خزائن العرفان

سُوۡرَةُ المَائدة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱۔                سورۂ مائدہ مدینہ طیّبہ میں نازل ہوئی سوائے آیت  اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ  کے یہ آیت روزِ عَرفہ حجّۃ الوداع میں نازل ہوئی اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے خطبہ میں اس کو پڑھا، اس میں ایک سو بیس آیتیں اور بارہ ہزار چار سو چونسٹھ حرف ہیں۔

(۱) اے  ایمان والو! اپنے  قول پورے  کرو (ف ۲) تمہارے  لئے  حلال ہوئے  بے  زبان مویشی مگر وہ جو آگے  سنایا جائے  گا تم کو (ف ۳) لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو (ف ۴) بیشک اللہ حکم فرماتا ہے   جو چاہے،

۲۔                عقود کے معنیٰ میں مفسِرین کے چند قول ہیں ابنِ جریر نے کہا کہ اہلِ کتاب کو خطاب فرمایا گیا ہے معنیٰ یہ ہیں کہ اے مؤمنینِ اہلِ کتاب میں نے کُتبِ متقدمہ میں سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کے متعلق جو تم سے عہد لئے ہیں وہ پورے کرو۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ خِطاب مؤمنین کو ہے انہیں عقود کے وفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود سے مراد اَیمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قرآنِ پاک میں لئے گئے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔

ٍ۳۔              یعنی جن کی حرمت شریعت میں وارد ہوئی ان کے سوا تمام چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے۔

۴۔                مسئلہ : کہ خشکی کا شکار حالتِ احرام میں حرام ہے اور دریائی شکار جائز ہے جیسا کہ اس سورۃ کے آخر میں آئے گا۔

(۲) اے  ایمان والو! حلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے  نشان (ف ۵) اور نہ ادب والے  مہینے  (ف ۶) اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ (ف ۷) جن کے  گلے  میں علامتیں آویزاں (ف ۸) اور نہ ان کا مال  و آبرو جو عزت والے  گھر کا قصد کر کے  آئیں (ف ۹) اپنے  رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے  اور جب  احرام سے  نکلو تو شکار کر سکتے  ہو (ف ۱۰) اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے  تم کو مسجد حرام سے  روکا تھا، زیادتی کرنے  پر نہ ابھارے  (ف ۱۱) اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے  کی مدد کرو  اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو (ف ۱۲) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،

۵۔                اس کے دین کے معالم، معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیزیں اللّٰہ نے فرض کیں اور جو منع فرمائیں سب کی حُرمت کا لحاظ رکھو۔

۶۔                ماہ ہائے حج جن میں قتال زمانۂ جاہلیت میں بھی ممنوع تھا اور اسلام میں بھی یہ حکم باقی رہا۔

۷۔                وہ قربانیاں۔

۸۔                عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے اشجار کی چھالوں وغیرہ سے گلو بند بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حَرَم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے تعرُّض نہ کریں۔

۹۔                حج و عمرہ کرنے کے لئے۔ شانِ نُزول : شُریح بن ہند ایک مشہور شقی تھا وہ مدینہ طیّبہ میں آیا اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ خَلقِ خدا کو کیا دعوت دیتے ہیں ؟ فرمایا اپنے ربّ کے ساتھ ایمان لانے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی، کہنے لگا بہت اچھی دعوت ہے میں اپنے سرداروں سے رائے لے لوں تو میں بھی اسلام لاؤں گا اور انہیں بھی لاؤں گا، یہ کہہ کر چلا گیا حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اس کے آنے سے پہلے ہی اپنے اصحاب کو خبر دے دی تھی کہ قبیلۂ ربیعہ کا ایک شخص آنے والا ہے جو شیطانی زبان بولے گا اس کے چلے جانے کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کافِر کا چہرہ لے کر آیا اور غادِر و بد عہد کی طرح پیٹھ پھیر کر گیا یہ اسلام لانے والا نہیں چنانچہ اس نے غدر کیا اور مدینہ شریف سے نکلتے ہوئے وہاں کے مویشی اور اموال لے گیا، اگلے سال یمامہ کے حاجیوں کے ساتھ تجارت کا کثیر سامان اور حج کی قلادہ پوش قربانیاں لے کر باِرادۂ حج نکلا، سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے، راہ میں صحابہ نے شُریح کو دیکھا اور چاہا کہ مویشی اس سے واپس لے لیں، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے منع فرمایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ جس کی ایسی شان ہو اس سے تعرُّض نہ چاہئے۔

۱۰۔              یہ بیانِ اباحت ہے کہ احرام کے بعد شکار مباح ہو جاتا ہے۔

۱۱۔              یعنی اہلِ مکّہ نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو اور آپ کے اصحاب کو روزِ حُدیبیہ عمرہ سے روکا، ان کے اس معاندانہ فعل کا تم انتقام نہ لو۔

۱۲۔              بعض مفسِّرین نے فرمایا جس کا حکم دیا گیا اس کا بجا لانا بِر اور جس سے منع فرمایا گیا اس کو ترک کرنا تقویٰ اور جس کا حکم دیا گیا اس کو نہ کرنا اِثم (گناہ) اور جس سے منع کیا گیا اس کا کرنا عدوان (زیادتی) کہلاتا ہے۔

(۳) تم پر حرام ہے  (ف ۱۳)  مُردار  اور  خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے  ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے  سے  مرے  اور بے  دھار کی چیز سے  مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے  کسی جانور نے  سینگ مارا اور جسے  کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کر لو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے  ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے  دین کی طرف سے  کافروں کی آس نوٹ گئی (ف ۱۴) تو اُن  سے  نہ  ڈرو  اور مجھ سے   ڈرو آج میں نے  تمہارے  لئے  دین کامل کر دیا (ف ۱۵) اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی (ف ۱۶) اور تمہارے  لئے  اسلام کو دین پسند کیا (ف ۱۷)  تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو  یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے  (ف ۱۸) تو بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۱ٍ۳۔              آیت  اِلَّا مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ  میں جو استثناء ذکر فرمایا گیا تھا یہاں اس کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے، ایک مُردار یعنی جس جانور کے لئے شریعت میں ذَبح کا حکم ہو اور وہ بے ذبح مر جائے، ۲دوسرے بہنے والا خون،۳ تیسرے سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء، چوتھے وہ جانور جس کے ذَبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بُتوں کے نام پر ذَبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذَبح تو صرف اللّٰہ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسے کہ عبداللّٰہ کی گائے، عقیقے کا بکرا، ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو، ان کو غیرِ وقتِ ذَبح میں اولیاء کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذَبح ان کا فقط اللّٰہ کے نام پر ہو اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے، وہ حلال و طیِّب ہیں۔ اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذَبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو، وہابی جو ذَبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام تفاسیرِ معتبرہ کے خلاف ہے اور خود آیت ان کے معنی کو بننے نہیں دیتی کیونکہ  مَآ اھُلَّ بِہ کو اگر وقتِ ذبح کے ساتھ مقیّد نہ کریں تو  اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ کا استثناء اس کو لاحق ہو گا اور وہ جانور جو غیرِ وقتِ ذبح میں غیرِ خدا کے نام سے موسوم رہا ہو وہ  اِلَّامَا ذَکَّیْتُمْ سے حلال ہو گا، غرض وہابی کو آیت سے سند لانے کی کوئی سبیل نہیں، پانچواں گلا گھونٹ کر مارا ہوا جانور، چھٹے وہ جانور جو لاٹھی، پتھر، ڈھیلے، گولی، چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو، ۷ ساتویں جو گر کر مَرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں، ۸ آٹھویں وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو، ۹ نویں وہ جسے کسی درندے نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مر گیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور بعد ایسے واقعات کے زندہ بچ رہے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذَبح کر لو تو وہ حلال ہیں، ۱۰ دسویں وہ جو کسی تھان پر عبادۃً ذبح کیا گیا ہو جیسے کہ اہلِ جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ ۳۶۰ پتھر نصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لئے ذَبح کرتے تھے اور اس ذَبح سے ان کی تعظیم و تقرُّب کی نیت کرتے تھے، ۱۱ گیارھویں حصّہ اور حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا، زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکمِ الٰہی جانتے، ان سب کی ممانعت فرمائی گئی۔

۱۴۔              یہ آیت حجّۃ الوداع میں عَرفہ کے روز جو جمعہ کو تھا بعدِ عصر نازل ہوئی، معنی یہ ہیں کہ کُفّار تمہارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہو گئے۔

۱۵۔              اور امورِ تکلیفیہ میں حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قیاس کے قانون سب مکمل کر دیئے، اسی لئے اس آیت کے نُزول کے بعد بیانِ حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ  وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ  نازل ہوئی مگر وہ آیت موعظت و نصیحت ہے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجّۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہو سکا۔ ایک قول یہ ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی۔ ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہو گا اور قیامت تک باقی رہے گا۔ شانِ نُزول : بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم روزِ نُزول کو عید مناتے فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے یہی آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ  پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا، آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ۔

 مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابہ سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمرو ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ عیدِ میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اعظمِ نِعَمِ الٰہیہ کی یادگار و شکر گزاری ہے۔

۱۶۔              مکہ مکرّمہ فتح فرما کر۔

۱۷۔              کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں۔

۱۸۔              معنیٰ یہ ہیں کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کر دیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز میسّر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے قدرِ ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہو جاتی ہے جس سے خطر ۂ جان جاتا رہے۔

(۴) اے  محبوب! تم سے  پوچھتے  ہیں کہ اُن کے  لئے  کیا حلال ہوا تم فرما دو کہ حلال کی گئیں تمہارے  لئے  پاک چیزیں (ف ۱۹) اور جو شکاری جانور تم نے  سدھا لیے  (ف ۲۰) انہیں شکار پر دوڑاتے  جو علم تمہیں خدا نے  دیا اس سے  انہیں سکھاتے  تو کھاؤ اس میں سے  جو وہ مار کر تمہارے  لیے  رہنے  دیں (ف ۲۱) اور اس پر اللہ کا نام لو (ف ۲۲) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو  بیشک اللہ کو حساب کرتے  دیر نہیں لگتی،

۱۹۔              جن کی حرمت قرآن و حدیث اِجماع اور قیاس سے ثابت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ طیّبات وہ چیزیں ہیں جن کو عرب اور سلیم الطبع لوگ پسند کرتے ہیں اور خبیث وہ چیزیں ہیں جن سے سلیم طبیعتیں نفرت کرتی ہیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی حرمت پر دلیل نہ ہونا بھی اس کی حلّت کے لئے کافی ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت عدی ابنِ حاتم اور زید بن مہلہل کے حق میں نازل ہوئی جن کا نام رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے زید الخیر رکھا تھا، ان دونوں صاحبوں نے عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ہم لوگ کتّے اور باز کے ذریعہ سے شکار کرتے ہیں توکیا ہمارے لئے حلال ہے تو اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

۲۰۔              خواہ وہ درندوں میں سے ہوں مثل کتّے اور چیتے کے یا شکاری پرندوں میں سے مثل شِکرے، باز، شاہین وغیرہ کے، جب انہیں اس طرح سدھا  لیا جائے کہ جو شکار کریں اس میں سے نہ کھائیں اور جب شکاری ان کو چھوڑے تب شکار پر جائیں، جب بلائے واپس آ جائیں، ایسے شکاری جانوروں کو معلَّم کہتے ہیں۔

۲۱۔              اور خود اس میں سے نہ کھائیں۔

۲۲۔              آیت سے جو مستفاد ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے کتّا یا شِکرہ وغیرہ کوئی شکاری جانور شکار پر چھوڑا تو اس کا شکار چند شرطوں سے حلال ہے (۱) شکاری جانور مسلمان کا ہو اور سکھایا ہوا (۲) اس نے شکار کو زخم لگا کر مارا ہو (۳) شکاری جانور بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر کہہ کر چھوڑا گیا ہو (۴) اگر شکاری کے پاس شکار زندہ پہنچا ہو تو اس کو بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر کہہ کر ذَبح کرے، اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو حلال نہ ہو گا مثلاً اگر شکاری جانور معلَّم (سکھایا ہوا) نہ ہو یا اس نے زخم نہ کیا ہو یا شکار پر چھوڑتے وقت بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر نہ پڑھا ہو یا شکار زندہ پہنچا ہو اور اس کو ذبح نہ کیا ہو یا معلَّم کے ساتھ غیر معلَّم شکار میں شریک ہو گیا ہو یا ایسا شکاری جانور شریک ہو گیا ہو جس کو چھوڑتے وقت بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر نہ پڑھا گیا ہو یا وہ شکاری جانور مجوسی کافِر کا ہو، ان سب صورتوں میں وہ شکار حرام ہے۔

مسئلہ : تیر سے شکار کرنے کا بھی یہی حکم ہے اگر بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر کہہ کر تیر مارا اور اس سے شکار مجروح ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر نہ مرا تو دوبارہ اس کو بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر پڑھ کر ذَبح کرے، اگر اس پر بِسمِ اللّٰہ نہ پڑھی یا تیر کا زخم اس کو نہ لگا یا زندہ پانے کے بعد اس کو ذَبح نہ کیا، ان سب صورتوں میں حرام ہے۔

(۵) آج تمہارے  لئے  پاک چیزیں حلال ہوئیں، اور کتابیوں کا کھانا (ف ۲۳) تمہارے  لیے  حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے  لئے  حلال ہے، اور پارسا  عورتیں مسلمان (ف ۲۴) اور پارسا  عورتیں ان میں سے  جن کو تم سے  پہلے  کتاب ملی جب تم انہیں ان کے   مہر دو قید  میں لاتے  ہوئے  (ف ۲۵) نہ مستی نکالتے  اور نہ  ناآشنا بناتے  (ف ۲۶) اور جو مسلمان سے  کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے (ف ۲۷)

۲ٍ۳۔              یعنی ان کے ذبیحے۔

مسئلہ : مسلِم و کتابی کا ذبیحہ حلال ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا بچّہ۔

۲۴۔              نکاح کرنے میں عورت کی پارسائی کا لحاظ مستحب ہے لیکن صحتِ نکاح کے لئے شرط نہیں۔

۲۵۔              نکاح کر کے۔

۲۶۔              ناجائز طریقہ پر مستی نکالنے سے بے دھڑک زنا کرنا اور آشنا بنانے سے پوشیدہ زنا مراد ہے۔

۲۷۔              کیونکہ اِرتداد سے تمام عمل اَکارت ہو جاتے ہیں۔

  (۶) اے  ایمان والو جب نماز کو کھڑے  ہونا چاہو (ف ۲۸) تو اپنا  منہ  دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ (ف ۲۹) اور سروں کا مسح کرو (ف ۳۰) اور گٹوں تک  پاؤ  ں دھوؤ (ف ۳۱) اور اگر تمہیں نہانے  کی حاجت ہو تو خوب ستھرے  ہولو (ف ۳۲) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے  کوئی قضائے  حاجت سے  آیا  یا  تم نے  عورتوں سے  صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا مٹی سے  تیمم کرو تو اپنے  منہ اور ہاتھوں کا اس سے  مسح کرو، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے  ہاں یہ چاہتا ہے  کہ تمہیں خوب ستھرا کر دے  اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دے  کہ کہیں تم احسان مانو۔

۲۸۔              اور تم بے وضو ہو تو تم پر وضو فرض ہے اور فرائض وضو کے یہ چار ہیں جو آگے بیان کئے جاتے ہیں۔ فائدہ : سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب ہر نماز کے لئے تازہ وضو کے عادی تھے اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل درست ہیں مگر ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا موجِب ہے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو فرض تھا بعد میں منسوخ کیا گیا اور جب تک حَدَث واقع نہ ہو ایک ہی وضو سے فرائض و نوافل سب کا ادا کرنا جائز ہوا۔

۲۹۔              کہنیاں بھی دھونے کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، جمہور اسی پر ہیں۔

ٍ۳۰۔           چوتھائی سر کا مسح فرض ہے یہ مقدار حدیثِ مغیرہ سے ثابت ہے اور یہ حدیث آیت کا بیان ہے۔

ٍ۳۱۔           یہ وضو کا چوتھا فرض ہے، حدیث صحیح میں ہے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحابِ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا۔

ٍ۳۲۔           مسئلہ : جنابت سے طہارتِ کاملہ لازم ہوتی ہے، جنابت کبھی بیداری میں دفق و شہوت کے ساتھ اِنزال سے ہوتی ہے اور کبھی نیند میں احتلام سے جس کے بعد اثر پایا جائے حتی کہ اگر خواب یاد آیا مگر تری نہ پائی تو غسل واجب نہ ہو گا اور کبھی سبیلین میں سے کسی میں ادخالِ حشفہ سے فاعل و مفعول دونوں کے حق میں خواہ اِنزال ہو یا نہ ہو، یہ تمام صورتیں جنابت میں داخل ہیان سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔

مسئلہ : حیض و نفاس سے بھی غسل لازم ہوتا ہے، حیض کا مسئلہ سورۂ بقرہ میں گزر گیا اور نفاس کا موجِبِ غسل ہونا اِجماع سے ثابت ہے۔ تیمّم کا بیان سورۂ نساء میں گزر چکا۔

(۷) اور یاد کرو اللہ کا احسان اپنے  اوپر (ف ۳۳) اور وہ عہد جو اس نے  تم سے  لیا (ف ۳۴) جبکہ تم نے  کہا ہم نے  سنا اور مانا  اور اللہ سے  ڈرو بیشک اللہ دلوں کی بات جانتا ہے،

ٍ۳ٍ۳۔           کہ تمہیں مسلمان کیا۔

ٍ۳۴۔           نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے بیعت کرتے وقت شبِ عقبہ اور بیعتِ رضوان میں۔

(۸) اے  ایمان والوں اللہ کے  حکم پر خوب  قائم ہو جاؤ انصاف کے  ساتھ گواہی  دیتے  (ف ۳۶) اور تم کو کسی قوم کی عداوت  اس پر نہ اُبھارے  کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیز گاری سے  زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے  ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے  کامو ں کی خبر ہے،

ٍ۳۵۔           نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا ہر حکم ہر حال میں۔

ٍ۳۶۔           اس طرح کی قرابت و عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے۔

(۹)ایمان والے  نیکو  کاروں سے  اللہ کا  وعدہ ہے  کہ ان کے  لئے  بخشش اور بڑا ثواب ہے،

(۱۰) اور وہ جنہوں نے  کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وحی دوزخ والے  ہیں (ف ۳۷)

ٍ۳۷۔           یہ آیت نصِّ قاطع ہے اس پر کہ خلودِ نار سوائے کُفّار کے اور کسی کے لئے نہیں۔ (خازن)۔

