مقاتل اور کَلْبی کہتے ہیں کہ اس کا کچھ حصہ مکی ہے اور کچھ مدنی۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابتدا سے آیت ۱۳ تک مکی ہے اور آیت ۱۴ سے آخر سورۃ تک مدنی۔ مگر مفسرین کی اکثریت پوری سورۃ کو مدنی قرار دیتی ہے۔ اگر چہ اس میں کوئی اشارہ ایسا نہیں پایا جاتا جس سے اس کا زمانہ نزول متعین کیا جاسکتا ہو، لیکن مضمون کلام پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ اسی وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا سا اور کچھ مدنی سورتوں کا سا پایا جاتا ہے۔
اس سورہ کا موضوع ایمان و طاعت کی دعوت اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ کلام کی ترتیب یہ ہے کہ پہلی چار آیتوں کا خطاب تمام انسانوں سے ہے ، پھر آیت ۵ سے ۱۰ تک ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے جو قرآن کی دعوت کو نہیں مانتے ، اور اس کے بعد نمبر ۱۱ سے آخر تک کی آیات کا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس دعوت کو مانتے ہیں۔
تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے :
اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق خدا ہے جس کے کامل اور بے عیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے اسے سراسر بر حق پیدا کیا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو عبث ہی شروع ہوا اور عبث ہی ختم ہو جائے گا۔
تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر جس طرح کفر و ایمان کا اختیار تم پر چھوڑ دیا ہے ، یہ کوئی لا حاصل اور لایعنی کام نہیں ہے کہ تم خواہ کفر اختیار کرو یا ایمان، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو۔ در اصل خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کوکس طرح استعمال کرتے ہو۔
چوتھے یہ کہ تم غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں ہو۔ آخر کار تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور اس ہستی سے تمہیں سابقہ پیش آنا ہے جو کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے ، جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔
کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں یہ چار بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد کلام کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑتا ہے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ، اور انہیں تاریخ کے اس منظر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں مسلسل نظر آتا ہے کہ قوموں پر قومیں اٹھتی ہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی عقل سے اس منظر کی ہزار توجہیں کرتا رہا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے :
ایک یہ کہ اس نے جن رسولوں کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، ان کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کر دیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے جس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے جس میں ہی اپنے خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہو۔ اس چیز نے ان کے پورے رویہ زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ آخر کار خدا کے عذاب ہی نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔
تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور اگر پچھلی قوموں کا سا انجام نہیں دیکھنا چاہتے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت پر ایمان لے آئیں جو اللہ نے قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائے گا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی قسمت کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا کہ ایمان و عمل صالح کی راہ کس نے اختیار کی تھی، اور کفر و تکذیب کی رہ پر کون چلا تھا۔ پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہو گا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔
اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :
ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے ، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے حالات میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، ورنہ گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے ، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔ '
دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اطاعت سے اگر وہ رو گردانی اختیار کرے گا تو اپنے نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حق پہنچا کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔
تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان و طاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے اہل و عیال سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے حق میں راہ خدا کے رہزن نہ بننے پائیں ، اور انہیں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ ان کا جنس زر پر ستی کے فتنوں سے محفوظ رہے۔
پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اس کی گفتار، کردار اور معاملات اس کی اپنی کوتاہی کے باعث حدود اللہ سے متجاوز نہ ہو جائیں۔
۱۔ تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ الحدید، حاشیہ ۱۔ بعد کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کلام کا آغاز اس فقرے سے کیوں کیا گیا ہے۔ آگے کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں بنائی ہے۔ اور انسان یہاں غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو کچھ چاہے کرتا پھرے ، کوئی اس سے باز پُرس کرنے والا نہ ہو۔ اور اس کائنات کا فرمانروا کوئی شہِ بے خبر نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کا کوئی علم اسے نہ ہو۔ اس مضمون کی بہترین تمہید وہی ہو سکتی تھی جو اس مختصر سے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں کی انتہائی وسعتوں تک جدھر بھی تم نگاہ گے ، اگر تم عقل کے اندھے نہیں ہو تو تمہیں صاف محسوس ہو گا کہ ایک ذرے سے لے کر عظیم ترین کہکشانوں تک ہر چیز نہ صرف خدا کے وجود پر گواہ ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ اس کا خدا ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے۔ اس کی ذات و صفات، اور اس کے افعال و احکام میں کسی عیب و خطا، یا کسی کمزوری اور نقص کا ادنیٰ درجے میں بھی کوئی احتمال ہوتا تو یہ کمال درجہ حکیمانہ نظام وجود ہی میں نہ آ سکتا تھا،کجا کہ ازل سے ابد تک ایسے اٹل طریقہ سے چل سکتا۔
