تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الطّلاَق

۱ ۔۔۔      ۱: نبی کو مخاطب بنا کر یہ ساری امت سے خطاب ہے۔ یعنی جب کوئی شخص (کسی ضرورت اور مجبوری سے) اپنی عورت کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو چاہیے کہ عدت پر طلاق دے۔ سورہ "بقرہ" میں آ چکا کہ مطلقہ کی عدت تین حیض ہیں (کما ہو مذہب الحنفیہ) لہٰذا حیض سے پہلے حالت طہر میں طلاق دینا چاہیے تاکہ سارا حیض گنتی میں آئے اگر فرض کیجیے حالت حیض میں طلاق دے گا تو دو حال سے خالی نہیں ۔ جس حیض میں طلاق دی ہے اس کو عدت میں شمار کریں گے یا نہ کریں گے۔ پہلی صورت میں ایقاع طلاق سے پہلے جس قدر وقت حیض کا گزر چکا وہ عدت میں سے کم ہو جائے گا۔ اور پورے تین حیض عدت کے باقی رہیں گے۔ اور دوسری صورت میں جب موجودہ حیض کے علاوہ تین حیض لیں گے تو یہ حیض تین سے زائد ہو گا۔ اس لیے مشروع طریقہ یہ ہے کہ طہر میں طلاق دی جائے اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اس طہر میں صحبت نہ کی ہو۔

۲: یعنی مرد و عورت دونوں کو چاہیے کہ عدت کو یاد رکھیں ۔ کہیں غفلت و سہو کی وجہ سے کوئی بے احتیاطی اور گڑ بڑ نہ ہو جائے۔ نیز طلاق ایسی طرح دیں کہ ایام عدت کی گنتی میں کمی بیشی لازم نہ آئے۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں بتلایا جا چکا ہے۔

۳: یعنی اللہ سے ڈر کر احکام شریعت کی پابندی رکھنی چاہیے جن میں سے ایک حکم یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے اور تین طلاقیں ایک دم نہ ڈالی جائیں اور مطلقہ عورت کو اس کے رہنے کے گھر سے نہ نکالا جائے۔ وغیر ذلک۔   یعنی عورتیں خود بھی اپنی مرضی سے نہ نکلیں ۔ کیونکہ یہ سکنیٰ محض حق العبد نہیں کہ اس کی رضا سے ساقط ہو جائے بلکہ حق الشرع ہے، ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں مثلاً بدکاری یا سرقہ کی مرتکب ہوں یا بقول بعض علماء زبان درازی کریں اور ہر وقت کا رنج و تکرار رکھتی ہوں تو نکالنا جائز ہے اور اگر بے وجہ نکلیں گی تو یہ خود صریح بے حیائی کا کام ہو گا۔

۴:  یعنی گنہگار ہو کر اللہ کے ہاں سزا کا مستوجب ہوا۔

۵:  "لاتدری" کا ترجمہ "اس کو خبر نہیں " بصیغہ غائب کیا ہے تا معلوم ہو جائے کہ خطاب اسی طلاق دینے والے کو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں ۔

۶: یعنی شاید پھر دونوں میں صلح ہو جائے اور طلاق پر ندامت ہو۔

۲ ۔۔۔        ۱: یعنی طلاق رجعی میں جب عدت ختم ہونے کو آئے تو تم کو دو باتوں میں ایک کا اختیار ہے۔ یا عدت ختم ہونے سے پہلے عورت کو دستور کے موافق رجعت کر کے اپنے نکاح میں رہنے دو یا عدت منقضی ہونے پر معقول طریقہ سے اس کو جدا کر دو۔ مطلب یہ ہے کہ رکھنا ہو تب اور الگ کرنا ہو تب، ہر حالت میں آدمیت اور شریعت کا برتاؤ کرو۔ یہ بات مت کرو کہ رکھنا بھی مقصود نہ ہو اور خواہ مخواہ تطویل عدت کے لیے رجعت کر لیا کرو۔ یاد رکھنے کی صورت میں اسے ایذاء پہنچاؤ اور طعن و تشنیع کرو۔

 ۲: یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے اگر نکاح میں رکھنا چاہے تو رجعت پر وہ گواہ کرے تاکہ لوگوں میں متہم نہ ہو۔

۳: یہ گواہوں کو ہدایت ہے کہ شہادت کے وقت ٹیڑھی ترچھی بات نہ کریں ، سچی اور سیدھی بات کہنی چاہیے۔

