تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ لقمَان

سورہ لقمان مکہ میں نازل ہوئی اس کی چونتیس آیتیں ہیں اور چار رکوع

۳ ۔۔۔  یہ کتاب خاص نیکی اختیار کرنے والوں کے لئے سرمایہ رحمت و ہدایت ہے۔ کیونکہ وہ ہی لوگ اس سے منتفع ہوتے ہیں۔ ورنہ نفس نصیحت و فہمائش کے لحاظ سے تو تمام جن و انس کے حق میں ہدایت و رحمت بن کر آئی ہے۔

۵ ۔۔۔  "سورہ بقرہ" کے شروع میں اسی طرح کی آیات گزر چکی ہیں وہاں کے فوائد دیکھ لئے جائیں۔

۶ ۔۔۔  سعدائے مفلحین کے مقابلہ میں یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ کھیل تماشے، یا دوسری واہیات و خرافات میں مستغرق ہیں چاہتے ہیں، کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل و تفریحات میں لگا کر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کر دیں اور دین کی باتوں پر خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔ حضرت حسن "لھو الحدیث"کے متعلق فرماتے ہیں۔ کل ماشغلک عن عبادۃ اللہ و ذکرہ من السمر و الا ضاحیک والخرافات والغناء و نحوھا (روح المعانی) (یعنی"لہو الحدیث" ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور یاد سے ہٹانے والی ہو مثلاً فضول قصہ گوئی، ہنسی مذاق کی باتیں واہیات مشغلے اور گانا بجانا وغیرہ) روایات میں ہے کہ نضر بن حارث جو رؤسائے کفار میں تھا بغرض تجارت فارس جاتا تو وہاں سے شاہان عجم کے قصص و تواریخ خرید کرلاتا اور قریش سے کہتاکہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) تم کو عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں آؤ میں تم کو رستم و اسفند یار اور شاہان ایران کے قصے سناؤں۔ بعض لوگ ان کو دلچسپ سمجھ کر ادھر متوجہ ہو جاتے۔ نیز اس نے ایک گانے والی لونڈی خرید کی تھی، جس کو دیکھتا کہ دل نرم ہوا اور اسلام کی طرف جھکا، اس کے پاس لے جاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا، پھر اس شخص کو کہتا کہ دیکھ یہ اس سے بہتر ہے جدھر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) بلاتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اور جان مارو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(تنبیہ) شان نزول گو خاص ہو مگر عموم الفاظ کی وجہ سے حکم عام رہے گا۔ جو لھو (شغل) دین اسلام سے پھر جانے یا پھیر دینے کا موجب ہو حرام بلکہ کفر ہے۔ اور جو احکام شرعیہ ضروریہ سے باز رکھے یا سبب معصیت بنے وہ معصیت بنے وہ معصیت ہے۔ ہاں جو لہو کسی امر واجب کا مفوت (فوت کرنے والا) نہ ہو اور کوئی شرعی غرض و مصلحت بھی اس میں نہ ہو وہ مباح، لیکن لا یعنی ہونے کی وجہ سے خلاف اولےٰ ہے۔ گھڑ دوڑ، یا تیر اندازی اور نشانہ بازی یا زوجین کی ملاعبت (جو حد شریعت میں ہو) چونکہ معتدبہ اغراض و مصالح شرعیہ پر مشتمل ہیں اس لئے لہو باطل سے مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں۔ رہا غنا و سماع کا مسئلہ اس کی تفصیل کتب فقہ وغیرہ میں دیکھنی چاہئے۔ مزامیر و ملاہی کی حرمت پر تو صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ البتہ نفس غنا کو ایک درجہ تک مباح لکھتے ہیں اس کی قیود شروط بھی کتابوں میں دیکھ لی جائیں۔صاحب روح المعانی نے آیت ہذا کے تحت میں مسئلہ غنا و سماع کی تحقیق نہایت شرح و بسط سے کی ہے۔ فلیراجع۔

۷ ۔۔۔   یعنی غرور تکبر سے ہماری آیتیں سننا نہیں چاہتا بالکل بہرا بن جاتا ہے۔

۹ ۔۔۔   یعنی کوئی قوت اس کو ایفائے وعدہ سے روک نہیں سکتی نہ کسی سے بے موقع وعدہ کرتا ہے۔