۲۔ یعنی یہ پوری کائنات تنہا اسی کی سلطنت ہے۔ وہ صرف ا س کو بنا کر اور ایک دفعہ حرکت دے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہی عملاً اس پر ہر آن حکومت کر رہا ہے۔ اس حکومت و فرمان روائی میں کسی دوسرے کا قطعاً کوئی دخل یا حصہ نہیں ہے۔ دوسروں کو اگر عارضی طور پر اور محدود پیمانے پر اس کائنات میں کسی جگہ تصرف یا ملکیت یا حکمرانی کے اختیارات حاصل ہیں تو وہ ان کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں جو انہیں اپنے زور پر حاصل ہوئے ہوں ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ہیں ، جب تک اللہ چاہے وہ انہیں حاصل رہتے ہیں ، اور جب چاہے وہ انہیں سلب کر سکتا ہے۔
۳۔ با لفاظ دیگر وہی اکیلا تعریف کا مستحق ہے ، دوسری جس ہستی میں بھی کوئی قابل تعریف خوبی پائی جاتی ہے وہ اسی کی عطا کی ہوئی ہے۔ اور اگر حمد کا شکر کے معنی میں لیا جائے تو شکر کا بھی اصل مستحق وہی ہے ، کیونکہ ساری نعمتیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ساری مخلوقات کا حقیقی محسن اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری کسی ہستی کے کسی احسان کا ہم شکر یہ ادا کرتے ہیں تو اس بنا پر کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی نعمت اس کے ہاتھوں ہم تک پہنچائی، ورنہ وہ خود نہ اس نعمت کا خالق ہے ، نہ اللہ کی توفیق کے بغیر وہ اس نعمت کو ہم تک پہنچا سکتا تھا۔
۴۔ یعنی وہ قادر مطلق ہے۔ جو کچھ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ کوئی طاقت اس کی قدرت کو محدود کرنے والی نہیں ہے۔
۵۔ اس کے چار مفہوم ہیں اور چاروں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں :
ایک یہ کہ وہی تمہارا خالق ہے ، پھر تم میں سے کوئی اس کے خالق ہونے کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے۔ یہ مفہوم پہلے اور دوسرے فقرے کو ملا کر پڑھنے سے متبادر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی نے تم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ تم کفر اختیار کرنا چاہو تو کر سکتے ہو، اور ایمان لانا چاہو تو لا سکتے ہو۔ ایمان و کفر میں سے کسی کے اختیار کرنے پر بھی اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے۔ اس لیے اپنے ایمان و کفر، دونوں کے تم خود ذمہ دار ہو۔ اس مفہوم کی تائید بعد کا یہ فقرہ کرتا ہے کہ ’’ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ یعنی اس نے یہ اختیار دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے اور سہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تو تم کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب ایمان کی راہ اختیار کرتے ، مگر اس صحیح فطرت پر پیدا ہونے کے بعد تم میں سے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا جو ان کی خلقت و آفرینش کے خلاف تھا، اور بعض نے ایمان کی راہ اختیار کی جو ان کی فطرت کے مطابق تھی۔ یہ مضمون اس آیت کو سورہ روم کی آیت ۳۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین پر جمدو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت نہ بدلی جائے، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ‘‘۔ اور اسی مضمون پر وہ متعدد احادیث روشنی ڈالتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں خارج سے کفر و شرک اور گمراہی اس پر عارض ہوتی ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ روم، حواشی ۴۲ تا ۴۷)۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے بھی انسان کے پیدائشی گناہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا ہے جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائیبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بائیبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہر برٹ ہاگ (Haog ) اپنی تازہ کتاب Is Original Sin In Scripture میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از کم تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے ، اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے۔ مگر آخر کار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کر دیا کہ ’’ نوع انسانی نے آدم کے گناہ کا وبال وراثت میں پایا ہے اور مسیح کے کفارے کی بدولت نجات پانے کے سوا انسان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔‘‘
چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی تم کو عدم سے وجود میں لایا۔ تم نہ تھے اور پھر ہو گئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر تم اس پر سیدھے اور صاف طریقے سے غور و فکر کرتے اور یہ دیکھتے کہ وجود ہی وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت تم دنیا کی باقی دوسری نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو، تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے خالق کے مقابلہ میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کیا جو فکر صحیح کا تقاضا تھا۔
۶۔ اس فقرے میں ’’ دیکھنے ‘‘ کا مطلب محض دیکھنا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جیسے تمہارے اعمال ہیں ان کے مطابق تم کو جزا یا سزا دی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی حاکم اگر کسی شخص کو اپنی ملازمت میں لے کر یہ کہے کہ ’’میں دیکھتا ہوں تم کس طرح کام کرتے ہو ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح کام کرو گے تو تمہیں انعام اور ترقی سے نوازوں گا، ورنہ تم سے سخت مواخذہ کروں گا۔
