دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المطفّفِین

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سُورہ کے آغاز ہی میں مطففین ( ناپ تول میں کمی کرنے والوں ) کو وعید سنائی گئی ہے۔  اس مناسبت سے اس سورہ کا نام (المُطَفِّفِیْنَ) ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی تنزیل ہے جب کہ قرآن کی دعوت اہل مکہ کے سامنے پیش ہو چکی تھی وہ یوم جزا کا انکار کر رہے تھے اور اہل ایمان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ 

 

مرکزی مضمون

 

رب العالمین کے حضور پیشی اور جزائے عمل ہے۔  اس کا احساس دلانے کے لئے معاملات کی اس خرابی پر گرفت کی گئی ہے جس میں آخرت کا احساس نہ رکھنے والے لوگ عام طور سے مبتلا ہوتے ہیں۔ 

 

نظم کلام

 

سورہ انفطار سے اس کا ربط بالکل واضح ہے۔  اس میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اعمال کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے فرشتے مقرر ہیں۔  اس سورہ میں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ انسان کی عملی زندگی کا ریکارڈ اس کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں محفوظ رکھنے کا انتظام اﷲ تعالیٰ نے کر رکھا ہے۔

 

آیت ؀ ۱   تا ؀ ۶   میں کاروباری معاملات میں بد دیانتی اور فریب کاری پر گرفت کرتے ہوئے خدا کے حضور جوابدہی کا احساس دلایا گیا ہے۔

 

آیت ؀ ۷   تا ؀   ۱۷  میں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ بدکاروں کا نامہ اعمال ان کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں ایک  دفتر میں جو مجرمین ہی کے لئے مخصوص ہے۔  اور قیامت کے دن اس ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا اور اس روز ان کا انجام بڑا ہی حسرتناک ہو گا۔

 

آیت ؀ ۱۸  تا ؀ ۲۸  میں نیک کردار لوگوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ ان کا نامہ اعمال ان کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں اعلٰی درجہ کے دفتر میں جو نیکو کاروں کے لئے مخصوص ہے محفوظ کیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا ، اور اس روز وہ فائز المرام ہوں گے۔

 

آیت ؀ ۲۹  تا ؀ ۳۶  میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ منکرین کے طنز و تشنیع سے کبیدہ خاطر نہ ہوں۔  آج وہ تم پر ہنس رہے ہیں مگر کل تم ان پر ہنسوگے۔   ­­­­­­­­­­­­­­­

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے۔ 

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔

 

۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔

 

۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں اٹھایا جائے گا ۱*۔

 

۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بڑے دن ۲*۔ 

 

۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن سب لوگ ربُّ العالمین کے حضور کھڑے ہونگے ۳*۔

 

۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔(ان کا گمان صحیح ) نہیں ۴*۔  یقین جانو بدکاروں کا نامہ عمل سِجّین میں ہو گا۔ 

 

۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے  ؟

 

۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک ریکارڈ آفس ہے  ۵*۔

 

۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تباہی ہے اس دن انکار کرنے والوں کے لئے !

 

۱۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جو روز جزا کا انکار کرتے ہیں۔

 

۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو حد سے گزرنے ۶* والے گنہگار ۷* ہوتے ہیں۔

 

۱۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے شخص کو جب ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے فسانے ہیں ۸*۔

 

۱۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۹* بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد* کا زنگ چڑھ گیا ہے ۱۰*۔

 

۱۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہرگز نہیں ۱۱* اس دن وہ اپنے رب سے دور رکھے جائیں گے ۱۲*۔

 

۱۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ جہنم میں داخل ہونگے۔

 

۱۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت ان سے کہا جائے گا  کہ یہ وہی چیز ہے جس کا تم انکار کرتے رہے ہو۔

 

۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ (ان کا دعوی صحیح) نہیں ۱۳* یقیناً نیک کردار لوگوں کا نامہ اعمال علییّن میں ہو گا۔

 

