اس سورت کا نام پندرہویں رکوع کی آیت ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مآئدۃ من السمآ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورت کے موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ محض دوسری سورتوں سے ممیز کرنے کے لیے اسے علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے
سورت کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد ۶ ھ کے اواخر یا ۷ھ کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ ۶ ہجری کا واقعہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفار قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا اور بڑی رد و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ زیارت کے لیے آ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارت کعبہ کے لیے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے ، اور دوسری طرف انہیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرے سے روک کو جو زیادتی کی ہے اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں ، اس لیے کہ بہت سے کافر قبائل کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ ممکن تھا کہ جس طرح انہیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں۔ یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورت کا آغاز ہوا ہے۔ آگے چل کر تیرہویں رکوع میں پھر اسی مسئلے کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلۂ تقریر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے مضامین اس سورت میں ہم کو ملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔
بیان کے تسلسل سے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ پوری سورت ایک ہی خطبہ پر مشتمل ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ متفرق طور پر اس کی بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئی ہوں اور مضمون کی مناسبت سے ان کو اس سورت میں مختلف مقامات پر پیوست کر دیا گیا ہو، لیکن سلسلۂ بیان میں کہیں کوئی خفیف سے خلا بھی محسوس نہیں ہوتا جس سے یہ قیاس کیا جا سکے کہ یہ سورت دو یا تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔
سورہ آل عمران اور سورہ نساء کے زمانۂ نزول سے اس سورت کے نزول تک پہنچتے پہنچتے حالات میں بہت بڑا تغیر واقع ہو چکا تھا۔ یا تو وہ وقت تھا کہ جنگ احد کے صدمے نے مسلمانوں کے لیے مدینے کے قریبی ماحول کو بھی پرخطر بنا دیا تھا یا اب یہ وقت آ گیا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابل شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک، دوسری طرف حدود شام تک، تیسری طرف ساحلِ بحیرہ احمر تک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔ احد میں جو زخم مسلمانوں نے کھایا تھا وہ ان کی ہمتیں توڑنے کے بجائے ان کے عزم کے لیے ایک اور تازیانہ ثابت ہوا۔ وہ زخمی شیر کی طرح بپھر کر اٹھے ، اور تین سال کی مدت میں انہوں نے نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ان کی مسلسل جدوجہد اور سرفروشیوں کا ثمرہ یہ تھا کہ مدینے کے چاروں طرف ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو میل تک تمام مخالف قبائل کا زور ٹوٹ گیا۔ مدینہ پر جو یہودی خطرہ منڈلاتا رہتا تھا اس کا ہمیشہ کے لیے استیصال ہو گیا اور حجاز میں دوسرے مقامات پر بھی جہاں جہاں یہودی آباد تھے ،سب مدینے کی حکومت کے باج گذار بن گئے۔ اسلام کو دبانے کے لیے قریش نے آخری کوشش غزوۂ خندق کے موقع پر کی اور اس میں وہ سخت ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اہل عرب کو اس امر میں کچھ شک نہ رہا کہ اسلام کی یہ تحریک اب کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ اب اسلام محض ایک عقیدہ و مسلک ہی نہ تھا جس کی حکمرانی صرف دلوں اور دماغوں تک محدود ہو، بلکہ وہ ایک ریاست بھی تھا جس کی حکمرانی عملاً اپنے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی پر محیط تھی۔ اب مسلمان اس طاقت کے مالک ہو چکے تھے کہ جس مسلک پر وہ ایمان لائے تھے ، بے روک ٹوک اس کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اس کے سوا کسی دوسرے عقیدہ و مسلک یا قانون کو اپنے دائرۂ حیات میں دخل انداز نہ ہونے دیں۔
پھر ان چند برسوں میں اسلامی اصول اور نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔ تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز با جماعت کا نظم قائم ہو گیا تھا، ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے ، اسلامی قوانینِ دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعے نافذ کیے جا رہے تھے۔ لین دین اور خرید و فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہو چکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردۂ شرعی کے احکام اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی۔ مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے ، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کر چکے تھے۔ اسلامی زندگی کی ایسی مکمل صورت گری ہو جانے کے بعد غیر مسلم دنیا اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی کہ یہ لوگ، جن کا اپنا ایک الگ تمدن بن چکا ہے ، پھر کبھی ان میں آ ملیں گے۔
صلح حدیبیہ سے پہلے تک مسلمانوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کر دیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آ گیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئی کہ گردو و پیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کو لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رؤسا کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبائل اور اقوام میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔
یہ حالات تھے جب سورۂ مائدہ نازل ہوئی۔ یہ سورت حسب ذیل تین بڑے مضامین پر مشتمل ہے :
۱. مسلمانوں کی مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔ اس سلسلے میں سفر حج کے آداب مقرر کئے گئے ، شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا، کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دورِ جاہلیت کی خود ساختہ بندشوں کو توڑ دیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی، وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے ، بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں متعین کی گئیں ، شراب اور جوئے کو قطعی حرام کر دیا گیا، قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا،اور قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔
۲. مسلمانوں کو نصیحت۔ اب چونکہ مسلمان ایک گروہ بن چکے تھے ، ان کے ہاتھ میں طاقت تھی، جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے ، مظلومی کا دور خاتمے پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ قدم رکھ رہے تھے ، اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے بار بار نصیحت کی گئی کہ عدل پر قائم رہیں ، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں ، اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کے اسلام کی پیروی کا جو عہد انہوں نے کیا ہے اس پر ثابت قدم رہیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح اس کو توڑ کر اس انجام سے دو چار نہ ہوں جس سے وہ دو چار ہوئے۔ اپنے جملہ معاملات کے فیصلوں میں کتاب الٰہی کے پابند رہیں ، اور منافقت کی روش سے اجتناب کریں۔
۳. یہودیوں اور عیسائیوں کو نصیحت۔ یہودیوں کا زور اب ٹوٹ چکا تھا اور شمالی عرب کی تقریباً تمام یہودی بستیاں مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئی تھیں۔ اس موقع پر ان کو ایک بار پھر ان کے غلط رویے پر متنبہ کیا گیا ہے اور انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ نیز چونکہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے عرب اور متصل ممالک کی قوموں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کا موقع نکل آیا تھا اس لیے عیسائیوں کو بھی تفصیل کے ساتھ خطاب کر کے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئی ہیں اور انہیں نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سے جو قومیں بت پرست اور مجوسی تھیں ان کو براہ راست خطاب نہیں کیا گیا کیونکہ ان کی ہدایت کے لیے وہ خطبات کافی تھے جو ان کے ہم مسلک مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے مکہ میں نازل ہو چکے تھے۔
۱-یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُن بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔
۲-’’اَنعام‘‘ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ’’بہیمہ‘‘ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں ’’انعام ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ’’مویشی کی قسم کے چرند و چوپائے تم پر حلال کیے گئے ‘‘۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندے جانور اس کے دائرے میں آ جاتے ہیں جو مویشی کی نوعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کر کے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ، نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔
۳-’’احرام‘‘ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبو کا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے ، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے۔
۴-یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر چہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے ، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے ، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے ، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔
۵-ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرزِ فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ’’شعار‘‘ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے ، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم ، سِکّے ، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے ، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے ، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گِرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیّت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنّار اور مندر برہمنیّت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیّت کا شعار ہیں۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے اِن شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اُس نظام کے خلاف دُشمنی رکھتا ہے ، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔
’’شعائر اللہ‘‘ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریّت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں ، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیّل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کر دیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جُزء رکھتا ہے ، تو اس جُزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پُورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے ، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خدا کی بندگی کے ساتھ دُوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکینِ عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکّہ پر مشرکین قابض تھے ، عرب کے ہر حصّے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جا رہے ہوں اُن پر ہاتھ نہ ڈالو ، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصّہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا۔
۶-’’شعائر اللہ ‘‘ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اُس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہو جائے۔ ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصُود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں۔
۷-احرام بھی مِن جُملہ شعائر اللہ ہے ، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بے حرمتی کرنا ہے۔ اس لیے شعائر اللہ ہی کے سلسلہ میں اس کا ذکر بھی کر دیا گیا کہ جب تک تم احرام بند ہو ، شکار کرنا خدا پرستی کے شعائر میں سے ایک شعار کی توہین کرنا ہے۔ البتہ جب شرعی قاعدہ کے مطابق احرام کی حد ختم ہو جائے تو شکار کرنے کی اجازت ہے۔
۸-چونکہ کفار نے اُس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عرب کے قدیم دستور کے خلاف حج تک سے مسلمان محرُوم کر دیے گئے تھے ، اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گزرتے ہیں ، ان کو ہم بھی حج سے روک دیں اور زمانۂ حج میں ان کے قافلوں پر چھا پے مارنے شروع کر دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر ما کر انہیں اِس ارادہ سے باز رکھا۔
۹-یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو۔
۱۰-یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۷۱)۔
۱۱-یعنی جو جانور مذکورۂ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہو جانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثارِ زندگی اس میں پائے جاتے ہوں ، اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اُسے کھا یا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے ، کوئی دُوسرا طریقہ اس کو ہلاک کر نے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ’’ذبح‘‘ اور ’’ذکاۃ‘‘ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خُون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رُک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صُورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خُون کھِنچ کر باہر آ جاتا ہے اور اس طرح پُورے جسم کا گوشت خُون سے صاف ہو جاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اُوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے ، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خُون اس سے جُدا ہو جائے۔
۱۲-اصل میں لفظ’’ نُصُب‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصُوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مُورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے ، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔
۱۳-اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیُود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں اُن کی اصل بُنیاد اُن اشیاء کے طبّی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے ، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی اُمُور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غذائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت اِن اُمُور میں اس کی رہنمائی کی ذمّہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمّہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس کا، یا اُن دُوسرے مفردات و مرکبّات کا ، جو انسان کے لیے سخت مُہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے ، اور کونسی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسّر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر اِن اُمُور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنہی اُمُور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا بُرا اثر پڑتا ہے ، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حِلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن بُرائیوں میں سے کوئی بُرائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حُرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تا کہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خُون ، یا سُور کے گوشت یا مُردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رُو نما ہوتی ہیں، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو نا پنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض اُن کے بُرے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اُسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے ، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدمِ صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حُدُود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور للہ علیم و حکیم ہے ، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کی پابندی کرے گا، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بُنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو، اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آ گئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے ا ور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ ٔ مشق بنتا رہے۔
۱۴-اِس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حُکم ان تینوں پر حاوی ہے :
(۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پُوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے ، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبَل دیوتا کے بُت کو مخصُوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پُوچھنا ہو، یا خُون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحبِ القِداح) کے پاس پہنچ جاتے ، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نِکل آتا اس پر لِکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
(۲) توہّم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلۂ علمِ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔
(۳)جُوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نِکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نِکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نِکل آیا ہو جو صاحبِ معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔
اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قُرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صُورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے ، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صُورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے۔ اس صُورت میں ضرورت ہو تو قریہ اندازی کی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بالعمُوم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ ؐ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ ؐ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہو گا۔
۱۵-’’آج‘‘ سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دَور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانۂ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔ ’’کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے ‘‘، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں ، اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اِسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیّت کی طرف واپس لے جا سکیں گے۔ ’’لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو‘‘، یعنی اس دین کے احکام اور اس کے ہدایات پر عمل کر نے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہو گا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعتِ الہیٰ کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دُوسرے کے اثر سے مجبُور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے۔