(۱۱) اے  ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے  اوپر یاد کرو جب ایک قوم نے  چاہا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے  ان کے  ہاتھ تم پر سے  روک دیئے  (ف ۳۸) اور اللہ سے   ڈرو اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے،

ٍ۳۸۔           شانِ نُزول : ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے ایک منزل میں قیام فرمایا، اصحاب جُدا جُدا درختوں کے سائے میں آرام کرنے لگے، سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اپنی تلوار ایک درخت میں لٹکا دی، ایک اعرابی موقع پا کر آیا اور چھُپ کر اس نے تلوار لی اور تلوار کھینچ کر حضور سے کہنے لگا اے محمّد تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ حضور نے فرمایا اللّٰہ، یہ فرمانا تھا حضرت جبریل نے اس کے ہاتھ سے تلوار گرا دی اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے تلوار لے کر فرمایا کہ تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ کہنے لگا کہ کوئی نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمّد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم اس کے رسول ہیں۔ (تفسیر ابوالسعود)۔

 (۱۲) اور بیشک اللہ نے  بنی اسرائیل سے  عہد کیا (ف ۳۹) اور ہم نے  ان میں بارہ سردار قائم کیے  (ف ۴۰) اور اللہ نے  فرمایا بیشک میں (ف ۴۱) تمہارے  ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے  سوالوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو  اور اللہ کو قرض حسن دو (ف ۴۲) بیشک میں تمہارے  گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے  جاؤں گا جن کے  نیچے  نہریں رواں، پھر اس کے  بعد جو تم میں سے  کفر کرے  وہ ضرور سیدھی راہ سے  بہکا (ف ۴۳)

ٍ۳۹۔           کہ اللّٰہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، توریت کے احکام کا اِتّباع کریں گے۔

۴۰۔              ہر سبط (گروہ) پر ایک سردار جو اپنی قوم کا ذمّہ دار ہو کہ وہ عہد وفا کریں گے اور حکم پر چلیں گے۔

۴۱۔              مدد و نصرت سے۔

۴۲۔              یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو۔

۴۳۔              واقعہ یہ تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں اور ان کی قوم کو ارضِ مقدَّسہ کا وارث بنائے گا جس میں کنعانی جبّار رہتے تھے تو فرعون کے ہلاک کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکمِ الٰہی ہوا کہ بنی اسرائیل کو ارضِ مقدَّسہ کی طرف لے جائیں، میں نے اس کو تمہارے لئے دار و قرار بنایا ہے تو وہاں جاؤ اور جو دشمن وہاں ہیں ان پر جہاد کرو، میں تمہاری مدد فرماؤں گا اور اے موسیٰ تم اپنی قوم کے ہر ہر سَبط میں سے ایک ایک سردار بناؤ اس طرح بارہ سردار مقرر کرو ہر ایک ان میں سے اپنی قوم کے حکم ماننے اور عہد وفا کرنے کا ذمّہ دار ہو، حضرت موسیٰ علیہ السلام سردار منتخب کر کے بنی اسرائیل کو لے کر روانہ ہوئے، جب اَرِیحاء کے قریب پہنچے تو ان نقیبوں کو تجسُّسِ احوال کے لئے بھیجا، وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگ بہت عظیم الجُثَّہ اور نہایت قوی و توانا صاحبِ ہیبت و شوکت ہیں، یہ ان سے ہیبت زدہ ہو کر واپس ہوئے اور آ کر انہوں نے اپنی قوم سے سب حال بیان کیا باوجودیکہ ان کو اس سے منع کیا گیا تھا لیکن سب نے عہد شکنی کی سوائے کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون کے کہ یہ عہد پر قائم رہے۔

(۱۳) تو ان کی کیسی بد عہدیوں (ف ۴۴)  پر ہم نے  انہیں لعنت کی اور ان کے  دل سخت کر دیئے  اللہ کی باتوں کو (ف ۴۵) ان کے  ٹھکانوں سے  بدلتے  ہیں اور بھُلا بیٹھے  بڑا حصہ ان نصیحتوں کا  جو انہیں دی گئیں (ف ۴۶) اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے  رہو گے  (ف ۴۷) سوا تھوڑوں کے  (ف ۴۸) تو انہیں معاف کر دو اور ان سے  درگزرو (ف ۴۹) بیشک احسان والے   ا للہ کو  محبوب ہیں۔

۴۴۔              کہ انہوں نے عہدِ الٰہی کو توڑا اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد آنے والے انبیاء کی تکذیب کی اور انبیاء کو قتل کیا، کتاب کے احکام کی مخالفت کی۔

۴۵۔              جن میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نعت و صفت ہے اور جو توریت میں بیان کی گئیں ہیں۔

۴۶۔              توریت میں کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا اِتّباع کریں اور ان پر ایمان لائیں۔

۴۷۔              کیونکہ دغا و خیانت و نقضِ عہد اور رسولوں کے ساتھ بدعہدی ان کی اور ان کے آباء کی قدیم عادت ہے۔

۴۸۔              جو ایمان لائے۔

(۱۴) اور وہ جنہوں نے  دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے  ان سے  عہد لیا (ف ۵۰) تو وہ بھلا بیٹھے  بڑا حصہ ان  نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں (ف ۵۱) تو ہم نے  ان کے   آپس میں قیامت کے  دن تک بَیر اور بغض ڈال دیا (ف ۵۲) اور عنقریب اللہ انہیں بتا دے  گا جو کچھ کرتے  تھے  (ف ۵۳)

۴۹۔              اور جو کچھ ان سے پہلے سرزد ہوا اس پر گرفت نہ کرو۔ شانِ نُزول : بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس قوم کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلے نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے عہد کیا پھر توڑا پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو اس پر مطلع فرمایا اور یہ آیت نازل کی، اس صورت میں معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی اس عہد شکنی سے درگزر کیجئے جب تک کہ وہ جنگ سے باز رہیں اور جزیہ ادا کرنے سے منع نہ کریں۔

۵۰۔              اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا۔

۵۱۔              انجیل میں اور انہوں نے عہد شکنی کی۔

۵۲۔              قتادہ نے کہا کہ جب نصاریٰ نے کتابِ الٰہی (انجیل) پر عمل کرنا ترک کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی، فرائض ادا نہ کئے، حدود کی پروا نہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے درمیان عداوت ڈال دی۔

۵۳۔              یعنی روزِ قیامت وہ اپنے کردار کا بدلہ پائیں گے۔

(۱۵) اے  کتاب والو (ف ۵۴) بیشک تمہارے  پاس ہمارے  یہ  رسول (ف ۵۵) تشریف لائے  کہ تم پر ظاہر فرماتے  ہیں بہت سی  وہ  چیزیں جو تم نے  کتاب میں چھپا  ڈا لی تھیں (ف ۵۶) اور بہت سی معاف فرماتے  ہیں (ف ۵۷) بیشک تمہارے  پاس اللہ کی طرف سے  ایک نور آیا  (ف ۵۸) اور  روشن کتاب(ف ۵۹)

۵۴۔              یہودیو و نصرانیو۔

۵۵۔              سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم۔

۵۶۔              جیسے کہ آیتِ رجم اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے اوصاف اور حضور کا اس کو بیان فرمانا معجِزہ ہے۔

۵۷۔              اور ان کا ذکر بھی نہیں کرتے نہ ان پر مؤاخذہ فرماتے ہیں کیونکہ آپ اسی چیز کا ذکر فرماتے ہیں جس میں مصلحت ہو۔

۵۸۔              سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکیِ کُفر دور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی۔

۵۹۔              یعنی قرآن شریف۔

(۱۶)اللہ اس سے  ہدایت دیتا ہے  اسے  جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے  ساتھ اور انہیں اندھیریوں سے  روشنی کی طرف لے  جاتا ہے  اپنے  حکم سے  اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے،

۶۰۔              حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ نجران کے نصاریٰ سے یہ مقولہ سرزد ہوا اور نصرانیوں کے فرقۂ یعقوبیہ و ملکانیہ کا یہ مذہب ہے کہ وہ حضرت مسیح کو اللّٰہ بتاتے ہیں کیونکہ وہ حلول کے قائل ہیں اور ان کا اعتقادِ باطل یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بدنِ عیسیٰ میں حلول کیا معاذ اللّٰہ و تعا لَی اللّٰہُ عَمَّایَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکمِ کُفر دیا اور اس کے بعد ان کے مذہب کا فساد بیان فرمایا۔

(۱۷) بیشک کافر ہوئے  وہ جنہوں نے  کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے  (ف ۶۰) تم فرما دو پھر اللہ کا کوئی کیا کر سکتا ہے  اگر وہ چاہے  کہ ہلاک کر دے  مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو (ف ۶۱) اور اللہ ہی کے  لیے  ہے  سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے  درمیان کی جو چاہے  پیدا کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۶۱۔              اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا تو پھر حضرت مسیح کو اللّٰہ بتانا کتنا صریح باطل ہے۔

(۱۸) اور یہودی اور نصرانی بولے  کہ ہم اللہ کے  بیٹے  اور اس کے  پیارے  ہیں (ف ۶۲) تم فرما دو پھر تمہیں کیوں تمہارے  گناہوں پر عذاب فرماتا ہے  (ف ۶۳) بلکہ تم آدمی ہو اس کی مخلوقات سے  جسے  چاہے  بخشتا ہے  اور جسے  چاہے  سزا دیتا ہے، اور اللہ ہی کے  لئے  ہے  سلطنت آسمانوں اور زمین اور اس کے  درمیان کی، اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔

۶۲۔              شانِ نُزول : سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے پاس اہلِ کتاب آئے اور انہوں نے دین کے معاملہ میں آپ سے گفتگو شروع کی، آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور اللّٰہ کی نافرمانی کرنے سے اس کے عذاب کا خوف دلایا تو وہ کہنے لگے کہ اے محمّد آپ ہمیں کیا ڈراتے ہیں ہم تو اللّٰہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے اس دعوے کا بُطلان ظاہر فرمایا گیا۔

۶۳۔              یعنی اس بات کا تو تمہیں بھی اقرار ہے کہ گنتی کے دن تم جہنّم میں رہو گے تو سوچو کوئی باپ اپنے بیٹے کو یا کوئی شخص اپنے پیارے کو آگ میں جلاتا ہے، جب ایسا نہیں تو تمہارے دعویٰ کا کِذب و بُطلان تمہارے اقرار سے ثابت ہے۔

(۱۹) اے  کتاب والو! بیشک تمہارے  پاس ہمارے  یہ رسول (ف ۶۴) تشریف لائے  کہ تم پر ہمارے  احکام ظاہر فرماتے  ہیں بعد اس کے  کہ رسولوں کا  آنا  مدتوں بند رہا تھا (ف ۶۵) کہ کبھی کہو کہ ہمارے  پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے  والا نہ آیا تو یہ خوشی اور ڈر سنانے  والے  تمہارے  پاس تشریف لائے  ہیں، اور اللہ کو سب قدرت ہے،

۶۴۔              محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔

۶۵۔              حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے زمانہ تک پانچ سو انہتّر برس کی مدّت نبی سے خالی رہی۔ اس کے بعد حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے تشریف لانے کی منّت کا اظہار فرمایا جاتا ہے کہ نہایت حاجت کے وقت تم پر اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمت بھیجی گئی اور اس میں الزامِ حُجّت و قطعِ عذر بھی ہے کہ اب یہ کہنے کا موقع نہ رہا کہ ہمارے پاس تنبیہ کرنے والے تشریف نہ لائے۔

۶۶۔              مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی تشریف آوری نعمت ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس کے ذکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ برکات و ثمرات کا سبب ہے۔ اس سے محافلِ میلادِ مبارک کے موجِبِ برکات و ثمرات اور محمود و مستحسَن ہونے کی سند ملتی ہے۔

(۲۰) اور جب موسیٰ نے  کہا  اپنی قوم سے   اے  میری قوم اللہ کا احسان اپنے  اوپر یاد کرو کہ تم میں سے  پیغمبر کیے  اور تمہیں بادشاہ کیا (ف ۶۷) اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے  جہان میں کسی کو نہ دیا (ف ۶۸)

۶۷۔              یعنی آزاد و صاحبِ حشم و خَدَم اور فرعونیوں کے ہاتھوں میں مقیّد ہونے کے بعد ان کی غلامی سے نجات حاصل کر کے عیش و آرام کی زندگی پانا بڑی نعمت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی خادم اور عورت اور سواری رکھتا وہ مَلِک کہلایا جاتا ہے۔

۶۸۔              جیسے کہ دریا میں راہ بنانا، دشمن کو غرق کرنا، مَن اور سلویٰ اُتارنا، پتّھر سے چشمے جاری کرنا، اَبر کو سائبان بنانا وغیرہ۔

(۲۱) اے  قوم اس پاک  زمین میں داخل  ہو  جو اللہ نے  تمہارے  لیے  لکھی ہے  اور پیچھے  نہ پلٹو (ف ۶۹) کہ نقصان پر پلٹو گے،

۶۹۔              حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللّٰہ کی نعمتیں یاد دلانے کے بعد ان کو اپنے دشمنوں پر جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اے قوم ارضِ مقدَّسہ میں داخل ہو جاؤ۔ اس زمین کو مقدّس اس لئے کہا گیا کہ وہ انبیاء کی مسکَن تھی۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی سکونت سے زمینوں کو بھی شرف حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے باعثِ برکت ہوتا ہے۔ کلبی سے منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کوہِ لبنان پر چڑھے تو آپ سے کہا گیا دیکھیئے جہاں تک آپ کی نظر پہنچے وہ جگہ مقدّس ہے اور آپ کی ذُرِّیَّت کی میراث ہے، یہ سرزمین طُور اور اس کے گرد و پیش کی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ تمام مُلکِ شام۔

(۲۲) بولے  اے  موسیٰ اس میں تو بڑے  زبردست لوگ ہیں، اور ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے  جب تک  وہ  وہاں سے  نکل نہ جائیں ہاں  وہ  وہاں سے  نکل جائیں تو ہم وہاں جائیں،

(۲۳) دو  مرد کہ اللہ سے  ڈرنے  والوں میں سے  تھے  (ف ۷۰) اللہ  نے   انہیں نوازا (ف ۷۱) بولے  کہ زبردستی دروازے  میں (ف ۷۲) ان پر داخل ہو اگر تم دروازے  میں داخل ہو گئے  تو تمہارا ہی غلبہ ہے  (ف ۷۳) اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے،

۷۰۔              کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون جو ان نقبا میں سے تھے جنہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جبابرہ کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا تھا۔

۷۱۔              ہدایت اور وفاءِ عہد کے ساتھ، انہوں نے جبابرہ کا حال صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا اور اس کا افشاء نہ کیا بخلاف دوسرے نُقَبا کے کہ انہوں نے افشاء کیا تھا۔

۷۲۔              شہر کے۔

۷۳۔              کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ کیا ہے اور اس کا وعدہ ضرور پورا ہونا، تم جبارین کے بڑے بڑے جسموں سے اندیشہ نہ کرو ہم نے انہیں دیکھا ہے ان کے جسم بڑے ہیں اور دل کمزور ہیں، ان دونوں نے جب یہ کہا تو بنی اسرائیل بہت برہم ہوئے اور انہوں نے چاہا کہ ان پر سنگ باری کریں۔

(۲۴) بولے  (ف ۷۴) اے  موسیٰ ہم تو  وہاں (ف ۷۵) کبھی نہ جائیں گے  جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے  اور آپ کا رب تم دونوں لڑو  ہم یہاں بیٹھے  ہیں۔

۷۴۔              بنی اسرائیل۔

۷۵۔              جبّار ین کے شہر میں۔

(۲۵) موسیٰ نے  عرض کی کہ اے  رب! میرے  مجھے  اختیار نہیں مگر اپنا  اور اپنے  بھائی کا تو  تو ہم کو ان بے  حکموں سے  جدا رکھ (ف ۷۶)

۷۶۔              اور ہمیں ان کی صحبت اور قُرب سے بچایا، یہ معنیٰ کہ ہمارے ان کے درمیان فیصلہ فرما۔

(۲۶) فرمایا تو  وہ زمین ان پر حرام ہے  (ف ۷۷) چا لیس برس تک بھٹکتے  پھریں زمین میں (ف ۷۸) تو تم ان بے  حکموں کا افسوس نہ کھاؤ،

۷۷۔              اس میں نہ داخل ہو سکیں گے۔

۷۸۔              وہ زمین جس میں یہ لوگ بھٹکتے پھرے نو فرسنگ تھی اور قوم چھ لاکھ، جنگی جو اپنے سامان لئے تمام دن چلتے تھے جب شام ہوتی تو اپنے کو وہیں پاتے جہاں سے چلے تھے یہ ان پر عقوبت تھی سوائے حضرت موسیٰ و ہارون و یوشع و کالب کے کہ ان پر اللّٰہ تعالیٰ نے آسانی فرمائی اور ان کی اعانت کی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے آگ کو سرد اور سلامتی بنایا اور اتنی بڑی جماعتِ عظیمہ کا اتنے چھوٹے حصّہ زمین میں چالیس برس آوارہ و حیران پھرنا اور کسی کا وہاں سے نکل نہ سکنا خوارقِ عادات میں سے ہے، جب بنی اسرائیل نے اس جنگل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کھانے پینے وغیرہ ضروریات اور تکالیف کی شکایت کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان کو آسمانی غذا مَن و سلویٰ عطا فرمایا اور لباس خود ان کے بدن پر پیدا کیا جو جسم کے ساتھ بڑھتا تھا اور ایک سفید پتّھر کوہِ طُور کا عنایت کیا کہ جب رختِ سفر اُتارتے اور کسی وقت ٹھہرتے تو حضرت اس پتّھر پر عصا مارتے اس سے بنی اسرائیل کے بارہ اسباط کے لئے بارہ چشمے جاری ہو جاتے اور سایہ کرنے کے لئے ایک اَبر بھیجا اور تیہ میں جتنے لوگ داخل ہوئے تھے ان میں سے جو بیس سال سے زیادہ عمر کے تھے سب وہیں مر گئے سوائے یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کے اور جن لوگوں نے ارضِ مقدّسہ میں داخل ہونے سے انکار کیا ان میں سے کوئی بھی داخل نہ ہو سکا اور کہا گیا ہے کہ تیہ میں ہی حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی وفات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے چالیس برس بعد حضرت یوشع کو نبوّت عطا کی گئی اور جبّارین پر جہاد کا حکم دیا گیا۔ آپ باقی ماندہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر گئے اور جبّار بن پر جہاد کیا۔

(۲۷) اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے  دو بیٹوں کی سچی خبر (ف ۷۹) جب دونوں نے  ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے  کی نہ قبول ہوئی بولا قسم ہے  میں تجھے  قتل کر دوں گا (ف ۸۰) کہا اللہ اسی سے  قبول کرتا ہے،جسے  ڈر ہے  (ف ۸۱)