۱۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں کیا معلوم کہ علییّن کیا ہے ؟

 

۲۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک ریکارڈ آفس ہے ۱۴*۔

 

۲۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں مقربین (بارگاہ الٰہی) کی حضوری ہوتی ہے ۱۵*۔

 

۲۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک نیکوکار عیش میں ہوں گے۔

 

۲۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔شاندار تختوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے ۱۶*۔

 

۲۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے چہروں پر تم دیکھو گے کہ خوشحالی کی بشاشت جھلک رہی ہے ۱۷*۔

 

۲۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کو ایسی شراب پلائی جائے گی جو خالص اور سر بہ مہر ہو گی۔

 

۲۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مہر مشک کی ہو گی ۱۸* اور رغبت کرنے والوں کو چاہیے  کہ بڑھ چڑھ کر اس کی رغبت کریں ۱۹*۔

 

۲۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی ۲۰*۔

 

۲۸۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک چشمہ ہو گا جس میں سے مقرب ( بندے ) پئیں گے ۲۱*۔

 

۲۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جو لوگ مجرم بنے ہوئے تھے وہ اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے ۲۲*۔

 

۳۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے اشارہ کرتے  ۲۳*۔

 

۳۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب اپنے گھر والوں میں لوٹتے تو خوش خوش لوٹتے ۲۴*۔

 

۳۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں ۲۵*۔

 

۳۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے  گئے تھے  ۲۶*۔

 

۳۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تو آج اہل ایمان کُفّار پر ہنسیں گے ۲۷*۔

 

۳۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تختوں پر بیٹھے (ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے ۲۸*۔

 

۳۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔مل گیا نا کافروں کو ان کے کئے کا بدلہ !

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  ان ابتدائی آیات میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں پر سخت گرفت کی گئی ہے۔  یہ گرفت اگرچہ کہ ڈنڈی مارنے اور ناپ  گھٹا کر دینے پر کی گئی ہے تاہم اس کے مفہوم میں لین دین کے معاملہ میں کی جانے والی ہر قسم کی بد دیانتی اور فریب دہی شامل ہے۔  مثال کے طور پر اشیاء میں ملاوٹ کرنے Adulteration   پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ ملاوٹ کی صورت میں اصل شیء کو مقدار سے کم دیا جاتا ہے۔  چنانچہ دودھ میں پانی ملانے کا مطلب خالص دودھ کی مقدار کو گھٹا دینا ہے اور  چونکہ گھٹا دینے کا یہ عمل خریدار سے چھپا کر کیا جاتا ہے اس لئے یہ فریب دہی بھی ہے اور خِسّت بھی۔

 

اس خرابی کی اصل وجہ قرآن نے یہ بتلائی ہے کہ ایسے لوگ خدا کے حضور پیشی کا کوئی تصّور نہیں رکھتے حالانکہ ان کا ضمیر خود اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور جوابدہ ہیں کیونکہ اس مجرمانہ طرز عمل کو اختیار کرنے والے لوگ جب دوسروں سے لیتے ہیں تو ناپ بھر کر لیتے ہیں اور کوئی شخص بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جائے اور اس کو مقدار سے کم دیا جائے بالفاظ دیگر انسانی فطرت عدل ہی کو پسند کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا جائے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا خالق عدل ہی کو پسند کرتا ہے لہذا جو لوگ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت عدل کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ دراصل اپنے رب کی مرضی اور اس کے اس حکم کے خلاف کام کرتے ہیں جو ان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے پھر ان کا رب ان کی ان مجرمانہ حرکتوں پر گرفت کیوں نہیں کرے گا ؟  کیا ڈنڈی مارنے والے اور انصاف کی ترازو قائم کرنے والے دونوں یکساں ہو سکتے ہیں اور کیا دونوں کا انجام یکساں ہو گا ؟  انسان کی فطرت اور اس کا وجدان اس کو یکساں تسلیم نہیں کرتا۔  یہیں سے قرآن کے بیان کی صداقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسان کو ایک دن جی اٹھنا ہے اور اپنے رب کے حضور اپنے طرز عمل کے سلسلہ میں جوابدہی کرنی ہے اور اس کے مطابق جزا یا سزا پانا ہے۔