۱۰ ۔۔۔  ۱: س لفظ کی تفسیر سورۃ"رعد" کے شروع میں گزر چکی۔

۲: یعنی سمندر کی موجوں اور سخت ہوا کے جھٹکوں سے یا دوسرے اسباب طبیعہ سے مرتعش ہو کر جھک نہ پڑے۔ اس کا انتظام بڑے بڑے پہاڑ قائم کر کے کر دیا گیا۔ سورہ "نحل" کے اوائل میں یہ مضمون گزر چکا ہے، باقی پہاڑوں کے پیدا کرنے کی حکمت کچھ اسی میں منحصر نہیں۔ دوسرے فوائد اور حکمتیں ہوں گی جو اللہ کو معلوم ہیں۔

۳: یعنی ہر قسم کے پر رونق، خوش منظر اور نفیس و کار آمد درخت زمین سے اگائے۔ سورۃ شعراء کے شروع میں اسی مضمون کی آیت گزر چکی ہے۔

۱۱ ۔۔۔  ۱: جب نہیں دکھلا سکتے تو کس منہ سے ان کو خدائی کا شریک اور معبودیت کا مستحق ٹھہراتے ہو۔ معبود تو وہ ہی ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ میں پیدا کرنا اور رزق پہنچانا سب کچھ ہو۔ یہاں ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار نہیں۔

۲:  یعنی ان ظالموں کو سوچنے سمجھنے سے کچھ سروکار نہیں۔ اندھیرے میں پڑے بھٹک رہے ہیں۔ آگے شرک و عصیان کی تقبیح کے لئے حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل فرماتے ہیں۔ جو انہوں نے اللہ سے دانائی پا کر اپنے بیٹے کو کی تھیں۔

۱۲ ۔۔۔    ۱: اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ حضرت لقمان پیغمبر نہیں تھے۔ ہاں ایک پاکباز متقی انسان تھے جن کو حق تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی عقل و فہم اور متانت و دانائی عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے عقل کی راہ سے وہ باتیں کھولیں، جو پیغمبروں کے احکام و ہدایات کے موافق تھیں۔ ان کی عاقلانہ نصیحتیں اور حکمت کی باتیں لوگوں میں مشہور چلی آتی ہیں۔ رب العزت نے ایک حصہ قرآن میں نقل فرما کر ان کا مرتبہ اور زیادہ بڑھا دیا، شاید مقصود یہ جتلانا ہو کہ شرک وغیرہ کا قبیح ہونا جس طرح فطرت انسانی کی شہادت اور انبیاء کی وحی سے ثابت ہے، دنیا کے منتخب عقلمند بھی اپنی عقل سے ا سکی تائید و تصدیق کرتے رہے ہیں۔ پس توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرنا ضلال مبین نہیں تو اور کیا ہے؟ (تنبیہ) حضرت لقمان کہاں کے رہنے والے تھے؟ اور کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ اس کی پوری تعین نہیں ہو سکتی، اکثر کا قول ہے کہ حبشی تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں ہوئے۔ ان کے بہت سے قصے اور اقوال تفاسیر میں نقل کئے ہیں۔ فاللہ اعلم بصحتہا۔

۲: یعنی اس احسان عظیم اور دوسرے احسانات پر منعم حقیقی کا شکر ادا کرنا اور حق ماننا ضروری ہے، لیکن واضح رہے کہ اس حق شناسی اور شکر گزاری سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جو کچھ فائدہ ہے خود شاکر کا ہے کہ دنیا میں مزید انعام اور آخرت میں اجرو ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اگر ناشکری کی تو اپنا نقصان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے شکریہ کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ اس کی حمد و ثناء تو ساری مخلوق زبان حال سے کر رہی ہے اور بفرض محال کوئی تعریف کرنے والا نہ ہو تب بھی جامع الصفات اور منبع الکمالات ہونے کی بنا پر وہ بذات خود محمود ہے کسی کے حمدو شکر کرنے یا نہ کرنے سے اس کے کمالات میں ذرہ بھر کمی بیشی نہیں ہوتی۔

۱۳ ۔۔۔   ۱: معلوم نہیں بیٹا مشرک تھا؟ سمجھا کر راہ راست پر لانا چاہتے تھے یا موحد تھا؟ اسے توحید پر خوب مضبوط کرنے اور جمائے رکھنے کی غرض سے یہ وصیت فرمائی؟