۷۔ اس آیت میں تین باتیں علی الترتیب بیان کی گئی ہیں جن کے درمیان ایک بہت گہرا منطقی ربط ہے۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ نے یہ کائنات بر حق پدا کی ہے۔ ’’برحق‘‘ کا لفظ جب خبر کے لیے بولا جاتا ہے تو مراد ہوتی ہے سچی خبر۔ حکم کے لیے بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے مبنی بر عدل و انصاف حکم۔ قول کے لیے بولا جاتا ہے تو مقصود ہوتا ہے راست اور درست قول۔ اور جب کسی فعل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد ایسا فعل ہوتا ہے جو حکیمانہ اور معقول ہو نہ کہ لا یعنی اور فضول۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خَلْق ایک فعل ہے ، اس لیے تخلیق کائنات کو بر حق کہنے کا مطلب لا محالہ یہ ہے کہ یہ کائنات کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی گئی ہے بلکہ یہ ایک خالق حکیم کا نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اس کی ہر چیز اپنے پیچھے ایک معقول مقصد رکھتی ہے ، اور یہ مقصدیت اس میں اتنی نمایا ں ہے کہ اگر کوئی صاحب عقل انسان کسی چیز کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا کہ ایسی ایک چیز کے پیدا کرنے کا معقول اور مبنی بر حکمت مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ دنیا میں انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جس چیز کی نوعیت کو بھی انسان نے غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے سمجھ لیا اس کے بارے میں یہ بات بھی اسے آخر کار معلوم ہو گئی کہ وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے ، اور اس مقصد کو سمجھ کر ہی انسان نے وہ بے شمار چیزیں ایجاد کر لیں جو آج انسانی تمدن میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ بات ہر گز ممکن نہ ہوتی اگر یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا ہوتی جس میں کوئی حکمت اور مقصدیت کار فرما نہ ہوتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، سورہ انعام، حاشیہ ۴۶۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۷۵۔ الروم، حاشیہ ۶۔ جلد چہارم، الدخان، حاشیہ ۳۴۔ الجاثیہ، حاشیہ ۲۸ )۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اسکے مفہوم میں شامل ہیں جو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا ہے ، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پید میں پائی جاتی ہیں۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا ہے۔ اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پاؤں دیے گئے ہیں۔اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیئے گئے ہیں۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیے گئے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات کو جمع کر کے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کر دے ، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے ، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے تو کر گزرے۔ ان ساری وقتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرُّف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، المؤمن ، حاشیہ ۹۱)۔
ان دو باتوں سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر وہ تیسری بات خود بخود نکلتی ہے جو آیت کے تیسرے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے کہ ’’ اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے ‘‘۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسے ایک حکیمانہ اور با مقصد نظام کائنات میں ایسی ایک با اختیار مخلوق پیدا کی گئی ہے تو حکمت کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسے یہاں شتر بے مہار کی طرح غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا جائے، بلکہ لازماً اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مخلوق اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہو جس نے اسے ان اختیارات کے ساتھ اپنی کائنات میں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ’’پلٹنے ‘‘ سے مراد اس آیت میں محض پلٹنا نہیں ہے بلکہ جواب دہی کے لیے پلٹنا ہے ، اور بعد کی آیات میں صراحت کر دی گئی ہے کہ یہ واپسی اس زندگی میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی، اور اس کا اصل وقت وہ ہو گا جب پوری نوع انسانی کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت محاسبہ کے لیے اکٹھا کیا جائے گا، اور اس محاسبے کے نتیجے میں جزا و سزا اس بنیاد پر ہو گی کہ آدمی نے خدا کے دیے ہوئے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا یا غلط طریقے سے۔ رہا یہ سوال کہ یہ جواب دہی دنیا کی موجودہ زندگی میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟اور اس کا صحیح وقت مرنے کے بعد دوسری زندگی ہی کیوں ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ یہ جواب دہی اس وقت ہو جب پوری نوع انسانی اس دنیا میں ختم ہو جائے اور تمام اولین و آخر ین کو بیک وقت دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے ؟ آدمی ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی سراسر معقول ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ محاسبہ دوسری زندگی ہی میں ہو اور سب انسانوں کا ایک ساتھ ہو۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے پورے کارنامہ حیات کے لیے جواب دہ ہے۔ اس لیے اس کی جواب دہی کا صحیح وقت لازماً وہی ہونا چاہیے جب اس کا کارنامہ حیات مکمل ہو چکا ہو۔ اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان ان تمام اثرات و نتائج کے لیے ذمہ دار ہے جو اس کے افعال سے دوسروں کی زندگی پر مترتب ہوئے ہوں ، اور وہ اثرات و نتائج اس کے مرنے کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے بعد مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا صحیح محاسبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پوری نوع انسانی کا کارنامہ حیات ختم ہو جائے اور تمام اولین و آخر ین بیک وقت جواب دہی کے لیے جمع کیے جائیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۳۰۔ یونس، حواشی ۱۰۔ ۱۱۔ ہود، حاشیہ ۱۰۵۔ النحل، حاشیہ ۳۵۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ ۹۔ النمل، حاشیہ ۲۷۔ الروم، حواشی ۵۔۶۔جلد چہارم، ص، حواشی ۲۸۔ ۳۰۔ المؤمن، حاشیہ ۸۰۔ الجاشیہ، حواشی ۲۷ تا ۲۹ )۔
۸۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو کچھ تم علانیہ کرتے ہو‘‘۔
