آیت ۱۵ کے فقرے لقد کان لسبا فی مسکنھم آیۃ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں سبا کا ذکر آیا ہے۔
اس کے نزول کا ٹھیک زمانہ کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یا تو مکہ کا دورِ متوسط ہے یا دور اول۔ اور اگر دورِ متوسط ہے تو غالباً اس کا ابتدائی زمانہ ہے جبکہ ظلم و ستم کی شدت شروع نہ ہوئی تھی اور ابھی صرف تضحیک استہزاء، افواہی جنگ، جھوٹے الزامات اور وسوسہ اندازیوں سے اسلام کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
اس سورۂ میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت ِ توحید و آخرت پر اور خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر زیادہ تر طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔ ان اعتراضات کا جواب کہیں تو ان کو نقل کر کے دیا گیا ہے، اور کہیں تقریر سے خود یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کس اعتراض کا جواب ہے۔ جوابات اکثر و بیشتر تفہیم و تذکیر اور استدلال کے انداز میں ہیں، لیکن کہیں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی کے بُرے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ اسی سلسلہ میں حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور قومِ سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ تمہارے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور وہ شوکت و حشمت عطا کی جو پہلے کم ہی کسی کو ملی ہے، مگر یہ سب کچھ پاکر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے اس کے شکر گذار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھ کر خود رائے قائم کر لو کہ توحید و آخرت کے یقین اور شکر نعمت کے جذبے سے جو زندگی بنتی ہے وہ زیادہ بہتر یا وہ زندگی جو کفر و شرک اور انکارِ آخرت اور دنیا پرستی کی بنیاد پر بنتی ہے۔
۱۔ حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا۔
۲۔ یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی۔
۳۔ یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، کیا اس کی ضروریات ہیں، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرّے کی حالت پوری طرح معلوم ہے۔
۴۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا، اس کا رزق بند کر دینا، اس کے جسم کو مفلوج کر دینا اس کو آناً فاناً ہلاک کر دینا، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نا فرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے، اس جب وہ باز آ جائیں، معاف کر دیتا ہے۔
۵۔ یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چند را چَندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی۔
۶۔ پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کی لیے ’’ عالم الغیب‘‘ کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہو ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ و الا عراف، ۱۸۷۔ طٰہٰ، ۱۵۔ لقمان ۳۴۔ الاحزاب، ۶۳۔ الملک، ۲۵۔ ۲۶۔ النازعات، ۴۲ یا ۴۴۔
۷۔ یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر۷ میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور کن کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں۔ اس سبہ کو یہ کہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔
۸۔ اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پاے۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج بھی نکل آتے ہیں، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے۔ اس کا آنا نہیں آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہا یمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قوم کا عذاب ہے۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہو گیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پاے مگر مغفرت س محروم نہ رہے گا اور جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عند و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچ گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے۔
۹۔ یعنی یہ معاندین تمہارے پیش کردہ حق کو باطل ثابت کرنے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگائیں، ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان کی باتوں وہ جہلا ہی کو دھوکا دے سکتا ہیں۔ علم رکھنے والے لوگ ان کے فریب میں نہیں آتے۔
۱۰۔ قریش کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو (معاذ اللہ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے، یا پھر یہ منون ہے۔ لیکن یہ مجنون والی بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے۔
۱۱۔ یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نادانو، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے۔
۱۲۔ یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مری ہوے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہو اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین، ہوا اور پانے میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید ا امکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔
۱۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑ ا جا سکتا ہے، سراسر ایک لغو بات ہے۔
۲۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آ جانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا بھر بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔
۳۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اس کی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں، رہتے تواسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتی۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کیلیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں ان جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی نا گہانی آفت آ جاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَا وَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔
۱۳۔ یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو، جا میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھر ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی۔
۱۴۔ اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص ۵۹۵ تا ۵۹۸)
۱۵۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت ۷۹ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ۱۷۴۔ ۱۷۵)
۱۶۔ یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت ۸۰ میں گزر چکا ہے اور وہاں اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ص ۱۷۵۔ ۱۷۶ )
۱۷۔ یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت ۸۱ میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ۱۷۶۔ ۱۷۷)
۱۸۔ بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۱۷۶)
۱۹۔ یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔
۲۰۔ اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔ التمشال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلا من خلق اللہ (لسان العرب)"" تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جب سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔
غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کر لیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمانؑ سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب کو شرک و بت پرستی جادو گری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہر گز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب تورات کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو تورات کے قانون کی ناسخ ہوتی۔ اب تورات کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں :
’’تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کوئی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ‘‘ (خروج۔ باب ۲۰۔ آیت ۴)۔
تم اپنے لیے بُت اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو‘‘ (احبار۔ باب ۲۶، آیت ۱)
’’تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے بیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ‘‘(استثنا، باب ۴۔ آیت ۱۶۔ ۱۸)۔
'' لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکر وہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے "" (استثناء، باب ۲۷۔ آیت ۱۵)
ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکَ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جِنوں سے لیا ہو گا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پراعتماد کر کے کیسے تسلیم کر لی جائے جو حضرت سلیمانؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے (۱۔ سلاطین۔ باب ۱۱).
