کسی معتبر روایت سے یہ پتہ چلتا کہ یہ ٹھیک کس زمانہ میں نازل ہوئی ہے، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سال سے شروع ہو کر پانچویں سال تک رہا۔ اس سورہ کی خصوصیات ہم سورہ انعام کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازاً یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سورہ پانچویں سال میں نازل ہوئی ہو گی جب کہ کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی، مگر ابھی ظلم و ستم کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ، جو حضورؐ کی پڑوسن تھیں، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورہ ق یاد ہی اسطرح ہوئی کہ میں جمعہ کے خطبوں میں اکثر آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی۔ بعض اور روایت میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آ پ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضورؐ کی نگاہ میں یہ ایک بڑی اہم سورۃ تھی۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے۔
اس اہمیت کی وجہ سورۃ کو بغور پڑھنے سے بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ پوری سورۃ کا موضوع آخرت ہے۔ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ لوگ کہتے تھے یہ یہ تو بالکل انہونی بات ہے۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہو سکتا ہے،آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زین میں منتشر ہو چکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنا دیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ گھڑے ہوں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں، اور دوسری طرف لوگوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، یا بعید از عقل سمجھو، یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہو جائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح تمہارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بے کہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمہیں جواب دہی نہیں کرنی ہے، ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست خود بھی تمہارے ہر قول و فعل سے، بلکہ تمہارے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہے، اور اس کے فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات و سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہو گے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمہاری عقل پر پڑا ہوا ہے، تمہارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے۔ جزا و سزا، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ جنہیں آج فسانہ عجائب سمجھ رہے ہو، اس وقت یہ ساری چیزیں تمہاری مشہود حقیقتیں ہوں گی۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو، اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی طرف پلٹنے والے تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمہیں تعجب ہو رہا ہے۔
۱۔ ’’مجید‘‘ کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، بلند مرتبہ، با عظمت، بزرگ اور صاحب عزت و شرف۔ دوسرے، کریم، کثیرالعطاء، بہت نفع پہنچانے والا۔ قرآن کے لیے یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال فرمایا گیا ہے۔ قرآن اس لحاظ سے عظیم ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتی۔ اپنی زبان اور ادب کے لحاظ سے بھی وہ معجزہ ہے اور اپنی تعلیم اور حکمت کے لحاظ سے بھی معجزہ۔ جس وقت وہ نازل ہوا تھا اس وقت بھی انسان اس کے مانند کلام بنا کر لانے سے عاجز تھے اور آج بھی عاجز ہیں۔ اس کی کوئی بات کبھی کسی زمانے میں غلط ثابت نہیں کی جا سکی ہے نہ کی جا سکتی۔ باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ پیچھے سے حملہ آور ہو کر اسے شکست دے سکتا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ کریم ہے کہ انسان جس قدر زیادہ اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اسی قدر زیادہ وہ اس کو رہنمائی دیتا ہے اور تنی زیادہ اس کی پیروی کرے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائیں حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے فوائد و منافع کی کوئی حد نہیں ہے جہاں جا کر انسان اس سے بے نیاز ہو سکتا ہو، یا جہاں پہنچ کر اس نفع بخشی ختم ہو جاتی ہو۔
۲۔ یہ فقرہ بلاغت کا بہترین نمونہ ہے جس میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اسے بیان نہیں کیا گیا۔ اس کا ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلا چھوڑ کر آگے کی بات ’’ بلکہ‘‘ سے شروع کر دی گئی ہے۔ آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قَسم اور بلکہ کے درمیان جو خلا چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے۔ اس میں در اصل قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے کسی معقول بنیاد پر انکار نہیں کیا ہے، بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی جنس کے ایک بشر، اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا اپنے بندوں کی بھلائی اور برائی سے بے پروا ہو کر انہیں خبردار کرنے کا کوئی انتظام نہ کرتا، یا انسانوں کو خبر دار کرنے کے لیے کیس غیر انسان کو بھیجتا، یا عربوں کو خبر دار کرنے کے لیے کسی چینی کو بھیج دیتا۔ اس لیے انکار کی یہ بنیاد تو قطعی نا معقول ہے اور ایک صاحب عقل سلیم یقیناً یہ ماننے پر مجبور ہے کہ خدا کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسی شکل میں ہونا چاہیے یہ خبر دار کرنے والا خود انہی لوگوں میں سے کوئی شخص ہو جن کے درمیان وہ بھیجا گیا ہو‘‘۔ اب رہ جاتا ہے کہ سوال کہ آیا محمد صلی اللہ عدلیہ و سلم ہی وہ شخص ہیں جنہیں خدا نے ا س کام کے لیے بھجا ہے، تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی اور شہادت کی حاجت نہیں، یہ عظیم و کریم قرآن، جسے وہ پیش کر رہے ہیں، اس بات کا ثبوت دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔
اس تشریح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بے جا ہے۔ اور قرآن کے ’’مجید‘‘ ہونے کو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔
۳۔ یہ ان لوگوں کو دوسرے تعجب تھا۔ پہلا اور اصل تعجب زندگی بعد موت پر نہ تھا بلکہ اس پر تھی کہ انہی کی جنس اور قسم کے ایک فرد نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں خبر دار کنے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد مزید تعجب انہیں اس پر ہوا کہ وہ شخص انہیں جس چیز پر خبردار کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ تمام انسان مرنے کے بعد از سر نو زندہ کیے جائیں گے، اور ان سب کو اکٹھا کر کے اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، اور وہاں ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بعد جزا اور سزا دی جائے گی۔
۴۔ یعنی یہ بات اگر ان لوگوں کی عقل میں نہیں سماتی تو یہ ان کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہو جائے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک مرنے والے بے شمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر جُز جس شکل میں جہاں بھی ہے، اللہ تعالیٰ براہ راست اس کو جانتا ہے، اور مزید براں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھُٹا ہوا نہیں ہے۔ جس وقت اللہ کا حکم ہو گا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرے کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہ جسم پھر بنا دیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا کی زندگی میں کام کیا تھا۔
یہ آیت بھی من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ویسی ہی جسمانی زندگی ہو گی جیسی اس دنیا میں ہے، بلکہ جسم بھی ہر شخص کا وہی ہو گا جو اس دنیا میں تھا اگر یہ حقیقت یہ نہ ہوتی تو کفار کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بے معنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم ہے۔ اور ذرے ذرے کا ریکارڈ موجود ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حاشیہ ۲۵)۔
۵۔ اس مختصر سے فقرے میں بھی ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے صرف تعجب کرنے اور بعید از عقل ٹھیرانے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دعوت حق پیش کی اسی وقت بلا تامل اسے قطعی جھوٹ قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ لازماً یہ ہونا تھا اور یہی ہوا کہ انہیں اس دعوت اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے معاملہ میں کسی ایک موقف پر قرار نہیں ہے۔ کبھی اس کو شاعر کہتے ہیں تو کبھی کاہن اور کبھی مجنون۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے۔کبھی کہتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے خود یہ چیز بنا لایا ہے، اور کبھی یہ الزام تراشتے ہیں کہ اس کے پس پشت کچھ دوسرے لوگ ہیں جو یہ کلام گھڑ گھڑ کر اسے دیتے ہیں۔ یہ متضاد باتیں خود ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس الجھن میں یہ ہر گز نہ پڑتے اگر جلد بازی کر کے نبی کو پہلے ہی قدم پر جھٹلا نہ دیتے اور بلا فکر و تامل ایک پیشگی فیصلہ صادر کر دینے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے کہ یہ دعوت کون پیش کر رہا ہے، کیا بات کہہ رہا ہے اور اس کے لیے دلیل کیا دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص ان کے لیے اجنبی نہ تھا۔ کہیں سے اچانک ان کے درمیان نہ آ کھڑا ہوا تھا۔ ان کی اپنی ہی قوم کا فرد تھا۔ ان کا اپنا دیکھا بھالا آدمی تھا۔ یہ اس کی سیرت و کردار اور اس کی قابلیت سے نا واقف نہ تھے۔ ایسے آدمی کی طرف سے جب ایک بات پیش کی گئی تھی تو چاہے اسے فوراً قبول نہ کر لیا جاتا، مگر وہ اس کی مستحق بھی تو نہ تھی کہ سنتے ہی اسے رد کر دیا جاتا۔ پھر وہ بات بے دلیل بھی نہ تھی۔ وہ اس کے لیے دلائل پیش کر رہا تھا۔ چاہیے تھا کہ اس کے دلائل کھلے کانوں سے سنے جاتے اور تعصب کے بغیر ان کو جانچ کر دیکھا جاتا کہ وہ کہاں گم معقول ہیں۔ لیکن یہ روش اختیار کرنے کے بجائے جب ان لوگوں نے ضد میں آ کر ابتدا ہی میں اسے جھٹلا دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت تک پہنچنے کا دروازہ تو انہوں نے اپنے لیے خود بند کر لیا اور ہر طرف بھٹکتے پھرنے کے بہت سے راستے کھول لیے۔ اب یہ اپنی ابتدائی غلطی کو نباہنے کے لیے دس متضاد باتیں تو بنا سکتے ہیں مگر اس ایک بات کو سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ نبی سچا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی پیش کردہ بات حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔
۶۔ اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نا معقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا ہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے۔
۷۔ یہاں آسمان سے مراد پورا علام بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو نا پیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم ۳ ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی!