۷۹۔              جن کا نام ہابیل اور قابیل تھا۔ اس خبر کو سنانے سے مقصد یہ ہے کہ حسد کی برائی معلوم ہو اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے حسد کرنے والوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملے۔ عُلَماءِ سِیَر و اَخبار کا بیان ہے کہ حضرت حوّا کے حمل میں ایک لڑکا ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے اور ایک حمل کے لڑکے کا دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کیا جاتا تھا اور جب کہ آدمی صرف حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں منحصر تھے تو مناکحت کی اور کوئی سبیل ہی نہ تھی اسی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کا نکاح لیودا سے جو ہابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی اور ہابیل کا اقلیما سے جو قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی تھی کرنا چاہا، قابیل اس پر راضی نہ ہوا اور چونکہ اقلیما زیادہ خوبصورت تھی اس لئے اس کا طلب گار ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ تیرے ساتھ پیدا ہوئی لہٰذا تیری بہن ہے اس کے ساتھ تیرا نکاح حلال نہیں، کہنے لگا یہ تو آپ کی رائے ہے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا، آپ نے فرمایا تو تم دونوں قربانیاں لاؤ جس کی قربانی مقبول ہو جائے وہی اقلیما کا حقدار ہے، اس زمانہ میں جو قربانی مقبول ہوتی تھی آسمان سے ایک آگ اُتر کر اس کو کھا لیا کرتی تھی، قابیل نے ایک انبار گندم اور ہابیل نے ایک بکری قربانی کے لئے پیش کی، آسمانی آگ نے ہابیل کی قربانی کو لے لیا اور قابیل کے گیہوں چھوڑ گئی، اس پر قابیل کے دل میں بہت بغض و حسد پیدا ہوا۔

۸۰۔              جب حضرت آدم علیہ السلام حج کے لئے مکّہ مکرّمہ تشریف لے گئے تو قابیل نے ہابیل سے کہا کہ میں تجھ کو قتل کروں گا، ہابیل نے کہا کیوں ؟ کہنے لگا اس لئے کہ تیری قربانی مقبول ہوئی، میری نہ ہوئی اور تو اقلیما کا مستحق ٹھہرا اس میں میری ذلّت ہے۔

۸۱۔              ہابیل کے اس مقولہ کا یہ مطلب ہے کہ قربانی کا قبول کرنا اللّٰہ کا کام ہے وہ متّقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے تو متّقی ہوتا تو تیری قربانی قبول ہوتی، یہ خود تیرے افعال کا نتیجہ ہے، اس میں میرا کیا دخل ہے۔

(۲۸) بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے  گا کہ مجھے  قتل کرے  تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے  قتل کروں (ف ۸۲) میں اللہ سے  ڈرتا ہوں جو مالک ہے  سارے  جہاں کا۔

۸۲۔              اور میر ی طرف سے ابتدا ہو باوجود یکہ میں تجھ سے قوی و توانا ہوں یہ صرف اس لئے کہ۔

(۲۹) میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا  (ف ۷۳) اور تیرا گناہ  (ف ۸۴) دونوں تیرے  ہی پلہ پڑے  تو تو دوزخی ہو جائے، اور بے  انصافوں کی یہی سزا ہے۔

۸۳۔              یعنی مجھ کو قتل کرنے کا۔

۸۴۔              جو اس سے پہلے تو نے کیا کہ والد کی نافرمانی کی، حسد کیا اور خدائی فیصلہ کو نہ مانا۔

(۳۰) تو اسکے  نفس نے  اسے  بھائی کے  قتل کا  چاؤ دلایا تو  اسے   قتل کر دیا تو رہ گیا نقصان میں (ف ۸۵)

۸۵۔              اور متحیّر ہوا کہ اس لاش کو کیا کرے کیونکہ اس وقت تک کوئی انسان مرا ہی نہ تھا، مدّت تک لاش کو پُشت پر لا دے  پھرا۔

(۳۱) تو اللہ نے  ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے  دکھائے  کیونکر اپنے  بھائی کی لاش چھپائے  (ف ۸۶) بولا ہائے  خرابی میں اس کوے  جیسا بھی نہ ہو سکا کہ میں اپنے  بھائی کی لاش چھپاتا تو پچھتاتا  رہ گیا(ف ۸۷)

۸۶۔              مروی ہے کہ دو کوّے آپس میں لڑے ان میں سے ایک نے دوسرے کو مار ڈالا پھر زندہ کوّے نے اپنی مِنقار (چونچ) اور پنجوں سے زمین کُرید کر گڈھا کیا، اس میں مرے ہوئے کوّے کو ڈال کر مٹی سے دبا دیا، یہ دیکھ کر قابیل کو معلوم ہوا کہ مُردے کی لاش کو دفن کرنا چاہئے چنانچہ اس نے زمین کھود کر دفن کر دیا۔(جلالین، مدارک وغیرہ)۔

۸۷۔              اپنی نادانی و پریشانی پر اور یہ ندامت گناہ پر نہ تھی کہ توبہ میں شمار ہو سکتی یا ندامت کا توبہ ہونا سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم ہی کی اُمّت کے ساتھ خاص ہو۔ (مدارک)۔

(۳۲) اس سبب سے  ہم  نے  بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے  کوئی جان قتل کی بغیر جان کے  بدلے  یا زمین میں فساد کیے  (ف ۸۸) تو گویا  اس نے  سب لوگوں کو قتل کیا (ف ۸۹) اور جس نے  ایک جان کو جِلا لیا (ف ۹۰) اس نے  گویا سب  لوگوں کو جلا لیا، اور بیشک ان کے  (ف ۹۱) پاس ہمارے  رسول روشن دلیلوں کے  ساتھ آئے  (ف ۹۲) پھر بیشک ان میں بہت اس کے  بعد زمین میں زیادتی کرنے  والے  ہیں (ف ۹۳)

۸۸۔              یعنی خونِ ناحق کیا کہ نہ تو مقتول کو کسی خون کے بدلے قِصاص کے طور پر مارا، نہ شرک و کُفر یا قطعِ طریق وغیرہ کسی موجِبِ قتل فساد کی وجہ سے مارا۔

۸۹۔              کیونکہ اس نے حقُّ اللّٰہ کی رعایت اور حدودِ شریعت کا پاس نہ کیا۔

۹۰۔              اس طرح کہ قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے وغیرہ اسبابِ ہلاکت سے بچایا۔

۹۱۔              یعنی بنی اسرائیل کے۔

۹۲۔              معجزاتِ باہرات بھی لائے اور احکام و شرائع بھی۔

۹۳۔              کہ کُفر و قتل وغیرہ کا ارتکاب کر کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔

(۳۳) وہ کہ اللہ اور اس کے  رسول سے  لڑتے  (ف ۹۴) اور ملک میں فساد کرتے  پھرتے  ہیں ان کا  بدلہ یہی ہے  کہ گن گن کر قتل کیے  جائیں یا سولی  دیے  جائیں یا ان  کے   ایک طرف کے  ہاتھ اور دوسری طرف کے  پاؤں کاٹے  جائیں یا زمین سے  دور کر دیے  جائیں، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے،  اور آخرت میں ان کے  لیے  بڑا عذاب۔

۹۴۔              اللّٰہ تعالیٰ سے لڑنا یہی ہے کہ اس کے اولیاء سے عداوت کرے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا، اس آیت میں قطاعِ طریق یعنی رہزنوں کی سزا کا بیان ہے۔ شانِ نُزول : ۶ھ میں عُرَیْنہ کے چند لوگ مدینہ طیّبہ میں آ کر اسلام لائے اور بیمار ہو گئے، ان کے رنگ زرد ہو گئے، پیٹ بڑھ گئے، حضور نے حکم دیا کہ صدقہ کے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب ملا کر پیا کریں، ایسا کرنے سے وہ تندرست ہو گئے مگر تندرست ہو کر مرتَد ہو گئے اور پندرہ اونٹ لے کر وہ اپنے وطن کو چلتے ہو گئے، سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے ان کی طلب میں حضرت یسار کو بھیجا ان لوگوں نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے اور ایذائیں دیتے دیتے شہید کر ڈالا پھر جب یہ لوگ حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں گرفتار کر کے حاضر کئے گئے تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیرِ احمدی)۔

(۳۴) مگر وہ جنہوں نے  توبہ کر لی اس سے  پہلے  کہ تم ان پر قابو پاؤ (ف ۹۵) تو جان لو کہ اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۹۵۔              یعنی گرفتاری سے قبل توبہ کر لینے سے وہ عذابِ آخرت اور قطعِ طریق (رہزنی ) کی حد سے تو بچ جائیں گے مگر مال کی واپسی اور قصاص حقُ العباد ہے یہ باقی رہے گا۔ (احمدی)۔

(۳۵) اے  ایمان والو! اللہ سے   ڈرو  اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو (ف ۹۶) اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔

۹۶۔              جس کی بدولت تمہیں اس کا قُرب حاصل ہو۔

(۳۶) بیشک وہ جو کافر ہوئے  جو کچھ زمین میں ہے  سب اور اس کی برابر اور اگر ان کی ملک ہو کہ اسے  دے  کر قیامت کے  عذاب سے  اپنی جان چھڑائیں تو ان سے  نہ لیا جائے  گا اور ان کے  لئے  دکھ کا عذاب ہے (ف ۹۷)

۹۷۔              یعنی کُفّار کے لئے عذاب لازم ہے اور اس سے رہائی پانے کی کوئی سبیل نہیں۔

(۳۷) دوزخ سے  نکلنا چاہیں گے  اور وہ اس سے  نہ نکلیں گے  اور ان کو دوامی سزا ہے،

(۳۸) اور جو  مرد یا عورت چور ہو (ف ۹۸) تو ان کا ہاتھ کاٹو (ف ۹۹) ان کے  کیے  کا بدلہ اللہ کی طرف سے  سزا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے،

۹۸۔              اور اس کی چوری دو مرتبہ کے اقرار یا دو مَردوں کی شہادت سے حاکم کے سامنے ثابت ہو اور جو مال چُرایا ہے وہ دس درہم سے کم کا نہ ہو۔ (کما فی حدیثِ ابنِ مسعود)۔

۹۹۔              یعنی داہنا اس لئے کہ حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی قراءت میں  اَیْمَا نَھُمَا آیا ہے۔

مسئلہ : پہلی مرتبہ کی چوری میں داہنا ہاتھ کاٹا جائے گا پھر دوبارہ اگر کرے تو بایاں پاؤں، اس کے بعد بھی اگر چوری کرے تو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے۔

مسئلہ : چور کا ہاتھ کاٹنا تو واجب ہے اور مالِ مسروق موجود ہو تو اس کا واپس کرنا بھی واجب اور اگر وہ ضائع ہو گیا ہو تو ضمان واجب نہیں۔ (تفسیرِ احمدی)۔

(۳۹) تو جو اپنے  ظلم کے  بعد توبہ کرے  اور سنور جائے  تو اللہ اپنی مہر سے  اس پر رجوع فرمائے  گا (ف ۱۰۰) بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے،

۱۰۰۔            اور عذابِ آخرت سے اس کو نجات دے گا۔

(۴۰) کیا تجھے  معلوم نہیں کہ اللہ کے  لئے  ہے  آسمانوں اور زمین کی بادشاہی،  سزا دیتا ہے  جسے  چاہے  اور بخشتا ہے  جسے  چاہے، اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے، (ف ۱۰۱)

۱۰۱۔            مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ عذاب کرنا اور رحمت فرمانا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیّت پر ہے وہ مالک ہے جو چاہے کرے کسی کو مجالِ اعتراض نہیں، اس سے قدریہ و معتزلہ کا اِبطال ہو گیا جو مطیع پر رحمت اور عاصی پر عذاب کرنا اللّٰہ تعالیٰ پر واجب کہتے ہیں۔

(۴۱) اے  رسول! تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پڑ دوڑتے  ہیں (ف ۱۰۲) جو کچھ وہ اپنے  منہ سے  کہتے  ہیں ہم ایمان لائے  اور ان کے  دل مسلمان نہیں (ف ۱۰۳) اور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے  ہیں (ف ۱۰۴) اور لوگوں کی خوب سنتے  ہیں (ف ۱۰۵) جو تمہارے  پاس حاضر نہ ہوئے  اللہ کی باتوں کو ان کے  ٹھکانوں کے  بعد بدل دیتے  ہیں، کہتے  ہیں یہ حکم تمہیں ملے   تو  مانو  اور یہ نہ ملے  تو بچو (ف ۱۰۶) اور جسے  اللہ  گمراہ کرنا چاہے  تو ہرگز تو  اللہ سے  اس کا کچھ بنا نہ سکے  گا، وہ ہیں  کہ اللہ نے  ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا، انہیں دنیا میں رسوائی ہے، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب،

۱۰۲۔            اللّٰہ تعالیٰ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو  یٰاَ یّھُا الرَّسُوْلُ  کے خطابِ عزّت کے ساتھ مخاطب فرما کر تسکینِ خاطر فرماتا ہے کہ اے حبیب میں آپ کا ناصر و مُعِین ہوں، منافقین کے کُفر میں جلدی کرنے یعنی ان کے اظہارِ کُفر اور کُفّار کے ساتھ دوستی و موالات کر لینے سے آپ رنجیدہ نہ ہوں۔

۱۰۳۔            یہ ان کے نفاق کا بیان ہے۔

۱۰۴۔            اپنے سرداروں سے اور ان کے افتراؤں کو قبول کرتے ہیں۔

۱۰۵۔            ماشاء اللّٰہ حضرت مترجِم قدّس سرّہ نے بہت صحیح ترجمہ فرمایا، اس مقام پر بعض مُترجِمین و مفسِّرین سے لغزش واقع ہوئی کہ انہوں نے لِقَوْم کے لام کو علّت قرار دے کر آیت کے معنی یہ بیان کئے کہ منافقین و یہود اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں سنتے ہیں، آپ کی باتیں دوسری قوم کی خاطر سے کان دَھر کر سنتے ہیں جس کے وہ جاسوس ہیں مگر یہ معنیٰ صحیح نہیں اور نظمِ قرآنی اس سے بالکل موافقت نہیں فرماتی بلکہ یہاں لام مِنْ کے معنیٰ میں ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے سرداروں کی جھوٹی باتیں خوب سنتے ہیں اور لوگ یعنی یہودِ خیبر کی باتوں کو خوب مانتے ہیں جن کے احوال کا آیت شریف میں بیان آ رہا ہے۔ (تفسیر ابوالسعود و جمل)۔

۱۰۶۔            شانِ نُزول : یہودِ خیبر کے شرفاء میں سے ایک بیا ہے مرد اور بیاہی عورت نے زنا کیا، اس کی سزا توریت میں سنگسارکرنا تھی یہ انہیں گوارا نہ تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ اس مقدمے کا فیصلہ حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے کرائیں چنانچہ ان دونوں (مجرموں ) کو ایک جماعت کے ساتھ مدینہ طیّبہ بھیجا اور کہہ دیا کہ اگر حضور حد کا حکم دیں تو مان لینا اور سنگسار کرنے کا حکم دیں تو مت ماننا، وہ لوگ یہودِ بنی قُرَیظہ وبنی نُضَیرکے پاس آئے اور خیال کیا کہ یہ حضور کے ہم وطن ہیں اور ان کے ساتھ آپ کی صلح بھی ہے، ان کی سفارش سے کام بن جائے گا چنانچہ سردارانِ یہود میں سے کعب بن اشرف و کعب بن اسد و سعید بن عمرو و مالک بن صیف و کنانہ بن ابی الحقیق وغیرہ انہیں لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ دریافت کیا، حضور نے فرمایا کیا میرا فیصلہ مانو گے ؟ انہوں نے اقرار کیا، آیتِ رجم نازل ہوئی اور سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا، یہود نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا، حضور نے فرمایا کہ تم میں ایک نوجوانِ گور ایک چشمِ فَدَک کا باشندہ ابنِ صوریا نامی ہے، تم اس کو جانتے ہو ؟ کہنے لگے ہاں، فرمایا وہ کیسا آدمی ہے ؟ کہنے لگے کہ آج روئے زمین پریہود میں اس کے پایہ کا عالِم نہیں، توریت کا یکتا ماہر ہے، فرمایا اس کو بلاؤ چنانچہ بلایا گیا، جب وہ حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا تو ابنِ صوریا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں فرمایا یہود میں سب سے بڑا عالِم تو ہی ہے ؟ عر ض کیا لوگ تو ایسا ہی کہتے ہیں، حضور نے یہود سے فرمایا اس معاملہ میں اس کی بات مانو گے ؟ سب نے اقرار کیا تب حضور نے ابنِ صوریا سے فرمایا میں تجھے اس اللّٰہ کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے حضرت موسیٰ پر توریت نازل فرمائی اور تم لوگوں کو مِصر سے نکالا، تمہارے لئے دریا میں راہیں بنائیں، تمہیں نجات دی، فرعونیوں کو غرق کیا، تمہارے لئے اَبر کو سایہ بان بنایا مَنُّ و سلویٰ نازل فرمایا، اپنی کتاب نازل فرمائی جس میں حلال و حرام کا بیان ہے کیا تمہاری کتاب میں بیا ہے مرد و عورت کے لئے سنگسار کرنے کا حکم ہے ؟ ابنِ صوریا نے عرض کیا بے شک ہے اسی کی قَسم جس کا آپ نے مجھ سے ذکر کیا عذاب نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اقرار نہ کرتا اور جھوٹ بول دیتا مگر یہ فرمائیے کہ آپ کی کتاب میں اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا جب چار عادل و معتبر شاہدوں کی گواہی سے زنا بصراحت ثابت ہو جائے تو سنگسار کرنا واجب ہو جاتا ہے، ابنِ صوریا نے عرض کیا بخدا بعینہٖ ایسا ہی توریت میں ہے پھر حضور نے ابنِ صوریا سے دریافت فرمایا کہ حکمِ الٰہی میں تبدیلی کس طرح واقع ہوئی، اس نے عرض کیا کہ ہمارا دستور یہ تھا کہ ہم کسی شریف کو پکڑتے تو چھوڑ دیتے اور غریب آدمی پر حد قائم کرتے، اس طرزِ عمل سے شرفاء میں زنا کی بہت کثرت ہو گئی یہاں تک کہ ایک مرتبہ بادشاہ کے چچا زاد بھائی نے زنا کیا تو ہم نے اس کو سنگسار نہ کیا پھر ایک دوسرے شخص نے اپنی قوم کی عورت سے زنا کیا تو بادشاہ نے اس کو سنگسار کرنا چاہا، اس کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور انہوں نے کہا جب تک بادشاہ کے بھائی کو سنگسار نہ کیا جائے اس وقت تک اس کو ہرگز سنگسار نہ کیا جائے گا، تب ہم نے جمع ہو کر غریب شریف سب کے لئے بجائے سنگسار کرنے کے یہ سزا نکالی کہ چالیس کوڑے مارے جائیں اور منھ کالا کر کے گدھے پر الٹا بٹھا کر گشت کرائی جائے، یہ سن کر یہود بہت بگڑے اور ابنِ صوریا سے کہنے لگے تو نے حضرت کو بڑی جلدی خبر دے دی اور ہم نے جتنی تیری تعریف کی تھی تو اس کا مستحق نہیں، ابنِ صوریا نے کہا کہ حضور نے مجھے توریت کی قسم دلائی اگر مجھے عذاب کے نازل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ کو خبر نہ دیتا، اس کے بعد حضور کے حکم سے ان دونوں زنا کاروں کو سنگسار کیا گیا اور یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن)۔

