اس خالق و مالک کی دی بخشی، طرح طرح کی ان عظیم الشان نعمتوں سے خود مستفید ہوتے ہو۔ اور دن و رات اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو، تو اس کا طبعی تقاضا بھی یہی ہے کہ تم لوگ اس کے نام پر اور اس کی رضا کے لئے اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو۔ اور اپنی رضا و خوشی سے خرچ کرو۔ کہ عقل سلیم اور طبع مستقیم کا تقاضا بھی یہی ہے اور حضرت حق جلَّ مَجْدَہ، کی عظمت شان اور اس کے بے پناہ انعام و احسان کا حق بھی یہی ہے اور خود تمہارا اپنا بھلا بھی اسی میں ہے۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید

سو وہ جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے کہ اس کی راہ میں کون کتنا خرچ کرتا ہے، اور کس نیت اور ارادے سے خرچ کرتا ہے اور کب اور کس حال میں خرچ کرتا ہے۔ سو جب وہ ملک دَیان جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے جو کہ بدلہ دینے والا ہے تو پھر تم لوگوں کو کس چیز کی فکر و پرواہ؟ پس تم اس کے نام پر اور اس کی رضا کے لئے دئیے اور خرچ کئے جاؤ۔ اور اس کی راہ میں جو بھی کچھ تم لوگ خرچ کرو گے وہ بہرحال محفوظ رہے گا، اور کبھی ضائع نہیں جائے گا، بلکہ اس کا صلہ و بدلہ اور اجر و ثواب تم لوگوں کو ملے گا، اور بہرحال اور بہتر شکل میں ملے گا، پس تم اس کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کئے جاؤ جتنا تم سے ہو سکے اور جس طرح بھی ہو سکے کہ دینے بخشنے، اور اپنی آخرت کے لئے جمع کرنے اور جوڑنے کا طریقہ اور اس کا موقع یہی ہے، اور اس کی فرصت اسی دنیا کی یہ حیات فانیہ ہی ہے۔ اسی لئے صحیح اور مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ۔ یعنی تم لوگ دوزخ کی آگ سے بچنے کی فکر و کوشش کرو اگرچہ کھجور کے دانے کی ایک قاش ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔ یعنی جتنا اور جس قدر تم سے ہو سکے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید۔ وبکل حالٍ من الاحوال۔

۹۳۔  اور جب تم لوگ تورات سے اپنے اس دعوے کا ثبوت نہیں پیش کر سکتے، اور یقیناً اور ہرگز نہیں پیش کر سکتے، تو پھر تم لوگ بہرحال، اور صاف و صریح طور پر اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہو۔ پس تم باز آ جاؤ اپنے اس جھوٹ سے خود اپنے بھلے کیلئے، اور قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت مستعار تمہارے ہاتھ سے نکل جائے،

۹۵۔ پس یہود و نصاریٰ اور مشرکین تینوں کے تینوں حضرت ابراہیم کی طرف اپنی نسبت اور اس بارے میں اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ یہ سب ہی لوگ طرح طرح کی شرکیات میں ملوث ہیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم ان سب سے پاک اور بری تھے۔ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، تو پھر ان کا ان سے انتساب کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ

۹۷۔ سو استطاعت رکھنے والے ہر شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ اور استطاعت میں بدنی اور مالی دونوں ہی قسم کی استطاعت داخل ہے۔ یعنی جو جسمانی طاقت بھی رکھتا ہو۔ اور مالی استطاعت بھی۔ اس پر حج بیت اللہ فرض ہے۔ اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس پر فرض نہیں اور یہی تقاضائے عقل و نقل ہے۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

 سو وہ مالک الملک پوری کائنات سے اور کائنات کی ہر چیز سے اور ہر اعتبار سے غنی و بے نیاز ہے وہ جو بندوں سے اپنی عبادت و بندگی کا مطالبہ کرتا اور ان کو حکم دیتا ہے تو وہ محض اس لئے کہ تاکہ خود بندوں کا بھلا ہو۔ پس جو اس سے اعراض و رُوگردانی برتیں گے وہ یقیناً خود اپنا ہی نقصان کریں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین،

۹۸۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں کا جو راہ حق و صواب کو پوری طرح واضح کرنے والی ہیں۔ اور جن سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیغمبر وہی پیغمبر آخر الزمان ہیں جن سے متعلق پیشین گوئیاں تمہاری کتابوں کے اندر موجود تھیں، اور جن کی بناء پر تم لوگ اس نبی آخر الزمان کی بعثت و تشریف آوری کی انتظار میں تھے تو اب جبکہ وہ تشریف لا چکے ہیں تو پھر تم لوگ ان کا انکار کیوں کرتے ہو؟سو ملت ابراہیمی، بیت اللہ، اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کی بعثت و تشریف متعلق وہ نشانیاں جو خود تمہارے صحیفوں کے اندر موجود تھیں، ان کا مصداق تمہارے سامنے آ چکا، تو ایسے میں ان کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ کرنا ظلم بالائے ظلم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

سو تم لوگوں نے اپنے اس کفر و انکار اور اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے، کیونکہ تم جو کچھ کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پوری طرح دیکھتا ہے تمہارے ان تمام کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو۔ پس تم لوگ اپنے بارے میں دیکھ اور سوچ لو کہ تم اپنے لئے کس ہولناک انجام کا سامان کر رہے ہو؟ لہٰذا تم لوگ اپنی روش کی اصلاح کر لو۔ اور راہ حق و ہدایت کو اپنالو۔ قبل اس سے کہ اس کی فرصت اور اس کا موقع تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کف افسوس ملنا پڑے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۹۹۔ بلکہ تم لوگوں کے سب کرتُوت اس کے علم و آگہی میں ہیں اور تمہارے کئے کرائے کا سب ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے اور آخرکار تم لوگوں نے راہِ حق سے روکنے اور اس میں کجی اور ٹیڑھ تلاش کرنے کے ان سنگین جرائم کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بھگتنا ہے پس تم لوگ اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھ اور سوچ لو۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تم لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا اور کف افسوس ملنا پڑے۔ اور اس طور پر کہ پھر اس کے تدارک و تلافی کی کوئی صورت تمہارے لئے ممکن نہ رہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۰۰۔ اور اس طرح تم لوگ ایک برابر ہو جاؤ کہ جس طرح نور حق و ہدایت سے یہ لوگ محروم ہیں۔ اسی طرح تم بھی محروم ہو جاؤ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں اس طرح تصریح فرمائی گئی وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَاءً الایۃ یعنی یہ لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم لوگ بھی کافر ہو جاؤ جس طرح کہ یہ کافر ہیں جس کے نتیجے میں تم سب ایک برابر ہو جاؤ پس تم لوگ اے مسلمانو! ان دشمنوں کے شرور و فتن سے ہوشیار رہنا۔ اللہ ہمیشہ تمام شرور و فتن سے محفوظ، اور ہر طرح اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۰۳۔  حَبْلُ اللّٰہ، یعنی اللہ کی رسی سے مراد قرآن حکیم ہے جس کو حدیث رسول میں حَبْلُ اللّٰہ المتین، یعنی اللہ کی مضبوط رسی فرمایا گیا ہے۔ سو یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رسی ہے جو اس نے اپنے بندوں کو اپنی خاص رحمتوں سے نوازنے کے لئے آسمان سے زمین تک دراز فرمائی ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے اس کے بندے اس کی جناب اقدس و اعلیٰ تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اس کی اَبَدی رحمتوں اور عنایتوں سے سرفراز ہو سکیں پس تم سب لوگ اے مسلمانو! اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ کہ یہ بڑا ہی مضبوط سہارا یعنی عروۂ وثقیٰ ہے جو چھوٹ تو سکتا ہے والعیاذ باللہ، لیکن ٹوٹ نہیں سکتا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

سو تم دیکھو کہ یہ کتنا بڑا انعام و احسان تھا اس مالک کا تم پر۔ جس سے اس نے تم لوگوں کو نوازا، اور اپنی خاص رحمت و عنایت سے نوازا، کہ تمہارے اندر صدیوں سے چلی آنے والی دشمنیاں یکسر ختم ہو گئیں۔ اور تم لوگ باہم شیر و شکر ہو گئے۔ پس اس کا تقاضا لازمی اور بدیہی تقاضا یہ تھا، اور یہ ہے کہ تم لوگ دل و جان سے اپنے اس خالق و مالک کے حضور جھک جھک جاؤ۔ اور ہمیشہ جھکے ہی رہو، کہ اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید

یعنی اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان انعامات و احسانات کو یاد کر کے تم لوگ اپنے خالق و مالک کا شکر بجا لاؤ۔ اور دل و جان سے اس کے حضور جھک جھک جاؤ کہ اس نے تم لوگوں کو کتنے کتنے اور کیسے کیسے عظیم الشان انعامات سے نوازا۔ تم لوگ اپنے کفر و شرک کے باعث اور نور حق و ہدایت سے محرومی کے نتیجے میں، عین دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے۔ اور اس طور پر کہ جونہی گرے اور موت آئی سیدھے دوزخ میں گئے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول عظیم مبعوث فرما کر، اور تم لوگوں کو حق و ہدایت کی عظیم الشان روشنی سے نواز کر اس انتہائی ہولناک انجام سے بچا لیا۔ اور اس سے بچا کر اس نے تم کو جنت کی راہ سے سرفراز فرما دیا۔ جو کہ اس کا ایک عظیم الشان اور بے مثال و بے پایاں کرم ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ پس اس کا تقاضا ہے شکر نعمت، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم لوگ اس کے اتارے ہوئے دین حنیف کو صدق دل سے اپنانا، اس کی تعلیمات مقدسہ کو حرز جان بناؤ، اور ان کے مطابق زندگی گزارنا، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۰۴۔ سو دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت مسلمہ کی عظیم الشان اور اجتماعی ذمہ داریاں ہیں اور یہی اس کی حقیقی فوز و فلاح کی کفیل اور ضامن صفات ہیں اور انہی سے انکی حقیقی عظمت وابستہ اور ان سے غفلت و لاپرواہی اجتماعی خسارے کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔

۱۰۶۔ سو کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں دلوں کی کیفیات لوگوں کے چہروں پر ظاہر ہو جائیں گی پس جو لوگ دنیا میں صدق دل سے ایمان لائے ہوں گے۔ ان کے ایمان و یقین کا نور اس روز ان کے چہروں پر ظاہر ہو گا جس سے ان کے جہرے چمکتے دمکتے ہشاش بشاش اور خوش وخرم ہوں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ (عبس ۳٨۔۳٩) اور اس کے برعکس جن لوگوں کے دلوں کے اندر کفر و باطل کے اندھیرے رہے ہوں گے۔ اس روز ان کے باطن کی وہ سیاہی ان کے چہروں پر چھا رہی ہو گی۔ جس سے ان کے چہرے سیاہ اور بدحال ہوں گے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا عَبَرَۃٌ تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ (عبس۴٠۔۴۱) سو اصل فکر اس یوم عظیم کی کرنے کی ضرورت ہے؟ جو کہ فصل و تمیز اور فیصلے اور جزاء کا دن ہو گا۔ کہ اصل کامیابی وہ ہی کامیابی ہو گی۔ اور اصل ناکامی وہی ناکامی۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں راہ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، اور ہر قسم کے شرور و فتن سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے، آمین ثم آمین

۱۰۹۔ کہ اس سب کا خالق و مالک بھی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے۔ پس مخلوق میں سے جس کسی کو اس دنیا میں جو بھی کچھ ملتا ہے، وہ سب اسی کی طرف سے ہوتا ہے، اور اسی کی عطاء و بخشش سے ملتا ہے۔ اگرچہ وہ اسباب و وسائل کے توسط سے ملتا ہے، مگر وہ سب دیا بخشا بہرحال اسی وحدہٗ لاشریک کا ہوتا ہے۔ لیکن اسباب کے بغیر اور مافوق الاسباب طور پر اس کے سوا اور کسی کو بھی اس کے کسی بھی حصے میں اور کسی بھی درجے میں مالک یا حاکم و متصرف ماننا شرک ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۱۰۔ کہ اس کا فائدہ خود انہی کو پہنچتا ہے، دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہان میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ سو ان لوگوں نے اس سے منہ موڑ کر خود اپنا ہی نقصان کیا۔ کہ ایمان و یقین کی دولت سے محرومی، سب سے بڑی محرومی ہے، کیونکہ یہ محرومی انسان کو دنیا و آخرت دونوں کی سعادت و سرخروئی سے محروم کر کے دارین کی ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں ڈال دینے والی محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۱۱۲۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حدود سے تجاوز کرنے اور اپنے اس خالق و مالک کی ہدایات و تعلیمات اور اس کے اوامر و ارشادات کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ یہ اس میں بڑھتے بڑھتے کفر تک پہنچ گئے۔ اور اس میں بڑھتے بڑھتے یہ لوگ قتل انبیاء کے سب سے سنگین اور انتہائی ہولناک جرم کے ارتکاب تک جا پہنچے۔ اور اس سب کے نتیجے میں ان پر ذلت و رسوائی اور خست وپستی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ حضرات انبیاء کرام کی نسل سے تعلق رکھنے اور ان کی اولاد و اَحْفاد ہونے کے باوجود ذلت و رسوائی کی انتہاء کو پہنچ کر رہے اور نارِ جہنم کے مستحق بن کر رہے، اسی لئے کہا جاتا ہے، اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْر، یعنی یہ کہ گناہوں پر اصرار انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے آمین ثم آمین۔

۱۱۳۔ سو یہ قرآن حکیم کے عدل و انصاف کا ایک نمونہ و مظہر ہے کہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ کفر و انکار اور ظلم و زیادتی کی اس روش اور اپنی سیاہ کاریوں میں ایک برابر نہیں۔ بلکہ ان میں سے کچھ ایسے اچھے اور نیک طینت لوگ بھی ہیں جو اپنے اندر ایسی اور ایسی عمدہ صفات و خصال رکھتے ہیں اور ایسے ہی خوش نصیبوں کو بعد میں راہ حق کو اپنانے اور ایمان لانے کی توفیق و سعادت نصیب ہوئی۔ اور وہ مہالک سے بچ گئے۔ سو اس سے اہل کتاب کے اس گروہ قلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے جو ان کی اس اکثریت سے مستثنیٰ تھا جس کا حال اوپر والی آیت کریمہ میں ذکر و بیان فرمایا گیا ہے۔ سو یہ گروہ قلیل ان لوگوں کا تھا جو اپنے عہد پر قائم، شب بیدار و تہجد گزار، اور اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے، اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت کرنے والے تھے، سو یہی سعادت مند، اور فائز المرام لوگ تھے اور انہی کو آگے چل کر نور حق و ہدایت کو اپنانے اور اس سے سرفراز ہونے کی سعادت و توفیق نصیب ہوئی، سو انسان کی اصل قدر و قیمت اور اس کی عزت و عظمت اس کے اپنے عمل و کردار سے ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید

کہ ایسے نیک طینت اور خوش نصیب لوگ اس اہم اور بنیادی حقیقت کا احساس و ادراک رکھتے ہیں کہ معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اور سجدہ ریزی کا حقدار وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور اس کی عبادت و بندگی، اور اسی کے حضور سجدہ ریزی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ، اور واحد ذریعہ و وسیلہ ہے، اور اس کے حصول کا موقع حیات دنیا کی اسی فرصت محدود و مختصر میں ہے، اس لئے ایسے حضرات دن اور رات کی گھڑیوں میں اپنے اس خالق و مالک کے حضور قیام کرتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اور سجدہ یہاں پر نماز سے کنایہ ہے، کیونکہ نماز کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مظہر یہی رکن عظیم ہے۔

۱۱۴۔ سو یہ اپنے رب کی خاص عنایات سے سرفراز ہوں گے کہ اس کے حضور قبولیت اور اس کی عنایات سے سرفرازی کے لئے جن بنیادی اور خاص اوصاف و خصال کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے ان سے یہ خوش نصیب لوگ بہرہ ور ہیں کہ یہ صدق دل سے اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین بھی رکھتے ہیں جو کہ اصل الاصول، اور سعادت دارین سے سرفرازی کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ و وسیلہ ہے اور یہ لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر بھی کاربند و عامل ہیں، اور یہ خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے کے جذبے سے بھی سرشار ہیں، اور یہی وہ بنیادی صفات اور اہم خصال ہیں، جو انسان کو اپنے خالق و مالک کی عنایات کا اہل بناتی ہیں، سو اللہ تعالیٰ کے یہاں سرفرازی کی اساس و بنیاد فلاں ابن فلاں نہیں، بلکہ اپنا ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار ہے، وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید

۱۱۵۔ سو اس سے کسی کے ظاہر و باطن کی کوئی کیفیت بھی مخفی و مستور نہیں رہ سکتی۔ وہ اسی کے مطابق ہر کسی کو اس کے اس صلہ و بدلہ سے نوازے گا جس کا وہ اہل و مستحق ہو گا، سو اصل فکر و کوشش اسی کی ہونی چاہیے کہ اپنے اس خالق و مالک رب ذوالجلال و الاکرام کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح ہو، ظاہر اور اعمال کے لحاظ سے بھی، اور اپنے باطن اور نوایا و خبایا کے اعتبار سے بھی کہ وہاں پر صرف زبانی کلامی دعووں سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ صدق و اخلاص، عمل و کردار، اور صفات و خصال کی پونجی کی ضرورت ہو گی، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حال من الاحوال

۱۱۶۔ کیونکہ جو لوگ دولت ایمان و یقین سے محرومی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ والعیاذ باللہ۔ ان کا حق اور انجام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ دوزخ کی اس ہولناک آگ کے اندر جلتے رہیں اور یہی ہے سب بڑا خسارہ جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اس لئے ہمیشہ اس سے بچنے کی فکر و کوشش میں رہنا چاہیے، وباللہ التوفیق

۱۱۷۔  کہ ایسے لوگوں نے دولت ایمان و یقین کو اپنا کر اپنے آپ کو سعادت دارین سے سرفراز و بہرہ ور کرنے کے بجائے اس سے منہ موڑا، اور اپنے آپ کو ہاویہ جہنم کا مستحق بنا دیا۔ سو دین حق و ہدایت سے منہ موڑنا خود اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے۔ کہ اس کے نتیجے میں انسان دارین کی سعادت و سرخروئی سے محروم ہو کر ہمیشہ کے عذاب کا مستحق بن کر رہتا ہے، جو کہ ایسا خسارہ ہے جس کی اس دنیا کے بعد تلافی و تدارک کی بھی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی، والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۱۸۔ یعنی تمہاری عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اپنے ان دشمنوں سے ہوشیار اور محتاط رہو اور ان کے شرور و فتن سے بچنے کی سعی و کوشش کرو، اور تمہارے ان دشمنوں اور بد خواہوں کی نشانیاں ہم نے تمہیں بتا دی ہیں اور صاف طور پر اور کھول کر بتا دی ہیں۔ اب ان سے کام لینا تمہارا اپنا کام ہے۔ پس تم نے اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا راز داں نہیں بنانا۔ وہ تمہارے بارے میں اور تم لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے لیکن افسوس اور صد افسوس کہ قرآن حکیم کی اس صاف اور صریح ہدایت کے باوجود آج کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا راز داں بناتے ہیں اور بنائے ہوئے ہیں۔ اور یہاں تک کہ وہ انہی غیروں کے آلہ کار بن کر اپنوں کو نقصان اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں اور وہ دنیائے دُوں کے کچھ ٹکوں کی خاطر اور وقتی اور فانی مفادات کی غرض سے، اور ان کے بدلے میں ایمان فروشی اور اپنے لئے ذلت و رسوائی کا سامان کرنے میں مصروف ہیں جس سے ہر دل درد مند خون کے آنسو روتا ہے فالی اللّٰہ المشتکیٰ وہو المستعان۔ وعلیہ التکلان فی کل حین وّاٰن، جَلّ جَلَالُہ،۔

