دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ لقمَان

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۱۲ میں لقمان کو حکمت عطاء کیے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام لقمان ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ عنکبوت سے کچھ پہلے نازل ہوئی ہو گی جب کہ مشرکین اپنی اولاد کو جو مشرکانہ  مذہب پر قائم رہنے کے لیے مجبور کر رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

دین کے معاملہ میں آدمی اپنے باپ دادا کی تقلید کرنے کے بجاۓ اپنی عقل و بصیرت سے کام لے اور ان نشانیوں سے رہنمائی حاصل کرے جو اللہ  کے الٰہ واحد ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے کے بجاۓ وحی الٰہی کی روشنی قبول کر لے جو اس کی زندگی کو سنوارنے والی اور اسے کامیابی کی منزل کو پہنچانے والی ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ تمہیدی مضمون ہے جس میں قرآن کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ یہ حکمت بھری کتاب ہے جس کا اثر قبول کرنے والوں کی زندگیاں سنورتی ہیں اور وہ خداۓ واحد کے سچے پرستار اور آخرت پر یقین رکھنے والے بن جاتے ہیں۔

 

آیت ۶ تا ۱۱ میں ان لوگوں کو برے انجام سے خبردار کر دیا گیا ہے جو خدا اور  اس کی دین کے بارے میں علم کے بغیر باتیں کرتے ہیں اور خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ساتھ ہی ایمان لانے والوں اور اپنا طرز عمل درست رکھنے والوں کو حسن انجام کی بشارت دی گئی ہے۔

 

آیت ۱۲ تا ۱۹ میں لقمان کی حکیمانہ نصیحتوں اور دانشمندی کی باتوں کی پیش کیا گیا ہے جو اللہ کی عطا کردہ حکمت کے نتیجے میں ان کی زبان سے ادا ہوئی تھیں۔ یہ وہی تعلیمات ہیں جن کو قرآن پیش کر رہا ہے۔

 

آیت ۲۰ تا ۳۲ میں ان نشانیوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جن سے توحید اور آخرت کی راہ روشن ہوتی ہے۔

 

آیت ۳۳ تا ۳۴  اختتامی آیات ہیں جن میں خدا کے حضور پیشی کے دن سے ڈرایا گیا ہے اور اللہ کے علیم و خبیر ہونے کی صفت کو واضح کیا گیا ہے تاکہ آخرت کے وقوع کی جو خبر وہ دے رہا ہے اس پر یقین پیدا ہو۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ الف۔ لام۔ میم ۱ *۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ یہ حکمت بھری کتاب کی آیتیں ہیں۔ ۲ *

 

۳۔۔۔۔۔۔ ہدایت اور رحمت نیکو کاروں کے لیۓ ۳ *

 

۴۔۔۔۔۔۔ جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۴ *۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں کامیاب ہونے والے ۵ *۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو غافل کر دینے والا کلام خریدتے ہیں ۶ * تاکہ بغیر علم کے ۷ * اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) گمراہ کریں اور ان کا (آیات کا) مذاق اڑائیں۔ ایسے لوگوں کے لیۓ رسوا کن عذاب ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ ایسے شخص کو جب ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ تکبر کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گو یا کہ اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ گویا کہ اس کے کانوں میں گرانی ہے ۸ *۔ تو اسے درد ناک عذاب کی خوش خبری دے دو۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کی ۓ ان کے لیۓ نعمت بھرے باغ ہوں گے ۹ *۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا حتمی  وعدہ ہے  اور وہ غالب ہے حکمت والا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۱۰ * اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیۓ تاکہ وہ تم کو لے کر لڑھک نہ جاۓ ۱۱ *اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیۓ۔ اور آسمان سے پانی بر سایا اور زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں اگھائیں۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ یہ ہے اللہ کی تخلیق۔ اب مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے جو اس کے سوا (معبود بنا لۓ گۓ) ہیں ؟ در اصل یہ ظالم صریح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ ہم نے لقمان ۱۲ * کو حکمت عطاء کی تھی کہ اللہ کا شکر کرو ۱۳ *اور جو شکر رکتا ہے اس کا شکر کرنا اس کے اپنے ہی لیۓ مفید ہے اور جو ناشکری کرتا ہے  تو اللہ بے نیاز (بے محتاج) ہے خوبیوں والا۔ ۱۴ *

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوۓ کہا اے میرے بیٹے۔ اللہ کا شریک نہ ٹھرا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۱۵ *۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ۱۶ * انسان کو اس کے والدین کے معاملہ میں ہدایت کی۔ اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے۔ کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا ۱۷ *۔ بالآخر پلٹنا میری ہی طرف ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ۱۸ *ہے تو ان کی بات نہ مان ۱۹ * اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کر ۲۰ *اور پیروی ان کے راستہ کی کر جنہوں نے میری طرف رجوع کیا۔ ۲۱ *پھر میری ہی طرف تم کو لوٹنا ہے۔ اس وقت میں تمھیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ (اور لقمان نے کہا) اے میرے بیٹے ! کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور اگر وہ کسی چٹان یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہو تو اللہ اس کو نکال لاۓ گا۔ وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے۔ ۲۲ *

 

