خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الطّلاَق

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ طلاق مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، بارہ ۱۲ آیتیں اور دو سو انچاس ۲۴۹کلمے اور ایک ہزار ساٹھ ۱۰۶۰ حرف ہیں۔

(۱) اے  نبی (ف ۲) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے  وقت پر انہیں طلاق دو  اور  عدت کا شمار  رکھو (ف ۳) اور اپنے  رب اللہ سے  ڈرو، عدت میں انہیں ان کے  گھروں سے  نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں (ف ۴) مگر یہ کہ کوئی صریح بے  حیائی کی بات لائیں (ف ۵) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے  آگے  بڑھا  بیشک اس نے  اپنی جان پر ظلم کیا، تمہیں نہیں معلوم شاید اللہ اس کے  بعد کوئی نیا حکم بھیجے  (ف ۶)

۲                 اپنی امّت سے فرما دیجئے۔

۳                 شانِ نزول : یہ آیت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حق میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی بی بی کو عورتوں کے ایّامِ مخصوصہ میں طلاق دی تھی، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ رجعت کریں، پھر اگر طلاق دینا چاہیں تو طُہر یعنی پاکی کے زمانہ میں طلاق دیں، اس آیت میں عورتوں سے مراد مدخول بہا عورتیں ہیں (جو اپنے شوہروں کے پاس گئی ہوں) صغیرہ، حاملہ اور آ ئسہ نہ ہوں۔ آئسہ وہ عورت ہے جس کے ایّام بڑھاپے کی وجہ سے بند ہو گئے ہوں، ان کا وقت نہ رہا ہو۔ مسئلہ : غیرِ مدخول بہا پر عدّت نہیں ہے۔ باقی تینوں قِسم کی عورتیں جو ذکر کی گئی تھیں انہیں ایّام نہیں ہوتے تو ان کی عدّت حیض سے شمار نہ ہو گی۔ مسئلہ : غیرِ مدخول بہا کو حیض میں طلاق دینا جائز ہے۔ آیت میں جو حکم دیا گیا اس سے مراد ایسی مدخول بہا عورتیں ہیں جن کی عدّت حیض سے شمار کی جائے انہیں طلاق دینا ہو تو ایسے طُہر میں طلاق دیں جس میں ان سے جماع نہ کیا گیا ہو، پھر عدّت گزرنے تک ان سے تعرّض نہ کریں اس کو طلاقِ احسن کہتے ہیں۔ طلاقِ حسن غیرِ موطوئہ عورت یعنی جس سے شوہر نے قربت نہ کی ہو اس کو ایک طلاق دینا طلاق حسن ہے خواہ یہ طلاق حیض میں ہو۔ اور موطوئہ عورت اگر صاحبِ حیض ہو تو اسے تین طلاقیں ایسے تین طُہروں میں دینا جن میں اس سے قربت نہ کی ہو طلاقِ حسن ہے اور اگر موطوئہ صاحبِ حیض نہ ہو تو اس کو تین طلاقیں تین مہینوں میں دینا طلاقِ حسن ہے، طلاقِ بدعی حالتِ حیض میں طلاق دینا یا ایسے طُہر میں طلاق دینا جس میں قربت کی گئی ہو طلاقِ بدعی ہے، ایسے ہی ایک طُہر میں تین یا دو طلاقیں یکبارگی یا دو مرتبہ میں دینا طلاقِ بِدعی ہے اگرچہ اس طُہر میں وطی نہ کی گئی ہو۔ مسئلہ : طلاقِ بدعی مکروہ ہے مگر واقع ہو جاتی ہے اور ایسی طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔

۴                 مسئلہ : عورت کو عدّت شوہر کے گھر پوری کرنی لازم ہے نہ شوہر کو جائز کہ مطلّقہ کو عدّت میں گھر سے نکالے، نہ ان عورتوں کو وہاں سے خود نکلنا روا۔

۵                 ان سے کوئی فسق ظاہر صادر ہو جس پر حد آتی ہے مثل زنا اور چوری کے، اس لئے انہیں نکالنا ہی ہو گا۔

مسئلہ : اگر عورت فحش بکے اور گھر والوں کو ایذا دے تو اس کو نکالنا جائز ہے کیونکہ وہ ناشزہ کے حکم میں ہے۔