 

اس سے واضح ہوا کہ انسان جب خدا کے حضور جوابدہی کا تصور نہیں رکھتا تو اس کے لینے کے پیمانے اور ہوتے ہیں اور دینے کے اور۔  وہ نہ صرف اپنا حق پورا پورا وصول کرنا چاہتا ہے بلکہ چاہتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالے۔  اس ذہنیت کی اصلاح کا صحیح اور موثّر ذریعہ خدا کے حضور جوابدہی کا تصور ہی ہے اس لئے معاشی خرابیوں کو دور کرنے کا مسئلہ ہو یا سماجی بگاڑ کے سدھار کا مسئلہ ، افراد میں یہ شعور بیدار کئے بغیر حقیقی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ 

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قیامت کا دن ہے جو نہایت سخت ہو گا۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  عدالت خداوندی میں حاضری کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آدمی اس پر سے سرسری طور سے گزر جائے بلکہ یہ نہایت سخت اور کٹھن مرحلہ ہو گا جو ہر شخص کو لازماً پیش آنا ہے لہذا اگر وہ چاہتا ہے سلامتی کے ساتھ اس مرحلہ سے گزر جائے تو اسے اپنے دل و دماغ میں اس تصور کو بسانا ہو گا اور اسی بنیاد پر زندگی گزارنا ہو گی۔  

 

ذرا تصور کیجیے عدالت خداوندی کا جب کہ سارے انسان زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہو چکے ہوں گے۔ فرمانرواۓ کائنات عدالت برپا فرماۓ گا۔ ہر شخص کی اس کے حضور پیشی ہوگی اور اسے اپنی پوری زندگی کا حساب پیش کرنا ہوگا۔ فرشتے اس بات کے منتظر ہوں گے کہ کس کے حق میں کیا فیصلہ ہوتا ہے تاکہ اس کا نفاذ عمل میں لائیں۔ اس وقت انسان بالکل بے بس ہوگا۔ اگر انسان آج اس بے بسی کا تصور کر لے، تو خوف خداوندی سے کانپ اٹھے اور اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ حدیث نبوی میں قیامت کے موقف کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے :۔

 

یَومَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَ بِّ العَالَمِیْنَ حَتَّی یَغِیْبَ اَحَدُھُمْ فِیْ رَشْحِہٖ اِلٰی اءَ نْصَافِ اُذْ یْنَہِ۔

 

جس روز لوگ رب العالمین کے حضور پیشی کے لیے کھڑے ہوں گے تو وہ پسینہ میں اس طرح شرابور ہوں گے کہ بعض لوگوں کے کان کے نصف حصہ تک کا جسم پسینہ میں ڈوب رہا ہوگا۔‘‘ (مسلم کتابُ الجنۃ)۔

 

اللہ اکبر ! کیسا شدید مرحلہ ہو گا جس سے اللہ کے رسول نے انسان کو پیشگی با خبر کر دیا ہے! کاش کہ لوگ قیامت کے موقف کے تصور سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوتے !

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کا یہ گمان غلط ہے کہ نہ دوبارہ جی اٹھنا ہے اور نہ خدا کے حضور جوابدہی کرنا ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’سجین‘‘ سجن سے بنا ہے جس کے معنیٰ قید خانہ کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ قرآن نے اپنی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کی خود ہی یہ تشریح کی ہے کہ وہ ’’کتابٌ مرقوم‘‘ ہے یعنی ’’ ریکارڈ آفس‘‘

 