(۴۲) بڑے  جھوٹ سننے  والے  بڑے  حرام خور (ف ۱۰۷) تو اگر تمہارے  حضور حاضر ہوں (ف ۱۰۸) تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے  منہ پھیرلو (ف ۱۰۹) اور اگر تم ان سے  منہ پھیرلو گے  تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے  (ف ۱۱۰) اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ  تو انصاف سے  فیصلہ کرو، بیشک انصاف والے  اللہ کو پسند ہیں،

۱۰۷۔            یہ یہود کے حُکّام کی شان میں ہے جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور احکامِ شرع کو بدل دیتے تھے۔

مسئلہ : رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں۔حدیث شریف میں رشوت لینے دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے۔

۱۰۸۔            یعنی اہلِ کتاب۔

۱۰۹۔            سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو مخیّر فرمایا گیا کہ اہلِ کتاب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لائیں تو آپ کو اختیار ہے فیصلہ فرمائیں یا نہ فرمائیں۔ بعض مفسّرین کا قول ہے کہ یہ تخییر آیۃ  وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ سے منسوخ ہو گئی امام احمد نے فرمایا کہ ان آیتوں میں کچھ منافات نہیں کیونکہ یہ آیت مفیدِ تخییر ہے اور آیت  وَاَنِ احْکُمْ میں کیفیّتِ حکم کا بیان ہے۔ (خازن و مدارک وغیرہ)۔

۱۱۰۔            کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کا نگہبان۔

(۴۳) اور  وہ تم سے  کیونکر فیصلہ چاہیں گے، حالانکہ ان کے  پاس توریت ہے  جس میں اللہ کا حکم موجود ہے  (ف ۱۱۱) بایں ہمہ اسی  سے  منہ پھیرتے  ہیں (ف ۱۱۲)  اور وہ ایمان لانے  والے  نہیں۔

۱۱۱۔            کہ بیا ہے مرد اور شوہر دار عورت کے زنا کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے۔

۱۱۲۔            باوجود یکہ توریت پر ایمان لانے کے مدعی بھی ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ توریت میں رجم کا حکم ہے اس کو نہ ماننا اور آپ کی نبوّت کے منکِر ہوتے ہوئے آپ سے فیصلہ چاہنا نہایت تعجّب کی بات ہے۔

(۴۴) بیشک ہم نے  توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے، اس کے  مطابق یہود کو حکم دیتے  تھے  ہمارے  فرمانبردار نبی اور عالم اور فقیہہ کہ ان سے  کتاب اللہ کی حفاظت چاہی گئی تھی (ف ۱۱۳) اور وہ اس پر گواہ تھے  تو (ف ۱۱۴) لوگوں سے  خوف نہ کرو  اور مجھ سے  ڈرو  اور میری آیتوں کے  بدلے  ذلیل قیمت نہ لو (ف ۱۱۵) اور جو اللہ کے  اتارے  پر حکم نہ کرے  (ف ۱۱۶) وہی لوگ کافر ہیں،

۱۱ٍ۳۔            کہ اس کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھیں اور اس کے درس میں مشغول رہیں تاکہ وہ کتاب فراموش نہ ہو اور اس کے احکام ضائع نہ ہوں۔ (خازن)

مسئلہ : توریت کے مطابق انبیاء کا حکم دینا جو اس آیت میں مذکور ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے پہلی شریعتوں کے جو احکام اللّٰہ اور رسول نے بیان فرمائے ہوں اور ان کے ہمیں ترک کا حکم نہ دیا ہو منسوخ نہ کئے گئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوتے ہیں۔( جمل وابوالسعود)۔

۱۱۴۔            اے یہودیو تم سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نعت و صفت اور رجم کا حکم جو توریت میں مذکور ہے اس کے اظہار میں۔

۱۱۵۔            یعنی احکامِ الٰہیہ کی تبدیل بہر صورت ممنوع ہے خواہ لوگوں کے خوف اور ان کی ناراضی کے اندیشہ سے ہو یا مال و جاہ و رشوت کی طمع سے۔

۱۱۶۔            اس کا منکِر ہو کر  کَمَا قَالَہُ اِبنِ عَبَّاس رضی اللّٰہ عنہما۔

(۴۵) اور ہم نے  توریت میں ان پر واجب کیا (ف ۱۱۷) کہ جان کے  بدلے  جان (ف ۱۱۸) اور آنکھ کے  بدلے  آنکھ  اور  ناک کے  بدلے  ناک اور کان کے  بدلے  کان اور دانت کے  بدلے  دانت اور زخموں میں بدلہ ہے  (ف ۱۱۹) پھر جو دل کی خوشی سے  بدلہ کرا وے  تو وہ  اس کا گناہ اتار دے  گا (ف ۱۲۰) اور جو اللہ کے  اتارے  پر حکم نہ کرے  تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

۱۱۷۔            اس آیت میں اگرچہ یہ بیان ہے کہ توریت میں یہود پر قصاص کے یہ احکام تھے لیکن چونکہ ہمیں ان کے ترک کا حکم نہیں دیا گیا اس لئے ہم پر یہ احکام لازم رہیں گے کیونکہ شرائعِ سابقہ کے جو احکام خدا و رسول کے بیان سے ہم تک پہنچے اور منسوخ نہ ہوئے ہوں وہ ہم پر لازم ہوا کرتے ہیں جیسا کہ اوپر کی آیت سے ثابت ہوا۔

۱۱۸۔            یعنی اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو اس کی جان مقتول کے بدلے میں ماخوذ ہو گی خواہ وہ مقتول مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام مسلِم ہو یا ذمّی۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہ کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( مدارک)۔

۱۱۹۔            یعنی مماثلت و مساوات کی رعایت ضروری ہے۔

۱۲۰۔            یعنی جو قاتل یا جنایت کرنے والا اپنے جُرم پر نادم ہو کر وبالِ معصیّت سے بچنے کے لئے بخوشی اپنے اوپر حکمِ شرعی جاری کرائے تو قصاص اس کے جُرم کا کفّارہ ہو جائے گا اور آخرت میں اس پر عذاب نہ ہو گا۔(جلالین و جمل)، بعض مفسّرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ جو صاحبِ حق قصاص کو معاف کر دے تو یہ معافی اس کے لئے کفّارہ ہے۔ (مدارک)، تفسیرِ احمدی میں ہے یہ تمام قصاص جب ہی واجب ہوں گے جب کہ صاحبِ حق معاف نہ کرے اگر وہ معاف کر دے تو قصاص ساقط۔

(۴۶) اور ہم  ان نبیوں کے  پیچھے  ان کے  نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو  لائے  تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے  پہلے  تھی (ف ۱۲۱) اور ہم نے  اسے  انجیل عطا کی جس میں ہدایت  اور نور ہے  اور تصدیق فرماتی ہے  توریت کی کہ اس سے  پہلی تھی اور ہدایت (ف ۱۲۲) اور نصیحت پرہیزگاروں کو،

۱۲۱۔            احکامِ توریت کے بیان کے بعد احکامِ انجیل کا ذکر شروع ہوا اور بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام توریت کے مصدِّق تھے کہ وہ منزَّل من اللّٰہ ہے اور نسخ سے پہلے اس پر عمل واجب تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اس کے بعض احکام منسوخ ہوئے۔

۱۲۲۔            اس آیت میں انجیل کے لئے لفظ ھُدًی دو جگہ ارشاد ہوا پہلی جگہ ضلالت و جہالت سے بچانے کے لئے رہنمائی مراد ہے دوسری جگہ ھُدًی سے سیدِ انبیاء حبیبِ کبریا صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کی بشارت مراد ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوّت کی طرف لوگوں کی راہ یابی کا سبب ہے۔

(۴۷) اور چاہئے  کہ انجیل والے  حکم کریں اس پر جو اللہ نے  اس میں اتارا (ف ۱۲۳) اور جو اللہ کے  اتارے  پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ  فاسق ہیں۔

۱۲ٍ۳۔            یعنی سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لانے اور آپ کی نبوّت کی تصدیق کرنے کا حکم۔

(۴۸) اور اے  محبوب ہم نے  تمہاری طرف سچی کتاب  اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی (ف ۱۲۴) اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو  اللہ کے  اتارے  سے  (ف ۱۲۵) اور اسے  سننے   والے  ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے  پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر، ہم نے  تم سب کے  لیے  ایک ایک  شریعت اور راستہ رکھا (ف ۱۲۶) اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا مگر منظور یہ ہے  کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے  (ف ۱۲۷) تو بھلائیوں کی طرف سبقت  چاہو، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے  تو وہ تمہیں بتا دے  گا جس بات  میں تم جھگڑتے  تھے۔

۱۲۴۔            جو اس سے قبل حضراتِ انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں۔

۱۲۵۔            یعنی جب اہلِ کتاب اپنے مقدمات آپ کی طرف رجوع کریں تو آپ قرآنِ پاک سے فیصلہ فرمائیں۔

۱۲۶۔            یعنی فروع و اعمال ہر ایک کے خاص ہیں اور اصل دین سب کا ایک۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ ایمان حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے یہی ہے کہ  لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ  کی شہادت اور جو اللّٰہ کی طرف سے آیا اس کا اقرار کرنا اور شریعت و طریق ہر اُمّت کا خاص ہے۔

۱۲۷۔            اور امتحان میں ڈالے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ ہر زمانہ کے مناسب جو اَحکام دیئے کیا تم ان پر اس یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتے ہو کہ ان کا اختلاف مشیّتِ الٰہیہ کے اقتضاء سے حکمتِ بالغہ اور دنیوی و اُخروی مصالحِ  نافعہ پر مبنی ہے یا حق کو چھوڑ کر ہوائے نفس کا اِتّباع کرتے ہو۔ (تفسیر ابوالسعود)۔

(۴۹) اور یہ کہ اے  مسلمان! اللہ کے  اتارے  پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ چل اور ان سے  بچتا  رہ کہ کہیں تجھے  لغزش نہ دے  دیں کسی حکم میں جو تیری طرف اترا  پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف ۱۲۸) تو جان لو کہ اللہ ان کے  بعض گناہوں کی (ف ۱۲۹) سزا  ان کو پہنچایا چاہتا ہے  (ف ۱۳۰) اور بیشک بہت آدمی بے  حکم ہیں۔

۱۲۸۔            اللّٰہ کے نازل فرمائے ہوئے حکم سے۔

۱۲۹۔            جن میں یہ اعراض بھی ہے۔

۱ٍ۳۰۔            میں قتل و گرفتاری و جِلا وطنی کے ساتھ اور تمام گناہوں کی سزا آخرت میں دے گا۔

(۵۰) تو کیا جاہلیت  کا حکم چاہتے  ہیں (ف ۱۳۱) اور اللہ سے  بہتر کس کا حکم یقین والوں کے  لیے،

۱ٍ۳۱۔            جو سراسر گمراہی اور ظلم اور مخالفِ احکامِ الٰہی ہوتا تھا۔ شانِ نُزول : بنی نُضَیر اور بنی قُرَیظہ یہود کے دو قبیلے تھے ان میں باہم ایک دوسرے کا قتل ہوتا رہتا تھا جب سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم مدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے تو یہ لوگ اپنا مقدّمہ حضور کی خدمت میں لائے اور بنی قُرَیظہ نے کہا کہ بنی نُضَیر ہمارے بھائی ہیں، ہم وہ ایک جد کی اولاد ہیں، ایک دین رکھتے ہیں، ایک کتاب (توریت) مانتے ہیں لیکن اگر بنی نُضَیر ہم میں سے کسی کو قتل کریں تو اس کے خون بہا میں ہم ستّر وَسق کھجوریں دیتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی ان کے کسی آدمی کو قتل کرے تو ہم سے اس کے خون بہا میں ایک سو چالیس وَسق لیتے ہیں، آپ اس کا فیصلہ فرما دیں حضور نے فرمایا میں حکم دیتا ہوں کہ قُرَیظِی اور نُضَیرِی کا خون برابر ہے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں، اس پر بنی نُضَیر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کے فیصلہ سے راضی نہیں، آپ ہمارے دشمن ہیں، ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ کیا جاہلیّت کی گمراہی و ظلم کا حکم چاہتے ہیں۔

(۵۱) اے  ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (ف ۱۳۲) وہ آپس میں ایک دوسرے  کے  دوست ہیں (ف ۱۳۳) اور تم میں جو کوئی ان سے  دوستی رکھے  گا تو وہ انہیں میں سے  ہے  (ف ۱۳۴) بیشک اللہ بے  انصافوں کو راہ نہیں دیتا (ف ۱۳۵)

۱ٍ۳۲۔            مسئلہ : اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی و موالات یعنی ان کی مدد کرنا، ان سے مدد چاہنا، ان کے ساتھ مَحبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نُزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو۔ شانِ نُزول : یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت صحابی اور عبداللّٰہ بن اُ بَی بن سلول کے حق میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا۔ حضرت عبادہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ یہود میں میرے بہت کثیر التعداد دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں، اب میں ان کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللّٰہ و رسول کے سوا میرے دل میں اور کسی کی مَحبت کی گنجائش نہیں، اس پر عبداللّٰہ بن اُ بَی نے کہا کہ میں تو یہود کی دوستی سے بیزاری نہیں کر سکتا، مجھے پیش آنے والے حوادث کا اندیشہ ہے اور مجھے ان کے ساتھ رسم و راہ رکھنی ضرور ہے، حضور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ یہ یہود کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے، عبادہ کا یہ کام نہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن)۔

۱ٍ۳ٍ۳۔            اس سے معلوم ہوا کہ کافِر کوئی بھی ہوں ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں  اَلْکُفْرُ مِلَّۃ وَّاحِدَۃ۔ (مدارک)۔

۱ٍ۳۴۔            اس میں بہت شدّت و تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ اور ہر مخالفِ دینِ اسلام سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (مدارک و خازن)۔

۱ٍ۳۵۔            جو کافِروں سے دوستی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ کا کاتب نصرانی تھا، حضرت امیر المؤمنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ نصرانی سے کیا واسطہ ؟ تم نے یہ آیت نہیں سنی  یٰآَ یّھُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ، الایۃ  انہوں نے عرض کیا اس کا دین اس کے ساتھ مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، امیر المومنین نے فرمایا کہ اللّٰہ نے انہیں ذلیل کیا تم انہیں عزّت نہ دو، اللّٰہ نے انہیں دور کیا تم انہیں قریب نہ کرو حضرت ابو موسیٰ نے عرض کیا کہ بغیر اس کے حکومتِ بصرہ کا کام چلانا دشوار ہے یعنی اس ضرورت سے مجبوری اس کو رکھا ہے کہ اس قابلیّت کا دوسرا آدمی مسلمانوں میں نہیں ملتا، اس پر حضرت امیر المومنین نے فرمایا نصرانی مر گیا والسلام یعنی فرض کرو کہ وہ مر گیا اس وقت جو انتظام کرو گے وہی اب کرو اور اس سے ہرگز کام نہ لو یہ آخری بات ہے۔ (خازن)۔

(۵۲) اب تم انہیں دیکھو گے  جن کے  دلوں میں آزار ہے  (ف ۱۳۶) کہ  یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے  ہیں کہتے  ہیں ہم  ڈرتے  ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آ جائے  (ف ۱۳۷) تو نزدیک ہے  کہ اللہ فتح  لائے  (ف ۱۳۸) یا اپنی طرف سے  کوئی حکم (ف ۱۳۹) پھر اس پر جو اپنے  دلوں میں چھپایا تھا (ف ۱۴۰) پچھتائے  رہ  جائیں

۱ٍ۳۶۔            یعنی نفاق۔

۱ٍ۳۷۔            جیسا کہ عبداللّٰہ بن اُ بَی منافق نے کہا۔

۱ٍ۳۸۔            اور اپنے رسول محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو مظفّر و منصور کرے اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے اور مسلمانوں کو ان کے دشمن یہود و نصاریٰ وغیرہ کُفّار پر غلبہ دے چنانچہ یہ خبر صادق ہوئی اور بکرمہٖ تعالیٰ مکّہ مکرّمہ اور یہود کے بِلاد فتح ہوئے۔ (خازن وغیرہ)۔

۱ٍ۳۹۔            جیسے کہ سرزمینِ حجِاز کو یہود سے پاک کرنا اور وہاں ان کا نام و نشان باقی نہ رکھنا یا منافقین کے راز افشاء کر کے انہیں رسوا کرنا۔ (خازن و جلالین)۔

۱۴۰۔            یعنی نفاق یا منافقین کا یہ خیال کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کُفّار کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوں گے۔

(۵۳) اور (ف ۱۴۱) ایمان والے  کہتے  ہیں کیا یہی ہیں جنہوں نے  اللہ کی قسم کھائی تھی اپنے  حلف میں پوری کوشش سے  کہ وہ تمہارے  ساتھ ہیں ان کا کیا دھرا سب اکارت گیا تو رہ گئے  نقصان میں (ف ۱۴۲)

۱۴۱۔            منافقین کا پردہ کھُلنے پر۔

۱۴۲۔            کہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوئے اور آخرت میں عذابِ دائمی کے سزاوار۔

(۵۴) اے  ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے  دین سے  پھرے  گا (ف ۱۴۳) تو عنقریب اللہ ایسے  لوگ لائے  گا کہ وہ اللہ کے  پیارے  اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت  اللہ کی راہ میں لڑیں گے  اور کسی ملامت کرنے  والے  کی ملامت کا  اندیشہ نہ کریں گے  (ف ۱۴۴) یہ اللہ کا فضل ہے  جسے   چاہے   دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،

۱۴۳۔            کُفّار کے ساتھ دوستی و موالات بے دینی و اِرتداد کی مستدعی ہے، اس کی ممانعت کے بعد مرتدین کا ذکر فرمایا اور مرتد ہونے سے قبل لوگوں کے مرتد ہونے کی خبر دی چنانچہ یہ خبر صادق ہوئی اور بہت لوگ مرتد ہوئے۔

