مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ ذاریات نازل ہوئی تھی۔ اس کی پڑھتے ہوئے یہ تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی، مگر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ظلم و ستم کی چکی زور شور سے چلنی شروع ہو گئی تھی۔
اس کے پہلے رکوع کا موضوع آخرت ہے ۔ سورہ ذاریات میں اس کے امکان اور وجوب اور وقوع کے دلائل دیے جا چکے تھے ، اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے ، البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فر مایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے ۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہو گا، اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کر لینے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے۔
اس کے بعد دوسرے رکوع میں سرداران قریش کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے ۔ وہ آپ کو کبھی کاہن، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں ۔ وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں ایک بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہو جائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے ۔ وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذاللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے ۔ وہ بار بار طنز کرتے تھے کہ خدا کو نبوت کے لیے ملے بھی تو بس یہ صاحب ملے ۔ وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا چال ایسی چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہو جائے۔ اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہیں اس امر کا کوئی احساس نہ تھا کہ وہ کیسے جاہلانہ عقائد میں مبتلا ہیں جن کی تاریکی سے لوگوں کو نکالنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و سلم بالکل بے غرضانہ اپنی جان کھپا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے ، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں انہیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے ۔
اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین و معاندین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت و تذکیر کا کام مسلسل جاری رکھیں ، اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے۔ اس کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو دشمنان حق کے مقابلے میں اٹھا کر اپنے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ برابر آپ کی نگہبانی کر رہا ہے ۔ جب تک اس کے فیصلے کی گھڑی آئے، آپ سب کچھ برداشت کرتے رہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے ۔
ا۔ طُور کے اصل معنی پہاڑ کے ہیں ۔ اور الطور سے مراد وہ خاص پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔
۲۔ قدیم زمانے میں جن کتابوں اور تحریروں کو زمانہ دراز تک محفوظ رکھنا ہوتا تھا انہیں کاغذ کے بجائے ہرن کی کھال پر لکھا جاتا تھا۔ یہ کھال خاص طور پر لکھنے ہی کے لیے رقیق جلد یا جھلی کی شکل میں تیار کی جاتی تھی اور اصطلاح میں اسے رَقّ کہا جاتا تھا۔ اہل کتاب بالعموم توراۃ،زَبور، انجیل اور صُحُف انبیاء کو اسی رَقّ پر لکھا کرتے تھے تاکہ طویل مدت تک محفوظ رہ سکیں ۔ یہاں کھلی کتاب سے مراد یہی مجموعہ کتب مقدسہ ہے جو اہل کتاب کے ہاں موجود تھا۔ اسے ’’کھلی کتاب‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ نایاب نہ تھا، پڑھا جاتا تھا، اور بآسانی معلوم کیا جا سکتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔
۳۔ ’’ آباد گھر‘‘ سے مراد حضرت حسن بصری کے نزدیک بیت اللہ، یعنی خانہ کعبہ ہے جو کبھی حج اور عمرہ اور طواف و زیارت کرنے والوں سے خالی نہیں رہتا۔ اور حضرت علی، ابن عباس، عِکرِمہ، مجاہد، قَتَادہ، ضحّاک، ابن زَید اور دوسرے مفسرین اس سے مراد وہ بیتِ معمور لیتے ہیں جس کا ذکر معراج کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ، جس کی دیوار سے آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ٹک لگائے دیکھا تھا۔ مجاہد، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ اہل زمین کے لیے خدا پرستوں کا مرکز و مرجع ہے ، اسی طرح ہر آسمان میں اس کے باشندوں کے لیے ایسا ہی ایک کعبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے ایسی ہی مرکزیت رکھتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک کعبہ وہ تھا جس کی دیوار سے ٹیک لگائے حضرت ابراہیم علیہ السلام معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آئے تھے ، اور اس سے حضرت ابراہیمؑ کی مناسبت فطری تھی کیونکہ آپ ہی زمین والے کعبہ کے بانی ہیں ۔ اس تشریح کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ دوسری تفسیر حضرت حسن بصری کی تفسیر کے خلاف نہیں پڑتی، بلکہ دونوں کو ملا کر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں قَسم صرف زمین ہی کے کعبہ کی نہیں کھائی گئی ہے بلکہ اس میں ان تمام کعبوں کی قَسم بھی شامل ہے جو ساری کائنات میں موجود ہیں ۔
۴۔ اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جو زمین پر ایک قُبّے کی طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے ۔ اور یہاں یہ لفظ پورے عالم بالا کے لیے استعمال ہوا ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ’’قٓ‘‘، حاشیہ نمبر ۷)۔
۵۔ اصل میں لفظ اَلْبَحْرِالْمَسجُوْر استعمال ہوا ہے ۔ اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس کو ’’ آگ سے بھرے ہوئے‘‘ کے معنی میں لیا ہے ۔ بعض اس کو فارغ اور خالی کے معنی میں لیتے ہیں جس کا پانی زمین میں اتر کر غائب ہو گیا ہو، بعض اسے محبوس کے معنی میں لیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ سمندر کو روک کر رکھا گیا ہے تاکہ اس کا پانی زمین میں اتر کر غائب بھی نہ ہو جائے اور خشکی پر چھا بھی نہ جائے کہ زمین کے سب باشندے اس میں غرق ہو جائیں ۔ بعض اسے مخلوط کے معنی میں لیتے ہیں جس کے اندر میٹھا اور کھاری، گرم اور سرد ہر طرح کا پانی آ کر مل جاتا ہے ۔ اور بعض اسکو لبریز اور موجزن کے معنی میں لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلے دو معنی تو موقع و محل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔ سمندر کی یہ دونوں کیفیات کہ اس کی تہ پھٹ کر اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے اور وہ آگ سے بھر جائے، قیامت کے وقت ظاہر ہوں گی، جیسا کہ سورہ تکویر آیت ۶، اور سورہ انفطار آیت ۳ میں بیان ہوا ہے ۔ یہ آئندہ رونما ہونے والی کیفیات اس وقت موجود نہیں ہیں کہ انکی قسم کھا کر آج کے لوگوں کو آخرت کے وقوع کا یقین دلایا جائے۔ اس لیے ان دو معنوں کو ساقط کر کے یہاں البحر المسجور کو محبوس، مخلوط، اور لبریز د موجزن کے معنی ہی میں لیا جا سکتا ہے ۔
۶۔ یہ ہے وہ حقیقت جس پر ان پانچ چیزوں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ رب کے عذاب سے مراد آخرت ہے ۔ چونکہ یہاں اس پر ایمان لانے والے مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس کا انکار کرنے والے مخاطب ہیں ، اور ان کے حق میں اس کا آنا عذاب ہی ہے ، اس لیے اس کو قیامت یا آخرت یا روز جزا کہنے کے بجائے’’ رب کا عذاب‘‘ کہا گیا ہے ۔اب غور کیجیے کہ اس کے وقوع پر وہ پانچ چیزیں کس طرح دلالت کرتی ہیں جن کی قَسم کھائی گئی ہے ۔
طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب و قاہر قوم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا، اور یہ فیصلہ قانونِ طبیعی (Physical Law) کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون اخلاقی(Moral Law ) اور قانون مکافات (Law of Retribution) کی بنیاد پر تھا۔ اس لیے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال کے طَور پر طُور کو بطور ایک علامت کے پیش کیا گیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل جیسی ایک بے بس قوم کا اٹھایا جانا اور فرعون جیسے ایک زبردست فرمانروا کا اپنے لشکروں سمیت غرق کر دیا جاتا، جس کا فیصلہ ایک سنسان رات میں دہ طُور پر کیا گیا تھا، انسانی تاریخ میں اس امر کی ایک نمایاں ترین مثال ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح انسان جیسی ایک ذی عقل و ذی اختیار مخلوق کے معاملہ میں اخلاقی محاسبے اور جزائے اعمال کا تقاضا کرتا ہے ، اور اس تقاضے کی تکمیل کے لیے ایک ایسا یوم الحساب ضروری ہے جس میں پوری نوع انسانی کو اکٹھا کر کے اس کا محاسبہ کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ ۲۱)۔
کُتُب مُقدَّسہ کے مجموعے کی قَسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے اور جو کتابیں بھی وہ لائے، ان سب نے ہر زمانے میں وہی ایک خبر دی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں ، یعنی یہ کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو ایک دن از سر تو زندہ ہو کر اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا پانی ہے ۔ کوئی کتاب آسمانی کبھی ایسی نہیں آئی ہے جو اس خبر سے خالی ہو، یا جس نے انسان کو الٹی یہ اطلاع دی ہو کہ زندگی جو کچھ بھی ہے نس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اور انسان بس مر کر مٹی ہو جانے والا ہے جس کے بعد نہ کوئی حساب ہے کہ کتاب۔
بیت المعمور کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ خاص طور پر اہل عرب کے لیے اس زمانے میں خانہ کعبہ کی عمارت ایک ایسی کھلی نشانی تھی جو اللہ کے پیغمبروں کی صداقت پر اور اس حقیقت پر کہ اللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ و قدرت قاہر ان کی پشت پر ہے ، صریح شہادت دے رہی تھی۔ ان آیات کے نزول سے ڈھائی ہزار برس پہلے بے آب و گیاہ اور خیر آباد پہاڑوں میں ایک شخص کسی لاؤ لشکر اور سر و سامان کے بغیر آتا ہے اور اپنی ایک بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو بالکل بے سہارا چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ پھر کچھ مدت بعد وہی شخص آ کر اس سنسان جگہ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بناتا ہے اور پکار دیتا ہے کہ لوگو، آؤ اس گھر کا حج کرو۔ اس تعمیر اور اس پکار کو یہ حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہی گھر تمام اہل عرب کا مرکز بن جاتا ہے ، اس پکار پر عرب کے ہر گوشے سے لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے کھچے چلے آتے ہیں ، ڈھائی ہزار برس تک یہ گھر ایسا امن کا گہوارہ بنا رہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش سارے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اس کے حدود میں آ کر کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی، اور اسی گھر کی بدولت عرب کو ہر سال چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے ہیں جن میں قافلے اطمینان سے سفر کرتے ہیں ، تجارت چمکتی ہے اور بازار لگتے ہیں ۔ پھر اس گھر کا یہ دبدبہ تھا کہ اس پوری مدت میں کوئی بڑے سے بڑا جبار بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکا، اور جس نے یہ جرأت کی وہ اللہ کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ عبرت بن کر رہ گیا۔یہ کرشمہ ان آیات کے نزول سے صرف ۴۵ ہی برس پہلے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور اس کے دیکھنے والے بہت سے آدمی اس وقت مکہ معظمہ میں زندہ موجود تھے جب یہ آیات اہل مکہ کو سنائی جا رہی تھیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا چیز اس بات کی دلیل ہو سکتی تھی کہ خدا کے پیغمبر ہوائی باتیں نہیں کیا کرتے ۔ اس کی آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں ۔ ان کی زبان پر وہ حقائق جاری ہوتے ہیں جن تک دوسروں کی عقل نہیں پہنچ سکتی۔ وہ بظاہر ایسے کام کرتے ہیں جن کو ایک وقت کے لوگ دیکھیں تو دیوانگی سمجھیں اور صدیوں بعد کے لوگ ان ہی کو دیکھ کر ان کی بصیرت پر دنگ رہ جائیں ۔ اس شان کے لوگ جب بالاتفاق ہر زمانے میں یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ قیامت آئے گی اور حشر و نشر ہو گا تو اسے دیوانوں کی بڑ سمجھنا خود دیوانگی ہے ۔
اُونچی چھت (آسمان) اور موجزن سمندر کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں اس اسی حکمت و قدرت سے آخرت کا امکان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا وقوع و وجوب بھی۔ آسمان کی دلالت پر ہم اس سے پہلے تفسیر سورۃ ’’ق‘‘ حاشیہ نمبر ۷ میں کلام کر چکے ہیں ۔ رہا سمندر، تو جو شخص بھی انکار کا پیشگی فیصلہ کیے بغیر اس کو نگاہ غور سے دیکھے گا اس کا دل یہ گواہی دے گا کہ زمین پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کا فراہم ہو جانا بجائے خود ایک ایسی کاریگری ہے جو کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ پھر اس کے ساتھ اتنی بے شمار حکمتیں وابستہ ہیں کہ اتفاقاً ایسا حکیمانہ نظام قائم ہو جانا ممکن نہیں ہے ۔ اس میں بے حد و حساب حیوانات پیدا کیے گئے ہیں جن میں سے ہر نوع کا نظام جسمانی ٹھیک اس گہرائی کے لیے موزوں بنایا گیا ہے جس کے اندر اسے رہنا ہے ۔ اس کے پانی کو تمکین بنا دیا گیا ہے تاکہ روزانہ کروڑوں جانور جو اس میں مرتے ہیں ان کی لاشیں سڑ نہ جائیں ۔ اس کے پانی کو ایک خاص حد پر اس طرح روک رکھا گیا ہے کہ نہ تو وہ زمین کے شگافوں سے گزر کر اس کے پیٹ میں اتر جاتا ہے اور نہ خشکی پر چڑھ کر اسے غرق در دیتا ہے ، بلکہ لاکھوں کروڑوں برس سے وہ اسی حد پر رُکا ہوا ہے ۔اسی عظیم ذخیرہ آب کے موجود اور برقرار رہنے سے زمین کے خشک حصوں پر بارش کا انتظام ہوتا ہے جس میں سورج کی گرمی اور ہواؤں کی گردش اس کے ساتھ پوری باقاعدگی کے ساتھ تعاون کرتی ہے ۔ اسی کے غیر آباد نہ ہونے اور طرح طرح کی مخلوقات اس میں پیدا ہونے سے یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ انسان اس سے اپنی غزا اور اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں کثیر مقدار میں حاصل کر رہا ہے ۔ اسی کے ایک حد پر رکے رہنے سے وہ بر اعظم اور جزیرے قائم ہیں جن پر انسان بس رہا ہے اور اسی کے چن اٹل قواعد کی پابندی کرنے سے یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اس میں جہاز رانی کر سکے ۔ ایک حکیم کی حکمت اور ایک قادر مطلق کی زبردست قدرت کے بغیر اس انتظام کا تصور نہیں کیا گا سکتا اور نہ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انسان اور زمین کی دوسرے مخلوقات کے مفاد سے سمندر کے اس انتظام کا یہ گہرا تعلق بس الل ٹپ ہی قائم ہو گیا ہے ۔ اب اگر فی الواقع یہ اس امر کی ناقابل انکار شہادت ہے کہ ایک خدائے حکیم و قادر نے انسان کو زمین پر آباد کرنے کے لیے دوسرے بے شمار انتظامات کے ساتھ یہ بحر شور بھی اس شان کا پیدا کیا ہے تو وہ شخص سخت احمق ہو گا جو اس حکیم سے اس نادانی کی توقع رکھے کہ وہ اس سمندر سے انسان کی کھیتیاں سیراب کرنے اور اس کے ذریعہ سے انسان کو رزق دینے کا انتظام تو کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ تو نے میرا رزق کھا کر اس کا حق کیسے ادا کیا، اور وہ اس سمندر کے سینے پر اپنے جہاز دوڑانے کی قدرت تو انسان کو عطا کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ یہ جہاز تو نے حق اور راستی کے ساتھ دوڑائے تھے یا ان کے ذریعے سے دنیا میں ڈاکے مارتا پھرتا تھا۔ اسی طرح یہ تصور کرنا بھی ایک بہت بڑی کند ذہنی ہے کہ جس قادر مطلق کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس عظیم الشان سمندر کی تخلیق ہے ، جس نے فضا میں گھومنے والے اس معلق کُرّے پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کو تھام رکھا ہے ، جس نے نمک کی اتنی بڑی مقدار اس میں گھول دی ہے ، جس نے طرح طرح کی ان گنت مخلوقات اس میں پیدا کی ہیں اور ان سب کی رزق رسانی کا انتظام اسی کے اندر کر دیا ہے ، جو ہر سال اربوں ٹن پانی اس میں سے اٹھا کر ہوا کے دوش پر لے جاتا ہے اور کروڑوں مربع میل کے خشک علاقہ پر اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ برساتا رہتا ہے ، وہ انسان کا ایک دفعہ پیدا کر دینے کے بعد ایسا عاجز ہو جاتا ہے کہ پھر اسے پیدا کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا۔
