تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ النِّسَاء

زمانۂ نزول اور اجزاء مضمون

یہ سورت متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالباً ۳ ھ کے اواخر سے لے کر ۴ھ کے اواخر یا ۵ھ کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ کس مقام سے کس مقام تک آیات ایک سلسلۂ تقریر میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا ٹھیک زمانہ نزول کیا ہے لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہو جاتی ہیں اس لیے ان کی مدد سے ہم ان مختلف تقریروں کو ایک سرسری سی حد بندی کر سکتی ہیں جن میں یہ احکام اور یہ اشارے واقع ہوئے ہیں۔

مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اور یتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہو گئے تھے اور مدینے کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھروں میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شہداء کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے اور جو یتیم بچے انہوں نے چھوڑے ہیں ، ان کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو۔ اس بنا پر ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ ابتدائی چار رکوع اور پانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں گی۔

روایات میں صلٰوۃِ خوف (عین حالت جنگ میں نماز پڑھنے ) کا ذکر ہمیں غزوۂ ذات الرقاع میں ملتا ہے جو ۴ھ میں واقع ہوا۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسی کے لگ بھگ زمانے میں وہ خطبہ نازل ہوا ہو گا جس میں اس نماز کی ترکیب بیان کی گئی ہے۔ (رکوع ۱۵)

مدینے سے بنی نضیر کا اخراج ربیع الاول ۴ھ میں ہوا اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانے میں نازل ہوا ہو گا جس میں یہودیوں کو آخری تنبیہ کی گئی ہے کہ "ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں"۔

پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر دی گئی تھی جو ۵ھ میں ہوا اس لیے وہ خطبہ جس میں تیمم کا ذکر ہے اسی سے متصل عہد سمجھنا چاہیے (رکوع ۷)۔

شان نزول اور مباحث

اس طرح بحیثیتِ مجموعی سورت کا زمانۂ نزول معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں اس زمانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ سورت کے مضامین سمجھنے میں اس سے مدد لی جا سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس وقت جو کام تھا اسے تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : ایک اس نئی منظم اسلامی سوسائٹی کا نشو و نما جس کی بنا پر ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اور اس کے اطراف و جوانب میں پڑ چکی تھی اور جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جا رہے تھے۔ دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب، یہودی قبائل اور منافقین کی مخالفِ اصلاح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔ تیسرے اسلام کی دعوت کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیلانا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین شعبوں سے متعلق ہیں۔

اسلامی معاشرے کی تنظیم کے لیے سورۂ بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں ، اب یہ معاشرہ ان سے زائد ہدایات کا طالب تھا، اس لئے سورۂ نساء کے ان خطبوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے طریق پر کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اصول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے حقوق معین کیے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معاملات کی درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔ تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرز عمل خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہل کتاب کے اخلاقی و مذہب رویے پر تبصرہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی ان پیش رو امتوں کے نقش قدم پر چلنے سے پرہیز کریں۔ منافقین کے طرز عمل پر تنقید کر کے سچی ایمانداری کے مقیضات واضح کیے گئے اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کر کے رکھ دیا گیا۔

مخالفِ اصلاح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اس نے جنگ احد کے بعد زیادہ نازک صورت اختیار کر لی۔ تھی۔ احد کی شکست نے اطراف و نواح کے مشرک قبائل، یہودی ہمسایوں اور گھر کے منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھا دی تھیں اور مسلمان ہر طرف خطرات میں گھر گئے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف پر جوش خطبوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو مقابلے کے لئے ابھارا اور دوسری طرف جنگی حالات میں کام کرنے کے لیے انہیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینے میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کر لیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار غزات اور سریوں میں جانا پڑتا تھا اور اکثر ایسے راستوں سے گزرنا ہوتا تھا جہاں پانی فراہم نہ ہو سکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل اور وضو دونوں کے بجائے تیمم کر لیا جائے۔ نیز ایسے حالات میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صلٰوۃِ خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آ جاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھا۔ اس مسئلے میں ایک طرف اسلامی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دار الاسلام میں آ جائیں۔

یہودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصوصیت کے ساتھ نہایت معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ معاہدات کی صریح خلاف ورزی کر کے کھلم کھلا دشمنانِ اسلام کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی جماعت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا رہے تھے۔ ان کی اس روش پر سخت گرفت کی گئی اور انہیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کر دی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ سے ان کا اخراج عمل میں آیا۔

منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرزِ عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کر کے ہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتا دیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔

غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔

سب سے زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کر دار بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاقِ فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔

دعوت و تبلیغ کا پہلو اس سورت میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ جاہلیت کے مقابلے میں اسلام جس اخلاقی و تمدنی اصلاح کی طرف دنیا کو بلا رہا تھا، اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین، تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سورت میں تنقید کر کے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

ترجمہ و تفسیر

لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔۱ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دُوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلّقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ یتیموں کے مال اُن کو واپس دو،۲ اچھے مال کو بُرے مال سے نہ بدل لو،۳ اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ ۴ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو ۵ یا اُن عورتوں کو زوجیّت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں،۶ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ  صواب ہے۔ اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے ) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصّہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔۷ اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیامِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو۔ ۸ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔۹ پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو۔۱۰ ایسا کبھی نہ کرنا کہ حدِّ انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سر پرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۔ ۱۱ پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے۔مردوں کے لیے اُس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت،۱۲ اور یہ حصّہ(اللہ کی طرف سے ) مقرر ہے۔ اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔ ۱۳لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچّوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ ۱۴؏١
 

۱-چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔

’’ تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔ ’’اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا‘‘، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔

۲-یعنی جب تک وہ بچّے ہیں ، اُن کے مال اُنہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہو جائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو۔

۳-جامع فقرہ ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو، اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھّے مال کو اپنے بُرے مال سے نہ بدل لو۔

۴-اس کے تین مفہوم اہلِ تفسیر نے بیان کیے ہیں:

(١) حضرت عائشہ ؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچّیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں اُن کے مال اور اُن کے حُسن و جمال کی وجہ سے ، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سر دھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور پھر اُن پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دُوسری عورتیں دُنیا میں موجود ہیں ، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کر لو۔ اسی سُورۃ میں اُنیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔

(۲) ابن عباس ؓ اور ان کے شاگرد عِکرِمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کر لیتا تھا۔ اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبُور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دُوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صُورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔

(۳)سَعید بن جُبَیر اور قَتَادَہ اور بعض دُوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں اُن کے ذہن عدل و انصاف کے تصوّر سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر اُن کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اِس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اوّل تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو۔

آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہُوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہُوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں۔

۵-اس بات پر فقہائے اُمّت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعدّد ازواج کو محدُود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غَیلان جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اِسی طرح ایک دُوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔ نیز یہ آیت تعدّد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے۔ جو شخص عدل کی شرط پُوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اُٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ حکومتِ  اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو اُن کی داد رسی کریں۔

بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلُوب و مرعُوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآں کا اصل مقصد تعدّدِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ ٴ نظر سے فی الاصل بُرا طریقہ ہے ) مٹا دینا تھا، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں۔ تعدّد ازواج کا فی نفسہ ایک بُرائی ہونا بجائے خود ناقابلِ تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدّنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدّن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدّدِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسُوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدّدِ ازواج فی نفسہ ایک بُرائی ہے اُن کو یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوامخواہ قرآن کی طرف منسُوب کریں۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدُود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت ‘‘، ص ۳۰۷ تا ۳١٦)۔

۶-لونڈیاں مراد ہیں ، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا بار بھی برداشت نہ کر سکو تو پھر لونڈی سے نکاح کر لو، جیسا کہ رکوع ۴ میں آگے آتا ہے۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمّہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا۔ (آگے حاشیہ نمبر ۴۴ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی)

۷-حضرت عمر ؓ اور قا ضی شُریح کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کو پُورا مہر یا اس کا کوئی حصّہ معاف کر دیا ہو اور بعد میں وہ اس کا پھر مطالبہ کرے تو شوہر اُس کے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا ، کیونکہ اس کا مطالبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے مہر یا اس کا کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’حقوقُ الزّوجین‘‘ عنوان ’’مہر‘‘۔

۸-یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے۔ اس میں اُمّت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیامِ  زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظامِ  تمدّن و معیشت اور بالآخر نظامِ اخلاق کو خراب کر دیں۔ حقوقِ ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدُود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریاتِ  زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوقِ مالکانہ کے آزاد انہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدّن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مُضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحبِ مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومتِ اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں، یا جو لوگ اپنی دولت کو بُرے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریاتِ  زندگی کا بندوبست کر دے۔

۹-یعنی جب وہ سنِ بلوغ کے قریب پہنچ رہے ہوں تو دیکھتے رہو کہ اُن کا عقلی نشو و نما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمّہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے۔

۱۰-مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ، دوسرے رُشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے اُمّت میں اتفاق ہے۔ دُوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سنِّ بُلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رُشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کر نا چاہیے۔ پھر خواہ رُشد پایا جائے یا نہ پایا جائے ، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رُشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً موخّر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرینِ صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضیِ شرع سے رُجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رُشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔

۱۱-یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھُپے نہ لے بلکہ علّانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔

۱۲-اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔ دُوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے خو اہ وہ کتنی ہی کم ہو ، حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصّوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اَور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے اُن کا حصّہ خرید لے۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہو گا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنفِ مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اِس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔

۱۳-خطاب میّت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دُور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچّے آ جائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں از رُوئے شرع اُن کا حصّہ نہیں ہے تو نہ سہی، وُسعتِ قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے اُن کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعمُوم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔

۱۴-حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ اُحُد کے بعد حضرت سعد بن رَبیع ؓ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ’’ یا رسول اللہ! یہ سعد ؓ کی بچیاں ہیں جو آپ ؐ کے ساتھ اُحُد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پُوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہّ تک نہیں چھوڑا ہے۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا‘‘۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

 

تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ : مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے ، ۱۵ اگر (میّت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہو ں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔۱۶ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میّت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصّہ مِلنا چاہیے۔۱۷ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے۔۱۸ اور اگر میّت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصّہ کی حق دار ہو گی۔۱۹ (یہ سب حصّے اُس وقت نکالے جائیں گے ) جبکہ وصیّت جو میّت نے کی ہو پُوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔۲۰ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔۲۱ اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صُورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں اُن کا حصّہ آٹھواں ہو گا،۲۲ بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پُوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے۔ اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے ) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے ،۲۳ جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے ، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔۲۴ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خُو ہے۔۲۵یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسُول ؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کُن سزا ہے۔ ؏۲ ۲۵ الف

 

۱۵-میراث کے معاملہ میں یہ اوّلین اُصُولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصّہ عورت سے دوگنا ہے۔ چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمّہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمّہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے،  لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصّہ مرد کی بہ نسبت کم رکھا جاتا۔

۱۶-یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اس کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں تو خواہ دو لڑکیاں ہوں یا دو سے زائد ، بہرحال اس کے کل ترکہ ۲/۳ حصّہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہو گا ، باقی ۱/۳ دُوسرے وارثوں میں۔ لیکن اگر میّت کا صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دُوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کُل مال کا وارث ہو گا ، اور دُوسرے وارث موجود ہوں تو اُن کا حصّہ دینے کے بعد باقی سب مال اُسے ملے گا۔

۱۷-یعنی میّت کے صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں بہرحال میّت کے والدین میں سے ہر ایک ۱/۶ کا حق دار ہو گا خواہ میّت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔ رہے باقی ۲/۳ تو اُن میں دُوسرے وارث شریک ہوں گے۔

۱۸-ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو باقی ۲/۳ باپ کو ملے گا۔ ورنہ ۲/۳ میں باپ اور دُوسرے وارث شریک ہوں گے۔

۱۹-بھائی بہن ہونے کی صُورت میں ماں کا حصّہ ۱/۳ کے بجائے ۱/۶ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصّہ میں سے جو ۱/۶ لیا گیا ہے وہ باپ کے حصّہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صُورت میں باپ کی ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میّت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصّہ نہیں پہنچتا۔

۲۰-وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے ، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے اُمّت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کے متعلق سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۸۶ میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کُل مال کے ۱/۳ حصّہ کی حد تک وصیّت کرنے کا اختیار ہے ، اور یہ وصیّت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانونِ وراثت کی رُو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصّہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیارِ  تمیزی سے حصّہ مقرر کر دے۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے ، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے ، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے ، تو اس کے حق میں وصیّت کے ذریعہ سے حصّہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دُوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہِ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیّت کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کُل ملکیت میں سے ۲/۳ یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصّہ ملے گا۔ اور ۱/۳ یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصُوص خاندانی حالات کے لحاظ سے (جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے ) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیّت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیّت میں ظلم کرے ، یا بالفاظِ دیگر اپنے اختیارِ تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کر لیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیّت کو درست کر دے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ’’ یتیم پوتے کی وراثت‘‘۔

۲۱-یہ جواب ہے اُن سب نادانوں کو جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے۔

۲۲-یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں، اولاد ہونے کی صُورت میں وہ ۱/۸ کی اور اولاد نہ ہونے کی صُورت میں ۱/۴ کی حصّہ دار ہوں گی اور یہ ۱/۴ یا ۱/۸ سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔

۲۳-باقی ۵/۶ یا ۲/۳ جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصّہ ملے گا ، ورنہ اس پُوری باقی ماندہ ملکیّت کے متعلق اس شخص کو وصیّت کرنے کا حق ہو گا۔

اس آیت کے متعلق مفسّرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اَخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میّت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دُوسرا ہو۔ رہے سگے بھائی بہن ، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں، تو ان کا حکم اِسی سُورہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔

۲۴-وصیّت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیّت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محرُوم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اُوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصُود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محرُوم ہو جائیں۔ اس قسم کے ضِرار کو گناہِ  کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیّت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دُوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہلِ جنّت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیّت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے۔ یہ ضِرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے ، مگر خاص طور پر کَلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دُور کے رشتہ داروں کو حصّہ پانے سے محرُوم کر دے۔

۲۵-یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے : ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اور اللہ کی صفتِ حِلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔

۲۵ الف-یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں اُن لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانونِ  وراثت کو تبدیل کریں، یا اُن دُوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضع طور پر مقرر کر دی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس قانونِ وراثت کے معاملہ میں جو نافرمانیاں کی گئی ہیں وہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ کہیں سرے سے تقسیمِ میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر "مشرک خاندانی جائداد" کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ کہیں عورتوں اور مردوں کا حصّہ برابر کر دیا گیا۔ اور اب ان پرانی بغاوتوں کے ساتھ تازہ ترین بغاوت یہ ہے کہ بعض مسلمان ریاستیں اہل مغرب کی تقلید میں "وفات ٹیکس" ( Death Duty ) اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر میّت کا ترکہ کسی صورت میں حکومت کو پہنچنا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی مرنے والے کا کوئی قریب و بعید کا رشتہ دار موجود نہ ہو اور اس کا چھوڑا ہوا مال تمام اشیاء متروکہ (Unclaimed Properties) کی طرح داخل بیت المال ہو جائے۔ یا پھر حکومت اس صورت میں کوئی حصّہ پا سکتی ہے جبکہ مرنے والا اپنی وصیّت میں اس کے لئے کوئی حصّہ مقرر کر جائے۔

 

تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۶ ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیّت کا حق اُنہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی بُرا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجّہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو بُرے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔ اور اسی طرح توبہ اُن کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔۲۷ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔۲۸ اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے )۔۲۹ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو۔۳۰ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دُوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے ؟ اور آخر تم اُسے کس طرح لے لو گے جب کہ تم ایک دُوسرے سے لُطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟۳۱ اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا۔۳۲ درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے ، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔۳۳ ؏۳

 

۲۶-ان دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تا حکمِ ثانی قید رکھا جائے۔ دُوسری آیت زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کو اذیّت دی جائے ، یعنی مارا پیٹا جائے ، سخت سُست کہا جائے اور ان کی تذلیل کی جائے۔ زنا کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا۔ بعد میں سُورۂ نُور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم دیا گیا کہ انہیں سو ۱۰۰ سو ۱۰۰ کوڑے لگائے جائیں۔ اہلِ عرب چونکہ اس وقت تک کسی باقاعدہ حکومت کے ماتحت رہنے اور عدالت و قانون کے نظام کی اطاعت کرنے کے عادی نہ تھے ، اس لیے یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی ایک قانونِ تعزیرات بنا کر دفعتًہ ان پر نافذ کر دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رفتہ رفتہ تعزیری قوانین کا خوگر بنانے کے لیے پہلے زنا کے متعلق یہ سزائیں تجویز فرمائیں ، پھر بتدریج زنا، قذف اور سرقہ کی حدیں مقرر کیں، اور بالآخر اسی بنا پر تعزیرات کا و ہ مفصّل قانون بنا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں نافذ تھا۔

مفسر سُدِّی کو اِن دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دُوسری آیت غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لیے۔ لیکن یہ ایک کمزور تفسیر ہے جس کی تائید میں کوئی وزنی دلیل نہیں۔ اور اس سے زیادہ کمزور بات وہ ہے کہ جو ابو مسلم اصفہانی نے لکھی ہے کہ یہی آیت عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں۔ تعجب ہے ابو مسلم جیسے ذی علم شخص کی نظر اس حقیقت کی طرف کیوں نہ گئی کہ قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور اُنہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلامِ شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ  نبوّت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابۂ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سُورہ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔

۲۷-توبہ کے معنی پلٹنے اور رُجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا ، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ از سرِ نو اس کی طرف منعطف ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف اُن بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصُور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصُور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کھُلا پائیں گے کہ ؎

ایں درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست

صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

مگر توبہ اُن کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اُس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یُغرغِر۔’’ اللہ بندے کی توبہ بس اُسی وقت تک قبُول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں‘‘۔ کیونکہ امتحان کی مُہلت جب پُوری ہو گئی اور کتابِ زندگی ختم ہو چکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے اور دُوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اُس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں۔

۲۸-اس سے مُراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میّت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے۔ عدّت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے۔

۲۹-مال اُڑانے کے لیے نہیں بلکہ بد چلنی کی سزا دینے کے لیے۔

۳۰-یعنی اگر عورت خوبصورت نہ ہو، یا اس میں کوئی ایسا نقص ہو جس کی بنا پر شوہر کو پسند نہ آئے ، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوبصورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دُوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صُورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر اُسے اپنی اُن خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداءً محض اس کی صُورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا، اس کے حسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ازدواجی زندگی کی ابتداء میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسُوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو برُوئے کار آنے کا موقع دے تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی بُرائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے۔ طلاق بالکل آخری چارۂ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ، یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا تزوجوا وال تطلقو فان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات، یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں۔

۳۱-پختہ عہد سے مراد نکاح ہے ، کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبُوط پیمانِ  وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسہ کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالہ کرتی ہے۔ اب اگر مرد اپنی خواہش سے اس کو توڑتا ہے تو اُسے معاوضہ واپس لینے کا حق نہیں ہے جو اس نے معاہد ہ کرتے وقت پیش کیا تھا۔ ( ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۵۱)۔

۳۲-تمدّنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعمُوم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ’’جو ہو چکا سو ہو چکا‘‘۔ اِس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ بے علمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو ان پر گرفت نہیں کی جائے گی، بشرطیکہ اب حکم آ جانے کے بعد اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو۔ دوسرے یہ کہ زمانہ ٴ سابق کے کسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرا یا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز، اور عائد شدہ ذمّہ داریوں کو لازما ً ساقط بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حقِ وراثت ساقط کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی۔

۳۳-اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جُرم ہے اور قابل دست اندازیِ پولیس ہے۔ ابوداؤد، نَسائی اور مسندِ احمد میں یہ روایات ملتی ہیں کہ نبی صلی علیہ و سلم نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والو ں کو موت اور ضبطی جائداد کی سزا دی ہے۔ اور ابنِ ماجہ نے ابنِ عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے یہ قاعدہ ٴ کلیہ ارشاد فرمایا تھا کہ من وقع علی ذات محرم فاقتلوہ۔’’ جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اُسے قتل کر دو۔‘‘ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام احمد تو اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے اور اس کا مال ضبط کر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کی ہو تو اس پر حدِّ زنا جاری ہو گی، اور اگر نکاح کیا ہو تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی۔

 

تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں،۳۴ بیٹیاں،۳۵ بہنیں،۳۶ پھُوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں،۳۷ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دُودھ پلایا ہو، اور تمہاری دُودھ شریک بہنیں،۳۸ اور تمہاری بیویوں کی مائیں،۳۹ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔۔۔۔ ۴۰  اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلّقِ زن و شو ہو  چکا ہو۔ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلقِ زن و شو نہ ہوا ہو تو (انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔۔۔۔ اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صُلب سے ہوں۔۴۱ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو،۴۲ مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔۴۳ اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دُوسرے کے نکاح میں ہوں (مُحْصَنَات) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آئیں۔۴۴ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔ اِن کے ما سوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے ، بشرطیکہ حصارِ نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔ پھر جو ازدواجی زندگی کا لُطف تم ان سے اُٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مَہر بطور فرض کے ادا کرو، البتّہ مَہر کی قرار داد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے۔ اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (مُحْصَنَات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں۔ اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خُوب جانتا ہے ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو،۴۵ لہٰذا اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معرُوف طریقہ سے اُن کے مہر ادا کر دو، تاکہ وہ حصارِ نکاح میں محفوظ (مُحْصَنَات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھُپے آشنائیاں کریں۔ پھر جب وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بنسبت آدھی سزا ہے۔ جو خاندانی عورتوں (مُحصنَات) کے لیے مقرر ہے۔۴۶ یہ سہولت ۴۷ تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بندِ تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏۴
 

۳۴-ماں کا اطلاق سگی اور سوتیلی ، دونوں قسم کی ما ؤ ں پر ہوتا ہے اس لیے دونوں حرام ہیں۔ نیز اسی حکم میں باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی شامل ہے۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے باپ کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے یا نہیں۔ سلف میں سے بعض اس کی حُرمت کے قائل نہیں ہیں ، اور بعض اسے بھی حرام قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان کے نزدیک جس عورت کو باپ نے شہوت سے ہاتھ لگایا ہو وہ بھی بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح سلف میں اس امر پر بھی اختلاف رہا ہے کہ جس عورت سے بیٹے کا ناجائز تعلق ہو چکا ہو ، وہ باپ پر حرام ہے یا نہیں۔ اور جس مرد سے ماں یا بیٹی کا ناجائز تعلق رہا ہو یا بعد میں ہو جائے اس سے نکاح ماں اور بیٹی دونوں کے لیے حرام ہے یا نہیں۔ اس باب میں فقیہانہ بحثیں بہت طویل ہیں، مگر یہ بات بادنیٰ تامّل سمجھ میں آ سکتی ہے کہ کسی شخص کے نکاح میں ایسی عورت کا ہونا جس پر اس کا باپ یا اس کا بیٹا بھی نظر رکھتا ہو ، یا جس کی ماں یا بیٹی پر بھی اس کی نگاہ ہو، ایک صالح معاشرت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہو سکتا۔ شریعتِ الٰہی کا مزاج اس معاملہ میں اُن قانونی موشگافیوں کو قبول نہیں کرتا جن کی بنا پر نکاح اور غیر نکاح اور قبل نکاح اور بعد نکاح اور لمس اور نظر وغیرہ میں فرق کیا جاتا ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ خاندانی زندگی میں ایک ہی عورت کے ساتھ باپ اور بیٹے کے ، یا ایک ہی مرد کے ساتھ ماں اور بیٹی کے شہوانی جذبات کا وابستہ ہونا سخت مفاسد کا موجب ہے اور شریعت اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ من نظر الیٰ فرج امرأة حرمت علیہ امّھاو ابنتھا۔’’جس شخص نے کسی عورت کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالی ہو اُس کی ماں اور بیٹی دونوں اُس پر حرام ہیں۔‘‘ اور لا ینظر اللہ الیٰ رجل نظر الیٰ فرج امرأة و ابنتھا، ’’ خدا اس شخص کی صُورت دیکھنا پسند نہیں کرتا جو بیک وقت ماں اور بیٹی دونوں کے اعضاء صنفی پر نظر ڈالے۔‘‘ ان روایات سے شریعت کا منشاء صاف واضح ہو جاتا ہے۔

۳۵-بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی ناجائز بیٹی کی طرح محرّمات میں سے ہے ، اور امام شافعی ؒ کے نزدیک وہ محرّمات میں سے نہیں ہے۔ مگر درحقیقت یہ تصوّر بھی ذوقِ سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو۔

۳۶-سگی بہن اور ماں شریک بہن اور باپ شریک بہن تینوں اس حکم میں یکساں ہیں۔

۳۷-اِن سب رشتوں میں بھی سگے اور سوتیلے کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ باپ اور ماں کی بہن خواہ سگی ہو خواہ سوتیلی، یا باپ شریک ، بہرحال وہ بیٹے پر حرام ہے۔ اسی طرح بھائی اور بہن خواہ سگے ہوں یا سوتیلے یا باپ شریک ، ان کی بیٹیاں ایک شخص کے لیے اپنی بیٹی کی طرح حرام ہیں۔

۳۸-اِس امر پر اُمّت میں اتفاق ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے جس عورت کا دُودھ پیا ہو اس کے لیے وہ عورت ماں کے حکم میں اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں ہے ، اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہو جاتے ہیں۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دُودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ سکتا ہے اتنی ہی مقدار میں اگر بچہ کسی کا دُودھ پی لے تو حُرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ مگر امام احمد ؒ کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے یہ حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کس عمر میں پینے سے یہ رشتے حرام ہوتے ہیں۔ اس باب میں فقہاء کے اقوال حسبِ ذیل ہیں:

(١) اعتبار صرف اُس زمانہ میں دُودھ پینے کا ہے جبکہ بچّہ کا دُودھ چھڑا یا نہ جا چکا ہو اور شیر خوارگی ہی پر اس کے تغذیہ کا انحصار ہو۔ ورنہ دُودھ چھُٹائی کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دُودھ پی لیا ہو تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اُس نے پانی پی لیا۔ یہ رائے اُم سَلَمَہ اور ابن عباس کی ہے۔ حضرت علی سے بھی ایک روایت اس معنی میں آئی ہے۔ زُہرِی، حَسَن بصری ، قَتادہ،  عِکرِمہ اور اَوزاعی اسی کے قائل ہیں۔

(۲) دوسال کی عمر کے اندر اندر جو دُودھ پیا گیا ہو صرف اسی سے حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی۔ یہ حضرت عمر ؓ ، ابن مسعود، ابوہریرہ ؓ، اور ابنِ  عمر ؓ کا قول ہے اور فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف، امام محمد، اور سُفیان ثَوری نے اسے قُبول کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہے۔ امام مالک بھی اسی حد کے قائل ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ دو سال سے اگر مہینہ دو مہینہ زائد عمر بھی ہو تو اس میں دُودھ پینے کا وہی حکم ہے۔

(۳) امام ابو حنیفہ اور امام زُفَر کا مشہور قول یہ ہے کہ زمانۂ رضاعت ڈھائی سال ہے اور اس کے اندر پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوتی ہے۔

(۴) خواہ کسی عمر میں دُودھ پیے ، حرمت ثابت ہو جائے گی۔ یعنی اس معاملہ میں اصل اعتبار دُودھ کا ہے نہ کہ عمر کا۔ پینے والا اگر بوڑھا بھی ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو شیر خوار بچے کا ہے۔ یہی رائے ہے حضرت عائشہ ؓ کی۔ اور حضرت علی ؓ سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے۔ اور فقہاء میں سے عُروَہ بن زبیر ، عطاء، لَیث بن سعد اور ابن حَزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

۳۹-اس امر میں اختلاف ہے کہ جس عورت سے محض نکاح ہوا ہو اس کی ماں حرام ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ، مالک، احمد اور شافعی رحمہم اللہ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ اور حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ جب تک کسی عورت سے خلوت نہ ہوئی ہو اس کی ماں حرام نہیں ہوتی۔

۴۰-ایسی لڑکی کا حرام ہونا اس شرط پر موقوف نہیں ہے کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے محض اس رشتہ کی نزاکت ظاہر کرنے کے لیے استعمال فرمائے ہیں۔ فقہائے اُمّت کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ سوتیلی بیٹی آدمی پر بہر حال حرام ہے خواہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو۔

۴۱-یہ قید اس غرض کے لیے بڑھائی گئی ہے کہ جسے آدمی نے بیٹا بنا لیا ہو اس کی بیوہ یا مطلقہ آدمی پر حرام نہیں ہے۔ حرام صرف اُس بیٹے کی بیوی ہے جو آدمی کی اپنی صلب سے ہو۔ اور بیٹے ہی کی طرح پوتے اور نواسے کی بیوی بھی دادا اور نانا پر حرام ہے۔

۴۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے کہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ اس معاملہ میں یہ اُصُول سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی عورتوں کو جمع کرنا بہر حال حرام ہے جن میں سے کوئی ایک اگر مرد ہو تی تو اس کا نکاح دُوسری سے حرام ہوتا۔

۴۳-یعنی جاہلیّت کے زمانہ میں جو ظلم تم لوگ کرتے رہے ہو کہ دو دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لیتے تھے اس پر باز پُرس نہ ہو گی بشرطیکہ اب اس سے باز رہو( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۲)۔ اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ جس شخص نے حالتِ کفر میں دو بہنوں کو نکاح میں جمع کر رکھا ہو اُسے اسلام لانے کے بعد ایک کو رکھنا اور ایک کو چھوڑنا ہو گا۔

۴۴-یعنی جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہوئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الحرب میں موجود ہوں وہ حرام نہیں ہیں، کیونکہ دار الحرب سے دار الاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے۔ ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کیا جا سکتا ہے اور جس کی ملک یمین میں ہو ں وہ ان سے تمتُّع بھی کر سکتا ہے۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر میاں اور بیوی دونوں ایک ساتھ گرفتار ہوں تو ان کا کیا حکم ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ ان کا نکاح باقی رہے گا اور امام مالک و شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ان کا نکاح بھی باقی نہ رہے گا۔

لونڈیوں سے تمتُّع کے معاملہ میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے :

(١) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے ، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہے ان کا تبادلہ اُن مسلمان قیدیوں سے کرے جو دُشمن کے ہاتھ میں ہوں ، اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتُّع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔

(۲) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔

(۳)جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتُّع کے معاملہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہلِ کتاب ہی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصّہ میں وہ آئیں وہ ان سے تمتُّع کر سکتے ہیں۔

(۴) جو عورت جس شخص کے حصّہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتُّع کر سکتا ہے۔ کسی دُوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک میں وہ عورت ہے۔ اُس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صُلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحبِ  اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی۔ اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔

(۵) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دُوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دُوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔

(٦) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے اُس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مالدار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعیُّن کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعیُّن ہے۔

(۷) ملکیت کے تمام دُوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابلِ انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازرُوئے قانون کسی اسیرِ جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔

(۸) حکومت کی طرف سے حقوقِ ملکیّت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسُوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتُّع میں کراہت محسُوس کرے۔

(۹) اسیرانِ جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کے مجاز نہیں رہتی۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا۔ اور محض کچھ وقت کے لیے انھیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رُو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زنا اسلامی قانون میں جُرم ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصّہ دوم۔ اور ’’رسائل و مسائل‘‘ حصّۂ اوّل۔

۴۵-یعنی معاشرت میں لوگوں کے درمیان جو فرقِ مراتب ہے وہ محض ایک اعتباری چیز ہے ، ورنہ دراصل سب مسلمان یکساں ہیں، اور اگر کوئی حقیقی وجہِ امتیاز ان کے درمیان ہے تو وہ ایمان ہے جو محض اُونچے گھرانوں ہی کا حصّہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی ایمان و اخلاق میں ایک خاندانی عورت سے بہتر ہو۔

۴۶-سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دُوسرے لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعتِ اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہو سکتی ہے جو لونڈی کے دی جائے ؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں۔‘‘ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ اس رکوع میں لفظ مُحْصَنٰتُ (محفوظ عورتیں) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک ’’شادی شدہ عورتیں‘‘ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو۔ دُوسرے ’’خاندانی عورتیں‘‘ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں۔ آیتِ زیر بحث میں ’’محصَنات‘‘ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دُوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے (فَاِذَآ اُحْصِنَّ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی مُحْصَنہ ہوتی ہے۔ دُوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے مُحصَنہ نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی اَدھُوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی، اور نہ اُسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہو گی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ سُورۂ نُور کی دُوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلہ میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے۔ رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں، تو وہ غیر شادی شدہ محصَنات سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دوہری حفاظت کو توڑتی ہیں۔ اگر چہ قرآن ان کے لیے سزا ے رجم کی تصریح نہیں کرتا ، لیکن نہایت لطیف طریقہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے تو رہ جائے ، نبی کے ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔

۴۷-یعنی خاندانی عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کسی لونڈی سے اس کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کر لینے کی سہولت۔

 

اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اُن طریقوں کو واضح کرے اور اُنہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجّہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی۔۴۸ ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجّہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر دُور نکل جاؤ۔۴۹ اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دُوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے۔ ۵۰ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔۵۱ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اُوپر مہربان ہے۔۵۲جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی بُرائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے ۵۳ اور تم کو عزّت کی جگہ داخل کریں گے۔ اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔۵۴ اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں۔ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہدو پیمان ہوں تو ان کا حصّہ انہیں دو، یقیناً اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔۵۵ ؏۵
 

۴۸-سُورہ کے آغاز سے یہاں تک جو ہدایات دی گئی ہیں ، اور اس سُورہ کے نزول سے پہلے سُورۂ بقرہ میں مسائل تمدّن و معاشرت کے متعلق جو ہدایات دی جا چکی تھیں، ان سب کی طرف بحیثیتِ مجمُوعی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ معاشرت ، اخلاق اور تمدّن کے وہ قوانین ہیں جن پر قدیم ترین زمانہ سے ہر دَور کے انبیاء اور اُن کے صالح پَیرو عمل کرتے چلے آئے ہیں، اور یہ اللہ کی عنایت و مہربانی ہے کہ وہ تم کو جاہلیت کی حالت سے نکال کر صالحین کے طریقہ ٴ زندگی کی طرف تمہاری رہنمائی کر رہا ہے۔

۴۹-یہ اشارہ ہے منافقین اور قدامت پرست جُہلاء اور نواحی مدینہ کے یہُودیوں کی طرف۔ منافقین اور قدامت پرستوں کو تو وہ اصلاحات سخت ناگوار تھیں جو تمدّن و معاشرت میں صدیوں کے جمے اور رچے ہوئے تعصّبات اور رسم و رواج کے خلاف کی جا رہی تھیں۔ میراث میں لڑکیوں کا حصّہ۔ بیوہ عورت کا سُسرال کی بندشوں سے رہائی پانا اور عدّت کے بعد اس کا ہر شخص سے نکاح کے لیے آزاد ہو جانا۔ سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہونا۔ دو بہنوں کے ایک ساتھ نکاح میں جمع کیے جانے کو ناجائز قرار دینا۔ متبنّیٰ کو وراثت سے محرُوم کرنا اور منہ بولے باپ کے لیے متبنّیٰ کی بیوہ اور مطلقہ کا حلال ہونا۔ یہ اور اس طرح کی دُوسری اصلاحات میں سے ایک ایک چیز ایسی تھی جس پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسُوم کے پرستار چیخ چیخ اُٹھتے تھے۔ مدّتوں اِن احکام پر چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں۔ شرارت پسند لوگ ان باتوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی دعوتِ اصلاح کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے پھرتے تھے۔ مثلاً جو شخص کسی ایسے نکاح سے پیدا ہو ا تھا جسے اب اسلامی شریعت حرام قرار دے رہی تھی ، اس کو یہ کہہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا تھا کہ لیجیے ، آج جو نئے احکام وہاں آئے ہیں ان کی رُو سے آپ کی ماں اور آپ کے باپ کا تعلق ناجائز ٹھیرا دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ نادان لوگ اُس اصلاح کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے جو اُس وقت احکامِ الٰہی کے تحت انجام دیا جا رہا تھا۔

دُوسری طرف یہودی تھے جنہوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے اصل خدائی شریعت پر اپنے خود ساختہ احکام و قوانین کا ایک بھاری خول چڑھا رکھا تھا۔ بے شمار پابندیاں اور باریکیاں اور سختیاں تھیں جو انہوں نے شریعت میں بڑھا لی تھیں۔ بکثرت حلال چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ حرام کر بیٹھے تھے۔ بہت سے اوہام تھے جن کو انہوں نے قانونِ خداوندی میں داخل کر لیا تھا۔ اب یہ بات ان کے علماء اور عوام دونوں کی ذہنیّت اور مذاق کے بالکل خلاف تھی کہ وہ اس سیدھی سادھی شریعت کی قدر پہچان سکتے جو قرآن پیش کر رہا تھا۔ وہ قرآن کے احکام کو سُن کر بے تاب ہو ہو جاتے تھے۔ ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہاء کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعتِ الٰہی قرار دے ، ورنہ یہ ہرگز کتابِ الٰہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ ایّامِ ماہواری میں عورت کو بالکل پلید سمجھا جاتا تھا۔ نہ اس کا پکایا ہوا کھانا کھاتے۔ نہ اس کے ہاتھ کا پانی پیتے نہ اس کے ساتھ فرش پر بیٹھتے۔ بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھُو جانے کو بھی مکرُوہ سمجھتے تھے۔ ان چند دنوں میں عورت خود اپنے گھر میں اچھُوت بن کر رہ جاتی تھی۔ یہی رواج یہودیوں کے اثر سے مدینہ کے انصار میں بھی چل پڑا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا۔ جواب میں یہ آیت آئی جو سُورہ بقرہ رکوع ۲۸ کے آغاز میں درج ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی رُو سے حکم دیا کہ ایّامِ ماہواری میں صرف مباشرت ناجائز ہے۔ باقی تمام تعلقات عورتوں کے ساتھ اسی طرح رکھے جائیں جس طرح دُوسرے دنوں میں ہوتے ہیں۔ اس پر یہودیوں میں شور مچ گیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص تو قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ جو جو کچھ ہمارے ہاں حرام ہے اسے حلال کر کے رہے گا اور جس جس چیز کو ہم ناپاک کہتے ہیں اسے پاک قرار دے گا۔

۵۰-’’باطل طریقوں‘‘ سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلافِ حق ہوں اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں۔ ’’لین دین‘‘ سے مراد یہ ہے کہ آپس میں مفاد و منافع کا تبادلہ ہونا چاہیے جس طرح تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دُوسرے شخص کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ دیتا ہے۔ ’’ آپس کی رضامندی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دبا ؤ سے ہو اور نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سُود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جُوے میں حصّہ لینے والا ہر شخص اس غلط اُمید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہو گی۔ ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریقِ ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہر گز اس پر راضی نہ ہو۔

۵۱-یہ فقرہ پچھلے فقرے کا تتمہ بھی ہو سکتا ہے اور خود ایک مستقل فقرہ بھی۔ اگر پچھلے فقرے کا تتمہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دُوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ دنیا میں اس سے نظامِ تمدّن خراب ہوتا ہے اور اس کے بُرے نتائج سے حرام خور آدمی خود بھی نہیں بچ سکتا۔ اور آخرت میں اس کی بدولت آدمی سخت سزا کا مستوجب بن جاتا ہے۔ اور اگر اسے مستقل فقرہ سمجھا جائے تو اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ ایک دُوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال کیے ہیں اور ترتیبِ  کلام ایسی رکھی ہے کہ اس سے یہ تینوں مفہُوم نکلتے ہیں اور تینوں حق ہیں۔

۵۲-یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ ہے ، تمہاری بھلائی چاہتا ہے ، اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسے کاموں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی بربادی ہے۔

۵۳-یعنی ہم تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کر اپنے بندوں کو سزا دیں۔ اگر تمہارا نامۂ اعمال بڑے جرائم سے خالی ہو تو چھوٹی خطا ؤ ں کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور تم پر فردِ جُرم لگائی ہی نہ جائے گی۔ البتہ اگر بڑے جرائم کا ارتکاب کر کے آ ؤ گے تو پھر جو مقدمہ تم پر قائم کیا جائے گا اس میں چھوٹی خطائیں بھی گرفت میں آ جائیں گی۔

یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اُصُولی فرق کیا ہے۔ جہاں تک میں نے قرآن اور سُنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب) کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں:

(۱) کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو ، یا والدین ہوں، یا دُوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ’’ظلم‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلمِ عظیم کہا گیا ہے۔

(۲)اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے ، اور عمداً اُن کاموں کو نہ کرے جن کا اُس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہو گی اسی قدر گناہ بھی شدید ہو گا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ’’فسق‘‘ اور ’’معصیت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

(۳) اُن روابط کو توڑنا اور اُن تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے ، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس مختلف مدارج پر غور کیجیے۔ یہ فعل فی نفسہ ١ نظامِ تمدّن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ، مگر اس کی مختلف صُورتیں ایک دُوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ بُرا ہے۔ محرّمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشدّ ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صُورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجُوہ سے ہے جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے ، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحقِ احترام ہے ، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجبِ فساد ہے ، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ’’فجور‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

۵۴-اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں۔کوئی خوبصُورت ہے اور کوئی بد صُورت۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدّن کی ساری گونا گونی قائم ہے اور یہ عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کر تا ہے وہاں ایک نوعیّت کا فساد رُو نما ہوتا ہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیے فطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دُوسری نوعیّت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے ، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دُوسروں کو دیا ہو اس کی تمنّا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دُعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ مَردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصّہ‘‘، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی بُرائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا بالفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصّہ پائے گا۔