۱۷۔۔۔۔۔۔ اے میرے بیٹے ! نماز قائم کر ۲۳ *، بھلائی کا حکم دے، برائی سے منع کر ۲۴ *اور جو مصیبت پہنچے اس پر صبر کر ۲۵ *۔ یہ عزیمت (حوصلہ) کے کام ہیں ۲۶ *۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں سے بے رخی نہ کر ۲۷ *اور نہ زمین پر اکڑ کر چل ۲۸ * اللہ کسی خود پسند ۲۹ * اور فخر کرنے والے ۳۰ * کو پسند نہیں کرتا۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر ۳۱ * اور اپنی آواز  ذرا پست رکھ ۳۲ * سب سے زیادہ بری آواز گدھے کی آواز ہے ۳۳ *۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ تم دیکھتے نہیں ۳۴ * کہ اللہ نے ان تمام چیزوں کو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں تمہارے لیۓ مسخر کر رکھا ہے ۳۵ * اور اپنی طاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں ۳۶ * پھر بھی انسانوں میں ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں کسی علم، کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر جھگڑتے ہیں ۳۷ *۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی  کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اس طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے دادا کو پا یا ہے ۳۸ *۔ کیا اس صورت میں بھی (یہ ان کی پیروی کریں گے) جب کہ شیطان انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف بلا رہا ہو ۳۹ *؟

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص اپنے کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکو کار بھی ہو ۴۰ * تو اس نے یقیناً مضبوط سہارا تھام لیا۔ ۴۱ * اور تمام معاملات کا سر انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ جس نے کفر کیا اس کا کفر تمہارے لیۓ باعث غم نہ ہو ۴۲ *۔ انہیں پلٹ کر ہماری ہی طرف آنا ہے۔ پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کچھ کیا تھا۔ یقیناً اللہ سینوں کے راز  تک جانتا ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ ہم تھوڑے دن انہیں سامان زندگی دیں گے ۴۳ *پھر ان کو ایک اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کسی نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے اللہ نے ۴۴ * کہو حمد اللہ ہی کے لیۓ ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۴۵ *۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ بیشک اللہ بے نیاز ہے حمد کا مستحق۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جاۓ جس کو مزید سات سمندر روشنی بہم پہنچائیں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ غالب اور حکیم ہے ۴۶ *۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ تم سب کو پیدا کرنا پھر زندہ اٹھانا ۴۷* ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کو پیدا کرنا اور پھر زندہ اٹھانا۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۴۸ *

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں ۴۹ * اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک وقت مقرر تک چلا جا رہا ہے ۵۰ *۔ اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کو چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہیں ۵۱ *اور یہ کہ اللہ بلند/اعلیٰ) و بر تر (کبیر) ہے ۵۲ *۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھاۓ۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیۓ جو صبر اور شکر کرنے والا ہو ۵۳ *۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں تو وہ اللہ کا پکارتے ہیں دین (عاجز ی و بندگی) کو اس کے لیۓ خالص کرتے ہوۓ ۵۴ * پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی لوگ اعتدال پر رہتے ہیں ۵۵ * اور ہماری آیتوں کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو غدار ۵۶ * اور ناشکرے ہیں۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ لوگو! بچو اپنے رب کی نافر مانی سے اور ڈرو اس دن سے ۵۷ *  جب نہ کوئی باپ اپنی اولاد کے کام آۓ گا اور نہ کوئی اولاد اپنے باپ کے کام آۓ گی۔ ۵۸ * یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی تمھیں دھوکہ میں نہ ڈالے اور نہ فریب کا ر ۵۹ * اللہ کے معاملہ میں تمھیں دھوکہ میں رکھے ۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۶۰ *، وہی بارش برساتا ہے ۶۱ *، وہی جانتا ہے کہ رحموں (ماؤں کے شکم) میں کیا ہے ۶۲ *، کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا ۶۳ * اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا ۶۴ *۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ اور سورہ یونس نوٹ ۱ اس سورہ میں "ا" کا اشارہ آیات کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۲، ۷، ۳۱، اور ۳۲ میں ہوا ہے۔

 

"ل" کا اشارہ لقمان کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۱۱ اور  ۱۳ میں ہوا ہے۔

 

اور "م" کا اشارہ محسنین (نیکو کاروں ) کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۳، میں ہوا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ یونس نوٹ ۲۔

 

۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔محسنین (نیکو کار) سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے احکام پر ایمان رکھتے ہوۓ نہ صرف اس کے احکام کی پابندی کریں بلکہ خوبی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور اپنے عمل میں حسن پیدا کریں۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ۔ ۱۰۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ۔ ۱۱، ۱۲۔

 

۶ ۔۔۔۔۔۔۔لَھْوالحدیث (غافل کر دینے والا کلام) سے مراد جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے خدا اور آخرت سے غافل کر دینے والا اور اس کی نشانیوں اور اس کی نازل کردہ آیتوں سے توجہ ہٹا دینے والا کلام ہے۔ اور اس کو خریدنے کا مطلب اس کو قبول کرنا اور اختیار کرنا ہے چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے :

 

اَولٰئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَو ا الضَّلَا لَۃً بِالْھُدیٰ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُھُمْ وَمَا کَا نُوْ ا مُھْتَدِیْن۔ (سورہ بقرہ : ۱۶)

 

" یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ گمراہی مول لی تو نہ ان کا سودا نفع بخش ہوا اور نہ وہ ہدایت پا سکے"۔

 

