تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ التّغَابُن

(سورۃ التغابن ۔ سورہ نمبر ۶۴ ۔ تعداد آیات ۱۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اللہ ہی کی پاکی بیان کر رہا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے اسی کے لئے ہے بادشاہی اور اسی کے لئے ہے ہر تعریف اور وہی ہے جسے ہر چیز پر پوری قدرت ہے

۲۔۔۔     وہ وہی ہے جس نے پیدا فرمایا (اپنی قدرت کا ملہ سے ) تم سب کو (اے لوگو!) پھر تم میں سے کچھ تو کافر ہیں اور کچھ مومن اور اللہ پوری طرح دیکھتا ہے ان تمام کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو

۳۔۔۔     اسی نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو حق کے ساتھ اور اس نے صورت گری فرمائی تم سب کی سو کیا ہی عمدہ صورتیں بنائیں اس نے تمہاری اور اسی کی طرف لوٹنا ہے (سب کو اور ہر حال میں )

۴۔۔۔     وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور (اسی طرح) وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ تم لوگ چھپا کر کرتے ہو اور وہ سب کچھ بھی جو کہ تم اعلانیہ کرتے ہو اور اللہ پوری طرح جانتا ہے دلوں کی باتوں تک کو

۵۔۔۔     کیا تم لوگوں کو خبر نہیں پہنچی ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا تم سے پہلے پھر چکھنا پڑا ان کو وبال اپنے کئے کا (اسی دنیا میں ) اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے (آخرت میں )

۶۔۔۔     یہ سب کچھ اس لئے کہ ان کے پاس آئے ان کے رسول کھلے دلائل کے ساتھ مگر (اس سب کے باوجود) ان لوگوں نے یہی کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ اس طرح انہوں نے کفر ہی کو اپنایا اور روگردانی ہی کی اور اللہ نے بھی اپنی بے نیازی کا معاملہ فرمایا اور اللہ تو ہے ہی (ہر طرح سے اور ہر کسی سے ) بے نیاز اور ہر تعریف کا سزاوار (و حق دار)

۷۔۔۔     کافر لوگوں نے بڑے دعوے سے کہا کہ ان کو ہرگز دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا (سو ان سے ) کہو کہ کیوں نہیں ؟ میرے رب کی قسم تم سب ضرور بالضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر تم کو ضرور بتا دئیے جائیں گے وہ سارے کام جو تم لوگ کرتے رہے تھے اور یہ اللہ کے لئے بہت آسان ہے

۸۔۔۔     پس تم ایمان لے آؤ اللہ پر اس کے رسول پر اور اس نور پر جسکو ہم نے اب اتارا ہے اور اللہ کو پوری خبر ہے ان سب کاموں کی جو تم لوگ کرتے ہو

۹۔۔۔     اور (ہمیشہ یاد رکھو اس عظیم الشان اور ہولناک دن کو) جس دن کہ وہ جمع کر دے گا تم سب کو (ایک ہی آواز سے ) اجتماع کے اس دن وہ دن ہو گا ہار جیت کے کھلنے کا دن اور (اس روز فیصلہ اس طرح ہو گا کہ) جو کوئی ایمان لایا ہو گا (سچے دل سے ) اور اس نے کام بھی کئے ہوں گے نیک تو اللہ مٹا دے گا اس سے اس کی برائیوں کو اور اس کو داخل فرما دے گا (اپنے کرم سے ) ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی (طرح طرح کی عظیم الشان) نہریں جن میں ہمیشہ رہیں گے ایسے (خوش نصیب) لوگ یہی ہے بڑی کامیابی

۱۰۔۔۔     اور اس کے برعکس جنہوں نے (زندگی بھر) کفر ہی کیا ہو گا اور انہوں نے جھٹلایا ہو گا ہماری آیتوں کو تو ایسے لوگ دوزخی ہوں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہو گا اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۱۱۔۔۔     نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ ہی کے اذن (و حکم) سے اور جو کوئی (سچے دل سے ) ایمان رکھتا ہو گا اللہ پر تو اللہ ہدایت (کے نور) سے نواز دے گا اس کے دل کو اور اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۱۲۔۔۔     اور فرمانبرداری کرو تم سب لوگ اللہ کی اور اس کے رسول کی پھر اگر تم نے روگردانی ہی کی تو ہمارے رسول (کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ ان) کے ذمے تو بس پہنچا دینا ہے کھول کر