۱۴۴۔            یہ صفت جن کی ہے وہ کون ہیں اس میں کئی قول ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ و حسن و قتادہ نے کہا کہ یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے اصحاب ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے بعد مرتد ہونے اور زکوٰۃ سے منکِر ہونے والوں پر جہاد کیا۔ عیاض بن غنم اشعری سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی نسبت فرمایا کہ یہ ان کی قوم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ اہلِ یمن ہیں جن کی تعریف بخاری و مسلم کی حدیثوں میں آئی ہے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ لوگ انصار ہیں جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت کی اور ان اقوال میں کچھ منافات نہیں کیونکہ ان سب حضرات کا ان صفات کے ساتھ متصف ہونا صحیح ہے۔

(۵۵) تمہارے  دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان  والے  (ف ۱۴۵) کہ نماز قائم کرتے  ہیں اور زکوٰۃ دیتے  ہیں اور اللہ کے  حضور جھکے  ہوئے  ہیں (ف ۱۴۶)

۱۴۵۔            جن کے ساتھ موالات حرام ہے ان کا ذکر فرمانے کے بعد ان کا بیان فرمایا جن کے ساتھ موالات واجب ہے۔ شانِ نُزول : حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللّٰہ بن سلام کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسولَ اللّٰہ ہماری قوم قُرَیظہ اور نُضَیر نے ہمیں چھوڑ دیا اور قَسمیں کھا لیں کہ وہ ہمارے ساتھ مجالست (ہم نشینی) نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو عبداللّٰہ بن سلام نے کہا ہم راضی ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے ربّ ہونے پر، اس کے رسول کے نبی ہونے پر، مؤمنین کے دوست ہونے پر اور حکم آیت کا تمام مؤمنین کے لئے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور مُحِب ہیں۔

۱۴۶۔            جملہ  وَھُمْ رٰکِعُوْنَ دو وجہ رکھتا ہے ایک یہ کہ پہلے جملوں پر معطوف ہو دوسری یہ کہ حال واقع ہو، پہلی وجہ اظہر و اقویٰ ہے اور حضرت مُتَرجِم قُدّس سِرّہٗ کا ترجمہ بھی اسی کے مساعد ہے۔ (جمل عن السمین) دوسری وجہ پر دو احتمال ہیں ایک یہ کہ  یُقِیْمُوْنَ وَیُؤْ تُوْنَ دونوں فعلوں کے فاعل سے حال واقع ہو اس صورت میں معنیٰ یہ ہوں گے کہ وہ بخشوع و تواضُع نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ (تفسیر ابوالسعود) دوسرا احتمال یہ ہے کہ صرف یُؤْتُوْنَ کے فاعل سے حال واقع ہو، اس صورت میں معنیٰ یہ ہوں گے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور متواضع ہو کر زکوٰۃ دیتے ہیں۔ (جمل) بعض کا قول ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی شان میں ہے کہ آپ نے نماز میں سائل کو انگُشتری صدقہ دی تھی وہ انگُشتری انگُشتِ مبارک میں ڈھیلی تھی بے عملِ کثیر کے نکل گئی لیکن امام فخر الدین رازی نے تفسیرِ کبیر میں اس کا بہت شدّ و مد سے ردّ کیا ہے اور اس کے بُطلان پر بہت وجوہ قائم کئے ہیں۔

(۵۶) اور جو اللہ اور اس کے   رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے  تو بیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے،

(۵۷) اے  ایمان والو! جنہوں نے  تمہارے  دین کو ہنسی  کھیل بنا لیا ہے  (ف ۱۴۷) وہ  جو تم سے  پہلے  کتاب  دیے  گئے  اور کافر (ف ۱۴۸) ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اگر ایمان رکھتے  ہو(ف ۱۴۹)

۱۴۷۔            شانِ نُزول : رفاعہ بن زید اور سوید بن حار ث دونوں اظہارِ اسلام کے بعد منافق ہو گئے۔ بعض مسلمان ان سے مَحبت رکھتے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ زبان سے اسلام کا اظہار کرنا اور دل میں کُفر چھُپائے رکھنا دین کو ہنسی اور کھیل بنانا ہے۔

۱۴۸۔            یعنی بُت پرست مشرک جو اہلِ کتاب سے بھی بدتر ہیں۔ (خازن)۔

۱۴۹۔            کیونکہ خدا کے دشمنوں سے دوستی کرنا ایمان دار کا کام نہیں۔

(۵۸) اور جب تم نماز کے  لئے  اذان دو تو اسے  ہنسی کھیل بناتے  ہیں (ف ۱۵۰) یہ اس لئے  کہ وہ نرے  بے  عقل لوگ ہیں (ف ۱۵۱)

۱۵۰۔            شانِ نُزول : کلبی کا قول ہے کہ جب رسول اللہ، صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا مؤذِّن نماز کے لئے اذان کہتا اور مسلمان اٹھتے تو یہود ہنستے اور تمسخُر کرتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ سدی کا قول ہے کہ مدینہ طیّبہ میں جب مؤذِّن اذان میں اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  اور  اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ  کہتا تو ایک نصرانی یہ کہا کرتا کہ جل جائے جھوٹا، ایک شب اس کا خادم آگ لایا وہ اور اس کے گھر کے لوگ سو رہے تھے آگ سے ایک شرارہ اُڑا اور وہ نصرانی اور اس کے گھر کے لوگ اور تمام گھر جل گیا۔

۱۵۱۔            جو ایسے سفیہانہ اور جاہلانہ حرکات کرتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اذان نصِ قرآنی سے بھی ثابت ہے۔

(۵۹) تم فرماؤ اے  کتابیوں تمہیں ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم ایمان لائے  اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اترا  اور اس پر جو پہلے  اترا (ف ۱۵۲) اور یہ کہ تم میں اکثر بے  حکم ہیں،

۱۵۲۔            شانِ نُزول : یہود کی ایک جماعت نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا کہ آپ انبیاء میں سے کس کس کو مانتے ہیں، اس سوال سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ مانیں تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں لیکن حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اللّٰہ پر ایمان رکھتا ہوں اور جو اس نے ہم پر نازل فرمایا اور جو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب و اسباط پر نازل فرمایا اور جو حضرت عیسیٰ و موسیٰ کو دیا گیا یعنی توریت و انجیل اور جو اور نبیوں کو ان کے ربّ کی طرف سے دیا گیا سب کو مانتا ہوں، ہم انبیاء میں فرق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت کو بھی مانتے ہیں تو وہ آپ کی نبوّت کے منکِر ہو گئے اور کہنے لگے جو عیسیٰ کو مانے ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(۶۰) تم فرماؤ  کیا میں بتا دوں جو  اللہ کے  یہاں اس سے  بدتر  درجہ میں ہیں  (ف ۱۵۳) وہ جن پر اللہ نے  لعنت کی اور ان پر  غضب فرمایا اور ان میں سے  کر دیے  بندر اور سور (ف ۱۵۴) اور شیطان کے   پجاری ان کا ٹھکانا زیادہ  برا ہے  (ف ۱۵۵) اور یہ سیدھی راہ سے  زیادہ  بہکے،

۱۵۳۔            کہ اس برحق دین والوں کو تو تم مَحض اپنے عناد و عداوت ہی سے بُرا کہتے ہو اور تم پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت کی اور غضب فرمایا اور آیت میں جو مذکور ہے وہ تمہارا حال ہوا تو بدتر درجہ میں تو تم خود ہو، کچھ دل میں سوچو۔

۱۵۴۔            صورتیں مسخ کر کے۔

۱۵۵۔            اور وہ جہنّم ہے۔

(۶۱) اور جب تمہارے  پاس آئیں (ف ۱۵۶) ہم مسلمان ہیں اور وہ آتے  وقت بھی کافر تھے  اور جاتے  وقت بھی کافر، اور اللہ خوب جانتا ہے  جو چھپا  رہے  ہیں

۱۵۶۔            شانِ نُزول : یہ آیت یہود کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ایمان و اخلاص کا اظہار کیا اور کُفر و ضلال چھُپائے رکھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو ان کے حال کی خبر دی۔

(۶۲) اور ان (ف ۱۵۷) میں تم بہتوں کو دیکھو گے  کہ گناہ  اور  زیادتی اور حرام خوری پر  دوڑتے  ہیں (ف ۱۵۸) بیشک بہت ہی برے  کام کرتے  ہیں،

۱۵۷۔            یعنی یہود۔

۱۵۸۔            گناہ ہر معصیت و نافرمانی کو شامل ہے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ گناہ سے توریت کے مضامین کو چھُپانا اور اس میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے جو محاسن و اوصاف ہیں ان کا مخفی رکھنا اور عُدوان یعنی زیادتی سے توریت کے اندر اپنی طرف سے کچھ بڑھا دینا اور حرام خوری سے رشوتیں وغیرہ مراد ہیں۔(خازن)۔

(۶۳) انہیں کیوں نہیں منع کرتے  ان کے  پادری  اور درویش گناہ کی بات کہنے  اور حرام کھانے  سے،  بیشک بہت ہی برے  کام کر رہے  ہیں (ف ۱۵۹)

۱۵۹۔            کہ لوگوں کو گناہوں اور بُرے کاموں سے نہیں روکتے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ عُلَماء پر نصیحت اور بدی سے روکنا واجب ہے اور جو شخص بُری بات سے منع کرنے کو ترک کرے اور نہی منکَر سے باز رہے وہ بمنزلہ مرتکب گناہ کے ہے۔

(۶۴) اور یہودی بولے  اللہ کا ہاتھ بندھا  ہوا ہے  (ف ۱۶۰)  ان کے  ہاتھ باندھے  جائیں (ف ۱۶۱) اور ان پر اس کہنے  سے  لعنت ہے  بلکہ اس کے  ہاتھ کشادہ  ہیں (ف ۱۶۲) عطا فرماتا ہے  جیسے  چاہے  (ف ۱۶۳) اور اے  محبوب! یہ (ف ۱۶۴) جو تمہاری طرف تمہارے  رب کے  پاس سے  اترا اس سے  ان میں بہتوں کو شرارت  اور کفر میں ترقی ہو گی (ف ۱۶۵) اور ان میں ہم نے  قیامت تک آپس میں دشمنی اور بیر ڈال دیا (ف ۱۶۶) جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے  ہیں اللہ اسے  بجھا  دیتا ہے  (ف ۱۶۷) اور زمین میں فساد کے  لیے  دوڑتے  پھرتے  ہیں، اور اللہ فسادیوں کو نہیں چاہتا،

۱۶۰۔            یعنی معاذ اللّٰہ وہ بخیل ہے۔ شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہود بہت خوش حال اور نہایت دولت مند تھے جب انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تکذیب و مخالفت کی تو ان کی روزی کم ہو گئی، اس وقت فخاص یہودی نے کہا کہ اللّٰہ کا ہاتھ بندھا ہے یعنی معاذ اللّٰہ وہ رزق دینے اور خرچ کرنے میں بُخل کرتا ہے، اس کے اس قول پر کسی یہودی نے منع نہ کیا بلکہ راضی رہے اسی لئے یہ سب کا مقولہ قرار دیا گیا اور یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی۔

۱۶۱۔            تنگی اور داد و دہش سے۔ اس ارشاد کا یہ اثر ہوا کہ یہود دنیا میں سب سے زیادہ بخیل ہو گئے یا یہ معنیٰ ہیں کہ ان کے ہاتھ جہنّم میں باندھے جائیں اور اس طرح انہیں آتشِ دوزخ میں ڈالا جائے، ان کی اس بے ہودہ گوئی اور گستاخی کی سزا میں۔

۱۶۲۔            وہ جوّاد کریم ہے۔

۱۶۳۔            اپنی حکمت کے موافق اس میں کسی کو مجالِ اعتراض نہیں۔

۱۶۴۔            قرآن شریف۔

۱۶۵۔            یعنی جتنا قرآنِ پاک اُترتا جائے گا اتنا حسد و عناد بڑھتا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ کُفر و سرکشی میں بڑھتے رہیں گے۔

۱۶۶۔            وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے اور ان کے دل کبھی نہ ملیں گے۔

۱۶۷۔            اور ان کی مدد نہیں فرماتا وہ ذلیل ہوتے ہیں۔

(۶۵) اور اگر کتاب والے  ایمان لاتے  اور پرہیز گاری کرتے  تو ضرور ہم ان کے  گناہ اتار دیتے  اور ضرور انہیں چین کے  باغوں میں لے  جاتے 

(۶۶) اور اگر وہ قائم رکھتے  توریت اور انجیل (ف ۱۶۸) اور جو کچھ ان کی طرف ان کے  رب کی طرف سے  اترا  (ف ۱۶۹) تو انہیں رزق ملتا  اوپر سے  اور ان کے  پاؤں کے  نیچے  سے  (ف ۱۷۰)  ان میں کوئی گروہ اگر اعتدال پر ہے  (ف ۱۷۱) اور ان میں اکثر بہت ہی برے  کام کر رہے  ہیں (ف ۱۷۲)

۱۶۸۔            اس طرح کہ سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لاتے اور آپ کا اِتّباع کرتے کہ توریت و انجیل میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔

۱۶۹۔            یعنی تمام کتابیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں سب میں سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا ذکر اور آپ پر ایمان لانے کا حکم ہے۔

۱۷۰۔            یعنی رزق کی کثرت ہوتی اور ہر طرف سے پہنچتا۔ فائدہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کی پابندی اور اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے رزق میں وُسعت ہوتی ہے۔

۱۷۱۔            حد سے تجاوز نہیں کرتا۔ یہ یہودیوں میں سے وہ لوگ ہیں جو سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لائے۔

۱۷۲۔            جو کُفر پر جمے ہوئے ہیں۔

(۶۷) اے  رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے  رب کی طرف سے  (ف ۱۷۳) اور ایسا نہ ہو تو تم نے  اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے  گا لوگوں سے  (ف ۱۷۴) بیشک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،

۱۷۳۔            اور کچھ اندیشہ نہ کرو۔

۱۷۴۔            یعنی کُفّار سے جو آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سفروں میں شب کو حضور اقدس سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا پہرہ دیا جاتا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی پہرہ ہٹا دیا گیا اور حضور نے پہرہ داروں سے فرمایا کہ تم لوگ چلے جاؤ، اللّٰہ تعالیٰ نے میری حفاظت فرمائی۔

(۶۸) تم فرما دو، اے  کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو (ف ۱۷۵) جب تک  نہ  قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے  رب کے  پاس سے  اترا (ف ۱۷۶) اور بیشک اے  محبوب! وہ جو تمہاری طرف تمہارے  رب کے  پاس سے  اترا  اس میں بہتوں کو شرارت اور کفر کی  اور ترقی ہو گی (ف ۱۷۷) تو تم کافروں کا کچھ غم نہ کھاؤ،

۱۷۵۔            کسی دین و ملّت میں نہیں۔

۱۷۶۔            یعنی قرآنِ پاک ان تمام کتابوں میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نعت و صفت اور آ پ پر ایمان لانے کا حکم ہے جب تک حضور پر ایمان نہ لائیں توریت و انجیل کی اقامت کا دعویٰ صحیح نہیں ہو سکتا۔

۱۷۷۔            کیونکہ جتنا قرآنِ پاک نازل ہوتا جائے گا یہ مکابرہ و عناد سے اس کے انکار میں اور شدّت کرتے جائیں گے۔

(۶۹) بیشک وہ جو اپنے  آپ کو مسلمان کہتے  ہیں (ف ۱۷۸) اور اسی طرح یہودی اور ستارہ پرت اور نصرانی ان میں جو کوئی سچے  دل سے  اللہ اور قیامت پر ایمان لائے  اور اچھے  کام کرے  تو ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے  اور نہ کچھ غم،

۱۷۸۔            اور دل میں ایمان نہیں رکھتے منافق ہیں۔

(۷۰) بیشک ہم نے  بنی اسرائیل سے  عہد لیا  (ف ۱۷۹) اور  ان کی طرف رسول بھیجے، جب کبھی ان کے  پاس کوئی رسول وہ بات لے  کر آیا جو ان کے  نفس کی خواہش نہ تھی (ف ۱۸۰) ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو شہید کرتے  ہیں (ف ۱۸۱)

۱۷۹۔            توریت میں کہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اور حکمِ الٰہی کے مطابق عمل کریں۔

۱۸۰۔            اور انہوں نے انبیاء علیہم السلام کے احکام کو اپنی خواہشوں کے خلاف پایا تو ان میں سے۔

(۷۱) اور اس گمان میں ہیں کہ کوئی سزا نہ ہو گی (ف ۱۸۲) تو اندھے  اور بہرے  ہو گئے  (ف ۱۸۳) پھر اللہ نے  ان کی توبہ قبول کی(۱۸۴) پھر ان میں بہتیرے   اندھے  اور بہرے  ہو گئے  اور اللہ ان کے  کام دیکھ رہا ہے،

۱۸۱۔            انبیاء علیہم السلام کی تکذیب میں تو یہود و نصاریٰ سب شریک ہیں مگر قتل کرنا یہ خاص یہود کا کام ہے، انہوں نے بہت سے انبیاء کو شہید کیا جن میں سے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام بھی ہیں۔

۱۸۲۔            اور ایسے شدید جُرموں پر بھی عذاب نہ کیا جائے گا۔

۱۸۳۔            حق کے دیکھنے اور سننے سے یہ ان کے غایتِ جہل اور نہایتِ کُفر اور قبولِ حق سے بدرجہ غایت اعراض کرنے کا بیان ہے۔

۱۸۴۔            جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد توبہ کی اس کے بعد دوبارہ۔

(۷۲) بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے  ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے  (ف ۱۸۵) اور مسیح نے  تو یہ کہا تھا، اے  بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب (ف ۱۸۶) اور تمہارا رب، بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے  تو اللہ نے  اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے  اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں،

۱۸۵۔            نصاریٰ کے بہت فرقے ہیں، ان میں سے یعقوبیہ اور ملکانیہ کا یہ قول تھا وہ کہتے تھے کہ مریم نے اِلٰہ جنا اور یہ بھی کہتے تھے کہ اِلٰہ نے ذاتِ عیسیٰ میں حُلول کیا اور وہ ان کے ساتھ مُتحِّد ہو گیا تو عیسیٰ اِلٰہ ہو گئے  تَعَالیٰ اللّٰہُ عَنْ ذٰالِکَ عُلُوًّ ا کَبِیْرًا (خازن)۔

۱۸۶۔            اور میں اس کا بندہ ہوں اِلٰہ نہیں۔

(۷۳) بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے  ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے  (ف ۱۸۷) اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا  (ف ۱۸۸) اور اگر اپنی بات سے  باز نہ آئے  (ف ۱۸۹) تو  جو ان میں کافر مریں گے  ان کو ضرور  دردناک عذاب پہنچے  گا۔

