دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الطّلاَق

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

نام

 

 اس سورہ میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں اس مناسبت سے اس کا نام’ الطلاق‘ ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور غالباً ۶ ۰؁ھ میں نازل ہوئی ہوگی۔

 

 

مرکزی مضمون

 

طلاق کے احکام بیان کرنا ہے ۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۷ میں طلاق کے احکام بیان کئے گئے ہیں ۔

 

آیت ۸ تا۱۲ میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے احکام سے سرتابی نہ کریں اور یاد رکھیں کہ نافرمانی کرنے والی قوموں کا کیا حشر ہوا۔ بہ الفاظ دیگر اسلام کے عائلی قانون family Laws کی پابندی کے لیے یہ سخت تاکیدی حکم ہے ۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو ۔۱* اور عدت کا شمار کرو۔ ۲* اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ ۳* ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں ۔ ۴* یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ ۵* تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے ۔ ۶*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو انہیں یا تو معروف طریقہ پر (اپنے نکاح میں) روک لو یا معروف طریقہ پر جدا کر دو۔۷ * اور اپنے میں سے دوعادل آدمیوں کو گواہ بنا لو ۸* اور گواہی اللہ کے لیے قائم رکھو۔ ۹* یہ نصیحت ان کو کی جاتی ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ۱۰* جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے راہ نکال دے گا۔ ۱۱*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ ۱۲* جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا۔ ۱۳* اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت)مقرر کر رکھا ہے ۔ ۱۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے بارے میں اگر کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ ۱۵* اور ان کی بھی جن کو حیض نہ آیا ہو۔ ۱۶* اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضعِ حمل ہو جائے ۔ ۱۷* جو شخص اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا فرمائے گا۔ ۱۸*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔ ۱۹* جو اللہ سے ڈرے گا اس کی برائیوں کو وہ دور کر دے گا اور اس کے اجر کو بڑھا دے گا۔ ۲۰*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو (عدت کے دوران) اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ تمہاری حیثیت ہو۔ ان کو تنگ کرنے کے لیے نہ ستاؤ۔ ۲۱* اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ ان کا وضعِ حمل ہو جائے ۔ ۲۲* پھر اگر وہ تمہارے لیے بچہ کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔ اور بھلے طریقہ پر آپس کے مشورے سے معاملہ طے کر لو۔ ۲۳* اگر تم کوئی تنگی محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلائے ۔ ۲۴*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحبِ حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو رزق کم دیاگیا وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے اس سے زیادہ بوجھ وہ کسی پر نہیں ڈالتا۔ ۲۵* اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا فرمائے گا۔ ۲۶*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہو ں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا  گرفت کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو بری طرح عذاب دیا ۔ ۲۷*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے کئے کا وبال چکھ لیا اور ان کا انجام تباہی ہے ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ۲۸* تو اللہ سے ڈرو اے عقل والو! جو ایمان لائے ہو ۲۹ * اللہ نے تمہاری طرف ذکر (یاددہانی) نازل کیا ہے ۔ ۳۰*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا رسول جو اللہ کی واضح آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ہے تا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ۔ ۳۱* اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا۔ ۳۲* اس کو وہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ نے ان کو بہترین رزق بخشا ہے ۔ ۳۳*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے ان ہی کے مانند۔۳۴* ان کے درمیان اس کے احکام نازل ہوتے رہتے ہیں ۔ ۳۵*  تم پر یہ حقیقت (واضح کی)تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ۳۶*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیاگیا ہے اور اس کے متصلاً بعد اہل ایمان سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ جب تم لوگ طلاق دو تو عدت کے لیے دو۔ یہ طرز خطاب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حکم ایسا تاکیدی ہے کہ نبی کی شخصیت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں اور آپ کے واسطہ سے یہ حکم پوری امت کو دیا جارہا ہے ۔ جب طلاق دینے کا یہ حکم کہ عدت کے لیے طلاق دو اس تاکید کے ساتھ دیاگیا ہے تو اس سے انحراف کر کے طلاق دینے کے کسی دوسرے طریقہ کو اختیار کر نے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔

 

طَلّقُوْہُنَّ لِعِدَّتہِنَّ ’’عدت کے لیے طلاق دو‘‘  کا مطلب یہ ہے کہ طلاق ایسے وقت دو جب کہ عد ت کا آغاز کرسکو۔ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ آدمی بیک وقت ایک طلاق دے تاکہ اس طلاق کی عدت کا آغاز ہواور جب وہ عدت پوری ہوجائے تو وہ عورت مرد سے جدا ہوجائے گی لیکن دوبارہ نکاح کا موقع رہے گا۔اور اگر عدت کے دوران شوہر نے رجوع کر لیا تو پھر اس کے لیے یہ موقع رہے گا کہ آئندہ کبھی ضرورت محسوس کرے تو دوسری طلاق دے اور اس کی عدت کے دوران بھی اسے رجوع کا حق رہے گا۔ اگر وہ رجوع کر لیتا ہے تو بیوی اس کے نکاح میں رہے گی۔ اس کے بعد اگر اس نے آئندہ کسی موقع پر تیسری طلاق دی تو عورت کو عدت گذارنا ہوگی لیکن شوہر کو اب رجوع کا حق باقی نہیں رہے گا اور یہ طلاق مغلظہabsolute ہوجائے گی۔

 