تاہم مفسرین نے تو بنی اسرائیل کی یہ روایات نقل کرنے کے ساتھ اس امر کی صراحت کر دی تھی کہ شریعت محمدیہ یہ فعل حرام ہے اس لیے اب کوئی شخص حضرت سلیمانؑ کی پیروی میں تصویریں اور مجسمے بنانے کا مجاز نہیں ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کے بعض لوگوں نے )جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری و بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل ٹھیرا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کتاب میں اس کے اس فعل کا ذکر کیا ہے اور اس پر کسی نا پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا ہے تو اسے لازماً حلال ہی ہونا چاہیے۔
ان مقلدین مغرب کا یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ لفظ تماثیل جو قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے، انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے، بلکہ اس کا اطلاق غیر جاندار اشیاء کی تصویر وں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے محض اس لفظ کے سہارے حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ قرآن کی رو سے انسانی اور حیوانی تصاویر حلال ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ اس معاملہ میں جو ارشادات حضورؐ سے ثابت ہیں اور جو آثار اکابر صحابہ سے منقول ہوئے ہیں انہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
۱۔ ین عایشہ اُم المومنین ان ام جیبۃ وام سلمۃ ذکر تا کنیسۃ راْینھا بالحنشۃ فیھا تساویر نذکرتا للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال ان اولٰٓعِک اذاکان فیھم الرجل الصالح فمات بنو ا علیٰ قبر ہ مسجد او صوروافیہ تلک اصور فیہ تلک صور فاولٰٓعِک شرار الخلق عنداللہ یوم القیٰمۃ (بخاری، کتاب المساجد)
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے حبش میں ایک کنیسہ دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ اس کا ذکر انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا۔ حضورؐ نے فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی صالح شخص ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ بناتے اور اس میں یہ تصویریں بنا لیا کرتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے روز اللہ نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں گے۔
۲۔ عن ابی حجیفہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لعن المصور (بخاری، کتاب البیوع، کتاب الطلاق و کتاب اللباس)
ابو حجیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصور پر لعنت فرمائی ہے۔
۳۔ عن ا بی زرعہ قال دخلتُ مع ابی حریرۃ داراً بالمدینۃ فرأی اعلاھا مصوراً یصور قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول ومن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقو احبۃ ولیخلقو اذرۃ (بخاری، کتاب اللباس۔ مُسند احمد اور مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ مروان کا گھر تھا)
ابو زرعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مکان کے اوپر ایک مصور تصویریں بنا رہا ہے۔ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا لے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے۔ یہ لوگ ایک دانہ یا ایک چیونٹی تو بنا کر دکھائیں۔
۴۔ عنا بی محمد الھذلی عن لی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی جنازۃ فقال ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یَدَع بھاوثناً الاکسرہ ولا قبراً الاسوّاہ ولاصورۃ الالطخھا۔ فقال رجل انا یا رسول اللہ فانطلق فھاب اھل المدینہ۔ فرجع۔ فقوال علی انا انطلق یا رسول اللہ۔ قال فانطلق، فانطلقَ ثم رجع۔ فقال یا رسول اللہ لم ادعُ بھا وثناً الا کسرتہ ولا قبراً الّا سویتہ ولا صورۃ الالطختھا۔ ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عاد لصنعۃ شئ من ھٰذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمدؐ(مسند احمد۔ مسلم، کتاب الجنائر اور نَسائی کتاب الجنائیر میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث منقول ہوئی ہے )۔
ابو محمد ہُذَلی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون ہے جو جا کر مدینہ میں کوئی بُت نہ چھوڑے جسے توڑ نہ دے اور کوئی قبر نہ چھوڑے زمین کے برابر نہ کر دے اور کوئی تصویر نہ چھوڑے جسے مٹا نہ دے۔ ایک شخص نے عرض کیا میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ گیا مگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیر پلٹ آیا۔ پھر حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا تم جاؤ۔ حضرت علیؓ گئے اور واپس آ کر انہوں نے عرض کیا میں نے کوئی بت نہیں چھوڑا جسے توڑ نہ دیا ہو، اور کوئی قبر نہیں چھوڑی جسے زمین کے برابر نہ کر دیا ہو اور کوئی تصویر نہ چھوڑی جسے مٹا نہ دیا ہو۔ اس پر حضورؐ نے فرما یا، اب اگر کسی شخص نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)پر نازل ہوئی ہے۔
۵۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم ………… ومن صور صورۃ عذبُ کلف ان ینفخ فیھا ولیس بنا فخ(بخاری۔ کتاب التعبیر۔ ترمذی، ابواب للباس نسائی۔ کتاب الزینۃ۔ مسند احمد)
ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں'……اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا۔
۶۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما اذا تاہ رجل فقال یا اباعباس انی انسان انما معیشتی من صنعۃ یدی وانی اسنع ھٰذہ اتصاویر۔ فقال ابن عباس لا احد ثک الاما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول۔ سمعتہ یقول من صورصور ۃً فان اللہ معذ بہ حتٰی ینفخ فیھا الروح ولیس بنا فخ فیھا ابداً۔ جربالرجل ربو ۃً شدیدۃواصفر وجھہ۔ فقال ویحک ان انیت الا ان تصنع فعلیک بھٰذا الشجر کل شئی لیس فیہ روح(بخاری، کتاب البیوع۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینۃ۔ مسند ٓاحمد)۔
سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس نے کہا کہ اے ابو عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے۔ ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنی ہے۔ میں نے حضورؐ سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے، اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا بندہ خدا، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا، یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو۔
۷۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ کے ہاں سخت تریں سزا پانے والے مصور ہوں گے۔
۸۔ عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان الذین یصنعون ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم (بخاری، کتاب اللباس۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)
عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔
۹۔ عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا اشتزت نمرقۃ فیھا تصاویر فقام النبی صلی اللہ علیہ و سلم بالباب ولم ید خل فقلت اتوب الی اللہ ممّا اذنبت قال ما ھٰذہ النمر قۃ قلت لتجلس علیھا وتو سد ھا قال ان اصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال نہم احیواما خلقتم و ا الملا ئکۃ لا تد خل بیتاً فیہ الصورۃ۔ (بخاری، کتاب الباس، مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ، ابن ماجہ، کتاب التجارات۔ موطا، کتاب الاستیذان)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پھر بنی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور دروازے ہی میں کھڑے ہو گئے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں خدا سے توبہ کرتی ہوں ہر اس گناہ پر جو میں نے کیا ہو۔ حضورؐ نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ اس غرض کے لیے ہے کہ آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو۔ اس ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔
۱۰۔ عن عائشۃ قالت دخل علَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و انا متسترہ بقرام فیہ صورۃ فتلوَّ نَ وجھہ ثم تناول الستر نھتکہ ثم قال انکن اشد الناس عذاباً یوم القیٰمۃ الذین یشبہون بخلق اللہ (مسلم، کتاب اللباس بخاری، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جو میں تصویر تھی۔ آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو یا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۱۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، جس میں پر دار گھوڑوں کی تصویریں تھیں۔ حضورؐ نے حکم دیا کہ اسے اتار دو اور میں نے اتار یا۔