۱۸۷۔            یہ قول نصاریٰ کے فرقہ مرقوسیہ و نسطوریہ کا ہے۔ اکثر مفسِّرین کا قول ہے کہ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللّٰہ اور مریم اور عیسیٰ تینوں اِلٰہ ہیں اور اِلٰہ ہونا ان سب میں مشترک ہے۔ متکلِّمین فرماتے ہیں کہ نصاریٰ کہتے ہیں کہ باپ، بیٹا، روح القدس یہ تینوں ایک اِلٰہ ہیں۔

۱۸۸۔            نہ اس کا کوئی ثانی نہ ثالث، وہ وحدانیت کے ساتھ موصوف ہے، اس کا کوئی شریک نہیں باپ، بیٹے، بیوی سب سے پاک۔

۱۸۹۔            اور تثلیث کے معتقِد رہے توحید اختیار نہ کی۔

(۷۴) تو کیوں نہیں رجوع کرتے  اللہ کی طرف اور اس سے  بخشش مانگتے، اور اللہ بخشنے  والا مہربان،

(۷۵) مسیح بن مریم نہیں مگر ایک رسول (ف ۱۹۰) اس سے  پہلے  بہت رسول ہو گزرے  (ف ۱۹۱) اور اس کی ماں صدیقہ ہے  (ف ۱۹۲) دونوں کھانا کھاتے  تھے  (ف ۱۹۳) دیکھو تو ہم کیسی صاف نشانیاں ان کے  لئے  بیان کرتے  ہیں پھر دیکھو وہ کیسے  اوندھے  جاتے  ہیں،

۱۹۰۔            ان کو اِلٰہ ماننا غلط باطل اور کُفر ہے۔

۱۹۱۔            وہ بھی معجزات رکھتے تھے یہ معجزات ان کے صدقِ نبوّت کی دلیل تھے، اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام بھی رسول ہیں، ان کے معجزات بھی دلیلِ نبوّت ہیں، انہیں رسول ہی ماننا چاہئے جیسے اور انبیاء علیہم السلام کو معجزات کی بنا پر خدا نہیں مانتے ان کو بھی خدا نہ مانو۔

۱۹۲۔            جو اپنے ربّ کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہیں۔

۱۹۳۔            اس میں نصاریٰ کا رد ہے کہ اِلٰہ غذا کا محتاج نہیں ہو سکتا تو جو غذا کھائے، جسم رکھے، اس جسم میں تحلیل واقع ہو، غذا اس کا بدل بنے، وہ کیسے اِلٰہ ہو سکتا ہے۔

(۷۶) تم فرماؤ کیا اللہ کے  سوا ایسے  کو پوجتے  ہو جو تمہارے  نقصان کا مالک نہ  نفع کا (ف ۱۹۴) اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے،

۱۹۴۔            یہ اِبطالِ شرک کی ایک اور دلیل ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اِلٰہ (مستحقِ عبادت) وہی ہو سکتا ہے جو نفع و ضرر وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو، جو ایسا نہ ہو وہ اِلٰہ مستحقِ عبادت نہیں ہو سکتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نفع و ضرر کے بالذات مالک نہ تھے، اللّٰہ تعالیٰ کے مالک کرنے سے مالک ہوئے تو ان کی نسبت اُلُوہیت کا اعتقاد باطل ہے۔ (تفسیر ابوالسعود)۔

(۷۷) تم فرماؤ اے  کتاب والو! اپنے  دین میں ناحق زیادتی نہ کرو (ف ۱۹۵) اور ایسے  لوگوں کی خواہش پر نہ چلو (ف ۱۹۶) جو پہلے  گمراہ ہو چکے  اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے  بہک گئے 

۱۹۵۔            یہود کی زیادتی تو یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت ہی نہیں مانتے اور نصاریٰ کی زیادتی یہ کہ انہیں معبود ٹھہراتے ہیں۔

۱۹۶۔            یعنی اپنے بد دین باپ دادا وغیرہ کی۔

(۷۸) لعنت کیے  گئے  وہ جنہوں نے  کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر (ف ۱۹۷)یہ بدلہ (ف ۱۹۸) ان کی نافرمانی اور سرکشی کا،

۱۹۷۔            باشندگانِ اِیلہ نے جب حد سے تجاوز کیا اور سنیچر کے روز شکار ترک کرنے کا جو حکم تھا اس کی مخالفت کی تو حضرت داؤد علیہ السلام نے ان پر لعنت کی اور ان کے حق میں بددعا فرمائی تو وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیئے گئے اور اصحابِ مائدہ نے جب نازل شدہ خوان کی نعمتیں کھانے کے بعد کُفر کیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے حق میں بددعا کی تو وہ خنزیر اور بندر ہو گئے اور ان کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ (جمل وغیرہ) بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ یہود اپنے آباء پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ اس آیت میں انہیں بتایا گیا کہ ان انبیاء علیہم السلام نے ان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نے ان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نے سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی جلوہ افروزی کی بشارت دی اور حضور پر ایمان نہ لانے اور کُفر کرنے والوں پر لعنت کی۔

۱۹۸۔            لعنت۔

(۷۹) جو بری بات کرتے   آپس میں ایک دوسرے  کو نہ روکتے  ضرور بہت ہی برے  کام کرتے  تھے (ف ۱۹۹)

۱۹۹۔            مسئلہ : آیت سے ثابت ہوا کہ نہی منکَر یعنی بُرائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور بدی کو منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے عُلَماء نے اوّل تو انہیں منع کیا جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ عُلَماء بھی ان سے مل گئے اور کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے، ان کے اس عِصیَان و تَعَدّی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت داؤد و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبان سے ان پر لعنت اُتاری۔

(۸۰) ان میں تم بہت کو دیکھو گے  کہ کافروں سے  دوستی کرتے  ہیں، کیا ہی بری چیز اپنے  لیے  خود آگے  بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے  (ف ۲۰۰)

۲۰۰۔            مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کُفّار سے دوستی و موالات حرام اور اللّٰہ تعالیٰ کے غضب کا سبب ہے۔

(۸۱) اور اگر وہ ایمان لاتے   (ف ۲۰۱) اللہ اور ان نبی پر اور اس پر جو ان کی طرف اترا تو کافروں سے  دوستی نہ کرتے  (ف ۲۰۲) مگر ان میں تو بہتیرے   فاسق ہیں،

۲۰۱۔            صدق و اخلاص کے ساتھ بغیر نفاق کے۔

۲۰۲۔            اس سے ثابت ہوا کہ مشرکین کے ساتھ دوستی اور موالات علامتِ نفاق ہے۔

(۸۲) ضرور تم مسلمانوں کا سب سے  بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے  اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے  زیادہ  قریب ان کو پاؤ گے  جو کہتے  تھے  ہم نصاریٰ ہیں (ف ۲۰۳) یہ اس لئے  کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے  -(ف ۲۰۴)

۲۰۳۔            اس آیت میں ان کی مدح ہے جو زمانۂ اقدس تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر رہے اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی بعثت معلوم ہونے پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لے آئے۔ شانِ نُزول : ابتدائے اسلام میں جب کُفّارِ قریش نے مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیں تو اصحابِ کرام میں سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حضور کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، ان مہاجرین کے اسماء یہ (۱) حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ طاہرہ (۲) حضرت رقیہ بنتِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم اور (۳) حضرت زبیر (۴) حضرت عبداللّٰہ بن مسعود (۵) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (۶) حضرت ابوحذیفہ اور ان کی زوجہ (۷) حضرت سہلہ بنتِ سہیل اور (۸) حضرت مصعب بن عمیر (۹) حضرت ابو سلم ہ اور ان کی بی بی(۱۰) حضرت اُمِّ سلمہ بنتِ اُمیّہ (۱۱) حضرت عثما ن بن مظعون (۱۲) حضرت عامر بن ربیعہ اور ان کی بی بی (۱۳) حضرت لیلیٰ بنتِ ابی خثیمہ (۱۴) حضرت حاطب بن عمرو (۱۵) حضرت سہیل بن بیضاء رضی اللّٰہ عنہم یہ حضرات نبوّت کے پانچویں سال ماہِ رجب میں بحری سفر کر کے حبشہ پہنچے، اس ہجرت کو ہجرتِ اُولیٰ کہتے ہیں، ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب گئے پھر اور مسلمان روانہ ہوتے رہے یہاں تک کہ بچّوں اور عورتوں کے علاوہ مہاجرین کی تعداد بیاسی مَردوں تک پہنچ گئی، جب قریش کو اس ہجرت کا علم ہوا تو انہوں نے ایک جماعت تحفہ تحائف لے کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیجی، ان لوگوں نے دربارِ شاہی میں باریابی حاصل کر کے بادشاہ سے کہا کہ ہمارے مُلک میں ایک شخص نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو نادان بنا ڈالا ہے ان کی جماعت جو آپ کے مُلک میں آئی ہے وہ یہاں فساد انگیزی کرے گی اور آپ کی رعایا کو باغی بنائے گی، ہم آپ کو خبر دینے کے لئے آئے ہیں اور ہماری قوم درخواست کرتی ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کیجئے، نجاشی بادشاہ نے کہا ہم ان لوگوں سے گفتگو کر لیں، یہ کہہ کر مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے حق میں کیا اعتقاد رکھتے ہو ؟ حضرت جعفر بن ابی طالب نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللّٰہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃُ اللّٰہ و روحُ اللّٰہ ہیں اور حضرت مریم کنواری پاک ہیں، یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اُّٹھا کر کہا خدا کی قَسم تمہارے آقا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام میں اتنا بھی نہیں بڑھایا جتنی یہ لکڑی یعنی حضور کا ارشادِ کلام عیسیٰ علیہ السلام کے بالکل مطابق ہے۔ یہ دیکھ کر مشرکینِ مکّہ کے چہرے اُتر گئے پھر نجاشی نے قرآن شریف سننے کی خواہش کی، حضرت جعفر نے سورۂ مریم تلاوت کی اس وقت دربار میں نصرانی عالِم اور درویش موجود تھے قرآنِ کریم سُن کر بے اختیار رونے لگے اور نجاشی نے مسلمانوں سے کہا تمہارے لئے میری قلمرو میں کوئی خطرہ نہیں۔ مشرکینِ مکّہ ناکام پھرے اور مسلمان نجاشی کے پاس بہت عزّت و آسائش کے ساتھ رہے اور فضلِ الٰہی سے نجاشی کو دولتِ ایمان کا شرف حاصل ہوا۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۰۴۔            مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ علم اور ترکِ تکبُّر بہت کام آنے والی چیزیں ہیں اور اُن کی بدولت ہدایت نصیب ہوتی ہے۔

(۸۳) اور جب سنتے  ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا  (ف ۲۰۵) تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے  ابل رہی ہیں (ف ۲۰۶) اس لیے  کہ وہ حق کو پہچان گئے ، کہتے  ہیں اے  رب ہمارے ! ہم ایمان لائے  (ف ۲۰۷) تو ہمیں حق کے  گواہوں میں لکھ لے  (ف ۲۰۸)

۲۰۵۔            یعنی قرآن شریف۔

۲۰۶۔            یہ ان کی رقّتِ قلب کا بیان ہے کہ قرآنِ کریم کے دل میں اثر کرنے والے مضامین سن کر رو پڑتے ہیں چنانچہ نجاشی بادشاہ کی درخواست پر حضرت جعفر نے اس کے دربار میں سورۂ مریم اور سورۂ طٰہٰ کی آیات پڑھ کر سنائیں تو نجاشی بادشاہ اور اس کے درباری جن میں اس کی قوم کے عُلَماء موجود تھے سب زار و قطار رونے لگے، اسی طرح نجاشی کی قوم کے ستّر آدمی جو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے حضور سے سورۂ یٰسٓۤ سُن کر بہت روئے۔

۲۰۷۔            سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر اور ہم نے ان کے برحق ہونے کی شہادت دی۔

۲۰۸۔            اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی اُمّت میں داخل کر جو روزِ قیامت تمام اُمّتوں کے گواہ ہوں گے۔ (یہ انہیں انجیل سے معلوم ہو چکا تھا)۔

(۸۴) اور ہمیں کیا ہوا کہ ہم ایمان نہ لائیں اللہ پر اور اس حق پر کہ ہمارے  پاس آیا اور ہم طمع کرتے  ہیں کہ ہمیں ہمارا  رب نیک لوگوں کے  ساتھ  داخل کرے (ف ۲۰۹)

۲۰۹۔            جب حبشہ کا وفد اسلام سے مشرف ہو کر واپس ہوا تو یہود نے انہیں اس پر ملامت کی، اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ جب حق واضح ہو گیا تو ہم کیوں ایمان نہ لاتے یعنی ایسی حالت میں ایمان نہ لانا قابلِ ملامت ہے، نہ کہ ایمان لانا کیونکہ یہ سبب ہے فلاحِ دارَین کا۔

(۸۵) تو اللہ نے  ان کے   اس کہنے  کے  بدلے  انہیں باغ  دیے  جن کے  نیچے  نہریں رواں  ہمیشہ ان میں رہیں  گے، یہ بدلہ ہے  نیکوں کا (ف  ۲۱۰)

۲۱۰۔            جو صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں اور حق کا اقرار کریں۔

(۸۶) اور وہ جنہوں کفر کیا  اور ہماری آیتیں جھٹلائیں  وہ ہیں دوزخ والے

 (۸۷) اے  ایمان والو! (ف ۲۱۱) حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے  تمہارے  لیے  حلال کیں (ف ۲۱۲) اور حد سے  نہ بڑھو، بیشک حد سے  بڑھنے  والے   اللہ کو ناپسند ہیں۔

۲۱۱۔            شانِ نُزول : صحابہ کرام کی ایک جماعت رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون کے یہاں جمع ہوئی اور انہوں نے باہم ترکِ دنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گے، ہمیشہ دن میں روزے رکھیں گے، شب عبادتِ الٰہی میں بیدار رہ کر گزارا کریں گے، بستر پر نہ لیٹیں گے،گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے، عورتوں سے جُدا رہیں گے، خوشبو نہ لگائیں گے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔

۲۱۲۔            یعنی جس طرح حرام کو ترک کیا جاتا ہے اس طرح حلال چیزوں کو ترک نہ کرو اور نہ مبالغۃً کسی حلال چیز کو یہ کہو کہ ہم نے اس کو اپنے اوپر حرام کر لیا۔

(۸۸) اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے  روزی دی حلال پاکیزہ او ر ڈرو اللہ سے  جس پر تمہیں ایمان ہے۔

(۸۹) اللہ تمہیں نہیں پکڑتا  تمہاری  غلط فہمی کی قسموں پر (ف ۲۱۳) ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتے  ہے  جنہیں تم نے  مضبوط کیا (ف ۲۱۴) تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا  دینا (ف ۲۱۵) اپنے  گھر والوں کو جو کھلاتے  ہو  اس کے  اوسط میں سے  (ف ۲۱۶) یا انہیں کپڑے  دینا (ف ۲۱۷) یا ایک بردہ  آزاد کرنا تو جو ان میں سے  کچھ نہ پائے  تو تین دن کے  روزے  (ف ۲۱۸) یہ بدلہ ہے  تمہاری قسموں کا، جب قسم کھاؤ (ف ۲۱۹) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو (ف ۲۲۰) اسی طرح اللہ تم سے  اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے  کہ کہیں تم احسان مانو۔

۲۱ٍ۳۔            غلط فہمی کی قَسم یعنی یمینِ لَغویہ ہے کہ آدمی کسی واقعہ کو اپنے خیال میں صحیح جان کر قَسم کھا لے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو ایسی قَسم پر کَفّارہ نہیں۔

۲۱۴۔            یعنی یمینِ منعقدہ پر جو کسی آئندہ امر پر قصد کر کے کھائی جائے ایسی قَسم توڑنا گناہ بھی ہے اور اس پر کَفّارہ بھی لازم ہے۔

۲۱۵۔            دونوں وقت کا خواہ انہیں کھِلاوے یا پونے دو سیر گیہوں یا ساڑھے تین سیر جَو صدقۂ فطر کی طرح دے دے۔(۱)

مسئلہ : یہ بھی جائز ہے کہ ایک مسکین کو دس روز دے دے یا کھِلا دیا کرے۔ (۱) اسّی روپے بھر کے سیر کے حساب سے فی مسکین کھانے کا وزن پونے دو سیر چار بھر، یہ اصل وزن ہے مگر احتیاطی حکم یہ ہے کہ اتنے وزن کا جَو جس پیمانے میں سمائے اس پیمانے سے گندم دیا جائے جس کا وزن دو سیر تین چھٹانک اٹھنی بھر ہوتا ہے اور نئے حساب سے دو کلو پینتالیس گرام یہ نصف صاع کا احتیاطی وزن ہے، تفصیل فتاویٰ رضویہ و بہارِ شریعت میں دیکھیں، ۱۲ محمد عبد المبین نعمانی قادری۔

۲۱۶۔            یعنی نہ بہت اعلیٰ درجہ کا نہ بالکل ادنیٰ بلکہ متوسط۔

۲۱۷۔            اوسط درجہ کے جن سے اکثر بدن ڈھک سکے۔ حضرت ابنِ عمر رضی ا للہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک تہبند اور کُرتا یا ایک تہبند اور ایک چادر ہو۔

مسئلہ : کَفّارہ میں ان تینوں باتوں کا اختیار ہے خواہ کھانا دے، خواہ کپڑے، خواہ غلام آزاد کرے ہر ایک سے کَفّارہ ادا ہو جائے گا۔

۲۱۸۔            مسئلہ : روزہ سے کَفّارہ جب ہی ادا ہو سکتا ہے جب کہ کھانا، کپڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو۔

مسئلہ : یہ بھی ضروری ہے کہ یہ روزے متواتر رکھے جائیں۔

۲۱۹۔            اور قَسم کھا کر توڑ دو یعنی اس کو پورا نہ کرو۔

مسئلہ : قسم توڑنے سے پہلے کَفّارہ دینا درست نہیں۔

۲۲۰۔            یعنی انہیں پورا کرو اگر اس میں شرعاً کوئی ہرج نہ ہو اور یہ بھی حفاظت ہے کہ قَسم کھانے کی عادت ترک کی جائے۔

(۹۰) اے  ایمان والو! شراب  اور جوا اور بت اور پانسے  ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے  بچتے  رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔

 (۹۱) شیطان یہی چاہتا ہے  کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے  شراب اور جوئے  میں اور تمہیں اللہ کی یاد  اور نماز سے  روکے  (ف ۲۲۱) تو کیا تم باز آئے،

۲۲۱۔            اس آیت میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خواری اور جوئے بازی کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بُغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان بدیوں میں مبتلا ہو وہ ذکرِ الٰہی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا ہے۔