۷۔ اصل الفاظ ہیں تَمُوْرُ السَّمَآءُ مُوْراً۔ مَور عربی زبان میں گھومنے ، اَونٹنے ، پھڑکنے ، جھوم جھوم کر چلنے ، چکر کھانے اور بار بار آگے پیچھے حرکت کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے دن آسمان کی جو حالت ہو گی اسے ان الفاظ میں بیان کر کے یہ تصور دلایا گیا ہے کہ اس روز عالم بالا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور دیکھنے والا جب آسمان کی رف سیکھے گا تو اسے یوں محسوس ہو گا کہ وہ جما جمایا نقشہ جو ہمیشہ ایک ہی شان سے نظر آتا تھا، بگڑ چکا ہے اور ہر طرف ایک اضطراب برپا ہے ۔
۸۔ دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ گرفت جس نے پہاڑوں کو جما رکھا ہے ، ڈھیلی پڑ جائے گی اور وہ اپنی جڑوں سے اکھڑ کر فضا میں اس طرح اڑنے لگیں گے جیسے بادل اڑے پھرتے ہیں ۔
۹۔ مطلب یہ ہے کہ بی سے قیامت اور آخرت اور جنت و دوزخ کی خبریں سن کر انہیں مذاق کا موضوع بنا رہے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے کے بجائے محض تفریحاً ان پر باتیں چھانٹ رہے ہیں ۔آخرت پر ان کی بحثوں کا مقصود حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہے ، بلکہ ایک کھیل ہے جس سے یہ دل بہلاتے ہیں اور انہیں کچھ ہوش نہیں ہے کہ فی الواقع یہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں ۔
۱۰۔ یعنی دنیا میں جب رسول تمہیں اس جہنم کے عذاب سے ڈراتے تھے تو تم کہتے تھے کہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے جس سے ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔ اب بولو، یہ جہنم جو تمہارے سامنے ہے یہ اسی جادو کا کرشمہ ہے یا اب بھی تمہیں نہ سوجھا کہ واقعی اسی جہنم سے تمہارا پالا پڑ گیا ہے جس کی خبر تمہیں دی جا رہی تھی؟
۱۱۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے انبیاء کی دی ہوئی خبر پر ایمان لا کر دنیا ہی میں اپنا بچاؤ کر لیا اور ان افکار و اعمال سے پرہیز کیا جن سے انسان جہنم کا مستحق بنتا ہے ۔
۱۲۔ کسی شخص کے داخل جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ اور یہ ارشاد کہ ’’ اللہ نے ان کو عذاب دوزخ سے بچا لیا‘‘ در اصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جاتا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے ، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے ان کو نظر انداز نہ فرمائے اور سخت محاسبے پر اتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے۔
۱۳۔ یہاں ’’ مزے سے ‘‘ کے الفاظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اس کے ختم ہو جانے یا اس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہو گا۔ اس کے لیے انسان کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔وہ عین اس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہو گا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جائے گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہو گا کہ کچھ طلب کرتے ہوئے شرمائے بلکہ سب کچھ اس کے اپنے گذشتہ اعمال کا صلہ اور اس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمرہ ہو گا۔اس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہو گا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف لذت حاصل کرنے کے لیے ہو گا اور آدمی جتنی لذت بھی اس سے اٹھانا چاہے ، اٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوء ہضم لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہو گی۔اس لیے دنیا میں ’’ مزے سے ‘‘ کھانے پینے کا جو مفہوم ہے ، جنت میں مزے سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدر جہا زیادہ اور وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے ۔
۱۴۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ الصافات حواشی ۲۶۔ ۲۹۔ الدخان حاشیہ ۴۲۔
۱۵۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت ۲۳، اور سورہ مومن آیت ۸ میں بھی گزر چکا ہے ، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ سورہ رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔ اور سورہ مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں نہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے ۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہو گا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کر لیا کرے ، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے ۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جائے گا، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جائے گا۔
اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے ۔
۱۶۔ یہاں ’’ رہن‘‘ کا استعارہ بہت معنی خیز ہے ۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا،اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کرائے تو شئے مر ہو نہ ضبط ہو جاتی ہے ۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے ، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے ۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کمائے جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ شئے مرہونہ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا، ورنہ اسے ضبط کر لیا جائے گا۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجائے خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں ، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑائے۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی. البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جائے تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے ۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے ، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جائے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے ۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جائے۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جائے گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جائے گا، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جائے کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو۔