یہ علم برزخ کی ایک بڑی حقیقت ہے جس سے انسان کو باخبر کیا گیا ہے۔ ہر ہر فرد کی عملی زندگی کا ریکارڈ تیار کرنے پر فرشتوں کو جو مامور کیا گیا ہے اس کا سلسلہ اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔ موت کے بعد اس کا نامہ عمل برزخ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ بد کار تھا تو اس کے نامہ عمل کا اندراج ’’سجین‘‘ نامی ریکارڈ آفس میں کیا جاتا ہے اور اگر وہ نیکو کار تھا تو جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے اس کا اندراج ’’علییّن ‘‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے اصلاً یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ہر ہر شخص کے نامہ عمل کو اس کے مرنے کے بعد محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے اہتمام کر رکھا ہے اور قیامت کے دن اس کو کھول دیا جاۓ گا اور اسی کی بنیاد پر عدالت خداوندی میں فیصلہ ہوگا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حد سے گزر جانے والے سے مراد حدود بندگی سے تجاوز کرنے والے لوگ ہیں یعنی جو اپنے کو اللہ کا بندہ نہیں سمجھتے بلکہ خود مختار سمجھ کر من مانی کرتے رہتے ہیں۔

 

 ۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گنہگار سے مراد معصیت میں مبتلا ہونے والے لوگ ہیں۔ جب انسان خدا کا بندہ بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر اس کی پوری زندگی گناہ، برائی، جرم ، اور معصیت کی زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسا شخص روز جزا کو کیوں ماننے لگے؟

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن میں کافر قوموں پر عذاب خداوندی کے جو تاریخی واقعات بیان ہوۓ ہیں ان سے سبق لینے کے بجاۓ یہ لوگ ان کو افسانے اور کہانیاں قرار دیتے ہیں موجودہ زمانہ کے منکرین بھی اسی طرح کی الزام تراشی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب کچھ ’’دقیانوسیت‘‘ ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تردید ہے منکرین کے اس الزام کی جو اوپر بیان ہوا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ قرآن کے بارے میں اتنی غلط بات کہنے کی جسارت اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ ان کے اعمال بد نے ان کو ڈھیٹ بنا دیا ہے ورنہ ایک سلیم الفطرت انسان قرآن کے بارے میں ایسی نا معقول بات ہر گز نہیں کہہ سکتا۔

 

دلپر زنگ چڑھ جانے کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے :

 

اِنَّ الْعَبْدَ اذَا اَخطَأ خطِیْئَۃً نَلِتَۃٌ سَوْرَاءُ فَاِذَا ھُوَ نَزَعَ وَ اسْتَغْفَرَوَتَابَ صُفِلَ قَلْبُہٗ وَاِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الران الذی ذکر للہ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِھِمْ مَا کَانُو ا یَکْسِبُونَ۔ (ترمذی ابواب التفسیر)

 

’’بندہ جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ اس سے باز آرا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے لیکن گر وہ پھر گناہ کرتا ہے یہ دھبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کَلَّا بِلْ رَانَ عَلٰی قَلُوْبِھِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ میں کیا ہے۔‘‘