۱۱۹۔ سو ایسے لوگوں کے بغض و عناد کا حال لوگوں سے تو مخفی رہ سکتا ہے، اور مخفی رہ جاتا ہے لیکن ان کا یہ حال اس ذات اقدس و اعلیٰ سے آخر کیسے اور کیونکر مخفی رہ سکتا ہے جو دلوں کے بھیدوں کو جاننے والی ذات ہے؟ پس ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے۔ اور ایسوں کو دنیا میں جو ڈھیل ملتی ہے اس سے ان کو دھوکہ کھا کر مست و مگن نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بہرحال ایک مہلت اور ڈھیل ہے جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہے۔ پس عقل و نقل سب کا تقاضا یہی ہے کہ منافقت اور ظاہرداری سے کام لے کر لوگوں کو راضی کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنے اس خالق و مالک سے معاملہ صاف رکھنے کی کوشش کی جائے جو دلوں کے بھیدوں تک کو جاننے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۲۰۔سو ایسے لوگ نہ اس کے احاطہ علم سے باہر ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے دائرہ قدرت سے ہر ایک کا کیا کرایا اس کے دائرۂ علم و آگہی میں ہے ہر ایک کو بہرحال اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پانا ہے پس ہر کوئی اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لے کہ وہ کل کے اس یوم حساب کے لئے اور اپنے خالق و مالک کی رضا کے لئے کیا پونجی لے کر جا رہا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّ اتَّقُوا اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۱۲۲۔ سو علی اللہ کے جار مجرور کو یہاں پر مقدم ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے حَصْر وَ قَصْر کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے، یعنی اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو نہ کہ کسی اور پر کہ ان کے ایمان و یقین کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر بھروسہ رکھیں۔ کہ سب کا خالق و مالک وہی ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ لیکن افسوس کہ قرآنِ حکیم کی اس طرح کی واضح تعلیمات کے باوجود آج کے جاہل مسلمان کا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اِلاَّ مَاشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین، ویا اکرم الاکرمین

۱۲۳۔ اَذلَّۃ جمع ہے ذلیل کی، جس کے معنی آتے ہیں کمزور اور ناتواں کے، جیسا کہ حضرات اہلِ علم نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ اور حضرات صحابہ کرام اس وقت ایسے ہی کمزور و ناتواں تھے کہ ان کی تعداد بھی کم تھی، اور وہ سامان حرب و ضرب کے لحاظ سے بھی کمزور تھے جیسا کہ کتب سیرت و تاریخ سے واضح ہے مگر اس سب کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد اپنی قوت ایمان و یقین اور اپنی متاع صدق و اخلاص کی بنا پر دشمن کو ایسی عبرتناک شگست دی کہ اس کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا۔ حالانکہ وہ ان کے مقابلے میں تعداد کے اعتبار سے بھی کہیں زیادہ تھے اور سامان حرب و ضرب کے لحاظ سے ان سے بھی کہیں بڑھ کر تھے۔ سو اصل مدد اللہ ہی کی مدد ہے اور اصل قوت ایمان و یقین ہی کی قوت ہے وہ ہے تو سب کچھ ہے وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں، سو لفظ ذلیل کا اطلاق عربی زبان و لغت میں اس معنی میں نہیں ہوتا۔ جس میں یہ ہمارے معاشرے و محاورے میں اور ہمارے عرف میں بولا اور سمجھا جاتا ہے پس برصغیر کے اہل بدعت نے اس لفظ کے استعمال کی بناء پر جو بعض بزرگوں کی عبارات پر جو اعتراض کیا، اور اس وجہ سے انہوں نے ان کے خلاف جو طوفان بدتمیزی بپا کیا تو وہ سب ان لوگوں کی اپنی جہالت کا ثبوت ہے جس سے انہوں نے ایسے اللہ والوں کے خلاف زبان طعن و تشنیع دراز کر کے خود اپنی عاقبت کو خراب کیا۔ والعیاذ باللہ، حالانکہ یہی لفظ یہاں پر حضرات صحابہ کرام کے بارے میں استعمال فرمایا گیا ہے۔ اور ان بدری صحابہ کرام کے بارے میں جو کہ خاص عزت و عظمت اور مرتبہ و مقام کے مالک تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین

۱۲۴۔ سو مُنْزَلِیْنَ کے اس لفظ سے واضح فرما دیا گیا کہ اہل بدر کی مدد کے لئے بھیجے جانے والے یہ فرشتے عام زمینی فرشتے نہیں ہوں گے۔ بلکہ یہ فرشتوں کی وہ خاص فوج ہو گی جس کو اہل بدر کی امداد کے لئے بطور خاص آسمان سے اتارا جائے گا۔ والحمد للہ جل وعلا۔

۱۲۶۔ سو مدد اور نصرت و امداد اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ کہ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور اس قادر مطلق کی مدد و امداد اور نصرت و حمایت سلسلہ اسباب و وسائل کی محتاج اور اس کی پابند نہیں لیکن انسان چونکہ طبعی طور پر سلسلہ اسباب کا عادی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی تائید و نصرت اور ان کے اطمینان و تقویت کے لئے فرشتوں کی اس مدد کا انتظام فرمایا۔ ورنہ مدد دراصل اللہ ہی کی مدد ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۲۸۔ سو ایسے ظالموں کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے ہے وہ اگر چاہے تو ان پر رجوع فرما کر ان کو ایمان لانے کی توفیق سے نواز دے۔ اور اگر چاہے تو ان کو عذاب دے دے (محاسن التاویل وغیرہ) اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ وہی وحدہٗ لاشریک جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے؟ اور کون کس لائق ہے؟ اس لئے وہ اپنی مشیئت اور حکمت کے مطابق اس بارے میں جو چاہے فیصلہ فرمائے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ وغیرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب کے بعض قبیلوں کے خلاف بددعا فرمانا شروع کر دیا۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آپ کو اس سے منع فرما دیا گیا (بخاری کتاب التفسیر) سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں، اور جیسا چاہیں کریں، جیسا کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ماننا ہے، بلکہ اختیار کلی اللہ تعالیٰ ہی کی صفت و شان ہے اور پیغمبر کا اختیار اسی کی مشیئت و رضا کے تابع ہے، جیسا کہ دوسری مختلف نصوص کریمہ کی طرح یہاں سے بھی واضح ہے والحمد للہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال

۱۳۰۔ یعنی ایسا سود جو کہ سود در سود کی شکل میں بڑھ چڑھ کر کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے کیونکہ ایسا کرنا زیادہ برا اور کہیں بڑھ کر ظلم ہے۔ سو یہ قید احترازی نہیں، بلکہ اس جرم و گناہ کی شناعت و قباحت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مسجد میں جھوٹ مت بولو۔ یا روزے کی حالت میں غیبت مت کرو۔ یا یہ کہ یتیم کا مال ظلم و زیادتی کے ساتھ مت کھاؤ وغیرہ وغیرہ، یعنی ایسی صورتوں میں گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے، والعیاذ باللہ، سو اس طرح کی حدود و قیود سے دراصل یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ایسے میں اس طرح کے گناہوں کی شناعت و قباحت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جرم و گناہ کہیں زیادہ سخت اور سنگین ہو جاتا ہے، کیونکہ سود خوری کا جرم ایسا سنگین جرم ہے کہ اس کے بارے میں صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ جان بوجھ کر سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی بدتر ہے تو پھر اَضْعَافًا مَّضَاعَفۃً یعنی بڑھتے چڑھتے سود کے جرم کی سنگینی کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۳۱۔ سو جنت سے سرفرازی کا مدار و انحصار کسی قوم قبیلے حسب و نسب یا رنگ و نسل وغیرہ جیسے خود ساختہ فروق و امتیازات پر نہیں، جیسا کہ یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے کئی بر خود غلط لوگوں نے کیا اور سمجھا۔ اور اس پندار غلط کی بناء پر ایسے لوگوں کی زندگی کا سارا راستہ ہی غلط ہو گیا۔ اور وہ اپنی حقیقی منزل ہی سے محروم اور بے بہرہ ہو گئے۔ سو ایسے فوارق و امتیازات کو مدارِ فضیلت اور معیار شرف قرار دینا، اور محض ان کی بناء پر کسی کو جنت کا حقدار مان لینا عقل ونقل سب کے تقاضوں کے خلاف ہے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز انسان کے اپنے بس اور اختیار میں نہیں، اور جو چیز انسان کے اپنے بس اور اختیار میں نہ ہو۔ وہ نہ معیار فضیلت ہوتی ہے نہ ہو سکتی ہے بلکہ فضیلت و فوقیت، اور جنت سے سرفرازی کا مدار و انحصار تقوی و پرہیزگاری پر ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری محض ظاہری رسوم و طقوم کا نام نہیں بلکہ وہ عبارت ہے ایمان و اخلاص باطن کے صدق و صفا اور ان اعلیٰ اور عمدہ صفات و خصال سے جو انسان کی زندگی میں ایک ایسا پاکیزہ اور مقدس انقلاب بپا کر دیتی ہیں جس سے وہ ایک پاکیزہ اور فرشتہ صفت انسان بن جاتا ہے اور اس کا تعلق اپنے خالق و مالک سے بھی صحیح ہو جاتا ہے اور اس کی مخلوق سے بھی خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ کوئی سی زبان بولتا ہو اور کسی بھی قوم قبیلے اور رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو اور سَارِعُوْا کے اس امر و ارشاد سے اہل ایمان کو یہ عظیم الشان اور انقلاب آفریں درس دیا گیا ہے کہ تمہارے لئے مسابقے اور مقابلے کا اصل میدان یہ ہے کہ تم لوگ اس جنت کے حصول اور اس سے سرفرازی کے لئے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جس کی شان یہ اور یہ ہے پس تم لوگ اپنے اس میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ نہ کہ دنیائے فانی کے اس میدان میں لگو جس میں ابنائے دنیا لگے ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنے مالوں کو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرنے اور اس کے بینکوں میں جمع کرنے کے بجائے، اپنی تجوریوں اور دنیا کے بنکوں میں جمع کرتے ہیں۔ اور وہ اپنے مالوں کو خلق خدا کی نفع رسانی میں صرف کرنے کے بجائے سود در سود کے کاروبار میں لگاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے مالوں کو اپنی اور دوسروں کی نفع رسائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے الٹا ان کو خلق خدا کے خون چوسنے اور اپنی عاقبت کو برباد کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں مگر ان کو اس کا کوئی احساس و شعور ہی نہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۳۶۔ سو خلود و دوام کی یہ نعمت جو اہل جنت کو وہاں نصیب ہو گی۔ ایک خاص اور انکی ایک انفرادی نعمت ہو گی' جس سے ان کو وہاں پر نوازا جائے گا۔ اس دنیا میں یہ نہ کسی کو نصیب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ دنیا خود فانی اور اس کی ہر نعمت بھی فانی ہے۔ جبکہ وہاں کی نعمتیں بھی اَبدی اور غیر فانی ہونگی اور ان نعمتوں سے مستفید و فیضیاب ہونے والے بھی وہاں پر حیات اَبَدی سے سرشار و سرفراز ہونگے، اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم اور رحمت و عنایت سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