۹۔ یعنی وہ انسان کے صرف ان اعمال ہی سے واقف نہیں ہے جو لوگوں کے علم میں آ جاتے ہیں بلکہ ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو سب سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ مزید براں وہ محض اعمال کی ظاہر شکل ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے کیا ارادہ اور کیا مقصد کار فرما تھا اور جو کچھ اس نے کیا کس نیت سے کیا اور کیا سمجھتے ہوئے کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پر انسان غور کرے تو اسے اندازہ ہو سکتا ہے انصاف صرف آخرت ہی میں ہو سکتا ہے اور صرف خدا ہی کی عدالت میں صحیح انصاف ہونا ممکن ہے۔ انسان کی عقل خود یہ تقاضا کرتی ہے کہ آدمی کو اس کے ہر جرم کی سزا ملنی چاہیے ، لیکن آخر یہ بات کون نہیں جانتا کہ دنیا میں اکثر و بیشتر جرائم یا تو چھپے رہ جاتے ہیں یا ان کے لیے کافی شہادت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتا ہے ، یا جرم کھل بھی جاتا ہے تو مجرم اتنا با اثر اور طاقتور ہوتا ہے کہ اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ پھر انسان کی عقل یہ بھی چاہتی ہے کہ آدمی کو محض اس بنا پر سزا نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے فعل کی صورت ایک مجرمانہ فعل کی سی ہے ، بلکہ یہ تحقیق ہونا چاہیے کہ جو فعل اس نے کیا ہے بالارادہ سوچ سمجھ کر کیا ہے ، اس کے ارتکاب کے وقت وہ ایک ذمہ دار عامل کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، اس کی نیت فی الواقع ارتکاب جرم ہی کی تھی، اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ جرم ہے۔ اسی لیے دنیا کی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ان امور کی تحقیق کرتی ہیں اور ان کی تحقیق کو اصول انصاف کا تقاضا مانا جاتا ہے۔ مگر کیا واقعی دنیا میں کوئی ذریعہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے ان کی ٹھیک ٹھیک تحقیق ہو سکے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو ؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے گہرا منطقی ربط رکھتی ہے کہ ’’ اس نے زمین اور آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ہے ‘‘۔ بر حق پیدا کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں صحیح اور کامل عدل ہو۔ یہ عدل لازماً اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جبکہ عدل کرنے والے کی نگاہ سے انسان جیسی ذمہ دار مخلوق کا نہ صرف یہ کہ کوئی فعل چھپا نہ رہ جائے بلکہ وہ نیت بھی اس سے مخفی نہ رہے جس کے ساتھ کسی شخص نے کوئی فعل کیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو اس طرح کا عدل کر سکے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت کا انکار کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو فی الحقیقت انصاف سے خالی ہے ، بلکہ جس میں سے انصاف کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ اس احمقانہ تخیل پر جس شخص کی عقل اور جس کا قلب و ضمیر مطمئن ہو وہ بڑا ہی بے شرم ہے اگر وہ اپنے آپ کو ترقی پسند یا عقلیت پسند سمجھتا ہو اور ان لوگوں کو تاریک خیال یا رجعت پسند سمجھے جو کائنات کے اس انتہائی معقول (Rational) تصور کو قبول کرتے ہیں جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔ ۱۰۔ یعنی دنیا میں انہوں نے شامت اعمال کا جو مزا چکھا وہ ان کے جرائم کی نہ اصل سزا تھی نہ پوری سزا۔ اصلی اور پوری سزا تو ابھی آخرت میں ان کو بھگتنی ہے۔ لیکن دنیا میں جو عذاب ان پر آیا اس سے لوگ یہ سبق لے سکتے ہیں کہ جن قوموں نے بھی اپنے رب کے مقابلے میں کفر کا رویہ اختیار کیا وہ کس طرح بگڑتی چلی گئیں اور آخر کس انجام سے دوچار ہوئیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۵۔۶۔ ہود، حاشیہ ۱۰۵)۔
۱۱۔ اصل میں لفظ بینات استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ بین عربی زبان میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بالکل ظاہر اور واضح ہو، انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ بینات لے کر آتے رہے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک تو وہ ایسی صریح علامات اور نشانیاں لے کر آتے تھے جو ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی کھلی شہادت دیتی تھیں۔ دوسرے ، وہ جو بات بھی پیش کرتے تھے نہایت معقول اور روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ تیسرے ، ان کی تعلیم میں کوئی ابہام نہ تھا، بلکہ وہ صاف صاف بتاتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، جائز کیا ہے اور ناجائز کیا، کس راہ پر انسان کو چلنا چاہیے اور کس راہ پر نہ چلنا چاہیے۔
۱۲۔ یہ تھی ان کی تباہی کی اولین اور بنیادی وجہ۔ نوع انسانی کو دنیا میں صحیح راہ عمل اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کا خالق اسے صحیح علم دے ، اور خالق کی طرف سے علم دیے جانے کی عملی صورت اس کے سوا کچھ نہ ہو سکتی تھی کہ وہ انسانوں ہی میں سے بعض افراد کو علم عطا کر کے دوسروں تک اسے پہنچانے کی خدمت سپرد کرے۔ اس غرض کے لیے اس نے انبیاء کو بینات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کے لیے ان کے بر حق ہونے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ رہے۔مگر انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا کہ بشر خدا کا رسول ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ یٰس، حاشیہ ۱۱ )۔ اس معاملہ میں گمراہ انسانوں کی جہالت و نادانی کا یہ عجیب کرشمہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بشر کی رہنمائی قبول کرنے میں تو انہوں نے کبھی تامل نہیں کیا ہے ، حتیٰ کہ ان ہی کی رہنمائی میں لکڑی اور پتھر کے بتوں تک کو معبود بنایا، خود انسانوں کو خدا اور خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا تک مان لیا،اور گمراہ کن لیڈروں کی اندھی پیروی میں ایسے ایسے عجیب مسلک اختیار کر لیے جنہوں نے انسانی تہزیب و تمدن اور خلاق کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ مگر جب خدا کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے اور انہوں نے ہر ذاتی غرض سے بالا تر ہو کر بے لاگ سچائی ان کے سامنے پیش کی تو انہوں نے کہا ’’ کیا با بشر ہیں ہدایت دیں گے ’’؟ اس کے معنی یہ تھے کہ نشر اگر گمراہ کرے تو سر آنکھوں پر، لیکن اگر وہ راہ راست دکھاتا ہے تو اس کی رہنمائی قابل قبول نہیں ہے۔
۱۳۔ یعنی جب انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے استغنا برتا تو پھر اللہ کو بھی اس کی کچھ پروا نہ رہی کہ وہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں۔ اللہ کی کوئی غرض تو ان سے اٹکی ہوئی نہ تھی کہ وہ اسے خدا مانیں گے تو وہ خدا رہے گا ورنہ خدائی کا ٹکٹ اس سے چھن جائے گا۔ وہ نہ ان کی عبادت کا محتاج تھا، نہ ان کی حمد و ثنا کا۔ وہ تو ان کی اپنی بھلائی کے لیے انہیں راہ راست دکھانا چاہتا تھا مگر جب وہ اس سے منہ پھیر گئے تو اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا۔ پھر نہ ان کو ہدایت دی، نہ ان کی حفاظت اپنے ذمہ لی، نہ ان کو مہالک میں پڑنے سے بچایا اور نہ انہیں اپنے اوپر تباہی لانے سے روکا، کیونکہ وہ خود اس کی ہدایت اور ولایت کے طالب نہ تھے۔