۱۲۔ عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن الصورۃ فی البیت ونھٰی ان یصنع ذالک۔ (ترمذی، ابواب اللباس)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرما دیا کہ کوئی شخص تصویر بنائے۔
۱۳۔ عن ابن عباس عنا بی طلحہ عنالنبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لا تد خل الملا ئکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ۔ (بخاری کتاب اللباس)۔
ابن عباسؓ ابوطلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا پلا ہوا ہو اور نہ ایسے گھر میں جس میں تصویر ہو۔
۱۴۔ عن عنداللہ بن عمر قال وعدالنبی صلی اللہ علیہ و سلم جبریل فرا ث علیہ حتی اشتد علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فلقیہ فشکا الیہ ماوجد فقال لہْ انّا لا ند خل بیتاً فیہ صورۃ ولا کلب۔ (بخاری، کتاب اللباس۔ اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، ابو داوْد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام مالک اور امام احمد نے متعدد صحابہ سے نقل کی ہیں)۔
عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریلؑ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا مگر بہت دیر لگ گئی اور وہ نہ آئی۔ حضورؐ کو اس سے پریشانی ہوئی اور آپ گھر سے نکلے تو وہ مل گئے۔ آپ ؐ نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کُتا ہو یا تصویر ہو۔
ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایتیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جن میں تصاویر کے معاملہ میں رخصت پائی جاتی ہے مثلاً ابو طلحہ انصاری کی یہ روایت کہ جس کپڑے میں تصویر کڑھی ہوئی ہو اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے۔ (بخاری، کتاب اللباس) اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کر جب انہوں نے گدّا بنا لیا تو حضور نے اسے بچھانے سے منع نہ فرمایا۔ (مسلم، کتاب اللباس) اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی روایت کہ ممانعت اس تصویر کی ہے جو نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو، نہ کہ اس تصویر کی جو فرش کے طور پر بچھا دی گئی ہو (مسند احمد)۔ لیکن ان میں سے کوئی حدیث بھی دراصل ان احادیث کی تردید نہیں کرتی جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔ جہاں تک تصویر بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز ان میں سے کسی حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔ یہ احادیث صرف اس مسئلے سے بحث کرتی ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہوئی ہو اور آدمی اس کو لے چکا ہو تو کیا کرے۔ اس باب میں ابو طلحہ انصاری والی روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ بکثرت دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر دار کپڑا لٹکانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے پھاڑ دیا ہے۔ نیز خود حضرت ابو طلحہ کا اپنا عمل جو ترمذی اور موطّا میں منقول ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دار پردہ تو در کنار وہ ایسا فرش بچھانے میں بھی کراہت محسوس کرتے تھے جس میں تصاویر ہوں۔ رہیں حضرت عائشہ اس سالم بن عبداللہ کی روایات تو ان سے سرف اتنا جواز نکلتا ہے کہ اگر تصویر احترام کی جگہ پر نہ ہو بلکہ ذلت کے ساتھ فرش میں رکھی جائے اور اسے پامال کیا جائے تو وہ قابل برداشت ہے۔ ان احادیث سے آخر اس پوری ثقافت کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے جو تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے آرٹ کو تہذیب انسانی کا قابل فخر کمال قرار دیتی ہے اور اسے مسلمانوں میں رواج دینا چاہتی ہے۔
تصاویر کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابر صحابہ کے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انہوں نے اس باب میں اختیار کیا۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضورؐ نے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد اکابر صحابہ کا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضورؐ نے امت کو چھوڑا تھا۔ اب دیکھیے کہ تصویروں کے ساتھ اس مقدس گروہ کا کیا برتاؤ تھا۔
قال عمر رضی اللہ عنہ انا لا ندخل کنا ئسکم کن اجل التماثیل التی فیھا الصُّوَر۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
حضرت عمر نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے کہ ان میں تصویریں ہیں۔
کان ابن عباس یصلی فی بیعۃ الابیعۃ فیھا تماثیل (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
ابن عباسؓ گرجا میں نماز پڑھ لیتے تھے، مگر کسی ایسے گرجا میں نہیں جس میں تصویریں ہوں۔
عن ا بی الھیاج الاسدی قال لی عَلی الابعثک علیٰ ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان لا تدع تمثیلاً الا طمستہ ولاقبراً مشرفاً الا سویتہ ولاصورۃ الا طمستھا۔ )مسلم، کتاب الجنائز۔ نسائی، کتاب الجنائز)
ابو الہیاج اسی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے کہا کیا نہ بھیجوں میں تم کو اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تم کوئی مجسمہ نہ چھوڑو جسے توڑ نہ دو، اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو جسے زمین کے برابر نہ کر دو اور کوئی تصویر نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو۔
عن حنش الکنانی عن علی انہ بعث عامل شرطہِ فقال لہ اتدری علی ما ابعثک؟ علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان انحت کل صورۃ و ان اسوی کل قبر (مسند احمد)
حنش الکنانی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں؟ اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا۔ یہ کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔
اسے ثابت شدہ اسلامی ضابطہ کو فقہائے اسلام نے تسلیم کیا ہے اور اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
""ہمارے اصحاب (یعنی فقہائے احناف )اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو، یا کسی دوسری غرض کے لیے۔ ہر حالت میں تصویر کشی حرام ہے کیوں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں، یا کسی برتن میں یا دیوار میں، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے۔ البتہ جاندار کے سوا کسی دوسری چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی رائے امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کی ہے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی گڑیاں مستثنی ہیں۔ مگر امام مالک ان کے خریدنے کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری۔ ج۲۲ ص۷۰۔ اسی مسلک کو امام ثوری نے شرح مسلم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح نَسَدِی، مطبوعہ مصر، ج ۱۴۔ ص ۸۱۔ ۸۲)""
یہ تو ہے تصویر سازی کا حکم۔ رہا دوسرے کی بنائی ہوئی تصویر کے استعمال کا مسئلہ تو اس کے بارے میں فقہائے اسلام کے مسلک علامہ ابن حجر نے اس طرح نقل کیے ہیں: ’’ مالکی فقیہ ابن عربی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ پڑتا ہو اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے قطع نظر اس سے کہ وہ تحقیر کے ساتھ رکھی گئی ہو یا نہ۔ اس اجماع سے صرف لڑکیوں کی گڑیاں مستثنیٰ ہیں۔ ''''''''''' ابن عربی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ نہ پڑتا ہو وہ اگر اپنی حالت پر باقی رہے (یعنی آئنہ کی پرچھائیں کی طرح نہ ہو بلکہ چھپی ہوئی تصویر کی طرح ثابت و قائم ہو) تو وہ بھی حرام ہے، خواہ اسے حقارت کے ساتھ رکھا گیا ہو یا نہ۔ البتہ اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے اجزاء الگ الگ کریے گئے ہوں تو اس کا استعمال جائز ہے …… امام الحرمین نے ایک مسلک ی نقل کیا ہے کہ پردے یا تکیہ پر اگر تصویر ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے، مگر دیوار یا چھت میں جو تصویر لگائی جائے وہ ممنوع ہے کیونکہ اس کا اعزاز ہو گا، بخلا ف اس کے پردے اور تکیے کی تصویر حقارت سے رہے گی. ابن ابی شینبہ نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ فرش اور تکیہ میں تصویر کا ہونا۔ اس کے لیے باعث ذلت ہے۔ نیز ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اونچی جگہ پر جو تصویر لگائی گئی ہو وہ حرام ہے اور قدموں میں جسے پامال کیا جاتا ہو وہ جائز ہے۔ یہی رائے ابن سیرین، سلم بن عبداللہ، عِکرمہ بن خالد اور سعید بن جُبیر سے بھی منقول ہے۔ "" (فتح الباری، ج۱۰، ص۳۰۰)
اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صریح ارشاد ات ' صحابہ کرام کے عمل اور فقہائے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی مو شگافیاں بادل نہیں سکتیں۔
بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو۔ فوٹو اس دستی تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق ہے سہ طریق تصویر سازی کے لحاظ سے ہے، اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔
بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا، اس اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لیے حرام کی گئی ہیں۔ دوسرے، یہ دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ آج خود بر عظیم ہند پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے سرک ہو رہا ہے، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو ہو ج رہے ہیں، حتٰی کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہییں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات سے قانون اخذ کرنے کے بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف ایک شرک و بت پرستی ہے کی موجب نہیں بنتی، بلکہ دنیا میں دوسرے بہت سے فتنوں کی موجب بھی بنی ہے اور بن رہی ہے۔ تصویر ان بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تصویر کی دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج ی فتنہ ہر زمانے سے زیادہ برسر عروج ہے، تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے، اصلاً غلط ہے۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کر کے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں۔
بعض لوگ چند بظاہر بالکل ’’بے ضرر‘‘ قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیز ی اور سیاسی پروپیگنڈے اور ایسے ہیں دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کر لیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے۔ علاوہ بریں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کر سکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھیرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کر دینے کے بعد بھی جو از کی سرحد کبھی واضح نہ ہو سکتی اور بے شمار تصویروں کے بارے میں ی اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انہیں حد جواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صاف حد قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جاتا کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جا سکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کر سکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جا کر اسے رک جانا چاہیے۔ (مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ۱۵۲ تا ۱۵۵)
۲۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مہمان نوازی ہوتی تھی۔ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اس لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں لوگوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا جائے اور بھاری دیگیں اس لیے بنوائی گئی تھیں کہ ان میں بیک وقت ہزاروں آدمیوں کا کھانا پک سکے۔
۲۲۔ یعنی شکر گزار بندوں کی طرح کام کرو۔ جو شخص نعمت دینے والے کا احسان محض زبان سے مانتا ہو، مگر اس کی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہو، اس کا محض زبانی شکر یہ بے معنی ہے۔ اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے بھی نعمت کا اعتراف کرے، اور اس کے ساتھ منعم کی عطا کردہ نعمتوں سے وہی کام بھی لے جو منعم کی مرضی کے مطابق ہو۔
۲۳۔ اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ۔۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جِنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے۔
۲۴۔ موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں کیں گھرا ہوا تھا، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا۔ اس کی جانشینی کے تھوڑ ی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل(یعنی جِنوں ) کو حضرت سلیمانؑ نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو وے نکل گئے۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِن یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟
پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے، اور اس گروہ کے غیب سے نا واقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمانؑ کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے، حالاں کہ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں۔ لیکن جو لوگ مادّہ پرست دنیا کے سامنے جِن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مُصر ہیں۔
قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے :
وَجَعَلُو لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم۔ (الانعام، ۱۰۰)
اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
وَجَعَلُو ا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا۔ (الصّٰفّٰت۔ ۱۵۸)
اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی تعلق تجویز کر لیا۔
وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِ جَالٍ م/ِّنَ الْجِنِّ۔ (الجن۔ ۶)
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے ہو حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں (مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر ۶۳ ملاحظہ ہو)
۲۵۔ سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر ۷۔ ۸۔ ۱۲ میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔
۲۶۔ یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے۔
۲۷۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی۔
۲۸۔ یعنی بندگی و شکر گزاری کے بجائے انہوں نے نا فرمانی و نمک حرامی کی روش اختیار کر لی۔
۲۹۔ اصل میں لفظ سَیْلُ الْعَرِم استعمال کیا گیا ہے۔ عَرِم جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’بند‘‘ کے ہیں۔ یمن کے کھنڈروں میں جو قدیم کتبات موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں ان میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ۵۴۲ء یا ۵۴۳ء کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر اَبرہہ نے سدّ مارِب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا اور میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا سیل العَرِم سے مراد وہ سیلاب ہے جو دسی بند کے ٹوٹنے سے آئے۔
۳۰۔ یعنی سیل العَرِم کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا علاقہ برباد ہو گیا۔ سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ باندھ کر جو نہریں جاری کی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں اور آب پاشی کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس کے بعد وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا خود رو جنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل اگر کوئی چیز باقی رہ گئی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے۔
۳۱۔ ’’برکت والی بستیوں ‘‘ سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے جسے قرآن مجید میں عموماً اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیت ۱۳۷۔ بنی اسرائیل، آیت ۱۔ الانبیاء، آیات ۷۱ و ۸۱)
’’نمایاں بستیوں ‘‘سے مراد ہیں ایسی بستیاں جو شاہراہ عام پر واقع ہوں، گوشوں میں چھپی ہوئی نہ ہوں۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بستیاں بہت زیادہ فاصلے پر نہ تھیں بلکہ متصل تھیں۔ ایک بستی کے آثار ختم ہونے کے بعد دوسری بستی کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔
سفر کی مسافتوں کو ایک اندازے پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یمن سے شام تک کا پورا سفر مسلسل آباد علاقے میں ملے ہوتا تھا جس کی ہر منزل سے دوسری منزل تک کی مسافت معلوم و متعین تھی۔ آباد علاقوں کے سفر اور غیر آباد صحرائی علاقوں کے سفر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ صحرا میں مسافر جب تک چاہتا ہے چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو کسی جگہ پڑاؤ کر لیتا ہے۔ بخلاف اس کے آباد علاقوں میں راستے کی ایک بستی سے دوسری بستی تک کی مسافت جانی بوجھی اور متعین ہوتی ہے۔ مسافر پہلے سے پروگرام بنا سکتا ہے کہ راستے کے کن کن مقامات پر وہ ٹھیر تا ہوا جائے گا، کہاں دوپہر گزارے گا اور کہاں رات بسر کرے گا۔