مسئلہ : جو عورت طلاقِ رجعی یا بائن کی عدّت میں ہو اس کو گھر سے نکلنا بالکل جائز نہیں اور جو موت کی عدّت میں ہو وہ حاجت پڑے تو دن میں نکل سکتی ہے لیکن شب گزارنا اس کو شوہر کے گھر ہی میں ضروری ہے۔

مسئلہ : جو عورت طلاقِ بائن کی عدّت میں ہو اس کے اور شوہر کے درمیان پردہ ضروری ہے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ کوئی اور عورت ان دونوں کے درمیان حائل ہو۔

مسئلہ : اگر شوہر فاسق ہو یا مکان بہت تنگ ہو تو شوہر کو اس مکان سے چلا جانا بہتر ہے۔

۶                 رجعت کا۔

(۲) تو جب وہ اپنی میعاد تک پہنچنے  کو ہوں (ف ۷) تو انہیں بھلائی کے  ساتھ روک لو یا بھلائی کے  ساتھ جدا کرو (ف ۸) اور اپنے  میں دو  ثقہ کو گواہ کر لو اور اللہ کے  لیے  گواہی قائم کرو (ف ۹) اس سے  نصیحت فرمائی جاتی ہے  اسے  جو اللہ اور پچھلے  دن پر ایمان رکھتا ہو (ف ۱۰) اور جو اللہ  سے  ڈرے  (ف ۱۱) اللہ اس کے  لیے  نجات کی راہ نکال  دے  گا (ف ۱۲)

۷                 یعنی عدّت آخر ہونے کے قریب ہو۔

۸                 یعنی تمہیں اختیار ہے اگر تم ان کے ساتھ بحسنِ معاشرت و مرافقت رہنا چاہو تو رجعت کر لو اور دل میں پھر دوبارہ طلاق دینے کا ارادہ نہ رکھو اور اگر تمہیں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کر سکنے کی امید نہ ہو تو مَہر وغیرہ ان کے حق ادا کر کے ان سے جدائی کر لو اور انہیں ضرر نہ پہنچاؤ اس طرح کہ آخرِ عدّت میں رجعت کر لو، پھر طلاق دے دو اور اس طرح انہیں ان کی عدّت دراز کر کے پریشانی میں ڈالو ایسا نہ کرو اور خواہ رجعت کرو یا فرقت اختیار کرو دونوں صورتوں میں دفعِ تہمت اور رفعِ نزاع کے لئے دو مسلمانوں کو گواہ کر لینا مستحب ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

۹                 مقصود اس سے اس کی رضا جوئی ہو اور اقامتِ حق و تعمیلِ حکمِ الٰہی کے سوا اپنی کوئی فاسد غرض اس میں نہ ہو۔

۱۰               مسئلہ : اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ کفّار شرائع و احکام کے ساتھ مخاطب نہیں۔

۱۱               اور طلاق دے تو طلاقِ سنّی دے اور معتدّہ کو ضرر نہ پہنچائے، نہ اسے مسکن سے نکالے اور حسبِ حکمِ الٰہی مسلمانوں کو گواہ کر لے۔

۱۲               جس سے وہ دنیا و آخرت کے غموں سے خلاص پائے اور ہر تنگی و پریشانی سے محفوظ رہے۔ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مروی ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے شبہاتِ دنیا غمراتِ موت و شدائدِ روزِ قیامت سے خلاص کی راہ نکالے گا اور اس آیت کی نسبت سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے علم میں ایک ایسی آیت ہے جسے لوگ محفوظ کر لیں تو ان کی ہر ضرورت و حاجت کے لئے کافی ہے۔

شانِ نزول : عوف بن مالک کے فرزند کو مشرکین نے قید کر لیا تو عوف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ بھی عرض کیا کہ میرا بیٹا مشرکین نے قید کر لیا ہے اور اسی کے ساتھ اپنی محتاجی و ناداری کی شکایت کی، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ڈر رکھو اور صبر کرو اور کثرت سے لاَحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھتے رہو عوف نے گھر آ کر اپنی بی بی سے یہ کہا اور دونوں نے پڑھنا شروع کیا وہ پڑھ ہی رہے تھے کہ بیٹے نے دروازہ کھٹکھٹایا دشمن غافل ہو گیا تھا اس نے موقع پایا قید سے نکل بھاگا اور چلتے ہوئے چار ہزار بکریاں بھی دشمن کی ساتھ لے آیا، عوف نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یہ بکریاں انکے لئے حلال ہیں ؟ حضور نے اجازت دی اور یہ آیت نازل ہوئی۔