کہ وہ خوش نصیب اپنے عمل و کردار کی پونجی کے نتیجے میں جنت کی ان ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہونگے سو جنت سے سرفرازی کسی قوم قبیلے یا حسب و نسب وغیرہ کی بناء نہیں ہو گی۔ جیسا کہ بہت سے بر خود غلط اور مغرور لوگوں نے سمجھا ہے۔ بلکہ وہ ان خوش نصیبوں کے اپنے ایمان و عقیدہ صدق و اخلاص اور عمل و کردار کا نتیجہ و ثمرہ ہو گا۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ایسے صدق شعاروں کو اپنے خاص انعام و اکرام کے طور پر جنت کی ان بے مثل اور سدا بہار نعمتوں سے نوازے گا۔ اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم اور اپنی شان کریمی و رحیمی سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۱۳۷۔ سو حق کو جھٹلانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی مشیئت و حکمت کے مطابق ڈھیل تو ملی جتنی ڈھیل کہ ان کو ملنا مقدر تھی لیکن آخرکار وہ لوگ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے پس تم لوگ اے دورِ حاضر کے باشندو! اللہ کی عبرتوں بھری اس زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ کہ تم سے پہلے کے وہ لوگ اور ماضی کی وہ قومیں اپنے اس ہولناک انجام سے کیسے، اور کیوں دو چار ہوئیں؟ اور اس میں تم لوگوں کے لئے کیا کیا درس ہائے عبرت و بصیرت ہیں؟ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سیر و سیاحت سے اصل مقصود درس عبرت لینا ہے۔ تاکہ اس طرح فساد و بگاڑ کی اصلاح کی جاس کے۔ اور اس کے ہولناک انجام سے بچا جاس کے۔ لیکن افسوس کہ آج کے غافل انسان کی سیر و سیاحت سے عبرت پذیری کا یہی اصل مقصد غائب اور عنقاء ہے۔ اور اس کی سیر و سیاحت الٹا اس کی غفلت میں اضافے کا باعث بنتی ہے، الا ماشاء اللہ، و العیاذ باللہ العظیم۔

۱۳۹۔ سبحان اللہ شرط و جزاء پر مشتمل اس مختصر سے جملے میں کتنی عظیم الشان اور جلیل القدر حقیقت کو بیان فرما دیا گیا۔ اور کس قدر واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان فرما دیا گیا۔ کہ غلبہ بہرحال اور صرف تمہارا ہی ہے اے مسلمانو! کہ حق پر بہرحال تم ہی ہو۔ شرط صرف اس قدر ہے کہ تم لوگ واقعی تم ایماندار ہو۔ اور ایمان نام ہے اُس نور حق اور یقین صادق کا جو انسان کے قلب و باطن میں جاگزیں ہوتا ہے جس کے اثر و نتیجہ کا اظہار اس کے اعضاء و جوارح سے ہوتا ہے اور اس کا ثبوت اس کے عمل وکردار سے ملتا ہے سو بیماریوں کی بیماری اور محرومیوں کی محرومی یہ ہے کہ آج کا مسلمان مسلمان نہیں ہے وہ ایمان و اسلام کے دعوے تو بیشک کرتا ہے اور بلند و بانگ دعوے کرتا ہے لیکن وہ ایمان کی حقیقت اور اس کی اصل دولت سے عاری ہے الا ماشاء اللّٰہ، فالی اللّٰہ المشتکیٰ وہو المستعان و علیہ التکلان۔ فی کل حین وان۔ بہر کیف اس میں اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ نہ تم لوگ ہمت ہارو۔ اور نہ ہی تم غمگین ہو کہ غلبہ بہرحال تمہارا ہی ہے اگر تم لوگ واقعی ایماندار ہو، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۱۴۳۔ سو جب تم لوگ اس سے پہلے خود موت کی تمنا کیا کرتے تھے تاکہ اس طرح تم مرتبہ شہادت سے سرفراز ہو سکو۔ تو اب وہ موقع تمہارے سامنے آگیا ہے اور تم نے خود اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے تو پھر اب تم لوگ اس سے کنی کیوں کتراتے ہو؟ اور اس سے اعراض و روگردانی برتتے ہو؟ تم کو تو آگے بڑھ کر اس کے لئے لبیک کہنا چاہیے۔ کہ تمہیں اپنی تمنا پوری کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ سو اس سے ان لوگوں کی ہمت بندھانا، اور ان کی غلط فہمیوں کو زائل کرنا مقصود ہے جو اُحُد کی شکست کی وجہ سے بد دل ہو گئے تھے، والحمد للہ

۱۴۴۔ حَصْر یہاں پر اضافی ہے یعنی ان کے اندر کوئی خدائی صفت نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے خود یا ان کے بارے میں کسی اور نے اس طرح کا کوئی دعوی ہی کبھی کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انسان اور بشر ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت کے شرف عظیم سے نوازا تھا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اور حَصْر وقَصْر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل۔ ٩۳) یعنی ان سے کہو کہ پاک ہے میرا رب میں تو بس ایک بشر ہوں جس کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور موت کے مرحلے سے ہر بشر نے بہرحال گزرنا ہے تو پھر تم لوگوں کو ان کی موت کی خبر سے اس قدر اچنبھا آخر کیوں ہو رہا ہے؟ روایات میں وارد ہے کہ معرکہ احد کے دوران جب ابلیس لعین نے یہ افواہ اڑا دی اِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم قتل ہو گئے تو اس سے مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، اور ان کے حواس باختہ ہو گئے جو کہ ایک طبعی امر تھا تو اس سے متعلق ان آیات کریمات میں تبصرہ فرمایا گیا ہے، کہ محمد تو بہرحال ایک بشر ہی ہیں، اور ہر بشر پر موت نے بہرحال آنا ہے تو کیا اگر ان کی موت واقع ہو جائے یا ان کو قتل کر دیا جائے تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ سو جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ والعیاذ باللہ، پس اس سے یہ عظیم الشان درس دیا گیا کہ شخصیات بہرحال فانی ہیں، خواہ وہ کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو۔ اصل اور باقی رہنے والی چیز حق ہے پس اصل فکر اسی کی اور صرف اسی کی ہونی چاہئے۔

۱۴۵۔ سو جب موت نے اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اور اپنے طے شدہ وقت سے پہلے کبھی آنا نہیں، اور بہرحال نہیں آنا، اور اپنے مقررہ وقت پر اس نے کبھی ٹلنا نہیں، تو پھر موت سے ڈرنے اور خوف کھانے کا کیا فائدہ؟ پس اصل سعی اور کوشش اس امر کی ہونی چاہیے کہ میں ہمیشہ راہ حق ہی پر رہوں تاکہ جب بھی موت آئے راہ حق و صواب ہی پر آئے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ اللہ ہمیشہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے، آمین

سو اصل دار و مدار انسان کی اپنی نیت اور اس کے ارادے پر ہے۔ وہ جیسی نیت رکھے گا ویسا ہی پھل پائے گا۔ پس جس کسی نے صرف دنیا ہی کی نیت کی تو اس کو دنیا سے جو ملنا ہوا مل جائے گا۔ لیکن آخرت میں اس کے لئے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ سو ایسے شخص نے اپنے لئے خود بڑے خسارے کا سودا کیا۔ والعیاذ باللہ۔ اور جس نے آخرت کو اپنا اصل مقصد بنایا اس کو دنیا بھی جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا، ملے گی اور اصل بدلہ اس کو آخرت ہی میں ملے گا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، وہو الہادی الی سواء السبیل۔

۱۴۷۔ سو یہ ہے اسوۂ حسنہ اور سچا نمونہ حضرات انبیاء کرام اور ان اللہ والوں کا جو کہ حضرات انبیاء و رسل کے طریقے پر چلتے ہیں کہ یہ سب حضرات معرکہ حق و باطل میں صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور دشمنوں کے مقابلے میں غلبے اور فتح و نصرت کی مدد اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دارین کی سعادت و سرخروئی سے مشرف و سرفراز ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ آج کے جاہل مسلمان کا طریقہ حضرات انبیاء و رسل اور اللہ والوں کے اس طریقے کے برعکس یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی کسی عاجز اور فانی مخلوق ہی کو پکارتا ہے۔ کہیں وہ کہتا ہے یا علی مدد۔ اور کہیں یا حسین۔ اور کہیں یا پیر دستگیر وغیرہ وغیرہ۔ فالی اللّٰہ المشتکی وہو المستعان بِکُلِّ حالٍ

۱۴۸۔ جنکی نیتیں اور ارادے بھی درست ہوتے ہیں اور ان کے اعمال اور اخلاق و کردار بھی بہتر اور عمدہ ہوتے ہیں، جس کا کامل درجہ وہ ہے جس کے بارے میں حدیث جبرائیل میں ارشاد فرمایا گیا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَراہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ۔ یعنی احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی ایسے کرو۔ جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے، تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین

۱۵۰۔ سو جب تمہارا ناصر و مددگار، اور کارساز و کارفرما اور حاجت روا و مشکل کشا، اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے تو تمہارا دلی تعلق اور بھروسہ بھی ہمیشہ اسی وحدہٗ لاشریک پر ہونا چاہیے، اور تم کو ہمیشہ اسی کی رضا و خوشنودی کو سب پر مقدم رکھنا چاہیے کہ اس کی رضا و خوشنودی اگر نصیب ہو گئی۔ تو کام بن گیا اور سب کچھ ہو گیا۔ ورنہ کچھ بھی نہیں، و العیاذُ باللہ العظیم۔

۱۵۲۔ سو اللہ تعالیٰ نے احد کے اس معرکہ حق و باطل میں مسلمانوں کو فتح و نصرت سے نواز دیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے باہم اختلاف کیا اور بعض کی غلطی اور کوتاہی اور امر رسول کی خلاف ورزی کی بناء پر جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، اور مسلمانوں کو زک اٹھانی پڑی اور ان کو بڑا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پچاس آدمیوں کے ایک دستے کو عقبی جانب کے ایک مورچے پر متعین و مامور فرمایا تھا، کہ کہیں دشمن ادھر سے حملہ آور نہ ہو جائے، اور ان لوگوں کو تاکید فرمائی تھی کہ جب تک ہم تم سے نہ کہیں تم لوگوں نے وہاں سے نہیں ہٹنا۔ اور جنگ ختم ہو گئی ہے اور مورچہ نہیں چھوڑنا، سو اس کے بعد جب مسلمانوں کو میدان معرکہ میں فتح نصیب ہو گئی تو ان لوگوں میں سے کچھ نے کہا کہ اب ہمیں بھی یہاں سے چلے جانا چاہیے کہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گئی، اس کے جواب میں دوسرے حضرات نے ان سے کہا کہ ہمیں چونکہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب تک ہم تم سے نہ کہیں تم نے وہاں سے واپس نہیں آنا، اس لئے ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے، تو اس پر پہلی رائے والوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب تک جنگ جاری رہے۔ اور اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور مسلمان فتح سے سرفراز ہو چکے ہیں تو اب ہمارے یہاں رہنے کا کوئی مقصد نہیں سو اس کے بعد اکثر حضرات وہ مورچہ چھوڑ کر چلے آئے کوئی دس بارہ آدمی وہاں باقی رہ گئے، تو اس سے فائدہ اٹھا کر دشمن نے ادھر سے حملہ کر دیا، جس سے مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ اور ان کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ سو یہاں پر اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