۱۷۔ اس آیت میں اہل جنت کو مطلقاً ہر قسم کا گوشت دیے جانے کا ذکر ہے ، اور سورہ واقعہ آیت ۲۱ میں فرمایا گیا ہے کہ پرندوں کے گوشت سے ان کی تواضع کی جائے گی۔ اس گوشت کی نوعیت ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے ۔ مگر جس طرح قرآن کی بعض تصریحات اور بعض احادیث میں جنت کے دودھ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا نہ ہو گا،اور جنت کے شہد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ مکھیوں کا بنایا ہوا نہ ہو گا، اور جنت کی شراب کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ پھلوں کو سڑا کر کشید کی ہوئی نہ ہو گی، بلکہ اللہ کی قدرت سے یہ چیزیں چشموں سے نکلیں گی اور نہروں میں بہیں گی، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جنت کا گوشت بھی جانوروں کا ذبیحہ نہ ہو گا بلکہ یہ بھی قدرتی طور پر پیدا ہو گا۔ جو خدا زمین کے مادوں سے براہ راست دودھ اور شہد اور شراب پیدا کر سکتا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ ان ہی مادوں سے ہر طرح کا لذیذ ترین گوشت پیدا کر دے جو جانوروں کے گوشت سے بھی اپنی لذت میں بڑھ کو ہو (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۵۔ جلد پنجم، تفسیر سورہ محمد حواشی ۲۱ تا ۲۳۔
۱۸۔ یعنی وہ شراب نشہ پیدا کرنے والی نہ ہو گی کہ اسے پی کر وہ بد مست ہوں اور بیہودہ بکواس کرنے لگیں ، یا گالم گلوچ اور دَھول دھپے پر اُتر آئیں ، یا اس طرح کی فحش حرکات کرنے لگیں جیسی دنیا کی شراب پینے والے کرتے ہیں ۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۷)۔
۱۹۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غُلْمَا نھُُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَا نٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَا نُہُمْ فرمایا جاتا تو اس کے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اپنے استحقاق کی بنا پر جائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جائے جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پائے۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں دہنے دی گئی۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ ۲۶)۔
۲۰۔ یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوئے زندگی بس کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی نا جائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جائے، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے ۔
۲۱۔ اصل میں لفظ سَمُوم استعمال ہوا ہے جس کے معنی سخت گرم ہوا کے ہیں ۔ اس سے مراد لُو کی وہ لپیٹیں ہیں جو دوزخ سے اٹھ رہی ہوں گی۔
۲۲۔ اوپر آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب تقریر کا رخ کفار مکہ کی ان ہٹ دھرمیوں کی طرف پھر رہا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہاں خطاب بظاہر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر دراصل آپ کے واسطے سے یہ باتیں کفار مکہ کو سنائی مقصود ہیں ۔ ان کے سامنے جب آپ قیامت، اور حش و نشر، اور حساب و کتاب، اور جزا و سزاء اور جنت و جہنم کی باتیں کرتے تھے ، اور ان مضامین پر مشتمل قرآن مجید کی آیات اس دعوے کے ساتھ ان کو سناتے تھے کہ یہ خبریں اللہ کی طرف سے میرے پاس آئی ہیں اور یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے ، تو ان کے سردار اور مذہبی پیشوا اور اَوباش لوگ آپ کی ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ نہ خود غور کرتے تھے ، نہ یہ چاہتے تھے کہ عوام ان کی طرف توجہ کریں ۔ اس لیے وہ آپ کے اوپر کبھی یہ فقرہ کستے تھے کہ آپ کاہن ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ مجنون ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ شاعر ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ خود اپنے دل سے یہ نرالی باتیں گھڑتے ہیں اور محض اپنا رنگ جمانے کے لیے انہیں خدا کی نازل کردہ وحی کہہ کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کے فقرے کس کر وہ لوگوں کو آپ کی طرف سے بدگمان کر دیں گے اور آپ کی ساری باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی، واقعی حقیقت تو وہی کچھ ہے جو سورۃ کے آغاز سے یہاں تک بیان کی گئی ہے ۔ اب اگر یہ لوگ ان باتوں پر تمہیں کاہن اور مجنون کہتے ہیں تو پروا نہ کرو اور بندگان خدا کو غفلت سے چونکانے اور حقیقت سے خبردار کرنے کا کام کرتے چلے جاؤ، کیونکہ خدا کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون۔
’’کاہن‘‘ عربی زبان میں جوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا، اس ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں ، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں ۔کوئی چیز کھوئی جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے ۔ کسی کے ہاں چوری ہو جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے ۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے ۔اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی بسا اوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے ۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے ۔ قریش کے سرداروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کاہن ہونے کا الزام صرف اس بنا پر لگا دیا کہ آپ ان حقائق کی خبر دے رہے تھے جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ، اور آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آ کر آپ پر وحی نازل کرتا ہے ، اور خدا کا جو کلام آپ پیش کر رہے تھے وہ بھی مقفّیٰ تھا۔ لیکن عرب میں کوئی شخص بھی ان کے اس الزام سے دھوکا نہ کھا سکتا تھا۔ اس لیے کہ کاہنوں کے پیشے اور ان کی وضع قطع اور ان کی زبان اور ان کے کاروبار سے کوئی بھی نا واقف نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ، اور کن مضامین پر وہ مشتمل ہوتے ہیں ۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کاہن کا سرے سے یہ کام ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ قوم کے رائج الوقت عقائد کے خلاف ایک عقیدہ لے کر اٹھتا اور شب و روز اس کی تبلیغ میں اپنی جان کھپاتا اور اس کی خاطر سری قوم کی دشمنی مول لیتا۔ اس لیے رسل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کہانت کا یہ الزام برائے نام بھی کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا کہ یہ پھبتی آپ پر چسپاں ہو سکتی اور عرب کا کوئی کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا۔
اسی طرح آپ پر جنون کا الزام بھی کفار مکہ محض اپنے دل کی تسلی کے لیے لگاتے تھے جیسے موجودہ زمانے کے بعض بے شرم مغربی مصنفین اسلام کے خلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعوے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ حضور پر صرع (Epilepsy) کے دورے پڑتے تھے اور انہی دوروں کی حالت میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا اسے لوگ وحی سمجھتے تھے ۔ ایسے بیہودہ الزامات کو کسی صاحب عقل آدمی نے نہ اس زمانے میں قابل اعتنا سمجھا تھا، نہ آج کوئی شخص قرآن کو پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرع کے دوروں کا کرشمہ ہے ۔
۲۳۔ یعنی ہم منتظر ہیں کہ اس شخص پر کوئی آفت آئے اور کسی طرح اس سے ہمارا پیچھا چھوٹے ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ ہمارے معبودوں کی مخالفت اور ان کی کرامات کا انکار کرتے ہیں ، اس لیے یا تو معاذ اللہ، ان پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑے گی، یا کوئی دل چلا اِن کی یہ باتیں سن کر آپے سے باہر ہو جائے گا اور انہیں قتل کر دے گا۔
۲۴۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ میں بھی دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ میں بھی منتظر ہوں کہ شامت میری آتی ہے یا تمہاری۔