(۳) اور اسے  وہاں سے  روزی دے  گا جہاں اس کا  گمان نہ ہو، اور جو  اللہ پر بھروسہ کرے  تو وہ اسے  کافی ہے  (ف ۱۳) بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے  والا ہے، بیشک اللہ نے  ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے۔

۱۳               دونوں جہان میں۔

۱۴(۴) اور تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی (ف ۱۴) اگر تمہیں کچھ شک ہو (ف ۱۵) تو ان کی عدت تین مہینے  ہے  اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا (ف ۱۶) اور حمل وا لیوں کی میعاد یہ ہے  کہ وہ اپنا حمل جَن لیں  (ف ۱۷) اور جو اللہ سے   ڈرے  اللہ اس کے  کام میں آسانی فرما دے  گا۔

                   بوڑھی ہو جانے کی وجہ سے کہ وہ سنِّ ایاس کو پہنچ گئی ہوں۔ سنِّ ایاس ایک قول میں پچپن اور ایک قول میں ساٹھ سال کی عمر ہے اور اصح یہ ہے کہ جس عمر میں بھی حیض منقطع ہو جائے وہی سنِّ ایاس ہے۔

۱۵               اس میں کہ ان کا حکم کیا ہے۔

شانِ نزول : صحابہ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا کہ حیض والی عورتوں کی عدّت تو ہمیں معلوم ہو گئی جو حیض والی نہ ہوں ان کی عدّت کیا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۶               یعنی وہ صغیرہ ہیں، یا عمر تو بلوغ کی آگئی مگر ابھی حیض نہ شروع ہو ا، ان کی عدّت بھی تین ماہ ہے۔

۱۷               مسئلہ : حاملہ عورتوں کی عدّت وضعِ حمل ہے خواہ وہ عدّت طلاق کی ہو یا وفات کی۔

(۵) یہ (ف ۱۸) اللہ کا حکم ہے  کہ اس نے  تمہاری طرف اتارا، اور جو اللہ سے  ڈرے  (ف ۱۹)  اللہ اس کی برائیاں اتار دے  گا اور اسے  بڑا ثواب دے  گا۔

۱۸               احکام جو مذکور ہوئے۔

۱۹               اور اللہ تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے احکام پر عمل کرے اور اپنے اوپر جو حقوق واجب ہیں انہیں باحتیاط ادا کرے۔

(۶) عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے  ہو اپنی طاقت بھر (ف ۲۰) اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو (ف ۲۱) اور اگر (ف ۲۲) حمل والیاں ف ہوں تو انہیں نان و نفقہ دو یہاں تک کہ ان کے  بچہ پیدا ہو (ف ۲۳)  پھر اگر وہ تمہارے  لیے  بچہ کو دودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دو  (ف ۲۴) اور آپس میں معقول طور پر مشورہ کرو (ف ۲۵) پھر اگر باہم مضائقہ کرو (دشوار سمجھو) (ف ۲۶) تو قریب ہے  کہ اسے  اور دودھ پلانے  وا لی مل جائے  گی۔

۲۰               مسئلہ : طلاق دی ہوئی عورت کو تا عدّت رہنے کے لئے اپنے حسبِ حیثیت مکان دینا شوہر پر واجب ہے اور اس زمانہ میں نفقہ دینا بھی واجب ہے۔

۲۱               جگہ میں ان کے مکان کو گھیر کر، یا کسی ناموافق کو ان کے شریکِ مسکن کر کے، یا اور کوئی ایسی ایذا دے کر، کہ وہ نکلنے پر مجبور ہوں۔

۲۲               وہ مطلّقات۔

۲۳               کیونکہ ان کی عدّت جب ہی تمام ہو گی۔

مسئلہ : نفقہ جیسا حاملہ کو دینا واجب ہے ایسا ہی غیرِ حاملہ کو بھی خواہ اس کو طلاقِ رجعی دی ہو یا بائن۔

۲۴               مسئلہ : بچّہ کو دودھ پلانا ماں پر واجب نہیں، باپ کے ذمّہ ہے کہ اجرت دے کر دود ھ پلوائے لیکن اگر بچّہ ماں کے سوا کسی اور عورت کا دود ھ نہ پئے یا باپ فقیر ہو تو اس حالت میں ماں پر دود ھ پلانا واجب ہو جاتا ہے، بچّے کی ماں جب تک اس کے باپ کے نکاح میں ہو یا طلاقِ رجعی کی عدّت میں ایسی حالت میں اس کو دودھ پلانے کی اجرت لینا جائز نہیں بعدِ عدّت جائز ہے۔