۵۵-اہلِ عرب میں قاعدہ تھا کہ جن لوگوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کے عہد و پیمان ہو جاتے تھے وہ ایک دُوسرے کی میراث کے حقدار بن جاتے تھے۔ اسی طرح جسے بیٹا بنا لیا جاتا تھا وہ بھی منہ بولے باپ کا وارث قرار پاتا تھا۔ اس آیت میں جاہلیت کے اس طریقے کو منسُوخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وراثت تو اُسی قاعدہ کے مطابق رشتہ دار وں میں تقسیم ہونی چاہیے جو ہم نے مقرر کر دیا ہے ، البتہ جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہوں اُن کو اپنی زندگی میں تم جو چاہو دے سکتے ہو۔

 

مرد عورتوں پر قوّام ہیں،۵۶ اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہے ،۵۷ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔۵۸ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو،۵۹ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔ اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں ۶۰ اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صُورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔۶۱ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے ، پہلو کے سا تھی ۶۲ اور مسافر سے ، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دُوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُسے چھُپاتے ہیں۔۶۳ ایسے کافِر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کُن عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روزِ آخر پر۔ سچ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بُری رفاقت میسّر آئی۔ آخر اِن لوگوں پر کیا آفت آ جاتی اگر یہ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے۔ اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھُپا نہ رہ جاتا۔ اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔ پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔۶۴اُس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسُول ؐ کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھُپا سکیں گے۔ ؏٦
 

۵۶-قوّام یا قیمّ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیّا کرنے کا ذمّہ دار ہو۔

۵۷-یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے ، جیسا کہ ایک عام اُردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف(یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصُوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دُوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیّت رکھتا ہے اور عورت فطرةً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے۔

۵۸-حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اُسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے ، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے ، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ‘‘۔ یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے۔ مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے ، یا خدا کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صُورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہو گی۔ بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صُورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے۔

۵۹-یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کر ڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے۔ اب رہا ان پر عمل درآمد، تو بہرحال اس میں قصُور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے ، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے با دلِ نا خواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درُست ہی نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ مُنہ پر نہ مارا جائے ، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے۔

۶۰-دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اور زوجین بھی۔ ہر جھگڑے میں صلح ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ فریقین بھی صلح پسند ہوں اور بیچ والے بھی چاہتے ہوں کہ فریقین میں کسی طرح صفائی ہو جائے۔

۶۱-اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں نا موافقت ہو جائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مِل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صُورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں، اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں۔ فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ، البتہ تصفیہ کی جو صُورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں، ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خُلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہو گا۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ، مگر علیٰحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے۔ یہ حَسَن بصری اور قَتَادہ اور بعض دوسرے فقہاء کا قول ہے۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کر دینے کے پُورے اختیارات ہیں۔ ابن عباس، سَعِید بن جُبَیر، ابراہیم نَخَعی، شَعبِی، محمد بن سِیرِین، اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے۔

حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے اُن کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عَقیِل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عُتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس ؓ ، اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ ؓ بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی ؓ نے حَکَم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہیں جُدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطورِ خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا۔

۶۲-متن میں ’’الصا حب بالجنب‘‘ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہے اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدار بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یا سفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذّب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتا ؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے۔

۶۳-اللہ کے فضل کو چھُپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گِر کر رہے۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیّال پر خرچ کرے ، نہ بندگانِ خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت نا شکری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انّ اللہ اذا انعم نعمة علی عبد احبّ ان یظھر اثرھا علیہ، اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کے کھانے پینے ، رہنے سہنے ، لباس اور مسکن، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے۔

۶۴-یعنی ہر دَور کا پیغمبر اپنے دَور کے لوگوں پر اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ زندگی کا وہ سیدھا راستہ اور فکر و عمل کا وہ صحیح طریق ، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی، اُسے میں نے اِن لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر یہی شہادت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے دَور کے لوگوں پر دیں گے ، اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کا دَور آپ ؐ کی بعثت کے وقت سے قیامت تک ہے۔( آل عمران، حاشیہ نمبر ۶۹)

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔۶۵ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔۶۶ اور اسی طرح جَنابت کی حالت ۶۷ میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو۔۶۸ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے ، یا تم نے عورتوں سے لَمس کیا ہو،۶۹ اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو،۷۰ بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔ تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے ؟۷۱ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو۔اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت و مدد گاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔جو لوگ یہودی بن گئے ہیں ۷۲ اُن میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو اُن کے محل سے پھیر دیتے ہیں،۷۳ اور دینِ حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لیے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا ۷۴ اور اِسمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ ۷۵ اور رَاعِنَا ۷۶۔ حالانکہ اگر وہ کہتے سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا، اور اِسمَعْ اور اُنْظُرْنَا تو یہ انہی کے لیے بہتر تھا اور زیادہ راستبازی کا طریقہ تھا۔ مگر ان پر تو ان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پِھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اُس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی۔۷۷ اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا،۷۸ اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے۔اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا،۷۹ اِس کے ماسوا دُوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔۸۰ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھُوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت اپنی پاکیزگیِ نفس کا دم بھرتے ہیں؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ، اور (انہیں جو پاکیزگی نہیں ملتی تو درحقیقت) ان پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔دیکھو تو سہی، یہ اللہ پر بھی جھُوٹے افترا گھڑنے سے نہیں چُوکتے اور ان کے صریحاً گناہ گار ہونے کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے۔ ؏۷
 

۶۵-یہ شراب کے متعلق دُوسرا حکم ہے۔ پہلا حکم وہ تھا جو سُورۂ بقرہ (آیت ۲۱۹) میں گزرا۔ اُس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بُری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کر نے لگا تھا۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّیٰ کہ بسا اوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے۔ غالباً ۴ ہجری کی ابتدا میں یہ دُوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آ جائے۔ اس کے کچھ مدّت بعد شراب کی قطعی حُرمت کا وہ حکم آیا جو سُورۂ مائدہ آیت ۹۰۔۹۱ میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سُکر یعنی نشہ کا لفظ ہے۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے۔

۶۶-اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اُونگھ جاتا ہو تو اُسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدّد ہے ، خود قرآن کے الفاظ بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ قرآن میں حتیٰ تفقھوا یا حتیٰ تفھمُو ا ما تقولون بلکہ حتیٰ تعلمو ا ماتقولون فرمایا ہے۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غزل۔

۶۷-جَنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے۔ اصطلاحِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں مادّہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔

۶۸-فقہاء اور مفسّرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے۔ دُوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جُنُبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے۔ یہ رائے حضرت علی ؓ ، ابن عباس ؓ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالتِ سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ لیکن پہلا گروہ اِس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دُوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجۂ بالا آیت پر رکھتا ہے۔

۶۹-اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے۔ حضرات علی، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری، اُبَی ابنِ کعب، سعید بن جُبَیر، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابنِ  عمر کی رائے ہے اور بعضی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابنِ خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی ؒ نے اختیار کیا ہے۔ بعض ائمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے۔ مثلاً اما م مالک ؒ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دُوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہو گا، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دُوسرے سے مَس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۷۰-حکم کی تفصیلی صُورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔

تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔

تیمم کے طریقے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک ا س کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ پر پھیر لیا جائے ، پھر دُوسری دفعہ ہاتھ مار کر کُہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہا ء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حَسَن بصری، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عطاء اور مکحول اور اَوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ اہلِ حدیث اسی کے قائل ہیں۔

تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مار ا جائے۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خُشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر مُنہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدّت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو، بہر حال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا، اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا۔

۷۱-عملاء اہلِ کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ’’ انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو انہوں نے کتابِ الٰہی کا ایک حصّہ گم کر دیا تھا۔ پھر جو کچھ کتابِ  الٰہی میں سے اُن کے پاس موجود تھا اس کی رُوح اور اس کے مقصد و مدّعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جُزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدُود تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے نا آشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علمائے دین اور پیشوایانِ مِلّت کہے جاتے تھے۔

۷۲-یہ نہیں فرمایا کہ ’’یہُودی ہیں‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’یہُودی بن گئے ہیں‘‘۔ کیونکہ ابتداءً تو وہ بھی مسلمان ہی تھے ، جس طرح ہر نبی کی اُمّت اصل میں مسلمان ہوتی ہے ، مگر بعد میں وہ صرف یہودی بن کر رہ گئے۔

۷۳-اس کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں ردّ و بدل کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی تاویلات سے آیات کتاب کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ ؐ کے پیرووں کی صحبت میں آ کر ان کی باتیں سُنتے ہیں اور واپس جا کر لوگوں کے سامنے غلط طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔ بات کچھ کہی جاتی ہے اور وہ اسے اپنی شرارت سے کچھ کا کچھ بنا کر لوگوں میں مشہور کرتے ہیں تاکہ انہیں بدنام کیا جائے اور ان کے متعلق غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو اسلامی جماعت کی طرف آنے سے روکا جائے۔

۷۴-یعنی جب انہیں خدا کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو زور سے کہتے ہیں کہ سَمِعْنَا ( ہم نے سُن لیا) اور آہستہ کہتے ہیں عَصَیْنَا (ہم نے قبول نہیں کیا)۔ یا اَطَعْنَا (ہم نے قبول کیا) کا تلفظ اس انداز سے زبان کو لچکا دے کر کرتے ہیں کہ عَصَیْنَا بن جاتا ہے۔

۷۵-یعنی دَورانِ گفتگو میں جب وہ کوئی بات محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اِسْمَعْ (سُنیے ) اور پھر ساتھ ہی غَیْرَ مُسْمَعٍ بھی کہتے ہیں جو ذو معنی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سُنائی جا سکتی۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی سُنائے۔ ایک اور مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تم بہرے ہو جاؤ۔

۷۶-اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۰۸۔

۷۷-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران حاشیہ نمبر ۲۔

۷۸-ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳۔

۷۹-یہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب اگرچہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کی پَیروی کے مدّعی تھے مگر شرک میں مُبتلا ہو گئے تھے۔

۸۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی بس شرک نہ کرے باقی دُوسرے گناہ دل کھول کر کرتا رہے۔ بلکہ دراصل اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصُود ہے کہ شرک، جس کو ان لوگوں نے بہت معمولی چیز سمجھ رکھا تھا ، تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے حتیٰ کہ اور گناہوں کی معافی تو ممکن ہے مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ معاف نہیں کیا جا سکتا۔ علماء یہُود شریعت کے چھوٹے چھوٹے احکام کا تو بڑا اہتمام کرتے تھے ، بلکہ ان کا سارا وقت اُن جُزئیات کی ناپ تول ہی میں گزرتا تھا جو ان کے فقیہوں سے استنباط در استنباط کر کے نکالے تھے ، مگر شرک ان کی نگاہ میں ایسا ہلکا فعل تھا کہ نہ خود اس سے بچنے کی فکر کرتے تھے ، نہ اپنی قوم کو مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچانے کی کوشش کرتے تھے ، اور نہ مشرکین کی دوستی اور حمایت ہی میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا تھا۔

 

کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جِبْت ۸۱ اور طاغوت ۸۲ کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔۸۳ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اُس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ کیا حکومت میں اُن کا کوئی حصّہ ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دُوسروں کو ایک پھُوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔۸۴ پھر یا یہ دُوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟۸۵ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ  کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا،۸۶ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا، ۸۷ اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو بس جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے۔ جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا اُنہیں با یقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دُوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔ مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، ۸۸ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسُول کی طرف پھیر دو ۸۹ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔۹۰ ؏۸
 

۸۱-جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیزکے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت(جوتش)، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے ، شگون اور مہُورت اور تمام دُوسری وہمی و خیالی باتوں کو ’’جبت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ و الطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دُوسرے طریقے سب ’’جِبت‘‘ کا مفہُوم وہی ہے جسے ہم اُردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں (Superstitions) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

۸۲-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۸۶ و ۲۸۸۔

۸۳-علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکینِ عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہِ راست پر ہیں۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دُوسری طرف صریح بُت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے۔

۸۴-یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصّہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسرِ ہدایت ہے اور کون نہیں ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دُوسروں کو ایک پھُوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا۔ دُوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دُوسرے لوگ حصّہ بٹانا چاہتے ہیں اور یہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے ؟ یہاں تو محض اعترافِ حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں۔

۸۵-یعنی یہ اپنی نا اہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے ، اس سے جب دُوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے اُمیّوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہُور سے وہ رُوحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہو گئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے ، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں۔

۸۶-’’ملکِ عظیم‘‘ سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے۔

۸۷-یاد رہے کہ یہاں جواب بنی اسرائیل کی حاسدانہ باتوں کا دیا جا رہا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ آخر جلتے کس بات پر ہو ؟ تم بھی ابراہیم کی اولاد ہو اور یہ بنی اسماعیل بھی ابراہیم ہی کی اولاد ہیں۔ ابراہیم سے دنیا کی امامت کا جو وعدہ ہم نے کیا تھا وہ آلِ ابراہیم میں سے صرف اُن لوگوں کے لیے تھا جو ہماری بھیجی ہوئی کتاب اور حکمت کی پیروی کریں۔ یہ کتاب اور حکمت پہلے ہم نے تمہارے پاس بھیجی تھی مگر تمہاری اپنی نالائقی تھی کہ تم اس سے مُنہ موڑ گئے۔ اب وہی چیز ہم نے بنی اسمٰعیل کو دی ہے اور یہ اُن کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں

۸۸-یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بُنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دُوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ و ہ انصاف کی رُوح سے خالی ہو گئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نِگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چھُری پھیرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اُس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دُوسری طرف وہ لوگ تھے جو بُتوں کو پُوج رہے تھے ، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے ، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ نہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دُوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دُوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہر حال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔

۸۹-یہ آیت اسلام کے پُورے مذہبی، تمدّنی اور سیاسی نظام کی بُنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:

(۱) اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے۔ دُوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدِّ مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔ ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔

(۲)اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔‘‘ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آ رہی ہے۔

(۳)مذکورۂ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ اُن’’ اولی الامر‘‘ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔’’اولی الامر ‘‘ کے مفہُوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا مُلکی انتظام کرنے والے حُکّام، یا عدلاتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدّنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلّوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحبِ  امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو، اور خدا و رسول کا مطیع ہو۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورۂ صدر میں صاف طور پر درج ہیں، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:

السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم)

مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند ، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔

لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف۔ (بخاری و مسلم)

خدا اور رسُول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ’’معروف‘‘ میں ہے۔

یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بریٔ و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔(مسلم)

حضور ؐ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا ؤ گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔

یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعتِ  خدا و رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔

شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضو نہم و یبغضو نکم و تلعنو نہم و یلعنو نکم قلنا یا رسول اللہ افلا ننا بذھم عند ذٗالک؟ قال لا ما اقامو ا فیکم الصلوۃ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ۔ (مسلم)

حضُور ؐ نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جب یہ صُورت ہو تو کیا ہم اُن کے مقابلہ پر نہ اُٹھیں؟ فرمایا نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔

اس حدیث میں اُوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اُوپر کی حدیث سے گمان ہو سکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابندِ نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان کی حکومت اپنی اُصُولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہو چکی ہے اور اسے اُلٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے مِن جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لا ننازع الامر ا ھلہ الا ان ترو اکفر ا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان، یعنی یہ کہ’’ ہم اپنے سرداروں اور حُکّام سے نزاع نہ کریں گے ، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھُلم کھُلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو۔‘‘ (بخار ی و مسلم)

(۴) چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (Final Authority) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہو گی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسُول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصُوصیّت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔

اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائلِ  زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سُنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اُصُولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدّعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اُس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اُسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اُصُول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسُول ﷺ کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اِسی صُورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے ، اور اُس کی یہ آزادیِ عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادیِ عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔

۹۰-’’قرآن مجید چونکہ محض کتابِ آئین ہی نہیں ہے بلکہ کتابِ تعلیم و تلقین اور صحیفۂ وعظ و ارشاد بھی ہے ، اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اُصُول بیان کیے گئے تھے ، اب اِس دُوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جا رہی ہے۔ اس میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں : ایک یہ کہ مذکورۂ بالا چاروں اُصُولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف ، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے یہ کہ ان اُصُولوں پر اپنے نظامِ زندگی کو تمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے۔ صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراطِ مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہو سکتی ہے۔ یہ نصیحت ٹھیک اُس تقریر کے خاتمہ پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جا رہا تھا۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقہ سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری پیش رَو اُمّت دین کے اِن بُنیادی اُصُولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گِر چکی ہے ا س سے عبرت حاصل کرو۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسُول کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے ، اور ایسے سرداروں اور رہنماؤں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا رسُول کے مطیعِ فرمان نہ ہوں، اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ اُن خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے۔

 

اے نبی ؐ ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رُجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۹۱۔۔۔۔شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دُور لے جانا چاہتا ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول ؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔۹۲ پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے ؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں ۹۳ اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے۔۔۔۔اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان سے تعرّض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔ (انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔۹۴ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے ، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ نہیں، اے محمد ؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسُوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔۹۵ اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ ۹۶ حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا ۹۷اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم ا نہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے۔ ۹۸جو اللہ اور رسُول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین۔۹۹ کیسے اچّھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسّر آئیں۔۱۰۰یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔ ؏۹
 

۹۱-یہاں صریح طور پر ’’طاغوت‘‘ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دُوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنیٰ میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت ’’طاغوت‘‘ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھُکنا عین منافقت ہے۔

۹۲-اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین کی عام روش تھی کہ جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا اس کو تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے آتے تھے اور جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہو گا اس کو آپ ؐ کے پاس لانے سے انکار کر دیتے تھے۔ یہی حال اب بھی منافقوں کا ہے کہ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر ورنہ ہر اُس قانون ، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جس سے انہیں اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ حاصل ہونے کی توقع ہو۔

۹۳-غالباً اس سے مراد یہ ہے کہ جب ان کی اِس منافقانہ حرکت کا مسلمانوں کو علم ہو جاتا ہے اور انہیں خوف ہوتا ہے کہ اب باز پرس ہو گی اور سزا ملے گی اُس وقت قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلانے لگتے ہیں۔

۹۴-یعنی خدا کی طرف سے رسُول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آؤ اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ رسُول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے ، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے ، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انہی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسُول کو رسُول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

۹۵-اس آیت کا حکم صرف حضور ؐ کی زندگی تک محدُود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔ جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ کی ہدایت و رہنمائی کے تحت آپ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کُن سند ہے اور اس سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ ہے۔ حدیث میں اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ لا یؤمن احدکم حتیٰ یکون ھواہ تبعا لما جئت بہٖ۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔

۹۶-یعنی جب ان کا حال یہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرنے میں ذرا سا نقصان یا تھوڑی سی تکلیف بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے تو ان سے کسی بڑی قربانی کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا مطالبہ ان سے کیا جائے تو یہ فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے اور ایمان و اطاعت کے بجائے کفر و نافرمانی کی راہ لیں گے۔

۹۷-یعنی اگر یہ لوگ شک اور تذبذب اور تردّد چھوڑ کر یکسُوئی کے ساتھ رسُول کی اطاعت و پیروی پر قائم ہو جاتے اور ڈانواں ڈول نہ رہتے تو ان کی زندگی تزلزل سے محفوظ ہو جاتی۔ ان کے خیالات ، اخلاق اور معاملات سب کے سب ایک مستقل اور پائدار بنیاد پر قائم ہو جاتے اور یہ اُن برکات سے بہرہ ور ہوتے جو ایک شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے سے ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔ جو شخص تذبذب اور تردّد کی حالت میں مبتلا ہو، کبھی اِس راستہ پر چلے اور کبھی اُس راستہ پر، اور اطمینان کسی راستہ کے بھی صحیح ہونے پر اسے حاصل نہ ہو اس کی ساری زندگی نقش بر آب کی طرح بسر ہوتی ہے اور سعی لا حاصل بن کر رہ جاتی ہے۔

۹۸-یعنی جب وہ شک چھوڑ کر ایمان و یقین کے ساتھ رسول کی اطاعت کا فیصلہ کر لیتے تو اللہ کے فضل سے اُن کے سامنے سعی و عمل کا سیدھا راستہ بالکل روشن ہو جاتا اور انہیں صاف نظر آ جاتا کہ وہ اپنی قوتیں اور محنتیں کس راہ میں صرف کریں جس سے ان کا ہر قدم اپنی حقیقی منزل مقصُود کی طرف اُٹھے۔