۳۲۔ ضروری نہیں ہے کہ انہوں زبان ہی سے یہ دعا کی ہو۔ دراصل جو شخص بھی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی نا شکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ خدایا، میں ان نعمتوں مستحق نہیں ہوں۔ اور اسی طرح جو قوم اللہ کے فضل سے غلط فائدہ اٹھاتی ہے وہ گویا اپنے رب سے یہ دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار، یہ نعمتیں ہم سے سلب کر لے کیونکہ ہم ان کے قابل نہیں ہیں۔
علاوہ بریں رَبَّنَا بَا عِدْ بَیْنَ اَسْفَا رِنَا (خدایا ہمارے سفر دور دراز کر دے ) کے الفاظ سے کچھ یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ شاید سبا کی قوم کو اپنی آبادی کی کثرت کھَلنے لگی تھی اور دوسری نادان قوموں کی طرح اس نے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھ کر انسانی نسل کی افزائش کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
۳۳۔ یعنی سبا کی قوم ایسی منتشر ہو ئ کہ اس پرا گندگی ضرب المثل ہو گئی- آج بہی اہل عرب اگر کسی گروہ کے انتشار کا ذکر تے ہیں " تفر قوا ایدی سبا'" وہ تو ایسے پرا گندہ ہو گئے جیسے سبا کی قوم پر گندہ ہوئی تہی۔ " اللہ تعالی کی طرف سے جب زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چہو ڑ چہو ڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رُ خ کیا۔ اَوس و خز ر ج کے قبیلے یثرب میں جا بسے۔ خُز ا عہ نے جدے کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ اَزد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا۔ لحنم اور کندہ بہی نکلنے پر مجبور ہوئے۔ حتی کہ " سبا " نام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا۔
۳۴۔ اس سیاق و سباق میں صابر و شاکر سے مراد ایسا شخص یا گروہ ہے جو اللہ کی طرف سے نعمتیں پاکر آپے سے باہر نہ ہو جائے، نہ خوشحالی پر پھولے اور نہ اس خدا کو بھول جائے جس نے یہ سب کچھ اسے عطا کیا ہے۔ ایسا انسان ان لوگوں کے حالات سے بہت کچھ سبق لے سکتا ہے جنہوں نے عروج و ترقی کے مواقع پاکر نا فرمانی کی روش اختیار کی اور اپنے انجام بد سے دوچار ہو کر ہے۔
۳۵۔ تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ۶۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذُسمو ی یا ذوسماوی (یعنی رب السماء) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں۔ بعض مقامات پر اس معبود کا نام ملکن ذُ سموی(وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا۔ چنانچہ ۳۷۸ ء کے ایک کتبے میں بھی الٰہ دوسموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے۔ پھر ۴۶۵ ء کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصرور داالٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے )۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ ۴۵۸ قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن(یعنی رحمان کی مدد سے )۔
۳۶۔ یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ ا کر انہیں نا فرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے۔
دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سَودا اِس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی ا لآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔
۳۷۔ قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخ ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں۔
تاریخ کی رو سے ’’سبا ‘‘ جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام لے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ۔ حِمْرَ۔ اَزْد۔ اَشْعَریین۔ مَذْحِج۔ اَنْمار )جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ۔ عامِلہ۔ جُدّام۔ لَحْم اور غسان۔
بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا۔ ۲۵۰۰ قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد بابِل اور آشور (اسیریا) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے، (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور، ۷۲: ۱۵۔ یرمیاہ ۶:۲۰۔ حذقی ایل ۲۷:۲۲۔ ۳۸:۱۳۔ ایوب ۶:۱۹) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس (۲۸۸ قبل مسیح) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں۔
اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے عروج کا دَور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان (۹۶۵۔ ۹۲۶ قبل مسیح)کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بُت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ (چاند دیوتا)، عَشْتَر (زُہرہ)ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان (سورج دیوی) ہوبس، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو ہو جنا شروع کر دیا۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا، اور اس کے بادشاہ اپنے آب کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے۔
آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً ۳ ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو اچھی خاصی تفصیل کی ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ ۶۵۰ قبل مسیح سے پہلے کا دَور۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّ بِ سبا تھا۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ (Priest-Kings) تھے۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جو کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَربیہ کے جام سے مشہور ہیں۔ اسی دَور میں مارب کے چند بند کی بنا رکھی گئی اور وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا۔
۲۔ ۶۵۰ قبل مسیح سے ۱۱۵ قبل مسیح تک کا دور۔ اس دَور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک (بادشاہ) کا لقب اختیار کر لیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی۔ یہ مقام سمندر سے ۳۹۰۰ فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے ۶۰ میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا۔
۳۔ ۱۱۵ ق م سے ۳۰۰ عیسوی تک کا دور۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصوّر تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصّہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنونی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا۔
۴۔ ۳۰۰ ء کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی۔ تجارت برباد ہوئی۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزاد ی تک ختم ہو گئی۔ پہلے رَیدانیوں، حمیریوں، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر ۳۴۰ سے ۳۷۸ ء تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار ۴۵۰ ء یا ۴۵۱ ء میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بن کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا تھا، دوبارہ بحال ہو سکا۔ ۵۲۳ ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونو اس نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے ۵۷۰ یا ۵۷۱ ء میں (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے چند روز قبل) مکہ و معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ آخر کار ۵۷۵ ء میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب ۶۲۸ ء میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا۔
قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک زراعت۔ دوسرے تجارت۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بن باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا۔ اس نظام آب پاشی کا سب س بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بن باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا۔
تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر، مشک، مُرّ، قرفہ، قصب الذَّرِیرہ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔
اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے۔ ایک بحری۔ دوسری برّی۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں، زیر آپ چٹانوں، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے۔ برّی راستے عدن اور حضرموت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ، جدہ، یثرب، العُلاء، تبوک اور ایلہ سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا۔ اس بری راستے پر، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و راز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں۔
پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہوع ہو گیا۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقت ور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہو کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی (۲۸۵۔ ۲۴۶ قبل مسیح) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو ۱۷ سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی۔ اس نحر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقت ور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا۔ اسے سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی۔
بحری تجارت ہاتھ وے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا۔ پھر ۱۰۶ ء میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھو میں چلے گئے۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہان سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اسٹاہو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں، اور ان کے مکانوں کی چھتوں، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت، سونے، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں، اور ان کا ور سبز و شاداب ملک باغات، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے۔ آر ٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یعنانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پروہ فلک شگاف عمارت(Skyscraper) تعمیر کی جو قصر غُمدان کے نام سے صدیوں تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
۳۸۔ پچھلے دو رکوع میں آخرت کے متعلق مشرکین کے غلط تصورات پر کلام فرمایا گیا تھا۔ اب تقریر کا رخ تردید شرک کے مضمون کی طرف پھر رہا ہے۔
۳۹۔ یعنی اللہ تو یوں اشخاص اور اقوام اور سلطنتوں کی قسمتیں بناتا اور بگاڑتا ہے، جیسا کہ ابھی تم داؤد و سلیمان علیہما السلام اور قوم سبا کے ذکر میں سن چکے ہو۔ اب ذرا اپنے ان بناوٹی معبودوں کو پکار کر دیکھ لو، کیا ان میں بھی یہ طاقت ہے کہ کسی کے اقبال کو ادبار سے، یا اِدبار کو اقال سے بدل سکیں؟
۴۰۔ یعنی کسی کا خود مالک ہونا، یا ملکیت میں شریک ہونا، یا مدد گار خدا ہونا تو درکنار، ساری کائنات میں کوئی ایسی ہستی تک نہیں پائی جاتی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کے حق میں بطور خود سفارش کر سکے۔ تم لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ کچھ خدا کے پیارے ایسے ہیں، یا خدا کی خدائی میں کچھ بندے ایسے زور آور ہیں کہ وہ اَڑ بیٹھیں تو خدا کو ان کی سفارش ماننی ہی پڑے گی۔ حالانکہ وہاں حال یہ ہے کہ اجازت لیے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ جس کو اجازت ملے گی صرف وہی کچھ عرض کر سکے گا۔ اور کس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اسی کے حق میں عرض معروض کی جا سکے گی۔ (اسلامی عقیدہ شفاعت اور مشرکانہ عقیدہ شفاعت کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۲۶۲۔ ۲۷۵۔ ۳۵۶۔ ۳۶۸۔ ۵۵۶۔ ۵۶۲۔ جلد سوم، ص ۱۶۲۔ ۱۵۵۔ ۲۵۲)۔
۴۱۔ یہاں اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جب قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا کسی کے حق میں سفارش کی اجازت طلب کرے گا۔ اس نقشے میں یہ کیفیت ہمارے سامنے آتی ہے کہ طلب اجازت کی درخواست بھیجنے کے بعد شافع اور مشفوع دونوں نہایت بے چینی کے علم میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے جواب کے منتظر کھڑے ہیں۔ آخر کار جب اوپر سے اجازت آ جاتی ہے اور شافع کے چہرے سے مشفوع بھانپ جاتا ہے کہ معاملہ کچھ اطمینان بخش ہے تو اس کی جان میں جان آتے ہے اور وہ آگے بڑھ کر شافع سے پوچھتا ہے ’’ کیا جواب آیا‘‘؟ شافع جواب دیتا ہے کہ ٹھیک ہے، اجازت مل گئی ہے۔ اس بیان سے جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نادانو ! جس بڑے دربار کی شان یہ ہے اس کے متعلقو تم کس خیال خام میں پڑے ہوئے ہو کہ وہاں کوئی اپنے زور سے تم کو بخشوا لے گا یا کسی کی یہ مجال ہو گی کہ وہاں مچل کر بیٹھ جائے اور اللہ سے کہے کہ یہ تو میرے متوسّل ہیں، انہیں تو بخشنا ہی پڑے گا۔
۴۲۔ سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے، تو وہ مشکل میں پڑ گئے۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ، اور ہو جے جائیں یہ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے۔ پوچھنی والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’ اللہ‘‘۔
۴۳۔ اس فقرے میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ کو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہ دینا حق گوئی کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اللہ کے رسولؐ چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی، اس سوال و جواب کے بعد اب تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے جو رزق دینے والا ہے، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو جو رزق دینے والے نہیں ہیں۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھیرتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے۔
۴۴۔ اوپر کی بات سامعین کو پہلے ہی سوچنے پر مجبور کر چکی تھی۔ اس پر مزید ایک فقرہ یہ فرما دیا گیا تاکہ وہ اور زیادہ تفکر سے کام لیں۔ اس سے ان کو یہ احساس دلایا گیا کہ ہدایت اور گمراہی کے اس معاملے کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنا ہم میں سے ہر ایک کے اپنے مفاد کا تقاضا ہے۔ فرض کرو کہ ہم گمراہ ہیں تو اپنی اس گمراہی کو خمیازہ ہم ہی بھگتیں گے، تم پر اس کی کوئی پکڑ نہ ہو گی۔ اس لیے یہ ہمارے اپنے مفاد کا تقاضا ہے کہ کوئی عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچ لیں کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں جا رہے ہیں۔ اسی طرح تم کو بھی ہماری کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی خیر خواہی کی خاطر ایک عقیدے پر جمنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کہیں تم کسی باطل نظریے پر تو اپنی زندگی کی ساری پونجی نہیں لگا رہے ہو۔ اس معاملے میں اگر تم نے ٹھوکر کھائی تو تمہارا اپنا ہی نقصان ہو گا، ہمارا کچھ نہ بگڑے گا۔
۴۵۔ یہ اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے آخری اور سب سے بڑا محرک ہے جس کی طرف سامعین کی توجہ دلائی گئی ہے۔ بات اسی حد پر ختم نہیں ہو جاتی کہ اس زندگی میں ہمارے اور تمہارے درمیان حق و باطل کا اختلاف ہے اور ہم میں سے کوئی ایک ہی حق پر ہے، بلکہ اس کے آگے حقیقت نفس الامری یہ بھی ہے کہ ہمیں اور تمہیں، دونوں ہی کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور رب وہ ہے جو حقیقت کو بھی جانتا ہے اور ہم دونوں گروہوں کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔ وہاں جا کر نہ صرف اس امر کا فیصلہ ہو گا کہ ہم میں اور تم میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔ بلکہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ ہم نے تم پر حق واضح کرنے کے لیے کیا کچھ کیا اور تم نے باطل پرستی کی ضد میں آ کر ہماری مخالفت کس کس طرح کی۔
۴۶۔ یعنی قبل اس کی کہ تم ان معبودوں کے بھروسے پر اتنا بڑا خطرہ مول لو، ذرا مجھے یہیں بتا دو کہ ان میں کون اتنا زور آور ہے کہ اللہ کی عدالت میں وہ تمہارا حمایتی بن کر اٹھ سکتا ہو اور تمہیں اس کی گرفت سے بچا سکتا ہو۔
۴۷۔ یعنی تم صرف اسی شہر، یا اسی ملک، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔
یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلاً:
وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَاالقرآنُ لِاُنْذِرَ کُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام ۱۹۷)
اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے۔
قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف۔ ۱۵۸)
اے نبی کہ دو اے انسانوں، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃلِّلعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔ ۱۰۷)
اور اے نبی، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر۔
تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَذَّلَالْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُنَ لِلْعَا لَمِیْنَ نَذِیْراً۔ (الفرقان۔ ۱)
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو۔
یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی بہت سے احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلاً:
بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِوَلْاَسْوَدِ (مسند احمد، مرویات ابو موسیٰ اشعریؓ)
میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
امّا انا فا رسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ(مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص)
میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔
وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ(بخاری و مسلم، من حدیث جابر بن عبداللہ)
پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
بعثت انا والساعۃ کھتین یعنی اصبعین۔ (بخاری و مسلم)
میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں۔
مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں۔
۴۸۔ یعنی جس وقت کے متعلق ابھی تم نے کہا ہے کہ ’’ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا ‘‘، وہ وقت آخر کب آئے گا؟ ایک مدت سے ہمارا مقدمہ چل رہا ہے۔ ہم تمہیں بار بار جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کیے جا رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کیوں ہیں کر ڈالا جاتا؟
۴۹۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمہاری خواہشات کے تابع نہیں ہیں کہ کسی کام کے لیے جو وقت تم مقرر کرو اسی وقت پر وہ اس کام کو کرنے کا پابند ہو۔ اپنے معاملات کو وہ اپنے ہی صوابدید کے مطابق انجام دیتا ہے۔ تم اسے کیا سمجھ سکتے ہو کہ اللہ کی اسکیم میں نوعِ انسانی کو کب تک اس دنیا کے اندر کام کرنے کا موقع ملنا ہے، کتنے اشخاص اور کتنی قوموں کی کس کس طرح آزمائش ہونی ہے، اور کونسا وقت اللہ ہی کی اسکیم میں مقرر ہے اسی وقت پر یہ کام ہو گا۔ نہ تمہارے تقاضوں سے وہ وقت ایک سکنڈ پہلے آئے گا اور نہ تمہاری التجاؤں سے وہ ایک سکنڈ کے لیے ٹل سکے گا۔
۵۰۔ مراد ہیں کفار عرب جو کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔
۵۱۔ یعنی عوام الناس، جو آج دنیا میں اپنے لیڈروں، سرداروں، پیروں اور حاکموں کے پیچھے آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہیں، اور ان کے خلاف کسی ناصح کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہی عوام جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حقیقت کیا تھی اور ان کے یہ پیشوا انہیں کیا باور کرا رہے تھے، اور جب انہیں یہ پتہ چل جائے گا کہ ان رہنماؤں کی پیروی انہیں کس انجام سے دوچار کرنے والی ہے، تو یہ اپنے ان بزرگوں پر پلٹ پڑیں گے اور چیخ چیخ کر کہیں گے کہ کم بختو، تم نے ہمیں گمراہ کیا، تم ہماری ساری مصیبتوں کے ذمہ دار ہو، تم ہمیں نہ بہکاتے تو ہم خدا کے رسولوں کی بات مان لیتے۔
۵۲۔ یعنی وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی طاقت نہ تھی جس سے ہم چند انسان تم کروڑوں انسانوں کو زبردستی اپنی پیروی پر مجبور کر دیتے۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے تو ہماری سرداریوں اور پیشوائیوں اور حکومتوں کا تختہ اُلٹ سکتے تھے۔ ہماری فوج تو تم ہی تھے۔ ہماری دولت اور طاقت کا سر چشمہ تو تمہارے ہی ہاتھ میں تھا۔ تم نذرانے اور ٹیکس نہ دیتے تو ہم مفلس تھے۔ تم ہمارے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے تو ہماری پیری ایک دن نہ چلتی۔ تم زندہ باد کے نعرے نہ مارتے تو کوئی ہمارا پوچھنے والا نہ ہوتا۔ تم ہماری فوج بن کر دنیا بھر سے ہمارے لیے لڑنے پر تیار نہ ہوتے تو ایک انسان پر بھی ہمارا بس نہ چل سکتا تھا۔ اب کیوں نہیں مانتے کہ دراصل تم خود اس راستے پر نہ چلنا چاہتے تھے جو رسولوں نے تمہارے سامنے پیش کیا تھا۔ تم اپنی اغراض اور خواہشات کے بندے تھے اور تمہارے نفس کی یہ مانگ رسولوں کی بتائی ہوئی راہ تقویٰ کے بجائے ہمارے ہاں پوری ہوتی تھی۔ تم حرام و حلال سے بے نیاز ہو کر عیشِ دنیا کے طالب تھے اور وہ ہمارے پاس ہی تمہیں نظر آتا تھا۔ تم ایسے پیروں کی تلاش میں تھے جو تمہیں ہر طرح کے گناہوں کی کھلی چھوٹ دیں اور کچھ نذرانہ لے کر خدا کے ہاں تمہیں بخشوا دینے کی خود ذمہ داری لے لیں۔ تم ایسے پنڈتوں اور مولویوں کے طلب گار تھے جو ہر شرک اور ہر بدعت اور تمہارے نفس کی ہر دل پسند چیز کو عین حق ثابت کر کے تمہارا دل خوش کریں اور اپنا کام بنائیں۔ تم کو ایسے جعل سازوں کی ضرورت تھی جو خدا کے دین کو بدل کر تمہاری خواہشات کے مطابق ایک نیا دین گھڑیں۔ تم کو ایسے لیڈر درکار تھے جو کسی نہ کسی طرح تمہاری دنیا بنا دیں خواہ عاقبت بگڑے یا درست ہو۔ تم کو ایسے حاکم مطلوب تھے جو خود بد کردار اور بد دیانت ہوں اور ان کی سرپرستی میں تمہیں ہر قسم کے گناہوں اور بد کرداریوں کی چھوٹ ملی رہے۔ اس طرح ہمارے اور تمہارے درمیان برابر کا لین دین کا سودا ہوا تھا۔ اب تم کہاں یہ ڈھونگ رچانے چلے ہو کہ گویا تم بڑے معصوم لوگ تھے اور ہم نے زبردستی تمہیں بگاڑ دیا تھا۔
۵۳۔ دوسرے الفاظ میں ان عوام کا جواب یہ ہو گا کہ تم اس ذمہ داری میں ہم کو برابر کا شریک کہاں ٹھیرائے دے رہے ہو۔ کچھ یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اپنی چال بازیوں، فریب کاریوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کیا طلسم باندھ رکھا تھا، اور رات دن خلقِ خدا کو پھانسنے کے لیے کیسے کیسے جتن تم کیا کرتے تھے۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تم نے ہمارے سامنے دنیا پیش کی اور ہم اس پر ریجھ گئے۔ امر واقعہ یہ بھی تو ہے کہ تم شب و روز کی مکاریوں سے ہم کو بے وقوف بناتے تھے اور تم میں سے ہر شکاری روز ایک نیا جال بُن کر طرح طرح کی تدبیروں سے اللہ کے بندوں کو اس میں پھانستا تھا۔
قرآن مجید میں پیشواؤں اور پیروں کے اس جھگڑے کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ تفصیل کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: اعراف، آیات ۳۸۔ ۳۹۔ ابراہیم، ۲۱۔ القصص، ۶۳۔ الاحزاب، ۶۶۔ ۶۸۔ المومن، ۴۷۔ ۴۸۔ حٰم السجدہ، ۲۹۔
۵۴۔ یہ بات قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مقابلہ سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر ان خوشحال طبقوں نے کیا ہے جو دولت و حشمت اور نفوذ و اقتدار کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: الانعام، ۱۲۳۔ الاعراف، ۶۰۔ ۶۶۔ ۷۵۔ ۸۸۔ ۹۰ ہود، ۲۷۔ بنی اسرائیل، ۱۶۔ المومنون، ۲۴۔ ۳۳ تا ۳۸۔ ۴۶۔ ۴۷۔ الزُخرُف، ۲۳۔
۵۵۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم تم سے زیادہ اللہ کے پیارے اور پسندیدہ لوگ ہیں، جبھی تو اس نے ہم کو ان نعمتوں سے نوازا ہے جن سے تم محروم ہو، یا کم از کم ہم سے فروتر ہو۔ اگر اللہ ہم سے راضی نہ ہوتا تو یہ سر و سامان اور یہ دولت و حشمت ہمیں کیوں دیتا۔ اب یہ بات ہم کیسے باور کر لیں کہ اللہ یہاں تو ہم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے اور آخرت میں جا کر ہمیں عذاب دے گا۔ عذاب ہونا ہے تو ان پر ہونا ہے جو یہاں اس کی نوازشوں سے محروم ہیں۔
قرآن مجید میں دنیا پرستوں کی اس غلط فہمی کا بھی جگہ جگہ ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: البقرہ، ۱۲۶۔ ۲۱۲۔ التوبہ، ۵۵۔ ۶۹۔ ہود، ۳۔ ۲۷۔۔ الرعد، ۲۶۔ الکہف، ۳۴ تا ۴۳۔ مریم، ۷۳ تا ۷۷۔ طٰہ، ۱۳۱۔ المومنون، ۵۵۔ ۶۱۔ الشعراء، ۱۱۱۔ القصص، ۷۶تا۸۳۔ الوم، ۹۔ المدثر، ۱۱ تا ۲۶۔ الفجر ۱۵تا ۲۰۔
۵۶۔ یعنی دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام س حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ کشادہ رزق دے رہا ہے وہ اس کا محبوب ہے، اور جسے تنگی کے ساتھ دے راہ ہے وہ اس کے غضب میں مبتلا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے نا پاک اور گھناؤنے کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں، اور بہت سے نیک اور شریف انسان، جن کی کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے، تنگدستی میں مبتلا پائے جاتے ہی۔ اب آخر کون صاحب عقل آدمی یہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر و خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں۔
۵۷۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ سے قریب کرنے والی چیز مال اور اولاد نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے۔ دوسرے یہ کہ مال اور اولاد صرف اس مومن صالح انسان ہی کے لیے ذریعہ تقرُّب بن سکتے ہیں جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے خدا شناس اور نیک کردار بنانے کی کوشش کرے۔