یعنی ہدایت کو انہوں نے ترک کیا اور اس کے بدلے میں گمراہی اختیار کر لی۔ قرآن کے مقابلہ میں وہ جس چیز کو اپنا مشغلہ اور لوگوں کی گمراہی کا سامان  بناۓ ہوۓ تھے وہ دنیا کے عیش و عشرت پر آمادہ کرنے والی اور عشق و محبت کی آگ بھڑکانے والی شاعری (اَلشُّعَراءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوُون۔ سورہ شعراء ۲۲۴۰) فضول قصہ گوئی (سَامِراً تَھْجُرُوْن۔ سورۂ مومنون : ۲۷ ) اور گانا جو پیشہ ور  لونڈیاں گاتی تھیں۔ لھوا لحدیث میں یہ تینوں ہی چیزیں شامل ہیں کیونکہ یہ سب خدا اور آخرت سے غافل کر دینے والی باتیں ہیں۔ اور قرآن اور گانا تو بالکل ایک دوسرے کے مقابل کی چیزیں ہیں چنانچہ جو لوگ گانے کے شیدائی ہوتے ہیں انہیں قرآن سننے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی حالانکہ قرآن میں ایسی حلاوت (شیرینی) ہے کہ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی اور اس کی سماعت سے ایسا سوز اور ایسی رقت پیدا ہو جاتی ہے کہ روح بلندی کی طرف پرواز کرنے لگتی ہے مگر اس لذت سے وہی لوگ آشنا ہوتے ہیں جو قرآن سے شغف رکھتے ہیں۔ جمہور مفسرین نے لھْو الحدیث سے گانا  ہی مراد لیا ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اس سے مراد غِناء یعنی گانا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں الغِناء و اَشْیَا ھہ (تفسیر طبری، ج ۲۱ ص، ۳۹۔ ۴۰ ) لھو الحدیث گانا اور اس جیسی چیزیں ہیں "۔ ان کے علاوہ دیگر صحابہ و تابعین سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ موجودہ زمانہ میں تو گانے بجانے نے وبا کی شکل اختیار کر لی ہے کہاں حیاء داری کے بارے میں اسلام کی یہ تعلیم کہ عورتیں لوچ کے ساتھ مردوں سے بات نہ کریں : فَلَا تَخْضَعْنَ فِی الْقَوْلِ سورہ احزاب ۳۲) اور نہ اس طرح چلیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار لوگوں کو سنائی دے (ولا یَضْرِبْنَ بِاَرْ جُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ  مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔ سورہ نور : ۳۱ ) اور کہاں عورتوں کا پورے تبرج جاہلیہ کے ساتھ مردوں کے سامنے آ کر رقص و سرود کرنا اور مردوں کا آلات لہو کے ساتھ فحش اور بیہودہ کانے گانا ! پھر جدید ذرائع ابلاغ سینما، ریڈیو، ٹیلیویژن اور ویڈیو وغیرہ نے تو لوگوں کو بری طرح مسحور کر دیا ہے اور ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ ہر گھر سینما گھر بن گیا ہے اور بچہ بچہ کی زبان پر فلمی گانے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرم و حیاء اٹھ گئی اور شرم و حیا کے اٹھ جانے سے زنا کاری عام ہو گئی ہے اور عصمتیں محفوظ نہیں رہیں۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ سنجیدگی اور وقار لوگوں کے اندر سے رخصت ہوا اور وہ اوچھی حرکتیں کرنے لگے، اس کا تیسرا نقصان یہ ہو کہ احساس ذمہ داری بری رح مجروح ہو گیا اور بے پرواہی نے اس کی جگہ لے لی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آدمی اپنے مقصد حیات کی طرف سے غافل ہو گیا۔ اب نہ وہ خدا کا کلام سننے سمجھنے کے لیے تیار ہے اور نہ تذکیر و نصیحت کی کوئی بات۔ وہ بری طرح دنیا پرستی میں مگن ہے اور واقعہ یہ ہے کہ گانے کی مد ہوشی شراب کی مد ہوشی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر لوگ قرآن کو گوش دل سے سنتے تو ہوش میں آتے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کلام خدا اور آخرت سے غافل کر دینے والا ہو اس کا حقیقی علم سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا وہ جہالت اور جاہلیت ہی کی پیداوار ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۴۴۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جنہوں نے اپنا وقت گانے  بجانے، ڈھول ڈھمکا سننے اور خرافات میں صرف کرنے کے بجاۓ ایمان کی دولت کو سمیٹنے اور اپنے کو نیک اعمال سے سنوارنے میں صرف کیا انہیں آخرت میں ایسے باغ عطا کیے جائیں گے جہاں وہ نعمتوں سے مالا مال ہوں گے۔

 

۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۵۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نحل نوٹ ۲۶۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ لقمان عرب کی وہ شخصیت ہے جو حکیم اور دانا کی حیثیت سے مشہور تھی۔ ان کا ذکر شعراۓ عرب کے کلام میں ملتا ہے مگر  چونکہ عربوں میں تاریخ نگاری کا رواج نہیں تھا اس لیے لقمان کے حالات منضبط نہ ہو سکے۔ رہیں روایات تو ان میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں اس لیے ہمیں قرآن کے ہی بیان پر اکتفا کرنا چاہیے۔ قرآن کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ :

 

۱)۔ لقمان اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔

 

۲)۔ اللہ نے ان کو حکمت و دانائی عطا فرمائی تھی۔

 

۳)۔ ان کی نظر میں شرک سب سے بڑا ظلم تھا۔

 

۴)۔ انہیں اللہ کے کمال علم اور کمال قدرت پر یقین تھا نیز وہ جزاۓ عمل پر یقین رکھتے تھے۔

 

۵)۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں وہ نہایت زرین نصیحتیں تھیں اور یہ در حقیقت عربوں کے لیے قیمتی اثاثہ تھا اور اب قرآن نے اس متاعِ عزیز کی افادیت عام کر دی ہے۔

 

۶)۔ لقمان کی نصیحتوں میں نماز قائم کرنے کی ہدایت بھی شامل ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لقمان کی یہ نصیحتیں انبیائی تعلیم سے ماخوذ تھیں نہ کہ مجرد تعقل (عقلیت ) کا نتیجہ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی تھی اس لیے انہوں نے انبیائی تعلیم کو اپنے اندر جذب کیا اور مؤثر پیا یہ میں بیان بھی کیا۔