۱۶-دین کو مکمل کر دینے سے مُراد ُس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مُراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جُوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبُوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نِکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حُدُود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔
مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ۶ ہجری) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْم ُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اِسی سیاقِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیّت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔
۱۷-ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۲۔
۱۸-اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیّت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیّت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنُوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیّت کی اصلاح کرتا ہے۔ پُوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہے بجُز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصُول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وُسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔ پہلے حِلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلال ہو گئی۔
حلال کے لیے ’’پاک‘‘ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ’’پاک‘‘ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جُو چیزیں اُصُولِ شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذّب انسان نے بالعمُوم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔
۱۹-شکاری جانوروں سے مُراد کُتّے ، چیتے ، باز، شِکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سَدھائے ہوئے جانور کی خصُوصیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑ ا ہوا جانور حرام ہے اور سَدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔
اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے ، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتیٰ کہ اگر ایک تہائی حصّہ بھی وہ کھا لے تو بقیّہ دو تہائی حلال ہے ، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہو گا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سے یہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے۔
۲۰-یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ آیا میں کُتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا‘‘۔ پھر انہوں نے پُوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کُتّا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کُتّا وہاں موجود ہے ؟ آپ ؐ نے جواب دیا ’’اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا نہ کہ دُوسرے کُتّے پر‘‘۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہو گا ، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے۔
۲۱-اہلِ کتاب کے کھانے میں اُن کا ذبیحہ بھی شامل ہے۔ ہمارے لیے اُن کا اور اُن کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھُوت چھات نہیں ہے۔ ہم اُن کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ’’تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ کتاب اگر پاکی و طہارت کے اُن قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر اُن کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اَور کا نام لیں ، تو اُسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اِسی طرح اگر اُن کے دستر خوان پر شراب یا سُور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔
اہلِ کتاب کے سوا دُوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہلِ کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ اُنہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہلِ کتاب ، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے۔
۲۲-اِس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ و ہ مُحصنَات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابنِ عباس ؓ کا خیال ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مُراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دار الحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، تو ان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیّہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکرُوہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب ؒ اور حَسَن بصری ؒ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمّی اور غیر ذمّی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مُحصَنات کے مفہُوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہلِ کتاب کی آزاد منش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن ؒ، شَعبِیؒ اور ابراہیم نَخعَی ؒ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے ، یعنی اس سے مراد اہلِ کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں۔
۲۳-اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اِس اجازت سے فائدہ اُٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عِشق میں مُبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔
۲۴-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اِس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مُنہ دھونے میں کُلّی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے ، بغیر اس کے مُنہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصّہ ہیں اس لیے سر کے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصّوں کا مسح بھی شامل ہے۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہیں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وُضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہو جائیں۔
۲۵-جَنابت خواہ مباشرت سے لاحق ہوئی ہو یا خواب میں مادّۂ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے ، دونوں صُورتوں میں غُسل واجب ہے۔ اس حالت میں غُسل کے بغیر نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ نساء ، حواشی نمبر ۶۷، ۶۸ و ۶۹)۔
۲۶-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۶۹ و ۷۰۔
۲۷-جس طرح پاکیزگیِ نفس ایک نعمت ہے اسی طرح پاکیزگیِ جسم بھی ایک نعمت ہے۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کے لے پُوری ہدایت اسے مِل جائے۔
۲۸-یعنی یہ نعمت کہ زندگی کی شاہ راہِ مستقیم تمہارے لیے روشن کر دی اور دُنیا کی ہدایت و رہنمائی کی منصب پر تمہیں سرفراز کیا۔
۲۹-ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء ، حاشیہ نمبر ۱۶۴ و ۱۶۵۔
۳۰-اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جسے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ ؐ کے خاص خاص صحابہ کو کھانے کی دعوت پر بُلایا تھا اور خفیہ طور پر یہ سازش کی تھی کہ اچانک ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس طرح اسلام کی جان نکال دیں گے۔ لیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا اور آپ ؐ دعوت پر تشریف نہ لے گئے۔ چونکہ یہاں سے خطاب کا رُخ بنی اسرائیل کی طرف پھر رہا ہے اس لیے تمہید کے طور پر اس واقعہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کے دو مقصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس روش پر چلنے سے روکا جائے جس پر ان کے پیش رو اہلِ کتاب چل رہے تھے۔ چنانچہ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح آج تم سے عہد لیا گیا ہے اسی طرح کل یہی عہد بنی اسرائیل سے اور مسیح علیہ السّلام کی اُمّت سے بھی لیا جا چکا ہے۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح وہ اپنے عہد کو توڑ کر گمراہیوں میں مُبتلا ہوئے اُسی طرح تم بھی اُسے توڑ دو اور گمراہ ہو جاؤ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہُود اور نصاریٰ دونوں کو اُن کی غلطیوں پر متنبّہ کیا جائے اور انہیں دینِ حق کی طرف دعوت دی جائے۔
۳۱-نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ’’سرداروں‘‘ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ’’نقیب‘‘ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگرانِ کار کی قرار دیتا ہے۔
۳۲-یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہو۔
۳۳-یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اُس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے ، کئی گُنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو ’’قرض ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ ’’اچھا قرض‘‘ ہو، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے ، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوصِ و حُسن نیت کے ساتھ خرچ کی جائے۔
۳۴-کسی سے اُس کی بُرائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہِ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی بُرائیوں سے ، اور اس کا طرزِ زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیتِ مجمُوعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ بُرائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بُنیادی اِصلاح قبول کر لی ہو اس کی جُزوی اور ضمنی بُرائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے۔
۳۵-یعنی اُس نے ’’سَوَا ء السّبیل‘‘ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا۔ ’’سَوَاء السّبیل‘‘ کا ترجمہ ’’توسّط و اعتدال کی شاہ راہ‘‘ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پُورا مفہُوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جُوں کا تُوں لے لیا ہے۔
اِس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالِم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں، خواہشیں ہیں، جذبات اور رُجحانات ہیں، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، رُوح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدّن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ پھر دنیا میں جو سامانِ زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدّن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے۔
انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پُورے عرصۂ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے ، اس کے سارے جذبات و رُجحانات میں توازن قائم رہے ، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پُورے ہوں، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادّی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدّنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلّط ہو جاتا ہے کہ دُوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے۔ اور اس کی اِس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حُدُود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شرُوع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ اُن کے ساتھ انصاف ہو۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا۔ کیونکہ پھر وہی عمل رُو نما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصُوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رُخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دُوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے۔ اِس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دُوسرے کنارے کی طرف ڈھُلکتی چلی جاتی ہے۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں، خطِ منحنی کی شکل میں واقع ہیں، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دُوسری غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔
اِن بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ، اس کے تمام جذبات و رُجحانات کے ساتھ، اور اس کی رُوح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پُورا پُورا انصاف کیا گیا ہو، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ، کوئی کجی، کِسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دُوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و با مُرادی کے لیے سخت ضرورت ہے۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اُس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہ راہ کو ڈھونڈتی ہے۔مگر انسان خود اس شاہ راہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی طرف صرف خدا ہی راہ نمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اِس راہِ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں۔
قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراطِ مستقیم کہتا ہے۔ یہ شاہ راہ دُنیا کی اِس زندگی سے لے کر آخرت کی دُوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رَو اور آخرت میں کامیاب و با مراد ہے ، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا، وہ یہاں غلط ہیں، غلط رَو اور غلط کار ہے ، اور آخرت میں لامحالہ اُسے دوزخ میں جانا ہے ، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں۔
موجودہ زمانہ کے بعض نا دان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جا رہی ہے ، یہ غلط نتیجہ نِکال لیا کہ ’’جَدَلی عمل‘‘(Dialectical Process) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis) اُسے ایک رُخ پر بہا لے جائے ، پھر اِس کے جواب میں دُوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اُسے دُوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج (Synthesis) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اُس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دُور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دُوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے۔ جُوں جُوں سَوَاء السّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اُسے دُوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دُوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دُوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے نہ کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا۔
۳۶-لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ ’’نصاریٰ‘‘ کا لفظ ’’ناصرہ‘‘ سے ماخوذ ہے جو مسیح علیہ السّلام کا وطن تھا۔ دراصل اس کا ماخذ ’’نصرت‘‘ ہے ، اور اس کی بنا وہ قول ہے جو مسیح علیہ السّلام کے سوال مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ (خدا کی راہ میں کون لوگ میرے مددگار ہیں؟) کے جواب میں حواریوں نے کہا تھا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ (ہم اللہ کے کام میں مددگار ہیں)۔ عیسائی مصنّفین کو بالعمُوم محض ظاہری مشابہت دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوئی کہ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ میں ناصر یہ (Nazarenes) کے نام سے جو ایک فرقہ پایا جاتا تھا ، اور جنہیں حقارت کے ساتھ ناصری اور ایبونی کہا جاتا تھا، انہی کے نام کو قرآن نے تمام عیسائیوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہاں قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ ہم ’’نصاریٰ‘‘ اور یہ ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے اپنا نام کبھی ناصری نہیں رکھا۔
اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے پیرووں کا نام کبھی "عیسائی" یا "مسیحی" نہیں رکھا تھا۔ کیونکہ وہ اپنے نام نے کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالنے نہیں آئے تھے۔ ان کی دعوت اُسی دین کو تازہ کرنے کی طرف تھی، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے۔اس لیے انہوں نے عام بنی اسرائیل اور پیروانِ شریعت موسوی سے الگ نہ کوئی جماعت بنائی اور نہ اس کا کوئی مستقل نام رکھا۔ ان کے ابتدائی پیرو خود بھی نہ اپنے آپ کو اسرائیلی ملّت سے الگ سمجھتے تھے ، نہ ایک مستقل گروہ بن کر رہے ، اور نہ انہوں نے اپنے لئے کوئی امتیازی نام اور نشان قرار دیا۔ وہ عام یہودیوں کے ساتھ بیت المَقْدِس ہی کے ہیکل میں عبادت کرنے کے لیے جاتے تھے اور اپنے آپ کو موسوی شریعت ہی پر عمل کرنے کا پابند سمجھتے تھے (ملاحظہ ہو کتاب اعمال ۳ : ۱ - ۱۰ : ۱۴ - ۱۵ : ۵،۱ - ۲۱ : ۲۱)
آگے چل کر جدائی کا عمل دو جانب سے شروع ہوا۔ ایک طرف عیسیٰؑ کے پیرووں میں سے پولوس ( سینٹ پال) نے شریعت کی پابندی ختم کر کے یہ اعلان کر دیا کہ بس مسیح پر ایمان لے آنا نجات کے لیے کافی ہے۔ اور دوسری طرف یہودی علماء نے پیروانِ مسیح کو ایک گمراہ فرقہ قرار دے کر عامّۂ بنی اسرائیل سے کاٹ دیا۔ لیکن اس جدائی کے باوجود ابتداء ً اس نئے فرقے کا کوئی خاص نام نہ تھا۔ خود پیروانِ مسیح اپنے لیے کبھی "شاگرد" کا لفظ استعمال کرتے تھے اور کبھی اپنے رفقاء کا ذکر "بھائیوں" (اِخوان)، " ایمان داروں" (مؤمنین) " جو ایمان لائے " (الّذین اٰمنوا) اور "مقدسوں" کے الفاظ سے کرتے تھے۔ (کتاب اعمال ۲ : ۴۴ - ۴ : ۳۲ - ۹: ۲۶ - ۱۱ : ۲۹ - ۱۳ : ۵۲ - ۱۵ : ۱، ۲۳ - رومیوں ۱۵ : ۲۵- کُلُسیّوں ۱ : ۲)۔ بخلاف اس کے یہودی ان لوگوں کو کبھی "گلیلی" کہتے اور کبھی "ناصریوں کا بدعتی فرقہ" کہہ کر پکارتے تھے (اعمال ۲۴ : ۵ - لوقا ۱۳ : ۲)۔ یہ نام دھرنے کی کوشش انہوں نے از راہِ طنز و تشنیع اس بنا پر کی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وطن ناصرہ تھا اور وہ فلسطین کے ضلع گلیل میں واقع تھا۔ لیکن یہ طنزیہ الفاظ اس حد تک رائج نہ ہو سکے کہ پیروانِ مسیح کے لیے نام کی حیثیت اختیار کر جاتے۔
اس گروہ کا موجودہ نام مسیحی (CHRISTIAN) پہلی مرتبہ ۴۳ عیسوی یا ۴۴ عیسوی میں انطاکیہ کے مشرک باشندوں نے رکھا تھا، جب کہ سینٹ پال اور بَرنَاباس نے وہاں پہنچ کر اپنے مذہب کی تبلیغِ عام شروع کی (اعمال ۱۱ : ۲۶)۔ یہ نام بھی دراصل طنز و تمسخر کے طور پر مخالفین کی طرف سے رکھا گیا تھا، اور پیروانِ مسیح اسے خود اپنے نام کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن جب ان کے دشمنوں نے ان کو اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا تو ان کے لیڈروں نے کہا کہ اگر تمہیں مسیح کی طرف نسبت دے کر "مسیحی " کہا جاتا ہے تو اس میں شرمانے کی کیا ضرورت ہے (۱-پطرس ۴ : ۱۶)۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ لوگ بھی خود اپنے آپ کو اسی نام سے موسوم کرنے لگے جس سے ان کے دشمنوں نے طنزاً موسوم کیا تھا، یہاں تک کہ آخر کار ان کے اندر سے یہ احسان ہی ختم ہو گیا کہ یہ دراصل ایک بُرا لقب تھا جو انہیں دیا گیا تھا۔
قرآن مجید نے اسی لیے مسیح کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کے نام سے یاد نہیں کیا ہے۔ بلکہ انہیں یاد دلایا ہے کہ تم دراصل ان لوگوں کے نام لیوا ہو جنھیں عیسیٰ ابنِ مریم نے پکارا تھا کہ مَنْ اَنصَارِیْ اِلَی اللہ " کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے "، انہوں نے جواب دیا کہ نَحْن ُ اَنصَارُ اللہ، " ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں"۔ اس لیے تم اپنی ابتدائی اور بنیادی حقیقت کے اعتبار سے انصاریٰ یا انصار ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنری اس یاد دہانی پر قرآن کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اُلٹی شکایت کر رہے ہیں کہ قرآن نے ان کو مسیحی کہنے کے بجائے نصاریٰ کے نام سے کیوں موسوم کیا!