۸۔ یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع ۳ ج ۲۹۵(Source ۳c,۲۹۵) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ ۴ ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہوں گی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے در اصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا۔
یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری(Light Years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے۔
۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حواشی ۱۲۔۱۳۔۱۴۔ جلد سوم، النمل، حواشی ۷۳۔۷۴۔ جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ ۷۔
۱۰۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی ۷۳۔۷۴۔۸۱۔الروم، حواشی ۲۵۔۳۳۔۳۵۔جلد چہارم،یٰس، حاشیہ ۲۹۔
۱۱۔ استدلال یہ ہے کہ جس خدا نے زمین کے اس کرے کو زندہ مخلوقات کی سکونت کے لیے موزوں مقام بنا یا، اور جس نے زمین کی بے جان مٹی کو آسمان کے بے جان پانی کے ساتھ ملا کر اتنی اعلیٰ درجے کی نباتی زندگی پیدا کر دی جسے تم اپنے باغوں اور کھیتوں کی شکل میں لہلہاتے دیک رہے ہو، اور جس نے اس نباتات کو انسان و حیوان سب کے لیے رزق کا ذریعہ بنا دیا، اس کے متعلق تمہارا یہ گمان کہ وہ تمہیں مرنے کے بعد دو بارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، سراسر بے عقلی کا گمان ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے آئے دن دیکھتے ہو کہ ایک علاقہ بالکل خشک اور بے جان پڑا ہوا ہے۔ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے اندر یکایک زندگی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، مدتوں کی مری ہوئی جڑیں یک لخت جی اٹھتی ہیں، اور طرح طرح کے حشرات الارض زمین کی تہوں سے نکل کر اچھل کود شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی نا ممکن نہیں ہے۔ اپنے اس صریح مشاہدے کو جب تم نہیں جھٹلا سکتے تو اس بات کو کیسے جھٹلاتے ہو کہ جب خدا چاہے گا تم خود بھی اسی طرح زمین سے نکل آؤ گے جس طرح نباتات کی کونپلیں نکل آتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عرب کی سر زمین میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں بسا اوقات پانچ پانچ برس بارش نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ مدت گزر جاتی ہے اور آسمان سے ایک خطرہ تک نہیں ٹپکتا۔ اتنے طویل زمانے تک تپتے ہوئے ریگستانوں میں گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کا زندہ رہنا قابل تصور نہیں ہے۔ اس کے باوجود جب وہاں کسی وقت تھوڑی سی بارش بھی ہو جاتی ہے تو گھاس نکل آتی ہے اور حشرات الارض جی اٹھتے ہیں۔ اس لیے عرب کے لوگ اس استدلال کو ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جنہیں اتنی طویل خشک سالی کا تجربہ نہیں ہوتا۔
۱۲۔ اس سے پہلے سورہ فرقان، آیت ۲۸ میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں، ایک نجد میں، دوسرا شمالی حجاز میں۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں۔
۱۳، قوم فرعون کے بجائے صرف فرعون کا نام لیا گیا ہے، کیونکہ وہ اپنی قوم پر اس طرح مسلط تھا کہ اس کے مقابلے میں قوم کی کوئی آزادانہ رائے اور عزیمت باقی نہیں رہی تھی۔ جس گمراہی کی طرف سے جاتا تھا، قوم اس کے پیچھے گھسٹتی چلی جاتی تھی۔ اس بنا پر پوری قوم کی گمراہی کا ذمہ دار تنہا اس شخص کو قرار دیا گیا۔ جہاں قوم کے لیے رائے اور عمل کی آزادی موجود ہو وہاں اپنے اعمال کا بوجھ وہ خود اٹھاتی ہے۔ اور جہاں ایک آدمی کی آمریت نے قوم کے بے بس کر ریکھا ہو، وہاں وہی ایک آدمی پوری قوم کے گناہوں کا بار اپنے سر لے لیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد واحد پر یہ بوجھ لَد جانے کے بعد قوم سبکدوش ہو جاتی ہے۔نہیں، قوم پر اس صورت میں اس اخلاقی کمزوری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں اپنے اوپر ایک آدمی کو اس طرح مسلط ہونے دیا۔ اسی چیز کی طرف سورۂ زخرف، آیت ۵۴ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : فَاَسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْ اقَوْ ماً فَا سِقِیْنَ۔ ’’فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ زخرف، حاشیہ ۵۰)۔
۱۴۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۳۷۔ سورہ دخان، حاشیہ ۳۲۔
۱۵۔ یعنی ان سے نے اپنے رسولوں کی رسالت کو بھی جھٹلایا اور ان کی دی ہوئی اس خبر کو بھی جھٹلایا کہ تم مرنے کے بعد پھر اٹھائے جاؤ گے۔
۱۶۔ اگر چہ ہر قوم نے صرف اس رسول کو جھٹلایا جواس کے پاس بھیجا گیا تھا، مگر چونکہ وہ اس خبر کو جھٹلا رہی تھی جو تمام رسول بالاتفاق پیش کرتے رہے ہیں، اس لیے ایک رسول کو جھٹلانا در حقیقت تمام رسولوں کو جھٹلا دینا تھا۔ علاوہ بریں ان قوموں میں سے ہر ایک نے محض اپنے ہاں آنے والے رسول ہی کی رسالت کا انکار نہ کیا تھا بلکہ وہ سرے سے یہی بات ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ سکتا ہے، اس لیے نفس رسالت کی منکر تھیں اور ان میں سے کسی کا جرم بھی صرف ایک رسول کی تکذیب تک محدود نہ تھا۔