۱۵۳۔ ایک غم اس بات کا کہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اور تم لوگ جیتی ہوئی بازی اپنی کوتاہی کی بناء پر ہار گئے۔ دوسرا غم اس بات کا کتنے ہی جلیل القدر صحابہ کرام شہید ہو گئے۔ اور کتنے زخمی اور ان سب سے بڑا غم وہ جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی المناک خبر، اور شیطان کی پھیلائی ہوئی افواہ سے تم لوگوں لاحق ہُوَا، وغیرہ، اور غَمًّا بِغمٍّ کے ارشاد کا ایک معنی و مطلب ہے۔ جبکہ اس کے بارے میں دوسرا قول و احتمال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ اس نے تم کو غم کے بدلے میں غم دیا۔ یعنی تم نے اللہ کے رسول کی نافرمانی کر کے ان کو غم دیا۔ اگرچہ وہ نافرمانی قصد و ارادہ سے اور دانستہ نہیں تھی۔ تو اس کے بدلے اور نتیجے میں تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غم پر غم برداشت کرنے پڑے، حضرات مترجمین کرام میں سے کچھ نے اس کا ترجمہ پہلے قول و احتمال کے مطابق کیا ہے، اور کچھ نے دوسرے کے اعتبار سے اور یہ دونوں ہی مطلب صحیح اور دل کو لگنے والے ہیں، یہاں پر ایک لمحہ فکریہ بھی سامنے آتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام کو ان کی ایک غلطی کے نتیجے میں اس طرح غم پر غم اٹھانے پڑے۔ حالانکہ ان کی وہ غلطی قصد و ارادہ سے اور جان بوجھ کر نہیں تھی۔ بلکہ وہ محض ایک اجتہادی نوعیت کی غلطی تھی۔ تو پھر کیا خیال ہے آپ کا اس امت مسلمہ کے بارے میں جس کی آج کوئی کل بھی سیدھی نہیں؟ اور جس کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اعلانیہ اور کھلم کھلا مخالفت کی جا رہی ہے اور ہر میدان میں کی جا رہی ہے۔ اور دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کی جاری ہے۔ شرک ہو رہا ہے اور کھلے عام ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ غیر اللہ کے لئے سجدے ہو رہے ہیں نذریں مانی جا رہی ہیں طواف کئے جا رہے ہیں غیر اللہ کو حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے پوجا پکارا جا رہا ہے۔ طرح طرح کی فرضی وہمی، اور من گھڑت سرکاریں بنائی اور پوجی جا رہی ہیں درختوں، پتھروں، جبوں، قبوں اور ننگ دھڑنگ ملنگوں وغیرہ کی جگہ جگہ اور طرح طرح سے پوجا پاٹ کی جا رہی ہے۔ شرک و بدعت کی ترویج کے لئے نت نئے طریقوں سے پروپیگنڈے کئے جا رہے۔ اور کھلے شرک کو دین اور دین کا تقاضا بتایا جا رہا ہے اور اس کے لئے صاف و صریح نصوص تک میں کتر بیونت اور تحریف سے کام لیا جا رہا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم اور عقائد و عبادات کے میدان سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو سود جو قطعی طور پر حرام ہے اور ایسا اور اس قدر کہ قرآن حکیم میں ایسے لوگوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے صاف و صریح طور پر جنگ کا اعلان کیا جاتا ہے مگر وہ اس سب کے باوجود کھایا، اور کھلایا جا رہا ہے، اور علی الاعلان کھایا اور کھلایا جا رہا ہے، اس کا کاروبار اور لین دین اعلانیہ اور کھلے بندوں کیا جا رہا ہے۔ جُوا کھیلا جا رہا ہے۔ شراب خانہ خراب پی جا رہی ہے، اور دھڑلے سے پی جاری ہے اور یہاں تک کہ حضرات علماء حقانیین کا قتل دن رات کیا جا رہا ہے۔ ارباب اقتدار غیروں کے آلہ کار اور ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بن کر اہل حق پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی سعی نامراد میں مشغول و منہمک ہیں۔ وغیرہ وغیرہ تو پھر اس امت کی بگڑی بنے تو کیسے اور کیونکر؟ اور اس کے حالات درست ہوں تو کس طرح؟ فالی اللّٰہ المشتکیٰ و ہو المستعان وعلیہ التکلان فی کُلِّ حِیْنٍ وَّاٰن۔

۱۵۴۔ اس لئے اس سے کسی کے دل کا حال نہ مخفی ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے، اور ظاہر و باطن کو ایک برابر جانتا ہے۔ لیکن اس کی سنت اور اس کا دستور یہ ہے کہ وہ ابتلاء و آزمائش کے ایسے مواقع لاتا ہے جن سے کھرا کھوٹا عملی طور پر واضح ہو کر سب کے سامنے آ جاتا ہے۔ اور اس طور پر کہ کسی شک شبہے کا کوئی موقع نہیں رہتا اور اس کے بعد کسی کے لئے کسی حیلے بہانے اور عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

۱۵۵۔ جس میں سے ایک گروہ ایمان والوں کا تھا۔ جو کہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا۔ اور جس کا مشن اور نصب العین یہ تھا، اور یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا دین اور اس کا کلمہ سربلند ہو۔ جیسا کہ حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ یعنی جو اس لئے لڑتا ہے کہ تاکہ اللہ کا دین اور اس کا کلمہ ہی اونچا اور سربلند رہے وہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس ان دونوں میں سے دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو کفر و باطل کا علمبردار تھا، اور جن کا لڑنا شیطان کی راہ میں تھا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کفر والے ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں پس تم لوگ (اے ایمان والو!) لڑو شیطان کے دوستوں سے بیشک شیطان کا داؤ بڑا کمزور ہے (النساء آیت ۷۵)

۱۵۶۔ تاکہ یہ لوگ اپنی اسی حسرت میں جلتے بھنتے رہیں سو یہ ایک نقد سزا ہوتی ہے جو نور ایمان و یقین سے محروم ایسے لوگوں کو برابر ملتی رہتی ہے، جبکہ مومن صادق ہر حال میں مطمئن رہتا ہے کہ اس کو یہ یقین اور اطمینان ہوتا ہے کہ زندگی و موت سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔ اور وہ راہ حق میں مارا بھی گیا تو بھی اس کے لئے کوئی نقصان نہیں، بلکہ اس صورت میں وہ شہادت سے سرفراز ہو گا، جو کہ اس کا اصل اور حقیقی نصب العین ہے۔ سوایمان سے سرفرازی کے بعد مومن صادق کے لئے ہر صورت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اس کے لئے ناکامی کسی بھی صورت میں نہیں۔ والحمد للہ جل وعلا۔

۱۵۷۔ کہ ان لوگوں کا دوختہ و اندوختہ اور جوڑا اور جمع کردہ سب کچھ یہیں اور اسی دنیا میں رہ جائے گا اس میں سے کچھ بھی ان کے ساتھ نہیں جائے گا۔ سوائے ان کی ان حسرتوں کے جو ان کے سینوں کے اندر ہونگی کہ وہی ان کے ساتھ جائیں گی، اور سوائے ان کی ان ذمہ داریوں کے جو ان کے ساتھ جائیں گی۔ اور جن کی جوابدہی ان کو وہاں کرنا ہو گی۔ اور وہاں پہنچ کر معلوم ہو گا کہ وہ سب کچھ ان کے لئے آتش دوزخ میں اضافے کا باعث ہو گا۔ جبکہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے والوں یا طبعی موت پاجانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص مغفرت اور بخشش بھی ہو گی۔ اور عظیم الشان رحمت بھی، جس کے سایہ لطف و عنایت میں وہ ہمیشہ کے لئے شاداں و فرحاں رہیں گے والحمد للہ جل وعلا۔ سو ایمان و یقین دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور ایسا کہ اس کے بعد مومن صادق کے لئے کسی بھی صورت میں محرومی نہیں۔ جبکہ اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، جیسا کہ مختلف نصوص کریمہ میں اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، سو اصل دولت ایمان و یقین ہی کی دولت ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۱۵۹۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تند خوئی اور سنگدلی کتنی بُری اور کس قدر نفرت انگیز خصلتیں ہیں۔ کہ ان کی بناء پر حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے پاکیزہ اور مقدس ہستی سے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی اس طرح چھٹ اور بکھر جاتے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر بالفرض یہ خصلتیں پائی جاتیں، حالانکہ آپ جیسی پاکیزہ اور مقدس ہستی نہ کوئی ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ تو پھر اور کسی کے کہنے ہی کیا، اس لئے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اپنی خاص رحمت و عنایت سے آنجناب کو ان کے لئے نرم خو بنا دیا۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام، وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، وہو الہادی الی سواء السبیل۔