۴:  زمانہ جاہلیت میں عورتوں پر بہت ظلم ہوتا تھا۔ بعض لوگ عورت کو سو سو مرتبہ طلاق دیتے تھے اور اس کے بعد بھی اس کی مصیبت کا خاتمہ نہ ہوتا تھا۔ قرآن نے جا بجا وحشیانہ مظالم اور بے رحمیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ اور نکاح و طلاق کے حقوق و حدود پر نہایت صاف روشنی ڈالی۔ بالخصوص اس سورت میں منجملہ دوسری حکیمانہ ہدایات و نصائح کے ایک نہایت ہی جامع مانع اور ہمہ گیر اصول "فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْفَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ" بیان فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کو رکھو تو معقول طریقہ سے رکھو۔ اور چھوڑو تب بھی معقول طریقہ سے چھوڑو لیکن ان زریں نصیحتوں سے منتفع وہ ہی شخص ہو سکتا ہے جس کو خدا اور یومِ آخرت پر یقین ہو۔ کیونکہ یہ ہی یقین انسان کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا کرتا ہے۔ اور اسی ڈر سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ جس طرح ایک کمزور عورت بخت و اتفاق سے ہمارے قبضہ و اقتدار میں آئی ہے، ہم سب کسی قہار ہستی کے قبضہ و اقتدار میں ہیں ۔ یہ ہی ایک خیال ہے جو آدمی کو ہر حالت میں ظلم و تعدی سے روک سکتا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پر ابھارتا ہے۔ اسی لیے سورہ ہذا میں خصوصی طور پر اتقاء ( پرہیزگاری اور خدا کے خوف) پر بہت زور دیا گیا ہے۔

۵:  یعنی اللہ سے ڈر کر اس کے احکام کی بہرحال تعمیل کرو۔ خواہ کتنی ہی مشکلات و شدائد کا سامنا کرنا پڑے۔ حق تعالیٰ تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ اور سختیوں میں بھی گزارہ کا سامان کر دے گا۔

۳ ۔۔۔      اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں ، بے قیاس و گمان روزی ملتی ہے گناہ معاف ہوتے ہیں ، جنت ہاتھ آتی ہے اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی، اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہو جاتی ہیں ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو ان کو کافی ہو جائے۔

۲: یعنی اللہ پر بھروسہ رکھو، محض اسباب پر تکیہ مت کرو۔ اللہ کی قدرت ان اسباب کی پابند نہیں ۔ جو کام اسے کرنا ہو، وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اسباب بھی اسی کی مشیت کے تابع ہیں ۔ ہاں ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ ہے۔ اسی کے موافق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کسی چیز کے حاصل ہونے میں دیر ہو تو متوکل کو گھبرانا نہیں چاہیے۔

 ۴ ۔۔۔      ۱: یعنی مطلقہ کی عدت قرآن نے تین حیض بتلائی (کما فی سورۃ البقرۃ) اگر شبہ رہا ہو کہ جس کو حیض نہیں آیا یا بڑی عمر کے سبب موقوف ہوا، اس کی عدت کیا ہو گی تو بتلا دیا کہ تین مہینے ہیں ۔

۲:جمہور کے نزدیک حامل کی عدت وضع حمل تک ہے خواہ ایک منٹ کے بعد ہو جائے یا کتنی ہی طویل مدت کے بعد ہو اس میں مطلقہ اور متوفی عنہا زوجہا دونوں کا ایک حکم ہے کما ہو مصرح فی الاحادیث۔ 

۵ ۔۔۔    جملہ کے بعد اتقاء اور اللہ کے ڈر کا مضمون مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے تاکہ پڑھنے والا بار بار متنبہ ہو کہ عورتوں کے معاملات میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