۱۷۔ یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ اس سے پہلے کی ۶ آیتوں میں امکان آخرت کے دلائل دیے گئے تھے، اور اب ان آیات میں عرب اور اس کے گرد و پیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا جو عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں وہی حقیقت کے عین مطابق ہے، کیونکہ اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار خدا کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا۔ آخرت کے انکار اور اخلاق کے بگاڑ کا یہ لزوم، جو تاریخ کے دوران میں مسلسل نظر آ رہا ہے، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انسان فی الواقع اس دنیا میں غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اسے لازماً اپنی مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اسی لیے تو جب کبھی وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر دنیا میں کام کرتا ہے، اس کی پوری زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ کسی کام سے اگر پے در پے غلط نتائج برآمد ہوتے چلے جائیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ وہ کام حقیقت سے متصادم ہو رہا ہے۔
۱۸۔ یہ آخرت کے حق میں عقلی استدلال ہے۔ جو شخص خدا کا منکر نہ ہو اور حماقت کی اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس منظم کائنات اور اس کے اندر انسان کی پیدائش کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے لگے،اس کے لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ خدا ہی نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اب یہ امر واقعہ کہ ہم اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، آپ ہی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ خدا ہمیں اور اس کائنات کو پیدا کرنے سے عاجز نہ تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے بعد وہی خدا ایک دوسرا نظام عالم نہ بنا سکے گا، اور موت کے بعد وہ ہمیں دوبارہ پیدا نہ کر سکے گا، تو وہ محض ایک خلاف عقل بات کہتا ہے۔ خدا عاجز ہوتا تو پہلے ہی پیدا نہ کر سکتا۔ جب وہ پہلے پیدا کر چکا ہے اور اسی تخلیق کی بدولت ہم خود وجود میں آئے بیٹھے ہیں، تو یہ فرض کر لینے کے لیے آخر کیا معقول بنیاد ہو سکتی ہے کہ اپنی ہی بنائی ہوئی چیز کو توڑ کر پھر بنا دینے سے وہ عاجز ہو جائے گا؟
۲۰۔ یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کا اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہ راست جانتے ہیں۔ اسی طرح اگر اسے پکڑنا ہو گا تو ہم کہیں سے آ کر اس کو نہیں پکڑیں گے، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے۔
۲۱۔ یعنی ایک طرف تو ہم خود براہ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتے ہیں، دوسری طرف ہر انسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کی معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہو گی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہو گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لا کر سامنے رکھ دیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہو گا، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے۔ مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے۔ کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے اس میں ہر طرف اس کی آوازیں، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرے ذرے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہٖ ان ہی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقید۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فِلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کر سکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی ہو باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کر توتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے دیگا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کو پورا ثبت ناقابل انکار شہادتوں سے فراہم ہو جائے۔
۲۲۔ حق لے کر آ پہنچے سے مراد یہ ہے کہ موت کی جانکنی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے وہ حقیقت کھلُنی شروع ہو جاتی جس پر دنیا کی زندگی میں پردہ پڑا ہوا تھا۔ اس مقام سے آدمی وہ دوسرا عالم صاف دیکھنے لگتا ہے جس کی خبر انبیاء علیہم السلام نے دی تھی۔ یہاں آدمی کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخرت بالکل برحق ہے، اور یہ حقیقت بھی اس کو معلوم ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اس دوسرے مرحلے میں وہ نیک بخت کی حیثیت سے داخل ہو رہا ہے یا بد بخت کی حیثیت سے۔
۲۳۔ یعنی یہ وہی حقیقت ہے جس کو ماننے سے تو کنّی کتراتا تھا۔ تو چاہتا تھا کہ دنیا میں نتھے بیل کی طرح چھوٹا پھرے اور مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو جس میں تجھے اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اسی لیے آخرت کے تصور سے تو دور بھا کتا تھا اور کسی طرح یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ کبھی یہ عالم بھی برپا ہونا ہے۔ اب دیکھ لے، یہ وہی دوسرا علم تیرے سامنے آ رہا ہے۔