۳۷-یعنی تمہاری بعض چوریاں اور خیانتیں کھول دیتا ہے جن کا کھولنا دینِ حق کو قائم کرنے لیے ناگزیر ہے ، اور بعض سے چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے جن کے کھولنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔
۳۸-’’سلامتی‘‘ سے مُراد غلط بینی، غلط اندیشی اور غلط کاری سے بچنا اور اس کے نتائج سے محفوظ رہنا ہے۔ جو شخص اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکر و عمل کے ہر چوراہے پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح ان غلطیوں سے محفوظ رہے۔
۳۹-عیسائیوں نے ابتداءً مسیحؑ کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرار دے کر جو غلطی کی تھی ، اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے لیے مسیحؑ کی حقیقت ایک معما بن کر رہ گئی جسے اُن کے علماء نے لفّاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوشش کی اُتنے ہی زیادہ اُلجھتے چلے گئے۔ اُن میں سے جس کے ذہن پر اِس مرکب شخصیت کے جُزوِ انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے اور تین مستقل خداؤں میں سے ایک ہونے پر زور دیا۔ اور جس کے ذہن پر جُزوِ اُلُوہیّت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیحؑ کو اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہُور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیحؑ کی عبادت کی۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کر دیا جن سے مسیحؑ کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جا سکے ، خدا اور مسیحؑ الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ نساء، حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳ و ۲۱۵)۔
۴۰-اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ ہے اس طرف کہ محض مسیحؑ کی اعجاز ی پیدائش اور ان کے اخلاقی کمالات اور محسُوس معجزات کو دیکھ کر جو لوگ اس دھوکہ میں پڑ گئے کہ مسیحؑ ہی خدا ہے وہ درحقیقت نہایت نادان ہیں۔ مسیحؑ تو اللہ کے بے شمار عجائبِ تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کر ان ضعیف ُ البصر لوگوں کی نگاہیں چوندھیا گئیں۔ اگر اِن لوگوں کی نگاہ کچھ وسیع ہوتی تو انہیں نظر آتا کہ اللہ نے اپنی تخلیق کے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز نمونے پیش کیے ہیں اور اس کی قدرت کسی حد کے اندر محدُود نہیں ہے۔ پس یہ بڑی بے دانشی ہے کہ مخلوق کے کمالات کو دیکھ کر اسی پر خالق ہونے کا گمان کر لیا جائے۔ دانشمند وہ ہیں جو مخلوق کے کمالات میں خالق کی عظیم الشان قدرت کے نشانات دیکھتے ہیں اور ان سے ایمان کا نُور حاصل کرتے ہیں۔
۴۱-اِس موقع پر یہ فقرہ نہایت بلیغ و لطیف ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خدا پہلے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجنے پر قادر تھا اسی نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس خد مت پر مامور کیا ہے اور وہ ایسا کرنے پر قادر تھا۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس بشیر و نذیر کی بات نہ مانی تو یاد رکھو کہ اللہ قادر و توانا ہے۔ ہر سزا جو وہ تمہیں دینا چاہے بلا مزاحمت دے سکتا ہے۔
۴۲-یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس عظمت گذشتہ کی طرف جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بہت پہلے کسی زمانہ میں اُن کو حاصل تھی۔ ایک طرف حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر اُن کی قوم میں پیدا ہوئے۔ اور دُوسری طرف حضرت یوسُف علیہ السّلام کے زمانہ میں اور اُن کے بعد مصر میں اُن کو بڑا اِقتدار نصیب ہوا۔ مدّتِ دراز تک یہی اس زمانہ کی مہذب دُنیا کے سب سے بڑے فرماں روا تھے اور انہی کا سکّہ مصر اور اس کے نواح میں رواں تھا۔ عموماً لوگ بنی اسرائیل کے عُروج کی تاریخ حضرت موسی ٰؑ سے شروع کرتے ہیں ، لیکن قرآن اس مقام پر تصریح کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل زمانۂ عرُوج حضرت موسیٰؑ سے پہلے گزر چکا تھا جسے خود حضرت موسیٰ اپنی قوم کے سامنے اس کے شاندار ماضی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے۔
۴۳-اِس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ کا مسکن رہ چکی تھی۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکل آئے تو اسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے نامزد فرمایا اور حکم دیا کہ جا کر اسے فتح کر لو۔
۴۴-حضرت موسیٰؑ کی یہ تقریر اس موقع کی ہے جب مصر سے نکلنے کے تقریباً دو سال بعد آپ اپنی قوم کو لیے ہوئے دشتِ فاران میں خیمہ زن تھے۔ یہ بیابان جزیرہ نمائے سینا میں عرب کی شمالی اور فلسطین کی جنوبی سرحد سے متصل واقع ہے۔
۴۵-قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ جبّاروں سے ڈر رہے تھے اُن کے درمیان سے دو شخص بول اُٹھے۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ خدا سے ڈرنے والے تھے ان میں سے دو شخصوں نے یہ بات کہی۔
۴۶- اس قصّے کی تفصیلات بائیبل کی کتاب گنتی، استثناء اور یشوع میں ملیں گی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے دشتِ فاران سے بنی اسرائیل کے ۱۲ سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کر کے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمعِ عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دُودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں، "لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زورآور ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں۔۔۔۔۔۔ وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبّار ہیں اور جبّاروں کی نسل سے ہیں، اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹِڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے "۔ یہ بیان سُن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ " اے کاش ہم مصر میں ہی مر جاتے ! یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے ، خداوند! کیوں ہم کو اس مُلک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے ؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچّے لوٹ کا مال ٹھریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہو گا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں"۔ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر کو لوٹ چلیں۔ اِس پر اُن بارہ سرداروں میں سے ، جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے ، دو سردار، یُوشع اور کالِب اُٹھے اور انہوں نے اِس بُزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا ’’چلو ہم ایک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کر لیں، کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصّرف کریں‘‘۔ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ’’ اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا۔۔۔۔۔۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اِس ملک کے لوگوں سے ڈرو۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو‘‘۔ مگر قوم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’ اِنہیں سنگسار کر دو‘‘۔ آخر کار اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یُوشع اور قالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اُس سرزمیں میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی، یہاں تک کہ جب ان میں سے ۲۰ برس سے لے کر اُوپر کی عمر تک کے سب مرد مر جائیں گے اور نئی نسل جوان ہو کر اُٹھے گی تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ چنانچہ اس فیصلہ ٔ خداوندی کے مطابق دشتِ فاران سے شرق اُردن پہنچتے پہنچتے پورے ۳۸ برس لگ گئے۔ اِس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے۔ شرق اُردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت یُوشع بن نون کے عہدِ خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کر سکیں۔
بنی اسرائیل کی صحرا نوردی ( نقشہ ) :۔
تشریح : حضرت موسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر جزیرہ نمائے سینا میں مارہ، ایلیم اور رعیدیم کے راستے کوہِ سینا کی طرف آئے اور ایک سال سے کچھ زائد مدّت تک اس مقام پر ٹھیرے رہے۔ یہیں تورات کے بیشتر احکام آپ پر نازل ہوئے۔ پھر آپ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف جاؤ اور اسے فتح کر لو کہ وہ تمھاری میراث میں دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کو لیے ہوئے تبعیر اور نصیرات کے راستے دشتِ فاران میں تشریف لائے اور یہاں سے آپ نے ایک وفد فلسطین کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ قادس کے مقام پر اس وفد نے آ کر اپنی رپورٹ پیش کی۔ حضرت یُوشع اور کالب کے سوا پورے وفد کی رپورٹ نہایت حوصلہ شکن تھی۔ جسے سن کر بنی اسرائیل چیخ اٹھے اور انھوں نے فلسطین کی مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب یہ چالیس برس تک اس علاقے میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کی موجودہ نسل، یُوشع اور کالِب کے سوا فلسطین کی شکل نہ دیکھنے پائے گی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل دشتِ فاران، بیابانِ شور اور دشتِ صین کے درمیان مارے مارے پھرتے رہے اور عمالقہ، اشوریوں، اَدومیوں، مدیانیوں اور موآب کے لوگوں سے لڑتے بھڑتے رہے۔ جب چالیس سال گزرنے کے قریب آئے تو اَدُوم کی سرحد کے قریب کوہِ ہور پر حضرت ہارون علیہ السّلام نے وفات پائی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کو لیے ہوئے موآب کے علاقے میں داخل ہوئے ، اور اس پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے حسبون اور شطّیم تک پہنچ گئے۔ یہاں کوہِ عباریم پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور ان کے بعد ان کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع نے مشرق کی جانب سے دریائے اُردن کو پار کر کے شہر یریحو (اریحا) کو فتح کیا۔ یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا جو بنی اسرائیل کے قبضہ میں آیا۔ پھر ایک قلیل مدّت ہی میں پورا فلسطین فتح ہو گیا۔۔۔۔۔۔ اس نقشہ میں ایلہ (قدیم نام ایلات اور موجودہ نام عقبہ) وہ مقام ہے جہاں غالباً اصحاب السبت کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورۂ بقرہ رکوع ۸ اور سورة اعراف رکوع ۲۱ میں آیا ہے۔
۴۷-یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے کی غرض سلسلۂ بیان پر غور کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتی ہے۔ قصہ کے پیرایہ میں دراصل بنی اسرائیل کو یہ جتانا مقصُود ہے کہ موسیٰ کے زمانہ میں نافرمانی ، انحراف اور پست ہمتی سے کام لے کر جو سزا تم نے پائی تھی ، اب اس سے بہت زیادہ سزا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں باغیانہ روش اختیار کر کے پاؤ گے۔
۴۸-یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصُور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے ، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
۴۹-اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تُو مجھے قتل کر نے کے لیے آئے گا تو میں ہاتھ باندھ کر تیرے سامنے قتل ہونے کے لیے بیٹھ جاؤ ں گا اور مدافعت نہ کروں گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تُو میرے قتل کے درپے ہوتا ہے تو ہو، میں تیرے قتل کے درپے نہ ہوں گا۔ تُو میرے قتل کی تدبیر میں لگنا چاہے تو تُجھے اختیار ہے ، لیکن میں یہ جاننے کے بعد بھی کہ تُو میرے قتل کی تیاریاں کر رہا ہے ، یہ کوشش نہ کروں گا کہ پہلے میں ہی تجھے مار ڈالوں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی شخص کا اپنے آپ کو خود قاتل کے آگے پیش کر دینا اور ظالمانہ حملہ کی مدافعت نہ کرنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میرے قتل کے درپے ہو اور میں جانتا ہوں کہ وہ میری گھات میں لگا ہو ا ہے ، تب بھی میں اس کے قتل کی فکر نہ کروں اور اسی بات کو ترجیح دوں کہ ظالمانہ اقدام اُس کی طرف سے ہو نہ کہ میری طرف سے۔ یہی مطلب تھا اس بات کا جو آدم علیہ السّلام کے اس نیک بیٹے نے کی۔
۵۰-یعنی بجائے اس کے کہ ایک دُوسرے کے قتل کی سعی میں ہم دونوں گناہ گار ہوں ، میں اس کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ دونوں کا گناہ تنہا تیرے ہی حصّہ میں آ جائے ، تیرے اپنے قاتلانہ اقدام کا گناہ بھی، اور اس نقصان کا گناہ بھی جو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے میرے ہاتھ سے تجھے پہنچ جائے۔
۵۱-اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعہ سے آدم کے اس غلط کار بیٹے کو اس کی جہالت و نادانی پر متنبّہ کیا، اور جب ایک مرتبہ اس کو اپنے نفس کی طرف توجّہ کرنے کا موقع مل گیا توا س کی ندامت صرف اسی بات تک محدُود نہ رہی کہ وہ لاش چھپانے کی تدبیر نکالنے میں کوّے سے پیچھے کیوں رہ گیا، بلکہ اس کو یہ بھی احساس ہونے لگا کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے کتنی بڑی جہالت کا ثبُوت دیا ہے۔ بعد کا فقرہ کہ وہ اپنے کیے پر پچھتایا، اسی مطلب پر دلالت کر تا ہے۔
۵۲-یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے سے مقصد یہودیوں کو ان کی اُس سازش پر لطیف طریقہ سے ملامت کرنا ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ ؐ کے جلیل القدر صحابہ کو قتل کرنے کے لیے کی تھی(ملاحظہ ہو اسی سُورۃ کا حاشیہ نمبر ۳۰)۔ دونوں واقعات میں مماثلت بالکل واضح ہے۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے اِن اُمّیوں کو قبولیت کا درجہ عطا فرمایا اور اُن پُرانے اہلِ کتاب کو رد کر دیا، سراسر اِس بُنیاد پر تھی کہ ایک طرف تقویٰ تھا اور دُوسری طرف تقویٰ نہ تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ جنہیں رَد کر دیا گیا تھا، اپنے مردُود ہونے کی وجہ پر غور کرتے اور اُس قصُور کی تلافی کرنے پر مائل ہوتے جس کی وجہ سے وہ رد کیے گئے تھے ، ان پر ٹھیک اُسی جاہلیت کا دورہ پڑ گیا جس میں آدمؑ کا وہ غلط کار بیٹا مبتلا ہوا تھا، اور اُسی کی طرح وہ ان لوگوں کے قتل پر آمادہ ہو گئے جنہیں خدا نے قبولیت عطا فرمائی تھی۔ حالانکہ ظاہر تھا کہ ایسی جاہلانہ حرکتوں سے وہ خدا کے مقبول نہ ہو سکتے تھے ، بلکہ یہ کرتُوت انہیں اور زیادہ مردُود بنا دینے والے تھے۔
