تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الطُّور

(سورۃ الطور ۔ سورہ نمبر ۵۲ ۔ تعداد آیات ۴۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     قسم ہے طور کی

۲۔۔۔     اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے

۳۔۔۔     ایک کھلے ہوئے دفتر میں

۴۔۔۔     اور اس آباد گھر کی

۵۔۔۔     اور اس اونچی چھت کی

۶۔۔۔     اور اس جوش مارتے ہوئے سمندر کی

۷۔۔۔     بے شک تمہارے رب کے عذاب نے بہر حال ہو کر رہنا ہے

۸۔۔۔     اسے کوئی ٹالنے والا نہیں

۹۔۔۔     جس دن کہ لرز اٹھے گا آسمان کپکپا کر

۱۰۔۔۔     اور چل پڑیں گے پہاڑ اپنی اپنی جگہوں کو چھوڑ کر

۱۱۔۔۔     سو اس دن بڑی ہی خرابی (اور ہلاکت) ہے ان جھٹلانے والوں کے لئے

۱۲۔۔۔     جو اپنی حجت بازیوں (کی دلدل) میں پڑے کھیل رہے ہیں

۱۳۔۔۔     جس دن کہ ان کو دھکے مار مار کر لے جایا جائے گا دوزخ کی اس آتش (سوزاں) کی طرف

۱۴۔۔۔     (اور تحقیر و تذلیل مزید کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ لو) یہ ہے وہ آگ جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے

۱۵۔۔۔     اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھتا نہیں ؟

۱۶۔۔۔     اب داخل ہو جاؤ تم اس میں پس اب تم صبر کرو یا نہ کرو تم پر برابر ہے تمہیں تو بس ان ہی اعمال کا بدلہ دیا جا رہا ہے جو تم لوگ خود کرتے رہے تھے (اپنی دنیاوی زندگی میں)

۱۷۔۔۔     اس کے برعکس متقی (و پرہیزگار) لوگ طرح طرح کے عظیم الشان باغوں اور قسما قسم کی نعمتوں میں (رہ بس رہے) ہوں گے

۱۸۔۔۔     لطف اندوز ہو رہے ہوں گے وہ ان طرح طرح کی چیزوں سے جو ان کو وہاں عطا فرمائی ہوں گی ان کے رب نے اور بچا لیا ہو گا ان کو ان کے رب نے دوزخ کے عذاب سے

۱۹۔۔۔     (اور ان کے لطف و سرور کو مزید دو بالا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ) کھاؤ پیو تم اپنے ان اعمال کے صلہ (و بدلہ) میں جو تم کرتے رہے تھے (اپنی فرصت حیات میں)

۲۰۔۔۔     وہ (نہایت آرام و سکون سے) ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے بچھے عظیم الشان تختوں پر اور ہم نے ان کو بیاہ دیا ہو گا خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے

۲۱۔۔۔     اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ان کے نقش قدم پر چلی (دولت) ایمان کے ساتھ تو ہم ان کی ایسی اولاد کو بھی ان کے ساتھ شامل کر دیں گے (جنت میں) اور ہم ان (متبوع اہل جنت) کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے ہر کوئی اپنے (زندگی بھر کے) کئے (کرائے) کے بدلے میں گروی ہے

۲۲۔۔۔     اور ہم خوب دئیے چلے جائیں گے ان کو ہر طرح کے عمدہ پھل اور گوشت جیسا وہ چاہیں گے (اور جس کی وہ خواہش کریں گے)

۲۳۔۔۔     اور وہاں پر وہ ایک دوسرے سے لپک لپک کر لے رہے ہوں گے ایسی جام شراب جس میں نہ کوئی بے ہودگی ہو گی اور نہ کوئی گنہگاری

۲۴۔۔۔     اور ان کی خدمت گزاری کے لئے چل پھر رہے ہوں گے (ایسے خوب صورت) لڑکے جیسے کہ وہ ایسے موتی ہوں جن کو چھپا کر رکھا گیا ہو

۲۵۔۔۔     اور جنت والے آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھیں گے

۲۶۔۔۔     کہیں گے کہ ہم تو اس سے پہلے (دنیا میں) اپنے گھر والوں میں ڈرتے رہا کرتے تھے (اپنے رب کی ناراضگی و پکڑ سے)

۲۷۔۔۔     پس اللہ نے ہم پر احسان فرما لیا اور بچا لیا ہمیں اس جھلسا دینے والی ہولناک آگ کے عذاب سے

۲۸۔۔۔     ہم اس سے پہلے صرف اسی کو پکارا کرتے تھے بلاشبہ وہی ہے بڑا احسان کرنے والا انتہائی مہربان

