خزائن العرفان

سُوۡرَةُ التّغَابُن

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ تغابن اکثر کے نزدیک مدنیّہ ہے اور بعض مفسّرین کا قول ہے کہ مکّیہ ہے سوائے تین آیتوں کے جو یّاَ یّھَُاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں دو۲ رکوع، اٹّھارہ ۱۸ آیتیں، دو سو اکتالیس۲۴۱ کلمے، ایک ہزار ستّر۱۰۷۰ حرف ہیں۔

(۱) اللہ کی پاکی بولتا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں، اسی کا ملک ہے  اور اسی کی تعریف (ف ۲) اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۲                 اپنے مُلک میں متصرف ہے، جو چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے کرتا ہے، نہ کوئی شریک، نہ ساجھی، سب نعمتیں اسی کی ہیں۔

(۲) وہی ہے  جس نے  تمہیں پیدا کیا تو تم میں کوئی کافر اور تم میں کوئی مسلمان (ف ۳) اور اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے۔

۳                 حدیث شریف میں ہے کہ انسان کی سعادت و شقاوت فرشتہ بحکمِ الٰہی اسی وقت لکھ دیتا ہے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔

(۳) اس نے  آسمان اور زمین حق کے  ساتھ بنائے  اور تمہاری تصویر کی تو تمہاری اچھی صورت بنائی (ف ۴) اور اسی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۵)

۴                 تو لازم ہے کہ تم اپنی سیرت بھی اچھی رکھو۔

۵                 آخرت میں۔

(۴) جانتا ہے  جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے  اور جانتا ہے  جو تم چھپاتے  اور ظاہر کرتے  ہو، اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔

(۵) کیا تمہیں (ف ۶) ان کی خبر نہ آئی جنہوں نے  تم سے  پہلے  کفر کیا (ف ۷) اور اپنے  کام کا وبال  چکھا (ف ۸) اور ان کے  لیے  دردناک عذاب ہے  (ف ۹)

۶                 اے کفّارِ مکّہ۔

۷                 یعنی کیا تمہیں گزری ہوئی امّتوں کے احوال معلوم نہیں جنہوں نے انبیاء کی تکذیب کی۔

۸                 دنیا میں اپنے کفر کی سزا پائی۔

۹                 آخرت میں۔

(۶) یہ اس لیے  کہ ان کے  پاس ان کے  رسول روشن دلیلیں لاتے  (ف ۱۰) تو بولے، کیا  آدمی ہمیں راہ بتائیں گے  (ف ۱۱) تو کافر ہوئے  (ف ۱۲) اور پھر گئے  (ف ۱۳) اور اللہ نے  بے  نیازی کو کام فرمایا، اور اللہ بے  نیاز ہے  سب خوبیوں سراہا۔

۱۰               معجزے دکھاتے۔

۱۱               یعنی انہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا اور یہ کمالِ بے عقلی و نا فہمی ہے، پھر بشر کا رسول ہونا تو نہ مانا اور پتّھر کا خدا ہونا تسلیم کر لیا۔

۱۲               رسولوں کا انکار کر کے۔

۱۳               ایمان سے۔

(۷) کافروں نے  بکا کہ وہ ہرگز نہ اٹھائے  جائیں گے، تم فرماؤ کیوں نہیں میرے  رب کی قسم تم ضرور اٹھائے  جاؤ گے  پھر تمہارے  کوتک تمہیں جتا  دیے  جائیں گے، اور یہ اللہ کو آسان ہے۔

(۸) تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے  رسول اور اس نور پر (ف ۱۴)  جو ہم نے  اتارا، اور اللہ تمہارے  کاموں سے  خبردار ہے۔

۱۴               نور سے مراد قرآن شریف ہے کیونکہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہر شے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔

(۹) جس دن تمہیں اکٹھا کرے  گا سب جمع ہونے  کے  دن (ف ۱۵) وہ  دن ہے  ہار  والوں کی ہار کھلنے  کا (ف ۱۶) اور جو اللہ پر ایمان لائے  اور اچھا کام کرے  اللہ اس  کی برائیاں اتار دے  گا اور اسے  باغوں میں لے  جائے  گا جن کے  نیچے  نہریں بہیں کہ وہ ہمیشہ ان میں رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

۱۵               یعنی روزِ قیامت، جس میں سب اوّلین و آخرین جمع ہوں گے۔

۱۶               یعنی کافروں کی محرومی ظاہر ہونے کا۔

(۱۰) اور جنہوں نے  کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ آگ والے  ہیں ہمیشہ اس میں  رہیں، اور کیا ہی برا  انجام۔