 

حکمت سے مراد وہ فہم ہے جو عقیدہ و عمل کے لیے حق و عدل کو بنیاد بناتا ہے۔ حضرت لقمان اس فہم سے نوازے گۓ تھے اس لیے ان کی زبان سے دانشمندی کی باتیں ادا ہوئیں۔ اس سے ان عربوں کو جو قرآن کے اولین مخاطب تھے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمہارے ہی اسلاف میں لقمان جیسی دانا شخصیت بھی رہی ہے جس کے  تم خود معترف ہو۔ اس نے بھی وہی تعلیم دی تھی جو آج قرآن دے رہا ہے پھر تم اپنے اس سلف صالح کی پیروی کیوں نہیں کرتے اور اپنے گمراہ آبا و اجداد کی پیروی ہی پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سب سے بڑی حکمت و دانشمندی یہی ہے کہ آدمی اللہ کا شکر گزار بنے۔ شکر یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا دل سے اعتراف کرے، زبان سے اس کا اقرار کرے اور اپنے رویہ کو اس کے مطابق بنا لے۔ پھر علم، فہم اور دانائی بہت بڑا خیر ہے اور جس کو یہ حاصل ہو اس کو اس کی پوری قدر کرنا چاہیے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی کے شکر گزار بننے سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور نہ اس کی ناشکری کرنے سے اللہ کا کوئی نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ نہ کسی چیز کا حاجتمند ہے اور نہ اس کا لائق تعریف ہونا تمہارے تعریف کرنے پر منحصر ہے بلیہ وہ صفات حمیدہ(خوبیوں ) سے متصف ہے اس لیے مستحق تعریف ہے خواہ کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ البتہ جو شخص اس کا شکر بجا لاتا اور اس کی حمد کرتا ہے وہ اپنے فرض کو ادا کرتا ہے اور اس بنا پر وہ اپنی ہی کامیابی کا سامان کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے وہ اپنی فرض ناشناسی کا ثبوت دیتا ہے اور اپنے کو ہلاکت کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ یہ اس عدل کے خلاف ہے جس پر زمین و آسمان قائم ہیں نیز یہ اللہ کے معاملہ میں حق ہے جب کہ شرک کرنے والا غیر اللہ کو بھی اس کا مستحق ٹھہراتا ہے علاوہ ازیں شرک کا مرتکب سخت گناہ کا ارتکاب کے اپنے نفس پر زبردست ظلم ڈھاتا ہے۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۱۴۷۔

 

لقمان نے اپنے بیٹے کو شرک سے بچنے کی جو تاکید کی اس سے یہ گمان کرنا صحیح نہیں کہ بیٹا مشرک تھا کیونکہ آگے جو نصیحتیں بیان ہوئی ہیں جن میں نماز قائم کرنے کی ہدایت بھی شامل ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ مسلم تھا اور حضرت لقمان نے اس میں صحیح دینی شعور پیدا کرنے اور اس کے عقیدہ کو پختہ کرنے کے لیے شرک سے بچنے کی تاکید کی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک باپ اپنی اولاد کو سب سے پہلے ایسی تعلیم دے جو اس کو شرک سے باز رکھنے والی عقیدۂ توحید کو اس کے ذہن میں راسخ کرنے والی ہو۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس کے بعد والی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے اور لقمان کے بیان پر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوۓ مناسب نہیں سمجھا ہو گا کہ والد خود اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ محسن سلوک کی نصیحت کرے لیکن چونکہ ایک اہم بات تھی جو ان کی نصیحتوں میں شامل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے اللہ  تعالیٰ نے خود بیان فرما کر اس کمی کو پورا کر دیا۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں چونکہ تکلیف پر تکلیف جھیلتی ہے اس لیے وہ حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے حدیث میں آتا ہے :

 

جاءَ رجلٌ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقال یا رسول َاللہِ مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَبتی ؟ قال اُمُّکَ، قال ثُمَّ مَنْ ؟ قال اَمّکَ، قالَثُمَّ مَنْ  قال ثُمَّ اَبُوکَ (صحیح بخاری کتاب الادب)۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میرے حسن سلوک کا  سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا پھر تمہارا باپ"۔

 

آیت میں والدین کا شکر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جب کہ دوسرے مقامات پر حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اس طور سے مطلوب ہے کہ ان کے ساتھ جذباتی لگاؤ بھی ہو اور زبان سے ان کے حق میں خیر کے کلمات ہی نکلیں۔ مگر اللہ کا شکر والدین کے شکر پر مقدم ہے جیسا کہ آیت سے واضح ہے۔

 

۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت نوٹ۔ ۱۰۔

 

۱۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت نوٹ۔ ۱۱

 

۲۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہاں "دنیا" سے مراد مباحات (جائز باتوں ) کا وہ دائرہ ہے جس میں شریعت نے معاملات کی آزادی دی ہے۔ اگر والدین غیر مسلم اور کافر ہوں تو ان کے ساتھ بھی یہ معاملات انجام دیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو۔

 

۲۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔یعنی دین کے معاملہ میں پیروی ماں باپ کی نہیں کرنا ہے کہ ان کا جو بھی مذہب ہے بیٹا اسی مذہب کا پیرو بن جاۓ بلکہ دین کی حقیقت اللہ کی طرف رجوع ہے اس لیے ان ہی لوگوں کی راہ پر چلنا چاہیے جنہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا تھا اور وہ ہے انبیاء علیہم السلام کی راہ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ایسا باریک بین اور باخبر ہے کہ اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز کسی چٹان کے نیچے یا آسمان و زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو تو وہ اس پر بالکل عیاں ہے اور جب چاہے گا وہ اس کو باہر نکال لاۓ گا اور جب اس کے علم اور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں تو انسان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی اس سے مخفی نہیں رہ سکتا اور قیامت کے  دن وہ ضرور اسے لا حاضر  کر دے گا۔ سورہ زلزال میں ارشاد ہوا ہے۔