۶ ۔۔۔     ۱: مرد کے ذمہ ضروری ہے کہ مطلقہ کو عدت تک رہنے کے لیے مکان دے (اس کو سکنیٰ کہتے ہیں ) اور جب سکنیٰ واجب ہے تو نفقہ بھی اس کے ذمہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ عورت اتنے دنوں تک اسی کی وجہ سے مکان میں مقید و محبوس رہے گی۔ قرآن کریم کے الفاظ "مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِکُمْ وَلَا تُضَّارُّوْھنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْہِنَّ" میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے، کہ اس کو اپنے مقدور اور حیثیت کے موافق اپنے گھر میں رکھو۔ ظاہر ہے کہ مقدور کے موافق رکھنا اس کو بھی متضمن ہے کہ اس کے کھانے کپڑے کا مناسب بندوبست کرے۔ چنانچہ مصحف ابن مسعود میں یہ آیت اس طرح تھی۔ "اَسْکِنوُہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ وَاَنْفِقُوا عَلَیْہِ مِنْ وُّجْدِکُمْ" حنفیہ کے نزدیک یہ حکم سکنیٰ اور نفقہ کا ہر قسم کی مطلقہ کو عام ہے۔ رجعیہ کی قید نہیں کیونکہ پہلے سے جو بیان چلا آتا ہے مثلاً آئسہ، صغیرہ، اور حاملہ کی عدت کا مسئلہ اس میں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ پھر اس میں بلاوجہ کیوں تخصیص کی جائے۔ رہی فاطمہ بنت قیس کی حدیث جس میں وہ کہتی ہیں کہ میرے زوج نے تین طلاقیں دے دی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ صلم نے مجھے سکنیٰ اور نفقہ نہیں دلایا۔ اول تو اس حدیث میں فاروق اعظم، عائشہ صدیقہ اور دوسرے صحابہ و تابعین نے انکار فرمایا۔ بلکہ فاروق اعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم کو معلوم نہیں کہ وہ عورت بھول گئی یا اس نے یاد رکھا۔ معلوم ہوا کہ فاروق اعظم کتاب اللہ سے یہ ہی سمجھے ہوئے تھے کہ مطلقہ ثلاث کے لیے نفقہ و سکنیٰ واجب ہے اور اس کی تائید میں رسول اللہ کی کوئی سنت بھی ان کے پاس موجود تھی۔ چنانچہ طحاوی وغیرہ نے روایات نقل کی ہیں جن میں حضرت عمر رضی اللہ نے تصریحاً بیان کیا ہے کہ یہ مسئلہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا۔ اور دارقطنی میں جابر کی ایک حدیث بھی اس بارے میں صریح ہے۔ گو اس کے بعد رواۃ میں اور رفع و وقف میں کلام کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فاطمہ بنت قیس کے لیے سکنیٰ اس لیے تجویز نہ کیا ہو کہ یہ اپنے سسرال والوں سے زبان درازی اور سخت کلامی کرتی تھی جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دے دیا کہ ان کے گھر سے چلی جائے پھر جب سکنیٰ نہ رہا تو نفقہ بھی ساقط ہو گیا۔ جیسے ناشزہ کا (جو شوہر کی نافرمانی کر کے گھر سے نکل جائے) نفقہ ساقط ہو جاتا ہے، تاوقتیکہ گھر واپس نہ آئے (نبہ علیہ ابوبکر الرازی فی احکام القرآن) نیز جامع ترمذی وغیرہ کی بعض روایات میں ہے کہ اس کو کھانے پینے کے لیے غلہ دیا گیا تھا اس نے اس مقدار سے زائد کا مطالبہ کیا جو منظور نہ ہوا۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے زائد نفقہ تجویز نہیں فرمایا جو مرد کی طرف سے دیا جا رہا تھا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ ہاں یہ یاد رہے کہ نسائی، طبرانی، اور مسند احمد کی بعض روایات میں فاطمہ بنت قیس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا صریح ارشاد نقل کیا ہے کہ سکنیٰ اور نفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جس سے رجعت کا امکان ہو۔ ان روایات کی سندیں زیادہ قوی نہیں ۔ زیلعی نے تخریج ہدایہ میں اس پر بحث کی ہے۔ فلیراجع۔

۲: یعنی ستاؤ نہیں کہ وہ تنگ آ کر نکلنے پر مجبور ہو جائیں

۳: حمل کی مدت کبھی بہت طویل ہو جاتی ہے۔ اس کو خصوصیت سے بتلا دیا کہ خواہ کتنی ہی طویل ہو وضع حمل تک اس کو نفقہ دینا ہو گا یہ نہیں کہ مثلاً تین مہینے نفقہ دے کر بند کر لو۔

۴:  یعنی وضع حمل کے بعد اگر عورت تمہاری خاطر بچہ کو دودھ پلائے تو جو اجرت کسی دوسری انّا کو دیتے وہ اس کو دی جائے۔ اور معقول طریقہ سے دستور کے موافق باہم مشورہ کر کے قرارداد کر لیں خواہ مخواہ ضد اور کجروی اختیار نہ کریں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کا برتاؤ رکھیں نہ عورت دودھ پلانے سے انکار کرے نہ مرد اس کو چھوڑ کر کسی دوسری عورت سے پلوائے۔

