اس سورہ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لئے جبر و ظلم کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفانِ مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت ۱۴۔ ۱۵ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے نہ مانو یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دَور میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا، اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا۔
اس سورہ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم خداوندِ عالم کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کر ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔
(۱) یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔
(۲) یعنی یہ آیات راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اُٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کر دیا جائے تو ان سے رُک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے۔
(۳) یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے "نیکو کار" کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن ’’ نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ ’’ نیکوکار ‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر و اخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔
(۴)جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ’’ یہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔
یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔ ۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸۔
(۵) یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔
(۶) اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔
لہو الحدیث ’’ خریدنے ‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام، ج ۱، ص۳۲۰۔ ۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔
لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء، ’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ، حاکم بیہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جُبیر، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمامہ ؓباہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’ مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔ ‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔ ’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔ ‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے )۔
(۷) ’’ علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’ خریدتا ہے ‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’ بھٹکاوے ‘‘ کے ساتھ بھی۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔
(۸)یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جائے۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں، اُدھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انھیں سنائی جا سکیں۔
(۹) یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔
(۱۰)یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنّت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ’’ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں، ‘‘ تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں گی اور وہ اُن نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے، نہ کہ اُس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دے دیا جائے۔
(۱۱)یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ’’ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے ‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔
(۱۲)اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔
(۱۳) اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔ ‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے۔
(۱۴)تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ۲، صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲۔
(۱۵)یعنی اُن ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو، جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو، جن کی بندگی بجا لانے پر تمہیں اتنا اصرار ہے۔
(۱۶) یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے۔ کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں ؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے ؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟بگڑتی وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔
(۱۷)شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔ اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔
لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام، ج ۲، ص ۶۷۔ ۶۹۔ اُسُد الغابہ، ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’ کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔
تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔
یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’ امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔
(۱۸)یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔
(۱۹) یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔
(۲۰)لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک بُرے آدمی بُرا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لختِ جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دینِ شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟
(۲۱)ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلمِ عظیم ہے کہ آدمی اُن ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ اُن نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آدمی پر اُس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اُس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگیٔ غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے ا س میں وہ اپنے ذ ہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلّت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آ پ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحقِ عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔
(۲۲)یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے لقمان کے قول کی تشریح مزید کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔
(۲۳) ان الفاظ سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندر اگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’ مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت ۲۳۳)۔
ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ کاہ ہے، اس لیے کہ قرآن ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰ مہینوں میں ہُوا۔ ‘‘ (الاحقاف، آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔
(۲۴)یعنی جو تیرے علم میں میرا شریک نہیں ہے۔
(۲۵)یعنی اولاد اور والدین، سب کو۔
(۲۶)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورۂ عنکبوت، حواشی نمبر ۱۱۔ ۱۲۔
(۲۷)لقمان کے دوسرے نصائح کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ عقائد کی طرح اخلاق کے متعلق بھی جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ بھی عرب میں کوئی انوکھی باتیں نہیں ہیں۔