۲: اس سے بڑھ کر بے انصافی کیا ہو گی کہ عاجز مخلوق کو خالق مختار کا درجہ دے دیا جائے اور اس سے زیادہ حماقت اور ظلم اپنی جان پر کیا ہو گا، کہ اشرف المخلوقات ہو کر خسیس ترین اشیاء کے آگے سر عبودیت خم کر دے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

۱۴ ۔۔۔   یعنی ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ ہے۔ وہ مہینوں تک اس کا بوجھ پیٹ میں اٹھائے پھری، پھر وضع حمل کے بعد دو برس تک دودھ پلایا۔ اس دوران میں نہ معلوم کیسی کیسی تکلیفیں اور سختیاں جھیل کر بچہ کی تربیت کی۔ اپنے آرام کو اس کے آرام پر قربان کیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آدمی اولاً خدا تعالیٰ کا اور ثانیاً اپنے ماں باپ کا، خصوصاً  ماں کا حق پہچانے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور ماں باپ کی خدمت و اطاعت میں بقدر استطاعت مشغول رہے جہاں تک اللہ کی نافرمانی نہ ہو کیونکہ اس کا حق سب سے مقدم ہے اور اسی کے سامنے سب کو حاضر ہونا ہے۔ انسان دل میں سوچ لے کہ کیا منہ لے کر وہاں جائے گا۔ (تنبیہ) دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دوسال بیان ہوئی با اعتبار غالب اور اکثر عادت کے ہے۔ امام ابو حنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہو گی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں۔ واللہ اعلم۔

۱۵ ۔۔۔   ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " شریک نہ مان جو تجھے معلوم نہیں یعنی شبہ میں بھی نہ مان اور یقین سمجھ کر تو کیوں مانے۔"

۲: یعنی دین کے خلاف ماں باپ کا کہنا نہ مان۔ ہاں دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ نیکی اور سلوک کرتا رہ اسی مضمون کی آیت سورۃ عنکبوت میں گزر چکی وہاں کا فائدہ دیکھ لیا جائے۔

۳:  یعنی پیغمبروں اور مخلص بندوں کی راہ پر چل! دین کے خلاف ماں باپ کی تقلید یا اطاعت مت کر۔

۴: یعنی خدا کے ہاں پہنچ کر اولاد اور والدین سب کو پتہ لگ جائے گا کہ کس کی زیادتی یا تقصیر تھی۔ (تنبیہ) ووصینا الانسان سے یہاں تک حق تعالیٰ کا کلام ہے۔ پہلے لقمان کی وصیت بیٹے کو تھی۔ اور آگے بھی "یا بنی انھا ان تک۔ " الخ سے اسی وصیت کا سلسلہ ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک ضروری تنبیہ فرما دی۔ یعنی شرک اتنی سخت قییح چیز ہے کہ ماں باپ کے مجبور کرنے پر بھی اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "لقمان نے بیٹے کو باپ کا حق نہ بتلایا تھا کہ اپنی غرض معلوم ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی نصیحت سے پیچھے اور دوسری نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق فرما دیا کہ بعد اللہ کے حق کے ماں باپ کا۔ باقی پیغمبر یا مرشد و ہادی کا حق بھی حق اللہ کے ذیل میں سمجھو کہ وہ اسی کے نائب ہوتے ہیں۔" (موضح بتغیر یسیر)

۱۶ ۔۔۔  یعنی کوئی چیز یا کوئی خصلت اچھی یابری اگر رائی کے دانہ کے برابر چھوٹی ہو اور فرض کرو پتھر کی کسی سخت چٹان کے اندر یا آسمانوں کی بلندی پر یا زمین کی تاریک گہرائیوں میں رکھی ہو، وہ بھی اللہ سے مخفی نہیں ہو سکتی۔ جب وقت آئے گا وہیں سے لا حاضر کرے گا۔ اس لئے آدمی کو چاہیے کہ عمل کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھے کہ ہزار پردوں میں بھی جو کام کیا جائے اس کا اثر ضرور ظاہر ہو کر رہتا ہے جسے اہل نظر بے تکلف محسوس کر لیتے ہیں۔

۱۷ ۔۔۔  ۱: یعنی خود اللہ کی توحید اور بندگی پر قائم ہو کر دوسروں کو بھی نصیحت کر کہ بھلی بات سیکھیں اور برائی سے رکیں۔

