دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ النِّسَاء

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

نام

 

اس سورہ کا نام النساء ہے۔ یہ نام ان مضامین کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں نساء یعنی عورتوں کے حقوق وغیرہ بیان کئے گئے ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

سورہ مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ آل عمران کے بعد کی تنزیل ہے اور اس کے مضامین  اواخر ۰۳ھ سے ۰۵ھ تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہوں گے جنہیں بعد میں یکجا کر دیا گیا۔

 

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں لیکن اسلوبِ کلام نہ خشک ہے اور نہ پیچیدہ بلکہ نہایت سادہ، دل و دماغ کو اپیل کرنے والا اور بصیرت  افروز ہے۔ ان احکام و قوانین کے پہلو بہ پہلو دعوتِ قرآنی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ اصل مقصدِ حیات پر نگاہیں جمی رہیں اور احکام و قوانین کی تعمیل اُن کی سپرٹ کے ساتھ کی جائے نہ کہ محض قانونی اور فقہی انداز میں۔

 

سورہ کے ایک حصے میں منافقین کی حرکتوں اور فتنہ پرداز یوں پر گرفت کی گئی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ منافقین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نوٹِس لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دینی احکام اور شرعی قوانین پر صحیح طور پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اپنے ایمان میں مخلص ہو، ورنہ اس سے گریز کے لئے وہ ہزار بہانے تراشے گا اور بس چلے تو شرعی قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں بھی پیدا کرے گا گویا مسلمانوں کے معاشرے کو اصل خطرہ منافقین ہی سے ہے اور شرعی قوانین پر عمل در آمد کی صورت میں یہ لوگ زبردست رُکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔

 

نظمِ کلام

 

یہ سورہ ما سبق سورۂ  آل عمران سے بھی مربوط ہے  اور سورۂ بقرہ سے بھی۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں اہلِ ایمان کو اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی گئی تھی (واتقو اللہ) اور اس سورہ کا آغاز ہی تقویٰ کی ہدایت سے ہوا ہے۔ اور عام لوگوں کو خطاب کر کے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ (یا ایہاالناس اتقو  ربہم) گویا کہ یہ ایک ہی لَے کے دو سُر ہیں۔ رہا سوال سورۂ بقرہ سے ربط، تو سورۂ بقرہ میں معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے سلسلے میں ہدایات دی گئی تھیں، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کا سامان اس سورہ میں کیا گیا ہے۔ اس طرح سورہ کا رُخ تکمیلِ شریعت کی طرف ہے۔

 

آیت۔ ۱ کی حیثیت تمہید کی ہے۔ اس میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اسلام کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

آیت۔ ۲ تا ۴۳ میں معاشرتی احکام و قوانین بیان کئے گئے ہیں مثلاً یتیموں کے حقوق، قرابت داروں کے حقوق، تقسیمِ وراثت کا ضابطہ، عورتوں کے حقوق، نکاح کے قوانین، جان و مال کا احترام وغیرہ۔ ان احکام کا اختتام نماز سے متعلق احکام پر ہوا ہے۔

 

آیت ۴۴ تا ۵۷ میں اہلِ کتاب کو ان کی گمراہیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

 

آیت ۵۸ اور ۵۹ میں ایمان کے تقاضے پیش کئے گئے ہیں جو اسلامی حکومت اور اسلامی کے نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں۔

 

آیت ۶۰ تا ۷۰ میں منافقین کی روش پر گرفت کی گئی ہے اور انہیں فہمائش کرتے ہوئے دعوت فکر دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے سچّے وفا دار  بن کر رہیں گے، انہیں آخرت میں کیسا بلند مقام حاصل ہو گا۔ آیت ۷۱ تا ۱۲۶  کا مضمون بھی اسی سیاق میں ہے منافقین قربانیوں سے جی چراتے تھے، خواہ وہ ہجرت کی راہ میں ہوں یا جہاد کی راہ میں، اس پس منظر میں ہجرت اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ قربانیاں اہلِ ایمان کے لئے باعثِ سعادت ہیں۔ ضمناً جہاد کے تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل۔ مثلاً صلوٰۃ خوف وغیرہ کے سلسلے میں احکام دئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی منافقین کی فتنہ سامانیوں اور مفسدانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام ہی صحیح اور سچا دین ہے۔

 

آیت ۱۲۷ تا ۱۷۵ کا مضمون سوری کا آخری حصّہ ہے۔ اس میں ان سوالات کے جوابات دئے گئے ہیں جو آغازِ سورہ میں بیان کردہ احکام کے سلسلے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے بعد آخر سورہ تک اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے ہدایات دی گئی ہیں اور منافقین اور اہلِ کتاب کو ان کی بعض گمراہیوں پر متنبّہ کرتے ہوئے اصلاح کی جان متوجّہ کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۷۶ ضمیمے کے طور پر ہے۔ اس میں وراثت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔

ترجمہ

نوٹ: نشان " *" سے  تفسیری نوٹ کے نمبر شمار کی نشان دہی کی گئی ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو ۱*  جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۲*   اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا۳*   اور ان دونوں  سے بہ کثرت مرد اور عورتیں  پھیلا دیں ۴*    اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے (حقوق) طلب کرتے ہو۵*   اور قطع رحمی سے بچو ۶*  یقین جانو اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں ۷*    کا مال ان کے حوالہ کرو اور (ان کے) اچھے مال کو (اپنے) مال سے بد ل نہ ڈالو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھا جاؤ کہ یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے۸*۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں ۹*   کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں  تمہارے لئے جائز ہیں  ان میں  سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۱۰* ، لیکن اگر تمہیں  اندیشہ ہو کہ عدل۱۱*  نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو یا پھر ان عورتوں پر جو تمہارے قبضہ میں  آ گئی ہیں ۱۲*   بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں  کو ان کے مہر خوشدلی سے عطیہ۱۳*  کے طور پر دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں  تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مال جسے اللہ نے تمہارے لئے قیام (معیشت) کا ذریعہ ۱۴* بنا یا ہے نادانوں  کے حوالہ نہ کرو۱۵*  البتہ اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہنا تے رہو اور انکو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلی بات کہو۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیموں  کو جانچتے رہو یہاں  تک کہ وہ نکاح کی ۱۶* عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ۱۷*  پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو۔ اور اس خیال سے کہ وہ بڑے ہو جائیں  گے ان کا مال اسراف کر کے جلدی جلدی کھا نہ  جاؤ جو غنی ہو اس کو چاہئیے کہ پرہیز کرے اور جو حاجت مند ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۱۸*  پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنا لو اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردوں  کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو اور عورتوں  کے لئے بھی اس مال میں  حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا ہو خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ۔ یہ حصہ مقرر ہے۱۹*۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تقسیم کے وقت قرابت دار، یتیم اور مسکین آ موجود ہوں تو ان کو بھی اس میں  سے کچھ دو اور ان سے بھلی بات کہو۲۰*۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں  کو ڈرنا چاہئیے کہ اگر وہ  اپنے پیچھے ناتواں  بچے چھوڑ جاتے تو ان کے معاملہ میں  انہیں  کیسا کچھ اندیشہ ہوتا ۲۱* لہٰذا انہیں چاہئیے کہ اللہ سے ڈریں  اور درست بات کہیں۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ یتیموں  کا مال ظلماً کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹ میں  آگ بھر تے ہیں  عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں  داخل ہوں  گے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں  تمہیں  وصیت کرتا۲۲*  (حکم دیتا) ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں  کے برابر ۲۳* ہے۔ اگر صرف لڑکیاں  ہوں، دو سے زیادہ تو ترکہ میں  ان کا حصہ دو تہائی ہو گا۲۴*  اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اسے نصف (ترکہ) ملے گا۲۵*  اور میت کے والدین میں  سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۲۶*۔ اگر میت کے اولاد نہ ہوں  اور صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں  تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا۲۷*  اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں  تو اس کی ماں  کو چھٹا حصہ ملے گا۲۸*۔ یہ حصے میت نے جو وصیت۲۹*  کی ہو اس کی تعمیل اور جو قرض ۳۰* چھوڑا ہو اس کی ادائے گی کے بعد تقسیم کئے جائیں۔ تم اپنے باپ اور بیٹوں  کے بارے  میں  نہیں  جانتے کہ مفاد کے لحاظ سے، کون تم سے قریب تر  ۳۱* ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ یقین جانو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی  ۳۲*۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری بیویوں  کے ترکہ میں  تمہارا (شوہر کا) نصف حصہ ہے بشرطیکہ ان کے اولاد نہ ہو۔ اگر ان کے اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں  تمہارا حصہ ایک چوتھائی ہو گا  اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو انہوں  نے کی ہو، اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو انہوں  نے چھوڑا ہو اور ان کے لئے (یعنی بیویوں  کے لئے) تمہارے ترکہ میں  چوتھائی حصہ ہے۔ بشرطیکہ تمہارے اولاد نہ ہو۔ اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا ۳۳*۔ اس وصیت کی تعمیل کے بعد، جو تم کر جاؤ اور اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے کلالہ ہو (یعنی نہ اس کے اولاد ہو اور نہ ہی والد ہی زندہ ہو) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو ان میں  سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہوں  تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں  گے ۳۴*  اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو کی گئی ہو یا اس قرض کی ادائے گی کے بعد جو میت نے چھوڑا ہو بشرطیکہ وہ ضرر رساں  نہ ہو ۳۵*۔ یہ وصیت حکم) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم والا بھی ہے اور بہت بردبار بھی  ۳۶*۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں  ہیں  ۳۷*  اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں  گے انہیں  وہ ایسے باغوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  رواں  ہوں  گی وہ ان میں  ہمیشہ رہیں  گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے (مقرر کردہ) حدود سے تجاوز کرے گا، اسے وہ آگ میں  ڈالے گا جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا اور اس  کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۳۸*۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عورتوں  میں  سے جو بد کاری کی مرتکب  ۳۹* ہوں  ان پر اپنے میں  سے چار آدمیوں  کی گواہی لو ۴۰*  اگر وہ گواہی دیں  تو ان عورتوں  کو گھروں  میں  روکے رکھو  ۴۱* یہاں  تک کہ موت ان کا وقت پورا کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی راہ نکال دے  ۴۲*۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں  سے جو (مرد عورت) اس فعل کا ارتکاب کریں  ان دونوں  کو اذیت پہنچاؤ ۴۳* ، پھر اگر وہ توبہ کریں  اور اپنی اصلاح کر لیں  تو ان سے درگزر کرو  ۴۴* کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پر توبہ قبول کرنے کا حق تو انہی لوگوں  کے لئے ہے جو نادانی میں  کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں  پھر جلد ہی توبہ کر لیتے  ۴۵* ہیں  ایسے ہی لوگوں  کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں  کی توبہ توبہ نہیں  ہے جو برے کام کرتے رہتے ہیں  یہاں  تک کہ جب ان میں  سے کسی کی موت آ کھڑی ہوتی ہے تو کہنے لگتے ہیں  اب میں  نے توبہ  کی اور نہ ان لوگوں  کی توبہ حقیقت میں  توبہ ہے جو کفر کی حالت میں  مر جاتے ہیں ۴۶*   ایسے لوگوں  کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !تمہارے لئے یہ جائز نہیں  کہ تم زبردستی عورتوں  کے وارث بن جاؤ ۴۷* اور نہ یہ جائز ہے کہ جو کچھ تم انہیں  دے چکے ہو اس میں  سے کچھ واپس لینے کی غرض سے انہیں  تنگ کرنے لگو الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں ۴۸*   ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اگر وہ تمہیں  نا پسند ہوں  تو عجب نہیں  کہ ایک چیز تمہیں  پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں  (تمہارے لئے) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو  ۴۹*۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ایک  بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہو اور تم نے ایک بیوی کو ڈھیروں  مال بھی دے رکھا ہو تو اس میں  سے کچھ بھی واپس نہ لو  ۵۰* کیا اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے ؟

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اسے کس طرح واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے زن و شوئی کا تعلق قائم کر چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں  ۵۱* ؟

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان عورتوں  سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں  ۵۲* مگر جو کچھ اس سے پہلے ہو چکا سو ہو چکا ۵۳*۔ یہ بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات ہے اور نہایت برا چلن ہے۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پر حرام کی گئیں ۵۴*  تمہاری مائیں ۵۵* ، بیٹیاں ۵۶* ، بہنیں ۵۷* ، پھوپھیاں ، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں  جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو۵۸* ، تمہاری رضاعی بہنیں،  تمہاری بیویوں  کی مائیں، تمہاری بیویوں  کی بیٹیاں  جن سے تم نے مباشرت کی ہو لیکن جن بیویوں  سے تم نے مباشرت نہ کی ہو، ان کی بیٹیوں  سے نکاح کرنے میں  تم پر کوئی حرج نہیں ۵۹*   اور (حرام کی گئیں  تم پر) تمہارے صلبی بیٹوں  کی بیویاں  ۶۰* ، نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں  کو ایک ساتھ جمع کرو۶۱*  مگر جو پہلے ہو چکا۶۲*۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ عورتیں  بھی حرام ہیں جو دوسروں  کے نکاح میں  ہوں  ۶۳* سوائے ان کے جو (جنگ میں) تمہارے ہاتھ آ گئی ہوں  ۶۴* یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم ہے ۶۵* ان عورتوں  کے علاوہ اور عورتیں  تمہارے لئے حلال ہیں  بشرطیکہ اپنے مال کے ذریعہ انہیں  قید نکاح ۶۶* میں  لانا مقصود ہو نہ  کہ شہوت رانی کرنا۔ پھر جن عورتوں  سے تم (ازدواجی زندگی کا) فائدہ اٹھاؤ ان کو ان کے مہر فریضہ کے طور پر ادا کرو، مہر مقرر کرنے کے بعد اگر آپس کی رضامندی سے (کمی بیشی کی) کوئی بات طے ہو جائے تو اس میں  کوئی حرج نہیں ۶۷*  یقیناً اللہ علیم و حکیم ہے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص تم میں  سے آزاد مومن عورتوں  سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو وہ ان لونڈیوں  میں  سے کسی کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے جو تمہارے قبضہ میں  آ گئی ہوں، اور مؤمنہ ہوں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بخوبی جانتا ہے۶۸*۔ تم سب ایک ہی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہو ۶۹*۔ لہٰذا ایسی عورتوں  سے ان کے مالکوں  کی اجازت سے نکاح کر لو اور معروف کے مطابق ان کے مہر ان کو ادا کرو۷۰*۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان کو قید نکاح میں  رکھا جائے نہ تو وہ شہوت رانی کرنے والی ہوں  اور نہ چوری چھپے آشنائیاں  کرنے والی۔ اگر قید نکاح میں  آنے کے بعد وہ بدکاری کی مرتکب ہوں  تو جو سزا آزاد عورتوں  کے لئے ہے اس کی نصف سزا ان کے لئے ہو گی ۷۱* (لونڈیوں  سے نکاح کی) یہ رخصت ان لوگوں  کے لئے ہے جن کے گناہ میں  مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۷۲*  اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنے احکام واضح کرے اور تمہیں  ان لوگوں  کے طریقوں  کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں  ۷۳* نیز وہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہو اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن جو لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے ہیں  وہ چاہتے ہیں  کہ تم راہ راست سے بھٹک کر دور جا پڑو۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کر دے اور (واقعہ یہ ہے کہ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۷۴*۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !آپس میں  ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۷۵*  البتہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو سکتا ہے۷۶*  اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۷۷*  اللہ تم پر بڑا مہربان ہے ۷۸*۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا ہم  اسے ضرور آگ میں  جھونک دیں  گے اور یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں  ۷۹* سے جن سے تمہیں  روکا جار ہا ہے بچتے رہے تو ہم تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں  کو دور کریں  گے اور تمہیں  با عزت جگہ داخل کریں  گے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جس چیز میں  ایک کو دوسرے پر فوقیت بخشی ہے اس کی تمنا نہ کرو۸۰* ، مردوں  کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق (نتائج میں) حصہ ہے اور عورتوں  کے لئے ان کی اپنی کمائی کے مطابق حصہ۔ البتہ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ یقیناً اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے والدین اور اقرباء میں  سے ہر ایک کے ترکہ میں  وارث مقرر کئے ہیں ۸۱* ۔ رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہیں  تو ان کو ان کا حصہ دو ۸۲*۔ یقین جانو اللہ ہر چیز پر نگران ہے۸۳*۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد عورتوں  کے سربراہ ہیں  ۸۴*۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے نیز اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں  تو جو نیک عورتیں  ہیں  وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں ۸۵*    اور اللہ کی حفاظت میں  راز کی باتوں  کی حفاظت کرتی ہیں  ۸۶*  اور جن عورتوں  سے تمہیں  سرتابی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ، خوابگاہ میں  انہیں  تنہا چھوڑ دو اور انہیں  زود و کوب بھی کر سکتے ہو۸۷*   پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں  تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں  میاں  بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے متعلقین  میں سے اور ایک حکم عورت کے متعلقین میں  سے مقرر کرو۸۸*  اگر دونوں  صلح کرا دینا چاہیں  گے تو اللہ دونوں  (زوجین) کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو۸۹*   اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۹۰*۔ نیز قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، رشتہ دار ہمسایہ۹۱* ، اجنبی ہمسایہ، ہم نشین۹۲* ، مسافر اور لونڈی غلاموں ۹۳*   کے ساتھ جو تمہارے قبضہ  میں  ہوں  حسن سلوک کرو۔ اللہ اترانے والے اور فخر کرنے والے لوگوں  کو پسند نہیں  کرتا۹۴*۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خود بھی بخل کرتے ہیں  اور لوگوں  کو بھی بخل کرنے کے لئے کہتے ہیں  اور اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں  ایسے ناشکری کرنے والوں  کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنا مال لوگوں  کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں  اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں  اور نہ یومِ آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو ا تو کیا ہی برا ساتھی ہے یہ !

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا کیا بگڑتا اگر وہ اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے اور اللہ کے بخشے ہوئے مال میں  سے خرچ کرتے ؟ اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ذرہ برابر کسی کی حق تلفی نہیں  کرے گا اگر ایک نیکی ہو گی تو وہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۹۵*۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن (ان کا) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں  سے ایک گواہ لائیں  گے اور تمہیں  ان لوگوں  پر گواہ بنا کر کھڑا کریں  گے ۹۶*۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ لوگ جنہوں  نے کفر کیا تھا اور رسول کی نافرمانی کی تھی تمنا کریں  گے کہ کاش ان کے سمیت زمین برابر کر دی جاتی وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں  گے

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !نشہ کی حالت۹۷*  میں  نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ یہ نہ جانو۹۸*  کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت ۹۹* کی حالت میں  بھی نماز کے قریب  نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو الا یہ کہ رہ گزر میں  ہو۱۰۰*  اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں  ہو یا تم میں  سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں  کو چھوا ہو۱۰۱* (مباشرت کی ہو) اور پانی میسر نہ آئے تو پاک زمین  سے کام لو۔ اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں  پر مسح کر لو۱۰۲*۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے۱۰۳*۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے۱۰۴*  ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جنہیں  کتاب کا ایک حصہ۱۰۵*  دیا گیا ہے وہ گمراہی مول لے رہے ہیں  وہ چاہتے ہیں  کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے دشمنوں  کو اچھی طرح جانتا ہے اور اللہ رفاقت کے لئے بھی کافی ہے اور اللہ مدد کے لئے بھی کافی ہے۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود میں کچھ لوگ ایسے ہیں  جو بات کو اس کی اصل جگہ سے پھیر دیتے ہیں  اور دین پر طعن۱۰۶*  کرنے کی غرض سے زبان کو تو ڑ مروڑ کر کہتے ہیں  سمعنا و عصینا (ہم نے سنا اور خلاف ورزی کی)   اسمع غیر مسمع (سنئے اور نہ سن سکو) اور راعنا (اے ہمارے چروا ہے) ۱۰۷*  اگر وہ  سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور اطاعت کی) اور  اسمع (سنئے) اور  انظرنا (ہماری طرف توجہ فرمائیے) کہتے تو ان کے حق میں  بہتر ہوتا، اور یہ بات بھی بالکل درست ہوتی لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے۱۰۸*  اس لئے وہ کم ہی ایمان رکھتے ہیں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وہ لوگو  جنہیں  کتاب دی گئی !ایمان لاؤ اس (کتاب) پر جو ہم نے نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس موجود ہے قبل اس کے کہ ہم چہروں  کو مسخ کر کے پیچھے پھیر دیں ۱۰۹*   یا ان پر بھی اسی طرح لعنت کریں  جس طرح سبت والوں  ۱۱۰* پر لعنت کی تھی اور اللہ کی بات تو پوری ہو کر رہتی ہے۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ شرک۱۱۱*  کو کبھی نہیں  بخشے گا اس کے سوا دوسرے گناہوں  کو جس کے لئے چاہے گا معاف کر دے گا۱۱۲*  اور جو کوئی اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۱۱۳*۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جو اپنے کو پاکیزہ ٹھہراتے ہیں ۱۱۴*  حالانکہ پاکیزگی اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں  کی جائے گی۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ لوگ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں  اور ان کے صریح گناہ گار ہونے کے لئے یہ ایک گناہ ہی کافی ہے۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جنہیں  کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا یہ جبت۱۱۵*  (اوہام و خرافات) اور طاغوت ۱۱۶* پر اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں   کے متعلق کہتے ہیں  کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابلہ میں  زیادہ  صحیح راستہ پر ہیں  ۱۱۷*۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے ان کا تم کوئی مدد گار نہ پاؤ گے۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے قبضہ میں  سلطنت کا کوئی حصہ آ گیا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں  ۱۱۸* کو رتی برابر بھی نہ دیتے۱۱۹*۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر یہ لوگوں  سے اس بنا پر حسد کر رہے ہیں  کہ اللہ نے انہیں  اپنے فضل سے نوازا ہے۱۲۰*  اگر یہ بات ہے تو (انہیں  اس بات کو  بھولنا نہیں  چاہئیے کہ) ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نوازا تھا اور عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۱۲۱*۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان میں  سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کسی نے رو گردانی کی اور (رو گردانی کرنے والوں  کے لئے) جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں  نے ہماری آیتوں  کا انکار کیا ان کو ہم آگ میں  جھونک دیں  گے اور جب کبھی ایسا ہو گا کہ ان کے بدن کی کھال پک جائے گی ہم اس کی جگہ دوسری کھال پید ا کر دیں  گے تاکہ وہ (اچھی طرح) عذاب کا مزہ چکھیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زبردست قدرت والا ہے اور حکیم بھی ۱۲۲*۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کو ہم ایسے باغوں  میں  داخل کرینگے جس کے نیچے نہریں  بہتی ہوں گی وہ اس میں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے ان کے لئے وہاں  پاکیزہ بیویاں  ہونگی نیز انہیں  ہم گھنی چھاؤ ں  میں  داخل کریں  گے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں  حکم دیتا ہے کہ امانتوں  ۱۲۳*  کو ان کے حقداروں  کے حوالہ کرو اور جب لوگوں  کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۱۲۴*   اللہ تمہیں  بہترین باتوں کی نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں  کی جو تم میں  سے صاحب امر۱۲۵*   (صاحب اختیار) ہوں  پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں  نزاع پیدا ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۱۲۶*   اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو یہ طریقہ باعث خیر بھی ہے اور بہتر نتیجہ کا موجب بھی ۱۲۷*۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کتاب تم پر ناز ل کی گئی ہے اس پر نیز تم سے پہلے ناز ل کی گئی تھی اس پر بھی وہ ایمان رکھتے ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لئے طاغوت۱۲۸*   (سرکشوں) کے پاس لے جائیں  حالانکہ انہیں  اس سے انکار کا حکم دیا گیا تھا اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر بہت دور لے جائے۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (حکم) کی طرف جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تم سے کترانے لگتے ہیں ۱۲۹*۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس وقت ان کا کیا حال ہو گا جب کہ ان کی ان حرکتوں  کی وجہ سے ان پر مصیبت آ پڑے گی ؟ اس وقت وہ تمہارے پاس اللہ کی قسمیں  کھاتے ہوئے آئیں گے کہ ہم تو بھلائی چاہتے تھے اور ہمارا مقصد تو (دونوں  کے درمیان) موافقت پیدا کرنا تھا۱۳۰*۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں  کے دلوں  میں  جو کچھ ہے اسے اللہ جانتا ہے تو ان سے صرف نظر کرو اور انہیں  نصیحت کرو اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں  میں  اتر جانے والی ہو ۱۳۱*۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو رسول بھی بھیجا اسی لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۱۳۲*   اور یہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہاری خدمت میں  حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی دعا کرتا  ۱۳۳*  تو یقیناً وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا پاتے۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہیں (اے پیغمبر !) تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں  ہو سکتے جب تک کہ یہ اپنے نزاعی معاملات  میں  تمہیں  فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں  پھر جو فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں  میں  بھی تنگی محسوس  نہ کریں  بلکہ اسے سر آنکھوں  سے تسلیم کر لیں   ۱۳۴*۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم نے انہیں  حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں  سے نکل کھڑے ہو تو ان میں  سے چند  کے سوا کو ئی بھی اس کی تعمیل نہ کرتا ۱۳۵*  حالانکہ جس بات کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ بات ان کے حق میں  بہتر ی کا باعث اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتی۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس صورت میں  ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں  سیدھے راستہ پر چلاتے ۱۳۶*۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں  گے وہ ان لوگوں  کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ۱۳۷*   یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے رفیق ہیں  یہ   ۱۳۸*  !