۹۹-صدّیق سے مراد وہ شخص ہے جو نہایت راستباز ہو، جس کے اندر صداقت پسندی اور حق پرستی کمال درجہ پر ہو، جو اپنے معاملات اور برتاؤ میں ہمیشہ سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کرے ، جب ساتھ دے تو حق اور انصاف ہی کا ساتھ دے اور سچے دل سے دے ، اور جس چیز کو حق کے خلاف پائے اس کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑا ہو جائے اور ذرا کمزوری نہ دکھائے۔ جس کی سیرت ایسی سُتھری اور بے لوث ہو کہ اپنے اور غیر کسی کو بھی اس سے خالص راست روی کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کا اندیشہ نہ ہو۔

شہید کے اصل معنی گواہ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پُورے طرزِ عمل سے شہادت دے۔ اللہ کی راہ میں لڑ کر جان دینے والے کو بھی شہید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ جان دے کر ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے واقعی سچّے دل سے حق سمجھتا تھا اور اسے اتنا عزیز رکھتا تھا کہ اس کے لیے جان قربان کرنے میں بھی اس نے دریغ نہ کیا۔ ایسے راستباز لوگوں کو بھی شہید کہا جاتا ہے جو اس قدر قابلِ اعتماد ہوں کہ جس چیز پر وہ شہادت دیں اس کا صحیح و برحق ہونا بلا تامّل تسلیم کر لیا جائے۔

صَالح سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے خیالات اور عقائد میں ، اپنی نیت اور ارادوں میں اور اپنے اقوال و افعال میں راہِ راست پر قائم ہو اور فی الجملہ اپنی زندگی میں نیک رویّہ رکھتا ہو۔

۱۰۰-یعنی وہ انسان خوش قسمت ہے جسے ایسے لوگ دنیا میں رفاقت کے لیے میسّر آئیں اور جس کا انجام آخرت میں بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہو۔ کسی آدمی کے احساسات مُردہ ہو جائیں تو بات دُوسری ہے ، ورنہ درحقیقت بد سیرت اور بد کردار لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا دنیا ہی میں ایک عذابِ الیم ہے کجا کہ آخرت میں بھی آدمی انہی کے ساتھ اُن انجام سے دوچار ہو جو ان کے لیے مقدر ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ہمیشہ یہی تمنّا رہی ہے کہ ان کو نیک لوگوں کی سوسائیٹی نصیب ہو اور مر کر بھی وہ نیک ہی لوگوں کے ساتھ رہیں۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو،۱۰۱ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر۔ ہاں، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چُراتا ہے ،۱۰۲ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں اِن لوگوں کے ساتھ نہ گیا، اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے۔۔۔۔اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبّت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔۔۔۔کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔ (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دُنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں،۱۰۳ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرِ عظیم عطا کریں گے  آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔۱۰۴جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے ، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں،۱۰۵ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔۱۰۶ ؏١۰
 

۱۰۱-واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب اُحُد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھِر گئے تھے۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں، فلاں قبیلہ دُشمنی پر آمادہ ہے ، فلاں مقام پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں۔ ان کے مبلّغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا۔ مدینہ کے حدُود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ اِن خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مِٹ نہ جائے۔

۱۰۲-ایک مفہُوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چُراتا ہے ہے ، دُوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے کہ وہ بھی اُسی کی طرح بیٹھ رہیں۔

۱۰۳-یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیشِ نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو، جو اللہ اور آخرت پر کامل اعتماد رکھتے ہوں، اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دُنیوی مفاد اس اُمید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہو گا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں گی۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دُنیوی مفاد ہی کی ہو، تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے۔

۱۰۴-اشارہ ہے اُن مظلوم بچوں، اور عورتوں کی طرف جو مکّہ میں اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختۂ مشق بنائے جا رہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم سے بچائے۔

۱۰۵-یہ اللہ کا دو ٹوک فیصلہ ہے۔ اللہ کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہو، یہ اہلِ ایمان کا کام ہے اور جو واقعی مومن ہے وہ اس کام سے کبھی باز نہ رہے گا۔ اور طاغوت کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ خدا کی زمین پر خدا کے باغیوں کا راج ہو، یہ کافروں کا کام ہے اور کوئی ایمان رکھنے والا آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔

۱۰۶-یعنی بظاہر شیطان اور اس کے سا تھی بڑی تیاریوں سے اُٹھتے ہیں اور بڑی زبردست چالیں چلتے ہیں، لیکن اہلِ ایمان کو نہ اُن کی تیاریوں سے خوف زدہ ہونا چاہیے اور نہ ان کی چالوں سے۔ آخر کار ان کا انجام ناکامی ہے۔

 

تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔۱۰۷ کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مُہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے ، اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ ۱۰۸ رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آ کر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبُوط عمارتوں میں ہو۔ اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے۔۱۰۹ کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اے انسان ! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے ، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔ اے محمد ؐ ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسُول بنا کر بھیجا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اور جو مُنہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔۱۱۰ وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پروا نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔۱۱۱یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسُول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔۱۱۲ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزور یاں ایسی تھیں کہ ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔ پس اے نبی!تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اُکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے ، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبر دست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔ جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا، ۱۱۳ اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔ اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ،۱۱۴ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، وہ تم سب کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔۱۱۵ ؏١١
 

۱۰۷-اس آیت کے تین مفہُوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں:

ایک مفہُوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے ، ہمیں ستایا جا تا ہے ، مارا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں، آخر ہم کب تک صبر کریں، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے۔

دوسرا مفہُوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکّے دیندار تھے۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا۔

تیسرا مفہُوم یہ ہے کہ پہلے تو لُوٹ کھسُوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا۔ اُس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اُٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے ، خدا کی خاطر لڑنے میں بُزدل بنے جاتے ہیں۔ وہ دستِ شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے۔

یہ تینوں مفہُوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں۔

۱۰۸-یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے۔

۱۰۹-یعنی جب فتح و ظفر اور کامیابی و سُرخروئی نصیب ہو تی ہے تو اسے اللہ کا فضل قرار دیتے ہیں اور بھُول جاتے ہیں کہ اللہ نے ان پر یہ فضل نبی ؐ ہی کے ذریعہ سے فرمایا ہے۔ مگر جب خود اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے سبب سے کہیں شکست ہوتی ہے اور بڑھتے ہوئے قدم پیچھے پڑنے لگتے ہیں تو سارا الزام نبی ؐ کے سر تھوپتے ہیں اور خود بَری الذّمّہ ہونا چاہتے ہیں

۱۱۰-یعنی اپنے عمل کے یہ خود ذمّہ دار ہیں۔ ان کے اعمال کی باز پُرس تم سے نہ ہو گی۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات ان تک پہنچا دو۔ یہ کام تم نے بخوبی انجام دے دیا۔ اب یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی راہِ راست پر چلاؤ۔ اگر یہ اُس ہدایت کی پیروی نہ کریں جو تمہارے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے ، تو اس کی کوئی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں نافرمانی کرتے تھے۔

۱۱۱-منافق اور ضعیف الایمان لوگوں کی جس روش پر اُوپر کی آیتوں میں تنبیہ کی گئی ہے اس کی بڑی اور اصلی وجہ یہ تھی کہ انہیں قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسُول پر واقعی وحی اُتر تی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں۔ اسی لیے ان کی منافقانہ روش پر ملامت کرنے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دُوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اوّل سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار، یک رنگ ، متناسب مجمُوعہ بن جائیں جس کا کوئی جزء دُوسرے جزء سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے ، جس میں متکلّم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے۔

۱۱۲-وہ چونکہ ہنگامہ کا موقعہ تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اُڑ رہی تھیں۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سُن کر غفلت میں مبتلا ہو جاتے۔ ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے ، جن کے لیے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمّہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دُور رس ہوتے ہیں۔ ان کے کان میں کہاں کوئی بھنک پڑ جاتی ہے اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے۔ انہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو اُن کو پہنچے اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہو جائیں۔

۱۱۳-یعنی یہ اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا نصیب ہے کہ کوئی خدا کی راہ میں کوشش کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارے اور اس کا اجر پائے ، اور کوئی خدا کے بندوں کو غلط فہمیوں میں ڈالنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد سے باز رکھنے میں اپنی قوت صرف کرے ، اور اس کی سزا کا مستحق بنے۔

۱۱۴-اس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے ، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہو اکرتا ہے ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خُلقی سے نہ پیش آنے لگیں۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے ، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے ، جو دنیا کو راہِ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھا ہو، درشت مزاجی ، ترش رُوئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اُس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اُٹھا ہے۔

۱۱۵-یعنی کافر اور مشرک اور ملحد اور دہریے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خدا کی خدائی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اُس کا خدائے واحد اور خدائے مطلق ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی کے بدلے بدل نہیں سکتی۔ پھر ایک دن وہ سب انسانوں کو جمع کر کے ہر ایک کو اس کے عمل کا نتیجہ دکھا دے گا۔ اس کی قدرت کے احاطہ سے بچ کر کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا خدا ہر گز اس بات کا حاجت مند نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کوئی اس کے باغیوں پر جلے دل کا بخار نکالتا پھرے اور کج خُلقی و ترش کلامی کو زخمِ دل کا مرہم بنائے۔

یا تو اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے۔ لیکن یہی آیت اس پورے سلسلۂ کلام کا خاتمہ بھی ہے جو پچھلے دو تین رکوعوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس حیثیت سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو شخص جس طریقے پر چاہے چلتا رہے اور جس راہ میں اپنی کوشش اور محنتیں صرف کرنا چاہتا ہے کیے جائے ، آخرکار سب کو ایک دن اس خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، پھر ہر ایک اپنی سعی و عمل کے نتائج دیکھ لے گا۔

 

پھر یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں،۱۱۶ حالانکہ جو برائیاں انہوں نے کمائی ہیں ان کی بدولت اللہ انہیں الٹا پھیر چکا ہے۔۱۱۷ کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اسے تم ہدایت بخش دو؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں۔ لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو ۱۱۸ اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ بناؤ۔ البتہ وہ منافق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔۱۱۹ اسی طرح وہ منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ اپنی قوم سے۔ اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلّط کر دیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہو جائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ ایک اور قسم کے منافق تمہیں ایسے ملیں گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب کبھی فتنہ کا موقع پائیں گے اس میں کُود پڑیں گے۔ ایسے لوگ اگر تمہارے مقابلہ سے باز نہ رہیں اور صلح و سلامتی تمہارے آگے پیش نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو جہاں وہ ملیں انہیں پکڑو اور مارو، ان پر ہاتھ اٹھانے کے لیے ہم نے تمہیں کھُلی حجّت دے دی ہے۔ ؏١۲
 

۱۱۶-یہاں اُن منافق مسلمانوں کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے جو مکہ میں اور عرب کے دُوسرے حصّوں میں اسلام تو قبول کر چکے تھے ، مگر ہجرت کر کے دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے کے بجائے بدستور اپنی کافر قوم ہی کے ساتھ رہتے بستے تھے ، اور کم و بیش اُن تمام کارروائیوں میں عملاً حصہ لیتے تھے جو ان کی قوم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتی تھی۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ سخت پیچیدہ تھا کہ ان کے ساتھ آخر کیا معاملہ کیا جائے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو، آخر یہ ہیں تو مسلمان ہی۔ کلمہ پڑھتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کفار کا سا معاملہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں اسی اختلاف کا فیصلہ فرمایا ہے۔

اس موقع پر ایک بات کو واضح طور پر سمجھ لینا ضروری ہے ، ورنہ اندیشہ ہے کہ نہ صرف اس مقام کو ، بلکہ قرآن مجید کے اُن تمام مقامات کو سمجھنے میں آدمی ٹھوکر کھائے گا جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کو منافقین میں شمار کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ ٔ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اوار ایک چھوٹا سا خطہ عرب کی سرزمین میں ایسا بہم پہنچ گیا جہاں ایک مومن کے لیے اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن تھا ، تو عام حکم دے دیا گیا کہ جہاں جہاں ، جس جس علاقے اور جس جس قبیلے میں اہل ایمان کفار سے دبے ہوئے ہیں اور اسلامی زندگی بسر کرنے کی آزادی نہیں رکھتے ، وہاں سے وہ ہجرت کریں اور مدینہ کے دار الاسلام میں آ جائیں۔ اُس وقت جو لوگ ہجرت کی قدرت رکھتے تھے اور پھر صرف اس لیے اُٹھ کر نہ آئے کہ انہیں اپنے گھر بار، اعزہ و اقربا اور اپنے مفادات اسلام کی بہ نسبت عزیز تر تھے ، وہ سب منافقین قرار دیے گئے۔ اور جو لوگ حقیقت میں بالکل مجبور تھے ، ان کو ’’ مُسْتَضْعَفِیٔن‘‘ میں شمار کیا گیا، جیسا کہ آگے رکوع ۱۴ میں آ رہا ہے۔

اب یہ ظاہر ہے کہ دار الکفر کے رہنے والے کسی مسلمان کو محض ہجرت نہ کرنے پر منافق صرف اس صورت میں کہا جا سکتا ہے جبکہ دار الاسلام کی طرف سے ایسے تمام مسلمانوں کو یا تو دعوتِ  عام ہو، یا کم از کم اس نے ان کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوں۔ اس صورت میں بلاشبہ وہ سب مسلمان منافق قرار پائیں گے جو دار الکفر کو دار الاسلام بنانے کی کوئی سعی بھی نہ کر رہے ہوں، اور استطاعت کے باوجود ہجرت بھی نہ کریں۔ لیکن اگر دار الاسلام کی طرف سے نہ دعوت ہی ہو اور نہ اس نے اپنے دروازے ہی مہاجرین کے لیے کھلے رکھے ہوں، تو اس صُورت میں صرف ہجرت نہ کرنا کسی شخص کو منافق نہ بنا دے گا بلکہ وہ منافق صرف اُس وقت کہلائے گا جبکہ فی الواقع کوئی منافقانہ کام کرے۔

۱۱۷-یعنی جس دو رنگی اور مصلحت پرستی اور ترجیحِ دنیا بر آخرت کا اکتساب انہوں نے کیا ہے اس کی بدولت اللہ نے انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جس طرف سے یہ آئے تھے۔ انہوں نے کفر سے نکل کر اسلام کی طرف پیش قدمی کی تو ضرور تھی ، مگر اس سرحد میں آنے اور ٹھیرنے کے لیے یکسُو ہو جانے کی ضرورت تھی، ہر اُس مفاد کو قربان کر دینے کی ضرورت تھی جو اسلام و ایمان کے مفاد سے ٹکراتا ہو، اور آخرت پر ایسے یقین کی ضرورت تھی جس کی بنا پر آدمی اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کو قربان کر سکتا ہو۔ یہ ان کو گوارا نہ ہوا اس لیے جدھر سے آئے تھے اُلٹے پاؤں اُدھر ہی واپس چلے گئے۔ اب ان کے معاملہ میں اختلاف کا کونسا موقع باقی ہے ؟

۱۱۸-یہ حکم اُن منافق مسلمانوں کا ہے جو برسرِ جنگ کا فر قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور اسلامی حکومت کے خلاف معاندانہ کارروائیوں میں عملاً حصہ لیں۔

۱۱۹-یہ استثناء اِس حکم سے نہیں ہے کہ ’’انہیں دوست اور مددگار نہ بنایا جائے ‘‘، بلکہ اِس حکم سے ہے کہ ’’انہیں پکڑا اور مارا جائے ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ واجب القتل منافق کسی ایسی کافر قوم کے حدود میں جا پناہ لیں جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو چکا ہو، تو اس کے علاقے میں ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا اور نہ یہی جائز ہو گا کہ دار الاسلام کا کوئی مسلمان غیر جانبدار ملک میں کسی واجب القتل منافق کو پائے اور اسے مار ڈالے۔ احترام دراصل منافق کے خون کا نہیں بلکہ معاہدے کا ہے۔

 

کسی مومن کا یہ کا م نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے ، اِلّا یہ کہ اس سے چُوک ہو جائے۔۱۲۰ اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفّارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے ۱۲۱ اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ،۱۲۲ اِلّا یہ کہ وہ خون بہا معاف کر دیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفّارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہو گا۔۱۲۳ پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے۔۱۲۴ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے ۱۲۵ اور اللہ علیم و دانا ہے۔ رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فوراً نہ کہہ دو کہ تُو مومن نہیں ہے۔۱۲۶ اگر تم دُنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں۔ آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا ،۱۲۷ لہٰذا تحقیق سے کام لو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے  مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے ، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ،۱۲۸ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے ، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏١۳
 

۱۲۰-یہاں اُن منافق مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے جن کے قتل کی اوپر اجازت دی گئی ہے ، بلکہ اُن مسلمانوں کا ذکر ہے جو یا تو دار الاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر دار الحرب یا دار الکفر میں بھی ہوں تو دشمنانِ اسلام کی کارروائیوں میں اُن کی شرکت کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ اُس وقت بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی حقیقی مجبوریوں کی بنا پر دشمن اسلام قبیلوں کے درمیان ٹھیرے ہوئے تھے۔ اور اکثر ایسے اتفاقات پیش آ جاتے تھے کہ مسلمان کسی دشمن قبیلہ پر حملہ کرتے اور وہاں نادانستگی میں کوئی مسلمان ان کے ہاتھ سے مارا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس صُورت کا حکم بیان فرمایا ہے جبکہ غلطی سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے۔

۱۲۱-چونکہ مقتول مومن تھا اس لے اس کے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کی آزادی قرار دیا گیا۔

۱۲۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خوں بہا کی مقدار سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، یا دو ہزار بکریاں مقرر فرمائی ہے۔ اگر دوسری کسی شکل میں کوئی شخص خوں بہا دینا چاہے تو اس کی مقدار انہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے معَیّن کی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں نقد خوں بہا دینے والوں کے لیے ۸ سو دینار یا ۸ ہزار درہم مقرر تھے۔ جب حضرت عمر ؓ کا زمان آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹوں کی قیمت اب چڑھ گئی ہے ، لہٰذا اب سونے کے سکے میں ایک ہزار دینار، یا چاندی کے سکے مین ۱۲ ہزار درہم خوں بہا دِلوایا جائے گا۔ مگر واضح رہے کہ خوں بہا کی یہ مقدار جو مقرر کی گئی ہے قتلِ عمد کی صورت کے لیے نہیں ہے بلکہ قتلِ  خطا کی صُورت کے لیے ہے۔

۱۲۳-اس آیت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے :

اگر مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو تو اس کے قاتل کو خوں بہا بھی دینا ہو گا اور خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگنے کے لیے ایک غلام بھی آزاد کرنا ہو گا۔ اگر وہ دار الحرب کا باشندہ ہو تو قاتل کو صرف غلام آزاد کرنا ہو گا۔ اس کا خوں بہا کچھ نہیں ہے۔

اگر وہ کسی ایسے دار الکفر کا باشندہ ہو جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا ہو گا اور اس کے علاوہ خون بہا بھی دینا ہو گا، لیکن خون بہا کی مقدار وہی ہو گی جتنی اُس معاہد قوم کے کسی غیر مسلم فرد کو قتل کر دینے کی صورت میں ازروئے معاہدہ دی جانی چاہیے۔

۱۲۴-یعنی روزے مسلسل رکھے جائیں ، بیچ میں ناغہ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص عذر شرعی کے بغیر ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ دے تو از سرِ نو روزوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا۔

۱۲۵-یعنی یہ ’’جُرمانہ‘‘ نہیں بلک ہ’’توبہ‘‘ اور ’’کَفّارہ‘‘ ہے۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاحِ نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ برعکس اس کے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کارِ خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی رُوح پر سے دھو دے ، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں ’’چھپانے والی چیز‘‘۔ کسی کارِ خیر کو گناہ کا ’’کفارہ‘‘ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اُس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے ، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے۔

۱۲۶-ابتدائے اسلام میں ’’السلام علیکم‘‘ کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں، دوست اور خیر خواہ ہوں ، میرے پاس تمہارے لیے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے ، لہٰذا نہ تم مجھ سے دُشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو۔ جس طرح فوج میں ایک لفظ شِعار(Password) کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ فوجِ مخالف کے آدمیوں سے ممیز ہوں، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ خصوصیّت کے ساتھ اُس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اَور بھی زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان اور کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو۔

لیکن لڑائیوں کے موقع پر ایک پیچیدگی یہ پیش آتی تھی کہ مسلمان جب کسی دشمن گروہ پر حملہ کرتے اور وہاں کوئی مسلمان اس لپیٹ میں آ جاتا تو وہ حملہ آور مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ بھی ان کا دینی بھائی ہے ’’ السّلام علیکم‘‘ یا ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پکارتا تھا، مگر مسلمانوں کو اس پر یہ شبہہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی کافر ہے جو محض جان بچانے کے لیے حیلہ کر رہا ہے ، اس لیے بسا اوقات وہ اسے قتل کر بیٹھتے تھے اور اس کی چیزیں غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہر موقع پر نہایت سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی۔ مگر اس قسم کے واقعات برابر پیش آتے رہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس پیچیدگی کو حل کیا۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کر دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہو سکتا ہے کہ جھوٹا ہو۔ حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچا لے جائے ، تو قتل کر دینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ہاتھ سے مارا جائے۔ اور بہر حال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔

۱۲۷-یعنی ایک وقت تم پر بھی ایسا گزر چکا ہے کہ انفرادی طور پر مختلف کافر قبیلوں میں منتشر تھے ، اپنے اسلام کو ظلم و ستم کے خوف سے چھپانے پر مجبور تھے ، اور تمہارے پاس ایمان کے زبانی اقرار کے سوا اپنے ایمان کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ اب یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تم کو اجتماعی زندگی عطا کی اور تم اس قابل ہوئے کہ کفار کے مقابلہ میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اُٹھے ہو۔ اس احسان کا یہ کوئی صحیح شکریہ نہیں ہے کہ جو مسلمان ابھی پہلی حالت میں مبتلا ہیں ان کے ساتھ تم نرمی و رعایت سے کام نہ لو۔

۱۲۸-یہاں اُن بیٹھنے والوں کا ذکر نہیں ہے جن کو جہاد پر جانے کا حکم دیا جائے اور وہ بہانے کر کے بیٹھ رہیں، یا نفیرِ عام ہو اور جہاد فرضِ عین ہو جائے پھر بھی وہ جنگ پر جانے سے جی چرائیں۔ بلکہ یہاں ذکر اُن بیٹھنے والوں کا ہے جو جہاد کے فرضِ کفایہ ہونے کی صورت میں میدانِ جنگ کی طرف جانے کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے رہیں۔ پہلی دو صورتوں میں جہاد کے لیے نہ نکلنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی بھلائی کا وعدہ نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ کسی حقیقی معذوری کا شکار ہو۔ بخلاف اس کے یہ آخری صورت ایسی ہے جس میں اسلامی جماعت کی پوری فوجی طاقت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ محض اس کا ایک حصہ مطلوب ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر امام کی طرف سے اپیل کی جائے کہ کون سر باز ہیں جو فلاں مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، تو جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں وہ افضل ہیں بہ نسبت اُن کے جو دوسرے کاموں میں لگے رہیں ، خواہ وہ دوسرے کام بھی بجائے خود مفید ہی ہوں۔

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ۱۲۹ اُن کی رُوحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مُبتلا تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ ۱۳۰ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچّے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے ، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسُول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے ، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آ جائے اُس کا اجر اللہ کے ذمّے واجب ہو گیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔۱۳۱ ؏١۴
 

۱۲۹-مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ابھی تک بلا کسی مجبوری و معذوری کے اپنی کافر قوم ہی کے درمیان مقیم تھے اور نیم مسلمانہ اور نیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پر راضی تھے ، درآنحالیکہ ایک دار الاسلام مہیا ہو چکا تھا جس کی طرف ہجرت کر کے اپنے دین و اعتقاد کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا۔ یہی ان کا اپنے نفس پر ظلم تھا کیونکہ ان کو پوری اسلامی زندگی کے مقابلہ میں اس نیم کفر و نیم اسلام پر جس چیز نے قانع و مطمئن کر رکھا تھا وہ کوئی واقعی مجبوری نہ تھی، بلکہ محض اپنے نفس کے عیش اور اپنے خاندان ، اپنی جائیداد و املاک اور اپنے دنیوی مفاد کی محبت تھی جسے انہوں نے اپنے دین پر ترجیح دی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۶)

۱۳۰-یعنی جب ایک جگہ خدا کے باغیوں کا غلبہ تھا اور خدا کے قانون شرعی پر عمل کرنا ممکن نہ تھا تو وہاں رہنا کیا ضرور تھا؟ کیوں نہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسی سرزمین کی طرف منتقل ہو گئے جہاں قانونِ الٰہی کی پیروی ممکن ہوتی؟

۱۳۱-(یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظامِ کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظامِ کفر کو نظامِ اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو۔ اس دو صورتوں کے سوا ہر صُورت میں دار الکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دار الاسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں۔ اگر کوئی دار الاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہو اور احکامِ کفر کی اطاعت سے بچا رہے ؟

بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ لا ھجرۃ بعد الفتح، یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اُس وقت کے حالات میں اہلِ عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دار الکفر و دار الحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے ، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دار الاسلام میں آ جائیں۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہو گئی ہے۔

 

اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو ۱۳۲(خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے ۱۳۳ کیونکہ وہ کھُلم کھُلّا تمہاری دُشمنی پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور اے نبی ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالتِ جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو ۱۳۴ تو چاہیے کہ ان میں ۱۳۵ سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ، پھر جب وہ سجدہ کر لے تو پیچھے چلا جائے اور دُوسرا گروہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آ کر تمہارے ساتھ پڑھے اور وہ بھی چوکنّا رہے اور اپنے اسلحہ لیے رہے ،۱۳۶ کیوں کہ کفّار اِس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں، مگر پھر بھی چوکنّے رہو، یقین رکھو کہ اللہ نے کافروں کے لیے رُسوا کُن عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔۱۳۷ پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو۔ اور جب اطمینان نصیب ہو جائے تو پُوری نماز پڑہو۔ نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے  اِس گروہ ۱۳۸ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اُٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔ اور تم اللہ سے اُس چیز کے اُمّیدوار ہو جس کے وہ اُمّیدوار نہیں ہیں۔۱۳۹ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ حکیم و دانا ہے۔ ؏١۵
 

۱۳۲-زمانۂ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔ اور حالتِ جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔ قبلہ رُخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رُخ ہو۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً مؤخر کی جائے جیسے جنگِ خندق کے موقع پر ہوا۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشا کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے ، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے۔ جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمّہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے ، جیسے جہاد، حج، عمرہ ، طلبِ  علم وغیرہ۔ ابن عمر، ابن مسعود ؓ اور عطا ء کا یہی فتویٰ ہے۔امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اُٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

بعض ائمہ نے ’’مضائقہ نہیں‘‘ (فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ) کا مفہُوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اُٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے۔ یہی رائے امام شافعی ؒ نے اختیار کی ہے ، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترکِ  قصر کو ترکِ اولیٰ قرار دیتے ہیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک ؒ سے بھی منقول ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ ؐ نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں۔ ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو۔ اسی کی تائید میں ابن عباس ؓ اور دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان ؓ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے ، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سُنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہوا ہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درُست ہیں، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے علاوہ خود حضرت عائشہ ؓ ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر و الحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں، اور غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ ’’مضائقہ نہیں اگر قصر کرو‘‘ تو ان کی نظیر سُورۂ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصُود لوگوں کے اِس اندیشہ کو دُور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہو گی۔

مقدارِ سفر جس میں قصر کیا جا سکتا ہے ، ظاہریّہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ۔ امام مالک ؒ کے نزدیک ۴۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے۔ یہی رائے امام احمدؒ کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعیؒ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر ؓ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے۔ حَسن بصری دو دن، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵۴ میل) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے۔ یہی رائے ابن عمر، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی ہے۔

اثنائے سفر میں دَورانِ قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہو گی۔ امام مالک اور اما م شافعی کے نزدیک جہاں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیتِ قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبُوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعینِ مدت قصر کیا جاتا رہے گا۔ صحابۂ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پُورے زمانۂ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں۔

۱۳۳-ظاہریوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالتِ جنگ کے لیے ہے اور حالتِ امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب یہی شبہہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا تو حضور ؐ نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فا قبلوا صدقتہ۔’’یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے ، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو۔‘‘ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ العٰلمین فصلی رکعتین۔ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ‘‘۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے۔

۱۳۴-امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد نے ان الفاظ سے یہ گمان کیا ہے کہ صلوٰۃِ خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے لیے مخصُوص تھی۔ لیکن قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا ہے اور وہی حکم آپ کے بعد آپ کے جانشینوں کے لیے بھی ہے۔ اس لیے صلوٰۃِ خوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصُوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر بکثرت جلیل القدر صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضُور ؐ کے بعد بھی صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس باب میں کسی صحابی کا اختلاف مروی نہیں ہے۔

۱۳۵-صلوٰۃِ  خوف کا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو مگر عملاً معرکۂ قتال گرم نہ ہو۔ رہی یہ صورت کہ عملاً جنگ ہو رہی ہو تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز مؤخر کر دی جائے گی۔ امام مالک ؒ اور امام ثَوری کے نزدیک اگر رکوع و سجود ممکن نہ ہو تو اشاروں سے پڑھ لی جائے۔ امام شافعی کے نزدیک نماز ہی کی حالت میں تھوڑی سی زد و خورد بھی کی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے ثابت ہے کہ آپ نے غزوۂ خندق کے موقع پر چار نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انہیں ادا کیا ، حالانکہ غزوۂ خندق سے پہلے صلوٰۃِ  خوف کا حکم آ چکا تھا۔

۱۳۶-صلوٰۃِ خوف کی ترکیب کا انحصار بڑی حد تک جنگی حالات پر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے اور امامِ وقت مجاز ہے کہ ان طریقوں میں سے جس طریقہ کی اجازت جنگی صورتِ حال دے اسی کو اختیار کرے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصّہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دُوسرا حصّہ دشمن کے مقابلہ پر رہے۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہو جائے تو پہلا حصّہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دُوسرا حصّہ آ کر دُوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت۔

دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے ، پھر دُوسرا حصہ آ کر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ، پھر دونوں حصے باری باری سے آ کر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطورِ خود ادا کر لیں۔ اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہو گی، اور ایک رکعت انفرادی طور پر۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے فوج کا ایک حصہ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے۔ پھر دُوسرا حصہ تیسری رکعت میں آ کر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے۔ اِس طرح امام کی چار اور فوج کی دو دو رکعتیں ہوں گی۔

چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دُوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطورِ خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دُوسرا حصہ آ کر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دُوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اُٹھ کر پڑھ لیں۔ اس صورت میں اما م کو دُوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہو گا۔

پہلی صورت کو ابنِ عباس، جابر بن عبداللہ اور مجاھد نے روایت کیا ہے۔ دُوسرے طریقہ کو عبداللہ بن مسعود ؓ نے روایت کیا ہے اور حنفیہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے۔ اور چوتھے طریقہ کو امام شافعی اور مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اور اس کا ماخذ سہل بن ابی حَثْمَہ کی روایت ہے۔

اِن کے علاوہ صلوٰۃِ خوف کے اور بھی طریقے ہیں جن کی تفصیل مبسُوطات میں مِل سکتی ہے۔

۱۳۷-یعنی یہ احتیاط جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے ، محض دُنیوی تدابیر کے لحاظ سے ہے ، ورنہ دراصل فتح و شکست کا مدار تمہاری تدابیر پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ہے۔ اس لیے ان احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے تمہیں اس امر کا یقین رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بُجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، اللہ انہیں رسوا کرے گا۔

۱۳۸-یعنی گروہِ کفار جو اُس وقت اسلام کی دعوت اور نظامِ اسلامی کے قیام کی راہ میں مانع و مزاحم بن کر کھڑا ہوا تھا۔

۱۳۹-یعنی تعجب کا مقام ہے کہ اگر اہلِ ایمان حق کی خاطر اُتنی تکلیفیں بھی برداشت نہ کریں جتنی کفار باطل کی خاطر برداشت کر رہے ہیں ، حالانکہ اُن کے سامنے صرف دنیا اور اس کے نا پائیدار فائدے ہیں اور اس کے برعکس اہلِ ایمان ربّ السمٰوات والارض کی خوشنودی و تقرب اور اس کے ابدی انعامات کے امیدوار ہیں۔

 

اے نبیؐ !۱۴۰ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو، اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں  ۱۴۱ تم اُن کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔ یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھُپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھُپا سکتے۔ وہ تو اُس وقت بھی اُن کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ راتوں کو چھُپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں۔ اِن کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے۔ ہاں ! تم لوگوں نے اِن مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا، مگر قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑا کرے گا؟ آخر وہاں کون اِن کا وکیل ہو گا؟ اگر کوئی شخص بُرا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔ مگر جو بُرائی کما لے تو اس کی یہ کمائی اُسی کے لیے وبال ہو گی، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے اور وہ حکیم و دانا ہے۔ پھر جس نے کوئی خطا یا گناہ کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپ دیا اس نے تو بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ ؏١٦
 

۱۴۰-اس رکوع اور اس کے بعد والے رکوع میں ایک اہم معاملہ سے بحث کی گئی ہے جو اُسی زمانہ میں پیش آیا تھا۔ قصہ یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طَعْمہ یا بشیر بن اُبَیرِق تھا۔ اس نے ایک انصاری کی زرہ چرا لی۔ اور جب اس کا تجسس شروع ہوا تو مال مسروقہ ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا۔ زرہ کے مالک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے استغاثہ کی اور طعمہ پر اپنا شبہہ ظاہر کیا۔ مگر طعمہ اور اس کے بھائی بندوں اور بنی ظفر کے بہت سے لوگوں نے آپس میں اتفاق کر کے اُس یہودی پر الزام تھوپ دیا۔ یہودی سے پوچھا گیا کہ تو اس نے اپنی براءت ظاہر کی۔ لیکن یہ لوگ طعمہ کی حمایت میں زور شور سے وکالت کرتے رہے اور کہا کہ یہ یہودی خبیث، جو حق کا انکار اور اللہ کے رسول سے کفر کرنے والا ہے ، اِس کی بات کا کیا اعتبار، بات ہماری تسلیم کی جانی چاہیے کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ قریب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس مقدمہ کی ظاہری روداد سے متاثر ہو کر اس یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے اور مستغیث کو بھی بنی اُبَیرق پر الزام عائد کرنے پر تنبیہ فرماتے۔ اتنے میں وحی آئی اور معاملہ کی ساری حقیقت کھول دی گئی۔

اگرچہ ایک قاضی کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا روداد کے مطابق فیصلہ کر دینا بجائے خود آپ کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ لیکن اُس وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم رودادِ مقدمہ کے مطابق یہودی کے خلاف فیصلہ صادر فرما دیتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف اور پوری اسلامی جماعت اور خود دعوتِ اسلامی کے خلاف ایک زبر دست اخلاقی حربہ مل جاتا۔ وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے ، یہاں تو وہی جتھہ بندی اور عصبیت کام کر رہی ہے جس کے خلاف تبلیغ کی جاتی ہے۔ اسی خطرے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس مقدمہ میں مداخلت فرمائی۔

اِن رکوعوں میں ایک طرف اُن مسلمانوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت میں مجرموں کی حمایت کی تھی۔ دُوسری طرف عام مسلمانوں کو سبق دیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی تعصب کا دخل نہ ہونا چاہیے۔ یہ ہرگز دیانت نہیں ہے کہ اپنے گروہ کا آدمی اگر برسرِ باطل ہو تو اس کی بے جا حمایت کی جائے اور دُوسرے گروہ کا آدمی اگر برسرِ حق ہو تو اس کے ساتھ بے انصافی کی جائے۔

۱۴۱-جو شخص دُوسرے کے ساتھ خیانت کرتا ہے وہ دراصل سب سے پہلے خود اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ کیونکہ دل اور دماغ کو جو قوتیں اس کے پاس بطورِ امانت ہیں ان پر بے جا تصرّف کر کے وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ خیانت میں اس کا ساتھ دیں۔ اور اپنے ضمیر کو جسے اللہ نے اس کے اخلاق کا محافظ بنایا تھا، اس حد تک دبا دیتا ہے کہ وہ اس خیانت کاری میں سدِّ راہ بننے کے قابل نہیں رہتا۔ جب انسان اپنے اندر اس ظالمانہ دست بُرد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا لیتا ہے تب کہیں باہر اس سے خیانت و معصیت کے افعال صادر ہوتے ہیں۔

 

اے نبی ؐ! اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا، حالانکہ درحقیقت وہ خود اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر رہے تھے۔ اور تمہارا کوئی نقصان نہ کر سکتے تھے۔ ۱۴۲ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا، اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔ لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہو تی۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کا م کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے ، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔ مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے ، در آں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ۱۴۳ اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔؏ ١۷
 

۱۴۲-یعنی اگر وہ غلط روداد پیش کر کے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کر نے میں کامیاب ہو بھی جاتے اور اپنے حق میں انصاف کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیتے تو نقصان انہی کا تھا، تمہارا کچھ بھی نہ بگڑتا۔ کیونکہ خدا کے نزدیک مجرم وہ ہوتے نہ کہ تم۔ جو شخص حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے حق اس کے ساتھ ہو گیا، حالانکہ فی الواقع اللہ کے نزدیک حق جس کا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۹۷)۔

۱۴۳-جب مذکورہ بالا مقدمہ میں وحی الٰہی کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس خائن مسلمان کے خلاف اور اُس بے گناہ یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا تو اس منافق پر جاہلیت کا اس قدر سخت دَورہ پڑا کہ وہ مدینہ سے نِکل کر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دُشمنوں کے پاس مکّہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ ہو گیا۔ اس آیت میں اس کی اسی حرکت کی طرف اشارہ ہے۔

 

اللہ کے ہاں ۱۴۴ بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے ، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کر نا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔ وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں ۱۴۵ جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں)جس نے اللہ سے کہا تھا کہ’’ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا،۱۴۶میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزوؤں میں اُلجھا دوں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے ۱۴۷ اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے۔‘‘ ۱۴۸ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سر پرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں اُمیدیں دلاتا ہے ،۱۴۹ مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، تو انہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کو ن اپنی بات میں سچا ہو گا۔ انجامِ کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو بھی بُرائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پا سکے گا۔ ور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنّت میں داخل ہو ں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔ اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویّہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی ، اس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے ۱۵۰ اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔۱۵۱؏ ١۸
 

۱۴۴-اس رکوع میں اوپر کے سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ اپنی جاہلیت کے طیش میں آ کر یہ شخص جس راہ کی طرف گیا ہے وہ کیسی راہ ہے ، اور صالحین کے گروہ سے الگ ہو کر جن لوگوں کا ساتھ اس نے اختیار کیا ہے وہ کیسے لوگ ہیں۔

۱۴۵-شیطان کو اس معنی میں تو کوئی بھی معبود نہیں بناتا کہ اس کے آگے مراسمِ پرستش ادا کرتا ہو اور اس کو الوہیّت کا درجہ دیتا ہو۔ البتہ اسے معبود بنانے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ دے دیتا ہے اور جدھر جدھر وہ چلاتا ہے ، گویا کہ یہ اُس کا بندہ ہے اور وہ اِس کا خدا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے احکام کی بے چوں و چرا اطاعت اور اندھی پیروی کرنے کا نام بھی "عبادت" ہے ، اور جو شخص اس طرح کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اس کی عبادت بجا لاتا ہے۔

۱۴۶-یعنی اُن کے اوقات میں، ان کی محنتوں اور کوششوں میں، ان کی قوتوں اور قابلیتوں میں، ان کے مال اور ان کی اولاد میں اپنا حصّہ لگاؤں گا اور ان کو فریب دے کر ایسا پرچاؤں گا کہ وہ ان ساری چیزوں کا ایک معتدبہ حصّہ میری راہ میں صرف کریں گے۔

۱۴۷-اہلِ عرب کے توہّمات میں سے ایک کی طرف اشارہ ہے۔ ان کے ہاں قاعدہ تھا کہ جب اُونٹنی پانچ یا دس بچے جَن لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے تھے۔ اسی طرح جس اُونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہو جاتے اُسے بھی دیوتا کے نام پر پُن کر دیا جاتا اور کان چیرنا اس بات کی علامت تھا کہ یہ پُن کیا ہوا جانور ہے۔

۱۴۸-خدائی ساخت میں ردّ و بدل کرنے کا مطلب اشیاء کی پیدائشی بناوٹ میں ردّ و بدل کرنا نہیں ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصرّفات کا ہے جو انسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے۔ دراصل اس جگہ جس ردّ و بدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا نہیں کیا ہے ، اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے ، اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اِس آیت کی رُو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً عمل قومِ لوط، ضبطِ ولادت، رُہبانیت، برہمچرج، مردوں اور عورتوں کا بانجھ بنانا، مردوں کو خواجہ سرا بنانا، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدّن کے اُن شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں، دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ جو لوگ خالقِ کائنات کے ٹھیرائے ہوئے قوانیں کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں۔

۱۴۹-شیطان کا سارا کاروبار ہی وعدوں اور اُمّیدوں کے بل پر چلتا ہے۔ وہ انسان کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر جب کسی غلط راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو اس کے آگے سبز باغ پیش کر دیتا ہے۔ کسی کو انفرادی لُطف و لذّت اور کامیابیوں کی اُمید، کسی کو قومی سر بلندیوں کی توقع، کسی کو نوع انسانی کی فلاح و بہبُود کا یقین، کسی کو صداقت تک پہنچ جانے کا اطمینان، کسی کو یہ بھروسہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت، بس مر کر مٹی ہو جانا ہے ، کسی کو یہ تسلی کہ آخرت ہے بھی تو وہاں کی گرفت سے فلاں کے طفیل اور فلاں کے صدقے میں بچ نکلو گے۔ غرض جو جس وعدے اور جس توقع سے فریب کھا سکتا ہے اس کے سامنے وہی پیش کرتا ہے اور پھانس لیتا ہے۔