۲۴۔ اس سے مراد وہ نفخ صور ہے جس کے ساتھ ہی تمام مرے ہوئے لوگ دو بارہ حیات جسمانی پا کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، اندام، حاشیہ ۴۷۔ جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ ۵۷۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ ۷۸۔ الحج، حاشیہ۔۱۔ جلد چہارم، یٰس، حواشی ۴۶۔۴۷۔ الزُّمر، حاشیہ ۷۹۔
۲۵۔ اغلب یہ ہے کہ اس سے مراد وہی دو فرشتے ہیں جو دنیا میں اس شخص کے قول و عمل کا ریکارڈ مرتب کر نے کے لیے مامور رہے تھے۔ قیامت کے روز جب صور کی آواز بلند ہوتے ہی ہر انسان اپنے مرقد سے اٹھے گا تو فوراً وہ دونوں فرشتے آ کر اسے اپنے چارج میں لے لیں گے۔ ایک اسے عدالت گاہ خداوندی کی طرف ہانکتا ہو لے چلے گا اور دوسرا اس کا نامۂ اعمال ساتھ لیے ہوئے ہو گا۔
۲۶۔ یعنی اب تو تجھے خوب نظر آ رہا ہے کہ وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جس کی خبر خدا کے نبی تجھے دیتے تھے۔
۲۷۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ ساتھی‘‘ سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے آیت نمبر ۲۱ میں ’’گواہی دینے والا‘‘ فرمایا گیا ہے۔ وہ کہے گا کہ یہ اس شخص کا نامۂ عمال میرے پاس تیار ہے۔ کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ ’’ساتھی ‘‘ سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ وہ عرض کرے گا کہ یہ شخص جو کو میں نے اپنے قابو میں کر کے جہنم کے لیے تیار کیا تھا ب آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر سیاق و سباق سے زیادہ مناسبت رکھنے والی تفسیر وہ ہے جو قتادہ اور ابن زید سے منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ساتھی سے مراد ہانک کر لانے والا فرشتہ ہے اور وہی عدالت الٰہی میں پہنچ کر عرض کرے گا کہ یہ شخص جو میری سپردگی میں تھا سر کار کی پیشی میں حاضر ہے۔
۲۸۔ اصل الفاظ میں اَلْقِیَا فَیْ جَھَنَّمَ، ’’ پھینک دو جہنم میں تم دونوں ‘‘۔ سلسلہ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ حکم ان دونوں فرشتوں کو دیا جائے گا جنہوں نے مرقد سے اٹھتے ہی مجرم کو گرفتار کیا تھا اور لا کر عدالت میں حاضر کر دیا تھا۔
۲۹۔ اصل میں لفظ ’’کَفَّار‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک، سخت نا شکرا۔ دوسرے سخت منکر حق۔
۳۰۔ خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پائے۔
۳۱۔ یعنی اپنے ہر کام میں اخلاق کی حدیں توڑ دینے والا تھا۔ اپنے مفاد اور اپنی اغراض اور خواہشات کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا۔ حرام طریقوں سے مال سمیٹتا اور حرام راستوں میں صرف کرتا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا تھا۔ نہ اس کی زبان کسی حد کی پا بند تھی نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم اور زیادتی سے رکتے تھے۔ بھلائی کے راستے میں صرف رکاوٹیں ڈالنے ہی پر بو نہ کرتا تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھلائی اختیار کرنے والوں کو ستاتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والوں پر ستم ڈھاتا تھا۔
۳۲۔ اصل میں لفظ’’مُرِیْب‘‘ استعمال ہوا ہے جس مے دو معنی ہیں۔ ایک، شک کرنے والا۔ دوسرے، شک میں ڈالنے والا۔ اور دونوں ہی معنی یہاں مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود شک میں پڑا ہوا تھا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالتا تھا۔ اس کے نزدیک اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور رسالت اور وحی، غرض دین کی سب صداقتیں مشکوک تھیں۔ حق کی جو بات بھی انبیاء کی طرف سے پیش کی جاتی تھی اس کے خیال میں ہو قابل یقین نہ تھی۔ اور یہی بیماری وہ الہ کے دوسرے بندوں کو لگاتا پھرتا تھا۔ جس شخص سے بھی اس کو سابقہ پیش آتا اس کے دل میں وہ کوئی نہ کوئی شک اور کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتا۔
۳۳۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات گِن کر بتا دی ہیں جو انسان کو جہنم کا مستحق بنانے والی ہیں، (۱) انکار حق، (۲) خدا کی ناشکری،(۳) حق اور اہل حق سے عناد، (۴) بھلائی کے راستے میں سدِّ راہ بننا، (۵) اپنے مال سے خدا اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا، (۶) اپنے معاملات میں حدود سے تجاوز کرنا، (۷) لوگوں پر ظلم اور زیادتیاں کرنا، (۸) دین کی صداقتوں پر شک کرنا، (۹)دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالنا، اور (۱۰) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدائی میں شریک ٹھیرانا۔