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے ہتھیار سنبھالو اور جہاد کے لئے نکلو الگ الگ دستوں  کی شکل میں  یا اکٹھے ہو کر  ۱۳۹*۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں  کوئی تو ایسا ہے جو ٹال مٹول کرتا ہے اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں  ان لوگوں  کے ساتھ شریک نہ ہوا۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہوتا ہے تو گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تعلق ہے ہی نہیں  کہنے لگتا ہے کہ کاش میں  بھی ان کے ساتھ ہوتا کہ مجھے بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی  ۱۴۰*۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اللہ کی راہ میں  ان لوگوں  کو جنگ کرنی چاہئیے ج دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے فروخت کر دیں ۱۴۱*   اور جو شخص اللہ کی راہ میں  جنگ کرے گا پھر وہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اسے ضرور اجر عظیم عطا کریں  گے۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہیں  کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں  جنگ نہیں  کرتے ان بے بس مرد، عورتوں  اور بچوں  کی خاطر فریاد کر رہے ہیں  کہ اے ہمارے رب ہمیں  اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ۱۴۲*   اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنے پاس سے ہمارا کوئی مدد گار کھڑا کر۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں  وہ اللہ کی راہ میں  لڑتے ہیں  اور جو کافر ہیں  وہ طاغوت کی راہ میں  لڑتے ہیں ۱۴۳*   تو تم شیطان کے ساتھیوں  سے لڑو۔ یقین جانو شیطان کی چال بالکل بودی ہوتی ہے۱۴۴*۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ان لوگوں  کو نہیں  دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو ۱۴۵*۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کر دی گئی تو ان میں  سے ایک گروہ لوگوں  سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے کوئی اللہ سے ڈر رہا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۱۴۶*۔ وہ کہتے ہیں  اے ہمارے رب !تو نے ہم پر جنگ کیوں  فرض کی۔ ہمیں  کچھ اور مہلت کیوں  نہ دی کہو دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں  کے لئے آخرت کہیں  بہتر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی ناانصافی نہیں  کی جائے گی ۱۴۷*۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جہاں  کہیں  ہو موت تم کو پالے گی خواہ تم مضبوط قلعوں  ہی میں  کیوں  نہ ہو۱۴۸*  اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں  یہ تمہاری وجہ سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں  کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھ نہیں   پاتے۱۴۹*۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (در حقیقت) تمہیں  جو فائدہ بھی پہنچتا ہے اللہ ہی کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو نقصان پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کے بہ سبب  پہنچتا ہے۱۵۰*  اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں  لوگوں  کے لئے رسو ل بنا کر بھیجا ہے اور اس پر اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۱۵۱*۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۱۵۲*  اور جو رو گردانی کرتا ہے تو ہم نے تم کو ایسے لوگوں  پر پاسبان بنا کر نہیں  بھیجا ہے ۱۵۳*۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ (زبان سے تو) کہتے ہیں  ہم نے اطاعت قبول کی لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں  تو ان میں  سے ایک گروہ تمہاری باتوں  کے خلاف رات کو مشورے کرنے لگتا ہے ۱۵۴* اللہ ان کی یہ سرگوشیاں  لکھ رہا ہے تو ان کی باتوں  پر دھیان نہ دو اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں  کرتے۔ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں  بہ کثرت اختلاف پاتے۱۵۵*۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب  ان کے پاس امن یا خطرہ کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں  اگر یہ اسے رسول کے سامنے اور اصحاب امر (حکم و اختیار والے) کے سامنے پیش کرتے تو جو لو گ ان میں  سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں  وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۱۵۶*  اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے چل پڑتے۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (اے پیغمبر !) اللہ کی راہ میں  جنگ کرو۔ تم پر اپنے نفس کے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں  اور مؤمنوں  کو (جنگ کی) ترغیب دو۔ عجب نہیں  کہ اللہ کافروں  کا زور توڑ دے۔ اللہ بڑا زور آور ہے اور سزا دینے میں  بھی بہت سخت ہے۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اچھی بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں  سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گا وہ اس میں  سے حصہ پائیگا۱۵۷*  اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب کوئی تمہیں  دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے تو تم بھی اس کے جو اب میں  بہتر کلمات کہو یا کم از کم ان ہی کلمات کو لوٹاؤ۱۵۸*  اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں  قیامت کے دن جس کے آنے میں  کوئی شبہ نہیں۔ ضرور تمہیں  جمع کرے گا اور کون ہے جس کی بات اللہ سے زیادہ سچی ہو؟

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہے کہ تم منافقین کے بارے میں  دو گروہ  بن گئے۱۵۹*  ہو حالانکہ اللہ نے انہیں  ان کے کرتوتوں  کی وجہ سے الٹا پھیر دیا ہے۱۶۰*  کیا تم ایسے لوگوں  کو ہدایت دینا چاہتے ہو، جن کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے (یاد رکھو) جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو چاہتے ہیں  کہ جس طرح وہ کافر ہوئے ہیں  اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ۱۶۱*   تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ لہٰذا ان میں  سے کسی کو تم اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں  ہجرت نہ کریں  ۱۶۲*  اور اگر وہ اس سے اعراض کریں  تو انہیں جہاں  کہیں  پاؤ پکڑو اور قتل کرو  ۱۶۳*  اور ان میں  سے کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ بناؤ۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کے جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں  جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اس سے مستثنیٰ ہیں  جو تمہارے پاس اس حال میں  آئیں  کہ لڑائی سے دل برداشتہ ہوں  نہ تم سے لڑنا چاہیں  اور نہ اپنی قوم سے۱۶۴*۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے۱۶۵*۔ لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں  اور تم سے جنگ نہ کریں  اور تمہاری طرف صلح و آشتی کے لئے بڑھیں  تو اللہ نے تمہارے لئے ان کے خلاف اقدام کرنے کی کوئی سبیل نہیں  رکھی ہے۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تمہیں  ملیں گے جو چاہتے ہیں  کہ تم سے بھی بچ کر رہیں  اور اپنی قوم سے بھی (لیکن ان کا حال یہ ہے کہ) جب کبھی فتنہ۱۶۶*   کی طرف پھیر دئیے جائیں  اس میں  گر پڑیں۔ اگر یہ تم سے کنارہ کش نہ رہیں  اور تمہاری طرف صلح کے لئے ہاتھ نہ بڑھائیں  اور جنگ سے اپنے ہاتھ نہ روکیں  تو انہیں  جہاں  کہیں  پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔ ان لوگوں  کے خلاف ہم نے تمہیں  کھلا اختیار دے دیا ہے ۱۶۷*۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی مومن کا یہ کام نہیں  کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جس شخص نے کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو اسے چاہئیے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے۱۶۸*   اور مقتول کے وارثوں  کو خون بہا دے ۱۶۹*  الا یہ کہ وہ (خون بہا) معاف کر دیں  لیکن اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور وہ خود مومن ہو تو ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرنا ہو گا اور اگر وہ کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں  کو خون بہا بھی دینا ہو گا اور ایک مومن کو بھی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا ۱۷۰*  جسے یہ میسر نہ ہو وہ دو ماہ تک متواتر روزے رکھے۱۷۱*   توبہ کا یہ طریقہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے۱۷۲*  اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس شخص نے کسی مومن کو قصداً قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جہاں  وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے اس نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۱۷۳*۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے محض اس بنا پر کہ دنیوی زندگی کا فائدہ مطلوب ہے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں  ہے۱۷۴*  (تمہیں  معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس بہ کثرت اموال غنیمت ہیں۔ تمہارا حال بھی تو پہلے ایسا ہی تھا لیکن اللہ نے تم پر فضل فرمایا ۱۷۵*۔ لہٰذا تحقیق کر لیا کرو تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مومنوں  میں  بلا عذر بیٹھ رہنے والے اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرنے والے برابر نہیں  ہیں  اللہ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں  کو بیٹھ رہنے والوں  پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت بخشی ہے اور دونوں  ہی سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۱۷۶*  مگر مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں  کے مقابلہ میں  اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی طرف سے درجے ہیں  اور مغفرت و رحمت اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم ڈھایا ہے ان کی جان جب فرشتے قبض کرتے ہیں  تو ان سے پوچھتے ہیں  کہ تم کس حال میں  تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں  کہ ہم تو اس ملک  میں  بالکل بے بس تھے۔ وہ کہتے ہیں  کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ اس میں  ہجرت کر جاتے ؟ ایسے لوگوں  کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۱۷۷*۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ وہ بے بس مرد، عورتیں اور بچے جو نہ تو کوئی تدبیر کر سکتے ہیں اور نہ (ہجرت کی کوئی) راہ پاتے ہیں۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں  کو امید ہے کہ اللہ معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا بخشنے والا ہے۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کی راہ میں  ہجرت کرے گا وہ زمین میں  بہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۱۷۸*  اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۱۷۹*۔ اللہ بہت بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم سفر میں  نکلو تو نماز  میں  قصر کرنے میں  تم پر کوئی گناہ نہیں  اگر تمہیں  اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں  تکلیف دیں  گے ۱۸۰* کافر تو ہیں  ہی تمہارے کھلے دشمن

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم (اے پیغمبر !) ان (مسلمانوں) کے درمیان موجود ہو اور نماز میں  ان کی امامت کر رہے ہو تو چاہئے کہ ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو جائے اور اپنے ہتھیار لئے رہے جب وہ سجدہ کر چکے تو وہ تمہارے پیچھے چلا جائے اور دوسرا گروہ جس نے  ابھی نماز نہیں  پڑھی ہے تمہارے ساتھ نماز میں  شریک ہو جائے اور چاہئے کہ وہ اپنی حفاظت کا سامان اور اپنے اسلحہ لئے ہوئے ہو  ۱۸۱*۔ کافر چاہتے ہیں  کہ تم اپنے اسلحہ اور سامان (جنگ) سے ذرا بھی غافل ہو تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں۔ البتہ اگر بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں  اگر تم اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو پھر بھی اپنی حفاظت کے سامان لئے رہو ۱۸۲*۔ یقین جانو اللہ نے کافروں  کے لئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ۱۸۳*  اور جب اطمینان کی حالت میسر آ جائے تو پوری نماز قائم کرو  ۱۸۴* بیشک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کر دی گئی ہے  ۱۸۵*۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دشمنوں  کے تعاقب میں  کمزوری نہ دکھاؤ۔ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو وہ بھی تمہاری ہی طرح تکلیف اٹھا رہے ہیں  اور تم اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو ۱۸۶*  جس چیز کی امید وہ نہیں  رکھتے۔ اللہ علم والا بھی ہے اور حکمت والا بھی۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ ناز ل کی ہے تاکہ جو حق اللہ نے تمہیں  دکھایا ہے اس کے مطابق لوگوں  کے درمیان فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں  کے حمایتی نہ بنو  ۱۸۷*۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ سے مغفرت مانگو بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں  کی وکالت نہ کرو جو اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں  اللہ ایسے لوگوں  کو پسند نہیں  کرتا جو بد دیانت اور معصیت کیش ہوں۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگوں  سے چھپتے ہیں  لیکن اللہ سے نہیں  چھپ سکتے۔ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ وہ رات کو اس کی مرضی کے خلاف مشورے کر رہے ہوتے ہیں  ۱۸۸*  وہ جو کچھ کرتے ہیں  اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ تم ہو کہ دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑا کر لیا لیکن قیامت کے دن کون ہو گا جو ان کی طرف سے اللہ سے جھگڑا کرے گا یا کو ن ان کا ذمہ دار بنے گا ۱۸۹*  ؟

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہو یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور پھر اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا ۱۹۰*۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص بھی برائی کماتا ہے اس کی کمائی کا وبال اسی پر ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکمت رکھنے والا ہے۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس شخص نے کسی گناہ  یا جرم کا ارتکاب کر کے اس کا الزام کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیا  ۱۹۱*۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تی تو ان میں  سے ایک گروہ نے تمہیں  غلط راستہ پر ڈال دینے کا قصد کر ہی لیا تھا حالانکہ یہ اپنے ہی کو غلط راستہ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ تمہارا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے۔ اللہ نے تم پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں  وہ کچھ سکھایا ہے جو تمہیں  معلوم نہ تھا اللہ کا تم پر بہت بڑا فضل ہے۱۹۲*۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی اکثر سرگوشیوں  میں  کوئی بھلائی نہیں  ہوتی۱۹۳*۔ ہاں  جو شخص پوشیدگی  میں  صدقہ یا بھلی بات یا لوگوں  کے درمیان صلح و صفائی کے لئے کہے تو اس میں  ضرور بھلائی ہے۱۹۴*۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لئے ایسے کام کرے گا اسے ہم اجر عظیم سے نوازیں  گے۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنین کی راہ کو چھوڑ کر۱۹۵*  کسی اور راہ کو اختیار کرے گا ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں  گے جس کی طرف وہ پھر ا اور اسے جہنم میں  داخل کرینگے جو بہت بری جگہ ہے۔

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اس بات کو ہر گز نہیں  بخشے گا کہ اس کا شریک۱۹۶*  ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جو گناہ ہیں  وہ جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا۱۹۷*  اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ بھٹک کر بہت دور جا پڑا۔

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اس کو چھوڑ کر دیویوں  کو پکارتے ہیں  ۱۹۸* اور (حقیقت یہ ہے کہ) یہ شیطان سرکش ہی کو پکارتے ہیں ۱۹۹*۔

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اس پر لعنت فرمائی ہے۲۰۰*  اس نے (اللہ سے) کہا تھا کہ میں  تیرے بندوں  میں  سے ایک مقر رہ حصہ لے کر رہوں ۲۰۱*   گا۔

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں  ضرور ان کو بہکاؤں  گا، ان کو امیدیں  ۲۰۲* دلاؤں  گا، انہیں حکم دوں  گا تو وہ جانوروں  کے کان چیریں  گے۲۰۳*  اور انہیں  حکم دوں  گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی، ساخت میں  تبدیلی کریں  گے۲۰۴*  اور جس نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا لیا وہ صریح تباہی میں  پڑ گیا۔

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان سے وعدے کرتا اور امیدیں  دلاتا ہے اور شیطان کے وعدے تو سراسر فریب ہیں۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں  کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ اس سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ پائیں  گے۔

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ہم ایسے باغوں  میں  داخل کریں  گے جس کے نیچے نہریں  رواں  ہونگی وہ وہاں  ہمیشہ رہیں  گے۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بڑھ کر کو ن اپنی بات میں  سچا ہو سکتا ہے۔

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (نجات) نہ تمہاری آرزوؤں  پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو کوئی برائے کرے گا اس کا بدلہ پائے گا ۲۰۵* اور پھر اللہ کے مقابلہ میں  نہ اسے کوئی حامی ملے گا اور نہ مددگار۔

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مؤمن  تو ایسے لوگ جنت میں  داخل ہوں  گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہو گی۔

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دین کے معاملہ میں  اس سے بہتر اور کون  ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو اللہ کے حوالہ کر دیا اور وہ نیکو کار بھی ہے اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی جو راست رو تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا مخلص دوست۲۰۶*  بنا لیا تھا۔

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۲۰۷*۔

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ تم سے عورتوں  کے بارے میں  فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۰۸*   کہو اللہ تمہیں  ان کے بارے میں  فتویٰ دیتا ہے نیز (ان احکام کی یاد دہانی کراتا ہے) جو تمہیں  کتاب میں  یتیم لڑکیوں  کے بارے میں  سنائے جا رہے ہیں  ۲۰۹* وہ یتیم لڑکیاں  جنہیں  تم ان کا مقر رہ حق نہیں  دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو ۲۱۰* اسی طرح بے سہارا بچوں  کے بارے میں جو احکام دئیے گئے ہیں  ۲۱۱* (ان کی بھی یاد دہانی کراتا ہے) نیز اس حکم کی بھی کہ یتیموں  کے ساتھ انصاف کرو ۲۱۲* اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو اس بات میں  کوئی حرج نہیں  کہ دونوں  باہم صلح کر لیں  اور صلح کرنا ہی بہتر ہے ۲۱۳*۔ طبیعتیں  تنگ دلی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں ۲۱۴*  لیکن اگر تم اچھا سلوک ۲۱۵* کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقین جانو تم جو کچھ کرو گے اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم عورتوں  کے درمیان عدل کرنا چاہو بھی تو پورا پورا عدل نہیں کر سکتے۔ مگر ایسا بھی نہیں  ہونا چاہئیے کہ ایک ہی کی طرف جھک پڑو اور دوسری کو اس طرح چھوڑ دو کہ گویا وہ معلق ہے اور اگر تم معاملہ درست رکھو  اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۲۱۶*۔

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر دونوں  ایک دوسرے سے الگ ہو ہی جائیں  تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو (دوسرے سے) بے نیاز کر دے گا ۲۱۷*۔ اللہ بڑی وسعت والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں  اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ملک ہیں  تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی تھی انہیں  بھی ہم نے یہ ہدایت کی تھی اور تمہیں  بھی یہ ہدایت کرتے ہیں  کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ اللہ بے نیاز اور کمالات سے متصف ہے۔

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں  اور زمین کی ساری چیزوں  کا مالک اللہ ہی ہے۲۱۸*  اور کارسازی کے لئے اللہ کافی ہے۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم کو ہٹا دے اور (تمہاری جگہ) دوسروں  کو لے آئے اللہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص دنیا کے اجر کا طالب ہو تو (اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ) اللہ کے پاس دنیا اور آخرت دونوں  کا اجر ہے۲۱۹*  اور اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے اور اللہ کی خاطر گواہی دینے والے بنو اگر چہ یہ گواہی خود اپنی ذات، تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں  کے خلاف ہی کیوں  نہ پڑتی ہو۲۲۰*۔ اگر کوئی امیر ہے یا غریب ہے تو اللہ کا حق ان پر سب سے زیادہ ہے۲۲۱*  لہٰذا خواہشات کی پیروی میں  عدل سے گریز نہ کر و اور اگر تم نے گول مول کہا یا پہلو تہی کی تو یاد رکھو اللہ تمہاری کاروائیوں  سے باخبر ہے۲۲۲*۔

 

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !ایمان لاؤ۲۲۳* اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے اور جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں  اور اس کی کتابوں  اور اس کے رسولوں  اور روز آخر سے کفر۲۲۴*  (انکار) کیا وہ بھٹک کر گمراہی میں  بہت دور نکل گیا۔

 

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں  بڑھتے چلے گئے اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا اور نہ ان کو راہ دکھائے گا۔

 

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں  کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

 

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو مؤمنوں  کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنا تے ہیں  کیا وہ ان کے پاس عزت کے خواہاں  ہیں ؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لئے ہے ۲۲۵*۔

 

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی کتاب میں  تم پر یہ ہدایت نازل کر چکا ہے۲۲۶*  کہ جن تم سنو (یا دیکھو) کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک  کہ وہ کسی اور بات میں  لگ نہ جائیں  ورنہ تم بھی ان ہی جیسے ہو جاؤ گے۲۲۷*  اللہ سب منافقوں  اور کافروں  کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔

 

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ تمہارے معاملہ میں  نتیجہ کے منتظر ہیں  اگر تمہیں  اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہیں  گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں  کا پلہ بھاری ہو جائے تو کہیں  گے کیا ہم تم پر غالب نہ آ گئے تھے ؟ پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں  سے بچا لیا تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور اللہ کافروں  کے لئے مؤمنوں  پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل نہ رکھے گا۔

 

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں  ۲۲۸* حالانکہ اللہ ہی نے انہیں  دھوکے میں  ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں  تو کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ محض لوگوں  کو دکھانے کے لئے۲۲۹*  اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۲۳۰*۔

 

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں  کے درمیان ڈانواں  ڈول ہیں  نہ ان کی طرف ہیں  اور نہ ان کی طرف  اور جسے اللہ بھٹکائے اس کے لئے تم کوئی راہ نہیں  پا سکتے ۲۳۱*۔

 

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اہل ایمان کے بجائے کافروں  کو اپنا دوست نہ بناؤ ۲۳۲*۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت قائم کر لو؟

 

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ۲۳۳*   میں  ہوں  گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔

 

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ توبہ کریں  اور اپنی اصلاح کر لیں  اور اللہ سے اپنا تعلق استوار کریں  اور اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر دیں ۲۳۴*   ایسے لوگ ضرور مؤمنین کے ساتھ ہونگے اور اللہ مؤمنوں  کو ضرور اجر عظیم عطاء فرمائے گا۔

 

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم شکر کرو۲۳۵*   اور ایمان لاؤ تو اللہ کو تمہیں  عذاب دے کر کیا کرنا ہے ؟ اللہ بڑا قدردان۲۳۶*   ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

 

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو یہ بات پسند نہیں  کہ (تم کسی کی) برائی کے لئے زبان کھولو الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہو ا ہو۲۳۷*   (اور وہ اس کی مذمت کرے) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۲۳۸*۔

 

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم بھلائی کی کوئی بات ظاہر طور پر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی برائی سے درگزر کرو تو (دیکھو) اللہ معاف کرنے والا ہے (جبکہ وہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے ۲۳۹*  

 

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں  سے کفر کرتے ہیں  اور چاہتے ہیں  کہ اللہ اور اس کے رسولوں  کے درمیان تفریق کریں  اور کہتے ہیں  کہ ہم کسی کو مانتے ہیں اور کسی کو نہیں  مانتے اور چاہتے ہیں  کہ اس کے بین بین کو ئی راہ اختیار کریں۔

 

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں  ۲۴۰*  اور کافروں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں  پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں  کی ان کو وہ ضرور ان کا اجر دیگا۲۴۱*  اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۲۴۲*۔

 

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر !) اہل کتاب تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں  کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرا دو، وہ اس سے بھی بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں۔ انہوں  نے کہا تھا کہ اللہ کو کھلم کھلا دکھلا دو اور ان کی ظالمانہ حرکت کی وجہ سے کڑک (بجلی) نے انہیں  پکڑ لیا تھا ۲۴۳* پھر باوجودیکہ واضح نشانیاں  ان کے پاس آ چکی تھیں  انہوں  نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ۲۴۴* پھر بھی ہم نے (ان کی) اس حرکت سے در گزر کیا اور موسیٰ کو صریح حجت عطا کی۲۴۵*۔

 

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان سے عہد لینے کے لئے (کوہ) طور ان پر کھڑا کیا تھا ۲۴۶* ، اور حکم دیا تھا کہ دروازے میں  سجدے کرتے ہوئے داخل ہو۲۴۷* ، اور ہدایت کی تھی کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرو ۲۴۸* اور ہم نے ان سے شریعت کی پابندی کا پختہ عہد لیا تھا۔

 

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان کی عہد شکنی کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) ۲۴۹*  اور اس وجہ سے کہ انہوں  نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ۲۵۰* اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے نیز کہا کہ ہمارے دل بند ہیں  ۲۵۱* حالانکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں  پر مہر لگا دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

 

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ ملعون ہوئے) اس وجہ سے کہ انہوں  نے کفر کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان لگایا ۲۵۲*۔

 

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے اس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا۲۵۳*۔ حالانکہ نہ تو وہ قتل کر سکے اور نہ صلیب پر چڑھا سکے بلکہ (صورت واقعہ)  ان پر مشتبہ ہو گئی۲۵۵*۔ اور جن لوگوں  نے اس بارے میں  اختلاف  کیا ۲۵۶* وہ شک میں  پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اس (حقیقت حال) کا کوئی علم نہیں ہے۔ بلکہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں ۲۵۷*  یقیناً انہوں  ۲۵۸* نے اسے قتل نہیں  کیا۔

 

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۲۵۹*۔ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے ۲۶۰*۔

 

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اہل کتاب میں  سے ایسا کوئی  نہ ہو گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے ۲۶۱*  اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہی دے گا  ۲۶۲*۔

 

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الغرض  ۲۶۳* یہود کی ان ظالمانہ حرکتوں  کی وجہ سے ہم نے  کتنی ہی پاک چیزیں  ان پر حرام کر دی ہیں  جو (پہلے) ان کے لئے حلال تھیں  اس وجہ سے بھی کہ وہ اللہ  کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔

 

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ انہیں  اس سے منع کیا گیا تھا ۲۶۴*  اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں  کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے لگے اور جو لوگ ان میں  سے کافر ہیں  ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۲۶۵*۔

 

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ ان میں  سے وہ لوگ جو علم میں  پختہ ہیں  ۲۶۶*  اور جو ۲۶۷*  مومن ہیں  وہ اس (ہدایت) پر ایمان لاتے ہیں  جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی یہ لوگ نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے ۲۶۸*  اور اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھنے والے ہیں  ایسے لوگوں  کو ہم ضرور اجر عظیم عطا کریں  گے۔

 

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے ۲۶۹*  جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پیغمبروں  کی طرف بھیجی تھی اور ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد یعقوب۲۷۰* ، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی تھی ۲۷۱*۔ نیز ہم نے داؤد کو زبور ۲۷۲* عطا کی تھی۔

 

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان رسولوں  پر بھی وحی بھیجی جن کا حال اس سے پہلے تم سے بیان کر چکے ہیں  اور ان رسولوں  پر بھی جن کا حال ہم نے تمہیں  نہیں  سنایا ۲۷۳* اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ فی الواقع کلام کیا جاتا ہے۲۷۴*۔

 

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب رسول خوش خبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں  کے آنے کے بعد لوگوں  کے پاس اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے کوئی عذر نہ رہ جائے۲۷۵*۔ اللہ غالب بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔

 

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس کے با وجود اگر یہ جھٹلاتے ہیں  تو جھٹلائیں) مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے۲۷۶*  اور فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں  گو اللہ کی گواہی کافی ہے۔

 

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں  نے اس سے انکار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا وہ گمراہی میں  بہت دور نکل گئے۔

 

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں  نے کفر کیا اور ظلم ڈھایا اللہ انہیں  ہرگز معاف نہیں  کرے گا اور نہ انہیں  راہ دکھائے گا۔

 

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجز جہنم کی راہ کے جہاں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے اور اللہ کے لئے ایسا کرنا بالکل آسان ہے۔

 

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو !یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آ گیا ہے۔ ایمان لاؤ تمہارے حق میں  بہتر ہو گا اور اگر کفر کرتے ہو تو (یاد رکھو) جو کچھ آسمانوں  اور زمین میں  ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

 

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہل کتاب!اپنے دین میں  غلو نہ کرو ۲۷۷* اور اللہ کے بارے میں  حق کے سوا کچھ نہ کہو۲۷۸*۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اس کے سوا کچھ نہیں  کہ اللہ کے رسول  اور اس کا ایک کلمہ ہے، جس کو اللہ نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہے ۲۷۹* پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں ۲۸۰*  باز آ جاؤ یہی تمہارے حق میں  بہتر ہے۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں  ہے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو۔ آسمانوں  اور زمینوں  کی ساری چیزیں  اسی کی ہیں  اور ان کی خبر گیری کے لئے اللہ کافی ہے۲۸۱*۔

 

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح کو ہر گز اس بات سے عار نہیں  کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرب فرشتوں  کو اس سے عار ہے اور جو کوئی اس کی بندگی کو عار سمجھے گا اور تکبر کرے گا تو وہ وقت دور نہیں  جب اللہ سب کو اپنے حضور جمع کریگا۔

 

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت وہ ان لوگوں  کو جو ایمان لائے تھے اور جنہوں  نے نیک عمل کئے تھے پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا برخلاف  اس کے جنہوں  نے اس کی بندگی کو عار سمجھا تھا اور تکبر کیا تھا ان کو وہ درد ناک سزا دے گا اور وہ اللہ کے مقابلہ میں  کسی کو اپنا دوست یا مددگار نہ پائیں  گے۔

 

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح حجت آ گئی ہے۲۸۲*  اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین ۲۸۳* نازل کیا ہے۔

 

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کو مضبوط پکڑ لیں  گے انہیں  وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں  داخل کرے گا اور اپنی طرف راہ راست کی ہدایت بخشے گا۲۸۴*

 

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں ۲۸۵*   کہو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۲۸۶*  اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو۲۸۷*  تو اسے اس کے ترکہ کا نصف ملے گا اور (اگر بہن مر جائے اور بھائی زندہ ہو تو) وہ اس بہن کا وارث۲۸۸*  ہو گا بشرطیکہ اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو اگر بہنیں  دو ہوں  تو وہ اس کے تر کہ کا دو تہائی پائیں  گی۲۸۹*  اور اگر کئی بھائی بہن ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا ۲۹۰* اللہ تمہارے لئے (احکام) واضح فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ اور (یاد  رکھو) اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں جو انسانی حقوق اور جو معاشرتی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان کے لئے یہ ہدایت بمنزلۂ اساس کے ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سچی خدا خوفی انسان کے اندر انسانیت پیدا کرتی ہے اور اسے دوسرے انسانوں کے حقوق ادا کرنے اور بالخصوص کمزور طبقات کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرنے پر آمادہ کرتی ہے جو جو لوگ مذہب بیزاری کی بنا پر خدا خوفی کو بے وقعت قرار دیتے ہیں اور پھر انسانی سوسائٹی کی تعمیر کے منصوبے بناتے ہیں وہ ہوا میں قلعے تعمیر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے میں بالکل ناکام ہیں جو انسانیت کے سچے بہی خواہ، ان کے حقوق کے محافظ، اور فرض شناس ہوں بخلاف اس کے قرآن کی اس ہدایت کو جس نے بھی اپنایا یعنی خدا خوفی اپنے اندر پیدا کر لی  وہ واقعی انسانیت کا علمبردار بنا۔ قرآن نے ہر دور میں اس کی بہترین مثالیں پیش کیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے چنانچہ آج بھی انسانیت نوازی کا حقیقی وصف ان ہی لوگوں کے اندر ملے گا جنہوں نے قرآن کی اس تعلیم خدا خوفی کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم سے جو تمام انسانوں کے باپ ہیں۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حوا کی پیدائش آدم ہی سے ہوئی۔ قرآن کا یہ بیان کہ تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حوا کی پیدائش آدم سے ہوئی تھی اگر حوا کی پیدائش علیحدہ سے ہوئی ہوتی تو کہا جاتا کہ تم کو دو جان سے پیدا کیا۔ رہی حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت تو وہ نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں اس لئے ہمیں قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کرنا چاہئیے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں دو اہم حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ تمام انسانوں کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور وہی ان کا رب بھی ہے دوسرے یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک ہی شخص آدم سے ہوا ہے اس لئے تمام انسان خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کالے ہوں یا گورے اور خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوں ایک ہی باپ آدم اور ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں اس لئے ان میں انسان ہو نے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے سب یکساں احترام کے مستحق ہیں اور سب کے حقوق کا پاس و لحاظ کیا جانا چاہئیے۔