۲۹۔۔۔     پس آپ نصیحت کرتے رہیے کہ آپ اپنے رب کی مہربانی سے نہ تو کاہن ہیں نہ مجنون

۳۰۔۔۔     کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس کے بارے میں ہم انتظار کرتے ہیں گردش ایام (کے چکر) کا

۳۱۔۔۔     (سو ان سے) کہو کہ اچھا تو تم انتظار کرتے رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں

۳۲۔۔۔     کیا ان کی عقلیں ان کو ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا یہ حد سے گزرنے والے لوگ ہیں ؟

۳۳۔۔۔     کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے خود ہی گھڑ لیا ہے اس (کتاب حکیم) کو؟ (نہیں) بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے

۳۴۔۔۔     سو یہ لا دکھائیں اس (کلام محکم نظام) جیسا کوئی کلام اگر یہ سچے ہیں (اپنے اس قول و قرار میں)

۳۵۔۔۔     کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے یونہی از خود پیدا ہو گئے ؟ یا یہ خود ہی خالق ہیں ؟

۳۶۔۔۔     کیا انہوں نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو؟ نہیں بلکہ یہ لوگ یقین نہیں رکھتے

۳۷۔۔۔     کیا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں ؟ یا یہ ان کے داروغے ہیں ؟

۳۸۔۔۔     کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ لوگ (عالم بالا کی باتیں) سن لیتے ہیں ؟ تو لے آئے ان کا سننے والا کوئی کھلی سند

۳۹۔۔۔     کیا اللہ کے لئے تو ہوں بیٹیاں اور خود تمہارے لئے ہوں بیٹے ؟

۴۰۔۔۔     کیا آپ ان سے کوئی اجر مانگتے ہیں ؟ کہ یہ چٹی کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں؟

۴۱۔۔۔     کیا ان کے پاس غیب (کے حقائق) کا علم ہے جس کی بناء پر یہ لکھ لیتے ہیں ؟

۴۲۔۔۔     کیا یہ لوگ کوئی داؤ چلنا چاہتے ہیں ؟ تو (سن لیں کہ) جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر وہ خود ہی شکار ہو رہے ہیں اپنی چال بازیوں کے

۴۳۔۔۔     کیا ان کے لئے کوئی اور معبود ہے اللہ کے سوا؟ (سو واضح رہے کہ) اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں

۴۴۔۔۔     اور (ان کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ) اگر یہ آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی گرتا ہوا دیکھ لیں تو کہیں گے کہ یہ تو ایک بادل ہے تہ بہ تہ جما ہوا

۴۵۔۔۔     پس چھوڑ دو ان کو (ان کے حال پر) یہاں تک کہ یہ پہنچ جائیں اپنے اس (ہولناک) دن کو جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے

۴۶۔۔۔     جس دن نہ تو ان کو اپنا داؤ کچھ کام آ سکے گا اور نہ ان کو (اور کہیں سے) کوئی مدد مل سکے گی

۴۷۔۔۔     اور ان لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے ظلم پر یقیناً اس سے پہلے بھی ایک عذاب ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں

۴۸۔۔۔     اور آپ صبر (و برداشت) ہی سے کام لیتے رہیں اپنے رب کے حکم (و فیصلہ) تک کہ یقیناً آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ اٹھیں

۴۹۔۔۔     اور رات کو بھی اور ستاروں کے پیٹھ پھیرنے (اور ڈوبنے) کے بعد بھی

تفسیر

 