۱۶۰۔ یہاں پر بھی کلمات حصر و تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو یعنی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اللہ ہی پر بھروسہ کرے۔ کہ سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اس لئے اسباب کے درجے میں انسان اسباب تو اختیار کرے، اور بیشک اختیار کرے، اور ضرور کرے، کہ یہ دنیا ہے ہی دارالاسباب اس میں جو کچھ ہوتا ہے بالعموم اسباب و وسائل کے پردوں کے پیچھے ہی سے ہوتا ہے لیکن قرآن حکیم کی اس طرح کی تصریحات سے واضح فرما دیا گیا کہ دل کا بھروسہ اسباب و وسائل پر نہیں، بلکہ خالق اسباب ہی پر ہونا چاہئے۔ کہ اسباب ووسائل اسی کی مشیت و مرضی کے تابع ہیں پس دل کا بھروسہ ہمیشہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر رکھا جائے کہ مسبب الاسباب وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۶۱۔ پس وہاں پر نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائیگی۔ اور نہ کسی پر کسی ناکردہ گناہ کا کوئی بوجھ ڈالا جائے گا۔ بلکہ ہر کسی کو اس کے اپنے کئے کرائے ہی کا صلہ بدلہ دیا جائیگا۔ اور پورا پورا اور بھرپور بدلہ دیا جائیگا۔ اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق دیا جائے گا، کہ وہ دن ہو گا ہی کمال عدل و انصاف کا دن پس ہر کوئی ہمیشہ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھے کہ کل کے اس یوم حساب کے لئے میں کیا کمائی کر کے لے جا رہا ہوں۔ اور وہاں میرا معاملہ کیسا رہیگا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۱۶۴۔ یعنی وہ عظیم الشان رسول خود انہی لوگوں کی جنس سے اور انسان اور بشر ہے، عربی، قرشی، اور ہاشمی ہے، کھانے پینے، بیوی بچے رکھنے والا، جو صحت و بیماری اور علاج معالجے وغیرہ کے سب بشری حوائج و ضروریات رکھتا ہے، تاکہ وہ ان تمام امور اور زندگی کے جملہ دوائر میں لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کر سکے۔ پس تم لوگ اس کے اسوۂ حسنہ کی اتباع و پیروی کر کے اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرو۔ کہ یہی اصل مقصود ہے، ورنہ فرض کرو کہ اگر وہ پیغمبر انسان اور بشر ہونے کے بجائے کوئی فرشتہ اور ایسی نوری مخلوق ہوتا جو کھانے پینے، بیوی بچوں، صحت و بیماری، اور علاج معالجے، وغیرہ جیسے حوائج بشریہ سے معریٰ اور لاتعلق ہوتا، تو پھر تم لوگ اس کی اتباع اور پیروی آخر کس طرح کرتے؟ سو پیغمبر کا انسان اور بشر ہونا قدرت کا ایک مستقل اور عظیم الشان انعام و احسان ہے جس سے اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ اسی لئے جگہ جگہ مِنْہُمْ، مِنْکُمْ اور مِنْ اَنْفُسِہِمْ کے کلمات کریمہ سے اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے۔ تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان کو سمجھیں اس کی قدر کریں۔ اور پیغمبر کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔

ایسے گمراہ کہ یہ ہر طرف سے اور ہر اعتبار سے تہ در تہ اندھیروں میں گھرے اور ڈوبے ہوئے تھے۔ نہ ان کو اپنے خالق و مالک کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات کا کچھ پتہ تھا، اور نہ ان کو اپنی زندگی کے اصل مقصد اور نصب العین کے بارے میں کچھ علم و آگہی تھی، نہ ان کو خود اپنی زندگی و موت اور آغاز و انجام کے بارے میں کچھ اتہ پتہ تھا، اور نہ دوسروں کے حقوق کے بارے میں کچھ علم و آگہی، نہ حلال و حرام کے بارے میں کچھ خبر اور نہ اپنے حقیقی نفع و نقصان کے بارے میں کچھ روشنی۔ بس حیوان، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ، اپنے جیسے انسانوں، بلکہ اس سے بھی نیچے گر کر مختلف قسم کے حیوانوں درختوں اور بے حقیقت و بے جان پتھروں تک کی پوجا میں لگے ہوئے، اور ان کو اپنی اس ناکامی و نامرادی اور ذلت و رسوائی اور اپنے ہولناک ضیاع و نقصان کا کوئی پاس و احساس ہی نہیں تھا۔ اور یہی حال نور حق و ہدایت سے محروم انسان کا آج بھی ہے۔ بلکہ آج تو وہ اپنی مادی ترقی کے زعم و گھمنڈ میں اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہاویہ جہنم میں گر رہا ہے۔ اور آج کے اس اندھے اور اوندھے انسان نے اپنی مادی ترقی اور مادی وسائل کے نتیجے میں اور ان کے زور پر وحشت و بربریت، اور ظلم و سفاکی، کے وہ وہ لرزہ خیز مظالم ڈھائے اور مسلسل و لگاتار ڈھائے جا رہا ہے۔ اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے ڈھا رہا ہے کہ دنیا بھر کے تمام و حشی اور درندے سب مل کر اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ بلکہ وہ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سو ایسے وحشی انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس رسول عظیم کے بھیجنے اور مبعوث فرمانے کا یہ عظیم الشان انعام و احسان فرمایا، تاکہ وہ ان کو تہ در تہ اندھیروں سے نکال کر حق و ہدایت کی روشنی میں لائے اور ان کو وحشت و درندگی بچا کر انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے ہمکنار کرے۔ اور ان کو دوزخ کی راہ سے موڑ کر جنت کے راستے پر ڈالے، سو یہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کا اپنے بندوں پر وہ عظیم الشان کرم و احسان ہے جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں، مگر اس کے باوجود یہ انسان کفور اس سے منہ موڑے ہوئے ہے اور یہ برابر ہاویہ جہنم کی طرف بڑھے چلا جا رہا ہے اور اس طور پر کہ اس کو اس کا شعور واحساس بھی نہیں کہ وہ اپنے لئے کس قدر ہولناک انجام کا سامان کر رہا ہے، الا ماشاء اللہ والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

۱۶۷۔ اس لئے یہ اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ اس کے یہاں سے ضرور پا کر رہیں گے دنیا والوں سے تو یہ اپنے حال کو چھپا سکتے ہیں اور چھپا لیتے ہیں، مگر اس خالق کل اور مالک مطلق سے کس طرح بچیں گے جو ان کے ظاہر و باطن کو ایک برابر جانتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہرحال میں اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین

۱۶۸۔ اور جب تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ اور کسی بھی طور پر نہیں کر سکتے۔ کہ موت کو اپنے وقت سے ٹالنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تو پھر تم لوگوں کی اس طرح کی کافرانہ اور منافقانہ باتوں کا کیا فائدہ؟ پس اصل کوشش موت سے ڈرنے اور اس سے بھاگنے کے لئے نہیں کرنی چاہئے۔ کہ ایسا کرنا بےسود و لاحاصل ہے۔ بلکہ اصل کوشش اس کے لئے کرنی چاہیے کہ میری موت جب بھی آئے راہ حق میں، اور خدائے پاک کی رضا کے لئے آئے۔ تاکہ ہمیں اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی نصیب ہو سکے۔ جو کہ اصل حقیقی اور سب سے بڑا مقصد ہے جس کے بعد انسان کے لئے بہرحال خیر ہی خیر ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۶۹۔ سو اس سے اس عظیم الشان حقیقت سے آگہی بخش دی گئی کہ شہادت، یعنی اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کر دینا، موت اور محرومی نہیں، کہ انسان اس سے ڈرے، اور بھاگے۔ بلکہ یہ تو ابدی اور حقیقی زندگی سے سرفرازی و بہرہ مندی کا ذریعہ ووسیلہ ہے۔ ایسی زندگی جو کہ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ و ارفع زندگی ہے پس شہادت فی سبیل اللہ کی آرزو و تمنا دراصل حیات اَبَدی سے سرفرازی و بہرہ مندی کی تمنا و آرزو ہے، اس لئے شہادت ہی مطلوب و مقصود مومن ہے نہ کہ مال و دولت اور سلطنت و کشور کشائی، کہ یہ سب کچھ فانی اور عارضی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۱۷۱۔ سو ایمان و یقین کی دولت سب سے بڑی اصل اور حقیقی دولت ہے جو کہ انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ ور کرنے والی واحد دولت ہے اور یہی وہ دولت ہے جس کے بعد انسان کے لئے کسی طرح کی کوئی محرومی اور ناکامی نہیں، پس اصل فکر و کوشش ہمیشہ اسی کے لئے اور اسی کے بارے میں ہونی چاہیے یعنی اس سے سرفرازی، اور اس کی حفاظت و بقاء کیلئے، بہر کیف اس ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا کہ ابنائے دنیا تو اپنی کوتاہ نظری اور بے بصیرتی کی بناء پر شہداء پر افسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ختم ہو گئی۔ لیکن ان شہداء کی خوش نصیبی اور فائز المرامی کا عالم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم سے خوش ہو رہے ہیں جس سے اس نے انکو نوازا ہے۔ اور وہ اپنے ان اخلاف کے بھی ان سے ملنے کے آرزو مند ہیں جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اگرچہ وہ ابھی تک ان سے ملے نہیں ہیں۔