۱۴۔ یعنی ہر زمانے میں منکرین حق دوسری جس بنیادی گمراہی میں مبتلا رہے ہیں ، اور جو بالآخر ان کی تباہی کی موجب ہوئی، وہ یہ تھی۔ اگر چہ کسی منکر آخرت کے پاس نہ پہلے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا،نہ آج ہے ، نہ کبھی ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ لیکن ان نادانوں نے ہمیشہ برے زور کے ساتھ یہی دعویٰ کیا ہے ، حالانکہ قطعیت کے ساتھ آخرت کا انکار کر دینے کے لیے نہ کوئی عقلی بنیاد موجود ہے نہ علمی بنیاد۔
۱۵۔ یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ پہلے سورہ یونس میں فرمایا : وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ ’’ وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو‘‘(آیت ۵۳)۔ پھر سورہ سبا میں فرمایا : وَقَا لَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأ تِیْنَا السَّاعَۃُ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأ تِیَنَّ کُمْ۔ ’’ منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی‘‘ (آیت ۳۰)۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کر دیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟ وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے ، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں ، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کر سکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آپؐ محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے ، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کر لیا جائے۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہو گی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے ، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہو سکتا ہے ، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ’’ ہونا چاہیے ‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ’’ ہے اور یقیناً ہے ‘‘ کہنا صرف ایک بی کا کام ہے۔
۱۶۔ یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے بنی آدم کو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا،اور اسی میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ ایسا کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے۔ اگر وہ بحث آدمی کی نگاہ میں ہو جو سورۃ کے آغاز سے آیت نمبر ۴ تک کی گئی ہے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس بر حق کائنات میں جس مخلوق کو کفر و ایمان میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہو، اور جسے اس کائنات میں بہت سی چیزوں پر تصرف کا اقتدار بھی عطا کیا گیا ہو، اور جس نے کفر یا ایمان کی راہ اختیار کر رکے عمر بھر اپنے اس اقتدار کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کر کے بہت سی بھلائیاں یا بہت سی برائیاں خود اپنی ذمہ داری پر کی ہوں ، اس کے بارے میں یہ تصور کرنا انتہائی غیر معقول ہے کہ یہ سب کچھ جب وہ کر چکے تو آخر کار بھلے کی بھلائی اور برے کی برائی، دونوں بے نتیجہ رہی اور سرے سے کوئی وقت ایسا آئے ہی نہیں جب اس مخلوق کے اعمال کی جانچ پڑتا ل ہو۔ جو شخص ایسی غیر معقول بات کہتا ہے وہ لا محالہ دو حماقتوں میں ے ایک حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ یا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہے تو مبنی بر حکمت، مگر یہاں انسان جیسی با اختیار مخلوق کو غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی کائنات ہے جسے بنانے میں سرے سے کسی حکیم کی حکمت کار فرما نہیں ہے۔ پہلی صورت میں وہ ایک متناقض بات کہتا ہے کیونکہ مبنی بر حکمت کائنات میں ایک با اختیار مخلوق کا غیر ذمہ دار ہونا صریحاً خلاف عدل و حکمت ہے۔اور دوسری صورت میں وہ اس بات کی کوئی معقول توجیہ نہیں کر سکتا کہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی نے حکمت کائنات میں انسان جیسی ذی عقل مخلوق کا وجود میں آنا آخر ممکن کیسے ہوا اور اس کے ذہن میں عدل و انصاف کا تصور کہاں سے آگیا؟ بے عقلی کی عقل کی پیدائش اور بے عدلی سے عدل کا تصور برآمد ہو جانا ایک ایسی بات ہے جس کا قائل یا تو ایک ہٹ دھرم آدمی ہو سکتا ہے ، یا پھر وہ جو بہت زیادہ فلسفہ بگھارتے بگھارتے دماغی مریض ہو چکا ہو۔
۱۷۔ یہ آخرت کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل آخرت کے ضروری ہونے کی تھی، اور یہ دلیل اس کے ممکن ہونے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس خدا کے لیے کائنات کا اتنا بڑا نظام بنا دینا دشوار نہ تھا اور جس کے لیے اس دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنا دشوار نہیں ہے ، اس کے لیے یہ بات آخر کیوں دشوار ہو گی کہ انسانوں کو دو بارہ پیدا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے اور ان کا حساب لے۔
۱۸۔ یعنی جب یہ واقعہ ہے اور پوری انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کی تباہی کا اصل موجب ان کا رسولوں کی بات نہ ماننا اور آخرت کا انکار کرنا تھا، تو اسی غلط روش پر چل کر اپنی شامت بلانے پر اصرار نہ کرو اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کی پیش کردہ ہدایت پر ایمان لے آلو۔ یہاں سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ روشنی سے مراد قرآن ہے۔ جس طرح روشنی خود نمایاں ہوتی ہے اور گردو پیش کی ان تمام چیزوں کو نمایاں کر دیتی ہے جو پہلے تاریکی میں چھپی ہوئی تھیں ، اسی طرح قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کا بر حق ہونا بجائے خود روشن ہے ، اور اس کی روشنی میں انسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع علم و عقل کافی نہیں۔ یہ چراغ جس شخص کے پاس ہو وہ فکر و عمل کی بے شمار پر پیچ راہوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ صاف صاف دیکھ سکتا ہے اور عمر بھر صراط مستقیم پر اس طرح چل سکتا ہے کہ ہر قدم پر اسے یہ معلوم ہوتا رہے کہ گمراہیوں کی طرف لے جانے والی پگ ڈنڈیاں کدھر کدھر جا رہی ہیں اور ہلاکت کے گڑھے کہاں کہاں آ رہے ہیں اور سلامتی کی راہ ان کے درمیان کون سی ہے۔