۲۵۔ ان دو فقروں میں مخالفین کے سارے پروپیگنڈے کی ہو نکال کر انہیں بالکل بے نقاب کر دیا گیا ہے ۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قریش کے سردار اور مشائخ بڑے عقلمند بنے پھرتے ہیں ، مگر کیا ان کی عقل یہی کہتی ہے کہ جو شخص شاعر نہیں ہے اسے شاعر کہو، جسے ساری قوم ایک دانا آدمی کی حیثیت سے جانتی ہے اسے مجنون کہو، اور جس شخص کا کہانت سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہیں ہے اسے خواہ مخواہ کاہن قرار دو۔ پھر اگر عقل کی بنا پریہ لوگ حکم لگاتے تو کوئی ایک حکم لگاتے ۔ بہت سے متضاد حکم تو ایک ساتھ نہیں لگا سکتے تھے ۔ ایک شخص آخر بیک وقت شاعر ہے تو کاہن نہیں ہو سکتا، کیونکہ شعر کی زبان اور اس کے موضوعات بحث الگ ہوتے ہیں اور کہانت کی زبان اور اس کے مضامین الگ۔ ایک ہی کلام کو بیک وقت شعر بھی کہنا اور کہانت بھی قرار دینا کسی ایسے آدمی کا کام نہیں ہو سکتا جو شعر اور کہانت کا فرق جانتا ہو۔ پس یہ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں یہ متضاد باتیں عقل سے نہیں بلکہ سراسر ضد اور ہٹ دھرمی سے کی جا رہی ہیں ، اور قوم کے یہ بڑے بڑے سردار عناد کے جوش میں اندھے ہو کر محض بے سر و پا الزامات لگا رہے ہیں نہیں کوئی سنجیدہ انسان قابل اعتنا نہیں سمجھ سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۱۰۴، یونس، حاشیہ ۳۔ بنی اسرائیل، حواشی ۵۳۔ ۵۴۔ جلد سوم، الشعراء، حواشی ۱۳۰،۱۳۱، ۱۴۰،۱۴۲،۱۴۳۔۱۴۴۔ )
۲۶۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے ہیں خود ان کا دل یہ جانتا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہو سکتا، اور دوسرے وہ لوگ بھی جو اہل زبان ہیں نہ صرف یہ کہ اسے سن کر صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ انسانی کلام سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے بلکہ ان میں سے جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے واقف ہے وہ کبھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ واقعی آپ ہی کا کلام ہے ۔ پس صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کو آپ کی تصنیف قرار دینے والے در اصل ایمان نہیں لانا چاہتے اسلیے وہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے گھڑ رہے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۱۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ ۱۲۔ القصص، حاشیہ ۶۴۔ العنکبوت، حاشیہ ۸۸۔ ۸۹۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ ۱ تا ۴۔ حٰم السجدہ، حاشیہ۔ ۵۴۔ الاحقاف، حاشیہ ۸ تا ۱۰)۔
۲۷۔ یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے انسانی کلام ہی نہیں ہے اور یہ بات انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسا کلام تصنیف کر سکے ۔ اگر تم سے انسانی کلام کہتے ہو تو اس پائے کا کوئی کلام لا کر دکھاؤ جسے کسی انسان نے تصنیف کیا ہو۔ یہ چیلنج نہ صرف قریش کو، بلکہ تمام دنیا کے منکرین کو سب سے پہلے اس آیت میں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد تین مرتبہ مکہ معظمہ میں اور پھر آخری بار مدینہ منورہ میں اسے دہرایا گیا(ملاحظہ ہو یونس، آیت ۳۸۔ ہود، ۱۳، بنی اسرائیل، ۸۸۔ البقرہ،۲۳)۔ مگر کوئی اس کا جواب دینے کینہ اس وقت ہمت کر سکا نہ اس کے بعد آج تک کسی کی یہ جرأت ہوئی کہ قرآن کے مقابلہ میں کسی انسانی تصنیف کو لے آئے۔
بعض لوگ اس چیلنج کی حقیقی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ایک قرآن ہی کیا، کسی شخص کے اسٹائل میں بھی دوسرا کوئی شخص نثر یا نظم لکھنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ہومر، رومی، شکسپیئر، گوئٹے ، غالب، ٹیگور، اقبال، سب ہی اس لحاظ سے بے مثل ہیں کہ ان کی نقل اتار کر انہی جیسا کلام بنا لانا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ قرآن کے چیلنج کا یہ جواب دینے والے در اصل اس غلط فہمی میں ہیں کہ فَلْیَأ تَوْبِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ کا مطلب قرآن کے اسٹائل میں اس جیسی کوئی کتاب لکھ دینا ہے ۔ حالانکہ اس سے مراد سٹائل میں مماثلت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس پائے اور اس شان اور اس مرتبے کی کوئی کتاب لے آؤ جو صرف عربی ہی میں نہیں ، دنیا کی کسی زبان میں ان خصوصیات کے لحاظ سے قرآن پہلے بھی معجزہ تھا اور آج بھی معجزہ ہے ۔
(۱)۔ جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کے ادب کا وہ بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ پوری کتاب میں ایک لفظ اور ایک جملہ بھی معیار سے گرا ہوا نہیں ہے ۔ جس مضمون کو بھی ادا کیا گیا ہے موزوں ترین الفاظ اور مناسب ترین انداز بیان میں ادا کیا گیا ہے ۔ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا ہے اور ہر مرتبہ پیرایہ بیان نیا ہے جس سے تکرار کی بد نمائی کہیں پیدا نہیں ہوتی۔ اول سے لے کر آخر تک ساری کتاب میں الفاظ کی نشست ایسی ہے جیسے نگینے تراش تراش کر جڑے گئے ہوں ۔ کلام اتنا مؤثر ہے کہ کوئی زبان داں آدمی اسے سن کر سر دھنے بغیر نہیں رہ سکتا، حتیٰ کہ منکر اور مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ۔ ۱۴ سو برس گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ کتاب اپنی زبان کے ادب کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے جس کے برابر تو درکنار، جس کے قریب بھی عربی زبان کی کوئی کتاب اپنی ادبی قدر و قیمت میں نہیں پہنچتی۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ کتاب عربی زبان کو اس طرح پکڑ کر بیٹھ گئی ہے کہ ۱۴ صدیاں گزر جانے پر بھی اس زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا، حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املاء، انشاء، محاورے ، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو۔لیکن یہ قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے نہ دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے ۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے ۔اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے ، اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو ۱۴ سو برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔ کیا دنیا کی کسی زبان میں کوئی انسانی تصنیف اس شان کی ہے ؟
(۲ )۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے کہ دنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور ایک مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے ، ۱۴ سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے ، اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جا رہے ہیں ۔
(۳)۔ جو موضوع سے یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ ایک وسیع ترین موضوع ہے جس کا دائرہ ازل سے ابد تک پوری کائنات پر حاوی ہے ۔ وہ کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر کلام کرتی ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق اور ناظم و مدبر کون ہے ،کیا اس کی صفات ہیں ، کیا اس کے اختیارات ہیں ، اور وہ حقیقت نفس الامری کیا ہے جس پر اس نے یہ پورا نظام عالم قائم کیا ہے ۔ وہ اس جہان میں انسان کی حیثیت اور اس کا مقام ٹھیک ٹھیک مشخّص کر کے بتاتی ہے کہ یہ اس کا فطری مقام اور یہ اس کی پیدائشی حیثیت ہے جسے بدل دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مقام اور اس حیثیت کے لحاظ سے انسان کے لیے فکر و عمل کا صحیح راستہ کیا ہے جو حقیقت سے پوری مطابقت رکھتا ہے اور غلط راستے کیا ہیں جو حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں ۔ صحیح راستے کے صحیح ہونے اور غلط راستوں کے غلط ہونے پر وہ زمین و آسمان کی ایک ایک چیز سے ، نظام کائنات کے ایک ایک گوشے سے ، انسان کے اپنے نفس اور اس کے وجود سے اور انسان کی اپنی تاریخ سے بے شمار دلائل پیش کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان غلط راستوں پر کیسے اور کن اسباب سے پڑتا رہا ہے ، اور صحیح راستہ،جو ہمیشہ سے ایک ہی تھا اور ایک ہی رہے گا،کس ذریعہ سے اس کو معلوم ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر زمانے میں اس کو بتایا جاتا رہا ہے ۔ وہ صحیح راستے کی صرف نشان وہی کر کے نہیں رہ جاتی بلکہ اس راستے پو چلنے کے لیے ایک پورے نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد، اخلاق،تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت قانون، غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے ۔ مزید براں وہ پوری تفصیل کے ساتھ بتاتی ہے کہ اس صحیح راستے کی پیروی کرنے اور ان غلط راستوں پر چلنے کے کیا نتائج اس دنیا میں ہیں اور کیا نتائج دنیا کا موجودہ نظام ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے عالم میں رونما ہونے والے ہیں ۔ وہ اس دنیا کے ختم ہونے اور دوسرا عالم برپا ہونے کی نہایت مفصل کیفیت بیان کرتی ہے ، اس تغیر کے تمام مراحل ایک ایک کر کے بتاتی ہے ، دوسرے عالم کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے ، اور پھر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ وہاں انسان کیسے ایک دوسری زندگی پائے گا، کس طرح اس کی دنیوی زندگی کے اعمال کا محاسبہ ہو گا، کن امور کی اس سے باز پرس ہو گی، کیسی ناقابل انکار صورت میں اس کا پورا امہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا، کیسی زبردست شہادتیں اس کے ثبوت میں پیش کی جائیں گی، جزا اور سزا پانے والے کیوں جزا اور سزا پائیں گے ، جزا پا نے والوں کو کیسے انعامات ملیں گے اور سزا پانے والے کس کس شکل میں اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گے ۔ اس وسیع مضمون پر جو کلام اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اس حیثیت سے نہیں ہے کہ اس کا مصنف کچھ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر چند قیاسات کی ایک عمارت تعمیر کر رہا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس کا مصنف حقیقت کا براہ راست علم رکھتا ہے ، اس کی نگاہ ازل سے ابد تک سب کچھ دیکھ رہی ہے ، تمام حقائق اس پر عیاں ہیں ، کائنات پوری کی پوری اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ، نوع انسانی کے آغاز سے اس کے خاتمہ تک ہی نہیں بلکہ خاتمہ کے بعد اس کی دوسری زندگی تک بھی وہ اس کو بیک نظر دیکھ رہا ہے ، اور قیاس و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر انسان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ جو تصور کائنات و انسان وہ پیش کرتا ہے وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے اور ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے ۔ پھر عملی حیثیت سے جو رہنمائی اس نے زندگی کے ہر پہلو کے متعلق انسان کو دی ہے وہ صرف انتہائی معقول اور انتہائی پاکیزہ ہی نہیں ہے بلکہ ۱۴ سو سال سے روئے زمین کے مختلف گوشوں میں بے شمار انسان بالفعل اس کی پیروی کر رہے ہیں اور تجربے بے اس کو بہترین ثابت کیا ہے ۔ کیا اس شان کی کوئی انسانی تصنیف دنیا میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہے جسے اس کتاب کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو؟
(۴)۔ یہ کتاب پوری کی پوری بیک وقت لکھ کر دنیا کے سامنے پیش نہیں کر دی گئی تھی بلکہ چند ابتدا ابتدائی ہدایات کے ساتھ ایک تحریک اصلاح کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کے بعد ۲۳ سال تک وہ تحریک جن جن مرحلوں سے گزرتی رہی ان کے حالات اور ان کی ضروریات کے مطابق اس کے اجزاء اس تحریک کے رہنما کی زبان سے کبھی طویل خطبوں اور کبھی مختصر جملوں کی شکل میں ادا ہوتے رہے ۔ پھر اس مشن کی تکمیل پر مختلف اوقات میں صادر ہونے والے یہ اجزاء اس مکمل کتاب کی صورت میں مرتب ہو کر دنیا کے سامنے رکھ دیے گئے جسے ’’قرآن‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ تحریک کے رہنما کا بیان ہے کہ یہ خطبے اور جملے اس کے طبعزاد نہیں ہیں بلکہ خدا وند علام کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں خود اس رہنما کے طبعزاد قرار دیتا ہے تو وہ دنیا کی پوری تاریخ سے کوئی نظیر ایسی پیش کرے کہ کسی انسان نے سالہا سال تک مسلسل ایک زبردست اجتماعی تحریک کی بطور خود رہنمائی کرتے ہوئے کبھی ایک واعظ اور معلم اخلاق کی حیثیت سے ، کبھی ایک مظلوم جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ، کبھی ایک مملکت کے فرمانروا کی حیثیت سے ، کبھی ایک برسر جنگ فوج کے قائد کی حیثیت سے ، کبھی ایک فاتح کی حیثیت سے ، کبھی ایک شارع اور مقنن کی حیثیت سے اغراض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سے مختلف حیثیت سے ، غرض بکثرت مختلف حالات اور اوقات میں بہت سی مختلف حیثیتوں سے جو مختلف تقریریں کی ہوں یا باتیں کہی ہوں وہ جمع ہو کر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر و عمل بنا دیں ، ان میں کہیں کوئی تناقُص اور تضاد نہ پایا جائے، ان میں ابتدا سے انتہا تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ہی مرکزی تخیل اور سلسلہ فکر کار فرما نظر آئے، اس نے اول روز سے اپنی دعوت کی جو بنیاد بیان کی ہو آخری دن تک اسی بنیاد پر وہ عقائد و اعمال کا ایک ایسا ہمہ گیر نظام بناتا چلا جائے جس کا ہر جز دوسرے اجزاء سے کامل مطابقت رکھتا ہے ، اور اس مجموعہ کو پڑھنے والا کوئی صاحب بصیرت آدمی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ تحریک کا آغاز کرتے وقت اس کے متحرک کے سامنے آخری مرحلے تک کو پورا نقشہ موجود تھا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بیچ کے کسی مقام پر اس کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آیا ہو جو پہلے اس پر منکشف نہ تھا یا جسے بعد میں اس کو بدلنا پڑا۔ اس شان کا کوئی انسان اگر کبھی گزرا ہو جس نے اپنے ذہن کی خلاقی کا یہ کمال دکھایا ہو تو اس کی نشان دہی کی جائے۔
(۵)۔ جس رہنما کی زبان پر یہ خطبے اور جملے جاری ہوئے تھے وہ یکایک کسی گوشے سے نکل کر صرف ان کو سنانے کے لیے نہیں آ جاتا تھا اور انہیں سنانے کے بعد کہیں چال نہیں جاتا تھا۔ سہ اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر چکا تھا اور اس کے بعد بھی وہ زندگی کی آخری ساعت تک ہر وقت اسی معاشرے میں رہتا تھا۔ اس کی گفتگو اور تقریروں کی زبان اور طرز بیان سے لوگ بخوبی آشنا تھے ۔ احادیث میں ان کا ایک بڑا حصہ اب بھی محفوظ ہے جسے بعد کے عربی داں لوگ پڑھ کر خود بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اس رہنما کا اپنا طرز کلام کیا تھا۔اس کے ہم زبان لوگ اس وقت بھی صاف محسوس کرتے تھے اور آج بھی عربی زبان کے جاننے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کتاب کی زبان اور اس کا اسٹائل اس رہنما کی زبان اور اس کے اسٹائل سے بہت مختلف ہے ، حتّیٰ کہ جہاں اس کے کسی خطبے کے بیچ میں اس کتاب کی کوئی عبارت آ جاتی ہے وہاں دونوں کی زبان کا فرق بالکل نمایاں نظر آتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سالہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل در اصل ایک ہی شخص کے ہیں ؟ عارضی اور وقتی طور پر اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا تو ممکن ہے ۔ لیکن مسلسل ۲۳ سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص جب خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر کلام کرے تو اس کی زبان اور اسٹائل کچھ ہو، اور جب خود اپنی طرف سے گفتگو یا تقریر کر لے تو اس کی زبان اور اس کا اسٹائل بالکل ہی کچھ اور ہو۔