۵: یعنی اگر آپس کی ضد اور تکرار سے عورت دودھ پلانے پر راضی نہ ہو تو کچھ اس پر موقوف نہیں کوئی دوسری عورت دودھ پلانے والی مل جائے گی۔ اس کو اتنا گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر مرد خواہ مخواہ بچہ کو اس کی ماں سے دودھ پلوانا نہیں چاہتا تو بہرحال کوئی دوسری عورت دودھ پلانے کو آئے گی آخر اس کو بھی کچھ دینا پڑے گا۔ پھر وہ بچہ کی ماں ہی کو کیوں نہ دے۔

۷ ۔۔۔        یعنی بچہ کی تربیت کا خرچ باپ پر ہے۔ وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق اور کم حیثیت کو اپنی حیثیت کے مناسب خرچ کرنا چاہیے۔ اگر کسی شخص کو زیادہ فراخی نصیب نہ ہو محض نپی تلی روزی اللہ نے دی ہو، وہ اسی میں سے اپنی گنجائش کے موافق خرچ کیا کرے۔ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ جب تنگی کی حالت میں اس کے حکم کے موافق خرچ کرو گے، وہ تنگی کو فراخی اور آسانی سے بدل دے گا۔

۸ ۔۔۔     یعنی احکام شریعت کی (خصوصاً عورتوں کے بارے میں ) پوری پابندی رکھو۔ اگر نافرمانی کرو گے تو یاد رہے کہ کتنی ہی بستیاں اللہ و رسول کی نافرمانی کی پاداش میں تباہ کی جا چکی ہیں جس وقت لوگ تکبر کر کے حد سے نکل گئے ہم نے ان کا جائزہ لیا اور سختی سے لیا کہ ایک عمل کو بھی معاف نہیں کیا۔ پھر ان کو ایسی نرالی آفت میں پھنسایا جو آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

۹ ۔۔۔ ۔ یعنی عمر بھر جو سودا کیا تھا آخر اس میں سخت خسارہ اٹھایا اور جو پونجی تھی سب کھو کر رہے۔

۱۰ ۔۔۔    ۱: پہلے دنیاوی عذاب کا ذکر تھا اب اخروی عذاب بیان کیا۔

۲:  یعنی یہ عبرتناک واقعات سن کر ایمانداروں کو ڈرتے رہنا چاہیے کہیں ہم سے ایسی بے اعتدالی نہ ہو جائے کہ خدا کی پکڑ میں آ جائیں ۔ العیاذ باللہ۔

۳:  یعنی قرآن، یا "ذکر" بمعنی "ذاکر" ہو تو خود رسول صلی اللہ علیہ و سلم مراد ہوں گے۔

۱۱ ۔۔۔      ۱: یعنی صاف آیتیں جن میں اللہ کے احکام کھول کھول کر سنائے گئے ہیں ۔

۲: یعنی کفرو جہل کے اندھیروں سے نکال کر ایمان اور علم و عمل کے اجالے میں لے آئے۔

 ۳: جنت سے زیادہ بہتر روزی کہاں ملے گی

۱۲ ۔۔۔ ۱: یعنی زمینیں بھی سات پیدا کی جیسا کہ ترمذی وغیرہ کی احادیث میں ہے ان میں احتمال ہے کہ نظر آتی ہوں اور ان میں احتمال ہے کہ نظر نہ آتی ہوں مگر لوگ ان کو کواکب سمجھتے ہیں جیسا کہ مریخ وغیرہ کی نسبت آج کل حکمائے یورپ کا گمان ہے کہ اس میں پہاڑ دریا اور آبادیاں ہیں ۔

۲: یعنی عالم کے انتظام و تدبیر کے لیے اللہ کے احکام تکونیہ و تشریعیہ آسمانوں اور زمینوں کے اندر اترتے رہتے ہیں ۔

۳:  یعنی آسمان و زمین کے پیدا کرنے اور ان میں انتظامی احکام جاری کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات و علم و قدرت کا اظہار ہو (نبہ علیہ ابن قیم فی بدائع الفوائد) بقیہ صفات ان ہی دو صفتوں سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں ۔ صوفیاء کے ہاں جو ایک حدیث نقل کرتے ہیں ۔ "کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ" گو محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ۔ مگر اس کا مضمون شاید اس آیت کے مضمون سے ماخوذ و مستفاد ہو واللہ اعلم۔ تم سورۃ الطلاق وللّٰہ الحمد والمنۃ۔