۱۲۔۔  خوض کے اصل معنی کسی چیز کے اندر گھسنے کے ہوتے ہیں، خاض الماء کے معنی ہیں کہ وہ پانی کے اندر گھس گیا، پھر اسی سے آگے یہ محاورہ نکلا خاض القوم فی الحدیث، یعنی یہ لوگ بات سے بات نکالتے ہوئے کہیں سے کہیں جا پہنچے، اور اس محاورے کا استعمال عام طور پر کسی باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت میں سخن سازی اور حجت بازی کے لئے ہوتا ہے، اسی لئے ہم نے ترجمہ کے اندر اس کا لحاظ کیا ہے۔ و الحمد للہ، قرآن پاک میں دوسرے مقام پر اس لفظ کو اس معنی میں یوں استعمال فرمایا گیا ہے وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا (التوبہ۔۶٩) یعنی تم لوگ بھی اسی طرح کی حجت بازیوں میں لگ گئے جس طرح کی حجت بازیوں میں وہ لوگ لگے ہوئے تھے اور کسی بات کو حق سمجھنے کے باوجود اس کے خلاف دلیلیں گھڑنا، اور حجت بازی سے کام لینا، دراصل اپنی محرومی کو اور پکا کرنا اور اپنی اور اپنے پیروؤں کی عقلوں کے ساتھ ایک طرح کا کھیل کھیلنا ہوتا ہے والعیاذُ باللہ۔ اسی لئے قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس کو لعب سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور اس طرح کا کھیل کھیلنے والوں میں چونکہ حق بات کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ایسوں سے اعراض و رُوگردانی کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ پتھر میں جونک لگانے کی کوشش کرنا بےسود ولا حاصل، بلکہ ضیاع وقت ہے۔ چنانچہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا فَذَرْہُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّیٰ یُلٰقُوْ ا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ(الزخرف۔٨۳) یعنی چھوڑ دو ان کو ان کے حال پر یہ ایسی حجت بازیاں کرتے۔ اور ایسے کھیل کھیلتے رہیں، یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں، جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے سو اس طرح کی حجت بازیوں اور سخن سازیوں کے نتیجے میں ایسے لوگ ابدی خسران کو جا پہنچتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم، اور قرآن حکیم میں اس لفظ کا اطلاق اس معنی میں بے شمار مقامات پر ہوا ہے۔ سو غفلت و لاپرواہی اور باطل کے لئے حجت بازی محرومی کی جڑ بنیاد ہے، پس صحت و سلامتی، اور نجات و فلاح کا راستہ اور اس کا طریقہ دعوت حق و ہدایت کے آگے جھک جانا اور سر تسلیم خم کر دینا ہے کیونکہ حق و ہدایت کی دولت اور اس کے نور ہی سے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی نصیب ہو سکتی ہے، ورنہ محرومی ہی محرومی ہے والعیاذُ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے، اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۲۱۔۔  سو اس ارشاد سے نجات سے متعلق اصل ضابطے اور بنیادی اصول کو واضح فرما دیا گیا کہ ہر انسان اپنی زندگی بھر کی کمائی کے عوض رہن اور گروی ہو گا۔ اس کا عمل ہی اس کو چھڑائے گا اور اس کا عمل ہی اس کو ہلاک کرے گا۔ پس ہر کوئی خود دیکھ لے کہ اس نے اپنی آخرت اور وہاں کی حقیقی اور ابدی زندگی کے لئے کیا کمائی کی ہے پس وہ لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محض نیکوں کے ساتھ نسبی تعلق یا ظاہری نسبت کے اعتبار سے ہی نجات پا جائیں گے، اور جنت میں داخل ہو جائیں گے، خواہ ان کے اعمال کچھ ہی ہوں، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا کہنا تھا کہ ہم چونکہ اللہ کے پیارے اور اس کے چہیتے اور لاڈلے ہیں، اس لئے ہم ہر حال جنت میں جائیں گے، خواہ ہمارے عقائد اور اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کا کہنا اور ماننا یہ تھا کہ جنت میں ہمارے سوا کوئی داخل ہو گا ہی نہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصَاریٰ (البقرہ۔۱۱۱) یعنی ان کا کہنا تھا کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہو سکے گا سوائے اس کے جو یہودی ہو، یا نصرانی، نیز ان کا کہنا تھا کہ ہم کو دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں سوائے گنتی کے کچھ دنوں کے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلاَّ اَیَّامًا مّعْدُوْدَۃً(البقرہ۔٨٠) اور اسی طرح کے نسلی تفاخر اور نسبی تعلق کی بناء پر مشرکین مکہ بھی اسی طرح کے زعم فاسد اور گمان باطل میں مبتلا تھے، کہ ہم چونکہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں، اور ان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ہمیں کسی عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں یہ نسبت اور تعلق ہی کافی ہے، اور اسی طرح کی غلط فہمیاں دوسری بہت سی نسلوں، قوموں، قبیلوں، اور افراد میں بھی پائی گئیں، اور آج تک پائی جا رہی ہیں۔ چنانچہ آج بھی اس طرح کے نمونے جا بجا ملتے ہیں کہ فلاں صاحب چونکہ فلاں بڑی ہستی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سب سیّد زادے، اور صاحب زادے ہیں، اس لئے جو مرضی کریں ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں، وغیرہ وغیرہ، سو اس ارشاد ربانی سے ایسی تمام غلط فہمیوں کی جڑ نکال دی گئی۔ کہ اس طرح کا کوئی رشتہ و تعلق اور نسل و نسب کا کوئی زعم اور گھمنڈ وہاں کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا۔ بلکہ وہاں پر ہر کسی کے معاملے کا دارو مدار اس کے اپنے ایمان و عمل پر ہو گا اور بس، کُلٌّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ (الطور،۲۱) سو اسطرح کی مختلف نصوص کریمہ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان کی نجات و فلاح فلاں ابن فلاں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار ہر کسی کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے، اور بس، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا و خوشنودی کے حصول میں صرف کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین۔ بہرکیف یہ ایک اصولی اور بنیادی تعلیم ہے کہ آخرت میں انسان کو خود اس کا اپنا ایمان و عمل ہی کام آئے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہی کو نوازے گا جو اپنے ایمان و عمل اور اپنے عقیدہ و کردار سے اپنے آپ کو اس کا اہل اور مستحق بنائیں گے، اس حقیقت کو قرآن و سنت کی مختلف نصوص میں طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، اور حضور نے اپنے سب رشتہ داروں کو ایک ایک کر کے، بلا اور پکار کر اس سے آگاہ فرمایا، اور خود اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی پکار کر ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے خود بچاؤ میں تمہیں کچھ کام نہیں آ سکوں گا، (اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہ شَیْئًا)