۱۳۔۔۔     اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو

۱۴۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو یقیناً تمہاری بیویوں اور تمہاری اولادوں میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں پس تم ان سے بچ کر رہا کرو اور اگر تم معاف کر دیا کرو درگزر سے کام لیا کرو اور بخش دیا کرو تو (تمہارے لئے بھی بخشش کی امید ہو سکتی ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ یقیناً بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے

۱۵۔۔۔     سوائے اس کے نہیں کہ تمہارے مال اور تمہاری اولا دیں تو محض آزمائش کا سامان ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا عظیم الشان اجر ہے

۱۶۔۔۔     پس تم لوگ ڈرتے رہا کرو اللہ سے جتنا کہ تم سے ہو سکے اور تم سنتے اور مانتے رہا کرو اور خرچ بھی کیا کرو (کہ یہ سب کچھ) خود تمہارے ہی لئے بہتر ہے اور جو کوئی بچا لیا گیا اپنے نفس کی تنگی سے تو ایسے ہی لوگ ہیں فلاح پانے والے

۱۷۔۔۔     اگر تم قرض دو گے اللہ (پاک) کو اچھا قرض (اے ایمان والو) تو وہ تمہیں (کئی گنا) بڑھا کر دے گا اور تمہاری بخشش بھی فرمائے گا اور اللہ تو بڑا ہی قدر داں انتہائی بردبار ہے

۱۸۔۔۔     (ایک برابر) جاننے والا نہاں و عیاں کا بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا

تفسیر

 

۲۔۔۔   یعنی وہی اللہ جس کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد و ثنا میں آسمانوں اور زمین کی یہ تمام کائنات اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ سب مصروف و منہمک ہے، اسی قادر مطلق رب رحمان و رحیم نے تم سب کو (اے لوگو!) پیدا فرمایا اور وجود بخشا، اور تمہارے لئے زندگی کے جملہ اسباب و لوازم کو پیدا فرمایا اور تم کو ظاہری و باطنی اور حسی اور معنوی بیحد و حساب نعمتوں سے نوازا اور سرفراز فرمایا۔ سو اس سب کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ تم لوگ بھی پورے صدق و اخلاص رضاء و رغبت اور اپنے دلی شوق و ذوق کے ساتھ اس وحدہٗ لاشریک کی حمد و ثنا اور اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول و منہمک ہو جاتے کہ یہ اس خالق و مالک کا تم لوگوں پر حق بھی ہے اور اسی میں خود تمہارا اپنا بھلا بھی ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی و محدود زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے کہ اس سے ایک طرف تو تم لوگوں کو پاکیزہ اور ستھری زندگی کی نعمت نصیب ہوتی اور دوسری طرف اس سے تم لوگ اس کائنات اور اس کی ہر چیز سے ہمنوائی کے شرف سے مشرف ہو جاتے اور اس کے نتیجے میں تم کو سکون و اطمینان اور کیف و سرور کی ایک خاص دولت سے سرفرازی نصیب ہوتی اور دوسری طرف تم لوگوں کو آخرت میں رب کی رضا اور وہاں کی ابدی بادشاہی بھی نصیب ہوتی مگر تم میں سے کچھ لوگ ایمان کی سعادت سے سرفراز ہوئے اور کچھ کفر کی ظلمتوں ہی میں پڑے رہے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے لئے ابدی خسارے ہی کی راہ کو اپنایا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اور یہ اہم اور بنیا دی حقیقت تم لوگوں کے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ اللہ ان تمام کاموں کو پوری طرح دیکھ رہا ہے جو تم لوگ کرتے ہو، اس لئے تم سب کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہو گا کہ یہ اس خالق حکیم کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا ہے پس ہر کوئی اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لے کہ وہ کل کے اس یوم حساب کے لئے کیا آگے بھیج رہا ہے، و باللہ التوفیق لمایحب و یرید،