۱۵۰-یعنی اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا اور خود سَری و خود مختاری سے باز آ جانا اِس لیے بہترین طریقہ ہے کہ یہ حقیقت کے عین مطابق ہے۔ جب اللہ زمین و آسمان کا اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں تو انسان کے لیے صحیح رویّہ یہی ہے کہ اس کی بندگی و اطاعت پر راضی ہو جائے اور سر کشی چھوڑ دے۔

۱۵۱-یعنی اگر انسان اللہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے اور سرکشی سے باز نہ آئے تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتا ، اللہ کی قدرت اس کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

 

لو گ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔۱۵۲ کہو اللہ تمہیں ان کے معاملہ میں فتویٰ دیتا ہے ، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم اس کتاب میں سنائے جا رہے ہیں۔۱۵۳ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے ۱۵۴ اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو(یا لالچ کی بنا ء پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو)،۱۵۵ اور وہ احکام جو ان بچّوں کے متعلق ہیں جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے۔۱۵۶ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو، جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی۔ جب ۱۵۷ کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رُخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی( کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں۔ صلح بہرحال بہتر ہے۔۱۵۸ نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں،۱۵۹ لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہو گا۔۱۶۰ بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہذا(قانونِ الہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔۱۶۱ اگر تم اپنا طرزِ عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ چشم پوشی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔۱۶۲ لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا۔ اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے ، ہر تعریف کا مستحق۔ ہاں اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور کارسازی کے لیے بس وہی کافی ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے ، اور وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ جو شخص محض ثوابِ دُنیا کو طالب ہو اسے معلوم ہو نا چاہیے کہ اللہ کے پاس ثوابِ دُنیا بھی ہے اور ثوابِ آخرت بھی ، اور اللہ سمیع و بصیر ہے۔۱۶۳؏ ١۹
 

۱۵۲-اس کی تصریح نہیں فرمائی گئی کہ عورتوں کے معاملہ میں لوگ کیا پُوچھتے تھے۔ مگر آگے چل کر جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے سوال کی نوعیت خود واضح ہو جاتی ہے۔

۱۵۳-یہ اصل استفتاء کا جواب نہیں ہے بلکہ لوگوں کے سوال کی طرف توجہ فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اُن احکام کی پابندی پر پھر ایک مرتبہ زور دیا ہے جو اِسی سُورۃ کے آغاز میں یتیم لڑکیوں کے متعلق بالخصُوص اور یتیم بچوں کے متعلق بالعمُوم ارشاد فرمائے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں یتیموں کے حقوق کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ ابتدائی دو رکوعوں میں ان کے حقوق کے تحفظ کی تاکید بڑی شدّت سے ساتھ کی جا چکی تھی۔ مگر اس پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ اب جو معاشرتی مسائل کی گفتگو چھڑی تو قبل اس کے کہ لوگوں کے پیش کردہ سوال کا جواب دیا جاتا ، یتیموں کے مفاد کا ذکر بطورِ خود چھیڑ دیا گیا۔

۱۵۴-’’اشارہ ہے اُس آیت کی طرف جس میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’اگر یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں۔۔۔۔‘‘ (سُورۂ نساء۔ آیت ۳)

۱۵۵-تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو‘‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے ‘‘۔ حضرت عائشہ ؓ اس کی تشریح میں فرماتی ہیں کہ جن لوگوں کی سرپرستی میں ایسی یتیم لڑکیاں ہوتی تھیں جن کے پاس والدین کی چھوڑی ہوئی کچھ دولت ہوتی تھی وہ ان لڑکیوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے ظلم کرتے تھے۔ اگر لڑکی مالدار ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی ہوتی تو یہ لوگ چاہتے تھے کہ خود اس سے نکاح کر لیں اور مہر و نفقہ ادا کیے بغیر اس کے مال اور جمال دونوں سے فائدہ اُٹھائیں۔ اور اگر وہ بد صُورت ہوتی تو یہ لوگ نہ اس سے خود نکاح کرتے تھے اور نہ کسی دُوسرے سے اس کا نکاح ہونے دیتے تھے تاکہ اس کا کوئی ایسا سر دھرا پیدا نہ ہو جائے جو کل اُس کے حق کا مطالبہ کرنے والا ہو۔

۱۵۶-اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو اِسی سُورہ کے پہلے اور دُوسرے رکوع میں یتیموں کے حقوق کے متعلق ارشاد ہوئے ہیں۔

۱۵۷-یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے۔ سُورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہو گئیں۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے ، یا تعلقِ زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے ، اور شوہر دُوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبُور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے ؟ یکساں محبت رکھے ؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے ؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دُوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو چھوڑ دے ؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنے بعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے ؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہو گا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے۔

۱۵۸-یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ اس طرح باہم مصالحت کر کے ایک عورت اُسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے۔

۱۵۹-عورت کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر شوہر کے لیے بے رغبتی کے اسباب کو خود محسوس کر تی ہو اور پھر بھی وہ سلوک چاہے جو ایک مرغوب بیوی کے ساتھ ہی برتا جا سکتا ہے۔ مرد کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ جو عورت دل سے اُتر جانے پر بھی اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہو اس کو وہ حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کرے اور اس کے حقوق ناقابلِ برداشت حد تک گھٹا دینا چاہے۔

۱۶۰-یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے مرد ہی کے جذبۂ فیاضی سے اپیل کی ہے جس طرح بالعموم ایسے معاملات میں اس کا قاعدہ ہے۔ اس نے مرد کو ترغیب دی ہے کہ وہ بے رغبتی کے باوجود اس عورت کے ساتھ احسان سے پیش آئے جو برسوں اس کی رفیقِ زندگی رہی ہے ، اور اس خدا سے ڈرے جو اگر کسی انسان کی خامیوں کے سبب سے اپنی نظرِ التفات اس سے پھیر لے اور اس کے نصیب میں کمی کرنے پر اُتر آئے تو پھر اس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے۔

۱۶۱-مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام حالات میں تمام حیثیتوں سے دو یا زائد بیویوں کے درمیان مساوات نہیں برت سکتا۔ ایک خوبصورت ہے اور دُوسری بدصورت ، ایک جوان ہے اور دُوسری سن رسیدہ، ایک دائم المرض ہے اور دُوسری تندرست، ایک بدمزاج ہے اور دُوسری خوش مزاج اور اسی طرح کے دُوسرے تفاوت بھی ممکن ہیں جن کی وجہ سے ایک بیوی کی طرف طبعًا آدمی کی رغبت کم اور دُوسری کی طرف زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسی حالتوں میں قانون یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ محبت و رغبت اور جسمانی تعلق میں ضرور ہی دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے۔ بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تم بے رغبتی کے باوجود ایک عورت کو طلاق نہیں دیتے اور اس کی اپنی خواہش یا خود اُس کی خواہش کی بنا پر بیوی بنائے رکھتے ہو تو اس سے کم از کم اس حد تک تعلق ضرور رکھو کہ وہ عملاً بے شوہر ہو کر نہ رہ جائے۔ ایسے حالات میں ایک بیوی کی بہ نسبت دُوسری کی طرف میلان زیادہ ہونا تو فطری امر ہے ، لیکن ایسا بھی نہ ہونا چاہیے کہ دُوسری یوں معلّق ہو جائے گو یا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں ہے۔

اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن ایک طرف عدل کی شرط کے ساتھ تعدُّ دِ  ازواج کی اجازت دیتا ہے اور دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر اس اجازت کو عملاً منسُوخ کر دیتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نتیجہ نکالنے کے لیے اس آیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا گیا ہو تا کہ ’’تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے ‘‘ تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا ، مگر اس کے بعد ہی جو یہ فرمایا گیا کہ ’’ لہٰذا ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو۔‘‘ اس فقرے نے کوئی موقع اُس مطلب کے لیے باقی نہیں چھوڑا جو مسیحی یورپ کی تقلید کرنے والے حضرات اس سے نکالنا چاہتے ہیں۔

۱۶۲-یعنی اگر حتی الامکان تم قصداً ظلم نہ کرو اور انصاف ہی سے کام لینے کی کوشش کرتے رہو تو فطری مجبُوریوں کی بنا پر جو تھوڑی بہت کوتاہیاں تم سے انصاف کے معاملہ میں صادر ہو ں گی انہیں اللہ معاف فرما دے گا۔

۱۶۳-بالعموم قانونی احکام بیان کرنے کے بعد ، اور بالخصوص تمدّن و معاشرت کے اُن پہلوؤں کی اصلاح پر زور دینے کے بعد جن میں انسان اکثر ظلم کا ارتکاب کرتا رہا ہے ، اللہ تعالیٰ اِس قسم کے چند پُر اثر جملوں میں ایک مختصر وعظ ضرور فرمایا کرتا ہے اور اس سے مقصُود یہ ہوتا ہے کہ نفوس کو ان احکام کی پابندی پر آمادہ کیا جائے۔ اوپر چونکہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے لہٰذا اس کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ چند باتیں اہلِ ایمان کے ذہن نشین کر دی جائیں:

ایک یہ کہ تم کبھی اِس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ کسی کی قسمت کا بنانا اور بگاڑنا تمہارے ہاتھ میں ہے ، اگر تم اُس سے ہاتھ کھینچ لو گے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ نہیں، تمہاری اور اس کی سب کی قسمتوں کا مالک اللہ ہے اور اللہ کے پاس اپنے کسی بندے یا بندی کی مدد کا ایک تم ہی واحد ذریعہ نہیں ہو۔ اس مالک زمین و آسمان کے ذرائع بے حد وسیع ہیں اور وہ اپنے ذرائع سے کام لینے کی حکمت بھی رکھتا ہے۔

دوسرے یہ کہ تمہیں اور تمہاری طرح پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمہاری اپنی فلاح ہے ، خدا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام اُمتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اُس فرمانروائے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دُوسری قوم کو سر بلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ تیسرے یہ کہ خدا کے پاس دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے فائدے بھی ، عارضی اور وقتی فائدے بھی ہیں، پائیدار اور دائمی فائدے بھی۔ اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلے اور ہمت کی بات ہے کہ تم اُس سے کس قسم کے فائدے چاہتے ہو۔ اگر تم محض دنیا کے چند روزہ فائدوں ہی پر ریجھتے ہو اور ان کی خاطر ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر دینے کے لیے تیار ہو تو خدا یہ کچھ تم کو یہیں اور ابھی دے دے گا، مگر پھر آخرت کے ابدی فائدوں میں تمہارا کوئی حصّہ نہ رہے گا۔ دریا تو تمہاری کھیتی کو ابد تک سیراب کرنے کے لیے تیار ہے ، مگر یہ تمہارے اپنے ظرف کی تنگی اور حوصلہ کی پستی ہے کہ صرف ایک فصل کی سیرابی کو ابدی خشک سالی کی قیمت پر خریدتے ہو۔ کچھ ظرف میں وسعت ہو تو اطاعت و بندگی کا وہ راستہ اختیار کر و جس سے دُنیا اور آخرت دونوں کے فائدے تمہارے حصّہ میں آئیں۔

آخر میں فرمایا اللہ سمیع و بصیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اندھا اور بہرا نہیں ہے کہ کسی شاہِ بے خبر کی طرح اندھا دھُند کام کرے اور اپنی عطا و بخشش میں بھَلے اور بُرے کے درمیان کوئی تمیز نہ کرے۔ وہ پُوری با خبری کے ساتھ اپنی اِس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ ہر ایک کے ظرف اور حوصلے پر اس کی نگاہ ہے۔ ہر ایک کے اوصاف کو وہ جانتا ہے۔ اُسے خوب معلوم ہے کہ تم میں سے کون کس راہ میں اپنی محنتیں اور کوششیں صرف کر رہا ہے۔ تم اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے ان بخششوں کی اُمید نہیں کر سکتے جو اس نے صرف فرماں برداری ہی کے لیے مخصُوص کی ہیں۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علمبردار ۱۶۴ اور خدا واسطے کے گواہ بنو ۱۶۵ اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ ۱۶۶ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا ۱۶۷ وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔ رہے و ہ لوگ جو ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے ، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ،۱۶۸ تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی ان کو راہ راست دکھائے گا۔ ان منافقین کو یہ مژدہ سنا دو کہ ان کے لیے درد ناک سزا تیار ہے ، جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بنا تے ہیں، کیا یہ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں؟۱۶۹ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو۔۱۷۰ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے۔ یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے )۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اگر کافروں کا پلّہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟۱۷۱ بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور (اس فیصلہ میں) اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔؏ ۲۰
 

۱۶۴-یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اُٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے ، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو۔

۱۶۵-یعنی تمہاری گواہی محض خدا کے لیے ہونی چاہیے ، کسی کی رو رعایت اس میں نہ ہو، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مدِّ نظر نہ ہو۔

۱۶۶-ایمان لانے والوں سے کہنا کہ ایمان لا ؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل یہاں لفظ ایمان دو الگ معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اُسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دُشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اُس عقیدے کے مطابق بنا لے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اُن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ’’ماننے والوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ دُوسرے معنی کے لحاظ سے سچے مومن بنیں۔

۱۶۷-کفر کرنے کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے تو مانے مگر دل سے نہ مانے ، یا اپنے رویّے سے ثابت کر دے کہ وہ جس چیز کو ماننے کا دعویٰ کر رہا ہے فی الواقع اسے نہیں مانتا۔ یہاں کفر سے یہ دونوں معنی مراد ہیں اور آیت کا مقصُود لوگوں کو اس بات پر متنبّہ کرنا ہے کہ اسلام کے اِن اساسی عقیدوں کے ساتھ کفر کی اِن دونوں اقسام میں سے جس قسم کا برتاؤ بھی آدمی اختیار کرے گا ، اس کا نتیجہ حق سے دوری اور باطل کی راہوں میں سرگشتگی و نا مرادی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

۱۶۸-اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے دین محض ایک غیر سنجیدہ تفریح ہے۔ ایک کھلونا ہے جس سے وہ اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں۔ جب فضائے دماغی میں ایک لہر اُٹھی، مسلمان ہو گئے اور جب دُوسری لہر اُٹھی، کافر بن گئے۔ یا جب فائدہ مسلمان بن جانے میں نظر آیا ، مسلمان بن گئے اور جب معبودِ منفعت نے دُوسری طرف جلوہ دکھایا تو اس کی پُوجا کرنے کے لیے بے تکلف اسی طرف چلے گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے پاس نہ مغفرت ہے نہ ہدایت۔ اور یہ جو فرمایا کہ’’ پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض کافر بن جانے ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے ، اسلام کے خلاف خفیہ سازشیں اور علانیہ تدبیریں شروع کر دے ، اور اپنی قوت اس سعی و جہد میں صرف کرنے لگے کہ کفر کا بول بالا ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے دین کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔ یہ کفر میں مزید ترقی، اور ایک جرم پر پے در پے جرائم کا اضافہ ہے جس کا وبال بھی مجرّد کفر سے لازماً زیادہ ہونا چاہیے۔

۱۶۹-‘‘عزت’’ کا مفہُوم عربی زبان میں اُردو کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے۔ اُردو میں عزّت محض احترام اور قدر و منزلت کے معنی میں آتا ہے۔ مگر عربی میں عزّت کا مفہُوم یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسی بلند اور محفوظ حیثیت حاصل ہو جائے کہ کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ دُوسرے الفاظ میں لفظ عزّت‘‘ ناقابلِ ہتک حرمت’’ کا ہم معنی ہے۔

۱۷۰-یعنی اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کافروں کی ان صحبتوں میں شریک ہوتا ہے جہاں آیاتِ الٰہی کے خلاف کفر بکا جاتا ہے ، اور ٹھنڈے دل سے ان لوگوں کو خدا اور رسول کا مذاق اُڑاتے ہوئے سنتا ہے ، تو اس میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ (جس حکم کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ سُورہ اَنعام آیت ۶۸ میں بیان ہوا ہے )۔

۱۷۱-ہر زمانہ کے منافقین کی یہی خصوصیّت ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں اُن کو یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ ٔ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن ہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی ’’متعصّب مسلمان‘‘ نہیں ہیں، نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں، فکر و تہذیب اور مذاق کے لحاظ سے ہر طرح کی موافقت تمہارے ساتھ ہے ، اور کفر و اسلام کی کشمکش میں ہمارا وزن جب پڑے گا تمہارے ہی پلڑے میں پڑے گا۔

 

یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یا د کرتے ہیں۔۱۷۲ کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اس طرف ہیں نہ پورے اُس طرف۔ جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔۱۷۳ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجّت دے دو؟ یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مدد گار نہ پاؤ گے۔ البتہ جو ان میں سے تائب ہو جائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں،۱۷۴ ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو ۱۷۵ اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدر دان ہے ۱۷۶ اور سب کے حال سے واقف ہے۔اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے ، اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (مظلوم ہونے کی صورت میں اگر چہ تم کو بد گوئی کا حق ہے ) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم بُرائی سے درگزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔۱۷۷ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں، اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے ، اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں ۱۷۸ اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیّا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی۔۔۔۔ بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں، اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے ،۱۷۹ اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔۱۸۰؏ ۲١
 

۱۷۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو۔ جس طرح تمام دُنیوی جماعتیں اور مجلسیں اپنے اجتماعات میں کسی ممبر کے بلا عُذر شریک نہ ہونے کو اس کی عدم دلچسپی پر محمُول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے والے پر اسے ممبری سے خارج کر دیتی ہیں ، اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رُکن کا نماز با جماعت سے غیر حاضر رہنا اُس زمانہ میں اِس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ شخص اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اور اگر وہ مسلسل چند مرتبہ جماعت سے غیر حاضر رہتا تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس بنا پر سخت سے سخت منافقوں کو بھی اس زمانہ میں پانچوں وقت مسجد کی حاضری ضرور دینی پڑتی تھی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شمار کیے ہی نہ جا سکتے تھے۔ البتہ جو چیز ان کو سچے اہلِ ایمان سے ممیز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے ، وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے ، نماز سے فارغ ہو کر بھی مسجدوں میں ٹھیرے رہتے تھے ، اور ان کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ نماز سے ان کو حقیقی دلچسپی ہے۔ بخلاف اس کے اذان کی آواز سُنتے ہی منافق کی جان پر بن جاتی تھی، دل پر جبر کر کے اُٹھتا تھا، اس کے آنے کا انداز صاف غمازی کرتا تھا کہ آ نہیں رہا بلکہ اپنے آپ کو کھینچ کر لا رہا ہے ، جماعت ختم ہوتے ہی اس طرح بھاگتا تھا گویا کہ کسی قیدی کو رہائی ملی ہے ، اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ شخص خد اکے ذکر سے کوئی رغبت نہیں رکھتا۔

۱۷۳-یعنی جس نے خد اکے کلام اور اس کے رسول کی سیرت سے ہدایت نہ پائی ہو، جس کو سچائی سے منحرف اور باطل پرستی کی طرف راغب دیکھ کر خدا نے بھی اُسی طرف پھیر دیا ہو جس طرف وہ خود پھرنا چاہتا تھا ، اور جس کی ضلالت طلبی کی وجہ سے خدا نے اس پر ہدایت کے دروازے بند اور صرف ضلالت ہی کے راستے کھول دیے ہوں ، ایسے شخص کو راہِ راست دکھانا درحقیقت کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس معاملہ کو رزق کی مثال سے سمجھیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رزق کے تمام خزانے اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جس انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملتا ہے۔ مگر اللہ ہر شخص کو رزق اُس راستہ سے دیتا ہے جس راستے سے وہ خود مانگتا ہو۔ اگر کوئی شخص اپنا رزق حلال راستہ سے طلب کر ے اور اُسی کے لیے کوشش بھی کرے تو اللہ اس کے لیے حلال راستوں کو کھول دیتا ہے اور جتنی اس کی نیت صادق ہوتی ہے اُسی نسبت سے حرام کے راستے اس کے لیے بند کر دیتا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص حرام خوری پر تُلا ہوا ہوتا ہے اور اسی کے لیے سعی کرتا ہے اس کو خدا کے اذن سے حرام ہی کی روٹی مِلتی ہے اور پھر یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ اس کے نصیب میں رزق حلال لکھ دے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا میں فکر و عمل کی تمام راہیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ کوئی شخص کسی راہ پر بھی اللہ کے اذن اور اس کی توفیق کے بغیر نہیں چل سکتا۔ رہی یہ بات کہ کس انسان کو کس راہ پر چلنے کا اذن ملتا ہے اور کس راہ کی رہروی کے اسباب اس کے لیے ہموار کیے جاتے ہیں ، تو اس کا انحصار سراسر آدمی کی اپنی طلب اور سعی پر ہے۔ اگر وہ خدا سے لگاؤ رکھتا ہے ، سچائی کا طالب ہے ، اور خالص نیت سے خدا کے راستے پر چلنے کی سعی کرتا ہے ، تو اللہ اسی کا اذن اسی کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے اور اسی راہ پر چلنے کے اسباب اس کے لیے موافق کر دیتا ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص خود گمراہی کو پسند کرتا ہے اور غلط راستوں ہی پر چلنے کی سعی کرتا ہے ، اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور وہی راہیں اس کے لیے کھول دی جاتی ہیں جن کو اس نے آپ اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ ایسے شخص کو غلط سوچنے ، غلط کام کرنے اور غلط راہوں میں اپنی قوتیں صرف کرنے سے بچا لینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اپنے نصیب کی راہِ راست جس نے خود کھو دی اور جس سے اللہ نے اس کو محروم کر دیا ، اس کے لیے یہ گم شدہ نعمت کسی کے ڈھونڈے نہیں مِل سکتی۔

