اس کے اندازِ بیان اور مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اہل مکہ کے ذہن میں آخرت کا عقیدہ بٹھانے کے لیے پے در پے سورتیں نازل ہو رہی تھیں، اور اس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہے جب اہل مکہ نے سڑکوں پر، بازاروں میں اور مجلسو ں میں مسلمانوں پر آوازے کسنے اور ان کی توہین و تذلیل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، مگر ظلم و ستم اور مار پیٹ کا دورا بھی شروع نہیں ہوا تھا۔۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی قرار دیا ہے۔ اِس غلط فہمی کی وجہ دراصل ابن عباسؓ کی یہ روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینے تشریف لائے تو یہاں کے لوگوں میں کم ناپنے اور تولنے کا مرض بُری طرح پھیلا ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ نازل کی اور لو گ بہت اچھی طرح ناپنے تولنے لگے (نسائی، ابن ماجہ، ابن مردویہ، ابن جریر، بیقہی فی شُعَب الایمان)۔ لیکن جیسا کہ اس سے پہلے ہم سورہ دَہر کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں، صحابہ اور تابعین کا یہ عام طریقہ تھا کہ ایک آیت جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہو اس کے متعلق وہ یوں کہا کرتے تھے کہ یہ فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ابن عباس کی روایت سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کے لوگوں میں یہ بُری عادت پھیلی ہوئی پائی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے یہ سورت ان کو سنائی اور اِس سے اُن کے معاملات درست ہو گئے۔
پہلی چھ آیتوں میں اُس عام بے ایمانی پر گرفت کی گئی ہے جو کاروباری لوگوں میں بکثرت پھیلی ہوئی تھی کہ دوسروں سے لینا ہوتا تھا تو پورا ناپ کر اور تول کر لیتے تھے، مگر جب دوسروں کو دینا ہوتا تو ناپ تول میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ گھاٹا دیتے تھے۔ معاشرے کی بے شمار خرابیوں میں سے اِس ایک خرابی کو، جس کی قباحت سے کوئی انکار نہ کر سکتا تھا، بطورِ مثال لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تک لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک روز خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوڑی کوڑی کا حساب دینا ہے اُس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کامل راستبازی اختیار کر سکیں۔ کوئی شخص دیانت داری کو ’’اچھی پالیسی‘‘سمجھ کر بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں دیانت برت بھی لے تو ایسے مواقع پر وہ کبھی دیانت نہیں برت سکتا جہاں بے ایمانی ایک’’مفید پالیسی‘‘ثابت ہوتی ہو۔ آدمی کے اندر سچّی اور مستقل دیانت داری اگر پیدا ہو سکتی ہے تو صرف خدا کے خوف اور آخرت پر یقین ہی سے ہو سکتی ہے، کیونکہ اِس صورت میں دیانت ایک ’’پالیسی‘‘نہیں بلکہ ’’فریضہ‘‘ قرار پاتی ہے اور آدمی کے اُس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کا انحصار دنیا میں اس کے مفید یا غیر مفید ہونے پر نہیں رہتا۔
اس طر ح اخلاق کے ساتھ عقیدہ آخرت کا تعلق نہایت مؤثر اور دل نشین طریقہ سے واضح کرنے کے بعد آیت ۷ سے ۱۷ تک بتایا گیا ہے کہ بد کار لوگوں کے نامہ اعمال پہلے ہی جرائم پیشہ لوگوں کے رجسٹر(Black list ) میں درج ہو رہے ہیں اور آخرت میں ان کو سخت تباہی سے دو چار ہونا ہے۔ پھر آیت ۱۸ سے ۲۸ تک نیک لوگوں کا بہترین انجام بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اعمال نامے بلند پایہ لوگوں کے رجسٹر میں درج ہو رہے ہیں جس پر مقرب فرشتے مامور ہیں۔
آخر میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ کفار کو خبر دار بھی کیا گیا ہے کہ آج جو لوگ ایمان لانے والوں کی تذلیل کر رہے ہیں، قیامت کے روز یہی مجرم لوگ اپنی اِس روش کا بہت بُرا انجام دیکھیں گے اور یہی ایمان لانے والے ان مجرموں کا بُرا انجام دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔
1: اصل میں لفظ مُطَفِّفِیْن استعمال کیا گیا ہے جو تَطْفِیْف سے مشتق ہے عربی زبان میں طَفَیْف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑا تا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اُسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے۔
2: قرآن مجید میں جگہ جگہ ناپ تول میں کمی کرنے کی سخت مُذمّت اور صحیح ناپنے اور تولنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ سورہ انعام میں فرمایا ’’انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو، ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ کا مکلّف نہیں ٹھیراتے ‘‘(آیت۱۵۲)۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا’’ جب ناپو تو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو‘‘ (آیت۲۵)۔ سورہ رحمان میں تاکید کی گئی کہ ’’تولنے میں زیادتی نہ کرو، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ وزن کرو اور ترازو میں گھاٹا نہ دو‘‘(آیات۸۔۹)۔ قومِ شعیب پر جس جرم کی وجہ سے عذاب نازل ہوا وہ یہی تھا کہ اُس کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کا مرض عام طور پر پھیلا ہوا تھا اور حضرت شعیب کی پے در پے نصیحتوں کے با وجود یہ قوم اِس جرم سے باز نہ آتی تھی۔