۷۔۔۔   اس لئے کہ اس کی شان عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ کی شان ہے، یعنی وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کی صفت فَعَالٌ لِّمَا یُرِیْدُ کی صفت ہے کہ وہ قادر مطلق جس چیز کا بھی ارادہ فرمائے اس کو بہر حال اور بلا کسی دشواری اور مشکل کے اور اپنے ارادے کے مطابق کر کے رہتا ہے اور اس وحدہٗ لاشریک کی عظمت شان اور اس کی قدرت بے پایاں کا عالم تو یہ ہے کہ دنیا جہاں کے سب لوگوں کو پیدا کرنا اور ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا اس کے لئے ایسے ہی ہے جیسے ایک جان کو پیدا کرنا، اور دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس حقیقت کی اس طرح تصریح فرمائی گئی۔ مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلاَّ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ۔ (لقمٰن۔۲٨) اور پھر مرنے کے بعد لوگوں کو دوبارہ اٹھانے کے سلسلے میں اس کو نہ کسی طرح کی تیاری کی ضرورت ہو گی، اور نہ ہی کسی طرح کے اسباب و وسائل کی کہ وہ ایسی ہر حاجت و ضرورت سے پاک ہے اور اس کی شان اس طرح کے جملہ تصورات سے اعلیٰ و بالا ہے سبحانہ و تعالیٰ بلکہ یہ سب کچھ محض اس کے ایک حکم و ارشاد اور ارادہ اشارہ کا منتظر ہو گا چنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ ثُمَّ نُفِخَ فِیٍہِ اُخْریٰ فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ (الزمر۔۶٨) یعنی جونہی صور میں دوسری مرتبہ پھونک ماری جائے گی یہ سب کے سب یکایک کھڑے دیکھ رہے ہونگے جبکہ ایک اور مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ (النازعات ۱۳۔ ۱۴) یعنی وہ تو محض ایک ڈانٹ اور جھڑکی ہو گی جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب حشر کے اس میدان عظیم میں آ موجود ہونگے۔ سو یہ انسان کی بڑی بدبختی اور محرومی ہے کہ وہ اس قادرِ مطلق خالق کل کی قدرت بے نہایت کو اپنے اوپر قیاس کر کے بعث بعد الموت انکار کرے اور اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے اس انتہائی ہولناک خسارے اور دائمی عذاب مبتلا ہو جائے جو کہ خساروں کا خسارہ، اور محرومیوں کی محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۰۔۔۔   ان دونوں میں سے پہلی آیت کریمہ میں جو لفظ تغابن آیا ہے وہی دراصل ان دونوں کے مضمون کا اصل اور مرکزی نقطہ ہے اور یہ دونوں آیتیں اسی کی شرح و تفسیر ہیں، تغابن دراصل غبن سے ماخوذ مشتق ہے جس کے معنی نقصان کے آتے ہیں خواہ وہ نقصان عقل و فکر کا ہو یا مال دولت کا اسی لئے عربی زبان میں غَبِیْن اس شخص کو کہا جاتا ہے جو عقل و فکر اور فہم ورائے کے اعتبار سے کمزور ہو اور مغبون اس کو کہا جاتا ہے جو لین دین کے سلسلے میں دھوکا کھا جائے اور اسی سے ماخوذ لفظ تغبان اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ اس کا تعلق دو فریقوں سے ہو، خواہ وہ دونوں دو فرد ہوں، یا دو گروہ اور ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ کہ وہ غبن اور نقصان سے محفوظ رہے اور نفع اور فائدہ ہی حاصل کرے، دنیا میں جتنی بھی دوڑ دھوپ ہو رہی ہے وہ اسی بناء پر اور اسی اعتبار سے ہو رہی ہے، لیکن اس ضمن میں اصل اور بنیا دی سوال یہ ہے کہ اصل اور حقیقی نفع و نقصان ہے کیا؟سو اس سوال کے جواب میں دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ پہلے بھی یہی تھا آج بھی یہی ہے اور آئندہ بھی یہی رہے گا کہ اس دنیا کے دار الامتحان اور دارالابتلاء میں ایک گروہ یعنی ابناء دنیا کا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اسی دنیاوی زندگی کی کامیابی اور یہیں کا عیش و عشرت ہے جس نے اس کو پا لیا اس نے سب کچھ پا لیا۔ اور جو اس سے محروم رہا وہی محروم ہے۔ اسی لئے ایسے لوگوں کی ساری کوششوں اور تمام تر محنتوں اور مشقتوں کا سلسلہ اسی محور کے گرد گھومتا ہے اور یہ لوگ دنیاوی مال و دولت کرسی و اقتدار اور عیش و عشرت ہی کو اپنا اصل مقصد بنائے ہوئے ہیں اور یہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں بلکہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی بدبخت ایسے ہیں جو آخرت کے تقاضوں کے پیش نظر دنیاوی عیش و عشرت کو لات مار دینے والے سچے اور مخلص ایمانداروں کو احمق اور بیوقوف سمجھتے ہیں، والعیاذُ باللہ، جبکہ اس کے بالمقابل دوسرا گروہ ان ابناء آخرت کا ہے جن کے نزدیک اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی اور اصل اور حقیقی کامیابی وہیں کی کامیابی ہے اس لئے ان کی مساعی کا اصل مدار و محور آخرت ہی کی کمائی ہوتی ہے دنیا کے لئے ان کی محنت و مشقت تو محض بقدر ضرورت و کفایت ہوتی ہے۔ اور یہ اپنی زندگی انہی حدود کے اندر گزارتے ہیں جو ان کے خالق و مالک نے ان کے لئے مقرر فرمائی ہیں اور جن کی خبر ان کو اس کے رسول نے دی ہے اور یہ دونوں گروہ جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ہے، اس دنیا میں پہلے بھی موجود تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے ان دونوں میں سے ہر گروہ اپنے آپ کو صحیح اور اپنے اختیار کردہ راستہ کو درست سمجھتا ہے اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کب اور کیسے ہو گا؟ تو اسی کا جواب یہاں پر یَوْمُ التَّغَابُنْ کے اس نہایت موثر اور معنی خیز لفظ سے دیا گیا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سود و زیاں کے ظہور اور ہار جیت کے فیصلے کی جگہ یہ دنیا نہیں کہ یہ تو سرے سے دارالجزاء اور دارالانعام ہے ہی نہیں، دارالانعام اور دارالجزاء آخرت کا وہ یوم عظیم ہے جس میں سب لوگ جمع ہونگے جہاں وہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ پائیں گے تب یہ حقیقت پوری طرح کھل جائے گی کہ اصل میں ہارا کون؟ اور اصل اور حقیقی جیت سے کون سرفراز ہوا؟ سو جن لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں ایمان اور عمل صالح کی پونجی کمائی ہو گی، اور انہوں نے اپنے رب کی رضاء و خوشنودی کے حصول اور اپنی کامیابی ہی کو اپنا اصل مقصد، اور حقیقی نصب العین بنایا ہو گا، وہی کامیاب ہونگے، اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، اور ان کو ایسی عظیم الشان جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی، جہاں ایسے خوش نصیبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا نصیب ہو گا۔ سو یہی ہے سب سے بڑی کامیابی جو کہ اصل حقیقی ابدی اور دائمی لامتناہی کامیابی ہو گی، جس کے سامنے دنیا کی ساری کامیابیاں ہیچ ہیں اس کے برعکس جن لوگوں نے دنیاوی زندگی میں کفر و انکار ہی سے کام لیا ہو گا، اور انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہو گا وہ دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے ساتھی ہونگے، جس میں ان کو اپنے کفر و انکار اور تکذیب حق کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا۔ اور بڑا ہی برا اور انتہائی ہولناک ٹھکانا ہو گا، سو وہی دن ہو گا اصل میں ہار جیت کے فیصلے کا دن، جو اس دن کامیاب ہو گیا وہی اصل اور حقیقی معنوں میں کامیاب ہو گا، جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ، اور جو اس دن ناکام و نامراد ہوا، وہی اصل میں ناکام و نامراد ہو گا، کیونکہ یہ وہ سب سے بڑی اور انتہائی ہولناک ناکامی ہو گی، جس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی، والعیاذ باللہ العظیم، ونکتفی بہذا القدر من التفسیر المختصر لسورۃ التغابن، و الحمد للہ جل و علا