۳۴۔ یہاں فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ ’’ساتھی‘‘ سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اور یہ بات بھی انداز بیان ہی سے مترشح ہوتی ہے کہ وہ شخص اور اس کا شیطان، دونوں خدا کی عدالت میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حضور، یہ ظالم میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اسی نے آخر کار مجھے گمراہ کر کے چھوڑا، اس لیے سزا اس کو ملنی چاہیے۔ اور شیطان جواب میں کہتا ہے کہ سردار، میرا اس پر کوئی زور تو نہیں تھا کہ یہ سرکش نہ بننا چاہتا ہو اور میں نے زبردستی اس کو سرکش بنا دیا ہو۔ یہ کم بخت تو خود نیکی سے نفور اور بدی پر فریفتہ تھا۔ اسی لیے انبیاء کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا۔
۳۵۔ یعنی تم دونوں ہی کو میں نے متنبہ کر دیا تھا کہ تم میں سے جو بہکائے گا وہ کیا سزا پائے گا اور جو بہکے گا اسے کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میری اس تنبیہ کے باوجود جب تم دونوں اپنے اپنے حصے کا جرم کرنے سے باز نہ آئے تو اب جھگڑا کرنے سے حاصل کیا ہے۔ بہلنے والے کو بہکنے کی اور بہکانے والے کو بہکانے کی سزا تو اب لازماً ملنی ہی ہے۔
۳۶۔ یعنی فیصلے بدلنے کا دستور میرے ہاں نہیں ہے۔تم کو جہنم میں پھینک دینے کا جو حکم میں دے چکا ہوں اب واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اور نہ اس قانون ہی کو بدلا جا سکتا ہے جو کا اعلام میں نے دنیا میں کر دیا تھا کہ گمراہ کرنے اور گمراہ ہونے کی کیا سزا آخرت میں دی جائے گی۔
۳۷۔ اصل میں لفظ ’’ظَلَّام ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بہت بڑے ظالم کے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے بندوں کے حق میں ظالم تو ہوں مگر بہت بڑا ظالم نہیں ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں خالق اور رب ہو کر اپنی ہی پروردہ مخلوق پر ظلم کروں تو بہت بڑا ظالم ہوں گا۔ اس لیے میں سے سے کوئی ظلم بھی اپنے بندوں پر نہیں کرتا۔ یہ سزا جو میں تم کو دے رہا ہوں یہ ٹھیک ٹھیک وہی سزا ہے جس کا مستحق تم نے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تمہارے استحقاق سے رتّی بھر بھی زیادہ سزا تمہیں نہیں دی جا رہی ہے۔ میری عدالت بے لاگ انصاف کی عدالت ہے۔ یہاں کوئی شخص کوئی ایسی سزا نہیں پا سکتا جس کا وہ فی الحقیقت مستحق نہ ہو اور جس کے لیے اس کا استحقاق بالکل یقینی شہادتوں سے ثابت نہ کر دیا گیا ہو۔
۳۸۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ میرے اندر اب مزید آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ ’’اور فتنے مجرم بھی ہیں انہیں لے آیئے ‘‘ پہلا مطلب لیا جائے تو اس ارشاد سے تصور یہ سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو جہنم میں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے اس میں ایک سوئی کی بھی گنجائش نہیں رہی، حتیٰ کہ جب اس سے پوچھا گیا کی کیا تو بھر گئی تو وہ گھبرا کر چیخ اٹھی کہ کیا ابھی اور آدمی بھی آنے باقی ہیں؟ دوسرا مطلب لیا جائے تو یہ تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جہنم کا غیظ اس وقت مجرموں پر کچھ اس بڑی طرح بھڑکا ہوا ہے کہ وہ ہل من مزید کا مطالبہ کیے جاتی ہے اور چاہتی ہے کہ آج کوئی مجرم اس سے چھوٹنے نہ پائے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب اور اس کے جواب کی نوعیت کیا ہے۔؟ کیا یہ محض مجازی کلام ہے؟ یا فی الواقع جہنم کوئی ذی روح اور ناطق چیز ہے جسے مخاطب کیا جا سکتا ہو اور سہ بات کا جواب دے سکتی ہو؟ اس معاملہ میں درحقیقت کوئی بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مجازی کلام ہو اور محض صورت حال کا نقشہ کھینچنے کے لیے جہنم کی کیفیت کو سوال و جوا کی شکل میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے موٹر سے پوچھا تو چلتی کیوں نہیں، اس جے جواب دیا، میرے اندر پٹرول نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ یہ کلام مبنی بر حقیقت ہو۔ اس لیے کہ دنیا کی جو چیزیں ہمارے لیے جامد و صامت ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے لیے بی ویسی ہی جامدو صامت ہوں گی۔ خالق اپنی ہر مخلوق سے کلام کر سکتا ہے اور اس کی ہر مخلوق اس کے کلام کو جواب دے سکتی ہے خواہ ہمارے لیے اس کی زبان کتنی ہی ناقابل فہم ہو۔
۳۹۔ یعنی جوں ہی کسی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کی عدالت سے یہ فیصلہ ہو گا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پاؤں سے فل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہو وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخول جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو۔ بلکہ ادھر فیصلہ ہوا اور ادھر متقی جنت میں داخل ہو گیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہ بلکہ خود جنت ہی اٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔
۴۰ َ اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کر لیا ہو، جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اس چیز کا اختیار کر لے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اٹھے اور توبہ کر کے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔
۴۱۔ اصل میں لفظ ’’ حفیظ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’ حفاظت کرنے والا‘‘۔ اس سے مراد ایس شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اسے کے فرائض اور اس کی حرمتوں اور ا کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو ان حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف اس پر عائد ہوتے ہیں، جو اس عہد و پیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لا کر اس نے اپنے رب سے کیا ہے، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غل کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کر کے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہر وقت اپنا جائز ہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔
۴۲۔ یعنی باوجود اس کے کہ رحمان اس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کر سکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمٰن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خَشِیَّت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق کے دل ہے خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقالہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجائے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی پڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔
۴۳۔ اصل الفاظ ہیں ’’ قلبِ مُنِیب‘‘ لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی ہوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی بلائیں جُلائیں، وہ ہِر پھر کر قطب ہی کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو احوال بھی اس پر گزری ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اسی مفہوم کو ہم نے دل گردہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جائے۔
۴۴۔ اصل الفاظ ہیں اُدْخُلُوْ ھَا بِسَلامٍ۔ سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قوم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہو کر اس جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ آؤ اس جنت میں للہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں (۱) تقویٰ،(۲) رجوع الی اللہ،(۳) اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت۔(۴) اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور (۵) قلبِ منیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی کرتے دم تک ِانابَت کی روش پر قائم رہنا۔
۴۵۔ یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے وہ تو ان کے ملے گا ہی، مگر اس پر مزید ہم انہیں وہ کچھ بھی دیں گے جس کا کوئی تصور تک ان کے ذہن میں نہیں آیا ہے کہ وہ اس کے حاصل کرنے کی خواہش کریں۔
۴۶۔ یعنی صرف اپنے ملک ہی میں وہ زور آور نہ تھیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی وہ جا گھسی تھیں اور ان کی تاخت(طاقت) کا سلسلہ روئے زمیں پر دور دور تک پہنچا ہوا تھا۔
۴۷۔ یعنی جب خدا کی طرف سے ان کی پکڑ کا وقت آیا تو کیا ان کی وہ طاقت ان کو بچادسکی؟ اور کیا دنیا میں پھر کہیں ان کو پناہ مل سکی؟ اب آخر تم کس بھروسے پر یہ امید رکھتے ہو کہ خدا کے مقابلے میں بغاوت کر کے تمہیں کہیں پناہ مل جائے گی؟
۴۸۔ بالفاظ دیگر جو یا تو خود اپنی گرہ کی اتنی عقل رکھتا ہو کہ صحیح بات سوچے، یا نہیں تو غفلت اور تعصب سے اتنا پاک ہو کہ جب دوسرا کوئی شخص اسے حقیقت سمجھائے وہ کھلے کانوں سے اس کی بات سنے۔ یہ نہ ہو کہ سمجھانے والے کی آواز کان کے پردے پر سے گزر رہی ہے اور سننے والے کا دماغ کسی اور طرف مشغول ہے۔
۴۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حواشی نمبر ۱۱ تا ۱۵۔
۵۰۔ یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات ہم نے چھ دن میں بنا ڈالی ہے اس کو بنا کر تھی نہیں گئے ہیں کہ اس کی تعمیر تو کرنا ہمارے بس میں نہ رہا ہو۔ اب اگر یہ نادان لوگ تم سے زندگی بعد موت کی خبر سن کو تمہارا مذاق اڑاتے ہیں اور تمہیں دیوانہ قرار دیتے ہیں تو اس پر صبر کرو۔ ٹھنڈے دل سے ان کی ہر بیہودہ بات کو سنو اور جس حقیقت کے بیان کرنے پر تم مامور کیے گئے ہو اسے بیان کرتے چلے جاؤ۔
اس آیت میں ضمناً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘ سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائیبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی الفاظ اس ترجمے میں بھی پائے جاتے ہیں جو ۱۹۵۴ ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی فاستراح فی الیوم السَّا بع کے الفاظ ہیں۔
۵۱۔ یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آئے، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے ور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’’ طلوع آفتاب سے پہلے۔‘‘ فجر کی نماز ہے ‘‘غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر ‘‘۔ رات کے وقت۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، بنی اسرائیل، حواشی ۹۱ تا ۹۷۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ ۱۱۱۔ الروم، حواشی ۲۳۔۲۴)۔ رہی وہ تسبیح جو ’’سجدے فارغ ہونے کے بعد ‘‘ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت حسن بن علی، حضرات ابوہریرہ، ان عباس، شُیبی، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیے ہیں۔ حضرت عبداللہ ن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں۔
صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گئے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ کیا ہوا‘‘؟۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد ۳۳۔۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، الحمد لِلہ، اللہ اکبر کہا کرو‘‘۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤنیہ من یشآء۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد ۳۳۔ ۳۳ کے بجائے دس دس بھی منقول ہوئی ہے۔
حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد ۳۳۔ ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلہ کہا کریں اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم ۲۵۔۲۵ مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر ۲۵ مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو۔(احمد۔نسائی۔ دارمی)۔
حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَا نَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّایَصِفُوْنَ o وَسَلَامٌ عَلَالْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o(احکام القرآن للجصاص)۔
اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہیں۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے، چھانٹ کر یاد کر لیں اور اس کا التزام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معافی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔
۵۲۔ یعنی جو شخص جہاں مرا پڑا ہو گا، یا جہاں بھی دنیا میں اس کی موت واقع ہوئی تھی، وہیں خدا کے منادی کی آواز اس کو پہنچے گی کہ اٹھو اور چلو اپنے رب کی طرف اپنا حساب دینے کے لیے۔ یہ آواز کچھ اس طرح کی ہو گی روئے زمین کے چپے چپے پر جو شخص بھی زندہ ہو کر اٹھے گا وہ محسوس کرے گا کہ پکارنے والے نے کہیں قریب ہی سے اس کو پکارا ہے۔ ایک مکان کے اعتبارات ہماری موجودہ دنیا کی بہ نسبت کس قدر بدلے ہوئے ہوں گے اور کیسی قوتیں کس طرح کے قوانین کے مطابق وہاں کا کر فرما ہوں گی۔
۵۳۔ اصل الفاظ ہیں یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب لوگ امِر حق کی پکار کو سن رہے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ آواز حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ لوگ اسی امر حق کی پکار کو اپنے کانوں سے سن رہے ہوں گے جس کو دنیا میں وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے، جس سے انکار کرنے پر انہیں اصرار تھا، اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ یقینی طور پر یہ آوازہ حشر سنیں گے، انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ کوئی وہم نہیں ہے بلکہ واقعی یہ آوازہ حشر ہی ہے، کوئی دبہ انہیں اس امر میں نہ رہے گا کہ جس حشر کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ آگیا ہے اور یہ اسی کی پکار بلند ہو رہی ہے۔
۵۴۔ یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر ۳ میں نقل کی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا کہ جب ہم مر کر خاک ہو چکے ہوں اس وقت ہمیں پھر سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے، یہ واپسی تو بعید از عقل و امکان ہے۔ ان کی اسی بات کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حشر، یعنی سب اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کر لینا ہمارے لیے بالکل آسان ہے۔ ہمارے لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ کس شخص کی خاک کہاں پڑی ہے ہمیں یہ جاننے میں بھی کوئی وقت نہیں پیش آئے گی کہ ان بکھرے ہوئے ذرات میں سے زید کے ذرات کون سے ہیں اور بکر کے ذرات کون سے۔ ان سب کو الگ الگ سمیٹ کر ایک ایک آدمی کا جسم پھر سے بنا دینا، اور اس جسم میں اسی شخصیت کو از سر نو پیدا کر دینا جو پہلے اس میں رہ چکی تھی، ہمارے لیے کوئی بڑا محنت طلب کام نہیں ہے، بلکہ ہمارے ایک اشارے سے یہ سب کچھ آناً فاناً ہو سکتا ہے۔ وہ تمام انسان جو آدم کے وقت سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں ہمارے ایک حکم پر بڑی آسانی سے جمع ہو سکتے ہیں۔ تمہارا چھوٹا سا دماغ اسے بعید سمجھتا ہو تو سمجھا کرے۔ خالق کائنات کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے۔
۵۵۔ اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ و سلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی۔ حضورؐ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا ہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان نمٹنا ہمارا کام ہے۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔
۵۶۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا۔ بلکہ در اصل یہ بات حضورؐ کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوائے۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جائے اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے۔