۵۸۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ ان کی یہ نعمت لازوال ہو گی اور اس اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔ کیونکہ جس عیش کے کبھی ختم ہو جانے کا خطرہ ہو اس سے انسان پوری طرح مطمئن ہو کر لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ معلوم کب یہ سب کچھ چھن جائے۔
۵۹۔ اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے۔ مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے۔
۶۰۔ رازق، صانع، موجِد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
۶۱۔ قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور کے مشرکین فرشتوں کو دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کے بُت بناتے اور ان کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی بجلی کا اور کوئی ہوا کا۔ کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی علم کی اور کوئی موت و ہلاکت کی۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ قیامت کے روز ان فرشتوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ہی ان لوگوں کے معبود بنے ہوئے تھے؟ اس سوال کا مطلب محض دریافت حال نہیں ہے بلکہ اس میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ کیا تم ان کی اس عبادت سے راضی تھے؟ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگو ہم تمہارے معبود ہیں، تم ہماری ہو جا کیا کرو؟ یا تم نے یہ چاہا کہ یہ لوگ تمہاری ہو جا کریں؟ قیامت میں یہ سوال صرف فرشتوں ہی سے ہیں بلکہ تمام ان ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہوا ہے :
وَیَوْمَ یَحْشُرُ ھُمْ وَمَا یَعبُدُوْن مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَقُوْلُءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِاَمْ ھُمْ ضَلُّو االسَّبِیْلَ۔ (آیت ۱۷)
جس روز اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اور ان ہستیوں کو جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں جمع کریگا، پھر پوچھے گا کی تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟
۶۲۔ یعنی وہ جواب دیں گے کہ حضور کی ذات اس سے منزّہ اور بالا تر ہے کہ کوئی دوسرا خدائی و معبودیت میں آپ کا شریک ہو۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم ان سے اور ان کے افعال سے بری الذمّہ ہیں۔ ہم تو حضور کے بندے ہیں۔
۶۳۔ اس فقرے میں جِن سے مراد شیاطینِ جِن ہیں۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو۔
یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو ’’جن‘‘ کو پہاڑی علاقے علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور ہو جا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کی حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو(جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کیکیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۳۹۸۔ ۴۸۴۔ جلد دوم، ص ۱۸۹۔ ۱۹۰۔ جلد سوم، ص ۶۹۔ ۶۵۶۔
۶۴۔ یعنی اس سے پہلے نہ کوئی کتاب خدا کی طرف سے ایسی آئی ہے اور نہ کوئی رسول ایسا آیا ہے جس نے آ کر ان کو یہ تعلیم دی ہو کہ یہ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی و پرستش کیا کریں۔ اس لیے یہ لوگ کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ سراسر جہالت کی بنا پر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس کوئی سند نہیں ہے۔
۶۵۔ یعنی مکے کے لوگ تو اس قوت و شوکت اور اس خوشحالی کے عُشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے ہیں جو ان قوموں کو حاصل تھی۔ مگر دیکھ لو کہ جب انہوں نے ان حقائق کو ماننے سے انکار کیا جو انبیاء علیہم السلام نے ان کے سامنے پیش کیے تھے، اور باطل پر اپنے نظام زندگی کی بنیاد رکھی تو آخر کار وہ کس طرح تباہ ہوئیں اور ان کی قوت و دولت ان کے کسی کام نہ آ سکی۔
۶۶۔ یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہً لِللہ غور کرو۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک بیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھیرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟
۶۷۔ یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھیراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش، بہت اچھے جا رہے ہو، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے۔
۶۸۔ اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْر فَھُوَلکُمْ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا، میرا جو بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے :
قُلْ مَآاَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْر اِلَّا مَنْ سَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً۔ (الفرقان ۵۷)
اے نبی، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔
۶۹۔ یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔
۷۰۔ اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَا لْحَقِّ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے۔
۷۱۔ اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کی رو سے بنی صلی اللہ علیہ و سلم گمراہ ہو سکتے تھے، بلکہ ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے خود حضورؐ ہی کی زبان سے یہ کہلوا دیا کہ اگر میں گمراہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی (یعنی آیات قرآنی ) نازل کرتا ہے۔ اس غلط تاویل سے یہ ظالم گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کی زندگی معاذ اللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے حضورؐ سے یہ اعتراف اس لیے کروا رہا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپؐ کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں‘‘ کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گئے ہیں کہ معاذ اللہ حضورؐ فی الواقع گمراہ ہو جاتے تھے، بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’ اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں، جیسا کہ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، اور میرا یہ نبوت کا دعویٰ اور میری یہ دعوت توحید اسی گمراہی کا نتیجہ ہے جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو، تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤ گے۔ لیکن اگر میں ہدایت پر ہوں، جیسا کہ در حقیقت ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی آتی ہے جس کے ذریعہ سے مجھے راہ راست کا علم حاصل ہو گیا ہے۔ میرا رب قریب ہی موجود ہے اور سب کچھ سن رہا ہے، اسے معلوم ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔ ‘‘
۷۲۔ یعنی قیامت کے روز ہر مجرم اس طرح پکڑا جائے گا کہ گویا پکڑنے والا قریب ہی کہیں چھپا کھڑا تھا، ذرا اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور فوراً ہی دھر لیا گیا۔
۷۳۔ مراد یہ ہے کہ اس تعلیم پر ایمان لے آئے جو رسول نے دنیا میں پیش کی تھے۔
۷۴۔ یعنی ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ و ایمان کا موقع کہاں مل سکتا ہے۔
۷۵۔ یعنی رسُولؐ اور تعلیمات رسولؐ اور اہل ایمان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے، آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے۔ کبھی کہتے مجنون ہے۔ کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر باتیں چھانٹتے۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسولؐ کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسولؐ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔
۷۶۔ درحقیقت شرک اور دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ یقین صرف علم سے حاصل ہوتا ہے، اور کسی شخص کو بھی یہ علم حاصل نہیں ہے کہ خدا نہیں ہے، یا بہت سے خدا ہیں یا خدائی کے اختیارات میں بہت سے ہستیوں کو دخل حاصل ہے، یا آخرت نہیں ہونی چاہیے۔ پس جس نے بھی دنیا میں یہ عقائد اختیار کیے ہیں اس نے محض قیاس و گمان پر ایک عمارت کھڑی کر لی ہے جس کی اصل بنیاد شک کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اور یہ شک انہیں سخت گمراہی کی طرف لے گیا ہے۔ انہیں خدا کے وجود میں شک ہوا۔ انہیں توحید کی صداقت میں شک ہوا۔ انہیں آخرت کے آنے میں شک ہوا۔ حتّیٰ کہ اس شک کو انہوں نے یقین کی طرح دلوں میں بٹھا کر انبیاء کی کوئی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کی پوری مہلت عمل ایک غلط راستے میں کھپا دی۔