۲: یعنی دنیا میں جو سختیاں پیش آئیں جن کا پیش آنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اغلب ہے ان کو تحمل اور اولوالعزمی سے برداشت کر۔ شدائد سے گھبرا کر ہمت ہار دینا حوصلہ مند بہادروں کا کام نہیں۔

۱۸ ۔۔۔   ۱: یعنی غرور سے مت دیکھ اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر متکبروں کی طرح بات نہ کر بلکہ خندہ پیشانی سے مل۔

۲:  یعنی اترانے اور شیخیاں مارنے سے آدمی کی عزت نہیں بڑھتی بلکہ ذلیل و حقیر ہوتا ہے۔ سامنے نہیں تو پیچھے لوگ برا کہتے ہیں۔

۱۹ ۔۔۔  یعنی تواضع، متانت اور میانہ روی کی چال اختیار کر، بے ضرورت مت بول، کلام کرتے وقت حد سے زیادہ نہ چلا، اگر اونچی آواز سے بولنا ہی کوئی کمال ہوتا تو گدھے کی آواز پر خیال کرو، وہ بہت زور سے آواز نکالتا ہے مگر کس قدر کریہہ و کرخت ہوتی ہے۔ بہت زور سے بولنے میں بسا اوقات آدمی کی آواز بھی ایسی ہی بے ڈھنگی اور بے سری ہو جاتی ہے۔ (ربط) لقمان کا کلام یہاں تک تمام ہوا۔ آگے پھر اصل مضمون کی طرف عود کیا گیا ہے یعنی حق تعالیٰ کی عظمت و جلال اور احسان و انعام یاد دلا کر توحید وغیرہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

۲۰ ۔۔۔   ۱: یعنی آسمان و زمین کی کل مخلوق تمہارے کام میں لگا دی ہے، پھر تم اس کے کام میں کیوں نہیں لگتے۔

۲: کھلی نعمتیں وہ جو حواس سے مدرک ہوں یا بے تکلف سمجھ میں آ جائیں چھپی وہ عقلی غور فکر سے دریافت کی جائیں۔ یا ظاہری مادی و معاشی اور باطنی سے روحانی و مادی نعمتیں مراد ہوں۔ گویا پیغمبر بھیجنا کتاب اتارنا، نیکی کی توفیق دینا، سب باطنی نعمتیں ہوں گی۔ واللہ اعلم۔

۳:  یعنی ایسے کھلے ہوئے انعام و احسان کے باوجود بعض لوگ آنکھیں بند کر کے اللہ کی وحدانیت میں یا اس کی شؤون و صفات میں یا اس کے احکام و شرائع میں جھگڑتے ہیں اور محض بے سند جھگڑتے ہیں۔ نہ کوئی علمی اور عقلی اصول ان کے پاس ہے نہ کسی ہادی برحق کی ہدایت، نہ کسی مستند اور روشن کتاب کا حوالہ محض باپ دادوں کی اندھی تقلید ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں آتا ہے۔ (تنبیہ) ترجمہ سے یوں مترشح ہوتا ہے کہ غالباً مترجم محقق قدس اللہ روحہ، نے "علم" سے عقلی طور پر سمجھنا مراد لیا ہے۔ اور "ہدیٰ " سے ایک طرف بصیرت مراد لی ہے جو سلامتی ذوق و وجدان اور ممارست عقل و فکر سے ناشی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو نہ معمولی سمجھ ہے نہ وجدانی بصیرت حاصل ہے نہ روشن کتاب یعنی نقلی دلیل رکھتے ہیں۔ یہ معنی بہت لطیف ہیں۔ ہم نے آیت کی جو تقریر اختیار کی محض تسہیل کی غرض سے کی ہے۔

۲۱ ۔۔۔  یعنی اگر شیطان تمہارے باپ دادوں کو دوزخ کی طرف لئے جا رہا ہو، تب بھی تم ان کے پیچھے چلو گے؟ اور جہاں وہ گریں گے وہیں گرو گے؟

۲۲ ۔۔۔  ۱: یعنی جس نے اخلاص کے ساتھ نیکی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا، سمجھ لو کہ اس نے بڑا مضبوط حلقہ ہاتھ میں تھام لیا ہے جب تک یہ کڑا پکڑے رہے گا، گرنے یا چوٹ کھانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔

۲: یعنی جس نے یہ کڑا مضبوط تھامے رکھا وہ آخر اس کے سہارے سے اللہ تک پہنچ جائے گا اور خدا اس کا انجام درست کر دے گا

۲۳ ۔۔۔  یعنی تم اپنا علاقہ خدا تعالیٰ سے جوڑے رکھو، کسی کے انکار و تکذیب کی پروا نہ کرو۔ منکرین کو بھی بالآخر ہمارے ہاں آنا ہے۔ اس وقت سب کیا دھرا سامنے آ جائے گا۔ کسی جرم کو اللہ سے چھپا نہ سکیں گے وہ تو دلوں تک کے راز جانتا ہے۔ سب کھول کر رکھ دے گا۔

۲۴ ۔۔۔   یعنی تھوڑے دن کا عیش اور بے فکری ہے۔ مہلت ختم ہونے پر سخت سزا کے نیچے کھنچے چلے آئیں گے۔ مجال ہے کہ چھوڑ کر بھاگ جائیں؟

۲۵ ۔۔۔    یعنی الحمد للہ اتنا تو زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا بجز اللہ کے کسی کا کام نہیں، پھر اب کونسی خوبی رہ گئی جو اس کی ذات میں نہ ہو۔ کیا ان چیزوں کا پیدا کرنا اور ایک خاص محکم نظام پر چلانا بدون اعلیٰ درجہ کے علم و حکمت اور زور قدرت کے ممکن ہے؟ لا محالہ "خالق السموات والارض " میں تمام کمالات تسلیم کرنے پڑیں گے۔ اور یہ بھی اسی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے کہ تم جیسے منکرین سے اپنی عظمت کا اقرار کرا دیتا ہے۔ جس کے بعد تم ملزم ٹھہرتے ہو کہ جب تمہارے نزدیک خالق تنہا وہ ہے تو معبود دوسرے کیونکر بن گئے۔ بات تو صاف ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے اور یہاں پہنچ کر اٹک جاتے ہیں۔

۲۶ ۔۔۔   یعنی جس طرح آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ایسے ہی آسمان و زمین میں جو چیزیں موجود ہیں سب بلا شرکت غیرے اسی کی مخلوق و مملوک اور اسی کی طرف محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ وجود اور توابع وجود یعنی جملہ صفات کمالیہ کا مخزن و منبع اسی کی ذات ہے۔ اس کا کوئی کمال دوسرے سے مستفاد نہیں۔ وہ بالذات سب عزتوں اور خوبیوں کا مالک ہے۔ پھر اسے کسی کی کیا پروا ہوتی؟

۲۷ ۔۔۔   یعنی اگر تمام دنیا کے درختوں کو تراش کر قلم بنا لیں اور موجودہ سمندر کی سیاہی تیار کی جائے، پھر پیچھے سے سات سمندر اور اس کی کمک پر آ جائیں اور فرض کرو تمام مخلوق اپنی اپنی بساط کے موافق لکھنا شروع کرے، تب بھی ان باتوں کو لکھ کر تمام نہ کر سکیں گے جو حق تعالیٰ کے کمالات اور عظمت و جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں، لکھنے والوں کی عمریں تمام ہو جائیں گی۔ قلم گھس گھس کر ٹوٹ جائیں گے، سیاہی ختم ہو جائے گی پر اللہ کی تعریفیں اور اس کی خوبیاں ختم نہ ہوں گی، بھلا محدود و متناہی قوتوں سے لا محدود اور غیر متناہی کا سرانجام کیونکر ہو۔"اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثینت علی نفسک۔ "

۲۸ ۔۔۔  ۱: یعنی سارے جہاں کا پیدا کرنا اور ایک آدمی کا پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے لئے دونوں برابر ہیں۔ نہ اس میں کچھ دقت نہ اس میں کچھ تعب۔ ایک "کن" سے جو چاہے کرڈالے اور لفظ "کن" کہنے پر بھی موقوف نہیں۔ یہ ہم کو سمجھانے کا ایک عنوان ہے بس ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز موجود۔