(۲۸) یعنی اللہ کے علم سے اور اس کی گرفت سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ چٹان کے اندر ایک دانہ تمہارے لیے مخفی ہو سکتا ہے، مگر اُس کے لیے عیاں ہے۔ آسمانوں میں کوئی ذرہ تم سے بعید ترین ہو سکتا ہے، مگر اللہ کے لیے وہ بہت قریب ہے۔ زمین کی تہوں میں پڑی ہوئی کوئی چیز تمہارے لیے سخت تاریکی میں ہے مگر اس کے لیے بالکل روشنی میں ہے۔ لہٰذا تم کہیں کسی حال میں بھی نیکی یا بدی کا کوئی کام ایسا نہیں کر سکتے جو اللہ سے مخفی رہ جائے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس سے واقف ہے، بلکہ جب محاسبہ کا وقت آئے گا تو وہ تمہاری ایک ایک حرکت کا ریکارڈ سامنے لا کر رکھ دے گا۔
(۲۹)اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔
(۳۰)دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔
(۳۱)اصل الفاظ ہیں لَاتُصَعِّرْخَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ صَعَر عربی زبان میں ایک بیماری کو کہتے ہیں جو اونٹ کی گردن میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اُونٹ اپنا منہ ہر وقت ایک ہی طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے محاورہ نِکلا فلان صعّر خدّہ، ’’ فلاں شخص نے اونٹ کی طرح اپنا کلّا پھیر لیا ‘‘ یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا اور منہ پھیر کر بات کی۔ اسی کے متعلق قبیلۂ تغلب کا ایک شاعر عمرو بن حّی کہتا ہے،
وکنّا اذاالجبار صَعَّر خَدَّ ٭ اقمنَا لہ من میْلہ فتقوّ مَا
ہم ایسے تھے کہ جب کبھی کسی جبّار نے ہم سے بات کی تو ہم نے اس کی ٹیڑھ ایسی نکالی کہ وہ سیدھا ہو گیا۔ ‘‘
(۳۲)اصل الفاظ ہیں مختال اور فخور۔ مختال کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہو۔ اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے۔ آدمی چال میں اکڑ اور اتراہٹ اور تبختر کی شان لازماً اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں تکبر کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنی بڑائی محسوس کرائے۔
(۳۳)بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر ‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت، اقتدار، حسن، علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔
صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا’’ سر اُٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں ہے ‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔ ‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہر گز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔ پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے )۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’ عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان، حاشیہ ۷۹)۔
(۳۴)اس کا یہ منشا نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے۔ بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے۔ لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی و نرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو۔ مثلاً قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب تو آہستہ بولیں گے۔ دُور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہو گا۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازماً ہوتا ہے۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے سے اور اظہار خوشنود ی کا لہجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہونا ہی چاہیے۔ یہ چیز کسی درجہ میں بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے، نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے۔ قابلِ اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل و مرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے۔
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں(۳۵) اور اپنی کھُلی اور چھُپی نعمتیں (۳۶) تم پر تمام کر دی ہیں؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں (۳۷) بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (۳۸)۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو (۳۹)؟
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے (۴۰) اور عملاً وہ نیک ہو (۴۱)، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ الہ ہی کے ہاتھ ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے (۴۳)، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ ہم تھوڑی مدت انہیں دُنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدُ لِلّٰہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۴۵)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ (۴۶) ہی کا ہے، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے محمود ہے (۴۷)۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے ) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے ) ختم نہ ہوں گی (۴۸)۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے ) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے (۴۹)۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (۵۰)، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے ) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (۵۲) اور اسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں (۵۳)، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے (۵۴)۔ ع
(۳۵)کسی چیز کو کسی کے لیے مسخّر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جئے جس کی بدولت اُس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے۔ زین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخّ نہیں کر دیا ہے، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں۔ مثلاً ہوا، پانی، مٹی، آگ نباتات، معدنیات، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں، اور چاند، سورج، وغیرہ دوسرے معنی میں۔
(۳۶)کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے، اس کی رز ق رسانی کے لیے، اس کے نشو و نما کے لیے، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے۔
(۳۷)یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلاوہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اس کے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ
(۳۸)یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو، نہ کسی ایسے رہنمائی اِنہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں۔
(۳۹)یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ داد ا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے۔ کوئی عقلمند آدمی یہ بادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے۔
(۴۰)یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کاگ قانون بنائے۔
(۴۱)یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے۔
(۴۲)یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی، نہ ا س بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہو گا۔
(۴۳)خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، جو شخص تمہاری بات ماننے سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پر اصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے، لیکن دراصل اس نے اپنے آپ کو پہنچائی ہے۔ اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، اپنا کچھ بگاڑا ہے۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(۴۴)یعنی شکر ہے کہ تم اتنی بات تو جانتے اور مانتے ہو۔ لیکن جب حقیقت یہ ہے تو پھر حمد ساری کی ساری صرف اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ دوسری کوئی ہستی حمد کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تخلیق کائنات میں کوئی اس کا حصہ ہی نہیں ہے۔