 

فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ یَرَہٗ (زلزال : ۷۔ ۸)

 

" جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی اس کو وہ دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں نماز قائم کرنا انبیائی تعلیمات میں سے ہے۔ لقمان کی حکیمانہ باتیں انبیائی تعلیم ہی سے ماخوذ تھیں۔ اس لیے اقامت صلوٰۃ کی ہدایت بھی اس میں شامل تھی۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے نہ کہ صرف علماء کی ذمہ داری۔ رہا اس فریضہ کی ادائیگی کا طریقہ تو اس کا تعلق آدمی کی اپنی استطاعت، صلاحیت اور حالات سے ہے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا اس کو مخالفت کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ لوگ عام طور سے اصلاح کو قبول کرنے کے لیے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے اور اصلاح کی کوشش کرنے والے کو اذیت اور تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس لیے اس راہ میں قدم قدم پر صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کام چونکہ کٹھن ہے اس لیے ان کو انجام دینے کے لیے حوصلہ کی ضرورت ہے۔ اگر آدمی میں حوصلہ ہو تو وہ آتش نمرود میں بھی بے خطر کود پڑتا ہے اور اگر حوصلہ نہ ہو تو معمولی خدشات کی بنا پر کلمہ حق زبان سے نکالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ انسان کا عزم لوہے کی زنجیروں کو کاٹ دیتا ہے اور اس کی پست حوصلگی اس کو زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے بے رخی تکبر کی علامت ہے۔ آدمی میں جب احساس برتری پیدا ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں کو خاطر میں نہیں لاتا یہ بہت بری بد اخلاقی ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نبی اسرائیل نوٹ ۵۰۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ "مختال" کے معنی ہیں متکبر اور خود پسند۔ خود پسندی (عُجْب ) دولت، اقتدار، قیادت، علم اور ہنر وغیرہ کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور آدمی متکبرانہ انداز اختیار کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کی چال ڈھال بھی متکبرانہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے حدیث میں تکبر کے ساتھ کپڑا گھسیٹتے ہوۓ چلنے پر سخت و عید آئی ہے۔ :

 

مَنْ جَرَّ ثَوْبَہٗ مَخیلۃ لَمْ یَنْظُرِاللہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (صحیح البخاری کتاب اللباس) " جو تکبر سے اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوۓ چلے گا اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔ "

 

یہ بادشاہوں اور گھمنڈ کرنے والوں کا طریقہ ہے کہ عبا وغیرہ کو زمین پر گھسیٹتے ہوۓ چلیں۔ اگر پاجامہ پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو وہ بھی آدمی میں گھمنڈ پیدا کرتی ہے۔ اس لیے شریعت نے یہ حد مقرر کر دی ہے کہ کپڑا ٹکنوں تک ہو اس سے نیچے نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

 

مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَار ففی النَّار۔ (مشکوٰۃ کتاب اللباس بروایۃ البخاری)

 

اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آدمی ایسا لباس نہ پہنے جس سے گھمنڈ کا اظہار ہوتا ہو۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ "فَخور" (فخر کرنے والا )  جو اپنی بڑائی کا اظہار دوسروں پر کرے۔ جو لوگ کم ظرف ہوتے ہیں وہی اپنے کارنامے دوسروں کے سامنے گناتے رہتے ہیں وہی اپنے کارنامے دوسروں کے سامنے گناتے رہتے ہیں تکہ ان سے داد حاصل کریں ایک مذموم خصلت ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ چال میں میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چال پر وقار ہو۔ آدمی نہ سست روی کا نمائشی انداز اختیار کرے اور نہ ایسی تیز روی جس سے بے وقری ظاہر ہوتی ہو۔

 

حدیث میں نماز کے لیے بھی دوڑنے سے منع کیا گیا ہے کہ بے وقری کا مظاہرہ نہ ہو :

 

اِذا سَمِعْتُمُ الْاِقا مَۃَ فامْشُوا اِلی الصَّلوٰۃِ وَ عَلَیْکُمُ السَّکِیْنۃَ وَالْوقارَ وَلَا تُسرِعُو ا فَمَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فا تَکُمْ  فَاَتِّمّوا۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان)"جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے سکون اور وقار کے ساتھ چلو۔ دوڑو مت۔ پھر جس قدر نماز مل جاۓ اس کو پورا کر لو"۔

 

یہ بات اخلاقی پہلو سے ہے یعنی چال میں میانہ روی آدمی کی خصلت ہو ورنہ ضرورۃً آدمی دوڑ بھی سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آگ کو بجھانے کے لیے یا کسی کی جان کو بچانے کے لیے یا مجرم کو پکڑنے کے لیے وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فرقان نوٹ۔ ۹۱۔

 

اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ رقص (ناچ) ایک قبیح (بری) حرکت ہے کیونکہ یہ میانہ روی کے بالکل منافی ہے اور بے وقری کا کھلا مظاہرہ ہے خواہ رقص عورت کو ہو یا مرد کا اور خواہ وہ فحش گانوں کے ساتھ ہو یا قوالی کے ساتھ یا وجد کی حالت میں۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بول چال میں اپنی آواز قدرے کم رکھو۔ بلند آواز سے بولنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے بلکہ ناسمجھی کی علامت ہے اور چیخ چیخ کر بولنے سے تو جھگڑالو پن اور تکبر کا اظہار ہوتا ہے۔ آواز میں کسی قدر پستی ایک اچھی صفت ہے جو اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔

 

آواز میں پستی بھی ایک خصلت کے طور پر مطلوب ہے ورنہ ضرورۃً آواز بلند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مثلاً تقریر، اعلان یا اذان وغیرہ کے لیے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ بھونڈی اور کرخت آواز کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر اس سے نفرت دلائی گئی ہے۔ گدھے کی آواز سننا کوئی بھی پسند نہیں کرتا پھر انسان جو اپنا ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے گدھے کی طرح کیوں چیخے۔

 

واضح رہے کہ اسلام میں ظاہر اور باطن دونوں کی اہمیت ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اچھی خصلتیں جو انسان کے ظاہر (اعضاء و جوارح) سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً آواز میں پستی، غض بصر، میانہ روی وغیرہ اس کے باطن میں اچھے جذبات کی پرورش اور اچھی کیفیات پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور بری خصلتیں برے جذبات کو پختہ کرنے اور بری کیفیات پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ اوصاف جو باطن سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً خلوص، محبت، ہمدردی وغیرہ برا کردار پیدا کرتے ہیں۔

 

۳۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔لقمان کی نصیحتیں اوپر ختم ہو گئیں۔ اب پھر کلام کا رخ توحید کی طرف مڑ جاتا ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تسخیر کے معنی تابع کر دینے کے بھی ہیں اور خدمت میں لگانے کے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی ہی چیزیں انسان کے تابع کر دی ہیں کہ وہ جس طرح چاہے ان سے خدمت لے مثال کے طور پر جانور جن سے وہ اپنی مرضی کے مطابق خدمت لیتا ہے اور ان کو ذبح بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح نباتات اور جمادات کہ ان کو مختلف طریقوں سے استعمال میں لاتا ہے۔ لیکن بہت سی چیزیں خاص طور سے اجرام سماوی جو انسان کی دسترس میں نہیں ہیں انسان کو کسی نہ کسی طرح فائدہ پہنچانے کا سامان کر رہی ہیں مثال کے طور پر سورج جو  دن رات انسان کو حرارت اور روشنی پہنچانے کے کام میں لگا ہوا ہے اور فضاۓ بسیط میں کائناتی شعاعوں (Cosmic Rays)  کا وجود جو حال ہی کی دریافت ہے اور ہم نہیں جانتے کہ سات آسمان ہمارے لیے کیا کیا خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ اجرام سماوی انسان کے فائدہ کے لیے طرح طرح کے سامان کر رہے ہیں۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہری نعمتوں سے مراد محسوس اور معلوم نعمتیں ہیں اور باطنی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں جن کا فائدہ تو اسے پہنچ رہا ہے لیکن وہ اس کے علم میں نہیں ہیں۔ موجودہ دور میں میڈیکل سائنس نے ایسی کتنی چیزوں کا انکشاف کیا ہے جو انسانی جسم کے اندر مفید خدمات انجام دیتی ہیں، امراض کے خلاف مدافعت کرتی ہیں اور نشو و نما میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ اور اس قسم کی کتنی ہی چیزیں پہلے مخفی تھیں اور اب سائنس کی ترقی کی بدولت انسان کے علم میں آ گئیں۔ اور بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہے۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نعمتوں کے حاصل ہو جانے پر جن کا ذکر اوپر ہوا چاہیے تو یہ تھا کہ انسان اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا لیکن کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے ناشکرے بنتے ہیں اور اس کے محسن حقیقی اور الٰہ واحد ہونے کے بارے میں بحثیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ یہ بحثیں نہ علم کی بنیاد پر ہوتی ہیں نہ ہدایت کی اور نہ ہی کسی روشن کتاب کی بنیاد پر بلکہ محض جہالت اور وہم پرسی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔

 

علم کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حج نوٹ ۵۔

 

ہدایت سے یہاں مراد توحید کی وہ نشانیاں ہیں جو انسان کے اپنے وجود میں نیز باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور خاص طور سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے حاصل ہونے والی رہنمائی بھی۔

 