۵۳-یعنی چونکہ بنی اسرائیل کے اندر اُنہی صفات کے آثار پائے جاتے تھے جن کا اظہار آدم کے اس ظالم بیٹے نے کیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ا ن کو قتلِ نفس سے باز رہنے کی سخت تاکید کی تھی اور اپنے فرمان میں یہ الفاظ لکھے تھے۔ افسوس ہے کہ آج جو بائیبل پائی جاتی ہے وہ فرمانِ خداوندی کے ان قیمتی الفاظ سے خالی ہے۔ البتہ تلمُود میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے :’’ جس نے اسرائیل کی ایک جان کو ہلاک کیا، کتاب اللہ کی نگاہ میں اس نے گویا ساری دنیا کو ہلاک کیا، اور جس نے اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، کتاب اللہ کی نزدیک اس نے گویا ساری دنیا کی حفاظت کی‘‘۔ اسی طرح تلمود میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ قتل کے مقدمات میں بنی اسرائیل کے قاضی گواہوں کو خطاب کر کے کہا کرتے تھے کہ ’’جو شخص ایک انسان کی جان ہلاک کرتا ہے وہ ایسی باز پرس کا مستحق ہے کہ گویا اس نے دُنیا بھر کے انسانوں کو قتل کیا ہے ‘‘۔
۵۴-مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں نوعِ انسانی کی زندگی کا بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دُوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دُوسرے کی زندگی کے بقاء و تحفظ میں مدد گار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے اور ہمدردیِ نوع کے جذبہ سے خالی ہے ، لہٰذا وہ پُوری انسانیت کا دُشمن ہے ، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پُوری نوع کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے ، کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقاء کا انحصار ہے۔
۵۵-(زمین سے مراد یہاں وہ مُلک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو۔ اور خدا و رسول سے لڑنے کا مطلب اُس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے اور اسی کے لیے اس نے اپنا رسول بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظام قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اُس چیز کو جو زمین پر ہے ، امن بخشے ، جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے ،جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں۔ ایسا نظام جب کسی سر زمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو اُلٹنے اور اس کی جگہ کوئ فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے رسُول ؐ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیراتِ ہند میں ہر اُس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کرے ’’ بادشاہ کے خلاف لڑائی‘‘(Waging war against the King) کا مجرم قرار دیا گیا ، چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دُور دراز گوشے میں ایک معمُولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دست رس سے کتنا ہی دُور ہو۔
۵۶-یہ مختلف سزائیں بر سبیلِ اجمال بیان کر دی گئی ہیں تاکہ قاضی یا امامِ وقت اپنے اجتہاد پر مُجرم کو اس کے جُرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے۔ اصل مقصُود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے اسلامی نظام کو اُلٹنے کی کوشش کرنا بدترین جُرم ہے اور اسے ان انتہائی سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔
۵۷-یعنی اگر وہ سعِی فساد سے باز آ گئے ہوں، اور صالح نظام کو درہم برہم کرنے یا اُلٹنے کی کوشش چھوڑ چکے ہوں، اُن کا بعد کا طرزِ عمل ثابت کر رہا ہو کہ وہ امن پسند، مطیع قانون، اور نیک چلن انسان بن چکے ہیں، اور اس کے بعد اُن کے سابق جرائم کا پتہ چلے ، تو اُن سزاؤں میں سے کوئی سزا اُن کو نہ دی جائے گی جو اُپر بیان ہوئی ہیں۔ البتہ آدمیوں کے حقوق پر اگر کوئی دست درازی انہوں نے کی تھی تو اس کی ذمّہ داری ان پر سے ساقط نہ ہو گی۔ مثلاً اگر کسی انسان کو انہوں نے قتل کیا تھا یا کسی کا مال لیا تھا یا کوئی اور جُرم انسانی جان و مال کے خلاف کیا تھا تو اسی جرم کے بارے میں فوجداری مقدمۃسزا انسانون ٔ ے کہ دُسرے پہلوو ان پر قائم کیا جائے گا، لیکن بغاوت اور غدّاری اور خدا اور رسول کے خلاف محاربہ کا کوئی مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔
۵۸-یعنی ہر اُس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہو جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کر سکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو۔
۵۹-اصل میں لفظ جَاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہُوم محض ’’جدوجہد‘‘ سے پُوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہُوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں، جو تم کو خد اکی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ، جو تم کو پُوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمہیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبُور کرتی ہیں، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدو جہد کرو۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے۔
اس طرح یہ آیت بندۂ مومن کو ہر محاذ پر چو مُکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے۔ ایک طرف ابلیسِ لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے۔ دُوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی ، تمدّنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی ، تمدّنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگیِ حق کے بجائے بندگیِ باطل پر انسان کو مجبُور کرتے ہیں۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقربِ خداوندی کے مقام تک اس کے عُروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے۔ لہٰذا اپنے مقصُود تک اس کا پہنچنا بغیر اِس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ اِن تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رُکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے۔
خُوب جان لو کہ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے ، اگر اُن کے قبضہ میں ساری زمین کی دولت ہو اور اتنی ہی اور اس کے ساتھ، اور وہ چاہیں کہ اسے فدیہ میں دے کر روزِ قیامت کے عذاب سے بج جائیں، تب بھی وہ ان سے قبول نہ کی جائے گی اور انہیں درد ناک سزا مِل کر رہے گی۔وہ چاہیں گے کہ دوزخ کی آگ سے نِکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور انہیں قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔
۶۰-دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ۔ اور اُمّت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اِس فعل پر ہوتا ہے کہ آدمی کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس ؓ دس درہم ، بروایت ابن عمر ؓ تین درہم، بروایت انس بن مالک ؓ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ ؓ ایک چوتھائی دینار ہوتی تھی۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصابِ سرقہ میں اختلاف ہوا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس درہم ہے اور امام مالک ؒ شافعیؒ اور احمدؒ کے نزدیک چوتھائی دینار۔ (اُس زمانہ کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱/۵ رتی چاندی ہوتی تھی۔ اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا)۔
(پھر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے کہ لا قطع فی ثمرۃ ولا کثر( پھل اور ترکاری کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے )۔ لاقطع فی طعام( کھانے کی چوری میں قطعِ ید نہیں ہے۔)۔ اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے کہ لم یکن قطع السارق علی عھد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی الشئ التافہ(حقیر چیزوں کی چوری میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا)۔ حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا فیصلہ ہے اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا کہ لا قطع فی الطّیر( پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے )۔ نیز سیّدنا عمر و علی رضی اللہ عنہما نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا اور اس معاملہ میں بھی صحابہ کرام میں سے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے۔ اِن مآخذ کی بُنیاد پر مختلف ائمہ فقہ نے مختلف چیزوں کو قطعِ ید کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ترکاریاں ، پھل ، گوشت ، پکا ہوا کھانا، غلّہ جس کا ابھی کھلیان نہ کیا گیا ہے ، کھیل اور گانے بجانے کے آلات وہ چیزیں ہیں جن کی چوری میں قطعِ ید کی سزا نہیں ہے۔ نیز جنگل میں چَرتے ہوئے جانوروں کی چوری اور بیت المال کی چوری میں بھی وہ قطعِ ید کے قائل نہیں ہیں۔ اِسی طرح دُوسرے ائمّہ نے بھی بعض چیزوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اِن چوریوں پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
۶۱-اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کٹنے کے بعد جو شخص توبہ کر لے اور اپنے نفس کو چوری سے پاک کر کے اللہ کا صالح بندہ بن جائے وہ اللہ کے غضب سے بچ جائے گا ، اور اللہ اس کے دامن سے اس داغ کو دھو دے گا۔ لیکن اگر کسی شخص نے ہاتھ کٹوا نے کے بعد بھی اپنے آپ کو بدنیتی سے پاک نہ کیا اور وہی گندے جذبات اپنے اندر پرورش کیے جن کی بنا پر اس نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہاتھ تو اس کے بدن سے جدا ہو گیا مگر چوری اس کے نفس میں بدستور موجود رہی، اس وجہ سے وہ خدا کے غضب کا اسی طرح مستحق رہے گا جس طرح ہاتھ کٹنے سے پہلے تھا۔ اِسی لیے قرآن مجید چور کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اللہ سے معافی مانگے اور اپنے نفس کی اصلاح کرے۔ کیونکہ ہاتھ کاٹنا تو انتظامِ تمدّن کے لیے ہے۔ اس سزا سے نفس پاک نہیں ہو سکتا۔ نفس کی پاکی صرف توبہ اور رُجوع اِلی اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق احادیث میں مذکور ہے کہ ایک چور کا ہاتھ جب آپ کے حکم کے مطابق کاٹا جا چکا تو آپ ؐ نے اُسے اپنے پاس بلایا اور اس سے فرمایا قل اسْتغفر اللہ و اتوب الیہ۔’’کہہ میں خدا سے معافی چاہتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں‘‘۔ اُس نے آپ ؐ کی تلقین کے مطابق یہ الفاظ کہے۔ پھر آپ ؐ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اَلّٰھُمَّ تُبْ عَلَیْہِ۔’’خدایا اسے معاف فر ما دے ‘‘۔
۶۲-یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آ رہی ہے وہی برقرار رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اُس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہ لوگ تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے۔ جان بُوجھ کر حق نِگل رہے تھے۔ نہایت بے باکی و جسارت کے ساتھ جھُوٹ ، فریب ، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اُس پاک انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کام بے غرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود اُن کی فلاح و بہبُود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا۔ اُن کی اِن حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دل کُڑھتا تھا ، اور یہ کُڑھنا بالکل فطری امر تھا۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر اس کی خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں تو فطرۃً اُس کا دل دُکھتا ہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ اِن حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں، ہمت نہ ہاریں، صبر کے ساتھ بندگانِ خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں۔ رہے یہ لوگ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں اُن کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے ، کوئی چیز اِن کی اس روش میں خلاف توقع نہیں ہے۔
۶۳-اس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے بن گئے ہیں اس لیے سچائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جھُوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اسی کو یہ جی لگا کر سُنتے ہیں ، کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اُسی سے بُجھتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھُوٹ کی غرض سے آ کر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سُنیں اُن کو اُلٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے آنحضرت ؐ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں پھیلائیں۔
۶۴-اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لیے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دُشمنوں تک پہنچائیں۔ دُوسرے یہ کہ جھُوٹے الزامات عائد کرنے اور افترا پردازیاں کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ اُن لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں سے براہِ راست تعلقات پیدا کرتے کا موقع نہیں ملا ہے۔
۶۵-یعنی توراۃ کے جو احکام ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں۔ ان کے اندر جان بُوجھ کر رد و بدل کرتے ہیں اور الفاظ کے معنی بدل کر من مانے احکام ان سے نکالتے ہیں۔
۶۶-یعنی جاہل عوام سے کہتے ہیں کہ جو حکم ہم بتا رہے ہیں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تو اسے قبول کرنا ورنہ رد کر دینا۔
۶۷-اللہ کی طرف سے کسی کے فتنہ میں ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر اللہ تعالیٰ کسی قسم کے بُرے میلانات پرورش پاتے دیکھتا ہے اس کے سامنے پے در پے ایسے مواقع لاتا ہے جن میں اس کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص ابھی بُرائی کی طرف پوری طرح نہیں جھکا ہے تو ان آزمائشوں سے سنبھل جاتا ہے اور اس کے اندر بدی کا مقابلہ کرنے کے لیے نیکی کی جو قوتیں موجود ہوتی ہیں وہ اُبھر آتی ہیں۔ لیکن اگر وہ بُرائی کی طرف پُوری طرح جھُک چکا ہوتا ہے اور اس کی نیکی اس کی بدی سے اندر ہی شکست کھا چکی ہوتی ہے تو ہر ایسی آزمائش کے موقع پر وہ اور زیادہ بدی کے پھندے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وہ فتنہ ہے جس سے کسی بگڑتے ہوئے انسان کو بچا لینا اس کے کسی خیر خواہ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اور اس فتنہ میں صرف افراد ہی نہیں ڈالے جاتے بلکہ قومیں بھی ڈالی جاتی ہیں۔