 

بنی نوع انسان کے بارے میں قرآن کی یہ اصل عظیم ذات پات کے تصور کو باطل قرار دیتی ہے۔ نیز اس مشرکانہ تصور کی بھی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ اونچی ذات دیوتاؤں کی نسل سے ہے اور نچلی ذات (شودر) راکشسوں کی نسل سے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جبکہ دوسرے سے ہمدردی، انصاف، اور ادائے گی حقوق کے لئے خدا ہی کے نام پر اپیل کرتے ہیں یہ گویا انسان کے وجدان کی پکار ہے کہ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے اور اس کی عظمت کا تصور ہی انسان کو دوسرے کے حقوق کی ادائے گی پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن وجدان کی اس پکار کی تصدیق کرتا ہے اور باہمی حقوق کی ادائے گی کے لئے خدا خوفی ہی کو بنیاد قرار دیتا ہے۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قطع رحمی سے بچنے کی ہدایت جس تاکید کے ساتھ یہاں کی گئی ہے اس سے اس کا زبردست گناہ ہونا بھی واضح ہوتا ہے اور صلۂ رحمی اور قرابت داری کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ حدیث میں نہایت مؤثر طریقہ پر صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ داری کے تعلقات کو خراب  ہونے سے روکا گیا ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : الرحم شجنۃ من الرحمن فقال اللّٰہ من وصلک وصلۃ ومن قطعک قطعتہٗ رحم رحمن سے مشتق ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ جاؤں گا " (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری)

 

لا یدخل الجنۃ قاطع رحم" قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا " (مسلم)

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم بچے سوسائٹی کا سب سے کمزور طبقہ ہیں۔ باپ کا سہارا اٹھ جانے کی وجہ سے وہ بے سہارا ہوتے ہیں اس لئے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت اولین اہمیت کے ساتھ اور بڑے تاکید ی انداز میں دی گئی ہے۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم کے مال کو الگ رکھنا ضروری ہے۔ اس میں خرد برد گناہ کبیر ہ ہے اور سرپرست کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال سے فائدہ اٹھائے۔ اگر یتیم کا مال تجارت میں لگایا گیا ہو تو اس کا فائدہ اس یتیم ہی کو پہنچانا چاہئیے۔ رہا کھانے پینے میں اشتراک تو اس کی اجازت سورہ بقرہ ۲۲۰میں دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۲۱۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیم اس نابالغ کو کہتے ہیں جس کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو لیکن شرعاً اس کا اطلاق بالغ ہونے کے بعد بھی ہوتا ہے جب تک کہ سوجھ بوجھ کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ اس آیت میں لفظ یتامیٰ استعمال ہوا ہے جو یتیم کی جمع ہے اور مذکر و مونث دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور خطاب اصلاً ان کے سرپرستوں سے ہے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یتیم لڑکیوں کے سرپرست کی حیثیت سے یہ اندیشہ محسوس کرتے ہو کہ ان سے نکاح کی صورت میں ان کے حقوق ٹھیک طور سے ادا نہ کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے بشرطیکہ وہ محرمات میں سے نہ ہوں نکاح کر لو۔

 

زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کے سرپرست ان سے خود نکاح کر لیتے اور پھر ان کے ساتھ انصاف نہ کرتے۔ چنانچہ ان کے ورثہ پر وہ خود قابض ہو جاتے اور ان کا مہر وغیرہ بھی نہ ادا کرتے اس لئے ان کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان سرپرستوں کو اس شرط کے ساتھ دی گئی کہ وہ ان کے حقوق ادا کریں اور ان کے ساتھ انصاف کریں۔

 

تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے وہ متعدد اخلاقی اور معاشرتی مصلحتوں پر مبنی ہے مثلاً بیواؤں کا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے یا بے اولا دہو نے کی صورت میں یا بیوی کے دائم المریض ہونے کی بنا پر، یا مرد کا ایک بیوی پر قانع نہ ہونے کی صورت میں دوسرا نکاح کرنا۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے وجوہ نہایت معقول ہیں اور ان مصالح کی رعایت کرتے ہوئے شریعت نے ایک سے زائد عورتوں سے نکاح کی راہ کھلی رکھی ہے تاکہ آدمی غلط اور ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بچے اور اس کی ضرورتیں جائز طریقہ سے پوری ہوں۔ زمانۂ جاہلیت میں تعدد ازواج کے لئے کوئی قید نہیں تھی لیکن قرآن نے اس آیت کے ذریعہ تعدد ازواج کو محدود کر دیا اور زیادہ سے زیادہ چار عورتوں تک نکاح کی اجازت دیدی اور وہ بھی عدل کی شرط کے ساتھ۔

 

واضح رہے کہ چار عورتوں کی حد تک نکاح کے جواز پر علماء کا اجماع ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہے کہ ایک سے زائد بیوی کی اجازت عدل کی شرط کے ساتھ مشروط ہے جو شخص اس شرط کو خاطر میں لائے بغیر ایک سے زائد نکاح کرتا ہے وہ اللہ کی اس عطا کردہ رخصت سے غلط فائدہ اٹھا تا ہے اور ایسے شخص کے لئے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

 

"من کانت لہ امر اتان یمیل لاحد اھما علی الاخریٰ جاء یوم القیامۃ یجرّ احد شقیّہ ساقطا او مائلا " جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ صرف ایک کی طرف مائل ہو کر رہ جائے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیگا کہ اس کا ایک بازو گر رہا ہو گا اور وہ اسے گھسیٹ رہا ہو گا " (اہل السنن)

 

اور عدل  سے مراد کھانے پینے، رہنے سہنے اور شب باشی وغیرہ کے معاملہ میں تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ معاملہ کرنا اور ان سب کے حقوق ادا کرنا ہے۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نزول قرآن کے زمانہ میں لونڈیوں کا وجود تھا۔ اسلام نے ایک طرف ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی نیز ان کو آزاد کرنے کے سلسلے میں کچھ ضابطے بھی بنائے اور دوسری طرف موجودہ لونڈیوں کو صنفی آوارگی سے بچانے کا بھی اہتمام کیا چنانچہ جن لوگوں کے قبضہ میں لونڈیاں تھیں ان کو ان سے تمتع کی اجازت دیدی لونڈیوں کے سلسلہ میں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ نوٹ ۶۴۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہر وہ عطیہ ہے جو شوہر بیوی کو عقد نکاح میں بندھ جانے پر دیتا ہے اس کی حیثیت لازمی عطیہ یا ہدیہ کی ہے جسے ساقط کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ہے البتہ عورت کو اختیار ہے کہ وہ نکاح کے بعد اس کا جو حصہ چاہے معاف کرے۔ اسلام میں مہر عورت کی قیمت یا نکاح کا معاوضہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک شرعی فریضہ اور پر خلوص ہدیہ ہے جس سے مقصود زوجین کے درمیان الفت و محبت کے تعلقات پیدا کرنا اور عقد نکاح کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ یا سرپرستوں کا۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے قیام معیشت کا ذریعہ بنا یا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ آدمی اس کی قدر و منزلت پہچانے اسے ضائع ہونے سے بچائے بالخصوص یتیموں کا مال جس کی تحویل میں ہو وہ اس کی حفاظت اس طرح کرے کہ گویا وہ اس کا اپنا مال ہے۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یتیم بچے ہیں اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ یتیموں کو ان کا مال حوالہ کرنے کی جو تاکید کی گئی ہے ا سکا یہ مطلب نہیں کہ مال کو نا سمجھ اور بے عقل بچوں کے حوالے کر دیا جائے بلکہ یتیم کے سرپرست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مال کو ضائع ہونے سے بچائے اور اس کی پوری پوری حفاظت کر ے۔ اس میں سے وہ یتیموں کے خورد و نوش اور لباس وغیرہ کی ضروریات پر خرچ کر سکتا ہے لیکن جب وہ بالغ ہو جائیں اور ان میں سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو جائے تو ان کا مال ان کے حوالہ کیا جائے۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکاح کی عمر سے مراد سن بلوغ کو پہنچنا ہے شرعاً اس کا اعتبار قدرتی نشوونما کے ظاہر ہو جانے پر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک شادی کی عمر کا اعتبار لڑکے یا لڑکی کے سن بلوغ کو پہنچ جانے پر ہے۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کے لئے ان کا سنِ بلوغ کو پہنچنا کا فی نہیں ہے بلکہ ان میں سوجھ بوجھ کا پایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مال کو ذمہ داری کے ساتھ خرچ کر سکیں۔ اگر کسی یتیم لڑکے یا لڑکی میں بالغ ہو جانے پر یہ اہلیت پیدا نہ ہوئی ہو تو مزید انتظار کرنا چاہئیے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی یتیم کا سرپرست محتاج ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے ان کی خدمت کے تعلق سے بقدر احتیاج لے سکتا ہے البتہ اس سلسلہ میں معقول اور مناسب طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس قانون وراثت کی تمہید ہے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے یتیموں کے بعد دوسرا کمزور طبقہ عورتوں کا ہے جس کو وراثت سے محروم کیا جاتا رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہ ہوتا تھا اور نہ بچوں کو وراثت میں شریک کیا جاتا بلکہ صرف مرد وارث قرار پاتے۔ وراثت کے سلسلہ میں ان کا یہ تصور تھا کہ جنگ کرنے کی قابلیت مردوں ہی میں ہوتی ہے اس لئے وہی وراثت کے مستحق ہیں عورت اور بچے جنگ کے اہل نہیں ہیں اس لئے وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہئیے اس باطل تصور اور ظالمانہ قانون نے بیواؤں اور یتیم بچوں اور بچیوں کو وراثت سے یکسر محروم کر دیا تھا۔ اسلام نے جاہلیت کے اس قانون Customary Law کو باطل قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مردوں کے پہلو بہ پہلو، عورتیں بھی وراثت میں شریک ہیں اسی طرح اسلام نے بچوں کو بھی وارث قرار دیا اور ان سب کے حصے مقرر کئے تاریخ میں سماج اور قانون کا اصلاح کا یہ زبردست کا کام تھا جو اسلام کے ہاتھوں انجام پا یا اور جس کے گہرے اثرات اقوام عالم کی سماجی زندگی پر مرتب ہوئے ورنہ عربوں کے علاوہ دیگر اقوام کا تصور بھی عورتوں کے بارے میں کچھ مختلف نہ تھا یہاں تک کہ غیر مہذب اقوام کے نزدیک عورت کی حیثیت بھی مال و جائیداد ہی کی تھی جس کو میراث سمجھ لیا جاتا تھا اس لئے ان کو میراث میں حصہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

 

Women do not inherit they are themselves the property of  their husbands- (Ency. of Religion & Ethnics Vol VII P.306) Women as inheritable property-many primitive people especially in Africa, regard wives and daughters as an important part of the estate to be transmitted in accordance with the regular rules of inheritance with the rest of the property. The explanation at is to be sought partly in the economic value of women either as workers or in the case of daughters, as potential wealth in the shape of a bride- price. Do P.290)

 

یہ آیت میراث کے سلسلہ میں اس قانون کو بھی واضح کرتی ہے کہ ترکہ بہرحال تقسیم ہونا چاہئیے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو اس کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ ہر قسم کے اموال پر ہو گا اور اگر کوئی چیز قابل تقسیم نہیں ہے تو اسے فروخت کر کے اس کی رقم تمام وارثوں میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم کر دی جائے گی۔

 

آیت میں أقربون کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ قریب ترین رشتہ داروں کے ہیں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قریب ترین رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وارث نہیں ہو سکتے۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب ورثاء سے ہے انہیں ترغیب دی گئی ہے کہ رشتہ داروں میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کا از روئے شرع میراث میں حصہ نہ ہو لیکن وہ غریب اور ضرورت مند ہوں اسی طرح جو یتیم اور مسکین آ موجود ہوں انہیں میراث میں سے کچھ نہ کچھ دو اور اگر گنجائش نہ ہو تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی ضرور کرو۔

 

اس ہدایت سے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر یتیم پوتا وارث نہ قرار پاتا ہو اور دادا نے اس کے لئے وصیت بھی نہ کی ہو تو وارثوں کو چاہئیے کہ قرابت دار اور یتیم ہونے کی بنا پر اسے اس کے دادا کی وراثت میں سے کچھ نہ کچھ دیں اور اس کی دل جوئی کریں۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو یہ خیال کرنا چاہئیے کہ جس طرح دو مرد کے بچے یتیم ہوئے ہیں اسی طرح ان کے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں یہ خیال انہیں یتیموں کی حق تلفی اور دل شکنی کرنے سے باز رکھے گا۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات میں تقسیم وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ نہایت مہتمم بالشان اور تاکیدی حکم ہے۔

 

نیز اس میں یہ بات مضمر ہے کہ سور ہ بقرہ کی آیت ۱۸۰میں اہل ایمان کو والدین اور اقرباء کے حق میں وصیت کرنے کا جو حکم مطلقاً دیا گیا تھا اس کو اس نے مقید کر دیا ہے اس لئے جن لوگوں کے حق میں اللہ نے وصیت فرما دی ہے یعنی ورثاء ان کے لئے وصیت کرنے کا کوئی سوال اہل ایمان کے لئے باقی نہیں رہتا یعنی اب وصیت صرف ایسے ہی رشتہ داروں کے حق میں کی جا سکتی ہے جو شرعاً وارث نہ قرار پاتے ہوں۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے وراثت میں لڑکے کا حصہ لڑکیوں کے مقابلہ دو گنا رکھا ہے جس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلہ میں فروتر ہیں اگر ایسا ہوتا تو کسی صورت میں بھی عورتوں کا حصہ مردوں کے برابر نہ رکھا جاتا۔ حالانکہ متعدد صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مساوی رکھا گیا ہے۔ مثلاً میت کے اولاد ہونے کی صورت میں جہاں باپ کو ۶/۱ملے گا وہاں ماں کو بھی ۶/۱ملے گا اسی طرح میت کے ماں شریک بھائی بہن کا حصہ برابر رکھا گیا ہے۔

 

اصل میں لڑکی کا حصہ لڑکے کے برابر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مرد پر ڈالی ہے وہ بیوی کی بھی کفالت کا ذمہ دار ہے اور بچوں کی کفالت کا بھی جبکہ عورت پر اپنی کفالت کا  بوجھ بھی نہیں ڈالا گیا ہے مزید بر آں مرد پر عورت کے مہر کا بھی بار ڈالا گیا ہے ان ذمہ داریوں کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ مرد کا حصہ عورت کی بہ نسبت دو گنا رکھا جائے۔ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میت نے اپنے پیچھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی چھوڑی ہو تو دیگر ورثاء کو اگر کوئی ہوں ان کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکے کے تین حصے کئے جائیں گے جن میں سے ایک حصہ لڑکی کو ملے گا اور دو حصے لڑکے کو اور اگر کئی لڑکے لڑکیاں ہوں تو ان کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہو گی کہ ہر لڑکے کودو حصے اور ہر لڑکی کو ایک حصہ ملے گا اور اگر صرف لڑکے ہوں تو ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم ہو گا۔ واضح رہے کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوتا۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت نے اگر صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو ان کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے انہیں دو تہائی حصہ ملے گا یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے یعنی اگر میت نے صرف لڑکیاں چھوڑی ہوں اور وہ دو ہوں تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا۔ یہ بات فحوائے کلام سے واضح ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ جو فرمایا کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہو نے کی صورت میں لڑکے کو ۳/۲ملے گا اور لڑکی کو ۳/۱، لڑکے کا یہ ۳/۲ حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے یہ بات فحوائے کلام سے واضح تھی اس لئے دو سے زائد لڑکیوں کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا مزید برآں آیت ۱۷۶میں دو بہنوں کا حصہ ۳/۲بیان کیا گیا ہے لہٰذا دو لڑکیوں کا حصہ بدرجۂ اولیٰ ۳/ ۲ ہو گا۔

 

دو لڑکیوں کے حصہ کا دو تہائی ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی بیوی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسو ل اللہ سعد کی یہ دو بیٹیاں ہیں ان کے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کے چچا نے ان کے پورے مال پر قبضہ کر لیا ہے اب ان سے نکاح کو ن کرے گا اس پر آیت میراث نازل ہوئی اور نبیﷺ نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا  کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور ان کی والدہ کو ۸/۱ اس کے بعد جو بچ جائے وہ تم لے لو۔ (تفسیر ابن کثیر  ج  ۱، ص ۴۵۷)

 

ترکہ کا یہ ۳/۲حصہ تمام لڑکیوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے گا بقیہ ۳ /۱ کے حقدار دوسرے وارث ہوں گے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر میت نے صرف ایک لڑکی چھوڑی ہو اور اس کے ساتھ کوئی لڑکا نہ ہو تو لڑکی کو نصف میراث ملے گی اور بقیہ نصف کے حقدار دوسرے ورثاء ہوں گے

 

اس سے یہ حکم بھی ملتا ہے اگر صرف ایک لڑکا ہو تو وہ لڑکی کے دو گنا یعنی پور ے ترکہ کا وارث ہو گا البتہ اگر دوسرے ورثا مثلاً ماں باپ موجود ہوں تو ان کے حصے ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ پورا کا پورا لڑکے کو ملے گا۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولاد خواہ ایک ہو یا زائد اور خواہ لڑکی ہو یا لڑکا بہر صورت میت کے والدین میں سے ہر ایک ۶ /۱ کا حقدار ہو گا والدین کا حق اولاد کے  مقابلہ میں زیادہ ہے لیکن وراثت میں اولا دکا حصہ زیادہ اور والدین کا حصہ کم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ والدین ایک ایسی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں جب انہیں مال کی ضرورت زیادہ نہیں رہتی بخلاف اس کے اولاد اپنی عمر کے اعتبار سے مال کا زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ تقسیم کتنی حکیمانہ ہے۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی والدین کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو ماں کو ۳/۱ اور بقیہ حصہ باپ کو ملے گا۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میت کے اگر بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کو ۳/۱ کے بجائے ۶/۱ ملے گا اور بقیہ باپ کو ملے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں واضح رہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا صرف باپ کے زندہ ہونے کی صورت میں اس کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملتا۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وصیت کرنے کا اختیار آدمی کو اپنی میراث کے ۳/۱ کی حد تک ہے جیسا کہ حدیث سے واضح ہے نیز کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے اور نہ ایسی وصیت نافذ ہو گی الا یہ کہ ورثا اس کی اجازت دیں ایک تہائی کی حد تک وصیت کی گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن رشتہ داروں کو حصہ نہ ملتا ہو اور وہ مدد کے مستحق ہوں مثلاً یتیم پوتا یا پوتی یا بیوہ، بہو وغیرہ تو آدمی ان کے حق میں وصیت کر سکتا ہے اسی طرح دوسرے مستحقین کے حق میں یا کسی کار خیر میں صرف کرنے کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے۔ سورہ بقرہ نوٹ ۲۳۳بھی پیش نظر رہے)

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرض سب سے پہلے ادا کیا جائے گا پھر وصیت کی تعمیل کی جائے گی اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کا ذکر قرض سے پہلے اس لئے کیا گیا ہے تاکہ اس معاملہ میں لوگ بے اعتنائی نہ برتیں کیونکہ وصیت بغیر کسی عوض کے ہوتی ہے جس کا ادا کرنا طبیعتوں پر بار ہوتا ہے بخلاف قرض کے کہ یہ ایک مسلمہ حق ہے جس کی ادائے گی واجب ہے۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وراثت کے معاملہ میں انسان اپنے محدود علم کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا نہ وہ وارثوں کا صحیح طور سے تعین کر سکتا ہے اور نہ ان کے حصوں کا چنانچہ انسان نے آسمانی ہدایت سے بے نیاز ہو کر جب کبھی میراث کی تقسیم کا ضابطہ بنانا چاہا ہے جذباتیت کا شکار ہو کر غلط اور غیر منصفانہ فیصلے ہی کرتا رہا ہے اگر قدیم جاہلیت میں عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا تو جدید جاہلیت میں ان کو مردوں کے برابر لا کھڑا کر دیا گیا جبکہ دونوں کی ذمہ داریاں یکساں نہیں۔

 

نپولین نے جو سول کوڈ بنایا اس میں خونی رشتہ داروں کی موجودگی میں زوجین کو ایک دوسرے کی وراثت سے محروم کر دیا۔ ہندو کوڈ اولاد کی موجودگی میں باپ کا حصہ تسلیم نہیں کرتا البتہ ماں کے حصہ کا ضرور قائل ہے اور انڈین سکسیشن ایکٹ Indian Succession Act ۱۹۲۵ کی روسے اولاد کی موجودگی میں میت کے ماں باپ دونوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وراثت کی تقسیم کے مسئلہ میں انسان اپنی خواہشات اور وقت کے نظریات اور رجحّانات کا شکار رہا ہے اور جو ضابطے بھی اس سلسلے میں بنائے جاتے رہے ہیں وہ کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں بنائے گئے لیکن اسلام کا قانون علم الٰہی پر مبنی ہے اسلئے اس میں کمال درجہ کا توازن پایا جاتا ہے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی اسلئے اس کی تقسیم غلط نہیں ہو سکتی۔ تمہارے اپنے رجحّانات  اور نظریات غلط اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو سکتے ہیں تمہارے حقیقی مفاد اور مصالح کو جاننے والا اللہ ہی ہے لہٰذا ہمیں اس کی شریعت کے صحیح ہونے پر یقین کرنا چاہئیے اور شرعی قوانین ہی کی پابندی قبول کرنا چاہئیے۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میت کے اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی کا حصہ ۴/۱ اور اولاد ہونے کی صورت میں ۸/۱ ہو گا اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ سب اس ۴/۱ یا ۸/۱ میں برابر شریک ہوں گی۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ حکم اخیانی یعنی ماں شریک بھائی بہنوں کا ہے رہے سگے اور صرف باپ شریک بھائی بہن تو ان کا حکم اس سورہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔  اخیانی بھائی بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اسے ۶/۱ ملے گا اور دویا دو سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ۳/۱ میں وہ سب برابر کے شریک ہوں گے واضح رہے کہ میت کے اخیانی بھائی بہن اسی صورت میں حصہ پاتے ہیں جبکہ میت کے نہ اولاد ہو اور نہ باپ زندہ ہو۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وصیت اور قرض کے لئے قانون وراثت میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے مثلاً کوئی شخص شرعی وارثوں کے حقوق تلف کرنے کی غرض سے بے جا وصیت کر جائے یا اپنے ذمہ ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو اس قسم کی ضرر رسانی کو حدیث میں گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفتوں علم اور بردباری کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام وراثت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ اس کے حال سے اللہ باخبر ہے اور وہ محض اپنی بردباری کی بنا پر فوری طور سے سزا نہیں دے رہا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ سکے گا۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدود سے مراد قوانین اور ضابطے ہیں وراثت کے ان احکام کی حیثیت جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں قانون الٰہی  Divine Law کی ہے جس کی پابندی لازماً اس کے بندوں پر عائد ہوتی ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وراثت کے احکام بیان کر نے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے اس سے ان لوگوں کے جرم کی سنگینی واضح ہے جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کرنا چاہیں یا اسلامی ضابطۂ وراثت کیک جگہ کوئی اور ضابطۂ وراثت Succession Code لانا چاہیں یہ ان  ہی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور اس  کے رسول کی اطاعت سے کوئی سروکار نہ ہو ور نہ کوئی مسلمان اس کی ہرگز جسارت نہیں کر سکتا۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زنا ہے۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کوئی مسلمان عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کو اسی صورت میں سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس کا جرم چار مسلمان گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے۔ زنا کے لئے اسلام نے چار کی گواہی ضروری قرار دی ہے جبکہ دوسرے جرائم کے لئے دو کی گواہی کا فی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا وہ سنگین جرم ہے جس کے بعد انسان کی عزت و عفت باقی نہیں رہتی اور اس کی اخلاقی موت واقع ہو جاتی ہے اسی سنگین برائی کو کسی کی طرف منسوب کرنے میں ظاہر ہے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور ان کا یہ جرم چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے انہیں گھروں میں نظر بند رکھنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے تاکہ وہ بدکاری سے باز آ جائیں۔ نیز انہیں اغوا وغیرہ کے خطرات سے بھی بچایا جا سکے۔ یہ حکم مخصوص حالات کے لئے ہے جس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زنا کی مرتکب عورتوں کی نظر بندی کا حکم مخصوص حالات کے لئے دیا گیا ہے رہا مستقل حکم تو وہ بعد میں ناز ل کیا جائے گا چنانچہ بعد میں یعنی ۰۶ھ میں سورہ نور میں سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی (سور ۂ نور آیت ۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) اس کا یہ مطلب نہیں کہ نظر بندی کا حکم منسوخ ہو گیا اگر ایسا ہوتا تو قرآن میں اس کی تلاوت باقی نہ رکھی جاتی۔ تلاوت جب باقی رکھی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ حکم ان حالات کے لئے اب بھی باقی ہے جن میں مسلم معاشرہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ کوڑوں کی سزا نافذ کر سکے البتہ جو معاشرہ کوڑوں کی سزا نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہو اسے کوڑوں کی سزا ہی نافذ کرنا ہو گی اس آیت میں زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی جو شرط بیان کی گئی ہے وہ کوڑوں کی سزا کا حکم آ جانے کے بعد بھی باقی رکھی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن میں کوئی آیت بھی منسوخ نہیں ہے بعض احکام جو بادی النظر میں مختلف معلوم ہوتے ہیں ان میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ایک حکم ایک حالات کے لئے ہے اور دوسرا حکم دوسری طرح کے حالات کے لئے مثلاً ایک جگہ حکم دیا گیا ہے کہ کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دوسری جگہ حکم دیا گیا ہے کہ ان سے جنگ کرو ظاہر ہے کہ یہ مختلف مراحل سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں نہ کہ  دوسرا حکم پہلے حکم کا ناسخ۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اذیت سے مراد ملامت، زجر و توبیخ اور اصلاح و تادیب کی حد تک مارنا ہے۔ تعزیر کا یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے جو زنا کے مرتکب ہوئے ہوں۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصلاح کی صورت میں خواہ وہ مرد ہو یا عورت اذیت پہنچانے سے احتراز کیا جائے گا لیکن عورت کو گھر میں روکے رکھنے کا جو حکم آیت ۱۵میں دیا گیا ہے وہ اذیت کے حکم کے علاوہ ہے اور اس کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں اس لئے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو توبہ کا ذکر ہوا ہے اس کی مناسبت سے توبہ کی حقیقت یہاں واضح کر دی گئی۔ توبہ کے معنی گناہ سے باز آنے اور اللہ کی اطاعت کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جو شخص نادانی میں یا جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھتا ہے مگر اس پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اس پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہے اور اس سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے ایسے شخص کی توبہ سچی توبہ ہے اور اسے قبول کرنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عمر بھر گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں اور اس سے باز نہیں آتے مگر جب موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ سے معافی مانگنے لگتا ہے ایسے لوگوں کی توبہ سچی توبہ نہیں ہے کیونکہ جب امتحان کی گھڑی ختم ہو گئی اور نتائج کے ظہور کا وقت آ گیا اس وقت توبہ کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، لیکن جب موت آ جاتی ہے اور آدمی حقائق کو بے نقاب ہوتا دیکھنے لگتا ہے اس وقت اللہ سے معافی کا خواستگار ہو تا ہے کیونکہ وہ وقت آزمائش کا نہیں بلکہ نتائج کے رونما ہونے کا ہوتا ہے لہٰذا اگر معاملہ گناہ کا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ جلد اس سے باز آ جائے اور اگر اب تک اس کی روش کفر و انکار کی رہی ہے تو بلا تاخیر اپنا رویہ بدل دے اور ایمان لے آئے۔ معلوم نہیں کس کی موت کا وقت کب آ جائے اور توبہ کی مہلت ختم ہو جائے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب جاہلیت میں یہ قبیح رواج چلا آ رہا تھا کہ مرنے والے کی بیویاں بھی میراث میں شامل سمجھی جاتیں۔ چنانچہ باپ کے مرنے پر بیٹا اپنی سوتیلی ماں کا وارث بن جاتا تھا اور اس سے زن و شوئی کے تعلقات قائم کر لیتا تھا۔ قرآن نے اس کو حرام قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ عورت متروکہ جائیداد نہیں ہے کہ اس پر میت کے ورثاء قبضہ کر لیں بلکہ وہ عدت ت گزارنے کے بعد آزاد ہے۔ شرعی حدود میں رہ کر جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک انقلابی نوعیت کی اصلاح تھی جو اسلام نے عورتوں کے سلسلہ میں کی۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بد چلنی کی مرتکب ہو نے کی صورت میں انہیں ایذا دینے کا حق تمہیں پہنچتا ہے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض اس لئے کہ بیوی خوبصورت نہیں ہے یا اس میں کوئی اور نقص ہے اسے تنگ کرنا جائز نہیں اور نہ اسے چھوڑ دینا کوئی مناسب بات ہے۔ اگر وہ پاکدامن ہے تو اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنا چاہئیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں دوسری خوبیاں موجود ہوں جو ازدواجی زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہوں اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کے حسن سیرت کی بناء پر اس رشتہ کو باعث خیر بنا دے لہٰذا رشتہ منقطع کرنے کے معاملے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہئیے۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کو جو مہر دیا گیا ہو نیز زوجیت کے تعلقات کی بناء پر اسے ہدیتہً جو کچھ دیا گیا ہو طلاق کی صورت میں شوہر کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں سے کسی چیز کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عقد نکاح کو پختہ عہد (میثاقِ غلیظ) سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اس کے ساتھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ یہ کوئی معمولی رشتہ نہیں بلکہ نہایت محکم رشتہ اور مضبوط پیمان وفا ہے لہٰذا اگر مرد اپنی خواہش سے اس عہد کو ختم کر دینا چاہتا ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس لے لے خواہ وہ مہر ہو یا دوسرے تحائف۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپ کے انتقال پر اپنی سوتیلی ماں سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کا جو رواج زمانہ جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اس کو قرآن نے قطعاً ممنوع اور حرام قرار دیا۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قانوناً پچھلے رشتوں کی تحقیق نہیں کی جائے گی۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قریب ترین رشتہ داروں سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے یہ حرمت انسانی فطرت کے اس تقاضے پر مبنی ہے کہ رشتہ داری کے یہ تعلقات محبت و شفقت کے اعلیٰ جذبات پر قائم ہونے چاہئیں۔ اس میں شہوانی جذبات کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئیے ورنہ اس سے انسانی سوسائٹی میں فساد عظیم برپا ہو گا۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں خواہ سگی ہو یا سوتیلی حرام ہی ہے اسی طرح باپ کی ماں اور ماں کی ماں بھی۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹی کے حکم میں پوتی اور نواسی بھی شامل ہیں۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہن خواہ سگی ہو یا باپ شریک یا ماں شریک سب یکساں طور سے حرام ہیں۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچہ کی پرورش جس عورت کے دودھ سے ہوئی ہے وہ اس کے بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس رشتہ کا احترام ملحوظ رکھا۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے : "یحرم من الرضاعۃ مایحرم من النسب جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں " (تفسیر ابن کثیر  ص ۴۶۹ بحوالہ مسلم)