طلاق کا یہی طریقہ ہے جس کی کتاب و سنت میں تعلیم دی گئی ہے اور جس کی تاکید کی گئی ہے رہا بیک وقت تین طلاقیں دینے کا مسئلہ تو یہ طریقہ سراسر کتاب وسنت کے خلاف اور بدعی ہے ۔ ایسی صورت میں ایک ہی طلاق واقعی ہوتی ہے نہ کہ تین کیونکہ شریعت نے عدت کے لیے طلاق دینے کا اختیار دیا ہے لہٰذا پہلی طلاق کا آغاز تو عدت سے ہوگا لیکن دوسری اور تیسری طلاق کا آغاز عدت سے نہیں ہو سکے گا جبکہ ہر طلاق کے لیے الگ سے عدت کا آغاز ہونا ضروری ہے لہٰذا ایک سے زائد طلاقیں لغو اور باطل قرار پائیں گی کیونکہ ایسی طلاقیں دینے کا شریعت نے اسے اختیار ہی نہیں دیا ہے ۔ اور غور کیجئے تو ہر طلاق کے لیے عدت کی قید میں شریعت کی بہت بڑی مصلحت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ شوہر کو نظر ثانی کرنے کا موقع ملے اور اسے رجوع کے دو مواقع حاصل ہوں ۔

 

مختصر یہ کہ ہ آیت اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ ہر طلاق کے لیے عدت کا آغاز ہونا ضروری ہے جس طلاق کے لیے عدت کا آغاز نہ ہوتا ہو وہ طلاق شرعاً معتبر نہیں ہے ۔ رہی تین طُہر میں تین طلاقیں دینے کی بات تو وہ نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ کسی صحیح حدیث سے :

 

علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

 

وامامن اخذ بمقتضیٰ القرآن ومادلت علیہ الآثار فانہ یقول ان الطلاق الذی شرعہ اللّٰہ ہوما یتعقبہ العدۃ، وماکان صاحبہ مخیرافیہا بین الامساک بمعروف والتسریح باحسان،وہذا منتف فی ایقاع الثلاث فی العدۃ قبل الرجعۃ، فلایکون جائزافلم یکن ذٰلک طلاق للعدۃ۔(مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۳۳ ص ۸۹)

 

’’ قرآن جس بات کا متقاضی ہے اور آثار( احادیث) جس پر دلالت کرتے ہیں اس کو جن لوگوں نے پیشِ نظر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ جس طلاق کو اللہ نے مشروع قرار دیا ہے وہ وہی طلاق ہے جس کے ساتھ عدت کا آغاز ہوتا ہے اور طلاق دینے والا معروف کے مطابق بیوی کو رکھ لینے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑدینے کا اختیار رکھتاہو اور اس سے عدت میں رجوع کرنے سے پہلے تین طلاقوں کے ایقاع کی نفی ہوتی ہے اس لیے یہ جائز نہیں اور ایسی طلاق عدت کے لیے نہیں ہوگی۔ ‘‘

 

مسند احمد کے شارح احمد محمد شاکر نے اپنی کتاب ’ نظام الطلاق فی الاسلام‘ میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ :

 

ولذالک اوردت الادلۃ التی ذکر تھا والتی نقلتہا عن غیری فی معرض احتجاج علی بطلان الطلقتین التالیتین للطلقۃ الاولیٰ فی العدۃ۔ وعلی ان الطلاق لا یدحق الطلاق و علٰی ان المعتدۃ لا یلحقہا طلاق۔

 

(نظام الطلاق فی الاسلام لا حمد شاکر مطبعۃ النہضۃ بمصر۔ص۔۱۱۳)

 

’’ اس لیے میں نے اپنے دلائل بھی بیان کئے اور دوسروں سے بھی نقل کئے اس بات کے استدلال میں کہ عدت میں پہلی طلاق کے بعد دو طلاقیں باطل ہیں اور یہ کہ ایک طلاق سے دوسری طلاق لاحق نہیں ہوتی اور یہ کہ عدت گزارنے والی عورت کو کوئی دوسری طلاق لاحق نہیں ہوتی۔‘‘

 

مطلب یہ ہے کہ ایک طلاق کے ساتھ جو عدت شروع ہوتی اس میں کوئی دوسری طلاق پڑ نہیں سکتی کیونکہ ہر طلاق کے لیے  ایک عدت کا ہونا ضروری ہے ۔

 

مولانا محمد رئیس ندوی اپنی محققانہ کتاب تنویر الآفاق فی مسئلۃ اطلاق( مطبوعہ جامعہ سلفیہ بنارس) میں لکھتے ہیں :

 

’’ یعنی جب طلاق کے لیے طہر کا وقت خاص ہے  اور اس وقتِ خاص میں ایک مرتبہ صرف ایک ہی طلاق کی اجازت ہے تو اگر اس وقت خاص میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں تو زائد طلاقیں باطل اور صرف وہی ایک طلاق واقع ہوگی جس کی شرعاً اجازت ہے ۔‘‘( ص ۳۱۵)

 

آیت کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے علماء کی ان آراء سے اس کی تائید ہوتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ آیت کا ہم نے کوئی نرالا مفہوم بیان نہیں کیا ہے بلکہ ہم سے پہلے محقق علماء یہ مفہوم بیان کرتے رہے ہیں یعنی ہر طلاق کے لیے الگ عدت ضروری ہے اور ایک عدت میں دوسری اورتیسری طلاق نہیں دی جاسکتی لہٰذا اکٹھی تین طلاقیں شرعاً ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں کیونکہ واقع صرف ایک طلاق ہوئی دوسری اور تیسری طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی ۔ مگر جمہور علماء و فقہاء اکٹھی طلاقوں کے واقع ہونے کے قائل ہیں ۔ وہ اس کو حرام اور بدعتی طلاق مانتے ہوئے بھی نافذ قرار دیتے ہیں مگر جمہور دین میں حجت نہیں ہیں ۔ حجت صرف کتاب و سنت کے نصوص(صریح احکام) اور ان کے دلائل ہیں ۔ اسلام میں جمہور سے بھی نزاع کا حق ہے :

 

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیٍٔ فَوُدُّوْہٗ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ (یعنی اس کی کتاب) اور رسول (یعنی اس کی سنت) کی طرف لوٹاؤ۔‘‘

 

اور جمہور کے قول کو اجماع سے تعبیر کرنا سراسر غلط اور خلاف واقعہ بات ہے ۔

 