3: روز قیامت کو بڑا دن اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اس میں تمام انسانوں اور جنوں کو حساب خدا کی عدالت میں بیک وقت لیا جائے گا اور عذاب و ثواب کے اہم ترین فیصلے کیے جائیں گے۔
4: یعنی اِ ن لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ دنیا میں اِن جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوٹ جائیں گے اور کبھی اِن کو اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حا ضر نہ ہونا پڑے گا۔
5: اصل میں لفظ سِجِّیْن استعمال ہوا ہے جو سِجْن(جیل قید خانے ) سے ماخوذ ہے اور آگے اُس کو جو تشریح کی گئی ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد وہ رجسٹر ہے جس میں سزا کے مستحق لوگوں کے اعمال نامے میں درج کیے جا رہے ہیں۔
6: یعنی وہ آیات جن میں روزِ جزا کی خبر دی گئی ہے۔
7: یعنی جزا وسزا کو افسانہ قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، لیکن جس وجہ سے یہ لوگ اسے افسانہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن گناہوں کا یہ ارتکاب کرتے رہے ہیں ان کا زنگ اِن کے دلوں پر پوری طرح چڑھ گیا ہے اس لیے جو بات سراسر معقول ہے وہ اِن کو افسانہ نظر آتی ہے۔ اِس زنگ کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوں فرمائی ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، حاکم، ابن ابی حاتم، ابن حِبّان وغیرہ)۔
8: یعنی دیدارِ الٰہی کا جو شرف نیک لوگوں کو نصیب ہو گا اس سے یہ لوگ محروم رہیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، القیامہ، حاشیہ۱۷)۔
9: یعنی اِن لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی جزا و سزا واقع ہونے والی نہیں ہے۔
10: اصل الفاظ ہیں خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۔ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جن برتنوں میں وہ شراب رکھی ہو گی اُن پر مٹی یا موم کے بجائے مشک کی مُہر ہو گی۔ اس مفہوم کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ شراب کی ایک نفیس ترین قسم ہو گی جو نہروں میں بہنے والی شراب سے اشرف و اعلیٰ ہو گی اور اسے جنّت کے خدام مشک کی مُہر لگے ہوئے برتنوں میں لا کر اہل جنت کو پلائیں گے۔ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شراب جب پینے والوں کے حلق سے اترے گی تو آخرت میں اُن کو مشک کی خوشبو محسوس ہو گی۔ یہ کیفیت دنیا کی شرابوں کے بالکل بر عکس ہے جن کی بوتل کھلتے ہی بو کا ایک بھپکا ناک میں آتا ہے، پیتے ہوئے بھی ان کی بد بو محسوس ہوتی ہے، اور حلق سے جب وہ اترتی ہے تو دماغ تک اس کی سڑاند پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے بد مزگی کے آثار ان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔
11: تسنیم کے معنی بلندی کے ہیں، اور کسی چشمے کو تسنیم کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلندی سے بہتا ہوا نیچے آ رہا ہو۔
12: یعنی یہ سوچتے ہوئے پلٹتے تھے کہ آج تو مزا آ گیا، میں فلاں مسلمان کا مذاق اُڑا کر اور اس پر آوازے اور پھبتیاں کس کو خوب لطف اٹھایا اور لوگوں میں بھی اس کی اچھی گت بنی۔
13: یعنی اِن کی عقل ماری گئی ہے، اپنے آپ کو دنیا کے فائدوں اور لذتوں سے صرف اس لیے محروم کر لیا ہے اور ہر طرح کے خطرات اور مصائب صرف اس لیے مول لے لیے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے انہیں آخرت اور جنت اور دوزخ کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ جو کچھ حاضر ہے اسے اس مفہوم امید پر چھوڑ رہے ہیں کہ موت کے بعد کسی جنت کے ملنے کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، اور جو تکلیفیں آج پہنچ رہی ہیں انہیں اس خیالِ خام کی بنا پر انگیز کر رہے ہیں کہ دوسری دنیا میں کوئی جہنم ہو گی جس کے عذاب انہیں ڈرایا گیا ہے۔
14: اس مختصر سے فقرے میں ان مذاق اڑانے والوں کو بڑی سبق آموز تنبیہ کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بالفرض وہ سب کچھ غلط ہے جس پر مسلمان ایمان لائے ہیں لیکن وہ تمہار کچھ نہیں بگاڑ رہے ہیں ۔ جس چیز کوانہوں نے حق سمجھا ہے اس کے مطابق وہ اپنی جگہ خو دہی ایک خاص اخلاقی رویّہ اختیار کر رہے ہیں۔ اب کیا خدا نے تمہیں کوئی فوجدار بنا کر بھیجا ہے کہ جو تمہیں نہیں چھڑ رہا اس کو تم چھیڑو، اور جو تمہیں کوئی تکلیف نہیں دے رہا ہے اسے تم خوامخواہ تکلیف دو؟1: اصل میں لفظ مُطَفِّفِیْن استعمال کیا گیا ہے جو تَطْفِیْف سے مشتق ہے عربی زبان میں طَفَیْف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑا تا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اُسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے۔