(۱۱)  کوئی مصیبت نہیں پہنچتی (ف ۱۷) مگر اللہ کے  حکم سے، اور جو اللہ پر ایمان لائے  (ف ۱۸) اللہ اس کے  دل کو ہدایت فرما دے  گا (ف ۱۹) اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

۱۷               موت کی، یا مرض کی، یا نقصانِ مال کی، یا اور کوئی۔

۱۸               اور جانے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور اس کے ارادے سے ہوتا ہے اور وقتِ مصیبت اِنَّالِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھے اور اللہ تعالیٰ کی عطا پر شکر اور بَلا پر صبر کرے۔

۱۹               کہ وہ اور زیادہ نیکیوں اور طاعتوں میں مشغول ہو۔

(۱۲) اور اللہ کا حکم مانو  اور  رسول کا حکم مانو، پھر  اگر تم منہ پھیرو  (ف ۲۰) تو جان لو کہ ہمارے  رسول پر صرف صریح پہنچا دینا ہے  (ف ۲۱) 

۲۰               اﷲ تعالیٰ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرمانبرداری سے۔

۲۱               چنانچہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور کامل طور پر دِین کی تبلیغ فرما دی۔

(۱۳) اللہ ہے  جس کے  سوا کسی کی بندگی نہیں اور اللہ ہی پر ایمان والے  بھروسہ کریں۔

(۱۴) اے  ایمان والو تمہاری کچھ  بی بیا ں اور بچے  تمہارے  دشمن ہیں (ف ۲۲) تو ان سے  احتیاط رکھو (ف ۲۳) اور اگر معاف کرو  اور درگزرو  اور بخش دو تو بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۲۲               کہ تمہیں نیکی سے روکتے ہیں۔

۲۳               اور ان کے کہنے میں آ کر نیکی سے باز نہ رہو۔

شانِ نزول : چند مسلمانوں نے مکّہ مکرّمہ سے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی بی بی اور بچّوں نے انہیں روکا اور کہا ہم تمہاری جدائی پر صبر نہ کر سکیں گے، تم چلے جاؤ گے ہم تمہارے پیچھے ہلاک ہو جائیں گے، یہ بات ان پر اثر کر گئی اور وہ ٹھہر گئے، کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے ہجرت کی تو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو دیکھا کہ وہ دِین میں بڑے ماہر اور فقیہ ہو گئے ہیں، یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی بی بی، بچّوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا اور یہ قصد کیا کہ ان کا خرچ بند کر دیں کیونکہ وہی لوگ انہیں ہجرت سے مانع ہوئے تھے جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ حضور کے ساتھ ہجرت کرنے والے اصحاب علم و فقہ میں ان سے منزلوں آ گے نکل گئے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اپنے بی بی بچّوں سے درگذر کرنے اور معاف کرنے کی ترغیب فرمائی گئی، چنانچہ آ گے ارشاد فرمایا جاتا ہے۔

(۱۵) تمہارے  مال اور تمہارے  بچے  جانچ  ہی ہیں (ف ۲۴) اور اللہ کے  پاس بڑا ثواب ہے  (ف ۲۵)

۲۴               کہ کبھی آدمی ان کی وجہ سے گناہ اور معصیّت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ان میں مشغول ہو کر امورِ آخرت کے سر انجام سے غافل ہو جاتا ہے۔

۲۵               تو لحاظ رکھو، ایسا نہ ہو کہ اموال و اولاد میں مشغول ہو کر ثوابِ عظیم کھو بیٹھو۔

(۱۶) تو اللہ سے  ڈرو جہاں تک ہو سکے  (ف ۲۶) اور فرمان سنو اور حکم مانو (ف ۲۷) اور اللہ  کی راہ میں خرچ کرو اپنے  بھلے  کو، اور جو اپنی جان کے  لالچ سے  بچایا گیا (ف ۲۸) تو  وہی فلاح پانے  والے  ہیں۔

۲۶               یعنی بقدر اپنی وسعت و طاقت کے طاعت و عبادت بجا لاؤ، یہ تفسیر ہے اِتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ کی۔

۲۷               اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا۔

۲۸               اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا۔

(۱۷) اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے  (ف ۲۹) وہ تمہارے  لیے  اس کے  دونے  کر دے  گا اور تمہیں بخش دے  گا اور اللہ قدر فرمانے  والے  حلم والا ہے

(۱۸) ہر نہاں اور عیاں کا جاننے  والا عزت والا حکمت والا۔

۲۹               یعنی خوش دلی سے نیک نیتی کے ساتھ مالِ حلال سے صدقہ دو گے، صدقہ دینے کو براہِ لطف و کرم قرض سے تعبیر فرمایا، اس میں صدقہ کی ترغیب ہے کہ صدقہ دینے والا نقصان میں نہیں ہے بالیقین اس کی جزا پائے گا۔