۱۷۴-اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں، اپنی ساری دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو وہ اللہ کے آگے نذر کر دے ، کسی چیز کے ساتھ بھی دل کا ایسا لگا ؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اُسے قربان نہ کیا جا سکتا ہو۔

۱۷۵-شکر کے اصل معنی اعترافِ نعمت یا احسان مندی کے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے ساتھ احسان فراموشی اور نمک حرامی کا رویّہ اختیار نہ کرو، بلکہ صحیح طور پر اس کے احسان مند بن کر رہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ تمہیں سزا دے۔

ایک محسن کے مقابلہ میں صحیح احسان مندانہ رویّہ یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی دل سے اس کے احسان کا اعتراف کرے ، زبان سے اس کا اقرار کرے اور عمل سے احسان مندی کا ثبوت دے۔ انہی تین چیزوں کے مجموعہ کا نام شکر ہے۔ اور اس شکر کا اقتضاء یہ ہے کہ اوّلاً آدمی احسان کو اُسی کی طرف منسُوب کرے جس نے دراصل احسان کیا ہے ، کسی دُوسرے کو احسان کے شکریہ اور نعمت کے اعتراف میں اس کا حصہ دار نہ بنائے۔ ثانیاً آدمی کا دل اپنے محسن کے لیے محبت اور وفاداری کے جذبہ سے لبریز ہو اور اُس کے مخالفوں سے محبت و اخلاص اور وفاداری کا ذرہ برابر تعلق بھی نہ رکھے۔ ثالثًا وہ اپنے محسن کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کی اس کے منشاء کے خلاف استعمال نہ کرے۔

۱۷۶-اصل میں لفظ’’ شاکر‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ’’قدر دان‘‘ کیا ہے۔ شکر جب اللہ کی طرف سے بندے کی جانب ہو تو اس کے معنی ’’اعترافِ خدمت‘‘ یا قدر دانی کے ہوں گے ، اور جب بندے کی طرف سے اللہ کی جانب ہو تو اس کو اعترافِ نعمت یا احسان مندی کے معنی میں لیا جائے گا۔ اللہ کی طرف سے بندوں کا شکریہ ادا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نا قدر شناس نہیں ہے ، جتنی اور جیسی خدمات بھی بندے اس کی راہ میں بجا لائیں ، اللہ کے ہاں ان کی قدر کی جاتی ہے ، کسی کی خدمات صِلہ و انعام سے محرُوم نہیں رہتیں ، بلکہ وہ نہایت فیاضی کے ساتھ ہر شخص کو اس کی خدمت سے زیادہ صلہ دیتا ہے۔ بندوں کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے کیا اس کی قدر کم کرتے ہیں اور جو کچھ نہ کیا اس پر گرفت کرنے میں بڑی سختی دکھاتے ہیں۔ لیکن اللہ کا حال یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے نہیں کیا ہے اس پر محاسبہ کرنے میں وہ بہت نرمی اور چشم پوشی سے کام لیتا ہے ، اور جو کچھ کیا ہے اس کی قدر اس کے مرتبے سے بڑھ کر کرتا ہے۔

۱۷۷-اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔ منافق اور یہودی اور بُت پرست سب کے سب اُس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کر نے پر تلے ہوئے تھے۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی نہ تھی جو وہ اِس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصّہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اُٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ بد گوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اُسے حق پہنچتا ہے۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جا ؤ اور بُرائیوں سے درگزر کرو، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بُرد بار ہے ، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصُوروں پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے قریب تر ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظّرف بنو۔

۱۷۸-یعنی کافر ہونے میں وہ لوگ جو خدا کو مانتے ہیں نہ اس کے رسولوں کو، اور وہ جو خدا کو مانتے ہیں مگر رسولوں کو نہیں مانتے ، اور وہ جو کسی رسول کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں مانتے ، سب یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے کافر ہونے میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں۔

۱۷۹-یعنی جو لوگ خدا کو اپنا واحد معبُود اور مالک تسلیم کر لیں ، اور اس کے بھیجے ہوئے تمام رسُولوں کی پَیروی قبول کریں، صرف وہی اپنے اعمال پر اجر کے مستحق ہیں ، اور وہ جس درجہ کا عمل صالح کریں گے اسی درجہ کا اجر پائیں گے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے خدا کی لاشریک الٰہیّت و ربوبیّت ہی تسلیم نہ کی ، یا جنہوں نے خدا کے نمائندوں میں سے بعض کو قبول اور بعض کو رد کرنے کا باغیانہ طرزِ عمل اختیار کیا، تو ان کے لیے کسی عمل پر کسی اجر کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسے لوگوں کا کوئی عمل خدا کی نگاہ میں قانونی عمل نہیں ہے۔

۱۸۰-یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے ان کا حساب لینے میں اللہ سخت گیری نہیں برتے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت نرمی اور درگزر سے کام لے گا۔

 

یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر اُن پر نازل کراؤ ۱۸۱ تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰؑ سے کر چکے ہیں۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سر کشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی۔ ۱۸۲ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا،حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ ۱۸۳ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰؑ کو صریح فرمان عطا کیا اور ان لوگوں پر طور کو اٹھا کر ان سے ( اس فرمان کی اطاعت کا)عہد لیا۔۱۸۴ ہم نے ان کو حکم دیا کہ دروازہ میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو۔۱۸۵ ہم نے ان سے کہا کہ سَبت کا قانون نہ توڑو اور اس پر اِن سے پختہ عہد لیا۔۱۸۶ آخر کار ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھُٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں۔۔۔۔۱۸۷ حالانکہ ۱۸۸ درحقیقت ان کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔۔۔۔پھر ۱۸۹ اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا، اور ۱۹۰ خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابنِ  مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے۔۔۔۔۱۹۱ حالانکہ ۱۹۲ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا۔۱۹۳ اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے ، محض گمان ہی کی پیروی ہے۔۱۹۴ انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا،۱۹۵ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا ۱۹۶ اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا،۱۹۷غرض ۱۹۸ ان یہودی بن جا نے والوں کے اسی ظالمانہ رویّہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں،۱۹۹۔۔۔۔۔۔۔ اور سُود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا،۲۰۰ اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھا تے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، ۲۰۱ اور جو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔۲۰۲ مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔ ۲۰۳ اس طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچّا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں گے۔ ؏۲۲
 

۱۸۱-مدینہ کے یہُودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو عجیب عجیب مطالبے کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم آپ کی رسالت اس وقت تک تسلیم نہ کریں گے جب تک کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک لکھی لکھائی کتاب آسمان سے نازل نہ ہو، یا ہم میں سے ایک ایک شخص کے نام اوپر سے اس مضمون کی تحریر نہ آ جائے کہ یہ محمد ؐ ہمارے رسول ہیں، ان پر ایمان لاؤ۔

۱۸۲-یہاں کسی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا مقصُود نہیں ہے ، بلکہ یہُودیوں کے جرائم کی ایک مختصر فہرست پیش کرنی مقصُود ہے ، اُس لیے ان کی قومی تاریخ کے چند نمایاں واقعات کی طرف سرسری اشارات کیے گئے ہیں۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ سُورۂ بقرہ آیت ۵۵ میں بھی گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۷۱)

۱۸۳-کھُلی کھُلی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے رسُول مقرر ہونے کے بعد سے لے کر فرعون کے غرق ہونے اور بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے تک پے در پے ان لوگوں کے مشاہدے میں آ چکی تھیں۔ ظاہر ہے کہ سلطنتِ مصر کی عظیم الشان طاقت کے پنجوں سے جس نے بنی اسرائیل کو چھڑایا تھا وہ کوئی گائے کا بچہ نہ تھا بلکہ اللہ ربّ العالمین تھا۔ مگر یہ اس قوم کی باطل پرستی کا کمال تھا کہ خدا کی قدرت اور اس کے فضل کی روشن ترین نشانیوں کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکنے کے بعد بھی جب جھُکی تو اپنے محسن خدا کے آگے نہیں بلکہ ایک بچھڑے کی مصنوعی مورت ہی کے آگے جھُکی۔

۱۸۴-صریح فرمان سے مراد وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو تختیوں پر لکھ کر دیے گئے تھے۔ سُورۂ اعراف ، رکوع ۱۷ میں اس کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے گا۔ اور عہد سے مراد وہ میثاق ہے جو کوہِ طور کے دامن میں بنی اسرائیل کے نمائندوں سے لیا گیا تھا۔ سُورۂ بقرہ آیت ۶۳ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے اور اعراف آیت ۱۷۱ میں پھر اس کی طرف اشارہ آئے گا۔

۱۸۵-سورة بقرہ آیت ۵۹-۵۸ و حاشیہ نمبر ۷۵۔

۱۸۶-سورة بقرہ آیت ۶۵- و حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳۔

۱۸۷-یہُودیوں کے اس قول کی طرف سُورہ بقرہ آیت ۸۸ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ لوگ تمام باطل پرست جُہلا ء کی طرح اس بات پر فخر کرتے تھے کہ جو خیالات اور تعصّبات اور رسم و رواج ہم نے اپنے باپ دادا سے پائے ہیں ان پر ہمارا عقیدہ اتنا پُختہ ہے کہ کسی طرح ہم اُن سے نہیں ہٹائے جا سکتے۔ جب کبھی خدا کی طرف سے پیغمبروں نے آ کر ان کو سمجھانے کی کوشش کی ، اِنہوں نے اُن کو یہی جواب دیا کہ تم خواہ کوئی دلیل اور کوئی آیت لے آؤ ہم تمہاری کسی بات کا اثر نہ لیں گے ،جو کچھ مانتے اور کرتے چلے آئے ہیں وہی مانتے رہیں گے اور وہی کیے چلے جائیں گے۔(ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ، حاشیہ نمبر ۹۴)۔

۱۸۸-یہ جملۂ معترضہ ہے۔

۱۸۹- یہ فقرہ اصل سلسلۂ  تقریر سے تعلق رکھتا ہے۔

۱۹۰-حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا معاملہ یہُودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پُوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمُولی شخصیّت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جُرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہوُر و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گو د میں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آ گئے ، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ و َجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ ’’ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔‘‘(سُورہ مریم رکوع ۲)۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے سنِّ شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریمؑ  پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسیٰ کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا۔ لیکن جب تیس برس عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوّت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، اُن کے علماء و فقہا ء کو اُن کی ریا کاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اُس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مُبتلا ہو گئے تھے ، اور اُس پر خطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اُتر آئے۔ اس وقت اِنہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابنِ مریم ولد الزّنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا۔

۱۹۱-یعنی جرأتِ  مُجرمانہ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ رسُول کو رسُول جانتے تھے اور پھر اس کے قتل کا اقدام کیا اور فخریہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے۔ اُوپر ہم نے گہوارے کے واقعہ کا جو حوالہ دیا ہے ا س پر غور کرنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہُودیوں کے لیے مسیح علیہ السّلام کی نبوّت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔ پھر جو روشن نشانیاں انہوں نے حضرت موصوف سے مشاہدہ کیں ( جن کا ذکر سُورۂ آلِ عمران رکوع ۵ میں گزر چکا ہے ) ان کے بعد تو یہ معاملہ بالکل ہی غیر مشتبہ ہو چکا تھا کہ آنجناب اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس لیے واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہم اِس جرم کا ارتکاب اُس شخص کے ساتھ کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہے۔

بظاہر یہ بات بڑی عجب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے اُسے قتل کر دے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز و اطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں جو اُن کی بُرائیوں پر انہیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے ان کو روکے۔ ایسے لوگ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیشہ بد کردار قوموں میں قید اور قتل کی سزائیں پاتے ہی رہے ہیں۔ تَلمود میں لکھا ہے کہ بخت نَصّر نے جب بیت المَقْدِس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اُسے ایک تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے یہُودیوں سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ’’یہاں زکریّا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا۔ وہ ہماری بُرائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آ گئے تو ہم نے اُسے مار ڈالا‘‘۔ بائیبل میں یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اخلاقیاں حد سے گزر گئیں اور حضرت یرمیاہ نے اُن کے متنبہ کیا کہ اِن اعمال کی پاداش میں خدا تم کو دُوسری قوموں سے پامال کرا دے گا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ شخص کسدیوں(کلدانیوں) سے ملا ہوا ہے اور قوم کا غدار ہے۔ اس الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ خود حضرت مسیحؑ  کے واقعہ ٔ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے ہی حضرت یحییٰ کا معاملہ پیش آ چکا تھا۔ یہودی بالعموم ان کو نبی جانتے تھے اور کم از کم یہ تو مانتے ہی تھے کہ وہ ان کی قوم کے صالح ترین لوگوں میں سے ہیں۔ مگر جب انہوں نے ہیرو دیس(والیِ ریاست یہودیہ) کے دربار کی برائیوں پر تنقید کی تو اسے برداشت نہ کیا گیا۔ پہلے جیل بھیجے گئے ، اور پھر والیِ ریاست کی معشوقہ کے مطالبے پر ان کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہُودیوں کے اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو سُولی پر چڑھانے کے بعد سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہو ’’ہم نے اللہ کے رسُول کو قتل کیا ہے‘‘۔

۱۹۲-یہ پھر جملۂ معترضہ ہے۔

۱۹۳-یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اُٹھا لیے گئے تھے اور یہ کہ مسیحیوں اور یہودیوں ، دونوں کا یہ خیال کہ مسیح نے صلیب پر جان دی ، محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غالباً پیلا طُس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی، مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سُنا چکا، اور جب یہودیوں نے مسیح جیسے پاک نفس انسان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی جان کو زیادہ قیمتی ٹھیرا کر اپنی حق دشمنی و باطل پسندی پر آخری مُہر بھی لگا دی ، تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اُٹھا لیا۔ بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذاتِ مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص تھا جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسیٰ ابنِ مریم سمجھ لیا۔ تاہم ان کا جُرم اس سے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس کو انہوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا ، جس کے مُنہ پر تھوکا اور جسے ذِلّت کے ساتھ صلیب چڑھایا اس کو وہ عیسیٰ بن مریم ہی سمجھ رہے تھے۔ اب یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لیے مشتبہ ہو گیا۔ چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعۂ معلومات نہیں ہے اس لیے مجرّد قیاس و گمان اور افواہوں کی بُنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس شبہ کی نوعیّت کیا تھی جس کی بنا پر یہُودی یہ سمجھے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو صلیب دی ہے در آں حالیکہ عیسیٰ ابن مریم ان کے ہاتھ سے نِکل چکے تھے۔

۱۹۴-اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں۔ اُن میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر کوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں جن کی کثرت خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لیے بھی مشتبہ ہی رہی۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذِلّت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کسی جگہ کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر اُن کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ اُتارے جانے کے بعد ان میں جان تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اُٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسمِ انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر اُلُوہیّت کی رُوح جو اس میں تھی وہ اُٹھا لی گئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السّلام جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اُٹھائے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا عِلم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں۔

۱۹۵-یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اُٹھالیا۔ اب رہا یہ سوال کہ اُٹھا لینے کی کیفیت کیا تھی ، تو اس کے متعلق کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ قرآن نہ اِس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ اُن کو جسم و رُوح کے ساتھ کرۂ زمین سے اُٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا ، اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی رُوح اُٹھائی گئی۔ اس لیے قرآن کی بُنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جا سکتی ہے اور نہ اثبات۔ لیکن قرآن کے اندازِ بیان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل نمایاں طور پر محسُوس ہوتی ہے کہ اُٹھائے جانے کی نوعیت و کیفیت خواہ کچھ بھی ہو، بہر حال مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ نے کوئی ایسا معاملہ ضرور کیا ہے جو غیر معمُولی نوعیّت کا ہے۔ اس غیر معمُولی پن کا اظہار تین چیزوں سے ہوتا ہے :

ایک یہ کہ عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کے جسم و رُوح سمیت اُٹھائے جانے کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور اُن اسباب میں سے تھا جن کی بنا پر ایک بہت بڑا گروہ اُلوہیّتِ مسیح کا قائل ہوا ہے ، لیکن اس کے باوجود قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کی صاف صاف تردید نہیں کی بلکہ بعینہٖ وہی ’’رفع‘‘(Ascension) کا لفظ استعمال کیا جو عیسائی اِس واقعہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کتابِ مبین کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کسی خیال کی تردید کرنا چاہتی ہو اور پھر ایسی زبان استعمال کرے جو اس خیال کو مزید تقویت پہنچانے والی ہو۔

دوسرے یہ کہ اگر مسیح علیہ السّلام کا اُٹھایا جانا ویسا ہی اُٹھایا جانا ہوتا جیسا کہ ہر مرنے والا دنیا سے اُٹھا یا جاتا ہے ، یا اگر اس رفع سے مراد محض درجات و مراتب کی بلندی ہوتی جیسے حضرت ادریس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رَفَعْنَا ہُ مَکَاناً عَلِیًّا ، تو اس مضمون کو بیان کرنے کا انداز یہ نہ ہوتا جو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں۔ اس کو بیان کرنے کے لیے زیادہ مناسب الفاظ یہ ہو سکتے تھے کہ ’’یقیناً انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو زندہ بچا لیا اور پھر طبعی موت دی۔ یہودیوں نے اس کو ذلیل کر نا چاہا تھا مگر اللہ نے اس کو بلند درجہ عطا کیا‘‘۔

تیسرے یہ کہ اگر یہ رفع ویسا ہی معمُولی قسم کا رفع ہوتا جیسے ہم محاورہ میں کسی مرنے والے کو کہتے ہیں کہ اُسے اللہ نے اُٹھا لیا تو اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ فقرہ بالکل غیر موزوں تھا کہ ’’ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے ‘‘۔ یہ تو صر ف کسی ایسے واقعہ کے بعد ہی موزون و مناسب ہو سکتا ہے جس میں اللہ کی قوتِ  قاہرہ اور اس کی حکمت کا غیر معمُولی ظہُور ہوا ہو۔

اس کے جواب میں قرآن سے اگر کوئی دلیل پیش کی جا سکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ سُورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ استعمال کیا ہے۔(آیت ۵۵)۔ لیکن جیسا کہ وہاں ہم حاشیہ نمبر ۵۱ میں واضح کر چکے ہیں ، یہ لفظ طبعی موت کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ قبضِ رُوح ، اور قبضِ رُوح و جسم ، دونوں پر دلالت کر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ اُن قرائن کو ساقط کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے جو ہم نے اُوپر بیان کیے ہیں۔ بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے ، سوال کرتے ہیں کہ تَوَفی کا لفظ قبضِ رُوح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے ؟ لیکن جب کہ قبضِ رُوح و جسم کا واقعہ تمام نوعِ انسانی کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پُوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے۔ دیکھنا یہی چاہیے کہ آیا اصل لغت میں اس استعمال کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو ماننا پڑے گا کہ قرآن نے رفع جسمانی کے عقیدہ کی صاف تردید کرنے کے بجائے یہ لفظ استعمال کر کے اُن قرائن میں ایک اَور قرینہ کا اضافہ کر دیا ہے جن سے اس عقیدہ کو اُلٹی مدد ملتی ہے ، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ موت کے صریح لفظ کو چھوڑ کر وفات کے محتمل المعنیین لفظ کو ایسے موقع پر استعمال کرتا جہاں رفع جسمانی کا عقیدہ پہلے سے موجود تھا اور ایک فاس اعتقاد ، یعنی اُلوہیّتِ  مسیح کے اعتقاد کا موجب بن رہا تھا۔ پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت اُن کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السّلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجّال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں( تفسیر سُورۂ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے )۔ اُن سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے۔ اب یہ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ ان کا مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنا زیادہ قرینِ قیاس ہے ، یا زندہ کہیں خدا کی کائنات میں موجود ہونا اور پھر واپس آنا؟