(۶)۔ وہ رہنما اس تحریک کی قیادت کے دوران میں مختلف حالات سے دو چار ہوتا رہا۔ کبھی برسوں وہ اپنے ہم وطنوں اور اپنے قبیلے والوں کی تضحیک، توہین اور سخت ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا یہ کبھی اس کے ساتھیوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئے۔ کبھی دشمنوں نے اس کے قتل کی سازشیں کیں ۔ کبھی خود اسے اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی۔ کبھی اس کو انتہائی حسرت اور فاقہ کسی کی زندگی گزارنی پڑی۔ کبھی اسے پیہم لڑائیوں سے سابقہ پیش آیا جن میں شکست اور فتح، دونوں ہی ہوتی رہیں ۔ کبھی وہ دشمنوں پر غالب آیا اور وہی دشمن جنہوں نے اس پر ظلم توڑے تھے ، اس کے سامنے سرنگوں نظر آئے۔ کبھی اسے وہ اقتدار نصیب ہوا جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔ ان تمام حالات میں انسان کے جذبات ظاہر ہے کہ یکساں نہیں رہ سکتے ۔ اس رہنما نے ان مختلف مواقع پر خود اپنی ذاتی حیثیت میں جب کبھی کلام کیا، اس میں ان جذبات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو ایسے مواقع پر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کے طور پر ان مختلف حالات میں جو کلام اس کی زبان سے سنا گیا وہ انسانی جذبات سے بالکل خالی ہے ۔ کسی ایک مقام پر بھی کوئی بڑے سے بڑا نقاد انگلی رکھ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ یہاں انسانی جذبات کار فرما نظر آتے ہیں ۔
(۷)۔ جو وسیع اور جامع علم اس کتاب میں پایا جاتا ہے وہ اس زمانے کے اہل عرب اور اہل روم و یونان و ایران تو در کنار اس بیسویں صدی کے اکابر اہل علم میں سے بھی کسی کے پاس نہیں ہے ۔ آّج حالت یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس اور علوم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتا چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں ، اور پھر جب وہ غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان مسائل کا ایک واضح جواب موجود ہے ۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ۔ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ۱۴ سو برس پہلے ریگستان عرب میں ایک عمی کو علم کے ہر گوشے پر اتنی وسیع نظر حاصل تھی اور اس نے ہر بنیادی مسئلے پو غور و خوض کر کے اس کا یک صاف اور قطعی جواب سوچ لیا تھا؟
اعجاز قرآن کے اگر چہ اور بھی متعدد وجوہ ہیں ، لیکن صرف ان چند وجوہ ہی پر اگر آدمی غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا معجزہ ہونا جتنا نزول قرآن کے زمانے میں واضح تھا اس سے بدر جہا زیادہ آج واضح ہے اور انشاءاللہ قیامت تک یہ واضح تر ہوتا چلا جائے گا۔
۲۸۔ اس سے پہلے جو سوالات چھڑے گئے تھے وہ کفار مکہ کو یہ احساس دلانے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوائے رسالت کو جھٹلانے کے لیے جو باتیں وہ بنا رہے ہیں وہ کس قدر غیر معقول ہیں ۔ اب اس آیت میں ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو دعوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں آخر اس میں وہ بات کیا ہے جو پر تم لوگ اس قدر بگڑ رہے ہو۔ وہ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تمہارا خلق ہے اور اسی کی تم کو بند گی کرنی چاہیے ۔ اس پر تمہارے بگڑنے کی آخر کیا معقول وجہ ہے ؟ کیا تم خود بن گئے ہو، کسی بنانے والے نے تمہیں نہیں بنایا؟ یا اپنے بنانے والے تم خود ہو؟ یا یہ وسیع کائنات تمہاری بنانی ہونی ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے اور تم خود مانتے ہو کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہی ہے اور اس کائنات کا خلاق بھی وہی ہے ، تو اس شخص پر تمہیں غصہ کیوں آتا ہے جو تم سے کہاتا ہے کہ وہی اللہ تمہاری بندگی و پرستش کا مستحق ہے ؟ غصے کے لائق بات یہ ہے یا یہ کہ جو خالق نہیں ہیں ان کی بندگی کی جائے اور جو خالق ہے اس کی بندگی نہ کی جائے؟ تم زبان سے یہ اقرار تو ضرور کرتے ہو کہ اللہ ہی تمہارا اور کائنات کا خالق ہے ، لیکن اگر تمہیں واقعی اس بات کا یقین ہوتا تو اس کی بندگی کی طرف بالنے والے کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر نہ پڑ جاتے ۔
یہ ایسا زبردست چبھتا ہوا سوال تھا کہ اس نے مشرکین کے عقیدے کی چولیں ہلا دیں ۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جبیر بن مطعم جنگ بدر کے بعد قریش کے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے مدینہ آئے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورہ طور زیر تلاوت تھی۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب حضور اس مقام پر پہنچے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔
۲۹۔ یہ کفار مکہ کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ آخر محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ و سلم) ہی کیوں رسول بنائے گئے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عبادت غیر اللہ کی گمراہی سے نکالنے کے لیے بہرحال کسی نہ کسی کو تو رسول مقرر کیا جانا ہی تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کس کا کام ہے کہ خدا اپنا رسول کس کو بنانے اور کس کو نہ بنائے؟ اگر یہ لوگ خدا کے بنائے ہوئے رسول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یا تو خدا کی خدائی کا مالک یہ اپنے آپ کو سمجھ بیٹھے ہیں ، یا پھر ان کا زعم یہ ہے کہ اپنی خدائی کا مالک تو خدا ہی ہو مگر اس میں حکم ان کا چلے ۔
۳۰۔ ان مختصر فقروں میں ایک بڑے مفصل استدلال کو سمو دیا گیا ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر تمہیں رسول کی بات ماننے سے انکار ہے تو تمہارے پاس خود حقیقت کو جاننے کا آخر ذریعہ کیا ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی شخص عالم بالا میں پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ،یا اس کے فرشتوں سے اس نے براہ راست یہ معلوم کر لیا ہے کہ وہ عقائد بالکل حقیقت کے مطابق ہیں جن پر تم لوگ اپنے دین کی بنا رکھے ہوئے ہو؟ یہ دعویٰ اگر کسی کو ہے تو وہ سامنے آئے اور بتائے کہ اسے کب اور کیسے عالم بالا تک رسائی حاصل ہوئی ہے اور کیا علم وہ وہاں سے لے کر آیا ہے ۔ اور اگر یہ دعویٰ تم نہیں رکھتے تو پھر خود ہی غور کرو کہ اس سے زیادہ مضحکہ انگیز عقیدہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم اللہ رب العالمین کے لیے اولاد تجویز کرتے ہو، اور اولاد بھی لڑکیاں ، جنہیں تم خود اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے ہو؟ علم کے بغیر اس قِسم کی صریح جہالتوں کے اندھیرے میں بھٹک رہے ہو، اور خدا کی طرف سے جو شخص علم کی روشنی تمہارے سامنے پیش کرتا ہے اس کی جان کے دشمن ہوئے جاتے ہو۔
۳۱۔ سوال کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تم سے کوئی غرض رکھتا اور اپنی کسی ذاتی منفعت کے لیے یہ ساری دوڑ دھوپ کر رہا ہوتا تو اس سے تمہارے بھاگنے کی کم از کم ایک معقول وجہ ہوتی۔ مگر تم خود جانتے ہو کہ وہ اپنی اس دعوت میں بالکل بے غرض ہے اور محض تمہاری بھلائی کے لیے اپنی جان کھپا رہا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ٹھنڈے دل سے اس کی بات سننے تک کے روادار نہیں ہو؟ اس سوال میں ایک لطیف تعریض بھی ہے ۔ ساری دنیا کے بناوٹی پیشوا اور مذہبی آستانوں کے مجاوروں کی طرح عرب میں بھی مشرکین کے پیشوا اور پنڈت اور پروہت کھلا کھلا مذہبی کاروبار چلا رہے تھے ۔ اس پر یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ایک طرف یہ مذہب کے تاجر ہیں جو علانیہ تم سے نذریں ، نیازیں ، اور ہر مذہبی خدمت کی اجرتیں وصول کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ایک شخص کامل بے غرضی کے ساتھ، بلکہ اپنے تجارتی کاروبار کو برباد کر کے تمہیں نہایت معقول دلائل سے دین کا سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اب یہ صریح بے عقلی نہیں تو اور کیا ہے کہ تم اس سے بھاگتے اور ان کی طرف دوڑتے ہو۔