اور کتاب منیر (روشن کتاب) سے مراد وحی الٰہی کے ذریعہ نازل شدہ کتاب ہے۔ منیر (روشن) کی صفت ظاہر کرتی ہے کہ وہ کتاب صحیح شکل میں موجود ہو ورنہ تحریف شدہ کتاب ہدایت کی راہ پوری طرح روشن نہیں کر سکتی چنانچہ موجودہ تورات، انجیل پر جو بائیبل میں درج ہیں منیر (روشن) کی صفت صادق نہیں آتی۔ اور جہاں تک وید اور گیتا کا تعلق ہے ان کتابوں میں اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور وید کے بارے میں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا پیش کرنے والا یا مرتب کون تھا۔ پھر ان کتابوں کے مضامین بھی ان کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت نہیں دیتے لہٰذا وہ قابل حجت نہیں ہیں۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ بالفاظ دیگر ہم اپنے آبائی مذہب اور قومی مذہبی کلچر پر قائم رہیں گے۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا اور مذہب کے معاملہ میں وحی الٰہی کو چھوڑ کر گمراہ آباء  و اجداد یا مشرکانہ قومی کلچر کی پیروی کرنا شیطان کی دعوت کو قبول کرنا ہے کیونکہ شیطان جہنم کی طرف بلاتا ہے اور یہ راہ جہنم ہی کی راہ ہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ اسلام کی  حقیقت یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اپنے کو اللہ کے حوالے کر دے اور اپنی عملی زندگی میں حسن و خوبی پیدا کرے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ العُوۃُ الوُثقٰی (مضبوط سہارا) سے مراد اللہ کا دین ہے جو اللہ سے تعلق مضبوط کرتا ہے۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تم نے ان کی پوری پوری خیر خواہی کی اور ان کو سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس کے باوجود اگر وہ اپنے کفر پر جمے ہوۓ ہیں تو تم ان کا غم کیوں کرو۔ وہ اپنے کیے کو پہنچ کر رہیں گے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو مہلت انہیں دنیا سے فائدہ اٹھانے کی مل رہی ہے وہ بہت تھوڑی ہے۔ عنقریب انہیں یہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے رخصت ہونا ہو گا۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین عرب اللہ ہی کو خالق مانتے تھے۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب کائنات کا خالق اللہ ہے تو شکر اور تعریف کا مستحق بھی اللہ ہی ہے مگر اتنی موٹی بات بھی اکثر لوگ نہیں جانتے اور اسی بنا پر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین پر جتنے درخت ہیں ان سب کے اگر قلم بناۓ جائیں اور سمندر کو روشنائی بنا لیا جاۓ اور سات اور سمندروں کا اس پر اضافہ کیا جاۓ تو بھی اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کی باتوں کو لکنے کے لیے یہ سب ناکافی ہو جاۓ۔ ظاہر ہے ایک ایک ذرہ نے ابتداۓ آفرینش سے جو کام انجام دیے ہیں ان کو قلم بند کرنے کے لیے روشنائی کا یہ ذخیرہ ہر گز کافی نہیں ہو سکتا۔ مگر اللہ کا علم اتنا وسیع ہے کہ وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوۓ ہے۔ اگر انسان اس کی عظمت کا صحیح تصور کر لے تو ان باتوں کو قبول کرنے میں  اسے ذرا بھی تامل نہیں ہو گا جن کو قرآن پیش کر رہا ہے۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ کہف نوٹ ۱۳۳۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے لیے بے شمار انسانوں کو پیدا کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ ایک انسان کو پیدا کرنا۔ اسی طرح تمام انسانوں کو دو بارہ زندہ کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ ایک انسان کو دوبارہ زندہ کرنا۔ اس کے حکم کُنْ سے مُردے کیوں نہ جی اٹھیں گے ؟

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جب وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے تو وہ تمہارے اچھے عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا کیسے نہیں دے گا۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ آل عمران نوٹ ۳۹۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۸۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سورج اور چاند اس لیے مسخر ہیں کہ اللہ نے انکو مسخر کر رکھا ہے۔ اگر یہ خدا ہوتے تو مسخر نہیں ہو سکتے تھے اور اگر متعدد خدا ہوتے تو کائنات کا یہ نظام اس با قاعدگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔  اس لیے یہ واضح دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے اور اس کے سوا کسی بھی خدا کا کوئی وجود نہیں اس لیے یہ مشرکین جس چیز کو بھی معبود سمجھ کر پکارتے ہیں وہ سراسر خلاف حقیقت ہے۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی شان بہت بلند ہے اور کبریائی اس کے لیے ہے۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ رعد نوٹ ۲۵۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ آدمی جب کشتی میں سوار ہوتا ہے تو وہ خطرات سے گھرا ہوتا ہے۔ پھر اگر کشتی طوفان سے دوچار ہو جاتی ہے تو وہ شدید خطرہ محسوس کرنے لگتا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ زندگی خطرات سے گھری ہوئی ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو خطرات کے درمیان سے انسان کو صحیح سلامت گزارتا ہے۔ مگر یہ رہنمائی وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو خطرات اور مصیبت میں صبر کا دامن تھامے رہتے ہیں یعنی جو حق کو پا لینے اور اس پر قائم رہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

 