موجودہ زمانہ میں اور خاص طور سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بیک وقت تین طلاقیں دینے کا رواج عام ہے ۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاقیں دے ئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہ ان کی جہالت ہے لیکن  وکلاء اور قاضی بھی جب کوئی طلاق نامہ تحریر کرتے ہیں تو تین طلاقیں درج کر کے طلاق دینے والے کے اس پر دستخط لے لیتے ہیں اور اس کو نہیں معلوم کہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور غلط طریقہ کیا۔ پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور وہ شخص رجوع کرنا چاہتا ہے تو مفتی حضرات جو تقلید کی قسم کھا بیٹھے ہیں بتاتے ہیں کہ اب رجوع کی کوئی صورت نہیں رہی سوائے حلالہ کرانے کے حالانکہ حلالہ کرانے پر لعنت آئی ہے ۔ اس طرح عوام طلاق کے معاملہ میں سخت الجھن اور زبردست مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں اس سے نجات کی صورت یہی ہے کہ کتاب و سنت کے واضح نصوص( احکام) کے مطابق ان کی رہنمائی کی جائے اور وہ مسلک کی جکڑبندیوں سے آزاد ہو کر اس رہنمائی کو قبول کریں ۔

 

( اس مسئلہ پر تفصیل کے لیے دیکھئے ہمارا پمفلٹ ’’ تین اکٹھی طلاقیں ___کتاب و سنت کی روشنی میں‘‘ )

 

آیت سے یہ بات بھی واضح ہے کہ طلاق حالتِ طہرہی میں دی جاسکتی ہے یعنی جب کہ بیوی کو حیض نہ آیا ہو اور حالتِ طہر میں شوہر نے مباشرت نہ کی ہو کیونکہ حالتِ حیض میں طلاق دینے سے عدت کا شمار صحیح نہیں ہوکے گا اور مباشرت کی صورت میں احتمال ہوگا کہ کہیں حمل تو نہیں ٹھہر گیا ہے ۔

 

حدیث میں آتا ہے کہ:

 

’’ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی۔ حضرت عمر نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ان سے کہو کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لے لیں ( فَلْے رَا جِعْہَا) اور اسی حال میں رہنے دیں یہاں تک کہ جب وہ پاک ہوجائے اور پھر دوسرا حیض آجائے اور پھر وہ پاک ہوجائے تو چاہیں توبیوی کی حیثیت سے روک لیں اور چاہیں تو مباشرت سے پہلے طلاق دے دیں ۔ یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ نے عورتوں کی طلاق کے سلسلہ میں دیا ہے ۔‘‘(مسلم کتاب الطلاق)

 

معلوم ہوا کہ شریعت نے مرد کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ عورت کو حالتِ حیض میں طلاق دے لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دیتا ہے تو یہ طلاق خلافِ شرع اور باطل ہے ۔ واقع نہیں ہوگی۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  عدت کا شمار کرنے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ عدت ختم ہونے سے پہلے عورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی اگر کرے گی تو وہ نکاح باطل ہوگا۔ مطلقہ کی عدت عام طور سے تین حیض ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے :

 

وَالْمُطَلَّقَاتُ یتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوئٍ:’’ اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو۔ وہ تین حیض تک اپنے آپ کو رو کے رکھیں۔‘‘(بقرہ:۲۲۸)

 

اس کامطلب یہ ہے کہ جس طہرمیں عورت کو طلاق دی گئی اس کے بعد پہلی ایام ماہواری آجائے پھر طہرکے بعددوسری ایام ماہواری آجائے پھر طہرکے بعد تیسری ایام ماہواری آجائے اور یہ تیسری ایام ماہواری جس دن ختم ہو اس دن عورت کی عدت ختم ہوگی اور پھر وہ دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

 

جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو یا جو حاملہ ہو ان کی عدت کے احکام اس سے مختلف ہیں ۔ آگے آیت ۴ میں یہ احکام بیان ہوئے ہیں ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  طلاق کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنے کی خاص طور سے ہدایت کی گئی ہے کیونکہ اول تو طلاق دین میں سخت نا پسندیدہ چیز ہے دوسرے جب طلاق دینا ناگزیر ہو تو اس طریقہ پر طلاق دینا چاہیے جو شریعت نے مقررکیا ہے ۔ غصہ کی حالت میں اس طرح طلاق دینا کہ تمام شرعی احکام کی خلاف ورزی ہوجائے تقویٰ کے سراسر خلاف ہے اور جو شخص اپنے معاملات میں اللہ سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے جذبات اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے وہ اپنے کو برے انجام کی طرف دھکیلتا ہے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  مرد کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو طلاق دینے کے بعد عدت تک اپنے گھر میں رکھے اور عورت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عدت شوہر کے گھر میں گذارے ۔غصہ میں آکر میکے نہ چلی جائے گھر سے باہر نہ نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی ضرورت کے لیے وہ باہر نہیں جاسکتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ شوہر کا گھر چھوڑ کر وہ کسی اور جگہ منتقل نہ ہوجائے ۔

 

الا یہ کہ وہ صریح بدکاری ( فاحشۃ مبینۃ) کی مرتکب ہوں سے مراد زنا کا ارتکاب ہے ۔ ایسی صورت میں شوہر کو حق ہے کہ وہ عدت کے دوران بھی اپنی بیوی کو اپنے گھر سے نکال دے ۔

 

’فاحشۃ مبینہ‘ سے جن لوگوں نے بدکلامی وغیرہ مراد لی ہے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا اور اس بہانے سے تو شوہر عورت کو جب چا ہے گا نکال باہر کرے گا۔ قرآن میں یہ الفاظ تو زنا ہی کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی طلاق کسی ناگزیر ضرورت کے بغیر دینا، طلاق دینے میں عدت کا خیال نہ رکھنا ۔ بیت وقت کئی طلاقیں دے ڈالنا، عدت کا شمار نہ کرنا اللہ کے حدودکو توڑنے کے ہم معنی ہے ۔ اور ایسی حرکتیں صریح ظالمانہ ہیں اور جو ظالمانہ حرکتیں کرتا ہے وہ اپنے کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے ۔

 

اس کا الٹا مطلب بعض مفسرین نے لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ تین اکٹھی طلاقیں واقع ہوتی ہیں جب ہی تو اسے ظلم سے تعبیر کیاگیا ہے حالانکہ یہاں غلط طریقے اختیار کرنے پر گرفت کی گئی ہے ان کے واقع ہونے کی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اور جب یہ تسلیم ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ظالمانہ ہوتی ہیں تو کیا اسلام اس ظلم کو عورت کے حق میں روا رکھنا چاہتا ہے ؟ کیسی بھونڈی بات ہے جو یہ مفسرین کہہ رہے ہیں !