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیوی کی وہ لڑکی جو اس کے پہلے شوہر سے ہو اس کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ وہ مدخولہ بیوی سے ہو لیکن اگر وہ ایسی بیوی سے ہے جس سے محض نکاح ہوا تھا اور مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی تھی تو اس کی لڑکی سے نکاح جائز ہے۔ رہا آغوش میں پلا ہوا ہونا تو یہ شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ رشتہ کی نزاکت کا احساس دلانے کے لئے ہے اگر سوتیلی لڑکی مدخولہ بیوی سے ہے تو وہ آدمی پر بہر حال حرام ہے  خواہ اس نے اس کی گود میں پرورش پائی ہو یا نہ پائی ہو۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قید نے متبنی (منہ بولے بیٹے) کی بیوی سے نکاح کو حرمت کے حکم سے خارج کر دیا ہے نکاح حرام صرف اس بیٹے کی بیوی سے ہے جو آدمی کے اپنے نطفہ سے ہو۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو بہنوں کو جمع کرنے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ باہم رقابت میں مبتلا ہو جائیں گی اور اس سے رحمی رشتہ متاثر ہو گا اس لئے اس کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے یہی مفسدہ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے میں ہے اس لئے حدیث میں نبیﷺ نے اس کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس حکم کے نزول سے پہلے جو ہو چکا سو ہو چکا اب اس سے باز آ جاؤ تو جو غلطیاں تم کرتے رہے ہو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو عورت کسی دوسرے کے نکاح میں ہو وہ حرام ہے کیونکہ عورت بیک وقت ایک مر د ہی کے نکاح میں ہو سکتی ہے دو مردوں کے نکاح میں نہیں ہو سکتی۔ چند شوہری Polyandryانسانی فطرت کے خلاف ہے اس لئے وحی الٰہی اسے ہمیشہ حرام قرار دیتی رہی ہے اس کا رواج اگر کہیں رہا ہے تو وحشیانہ قبائل میں یا پھر موجودہ ملحدانہ تہذیب اس کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آ گئی ہوں اور ان کے کافر شوہر دار الحرب میں موجو دہوں وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کا سابقہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ غلاموں اور باندیوں سے متعلق اسلام کے احکام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے جن میں یہ احکام دئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں اسیرانِ جنگ کو غلام اور باندی بنانے کا رواج بین الاقوامی سطح پر رائج تھا جیل کا رواج بہت کم تھا اور اسیران جنگ War prisoners کے لئے بڑے پیمانے پر قید و بند اور خورد و نوش کا انتظام کرنا بہت مشکل تھا اس لئے ان کو غلام بنا کر افراد کی تحویل میں دیا جاتا تھا ان حالات میں اسلام نے جو غلام بنانے کی نہیں بلکہ غلاموں کو رہا کر نے کی ترغیب دے رہا تھا اور اسے انسانیت کی بہت بڑی خدمت اور بہت بڑی نیکی قرار دے رہا تھا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اسیران جنگ کی حد تک گوارا کر لیا اگر چہ کہ عام ہدایت یہی تھی کہ جنگی قیدیوں کو یا تو احسان کے طور پر چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کیا جائے جیسا کہ سورہ محمد آیت ۴سے واضح ہے۔ نبیﷺ کے زمانہ میں جو جنگیں لڑی گئیں ان میں اسیران جنگ کے ساتھ بالعموم یہی معاملہ کیا جاتا رہا تاہم چونکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا جسے فوری طور سے بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق متعین کئے اور ان کے سلسلہ میں ضروری احکام دئیے اس سلسلہ کا ایک حکم یہاں بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں اور ان کو حکومت نے باقاعدہ طور پر مسلمان افراد کے قبضہ میں دیا ہو ان کے سابقہ نکاح جو کافر شوہروں کے ساتھ ہو چکے ہوں باقی نہیں رہیں گے اور جس شخص کے قبضہ میں ایسی عورت دی گئی ہو اس پر جہاں اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں اسے اس کے ساتھ تمتع کا حق بھی حاصل ہو گا نیز اسے یہ حق بھی ہو گا کہ وہ خود تمتع کرنے کے بجائے کسی ضرورت مند مسلمان کی زوجیت میں اسے دیدے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو گئی ہو لیکن جیسا کہ بعد والی آیت کے احکام سے ظاہر ہے کسی کو بھی اس بات کی ہرگز اجازت نہ ہو گی کہ وہ لونڈیوں کو قحبہ گری یا شہوت رانی کا ذریعہ بنائے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام نے اسیران جنگ کے معاملہ میں جو پالیسی اختیار کی اس کے نتیجہ میں کتنے ہی لوگوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی اور کتنوں ہی نے اسلامی سوسائٹی میں نہایت اونچا مقام حاصل کر لیا۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عائلی زندگی سے متعلق یہ احکام قانون الٰہی  Divine Law کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی لازماً پابندی کی جانی چاہئیے۔ اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں قرآن کے عائلی قانون ہی کا نفاذ ہونا چاہئیے اس کے علاوہ کسی بھی عائلی قانون Family Law کے قابل قبول ہونے کا سوال مسلمانوں کے لئے پیدا ہی نہیں ہوتا۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "احصان " استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنی رفیقۂ  حیات بنا نے کے عزم کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے لے اور عورت بھی اسی ارادہ کے ساتھ قید نکاح میں داخل ہو۔ کسی عورت سے وقتی اور عارضی تعلق پیدا کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس لئے مذکورہ شرط لگا کر قرآن نے متعہ کے اس مکروہ رواج کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میاں بیوی آپس کی رضامندی سے مقر رہ مہر میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ اس ہدایت میں موجودہ غلو آمیز مہر کے مسئلہ کا حل موجود ہے۔ بعض برادریوں میں بڑی مہر باندھنا ایک رسم کے طور پر چلا آ رہا ہے جس کا منشاء محض "باندھنا " ہوتا ہے تاکہ خاندان کی ناک اونچی رہے ورنہ شوہر کی مالی حیثیت بالعموم اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ چالیس تولہ سونا جیسی بھاری مقدار میں مہر ادا کرے اس لئے بالعموم اس کی ادائے گی کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جبکہ مہر کا اصل منشاء ادا کرنا ہے نہ کہ محض "باندھنا " اس لئے جن کے ایسے رسمی مہر مقرر کئے جا چکے ہیں اور ان کی ادائے گی ان کے شوہروں کے بس کی بات نہ ہو وہ اپنی بیویوں کو اس پر نظر ثانی کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں اور باہمی رضامندی سے اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عزت و شرف کی اصل بنیاد ایمان ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کی بنا پر آزاد عورت سے بہتر ہو۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نسل کے اعتبار سے سب ایک آدم و حوا کی اولاد ہیں خواہ آزاد ہوں خواہ غلام اس لئے لونڈی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈی سے نکاح کی صورت میں مہر لونڈی کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ ان کے مالکوں کو۔ بالفاظ دیگر مہر عورت کا حق ہے خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔ اس سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے لونڈیوں کو حق ملکیت عطا کر کے سوسائٹی میں ان کا مقام کتنا بلند کیا۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قید نکاح میں آ جانے کے بعد اگر کوئی لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو آزاد عورت کے لئے جو سزا مقرر کی گئی ہے یعنی سو کوڑے (سورہ نور آیت ۲) اس کی نصف سزا لونڈی کو بھی دی جائے گی۔ سزا میں یہ رعایت اس لئے رکھی گئی ہے کہ لونڈیوں کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورتوں کو حاصل تھا۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ان لوگوں کے لئے ہے جو یہ اندیشہ محسوس کرتے ہوں کہ اگر انہوں نے نکاح نہیں کیا تو وہ معصیت میں مبتلا ہو جائیں گے جو لوگ یہ اندیشہ محسوس نہ کرتے ہوں ان کے لئے صبر ہی بہتر ہے۔ دوسرے مالکوں کی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی صورت میں مالک کے حقوق اور شوہر کے حقوق کو نباہنا مشکل تھا اس لئے اس قسم کے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد انبیاء علیہم السلام اور صالحین کے طریقے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن عائلی زندگی کے لئے اس طریقہ کی رہنمائی کر تا ہے جو ہمیشہ سے خدا کے نبیوں اور نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ خد اسے سرکشی کرنے والے لوگ باپ دادا کی پیروی کے نام پر فاسد کلچر یا جدید تہذیب کے نام پر گمراہ کن نظریہ یا جدید سول کوڈ Modern Civil Code کے نام پر باطل قوانین کی طرف تمہیں بھٹکا کر لے جانا چاہتے ہیں۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان فطرۃ ً غیر ضروری اور غیر فطری پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا خود ساختہ شریعتوں اور من گھڑت رسموں کے بوجھ اتار پھینکنا ضروری ہے۔ اسلامی شریعت تکلفات سے پاک اور سادہ شریعت ہے جس میں انسان پر اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جس کا انسان فطری  طور پر متحمل ہو سکتا ہے۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جن میں اخلاقی قباحت پائی جاتی ہو یا جنہیں شریعت نے ناجائز قرار دیا ہو۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لین دین حقیقی باہمی رضامندی سے ہونا چاہئیے جس لین دین میں دھوکا اور فریب جیسی چیزیں شامل ہوں وہ جائز نہیں۔ رشوت ستانی بھی باطل کی تعریف میں آتی ہے اس لئے کہ اس میں اخلاقی قباحت کا پایا جانا ایک حقیقت ہے اور اس میں دوسروں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصول مال کے لئے آدمی جب ناروا طریقے اختیار کرتا ہے تو اس غرض کے لئے قتل و خون سے بھی کام لینے لگتا ہے گویا قتل و خون کا نتیجہ ہے حصول مال کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے کا۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسی باتوں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی ہلا کت ہے۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے گناہوں (کبائر) سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی ممانعت میں نص صریح وارد ہوئی ہے اور جن کے ارتکاب پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حدیث میں نبیﷺ نے شرک، قتل نفس، والدین کی نافرمانی، شہادت زور، سود خوری، یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، جہاد میں مقابلہ کے وقت بھاگ جانا اور اسی قسم کی دوسری باتوں کے گناہ کبیرہ ہو نے اور ان میں سے بعض کے اکبر الکبائر ہو نے کی صراحت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کبائر ان چند گناہوں تک محدود ہیں بلکہ کبائر کی یہ چند مثالیں ہیں چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہ سات ہیں تو انہوں نے فرمایا سات کے مقابلہ میں سات سو ہو نا اقرب ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۸۶)

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں خلقی لحاظ سے فرق رکھا ہے دونوں میں طبعی طور پر مکمل یکسانیت نہیں ہے اور اس بنا پر ان کے حقوق و فرائض میں بھی شریعت نے فرق کیا ہے لہٰذا مردوں کا عورت بننے کی تمنا کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی خواہش کرنا اور اس تمنا اور خواہش کے زیر اثر ایک دوسرے سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نظام فطرت میں خلل پیدا کرنے کی کوشش ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بالکل بے سود ہے اسی طرح شریعت کے مقرر کردہ حقوق و فرائض سے انحراف کر کے مکمل مساوات کے نظریہ پر دونوں کے حقوق و فرائض کرنا شریعت اور فطرت دونوں سے ٹکر لینے کے ہم معنی ہیں اس لئے اس ذہنیت سے بچنے اور اللہ سے اس کا فضل طلب کرنے کی ہدایت اس آیت میں کی گئی ہے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ تقسیم وراثت کے اس قانون کی طرف ہے جو آیت ۷میں بیان ہوا یہ آیت اس بات کو مزید مؤکد کر رہی ہے کہ اصل وارث وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان میں اپنی خواہشات کی بنا پر کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جانی چاہئیے۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وارث تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں رہے وہ لوگ جن کو تم نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے تو ان کو اتنا دو جو جائز وصیت کے دائرہ میں آتا ہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں لو گ ایک دوسرے کی میراث کے حق دار بننے کا عہد و پیمان کرتے تھے اسلام نے اس طریقہ کو ختم کر کے اقرباء کو اصل وارث قرار دیا اور میراث میں صرف ایک تہائی کی حد تک وصیت کے لئے گنجائش رکھی۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر وراثت کے اس قانون سے تم نے انحراف کیا تو یہ بات اللہ سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے سربراہی کا مقام عطا کیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ بیان فرمائی ہے کہ مرد کو، عورت پر اس کی فطرت اور قدرتی ساخت کے لحاظ سے نمایاں، فوقیت بخشی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اس ذمہ داری کے اٹھانے کا اہل ہے چنانچہ مرد حفاظت و نگرانی کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور معاشی دوڑ دھوپ کی بھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب جس نے مساوات مردو زن کے غلو آمیز نظریہ کو پیش کیا، خاندان کے لئے سربراہ کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی زندگی، نظم  Discipline سے محروم ہو گئی۔ جبکہ قوت، فعالیت اور حوصلہ کے لحاظ سے مرد کی عورتوں پر فوقیت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے:

 

Connected result of male superiority i.e. strength, activity and courage is the element of protection in male love, and of trust on the side of the female (ERE VIII , P.156)

 

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۳۷) ۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا :خیر النساء امراۃ اذانظرت الیھا سر تک واذا امرتھا اطاعتک واذا غبت عنھا حفظتک فی نفسھا ومالک بہترین عورت وہ ہے جسم تم دیکھو تو وہ تمہیں خوش کرے، جب اسے حکم دو تو وہ اطاعت کرے اور تمہاری غیر موجودگی میں اپنے نفس اور تمہارے مال کی حفاظت کرے (تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)

 

آیت سے اس وصف کا منفی پہلو بھی واضح ہوتا ہے یعنی اطاعت شعاری کے بر خلاف جو عورتیں مردوں کی نافرمانی کرنے والی ہوں اور عورت کے بجائے مرد بن کر رہنا چاہتی ہوں وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نیک عورت مرد کے رازوں کی امین، اس کے گھر، اس کے مال اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تادیبی اختیارات ہیں جو مرد کو دئیے گئے ہیں اور یہ اسی صورت میں استعمال کر نے کے لئے ہیں جبکہ عورت سرتابی کرنے لگے، عورت کی طرف سے ہر قسم کی کوتاہی اور غلطی پر سخت قدم اٹھانا صحیح نہیں ہے زود و کوب کے سلسلہ میں حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ اس طرح نہیں مارنا چاہئے  کہ عورت کو تکلیف پہنچے یا اس کے جسم پر نشان پڑ جائے۔ عورت کو اخلاقی حدود میں رکھنے اور گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے مرد کو ان اختیارات کا دیا جانا ضروری تھا لیکن اس کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ مرد ان اختیارات کو من مانے طریقے پر Arbitrarilyاستعمال کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ کی یہ صفت کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے کا حوالہ مرد کو یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ وہ اپنی قوامیت کے زعم میں عورت پر زیادتی نہ کرے بلکہ یاد رکھے کہ ایک بلند و بالا ہستی اس کے اوپر موجود ہے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زوجین کے درمیان نزاع کی صورت میں یہاں ایک آخری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وہ تدبیر یہ ہے کہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کیا جائے اور یہ دونوں مل کر صلح صفائی کی کوشش کریں۔ عدالت کے مقابلہ میں یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ عدالت میں لے جانے کی صورت میں میاں بیوی کے مسائل منظر عام پر آ جاتے ہیں جو کوئی مناسب بات نہیں ہے نیز اس سے مصالحت کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ رہا حکم (پنچ) کے اختیارات کا مسئلہ تو حکم کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں کو مل کر فیصلہ کرنے کا اختیار ہو گا یہ فیصلہ زوجین کو ملانے کا بھی ہو سکتا ہے اور ان کو جدا کر نے کا بھی اور جمہور علما اسی کے قائل ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۱، ص ۴۹۳)

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشرتی احکام کے خاتمہ پر اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی ہدایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمام شرعی احکام کی اصل توحید ہے اور آدمی اسلام کے معاشرتی احکام پر صحیح طور پر اسی صورت میں عمل پیر ا ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی عبادت ٹھیک طور سے کر رہا ہو کیونکہ اللہ کی عبادت بشرطیکہ وہ شعور کے ساتھ ہو انسان کی خواہشات کے پیچھے چلنے اور جذبات کی رو میں بہنے سے روکتی ہے۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے اس لئے کہ وہی پرورش کا ذریعہ بنے ان کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلو ک کیا جائے۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی حدیث میں بھی بڑی تاکید آئی ہے نبیﷺ نے فرمایا : مازال جبریل یو صینی بالجار حتی ظننت انہٗ سیورثہ جبرئیل مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی برابر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دیں گے۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دوست ہے اور ایسا شخص بھی جس کا وقتی طور سے ساتھ ہو جائے مثلاً رفیق سفر، شریک تجارت، ہم سبق، کسی مجلس میں ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے وغیرہ ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہئیے کہ انہیں کوئی اذیت اور تکلیف نہ پہنچے اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کیا جائے۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں نبیﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ غلاموں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے :۔

 

ھم اخوانکم خولکم جعلھم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفو ھم ممّا یغلبھم فان کلفتمو ھم فاعینو ھم یہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہئیے کہ جو کھانا وہ کھاتا ہے وہ اسے بھی کھلائے اور جو کپڑا وہ پہنتا ہے وہ اسے بھی پہنائے اور دیکھو ان پر اتنا بار نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے باہر ہو اور اگر کوئی بھاری بوجھ ڈالو تو ان کی مدد کرو (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۹۵) (بحوالہ بخاری و مسلم) ۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اترانا اور فخر کرنا حسن سلو ک کے منافی ہے جو لوگ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو اپنی قابلیت کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ان کے اندر گھمنڈ اور فخر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ ذہنیت انہیں لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلو ک کرنے سے باز رکھتی ہے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر نیک عمل کی جز ا اس کی جنس سے دوگنا ملے گی علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے بھی جزا عطاء فرمائے گا جس کی کوئی تحدید نہیں۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبیﷺ کو قرآن سناتے ہوئے اس آیت پر پہنچے تو نبیﷺ شدت تاثر سے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہ آیت جہاں آپ کے لئے شرف کا باعث ہے وہاں وہ آپ پر ایک عظیم ذمہ داری بھی عائد کرتی ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر پیغمبر کو یہ گواہی دینا ہو گی کہ اس نے اللہ کا دین بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے اور حضرت محمدﷺ کو بھی یہ گواہی دینا ہو گی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ آپ کی بعثت دنیا کے تمام اقوام کے لئے ہے اور آپ آخری نبی ہیں اس لئے آپ کی رسالت کا دور قیامت تک کے لئے ہے۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ سکاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نشہ کی حالت میں اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ وہ شراب ہو یا کوئی ٹھوس چیز۔ شراب کی حرمت کا حکم سورہ بقرہ آیت ۲۱۹میں گزر چکا ہے یہاں نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت کی گئی ہے۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۱۶)

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا نماز کے لئے ہوش اور بیداری ضروری ہے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنابت سے مراد وہ نا پاکی ہے جو قضائے شہوت یا احتلام کی صورت میں لاحق ہوتی ہے اس حالت میں نماز پڑھنا منع ہے اور اس کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کیا جائے اور غسل کا نہایت سادہ طریقہ اسلام نے تجویز کیا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے پورے جسم پر پانی بہا دے جس میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی شامل ہے۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سفر کی حالت میں غسل سے استثناء ہو سکتا ہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان کر دیا گیا ہے یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جنابت کی حالت میں شرعی عذر کی بناء پر جس کی مثال سفر میں پانی کا نہ ملنا ہے غسل کئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہو بشرطیکہ تیمم کر لو جیسا کہ اسی آیت میں آگے حکم دیا گیا ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ لَا مَسْتُمْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں عربی زبان میں یہ جماع کے لئے کنا یہ ہے (لسان العرب) اور حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر مروی ہے۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے شرعی اصطلاح میں تیمم کہتے ہیں جو وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اسے چہر ہ اور دونوں ہاتھوں پر پھیر لیا جائے اس سے اصل طریقہ طہارت کی یا دبھی ذہن میں قائم رہتی ہے اور طہارت کا احساس بھی برقرار رہتا ہے۔

 

مرض میں چونکہ وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے یہ رعایت ہوئی کہ تیمم کیا جائے اسی طرح سفر میں ایسی حالت پیش ہو سکتی ہے کہ پانی نہ ملے تیمم کی رعایت اس صورت کے لئے بھی ہے۔ ان دونوں صورتوں پر، دوسری صورتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے مثلاً سخت سردی میں جب کہ جنابت لاحق ہو اور غسل کرنے سے ضرر کا اندیشہ ہو یا کسی موقع پر پانی تو موجود ہو لیکن کمیابی کے باعث اسے پینے کیلئے محفوظ رکھنا پڑے یا ریل اور ہوائی جہاز کا سفر جس میں غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نجاست کی یہاں دو حالتیں بیان کی گئی ہیں ایک رفع حاجت اور دوسرے قضائے شہوت، اس حکم میں دوسری چھوٹی موٹی نجاستیں بھی داخل ہیں اور ہر قسم کی نجاست کے لئے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی یہ صفات اس بات کی متقاضی ہوئیں کہ تمہارے لئے شرعی احکام میں نرمی کی جائے اور تمہیں تیمم کی رعایت دی جائے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر جو شرعی احکام دئیے گئے ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کو جن لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ  رہا تھا ان کا ذکر ان آیات  میں ہو رہا ہے۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے آسمانی صحیفوں اور قرآن کریم کے درمیان نسبت جزء اور کل کی ہے اس لئے اہل کتاب کو جو کتاب دی گئی تھی اس کی حیثیت کتاب الٰہی کے ایک جز ء کی تھی جب کہ حضرت محمدﷺ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ ہر لحاظَ سے ایک مکمل کتاب ہے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نبیﷺ کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہتے تھے اسے یہاں دین پر طعنہ زنی سے تعبیر کیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ہر وہ طنز و تشنیع جو پیغمبرﷺ پر کی جائے براہ راست دین پر حملہ ہے۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ  نوٹ ۱۲۲۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت وہی لوگ کرتے ہیں جو کافر اور سرکش ہیں اور ان کے کفر اور سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ان پر پڑی ہے۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہر ہ جسم کا اشرف حصہ اور اللہ کی نعمت کا خصوصی مظہر ہے اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق اور محسن کا قدر شناس  اور سپاس گزار ہو لیکن جو لو گ کفر کی روش اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کی اس عظیم نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی حق کو دیکھنے کے لئے اندھے ہو جاتے ہیں اور منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی حق بولنے کے لئے گونگے ہو جاتے ہیں اور اپنی بینائی، گویائی اور سماعت کا غلط اور الٹا استعمال کرتے ہیں اس لئے بجا طور پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان کے چہرے مسخ کر کے پیچھے پھیر دئیے جائیں چنانچہ قیامت کے دن انہیں درد ناک سزا  سے دوچار ہونا ہو گا۔ انسان اگر ہوش سے کام لے تو یہ سخت وعید اس کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے حضرت کعب احبار (مشہور یہودی) اس آیت کو سن کر ایمان لائے تھے۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحاب سبت کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۶۵میں گزر چکا۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے خواہ وہ سورج ہو یا تارے، ناگ ہو یا آگ، بت ہو یا آسمان، فرشتے ہوں یا جن، ولی ہوں یا پیغمبر، مادی چیزیں ہوں یا روحانی اور مزعومہ دیوی ہو یا دیوتا۔

 