۱۷۲۔ یہ دراصل اشارہ ہے غزوہ حمراء الاسد کی طرف جو کہ غزوہ احد کے متصل بعد پیش آیا۔ روایات کے مطابق معرکہ احد میں مسلمانوں کی عارضی شکست کے بعد جب کفار قریش مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹے تو کچھ ہی آگے جانے کے بعد ان کو اس بارے میں یہ خیال ہوا کہ ہمیں اس طرح واپس آنے کے بجائے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دینا چاہیے تھا سو اس کے لئے انہوں نے حمراء الاسد کے مقام پر جو کہ مدینہ منورہ سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر واقع تھا دوبارہ صف بندی کرنے اور حملہ آور ہونے کا پروگرام بنایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دشمن کے تعاقب کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس جنگ میں وہی لوگ شریک ہونگے جو کل احد کے معرکہ میں شریک تھے۔ حضرات صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس اعلان و ارشاد پر فوراً لبیک کہا اور وہ اس کے لئے تیار ہو گئے۔ حالانکہ وہ بھی تازہ زخم کھائے ہوئے تھے۔ ادھر جب دشمن کو مسلمانوں کے اس عزم و حوصلے کی اطلاع ملی، تو وہ مقابلے کی ہمت نہ کر سکا۔ اور اس نے بھاگنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی، تو حضرات صحابہ کرام اپنی قوت ایمانی اور اپنے صدق و اخلاص کی بناء پر جنگ کئے بغیر ہی عظیم الشان اجر و ثواب کے ساتھ اور فائز المرام ہو کر واپس لوٹے، سو اللہ اور اس کے رسول کے حکم و ارشاد پر لبیک کہنے ہی میں سعادت و سرفرازی ہے، اگرچہ حالات کتنے ہی سخت اور مشکل کیوں نہ ہوں، اور اسی صدق و اخلاص، اور اطاعت و اتباع کے نتیجے میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و امداد سے سرفراز و سرشار ہوتے ہیں، التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۱۷۵۔ سو ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اللہ ہی سے ڈرے جو کہ خالق و مالک ہے سب کا اور جس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہر چیز کے نفع و نقصان کی باگ ڈور ہے۔ ان آیاتِ کریمات میں دراصل اشارہ ہے غزوۂ بدر صغریٰ کی طرف، جس کا اعلان کفار قریش نے غزوۂ احد کے خاتمے کے موقع پر کیا تھا، کہ ہمارا آئندہ مقابلہ اگلے سال بدر کے مقام پر ہو گا۔ مسلمانوں نے ان کے اس چیلنج کو قبول کر لیا۔ لیکن اگلے سال جب مقابلے کا مقرر وقت قریب آیا تو کفار کو مقابلے کے لئے میدان بدر کی طرف نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ تو انہوں نے اپنی خفت کو چھپانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مسلمانوں کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے کے لئے ایک آدمی کو ان کے پاس بھیجا کہ تم جا کر ان سے کہو کہ دشمن نے تمہارے خلاف کارروائی کے لئے بڑی فوج اور طاقت جمع کر رکھی ہے۔ جس سے مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں، لہٰذا تم لوگوں کی خیر اسی میں ہے کہ تم مقابلے کے لئے نہ نکلو، ورنہ تمہارا حشر احد سے بھی بہت برا ہو گا۔ مطلب یہ تھا کہ اس طرح یہ لوگ مقابلے کے لئے نکلنے کی ہمت ہی نہ کر سکیں۔ تو الزام انہی پر رہے۔ اور ہماری بزدلی پر پردہ پڑا رہے۔ لیکن ان کے اس شخص کے ایسا کرنے پر ڈرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے مسلمانوں کی قوت ایمانی اور ان کے عزم ایقانی میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اور انہوں نے حَسْبُنَا اللّٰہ (کافی ہے ہمیں اللہ) کہتے ہوئے اپنے عزم جہاد کو اور پکا کر لیا۔ اور وہ وقت مقرر پر مقابلہ کے لئے میدان بدر میں پہنچ گئے، لیکن کفار نے اپنے اعلان کے مطابق مقابلے کے لئے نہ آنا تھا، نہ آئے مسلمانوں نے وہاں پر کئی دن قیام کیا۔ پھر تجارت کی، نفع کمایا، اور اللہ تعالیٰ کے اجر و ثواب اور اس کی رضا و خوشنودی کے ساتھ وہاں سے واپس لوٹے۔ سو ان آیات کریمات میں انہی عبرت انگیز واقعات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہاں پر اس شخص کو جو کہ کفار کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کرنے آیا تھا اس کو شیطان فرمایا گیا ہے سو وہ اپنی شکل اور اپنی اصل کے اعتبار سے اگرچہ انسان تھا لیکن کام چونکہ وہ شیطان کا کر رہا تھا اس لئے وہ انسانی شکل میں ہونے کے باوجود شیطان تھا، پس جو انسانی شکل میں ہونے کے باوجود شیطان کا کام کرتا ہے وہ دراصل شیطان ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ بظاہر انسانی شکل ہی میں ہو، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین

۱۷۶۔ یعنی ان لوگوں کے کفر و انکار کے نتیجے میں اور ان کا وہ عذاب ایسا بڑا اور اس قدر ہولناک ہو گا کہ اس کا تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں والعیاذُ باللہ، اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین

۱۷۸۔ جو کہ طبعی نتیجہ اور انجام ہو گا ان کے کفر و انکار کا کیونکہ ان لوگوں نے اپنے کبر و غرور کی بناء پر قبول حق سے انکار و اعراض کیا تھا اور یہ لوگ اپنے کفر و انکار پر اڑے رہے تھے، اس لئے ان کے اس تکبر کے نتیجے میں ان کو یہ رسوا کن عذاب (عذابٍ مُہِیْن) بھگتنا ہو گا، سو کافر اور منکر لوگوں کو جو ڈھیل مل رہی ہے یہ ان کے لئے کوئی خوشی اور بہتری کی بات نہیں، بلکہ ایسے لوگ دراصل اللہ کی گرفت میں ہیں۔ اور ان کو یہ ڈھیل اس لئے مل رہی ہے کہ یہ اپنے کفر و طغیان میں بڑھتے اور ترقی کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہیں اسلئے، یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے کافر لوگ کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ ڈھیل ان کے لئے کوئی بہتر چیز ہے، بلکہ ان کو یہ ڈھیل اس لئے دی جا رہی ہے کہ یہ گناہ میں بڑھتے جائیں۔ اور آخرکار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہیں والعیاذُ باللہ،

۱۸۰۔ کہ اس کا نتیجہ و انجام خود ان لوگوں کے حق میں بہت برا ہو گا آج تو ان لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ کہ آج حقائق پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن کل قیامت کے دن اس یوم مشاہدہ و ظہور میں جبکہ حقائق اپنی اصل شکل میں سب کے سامنے آ جائیں گے تو اس وقت ان کے سامنے واضح ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے لئے کس قدر ہولناک خسارے کا سامان کیا تھا۔ ان کا جوڑا اور جمع کردہ سب کچھ ان کے بخل کے نتیجے میں یہیں دنیا میں رہ جائے گا۔ اس سے گلچھرے دوسرے اڑائیں گے۔ لیکن اس کا حساب ان جمع کرنے والوں کو وہاں دینا ہو گا، اور اس کا بھگتنان ان کو بھگتنا پڑے گا، اور نہایت ہی ہولناک شکل میں بھگتنا پڑے گا جیسا کہ اس کا ایک نمونہ اور مظہر اس کے متصل بعد ذکر فرمایا جا رہا ہے، کہ وہ ایک نہایت ہی ہولناک اژدہے کی شکل میں ان کے گلے میں آکر لپٹ جائے گا، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی پوری تصریح اور تصویر پیش فرمائی گئی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو مال کے انسان کے لئے خیر بننے کی وہی اور صرف وہی صورت ہے جس کو دین حنیف نے فرمایا ہے کہ اس کو حلال ذرائع سے کمایا، اور حاصل کیا جائے اور صحیح مصارف میں اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے صرف کیا جائے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ ابن آدم تیرا مال تو حقیقت میں صرف تین ہی چیزیں ہیں جو تو نے اپنے پیٹ میں کھایا اور وہ ہضم ہو گیا۔ جو تن پر پہنا اور پھاڑ دیا۔ اور جو اللہ کی راہ میں دیا اور اپنی آخرت کے لئے جمع کر دیا اور بس، باقی سب تو دوسروں کا ہے۔

۱۸۱۔ سو حضرت حق جل مجدہ کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ایسی سنگین اور اس قدر بے ہودہ اور ہولناک بات ہے کہ اس کی سنگینی اور بے ہودگی و ہولناکی کی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ بھلا جس ذات اقدس و اعلیٰ کے جود و سخا اور بخشش و عطاء مسلسل اور لگاتار جاری ہو۔ اور ایسی اور اس حد تک کہ ہر لحظہ اور ہر پل میں اس کے جس قدر خزانے تقسیم ہوتے ہیں ان کا حساب کرنا بھی کسی کے بس اور امکان میں نہیں ہو سکتا اس کے بارے میں ایسا کہنا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر ہولناک بات ہے والعیاذُ باللہ۔ سو وہ غنی مطلق جو لوگوں سے راہِ حق میں خرچ کرنے کے لئے کہتا ہے اور یہ کہ وہ اس کو قرض دیں یہ بھی دراصل اس کی شان کرم و عطاء ہی کا ایک نمونہ و مظہر ہے اور اس سے دراصل اس کے بندوں ہی کا بھلا اور فائدہ مقصود ہوتا ہے۔ تاکہ اس طرح ان لوگوں کا دیا بخشا اللہ کے بنک میں جمع ہو کر خود ان لوگوں کو اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃَ کی شکل میں واپس ملے۔ اور اس وقت ملے جبکہ یہ اس کے سب سے زیادہ محتاج ہونگے۔ سو وہ رب رحمان و رحیم۔ سبحانہ و تعالیٰ، اپنی شان و رحیمی کے تقاضوں کی بناء پر خود ان لوگوں کا بھلا چاہتا ہے، یہاں سے ایک بات یہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان و یقین کی دولت اور صدق و اخلاص کے نور سے محروم انسان کس قدر اندھا اور اوندھا ہو جاتا ہے کہ وہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی ذات اقدس و اعلیٰ کے بارے میں بھی ایسی بیہودہ بات کہنے کی جسارت کر لیتا ہے نیز اس سے یہ درس عظیم بھی ملتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ پاک کے بارے میں بھی ایسا کہا وہ اور کس کو معاف کریں گے؟ پس کوئی کبھی اس طرح کے کسی خبط میں مبتلا نہ ہو کہ سب لوگ مجھے اچھا کہیں، کہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ پس کوشش اس کی ہونی چاہیے کہ میرا معاملہ میرے خالق و مالک سے اچھا رہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،

۱۸۴۔ مگر اس سب کے باوجود ان گزشتہ انبیاء و رسل کو جھٹلایا گیا۔ سو جو لوگ آج آپ کو جھٹلا رہے ہیں اے پیغمبر ! تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بلکہ پہلے سے ہی ایسے ہوتا چلا آیا ہے۔ ظالموں نے اللہ والوں کو ہمیشہ اسی طرح جھٹلایا، اور ان کے خلاف طرح طرح کی دکھ دہ اور دل آزار باتیں کہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا مَایُقَالُ لَکَ اِلاَّ مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ الایٰۃ (حٰم السجدۃ۴۲) پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی طرح صبر و برداشت سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے ان اولوالعزم رسولوں نے صبر سے کام لیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس ہدایت کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ الایۃ(الاحقاف۔۳۵) سو ان آیات کریمات میں حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے توسط سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے ہر داعی حق کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے، والحمد للہ جل وعلا

۱۸۵۔ پس جن لوگوں نے اس دنیا فانی اور اس کے متاع غرور و حُطام زائل ہی کو اپنا اصل مقصد بنا لیا وہ سخت خسارے میں ہیں، کہ یہ سب کچھ فانی و زائل اور بے حقیقت ہے، اصل اور حقیقی کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ آخرت کی اس کامیابی ہی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین قرار دیا جائے۔ اس سے اگر سرفرازی نصیب ہو گئی تو سب کچھ مل گیا؟ اور حقیقی کامیابی نصیب ہو گئی، ورنہ اگر سب کچھ مل جائے تو بھی کچھ بھی نہیں ملا۔ دنیا تو محض ایک گزرگاہ اور عارضی منزل ہے اور اس کی ہر چیز عارضی اور فانی اور اس کا سامان متاع غرور ہے۔