۳۲۔ یعنی رسول تمہارے سامنے جو حقائق پیش کر رہا ہے ان کو جھٹلانے کے لیے آخر تمہارے پاس وہ کون سا علم ہے جسے تم اس دعوے کے ساتھ پیش کر سکو کہ پردۂ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کو تم براہ راست جانتے ہو؟ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ خدا ایک نہیں ہے بلکہ وہ سب بھی خدائی صفات و اختیارات رکھتے ہیں جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے ٍ؟ کیا واقعی تم نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ لڑکیاں ہیں اور نعوذ باللہ، خدا کے ہاں پیدا ہوئی ہیں ؟ کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ کوئی وحی نہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی ہے نہ خدا کی طرف سے کسی بندے کے پاس آسکتی ہے ٍ؟ کیا واقعی تمہیں اس بات کا علم ہے کہ کوئی قیامت برپا نہیں ہونی ہے اور مرنے کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہو گی اور کوئی عالم آخرت قائم نہ ہو گا جس میں انسان کا محاسبہ ہو اور اسے جزا و سزا دی جائے؟ اگر اس طرح کے کسی علم کا تمہیں دعویٰ غیب کے پیچھے جھانک کر تم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو رسول بیان کر رہا ہے ٍ؟ اس مقام پر ایک شخص یہ شبہ ظاہر کر سکتا ہے کہ اس کے جواب میں اگر وہ لوگ ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ لکھ بھی دیتے تو جس معاشرے میں یہ چیلنج برسر عام پیش کیا گیا تھا اس کے عام لوگ اندھے تو نہ تھے ۔ ہر شخص جان لیتا کہ یہ لکھا سراسر ہٹ دھرمی کے ساتھ دیا گیا ہے اور در حقیقت رسول کے بیانات کو جھٹلانے کی بنیاد یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو ان کے خلاف واقعہ ہوتے کا علم حاصل ہے ۔
۳۳۔ اشارہ ہے ان تدبیروں کی طرف جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو زک دینے اور آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچا کرتے تھے ۔
۳۴۔ یہ قرآن کی صریح پیشن گوئیوں میں سے ایک ہے ۔ مکی دور کے ابتدائی زمانے میں ، جب مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے سوا بظاہر کوئی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہ تھی، اور پوری قوم آپ کے خلاف برسر پیکار تھی، اسلام اور کفر کا مقابلہ ہر دیکھنے والے کو انتہائی نا مساوی مقبلہ نظر آ رہا تھا۔ کوئی شخص بھی اس وقت یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ چند سال کے بعد یہاں کفر کی بساط بالکل الٹ جانے والی ہے ۔ بلکہ ظاہر میں نگاہ تو یہ دیکھ رہی تھی کہ قریش اور سارے عرب کی مخالفت آخر کار اس دعوت کا خاتمہ کر کے چھوڑے گی۔ مگر اس حالت میں پوری تحدی کے ساتھ کفار سے یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے جو تدبیریں بھی تم کرنا چاہو کر کے سیکھ لو۔ وہ سب الٹی تمہارے ہی خلاف پڑیں گی اور تم اسے شکست دینے میں ہر گز کامیاب نہ ہو سکو گے ۔
۳۵۔ یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ کن کو انہوں نے اِلٰہ بنا رکھا ہے و حقیقت میں اِلٰہ نہیں ہیں اور شرک سراسر ایک بے اصل چیز ہے ۔ اس لیے جو شخص توحید کی دعوت لے کر اٹھا ہے اس کے ساتھ سچائی کی طاقت ہے اور جو لوگ شرک کی حمایت کر رہے ہیں وہ ایک بے حقیقت چیز کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ اس لڑائی میں شرک آخر کیسے جیت جائے گا؟
۳۶۔ اس ارشاد سے مقصود ایک طرف سرداران قریش کی ہٹ دھرمی کے بے نقاب کرنا، اور دوسرے طرف سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو تسلی دینا ہے ۔ حضورؐ اور صحابہ کرام کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ایس دکھا دیا جائے جس سے ان کو نبوت محمدیہ کی صداقت معلوم ہو جائے۔ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ خواہ کوئی معجزہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، بہر حال یہ اس کی تاویل کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے کفر پر جمے رہنے کا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے ، کیونکہ ان کے دل ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی ان کی اس ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ انعام میں فرمایا’’ اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ماننے والے نہ تھے ‘‘۔ (آیت ۱۱۱)۔ اور سورہ حجر میں فرمایا’’ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے ، پھر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں ، بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے ‘‘ (آیت۔ ۱۵ )۔
۳۷۔ یہ اسی مضمون کا اعادہ ہے جو سورہ السجدہ، آیت ۲۱ میں گزر چکا ہے کہ ’’ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے ، شاید کہ یہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائیں ‘‘۔ یعنی دنیا میں وقتاً فوقتاً شخصی اور قومی مصیبتیں نازل کر کے ہم انہیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اوپر بالا تر طاقت ان کی قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے اور کوئی اس کے فیصلوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مگر جو لوگ جہالت میں مبتلا ہیں انہوں نے نہ پہلے کبھی ان واقعات سے سبق لیا ہے نہ آئندہ کبھی لیں گے ۔وہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث کے معنی نہیں سمجھتے ، اس لیے ان کی ہر وہ تاویل کرتے ہیں جو حقیقت کے فہم سے ان کو اور زیادہ دور لے جانے والی ہو، اور کسی ایسی تاویل کی طرف ان کا ذہن کبھی مائل نہیں ہوتا جس سے اپنی دہریت یا اپنے شرک کی غلطی ان پر واضح ہو جائے۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی ہے کہ : ان المنافق اذا مرض تم اعفی کان کالبعیر عقل اھلہ تم ارسلوہ فَلَمْ یدرلِمَ عقلوہ ولم ید ر لِمَ ارسلوO (ابو داؤد، کتاب الجنائز) یعنی ’’ منافق جب بیمار پڑتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں باندھا ہے اور جب کھول دیا تو وہ کچھ نہ سمجھا کہ کیوں کھول دیا ہے ۔’’ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۴۵۔ انمل، حاشیہ ۶۶،۔ العنکبوت، حاشیہ ۷۲۔۷۳)۔
۳۸۔ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو۔
۳۹۔ یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔
۴۰۔ اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں
ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام اتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیلو قال ہوئی ہو، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت، استغفرک و اتوب الیک۔‘‘ خداوندا، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘
دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستی سے اٹھو تو اپنے تب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الااللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہٗ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الااللہ، واللہ اکبر، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ (مسند احمد، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت)
تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جائے سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک۔
چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔
مفسر ابن ضریر نے اس کا یاک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے ۔
۴۱۔ اس سے مراد مغرب و عشا اور تہجد کی نمازیں بھی ہیں ، اور تلاوت قرآن بھی، اور اللہ کا ذکر بھی۔
۴۲۔ ستاروں کے پلٹنے سے مراد رات کے آخری حصہ میں ان کا غروب ہونا اور سپیدیِ صبح کے نمودار ہونے پر ان کی روشنی کا ماند پڑ جانا ہے ۔ یہ نماز فجر کا وقت ہے ۔