۲:  یعنی جس طرح ایک آواز کا سننا اور بیک وقت تمام جہان کی آوازوں کو سننا، یا ایک چیز کا دیکھنا اور بیک وقت تمام جہان کی چیزوں کو دیکھنا، اس کے لئے برابر ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی کا مارنا، جلانا، اور سارے جہان کا مارنا اور جلانا اس کی قدرت کے سامنے یکساں ہے پھر دوبارہ جلانے کے بعد بیک وقت تمام اولین و آخرین کے اگلے پچھلے اعمال کا رتی رتی حساب چکا دینے میں بھی اسے کوئی دقت نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو دیکھتا ہے۔ کوئی چھپی کھلی بات وہاں پوشیدہ نہیں۔

۲۹ ۔۔۔  ۱: " مقرر وقت" سے قیامت مراد ہے یا چاند سورج میں سے ہر ایک کا دورہ کیونکہ ایک دورہ پورا ہونے کے بعد گویا از سر نو چلنا شروع کرتے ہیں۔

۲: یعنی جو قوت رات کو دن اور دن کو رات کرتی اور چاند سورج جیسے کرات عظیمہ کو ادنیٰ مزدور کی طرح کام میں لگائے رکھتی ہے۔ اسے تمہارا مرے پیچھے زندہ کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ اور جب ہر ایک چھوٹے بڑے عمل سے پوری طرح باخبر ہے تو حساب کتاب میں کیا دشواری ہو گی۔

۳۰ ۔۔۔  ۱: یعنی حق تعالیٰ کی یہ شؤون عظیمہ اور صفات قاہرہ اس لئے ذکر کی گئیں کہ سننے والے سمجھ لیں کہ ایک خدا کو ماننا اور صرف اس کی عبادت کرنا ہی ٹھیک راستہ ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے باطل اور جھوٹ ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کا موجود بالذات اور واجب الوجود ہونا جو "بان اللہ ھو الحق " سے سمجھ میں آتا ہے اور دوسروں کا باطل و ہالک الذات ہونا اس کو مستلزم ہے کہ اکیلے اسی خدا کے واسطے یہ شؤون و صفات ثابت ہوں پھر جس کے لئے یہ شؤن و صفات ثابت ہوں گی وہ ہی معبود بننے کا مستحق ہو گا۔

۲: لہٰذا بندہ کی انتہائی پستی اور تذلل (جس کا نام عبادت ہے) اسی کے لئے ہونا چاہئے۔

۳۱ ۔۔۔   ۱: یعنی جہاز بھاری بھاری سامان اٹھا کر خدا کی قدرت اور فضل و رحمت سے کس طرح سمندر کی موجوں کو چیرتا پھاڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔

۲:   یعنی اس بحری سفر کے احوال و حوادث میں غور کرنا انسان کے لئے صبر و شکر کے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ جب طوفان اٹھ رہے ہوں اور جہاز پانی کے تھپیڑوں میں گھرا ہو، اس وقت بڑے صبر و تحمل کا کام ہے اور جب اللہ نے اس کشمکش موت و حیات سے صحیح و سالم نکال دیا تو ضروری ہے کہ اس کا احسان مانے۔

۳۲ ۔۔۔  ۱: اوپر دلائل و شواہد سے سمجھایا تھا کہ ایک اللہ ہی کا ماننا ٹھیک ہے، اس کے خلاف سب باتیں جھوٹی ہیں۔ یہاں بتلایا کہ طوفانی موجوں میں گھر کر کٹر سے کٹر مشرک بھی بڑی عقیدت مندی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی ضمیر و فطرت کی اصلی آواز یہ ہی ہے۔ باقی سب بناوٹ اور جھوٹے ڈھکوسلے ہیں۔

۲:  یعنی جب خدا تعالیٰ طوفان سے نکال کر خشکی پر لے آیا تو تھوڑے نفوس ہیں جو اعتدال و توسط کی راہ پر قائم رہیں ورنہ اکثر تو دریا سے نکلتے ہی شرارتیں شروع کر دیتے ہیں۔ مترجم رحمۃ اللہ نے " فمنھم مقتصد" کا ترجمہ کیا " تو کوئی ہوتا ہے ان میں بیچ کی چال پر۔ " حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ یعنی جو حال خوف کے وقت تھا وہ تو کسی کا نہیں، مگر بالکل بھول بھی نہ جائے۔ ایسے بھی کم ہیں، نہیں تو اکثر قدرت سے منکر ہوتے ہیں۔ اپنے بچ نکلنے کو تدبیر پر رکھتے ہیں یا کسی ارواح وغیرہ کی مدد پر۔