۱۹۔ اجتماع کے دن سے مراد قیامت، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْ عٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ، ’’ وہ ایک ایسا دن ہو گا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہو گا سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گا‘‘(آیت ۱۰۳)۔ اور سورہ واقعہ میں فرمایا : قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلیٰ مِیْقَا تِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ، ’’ ان سے کہو کہ تمام پہلے گزر ے ہوئے اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں ‘‘ (آیت ۵۰)۔
۲۰۔ اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جا سکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آئے ہیں ، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے۔
تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی۔ غَبُن زیادہ تر خرید و فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن رائے کے معاملہ میں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں : غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ، ’’ ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی‘‘۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ، ’’ اس نے فلاں شخص کو خرید و فروخت میں دھوکا دے دیا’’۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا ‘‘۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ، ’’ فلاں شخس سے اپنا حق وسول کرنے میں مجھ سے بھول ہو گئی ‘‘ غَبِیْن، ’’ وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی رائے کمزور ہو‘‘ مَغْبُوْن، ’’ وہ شخص جو دھوکا کھا جائے‘‘۔ لاغبن، الغفلۃ، النسیان، فوت الحظ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء، ’’ غبن کے معنی ہیں غفلت، بھول،اپنے حصے سے محروم رہ جانا، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کارو بار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا‘‘۔ امام حسن بصریؒ نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک ’’ یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے ‘‘۔
اس سے جب لفظ تغابُن بنایا جائے تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ تَغَا بَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جاتا۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الرائے ثابت ہونا۔
اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ،’’وہ دن ہو گا تغابن کا ‘‘۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے ، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے ، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہو گا۔ وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا۔اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔
مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرِقاق میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا’’ جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دیا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ بُرا عمل کرتا، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو ‘‘
بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں ، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہو گا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہرجانہ یا تاوان دے سکے۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کر سکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے ، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ بخاری، کتاب الرقاق میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، ’’ جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے ، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہوں گے ہی نہیں۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے ‘‘۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن اُنیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہو گا‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا ’’ اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہو گا‘‘۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا، ’’ جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ ‘‘ لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوٰۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جا سکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیے گئے، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا‘‘۔ ایک اور حدیث میں ، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بُریدہ سے نقل کیا ہے ، حضورؐ نے فرمایا کہ ’’ کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے ’’ پھر حضورؐ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ’’ پھر تمہارا کیا خیال ہے ‘‘؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا؟
بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں ، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نا فرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا۔ دنیا میں یہ ہو سکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ، آیات ۱۶۔ ۱۷۵۔ ۲۰۷۔ آل عمران ۷۷۔ ۱۷۷۔ النساء ۷۴۔ التوبہ ۱۱۱۔ النحل ۹۵۔ فاطر ۲۹۔ الصف ۱۰۔
ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بد کردار خاندانوں کے افراد، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے ، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ، بے ایمان تاجروں ، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں ، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی، بیوی، شوہر، اولاد، دوست، رفیق، لیڈر، پیر، مرید، یا حامی و مدد گار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت، عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے ، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جا سکتی ہیں : البقرہ ۱۶۷۔ الاعراف ۳۷ تا ۳۹۔ ابراہیم ۲۱۔ ۲۲۔ المومنون ۱۰۱۔ العنکبوت ۱۲۔۱۳۔۲۵۔ لقمٰن ۳۳۔ الاحزاب ۶۷۔۶۸۔سبا ۳۱ تا ۳۳۔ فاطر ۱۸۔ الصّٰفّٰت ۲۷ تا ۳۳۔ صٓ۵۹ تا ۶۱۔حٰم السجدہ ۲۹۔ الزخرف ۶۷۔ الدخان ۴۱۔ المعارج ۱۰تا ۱۴۔عبس ۳۴ تا ۳۷۔