دوسرے پہلو سے دیکھیے تو کشتی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ انسان کشتی اور جہاز کے ذریعہ طرح طرح کے فوائد حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح جب کشتی طوفان سے صحیح سلامت نکل جاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہوتا ہے مگر اس کی طرف متوجہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو احسان شناس ہوں اور اپنے رب کے شکر گزار رہنا چاہتے ہوں۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ یونس نوٹ ۴۲۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کم ہی لوگ اس بات پر قائم رہتے ہیں کہ اللہ کو پکاریں عاجزی و بندگی کو اس کے لیے خالص کرتے ہوۓ ورنہ زیادہ تر لوگ اپنے عہد سے پھر جاتے ہیں۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ختّار (غدار) یعنی بد عہدی کرنے والا اللہ کے عہد بندگی کو توڑنے والا۔ آیت کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ کشتی کے طوفان میں گھر جانے پر تو خدا یاد آگیا تھا اور اس سے عاجزانہ دعا کر کے اس کی بندگی کا اقرار کیا تھا لیکن جب وہ ان لوگوں کو طوفان کی زد سے بچا کر خشکی پر صحیح سلامت لے آیا تو وہ اپنے اس اقرار سے پھر گۓ اور اس کی آیتوں کا انکار کرنے لگے۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن کی پیشی سے جب ہر شخص کو اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہو گی۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب نہ باپ بیٹے کے کام آۓ گا اور نہ بیٹا باپ کے تو ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر کرنا چاہیے۔ اسے یہ سوچنا چاہیے کہ کس عقیدہ و دین کو اپنا کر میں اخروی عذاب سے بچ سکتا ہوں اور ابدی کامیابی حاصل کر سکتا ہوں۔ مگر صورت حال عجیب ہے۔ اولاد اسی دھرم پر قائم رہتی ہے جو ان کے ماں باپ کا دھرم ہوتا ہے حالانکہ یہ دھرم باطل ہونے کی بنا پر ماں باپ کو جہنم میں لے جانے والا ہوتا ہے اور اولاد کو بھی۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد شیطان ہے جو اللہ کے معاملہ میں سب سے بڑا دھوکہ باز ہے۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کی گھڑی کب آۓ گی کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اس کی حکمت اسی بات کی متقاضی ہوئی کہ وہ اس کے وقت کو کسی پر ظاہر نہ کرے اس لیے اس بارے میں نبی سے سوال کرنا یا اس بحث میں پڑنا بے سود ہے۔ اس بحث میں پڑنے کے بجاۓ آدمی کو چاہیے کہ اس کے لیے تیاری کرے کیوں کہ قیامت بہر حال اپنے وقت پر آ کر رہے گی۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ اپنے منصوبہ کے مطابق بارش برساتا ہے اس لیے اس بات کا علم کہ کب اورت کہاں کتنی بارش ہو گی اللہ ہی کو ہے۔ انسان اپنے تجربات کی بنیاد پر جو اندازے مقرر کرتا ہے وہ صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔ موجودہ زمانہ میں محکمہ موسمیات کی پیش قیاسیاں بھی لازماً صحیح نہیں ہوتیں نیز اس کا دائرہ بھی محدود ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ امسال سیلاب آۓ گا یا خشک سالی ہو گی۔ یہ ساری باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رحم مادر میں جو جنین  (Foetus) پرورش پا رہا ہوتا ہے اس کا پورا پورا علم اللہ ہی کو ہے وہی جانتا ہے کہ اسقاط ہو کر یہ ضائع ہو گا یا صحیح الم بچہ پیدا ہو گا، اس کا مزاج اور اس کی طبعی خصوصیت کیا ہوں گی، وہ کن صلاحیتوں کا حامل ہو گا اور اس کی قوت کار کر دگی کیا رہے گی۔ جنین کے بارے میں یہ اور اس طرح کی دوسری بہت سی باتیں اللہ ہی جانتا ہے اور کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں عورت کے رحم میں افلاطون جیسی شخصیت پرورش پا رہی ہے یا اقبال جیسی شخصیت نے جنم لیا ہے اور نہ وہیہ جانتا ہے کہیہ بچہ آگے جا کر خیر کے کام انجام دینے والا ہے یا شر کے۔ اللہ جو اس کی تخلیق کرتا ہے اس کے لیے ایک منصوبہ(تقدیر) بھی بنا تا ہے اور وہی اس بات کا پورا پورا علم رکھتا ہے کہ رحم مادر میں کس نوعیت کی چیز وجود میں آئی ہے اور وہ آگے جا کر کیا بننے والی ہے۔

 

موجودہ دور میں سائنس کی ترقی سے انسان کے لیے جاننا ممکن ہو گیا ہے کہ شکم مادر میں جو جنین پرورش پا رہا ہے اس کی جنس کیا ہے یعنی وہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ مگر اس جزوی علم سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی جو آیت کے اس فقرہ میں ارشاد ہوئی ہے اور جس کی وضاحت ہم نے اوپر کر دی ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس فقرہ کے مفہوم کو جنین کی صرف جنس (Sex)  جاننے کی حد تک محدود سمجھ لیا جاۓ جب کہ جنس (Sex) کا علم بھی انسان کو حمل کے ابتدائی مرحلہ میں نہیں ہوتا بلکہ چار پانچ ماہ بعد فلوئیڈ ٹیسٹ (Amniocentesis Test) یا سونو گرافی ) (Sonography کے ذریعہ ہوتا ہے۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کمائی سے مراد محض کسب معاش نہیں ہے بلکہ اچھے برے اعمال بھی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا حالات پیش آنے والے ہیں، اس کا امتحان کن باتوں میں ہو گا اور وہ خیر حاصل کرے گا یا شر۔ غرضیکہ رزق کا حصول ہو یا خیر و شر کا انسان کی لا علمی کا یہ حال ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کل اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ مگر اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ آدمی جہاں رہتا ہے وہیں مرے بلکہ ایسے کتنے واقعات پیش آتے ہیں کہ آدمی کسی کام سے دور دراز کے علاقہ یا ملک میں چلا گیا اور وہیں اس کی موت واقع ہو گئی اور پہلے یہ بات اس کے گمان میں بھی نہیں تھی کہ اس کو فلاں ضرورت سے فلاں سر زمین کا سفر کرنا ہو گا اور وہاں اس کی موت واقع ہو گی۔ وہ اللہ ہی ہے جو ہر ہر شخص کے موت کے وقت کو بھی جانتا ہے اور اس بات کو بھی کہ اس کو کس سرزمین میں مرنا ہے۔

 

آیت کا منشا یہ واضح کرنا ہے کہ کتنی ہی قریبی چیزیں ہیں جن سے انسانوں کو سابقہ پڑتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا  کہ کب کیا چیز وقوع میں آنے والی ہے اور اس کے اس نہ جاننے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ چیز وقوع میں آنے والی نہیں ہے بلکہ اس کی لا علمی کے باوجود یہ سب باتیں اپنے وقت پر وقوع میں آتی ہیں پھر اگر قیامت کے وقوع کی نفی کہاں ہوتی ہے ؟ وہ وقت مقرر پر اسی طرح وقوع میں آۓ گی جس طرح دوسری چیزیں باوجود انسان کی لا علمی کے وقوع میں آتی ہیں۔

 

حدیث میں ان پانچ چیزوں کو جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے مفاتیح الغیب (غیب کی کنجیاں ) کہا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر) یعنی علمِ غیب کے یہ دروازے ہیں جن کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں۔

 

***