۶۸-اس لیے کہ انہوں نے خود پاک ہونا نہ چاہا۔ جو خود پاکیزگی کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے اُسے پاکیزگی سے محرُوم کرنا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ اللہ پاک کرنا اُسی کو نہیں چاہتا جو خود پاک ہونا نہ چاہے۔
۶۹-یہاں خاص طور پر اُن کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جھُوٹی شہادتیں لے کر اور جھُوٹی رودادیں سُن کر اُن لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے۔
۷۰-یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے۔ ان معاہدات کی رُو سے یہودیوں کو اپنے اندرونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق اُن کے اپنے جج کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ از رُوئے قانون مجبُور نہ تھے۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے اُن کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس اُمید پر آ جاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دُوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں۔
یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا۔ توراۃ کی رُو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲۴) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو پنچ بنایا جائے۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اَور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے ؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر اُ ن سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے ؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توراۃ کا سب سے بڑا عالم تھا، خاموش رہا۔ آپ نے اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اُس خدا کی قسم دے کر پُوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طُور پر تمہیں شریعت عطا کی، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ’’اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حُکّام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جائیں اور انہیں مُنہ کالا کر کے گدھے پر اُلٹے مُنہ سوار کیا جائے۔‘‘ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا۔
۷۱-اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں کی بددیانتی کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ ’’مذہبی لوگ‘‘ جنہوں نے تمام عرب پر اپنی دینداری اور اپنے علم کتاب کا سِکّہ جما رکھا تھا ، ان کی حالت یہ تھی کہ جس کتاب کو خود کتاب اللہ مانتے تھے اور جس پر ایمان رکھنے کے مدّعی تھے اُس کے حکم کو چھور کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنا مقدمہ لائے تھے جن کے پیغمبر ہونے سے ان کو بشدّت انکار تھا۔ اس سے یہ راز بالکل فاش ہو گیا کہ یہ کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے ، دراصل ان کا ایمان اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر ہے ، جسے کتاب اللہ مانتے ہیں اس سے صرف اس لیے مُنہ موڑتے ہیں کہ اس کا حکم ان کے نفس کو ناگوار ہے ، اور جسے معاذاللہ جھُوٹا مدّعیِ نبوّت کہتے ہیں اس کے پاس صرف اس امید پر جاتے ہیں کہ شاید وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ حاصل ہو جائے جو ان کے منشاء کے مطابق ہو۔
۷۲-یہاں ضمناً اس حقیقت پر بھی متنبّہ کر دیا گیا کہ انبیاء سب کے سب ’’مسلم‘‘ تھے ، بخلاف اس کے یہ یہودی ’’اسلام ‘‘ سے ہٹ کر اور فرقہ بندی میں مبتلا ہو کر صرف ’’یہودی‘‘ بن کر رہ گئے تھے۔
۷۳-ربّانی = علماء – احبار = فقہاء
۷۴-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو توراۃ کی کتاب خروج، باب ۲۱- آیت ۲۳-۲۵۔
۷۵-یعنی جو شخص صدقہ کی نیت سے قصاص معاف کر دے اس کے حق میں یہ نیکی اس کے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ اسی معنی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ من جرح فی جسدہ جراحۃ فتصدق بھا کفر عنہ ذنوبہ بمثل ما تصدق بہ۱۔ یعنی جس کے جسم میں کوئی زخم لگا یا گیا اور اس نے معاف کر دیا تو جس درجہ کی یہ معافی ہو گی اسی کے بقدر اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
۷۶-یعنی مسیح علیہ السّلام کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہی ایک دین، جو تمام پچھلے انبیاء کا دین تھا، مسیح کا دین بھی تھا اور اسی کی طرف وہ دعوت دیتے تھے۔ توراۃ کی اصل تعلیمات میں سے جو کچھ ان کے زمانہ میں محفوظ تھا اس کو مسیح خود بھی مانتے تھے اور انجیل بھی اس کی تصدیق کرتی تھی(ملاحظہ ہو متی باب ۵ – آیت ۱۷- ۱۸)۔ قرآن اس حقیقت کا بار بار اعادہ کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے انبیاء دُنیا کی کسی گوشے میں آئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی پچھلے انبیاء کی تردید کے لیے اور ان کے کام کو ہٹا کر اپنا نیا مذہب چلانے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ ہر نبی اپنے پیشرو انبیاء کی تصدیق کرتا تھا اور اسی کام کو فروغ دینے کے لیے آتا تھا جسے اگلوں نے ایک پاک ورثہ کی حیثیت سے چھوڑا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی کتاب اپنی ہی پچھلی کتابوں کی تردید کرنے کے لیے کبھی نہیں بھیجی بلکہ اس کی ہر کتاب پہلے آئی ہوئی کتابوں کی مؤیّد اور مصدق تھی۔
۷۷-’’یہاں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دُوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکمِ خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے ، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دُوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکمِ خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکمِ الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دُوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو اعتقاداً حکمِ الٰہی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگر چہ خارج از مِلّت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اِسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکمِ الٰہی سے اِنحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر، ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے۔ بعض اہلِ تفسیر نے ان آیات کے اہلِ کتاب کے ساتھ مخصُوص قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر کلامِ الٰہی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہ ؓ نے دیا ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر ، وہی ظالم اور وہی فاسق ہے۔ اس پر حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا نعم الاخرۃ لکم بنو اسرائیل اَن کانت لھم کل مُرّ ۃ ولکم کل حلوۃ کلّا واللہ لتسلکن طریقھم قدر الشراک۔’’ کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب اُن کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمہارے لیے ! ہرگز نہیں ، خدا کی قسم تم انہی کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے۔
۷۸-یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ’’پچھلی کتابوں‘‘ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے ، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ’’پچھلی کتابوں‘‘ کے بجائے ’’الکتاب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ’’الکتاب‘‘ کے مختلف ایڈیشن ہیں۔
۷۹-اصل میں لفظ ’’مھَُیْمِنْ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوظ کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ’’الکتاب‘‘ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام برحق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے ، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے۔
۸۰-یہ ایک جملۂ معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلۂ تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے ؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانینِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے ؟
۸۱-یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے :
(۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔
(۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔ بخلاف اس کے جو لوگ رُوحِ دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں، اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیے چڑھا کر ان پر جمُود اور تعصّب اختیار کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رَد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیّز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳) تمام شرائع سے اصل مقصُود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکمِ خدا ہو اُس کی پَیروی کی جائے۔ لہٰذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اُس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالیٰ کی منظُوری حاصل ہو۔
(۴) جو اختلافات انسانوں نے اپنے جمُود ، تعصّب، ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپَج سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدانِ جنگ میں۔ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دُنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں ’’حق‘‘ کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر۔
۸۲-یہاں سے پھر وہی سلسلۂ تقریر چل پڑتا ہے جو اُوپر سے چلا آ رہا تھا۔
۸۳-جاہلیّت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیّت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانۂ قبلِ اسلام کو جاہلیّت کا دَور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کر لیے تھے۔ یہ طرزِ عمل جہاں جس دَور میں بھی انسان اختیار کریں اسے بہرحال جاہلیّت ہی کا طرزِ عمل کہا جائے گا۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ محض ایک جُزوی عِلم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا خدا کے دیے ہوئے عِلم سے بے نیاز ہو کر جو نظامِ زندگی اِس جُزوی عِلم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں وہ بھی اُسی طرح ’’جاہلیت‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اِس تعریف میں آتے ہیں۔
۸۴-اُس وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ اسلام اپنے پیرووں کی سرفروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبر دست تھیں۔ اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہُودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط و ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے۔ علاوہ بریں اُس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی۔ ساہوکارہ بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا۔ عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے۔ ان کی سُود خواری کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت بر سرِ پیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطر ناک ہو گا۔
۸۵-یعنی فیصلہ کُن فتح سے کم درجہ کی کوئی ایسی چیز جس سے عموماً لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہار جیت کا آخری فیصلہ اسلام ہی کے حق میں ہو گا۔
۸۶-یعنی جو کچھ انہوں نے اسلام کی پَیروی میں کیا، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے ، زکوٰۃ دی، جہاد میں شریک ہوئے ، قوانینِ اسلام کی اطاعت کی، یہ سب کچھ اس بنا پر ضائع ہو گیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہو کر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دُنیا کی خاطر انہوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا۔
۸۷-’’مومنوں پر نرم‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت ، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔
’’کفار پر سخت‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلُوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخالفینِ اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا۔
۸۸-یعنی اللہ کے دین کی پَیروی کرنے میں، اُس کے احکام پر عمل درآمد کرنے میں، اور اِس دین کی رُو سے جو کچھ حق ہے اُسے حق اور جو کچھ باطل ہے اُسے باطل کہنے میں اُنہیں کوئی باک نہ ہو گا۔ کسی کی مخالفت، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دُنیا بھر میں نکّو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچّے دل سے حق جانتے ہیں۔
۸۹-یعنی اذان کی آواز سُن کر اُس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں۔
۹۰-یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اُڑایا جائے۔
۹۱-لطیف اشارہ ہے خود یہُودیوں کی طرف، جن کی اپنی تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ بارہا وہ خدا کے غضب اور اس کی لعنت میں مُبتلا ہوئے ، سَبْت کا قانون توڑنے پر ان کی قوم کے بہت سے لوگوں کی صُورتیں مسخ ہوئیں، حتیٰ کہ وہ تنزّل کی اس انتہا کو پہنچے کہ طاغوت کی بندگی تک انہیں نصیب ہوئی۔ پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آخر تمہاری بے حیائی اور مجرمانہ بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ خود فسق و فجور اور انتہائی اخلاقی تنزل میں مُبتلا ہو اور اگر کوئی دُوسرا گروہ خدا پر ایمان لا کر سچّی دینداری کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہو۔
۹۲-عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے ، عطا اور بخشش سے اُس کا ہاتھ رُکا ہوا ہے۔ پس یہُودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے۔ چونکہ صدیوں سے یہُودی قوم ذلّت و نکبت کی حالت میں مُبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانۂ پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان اُنہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعمُوم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اُس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے ، اس کے خزانے کا مُنہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا۔ یہ بات کچھ یہُودیوں تک ہی محدُود نہیں، دُوسری قوموں کے جُہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجُوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گُستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں۔