۳۶۔۔  اس آیت کریمہ میں منکرین و مکذبین سے متعلق تین ایسے اہم اور بنیادی سوال پیش فرمائے گئے ہیں جو ان کی عقل و خرد پر دستک دینے والے اور ان کے قلوب وضمائر کی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے ہیں، ان میں سے دو سوال تو خود ان کی اپنی جانوں سے متعلق ہیں اور تیسرا زمین و آسمان کی اس کائنات سے متعلق جس میں یہ لوگ رہتے بستے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد ان کے اصل مرض اور ان کی محرومی کے بنیادی سبب کی تصریح فرما دی گئی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ کسی خالق کے بغیر یونہی پیدا ہو گئے؟ اور ظاہر ہے کہ ایسے نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز اور کوئی معمولی سی معمولی شیئ بھی بغیر کسی فاعل مختار کے اور بدوں کسی بنانے والے کے از خود اور اپنے طور پر وجود میں نہیں آ سکتی، تو پھر ساری مخلوق کہ مخدوم و مطاع اور عقل و خرد کی بے مثال دولت سے سرفراز و مالا مال یہ انسان جو اپنے اندر حضرت خالق حکیم کے کمال قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کے عظیم الشان پہلو اپنے اندر رکھتا ہے، یہ از خود اور اپنے طور پر کس طرح وجود میں آ سکتا ہے؟ نیز یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ لوگ اپنے خالق خود ہوں، کوئی عقلمند اس کا دعوی نہیں کر سکتا۔ تو پھر کس خالق حکیم نے ان کو پیدا کیا؟ اور وجود بخشنا؟ اور پھر یہ بھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ اس خالق کل اور مالک مطلق رب رحمان و رحیم کا ہم پر کیا حق ہے؟ اور اس کے اس حق کو ادا کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اور یہ کہ اس انسان کی تخلیق و تکوین اور اس کے وجود کا اصل مقصد کیا ہے؟ سو انہی اہم اور بنیادی سوالوں کا جواب اس وحی کے ذریعے دیا گیا ہے، اور دیا جا رہا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائی اور جس کو وہ بلا کم و کاست تمہارے سامنے پیش فرما رہا ہے، تو پھر اس سے اعراض و انکار اور اس کی تکذیب و تضحیک کس قدر ظلم اور کتنی بے انصافی و ناشکری ہے؟ والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا، پھر ان لوگوں سے تیسرا سوال اس کائنات کے بارے میں فرمایا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی یہ حکمتوں اور نعمتوں بھری کائنات جس میں یہ لوگ رہتے بستے، اور اس کی گوناگوں نعمتوں سے متمتع و مستفید ہوتے ہیں، اور ہمیشہ ہر وقت اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہو تے ہیں کیا اس کو انہوں نے پیدا کیا؟ جب نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس کو پیدا کرنے کا دعویٰ نہ کبھی کسی نے کیا ہے۔ اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا؟ اور اس کے اندر ان حکمتوں اور نعمتوں کے یہ عظیم الشان اور لاتعداد و بے مثال خزانے کس نے رکھے؟ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک جو اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے۔ سو اس سے اس کی قدرت بے پایاں، اور رحمت بے نہایت، کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، پس اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نہ یہ حکمتوں بھری کائنات عبث و بیکار ہو سکتی ہے، اور نہ اس سے ہر وقت اور ہر طرح سے مستفید و فیضیاب ہونے والے اس انسان کی تخلیق و تکوین، اور اس کا وجود بیکار ہو سکتا ہے، سو یہ کائنات اور اس کی ہر چیز اپنی زبان حال سے پکار پکار کر دعوت غور و فکر دے رہی ہے، اور اس کائنات کے خالق و مالک کے آگے دل و جان سے جھکنے اور اس کی اطاعت مطلقہ اور اس کی عبادت و بندگی کا درس دے رہی ہے۔ مگر غفلت و لاپرواہی ہے کہ اس نے عقل و شعور رکھنے والے اس انسان کو حیوان محض بنا دیا بلکہ اس کی سطح سے بھی نیچے گرا دیا، چنانچہ اس نے اپنے آپ کو اپنی خواہشات بطن و فرج کا غلام بنا دیا۔ اور اپنے جوہر عقل کو بھی انہی کے پیچھے لگا دیا، اور اسطرح یہ خسران مبین میں مبتلا ہو گیا، اسی لئے بَلْ لاَّ یُؤْقِنُوْنَ کے ارشاد سے ان لوگوں کے اعراض و انکار کی اصل علت سے پردہ اٹھا دیا، کہ یہ لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ دنیا کے مادی فوائد اور خواہشات نفس ہی کے لئے جیتے اور مرتے ہیں، اس لئے یہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ سو آخرت کے یقین سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۴۲۔۔  سو اس سے سوال و استفہام کے پیرائے میں فساد کی اصل جڑ سے پردہ اٹھایا گیا ہے، چنانچہ اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کی یہ سب سخن سازیاں اور حجت بازیاں محض ظاہر کا پردہ ہیں اصل سبب اس سب کفر و انکار کا جو ان کی ان تمام سخن سازیوں اور حجت بازیوں کے پیچھے کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ ان کو پیغمبر کی دعوت کے فروغ میں اپنی سیادت کا خاتمہ نظر آ رہا ہے، اس کو بچانے کے لئے یہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز کے بالکل خلاف ایسی باتیں بناتے، گھڑتے، اور پھیلاتے ہیں، تاکہ ان کے عوام دعوت حق سے متاثر ہو کر ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائیں، اور یہ ان کالی بھیڑوں کی اون اسی طرح مونڈھتے رہیں، سو ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہئیے کہ کافروں کی چال خود انہی پر پڑتی ہے، پس یہ لوگ جو اپنے عوام کو حق سے محروم کرنے، اور دور رکھنے کے لئے اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف اس طرح کی چالیں چلتے ہیں، اس سے دعوت حق کا کچھ نہیں بگڑے گا، بلکہ اس طرح یہ لوگ خود اپنی محرومی کو اور پکا کرتے ہیں، اور اس طرح یہ اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی کے کھڈے میں گراتے ہیں، اور کوئی مانے یا نہ مانے، حق و ہدایت کی راہ، اور نجات و فلاح کا طریقہ بہر حال وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے بتایا ہے، اس سے اعراض و رُوگردانی، اور اس کا کفر و انکار، بہر کیف ہلاکت و تباہی کی راہ ہے، سو ایسے کفار و منکرین اس طرح کی حجت بازیوں کے ذریعے نور حق و ہدایت سے محروم ہونے اور محروم کرنے کے جرم کو اپنا کر خود اپنی ہی ہلاکت و تباہی میں اضافے کا سامان کرتے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۳۔۔  استفہام یہاں پر انکار ہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا اور کوئی معبود نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، کہ معبود برحق بہر حال اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، جو اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے خالق و مالک، اور اس میں حاکم و متصرف ہے، سو ان کو آخرکار اسی کے حضور حاضر ہونا اور اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا جواب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے، وہاں پر کوئی بھی ان کے کام نہیں آ سکے گا، اس لیے جو خود ساختہ اور من گھڑت شرکاء ان لوگوں نے اپنی طرف سے بنا رکھے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں، وہ ایسے ہر تصور سے پاک ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اس کا کوئی شریک نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، وہ شرک کے ہر شائبے سے پاک اور بَری ہے، پس معبودِ برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے، پس قیام، رکوع، سجود طواف اور نذر و نیاز وغیرہ تمام عبادات خواہ ان کا تعلق مالی عبادت سے ہو یا بدنی سے، وہ سب اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا حق ہے، ان میں سے کوئی بھی قسم اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کے لئے دُہٗ نا شرک ہے جو کہ ظلم عظیم ہے، فَلَا نَعْبُدُ اِلاَّ اِیَّاہُ وَلَا مَعْبَودَ بِحَقِّ سواہُ، سبحانہ و تعالیٰ،