۳: یعنی ابھی تھوڑی دیر پہلے طوفان میں گھر کر جو قول و قرار اللہ سے کر رہے تھے۔ سب جھوٹے نکلے۔ چند روز بھی اس کے انعام و احسان کا حق نہ مانا اس قدر جلد قدرت کی نشانیوں سے منکر ہو گئے۔

۳۳ ۔۔۔   ۱: طوفان کے وقت جہاز کے مسافروں میں سخت افراتفری ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ تاہم ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے بالکل غافل نہیں ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے بچانے کی تدبیر کرتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات والدین کی شفقت چاہتی ہے کہ ہو سکے تو بچہ کی مصیبت اپنے سر لے کر اس کو بچا لیں لیکن ایک ہولناک اور ہوش ربا دن آنے والا ہے جب ہر طرف نفسی نفسی ہو گی۔ اولاد اور والدین میں سے کوئی ایثار کر کے دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینے کو تیار نہ ہو گا۔ اور تیار بھی ہو تو یہ تجویز چل نہ سکے گی۔ چاہیے کہ آدمی اس دن سے ڈر کر غضب الٰہی سے بچنے کا سامان کرے۔ آج اگر سمندر کے طوفان سے بچ گئے تو کل اس سے کیونکر بچو گے۔

۲:  یعنی وہ دن یقیناً آ کر رہے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ لہٰذا دنیا کی چند روزہ بہار اور چہل پہل سے دھوکا نہ کھاؤ کہ ہمیشہ اسی طرح رہے گی۔ اور یہاں آرام سے ہو تو وہاں بھی آرام کرو گے؟ نیز اس دغا باز شیطان کے اغواء سے ہوشیار رہو جو اللہ کا نام لے کر دھوکا دیتا ہے۔ کہتا ہے میاں اللہ غفور رحیم ہے خوب گناہ سمیٹو، مزے اڑاؤ، بوڑھے ہو کر اکٹھی توبہ کر لینا۔ اللہ سب بخش دے گا۔ تقدیر میں اگر اس نے جنت لکھ دی ہے تو گناہ کتنے ہی ہوں ضرور پہنچ کر رہو گے اور دوزخ لکھی ہے تو کسی طرح بچ نہیں سکتے پھر کا ہے کے لئے دنیا کا مزہ چھوڑیں

۳۴ ۔۔۔  عنی قیامت آ کر رہے گی، کب آئے گی؟ اس کا علم خدا کے پاس ہے۔ نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے آدمی دنیا کے باغ و بہار اور وقتی تروتازگی پر ریجھتا ہے، کیا نہیں جانتا کہ علاوہ فانی ہونے کے فی الحال بھی یہ چیز اور اس کے اسباب سب خدا کے قبضہ میں ہیں۔ زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر تمہاری خوشحالی کا مدار ہے) آسمانی بارش پر موقوف ہے۔ سال دو سال مینہ نہ برسے تو ہر طرف خاک اڑنے لگے۔ نہ سامان معیشت رہیں نہ اسباب راحت، پھر تعجب ہے کہ انسان دنیا کی زینت اور تروتازگی پر فریفتہ ہو کر اس ہستی کو بھول جائے جس نے اپنی باران رحمت سے اس کو تروتازہ اور پررونق بنا رکھا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کو کیا معلوم ہے کہ دنیا کے عیش وآرام میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کر کے اور ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ لیکن زندگی بھر چین نصیب نہیں ہوتا۔ بہت ہیں جنہیں بے محنت دولت مل جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کوئی آدمی جو دین کے معاملہ میں تفدیر الٰہی پر بھروسہ کیے بیٹھا ہو، دنیاوی جدوجہد میں تقدیر پر قانع ہو کر ذرہ برابر کمی نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ تدبیر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اچھی تقدیر عموماً کامیاب تدبیر ہی کے ضمن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ علم خدا کو ہے کہ فی الواقع ہماری تقدیر کیسی ہو گی اور صحیح تدبیر بن پڑے گی یا نہیں۔ یہ ہی بات اگر ہم دین کے معاملہ میں سمجھ لیں تو شیطان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں۔ بیشک جنت دوزخ جو کچھ ملے گی تقدیر سے ملے گی جس کا علم خدا کو ہے مگر عموماً اچھی یا بری تقدیر کا حوالہ دے کر ہم تدبیر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ پتہ کسی کو نہیں کہ اللہ کے علم میں وہ سعید ہے یا شقی۔ جنتی ہے یا دوزخی، مفلس ہے یا غنی، لہٰذا ظاہری عمل اور تدبیر ہی وہ چیز ہوئی جس سے عادۃً ہم کو نوعیتِ تقدیر کا قدرے پتہ چل جاتا ہے۔ ورنہ یہ علم تو حق تعالیٰ ہی کو ہے کہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور پیدا ہونے کے بعد اس کی عمر کیا ہو۔ روزی کتنی ملے، سعید ہو یا شقی، اسی کی طرف "و یعلم ما فی الارحام" میں اشارہ کیا ہے۔ رہا شیطان کا یہ دھوکا کہ فی الحال تو دنیا کے مزے اڑالو، پھر توبہ کر کے نیک بن جانا، اس کا جواب "وما تدری نفس ماذا تکسب غدا" الخ میں دیا ہے۔ یعنی کسی کو خبر نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا؟ کب موت آ جائے گی اور کہاں آئے گی؟ پھر یہ وثوق کیسے ہو کہ آج کی بدی کا تدارک کل نیکی سے ضرور کر لے گا اور توبہ کی توفیق ضرور پائے گا؟ ان چیزوں کی خبر تو اسی علیم و خبیر کو ہے۔