مسئلہ : کسی عورت کو معیّن اجرت پر دود ھ پلانے کے لئے مقرّر کرنا جائز ہے۔

مسئلہ : غیر عورت کی بہ نسبت اجرت پر دود ھ پلانے کی ماں زیادہ مستحق ہے۔

مسئلہ : اگر ماں زیادہ اجرت طلب کرے تو پھر غیر زیادہ اولیٰ۔

مسئلہ : دود ھ پلائی پر بچّے کو نہلانا، اس کے کپڑے دھونا، اس کے تیل لگانا، اس کی خوراک کا انتظام رکھنا لازم ہے لیکن ان سب چیزوں کی قیمت اس کے والد پر ہے۔

مسئلہ : اگر دود ھ پلائی نے بچّے کو بجائے اپنے بکری کا دود ھ پلایا یا کھانے پر رکھا تو وہ اجرت کی مستحق نہیں۔

۲۵               نہ مرد عورت کے حق میں کوتاہی کرے، نہ عورت معاملہ میں سختی۔

۲۶               مثلاً ماں غیرِ عورت کے برابر اجرت پر راضی نہ ہو اور باپ زیادہ دینا نہ چاہے۔

(۷) مقدور  والا (ف ۲۷)  اپنے  مقدور کے  قابل نفقہ دے،  اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا  وہ  اس میں سے  نفقہ دے  جو اسے  اللہ نے  دیا، اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے   دیا ہے، قریب ہے  اللہ دشواری کے  بعد آسانی فرما دے  گا (ف ۲۸)

۲۷               مطلّقہ عورتوں کو اور دود ھ پلانے والی عورتوں کو۔

۲۸               یعنی تنگیِ معاش کے بعد۔

(۸) اور کتنے  ہی شہر تھے  جنہوں نے  اپنے  رب کے  حکم اور اس کے  رسولوں سے  سرکشی کی تو ہم نے  ان سے  سخت حساب لیا (ف ۲۹) اور انہیں بری مار  دی (ف ۳۰)

۲۹               اس سے حسابِ آخرت مراد ہے جس کا وقوع یقینی ہے، اس لئے صیغۂ ماضی سے اس کی تعبیر فرمائی گئی۔

۳۰               عذابِ جہنّم کی یاد، دنیا میں قحط و قتل وغیرہ بلاؤں میں مبتلا کر کے۔

(۹)  تو انہوں نے  اپنے  کیے  کا وبال چکھا اور ان کے  کام انجام گھاٹا ہوا۔

(۱۰) اللہ نے  ان کے  لیے  سخت عذاب تیار کر رکھا ہے  تو اللہ سے  ڈرو اے  عقل والو! وہ جو ایمان لائے  ہو، بیشک اللہ نے  تمہارے  لیے  عزت اتاری ہے۔

(۱۱ ) وہ رسول (ف ۳۱) کہ تم پر اللہ کی روشن آیتیں پڑھتا ہے  تاکہ انہیں جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  (ف ۳۲) اندھیریوں سے  (ف ۳۳) اجالے  کی طرف لے  جائے، اور  جو اللہ  پر ایمان لائے  اور اچھا کام کرے  وہ اسے  باغوں میں لے  جائے  گا جن کے  نیچے  نہریں بہیں جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں، بیشک اللہ نے  اس کے  لیے  اچھی روزی رکھی (ف ۳۴)

۳۱               یعنی وہ عزّت رسولِ کریم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳۲               کفرو جہل کی۔

۳۳               ایمان و علم کے۔

۳۴               جنّت جس کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی، کبھی منقطع نہ ہوں گی۔

(۱۲) اللہ ہے  جس نے  سات آسمان بنائے  (ف ۳۵) اور انہی کی برابر زمینیں (ف ۳۶) حکم ان کے  درمیان اترتا ہے  (ف ۳۷) تاکہ تم جان لو کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے، اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔

۳۵               ایک کے اوپر ایک، ہر ایک کی موٹائی پانچ سو برس کی راہ، اور ہر ایک کا دوسرے سے فاصلہ پانچ سو برس کی راہ۔

۳۶               یعنی سات ہی زمینیں۔

۳۷               یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ان سب میں جاری و نافذ ہے یا یہ معنیٰ ہیں کہ جبریلِ امین آسمان سے وحی لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