۱۹۶-اِس فقرے کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں اور الفاظ میں دونوں کا یکساں احتمال ہے۔ ایک معنی وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دُوسرے یہ کہ ’’اہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہ لے آئے ‘‘۔ اہلِ کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عیسائی بھی ہوں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ مسیح کی طبعی موت جب واقع ہو گی اس وقت جتنے اہلِ کتاب موجود ہوں گے وہ سب ان پر(یعنی ان کی رسالت پر ) ایمان لا چکے ہوں گے۔ دُوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ تمام اہلِ کتاب پر مرنے سے عین قبل رسالتِ مسیح کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں، مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ ایمان لانا مفید نہیں ہو سکتا۔ دونوں معنی متعدّد صحابہ ، تابعین اور اکابر مفسّرین سے منقول ہیں اور صحیح مراد صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔

۱۹۷-یعنی یہُودیوں اور عیسائیوں نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اور اُس پیغام کے ساتھ، جو آپ لائے تھے ، جو معاملہ کیا ہے اس پر آپ خداوند تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے۔ اس گواہی کی کچھ تفصیل آگے سُورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں آنے والی ہے۔

۱۹۸-جملۂ معترضہ ختم ہونے کے بعد یہاں سے پھر وہی سلسلۂ تقریر شروع ہوتا ہے جو اُوپر سے چلا آ رہا تھا۔

۱۹۹-یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ خود اللہ کے راستے سے منحرف ہیں، بلکہ اس قدر بے باک مجرم بن چکے ہیں کہ دُنیا میں خدا کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو تحریک بھی اُٹھتی ہے ، اکثر اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ ہی کام کرتا نظر آتا ہے ، اور راہِ حق کی طرف بُلانے کے لیے جو تحریک بھی شروع ہوتی ہے اکثر اس کے مقابلہ میں یہودی ہی سب سے بڑھ کر مزاحم بنتے ہیں، در آں حالے کہ یہ کم بخت کتاب اللہ کے حامل اور انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کا تازہ ترین جرم یہ اشتراکی تحریک ہے جسے یہودی دماغ نے اختراع کیا اور یہودی رہنمائی ہی نے پروان چڑھایا ہے۔ اِن نام نہاد اہلِ کتاب کے نصیب میں یہ جرم بھی مقدر تھا کہ دُنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جو نظامِ زندگی اور نظامِ حکومت خدا کے صریح انکار پر ، خدا سے کھُلم کھُلا دشمنی پر ، خدا پرستی کو مٹا دینے کے علی الاعلان عزم و ارادہ پر تعمیر کیا گیا اس کے مُوجد و مخترع اور بانی و سربراہ کار موسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا ہوں۔ اشتراکیت کے بعد زمانہ ٔ جدید میں گمراہی کا دُوسرا بڑا ستون فرائڈ کا فلسفہ ہے اور لُطف یہ ہے کہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔

۲۰۰-توراۃ میں بالفاظِ صریح یہ حکم موجود ہے کہ:

’’اگر تُو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو، قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سُود لینا۔ اگر تُو کسی وقت اپنے ہمسایہ کے کپڑے گروی رکھ بھی لے تو سُورج کے ڈوبنے تک اس کو واپس کر دینا کیونکہ فقط وہی ایک اُس کا اوڑھنا ہے ، اس کے جسم کا وہی لباس ہے ، پھر وہ کیا اوڑھ کر سوئے گا۔ پس جب وہ فریاد کرے گا تو میں اُس کی سنوں گا کیونکہ میں مہربان ہوں‘‘۔( خروج باب ۲۲:۲۷-۲۵)

اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر توراۃ میں سُود کی حُرمت وار د ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسی تورات کے ماننے والے یہودی آج دُنیا کے سب سے بڑے سُود خوار ہیں اور اپنی تنگ دلی و سنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔

۲۰۱-غالباً یہ اُسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آگے سُورۂ انعام آیت ۱۴۶ میں آنے والی ہے۔ یعنی یہ کہ بنی اسرائیل پر تمام وہ جانور حرام کر دیے گئے جن کے ناخن ہوتے ہیں ، اور ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کر دی گئی۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اشارہ اُن دُوسری پابندیوں اور سختیوں کی طرف بھی ہو جو یہودی فقہ میں پائی جاتی ہیں۔ کسی گروہ کے لیے دائرہ ٔ زندگی کا تنگ کر دیا جانا فی الواقع اس کے حق میں ایک طرح کی سزا ہی ہے۔( مفصّل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ انعام حاشیہ نمبر ۱۲۲)

۲۰۲-یعنی اس قوم کے جو لوگ ایمان و اطاعت سے منحرف اور بغاوت و انکار کی روش پر قائم ہیں ان کے لیے خدا کی طرف سے دردناک سزا تیار ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں جو عبرتناک سزا ان کو ملی اور مل رہی ہے وہ کبھی کسی دُوسری قوم کو نہیں ملی۔ دو ہزار برس ہو چکے ہیں کہ زمین پر کہیں ان کو عزّت کا ٹھکانا میسّر نہیں۔ دُنیا میں تِتّر بِتّر کر دیے گئے ہیں اور ہر جگہ غریب الوطن ہیں۔ کوئی دَور ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ دُنیا کے کسی نہ کسی خطّہ میں ذلّت کے ساتھ پامال نہ کیے جاتے ہوں اور اپنی دولت مندی کے باوجود کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ پھر غضب یہ ہے کہ قومیں پیدا ہوتی اور مِٹتی ہیں مگر اس قوم کو موت بھی نہیں آتی۔ اس کو دنیا میں لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی کی سزا دی گئی ہے تاکہ قیامت تک دُنیا کی قوموں کے لیے ایک زندہ نمونۂ عبرت بنی رہے اور اپنی سرگزشت سے یہ سبق دیتی رہے کہ خدا کی کتاب بغل میں رکھ کر خدا کے مقابلہ میں باغیانہ جسارتیں کرنے کا یہ انجام ہوتا ہے۔ رہی آخرت تو اِن شاء اللہ وہاں کا عذاب اس سے بھی زیادہ دردناک ہو گا۔ ( اس موقع پر جو شبہ فلسطین کی اسرائیلی ریاست کے قیام کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسے رفع کرنے کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ آلِ عمران آیت ۱۱۲)۔

۲۰۳-یعنی ان میں سے جو لوگ کتبِ آسمانی کی حقیقی تعلیم سے واقف ہیں اور ہر قسم کے تعصّب ، جاہلانہ ضد، آبائی تقلید اور نفس کی بندگی سے آزاد ہو کر اُس امرِ حق کو سچے دل سے مانتے ہیں جس کا ثبوت آسمانی کتابوں سے مِلتا ہے ، ان کی روش کا فر و ظالم یہودیوں کی عام روش سے بالکل مختلف ہے۔ ان کو بیک نظر محسُوس ہو جاتا ہے کہ جس دین کی تعلیم پچھلے انبیاء نے دی تھی اسی کی تعلیم قرآن دے رہا ہے ، اس لیے وہ بے لاگ حق پرستی کے ساتھ دونوں پر ایمان لے آتے ہیں۔

 

اے محمد ؐ! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ  اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔۲۰۴ ہم نے ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ  اور اولاد یعقوبؑ ، عیسیٰؑ ، ایوبؑ  ، یونسؑ  ، ہارونؑ  اور سلیمانؑ  کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے داؤدؑ  کو زبور دی۔۲۰۵ ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ ہم نے موسیٰؑ  سے اس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔۲۰۶یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے ۲۰۷ تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجّت نہ رہے ۲۰۸ اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ (لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے ، اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہو نا بالکل کفایت کرتا ہے۔جو لوگ اس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقیناً گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ اس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم و ستم پر اُتر آئے اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ ... بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے ، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے ، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے ۲۰۹ اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔۲۱۰اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو ۲۱۱ اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسُوب نہ کرو۔ مسیح عیسیٰؑ  ابنِ مریمؑ  اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا ۲۱۲ جو اللہ نے مریمؑ  کی طرف بھیجا اور ایک رُوح تھی اللہ کی طرف سے ۲۱۳ (جس نے مریم کے رِحم میں بچّہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُس کے رسُولوں پر ایمان لاؤ ۲۱۴ اور نہ کہو کہ ’’تین‘‘ ہیں۔۲۱۵ باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔۲۱۶ زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں،۲۱۷ اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے۔۲۱۸ ؏۲۳
 

۲۰۴-اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کوئی انوکھی چیز لے کر نہیں آئے ہیں جو پہلے نہ آئی ہو۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں دنیا میں پہلی مرتبہ ایک نئی چیز پیش کر رہا ہوں۔ بلکہ دراصل اُن کو بھی اسی ایک منبعِ علم سے ہدایت ملی ہے جس سے تمام پچھلے انبیاء کو ہدایت ملتی رہی ہے ، اور وہ بھی اُسی ایک صداقت و حقیقت کو پیش کر رہے ہیں جسے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیدا ہونے والے پیغمبر ہمیشہ سے پیش کرتے چلے آئے ہیں۔

وحی کے معنی ہیں اشارہ کرنا، دل میں کوئی بات ڈالنا، خفیہ طریقے سے کوئی بات کہنا، پیغام بھیجنا۔

۲۰۵-موجودہ بائیبل میں زَبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں ہے۔ اس میں بکثرت مزامیر دُوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنّفین کی طرف منسُوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسُوس ہوتی ہے۔ اِسی طرح بائیبل میں امثالِ سلیمانؑ  کے نام سے جو کتاب موجود ہے اس میں بھی اچھی خاصی آمیزش پائی جاتی ہے اور اس کے آخری دو باب تو صریحاً الحاقی ہیں، مگر اس کے باوجود ان امثال کا بڑا حصّہ صحیح و برحق معلوم ہوتا ہے۔ ان دو کتابوں کے ساتھ ایک اور کتاب حضرت ایّوبؑ  کے نام سے بھی بائیبل میں درج ہے ، لیکن حکمت کے بہت سے جواہر اپنے اندر رکھنے کے باوجود، اسے پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ واقعی حضرت ایّوبؑ  کی طرف اس کتاب کی نسبت صحیح ہے۔۔ اس لیے قرآن میں اور خود اس کتاب کی ابتدا میں حضرت ایّوبؑ  کے جس صبرِ عظیم کی تعریف کی گئی ہے ، اس کے بالکل برعکس وہ ساری کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت ایّوبؑ  اپنی مصیبت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے خلاف سراپا شکایت بنے ہوئے تھے ، حتیٰ کہ ان کے ہمنشین انہیں اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ خدا ظالم نہیں ہے ، مگر وہ کسی طرح مان کر نہ دیتے تھے۔

ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس اور بعض دُوسرے صحیفوں میں تو بکثرت مقامات ایسے آتے ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کی رُوح وجد کرنے لگتی ہے۔ ان میں الہامی کلام کی شان صریح طور پر محسُوس ہوتی ہے۔ ان کی اخلاقی تعلیم، ان کا شرک کے خلاف جہاد، ان کو توحید کے حق میں پر زور استدلال ، اور ان کی بنی اسرائیل کے اخلاقی زوال پر سخت تنقیدیں پڑھتے وقت آدمی یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اناجیل میں حضرت مسیح کی تقریریں اور قرآن مجید اور یہ صحیفے ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی سوتیں ہیں۔

۲۰۶-دُوسرے انبیاء علیہم السّلام پر تو وحی اس طرح آتی تھی کہ ایک آواز آ رہی ہے یا فرشتہ پیغام سنا رہا ہے اور وہ سُن رہے ہیں۔ لیکن موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ یہ خاص معاملہ برتا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان سے گفتگو کی۔ بندے اور خدا کے درمیان اس طرح باتیں ہوتی تھیں جیسے دو شخص آپس میں بات کرتے ہیں۔ مثال کے لیے اُس گفتگو کا حوالہ کافی ہے جو سورۂ طٰہٰ میں نقل کی گئی ہے۔ بائیبل میں بھی حضرت موسیٰ کی اِس خصُوصیّت کا ذکر اِسی طرح کیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ’’ جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُو برو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا‘‘۔ (خرُوج ۳۳:۱۱)

۲۰۷-یعنی ان سب کا ایک ہی کام تھا اور وہ یہ کہ جو لوگ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیم پر ایمان لائیں اور اپنے رویّہ کو اس کے مطابق درست کر لیں انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری سُنا دیں، اور جو فکر و عمل کی غلط راہوں پر چلتے رہیں ان کو اِس غلط روی کے بُرے انجام سے آگاہ کر دیں۔

۲۰۸-یعنی ان تمام پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نوعِ انسانی پر اتمامِ حجّت کرنا چاہتا تھا ، تاکہ آخری عدالت کے موقع پر کوئی گمراہ مجرم اُس کے سامنے یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم ناواقف تھے اور آپ نے ہمیں حقیقتِ حال سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ اسی غرض کے لیے خدا نے دنیا کے مختلف گوشوں میں پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ ان پیغمبروں نے کثیر التعداد انسانوں تک حقیقت کا علم پہنچا دیا اور اپنے پیچھے کتابیں چھوڑ گئے جن میں سے کوئی نہ کوئی کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر زمانہ میں موجود رہی ہے۔ اب اگر کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کا الزام خدا پر اور اس کے پیغمبروں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ یا تو خود اس شخص پر عائد ہوتا ہے کہ اس تک پیغام پہنچا اور اس نے قبول نہیں کیا، یا ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جن کو راہِ راست معلوم تھی اور انہوں نے خدا کے بندوں کو گمراہی میں مُبتلا دیکھا تو انہیں آگاہ نہ کیا۔

۲۰۹-یعنی زمین و آسمان کے مالک کی نافرمانی کر کے تم اس کا کوئی نقصان نہیں کر سکتے ، نقصان جو کچھ ہو گا تمہارا اپنا ہو گا۔

۲۱۰-یعنی تمہارا خدا نہ تو بے خبر ہے کہ اس کی سلطنت میں رہتے ہوئے تم شرارتیں کرو اور اسے معلوم نہ ہو، اور نہ وہ نادان ہے کہ اسے اپنے فرامین کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کا طریقہ نہ آتا ہو۔

۲۱۱-یہاں اہلِ کتاب سے مراد عیسائی ہیں اور غلو کے معنی ہیں کسی چیز کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانا۔ یہودیوں کا جرم یہ تھا کہ مسیح کے انکار اور مخالفت میں حد سے گزر گئے ، اور عیسائیوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسیح کی عقیدت میں محبّت میں حد سے گزر گئے۔

۲۱۲-اصل میں لفظ ’’کلمہ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السّلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے۔ عیسائیوں کو ابتداءً مسیح علیہ السّلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا۔ مگر انہوں نے یُونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ’’کلام‘‘ یا ’’نطق‘‘ (LOCOS) کا ہم معنی سمجھ لیا۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفتِ کلام مراد لے لی۔ پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السّلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صُورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السّلام کی الوہیّت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصوّر نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔

۲۱۳-یہاں خود مسیح کو رُوْحٌ مِّنْہُ ( خدا کی طرف سے ایک رُوح) کہا گیا ہے ، اور سُورۂ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ( ہم نے پاک رُوح سے مسیح کی مدد کی)۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السّلام کو وہ پاکیزہ رُوح عطا کی تھی جو بدی سے نا آشنا تھی۔ سراسر حقانیت اور راست بازتھی، اور از سر تا پا فضیلتِ اخلاق تھی۔ یہی تعریف آنجناب کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اس میں غلو کیا، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین رُوح اللہ قرار دے لیا، اور رُوح القدس(Holy Ghost) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی رُوح مقدس تھی جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا رُوح القدس کو بنا ڈالا گیا۔ یہ عیسائیوں کا دُوسرا زبر دست غلو تھا جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ لُطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ ’’فرشتے نے اسے (یعنی یوسف نجار کو) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح القدس کی قدرت سے ہے ‘‘۔

۲۱۴-یعنی اللہ کو واحد الٰہ مانو اور تمام رسولوں کی رسالت تسلیم کرو جن میں سے ایک رسول مسیح بھی ہیں۔ یہی مسیح علیہ السلام کی اصلی تعلیم تھی اور یہی امرِ حق ہے جسے ایک سچے پیروِ مسیح کو ماننا چاہیے۔

۲۱۵-یعنی تین الہٰوں کے عقیدے کو چھوڑ دو خواہ وہ کسی شکل میں تمہارے اندر پایا جاتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آ گئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہُور کیا اور رُوح اللہ نے اس میں حلول کیا ، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور رُوح القدس کی الوہیّت کو بھی خداوندِ عالم کی اُلوہیّت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اُوپر لازم کر لیا۔ اس زبر دستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابلِ حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ ٔ توحید کے باوجود عقیدۂ تثلیث کو، اور عقیدۂ تثلیث کے باوجود عقیدۂ توحید کو کس طرح نباہیں۔ تقریباً ۱۸ سو برس سے مسیح علماء اِسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہے ہیں۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں۔ اِسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے۔ اسی پر ان کے سارے علمِ کلام کا زور صرف ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی ، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے ، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آ جائیں ، مسیح اور رُوح القدس کی اُلوہیّت کا تخیل چھوڑ دیں، صرف اللہ کو الٰہِ واحد تسلیم کر لیں، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالُوہیّت۔

۲۱۶-یہ عیسائیوں کے چوتھے غلو کی تردید ہے۔ بائیبل کے عہدِ جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے (خصُوصاً پہلی تین انجیلوں سے ) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ’’باپ‘‘ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصُوصیّت نہیں ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آرہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پُرانے عہد نامہ میں موجود ہیں۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا۔ ان کا عجیب و غریب نظریّہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے ، اور اس کے کلمے اور اس کی رُوح کا جسدی ظہُور ہے ، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے ، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ ادا کرے۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے۔ یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اُس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیّت سے متأثر ہو کر مبتلا ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے ، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر چڑھ کر لعنت کی موت کیوں مرا۔ لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے کہ اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دُور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔

۲۱۷-یعنی زمین و آسمان کی موجودات میں سے کسی کے ساتھ بھی خدا کا تعلق باپ اور بیٹے کا نہیں ہے بلکہ محض مالک اور مملوک کا تعلق ہے۔

۲۱۸-یعنی خدا اپنی خدائی کا انتظام کرنے کے لیے خود کافی ہے ، اس کو کسی سے مدد لینے کی حاجت نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔

 

مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا۔اُس وقت وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر نیک طرزِ عمل اختیار کیا ہے اپنے اجر پُورے پُورے پائیں گے اور اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر عطا فرمائے گا، اور جِن لوگوں نے بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے اُن کو اللہ درد ناک سزا دے گا اور اللہ کے سوا جن جن کی سرپرستی و مددگاری پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی وہ وہاں نہ پائیں گے۔ لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیلِ روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔ اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا  دے گا۔ لوگ  ۲۱۹ تم سے کلالہ ۲۲۰ کے معاملہ میں فتویٰ پُوچھتے ہیں۔ کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو ۲۲۱ تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اُس کا وارث ہو گا۔۲۲۲ اگر میّت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی،۲۲۳ اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصّہ ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ؏۲۴

 

۲۱۹-یہ آیت اِس سُورہ کے نزول سے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے۔ یہ بیان اگر صحیح نہ بھی ہو تب بھی کم از کم اتنا تو ثابت ہے کہ یہ آیت سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ اور سُورہ نساء اس سے بہت پہلے ایک مکمل سُورہ کی حیثیت سے پڑھی جا رہی تھی۔ اسی وجہ سے اس آیت کو اُن آیات کے سلسلہ میں شامل نہیں کیا گیا جو احکام میراث کے متعلق سُورہ کے آغاز میں ارشاد ہوئی ہیں، بلکہ اسے ضمیمہ کے طور پر آخر میں لگا دیا گیا۔

۲۲۰-کَلَالہ کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض کی رائے میں کَلَالہ وہ شخص ہے جو لا ولد بھی ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں۔ اور بعض کے نزدیک محض لا ولد مرنے والے کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آخر وقت تک اس معاملہ میں متردّد رہے۔ لیکن عامۂ فقہاء نے حضرت ابوبکر ؓ کی اس رائے کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس کا اطلاق پہلی صورت پر ہی ہوتا ہے۔ اور خود قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ یہاں کلالہ کی بہن کو نصف ترکہ کا وارث قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ اگر کلالہ کا باپ زندہ ہو تو بہن کو سرے سے کوئی حصّہ پہنچتا ہی نہیں۔

۲۲۱-یہاں اُن بھائی بہنوں کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے جو میّت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں میں، یا صرف باپ میں مشترک ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک خطبہ میں اس معنی کی تصریح کی تھی اور صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہ کیا، اس بنا پر یہ مُجْمَع علیہ مسئلہ ہے۔

۲۲۲-یعنی بھائی اس کے پُورے مال کا وارث ہو گا اگر کوئی اور صاحبِ فریضہ نہ ہو۔ اور اگر کوئی صاحبِ فریضہ موجود ہو، مثلاً شوہر، تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ بھائی کو ملے گا۔۲۲۳-یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے۔