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کا تعلق حدودِ الٰہی کی پابندی سے ہے ۔ یعنی اگر تم نے طلاق کے معاملہ میں حدودِ الٰہی کی پابندی کی تو کیا عجب کہ اللہ طلاق کے بعد بہتری کی کوئی صورت پیدا فرمادے ۔ یعنی رجوع کی توفیق دے یا عدت ختم ہوجانے پر عورت کے لیے دوسرے نکاح کی بہتر صورت پیدا فرمائے ۔ بہر کیف حدودِ الٰہی کی پابندی کا نتیجہ خوشگوار ہی ہو سکتا ہے ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  اپنی مدت کو پہنچ جانے سے مراد عدت کے ختم ہونے کے قریب پہنچنا ہے ۔ اس موقع پر شوہر کو چاہیے کہ یا تو رجوع کا فیصلہ کرلے یا جدا کر دینے کا مگر دونوں صورتوں میں بھلا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن نے طلاق کے بعد رجوع کا موقع رکھا ہے ۔ اور جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت ۲۲۹ میں گزر چکا یہ موقع دو مرتبہ کی طلاقوں کے لیے ہے ۔ تیسری مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی لیکن اکٹھی تین طلاقوں کو واقع ماننے کی صورت میں رجوع کا موقع سرے سے باقی ہی نہیں رہتا جوظاہر ہے قرآن کے منشاء کے خلاف ہے اس لیے اسے واقع مانا نہیں جاسکتا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ تاکیدی حکم ہے اس لیے اس کی پابندی کی جانی چاہیے ۔ نزاعوں سے بچنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے اور یہ حکم دونوں صورتوں میں ہے طلاق دینے کے بعد رجوع کی صورت میں بھی اور جدا کر دینے کی صورت میں بھی۔ بہر حال یہ بات ظاہر ہوجانی چاہیے کہ فلاں عورت فلاں شخص کی بیوی رہی یا نہیں ۔ ورنہ دونوں کی پوزیشن لوگوں کی نظروں میں مشتبہ ہو سکتی ہے ۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ گواہوں کو ہدایت ہے کہ وہ جب گواہی دینے کا موقع ہو غیر جانبداری کے ساتھ سچی گواہی دیں اور خالصۃً اللہ کے لیے دیں ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  ’’ یہ نصیحت‘‘ سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو اوپر طلاق کے تعلق سے بیان ہوئے ۔ ان احکام کی بجا آوری کی اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ خیر اور بھلائی اسی میں ہے اور اس کو اللہ اور روز آخر پر ایمان کا تقاضا بتلایا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ طلاق کے معاملہ میں شریعت کے احکام کی پروا نہیں کرتے وہ ایمان کے تقاضے کے خلاف کام کرتے ہیں اور قیامت کے دن انہیں اس کی سخت جوابدہی کرنا ہوگی۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ آیت تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے امید کی کرن ہے ۔ اللہ ایسے لوگوں کے لیے ایسے اسباب کر دیتا ہے کہ مشکلات میں گھر ے ہوئے شخص کے لیے ان سے نکلنے کی راہ کھلی جاتی ہے اور اس کی تکلیفیں کافور ہوجاتی ہیں ۔یہاں خاص طور سے اشارہ گھریلو زندگی کی مشکلات کی طرف ہے کہ ان سے گھبراکر تقویٰ کا دامن چھوڑ نہیں دینا چاہیے ۔ بلکہ اس کو مضبوط تھام لینا چاہیے کہ سارے عُقدے تقویٰ ہی سے کھل جاتے ہیں ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  گھریلو زندگی بعض مرتبہ رزق کی تنگی کی وجہ سے تلخ ہوجاتی ہے اس لیے مرد اور عورت دونوں کو اطمینان دلایاگیا ہے کہ اگر انہوں نے تقویٰ کے دامن کونہیں چھوڑا تو اللہ ان کے لیے رزق کی ایک نہ ایک صورت پیدا کر دے گا۔ ایسی صورت جو ان کے گمان میں بھی نہیں ہوگی ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ وہ رزق کے ایسے اسباب بھی کر دیتا ہے جو انسان کے گمان میں بھی نہیں ہوتے ۔ لہٰذا صرف ظاہری ذرائع رزق ہی کو سب کچھ سمجھ نہیں لینا چاہیے بلکہ اللہ کی کشادہ دستی سے توقعات وابستہ کر لینی چاہئیں ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اسباب پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ پر جو مسبب الاسباب ( اسباب کا پیدا کرنے والا) ہے بھروسہ کرنا چاہیے ۔ بظاہر حالات مایوس کن ہوں لیکن اللہ پر قلبی اعتماد اور اس سے خیر کی توقع آدمی کو کبھی ناکام نہیں بناتی۔ پہاڑ جیسی مشکلات بھی اللہ تعالیٰ کے ایک اشارہ سے دور ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ آیت اس بات کی ضمانت ہے کہ جو بھی اللہ پر توکل کرے گا اس کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اللہ کافی ہوگا۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اللہ کی مشیت پوری ہو کر رہتی ہے البتہ یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا آزمائشی ہے اس لیے اس نے ہر تکلیف کو دور کرنے کے لیے اور ہر مشکل کو آسان کرنے کے لیے وقت مقرر کر رکھا ہے یہ اس کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر ہے ۔ لہٰذا انسان کو جلد بازی اور بے صبری سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ادھر بھروسہ کیا اور دعا کی اور ادھر فوراً مشکل دور ہوئی۔ بلکہ اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے تاکہ جو آزمائش مطلوب ہے وہ پوری ہو لیکن یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ مشکل کو دور کرنے کے لیے کافی ہوگا یہی صحیح معنی میں توکل ہے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے جن سے نکاح کے بعد شوہر نے مباشرت کی ہو۔ جن عورتوں کو مباشرت سے پہلے طلاق دی گئی ان کے لیے کوئی عدت نہیں ہے جیسا کہ سورۂ احزاب آیت ۴۹میں بیان ہوا۔ یہ بھی واضح رہے کہ سورۂ بقرہ آیت ۲۲۸ میں مطلقہ عورتوں کی عدت جن سے شوہر نے مباشرت کی ہو تین حیض بیان ہوئی ہے ۔یہاں بعض مخصوص صورتوں کے احکام بیان ہوئے ہیں ۔