اللہ کی ذات میں شرک کی ایک مثال تو وہ ہے جو نصرانیت میں پائی جاتی ہے وہ ایک کی جگہ تین خداؤں کے قائل ہو گئے۔ باپ، بیٹا اور روح القدس اور دوسری مثال ہندوستان کے ایک بہت بڑے مذہبی گروہ کے عقیدے کی ہے جو خالق اور مخلوق میں فرق نہیں کرتا بلکہ ایک ہی وجود کا قائل ہے۔ یعنی اس کے نزدیک سب کچھ خدا ہے اور انسان بھی خدا ہی کا جز ء ہے اس نظریہ کو ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔ اللہ کی صفات میں شرک کی مثال یہ عقیدہ ہے کہ خدائی انتظامات میں اور اس کے اقتدار (Sovereignty) میں دوسرے بھی دخیل اور شریک ہیں مثلاً کوئی بارش کا دیوتا ہے اور کوئی ہوا کا یا کوئی بیماری کی دیوی ہے اور کوئی دولت کی۔ اسی طرح اولیاء اور بزرگوں کے بارے میں یہ تصور کہ وہ غوث اور مشکل کشا ہیں اور انسان کی حاجت روائی کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی  اس صفت میں کہ وہی رب اور حاجت روا ہے دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک مہتمم بالشان صفت یہ ہے کہ وہی پرستش کے لائق ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں۔ اس میں شرک یہ ہے کہ آدمی غیر اللہ کو بھی عبادت کے لائق سمجھنے لگے یا کسی دیوی، دیوتا، بت اور سورج وغیرہ کی پوجا کرنے لگے یا اولیاء و انبیاء کی پرستش شروع کر دے۔ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں ان کے علاوہ یہ بھی کھلا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مطلق طور پر اطاعت کا مستحق سمجھا جائے یا کسی کے لئے شرعی قوانین میں ترمیم کا حق تسلیم کیا جائے یا جمہور کے اس دعوے کو صحیح قرار دیا جائے کہ اللہ کے احکام و قوانین سے قطع نظر انہیں ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار ہے۔ شرک چونکہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور یہ سراسر اس کے خلاف سرکشی اور بغاوت ہے اس لئے اس کو سب سے بڑا جرم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ شرک کے حکم میں کفر اور الحاد بھی شامل ہے کیونکہ اس کے معنی اللہ سے سرکشی اور بغاوت ہی کے ہیں اور اللہ کا انکار کر کے آدمی اپنے کو نیز دوسرے انسانوں کو خدائی کے مقام پر بٹھاتا ہے ظاہر ہے کہ اس طرح وہ لازماً شرک کا مرتکب ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ شرک مذہبی روپ میں آتا ہے اور الحاد لا دینیت کے روپ میں۔ آیت کے پس منظر میں چونکہ یہود ہیں جو خدا کے قائل ہو تے ہوئے شرک کا ارتکاب کرتے تھے اس لئے یہاں واضح کیا گیا کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک سے کمتر درجہ کے جو گناہ ہوں گے ان کے معافی کا امکان ہے لیکن شرک پر اگر آدمی قائم رہا اور اس نے توبہ نہیں کی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہو گئی تو اس گناہ کے بارے میں اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اور بت پرستی کو معمولی گناہ خیال نہ کرو واقعۃً ً یہ زبردست گناہ ہے اور قیامت کے دن مشرکوں اور بت پرستوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا یا جائے گا۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کو بڑا پاکباز ظاہر کر تے ہیں جب کہ یہ شرک کی نجاست سے آلود ہ ہیں اور گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ انہیں من گھڑت باتوں کو مذہب کے نام سے پیش کرنے اور خدا کی طرف منسوب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ یہود اعتقاد و عمل کی ان تمام خرابیوں کے باوجود اس بات کے دعویدار تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "جبت " استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی بے فائدہ چیز کے ہیں یہاں اس سے مراد ہر قسم کے اوہام و خرافات اور سفلی اعمال ہیں جن کا سرا شرک سے جا ملتا ہے مثلاً جادو، ٹونے، ٹوٹکے، رمل جفر، نجوم (جیوتش) ، فال گیری،  بد شگونی وغیرہ۔ نیز اس کا اطلاق ساحر، کاہن، بت اور معبودان باطل پربھی ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : العیافۃ والطرق و الطیرۃ من الجبت جانوروں کے ناموں، ان کی آوازوں اور ان کے گزرنے سے شگون لینا، کنکریاں مار کر یا خط کھینچ کر کہانت کرنا، نیز ہر قسم کی بد شگونی  "جبت " کے قبیل سے ہے۔ وہم پرستی اور شرک کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اہل مذہب نے اپنے اپنے مذہب میں اوہام و خرافات کو بری طرح داخل کیا ہے لیکن اسلام کا دامن ان چیزوں سے بالکل پاک ہے اس کی بنیاد حقائق پر ہے اور اس نے وہم پرستی کی جڑ کاٹ دی ہے موجودہ مسلم سماج میں جو اوہام و خرافات پائے جاتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلام ان کا سخت مخالف ہے۔

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "طاغوت" کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۸میں گز ر چکی۔ یہاں خاص طور سے وہ مذہبی پیشوا مراد ہیں جو فاسد عقائد کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ عقیدت مندی کو " ایمان بالطاغوت " (طاغوت پر اعتقاد رکھنے) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کو مسلمانوں سے ایسی کد پید ا ہو گئی تھی کہ وہ بت پرستوں کو اہل توحید کے مقابلہ میں برسر حق قرار دینے لگے تھے جبکہ ان کی مذہبی کتاب "تورات " بت پرستی کو صریح گمراہی قرار دیتی ہے۔

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسلمان ہیں۔

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر مدینہ میں ان کی سلطنت قائم ہوتی تو یہ اپنی تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو ہر فائدہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا اس لئے وہ مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی قوت دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اطراف مدینہ میں یہودیوں کی جو آبادیاں تھیں ان کی حیثیت آزاد قبائل کی تھی اس دائرہ سے باہر مدینہ کی عام آبادی پر ان کا تسلط نہ تھا۔

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہیں نبیﷺ اور آپ کے پیروؤں سے اس بنا پر حسد ہے کہ نبوت  جو ان کے خاندان (یعنی بنی اسرائیل) میں چلی آ رہی تھی وہ دوسرے خاندان (یعنی بنی اسماعیل) میں کس طرح چلی گئی۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات بنی اسرائیل کے ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ ابراہیم کی اولاد تم بھی ہو اور بنی اسماعیل بھی ہیں آج اگر ہم نے بنی اسماعیل کو کتاب و حکمت سے نوازا ہے اور انہیں اقتدار بخش رہے ہیں تو اس میں حسد کرنے کی کیا بات ہے یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ جسے چاہے بخشے، ویسے تمہیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ اس سے پہلے تمہیں بھی کتاب و حکمت سے نواز چکا ہے اور زبر دست سلطنت بھی عطا کر چکا ہے (مثلاً حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت) لیکن تم نے اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری کی اور اپنی نااہلی کا ثبوت دیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فضل کے لئے خاندان ابراہیمؑ کی دوسری شاخ (بنی اسمٰعیل) کا انتخاب فرمایا ہے

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفات کا حوالہ دینے سے مقصود (یہ واضح کرنا ہے کہ اتنی سخت سزا دینے پر اللہ قادر ہے اور اس کی حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سرکشوں کو ایسی سخت سزا دی جائے ورنہ نظام کائنات حق و انصاف پر قائم نہیں رہ سکے گا۔

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امانتوں میں عام امانتیں بھی شامل ہیں مثلاً ڈپازٹ، واجب الادا قرضے وغیرہ اور ذمہ داری کے منصب بھی خواہ ان کا تعلق قیادت سے ہو یا حکومت سے اس دوسرے مفہوم کی تائید سیاق کلام سے ہوتی ہے نیز ذمہ داری کے منصب  کے لئے امانت کا لفظ حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کب آئے گی اپ نے فرمایا: اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الاساعۃ قال کیف اضاعتھا قال اذا وسد الا مرُ الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو، پوچھا امانت کا ضائع کرنا کیا ہے ؟ فرمایا "جب معاملات (حکومت) نااہلوں کے حوالہ کر دئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو" (بخاری) ۔ معلوم ہوا کہ قیادت و رہنمائی اور سیاست و حکومت کی ذمہ داریوں کے مناصب نااہل، بد اخلاق، ظالم، بد دیانت، اور فاسق و فاجر لو گوں کے سپر د کرنا عام بگاڑ اور زبردست تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے (اصولی بات یہی ہے رہی حالات کی مجبوری تو اس کا تعلق اجتہاد سے ہے) امانت کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ذمہ داریاں اللہ کی سپر د کردہ امانتیں ہیں جن کے بارے میں اس کے حضور جوابدہی کرنا ہو گی۔

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اقتدار کی ذمہ داری کی طرف ہے اور ہدایت یہ کی جا رہی ہے کہ اللہ کی طرف سے اقتدار پانے کے بعد تمہاری اولین ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اولی الامر (اصحاب امر) سے مراد ارباب اقتدار (Men of Authority) ہیں خواہ ان کا تعلق حکومت کے کسی بھی شعبہ سے ہو نبیﷺ جہاد کے لئے جو فوجی دستے روانہ کرتے تھے ان پر کسی کو امیر مقرر فرماتے تھے منکم کا لفظ صراحت کرتا ہے کہ یہاں وہ ارباب اقتدار مراد ہیں جو مسلمانوں میں سے ہوں ان کی اطاعت اس لئے مطلوب ہے تاکہ اسلام کے اجتماعی احکام کی تعمیل ہو، اس کے قوانین کو نافذ کیا جا سکے سوسائٹی کو صالح بنانے میں مدد ملے اور ایک عادلانہ نظام کا قیام عمل میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کلمۂ حق سربلند ہو، اصحاب امر کی اطاعت کے سلسلہ میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

 

۱) اس آیت میں اللہ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس حکم میں اطاعت کا لفظ دو جگہ بیان ہوا ہے ایک اللہ کے ساتھ اور دوسرے رسول کے ساتھ جبکہ اولی الامر کے ساتھ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اصل اطاعت اور وفاداری اللہ کی ہے اور اس کے بعد اس کے رسول کی، رہی اولی الامر کی اطاعت تو وہ ان دو اطاعتوں کے تابع ہے اس سے آزاد ہر گز نہیں۔

 

۲) یہاں اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس کو ان حکمرانوں پر منطبق کرنا صحیح نہیں ہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا یا جن کا مشن ہی اللہ سے بغاوت پر لوگوں کو آمادہ کرنا ہو یا جو لادینی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوں یا خود فرعون بن بیٹھے ہوں۔

 

۳) اولی الامر کی اطاعت کا حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ دیں اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو تو اس صورت میں اطاعت کا سوال پیدا نہیں ہوتا نبیﷺ کی حدیث ہے : لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں "

 

۴) اس آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا جو مثبت حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اس سے یہ منفی معنی نکالنا صحیح نہیں کہ اگر مسلمان کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہوں تو وہاں ان کے لئے بدنظمی (Anarchy) کی صورت پیدا کرنا روا ہے۔ موجو دہ نظام حکومت میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اس لئے قطع نظر اس سے کہ قانون بنانے والے لوگ کون ہیں اور کیسے ہیں قانون اگر بجائے خود اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے نہیں ٹکراتا یا اسلام نے مباحات کاجو وسیع دائرہ رکھا ہے اس سے متعلق ہے تو اس کی پابندی اسلام کے منشا کے خلاف ہر گز نہیں بصورت دیگر اسے اضطرار اور مجبوری کی حد تک ہی گوارا کیا جا سکتا ہے

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا نے سے مراد کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرنا ہے۔ اوپر حکم و اختیار رکھنے والوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا یہاں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجو ع کرو یہ ہدایت دونوں کے لئے ہے ان کے لئے بھی جن کو اصحاب امر کی اطاعت کرنا ہے اور ان کے لئے بھی جو اصحاب امر ہیں یہ ایک جامع ہدایت ہے جس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔

 

۱) مسلمانوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ اختلاف کا حق ہے اور اختلاف کی صورت میں فیصلہ کن چیز کتاب و سنت ہیں۔

 

۲) اس حق کا تقاضا یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ارباب اقتدار پر تنقید کی آزادی کا حق حاصل ہو۔

 

۳) اختلافات خواہ امت کے درمیان ہوں یا حکومت اور عوام کے درمیان یا خود اصحاب امر کے اندر فیصلہ کے لئے قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا چاہئیے اور جو فیصلہ وہاں سے ملے اس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا چاہئیے۔

 

۴) حق کی کسوٹی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے اس لئے علماء، بزرگ، ائمہ، فقہا اور قائدین سب کے اقوال کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے ان میں سے کوئی بھی حق کی کسوٹی نہیں ہے کہ اس کا قول اور عمل لازماً صحیح ہو یا حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہو۔

 

۵) امام کے معصوم ہونے کا تصور جیسا کہ مسلمانوں کے بعض فرقوں کا عقیدہ ہے سراسر باطل ہے اگر یہ صحیح ہوتا تو عام مسلمانوں کو ان سے اختلاف کا حق دیا نہیں جاتا اور عام مسلمانوں کے آپس کے اختلاف کی صورت میں امام کی طرف رجو ع کرنے کا حکم دیا جاتا جبکہ اس آیت سے ان دونوں باتوں کی تردید ہوتی ہے چرچ کی معصومیت جیسا کوئی تصور اسلام میں ہرگز نہیں ہے۔

 

۶) کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جن مسائل میں کتاب و سنت کے نصی احکام موجود ہیں ان کی اسی طرح تعمیل کی جائے اور اگر حالات نے کوئی نیا مسئلہ کر دیا ہو تو کتاب و سنت کی دلیل کو متعلقہ مسئلہ میں فیصلہ کن تسلیم کیا جائے اور اشارات اور مقتضیات کو سامنے رکھکر یہ معلوم کیا جائے کہ کو ن سی بات کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کے اس طریقہ کو قیاس اور اجتہاد کہتے ہیں۔

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر قسم کے اختلافات میں خواہ ان کی نوعیت مذہبی ہو یا سیاسی ہو قرآن و سنت کی طرف رجو ع کرنا ایمان کا صریح تقاضا ہے اس سے دنیا میں بھی بھلائی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہترین ثمرہ ملے گا۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "طاغوت" استعمال ہوا ہے جس کی تشریح اس سے پہلے گزر چکی (سورہ نساء نوٹ ۱۱۶، سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۸) یہاں طاغوت کا لفظ کتاب و سنت کے مقابل کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ بعد والی آیت سے واضح ہے اس لئے یہاں اس سے مراد وہ حاکم یا جج ہے جو اللہ اور رسول کا مخالف ہو اور کتاب و سنت کے خلاف فیصلہ کرتا ہو۔

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جس بات کو ایمان کے منافی قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کتاب و سنت کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اور " طاغوت" کی عدالت میں اپنا مقدمہ اس لئے لے جائے تاکہ وہاں اس کے حق میں فیصلہ ہو اگر چہ کہ وہ فیصلہ شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو واضح رہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر کیا گیا ہے وہ اہل کتاب سے تعلق رکھتے تھے وہ ایمان لانے کے بھی مدعی تھے اور ساتھ ہی اپنے مقدمات رسول کی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یہود کی عدالت میں پیش کرنا چاہتے۔ روایات میں کعب ابن اشرف کنام آتا ہے جو یہودیوں کا سردار تھا اور مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا منافقین اس کی طرف رجو ع کر تے ظاہر ہے کہ ان کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی تھا لیکن وہ ایمان اور کفر دونوں کو جمع کرنا چاہتے تھے یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ان آیات کے نزول کے وقت تک مدینہ کی اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکا تھا اور مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کی قبائلی ریاستیں قائم تھیں اس طرح گویا اس علاقہ میں اسلام اور طاغوت کی متوازی عدالتیں Parallel courts قائم تھیں۔

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس وقت اسلام دشمن طاقتوں کا زور ٹوٹے گا اور مسلمانوں کو غلبہ اور استحکام حاصل ہو گا اس وقت یہ منافقین اپنے کو بے یار و مددگار پا کر تمہارے پاس معذرت کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے سابقہ رویہ کی یہ توجیہ کریں گے کہ ہمارا مقصد تو، مسلمانوں اور یہودیوں میں میل ملاپ پیدا کرنا تھا چنانچہ اس آیت کے نزول کے چند سال بعد یہی صورت پیش آئی۔

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے ان کے علاج کی صحیح تدبیر یہاں بتائی گئی جس سے دعوت و اصلاح کا کام کرنے والوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنے اس کام کے لئے مورث پیرایہ بیان اختیار کریں اور ان کا طریقۂ دعوت Approach ایسا ہو کہ دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول اسلئے نہیں آتا کہ اس کے ساتھ صرف ف عقیدت کا اظہار کرو اور پھر اس کی اطاعت یا نہ کرو بلکہ رسول اس لئے آتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے کیوّنکہ رسول خدا کی طرف سے احکام اور قوانین لے کر آتا ہے۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسو ل کی موجودگی میں طاغوت کی عدالت میں مقدمات لے جانا رسو ل کے لئے تکلیف دہ بات تھی اور اس سے عدالت رسول کی توہین ہوتی تھی اس لئے اس گناہ کی تلافی کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہونے کے ساتھ رسول کی بھی دعائے مغفرت کے طالب بنیں۔

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ رسول کی اطاعت بغیر کسی تحفظ کئے اور بے چوں و چرا کرنا ایمان کا کھلا ہوا تقاضا ہے نبیﷺ کے کسی بھی فیصلہ پر ایک مسلمان کو خلش تک نہیں محسوس کرنا چاہئے کجا یہ کہ وہ آپ کے کسی حکم اور کسی فیصلہ کو اپنی خواہش یا زمانہ کے رجحانات کے مطابق نہ پا کر اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے۔

 

علامہ جصاص لکھتے ہیں " یہ آیت اس بات  پر دلالت کرتی ہے ک جو شخص اللہ یا اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کو رد کر دے وہ اسلام سے خارج ہے خواہ اس نے شک کی بنا پر اس حکم کو رد کیا ہو یا ماننے اور قبول کرنے ہی سے اسے انکار ہو " (احکام القرآن ، ج ۲، ص ۲۶۰)

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس بات کا چاہے حکم دے اور جب دنیا کی زندگی آزمائش ہی کے لئے ہے تو اپنے آپ کو قتل کرنے یا گھر بار چھوڑ دینے کا حکم دے کر بھی آزمائش کی جا سکتی تھی لیکن خداوند رحمن نے انسان کو اتنی زبردست آزمائش میں نہیں ڈالا اور شریعت آسان بنا دی۔

 

اس کے بعد بھی اگر لوگ شریعت پر نہ چلیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہو گی اس آیت سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی اصل روح Spirit یہ ہے کہ اللہ کی وفاداری ہر چیز پر مقدم ہو حتی کہ اپنی جان پر بھی اور اس کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے یہاں تک کہ اپنے گھر بار اور اپنے وطن عزیز کو بھی خیر باد کہا جا سکتا ہے جس موقع پر دین کا جو تقاضا ہو اس کا پورا کرنا ہی اصل دینداری ہے۔

 

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ منافقانہ طرز عمل چھوڑ دیتے اور خلوص کے ساتھ رسول کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتے تو انہیں زندگی کے ہر معاملہ میں حق و صداقت کا راستہ نظر آتا اور صحیح طرز عمل کی توفیق نصیب ہوتی۔

 

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام سے مراد ایمان اور ہدایت کی نعمت سے نوازنا ہے (ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱۰) ۔

 

۱۳۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام یافتہ گروہ چار ہیں : انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین۔

 

انبیاء سے مراد وہ تمام پیغمبر ہیں جو مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اللہ کی طرف سے دین حق لے کر آئے۔

 

صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں صداقت شعاری کا وصف کمال درجہ پر ہو یہ ایمان و عمل کے لحاظ سے انبیاء کے بعد صف اول کے لوگ ہیں۔ شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کی شہادت دینے میں اپنی جان بھی قربان کر دی اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کا رویہ اختیار کیا جنت کی سوسائٹی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی گویا انسانیت کا سارا جوہر وہاں موجود ہو گا ایسے بہترین لوگوں کی رفاقت کا میسر آنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہو گا نیک آدمی دنیا میں بھی اپنی رفاقت کے لئے نیک آدمیوں ہی کا انتخاب کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی نیک لوگوں ہی کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

 

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جنگ کی دو صورتیں تھیں ایک منظم فوج کشی دوسرے دستوں کی صورت میں دشمن پر چھاپہ مارنا جسے " سَرِیّہ " کہتے ہیں ان دونوں طریقوں کو اختیار کرنے کی ہدایت اس آیت میں دی گئی ہے اور نبیﷺ نے یہ دونوں طریقے اختیار کئے تھے۔

 

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین مسلمانوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی نہیں سمجھتے اس لئے انہیں اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور وہ مال غنیمت میں حصہ دار بننے سے محروم رہے۔

 

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے ان لوگوں کو اٹھنا چاہئے جو آخرت کی خاطر اپنی دنیا تج دیں ایسے ہی لوگ اپنے ایمان میں مخلص اور اللہ کی راہ کے  مجاہد ہیں رہے وہ لوگ جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے مفاد کو عزیز رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین کے لئے انہیں کوئی قربانی نہ دینا پڑے تو جہاد کی راہ ایسے لوگوں کے لئے نہیں ہے۔

 

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مکہ اور اس کے اطراف میں مسلمان محض اس لئے کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا الفاظ دیگر وہ مسلمانوں کو ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق دینے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے قرآن نے بتلایا کہ ایسے مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے لئے جنگ کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

 

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں طاغوت سے مراد شیطان ہے جیسا کہ بعد کے فقرہ سے واضح ہے اور طاغوت کی راہ میں لڑنے سے مراد ان باطل مقاصد کے لئے لڑنا ہے جن کے لئے شیطان انسان کو ابھارتا ہے یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کرنے، اس کے ماننے والوں کا زور توڑنے، حکم خداوندی کی جگہ انسان کا حکم چلانے، زمین پر اصلاح کے بجائے فساد برپا کرنے اور اسلام کے بجائے کفر کو غالب کرنے کی غرض سے لڑنا۔

 

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ شیطان کے ورغلانے میں آ کر اسلام اور اس کے علمبرداروں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں ان کی یہ کاروائیاں کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں ہوتیں اس لئے اگر اہل حق ان کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں تو ان کے سارے منصوبے خاک میں مل کر رہ جائیں گے۔

 

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت سے امام رازی نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جہاد پر مقدم ہیں (ملاحظہ ہو تفسیر رازی، ج ۳، ص ۲۷۲) بلاشبہ دین میں ان دو چیزوں کو اولیت حاصل ہے اور یہ عبادتیں مقصود بالذات ہیں رہا جہاد تو اس کی اہمیت اور فضیلت اپنی جگہ، وہ واجب اسی وقت ہو تا ہے جبکہ حالات اس کے متقاضی ہوں ورنہ ایک مسلمان کے لئے اس کی نیت رکھنا کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقام نہایت بلند ہو نے کے باوجود اس کا شمار ارکان خمسہ میں نہیں ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد جب فرض عین قرار پائے تو اس سے جی چرانا ایمان کو مشتبہ بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایمان کا کھلا تقاضا ہے کہ آدمی دین کے لئے غلبہ چاہے اور اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔

 

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک جنگ کا حکم نہیں دیا گیا تھا اس کے لئے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن جب اس کا حکم دیدیا گیا تو ان پر شاق گزرنے لگا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے۔

 

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں جو قربانیاں بھی تم دو گے وہ رائیگاں جانے والی نہیں ہیں بلکہ تمہیں ان کا پورا پورا اجر ملے گا۔

 

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی تدبیر اور احتیاط سے کام نہ لے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلا نہ ہو کہ تدابیر اسے موت سے بچا سکتی ہے موت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی اس لئے آدمی کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے گریز نہ کرے۔

 

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کسی مشکل سے دوچار ہو تو اسے یہ منافق پیغمبر کی بے تدبیری پر محمول کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ئی کام بغیر خدا کے حکم کے نہیں کرتا اور کائنات میں تصرف بھی اللہ ہی کا ہے اس کی مشیت کے بغیر نہ کوئی نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان اس لئے کسی نقصان کے پہنچ جانے پر اس کی ذمہ داری پیغمبر پر ڈالنا خلاف واقعہ بھی ہے اور ایمان کے منافی بھی۔

 

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گو خیر اور شر دونوں چیزیں اللہ ہی کی مشیت سے ظہور میں آتی ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ خیر کی حالت ا للہ کی رحمت کا فیضان ہے جبکہ شر کی حالت انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور اللہ کے بخشے ہوئے اختیارات کو غلط طریقہ پر استعمال کرنے سے ظہور میں آتی ہے اس لئے شر کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔

 

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر منافقین رسول کی ہر بات کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے ہیں تو نہ سمجھیں محمدﷺ کے رسول ہونے کے لئے اللہ کی گواہی کافی ہے اور یہ گواہی اللہ نے قرآن کے ذریعہ دی ہے اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے تمہیں لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ صرف عربوں کی طرف نہیں بلکہ تمام اقوام کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

 

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آیات صراحت کرتی ہیں کہ رسو ل کی اطاعت درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس لئے کہ رسو ل جو بھی حکم دیتا ہے خدا ہی کی طرف دیتا ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی اطاعت بہ حیثیت رسول نہ صرف آپ کی زندگی بلکہ آپ کی وفات کے بعد اسی طرح مطلوب ہے

 

ہمارے لئے آپ  کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ سنت ثابتہ اور احادیث صحیحہ ہیں ان کی پیروی آپؑ کی اطاعت کے ہم معنی ہے اور ان سے انکار آپﷺ کی نافرمانی کے مترادف ہے۔

 

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو زبردستی راہ ہدایت پر چلائے بلکہ اس  کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔

 

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین میں بعض ایسے بھی تھے جو مدینہ میں رات کو مجلسیں جما کر اسلام اور نبیﷺ کے خلاف خفیہ مشورے کرتے تاکہ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں اور اپ کو زک پہنچائی جا سکے۔

 

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قرآن پر تدبر کی دعوت دی گئی ہے جس سے درج ذیل باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔

 

۱) تدبر کی یہ دعوت عام ہے چنانچہ ان لوگوں کو بھی قرآن پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو مؤمن نہیں ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ اس کے مضامین باہم مربوط اور اس کی تعلیمات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں جبکہ اس کا موضوع نہایت وسیع ہے یعنی انسانی زندگی کے لئے مکمل ہدایت، یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو ایسے وسیع موضوع پر جس کا تعلق مشاہدات ہی سے نہیں ما بعد الطبیعی حقائق سے بھی ہو اور جو انسان کی فطرت، اس کی نفسیات، اس کے مبداء و معاد اور اس کی زندگی کے جملہ گوشوں سے بحث کرتا ہو ممکن نہیں کہ اس میں تضاد نہ پایا جائے۔

 

کیونکہ انسان کا علم محدود ہے اس لئے وہ کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات پیش کر سکتا ہے جو انسان کو صحیح طور سے زندگی گزارنے اور اس کے خالق سے صحیح تعلق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔

 

۲) قرآن پر غور کرتے رہنے سے حکمت کے دروازے کھلتے ہیں اور ایمان و ایقان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

 

۳) یہ بات صحیح نہیں کہ قرآن صرف عالموں کے سمجھنے کی چیز ہے بلکہ ہر انسان کے سمجھنے کی چیز ہے اگر یہ عالموں کے لئے مخصوص ہوتا تو اس پر تدبر کی عام دعوت نہ دی جاتی۔

 

۴) قرآن کی تمام باتیں باہم مربوط اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اس لئے کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو دوسری آیتوں سے متناقض ہو۔

 

۵) قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا اور اس کی تعلیمات پر معترض ہونا سراسر تضاد فکری ہے اور یہ نتیجہ ہے قرآن پر تدبر نہ کرنے کا۔