۲۱۔ اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے ، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کر لیا ہو، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق ہو۔لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں۔
۲۲۔ یہ الفاظ خود کفر کے مفہوم کو واضح کر دیتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیا ت کو اللہ کی آیات نہ ماننا،اور ان حقائق کو تسلیم نہ کرنا جو ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں ، اور ان احکام کی پیروی سے انکار کر دینا جو ان میں ارشاد ہوئے ہیں ، یہی کفر ہے اور اس کے نتائج وہ ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔
۲۳۔ اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئے تھے۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے ، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعدائے اسلام ان کے درپے آزاد ہو گئے تھے۔
۲۴۔ یہ مضمون سورہ الحدید، آیات ۲۲۔ ۲۳ میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر ۳۹ تا ۴۲ میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آ جاتے ہیں ، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے۔
۲۵۔ یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے ، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے ، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے ، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے ، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے۔ ہر کمینہ حرکت کر سکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے ، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے تل سکتی ہے ، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے ، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے ، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے ،اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے، یا باطل کے آگے سر جھکا دے ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے ، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار وہ کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن، لا یقیضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ، ان اصا بتْہ ضَرّاء صؓر، فکان خیراً لہٗ، وان اصابَتہ سرّاء شکر، فکان خیراً الہ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے ، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے ، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی‘‘۔
۲۶۔ اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے ، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کو۴ی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے ، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا۔
۲۷۔ سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اچھے حالات ہوں یا برے حالات، ہر حال میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ لیکن اگر مصائب کے ہجوم سے گھبرا کر تم اطاعت سے منہ موڑ گئے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری تھی کہ راہ راست تم کو ٹھیک ٹھیک بتا دے ، سو اس کا حق رسول نے ادا کر دیا ہے۔
۲۸۔ یعنی خدائی کے سارے اختیارات تنہا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی دوسرا سرے سے یہ اختیار رکھتا ہی نہیں ہے کہ تمہاری اچھی یا بری تقدیر بنا سکے۔ اچھا وقت آ سکتا ہے تو اسی کے لائے آ سکتا ہے ، اور برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسی کے ٹالے ٹل سکتا ہے۔ لہٰذا جو شخص سچے دل سے اللہ کو خدائے واحد مانتا ہو اس کے لیے اس کے سوا سرے سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ پر بھروسا رکھے اور دنیا میں ایک مومن کی حیثیت سے اپنا فرض اس یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے چلا جائے کہ خیر بہر حال اسی راہ میں ہے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس راہ میں کامیابی نصیب ہو گی تو اللہ ہی کی مدد اور تائید و توفیق سے ہو گی، کوئی دوسری طاقت مدد کرنے والی نہیں ہے۔ اور اس راہ میں اگر مشکلات و مصائب اور خطرات و مہالک سے سابقہ پیش آئے گا تو ان سے بھی وہی بچائے گا، کوئی دوسرا بچانے والا نہیں ہے۔
۲۹۔ اس آیت کے دو مفہوم ہیں۔ ایک مفہوم کے لحاظ سے اس کا اطلاق ان بہت سی مشکلات پر ہوتا ہے جو خدا کی راہ پر چلنے میں بکثرت اہل ایمان مردوں کو اپنی بیویوں سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے اور والدین کو اپنی اولاد سے پیش آتی ہیں۔ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد کو ایسی بیوی اور ایک عورت کو ایسا شوہر ملے جو ایمان اور راست روی میں پوری طرح ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوں ، اور پھر دونوں کو اولاد بھی ایسی میسر ہو جو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔ ورنہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بد قسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسا اوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتا ہے جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بد کرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفر و دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے ، طرح طرح کے خطرات مول لے ، ملک چھوڑ کر ہجرت کر جائے، یا جہاد میں جا کر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے ، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل و عیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔
دوسرے مفہوم کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو ان آیات کے نزول کے زمانہ میں بکثرت مسلمانوں کو پید آ رہے تھے اور آج بھی ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو کسی غیر مسلم معاشرے میں اسلام قبول کرتا ہے۔ اس وقت مکہ معظمہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں عموماً یہ سورت پیش آتی تھی کہ ایک مرد ایمان لے آیا ہے ، مگر بیوی بچے نہ صرف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، بلکہ خود اس کو اسلام سے پھیر دیتے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور ایسے ہی حالات سے ان خواتین کو سابقہ پیش آتا تھا جو اپنے خاندان میں اکیلی اسلام قبول کرتی تھیں۔