 

عورت اگر بڑی عمر کو پہنچ گئی ہو جب کہ اسے حیض آنے کی کوئی امید نہ رہی ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے ۔ ’’ اگر تمہیں کوئی شک ہو۔‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حیض سے مایوسی کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد اگر کبھی کچھ خون آجائے جس کی وجہ سے آدمی شبہ میں پڑے کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ یعنی دوسری قسم کا خون تو اس شک کا اعتبار نہ کرو اور تین ماہ کی عدت شمار کرو۔ اور جب شک نہ ہو اور وہ حیض سے مایوس ہو چکی ہوں تو ان کی عدت بدرجۂ اولیٰ تین ماہ ہوگی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  ’’ جن کو حیض نہ آیا ہو‘‘ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو بیماری وغیرہ کی وجہ سے حیض نہ آ رہا ہو درآنحالیکہ وہ سن بلوغ کو پہنچ چکی ہوں ۔ ایسی عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے ۔

 

آیت کے اس فقرہ میں کہ ’’ جن کو حیض نہ آیا ہو۔‘‘ نابالغ لڑکیوں کے نکاح کے جواز کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ بالفرض اگر نابالغ لڑکی سے کسی نے نکاح کیا تو اس سے مباشرت تو وہ کرنہیں سکے گا کیونکہ اس کی اجازت نہ شریعت دیتی ہے اور نہ انسانی عقل اور فطرت۔ پھر اگر وہ اس نابالغہ کو طلاق دیتا ہے تو مباشرت نہ کرسکنے کی بنا پر اس کی کوئی عدت نہ ہوگی( دیکھئے سورۂ  احزاب آیت ۴۹) جب کہ یہاں ان عورتوں کی عدت جن کو حیض نہ آیا ہو تین ماہ بیان کی گئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس کا تعلق نابالغہ سے نہیں ہے اور نہ نابالغہ کے نکاح کے لیے یہ آیت حجت بن سکتی ہے ۔ علاوہ ازیں قرآن میں یتیم لڑکوں اورلڑکیوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :

 

وَابْتَلُواالْیتَامٰی حَتیّٰ اِذَا بَلَغُواالنِّکَاحِ۔’’اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ۔‘‘( نساء:۶)

 

ظاہر ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے سے مراد لڑکے اور لڑکی کا بالغ ہوجانا ہے لہٰذا نکاح کی عمر بلوغیت کی عمر ہوئی۔ اس سے پہلے نکاح کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور جب نکاح کا سوال پیدا نہیں ہوتا تو طلاق کا کیا سوال؟ علاوہ ازیں شریعت نے لڑکی کے نکاح کے لیے اس کی رضامندی ضروری قرار دی ہے ۔ یہ رضامندی ایک نابالغہ سے کس طرح حاصل کی جاسکے گی؟ اسلام نے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ لڑکی کو زبردستی کسی کے نکاح میں دے دیا جائے ۔ رہی یہ روایت کہ حضرت عائشہ کی عمر نبی صلی اللہ علیہ سے نکاح کے وقت چھ سال کی تھی تو اس روایت کو صحیح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ واقعات سے اس کی تائید نہیں ہوتی ۔ یہاں مفصل بحث کی گنجائش نہیں تحقیق کرنے والوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  حاملہ عورت کی عدت وضع حمل یعنی زچگی تک ہے خواہ وہ طلاق دینے کے تھوڑے عرصہ بعد ہو یا کئی ماہ بعد ہو۔ اس طرح عد ت کی مدت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔ اور یہی عدت اس حاملہ کی بھی ہے جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو کیونکہ اگر اس کی عدت چار ماہ دس دن ہوتی اور اس دوران وضع حمل نہ ہوا ہوتا تو وہ اس عدت کے گذارنے کے بعد حاملہ ہوتے ہوئے دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوتی اور یہ بہت غلط بات ہوتی کہ ایک مرد کا حمل ہوتے ہوئے وہ دوسرے کے نکاح میں چلی گئی اس لیے شریعت نے ہر حاملہ عورت کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ اس کی عدت وضع حمل تک ہے خواہ اس میں وقت کم لگ جائے یا زیادہ ۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔

 

’’سُبَیعہ اَسْلِمیہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت سعد بن خولہ کے نکاح میں تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر میرے شوہر کا انتقال ہوگیا جب کہ میں حاملہ تھی۔ انتقال کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا۔ ایک صاحب نے کہا تم چار مہینے دس دن گذرنے سے پہلے نکاح نہیں کرسکتیں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہو چکی ہو۔ اب چاہو تو دوسرا نکاح کر سکتی ہو۔‘‘ (مسلم کتاب الطلاق)