 

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت مدینہ میں جنگ کے حالات تھے۔ ایسے حالات میں افواہیں پھیلانے میں سرگرم  ہو گئے تھے اس لئے ان کی اس حرکت پر گرفت کی گئی اور اس قسم کی خبروں کو رسول اور ذمہ دار لوگوں کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے اصولی طور پر یہ ہدایت ملتی ہے کہ ملت کی سیاسی زندگی پر اثر انداز ہونے والی خبروں کو عوام میں پھیلانے سے پہلے ذمہ دار افراد کے علم میں لانا چاہئے تاکہ وہ ان کی حقیقت معلوم کر سکیں ضمناً اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اصحاب امر کے منصب کے لئے موزوں وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر سوجھ بوجھ معاملہ فہمی اور تدبر کے اوصاف پائے جاتے ہوں۔

 

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو حق کی تائید و حمایت کریں گے وہ اس کا اجر پائیں گے اور جو اس کی مخالفت کریں گے وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔

 

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقین سے اعراض کی جو ہدایت آیت ۸۱میں دی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان ان کے ساتھ اخلاق سے پیش نہ آئیں اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ جو شخص بھی اپنے کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور تمہیں سلام کرتا ہے تم اس سے بے رخی نہ برتو بلکہ اس کے سلام کا جواب اس سے بہتر طریقہ پر دو یا کم از کم ان الفاظ ہی کو لوٹاؤ۔ اسلامی تہذیب کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو السّلامُ علیکم  (تم پر سلام ہو) کے دعائیہ کلمات کے ساتھ سلام کرے اور اس کے جواب میں دوسرا مسلمان وَعَلَیْکُمُ السّلَامُ (تم پر بھی سلام ہو) کہے سلام کے یہ کم سے کم کلمات ہیں اور اگر اس پر و رحمۃ اللہ و برکاتہ (اور تم پر اللہ کی رحمت اور برکت بھی ہو) کا اضافہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ حدیث میں یہ کلمات آئے ہیں۔

 

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دار الحرب کے منافقین ہیں جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے لیکن اصلاً انہیں دلچسپی کفر سے تھی چنانچہ وہ کافروں کے ساتھ مل کر ان کاروائیوں میں حصہ لیتے تھے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جاتیں اور انہیں اپنا گھر بار اتنا عزیز تھا کہ وہ ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے ملنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں مسلمانوں میں دو رائیں پائی جاتی تھیں ایک گروہ کہتا تھا کہ ان کے ساتھ بھی کافروں جیسا معاملہ کیا جانا چاہئے لیکن دوسرا گروہ اس امید پر کہ وہ اچھے مسلمان بن جائیں گے ان کے  ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر قرآن نے انہیں متنبہ کیا کہ وہ خود کیا مسلمان بنیں گے الٹے وہ تمہیں کا فر بنا نے کی فکر میں ہیں اگر وہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں تو ہجرت کر کے نبی اور اس کے ساتھیوں سے آ ملیں بصورت دیگر ان سے بھی جنگ کرنا چاہئیے۔

 

 

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مصلحت پرستی اختیار کی اور کفر کی طرف قدم بڑھایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو الٹے پاؤں کفر ہی کی طرف دھکیل دیا۔

 

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہاں ان لو گوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا لیکن تھے  وہ در حقیقت کافر اور اس بات کے خواہشمند تھے کہ مسلمان بھی کافر بن جائیں ان کا یہ کفر ہی تھا جو انہیں ہجرت سے روک رہا تھا کیونکہ ہجرت کے لئے زبردست قربانی کی ضرورت تھی۔

 

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ ہجرت کرتے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مخلص مسلمان بنیں گے اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں مخلص مؤمن بننے کی توفیق عطا کرے واضح رہے کہ یہاں ہجرت کے ساتھ فی سبیل اللہ کی بھی قید ہے یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہجرت ایمان کے تحفظ اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ہو اسی صورت میں دوست بنایا جا سکتا ہے۔

 

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی صورت میں تم انہیں دشمنوں کا ساتھی سمجھو اور جہاں پاؤ، پکڑو اور قتل کرو۔ یہ حکم ان منافقین کا ہے جو کافر قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں اوپر نوٹ ۱۵۹میں اس کی تشریح گزر چکی ہے۔

 

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو قتل کے حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی جو منافق کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ مسلمانوں  کا معاہد ہ ہے تو معاہد ہ کے احترام کی بنا پر ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا اسی طرح ان منافقین سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا جو غیر جانب دار رہیں یعنی نہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کریں اور نہ مسلمانوں کی حمایت میں اپنی قوم سے لڑیں۔

 

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ ان کو حوصلہ دیتا تو وہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے لیکن ایسا نہیں ہوا لہٰذا ان کے موجود ہ رویہ کو غنیمت سمجھو اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں اور تمہارے ساتھ صلح و آشتی کا رویہ اختیار کئے رہیں تم بھی ان کے خلاف اقدام نہ کرو۔

 

۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں فتنہ سے مراد جنگی کاروائیاں ہیں جو کفار مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے۔

 

۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مسلمانوں کے خطرے سے بھی محفوظ رہنا چاہتے تھے اور اپنی قوم کے خطرے سے بھی لیکن جب ان کی قوم کا دباؤ پڑ جاتا یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنی قوم کے ساتھ شریک ہو جاتے۔ چنانچہ قبیلہ اسد و غطفان کے لوگوں نے مدینہ آ کر اسلام قبول کیا اور نبیﷺ سے معاہدہ بھی کیا لیکن اپنی قوم میں واپس لوٹ کر قوم کے اصرار پر مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدامات میں شریک ہو گئے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ ان کو جہاں پاؤ گرفتار کرو اور قتل کرو۔

 

۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قتل خطا کا کفارہ ہے چونکہ مقتول مؤمن تھا اس لئے اس کا کفارہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک مومن غلام کو آزاد کیا جائے موجود ہ زمانہ میں غلامی کا رواج باقی نہیں رہا اس لئے کفارہ کی ادائے گی کی دوسری صورت اختیار کرنا ہو گی یعنی دو ماہ کے مسلسل روزے جیسا کہ اسی آیت میں آگے بیان ہو ا ہے۔

 

۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیت (خون بہا) کی مقدار نبیﷺ نے ایک سو اونٹ مقرر فرمائی تھی (احکام القرآن للجصاص، ج ۲، ص ۲۸۳)

 

لہذا اگر نقدی کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس کے مساوی قیمت ادا کرنا ہو گی۔

 

۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کے غلطی سے قتل کئے جانے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی صورت یہ کہ مقتول دار الاسلام کا باشندہ ہو اس صورت میں کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا اور خون بہا بھی دینا ہو گا دوسری صورت یہ ہے کہ مقتول دار الحرب کا باشندہ ہو اس صورت میں صرف کفارہ دینا ہو گا اور تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول معاہد ہ قوم سے تعلق رکھتا ہو یعنی کسی ایسے دار الکفر کا باشندہ ہو جس سے مسلمانوں نے معاہدہ کر رکھا ہے اس صورت میں کفارہ بھی دینا ہو گا اور دیت بھی ادا کرنا ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے خالد بن ولید کو بنی خزیمہ کی طرف بھیجا انہوں نے بنی خزیمہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی انہوں نے اپنے قبول اسلام کا اعلان ایک ایسے لفظ سے کیا جو مبہم تھا یعنی (اسلمنا) کے بجائے (صبأنا) کہا حضرت خالدؓ نے غلط فہمی میں ان کے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ جب نبیﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا خدایا خالد نے جو کچھ کیا اس سے میں بری ہوں اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیج کر ان کے مقتولوں کو دیت ادا کر دی اور ان کے نقصان کی تلافی کی حتی کہ ان کے کتے کی بھی قیمت ادا کر دی۔ یہ حدیث بخاری کی ہے اور اسے نقل کر کے ابن کثیر ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حکم نکلتا ہے امام یا اس کے نائب (سپہ سالار وغیرہ) سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا معاوضہ بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۵۳۵)

 

۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ غلامی کا رواج ختم ہو گیا ہے غلام کو آزاد کرنے کا بدل یہ ہو گا کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں متواتر کا مطلب یہ ہے کہ بلا عذر شرعی ایک  روزہ بھی بیچ میں چھوڑ نہ دیا جائے اور جو شخص روزے بھی نہ رکھ سکتا ہو  اس کے مسئلہ کا حل علماء کا ایک گروہ یہ بتا تا ہے کہ اسے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یہ بات ظہار کے کفار ہ پر قیاس کر کے کہی گئی ہے۔

 

۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کفارہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ توبہ ہے تاکہ قتل کرنے والے کو اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اللہ کی طرف رجو ع ہو۔

 

۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں کسی مسلمان کو ناحق اور دانستہ قتل کرنے والے کے لئے پانچ وعیدیں آئی ہیں ایک یہ کہ اس کی سزا جہنم ہو گی دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا تیسری یہ کہ اس پر اللہ کا غضب ہو گا چوتھی یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو گی اور پانچویں یہ کہ اسے بہت بڑا عذاب بھگتنا ہو گا جو اس کے لئے خاص طور سے تیار رکھا گیا ہے اس سے اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اسلام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور حدیث میں اسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے نبیﷺ کا ارشاد ہے :" سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر"" مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے (مسلم کتاب الایمان) ۔ لا ترجعو ا بعد ی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (مسلم کتاب الایمان) ۔

 

۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی علاقہ پر حملہ کے لئے نکلو تو پوری تحقیق کر لو کہ مسلمان کہاں کہاں ہیں تاکہ ان پر غلطی سے حملہ نہ کر بیٹھو اور اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لئے تمہیں سلام کرے تو اس کے اسلام کا انکار نہ کرو اگر مال غنیمت کے لالچ میں اس پر حملہ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے اللہ کے پاس مال ک بڑے ذخیرے ہیں لہذا اجر آخرت کو مقصود بناؤ۔ اسلام میں جنگ کا مقصد محض ملک فتح کرنا نہیں ہے بلکہ حق اور عدل کا قیام ہے اس لئے اگر عین حالت جنگ میں دشمن قوم کا کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے یا السلام علیکم کہ کر اپنے مسلمان ہو نے کا اظہار کرتا ہے تو باوجود اس احتمال کے کہ ممکن ہے جان بچانے کی خاطر جھوٹ بول رہا ہو اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ واقعی مسلمان ہو گیا ہو لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ اس سے یہ اصولی ہدایت ملتی ہے کہ کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلائے اسے مسلمان تسلیم کرنا چاہئیے الّا یہ کہ تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے۔

 

۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے تم نے بھی محض کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان میں پختگی عطا فرمائی اور تم پکے مسلمان بن گئے اسی طرح یہ لوگ بھی اگر اپنے مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کریں تو اسے تسلیم کرو۔

 

۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس صورت کا ذکر ہے جبکہ جہاد کے لئے نفیر عام نہ ہوئی ہو اور کچھ لوگوں کا جہاد کرنا کفایت کرتا ہو چنانچہ نبیﷺ چھوٹی چھوٹی مہم پر فوجی دستے روانہ کرتے تھے جس کو " سریّہ " کہا جاتا ہے ایسے حالات میں جہاد کی حیثیت ایک درجۂ فضیلت ہی کی ہے لیکن اگر جہاد فرض عین یا نفیر عام ہو جائے تو اس صورت میں بھلائی کا وعدہ بلا عذر رہنے والوں کے لئے نہیں ہے واضح رہے کہ جن غزوات میں خود نبیﷺ نکل گئے تھے ان میں بلا عذر بیٹھ رہنے والوں پر قرآن میں سخت گرفت کی گئی ہے کیونکہ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ کا رسو ل اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایک مہم پر روانہ ہو جائے اور اس کے پیرو اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ایمان کا صریح تقاضا یہ ہے کہ نبی کی جان اپنی جان سے بھی عزیز تر ہو اور واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر جہاد سے وہی لوگ کتراتے تھے جو منافق تھے ورنہ ہر مسلمان جان نثارِ رسول تھا۔

 

۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبیﷺ کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد جو مسلمان مکہ اور اس کے اطراف میں رہ گئے تھے ان پر ہجرت فرض ہو گئی تھی ہجرت کا یہ حکم درج ذیل وجوہ سے دیا گیا تھا :

 

۱) مکہ اور اس کے اطراف کے علاقہ میں جہاں مشرکین کو اقتدار حاصل تھا عقیدہ و ضمیر کی آزادی حاصل نہیں تھی اس لئے جو لوگ مشرکانہ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے تھے اور انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا جار ہا تھا کہ وہ دین اسلام چھوڑ کر مشرکانہ مذہب میں واپس آ جائیں ان حالات میں ایمان پر قائم رہنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا نتیجہ یہ کہ جن لوگوں کا ایمان ابھی پختہ نہیں ہوا تھا وہ یا تو اپنے ایمان کو چھپاتے یا مشرکانہ مذہب کے ساتھ سازگاری پید آ کرتے اس طرح اسلام اور شرک اور ایمان اور کفر دونوں کو جمع کیا جاتا ظاہر ہے کہ جس زمین میں ایمان پر قائم رہنے کی آزادی نصیب نہ ہو اس زمین کو خیر آباد کہنا ایمان کا صریح تقاضہ ہے خواہ وہ مکہ کی مقدس زمین ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ایمان اور خدا سے وفاداری خاک و خون کی وفاداریوں پر مقدم ہے۔

 

۲) اللہ کے رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد مسلمانوں کے ہجرت سے گریز کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ رسول کی محبت پر اپنے گھر بار کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں جب رسول سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو رسو ل نے چھوڑا اسے اہل ایمان بھی چھوڑ دیں اور رسول  کی معیت اس کی خدمت میں حاضری اور اس کی مدد کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

 

۳) اسلام اور کفر کے درمیان جنگ برپا تھی اور اللہ کا رسول اپنے مٹھی بھر رفقاء کے ساتھ مشرکین مکہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے خود میدان جہاد میں موجود ہوتا تھا اس لئے اس وقت اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کی طاقت ایک مرکز پر جمع ہو اور رسول کی قیادت میں دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے لیکن جن مسلمانوں نے ہجرت نہیں کی تھی ان کا وزن اسلام کے پلڑے میں پڑنے کے بجائے دشمنان اسلام کے پلڑے میں پڑ رہا تھا یہاں تک کہ بعض لوگ مشرکین کے دباؤ کی وجہ سے ان کے لشکر میں شریک ہونے کے لئے اپنے کو مجبور پاتے اور اس طرح رسول اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ کے لئے میدان جنگ میں آ موجود ہوتے۔ یہ تھے اس وقت کے حالات جن میں مکّہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں اس حکم کی تعمیل نہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان کو فتنہ میں ڈالنا گوارا کر لیں لیکن اپنا گھر بار چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں اسی لئے اس آیت میں کسی حقیقی عذر کے بغیر ہجرت نہ کرنے کو اپنے نفس پر ظلم ڈھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور انہیں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جس ملک میں بھی اظہار اسلام کی آزادی نہ ہو اور جبر و استبداد کی وجہ سے ایمان ہی خطرہ میں پڑ جائے وہاں سے کسی ایسے خطۂ زمین کی طرف ہجرت کرنا ضروری ہے جہاں ایمان کی حفاظت کی جا سکتی ہو اور اسلام کے کم از کم بنیادی تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہو الّا یہ کہ ایسے حالات میں بھی آدمی ہجرت کرنے پر قادر نہ ہو۔

 

۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ وعدہ حرف بہ حرف پور ا ہوا اور مہاجرین کو مدینہ میں بڑا عمدہ ٹھکانہ میسر آیا اور رفتہ رفتہ انہیں معاشی فراوانی بھی حاصل ہو گئی۔

 

۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی حکم کی بجا آوری کے سلسلہ میں آدمی کی نیت اور عملی قدم اٹھانے کا اعتبار ہے اگر اس کام کی تکمیل سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر مارا نہیں جائیگا اور وہ اس کی بخششوں اور رحمتوں کا مستحق قرار پائیگا۔

 

۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ "صلوٰۃ خوف " کا بیان ہے یعنی حالت جنگ میں نماز ادا کر نے کا طریقہ جسے "قصر " سے تعبیر کیا گیا ہے اور "قصر" کی جو شکل نبیﷺ کی سنت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نمازوں کی رکعتیں چار چار کے بجائے دو دو پڑھی جائیں رہیں مغرب اور فجر کی نمازیں تو ان میں قصر نہیں ہے لہٰذا سفر اور حضر دونوں میں مغرب کی تین رکعتیں اور فجر کی دو رکعتیں ادا کی جائیں گی۔ قصر کا حکم اصلاً جہاد کی وجہ سے دیا گیا تھا لیکن پھر ہر طرح کے سفر کے لئے عام کر دیا گیا لیکن سفر میں بالعموم بے اطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے نبیﷺ نے حالت امن کے سفر میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کو جائز ٹھہراتے ہوئے فرمایا : صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا علیکم فَاقْبَلُو اصدقتہ قصر کی اجازت اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے لہٰذا اس بخشش کو قبول کرو۔ (مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین) ۔ اور نبیﷺ سے یہ سنت بھی ثابت ہے کہ آپﷺ خوف اور امن دونوں حالتوں میں قصر فرمایا کرتے تھے۔

 

۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں حالت جنگ میں نماز با جماعت کی ادائے گی کا ایک مخصوص طریقہ بتا یا گیا ہے جو نبیﷺ کی موجودگی میں اختیار کرنا ضروری تھا کیونکہ آپﷺ کی موجودگی میں جب کہ آپﷺ نماز کی امامت فرما رہے ہوں مناسب یہی تھا کہ پوری فوج آپ ہی کی اقتداء میں نماز ادا کرے الگ الگ امام اور الگ الگ جماعتیں نہ ہوں اور صحابہ کرامؓ پر بھی یہ بات شاق تھی کہ آپﷺ امامت فرمائیں اور ان میں سے کوئی شخص اس میں شرکت سے محروم رہے اس لئے اپ کی موجود گی میں صلوٰۃ خوف ادا کرنے کا مخصوص طریقہ بتا یا گیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک گروہ اسلحہ کے ساتھ آپ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑا ہو اور دوسرا گروہ حفاظت کا کام انجام دے جب پہلا گروہ آپ کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے اور اس کے بعد پیچھے چلا جائے اور حفاظت کا کام سنبھال لے اور دوسرا گروہ اسلحہ کے ساتھ آئے اور آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے جب اپ کے ساتھ ایک رکعت ادا کر چکے تو دوسری رکعت بطور خود ادا کرے۔ اس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی اس کی ادائے گی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جہاد کی اصل روح نماز ہی ہے نیز اس سے نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے حالت جنگ میں اگر جماعت سے نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر فرداً فرداً ادا کرنا چاہئے اگر قبلہ کی طرف رخ نہ کیا جا سکتا ہو تو جس طرف بھی رخ کیا جا سکے اور اگر رکو ع اور سجدہ نہ کیا جا سکتا ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا چاہئے اور اگر ایسی حالت ہو کہ کسی طرح بھی نماز ادا نہ کی جا سکتی ہو تو پھر قضا کرنی چاہئیے۔ نبیﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر جبکہ معرکۂ قتال گرم تھا نماز مؤخر کی اور بعد میں قضاء پڑھی۔

 

۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر بارش کی وجہ سے ہتھیار اتارنا پڑے تو حفاظتی نوعیت کی چیزیں ضرور لئے رہو اس زمانہ میں حفاظتی نوعیت کی چیزیں زرہ بکتر، خود، ڈھال وغیرہ تھیں اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے دفاع کا اہتمام کرنے پر کس قدر زور دیا ہے۔

 

۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو ہر حال میں یاد کرو، اللہ کو یاد کرنے سے حوصلے بلند ہوتے ہیں لہذا میدان جنگ میں بھی ذکر الٰہی سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

 

۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب خوف کی حالت دور ہو اور اطمینان کی صورت پیدا ہو جائے تو معمول کے مطابق پوری نماز ادا کرو۔

 

۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز کے اوقات مقر رہیں جن کی پابندی اہل ایمان پر فرض ہے  رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ ان نمازوں کے اوقات کی تفصیل نبیﷺ نے بیان فرمائی ہے۔

 

۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اللہ سے اس کی نصرت اور آخرت کی کامیابی کی امید رکھتے ہو اس لئے تمہارے حوصلے بلند ہو نے چاہئیں اور تمہیں صبر سے کام لینا چاہئیے۔

 

۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں خیانت سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بے وفائی ہے جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے وہ ایک نہ ایک حرکت ایسی کرتے جس سے دین کو نقصان پہنچتا اور خدا اور رسول کے تعلق سے ان کی غلط ذہنیت کا اظہار ہوتا لیکن چونکہ یہ لوگ مسلمان کہلانے کی بنا پر مسلم معاشرے کا جز ء بن گئے تھے اور مسلمانوں کی ان سے رشتہ داریاں بھی تھیں اس لئے جب ان کی غلط حرکتوں پر گرفت کی جاتی تو بعض مسلمان ان کی حمایت کرنے لگتے یہاں اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بد عہدی کرنے والوں کی حمایت کرنا صحیح نہیں۔ کسی کے برسر حق ہونے یا بر سر باطل ہونے کا فیصلہ کتاب الٰہی کی روشنی ہی میں ہونا چاہئے اور بے لاگ ہونا چاہئے۔ آیت میں خطاب نبیﷺ سے ہے لیکن دراصل تنبیہ آپ کے واسطے سے ان مسلمانوں کو ہے جو منافقین کی حمایت کرتے تھے۔

 

۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی خفیہ مجلسوں اور سازشوں کی طرف۔

 

۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص صرف اپنے کئے کا ذمہ دار ہو گا اور دوسروں کے گناہوں کا بوجھ قبول کرنے والا نہیں پھر تم دنیا میں نام نہاد مسلمانوں کی بیجا حمایت کر کے کیا حاصل کر و گے ؟

 

۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں تھے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خلاف در پردہ سازشیں کر رہے تھے انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر اب بھی وہ اپنی گزشتہ حرکتوں پر نادم ہو کر اللہ سے معافی  مانگیں اور اللہ سے وفاداری کا تعلق جوڑیں تو اللہ کی بخشش و رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی اس حرکت کی طرف کہ جب ان کی کوئی سازش پکڑی جاتی یا ان کا کوئی گناہ ظاہر ہو جاتا تو وہ بہانہ بنا کر دوسروں کو اس کا قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرتے، قرآن نے اصولی طور پر واضح کیا کہ کسی بھی جرم یا گناہ کا ارتکاب بجائے خود بری بات ہے لیکن اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپنا، گناہ کا بہت بڑا بوجھ اپنے سر لینا ہے کیونکہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے۔

 

۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نبیﷺ کو خطاب کر کے اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو منافقین کے فتنوں سے تم بچ نہیں سکتے تھے وہ تمہارے خلاف برابر سازشیں کر رہے ہیں اور تمہیں غلط راستے پر ڈالنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں ان کے فتنوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ جس کتاب و حکمت سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نواز ا ہے اس کی قدر کرو۔

 

۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان منافقین کی اکثر سرگوشیاں فتنہ و فساد کے لئے ہوتی ہیں۔

 

۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے اس بات کی کہ پوشیدگی میں بھی بھلائی کی باتیں کی جائیں اور بھلائی ہی کے منصوبے بنائے جائیں۔

 

۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمنین کی راہ سے مراد سچے اہل ایمان کا طریقہ ہے اس آیت کے نزول کے وقت اس کے مصداق صحابۂ کرام تھے جنہوں نے دین کی مخلصانہ پیروی کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ رسول کے سچے وفادار تھے اس کی مکمل اتباع کرتے اور انہیں رسول کی طرف سے جو حکم بھی ملتا اس کی تعمیل میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے اگر چہ کہ اس کے لئے انہیں شدید خطرات مول لینا پڑتے دوسری طرف منافقین کا گروہ تھا جو اپنے کو مسلمان کہلاتا تھا لیکن جس پر دین کی مخلصانہ پیروی کرنا اور رسول کی سچی وفاداری کا ثبوت دینا شاق گزر رہا تھا اس لئے  وہ دین کے معاملے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتا تھا جو " مطابق مصلحت " ہو اور اسے اپنی خواہشات ، اپنے رجحانات، اپنے مال اور اپنی جان کی قربانی نہ دینا پڑے۔ وہ رسمی اور بے روح دینداری کو اختیار کر کے مطمئن تھا کہ جنت میں جانے  کے لئے یہ "شارٹ کٹ " کا فی ہے۔ اس ذہنیت کے لوگ آج بھی مسلمانوں کے اندر دیکھے جا سکتے ہیں زمانہ کی " مصلحتوں " نے انہیں اسلام میں ایک نئی راہ نکالنے پر مجبور کیا ہے اس لئے ان کی " دینداری " میں اور مخلص مسلمانوں کی " دینداری" میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ایک کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے تو دوسرے کا اس کی مخالف سمت کو، ایک اسلام کے احکام پر خلوص کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا بہانے تلاش کر کے اس سے  فرار کی راہ اختیار کرتا ہے ایک دین کی روح اجاگر کرتا ہے تو دوسرا اس پر مادیت کے پردے ڈال دیتا ہے ایک گروہ چاہتا ہے کہ اسلام کے معاشرتی قوانین برقرار رہیں مگر دوسرا گروہ اس کا خاتمہ چاہتا ہے ایک گروہ شرعی احکام کی تطبیق پر زور دیتا ہے لیکن دوسرا گروہ اصرار کرتا ہے کہ  انسان کے خود ساختہ قوانین ہی رائج ہو نے چاہئیں اس طرح دونوں کے زاویۂ نگاہ، طرز عمل، اور طریقۂ جدوجہد میں مشرق اور مغرب کا فرق ہوتا ہے یہ سب لوگ مسلم معاشرہ میں شامل سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ دوسرا گروہ مسلمان نہیں ہوتا اس قسم کے لو گ مسلمان کہلانے کے باوجود آخرت میں جہنم کے مستحق قرار پا سکتے ہیں۔

 

۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک، کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۱۱۱۔

 

۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے لہٰذا اس سے ہر حال میں لازماً بچنا چاہئیے۔

 

۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے سے مراد حاجت روائی، مشکل کشائی اور فریاد رسی کیلئے پکار نا ہے۔ مشرکین حاجت روائی  کے لئے دیویوں کو پکارتے ہیں کیونکہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا  ہو تے ہیں کہ خدا نے اپنے اختیارات ان میں تقسیم  کر دئے ہیں اس لئے کوئی دیوی دھن دولت سے نواز سکتی ہے تو کوئی بیمار کو اچھا کر سکتی ہے کوئی اولاد عطا کر سکتی ہے تو کوئی بگڑی ہوئی قسمت بنا سکتی ہے قرآن بتا تا ہے اور عقل اور فطرت اس کی تائید کرتی ہے کہ اول تو دیوی دیوتاؤں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے سارے اختیارات اور کامل اقتدار اللہ ہی کے پاس ہے اور خدائی ایک ناقابل تقسیم چیز ہے اور پھر حاجت روائی کے لئے کسی کو پکارنا در حقیقت اس کو معبود بنانا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کو ئی بھی عبادت کے مستحق نہیں ہے۔ " یہ  بات یاد رکھنی چاہئے کہ مشرکین کی دیو مالا میں خواہ وہ کسی قوم و ملک کے مشرکین ہوں دیویوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے چین، ہندوستان، عرب، مصر اور بابل نینوا وغیرہ کے مشرکانہ مذاہب کی جو تاریخ موجود ہے اس پر ایک سرسری نظر ڈال کر اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے یہ بات بھی خاص طور پر  ملحوظ رکھنے کی ہے کہ زندگی کی جو اصل ضرورتیں ہیں وہ بیشتر انہیں دیویوں سے متعلق سمجھی جاتی رہی ہیں۔ عرب جاہلیت میں بھی خدائی کے نظام پر بیشتر دیویوں ہی کا قبضہ تھا۔ لات، منات، عزّیٰ، وغیرہ دیویوں ہی کے نام ہیں۔ یہ فرشتوں کے بت تھے جن کے متعلق مشرکین کا عقیدہ تھا کہ یہ خدا کی لاڈلی اور چہیتی بیٹیاں ہیں جن کی بات خدا کبھی نہیں ٹالتا اس وجہ سے ان کے واسطہ سے جو کچھ مانگا جائے اگر یہ راضی ہوں تو وہ مل کر رہتا ہے۔ (تدبر قرآن، ج ۲، ص ۱۶۰) ۔ واضح رہے کہ شر ک صرف مشرکین (بت پرستوں) ہی میں نہیں تھا بلکہ اہل کتاب نے بھی مشرک قوموں سے متاثر ہو کر مشرکانہ طریقے اختیار کر لئے تھے۔