(۹۲) اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا  اور ہوشیار رہو، پھر اگر تم پھر جاؤ (ف ۲۲۲) تو جان لو کہ ہمارے  رسول کا  ذمہ صرف واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے  (ف ۲۲۳)

۲۲۲۔            اطاعتِ خدا اور رسول سے۔

۲۲ٍ۳۔            یہ وعید و تہدید ہے کہ جب رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے حکمِ الٰہی صاف صاف پہنچا دیا تو ان کا جو فرض تھا ادا ہو چکا اب جو اعراض کرے وہ مستحقِ عذاب ہے۔

(۹۳) جو  ایمان لائے  اور نیک کام کیے   ان پر کچھ گناہ نہیں (ف ۲۲۴) جو کچھ انہوں نے  چکھا جب کہ ڈریں اور ایمان رکھیں اور نیکیاں کریں پھر ڈریں اور ایمان رکھیں پھر ڈریں اور نیک رہیں، اور اللہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے  (ف ۲۲۵)

۲۲۴۔            شانِ نُزول : یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو شراب حرام کئے جانے سے قبل وفات پا چکے تھے۔ حرمتِ شراب کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابۂ کرام کو ان کی فکر ہوئی کہ ان سے اس کا مؤاخذہ ہو گا یا نہ ہو گا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حرمت کا حکم نازل ہونے سے قبل جن نیک ایمانداروں نے کچھ کھایا پیا وہ گنہگار نہیں۔

۲۲۵۔            آیت میں لفظِ  اِتَّقُوْا جس کے معنیٰ ڈرنے اور پرہیز کرنے کے ہیں تین مرتبہ آیا ہے پہلے سے شرک سے ڈرنا اور پرہیز کرنا، دوسرے سے شراب اور جوئے سے بچنا، تیسرے سے تمام محرَّمات سے پرہیز کرنا مراد ہے۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ پہلے سے ترکِ شرک، دوسرے سے ترکِ معاصی و محرَّمات، تیسرے سے ترکِ شبہات مراد ہے۔ بعض کا قول ہے کہ پہلے سے تمام حرام چیزوں سے بچنا اور دوسرے سے اس پر قائم رہنا اور تیسرے سے زمانۂ نُزولِ وحی میں یا اس کے بعد جو چیزیں منع کی جائیں ان کو چھوڑ دینا مراد ہے۔ (مدارک و خازن و جمل وغیرہ)۔

(۹۴) اے  ایمان والوں ضرور اللہ تمہیں آزمائے   گا ایسے  بعض شکار سے  جس تک تمہارا ہاتھ اور نیزے  پہنچیں (ف ۲۲۶) کہ اللہ پہچان کرا دے  ان کی جو اس سے  بن دیکھے  ڈرتے  ہیں، پھر اس کے  بعد جو حد سے  بڑھے  (ف ۲۲۷) اس کے  لئے  دردناک عذاب  ہے،

۲۲۶۔            ہجری جس میں حُدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس سال مسلمان مُحْرِم (احرام پوش) تھے اس حالت میں وہ اس آزمائش میں ڈالے گئے کہ وُحوش و طیور بکثرت آئے اور ان کی سواریوں پر چھا گئے، ہاتھ سے پکڑنا، ہتھیار سے شکار کر لینا بالکل اختیار میں تھا، اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس آزمائش میں وہ بفضلِ الٰہی فرمانبردار ثابت ہوئے اور حکمِ الٰہی کی تعمیل میں ثابت قدم رہے۔ (خازن وغیرہ)۔

۲۲۷۔            اور بعد ابتلاء کے نافرمانی کرے۔

(۹۵) اے  ایمان والو!  شکار نہ مارو  جب تم احرام میں ہو (ف ۲۲۸) اور تم میں جو اسے  قصداً قتل کرے  (ف ۲۲۹) تو اس کا بدلہ یہ ہے  کہ ویسا ہی جانور مویشی سے  دے  (ف ۲۳۰) تم میں کہ دو ثقہ  آدمی  اس کا حکم کریں (ف ۲۳۱) یہ قربانی ہو کہ کعبہ کو پہنچتی (ف ۲۳۲) یا کفار ہ دے   چند مسکینوں کا کھانا (ف ۲۳۳) یا اس کے  برابر روزے  کہ اپنے  کام کا  وبال چکھے  اللہ نے  معاف کیا جو  ہو گزرا (ف ۲۳۴) اور جو اب کرے  گا اس سے  بدلہ لے  گا،  اور اللہ غالب ہے  بدلہ لینے  والا،

۲۲۸۔            مسئلہ : مُحرِم پر شکار یعنی خشکی کے کسی وحشی جانور کو مارنا حرام ہے۔

مسئلہ : جانور کی طرف شکار کرنے کے لئے اشارہ کرنا یا کسی طرح بتانا بھی شکار میں داخل اور ممنوع ہے۔

۲۲۹۔            مسئلہ : حالتِ احرام میں ہر وحشی جانور کا شکار ممنوع ہے خواہ وہ حلال ہو یا نہ ہو۔

مسئلہ : کاٹنے والا کتّا اور کوّا اور بچھو اور چیل اور چوہا اور بھیڑیا اور سانپ ان جانوروں کو احادیث میں فواسق فرمایا گیا اور ان کے قتل کے اجازت دی گئی۔

مسئلہ : مچّھر، پسّو، چیونٹی، مکھی اور حشراتُ الارض اور حملہ آور درندوں کو مارنا معاف ہے۔ (تفسیرِ احمدی وغیرہ)۔

مسئلہ : حالتِ احرام میں جن جانوروں کا مارنا ممنوع ہے وہ ہر حال میں ممنوع ہے عمداً ہو یا خطاءً، عمداً کا حکم تو اس آیت سے معلوم ہوا اور خطاءً کا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ (مدارک)۔

۲ٍ۳۰۔            ویسا ہی جانور دینے سے مراد یہ ہے کہ قیمت میں مارے ہوئے جانور کے برابر ہو حضرت امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہما کا یہی قول ہے اور امام محمّد و شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہما کے نزدیک خلقت و صورت میں مارے ہوئے جانور کی مثل ہونا مراد ہے۔ (مدارک و احمدی)۔

۲ٍ۳۱۔            یعنی قیمت کا اندازہ کریں اور قیمت وہاں کی معتبر ہو گی جہاں شکار مارا گیا ہو یا اس کے قریب کے مقام کی۔

۲ٍ۳۲۔            یعنی کَفّارہ کے جانور کا حرمِ مکّہ شریف کے باہر ذبح کرنا درست نہیں مکّہ مکرّمہ میں ہونا چاہئے اور عین کعبہ میں بھی ذبح جائز نہیں، اسی لئے کعبہ کو پہنچتی فرمایا، کعبہ کے اندر نہ فرمایا اور کَفّارہ کھانے یا روزہ سے ادا کیا جائے تو اس کے لئے مکّہ مکرّمہ میں ہونے کی قید نہیں باہر بھی جائز ہے۔ (تفسیرِ احمدی وغیرہ)۔

۲ٍ۳ٍ۳۔            مسئلہ : یہ بھی جائز ہے کہ شکار کی قیمت کا غلّہ خرید کر مساکین کو اس طرح دے کہ ہر مسکین کو صدقۂ فطر کے برابر پہنچے اور یہ بھی جائز ہے کہ ا س قیمت میں جتنے مسکینوں کے ایسے حصّے ہوتے تھے اتنے روزے رکھے۔

۲ٍ۳۴۔            یعنی اس حکم سے قبل جو شکار مارے۔

(۹۶) حلال ہے  تمہارے  لیے  دریا کا  شکار اور اس کا کھانا  تمہارے  اور مسافروں کے  فائدے  کو اور تم پر حرام ہے  خشکی کا شکار (ف ۲۳۵) جب تک تم احرام میں ہو اور اللہ سے  ڈرو جس کی طرف تمہیں اٹھنا ہے،

۲ٍ۳۵۔            اس آیت میں یہ مسئلہ بیان فرمایا گیا کہ مُحرِم کے لئے دریا کا شکار حلال ہے اور خشکی کا حرام، دریا کا شکار وہ ہے جس کی پیدائش دریا میں ہو اور خشکی کا وہ جس کی پیدائش خشکی میں ہو۔

(۹۷) اللہ نے  ادب  والے  گھر کعبہ کو لوگوں کے  قیام کا باعث کیا (ف ۲۳۶) اور حرمت والے  مہینہ (ف ۲۳۷) اور حرم کی قربانی اور گلے  میں علامت آویزاں جانوروں کو (ف ۲۳۸) یہ اس لیے  کہ تم یقین کرو کہ اللہ جانتا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں اور یہ کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

۲ٍ۳۶۔            کہ وہاں دینی و دنیوی امور کا قیام ہوتا ہے، خائف وہاں پناہ لیتا ہے، ضعیفوں کو وہاں امن ملتی ہے، تاجر وہاں نفع پاتے ہیں، حج و عمرہ کرنے والے وہاں حاضر ہو کر مناسک ادا کرتے ہیں۔

۲ٍ۳۷۔            یعنی ذی الحجّہ کو جس میں حج کیا جاتا ہے۔

۲ٍ۳۸۔            کہ ان میں ثواب زیادہ ہے، ان سب کو تمہارے مصالِح کے قیام کا سبب بنایا۔

(۹۸) جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے  (ف ۲۳۹) اور اللہ بخشنے  والا مہربان۔

۲ٍ۳۹۔            تو حرم و احرام کی حرمت کا لحاظ رکھو۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اپنی صفت شدیدُ العقاب ذکر فرمائی تاکہ خوف و رجا سے تکمیلِ ایمان ہو، اس کے بعد صفتِ غفور و رحیم بیان فرما کر اپنی وسعت و رحمت کا اظہار فرمایا۔

(۹۹) رسول  پر  نہیں مگر حکم پہنچانا (ف ۲۴۰) اور اللہ جانتا ہے  جو تم ظاہر کرتے  اور جو تم چھپاتے  ہو(ف ۲۴۱)

۲۴۰۔            تو جب رسول حکم پہنچا کر فارغ ہو گئے تو تم پر طاعت لازم اور حجّت قائم ہو گئی اور جائے عذر باقی نہ رہی۔

۲۴۱۔            اس کو تمہارے ظاہر و باطن نفاق و اخلاص سب کا علم ہے۔

(۱۰۰) تم فرما دو کہ گندہ اور ستھرا برابر نہیں (ف ۲۴۲) اگرچہ تجھے  گندے  کی کثرت بھائے، تو  اللہ سے  ڈرتے  رہو اے  عقل والو! کہ تم فلاح پاؤ،

۲۴۲۔            یعنی حلال و حرام، نیک و بد، مسلم و کافِر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں نہیں ہو سکتا۔

(۱۰۱) اے  ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں (ف ۲۴۳) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے  کہ قرآن اتر رہا ہے  تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی، اللہ انہیں معاف کر چکا ہے  (ف ۲۴۴) اور اللہ بخشنے  والا حلم والا ہے۔

۲۴۳۔            شانِ نُزول : بعض لوگ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے بہت سے بے فائدہ سوال کیا کرتے تھے یہ خاطرِ مبارک پر گراں ہوتا تھا، ایک روز فرمایا کہ جو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرو میں ہر بات کا جواب دوں گا، ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا انجام کیا ہے ؟ فرمایا جہنّم، دوسرے نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے اس کے اصلی باپ کا نام بتا دیا جس کے نطفہ سے وہ تھا کہ صداقہ ہے باوجود یکہ اس کی ماں کا شوہر اور تھا جس کا یہ شخص بیٹا کہلاتا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو جو ظاہر کی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ (تفسیرِ احمدی) بخاری و مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے خطبہ فرماتے ہوئے فرمایا جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے، عبداللّٰہ بن حُذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا حذافہ پھر فرمایا اور پوچھو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ نے اٹھ کر اقرارِ ایمان و رسالت کے ساتھ معذرت پیش کی۔ ابنِ شہاب کی روایت ہے کہ عبداللّٰہ بن حُذافہ کی والدہ نے ان سے شکایت کی اور کہا کہ تو بہت نالائق بیٹا ہے تجھے کیا معلوم کہ زمانۂ جاہلیّت کی عورتوں کا کیا حال تھا، خدا نخواستہ تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی، اس پر عبداللّٰہ بن حُذافہ نے کہا کہ اگر حضور کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتا دیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ لوگ بطریقِ اِستہزاء اس قِسم کے سوال کیا کرتے تھے، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے، کوئی پوچھتا میری اونٹنی گم ہو گئی ہے وہ کہاں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا، اس پر ایک شخص نے کہا کیا ہر سال فرض ہے ؟ حضرت نے سکوت فرمایا، سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ احکام حضور کو مُفوَّض ہیں، جو فرض فرما دیں وہ فرض ہو جائے نہ فرمائیں نہ ہو۔

۲۴۴۔            مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس امر کی شرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے۔ حضرت سلمان رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللّٰہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا، حرام وہ ہے جس کو اس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف تو کُلفت میں نہ پڑو۔ (خازن)۔

(۱۰۲) تم سے  اگلی ایک قوم نے  انہیں پوچھا (ف  ۲۴۵) پھر ان سے  منکر ہو بیٹھے۔

۲۴۵۔            اپنے انبیاء سے اور بے ضرورت سوال کئے، حضراتِ انبیاء نے احکام بیان فرما دیئے تو بجا نہ لا سکے۔

(۱۰۳) اللہ نے  مقرر نہیں کیا ہے   کان چِرا ہوا  اور نہ بجار اور نہ وصیلہ اور نہ حامی (ف ۲۴۶) ہاں  کافر لوگ اللہ پر جھوٹا افترا باندھتے  ہیں (ف ۲۴۷) اور ان میں اکثر نرے  بے  عقل ہیں (ف ۲۴۸)

۲۴۶۔            زمانۂ جاہلیت میں کُفّار کا یہ دستور تھا کہ جو اونٹنی پانچ مرتبہ بچّے جنتی اور آخر مرتبہ اس کے نَر ہوتا اس کا کان چیر دیتے پھر نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس کو ذبح کرتے، نہ پانی اور چارے پر سے ہنکاتے اس کو بحیرہ کہتے اور جب سفر پیش ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو یہ نذر کرتے کہ اگر میں سفر سے بخیریت واپس آؤں یا تندرست ہو جاؤں تو میری اونٹنی سائبہ (بجار) ہے اور اس سے بھی نفع اٹھانا بحیرہ کی طرح حرام جانتے اور اس کو آزاد چھوڑ دیتے اور بکری جب سات مرتبہ بچّے جن چُکتی تو اگر ساتواں بچّہ نَر ہوتا توا س کو مرد کھاتے اور اگر مادّہ ہوتا تو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور ایسے ہی اگر نَر مادّہ دونوں ہوتے اور کہتے کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی اس کو وصیلہ کہتے اور جب نَر اُونٹ سے دس گیابھ حاصل ہو جاتے تو اس کو چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس سے کام لیتے، نہ اس کو چارے پانی پر سے روکتے اس کو حامِی کہتے۔ (مدارک) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ بحیرہ وہ ہے جس کا دودھ بُتوں کے لئے روکتے تھے کوئی اس جانور کا دودھ نہ دوہتا اور سائبہ وہ جس کو اپنے بُتوں کے لئے چھوڑ دیتے تھے کوئی ان سے کام نہ لیتا، یہ رسمیں زمانۂ جاہلیّت سے ابتدائے عہدِ اسلام تک چلی آ رہی تھیں۔ اس آیت میں ان کو باطل کیا گیا۔

۲۴۷۔            کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو حرام نہیں کیا، اس کی طرف اس کی نسبت غلط ہے۔

۲۴۸۔            جو اپنے سرداروں کے کہنے سے ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں، اتنا شعور نہیں رکھتے کہ جو چیز اللّٰہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کی اس کو کوئی حرام نہیں کر سکتا۔

(۱۰۴) اور جب ان سے  کہا جائے  آؤ  اس طرف جو اللہ نے   اُتارا  اور رسول کی طرف (ف ۲۴۹) کہیں ہمیں وہ بہت ہے  جس پر ہم نے  اپنے  باپ  دادا کو پایا،  کیا  اگرچہ ان کے  باپ دادا نہ کچھ جانیں نہ راہ پر ہوں (ف ۲۵۰)

۲۴۹۔            یعنی حکمِ خدا اور رسول کا اِتّباع کرو اور سمجھ لو کہ یہ چیزیں حرام نہیں۔

۲۵۰۔            یعنی باپ دادا کا اِتّباع جب درست ہو تا کہ وہ علم رکھتے اور سیدھی راہ پر ہوتے۔

(۱۰۵) اے  ایمان والو! تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے  گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہو (ف ۲۵۱) تم سب کی رجوع  اللہ ہی کی طرف ہے  پھر وہ تمہیں بتا دے  گا جو تم کرتے  تھے۔

۲۵۱۔            مسلمان کُفّار کی محرومی پر افسوس کرتے تھے اور انہیں رنج ہوتا تھا کہ کُفّار عناد میں مبتلا ہو کر دولتِ اسلام سے محروم رہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی تسلّی فرما دی کہ اس میں تمہارا کچھ ضرر نہیں، امر بالمعروف نہی عن المنکَر کا فرض ادا کر کے تم بری الذِّمہ ہو چکے، تم اپنی نیکی کی جزا پاؤ گے۔ عبداللّٰہ بن مبارک نے فرمایا اس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکَر کے وجوب کی بہت تاکید کی ہے کیونکہ اپنی فکر رکھنے کے معنیٰ یہ ہیں ایک دوسرے کی خبر گیری کرے، نیکیوں کی رغبت دلائے، بدیوں سے روکے۔ (خازن)۔

(۱۰۶) اے  ایمان والو! (ف ۲۵۲) تمہاری  آپس کی گواہی جب تم میں کسی کو موت آئے  (ف ۲۵۳) وصیت کرتے  وقت تم میں کے  دو معتبر شخص ہیں یا غیروں میں کے  دو جب تم ملک میں سفر کو جاؤ پھر تمہیں موت کا حادثہ پہنچے، ان دونوں کو نماز کے  بعد  روکو (ف ۲۵۴) وہ  اللہ کی قسم کھائیں اگر  تمہیں کچھ شک پڑے  (ف ۲۵۵) ہم حلف کے  بدلے  کچھ مال نہ خریدیں گے  (ف ۲۵۶) اگرچہ قریب  کا رشتہ دار  ہو اور اللہ کی گواہی نہ چھپائیں گے  ایسا کریں تو ہم ضرور گنہگاروں میں ہیں،

