١۔ (۱) نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔
١۔ (۲) اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دوحالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔
١۔ (۳) یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں ) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو
١۔(۴) یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔
١۔(٥) یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔
١۔(٦) یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہو گا۔
١۔(٧) یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کر دے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
٢۔ (۱) مطلقہ مدخولہ کی عدت تین حیض ہے۔ اگر رجوع کرنا مقصود ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کر لو۔ بصورت دیگر انہیں معروف کے مطابق اپنے سے جدا کر دو۔
٢۔ (۲) اس رجعت اور بعض کے نزدیک طلاق پر گواہ کر لو۔ یہ امر وجوب کے لئے نہیں، استحباب کے لئے ہے، یعنی گواہ بنا لینا بہتر ہے تاہم ضروری نہیں۔
٢۔ (۳) یہ تاکید گواہوں کو ہے کہ وہ کسی کی رو رعایت اور لالچ کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیں۔
٢۔(۴) یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نکلنے کی سبیل پیدا فرما دیتا ہے
٣۔ (۱) یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔
٣۔ (۲) تنگیوں کے لئے بھی اور آسانیوں کے لئے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہو جاتے ہیں۔ بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔
٤۔ (۱) یہ ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا ہو، یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ واضح رہے کہ نادر طور پر ایسا ہوتا ہے کہ عورت سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور اسے حیض ہی نہیں آتا۔
٤۔ (۲) مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے، چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہو جائے، ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہو گیا ہو۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحیح بخاری) اور جن کے خاوند فوت ہو جائیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
٦۔ (۱) یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں۔ اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کر دے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہو جائے خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً چھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔
٦۔ (۲) یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بے آبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑ جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے عدت ہو جانے کے قریب ہو تو رجوع کر لے اور بار بار ایسا نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرمادی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کر سکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہو جائے گا۔
٦۔ (۲) یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ و رہائش ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔
٦۔ (۳) یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔
٦۔(۴) یعنی باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لئے جائیں۔ مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔
٦۔(۵) یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہو سکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کر لے جو اسکے بچے کو دودھ پلائے
۷۔ (۱) یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال ودولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعۃ کی خدمت ضروری ہے۔
۷۔ (۲) یعنی مالی لحاظ سے کمزور ہو۔
۷۔ (۳) اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔ مطلب ان ہدایات کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا لاتضار والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ (البقرہ) نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو۔
۷۔(۴)چنانچہ جو اللہ پر اعتماد وتوکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آسانی و کشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔
۸۔ (۱) عَتَتُ، ای تمردت وطغت و استکبرت عن اتباع امر اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسلہ۔
۷۔ (۲) نکرا، منکرا فظیعا، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ عذابا نکرا، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف و مسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا، اور حسابا شدیدا وہ ہے جو آخرت میں ہو گا۔
١١۔ (۱) رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے اَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔
١١۔ (۲) یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
١١۔ (۳) عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب، مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیا تھا۔
١٢۔ (۱) ای خلق من الارض مثلھن۔ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد و مسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے۔ (القرطبی) احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من اخذ شبرا من الارض ظلاما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (صحیح مسلم) جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(صحیح بخاری) اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں خسف بہ الی سبع ارضین یعنی اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں اسی طرح کا پیغمبر ہے جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا مثلاً آدم آدم کی طرح، نوح نوح کی طرح، ابراہیم ابراہیم کی طرح، عیسیٰ عیسیٰ کی طرح۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔
١٢۔ (۲) یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔
١٢۔ (۳) پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