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ سے ڈرنے والوں کو اطمینان دلایاگیا ہے کہ گو تقویٰ کی راہ پر چلنا اور خاص طور سے گھریلو زندگی میں جہاں تلخیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں تقویٰ کی پاسداری مشکل ہے لیکن جو شخص تقویٰ کا دامن پکڑے رہے گا اللہ اس کے لیے اس راہ پر چلنا آسان کر دے گا اور واقعہ یہی ہے کہ جو لوگ اس بات کا عزم کر لیتے ہیں کہ انہیں بہر حال اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے معاملات انجام دینا ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا فرماتا ہے اور وہ متقیانہ زندگی گذارنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی خوب جان لو کہ عدت کا یہ حکم اللہ کا نازل کر دہ حکم ہے اس لیے لازماً تمہیں اس کا پابند ہوجانا چاہیے ۔ اس کی خلاف ورزی صریح گناہ ہے اور اگر کسی نے اس عائلی قانون کی جگہ خود ساختہ عائلی قانون لانے کی کوشش کی یا اسے رائج یا نافذ کیا تو یہ سنگین جرم ہوگا۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اللہ سے ڈرنے والوں اور اس کے احکام کی پابندی کرنے والوں کی جزا بیان ہوئی ہے کہ وہ ان کی برائیوں کو بھی مٹائے گا اور ان کو بہت بڑے اجر سے نوازے گا ۔ جتنا بڑا صبر اتنی ہی بڑی جزا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مطلقہ عورتوں کو عدت تک اپنے ہی گھر میں رہنے دو اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں اچھی جگہ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ اچھی جگہ کے موجود ہوتے ہوئے گھٹیا جگہ پر انہیں چھوڑدو کہ یہ بدسلوکی ہوگی اور اس سے ان کی غیرت بھی متاثر ہوگی۔ پھر عدت کے دوران تمہارا رویہ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا ہونا چاہیے ۔ انہیں اذیت اور تکلیف دے کر تنگ کرنا تاکہ وہ شوہر کا گھر چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائیں ہرگز روا نہیں ۔

 

افسوس ہے کہ اس تاکیدی حکم کے باوجود آئے دن مسلمان اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں تو ان کے ساتھ تکلیف دہ رویہ بھی اختیار کرتے ہیں اور انہیں فوراً اپنے گھر سے رخصت کرتے ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اگر قرآن سے تعلق رکھتے ہیں تو صرف تلاوت کی حد تک ۔ جب قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے انہیں دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔ تو ان پر نہ اللہ کے احکام واضح ہو پاتے ہیں اور نہ ان پر عمل کی تحریک ہوتی ہے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آدمی سورۂ طلاق کی تلاو ت تو کرے لیکن اس میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہ کرے جب کہ اس کو سمجھنے کے ذرائع موجود ہیں ۔ ایسے لوگ اگر اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں تو تلاوت کے باوجود انہیں قرآن سے اس بے اعتنائی اور اس کے احکام پر عمل نہ کرنے کے بارے میں اللہ کے حضور سخت جوابدہی کرنا ہوگی۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔   مطلقہ اگر حاملہ ہے تو اس کا وضعِ حمل ہونے تک اس پر خرچ کرنے کی ذمہ داری جس میں کھانا، پینا ، کپڑا اور علاج شامل ہے شوہر پر عائد ہوتی ہے خواہ یہ طلاق رجعی ہو یا تیسری مرتبہ کی مغلظہ طلاق چونکہ حمل کی مدت طویل ہو سکتی ہے اس لیے خاص طور سے حاملہ عورتوں کے نفقہ کا ذکر ہوا اور نہ یہ حکم ان مطلقہ عورتوں کے لیے بھی ہے جن کو رجعی طلاق دی گئی ہو یا تیسری مرتبہ یعنی تیسرے موقع پر طلاقِ مغلظہ دی گئی ہو۔ ان سب مطلقہ عورتوں کے لیے ان کی عدت تک سُکنیٰ( رہائش) اور نفقہ( خرچ) کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ بات اس پہلو سے بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب عدت ختم ہونے سے پہلے عورت دوسرا نکاح کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے تو عدت پوری ہونے تک اس کی رہائش اور نفقہ کا کون ذمہ دار ہوگا۔ شوہر کو جس نے نکاح کے معاہدہ کو توڑا ہے اس کا ذمہ دار ہونا چاہیے ۔

 

لیکن علماء اور فقہاء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس مطلقہ کے لیے جس کو تیسری مرتبہ طلاق دی گئی ہو اور وہ حاملہ نہ ہو نہ سُکنیٰ ہے اور نہ نفقہ۔ ان کا استدلال فاطمہ بنتِ قیس کی حدیث سے ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے تیسری اور آخری مرتبہ کی طلاق دی تھی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سُکنیٰ اور نفقہ کا مسئلہ پیش کیا لیکن آپ نے مجھے نہ سکنیٰ دلوایا اور نفقہ بلکہ فرمایا کہ تم ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو۔(مسلم کتاب الطلاق)

 

واقعہ یہ ہے کہ فاطمہ بنتِ قیس کے شوہراپنے گھر میں موجود نہیں تھے بلکہ سفر پر تھے اور یمن سے انہیں طلاق بھجوادی تھی اور جیسا کہ دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے (فاطمہ بنت قیس خود وہاں قیام کرنا نہیں چاہتی تھیں اس لیے آپ نے انہیں ایک محفوظ جگہ منتقل ہونے کی ہدایت کی۔ رہا نفقہ تو شوہر نے اپنے وکیل کے ذریعہ غلہ بھجوایا تھا لیکن فاطمہ بنت قیس نے اسے ناکافی خیال کرتے ہوئے زیادہ کا مطالبہ کیا تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید نفقہ نہیں دلوایا جس کی وجہ ممکن ہے شوہر کی غیر موجودگی رہی ہو یا جو غلہ اس نے بھیجا تھا اس کو کافی خیال کر لیا گا ہو۔ بہر حال آپ نے ان کے مسئلہ کا عملی حل نکالا اور وہ نہ صرف یہ کہ انہیں ابن ام مکتوم کے گھر جو نابینا تھے منتقل ہونے کا حکم دیابلکہ عدت گذارتے ہی ان کا نکاح اُسامہ بن زید سے کرادیا مگر فاطمہ بنت قیس اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتی تھیں کہ اس مطلقہ کے لیے جسے تیسری مرتبہ طلاق دی گئی ہو نہ سُکنٰی ہے اور نہ نفقہ ۔ یہ روایت بالمعنی تھی۔ (یعنی الفاظ محفوظ نہیں رکھے گئے تھے ) اور قرآن سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی اس روایت کو قبول نہیں کیا اور فرمایا:

 

لَانتْرُکُ کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنۃَ نَبِینَا صَلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأۃٍ لاَنَدْرِیْ لَعَلَّہَا حَفِظَتْ اَوْنَسِیتْ لَہَاالسُّکنٰی وَالنَّفَقَۃُ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لاَ تُخْرِجُوْ ہُنَّ وَلاَیخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یاْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبِینَۃٍ (مسلم کتاب الطلاق)

 

’’ ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے حدیث کو محفوظ رکھا یا اس سے بھول ہوئی۔ مطلقہ(بائنہ) کے لیے سُکنیٰ بھی ہے اور نفقہ بھی۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے انہیں اپنے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں ۔‘‘

 

اسی طرح حضرت عائشہ نے بھی ان کی روایت پر گرفت کی ۔ بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا:

 

اَمَّااَنَّہٗ لَیسَ لَہَا خَیرٌ فِیْ ذِکْرِ ہٰذَا الْحَدِیثِ۔ ’’ اس حدیث کو بیان کرنے میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے ۔‘‘

 

نیز فرمایا۔

 

اِنَّ فَاطِمَۃَ کاَنَتْ فِیْ مَکَانٍ وَحْشٍ فَخَیفَ عَلٰی نَا حِیتَہا فَلِذٰالِک اَرْخَصَ لَہَا اَلنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ  عَلیہِ وَ سَلَّمَ۔ ’’ فاطمہ ایک ویران جگہ پر تھی اس لیے اندیشہ محسوس کیاگیا اس بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منتقل ہونے کی اجازت دی۔‘‘

 

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ سُکنٰی ( رہائش کا انتظام) بذاتِ خود ساقط نہیں ہوا تھا بلکہ مذکورہ سبب سے ساقط ہوا تھا لیکن فاطمہ بنتِ قیس مطلقہ بائنہ کے سُکنٰی اور نفقہ کو ساقط قرار دیتی تھیں اس لیے حضرت عائشہ نے اس کی تردید کی( فتح الباری ج ۹ ص ۳۹۶) حضرت عمر کے اس ارشاد سے کہ ہم اپنے نبی کی سنت کو نہیں چھوڑیں گے واضح ہوتا ہے کہ مطلقہ کے لیے خواہ اسے طلاق بائن ہی کیوں نہ دی گئی ہو اس کی رہائش کا انتظام کرنے اور اس کو نفقہ دینے کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ سنت تقریری ہے اور قرآن کی آیت کہ ’’ انہیں ان کے گھرو ں سے  نہ نکالو۔‘‘ کے مفہوم میں یہ شامل ہے اس لیے حضرت عمر نے فاطمہ بنتِ قیس کی حدیث کو قبول نہیں کیا۔ خلیفہ راشد کے اس طرز عمل سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ قبول حدیث کے لیے محض راوی کا بیان کافی نہیں ہے بلکہ اس کا قرآن و سنت کے خلاف نہ ہونا بھی ضروری ہے ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  وضعِ حمل کے بعد عدت ختم ہوجاتی ہے اور عورت کے نفقہ کی کوئی ذمہ داری اس کے سابق شوہر پر نہیں رہتی لیکن بچہ کو دودھ پلانے کی اجرت اسے ادا کرنا ہوگی۔ اجرت کا یہ معاملہ بھلے طریقے پر دونوں آپس کے مشورے سے طے کرسکتے ہیں تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے ۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  لیکن اگر مطلقہ عورت اپنے بچے کو دودھ نہ آنے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے دودھ نہ پلاسکتی ہو یا اتنی اجرت طلب کرے کہ مرد ادا کرنے سے قاصر ہو تو اس قسم کی کسی دشواری کے پیدا ہونے کی صورت میں کسی دوسری عورت سے دودھ پلایا جاسکتا ہے ۔

 

اس زمانہ میں پاؤڈر کے دودھ کارواج بچوں کے لیے عام ہوگیا ہے ۔ اس لیے کسی اور عورت سے دودھ پلانے کی نوبت نہیں آتی۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کا تعلق دودھ پلانے کی اجرت کی ادائیگی سے بھی ہے ۔ اور عدت میں عورت کے نفقہ کی ادائیگی سے بھی۔ مرد کا جو معیار ہو اس کے مطابق وہ خرچ کرے ۔ نہ تو صاحب حیثیت محض اس بنا پر کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہے خرچ کرنے میں بخیلی کرے اور نہ اس سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرے ۔ اللہ کسی پر اس کی حیثیت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کیا عجب کہ تقویٰ اور انصاف کی روش کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ مرد کی تنگی کو وسعت میں تبدیل کر دے ۔ اللہ سے بہر حال خیر ہی کی امید رکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر وقت حالات یکساں نہیں رہتے ۔ خشک ہواؤں کے بعد رحمت کی خوشخبری دینے والی ہوائیں بھی چلنے لگتی ہیں ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ مسلمانوں کو سخت تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی تو یاد رکھیں کہ سرکش قوموں کا کیا حال ہوا۔ سرکش قوموں سے اشارہ ۔ عاد،ثمود، قوم لوط اور قومِ فرعون کی طرف ہے ۔ یہ سخت تنبیہ مسلمانوں کو طلاق کے احکام دینے کے بعد کی گئی ہے ۔ اگر مسلمان اپنی گھریلو زندگی میں اللہ کے احکام کی پروانہ کریں تو وہ اجتماعی زندگی میں اس کے احکام کی کیا پروا کریں گے ۔ نتیجہ یہ کہ انفرادی زندگی کا فساد  بڑھتے بڑھتے اجتماعی زندگی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر جب اجتماعی زندگی فساد سے بھرجاتی ہے تو اس سوسائٹی پر قہرِ الٰہی ہی نازل ہوتا ہے ۔