۲۵۲۔            شانِ نُزول : مُہاجرین میں سے بدیل جو حضرت عمرو بن العاص کے مَوالی میں سے تھے بقصدِ تجارت مُلکِ شام کی طرف دو نصرانیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، ان میں سے ایک کا نام تمیم بن اوس داری تھا اور دوسرے کا عدی بن بداء، شام پہنچتے ہی بدیل بیمار ہو گئے اور انہوں نے اپنے تمام سامان کی ایک فہرست لکھ کر سامان میں ڈال دی اور ہمراہیوں کو اس کی اطلاع نہ دی، جب مرض کی شدّت ہوئی تو بدیل نے تمیم و عدی دونوں کو وصیّت کی کہ ان کا تمام سرمایہ مدینہ شریف پہنچ کر ان کے اہل کو دے دیں اور بدیل کی وفات ہو گئی، ان دونوں نے ان کی موت کے بعد ان کا سامان دیکھا، اس میں ایک چاندی کا جام تھا جس پر سونے کا کام بنا تھا اس میں تین سو مثقال چاندی تھی، بدیل یہ جام بادشاہ کو نذر کرنے کے قصد سے لائے تھے ان کی وفات کے بعد ان کے دونوں ساتھیوں نے اس جام کو غائب کر دیا اور اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ لوگ مدینہ طیّبہ پہنچے تو انہوں نے بدیل کا سامان ان کے گھر والوں کے سپرد کر دیا، سامان کھولنے پر فہرست ان کے ہاتھ آ گئی جس میں تمام متاع کی تفصیل تھی، سامان کو اس کے مطابق کیا تو جام نہ پایا اب وہ تمیم اور عدی کے پاس پہنچے اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا بدیل نے کچھ سامان بیچا بھی تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں، کہا کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں پھر دریافت کیا بدیل بہت عرصہ بیمار رہے اور انہوں نے اپنے علاج میں کچھ خرچ کیا ؟ انہوں نے کہا نہیں، وہ تو شہر پہنچتے ہی بیمار ہو گئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ان کے سامان میں ایک فہرست ملی ہے اس میں چاندی کا ایک جام سونے سے مُنقَّش کیا ہوا جس میں تین سو مثقال چاندی ہے، یہ بھی لکھا ہے تمیم و عدی نے کہا ہمیں نہیں معلوم، ہمیں تو جو وصیّت کی تھی اس کے مطابق سامان ہم نے تمہیں دے دیا، جام کی ہمیں خبر بھی نہیں، یہ مقدمہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے دربار میں پیش ہوا، تمیم و عدی وہاں بھی انکار پر جمے رہے اور قَسم کھا لی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن) حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما کی روایت میں ہے کہ پھر وہ جام مکّہ مکرّمہ میں پکڑا گیا، جس شخص کے پاس تھا اس نے کہا کہ میں نے یہ جام تمیم و عدی سے خریدا ہے، مالکِ جام کے اولیاء میں سے دو شخصوں نے کھڑے ہو کر قَسم کھائی کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ احق ہے، یہ جام ہمارے مُورِث کا ہے۔ اس باب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی)۔

۲۵۳۔            یعنی موت کا وقت قریب آئے، زندگی کی امید نہ رہے، موت کے آثار و علامات ظاہر ہوں۔

۲۵۴۔            اس نماز سے نمازِ عصر مراد ہے کیونکہ وہ لوگوں کے اجتماع کا وقت ہوتا ہے۔ حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ نمازِ ظہر یا عصر کیونکہ اہلِ حجاز مقدمات اسی وقت کرتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے نمازِ عصر پڑھ کر عدی و تمیم کو بلایا، ان دونوں کو منبر شریف کے پاس قَسمیں دیں، ان دونوں نے قَسمیں کھائیں، اس کے بعد مکۂ مکرّمہ میں وہ جام پکڑا گیا تو جس شخص کے پاس تھا اس نے کہا میں نے تمیم و عدی سے خریدا ہے۔ (مدارک)۔

۲۵۵۔            ان کی امانت و دیانت میں اور وہ یہ کہیں کہ۔

۲۵۶۔            یعنی جھوٹی قَسم نہ کھائیں گے اور کسی کی خاطر ایسا نہ کریں گے۔

(۱۰۷) پھر اگر پتہ چلے  کہ وہ کسی گناہ کے  سزاوار ہوئے  (ف ۲۵۷) تو ان کی جگہ دو اور کھڑے  ہوں ان میں سے  کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے  ان کا حق لے  کر ان کو نقصان پہنچایا (ف ۲۵۸) جو میت سے   زیادہ  قریب ہوں تو اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی زیادہ ٹھیک ہے  ان  دو  کی گواہی سے   اور ہم حد سے  نہ بڑھے  (ف ۲۵۹) ایسا  ہو تو ہم ظالموں میں ہوں۔

۲۵۷۔            خیانت کے یا جھوٹ وغیرہ کے۔

۲۵۸۔            اور وہ میّت کے اہل و اَقارب ہیں۔

۲۵۹۔            چنانچہ بدیل کے واقعہ میں جب ان کے دونوں ہمراہیوں کی خیانت ظاہر ہوئی تو بدیل کے ورثاء میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قَسم کھائی کہ یہ جام ہمارے مُورِث کا ہے اور ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ ٹھیک ہے۔

(۱۰۸) یہ قریب تر ہے  اس سے  کہ گواہی جیسی چاہیے  ادا کریں یا ڈریں کہ کچھ قسمیں رد کر دی جائیں ان کی قسموں کے  بعد (ف ۲۶۰) اور اللہ سے   ڈرو  اور حکم سنو، اور اللہ بے  حکموں کو راہ نہیں دیتا۔

۲۶۰۔            حاصل معنیٰ یہ ہے کہ اس معاملہ میں جو حکم دیا گیا کہ عدی و تمیم کی قَسموں کے مال برآمد ہونے پر اولیاءِ میّت کی قَسمیں لی گئیں، یہ اس لئے کہ لوگ اس واقعہ سے سبق لیں اور شہادتوں میں راہِ حق و صواب نہ چھوڑیں اور اس سے خائِف رہیں کہ جھوٹی گواہی کا انجام شرمندگی و رسوائی ہے۔ فائدہ : مدّعی پر قَسم نہیں لیکن یہاں جب مال پایا گیا تو مدعا علیہا نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے میّت سے خرید لیا تھا، اب ان کی حیثیت مُدّعی کی ہو گئی اور ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہ تھا لہذا ان کے خلاف اولیائے  میّت کی قَسم لی گئی۔

(۱۰۹) جس دن اللہ جمع فرمائے  گا رسولوں کو (ف ۲۶۱) پھر فرمائے  گا تمہیں کیا جواب ملا (ف ۲۶۲) عرض کریں گے  ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی ہے  سب غیبوں کا جاننے  والا(ف ۲۶۳)

۲۶۱۔            یعنی روزِ قیامت۔

۲۶۲۔            یعنی جب تم نے اپنی اُمّتوں کو ایمان کی دعوت دی تو انہوں نے تمہیں کیا جواب دیا، اس سوال میں منکِرین کی توبیخ ہے۔

۲۶۳۔            انبیاء کا یہ جواب ان کے کمالِ ادب کی شان ظاہر کرتا ہے کہ وہ علمِ الٰہی کے حضور اپنے علم کو اصلًا نظر میں نہ لائیں گے اور قابلِ ذکر قرار نہ دیں گے اور معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے علم و عدل پر تفویض فرما دیں گے۔

(۱۱۰) جب اللہ فرمائے  گا اے  مریم کے  بیٹے  عیسیٰ! یاد کر میرا  احسان  اپنے   اوپر اور اپنی ماں پر (ف ۲۶۴) جب میں نے  پاک روح سے  تیری مدد کی (ف ۲۶۵) تو لوگوں سے  باتیں کرتا پالنے  میں (ف ۲۶۶) اور پکی عمر ہو کر (ف ۲۶۷) اور جب میں نے  تجھے  سکھائی کتاب اور حکمت (ف ۲۶۸) اور توریت اور انجیل اور جب تو مٹی سے  پرند کی سی مورت میرے  حکم سے  بناتا پھر اس میں  پھونک مارتا تو وہ میرے  حکم سے  اڑنے  لگتی (ف ۲۶۹) اور تو  مادر زاد اندھے  اور سفید داغ والے  کو میرے  حکم سے  شفا دیتا اور جب تو مُردوں کو میرے  حکم سے  زندہ نکالتا (ف ۲۷۰) اور جب میں نے  بنی اسرائیل کو تجھ سے  روکا (ف ۲۷۱) جب تو ان کے  پاس روشن نشانیاں لے  کر آیا تو ان میں کے  کافر بولے  کہ یہ (ف ۲۷۲) تو نہیں مگر کھلا جادو۔

۲۶۴۔            کہ میں نے ان کو پاک کیا اور جہاں کی عورتوں پر ان کو فضیلت دی۔

۲۶۵۔            یعنی حضرت جبریل سے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رہتے اور حوادث میں ان کی مدد کرتے۔

۲۶۶۔            صِغر سِنی میں اور یہ معجِزہ ہے۔

۲۶۷۔            اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نُزول فرمائیں گے کیونکہ کہولت (پختہ عمر) کا وقت آنے سے پہلے آپ اُٹھا لئے گئے، نُزول کے وقت آپ تینتیس ۳۳ سال کے جوان کی صورت میں جلوہ افروز ہوں گے اور بمِصداق اس آیت کے کلام کریں گے اور جو پالنے میں فرمایا تھا  اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ  وہی فرمائیں گے۔ (جمل)۔

۲۶۸۔            یعنی اسرارِ علوم۔

۲۶۹۔            یہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معجِزہ تھا۔

۲۷۰۔            اندھے اور سفید داغ والے کو بینا اور تندرست کرنا اور مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے نکالنا، یہ سب باذنِ اللّٰہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزاتِ جلیلہ ہیں۔

۲۷۱۔            یہ ایک اور نعمت کا بیان ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہود کے شر سے محفوظ رکھا جنہوں نے حضرت کے معجزاتِ باہرات دیکھ کر آپ کے قتل کا ارادہ کیا، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اُٹھا لیا اور یہود نامراد رہ گئے۔

۲۷۲۔            یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات۔

(۱۱۱) اور جب میں نے  حواریوں (ف ۲۷۳) کے   دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے  رسول پر (ف ۲۷۴) ایمان لاؤ بولے  ہم ایمان لائے  اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں (ف ۲۷۵)

۲۷۳۔            حواری حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصحاب اور آپ کے مخصوصین ہیں۔

۲۷۴۔            حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر۔

۲۷۵۔            ظاہر اور باطن میں مخلص و مطیع۔

  (۱۱۲) جب حواریوں نے  کہا اے  عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے  گا کہ ہم پر آسمان سے  ایک خوان اُتارے  (ف ۲۷۶)  کہا  اللہ سے  ڈرو !  اگر ایمان رکھتے  ہو(ف ۲۷۷)

۲۷۶۔            معنیٰ یہ ہیں کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ اس باب میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا۔

۲۷۷۔            اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمّتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللّٰہ سے ڈرو یا یہ معنیٰ ہیں کہ اس کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں تردُّد نہ کرو، حواری مؤمنِ عارف اور قدرت اِلٰہیہ کے معترف تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا۔

(۱۱۳) بولے  ہم چاہتے  ہیں (ف ۲۷۸) کہ اس میں سے  کھائیں اور ہمارے  دل ٹھہریں (ف ۲۷۹) اور ہم آنکھوں دیکھ لیں کہ آپ نے  ہم سے  سچ فرمایا (ف ۲۸۰) اور ہم  اس پر گواہ ہو جائیں (ف ۲۸۱)

۲۷۸۔            حصولِ برکت کے لئے۔

۲۷۹۔            اور یقینِ قوی ہو اور جیسا کہ ہم نے قدرتِ الٰہی کو دلیل سے جانا ہے مشاہدہ سے بھی اس کو پختہ کر لیں۔

۲۸۰۔            بے شک آپ اللّٰہ کے رسول ہیں۔

۲۸۱۔            اپنے بعد والوں کے لئے۔ حواریوں کے یہ عرض کرنے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں تیس روزے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا جب تم ان روزوں سے فارغ ہو جاؤ گے تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو دعا کرو گے قبول ہو گی، انہوں نے روزے رکھ کر خوان اُترنے کی دعا کی، اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غسل فرمایا اور موٹا لباس پہنا اور دو رکعت نماز ادا کی اور سر مبارک جھکایا اور رو کر یہ دعا کی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے۔

(۱۱۴) عیسیٰ بن مریم نے  عرض کی، اے  اللہ! اے  رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے  ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے  لیے  عید ہو (ف ۲۸۲) ہمارے  اگلے  پچھلوں کی (ف ۲۸۳)  اور تیری طرف سے  نشانی (ف ۲۸۴) اور ہمیں رزق دے   اور تو سب سے  بہتر روزی دینے  والا ہے۔

۲۸۲۔            یعنی ہم اس کے نُزول کے دن کو عید بنائیں، اس کی تعظیم کریں، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجا لائیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللّٰہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا، شکرِ الٰہی بجا لانا طریقۂ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تشریف آوری اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے، اس لئے حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجا لانا اور اظہارِ فرح اور سرور کرنا مستحَسن و محمود اور اللّٰہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔

۲۸۳۔            جو دیندار ہمارے زمانہ میں ہیں ان کی اور جو ہمارے بعد آئیں ان کی۔

۲۸۴۔            تیری قدرت کی اور میری نبوّت کی۔

(۱۱۵) اللہ نے  فرمایا کہ میں اسے  تم پر اُتارتا  ہوں، پھر اب جو تم میں کفر کرے  گا (ف ۲۸۵) تو بیشک میں اسے  وہ عذاب دوں گا کہ سارے  جہان میں کسی پر نہ کروں گا(ف ۲۸۶)

۲۸۵۔            یعنی خوان نازل ہونے کے بعد۔

۲۸۶۔            چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا، اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے کُفر کیا وہ صورتیں مسخ کر کے خنزیر بنا دیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہو گئے۔

(۱۱۶) اور جب  اللہ فرمائے  گا (ف ۲۸۷) اے  مریم کے  بیٹے  عیسیٰ! کیا تو نے  لوگوں سے  کہہ دیا تھا کہ مجھے  اور میری ماں کو دو خدا بنا لو  اللہ کے  سوا (ف ۲۸۸) عرض کرے  گا، پاکی ہے  تجھے  (ف ۲۸۹) مجھے   روا  نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے  نہیں پہنچتی (ف ۲۹۰) اگر میں نے  ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے  معلوم ہو گا تو جانتا ہے  جو میرے  جی میں ہے  اور میں نہیں جانتا جو تیرے  علم میں ہے، بیشک تو ہی ہے  سب غیبوں کا خوب جاننے  والا (ف ۲۹۱)

۲۸۷۔            روزِ قیامت عیسائیوں کی توبیخ کے لئے۔

۲۸۸۔            اس خِطاب کو سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانپ جائیں گے اور۔

۲۸۹۔            جملہ نقائص و عیوب سے اور اس سے کہ کوئی تیرا شریک ہو سکے۔

۲۹۰۔            یعنی جب کوئی تیرا شریک نہیں ہو سکتا تو میں یہ لوگوں سے کیسے کہہ سکتا تھا۔

۲۹۱۔            علم کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ اس کو تفویض کر دینا اور عظمتِ الٰہی کے سامنے اپنی مسکینی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شانِ ادب ہے۔

(۱۱۷) میں نے  تو ان سے  نہ کہا  مگر  وہی جو تو نے  مجھے  حکم دیا تھا  کہ  اللہ کو  پوجو  جو  میرا بھی  رب اور تمھارا بھی  رب اور  میں ان  پر  مطلع  تھا  جب  تک  ان  میں رہا، پھر جب تو نے  مجھے  اٹھا لیا (ف ۲۹۲) تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا، اور ہر چیز تیرے  سامنے  حاضر ہے (ف ۲۹۳)

۲۹۲۔            تَوَفَّیتَنِی  کے لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت پر دلیل لانا صحیح نہیں کیونکہ اول تو لفظ تَوَفّیٰ موت کے لیے خاص نہیں، کسی شے کے پورے طور پر لینے کو کہتے ہیں خواہ وہ بغیر موت کے ہو جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوا  اَللہُ یَتَوَفَّی الاَ نفُسَ حِینَ مَو تھِا وَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامھِا  (رکوع ۲) دوم جب یہ سوال و جواب روزِ قیامت کا ہے تو اگر لفظ (تَوَفّی ) موت کے معنی میں بھی فرض کر لیا جائے جب بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃو السلام کی موت قبلِ نُزول اس سے ثابت نہ ہو سکے گی۔

۲۹۳۔            اور میرا ان کا کسی کا حال تجھ سے پوشیدہ نہیں۔

(۱۱۸) اگر تو انہیں عذاب کرے  تو  وہ تیرے  بندے  ہیں، اور اگر تو انہیں بخش دے  تو بیشک تو ہی ہے  غالب حکمت والا (ف ۲۹۴)

۲۹۴۔            حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہے کہ قوم میں بعض لوگ کُفر پر مُصِر رہے۔ بعض شرفِ ایمان سے مشّرف ہوئے، اس لئے آپ کی بارگاہِ الٰہی میں یہ عرض ہے کہ ان میں سے جو کُفر پر قائم رہے ان پر تو عذاب فرمائے تو بالکل حق و بجا اور عدل و انصاف ہے کیونکہ انہوں نے حُجّت تمام ہونے کے بعد کُفر اختیار کیا اور جو ایمان لائے انہیں تو بخشے تو تیرا فضل و کرم ہے اور تیرا ہر کام حکمت ہے۔

(۱۱۹) اللہ نے  فرمایا کہ یہ (ف ۲۹۵) ہے   وہ  دن جس میں سچوں کو (ف ۲۹۶)  ان کا سچ کام آئے  گا، ان کے  لئے  باغ  ہیں جن کے  نیچے  نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے  راضی اور وہ اللہ سے  راضی، یہ ہے  بڑی کامیابی،

۲۹۵۔            روزِ قیامت۔

۲۹۶۔            جو دنیا میں سچائی پر رہے جیسے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔

(۱۲۰) اللہ ہی کے  لئے  ہے  آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے  سب کی سلطنت، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (ف ۲۹۷)

۲۹۷۔            صادق کو ثواب دینے پر بھی اور کاذب کو عذاب فرمانے پربھی۔

مسئلہ : قدرت ممکنات سے متعلق ہوتی ہے نہ کہ واجبات و محالات سے تو معنیٰ آیت کے یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر امرِ ممکن الوجود پر قادر ہے۔ (جمل)

مسئلہ : کذب وغیرہ عیوب و قبائح اللّٰہ سُبحانہ تبارک و تعالیٰ کے لئے محال ہیں، ان کو تحتِ قدرت بتانا اور اس آیت سے سند لانا غلط و باطل ہے۔