۱۸۶۔ سو صبر و تقویٰ مومن صادق کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مندی و سرفرازی کے لئے دو عظیم الشان ذریعے و وسیلے ہیں صبر کا حاصل ہے راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہنا۔ اور تقویٰ کا خلاصہ و مفہوم ہے ہمیشہ اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کے آگے سر تسلیم خم رہنا۔ اور ہمیشہ اس بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھنا کہ میرا خالق و مالک مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہ اس کا حق سب سے بڑا سب سے مقدم اور سب پر فائق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ اللہ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔

۱۸۷۔ سو حق فروشی کے عوض دنیائے دُوں کے متاع قلیل کو اپنانے کا سودا نہایت ہی خسارے کا سودا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا ساری کی حیثیت ایک پر کاہ (مچھر کے پر) کے برابر بھی نہیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان حق ترجمان سے اس کا اعلان فرمایا گیا ہے تو پھر اس میں سے کچھ کی حقیقت اور حیثیت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ خواہ وہ کچھ کروڑ یا کچھ ارب و کھرب ہی کیوں نہ ہو۔ اور وہ بھی دولت حق کے مقابلے میں؟ سو کتنے بدنصیب اور بدبخت ہیں وہ لوگ جو دنیا کے کچھ ٹکوں کے عوض حق فروشی کے اس انتہائی گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں؟ والعیاذُ باللہ العظیم، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان لوگوں سے اللہ کی کتاب کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کرنے کا عہد لیا تھا۔ اور ان کو اس کے چھپانے کی ممانعت کر دی تھی، کہ ایسا کرنا جرم بالائے جرم اور ظلم عظیم ہے، مگر انہوں نے اس سب کے باوجود اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔ اور دنیا کے حقیر فائدے کے عوض اس کو قربان کر دینے کے جرم کا ارتکاب کیا، اور اس طرح یہ انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہوئے، والعیاذ باللہ العظیم

۱۸۹۔ پس وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، نہ اس کے لئے کسی طرح کی کوئی رکاوٹ اور نہ کوئی مشکل سو آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو پیدا بھی اسی وحدہٗ لاشریک نے فرمایا ہے اس کا مالک بھی وہی ہے۔ اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا اور صرف اسی کا چلتا ہے نہ اس کے خلق و ایجاد میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہے اور نہ اس کے حکم و تصرف میں پس اس سب کا خالق و مالک بھی وہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی اور جب یہ صفت و شان اسی وحدہٗ لاشریک کی ہے تو پھر معبود برحق بھی وہی ہے اور عبادت و بندگی کی ہر قسم و شکل بھی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ پس عبادت بندگی کی کسی بھی قسم کو، اور اس کی کسی بھی شکل کو اس وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی اور کے لئے بجا لانا شرک ہو گا۔ جو کہ ظلم عظیم ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۹۰۔ کہ کائنات کی اس کھلی عظیم الشان اور حکمتوں و عبرتوں بھری کتاب میں صحیح طریقے سے نتائج اخذ کرنا ایسے ہی اولو الالباب کا کام ہے جن کی عقلیں ہر قسم کے زنگ اور میل سے پاک صاف ہوتی ہیں جبکہ جن کی عقلیں اہواء و اغراض، زیغ و ضلال، اور مادیت و الحاد وغیرہ کی میل سے میلی ہو جاتی ہیں وہ صحیح غور و فکر کی اہلیت و صلاحیت سے عاری اور محروم ہو جاتے ہیں سو ان میں سے کچھ لوگ تو وہ ہیں جو کائنات کی ان مختلف اشیاء کی چمک دمک اور ان کی نفع رسانی کو دیکھتے ہوئے انہی کی مختلف اشیاء کی پوجا پاٹ میں لگ جاتے ہیں اور وہ انہی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں چنانچہ اسی بناء پر سورج پُوجا، چاند پُوجا، جل پُوجا، اور آگ پوجا وغیرہ وغیرہ کے ناموں سے طرح طرح کے کاروبار کفر و شرک نے جنم لیا۔ اور جو آج تک برابر چل رہا ہے اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے چل رہا ہے اور اس طرح کتنی ہی دنیا ہے جو عقل و خرد کے تقاضوں سے عاری اور محروم ہو کر دوزخ کی نار سعیر کی طرف جانے والے انہی راستوں پر رواں دواں ہے اور وہ اپنے مآل و انجام سے بے خوف و بے فکر ہے جبکہ اس کے برعکس دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی نظر قاصر اور عقل محدود کائنات کے مادی ظاہری اور وقتی فوائد و منافع ہی تک اٹکی ہوئی ہے۔ وہ اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے اور اسی اعتبار سے سوچتے ہیں اس لئے اس سے آگے بڑھ کر دیکھنے سوچنے اور غور کرنے کے لئے وہ سرے سے کوئی زحمت اٹھانا ہی گوارا نہیں کرتے، کہ یہ سب کچھ پیدا کس نے کیا؟ اس کو اس پُر حکمت طریقے سے محفوظ کس نے رکھا؟ اس عظیم الشان اور حکمتوں و عبرتوں بھرے خوان یغما کو ہمارے لئے اس طرح بچھایا اور سجایا کس نے؟ اس کا ہم پر حق کیا ہے؟ اور اس کے اس عظیم الشان حق کی ادائیگی کا طریقہ اور اس کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ؟ جبکہ اس سب کے برعکس مومن صادق اپنے نور ایمان و یقین کی روشنی میں انہی امور پر صحیح طریقے سے غور کر کے اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرشار و سرفراز ہوتا ہے۔ اور اسی سے وہ اس اہم نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک روز حساب بھی آئے گا اور آنا چاہیے جس میں ان عظیم الشان نعمتوں کے بارے میں پوچھ ہو۔ اس لئے وہ پکار اٹھتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اور اس طرح یہی مادی نعمتیں اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ بن جاتی ہیں والحمد للہ جل و علا۔ سو ایمان و یقین کی دولت سے سرشار اولوالالباب ہی کائنات میں صحیح غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور لے سکتے ہیں، اور وہی اس سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۱۹۵۔ سو محض نسل و نسب کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں مل سکتی کہ اس اعتبار سے سب لوگ آپس میں ایک ہی اصل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلکہ فضیلت و فوقیت اور درجات و مراتب کا اصل مدار و انحصار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے اور بس، پس جس کا ایمان و عقیدہ صحیح پختہ و مضبوط اور عمل و کردار اچھا اور اونچا ہو گا وہ اتنا ہی بلند مرتبے والا ہو گا۔ ورنہ اپنی اصل کے اعتبار سے تم لوگ آپس میں ایک ہی جنس سے ہو۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کُلُّکُمْ مِّنْ اٰدَمَ وَاٰدَمُ مِنْ تُرَابِ، یعنی تم سب لوگ آدم کی اولاد ہو۔ اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے، سو اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے تمام بنی آدم یکساں و برابر ہیں،

اور اتنا بڑا اور اس قدر عظیم الشان اجر و ثواب کہ اس کی عظمت شان کا اندازہ کرنا بھی اس دنیا میں کسی کے لئے ممکن نہیں، اور اس سے سرفرازی کا دار و مدار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے۔ پس جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء کے لئے ہجرت کی، اپنے گھر بار کو چھوڑا ان کو ان کے گھروں سے جبراً اور ظلماً نکال باہر کیا گیا۔ ان کو اللہ کی راہ میں طرح طرح سے ستایا گیا۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑے اور مارے گئے، سو ان کے ایسے عظیم الشان اعمال کے نتیجے میں ان کی برائیوں کو مٹا دیا جائے گا۔ اور ان کو ان عظیم الشان جنتوں میں داخل فرما دیا جائے گا جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے ملنے والے ایک عظیم الشان بدلہ اور ثواب کے طور پر۔ والحمد للہ

۱۹۷۔ سو دوزخ کا وہ ٹھکانا جس میں ایسے کافروں کو ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا اتنا بُرا اور اس قدر ہولناک ہو گا کہ اس دنیا میں اس کا تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں۔ سو جن کافروں کا آخری انجام یہ ہونا ہے ان کو اگر اس دنیا میں دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے، تو بھی ان کو کیا ملا؟ اور ان سے بڑھ کر بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ کہ انہوں نے بالآخر دوزخ کی اس ہولناک آگ میں جلنا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جلنا ہے والعیاذ باللہ، اس کے مقابلے میں وہ ایمان والے کتنے خوش نصیب ہیں جن کو دوزخ کے اس ہولناک عذاب سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے گا اگرچہ دنیا میں وہ نان جویں تک سے محروم رہے ہوں۔ والعیاذ باللہ، سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے اور اصل کامیابی آخرت کی کامیابی، اور اصل سرفرازی نعیم جنت سے سرفرازی ہے، اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۱۹۸۔ اتنا بہتر اور اس قدر عمدہ کہ اس دنیا میں اس کا تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔ اور نہ کسی کے دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ کا حوالہ دیا۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءٌ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (السجدۃ۔۱۷) یعنی کسی شخص کو علم نہیں کہ ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان مخفی رکھا گیا ہے ان کے ان اعمال کے بدلے میں جو یہ کرتے رہے تھے، سو اصل اور حقیقی کامیابی انہی لوگوں کے لئے ہے جو تقوی اختیار کریں۔ اور اسی پر قائم رہیں۔ ان کے لئے اولین پیشکش (نُزُل) جنت کی ہو گی۔ اور ان کے رب کے پاس ان کے لئے مزید جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور اتنا اور اس قدر کہ اس کا احاطہ و ادراک بھی اس دنیا میں کسی کے لئے ممکن نہیں، اللہ نصیب فرمائے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین

۱۹۹۔ اور ان صفات و خصال کے مالک اور ان سے بہرہ ور ہی اصل اور حقیقی اہل کتاب ہیں۔ اور انہی خوش نصیبوں کو بعد میں راہ حق کو اپنانے اور دولت ایمان و یقین سے سرفرازی کا موقع ملا۔ سو صدق و اخلاص اور ارادہ و نیت کی صحت و صفائی اور عمدہ خصال و پاکیزہ صفات سے بہرہ مندی انسان کو صحیح راہ پر ڈالتی، اور اس کو دولت حق و ہدایت سے سرفراز و مالا مال کرتی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید

۲۰۰۔ سو اس آیت کریمہ میں نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں فوز و فلاح اور حقیقی کامیابی سے سرفرازی کے لئے ایک عظیم الشان اور جامع دستور العمل کی تعلیم و تلقین فرما دی گئی۔ وباللہ التوفیق۔ والحمد للہ جل وعلا۔