۹۳-یعنی بخل میں یہ خود مُبتلا ہیں۔ دُنیا میں اپنے بُخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں۔
۹۴-یعنی اس قسم کی گُستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ بلکہ ان باتوں کا اُلٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظرِ عنایت سے اور زیادہ محرُوم اور اس کی رحمت سے اَور زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔
۹۵-یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سُن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے ، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبّہ ہو کر ان کی تلافی کرتے ، اور اپنی گِری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ، اُن پر اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آ کر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ خیر و صلاح کے بھُولے ہوئے سبق کو سُن کر خود راہِ راست پر آنا تو درکنار ، اُن کی اُلٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دُوسرا بھی اسے نہ سُننے پائے۔
۹۶-بائیبل کی کتاب احبار(باب ۲۶) اور استثناء( باب ۲۸)’’ میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ایک تقریر نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ اگر تم احکامِ الٰہی کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو گے تو کس کس طرح اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جاؤ گے ، اور اگر کتاب اللہ کو پسِ پشت ڈال کر نافرمانیاں کرو گے تو کس طرح بلائیں اور مصیبتیں اور تباہیاں ہر طرف سے تم پر ہجوم کریں گی۔ حضرت موسیٰؑ کی وہ تقریر قرآن کے اِس مختصر فقرے کی بہترین تفسیر ہے۔
۹۷-توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پَیروی کرنا اور انہیں اپنا دستورِ زندگی بناتا ہے۔ اِس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنّفین نے بطورِ خود لکھی ہیں۔ اور دُوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰؑ ، عیسیٰؑ اور دُوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دُوسری قسم کی عبارات کا تَتبّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی در اندازی سے ، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دُوسری قسم کی عبارات بھی پُوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بُلا رہا ہے ، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریقِ زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہُودی اور عیسائی اُسی تعلیم پر قائم رہتے جو اِن کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقیناً نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رَو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔ اس صُورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ و سلم کی پَیروی اختیار کرنے میں تبدیلِ مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اُسی راستہ کے تسلسل میں، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے ، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے۔
۹۸-یعنی یہ بات سُن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آ کر اَور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے۔
۹۹-دیکھو سورۃ بقرۃ ، آیت ۶۲ - و حاشیہ نمبر ۸۰-
۱۰۰-اِن چند لفظوں میں عیسائیوں کے عقیدہ ٔ اُلوہیّتِ مسیح کی ایسی صاف تردید کی گئی ہے کہ اس سے زیادہ صفائی ممکن نہیں ہے۔ مسیح کے بارے میں اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہے کہ فی الحقیقت وہ کیا تھا تو ان علامات سے بالکل غیر مشتبہ طور پر معلوم کر سکتا ہے کہ وہ محض ایک انسان تھا۔ ظاہر ہے کہ جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ، جس کا شجرۂ نسب تک موجود ہے ، جو انسانی جسم رکھتا تھا، جو اُن تمام حدُود سے محدُود اور ان تمام قیُود سے مقیّد اور ان تمام صفات سے متصف تھا جو انسان کے لیے مخصُوص ہیں، جو سوتا تھا، کھاتا تھا، گرمی اور سردی محسوس کرتا تھا، حتیٰ کہ جسے شیطان کے ذریعہ سے آزمائش میں بھی ڈالا گیا ، اس کے متعلق کون معقول انسان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ وہ خود خدا ہے یا خدائی میں خدا کا شریک و سہیم ہے۔ لیکن یہ انسانی ذہن کی ضلالت پذیری کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ عیسائی خود اپنی مذہبی کتابوں میں مسیح کی زندگی کو صریحاً ایک انسانی زندگی پاتے ہیں اور پھر بھی اسے خدائی سے متصف قرار دینے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالمِ واقعہ میں ظاہر ہوا تھا ، بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کر کے اُسے خدا بنا لیا ہے۔
۱۰۱-اشارہ ہے اُن گمراہ قوموں کی طرف جن سے عیسائیوں نے غلط عقیدہ اور باطل طریقے اخذ کیے۔ خصُوصاً فلاسفۂ یونان کی طرف ، جن کے تخیلات سے متاثر ہو کر عیسائی اُس صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے جس کی طرف ابتداءً ان کی رہنمائی کی گئی تھی۔ مسیح کے ابتدائی پَیرو جو عقائد رکھتے تھے وہ بڑی حد تک اُس حقیقت کے مطابق تھے جس کا مشاہدہ انہوں نے خود کیا تھا اور جس کی تعلیم ان کے ہادی و رہنما نے ان کو دی تھی۔ مگر بعد کے عیسائیوں نے ایک طرف مسیح کی عقیدت اور تعظیم میں غلو کر کے ، اور دُوسری طرف ہمسایہ قوموں کے اَوہام اور فلسفوں سے متاثر ہو کر، اپنے عقائد کی مبالغہ آمیز فلسفیانہ تعبیریں شروع کر دیں اور ایک بالکل ہی نیا مذہب تیار کر لیا جس کو مسیح کی اصل تعلیمات سے دُور کا واسطہ بھی نہ رہا۔ اس باب میں خود ایک مسیحی عالمِ دینیات (ریورینڈ چارلس اینڈرسن اسکاٹ) کا بیان قابلِ ملاحظہ ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے چودھویں ایڈیشن میں ’’یسُوع مسیح‘‘(Jesus Christ) کے عنوان پر اس نے جو طویل مضمُون لکھا ہے اس میں وہ کہتا ہے :
’’پہلی تین انجیلوں (متی، مرقس، لوقا) میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اِن انجیلوں کے لکھنے والے یسُوع کو انسان کے سوا کچھ اَور سمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں وہ ایک انسان تھا، ایسا انسان جو خاص طور پر خدا کی رُوح سے فیض یاب ہوا تھا اور خدا کے ساتھ ایک ایسا غیر منقطع تعلق رکھتا تھا جس کی وجہ سے اگر اس کو خدا بیٹا کہا جائے تو حق بجانب ہے۔ خود متی اس کا ذکر بڑھئی کے بیٹے کی حیثیت سے کرتا ہے اور ایک جگہ بیان کرتا ہے کہ پطرس نے اس کو ’’مسیح‘‘ تسلیم کرنے کے بعد’’ الگ ایک طرف لے جا کر اُسے ملامت کی‘‘(متی ۲۲،۱۶ )۔ لُوقا میں ہم دیکھتے ہیں کہ واقعۂ صلیب کے بعد یسُوع کے دو شاگرد اماؤس کی طرف جاتے ہوئے اس کا ذکر اس حیثیت میں کرتے ہیں کہ’’ وہ خدا اور ساری اُمّت کے نزدیک کام اور کلام میں قدرت والا نبی تھا‘‘(لوقا ۱۹،۲۴)۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ توجہ ہے کہ اگرچہ ’’مرقس‘‘ کی تصنیف سے پہلے مسیحیوں میں یسُوع کے لیے لفظ ’’خداوند‘‘ کا استعمال عام طور پر چل پڑا تھا ، لیکن نہ مرقس کی انجیل میں یسُوع کو کہیں اس لفظ سے یاد کیا گیا ہے اور نہ متی کی انجیل میں۔ بخلاف اس کے دونوں کتابوں میں یہ لفظ اللہ کے لیے بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ یسُوع کے ابتلاء کا ذکر تینوں انجیلیں پُورے زور کے ساتھ کرتی ہیں جیسا کہ اس واقعہ کے شایانِ شان ہے ، مگر مرقس کی ’’ فدیہ‘‘ والی عبارت (مرقس ۴۵،۱۰) اور آخری فَسَح کے موقع پر چند الفاظ کو مستثنیٰ کر کے ان کتابوں میں کہیں اس واقعہ کو وہ معنی نہیں پہنائے گئے ہیں جو بعد میں پہنائے گئے۔ حتیٰ کہ اس بات کی طرف کہیں اشارہ تک نہیں کیا گیا کہ یسُوع کی موت کا انسان کے گناہ اور اس کے کفارہ سے کوئی تعلق تھا‘‘۔
’’یہ بات کہ یسُوع خود اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتا تھا اناجیل کی متعدّد عبارتوں سے ظہار ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ’’مجھے آج اور کل اور پرسوں اپنی راہ پر چلنا ضرور ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو‘‘(لوقا ۲۳،۱۳)۔ وہ اکثر اپنا ذکر’’ ابنِ آدم‘‘ کے نام سے کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ یسُوع کہیں اپنے آپ کو’’ ابن اللہ‘‘ نہیں کہتا۔ اس کے دُوسرے ہمعصر جب اس کے متعلق یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو غالباً ان کا مطلب بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اس کو خدا کا ممسُوح سمجھتے ہیں۔ البتہ وہ اپنے آپ کو مطلقاً ’’بیٹے ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ مزید برآں وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرنے کے لیے بھی’’ باپ‘‘ کا لفظ اسی اطلاقی شان میں استعمال کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اِس تعلق کے بارے میں وہ اپنے آپ کو منفرد نہیں سمجھتا تھا ، بلکہ ابتدائی دَور میں دُوسرے انسانوں کو بھی خدا کے ساتھ اِس خاص گہرے تعلق میں اپنا سا تھی سمجھتا تھا۔ البتہ بعد کے تجربے اور انسانی طبائع کے عمیق مطالعہ نے اسے یہ سمجھنے پر مجبُور کر دیا کہ اس معاملہ میں وہ اکیلا ہے۔‘‘
’’عید پُنْتِکُسْت کے موقع پر پطرس کے یہ الفاظ کہ ’’ایک انسان جو خدا کی طرف سے تھا‘‘ یسُوع کو اُس حیثیت میں پیش کرتے ہیں جس میں اس کے ہمعصر اس کو جانتے اور سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔ انجیلوں سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یسُوع بچپن سے جوانی تک بالکل فطری طور پر جسمانی و ذہنی نشو و نما کے مدارج سے گزرا۔ اُس کو بھُوک پیاس لگتی تھی ، وہ تھکتا اور سوتا تھا، وہ حیرت میں مُبتلا ہو سکتا تھا اور دریافتِ احوال کا محتاج تھا، پس نے دُکھ اُٹھایا اور مرا۔ اُس نے صرف یہی نہیں کہ سمیع و بصیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صریحاً اس سے انکار کیا ہے۔۔۔۔۔۔ درحقیقت اس کے حاضر و ناظر ہونے کا اگر دعویٰ کیا جائے تو یہ اُس پُورے تصوّر کے بالکل خلاف ہو گا جو ہمیں انجیلوں سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ اس دعوے کے ساتھ آزمائش کے واقعہ کو اور گِتَسمْنی اور کھوپڑی کے مقام پر جو واردات گزریں ان میں سے کسی کو بھی مطابقت نہیں دی جا سکتی۔ تا وقتیکہ ان واقعات کو بالکل غیر حقیقی قرار نہ دے دیا جائے ، یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح جب ان سارے حالات سے گزرا تو وہ انسانی علم کی عام محدُودیّت اپنے ساتھ لیے ہوئے تھا اور اس محدُودیّت میں اگر کوئی استثناء تھا تو وہ صرف اُسی حد تک جس حد تک پیغمبرانہ بصیرت اور خدا کے یقینی شہُود کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ پھر مسیح کو قادرِ مطلق سمجھنے کی گنجائش تو انجیلوں میں اَور بھی کم ہے۔ کہیں اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر خود مختارانہ کام کرتا تھا۔ اس کے برعکس وہ بار بار دُعا مانگنے کی عادت سے اور اِس قسم کے الفاظ سے کہ’’ یہ چیز دُعا کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ٹل سکتی‘‘، اس بات کا صاف اقرار کرتا ہے کہ اس کی ذات بالکل خدا پر منحصر ہے۔ فی الواقع یہ بات ان انجیلوں کے تاریخی حیثیت سے معتبر ہونے کی ایک اہم شہادت ہے کہ اگرچہ ان کی تصنیف و ترتیب اُس زمانہ سے پہلے مکمل نہ ہوئی تھی کہ مسیحی کلیسا نے مسیح کو الہٰ سمجھنا شروع کر دیا تھا ، پھر بھی ان دستاویزوں میں ایک طرف مسیح کے فی الحقیقت انسان ہونے کی شہادت محفوظ ہے اور دُوسری طرف ان کے اندر کوئی شہادت اِس امر کی موجود نہیں ہے کہ مسیح اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا‘‘۔
اس کے بعد یہ مصنف پھر لکھتا ہے :
’’وہ سینٹ پال تھا جس نے اعلان کیا کہ واقعۂ رفع کے وقت اسی فعلِ رفع کے ذریعہ سے یسُوع پُورے اختیارات کے ساتھ ’’ابن اللہ‘‘ کے مرتبہ پر علانیہ فائز کیا گیا۔۔۔۔۔۔ یہ ’’ابن اللہ‘‘ کا لفظ یقینی طور پر ذاتی اِبنیّت کی طرف ایک اشارہ اپنے اندر رکھتا ہے جسے پال نے دُوسری جگہ یسُوع کو ’’خدا کا اپنا بیٹا‘‘ کہہ کر صاف کر دیا ہے۔ اِس امر کا فیصلہ اب نہیں کیا جا سکتا کہ آیا وہ ابتدائی عیسائیوں کا گروہ تھا یا پال جس نے مسیح کے لیے ’’ خداوند‘‘ کا خطاب اصل مذہبی معنی میں استعمال کیا۔ شاید یہ فعل مقدّم الذکر گروہ ہی کا ہو۔ لیکن بلاشبہ وہ پال تھا جس نے اس خطاب کو پورے معنی میں بولنا شروع کیا ، پھر اپنے مُدّعا کو اس طرح اَور بھی زیادہ واضح کر دیا کہ ’’خداوند یسُوع مسیح‘‘ کی طرف بہت سے وہ تصوّرات اور اصطلاحی الفاظ منتقل کر دیے جو قدیم کتبِ مقدسہ میں خداوند یَہُوَہ(اللہ تعالیٰ) کے لیے مخصُوص تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مسیح کو خدا کی دانش اور خدا کی عظمت کے مساوی قرار دیا اور اُسے مطلق معنی میں خدا کا بیٹا ٹھیرایا۔ تاہم متعدّد حیثیات اور پہلوؤں سے مسیح کو خدا کے برابر کر دینے کے باوجود پال اُس کو قطعی طور پر اللہ کہنے سے باز رہا‘‘۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایک دُوسرے مضمُون ’’میسحیّت (Christianity) میں رورنڈ جارج ولیم ناکس مسیحی کلیسا کے بُنیادی عقیدے پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے :
’’عقیدۂ تثلیث کا فکری سانچہ یُونانی ہے اور یہُودی تعلیمات اس میں ڈھالی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارے لیے ایک عجیب قسم کا مرکب ہے ، مذہبی خیالات بائیبل کے اور ڈھلے ہوئے ایک اجنبی فلسفے کی صُورتوں میں۔
باپ ، بیٹا اور رُوح القدس کی اصطلاحیں یہُودی ذرائع کی بہم پہنچائی ہوئی ہیں۔ آخری اصطلاح اگرچہ خود یسُوع نے شاذو نادر ہی کبھی استعمال کی تھی، اور پال نے بھی جو اس کو استعمال کیا ا س کا مفہوم بالکل غیر واضح تھا، تاہم یہودی لٹریچر میں یہ لفظ شخصیت اختیار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ پس اس عقیدہ کا مواد یہودی ہے ( اگرچہ اس مرکب میں شامل ہونے سے پہلے وہ بھی یونانی اثرات سے مغلوب ہو چکا تھا) اور مسئلہ خالص یونانی۔ اصل سوال جس پر یہ عقیدہ بنا، وہ نہ کوئی اخلاقی سوال تھا نہ مذہبی، بلکہ وہ سراسر ایک فلسفیانہ سوال تھا، یعنی یہ کہ ان تینوں اقانیم ( باپ، بیٹے اور رُوح) کے درمیان تعلق کی حیثیت کیا ہے ؟ کلیسا نے اس کا جو جواب دیا وہ اُس عقیدے میں درج ہے جو نیقیا کی کونسل میں مقرر کیا گیا تھا ، اور اسے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام خصُوصیات میں بالکل یونانی فکر کا نمونہ ہے ‘‘۔