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی یہ آرزو بھی باطل ہے کہ اگر آخرت برپا ہو ہی گئی تو ہمیں جس طرح دنیا میں ’’ عزت کا مقام‘‘ حاصل ہوا ہے خدا کے ہاں شرف بار یابی حاصل ہوگا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ خدا کے ہاں شرف بار یابی کیا حاصل کر سکیں گے انہیں تو اس روز اپنے رب سے دور رکھا جاۓ گا۔ وہ اس کی عنایات سے بھی محروم ہوں گے اور اس کی شان کے جلوے دیکھنے سے بھی۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ اللہ کے ہاں نیک و بد میں کوئی تمیز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بد کاروں کا نامہ عمل الگ محفوظ رکھنے کے لیے الگ الگ ریکارڈ آفس قائم کر رکھے ہیں۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’علّییّن ‘‘ کے لفظی معنیٰ اعلیٰ مقامات کے ہیں۔ یہاں اس لفظ کو قرآن نے اپنی خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کی تشریح خود ہی کر دی ہے کہ وہ ’’ کتاب مرقوم‘‘ ہے یعنی وہ ایک ’’ریکارڈ آفس‘‘ ہے جہاں نیک لوگوں کے نامہ عمل کا اندراج ہوتا ہے۔ یہ اندراج ان کے مرنے کے بعد ہوتا ہے اور یہ عالم برزخ کا ریکارڈ آفس ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد مقرب فرشتوں کی حضوری ہے۔ نیکو کاروں کے ریکارڈ آفس پر مقرب فرشتوں کی حضوری گویا مقرب فرشتوں کی طرف سے نیکو کاروں کے حق میں خراج تحسین ہے اور یہ بہت بڑا شرف اور بہت بڑا اعزاز ہے جو عالم برزخ میں نیک بندوں کو حاصل ہوتا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شاہانہ انداز میں شاندار تخت پر بیٹھے جنت کی وسیع اور پر بہار فضاء میں اپنے رب کی نعمتوں اور اس کی شان کے جلوے دیکھ رہے ہوں گے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک کردار لوگوں کو جنت میں جو زندگی میسر آۓ گی وہ ایسی آسائش کی ہو گی کہ ان کے چہرے ہمیشہ تر و تازہ اور شگفتہ ہی رہیں گے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں طنز ہے دنیا کی شراب پر جو گندہ ہوتی ہے اور ڈھکن کھلتے ہی اس کے بر خلاف جنت کی شراب کی خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ ہر قسم کی آلودگی ے پاک مۓ ناب ہو گی اور وہ جن بوتلوں یا برتنوں میں بند ہوگی ان پر مشک کی مہر لگی ہوگی۔ اس لیے اس کی خوشبو سے دماغ معطر ہو گا اور پینے میں لذت محسوس ہو گی۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ اس کی رغبت کریں‘‘ سے مراد جنت کی نعمتوں کی رغبت کرنا ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو ادنیٰ کے بجاۓ اعلیٰ چیز کا اور ختم ہونے والی چیز کے مقابلہ میں ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اور اس لحاظ سے آدمی غور کرے تو دنیا کا عیش اور اس کی لذتیں آخرت کے عیش اور اس کی لذتوں کے مقابلہ میں بالکل بے وقعت اور بے حقیقت قرار پائیں گی اور دانشمندی کا تقاضہ یہی ہو گا کہ آدمی ان کا حریص بننے اور مادہ پرستی میں غرق ہونے کے بجاۓ اخروی نعمتوں کا طلب گار بنے اور اس میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرے۔

 

قرآن نے یہاں جنت کی نعمتوں کے طلب گار بننے کی جو ترغیب دی ہے اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے جو ’’ادب براۓ ادب ‘‘ کے طرز پر ’’ نیکی براۓ نیکی Virtue for the sake virtue کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنت اور اس کی نعمتوں کی تمنا کرتے ہوۓ نیکی کرنا ایک فرو تر بات ہے۔ بظاہر یہ بات اونچی سطح کی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً یہ محض تخیل کی پرواز ہے۔ اس کو نہ انسان کی نفسیات سے کوئی مناسبت ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابل عمل بات ہے۔ نیز یہ قرآن و سنت کے نصوص صریحہ کے بھی خلاف ہے۔ اسلام کی تعلیم نہ تفلسف کی ہے اور نہ تخیلات کی  دنیا میں پرواز کرنے کی بلکہ اس کی تعلیم واقعیت پسندانہ، انسانی نفسیات کے ٹھیک ٹھیک مطابق اور اس کو عمل پر آمادہ کرنے والی ہیں۔ وہ شاعری کرنے نہیں آیا ہے بلکہ مٹی ے بنے ہوۓ انسان کو جنت کا باشندہ بنانے کے لیے آیا ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسنیم کے معنی بلند کرنے کے ہیں یہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے اور غالباً یہ نام اس کی اس خصوصیت کے بنا پر رکھا گیا ہے کہ اس میں سے نوش کرنے والوں کی رفعت میں مزید اضافہ ہوگا۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسنیم اہل جنت کا سب سے اعلیٰ مشروب ہوگا۔ نیک لوگوں کو جو شراب پلائی جاۓ گی۔ اس میں اس اعلٰی مشروب کی آمیزش ہوگی تاکہ اس کے کیف میں اضافہ ہو جاۓ لیکن جو لوگ مقربین کے درجہ کے ہوں گے وہ براہ راست اس چشمہ سے نوش کریں گے۔گویا لطف اندوزی اور کیف و سرور میں ان کا حصہ اتنا ہی وافر ہوگا، جتنا وافر حصہ کہ ان کا ایمان، عمل صالح اور اللہ کے لیے قربانیاں دینے کے معاملہ میں رہا ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے۔