(۴۵)یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالقِ کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھیرانا، کسی کے آگے سر نیاز جھکانا، اور کسی کو حاکِم ذی اختیار اور مُطاعِ مطلق تسلیم کرنا، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا۔
(۴۶)یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا، یا اس کے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اُس کی مِلک ہے۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں۔
(۴۷)اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے۔
(۴۸) اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشمے۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کر ے گا شاید اس قو ل میں مبالغہ کیا۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں، اب سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی۔ تنہا اس زمین پر جتنی کو جو دات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبطِ تحریر میں لائی جا سکیں۔
اس بیان سے دراصل یہ تصوّر دلانا مقصُود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں اُن چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار، اس کے کسی اقل قلیل جُز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو۔
(۴۹)یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سُن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سُن سکے۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اور ایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کسے چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے۔ ٹھیک ایسا ہو معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دو بار ہ وجود میں لانے کا بھی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے۔
(۵۰)یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالمِ بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انھیں دیتا مان رہے ہیں۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیّاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سرِ مو ہٹ نہیں کر سکتے۔
(۵۱)یعنی ہر چیز کی جو مدّت مقرر کر دی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے۔ سورج ہو یا چاند، یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سے ّارہ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی۔ اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث، اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہو سکتی ہیں۔
(۵۲)یعنی حقیقی فاعِل مختار ہے، خلق و تدبیر کے اختیارات کا اصل مالک ہے۔
(۵۳)یعنی وہ سب محض تمہارے تخیلّات کے آفریدہ خدا ہیں۔ تم نے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل دکھتے ہیں اور فلاں حضرت کو مشکل کشائی و حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں۔ حالاں کہ فی الواقع ان میں سے کوئی صاحب بھی کچھ نہیں بنا سکتے۔
(۵۵) یعنی ایسی نشانیاں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختیارات بالکل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنا لے اور جہاز رانی کے فن اور اس سے تعلق رکھنے والی معلومات اور تجربات میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے، لیکن سندر میں جن ہولناک طاقتوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ تنہا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کا فضل شامِل حال نہ ہو۔ اس کی نگاہ کرم پھرتے ہی آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ذرائع و وسائل اور کمالات فن کتنے پانی میں ہیں۔ اسی طرح آدمی امن و اطمینان کی حالت میں چاہے کیسا ہی سخت دہریہ یا کٹّا مشرک ہو، لیکن سمندر کے طوفان میں جب اس کی کشتی ڈولنے لگتی ہے اس وقت دہریے کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے، اور مشرک بھی جان لیتا ہے کہ خدا بس ایک ہی ہے۔
(۵۶) یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کر کے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے ) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اور ناگوار، سخت اور نرم، اچھے اور بُرے، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑ گڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے ) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکر و سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں۔
(۵۷)اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے۔ اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آ گیا۔ تیسری وہ جس کے اندر حس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔
(۵۸)یہ دو صفات اُن دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے مُحسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر، اپنی دہریّت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدانِ حقیقت کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالتِ اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی، ورنہ درحقیقت خدا وُدا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ رہے مشرکین، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودانِ باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں۔ یہ خیال تک انھیں نہیں آتا کہ جب ساری اُمیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اُس وقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو۔
(۵۹)یعنی دوست، لیڈر، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اس کے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی ک اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی وہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے۔
(۶۰)اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔
(۶۱)دنیا کی زندگی سطح ہیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کر لو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’’ معیار زندگی ‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
(۶۲) الغرور (دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔
’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے ‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں۔ کسی کو اس کا ’’ دھوکے باز ‘‘ یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہو تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کا تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔
(۶۳)یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب یہ جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔
پہلا فقرہ: ’’ اُس کھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ ‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا کب آئے گا۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب، جہاں، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہی جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ تُم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنبے کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حالاں کہ غیب نام ہی ا ُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جِلد سوم، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