اسی سلسلہ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹا نیکا کے ایک اَور مضمون تاریخِ کلیسا (Church History) کی یہ عبارت بھی قابلِ ملاحظہ ہے :
’’تیسری صدی عیسوی کے خاتمہ سے پہلے مسیح کو عام طور پر ’’کلام‘‘ کا جسدی ظہُور تو مان لیا گیا تھا تا ہم بکثرت عیسائی ایسے تھے جو مسیح کی اُلُوہیّت کے قائل نہ تھے۔ چوتھی صدی میں اس مسئلہ پر سخت بحثیں چھڑی ہوئی تھیں جن سے کلیسا کی بُنیادیں ہل گئی تھیں۔ آخر کار سن ۳۲۵ ء میں نیقیا کی کونسل نے اُلُوہیّت مسیح کو باضابطہ سرکاری طور پر اصل مسیحی عقیدہ قرار دیا اور مخصُوص الفاظ میں اسے مرتب کر دیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی کچھ مدّت تک جھگڑا چلتا رہا لیکن آخری فتح نیقیا ہی کے فیصلے کی ہوئی جسے مشرق اور مغرب میں اس حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا کہ صحیح العقیدہ عیسائیوں کا ایمان اسی پر ہونا چاہیے۔ بیٹے کی اُلُوہیّت کے ساتھ رُوح کی اُلُوہیّت بھی تسلیم کی گئی اور اسے اصطباغ کے کلمہ اور رائج الوقت شعائر میں باپ اور بیٹے کے ساتھ جگہ دی گئی۔ اس طرح نیقیا میں مسیح کا جو تصوّر قائم کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقیدۂ تثلیث اصل مسیحی مذہب کا ایک جزء لاینفک قرار پا گیا۔
پھر اس دعوے پر کہ ’’بیٹے کی اُلُوہیّت مسیح کی ذات میں مجسّم ہُوئی تھی ‘‘ ایک دُوسرا مسئلہ پیدا ہوا جس پر چوتھی صدی میں اور اس کے بعد بھی مدّتوں تک بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری رہا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مسیح کی شخصیت میں اُلُوہیّت اور انسانیت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟ سن ۴۵۱ ء میں کالسیڈن کی کونسل نے اس کا یہ تصفیہ کیا کہ مسیح کی ذات میں دو مکمل طبیعتیں مجتمع ہیں، ایک الٰہی طبیعت ، دُوسری انسانی طبیعت، اور دونوں متحد ہو جانے کے بعد بھی اپنی جداگانہ خصُوصیات بلا کسی تغیّر و تبدّل کے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تیسری کونسل میں جو سن ۶۸۰ ء میں بمقام قسطنطنیہ منعقد ہوئی، اس پر اتنا اضافہ اور کیا گیا کہ یہ دونوں طبیعتیں اپنی الگ الگ مشیّتیں بھی رکھتی ہیں، یعنی مسیح بیک وقت دو مختلف مشیّتوں کا حامل ہے۔۔۔۔۔۔ اِس دَوران میں مغربی کلیسا نے گناہ اور فضل کے مسئلہ پر بھی خاص توجّہ کی اور یہ سوال مدّتوں زیرِ بحث رہا کہ نجات کے معاملہ میں خدا کا کام کیا ہے اور بندے کا کام کیا۔ آخر کار سن ۵۲۹ ء میں اور ینج کی دُوسری کونسل میں۔۔۔۔۔۔ یہ نظریّہ اختیار کیا گیا کہ ہبُوطِ آدم کی وجہ سے ہر انسان اس حالت میں مبتلا ہے کہ وہ نجات کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھا سکتا جب تک وہ اُس فضلِ خداوندی سے ، جو اصطباغ میں عطا کیا جاتا ہے ، نئی زندگی نہ حاصل کر لے۔ اور یہ نئی زندگی شروع کرنے کے بعد بھی اسے حالتِ خیر میں استمرار نصیب نہیں ہو سکتا جب تک وہ فضلِ خداوندی دائماً اس کا مددگار نہ رہے۔ اور فضلِ خداوندی کی یہ دائمی اعانت اسے صرف کیتھولک کلیسا ہی کے توسّط سے حاصل رہ سکتی ہے ‘‘۔
مسیحی عُلماء کے اِن بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ابتداءً جس چیز نے مسیحیوں کو گمراہ کیا وہ عقیدت اور محبت کا غُلو تھا۔ اسی غلو کی بنا پر مسیح علیہ السّلام کے لیے خداوند اور ابن اللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ، خدائی صفات ان کی طرف منسُوب کی گئیں، اور کفارہ کا عقیدہ ایجاد کیا گیا، حالانکہ حضرت مسیحؑ کی تعلیمات میں ان باتوں کے لیے قطعاً کوئی گنجائش موجود نہ تھی۔ پھر جب فلسفہ کی ہوا مسیحیوں کو لگی تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس ابتدائی گمراہی کو سمجھ کر اس سے بچنے کی سعی کرتے ، انہوں نے اپنے گزشتہ پیشوا ؤ ں کی غلطیوں کو نباہنے کے لیے ان کی توجیہات شروع کر دیں اور مسیح کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کیے بغیر محض منطق اور فلسفہ کی مدد سے عقیدے پر عقیدہ ایجاد کرتے چلے گئے۔ یہی وہ ضلالت ہے جس پر قرآن نے ان آیات میں مسیحیوں کو متنبہ فرمایا ہے۔
۱۰۲-ہر قوم کا بگاڑ ابتداءً چند افراد سے شروع ہوتا ہے۔ اگر قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہوتا ہے تو رائے عام ان بگڑے ہوئے افراد کو دبائے رکھتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملہ میں تساہل شروع کر دیتی ہے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کے بجائے انہیں سوسائیٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے ، تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدُود تھی ، پُوری قوم میں پھیل کر رہتی ہے۔ یہی چیز تھی جو آخر کار بنی اسرائیل کے بگاڑ کی موجب ہوئی۔
حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے جو لعنت بنی اسرائیل پر کی گئی اس کے لیے ملاحظہ ہو زبور ۱۰ و ۵۰ اور متی ۲۳۔
۱۰۳-مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور نبی اور کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرۃً مشرکین کے مقابلہ میں اُن لوگوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہب میں خواہ ان سے اختلاف ہی رکھتے ہوں ، مگر بہرحال انہی کی طرح خدا اور سلسلۂ وحی و رسالت کو مانتے ہوں۔ لیکن یہ یہُودی عجیب قسم کے اہلِ کتاب ہیں کہ توحید اور شرک کی جنگ میں کھُلم کھُلا مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں ، اقرارِ نبوّت اور انکارِ نبوّت کی لڑائی میں اعلانیہ ان کی ہمدردیاں منکرینِ نبوّت کے ساتھ ہیں، اور پھر بھی وہ بلا کسی شرم و حیا کے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم خدا اور پیغمبروں اور کتابوں کے ماننے والے ہیں۔
۱۰۴-اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانونِ الٰہی کے بجائے قانونِ نفس کے پَیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں ، بودھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوّ فین کی طرح رہبانیت اور قطعِ لذّات کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ رُوحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دُنیوی لذّتوں سے محرُوم کرنا، اور دُنیا کے سامانِ زیست سے تعلق توڑنا ، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے ،راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے ، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے ، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ ؐ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ’’ مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی۔ مجھے دیکھو، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے ‘‘۔ پھر فرمایا’’ یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دُنیا کی لذّتوں کو اپنے اُوپر حرام کر لیا ہے ؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے۔ ضبطِ نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے ، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، حج و عمرہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اُوپر سختی کی ، اور جب انہوں نے خود اپنے اُوپر سختی کی تو اللہ نے بھی اُن پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں‘‘۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا کہ وہ ایک مُدّت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ ؐ نے بُلا کر اُن کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جا ؤ۔ اُنہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جا ؤ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر ؓ نے مشہور تابعی بزرگ، کعب ؓ بن سَور الاَزْدِی کو اُن کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا ، اور اُنہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے۔
۱۰۵-’’حد سے تجاوز کرنا‘‘ وسیع مفہُوم کا حامل ہے۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھیرائی ہوئی پاک چیزوں سے اِس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں ، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حُدُود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں نا پسند ہیں۔
۱۰۶-چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو اپنے اُوپر حرام کر لینے کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں قسم کا حکم بھی بیان فرما دیا کہ اگر کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ قسم کا لفظ نِکل گیا ہے تو اس کی پابندی کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، اور اگر جان بُوجھ کر کسی نے قسم کھائی ہے تو وہ اُسے توڑ دے اور کفّارہ ادا کر دے ، کیونکہ جس نے کسی معصیت کی قسم کھائی ہو اسے اپنی قسم پر قائم نہ رہنا چاہیے ( ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۴۳ و ۲۴۴ – نیز کفّارہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ ٔ نساء حاشیہ نمبر ۱۲۵)۔
۱۰۷-قسم کی حفاظت کے کئی مفہُوم ہیں: ایک یہ کہ قسم کو صحیح مَصْرف میں استعمال کیا جائے ، فضول باتوں اور معصیت کے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جب کسی بات پر آدمی قسم کھائے تو اسے یاد رکھے ، ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے وہ اُسے بھُول جائے۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کرے۔ تیسرے یہ کہ جب کسی صحیح معاملہ میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پُورا کیا جائے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کیا جائے۔
۱۰۸-آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۱۲ و ۱۴۔ اِس سلسلہ میں جُوئے کی تشریح بھی حاشیہ نمبر ۱۴ میں مِل جائے گی۔ اگرچہ پانسے ( جُوئے ) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اُس صُورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیّات سے آلودہ ہو۔ اور مَیسِر کا اطلاق اُن کھیلوں اور اُن کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی اُمُور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیمِ اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔
۱۰۹-اِس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دُوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصُوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤخّر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے : شراب کی حُرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آ چکے تھے ، جو سُورۂ بقرہ آیت ۲۱۹ اور سُورۂ نساء آیت ۴۳ میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبّہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حکم آ جائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم یہُودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں؟ آپ ؐ نے فرمایا’’ جس نے یہ چیز حرام کی ہے اُس نے اِسے تحفۃً دینے سے بھی منع کر دیا ہے ‘‘۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم شراب کو سِرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ ؐ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ’’ نہیں، اسے بہا دو‘‘۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے ؟ فرمایا’’ نہیں ، وہ دوا ء نہیں ہے بلکہ بیماری ہے ‘‘۔ ایک اَور صاحب نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے ، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے پُوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔ فرمایا’’ اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو‘‘۔
ابنِ عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مُبتا عھا و عاصر ھا و معتصر ھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔’’ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو‘‘۔ ایک اَور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداءً آپ نے اُن برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حُرمت کا حکم پُوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اُٹھا دی۔
(خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجازاً گیہُوں ، جَو ، کِشمِش،کھجُور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حُرمت کے اس حکم کو تمام اُن چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں حضُور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔’’ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے ‘‘۔کل شراب ٍ اسکر فھو حرام۔’’ ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے ‘‘۔وانا انھی عن کل مسکرٍ۔’’اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں‘‘۔ حضرت عمر ؓ نے جُمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل۔’’خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے ‘‘۔
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اُصُول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام۔’’ جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر ے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ‘‘۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفلٔ الکف منہ حرام۔’’ جس چیز کا ایک پُورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چُلّو پینا بھی حرام ہے ‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اِس جُرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اُسے جُوتے ، لات، مُکّے ، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجُور کے سَنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ۴۰ ضربیں آپ ؐ کے زمانہ میں اس جُرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جُرم سے باز نہیں آتے تو اُنہوں نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعیؒ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ؒ ابن حنبل اور ایک دُوسری روایت کے مطابق امام شافعی ؒ ۴۰ کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی ؓ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔
شریعت کی رُو سے یہ بات حکومتِ اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دُوسرے موقع پر ایک پُورا گاؤں حضرت عمر ؓ کے حکم سے اِس قصُور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔
۱۱۰-شکار خواہ آدمی خود کرے ، یا کسی دُوسرے کو شکار میں کسی طور پر مدد دے ، دونوں باتیں حالتِ احرام میں منع ہیں۔ نیز اگر مُحرِم کی خاطر شکار مارا گیا ہو تب بھی اس کا کھانا مُحِرم کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی شخص نے اپنے لیے خود شکار کیا ہو اور پھر وہ اس میں سے مُحِرم کو بھی تحفۃً کچھ دے دے تو اس کے کھانے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اس حکِم عام سے مُوذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ سانپ ، بچھّو، باؤ لا کتّا اور ایسے دُوسرے جانور جو انسان کو نقصان پہنچانے والے ہیں، حالتِ احرام میں مارے جا سکتے ہیں۔
۱۱۱-اِن اُمُور کا فیصلہ بھی دو عادل آدمی ہی کریں گے کہ کس جانور کے مارنے پر آدمی کتنے مسکینوں کو کھانا کھِلائے ، یا کتنے روزے رکھے۔
۱۱۲-چونکہ سمندر کے سفر میں بسا اوقات زادِ راہ ختم ہو جا تا ہے اور غذا کی فراہمی کے لیے بجُز اس کے کہ آبی جانوروں کا شکار کیا جائے اور کوئی تدبیر ممکن نہیں ہوتی اس لیے بحری شکار حلال کر دیا گیا۔
۱۱۳-عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدّس عباد ت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیّت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پُورے ملک کی معاشی و تمدّنی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔ حج اور عُمرے کے لیے سارا ملک اُس کی طرف کھِنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدّنی روابط قائم کرتے ، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پُورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہُولت آتے جاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جھُک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جُرأت نہ ہوتی۔
۱۱۴-یعنی اگر تم اس انتظام پر غور کرو تو تمہیں خود اپنے ملک کی تمدّنی و معاشی زندگی ہی میں اس امر کی ایک بیّن شہادت مل جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور اُن کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ بد امنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد ِؐ عربی کے ظہُور سے پہلے گزرے ہیں، ان میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے ، مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اُس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیّت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کر دیا تھا جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی۔ دُوسری بے شمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیے ہیں اُن کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کو نہ تم خود سمجھ سکتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پُورا کر سکتے ہو۔
۱۱۵-یہ آیت قدر و قیمت کا ایک دوسرا ہی معیار پیش کرتی ہے جو ظاہر میں انسان کے معیار سے بالکل مختلف ہے۔ ظاہر بیں نظر میں سو (۱۰۰) روپے بمقابلہ پانچ (۵) روپے کے لازماً زیادہ قیمتی ہیں کیونکہ وہ سو ہیں اور یہ پانچ۔ لیکن یہ آیت کہتی ہے کہ سو (۱۰۰) روپے اگر خدا کی نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے ہوں تو وہ ناپاک ہیں ، اور پانچ روپے اگر خدا کی فرماں برداری کرتے ہوئے کمائے گئے ہوں تو وہ پاک ہیں ، اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو، بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز نانْد کے مقابلہ میں پاک پانی کا ایک چُلّو زیادہ وزنی ہے۔ لہٰذا ایک سچّے دانش مند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر و قلیل ہو، اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر و شاندار ہو۔
۱۱۶-نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دُنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ ؐ سے پُوچھ بیٹھے کہ ’’میرا اصلی باپ کون ہے ؟‘‘ اسی طرح بعض لوگ احکامِ شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کرا نا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا’’ کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے ؟‘‘ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش ہو گئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا ’’تم پر افسوس ہے۔ اگر میری زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے ‘‘۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی لوگوں کو کثرتِ سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔ ’’ مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی‘‘۔ ایک دُوسری حدیث میں ہے ان اللہ فرض فرائض فلا تضیْعوھا و حرم حرمَات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا ء من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔’’ اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حُدُود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اُسے بھُول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ‘‘۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبّہ کیا گیا ہے۔ جن اُمُور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیلِ اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دُوسرے تعیّنات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھُول ہو گئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدُود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، اِستنباط سے کِسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصّل، مطلَق کو مقَیَّد، غیر معیّن کو معیّن بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی اُمُور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ اُلجھن کے مواقع بڑھیں گے ، اور احکام میں جتنی قیُود زیادہ ہوں گی پَیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزیِ حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔
۱۱۷-یعنی پہلے انہوں نے خود ہی عقائد اور احکام میں موشگافیاں کیں اور ایک ایک چیز کے متعلق سوال کر کر کے تفصیلات اور قیُود کا ایک جال اپنے لیے تیار کرایا، پھر خود ہی اُس میں اُلجھ کر اعتقادی گمراہیوں اور عملی نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے۔۔۔۔۔۔ اِس گروہ سے مراد یہودی ہیں جن کے نقشِ قدم پر چلنے میں، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تنبیہات کے باوجود، مسلمانوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے۔
۱۱۸-جس طرح ہمارے ملک میں گائے ، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بُت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اُٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح زمانۂ جاہلیّت میں اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو پُن کر کے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے۔
بحیرہ: اُس اُونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچّے جَن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچّہ ہوا ہو۔ اس کا کان چیر کر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پھر نہ کوئی اس پر سوار ہوتا، نہ اُس کا دُودھ پیا جاتا، نہ اُسے ذبح کیا جاتا، نہ اس کا اُون اتارا جاتا۔ اُسے حق تھا کہ جس کھیت اور جس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے۔
سائبہ: اُس اُونٹ یا اُونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی مَنّت کے پُورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پُن کر دیا گیا ہو۔ نیز جس اُونٹنی نے دس مرتبہ بچّے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اُسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔
وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچّہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کا نام وصیلہ تھا۔
حام : اگر کسی اُونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بُوڑھے اُونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نیز اگر کسی اُونٹ کے نطفہ سے دس بچّے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مِل جاتی۔
۱۱۹-یعنی بجائے اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اسے فکر اپنے خیالات کی، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر آدمی خود اللہ کی اطاعت کر رہا ہے ، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست روی و راست بازی کی مقتضیات پُورے کر رہا ہے ، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے ، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتی۔
اِس آیت کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے ، دُوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہو جائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ، تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلّط کر دے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے ، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی۔
۱۲۰-یعنی دیندار ، راست باز اور قابلِ اعتماد مسلمان۔
۱۲۱-اِس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے معاملات میں غیر مسلم کو شاہد بنانا صرف اُس حالت میں درست ہے جبکہ کوئی مسلما گواہ بننے کے لیے میسّر نہ آ سکے۔
۱۲۳-یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دُنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دُنیا نے تمہیں دیا۔
۱۲۴-یعنی ہم تو صرف اُس محدُود ظاہر ی جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہو ا محسوس ہوا۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا ردِّ عمل کہاں کس صُورت میں کتنا ہوا، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا۔
۱۲۵-ابتدائی سوال تمام رسُولوں سے بحیثیت مجمُوعی ہو گا۔ پھر ایک ایک رسُول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی جیسا کہ قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بتصریح ارشاد ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہاں بطورِ خاص نقل کیا جا رہا ہے۔
۱۲۶-یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا۔
۱۲۷-یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اُس جھُٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا۔۔۔۔۔۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسائیت۔
۱۲۸-چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلۂ کلام کو توڑ کر جملۂ معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہِ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریکِ خدا یا فرزندِ خدا ہونے کا تصوّر نہ تھا۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندۂ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس جملۂ معترضہ کا کونسا موقع ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملۂ معترضہ اُس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اُس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اُس سے سبق ملے اور وہ راہِ راست پر آئیں۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملۂ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے۔
۱۲۹-قرآن اس باب میں خاموش ہے کہ یہ خوان فی الواقع اتارا گیا یا نہیں۔ دُوسرے کسی معتبر ذریعہ سے بھی اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ یہ نازل ہوا ہو اور ممکن ہے کہ حواریوں نے بعد کی خوفناک دھمکی سُن کر اپنی درخواست واپس لے لی ہو۔
۱۳۰-عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور رُوح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مسیح کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبُود بنا ڈالا۔ حضرت مریم علیہا السّلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دُنیا اس تخیّل سے بالکل نا آشنا تھی۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دَور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ’’اُمّ اللہ‘‘ یا ’’ مادرِ خدا‘‘ کے الفاظ استعمال کیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّتِ مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ لیکن اوّل اوّل چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا۔ پھر جب نَسطُور یَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جُداگانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دُنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ۴۳۱ ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ’’مادرِ خدا‘‘ کا لقب استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتیٰ کہ نزولِ قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور رُوح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہو گئے۔ ان کے مجسّمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جُملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے ، انہی سے دُعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس، حاجت روا، مشکل کشا اور بیکسوں کی پشتیبان تھیں، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعۂ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ’’ مادرِ خدا‘‘ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریمؑ کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے۔ اس کا مشہُور جنرل نرسیس میدانِ جنگ میں حضرت مریمؑ سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمعصر قیصر ہِرَ قْل نے اپنے جھنڈے پر ’’مادرِ خدا‘‘ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہو گا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدّت سے آواز اُٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے۔