یہ دونوں قسم کے حالات جن اہل ایمان کو در پیش ہوں انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی گئی ہیں :
سب سے پہلے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیوی رشتے کے لحاظ سے اگر چہ یہ لوگ وہ ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ، لیکن دین کے لحاظ سے یہ تمہارے ’’ دشمن‘‘ ہیں۔ یہ دشمنی خواہ اس حیثیت سے ہو کہ وہ تمہیں نیکی سے روکتے اور بدی کی طرف مائل کرتے ہوں یا اس حیثیت سے کہ وہ تمہیں ایمان سے روکتے اور کفر کی طرف کھینچتے ہوں ، یا اس حیثیت سے کہ ان کی ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہوں اور تمہارے ذریعہ سے اگر کوئی بات بھی مسلمانوں کے جنگی رازوں کے متعلق ان کے علم میں آ جائے تو اسے اسلام کے دشمنوں تک پہنچا دیتے ہوں ، اس سے دشمنی کی نوعیت و کیفیت میں تو فرق ہو سکتا ہے ، لیکن بہر حال یہ ہے دشمنی ہی، اور اگر تمہیں ایمان عزیز ہو تو اس لحاظ سے تمہیں ان کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے ، ان کی محبت میں گرفتار ہو کر کبھی اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایمان و کفر، یا طاعت و معصیت کی دیوار حائل ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا کہ ان سے ہوشیار رہی۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کر لو۔ ان کی محبت کو کبھی اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ و رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہو جائیں۔ ان پر کبھی اتنا اعتماد نہ کرو کہ تمہاری بے احتیاطی سے مسلمانوں کی جماعت کے اسرار انہیں معلوم ہو جائیں اور وہ دشمنوں تک پہنچیں۔ یہ وہی بات ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ یُؤْ تیٰ برجلٍ یوم القیٰمۃ فیقالُ اکل عیالہ حَسَنا تِہٖ۔’’ ایک شخص قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے‘‘۔
آخر میں فرمایا گیا کہ ’’ اگر تم عفو و در گزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دشمنی سے تمہیں صرف اس لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان سے ہوشیار رہو اور اپنے دین کو ان سے بچنے کی فکر کرو۔ اس سے آگے بڑھ کر اس تنبیہ کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے لگو، یا ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، یا ان کے ساتھ تعلقات میں ایسی بد مزگی پیدا کر لو کہ تمہاری اور ان کی گھریلو زندگی عذاب بن کر رہ جائے۔ یہ اس لیے کہ ایسا کرنے کے دو نقصانات بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے بیوی بچوں کی اصلاح کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جانے کا خطرہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف الٹی بد گمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور گرد و پیش کے لوگوں کی نگاہ میں مسلمان کے اخلاق و کر دار کی یہ تصویر بنتی ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی وہ خود اپنے گھر میں اپنے بال بچوں تک کے لیے سخت گیر اور بد مزاج بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ، تو ان کو ایک مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب ان کے والدین کافر ہوتے تھے اور وہ ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین سے پھر جائیں۔ اور دوسری مشکل اس وقت پیش آتی جب ان کے بیوی بچے (یا عورتوں کے معاملہ میں ان کے شوہر اور بچے ) کفر پر قائم رہتے اور دین حق کی راہ سے انہیں پھیرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی صورت کے متعلق سورہ عنکبوت(آیت ۸) اور سورہ لقمان(آیات ۱۴۔۱۵) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ دین کے معاملہ میں والدین کی بات ہر گز نہ مانو، البتہ دنیا کے معاملات میں ان کے سا تھ حسن سلوک کرتے رہو۔ دوسری صورت کا حکم یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے دین کو تو اپنے بال بچوں سے بچانے کی فکر ضرور کرو، مگر ان کے ساتھ سخت گیری کا برتاؤ نہ کرو، بلکہ نرمی اور عفو و در گزر سے کام لو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، آیات ۲۳۔ ۲۴۔ جلد پنجم، المجادلہ، حاشیہ ۳۷۔ الممتحنہ، حواشی ۱ تا ۳۔ المنافقون، حاشیہ ۱۸)۔
۳۰۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال، حاشیہ ۲۳۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جسے طبرانی نے حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت کیا ہے کہ ’’ تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کر دے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے ، بلکہ تیرا اصل دشمن، ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صُلب سے پیدا ہوا ہے ، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ‘‘۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اور سورہ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کا غالب رکھنے میں کامیاب رہو۔ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔
۳۱۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : اِتَّقُو ا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ، ’’ اللہ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘‘ (آل عمران ۱۰۲)۔ دوسری جگہ فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا، ’’ اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا ‘‘ (البقرہ۔ ۲۸۶)۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ’’جہاں تک تمہارے جس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ ان تینوں آیتوں کو ملا کر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک تقویٰ کی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے چاہییں اور اس کی نا فرمانی سے بچنا چاہیے۔ اس معاملہ میں اگر وہ خود تساہل سے کام لے گا تو مواخذہ سے نہ بچ سکے گا۔ البتہ جو چیز اس کی مقدرت سے باہر ہو گی (اور اس کا فیصلہ اللہ ہی بہتر کر سکتا ہے کہ کیا چیز کس کی مقدرت سے واقعی باہر تھی) اس کے معاملہ میں اس سے باز پرس نہ کی جائے گی۔
۳۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحشر، حاشیہ ۱۹۔
۳۳۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ ۲۶۷۔ المائدہ، حاشیہ ۳۲۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ ۱۶۔
۳۴۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، فاطر، حواشی ۵۲۔ ۵۹۔ الشوریٰ، حاشیہ ۴۲۔