 (تنبیہ) یاد رکھنا چاہیے کہ مغیبات جنس احکام سے ہوںگی یا جنس اکوان سے، پھر اکو ان غیبیہ زمانی ہیں یا مکانی، اور زمانی کی باعتبار ماضی، مستقبل حال کے تین قسمیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے احکام غیبیہ کا کلی علم پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا گیا فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول الی آخر الایہ (جن ۔ رکوع۲) جس کی جزئیات کی تفصیل و تبویب اذکیائے امت نے کی۔ اور اکوان غیبیہ کی کلیات و اصول کا علم حق تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص رکھا ہاں جزئیات منتشرہ پر بہت سے لوگوں کو حسب استعداد اطلاع دی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے بھی اتنا وافر اور عظیم الشان حصہ ملا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم اکوان غیبیہ کا علم کلی رب العزت ہی کے ساتھ مختص رہا۔ آیت ہذا میں جو پانچ چیزیں مذکور ہیں احادیث میں ان کو مفاتیح الغیب فرمایا ہے جن کا علم (یعنی علم کلی) بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ فی الحقیقت ان پانچ چیزوں میں کل اکوان غیبیہ کی انواع کی طرف اشارہ ہو گیا۔"بای ارض تموت میں غیوب مکانیہ ماذا تکسب غدا " میں زمانیہ مستقبلہ "ما فی الارحام "میں زمانیہ حالیہ اور" ینزل الغیث "میں غالباً زمانیہ ماضیہ پر تنبیہ ہے۔ یعنی بارش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لکین یہ کسی کو معلوم نہیں کہ پہلے سے کیا ایسے اسباب فراہم ہو رہے تھے کہ ٹھیک اسی وقت اسی جگہ اسی مقدار میں بارش ہوئی، ماں بچہ کو پیٹ میں لئے پھرتی ہے پر اسے پتہ نہیں کہ پیٹ میں کیا ہے۔ لڑکا یا لڑکی؟ انسان واقعات آئندہ پر حاوی ہونا چاہتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ کل میں خود کیا کام کروں گا؟ میری موت کہاں واقعہ ہو گی؟ اس جہل و بیچارگی کے باوجود تعجب ہے کہ دنیاوی زندگی پر مفتون ہو کر خالق حقیقی کو اور اس دن کو بھول جائے جب پروردگار کی عدالت میں کشاں کشاں حاضر ہونا پڑے گا۔ بہرحال ان پانچ چیزوں کے ذکر سے تمام اکوان غیبیہ کے علم کلی کی طرف اشارہ کرنا ہے حصر مقصود نہیں اور غالباً ذکر میں ان پانچ کی تخصیص اس لئے ہوئی کہ ایک سائل نے سوال انہی پانچ باتوں کی نسبت کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کمافی الحدیث۔ پہلے سورۃ انعام اور سورۃ نمل میں بھی ہم علم غیب کے متعلق کچھ لکھ چکے ہیں۔ ایک نظر ڈال لی جائے، تم سورۃ لقمان بمنہ و کرمہ،