 

۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیوی دیوتاؤں کا تصور دراصل شیطان کا فریب ہے اور ان کی پرستش کرنے کا حکم بھی شیطان ہی دیتا ہے اس لئے جو لوگ اس کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں وہ در حقیقت شیطان ہی کے پرستار ہیں۔

 

۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے اس لئے وہ خیر سے یکسر محروم اور سرتا پا شر ہیں لہٰذا جو خیالات بھی وہ انسان کے ذہن میں ڈالے گا وہ گمراہ کن ہی ہونگے اس حقیقت کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہے اور ذہن میں پیدا ہونے والے فاسد خیالات کا کوئی اثر قبول نہ کرے۔

 

۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ابلیس کا قول ہے جو شیطانوں کا سردار ہے اس نے یہ بات اللہ تعالیٰ سے اس وقت کہی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے زمین کی خلافت کا تاج اس کے سر پر رکھا تھا ابلیس کو انسان سے حسد تھا اور اس نے قیامت تک کے لئے زندہ رہنے کی مہلت اللہ تعالیٰ سے حاصل کر لی تھی اس لئے اس نے اپنے اس منصوبہ کا اعلان کر دیا کہ وہ  بندگان خدا کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گا۔ واضح رہے کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ انسان کو زبردستی غلط راستہ پر ڈال دے بلکہ اسے غلط راستہ کی طرف بلانے، گناہ کی ترغیب دینے اور برائی کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کا اختیار دیا ہے تاکہ خیر و شر کے معاملہ میں انسان کی آزمائش ہو۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان دین کے معاملہ میں حقیقت پسند نہ بنے اس لئے وہ دین کی بنیادی باتوں کے سلسلہ میں غلط توجیہات میں الجھا کر اسے کامیابی کے سبز باغ دکھانے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ صریح شر ک میں مبتلا ہو نے کے باوجود خد ا سے انعام کی امید رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دین میں بدعات و خرافات پیدا کر کے اس کی جڑ پر کلہاڑا چلاتے ہیں اور اپنی ان " خدمات " پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہیں۔

 

۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین جانوروں کے کان نذر کی علامت کے طور پر چیر تے تھے اور انہیں اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔

 

۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی کی ایک شکل تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی یعنی جانوروں کے کان چیرنا۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری بھی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں مثلاً تحدید نسل کے لئے نس بندی، نزاکت پیدا کرنے کے لئے پنڈلیوں وغیرہ کو کاٹنا ، خصی کرنا، جنس تبدیل کرنا، مرد کا عورت نما اور عورت کا مرد نما بننا وغیرہ۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا فرمایا ہے اس میں وہ کسی قسم کے رد و بد ل کا مجاز نہیں ہے الا یہ کہ شارع نے خود اس کی اجازت دی ہو مثلاً ختنہ کرنا، ناخن ترشوانا، بغل کے بال مونڈنا وغیرہ جو در حقیقت فطرت ہی کے تقاضے ہیں یا پھر انسانی عضو میں کسی قسم کی کاٹ چھانٹ کرنے کے لئے شدید مجبوری لاحق ہو جیسا کہ بعض حالات میں آپریشن کر کے ہا تھ پاؤں بھی کاٹ ڈالنا پڑتے ہیں ان استثنائی صورتوں کو چھو ڑ کر مشرکانہ مقاصد کے لئے یا تہذیب جد ید کے نام پر یا باطل نظریات کے زیر اثر خدا کی بنائی ہوئی ساخت میں کسی قسم کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ہم  اپنا وہ ماڈل Modelپسند نہیں کرتے جو ہمارے خالق نے بنا یا ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ اپنی پسند کے موڈل میں ڈھل جائیں ظاہر ہے کہ یہ فطرت سے جنگ کرنے کے ہم معنی اور شیطان کی تحریک کا نتیجہ ہے۔

 

۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں جہنم سے نجات باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں میں مگن رہنے سے نہیں ملے گی بلکہ وہاں جزائے عمل کا قانون حرکت میں آئے گا دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب سے رسمی وابستگی کو اپنی نجات (مکتی) کے لئے کافی خیال کرتے ہیں اور خوش گمانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم فلاں اور فلاں مذہبی پیشواؤں کے نام لیوا ہیں اس لئے ہمارا بیڑا پار ہے مسلمان بھی اسی طرح کی خوش اعتقادی میں مبتلا ہو گئے ہیں لیکن قرآن متنبہ کرتا ہے کہ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ بننے والا نہیں ہے۔ آخرت میں جس بنیاد پر فیصلہ ہو گا وہ انسان کا اپنا ایمان اور عمل صالح ہے لہٰذا جس کسی کا عمل برا ہو گا وہ اس کی سزا ضرور پائے گا خواہ وہ اپنے کوکسی مذہب کی طرف منسوب کرتا رہا ہو۔

 

۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا مخلص دوست یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے بائبل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے " اے یعقوب جس کو میں نے پسند کیا جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے " (یسعیاہ  ۴۱: ۸) ۔

 

۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کا اقتدار بھی ہمہ گیر ہے اور علم بھی ہمہ گیر۔

 

۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازواج کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے سلسلہ میں بعض سوالات پیدا ہو گئے تھے جن کا جواب یہاں دیا گیا ہے یہ جواب آگے آیت ۱۲۸میں درج ہے اور اس جواب سے سوال کی نوعیت خود واضح ہو جاتی ہے۔

 

۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے اصل سوال کا جواب دینے سے قبل ان احکام کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جن میں یتیموں کے حقوق اور خاص طور سے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک یتیموں کے حقوق کی کیا اہمیت ہے اور ان کی ادائے گی کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے۔

 

۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے آیت ۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی طرف جس میں فرمایا گیا تھا کہ " اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تمہارے لئے جائز ہیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو " یہاں واضح فرمایا کہ " وہ یتیم لڑکیاں جنہیں تم ان کا مقر رہ حق نہیں دیتے اور چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو " اس سے معلوم ہوا کہ آیت ۳میں یتیموں سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور ان کے ساتھ انصاف نہ کرنے سے مراد ان کا حق ادا نہ کرنا ہے اس مقر رہ حق میں ان کا حق وراثت (ان کے باپ کی چھوڑی ہوئی دولت) بھی شامل ہے اور یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر کسی نے ایک بیوی کے ہوتے ہوئے یتیم لڑکی سے شادی کر لی تو اسے اس کے ساتھ بھی برابری کا سلو ک کر نا ہو گا۔ آیت کا خطاب گو عام ہے لیکن یہاں خاص طور سے یتیم بچیوں کے سرپرست مراد ہیں چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو یتیم بچیاں مالدار ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی ہوتیں ان سے ان کے سرپرست خود نکاح کر لیتے اور ان کے مال پر قابض ہو جاتے ان کا نکاح دوسری جگہ کرنے سے اس لئے کتراتے کہ ان کا حق وراثت ادا نہ کرنا پڑے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص ۵۶۱)

 

اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ قرآن یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کی حوصلہ شکنی کرتا ہے یتیم لڑکی کو رفیقہ حیات بنا لینا بجائے خود نیکی کا کام ہے لیکن جب یہ کام کسی کا مال ہڑپ کرنے کی غرض سے کیا جائے یا ایک بیوی کی موجودگی کسی یتیم لڑکی سے اسے بے وقعت سمجھ کر شادی کر لی جائے اور عدل و قسط کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تعدد ازواج کے قانون سے فائدہ اٹھایا جائے تو پھر یہ کام نیکی کا نہیں رہتا۔ اس سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فر د کے اخلاقی رویہ کی ہے اس لئے اسے اسی پہلو سے سوچنا چاہئیے نہ کہ محض " مسائل کو حل کرنے " کے پہلو سے۔

 

۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کے آغاز میں نادانوں کو ان کا مال حوالہ کرنے نیز بچوں کے حق وراثت کے سلسلہ میں دئیے گئے ہیں۔

 

۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو سورہ کی ابتدائی آیتوں میں یتیموں سے متعلق دئیے گئے ہیں۔

 

۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اصل استفتاء کا جواب قرآن نے تعدد ازواج کی اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ جو مشروط کیا ہے اس کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوا  کہ اگر کوئی شخص اپنی پہلی بیوی سے عدل کا معاملہ نہ کرے اور اس بیوی کو یہ اندیشہ محسوس  ہو کہ اگر وہ اس پر زور دیتی ہے تو وہ اسے طلاق دے دے گا اور وہ نہیں چاہتی کہ وہ اسے طلاق دے تو کیا ایسی صورت میں بیوی اپنے کچھ حقوق سے دست بر دار ہو کر شوہر کو اس بات پر آمادہ کر سکتی ہے کہ وہ طلاق نہ دے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے یعنی اگر کوئی عورت یہ محسوس کرے کہ شوہر اس کے حقوق ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے یا اس معاملہ میں بے پروا ہے اور اس پر زور دینے کی صورت میں طلاق کا اندیشہ ہے تو باہم سمجھوتہ کر لینا بہتر ہے ایسی صورت میں عورت اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو سکتی ہے کیونکہ طلاق کے معاملہ میں مصالحت بہر حال بہتر ہے ۲۱۴یعنی معاشرتی تعلقات کی خرابی میں تنگ دلی کو بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ تنگ دلی مرد کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔ اگر دونوں وسیع القلبی کے ساتھ ایک دوسرے سے معاملہ کریں تو ایک دوسرے کے حقوق بھی اد ا ہو سکتے ہیں اور گھر کی فضاء بھی خوشگوار ہو سکتی ہے۔

 

۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعدد ازواج کی صورت میں عدل کو جو لازم قرار دیا گیا ہے اس کے تعلق سے یہ سوال پیدا ہو ا کہ محبت و رغبت سب بیویوں کے ساتھ  یکساں نہیں ہو سکتی اور نہ جسمانی تعلق سب کے ساتھ بالکل یکساں رکھا جا سکتا ہے ایسی صورت میں عدل کی شرط کو کیونکر پورا کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہاں یہ دیا گیا کہ اس حد تک  یکسانیت تو یقیناً انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ عور توں کے درمیان مختلف حیثیتوں سے فرق بھی ہوتا ہے مثلاً خوبصورتی، مزاج، عمر، صحت اور قابلیت وغیرہ کے لحاظ سے ایک کو دوسرے پر فوقیت ہوتی ہے اور اس بنا پر مرد کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہو سکتا ہے اس لئے شریعت بیویوں کے درمیان ایسی مساوات قائم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتی جو انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان امکان بھر عدل کر و اور ایک بیوی کی طرف اس طرح جھک نہ پڑو کہ دوسری کو معلق چھوڑ دو تمہیں دونوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اصلاح اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے باوجود اس معاملہ میں اگر کچھ غلطیاں سرزد ہو گئیں تو اللہ سے امید رکھو کہ وہ معاف فرمائے گا۔

 

۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر کوشش کے باوجود نباہ نہ ہو سکا اور زوجین کو ایک دوسرے سے علیٰحدگی ہی اختیار کرنا پڑی تو انہیں چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ دونوں کو اپنے فضل سے مستغنی کرے گا۔

 

۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے " اس کو یہاں تین مرتبہ دہرا یا گیا ہے (آیت ۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دو مرتبہ اور آیت ۱۳۲میں ایک مرتبہ) یہ محض  تکرار نہیں ہے بلکہ مختلف پہلوؤں سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ مالکِ کل تنہا وہی ہستی ہے اس لئے اسی سے امیدیں وابستہ کی جانی چاہئیں اسی سے ڈرنا چاہئیے اور اسی کو مرجع بنانا چاہئے۔ پہلی مرتبہ اس فقرہ کا ذکر اس پہلو سے ہے کہ جو ہستی آسمان و زمین کی مو جود ات کی مالک ہے وہ تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہو سکتی وہ یقیناً بڑی فراخ دست اور بڑی فیاض ہے اس لئے تم (زوجین علیٰحدگی کی صورت میں) اس سے بجا طور پر یہ امید کر سکتے ہو کہ وہ تم میں سے ہر ایک کو اپنے فضل سے مستغنی کر دے گا۔ دوسری مرتبہ اس کو دہرانے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ یہ جو معاشرتی ہدایات دی گئی ہیں وہ تمہاری اپنی بھلائی کے لئے ہے اس سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اگر تم کفر بھی کرو تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ بگڑنے والا نہیں کیونکہ ساری کائنات اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر طرح کے کمالات سے متصف ہے اور تیسری مرتبہ اس کے اعادہ کا منشاء یہ ہے کہ بندے اسی پر توکل کریں۔

 

۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے نزدیک دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے بھی اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلہ کی بات ہے کہ تم صرف دنیا کے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو یا دنیا اور آخرت دونوں کے۔ اگر دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرو۔

 

۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے، بے لاگ انصاف کرنے اور غیر جانبدارانہ طریقہ پر بالکل بے لوث ہو کر صرف خدا کی خاطر گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ عدل و قسط اور شہادت حق کا وہ اعلیٰ معیار ہے جس پر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دیکھنا چاہتا ہے۔ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے لیکن قرآن کے نزدیک حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ بے لاگ انصاف کیا جائے اور گواہی کے معاملہ میں ان کی بھی رعایت نہ کی جائے اور جب والدین کی رعایت کرنا درست نہیں تو ان کے بعد جن کا درجہ ہے ان کی رعایت کے لئے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ بالفاظ دیگر یہ اصولی ہدایت ہر قسم کی بے جا عصبیت اور جانبداری کی جڑ کاٹ دیتی ہے ا ور یہ واضح کرتی ہے کہ آدمی کا مقام خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو انصاف کے معاملہ میں سب یکساں ہیں۔

 

۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کا حق سب سے بڑا ہے لہذا اللہ کے قانون عدل کے سامنے سب برابر ہیں۔

 

۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مقدمہ میں گواہی صاف صاف دینا چاہئے اور گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس پر خدا کے  یہاں گرفت ہو گی۔

 

۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان لانے والوں سے مراد عام مسلمان ہیں جو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان کا دین اسلام ہے خواہ وہ اپنے دین میں مخلص ہوں یا نہ ہوں۔ ان سے ایمان لانے کا مطالبہ یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ دل سے ایمان لائیں اور سچے اور پکے مؤمن بن جائیں۔

 

۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کفر کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی صاف صاف انکار کر دے اور دوسری شکل یہ ہے کہ زبان سے تو اقرار کرے لیکن دل سے  نہ مانے۔

 

۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہو ا کہ مؤمنوں کے مفاد کے خلاف کافروں سے دوستی گانٹھنا تاکہ کرسی اور عہدے ملیں اور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں منافقانہ حرکت ہے کسی سچے مسلمان کا یہ کام ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی ملت کے ساتھ غدار ی کرے۔

 

قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود آج مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ملت اسلامیہ سے غداری کر کے کافروں کی طرف پینگیں بڑھاتے ہیں اور انہیں ہر قیمت پر خوش کرنے کا سامان کرتے ہیں تاکہ انہیں عزت کا مقام حاصل ہو۔ کاش انہیں خبر ہوتی ک یہ جھوٹی عزت ہے جس پر وہ ریجھ گئے ہیں سچی عزت تو اللہ ہی کے پاس ہے اور اس کی رضامندی کے کام کر کے ہی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورہ انعام آیت کی طرف۔

 

۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن مجلسوں میں اللہ کے دین اور اس کے احکام و ہدایات کے خلاف کافرانہ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہو یا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہو ان میں شرکت غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔

 

۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ بقرہ آیت ۹میں یہ مضمون گزر چکا۔

 

۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی نماز محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔

 

اس زمانہ میں اپنا شمار مسلمانوں میں کرانے کے لئے نماز با جماعت میں شرکت ضروری تھی لیکن اب انحطاط کا یہ عالم ہے کہ جو شخص سر ے سے نماز ہی نہ پڑھتا ہو وہ نہ صرف مسلمان ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کا قائد اور ہیرو بھی اور مسجد میں حاضر نہ ہونے والا مسجد کا متولی بن سکتا ہے۔

 

۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں منافقین کے نماز کی تین بڑی خرابیاں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ کاہلی کے ساتھ کھڑا ہونا، دوسرے یہ کہ دکھاوے کی نماز پڑھنا، تیسرے یہ کہ اللہ کو برائے نام یاد کرنا۔ اس سے مخلصین مؤمنین کی نماز کی خصوصیات آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہیں۔ یعنی نماز کے لئے چستی کے ساتھ کھڑے ہونا، ریا اور نمائش سے احتراز کرتے ہوئے محض اللہ کے لئے نماز پڑھنا اور اللہ سے د ل لگا کر اس کو بہ کثرت یاد کرنا۔

 

۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس نے غلط راستہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو راہ راست پر لگانا پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

 

۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۴۱آل عمران۔

 

۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنبیہ ہے منافقین کو کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ وہ چونکہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے وہ کافروں کے مقابلہ میں بہتر ہیں اور خدا کے ہاں ان کی کوئی قدر ہو گی نہیں بلکہ وہ کافروں سے بدتر ہیں اور ان سے زیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں اس لئے کہ دل سے یہ بھی کافر ہیں مزید برآں اپنے کو مسلمان ظاہر کر کے خدا اور خلق کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہیں۔

 

۲۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منافقین عذاب سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی یہ ذہنی، فکری اور عملی اصلاح کر لیں۔

 

۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ کفر اور نفاق سراسر ناشکری ہے جبکہ ایمان کی حقیقت شکر ہے۔

 

۲۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا اگر تم شکر گزار بندے بنو تو وہ تمہارے اعمال اور خدمات کی قدر کرے گا اور اس کا بھر پور صلہ دے گا۔

 

۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مظلوم کو ظالم کے خلاف بولنے کا حق ہے۔

 

۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان صفات کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ مظلوموں کی فریاد سنتا ہے اور ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا اسے اچھی طرح علم ہے جس سیاق میں یہ بات ارشاد ہو ئی ہے  وہ یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین اور منافقین مسلمانوں کو مشتعل کر نے اور انہیں زک پہنچانے کے درپے تھے۔

 

۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخالفین کی زیادتی کے باوجود اگر تم نے کھلے اور چھپے بھلا ئی کی روش اختیار کی اور درگزر سے کام لیتے رہے تو تمہارا یہ طرز عمل اللہ کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ ہو گا کیونکہ وہ سزا دینے پر پوری طرح قادر ہونے کے  باوجود اپنے بندوں سے در گزر فرماتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی ان صفات کا اثر اس کے بندے قبول  کریں۔

 

۲۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ ان لوگوں کو کافر قرار دیتی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کو مانتے ہوئے کسی ایک رسول کو نہ مانیں کیونکہ ایمان وہی معتبر ہے جو خدا کی ہدایت کے مطابق ہو نہ کہ اپنے من مانے طریقہ پر۔ لہذا جو شخص حضرت محمدﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتا اس کے کٹر کافر ہو نے میں کوئی شبہ نہیں ہے خواہ وہ خدا اور اس کے رسولوں کو ماننے کا کتنا ہی بلند بانگ دعویٰ کرے۔

 

۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " ان کا اجر " کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان و عمل کے لحاظ سے جس درجہ کے ہونگے اس درجہ کے اجر کے وہ مستحق  قرار پائیں گے۔

 

۲۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائین گے ان کے ساتھ وہ درگزر کا معاملہ کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

 

۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لو گ اس قسم کے مطالبے کر تے ہیں وہ دراصل اس بات کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ حقیقت اس طرح آشکارا ہو کر ان کے سامنے آ جائے کہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں اور غیب پر ایمان لانے کا سوال باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے ان کی یہ خواہش اور یہ مطالبہ اس حکمت کے سراسر خلاف ہے جو انسان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے اور وہ اپنی عقل سے کام لیکر اور حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والی نشانیوں کو دیکھ کر آسمانی ہدایت کی روشنی میں غیبی حقائق پر ایمان لائے۔ اگر انسان حقیقت پسندی سے کام لے تو وہ اس قسم کے مطالبات کبھی نہیں کرے گا بلکہ اللہ کی  اس اسکیم کو جو اس دنیا میں نافذالعمل ہے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔

 

" کڑک نے پکڑ لیا تھا " اس واقعہ کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۷۵۔

 

۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد بچھڑے کی پوجا کی تھی ان کے اسی قومی جرم کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اور اسکی تفصیل سور ہ اعراف آیات ۱۵۲۔ ۱۴۸ اور سورہ طٰہٰ آیات ۸۷۔ ۹۸میں بیان ہوئی ہے۔

 

۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو حجت قاطع عطا کی تھی تاکہ وہ جو باتیں اللہ کی طرف سے پیش کریں ان کو صحیح تسلیم کرنے میں لوگوں کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔

 

فحوائے کلام سے واضح ہے کہ نبیﷺ کو قرآن کی شکل میں حجت قاطع عطا کی گئی ہے لہٰذا اس کو من جانب  اللہ تسلیم کرنے میں خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب کوئی عذر باقی نہیں رہا۔

 

۲۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سور ہ بقرہ نوٹ ۸۸۔

 

۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

 

۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۸۹۔

 

۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود کے جرائم بیان کرنے میں اس قدر جوش غضب کا اظہار ہو ا ہے اور کلام میں ایسا زور اور شدت پیدا ہو گئی ہے کہ ان جرائم کی بنا پر جو سزا انہیں دی گئی اس کو الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لئے جو بات یہاں محذوف ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کر دیا ہے یعنی ان جرائم کی بنا پر اللہ کا یہود پر لعنت کرنا، گویا جوش غضب کے اظہار سے آپ سے آپ غضب ٹوٹ پڑا ہے۔

 

۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں بنی اسرائیل کے ان جرائم کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جس قوم کی تاریخ اس قسم کے جرائم سے بھری پڑی ہو اور جن کا قومی مزاج ہی باغیانہ بن چکا ہو وہ اگر آج تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ قرآن کو آسمان سے اترتا ہوا دکھا دو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ ان کو نہ کوئی بات سمجھنا ہے اور نہ ایمان لانا بلکہ وہ محض بات ٹالنے کی غرض سے شرائط اور مطالبات پیش کر رہے ہیں۔

 

۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود فخر کے ساتھ کہتے کہ ہمارا عقیدہ اتنا پختہ ہے کہ تمہاری بات کا کوئی اثر ہمارے دلوں پر نہ ہو گا حالانکہ حق آ جانے کے بعد غلط عقائد پر جمے رہنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔

 

۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طریقہ پر بغیر باپ کے ہوئی تھی اور آپ نے گہوارہ میں سے خطاب کر کے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا تھا اس لئے آپ کے دور میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ وہ آپ کی والدہ محترمہ پر اس سلسلہ میں بہتان لگا تا لیکن بعد میں یہود یوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کی غرض سے حضرت مریم پر گھناؤنا الزام لگایا۔

 

۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود گناہ پر اتنے ڈھیٹ ہو گئے تھے کہ حضرت عیسیٰ ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے خلاف قتل کی سازش کرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوا اور پھر فخر کے ساتھ دعویٰ کرنے لگے کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا۔ اگر چہ کہ ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سازش کو ناکام بنا دیا لیکن اس سے ان کے جرم کی سنگینی اور ان کی سنگ دلی کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے آیت ۱۵۹ کے اخیر " ان پر گواہی دیگا " تک کا مضمون جملہ معترضہ کے طور پر ہے چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی بات چھڑ گئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اوپر کے سلسلۂ بیان کو روک کر حقیقت حال واضح فرما دی۔

 

۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ یہود کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو سولی دی وہ نہ قتل کر سکے اور نہ سولی دے سکے بلکہ واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بحفاظت اپنی طرف اٹھا لیا اور آپ کے اچانک اوپر اٹھا لئے جانے سے حقیقت حال ان پر مشتبہ ہو گئی۔ انہوں نے آپ کو رسوا کرنے اور آپ کے مشن کو ناکام بنا نے کے لئے سولی دئیے جانے کے فرضی افسانے گڑھ لئے اور اس کا پروپگنڈہ اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ نصاریٰ بھی اس فریب کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو مظلوم ثابت کر دکھانے اور پھر اس پر کفار ہ کے عقیدہ کی عمارت کھڑی کر نے کی غرض سے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اسے بائبل میں بھی شامل کر لیا۔ حالانکہ یہ بات جہاں یہود کے لئے باعث فخر تھی وہاں نصاریٰ کے لئے باعث استخفاف تھی۔ قرآن نے قتل مسیح کی حقیقت پر سے پر دہ اٹھا کر حضرت مسیح کی شان میں اضافہ ہی کیا ہے رہا یہ سوال کہ اشتباہ کس طور سے پیش آیا تو اس کی صورت متعین کرنا مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں اٹکل سے بات کرنے کے بجائے قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفا کر لینے ہی میں سلامتی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بیت المقدس پر رومیوں کی حکومت تھی اور یہودی علماء اور ان کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت رومی حکام کو حضرت مسیح کے خلاف اکسایا تھا اور انہیں گرفتار کرنے اور سولی دینے پر آمادہ کیا تھا حکومت وقت کو مشتعل کرنے کے لئے انہوں نے خاص طور سے جو حربہ استعمال کیا تھا وہ ان کا یہ الزام تھا کہ حضرت مسیح یہود کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 

۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اختلاف کرنے والوں سے مراد نصاریٰ ہیں۔

 

۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جس زمانہ میں قرآن نازل ہو رہا تھا قتل مسیح کے بارے میں نصاریٰ کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح کو سولی دئے جانے اور قبر سے ان کے اٹھ کھڑے ہونے کا جو قصہ بائبل میں بیان ہوا ہے ایک معمہ سا بن گیا ہے۔ بائبل کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی بناء پر مسیحیوں نے حضرت مسیح کی موت کے بارے میں عجیب و غریب فلسفے ایجاد کئے۔ چنانچہ ایک فلسفہ Docetism کے نام سے مشہور ہوا جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا جسم مادی تھا۔ اس غیر حقیقت پسندانہ ذہنیت نے انہیں یہ باور کرایا کہ وہ خدا کے بندے نہیں بلکہ نعوذ باللہ اس کے بیٹے تھے۔ یہ سب تصورات بعد میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں ہے :

 

"One would thought that the first and second Christian generations would at any rate have had no doubt about our Lord's real manhood."

 

 (Ency. of Religion & Ethics Vol. Vol IV Page 832)

 

"It was a possible to show to any one who accepted the story of His life in the Gospels that He was a real man, subject to the normal conditions of human life."

 

                                 (ERE Vol. IV Page 833)

 

اس انسائیکلوپیڈیا میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ باسلق اس بات کے قائل ہیں کہ صلیب غلطی سے سائمن کو دی گئی تھی۔

 

"Irenaeus says that Besilides' account of the crucifixion was that Simon of Cyrene was crucified by mistake."