 

طلاق سے متعلق ان واضح احکام اور ان تنبیہات کے باوجود جو اس سورہ میں دی گئی ہیں بہ کثرتِ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ طلاق دینے کے معاملہ میں ان احکام کی کھلی خلاف ورزی کررہے ہیں بیوی کو یک لخت تین طلاقیں دے کر چھوڑدینا، اسے تنگ کرنا اور گھر سے نکال دینا ان کا شیوہ بن گیا ہے ۔ اور ان سے بھی دو قدم آگے وہ آزاد خیال مسلمان ہیں جو طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ سے چھین کر کورٹ کو دیناچاہتے ہیں یا پھر تفویض طلاق کے فقہی جزئیہ کا سہارا لے کر نکاح کے وقت ہی عورت کو یہ اختیار دینا چاہتے کہ وہ جب چا ہے اپنے اوپر طلاق عائد کرسکتی ہے ۔ اس طرح وہ معاشرہ کی اصلاح کے بجائے شریعت کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسلام سے ان کا کھلا انحراف ہے اور اس انحراف کا دنیا میں بھی برا انجام ہے اور آخرت میں بھی۔ کاش کہ مسلمان ہوش میں آئیں !

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی دنیا میں ان کا جو انجام ہوا ہو آخرت میں ان کے لیے اللہ نے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایمان لا کر تم نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے اور عقلمندی کی بات یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری جائے اور کوئی کام تقویٰ کے خلاف نہ کیا جائے ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قرآن ہے جو یاد دہانی اور نصیحت ہے ۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس یاددہانی ( قرآن) کے ساتھ ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو قرآن کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان لوگوں کو جو ایمان لاکر نیکی کی روش اختیار کرتے ہیں جہالت اور معصیت کی تاریکیوں سے نکال کر علم اور نیکی کی روشنی میں لاتا ہے ۔اس طرح ان کی پوری پوری رہنمائی کررہا ہے ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اس سورہ کے مضمون سے بالکل واضح ہے کہ نیک عمل کرنے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا۔ اس کے احکام پر عمل کرنا اور گھریلو زندگی میں اس کی ہدایت کی پابندی کرنا شامل ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کو اس آیت میں جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ایمان اور عمل صالح کی زندگی گذارنے والوں کو اگر دنیا میں تنگ رزق ملے تو فکرکی کوئی بات نہیں اللہ نے ان کے لیے جنت میں بہترین رزق مہیا کررکھا ہے ۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سورہ کے خاتمہ کی آیت ہے اور اس میں کائنات کے ایک اہم راز پر سے پردہ اٹھایاگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ کائنات اس آسمان اور اس زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پہلا آسمان ہے جسے ہم اپنے اوپر دیکھ رہے ہیں ۔ اس طرح سات آسمان اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں ۔ اور جس طرح آسمانِ دنیا کے نیچے زمین ہے اسی طرح دوسرے آسمانو ں کے نیچے بھی زمینیں ہیں لیکن یہ زمینیں ہماری زمین سے کافی مختلف ہیں ۔ اسی لیے فرمایا من الارض یعنی از قسم زمین۔ ان زمینوں کی جو ہمارے لیے غیر مرئی ہیں ( دیکھی نہیں جاسکتیں ) نوعیت اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ ہمارے پاس ان کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور سائنس کی رسائی اس خول سے باہر نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں یعنی یہ زمین اور اس کے اوپر کا پہلا آسمان۔ مرغی کا چوزہ جب تک انڈے کے اندر رہتا ہے اس کے لیے دنیا ہی ہوتی ہے ۔ وہ جب اس خول سے باہر آتا ہے تو ایک وسیع دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے ۔ اسی طرح ہم اس زمین و آسمان کے خول میں بند ہیں لیکن اللہ کی کائنات اس حد تک محدود نہیں ہے ۔ وحی الٰہی نے ہم پر اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ وہ نہایت وسیع ہے ۔ یکے بعد دیگرے ایسے سات عالم ہیں ۔ ان عالموں میں کیا کچھ ہے اس سے ہم واقف نہیں ہیں اور نہ ہمارے پاس اس کے جاننے کا کوئی ذریعہ ہے اور قرآن کا مقصود محض معلومات میں اضافہ کرنا نہیں ہے بلکہ کائنات کے وسیع تصور کو پیش کر کے اللہ کی وسیع قدرت کا احساس پیدا کرنا ہے ۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان ساتوں آسمانوں اور زمینوں پر اللہ کا اقتدار قائم ہے اور اس کے احکام ان سب کے اندر نازل ہوتے رہتے ہیں ۔ اور یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ان عالموں میں کس طرح کی مخلوق ہے اور وہاں کس قسم کے احکام نازل کئے جاتے ہیں ۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کائنات کے ایک اہم راز کا انکشاف تم پر اس نے کیاگیا تاکہ تم اللہ کی قدرت اور اس کے علم کا صحیح تصور قائم کرسکو جس ہستی کی قدرت اتنی وسیع ہے اور جس کا علم بحر بے کراں ہے اس کا دین اور اس کی شریعت ہی انسان کے لیے لائق اتباع ہو سکتی ہے اور اس کی رضا مندی کی راہ اختیار کر کے ہی آدمی نہال ہو سکتا ہے ۔

 

٭٭٭٭٭