 

اہل ایمان کا مذاق اڑانے کا سلسلہ تو موجودہ زمانہ میں بھی جاری ہے البتہ کچھ نۓ فقروں کے ساتھ۔ چنانچہ آج کے ’’ موڈرن‘‘ لوگ اسلام کی صحیح پیروی کرنے والوں پر ملائیت Orthodoxy اور ’’ قدامت پسندی‘‘ Conservationism کے فقرے جست کرتے ہیں۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہوں نے اہل ایمان کی تذلیل و تحقیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ یہاں تک کہ جب ان کا گزر اہل ایمان کےپاس سے ہوتا تو وہ آپس میں ان کے خلاف کن اکھیوں سے اشارے کرتے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں مخالفین کے اس رویہ کی تصویر کھینچی گئی ہے جو اہل ایمان کے خلاف وہ اختیار کیے ہوۓ تھے۔ جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد گھر واپس لوٹتے تو بجاۓ اس کے کہ انہیں اپنی ان حرکتوں پر ندامت ہو وہ خوش ہوتے اور فخریہ انداز میں اس کا ذکر اپنے گھر والوں سے کرتے۔

 

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ حق کو ٹھکرا دیتے ہیں ان کی نفسیات اہل حق کے بارے میں کیا ہوتی ہیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ اسلام کو دیگر مذاہب پر قیاس کر کے اسے بھی افیون قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی دعوت کو لے کر اٹھنے والوں کے بارے میں یہ باور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ عقل کے کورے ہیں۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عمال کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا نہ کہ دوسروں کے اعمال کا لیکن یہ اپنی ذات کو بھلا کر اہل ایمان کے پیچھے پڑ گۓ کہ انہیں اذیت دے دے کر اپنی بات زبردستی ان سے منوائیں گویا خدا نے انہیں دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ وہ اپنا صالح ہونا ثابت کر دکھائیں بلکہ اس لیے بھیجا تھا کہ داروغہ بن کر اہل ایمان کی خوب خبر لیں۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کفار اہل ایمان پر ہنستے رہے ہیں لیکن آخرت میں اہل ایمان کفار پر ہنسیں گے۔ اس طرح ان کو اپنی اس حرکت کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملے گا اور چونکہ کفار پر دنیا میں اللہ کی حجت قائم ہو چکی تھی اس کے باوجود انہوں نے قبول حق کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ سرکش بن کر رہے اس لیے وہ آخرت میں کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اگر وہ کسی ہمدردی کے مستحق ہوتے تو اللہ تعالیٰ خود ان پر رحم فرماتا۔ اس بناء پر اہل ایمان کا ان کے حال پر ہنسنا بالکل صحیح اور بر محل ہو گا۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں کفار کا جو حال ہو رہا ہوگا اسے اہل ایمان جنت میں اپنے تخت پر بیٹھے بیٹھے ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ قرآن کی اس بات کو بھی آج کے سائنسی دور میں سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا۔ جب کہ ہم اپنے گھروں ہی میں بیٹھے بیٹھے میلوں دور کی چیزیں ٹیلیویژن پر دیکھ لیتے ہیں۔

٭٭٭٭٭