 

ERE Vol. Page 833)

 

رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ جو بائبل میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے تو اس کے انداز بیان ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں جن کو جمع کر لیا گیا ہے اور جن کی حقیقت افسانہ سے زیادہ نہیں۔ مثال کے طور پر یوحنا کی انجیل میں ہے :

 

"لیکن مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے قبر کی طرف جھک کر اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے ایک سرہانے اور دوسرے کو پیتانے بیٹھے دیکھا۔ جہاں یشوع کی لاش پڑی تھی۔ انہوں نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ اس نے ان سے کہا اس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے ؟ یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑ ے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے۔ یسوع نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے ؟ کس کو ڈھونڈتی ہے ؟ مریم مگدلینی نے آ کر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کہیں " (یوحنا  ۲۰: ۱۱۔ ۱۸)

 

واضح رہے کہ یہاں جس مریم کا  ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں بلکہ دوسری مریم ہے) لیکن لوقا کی انجیل میں مریم کے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں یہ قصہ اس طرح بیان  ہوا ہے۔

 

" اور جب اس کی لاش نہ پائی تو یہ کہتی ہوئی آئیں کہ ہم نے رؤیا  میں فرشتوں کو ہی دیکھا انہوں نے کہا وہ زندہ ہے اور بعض ہمارے ساتھیوں میں سے قبر پر گئے اور جیسا عورتوں نے کہا تھا ویسا ہی پایا مگر اس کو نہ دیکھا " (لوقا  ۲۴: ۲۳۔ ۲۴)

اس بیان کے مطابق عورتوں نے فرشتوں کو رؤیا میں دیکھا اور فرشتوں نے یہ خبر دی تھی کہ عیسیٰ زندہ ہیں یعنی ان عورتوں کا عینی مشاہدہ نہ تھا۔ اسی طرح مرقس کی انجیل میں بھی اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ان عورتوں نے یسوع کو قبر کے پاس کھڑے دیکھا بلکہ یہ صراحت ہے کہ :

 

"اور وہ نکل کر قبر سے بھاگیں۔ کیونکہ لرزش اور ہیبت ان پر غالب آ گئی تھی اور انہوں نے کسی سے کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں " (مرقس  ۱۶:۔ ۸)

 

ان انجیلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاگردوں نے یسوع کو مرنے کے بعد گلیل میں دیکھا ساتھ ہی یہ اعتراف بھی موجو دہے کہ بعض نے شک کیا :

 

"اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا " (متی  ۲۸: ۱۷)

 

اور مرقس کی انجیل یہ کہتی ہے کہ :

 

" پھر وہ ان گیارہ کو  بھی جب کھانا کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اس نے ان کی بے اعتقادی اور سخت دلی پر ان کو ملامت کی کیونکہ جنہوں نے اس کے جی اٹھنے کے بعد اسے دیکھا تھا انہوں نے ان کا یقین نہ کیا تھا " (مرقس  ۱۶: ۱۴)

 

اور یوحنا کی انجیل میں ہے کہ یسوع آٹھ روز کے بعد اپنے شاگردوں کے درمیان ظاہر ہوا۔ نیز یہ بھی بیان کیا گیا ہے :

 

"یسوع مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد یہ تیسری بار شاگردوں پر ظاہر ہوا " (یوحنا  ۲۱: ۱۴)

 

بائبل کا یہ الجھا ہوا اور غیر یقینی بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت مسیح کے دفن ہونے اور اس کے بعد قبر سے جی اٹھنے کا قصہ خواب پریشان سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ بیان اس قدر الجھا ہوا ہے کہ بائبل کا شارح خود تسلیم کرتا ہے کہ:

 

" There are however numerous critical problems about the story (See Taylor   602ff) especially when it is compared in details with the accounts in the other Gospels."

 

Peak's Commentary on the Bible Page 818)

 

اور اس کے شارح نے انجیل مرقس کے آخری باب کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ وہ اصلاً مرقس کا حصہ نہیں ہے :

 

"It is now generally agreed that 9-20 are not an original part of MK. They are not found in the oldest MSS and indeed were apparently not in the copies used by Mt. and LK." (Do)

 

اسی طرح یوحنا کی انجیل کے آخری باب (۲۱) کے بارے میں اس کا شارح لکھتا ہے کہ اس کا اضافہ انجیل کے مؤلف نے خود کیا ہے۔

 

" It was a supplement added by the evangelist himself." (Do Page 867)

 

غرض یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قبر سے جی اٹھنے کا قصہ محض افسانہ ہے اور پھر یہ محض افسانہ نہیں رہا بلکہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ قرار پایا جس پر پور ے مسیحی علم کلام کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن نے اپنے اس حقیقت افروز بیان کے ذریعہ کہ حضرت مسیح کو نہ قتل کیا جا سکا اور نہ سولی دی ماسکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا مسیحی علم کلام کی عمارت ڈھا دیتا ہے۔

 

۲۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود حضرت مسیح کو ہر گز قتل نہ کر سکے یہ بات شبہ سے بالا تر ہے۔

 

۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۸۲۔

 

۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی ان دو صفات کے ذکر سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور یہ اللہ کی قدرت  اور اس کی حکمت کا غیر معمولی ظہور ہے۔

 

۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت جب واقع ہو گی تو اس وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ سب ان کی رسالت پر ایمان لا چکے ہونگے۔

 

حدیث میں نبیﷺ نے صراحتہً بتلا یا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قریب نازل ہونگے اور اس وقت کے یہودیوں کے سب سے بڑے لیڈر اور مفسد دجال کو قتل کریں گے جس کے بعد سب اہل کتاب حضرت مسیح پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائیں گے اور دنیا میں نہ یہودیت باقی رہیگی اور نہ نصرانیت۔ بلکہ اسلام اور صرف اسلام ہو گا۔

 

نزول عیسیٰ ؑ کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

 

عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبل احد"" حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیراً من الدنیا وما فیھا۔ ثم یقول ابوہریرہ اقرء أ و اان شئتم و ان من اھل الکتاب  الخ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

 

حضرت ابو ہریرہؓ  بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کر ضرور آئیں گے پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور سور کو قتل کریں گے اور جنگ ختم کر دیں گے (اس وقت) مال کی ایسی کثرت ہو گی کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا۔ اس وقت (اللہ کے حضور) ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اس کو روایت کرنے کے بعد ابو ہریرہؓ نے فرمایا اس کی تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو و ان من اھل الکتاب  الخ

 

عن النواس بن سمعان قال قال رسو ل اللہﷺ فبینما ھو کذلک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم فینزل عند النارۃ البیضاء مشرقی دمشق مھر ودتین واضعاً کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طا طأ راسہٗ  قطر و اذا رفعہ تحدر منہ جمان کاللؤلو فلا یحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتھی الیٰ حیث ینتھی طرفہٗ فیطلبہٗ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہٗ (مسلم کتاب الفتن)

 

نواس بن سمعان روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا اس اثناء میں (کہ دجال فتنہ برپا کر رہا ہو گا) اللہ مسیح ابن مریم کو بھیج  دیگا اور وہ دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید مینارے کے پاس زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں  گے جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہو گا کہ موتی کے قطرے ڈھلک رہے ہیں ان کی سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی وہ مر جائیگا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی پھر وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے لُد کے دروازے کے پاس پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے۔

 

عن مجمع بن جاریۃ الانصاریؓ قال : سمعت رسول اللہﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لُدّ (ترمذی ابو اب الفتن)

 

مجمع بن جاریّہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابن مریم دجال کو لُد کے دروازے پر قتل کریں گے۔

 

یہ اور اس طرح کی دوسری حدیثیں جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جو آخری زمانہ میں ہو گا ایک مخصوص مہم کو سر کرنے کے لئے ہو گا یعنی دجال کو ہلاک کرنا، اور اس کے برپا کئے ہوئے فتنۂ عظیم کا استیصال کرنا اور قرآن کی مذکورہ آیت سے مترشح ہوتا ہے کہ نزول عیسیٰ ؑ کا خاص مقصد یہ ہو گا کہ یہود کے اس دعوے کو کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا غلط ثابت کر دکھا یا جائے۔ نیز نصاریٰ کے غلط عقائد خاص طور سے ان کے خدا کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کو باطل کر دکھایا جائے اور حضرت عیسیٰ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کا مزید ثبوت فراہم ہو جائے نیز ان کی طبعی موت جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہے اسی زمین پر واقع ہو جائے۔ واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ سے پہلے آ چکے ہیں اور مسلمان اپ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں آخری زمانہ میں ان کا جو نزول ہو گا وہ کسی نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہو گا اس لئے ان کے نزول سے حضرت محمدﷺ کے ختم نبوت کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناز ل ہوتے ہی کوئی دعویٰ شروع نہیں کریں گے بلکہ وہ کام کر دکھائیں گے جس کے لئے انہیں خاص طور سے بھیجا گیا ہو گا۔ ان کی اس مہم میں کامیابی خود بتا دے گی کہ وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو انہیں پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہو گی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو ان فتنوں سے آدمی بچ سکتا ہے جو قادیانیت وغیرہ کی شکل میں ابھر تے رہتے ہیں اور اپنے مسیح ہونے کا باطل دعویٰ کر کے لوگوں کی گمراہی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

 

۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو گواہی دیں گے اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت ۱۱۷۔ ۱۱۶میں بیان ہوئی ہے۔

 

۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جملہ معترضہ اوپر ختم ہو گیا اب یہاں سے پھر وہی سلسلۂ کلام شروع ہوتا ہے جو آیت ۱۵۵سے چلا آ رہا تھا۔

 

۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سود کی حرمت کا حکم بائبل میں آج بھی موجود ہے جس کے اقتباسات ہم سورہ بقرہ کے نوٹ ۴۵۶میں نقل کر چکے ہیں۔

 

۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک یہود کے جرائم کا ذکر ہوا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس قوم کا رویہ اس حد تک سرکشانہ رہا ہو وہ اگر آج قرآن پر ایمان لانے کے سلسلہ میں ہٹ دھرمی دکھا رہی ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کرتا ہے کہ جو لوگ بھی کفر پر جمے رہیں گے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ علماء ہیں جو دین کا صحیح علم رکھتے ہیں اور اس میں پختہ تھے وہ اپنے قول و عمل اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے عام علماء یہود سے ممتاز تھے ان کی حق پسندی کی بنا پر انہیں قرآن پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی۔

 

۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ لوگ ہیں جو اگر چہ کہ علم میں راسخ ہو نے کا درجہ نہیں رکھتے تھے لیکن وہ خیر پسند اور نیک کردار تھے قرآن کی دعوت جب انہوں نے سنی تو وہ اس پر ایمان لے آئے۔

 

۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود نماز اور زکوٰۃ دونوں چیزوں کو ترک کر چکے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دین ہی کو ضائع کر بیٹھے صرف وہی لوگ دین پر قائم رہے جو نماز اور زکوٰۃ پر کار بند تھے ایسے ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر قران کی دعوت کو قبول کر لیا گویا یہ نماز اور زکوٰۃ ہی کا فیضان تھا کہ انہیں قبول حق کی توفیق نصیب ہوئی اس سے واضح ہو ا کہ جہاں ان دو بنیادی ارکان کو ضائع کر دیا گیا ہو وہاں دین باقی نہیں رہتا۔

 

۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " وحی " کے معنی اشارہ کر نے اور دل میں کوئی بات ڈالنے کے ہیں اللہ اپنا پیغام جس خفیہ طریقے سے اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے اس کے لئے قرآن نے وحی کی اصطلاح استعمال کی ہے (مرہٹی میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے انگریزی کا لفظ Revealبھی اس کے پورے مفہوم پر حاوی نہیں) ۔

 

۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اسباط استعمال ہوا ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے مخصوص اصطلاح ہے یہاں اس سے مراد وہ انبیاء ہیں جو ان بارہ قبیلوں میں مبعوث ہوئے تھے۔

 

۲۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت محمدﷺ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے اللہ کی طرف وحی کے آنے کا دعویٰ کیا ہو بلکہ آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اسی طرح وحی فرماتا رہا ہے جس طرح حضرت محمد ؐ پر نازل فرما رہا ہے سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی منبع ہدایت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔

 

۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد ؑ کو اللہ تعالیٰ نے جو " زبور " عطا کی تھی وہ اپنی اصلی شکل میں آج موجود نہیں ہے البتہ اس کے اجزاء اس صحیفہ میں دیکھے جا سکتے ہیں جو زبور کے نام سے بائبل میں موجود ہے اس میں خدا کی حمد و ثنا اور اس کی توحید کے ساتھ موعظت کی باتیں بڑے  موثر انداز میں بیان ہوئی ہیں۔

 

۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ جن پیغمبروں کا ذکر اس نے ناموں کی صراحت کے ساتھ کیا ہے بس وہی پیغمبر تھے اور ان کے علاوہ اور کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی پیغمبر بھیجے گئے تھے جن کے ناموں کی صراحت نہیں کی گئی ہے تاہم سب پیغمبروں پر مجملاً ایمان لانا ضروری ہے۔

 

۲۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام کے لئے وحی کا مخصوص طریقہ اختیار کیا گیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہم کلام ہوتا تھا بائبل میں بھی اس کا ذکر ہے :

 

" اور جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا " (خروج  ۳۳:۱۱)

 

۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان پیغمبروں کو بھیجنے کی غرض یہ تھی کہ قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمیں غفلت سے بیدار کرنے اور اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں  کیا گیا تھا ورنہ ہم آخرت سے غافل اور دنیا پرستی میں مگن نہ رہتے۔

 

۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گواہی اس بات کی کہ قرآن اللہ کی جانب سے ناز ل ہوا ہے جس میں شیاطین کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ خالص اور بے آمیز کلام الٰہی ہے اللہ کی گواہی کو ہر وہ شخص سن سکتا ہے جو قرآن کو بغور پڑھے کیونکہ اس کی ایک ایک آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے مگر یہ آواز وہی لوگ سن سکتے ہیں جو گوش حقیقت نیوش رکھتے ہوں۔

 

۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "غلو " کسی کی عقیدت میں یا کسی بات کی تائید و حمایت میں حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔ دین میں " غلو "کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی جو قدر دین میں متعین ہے اس کو بڑھا  دیا جائے اور اسے جو مقام دیا گیا ہے اس سے زیادہ بلند مقام اس کے لئے تجویز کیا جائے۔ غلو کی بہت نمایاں مثال نصاریٰ کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو جو اللہ کے بندے  اور رسول ہیں خدا کا بیٹا مان کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ غلو کی مثالیں دوسرے مذاہب میں بھی بہ کثرت ملتی ہیں کسی نے رسول کو اوتار کا درجہ دے دیا تو کسی نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو خدائی کے منصب پر بٹھا دیا۔ قرآن کے ماننے والے بھی رفتہ رفتہ غلو کا شکار ہو گئے چنانچہ کسی نے بزرگوں کے لئے پیغمبر کا درجہ تجویز کیا تو کسی نے اولیاء کو خدا کے مقام پر پہونچا دیا اور ان کے لئے غوث العظام اور مشکل کشا جیسے القاب تراشے حالانکہ یہ القاب خدا ہی کے لئے موزوں ہیں اور اسی کے لئے خاص ہیں اسی طرح کسی نے امام کے معصوم ہو نے کا عقیدہ گڑھ لیا اور کسی نے طریقت ایجاد کی اور تصور شیخ لیکر بیٹھ گیا اسلام  نے قبروں کو سادہ بنا نے کا حکم دیا تھا لیکن غلو پسند طبیعتوں نے اپنے بزرگوں کی عالی شان درگاہیں تعمیر کر ڈالیں۔ اسلام نے قناعت پسندی کی تعلیم دی تھی لیکن غلو  کی ذہنیت نے زہد کے روپ میں رہبانیت کو اختیار کر لیا اسی طرح جو کام مستحب تھے ان کو فرض اور واجب کے درجہ میں رکھ دیا اس کا اثر دین کے مزاج پر پڑا اور پھر نہ اسلام کی سادگی باقی رہ سکی اور نہ اس کا اعتدال۔ نتیجہ یہ کہ ملت کے اندر طرح طرح کے فتنے پیدا ہو گئے اور فرقوں نے جنم لیا اور غلو پسند لوگوں کے ہاتھوں دین کی کوئی اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکی بلکہ دین کا پور ا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔

 

۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کی طرف وہی باتیں منسوب کی جائیں جو حق ہیں تو تمام فتنوں کا سدباب ہو جاتا ہے لیکن جب اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس نے نہیں کہی ہیں توغلو اور بدعت کی راہ کھل جاتی ہے اور پھر دین کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے نصاریٰ کی گمراہیوں کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے دین میں بہت سی من گھڑت باتیں شامل کر لیں اور کسی بھی من گھڑت بات کو دین میں شامل کرنا اسے اللہ کی طرف منسوب کرنے کے ہم معنی ہے کیونکہ دین عبارت ہے اس نظام عبادت اور اطاعت سے جو اللہ کا نازل کردہ ہے اس میں اپنی طرف سے کسی بھی چیز کو داخل کرنا گویا اس بات کا دعویٰ کرنا ہے کہ یہ بات من جانب اللہ ہے درانحالیکہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی بہت سی گمراہیاں بہت سی بدعات ہی کی راہ سے داخل ہوئیں ہیں اور انہوں نے بہت سی خرافات کو دین کا جز بنا لیا ہے اس لئے آدمی جب تک صاف ذہن سے قرآن و سنت کا مطالعہ نہ کرے اس کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اللہ کا اصل دین کیا ہے ؟

 

۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں ایک یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں دوسرے یہ کہ وہ اللہ کا ایک کلمہ ہیں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی جانب سے ایک روح ہیں اس تصریح سے مقصود حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں نصاریٰ کے عقیدہ الوہیت کی تردید کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی غیر معمولی طریقہ پر ولادت کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان کو خدا کا بیٹا بنا یا جائے۔ غیر معمولی طریقہ پر ان کی ولادت حکم خداوندی سے ہوئی تھی اور ان کے اندر جو روح تھی وہ اللہ ہی کی عطا کردہ تھی اس لئے یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن ہے کہ اللہ کی روح ان کے اندر حلول کر گئی تھی۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک

 

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۵۶) ۔

 

۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین خداؤں کا عقیدہ مسیحیت کا خود ساختہ عقیدہ ہے۔ جو باپ، بیٹا اور روح القدس سے مرکب ہے یہ عقیدہ سراسر مشرکانہ ہے۔ لیکن چونکہ تورات، زبور اور انجیل تمام آسمانی کتابوں کی تعلیم توحید کی تعلیم ہے اس لئے توحید اور تثلیث دونوں کا بیک وقت دعویٰ کیا گیا اور دونوں کو نبھانے کی کوشش کی گئی اور اس تکلف میں دین کا حلیہ بری طرح بگڑ کر رہ گیا۔

 

یہ آیت جہاں مسیحیوں کے تین خداؤں کے عقیدہ کی تردید کرتی ہے وہاں وہ مشرکانہ مذاہب کے متعدد خداؤں کے تصور کو بھی یکسر باطل قرار دیتی ہے خواہ وہ دو خداؤں کا عقیدہ ہو یا سینکڑوں اور ہزاروں خداؤں کا۔

 

۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کی ساری موجودات اللہ ہی کی ہیں تو پھر اسے بیٹا بنا نے کی کیا ضرورت اور جب وہ سب کی خبر گیری کے لئے کافی ہے تو اس کو اس بات کی کہاں حاجت ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنا کر اس سے مدد لے۔

 

۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کا انداز دعوت عقلی اور استدلالی ہے اور اس لحاظ سے وہ انسانوں پر اللہ کی حجت ہے۔

 

۲۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآن کی دوسری خصوصیت ہے کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کرتا اور زندگی بسر کر نے کی صحیح راہ دکھاتا ہے۔

 

۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں انہیں قرب الٰہی حاصل ہو گا جو ہدایت کی آخری منزل ہے۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان لائیں گے اور اللہ کا دامن پکڑ لیں گے وہ اپنی آخری غایت یعنی اللہ کو پا لینے میں کامیاب ہوں گے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو انہیں حاصل ہو گی۔

 

۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز میں وراثت کے جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں یہ آیت بطور توضیح کے نازل ہوئی جسے سورہ کے آخر میں بطور ضمیمہ کے شامل کر دیا گیا۔

 

۲۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ سوال کلالہ (جس کا نہ باپ زندہ ہو اور نہ اولاد) کی میراث کے بارے میں تھا جس کا حکم آیت ۱۲میں گزر چکا۔

 

تشریح کے لئے ملاحظہ  نوٹ ۳۴) ۔

 

۲۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت میں اخیانی (ماں شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا تھا۔ اس آیت میں اعیانی (سگے) اور علاقی (باپ شریک) بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا ہے

 

۲۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اصحاب فروض Quranic Shares میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو تو بھائی پورے ترکہ کا وارث ہو گا اور اگر ان میں سے کوئی زندہ ہو مثلاً شوہر تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ مال کا وارث بھائی ہو گا۔

 

۲۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے وہ دو تہائی میں برابر کی شریک ہوں گی۔

 

۲۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سگے اور باپ شریک بھائی کے ورثہ پانے کی صور توں کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نقشہ میراث۔ ضمیمہ

ضمیمہ

میراث میں حصہ پانے والے

 

Table of heirs with their shares

 

 

نمبر شمار

وارث

کیفیت

حصہ معمولاً ایک فرد  ہونے کی صورت میں

دو یا دو سے زیادہ افراد ہونے کی صورت میں

ورثہ پانے کے شرائطConditions

 

 

 

Normal Share or Portion

 

۱

لڑکا

عصبہ ( (Residuary

لڑکی کے دوگنا

ہر لڑکے کا حصہ لڑکی کے دوگنا

جب کہ میت کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں اور صرف وہی وارث ہوں۔

 

"

"

کل

کل میں برابر کے شریک

جبکہ تنہا ایک لڑکا یا کئی لڑکے وارث ہوں

"

"

"

اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے

اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے

 

اس میں سب برابر کے شریک

 

 

جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہوں تو ان کو دینے کے بعد جو باقی بچے

۲

لڑکی

صاحب فریضہ

 

Quranic sharer

۱/۲

۲/۳ میں برابر کی شریک

 

 

جبکہ میت کا لڑکا نہ ہو

 

"

عصبہ

لڑکے کے نصف

ہر لڑکی کا حصہ لڑکے کے نصف

جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔

۳

باپ

صاحب فریضہ

۱/۶

 

جبکہ میت کا لڑکا موجود ہو۔

 

 

صاحب فریضہ و عصبہ

۱/۶اور اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے

 

جبکہ میت کی لڑکی موجو دہو اور لڑکا نہ ہو

 

"

عصبہ

کل

 

جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کی ماں، شوہر یا بیوی موجود ہو

۴

ماں

صاحب فریضہ

۱/۶

 

جبکہ میت کی اولاد یا اس کے بھائی بہن دو یا زیادہ تعداد میں موجود ہوں۔

 

"

"

۱/۳

 

جبکہ میت کے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کے بھائی بہن کم از کم دو کی تعداد میں موجود ہوں

 

"

"

۱/۳

 

جبکہ میت کا باپ، بیوی یا شوہر موجود ہو اس صورت میں شوہر یا بیوی کا حصہ ادا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ کا ۳/۱ ماں کو دیا جائے گا

۵

شوہر

صاحب فریضہ

۱/۲

 

۱جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔

 

"

"

۱/۴

 

جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔

۶

بیوی

صاحب فریضہ

۱/۴

۱/۴ میں سب برابر کی شریک ہیں

جبکہ میت کی کوئی اولاد نہ ہو۔

 

 

صاحب فریضہ

۱/۸

۱/۸ میں سب برابر کی شریک

جبکہ میت کی اولاد موجود ہو۔

۷

ماں شریک بھائی یا بہن Uterine Brother or Sister

 

 

صاحب فریضہ

۱/۶

۳/۱ میں سب بھائی بہن برابر کے شریک

 

 

جبکہ میت کی کوئی اولاد یا باپ موجود نہ ہو۔

 

 

Excluded

 

محجوب

کچھ نہیں

کچھ نہیں

جبکہ میت کی اولاد یا باپ موجود ہو۔

۸

سگی بہن

صاحب فریضہ

۱/۲

۲/۳

جبکہ میت کا باپ اس کی اولاد اور اس کا سگا بھائی ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو۔

 

 

عصبہ

لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ

لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کی لڑکی موجود ہو لیکن اس کا باپ، نرینہ اولاد اور سگا بھائی ان میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

۸

سگی بہن

عصبہ

بھائی کا نصف

ہر بہن کو بھائی کا نصف

جبکہ میت کا سگا بھائی موجود ہو لیکن اس کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو۔

 

 

محجوب

کچھ نہیں

کچھ نہیں

جبکہ میت کا باپ یا اس کی نرینہ اولاد موجود ہو۔

۹

سگا بھائی

عصبہ

کل

کل میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کا باپ، نرینہ اولاد، بیوی یا شوہر اور ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

 

 

"

اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے

اصحاب فروض کو ادا کرنے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد موجود نہ ہو لیکن لڑکی ماں، ماں شریک بھائی بہن اور شوہر یا بیوی میں سے کوئی موجود ہو تو اس کو دینے کے بعد جو باقی بچے کا وہ سگے بھائی کو ملے گا

 

 

محجوب

کچھ نہیں

کچھ نہیں

جبکہ میت کا باپ یا نرینہ اولاد مو جود ہو۔

۱۰

باپ شریک بہن

 

Onsanguine sister

صاحب فریضہ

۱/۲

۲/۳

جبکہ میت کے سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

 

 

"

۱/۶

۱/۶

جبکہ میت کی صرف ایک سگی بہن موجود ہو، اور باپ شریک بھائی، باپ اور اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

 

 

عصبیہ

۱لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ

لڑکی کو دینے کے بعد بقیہ حصہ میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کے لڑکی موجود ہو لیکن سگے بھائی بہن، باپ شریک بھائی، ماں شریک بھائی بہن، شوہر یا بیوی، باپ اور نرینہ اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

 

 

عصبیہ

بھائی کا نصف

بھائی کا نصف

جبکہ میت کا باپ شریک بھائی موجود ہو لیکن سگا بھائی، باپ، شوہر یا بیوی اور نرینہ اولا دمیں سے کوئی نہ ہو۔

 

 

محجوب

کچھ نہیں

کچھ نہیں

جبکہ میت کی دو سگی بہنیں، سگا بھائی، باپ، نرینہ اولاد میں سے کوئی موجو دہو یا ایک سگی بہن بطور عصبہ کے ہو۔

۱۱

باپ شریک بھائی

عصبہ

کل میراث

کل میراث میں سب برابر کے شریک

جبکہ میت کے ماں باپ، اولاد، شوہر یا بیوی، سگے بھائی بہن، علاقی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

 

 

عصبہ

اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو باقی بچے

اصحاب فریضہ کو دینے کے بعد جو باقی بچے اس میں سب برابر کے شریک ہیں

جبکہ میت کی لڑکی، ماں، شوہر یا بیوی، سگی بہن، ماں شریک بھائی بہن میں سے کوئی موجود ہو۔

 

گر باپ شریک بہن موجود ہو تو اس کے دو گنا باپ شریک بھائی کو ملے گا۔

 

 

محجوب

کچھ نہیں

کچھ نہیں

جبکہ میت کا باپ، لڑکا، سگا بھائی یا سگی بہن موجود ہو۔

 

 

نوٹ :۔

 

٭اس نقشہ میں صرف ان ورثاء کے حصے بیان کئے گئے ہیں جن کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔

 

٭اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی عدم موجودگی میں پوتا اور باپ کی عدم موجودگی میں دادا وارث ہو گا وعلی ہٰذا علی القیاس۔

 

٭مذکورہ ورثاء میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ذوی الارحام  (Distant Kinded) حصہ پاتے ہیں۔

 

یہ مسائل حدیث نیز فقہاء کے قیاس اور اجتہاد پر مبنی ہیں۔

٭٭٭٭٭